6. مساجد اور جماعت کا بیان
اللہ کی رضا کے لئے مسجد بنانے والے کی فضیلت
عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جس شخص نے اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لیے مسجد بنائی، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٠٤، ومصباح الزجاجة : ٢٧٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٠، ٥٣) (صحیح) (عثمان بن عبداللہ بن سراقہ کا سماع عمر (رض) سے نہیں ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے حدیث صحیح ہے )
اللہ کی رضا کے لئے مسجد بنانے والے کی فضیلت
عثمان بن عفان (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی و رضا جوئی کے لیے مسجد بنوائی، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ویسا ہی گھر بنائے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٤ (٥٣٣) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٢٠ (٣١٨) ، (تحفةالأشراف : ٩٨٣٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة ٦٥ (٤٥٠) ، مسند احمد (١/٦١، ٧٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ١١٣ (١٤٣٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے مسجد کو دنیا کے گھروں پر فضیلت ہوتی ہے، ویسے ہی اس گھر کو جنت کے دوسرے گھروں پر فضیلت ہوگی، مقصد یہ نہیں ہے کہ مسجد کے برابر ہی جنت میں گھر بنے، اللهم ارزقنا جنة الفردوس آمين .
اللہ کی رضا کے لئے مسجد بنانے والے کی فضیلت
علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے اللہ تعالیٰ کے لیے خالص اپنے مال سے مسجد بنوائی، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٤٢، ومصباح الزجاجة : ٢٧٥) (ضعیف) (سند میں ولید میں مسلم مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، وہ تدلیس تسویہ میں بھی مشہور ہیں، اور ابن لہیعہ اختلاط کا شکار ہیں، اس لئے یہ حدیث ضعیف ہے، لیکن اصل حدیث کثر ت کی وجہ سے صحیح ہے )
اللہ کی رضا کے لئے مسجد بنانے والے کی فضیلت
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے پرندے کے گھونسلے کے برابر یا اس سے بھی چھوٹی مسجد اللہ کے لیے بنوائی، تو اللہ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٤٢١، ومصباح الزجاجة : ٢٧٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حدیث میں قطا ۃ کا لفظ ہے، وہ ایک چڑیا ہے، جو دور دراز جنگل میں جا کر گھونسلا بناتی ہے، اور اس کا گھونسلا نہایت چھوٹا ہوتا ہے، اور یہ مبالغہ ہے مسجد کے چھوٹے ہونے میں، ورنہ گھونسلے کے برابر تو کوئی مسجد بنانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کیونکہ کم سے کم مسجد میں تین آدمیوں کے نماز پڑھنے کی جگہ ہوتی ہے، غرض یہ ہے کہ چھوٹی بڑی مسجد پر منحصر نہیں خالص نیت سے اگر کوئی نہایت مختصر مسجد بھی بنا دے گا، تب بھی اللہ تعالیٰ اس کو اجر دے گا، اور جنت میں اس کے لئے مکان بنایا جائے گا۔
مسجد کو آراستہ اور بلند کرنا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت اس وقت قائم ہوگی، جب لوگ مسجدوں کے بارے میں ایک دوسرے پر فخر کرنے لگیں گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٢ (٤٤٩) ، سنن النسائی/المساجد ٢ (٦٩٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٥١، ومصباح الزجاجة : ٢٧٧) ، مسند احمد (٣/١٣٤، ١٤٥، ٢٣٠، ٢٨٣) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٢٣ (١٤٤٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ آخری زمانہ میں لوگ کہیں گے کہ ہماری مسجد فلاں کی مسجد سے زیادہ عمدہ، بلند اور پرشکوہ ہے، نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسجدوں پر فخر کرنا قیامت کی نشانی ہے، لیکن مسجدوں کو آراستہ اور بلند کرنے کی ممانعت نہیں نکلتی، دوسری حدیثوں سے اس امر کی کراہت ثابت ہے، لیکن علماء نے کہا ہے کہ اس زمانہ میں مصلحتاً مساجد کی بلندی پر سکوت کرنا چاہیے کیونکہ یہود اور نصاری نے اپنے گرجاؤں کو بہت بلند اور عمدہ بنانا شروع کیا ہوا ہے۔
مسجد کو آراستہ اور بلند کرنا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرا خیال ہے کہ تم لوگ میرے بعد مسجدوں کو ویسے ہی بلند اور عالی شان بناؤ گے جس طرح یہود نے اپنے گرجا گھروں کو، اور نصاریٰ نے اپنے کلیساؤں کو بنایا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٢٠٨) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٢ (٤٤٨) (ضعیف) (سند میں جبارہ بن مغلس اور لیث بن أبی سلیم ضعیف ہیں، لیکن یہ ابن عباس (رض) سے موقوفاً ثابت ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٢٧٣٣ )
مسجد کو آراستہ اور بلند کرنا
عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کسی قوم کے اعمال خراب ہوئے تو اس نے اپنی مسجدوں کو سنوارا سجایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٢٠، ومصباح الزجاجة : ٢٧٨) (ضعیف) (جبارہ ضعیف ہے، اور ابو سحاق مدلس اور روایت عنعنہ سے کی ہے ) وضاحت : ١ ؎: سبحان اللہ ! آپ کا ارشاد گرامی کتنا درست اور صحیح ہے، اور سچی بات ہے کہ جب سے مسلمانوں نے بلا ضرورت مسجدوں کی زیب و زینت اور آراستگی میں مبالغہ شروع کیا اس وقت سے ان کے اعمال خراب ہوگئے، علم دین کی تعلیم کم ہوگئی، دینی مدرسے سے لوگوں کی دلچسپی کم ہوگئی، دینی طالب علموں کے تعلیمی اخراجات کے بارے میں لوگ غفلت کا شکار ہیں، جہالت کا بازار گرم ہے، بدعات و خرافات اور مشرکانہ افعال و اعمال کا رواج ہوگیا ہے، لیکن مسجدوں کی آرائش روز بروز بڑھتی جا رہی ہے، مساجد کی بڑی آرائش اور زینت تو یہی ہے کہ وہاں اول وقت اذان دی جائے، امام دیندار اور عالم ہو، نماز سنت کے موافق، شرائط اور آداب کے ساتھ ادا کی جائے، روشنی بقدر ضرورت کی جائے کہ نمازیوں کو اندھیرے کی تکلیف نہ ہو، اس سے زیادہ جو روپیہ بچے وہ علم دین کی ترقی میں صرف کیا جائے، دینی کتابیں چھاپی جائیں، دینی واعظوں کو تنخواہ دی جائے کہ وہ مسلمانوں کو دین کی تعلیم دیں اور کفار و مشرکین کو اسلام کی دعوت دیں، طالب علموں کی خبر گیری کی جائے، مدرسین رکھے جائیں، مدرسے کھلوائے جائیں، اگر یہ جانتے ہوئے بھی کوئی شخص اپنا روپیہ پیسہ ان کاموں میں صرف نہ کرے، اور مسجد کے نقش و نگار اور آراستگی اور روشنی اور فرش میں فضول خرچی کرے تو وہ گناہ گار ہوگا، اور آخرت میں اس سے باز پرس ہوگی کیونکہ اس نے ظاہر کو آراستہ کیا اور باطن کو خراب کیا۔
مسجد کس جگہ بنا جاجائز ہے ؟
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ مسجد نبوی کی زمین قبیلہ بنو نجار کی ملکیت تھی، جس میں کھجور کے درخت اور مشرکین کی قبریں تھیں، نبی اکرم ﷺ نے ان سے کہا : تم مجھ سے اس کی قیمت لے لو ، ان لوگوں نے کہا : ہم ہرگز اس کی قیمت نہ لیں گے، انس (رض) کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ مسجد بنا رہے تھے اور صحابہ آپ کو (سامان دے رہے تھے) اور آپ ﷺ فرما رہے تھے : سنو ! زندگی تو دراصل آخرت کی زندگی ہے، اے اللہ ! تو مہاجرین اور انصار کو بخش دے ، انس (رض) کہتے ہیں : مسجد کی تعمیر سے پہلے جہاں نماز کا وقت ہوجاتا نبی اکرم ﷺ وہیں نماز پڑھ لیتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٤٨ (٤٢٨) ، فضائل المدینة ١ (١٨٦٨) ، فضائل الأنصار ٤٦ (٣٩٣٢) ، صحیح مسلم/المساجد ١ (٥٢٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٢ (٤٥٣، ٣٥٨) ، سنن النسائی/المساجد ١٢ (٧٠٣) ، (تحفة الأشراف : ١٦٩١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١١٨، ١٢٣، ٢١٢، ٢٤٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جس جگہ مسجد نبوی بنائی گئی وہ ویران اور غیر آباد جگہ تھی، اسی میں بعض مشرکین کی قبریں تھیں، جن کو رسول اکرم ﷺ نے اکھاڑنے کا حکم دیا، تو قبریں اکھاڑ دیں گئیں، تب آپ نے مسجد کی بنیاد رکھی، تفصیل بخاری، مسلم، ابوداود وغیرہ کی روایات میں دیکھئے، نیز کوئی خاص جگہ متعین نہ تھی، نبی اکرم ﷺ نے جو فرمایا : زندگی تو دراصل آخرت کی زندگی ہے اگر سچ پوچھیں تو دنیا میں عیش ہی نہیں ہے کیونکہ اگر کوئی فکر نہ ہو جب بھی مرنے کی اور بیماری کی فکر لگی رہتی ہے، عیش تو اسی وقت سے شروع ہوگا جب کسی کو جنت میں جانے کا حکم ہوجائے گا، اے اللہ تعالیٰ ہم سب کو جنت نصیب فرمائے آمین۔
مسجد کس جگہ بنا جاجائز ہے ؟
عثمان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ طائف میں مسجد وہیں پہ تعمیر کریں جہاں پہ طائف والوں کا بت تھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٢ (٤٥٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٦٩) (ضعیف) (سند میں محمد بن عبد اللہ بن عیاض مجہول راوی ہے، نیز ملاحظہ ہو : ضعیف أبو داود : ٦٦ )
مسجد کس جگہ بنا جاجائز ہے ؟
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ان سے ان باغات میں نماز پڑھنے کے متعلق پوچھا گیا جن میں پاخانہ ڈالا جاتا ہے، انہوں نے کہا : جب ان باغات کو کئی بار پانی سے سینچا گیا ہو تو ان میں نماز پڑھ لو۔ عبداللہ بن عمر (رض) یہ حدیث نبی اکرم ﷺ سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٤١٩، ومصباح الزجاجة : ٢٧٩) (ضعیف) (سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور راویت عنعنہ سے ہے )
جن جگہوں میں نماز پڑھ ھنا مکروہے
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قبرستان اور حمام (غسل خانہ) کے سوا ساری زمین مسجد ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٤ (٤٩٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٢٠ (٣١٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٠٦) وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٨٣، ٩٦) ، سنن الدارمی/الصلاة ١١١ (١٤٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ان دو جگہوں کے سوا ہر جگہ نماز پڑھ سکتے ہیں، اس لئے کہ قبرستان کی مٹی مردوں کی نجاستوں سے مخلوط ہے، اور حمام (غسل خانہ) گندگیوں کے ازالہ کی جگہ ہے۔
جن جگہوں میں نماز پڑھ ھنا مکروہے
ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سات مقامات پر نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے : کوڑا خانہ، مذبح (ذبیحہ گھر) ، قبرستان، عام راستہ، غسل خانہ، اونٹ کے باڑے اور خانہ کعبہ کی چھت پر ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٤ (٣٤٦، ٣٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٧٦٦٠) (ضعیف) (محمد بن ابراہیم منکر اور زید بن جبیرہ متروک ہیں، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ٢٨٧ ، یہ حدیث ضعیف ہے، لیکن ان مقامات کے بارے میں دوسری احادیث وارد ہوئی ہیں، جس کا خلاصہ یہ ہے )
جن جگہوں میں نماز پڑھ ھنا مکروہے
عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سات مقامات پر نماز جائز نہیں ہے : خانہ کعبہ کی چھت پر، قبرستان، کوڑا خانہ، مذبح، اونٹوں کے باندھے جانے کی جگہوں اور عام راستوں پر ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٧١، ومصباح الزجاجة : ٢٨١) ، سنن الترمذی/الصلاة (٣٤٧ تعلیقاً ) (ضعیف) (اس سند میں عبد اللہ بن عمر العمری ضعیف ہیں، اور سنن ابن ماجہ کے بعض نسخوں میں ساقط ہیں، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ٢٨٧ )
جو کام مسجد میں مکروہ ہیں
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : چند اعمال ایسے ہیں جو مسجد میں نامناسب ہیں، اس کو عام گزرگاہ نہ بنایا جائے، اس میں ہتھیار ننگا نہ کیا جائے، تیر اندازی کے لیے کمان نہ پکڑی جائے، اس میں تیروں کو نہ پھیلایا جائے، کچا گوشت لے کر نہ گزرا جائے، اس میں حد نہ قائم کی جائے، کسی سے قصاص نہ لیا جائے، اور اس کو بازار نہ بنایا جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٦٦١، ومصباح الزجاجة : ٢٨٠) (ضعیف) (اس سند میں زید بن جبیرہ ضعیف ہیں، لیکن لا يتخذ طريقا کا جملہ صحیح ہے، اس لئے کہ ابن عمر (رض) سے مرفوعاً طبرانی کبیر ( ١٢ /٣١٤) سند حسن سے مروی ہے :لا تتخذ المساجد طريقاً إلا لذکر الله أو صلاة نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١٤٩٧ ، وسلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٠٠١ )
جو کام مسجد میں مکروہ ہیں
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں خریدو فروخت اور (غیر دینی) اشعار پڑھنے سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٢٠ (١٠٧٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٢٤ (٣٢٢) ، سنن النسائی/المساجد ٢٢ (٧١٥) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٧٩) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: مراد فحش اور مخرب اخلاق اشعار ہیں، وہ اشعار جو توحید اور اتباع رسول وغیرہ اصلاحی مضامین پر مشتمل ہوں، تو ان کے پڑھنے میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں۔
جو کام مسجد میں مکروہ ہیں
واثلہ بن اسقع (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم اپنی مسجدوں کو بچوں، دیوانوں (پاگلوں) ، خریدو فروخت کرنے والوں، اور اپنے جھگڑوں (اختلافی مسائل) ، زور زور بولنے، حدود قائم کرنے اور تلواریں کھینچنے سے محفوظ رکھو، اور مسجدوں کے دروازوں پر طہارت خانے بناؤ، اور جمعہ کے روز مسجدوں میں خوشبو جلایا کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٧٥١، ومصباح الزجاجة : ٢٧٢) (ضعیف جداً ) (اس حدیث کی سند میں حارث بن نبہان ضعیف ہیں، اور ابو سعد محمد بن سعید المصلوب فی الزندقہ متروک ) وضاحت : ١ ؎: بچوں کو مسجد میں لانا اس وقت مکروہ ہے جب وہ روتے چلاتے ہوں، یا ان کے پیشاب اور پاخانہ کردینے کا ڈر ہو، ورنہ دوسری صحیح حدیثوں سے بچوں کا مسجد میں آنا ثابت ہے۔
مسجد میں سانا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں مسجد میں سوتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٠١٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة ٥٨ (٤٤٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٢٢ (٣٢١) ، سنن النسائی/المساجد ٢٩ (٧٢٣) ، مسند احمد (٢/١٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ١١٧ (١٤٤٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مسجد میں سونا جائز ہے، خصوصاً مسافر کے واسطے مگر جن لوگوں کا گھر بار موجود ہو ان کے لئے ہمیشہ مسجد میں سونے کی عادت کو بعض علماء نے مکروہ کہا ہے، اور جو لوگ نماز کے لئے مسجد میں آئیں وہ اگر وہاں سو جائیں تو درست ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایسا کیا ہے۔
مسجد میں سانا
