5. اذان کا بیان
اذان کی ابتداء
عبداللہ بن زید (عبداللہ بن زید بن عبدربہ) (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بگل بجوانے کا ارادہ کیا تھا (تاکہ لوگ نماز کے لیے جمع ہوجائیں، لیکن یہود سے مشابہت کی وجہ سے اسے چھوڑ دیا) ، پھر ناقوس تیار کئے جانے کا حکم دیا، وہ تراشا گیا، (لیکن اسے بھی نصاری سے مشابہت کی وجہ سے چھوڑ دیا) ، اسی اثناء میں عبداللہ بن زید (رض) کو خواب دکھایا گیا، انہوں نے کہا کہ میں نے خواب میں دو سبز کپڑے پہنے ایک آدمی کو دیکھا جو اپنے ساتھ ناقوس لیے ہوئے تھا، میں نے اس سے کہا : اللہ کے بندے ! کیا تو یہ ناقوس بیچے گا ؟ اس شخص نے کہا : تم اس کا کیا کرو گے ؟ میں نے کہا : میں اسے بجا کر لوگوں کو نماز کے لیے بلاؤں گا، اس شخص نے کہا : کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتادوں ؟ میں نے پوچھا : وہ بہتر چیز کیا ہے ؟ اس نے کہا : تم یہ کلمات کہو الله أكبر الله أكبر الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله حي على الصلاة حي على الصلاة حي على الفلاح حي على الفلاح . الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، آؤ نماز کے لیے، آؤ نماز کے لیے، آؤ کامیابی کی طرف، آؤ کامیابی کی طرف، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ۔ راوی کہتے ہیں : عبداللہ بن زید نکلے اور رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر پورا خواب بیان کیا : عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے ایک آدمی کو دو سبز کپڑے پہنے دیکھا، جو ناقوس لیے ہوئے تھا، اور آپ ﷺ سے پورا واقعہ بیان کیا، تو رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا : تمہارے ساتھی نے ایک خواب دیکھا ہے ، عبداللہ بن زید (رض) سے فرمایا : تم بلال کے ساتھ مسجد جاؤ، اور انہیں اذان کے کلمات بتاتے جاؤ، اور وہ اذان دیتے جائیں، کیونکہ ان کی آواز تم سے بلند تر ہے ، عبداللہ بن زید (رض) کہتے ہیں : میں بلال (رض) کے ساتھ مسجد گیا، اور انہیں اذان کے کلمات بتاتا گیا اور وہ انہیں بلند آواز سے پکارتے گئے، عبداللہ بن زید (رض) کہتے ہیں : تو عمر بن خطاب (رض) نے جوں ہی یہ آواز سنی فوراً گھر سے نکلے، اور آ کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے بھی یہی خواب دیکھا ہے جو عبداللہ بن زید نے دیکھا ہے۔ ابوعبید کہتے ہیں : مجھے ابوبکر حکمی نے خبر دی کہ عبداللہ بن زید انصاری (رض) نے اس بارے میں چند اشعار کہے ہیں جن کا ترجمہ یہ ہے : میں بزرگ و برتر اللہ کی خوب خوب تعریف کرتا ہوں، جس نے اذان سکھائی، جب اللہ کی جانب سے میرے پاس اذان کی خوشخبری دینے والا (فرشتہ) آیا، وہ خوشخبری دینے والا میرے نزدیک کیا ہی باعزت تھا، مسلسل تین رات تک میرے پاس آتا رہا، جب بھی وہ میرے پاس آیا اس نے میری عزت بڑھائی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٨ (٤٩٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٥ (١٨٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٠٩) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصلاة ٣ (٣٧٩) ، مسند احمد (٤/٤٢، ٤٣) ، سنن الدارمی/الصلاة ٣ (١٢٢٤) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : دوسری روایت میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : یہ خواب سچا ہے، انشاء اللہ تعالیٰ اور عمر (رض) کے دیکھنے سے اس کی سچائی کا اور زیادہ یقین ہوا، اس پر بھی نبی اکرم ﷺ نے صرف خواب پر حکم نہیں دیا، بلکہ اس کے بعد آپ پر وحی کی گئی کیونکہ دین کے احکام خواب سے ثابت نہیں ہوسکتے، مگر انبیاء کے خواب وحی میں داخل ہیں، تو عبداللہ بن زید (رض) نے جس شخص کو خواب میں دیکھا وہ اللہ تعالیٰ کا فرشتہ تھا، اور صرف وحی پر جو اکتفا نہیں ہوئی، اور اذان کئی شخصوں کو خواب میں دکھلائی گئی تو اس میں بھی یہ راز تھا کہ نبی اکرم ﷺ کی سچائی اور عظمت کا زیادہ ثبوت ہو۔
اذان کی ابتداء