قیس بن طخفة (جو اصحاب صفہ میں سے تھے) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا : تم سب چلو ، چناچہ ہم سب ام المؤمنین عائشہ (رض) کے گھر گئے، وہاں ہم نے کھایا پیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا : اگر تم لوگ چاہو تو یہیں سو جاؤ، اور چاہو تو مسجد چلے جاؤ، ہم نے کہا کہ ہم مسجد ہی جائیں گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأدب ١٠٣ (٥٠٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٩٩١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٢٩، ٤٣٠، ٥/٤٢٦، ٤٢٧) (ضعیف) (حدیث میں اضطراب ہے، نیز سند میں یحییٰ بن ابی کثیر مدلس ہیں، اور اور روایت عنعنہ سے کی ہے ) وضاحت : ١ ؎: اصحاب صفہ وہ لوگ تھے جو مسجد نبوی کے صفہ یعنی سائباں میں رہتے تھے، گھر بار مال و اسباب ان کے پاس کچھ نہ تھا، وہ مسکین تھے، کوئی کھلا دیتا تو کھالیتے، ان کے حالات کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی حیات پر مشتمل کتابوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
کونسی مسجد پہلے بنائی گئی ؟۔
ابوذر غفاری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : مسجد الحرام ، میں نے پوچھا : پھر کون سی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : پھر مسجد الاقصیٰ ، میں نے پوچھا : ان دونوں کی مدت تعمیر میں کتنا فاصلہ تھا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : چالیس سال کا، پھر ساری زمین تمہارے لیے نماز کی جگہ ہے، جہاں پر نماز کا وقت ہوجائے وہیں ادا کرلو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ١١ (٣٣٦٦) ، ٤٠ (٣٤٢٥) ، صحیح مسلم/المساجد ١ (٥٢٠) ، سنن النسائی/المساجد ٣ (٦٩١) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٥٠، ١٥٦، ١٦٠، ١٦٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ظاہراً اس میں اشکال ہے کہ کعبہ اور بیت المقدس میں چالیس برس کا فاصلہ ہے، کیونکہ کعبہ کو ابراہیم (علیہ السلام) نے بنایا، اور بیت المقدس کو سلیمان (علیہ السلام) نے اور ان دونوں میں ہزار برس سے زیادہ فاصلہ تھا، اس کا جواب یہ ہے کہ کعبہ اور بیت المقدس دونوں کو آدم (علیہ السلام) نے بنایا تھا، اور ممکن ہے کہ ان دونوں کی بنا میں چالیس برس کا فاصلہ ہو، پھر ابراہیم اور سلیمان (علیہما السلام) نے اپنے اپنے وقتوں میں ان بنیادوں کو جو مٹ گئی تھیں دوبارہ بنایا، اور ابن ہشام نے سیرت میں بھی ایسا ہی ذکر کیا ہے کہ پہلے آدم (علیہ السلام) نے کعبہ کو بنایا، پھر اللہ تعالیٰ ان کو ملک شام لے گیا وہاں انہوں نے بیت المقدس کو بنایا، بہر حال جو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، وہ صحیح ہے، اگرچہ تاریخ والے اس کے خلاف یا اس کے موافق لکھیں، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) ہی نے خانہ کعبہ اور بیت المقدس کی تعمیر کی ہو جس میں چالیس سال کا وقفہ ہو، بعض روایات میں بیت المقدس کی تأسیس کے حوالے اسحاق بن ابراہیم (علیہما السلام) کا نام بھی آیا ہے، جس کا معنی یہ ہوا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے تعمیر کعبہ سے چالیس برس بعد ان کے بیٹے اسحاق (علیہ السلام) نے بیت المقدس کی بنیاد رکھی تھی اور سلیمان بن داود (علیہما السلام) نے بیت المقدس کی تجدید و توسیع کروائی تھی، جیسا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے آدم (علیہ السلام) کی بنیادوں پر ہی کعبۃ اللہ کی تعمیر تجدید کی تھی، واللہ اعلم بالصواب۔
گھروں میں مساجد
محمود بن ربیع انصاری (رض) سے روایت ہے اور ان کو وہ کلی یاد تھی جو رسول اللہ ﷺ نے ڈول سے لے کر ان کے کنویں میں کردی تھی، انہوں نے عتبان بن مالک سالمی (رض) سے روایت کی (جو اپنی قوم بنی سالم کے امام تھے اور غزوہ بدر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک ہوئے تھے) وہ کہتے ہیں : میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! میری نظر کمزور ہوگئی ہے، جب سیلاب آتا ہے تو وہ میرے اور میری قوم کی مسجد کے درمیان حائل ہوجاتا ہے، اسے پار کرنا میرے لیے دشوار ہوتا ہے، اگر آپ مناسب سمجھیں تو میرے گھر تشریف لائیں اور گھر کے کسی حصے میں نماز پڑھ دیں، تاکہ میں اس کو اپنے لیے مصلیٰ (نماز کی جگہ) بنا لوں، آپ ﷺ نے فرمایا : ٹھیک ہے، میں ایسا کروں گا ، اگلے روز جب دن خوب چڑھ گیا تو نبی اکرم ﷺ اور ابوبکر (رض) آئے، اور اندر آنے کی اجازت طلب کی، میں نے اجازت دی، آپ ﷺ ابھی بیٹھے بھی نہ تھے کہ فرمایا : تم اپنے گھر کے کس حصہ کو پسند کرتے ہو کہ میں تمہارے لیے وہاں نماز پڑھ دوں ؟ ، میں جہاں نماز پڑھنا چاہتا تھا ادھر میں نے اشارہ کیا، رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے، ہم نے آپ کے پیچھے صف بندی کی، آپ ﷺ نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی، پھر میں نے آپ کو خزیرہ (حلیم) ١ ؎ تناول کرنے کے لیے روک لیا جو ان لوگوں کے لیے تیار کیا جا رہا تھا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٤٥ (٢٢٤) ، ٤٦ (٢٢٥) ، الأذان ٤٠ (٦٦٧) ، ٥٠ (٦٨٦) ، ١٥٤ (٨٣٩) ، التہجد ٣٦ (١١٨٥) ، الأطعمة ١٥ (٥٢٠١) ، صحیح مسلم/المساجد ٤٧ (٣٣) ، سنن النسائی/الإمامة ١٠ (٧٨٩) ، ٤٦ (٨٤٥) ، السھو ٧٣ (١٣٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٥٠، ١١٢٣٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/ قصر الصلاة ٢٤ (٨٦) ، مسند احمد (٤/٤٤، ٥/٤٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: خزیرہ : یہ ایک قسم کا کھانا ہے جو گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کاٹ کر آٹا ڈال کر پکایا جاتا ہے، موجودہ دور میں یہ حلیم کے نام سے مشہور ہے۔ ٢ ؎: اس حدیث سے بہت سی باتیں نکلتی ہیں، گھر میں مسجد بنانا، چاشت کی نماز جماعت ادا کرنا، نابینا کے لئے جماعت سے معافی، غیر کے گھر میں جانے سے پہلے اجازت لینا، نفل نماز جماعت سے جائز ہونا وغیرہ وغیرہ۔