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے لوگوں سے اس مسئلہ میں مشورہ کیا کہ نماز کے لیے لوگوں کو اکٹھا کرنے کی کیا صورت ہونی چاہیئے، کچھ صحابہ نے بگل کا ذکر کیا (کہ اسے نماز کے وقت بجا دیا جائے) تو آپ ﷺ نے اسے یہود سے مشابہت کے بنیاد پر ناپسند فرمایا، پھر کچھ نے ناقوس کا ذکر کیا لیکن آپ ﷺ نے اسے بھی نصاریٰ سے تشبیہ کی بناء پر ناپسند فرمایا، اسی رات ایک انصاری صحابی عبداللہ بن زید اور عمر بن خطاب (رض) کو خواب میں اذان دکھائی گئی، انصاری صحابی رات ہی میں رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچے، آپ ﷺ نے بلال (رض) کو اس کا حکم دیا تو انہوں نے اذان دی۔ زہری کہتے ہیں : بلال (رض) نے صبح کی اذان میں الصلاة خير من النوم نماز نیند سے بہتر ہے کا اضافہ کیا، تو رسول اللہ ﷺ نے اسے برقرار رکھا۔ عمر (رض) نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے بھی وہی خواب دیکھا ہے جو عبداللہ بن زید نے دیکھا ہے، لیکن وہ (آپ کے پاس پہنچنے میں) مجھ سے سبقت لے گئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٨٦٦، ومصباح الزجاجة : ٢٦١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٤٨) (ضعیف) (یہ روایت سنداً ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں ایک روای محمد بن خالد ضعیف ہے، لیکن معنی کے اعتبار سے یہ حدیث صحیح ہے، کیونکہ بخاری و مسلم میں آئی ہوئی حدیث کے ہم معنی ہے )
اذان میں ترجیع
عبداللہ بن محیریز جو یتیم تھے اور ابومحذورہ بن معیر کے زیر پرورش تھے، کہتے ہیں کہ جس وقت ابومحذورہ (رض) نے ان کو سامان تجارت دے کر شام کی جانب روانہ کیا، تو انہوں نے ابومحذورہ (رض) سے کہا : چچا جان ! میں ملک شام جا رہا ہوں، اور لوگ مجھ سے آپ کی اذان کے سلسلے میں پوچھیں گے، ابومحذورہ نے مجھ سے کہا کہ میں ایک جماعت کے ہمراہ نکلا، ہم راستے ہی میں تھے کہ اسی دوران رسول اللہ ﷺ کے مؤذن نے نماز کے لیے اذان دی ١ ؎ رسول اللہ ﷺ کے پاس ہم نے مؤذن کی آواز سنی چونکہ ہم اس (اذان یا اسلام) سے متنفر تھے (کیونکہ ہم کفر کی حالت میں تھے) اس لیے ہم چلا چلا کر اس کی نقلیں اتارنے اور اس کا ٹھٹھا کرنے لگے، رسول اللہ ﷺ نے سن لیا، آپ ﷺ نے کچھ لوگوں کو بھیجا، انہوں نے ہمیں پکڑ کر آپ کے سامنے حاضر کیا، آپ ﷺ نے فرمایا : تم میں وہ کون شخص ہے جس کی آواز ابھی میں نے سنی کافی بلند تھی ، سب لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا، اور وہ سچ بولے، آپ ﷺ نے سب کو چھوڑ دیا اور صرف مجھے روک لیا، اور مجھ سے کہا : کھڑے ہو اذان دو ، میں اٹھا لیکن اس وقت میرے نزدیک نبی اکرم ﷺ سے اور اس چیز سے جس کا آپ مجھے حکم دے رہے تھے زیادہ بری کوئی اور چیز نہ تھی، خیر میں آپ ﷺ کے سامنے کھڑا ہوا، آپ نے خود مجھے اذان سکھانی شروع کی، آپ ﷺ نے فرمایا : کہو : الله أكبر الله أكبر الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله، پھر آپ ﷺ نے مجھ سے کہا : بآواز بلند کہو : أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله حي على الصلاة حي على الصلاة حي على الفلاح حي على الفلاح الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله، جب میں اذان دے چکا تو آپ ﷺ نے مجھے بلایا اور ایک تھیلی دی جس میں کچھ چاندی تھی، پھر اپنا ہاتھ ابومحذورہ کی پیشانی پر رکھا اور اسے ان کے چہرہ، سینہ، پیٹ اور ناف تک پھیرا، پھر فرمایا : اللہ تمہیں برکت دے اور تم پر برکت نازل فرمائے ، پھر میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ نے مجھے مکہ میں اذان دینے کا حکم دیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، تمہیں حکم دیا ہے بس اس کے ساتھ ہی جتنی بھی نفرت رسول اللہ ﷺ سے تھی وہ جاتی رہی، اور وہ آپ ﷺ کی محبت سے بدل گئی، ابومحذورہ (رض) کہتے ہیں : پھر میں مکہ میں رسول اللہ ﷺ کے عامل عتاب بن اسید (رض) کے پاس آیا، ان کی گورنری کے زمانہ میں میں نے رسول اللہ ﷺ کے حکم سے نماز کے لیے اذان دی۔ عبدالعزیز بن عبدالملک کہتے ہیں کہ جس طرح عبداللہ بن محیریز نے یہ حدیث مجھ سے بیان کی اسی طرح اس شخص نے بھی بیان کی جو ابومحذورہ (رض) سے ملا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٣ (٣٧٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٨ (٥٠٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٦ (١٩١، ١٩٢) ، سنن النسائی/الأذان ٣ (٦٣٠) ، ٤ (٦٣١) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٦٩) ، مسند احمد (٣/٤٠٨، ٤٠٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ٧ (١٢٣٢) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے نبی اکرم ﷺ کے اخلاق حسنہ کا حال معلوم ہوتا ہے کہ آپ مخالفین کے ساتھ کس طرح نرمی اور شفقت سے برتاؤ کرتے تھے کہ ان کا دل خود پسیج جاتا، اور وہ اپنے کئے پر شرمندہ ہوتے، جو کوئی برائی کرے اس کے ساتھ بھلائی کرنا یہی اس کو شرمندہ کرنا ہے۔
اذان میں ترجیع
ابومحذورہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اذان کے لیے انیس کلمات اور اقامت کے لیے سترہ کلمات سکھائے، اذان کے کلمات یہ ہیں :الله أكبر الله أكبر الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله حي على الصلاة حي على الصلاة حي على الفلاح حي على الفلاح الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله۔ اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، آؤ نماز کے لیے، آؤ نماز کے لیے، آؤ کامیابی کی طرف، آؤ کامیابی کی طرف، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ۔ اور اقامت کے لیے سترہ کلمات یہ ہیں : الله أكبر الله أكبر الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله حي على الصلاة حي على الصلاة حي على الفلاح حي على الفلاح قد قامت الصلاة قد قامت الصلاة الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، آؤ نماز کے لیے، آؤ نماز کے لیے، آؤ کامیابی کی طرف، آؤ کامیابی کی طرف، نماز قائم ہوگئی، نماز قائم ہوگئی، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ١ ؎ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اور دوسری صحیح روایتوں میں یوں بھی آیا ہے کہ اقامت کے کلمے ایک ایک بار کہے، قد قامت الصلو ۃ اور اللہ اکبر کے سوا کہ وہ دو بار کہے، تو اقامت اس طرح سے ہوگی : الله أكبر، الله أكبر، أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن محمدًا رسول الله، حي على الصلاة، حي على الفلاح، قد قامت الصلاة، قد قامت الصلاة، الله أكبر الله أكبر، لا إله إلا الله ۔
اذان کا مسنون طریقہ
مؤذن رسول اللہ ﷺ سعد (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بلال (رض) کو حکم دیا کہ وہ اپنی دونوں انگلیوں کو اپنے دونوں کانوں میں ڈال لیں، اور فرمایا : اس سے تمہاری آواز خوب بلند ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٨٢٥، ومصباح الزجاجة : ٢٦٣) (ضعیف) (ابناء سعد عمار و سعد و عبد الرحمن کے ضعف کی وجہ سے یہ سند ضعیف ہے )
اذان کا مسنون طریقہ
ابوجحیفہ (رض) کہتے ہیں کہ میں وادی بطحاء میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، آپ ایک سرخ خیمہ میں قیام پذیر تھے، بلال (رض) باہر نکلے اور اذان دی، تو اپنی اذان میں گھوم گئے (جس وقت انہوں نے حي على الصلاة اور حي على الفلاح کے کلمات کہے) ، اور اپنی (شہادت کی) دونوں انگلیاں اپنے دونوں کانوں میں ڈالیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٨٠٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ١٥ (٦٣٤) ، صحیح مسلم/الصلاة ٤٧ (٥٠٣) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٤ (٥٢٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ٣٠ (١٩٧) ، سنن النسائی/الأذان ١٣ (٦٤٤) ، الزینة من المجتبیٰ ٦٩ (٥٣٨٠) ، مسند احمد (٤/٣٠٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ٨ (١٢٣٤) (صحیح) (اس سند میں حجاج ضعیف ہیں، لیکن متن دوسرے طرق سے صحیح ہے كما في التخريج من طرق سفيان الثوري، و شعبة وغيرهما عن عون به ) وضاحت : ١ ؎: موذن جب حي على الصلاة کہے، تو دائیں طرف منہ پھیرے، اور جب حي الفلاح کہے تو بائیں طرف منہ پھیرے، اگر اذان کے منارے میں منہ پھیرنے کی گنجائش نہ ہو تو صرف گھوم جائے۔
اذان کا مسنون طریقہ
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمانوں کے دو کام مؤذن کی گردنوں میں لٹکے ہوتے ہیں : ایک نماز، دوسرے روزہ ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ما جہ، (تحفة الأشراف : ٧٧٧٠، ومصباح الزجاجة : ٢٦٤) (موضوع) (سند میں بقیہ مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اور مروان بن سالم وضع حدیث میں متہم راوی ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٩٠٥ )