گھروں میں مساجد
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ قبیلہ انصار کے ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺ کے پاس خبر بھیجی کہ آپ تشریف لائیں اور میرے گھر میں مسجد کے لیے حد بندی کردیں تاکہ میں اس میں نماز پڑھا کروں، اور یہ اس لیے کہ وہ صحابی نابینا ہوگئے تھے، نبی اکرم ﷺ تشریف لائے، اور ان کی مراد پوری کردی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٨١٤، ومصباح الزجاجة : ٢٨٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: انصاری آدمی سے مراد صحابی رسول عتبان بن مالک (رض) ہیں، جیسا کہ صحیحین میں ہے۔
گھروں میں مساجد
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میرے ایک چچا نے نبی اکرم ﷺ کے لیے کھانا تیار کیا، اور انہوں نے آپ ﷺ سے کہا کہ میری خواہش ہے کہ آپ آج میرے گھر کھانا کھائیں، اور اس میں نماز بھی پڑھیں، تو آپ ﷺ تشریف لائے گھر میں ایک پرانی کالی چٹائی پڑی ہوئی تھی، آپ ﷺ نے گھر کے ایک گوشہ کو صاف کرنے کا حکم دیا، وہ صاف کیا گیا، اور اس پر پانی چھڑک دیا گیا، تو آپ ﷺ نے نماز پڑھی، ہم نے بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھی ١ ؎۔ ابوعبداللہ ابن ماجہ کہتے ہیں کہ فحل اس چٹائی کو کہتے ہیں جو پرانی ہونے کی وجہ سے کالی ہوگئی ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٨١، ومصباح الزجاجة : ٢٨٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١١٢، ١٢٨) (صحیح) (نیز ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود : ٦٦٥ ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے بوریئے پر نماز پڑھنا ثابت ہوا، اور پرانے بوریئے پر بھی جو بچھتے بچھتے کالا ہوگیا تھا، صرف صفائی کے لئے آپ ﷺ نے اس کا ایک کونہ جھڑوا دیا، اور تھوڑا پانی اس پر چھڑک دیا، اہل حدیث کا طرز یہی ہے کہ وہ ہر فرش پر نماز پڑھ لیتے ہیں، گو وہ کتنا ہی پرانا ہو بشرطیکہ اس کی نجاست کا یقین نہ ہو، اور جب تک نجاست کا یقین نہ ہو وہ پاک ہی سمجھا جائے گا، اس لئے کہ ہر شے میں پاکی ہی اصل ہے۔
مساجد کو پاک صاف رکھنا
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص مسجد سے کوڑا کرکٹ نکال دے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٣٠٠، ومصباح الزجاجة : ٢٨٥) (ضعیف) (سند میں ضعف انقطاع کی وجہ سے ہے کیونکہ سلیمان بن یسار کا سماع ابو سعید الخدری (رض) سے نہیں ہے، اور محمد بن صالح میں ضعف ہے )
مساجد کو پاک صاف رکھنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمایا کہ محلوں میں مسجدیں بنائی جائیں، اور انہیں پاک و صاف رکھا جائے، اور ان میں خوشبو لگائی جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧١٨٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٣ (٤٥٥) ، سنن الترمذی/الجمعة ٦٤ (٥٩٤) ، مسند احمد (٥/١٢، ٢٧١) (صحیح )
مساجد کو پاک صاف رکھنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمایا : محلوں میں مسجدیں بنائی جائیں اور انہیں پاک و صاف رکھا جائے، اور ان میں خوشبو لگائی جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٣ (٤٥٥) ، (تحفة الأشراف : ١٦٨٩١) (صحیح )
مساجد کو پاک صاف رکھنا
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ سب سے پہلے تمیم داری (رض) نے مسجدوں میں چراغ جلایا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٤٠١، ومصباح الزجاجة : ٢٨٦) (ضعیف جداً ) (خالد بن ایاس منکر الحدیث اور متروک راوی ہیں )
مسجد میں تھوکنا مکروہ ہے
ابوہریرہ اور ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد کی دیوار پر رینٹ دیکھی تو آپ ﷺ نے ایک کنکری لے کر اسے کھرچ ڈالا، پھر فرمایا : جب کوئی شخص تھوکنا چاہے تو اپنے سامنے اور اپنے دائیں ہرگز نہ تھوکے، بلکہ اپنے بائیں جانب یا بائیں پاؤں کے نیچے تھوکے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٣٤ (٤٠٨) ، ٣٥ (٤١٠) ، ٣٦ (٤١٣) ، صحیح مسلم/المساجد ١٣ (٥٤٧) ، سنن النسائی/المساجد ٣٢ (٧٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٩٧، ١٢٢٨١) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٣ (٤٧٧) ، مسند احمد (٣/٦، ٢٤، ٥٨، ٨٨، ٩٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مسجد میں تھوک، بلغم، رینٹ وغیرہ سے طاقت بھر پرہیز لازم ہے، اگر شدید ضرورت ہو، اور مسجد کا فرش ریت یا مٹی کا ہو تو بائیں پیر کے نیچے تھوک کر اس کو دبا دے، لیکن آج کل مساجد کے فرش پختہ ہیں، ان پر کسی بھی صورت میں تھوکنا جائز نہیں، ضرورت کے وقت رومال وغیرہ میں تھوکے، مسجد کو گندہ ہونے سے بچائے۔