اذان کا مسنون طریقہ
جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ بلال (رض) اذان وقت سے مؤخر نہ کرتے، اور اقامت کبھی کبھی کچھ مؤخر کردیتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢١٧٨، ومصباح الزجاجة :) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٩ (٦٠٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ٤٤ (٥٣٧) ، سنن الترمذی/الصلاة ٣٤ (٢٠٢) (حسن) (سند میں شریک القاضی سیء الحفظ ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٢٢٧ ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اقامت اس وقت تک نہ ہوتی جب تک نبی اکرم ﷺ حجرہ مبارکہ سے باہر نہ آجاتے، اور آپ کو دیکھ کر بلال (رض) اقامت شروع کرتے۔
اذان کا مسنون طریقہ
عثمان بن ابی العاص ثقفی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھے آخری وصیت یہ کی تھی کہ میں کوئی ایسا مؤذن نہ رکھوں جو اذان پر اجرت لیتا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٤١ (٢٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٦٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٤٠ (٥٣١) ، سنن النسائی/الأذان ٣٢ (٦٧٣) ، مسند احمد (٤/٢١٧) (صحیح )
اذان کا مسنون طریقہ
بلال (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں فجر کی اذان میں تثويب ١ ؎ کہوں، اور آپ نے عشاء کی اذان میں تثويب سے مجھے منع فرمایا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٣١ (١٩٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٤٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٤، ١٤٨) (ضعیف) (سند میں ابو اسرائیل ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٢٣٥ ) وضاحت : ١ ؎: تثويب کہتے ہیں اعلان کے بعد اعلان کرنے یا اطلاع دینے کو، اور مراد اس سے الصلاة خير من النوم ہے۔ ٢ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ الصلاة خير من النوم کو نبی ﷺ نے فجر کی اذان میں جاری کیا، اور شیعہ جو کہتے ہیں کہ عمر (رض) نے اس کلمہ کو اذان میں بڑھایا یہ ان کا افتراء ہے، عمر (رض) کا یہ منصب نہیں تھا کہ وہ اذان جیسی عبادت میں اپنی رائے سے گھٹاتے بڑھاتے، یہ منصب تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی کا ہے، پس بعض روایتوں میں جو یہ آیا ہے کہ مؤذن عمر (رض) کو جگانے کے لئے آیا، اور اس نے کہا : الصلاة خير من النوم عمر (رض) نے کہا : اس کلمے کو اپنی اذان میں مقرر کرو ، اس سے یہ نہیں نکلتا کہ عمر (رض) نے اس کلمے کو ایجاد کیا، بلکہ احتمال ہے کہ لوگوں نے یہ کلمہ فجر کی اذان میں کہنا چھوڑ دیا ہوگا، تو عمر (رض) نے اس سنت کے جاری کرنے کے لئے تنبیہ کی، یا مطلب یہ ہوگا کہ یہ کلمہ اذان میں کہا کرو، اذان کے باہر اس کے کہنے کا کیا موقع، بہرحال اتباع میں عمر (رض) سب صحابہ سے زیادہ سخت تھے، اور بدعت کے بڑے دشمن تھے، ان کے بارے میں یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ انہوں نے دین میں کوئی بات کتاب و سنت کی دلیل کے بغیر اپنی طرف سے بڑھائی ہو، جب عمر (رض) کو یہ منصب حاصل نہ ہوا حالانکہ دوسری حدیث میں ابوبکر اور عمر کی پیروی کا حکم ہے، اور ایک حدیث میں ہے کہ میری سنت کو لازم کرلو، اور خلفائے راشدین کی سنت کو، تو کسی صحابی، یا امام، یا مجتہد، یا پیر، یا ولی، یا فقیر، یا غوث، یا قطب کو یہ منصب کیوں کر حاصل ہوگا، کہ وہ دین میں بغیر دلیل کے کوئی اضافہ کرے۔
اذان کا مسنون طریقہ
بلال (رض) سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس نماز فجر کی اطلاع دینے کے لیے آئے، ان کو بتایا گیا کہ آپ سوئے ہوئے ہیں، تو بلال (رض) نے دو بار الصلاة خير من النوم، الصلاة خير من النوم کہا نماز نیند سے بہتر ہے، نماز نیند سے بہتر ہے تو یہ کلمات فجر کی اذان میں برقرار رکھے گئے، پھر معاملہ اسی پر قائم رہا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ما جہ، (تحفة الأشراف : ٢٠٣٣، ومصباح الزجاجة : ٢٦٥) (صحیح) (سند میں ابن المسیب اور بلال (رض) کے درمیان انقطاع ہے، لیکن ان کی مراسیل علماء کے یہاں مقبول ہیں، نیز اس کے شواہد بھی ہیں، ملاحظہ ہو : مصباح الزجاجة )
اذان کا مسنون طریقہ
زیاد بن حارث صدائی (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھا، آپ نے مجھے اذان کا حکم دیا، میں نے اذان دی، (پھر جب نماز کا وقت ہوا) تو بلال (رض) نے اقامت کہنی چاہی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : صداء کے بھائی (زیاد بن حارث صدائی) نے اذان دی ہے اور جو شخص اذان دے وہی اقامت کہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٠ (٥١٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ٣٢ (١٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٥٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٦٩) (ضعیف) (اس کی سند میں عبد الرحمن بن زیاد بن انعم الافریقی ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ٠ ٣٣٧ )
اذان کا مسنون طریقہ
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب مؤذن اذان دے تو تم بھی انہیں کلمات کو دہراؤ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣١٨٤، ومصباح الزجاجة : ٢٦٦) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ٤٠ (٢٠٨ تعلیقاً ) سنن النسائی/الیوم وللیلة (٣٣) (صحیح) (سند میں عباد بن اسحاق ہیں، جو عبد الرحمن بن اسحاق المدنی ہیں، ان کی حدیث کو نسائی نے خطاء کہا ہے، اور مالک وغیرہ کی زہری سے روایت جسے انہوں نے عطاء بن یزید سے اور عطار نے ابو سعید الخدری سے مرفوعاً روایت کی ہے، اس کو خواب بتایا، اور یہ آگے کی حدیث ( ٧٢٠ ) نمبر کی ہے لیکن اصل حدیث صحیح ہے، ابن خزیمہ اور بوصیری نے حدیث کی تصحیح کی ہے، نیز ملاحظہ ہو : صحیح ابن خزیمہ : ٤١٢ ) وضاحت : ١ ؎: البتہ کوئی عذر ہو یا ضرورت ہو تو دوسرا شخص تکبیر کہہ سکتا ہے، بلا ضرورت ایسا کرنا کہ اذان کوئی دے اور اقامت کوئی کہے مکروہ ہے، یہ امام شافعی کا قول ہے اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک مکروہ نہیں ہے۔
اذان کا مسنون طریقہ
ام المؤمنین ام حبیبہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب ان کی باری کے دن و رات ان کے پاس ہوتے، اور مؤذن کی آواز سنتے تو انہی کلمات کو دہراتے جو مؤذن کہتا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٥٣، ومصباح الزجاجة : ٢٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٢٥) (ضعیف) (سند میں ہشیم مدلس ہیں، اور عبید اللہ بن عتبہ کے بارے میں ذہبی نے کہا : لایکاد یعرف پہنچانے نہیں جاتے )
اذان کا مسنون طریقہ
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم مؤذن کی اذان سنو تو اسی طرح کہو جس طرح مؤذن کہتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٧ (٦١١) ، صحیح مسلم/الصلاة ٧ (٣٨٣) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٦ (٥٢٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ٤٠ (٢٠٨) ، سنن النسائی/الاذان ٣٣ (٦٧٤) ، (تحفة الأشراف : ٤١٥٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصلاة ١ (٢) ، مسند احمد (٣/٦، ٥٣، ٧٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٠ (١٢٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ان تمام احادیث سے صاف طور پر ثابت ہے کہ اذان کے وقت سننے والوں کو سوائے اذان کے کلمات دہرانے کے کچھ نہ کہنا چاہیے انگوٹھے چومنا یا قر عيني بك يا رسول الله کہنا ان احادیث کی کھلی ہوئی خلاف ورزی ہے، نیز اس حکم سے حي على الصلاة اور حي على الفلاح کے کلمات مستثنیٰ ہیں، سننے والا اس کے جواب میں لا حول ولا قوة إلا بالله کہے گا، جیسا کہ نسائی کی (حدیث رقم : ٦٧٨ ) میں وارد ہے۔
اذان کا مسنون طریقہ
سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے مؤذن کی اذان سن کر یہ دعا پڑھی : وأنا أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله رضيت بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد نبيا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی حقیقی معبود نہیں، وہ تن تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، میں اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد ﷺ کے نبی ہونے سے راضی ہوں تو اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٧ (٣٨٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٦ (٥٢٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ٤٢ (٢١٠) ، سنن النسائی/الأذان ٣٨ (٦٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٨٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی صغیرہ گناہ اور کیا عجب ہے کہ اللہ جل جلالہ کبائر بخش دے، کیونکہ وہ أرحم الراحمین ہے۔
اذان کا مسنون طریقہ
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے اذان سن کر یہ دعا پڑھی : اللهم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة آت محمدا الوسيلة والفضيلة وابعثه مقاما محمودا الذي وعدته اے اللہ ! اس مکمل پکار اور قائم ہونے والی نماز کے مالک، محمد ﷺ کو وسیلہ ١ ؎ اور فضیلت ٢ ؎ عطا فرما، آپ کو اس مقام محمود ٣ ؎ تک پہنچا جس کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے تو اس کے لیے قیامت کے دن شفاعت حلال ہوگئی ٤ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٨ (٦١٤) ، تفسیر الإسراء ١١ (٤٧١٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٨ (٥٢٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ٤٣ (٢١١) ، سنن النسائی/الأذان ٣٨ (٦٨١) ، (تحفة الأشراف : ٣٠٤٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٥٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اذان سن کر نبی اکرم ﷺ پر صلاۃ وسلام (درود) پڑھنا، اور پھر یہ دعا پڑھنا جیسا کہ صحیح روایات میں وارد ہے باعث اجر و ثواب ہے، اس کے برخلاف اذان سے پہلے اور بعد میں جو کلمات ایجاد کر لئے گئے ہیں، رسول اکرم ﷺ کی صریح مخالفت ہے، جو شفاعت رسول سے محرومی کا باعث ہوسکتی ہے، أعاذنا الله منها۔ ٢ ؎: وسیلہ کے معنی قرب کے اور اس طریقے کے ہیں جس سے انسان اپنے مقصود تک پہنچ جاتا ہو، یہاں مراد جنت کا وہ درجہ ہے جو نبی اکرم ﷺ کو عطا کیا جائے گا۔ ٣ ؎: فضیل ۃ : یہ بھی ایک اعلیٰ مرتبہ ہے، جو نبی اکرم ﷺ کو خصوصیت کے ساتھ تمام مخلوقات پر حاصل ہوگا نیز یہ بھی احتمال ہے کہ یہ وسیلہ کی تفسیر ہو۔ ٤ ؎: مقام محمود: یہ وہ مقام ہے، جو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نبی کریم ﷺ کو عطا فرمائے گا، اور اس جگہ آپ شفاعت عظمیٰ فرمائیں گے، جس کے بعد لوگوں کا حساب و کتاب ہوگا۔ الذی وعدتہ: یہ وعدہ آیت کریمہ عسى أن يبعثک ربک مقاما محمودا عسى أن يبعثک ربک مقاما محمودا (سورة الإسراء : 79) میں کیا گیا ہے۔
اذان کی فضیلت اور اذازن دینے والوں کا ثواب
عبدالرحمٰن بن ابوصعصعہ (جو ابو سعید خدری (رض) کے زیر پرورش تھے) کہتے ہیں کہ مجھ سے ابوسعید (رض) نے کہا : جب تم صحراء میں ہو تو اذان میں اپنی آواز بلند کرو، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : اذان کو جنات، انسان، درخت اور پتھر جو بھی سنیں گے وہ قیامت کے دن اس کے لیے گواہی دیں گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤١٠٥، ومصباح الزجاجة : 268) ، وأخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ٥ (٦٠٨) ، بدء الخلق ١٢ (٣٢٩٦) ، التوحید ٥٢ (٧٥٤٨) ، سنن النسائی/الأذان ١٤ (٦٤٥) ، موطا امام مالک/الصلاة ١ (٥) ، مسند احمد (٣/٣٥، ٤٣) (صحیح) (ولا شجر ولا حجر کا لفظ صرف ابن ماجہ میں ہے، اور ابن خزیمہ میں بھی ایسے ہی ہے ) وضاحت : ١ ؎: تو جتنی دور آواز پہنچے گی گواہ زیادہ ہوں گے، اور صحراء و بیابان کی قید اس لئے ہے کہ آبادی میں گواہوں کی کمی نہیں ہوتی، آدمی ہی بہت ہوتے ہیں اس لئے زیادہ آواز بلند کرنے کی ضرورت نہیں، اگرچہ آواز بلند کرنا مستحب ہے۔
اذان کی فضیلت اور اذازن دینے والوں کا ثواب
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : مؤذن کی آواز جہاں تک پہنچتی ہے اس کی مغفرت کردی جاتی ہے، اور ہر خشک و تر اس کے لیے مغفرت طلب کرتا ہے، اور اذان سن کر نماز میں حاضر ہونے والے کے لیے پچیس ( ٢٥ ) نیکیاں لکھی جاتی ہیں، اور دو نمازوں کے درمیان کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣١ (٥١٥) ، سنن النسائی/الأذان ١٤ (٦٤٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٦٦، ومصباح الزجاجة : ٢٦٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٢٩، ٤٥٨) (حسن صحیح) (اس حدیث کو بوصیری نے زوائد ابن ماجہ میں داخل کیا ہے، اور فرمایا ہے کہ ابوداود اور نسائی نے اسے مختصراً ذکر کیا ہے، نیز احمد اور ابن حبان نے بھی اس کی تخریج کی ہے، جب کہ ابو داود میں مکمل سیاق سے ہے، نسائی میں مختصراً ہے اس لئے یہ حدیث زوائد میں نہیں ہے )