مسجد میں تھوکنا مکروہ ہے
انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مسجد کی دیوار قبلہ پر بلغم دیکھا، تو آپ ﷺ سخت غصہ ہوئے یہاں تک کہ آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا، اتنے میں قبیلہ انصار کی ایک عورت آئی اور اس نے اسے کھرچ دیا، اور اس کی جگہ خوشبو لگا دی، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ کتنا اچھا کام ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/المساجد ٣٥ (٧٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٨٨، ١٩٩، ٢٠٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: رسول اکرم ﷺ نے عورت کی تعریف کی کہ اس نے مسجد سے کراہت کی چیز نکال ڈالی اور اس کے بعد قبلہ کی طرف خوشبو لگائی، نبی اکرم ﷺ کے وقت میں دیوار صاف ہوتی تھی جب بھی کوئی اس پر تھوک دیتا وہ واضح طور پر نظر آتا۔
مسجد میں تھوکنا مکروہ ہے
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد کی دیوار قبلہ پر بلغم دیکھا، اس وقت آپ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے، آپ ﷺ نے وہ بلغم کھرچ دیا، پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا : جب کوئی شخص نماز میں ہوتا ہے تو اللہ اس کے سامنے ہوتا ہے، لہٰذا کوئی شخص نماز میں اپنے سامنے نہ تھوکے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٣٣ (٤٠٦) ، الأذان ٩٤ (٧٥٣) ، العمل في الصلاة ٢ (١٢١٣) ، الأدب ٧٥ (٦١١١) ، صحیح مسلم/المساجد ١٣ (٥٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٧١) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٢ (٤٧٩) ، سنن النسائی/المساجد ٣١ (٧٢٥) ، موطا امام مالک/القبلة ٣ (٤) ، مسند احمد (٢/٣٢، ٦٦) ، سنن الدارمی/الصلاة ١١٦ (١٤٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس لئے کہ مالک جب سامنے ہو اور اسی طرف تھوکے، تو اس میں بڑی بےادبی اور گستاخی ہے، اس حدیث میں جہمیہ اور اہل بدعت کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ (معاذ اللہ) ہر مکان اور ہر جہت میں ہے کیونکہ یہ تشبیہ ہے، اور ترمذی کی ایک روایت میں یوں ہے : یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت نمازی کے سامنے ہے، پس معلوم ہوا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے سامنے ہونے سے اس کی رحمت کا سامنے ہونا مراد ہوتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہر مکان میں ہوتا جیسے اہل بدعت کا اعتقاد ہے تو بائیں طرف بھی تھوکنا ویسا ہی منع ہوتا، جیسے سامنے تھوکنا، واضح رہے کہ اللہ رب العزت کے لیے علو اور بلندی کی صفت کتاب و سنت سے ثابت ہے، اور وہ آسمان سے بلند عرش پر مستوی ہے، جیسا کہ شروع کتاب السنہ کی احادیث میں گزرا۔
مسجد میں تھوکنا مکروہ ہے
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مسجد کے قبلہ کی دیوار پر لگا ہوا تھوک رگڑ کر صاف کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٢٨٧ ومصباح الزجاجة : ٢٨٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة ٣٣ (٤٠٦) ، صحیح مسلم/المساجد ١٣ (٥٤٩) ، موطا امام مالک/القبلة ٣ (٥) ، مسند احمد (٤/١٣٨، ١٤٨، ٢٣٠، ٦/١٣٨) (صحیح )
مسجد میں گم شدہ چیز پکار کر ڈھو نڈ نے کی مما نعت
بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھائی، تو ایک شخص نے کہا : میرا سرخ اونٹ کس کو ملا ہے ؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ کرے تمہیں نہ ملے، مسجدیں خاص مقصد کے لیے بنائی گئی ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ١٨ (٥٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١٩٣٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٤٩، ٤٢٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مساجد اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی یاد کے لئے اور تلاوت قرآن اور وعظ اور تعلیم قرآن اور حدیث کے لئے بنائی گئی ہیں، اور علماء حق ہمیشہ مسجد میں دینی علوم کی تعلیم دیتے رہے، اور تعلیم میں کبھی بحث کی بھی ضرورت ہوتی ہے، حافظ ابن حجر نے کہا کہ مسجد میں نکاح پڑھنا درست ہے بلکہ سنت ہے۔
مسجد میں گم شدہ چیز پکار کر ڈھو نڈ نے کی مما نعت
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں گمشدہ چیزوں کے اعلان سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٢٠ (١٠٧٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٢٤ (٣٢٢) ، سنن النسائی/المساجد ٢٣ (٧١٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٧٩) ، سنن النسائی/في الیوم و اللیلة ٦٦ (١٧٣) (حسن) (سند میں عبد اللہ بن لہیعہ ضعیف ہیں، لیکن حدیث شواہد کی بناء پر حسن ہے )