اذان کی فضیلت اور اذازن دینے والوں کا ثواب
معاویہ بن ابی سفیان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مؤذنوں کی گردنیں قیامت کے دن سب سے زیادہ لمبی ہوں گی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٨ (٣٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٩٥، ٩٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اور یہ ان کے شرف و اعزاز اور بلند رتبہ کی دلیل ہوگی، اور گردن لمبی ہونے کا یہ مطلب ہے کہ ان کے اعمال زیادہ ہوں گے، یا حقیقت میں گردنیں لمبی ہوں گی، اور وہ جنت کو دیکھتے ہوں گے، یا وہ لوگوں کے سردار ہوں گے، عرب لوگ سردار کو لمبی گردن والا کہتے ہیں، یا وہ پیاسے نہ ہوں گے، اس وجہ سے کہ گردن اٹھی ہوگی، اور لوگ پیاس کے مارے گردن موڑے ہوں گے۔
اذان کی فضیلت اور اذازن دینے والوں کا ثواب
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے اچھے لوگ اذان دیں، اور جو لوگ قاری عالم ہوں وہ امامت کریں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٦١ (٥٩٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٠٣٩) (ضعیف) (اس کی سند میں حسین بن عیسیٰ ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : ضعیف أبی داود : ٩١ )
اذان کی فضیلت اور اذازن دینے والوں کا ثواب
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے طلب ثواب کی نیت سے سات سال اذان دی تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جہنم سے نجات لکھ دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٠١٧) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ٣٨ (٢٠٦) (ضعیف) (اس حدیث کی سند میں جابر بن یزید الجعفی ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٨٥٠ )
اذان کی فضیلت اور اذازن دینے والوں کا ثواب
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے بارہ سال اذان دی، اس کے لیے جنت واجب ہوگئی، اور اس کے لیے ہر روز کی اذان کے بدلے ساٹھ نیکیاں، اور ہر اقامت پہ تیس نیکیاں لکھ دی گئیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٧٨٨، ومصباح الزجاجة : ٢٧٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اوپر حدیث میں سات برس کا ذکر ہے، اور اس میں بارہ برس کا یہ تعارض نہیں ہے، کیونکہ سات برس کی اذان دینے میں جب جہنم سے برأت حاصل ہوگئی، تو بارہ برس کی اذان دینے میں جنت ضرور حاصل ہوگی، انشاء اللہ اور بعضوں نے کہا سات برس خلوص نیت کے ساتھ کافی ہیں، اور بارہ برس ہر طرح کافی ہیں، اگرچہ نیت میں صفائی کامل نہ ہو، واللہ اعلم۔
کلمات اقامت ایک ایک بارکہنا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ لوگوں کو ایسی چیز کی تلاش ہوئی جس کے ذریعہ لوگوں کو نماز کے اوقات کی واقفیت ہوجائے، تو بلال (رض) کو حکم ہوا کہ وہ اذان کے کلمات دو دو بار، اور اقامت کے کلمات ایک ایک بار کہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١ (٦٠٣) ، ٢ (٦٠٥) ، ٣ (٦٠٦) ، صحیح مسلم/الصلاة ٢ (٣٧٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٩ (٥٠٨) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٧ (١٩٣) ، سنن النسائی/الأذان ٢ (٦٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٤٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٠٣، ١٨٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ٦ (١٢٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اقامت کے کلمات ایک ایک بار بھی کہے تو کافی ہے، کیونکہ اقامت حاضرین کو سنانے کے لئے کافی ہوتی ہے، اس میں تکرار کی ضرورت نہیں، اور عبداللہ بن زید (رض) کی حدیث (طحاوی اور ابن ابی شیبہ) یہ ہے کہ فرشتے نے اذان دی، دو دو بار اور اقامت کہی دو دو بار، مگر اس سے یہ نہیں نکلتا کہ اقامت کے کلمات ایک ایک بار کہنا کافی نہیں، اور محدثین کے نزدیک تو دونوں امر جائز ہیں، انہوں نے کسی حدیث کے خلاف نہیں کیا، لیکن حنفیہ پر یہ الزام قائم ہوتا ہے کہ افراد اقامت کی حدیثیں صحیح ہیں، تو افراد کو جائز کیوں نہیں سمجھتے۔