مسجد میں گم شدہ چیز پکار کر ڈھو نڈ نے کی مما نعت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جو شخص کسی کو مسجد میں کسی گمشدہ چیز کا اعلان کرتے سنے تو کہے : اللہ کرے تمہاری چیز نہ ملے، اس لیے کہ مسجدیں اس کے لیے نہیں بنائی گئی ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ١٨ (٥٦٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢١ (٤٧٣) ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٤٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٤٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ١١٨ (١٤٤١) (صحیح )
اونٹوں اور بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر تمہیں بکریوں اور اونٹوں کے باڑوں کے علاوہ کوئی جگہ میسر نہ ہو تو بکری کے باڑے میں نماز پڑھو، اونٹ کے باڑے میں نماز نہ پڑھو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٥٥٥، ١٤٥٥٩، ومصباح الزجاجة : ٢٨٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٤٢ (٣٤٨) مختصراً ، سنن الدارمی/الصلاة ١١٢ (١٤٣١) (صحیح )
اونٹوں اور بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھنا
عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھو، اور اونٹوں کے باڑ میں نماز نہ پڑھو، کیونکہ ان کی خلقت میں شیطنت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : نفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٦٥١، ومصباح الزجاجة : ٢٨٩) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/المساجد ٤١ (٧٣٦) ، وذکر أعطان الإبل، مسند احمد (٤/٨٥، ٨٦، ٥/٥٤، ٥٥) (صحیح) (اس حدیث کا شاہد براء (رض) کی حدیث ہے، جو ابو داود : ١٨٤ - ٤٩٣ میں ہے، لیکن شاہد نہ ملنے کی وجہ سے فإنها خلقت من الشياطين کے لفظ کو البانی صاحب نے ضعیف کہا ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٢٢١٠ ، و تراجع الألبانی : رقم : ٢٩٨ ) ۔ وضاحت : ١ ؎: فؤاد عبدالباقی کے نسخہ میں اور ایسے ہی پیرس کے مخطوطہ میں هشيم کے بجائے أبو نعيم ہے، جو غلط ہے۔ ٢ ؎: شیطنت سے مراد شرارت ہے، یہ مطلب نہیں ہے کہ اونٹ شیطان سے پیدا ہوا، ورنہ وہ حلال نہ ہوتا اور نبی اکرم ﷺ اس کے اوپر نماز ادا نہ کرتے، لیکن شافعی کی روایت میں یوں ہے کہ جب تم اونٹوں کے باڑہ میں ہو اور نماز کا وقت آجائے تو وہاں سے نکل جاؤ کیونکہ اونٹ جن ہیں، اور جنوں سے پیدا ہوئے ہیں، اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اونٹوں میں شرارت کا مادہ زیادہ ہے، اور یہی وجہ ہے وہاں نماز پڑھنا منع ہے۔
اونٹوں اور بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھنا
معبد جہنی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اونٹ کے باڑے میں نماز نہ پڑھی جائے، اور بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ لی جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٨١٣، ومصباح الزجاجة : ٢٩٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٠٥، ٥/١٠٢) (حسن صحیح )
مسجد میں داخل ہونے کی دعا
رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی فاطمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب مسجد میں داخل ہوتے تو یہ دعا پڑھتے : بسم الله والسلام على رسول الله اللهم اغفر لي ذنوبي وافتح لي أبواب رحمتک میں اللہ کا نام لے کر داخل ہوتا ہوں، اور رسول اللہ پر سلام ہو، اے اللہ ! میرے گناہوں کو بخش دے، اور میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے ، اور جب نکلتے تو یہ دعا پڑھتے : بسم الله والسلام على رسول الله اللهم اغفر لي ذنوبي وافتح لي أبواب فضلک میں اللہ کا نام لے کرجاتا ہوں، اور رسول اللہ پر سلام ہو، اے اللہ ! میرے گناہوں کو بخش دے، اور اپنے فضل کے دروازے مجھ پر کھول دے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١١٧ (٣١٤) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٤١) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ١١٧ عن فاطمة (٣١٤) ، مسند احمد (٦/ ٢٨٢، ٢٨٣) (صحیح) (تراجع الألبانی : رقم : ٥١٠ )
مسجد میں داخل ہونے کی دعا
ابو حمید ساعدی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی شخص مسجد میں جائے تو نبی اکرم ﷺ پر سلام بھیجے، پھر کہے :اللهم افتح لي أبواب رحمتک اے اللہ ! میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے اور جب نکلے تو یہ کہے : اللهم إني أسألک من فضلک اے اللہ ! میں تجھ سے تیرے فضل کا سوال کرتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٠ (٧١٣) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٨ (٤٦٥) ، سنن النسائی/المساجد ٣٦ (٧٣٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ١١٧ عن فاطمة (٣١٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٩٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٢٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ١١٥ (١٤٣٤) ، الاستئذان ٥٦ (٢٧٣٣) (صحیح )
مسجد میں داخل ہونے کی دعا