کلمات اقامت ایک ایک بارکہنا
انس (رض) کہتے ہیں کہ بلال (رض) کو حکم دیا گیا کہ وہ اذان کے کلمات دو دو بار، اور اقامت کے کلمات ایک ایک بار کہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح )
کلمات اقامت ایک ایک بارکہنا
رسول اللہ ﷺ کے مؤذن سعد (رض) سے روایت ہے کہ بلال (رض) اذان کے کلمات دو دو بار، اور اقامت کے کلمات ایک ایک بار کہتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٨٢٦، ومصباح الزجاجة : ٢٧١) (صحیح) (اسناد میں ضعف ہے کیونکہ اولاد سعد مجاہیل ہیں، لیکن اصل حدیث صحیح ہے، اور اس کا معنی صحیح بخاری میں ہے )
کلمات اقامت ایک ایک بارکہنا
ابورافع کہتے ہیں کہ میں نے بلال (رض) کو رسول اللہ ﷺ کے سامنے اذان دیتے دیکھا، وہ اذان کے کلمات دو دو بار کہہ رہے تھے، اور اقامت کے کلمات ایک ایک بار ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٢٤، ومصباح الزجاجة : ٢٧٢) (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں معمر بن محمد ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎: ان احادیث سے طحاوی اور ابن جوزی کی یہ روایت باطل ہوگئی کہ بلال (رض) اقامت کے کلمات دو دو بار کہتے رہے یہاں تک کہ فوت ہوگئے، یعنی ایک ایک بار اقامت کے کلمات انہوں نے کہے، کیونکہ یہ شہادت ہے نفی پر اور یہ جائز ہے کہ بلال (رض) نے کبھی اقامت کے کلمات ایک ایک بار بھی کہے ہوں، اور کبھی دو دو بار اور اس راوی نے ایک ایک بار کہنا نہ سنا ہو، اور اس صورت میں دونوں طرح کی روایتوں میں توفیق و تطبیق ہوجائے گی۔
جب کوء مسجد میں ہو اور اذان ہوجائے تو ( نماز پڑھنے سے قبل) سے باہر نہ نکلے۔
ابوالشعثاء کہتے ہیں کہ ہم مسجد میں ابوہریرہ (رض) کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں مؤذن نے اذان دی، ایک شخص مسجد سے اٹھ کر جانے لگا تو ابوہریرہ (رض) اسے دیکھتے رہے یہاں تک کہ وہ مسجد سے نکل گیا، اس وقت ابوہریرہ (رض) نے کہا : اس شخص نے نبی اکرم ﷺ کی نافرمانی کی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٤٥ (٦٥٥) ، سنن ابی داود/الصلاة ٤٣ (٥٣٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ٣٦ (٢٠٤) ، سنن النسائی/الأذان ٤٠ (٦٨٤، ٦٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤١٠، ٤١٦، ٤١٧، ٥٠٦، ٥٣٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٢ (١٢٤١) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جو لوگ نماز سے فارغ ہونے تک مسجد میں ٹھہرے رہے انہوں نے آپ ﷺ کی فرمانبرداری کی، نبی اکرم ﷺ کا فرمان یہ ہے کہ جب مسجد میں اذان ہوجائے، تو پھر بغیر نماز پڑھے نہ نکلے اگر وہ شخص دوسری جگہ کا امام ہو اور کوئی سخت عذر ہو تو نکلنا جائز ہے، نماز پڑھ کر جائے تو بہتر ہے، اور محدثین کے نزدیک یہ امر جائز ہے کہ ایک شخص جماعت کے ساتھ نماز پڑھ لے، پھر اسی نماز میں دوسرے لوگوں کی امامت کرے، معاذ (رض) ایسا ہی کیا کرتے تھے، اور ان کی پہلی باجماعت نماز فرض ہوتی تھی اور دوسری امامت والی نماز نفل اور مقتدی ان کے پیچھے فریضہ ادا کرتے تھے۔
جب کوء مسجد میں ہو اور اذان ہوجائے تو ( نماز پڑھنے سے قبل) سے باہر نہ نکلے۔
عثمان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص مسجد میں ہو، اور اذان ہوجائے پھر وہ بلا ضرورت باہر نکل جائے اور واپس آنے کا ارادہ بھی نہ رکھے، تو وہ منافق ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٨٤١، ومصباح الزجاجة : ٢٧٣) (صحیح) (تراجع الألبانی : رقم : ٣٨٤ ) ، اس سند میں عبد الجبار صاحب مناکیر ہیں، اور ابن أبی فروہ منکر الحدیث لیکن دوسری سند سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٥١٨ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس کا عمل منافق کے عمل کی طرح ہے کہ وہ نماز پڑھنے کا خیال نہیں رکھتا، اور اس میں سستی کرتا ہے، یہ منافق کی نشانی ہے۔