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی شخص مسجد میں جائے تو نبی کریم ﷺ پہ سلام بھیجے اور کہے :اللهم افتح لي أبواب رحمتک اے اللہ ! میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے ، اور جب مسجد سے نکلے تو نبی کریم ﷺ پہ سلام بھیجے، اور کہے : اللهم اعصمني من الشيطان الرجيم اے اللہ ! مردود شیطان سے میری حفاظت فرما ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٦٢، ومصباح الزجاجة : ٢٩١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مسجد سے نکلتے وقت شیطان سے پناہ مانگنے کی وجہ ہے، ابن السنی نے روایت کی ہے کہ تم میں سے جب کوئی مسجد سے نکلنا چاہتا ہے تو ابلیس کے لشکر ایک دوسرے کو بلاتے ہیں، اور شہد کی مکھیوں کی طرح جو شہد کے چھتے پر جمع ہوتی ہیں جمع ہوجاتے ہیں، پھر جب تم میں سے کوئی مسجد کے دروازے پر کھڑا ہو تو کہے : یا اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں ابلیس اور اس کے لشکر سے جب یہ کہے گا تو اس کو نقصان نہ ہوگا۔
نماز کے لئے چلنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی شخص اچھی طرح وضو کرے، پھر مسجد آئے، اور نماز ہی اس کے گھر سے نکلنے کا سبب ہو، اور وہ نماز کے علاوہ کوئی اور ارادہ نہ رکھتا ہو، تو ہر قدم پہ اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند کرتا ہے اور ایک گناہ مٹاتا ہے، یہاں تک کہ مسجد میں داخل ہوجائے، پھر مسجد میں داخل ہوگیا تو جب تک نماز اسے روکے رکھے نماز ہی میں رہتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٥٢) (الف) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ٣٠ (٦٤٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ٤٩ (٥٥٩) ، سنن الترمذی/الجمعة ٧٠ (٣٣٠) ، مسند احمد (٢/١٧٦) (صحیح )
نماز کے لئے چلنا
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب نماز کے لیے اقامت کہہ دی جائے تو دوڑتے ہوئے نہ آؤ، بلکہ اطمینان سے چل کر آؤ، امام کے ساتھ جتنی نماز ملے پڑھ لو، اور جو چھوٹ جائے اسے پوری کرلو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث سعید بن المسیب أخرجہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٨ (٦٠٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٠٣) ، وحدیث أبي سلمة أخرجہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٨ (٦٠٢) ، (تحفة الأشراف : ١٥١٢٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الاذان ٢١ (٦٣٦) ، الجمعة ١٨ (٩٠٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ٥٥ (٥٧٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٢٧ (٣٢٧) ، سنن النسائی/الإمامة ٥٧ (٨٦٢) ، موطا امام مالک/الصلاة ١ (٤) ، مسند احمد (٢/٢٧٠، ٢٨٢، ٣١٨، ٣٨٢، ٣٨٧، ٤٢٧، ٤٥٢، ٤٦٠، ٤٧٢، ٤٨٩، ٥٢٩، ٥٣٢، ٥٣٣) ، سنن الدارمی/الصلاة ٥٩ (١٣١٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: امام ترمذی نے کہا : علماء نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہے، بعضوں نے کہا : جب تکبیر اولیٰ چھوٹ جانے کا ڈر ہو تو جلد چلے، اور بعضوں سے دوڑنا بھی منقول ہے، اور بعضوں نے جلدی چلنا، اور دوڑنا دونوں کو مکروہ کہا ہے، اور کہا ہے کہ سہولت اور اطمینان سے چلنا چاہیے، امام احمد اور اسحاق کا یہی قول ہے، اور یہی صحیح ہے، اور اس حدیث میں ایسا ہی حکم ہے دوڑنے اور جلدی کرنے میں سوائے پریشانی کے کوئی فائدہ نہیں۔
نماز کے لئے چلنا
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جس سے اللہ گناہوں کو معاف کرتا اور نیکیوں میں اضافہ کرتا ہے ؟ ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : جی ہاں، ضرور بتائیے اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : دشواری و ناپسندیدگی کے باوجود پورا وضو کرنا، مسجدوں کی جانب دور سے چل کر جانا، اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٠٤٦، ومصباح الزجاجة : ٢٩٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣، ١٦، ٩٥) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: وضو کا پورا کرنا یہ ہے کہ سب اعضاء کو پانی پہنچائے کوئی مقام سوکھا نہ رہے، اور آداب و سنن کے ساتھ وضو کرے، اور مسجدوں کی جانب دور سے چل کر جانے کا یہ مطلب ہے کہ مسجد مکان سے دور ہو اور جماعت کے لئے وہاں جائے، جتنی مسجد زیادہ دور ہوگی اتنے ہی قدم زیادہ اٹھانے پڑیں گے، اور ہر قدم پر ثواب ملتا رہے گا، اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار میں مسجد میں بیٹھا رہنا بڑا ثواب ہے، دوسری حدیث میں ہے کہ انتظار میں برابر نماز کا ثواب ملتا رہے گا۔
نماز کے لئے چلنا
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص کو خوشی ہو کہ وہ کل اللہ تعالیٰ سے اسلام کی حالت میں ملاقات کرے تو جب اور جہاں اذان دی جائے ان پانچوں نمازوں کی پابندی کرے، کیونکہ یہ ہدایت کی راہیں ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کے لیے ہدایت کے راستے مقرر کئے ہیں، قسم ہے اگر تم میں سے ہر ایک اپنے گھر میں نماز پڑھ لے، تو تم نے اپنے نبی کا راستہ چھوڑ دیا، اور جب تم نے اپنے نبی کا راستہ چھوڑ دیا تو گمراہ ہوگئے، ہم یقینی طور پر دیکھتے تھے کہ نماز سے پیچھے صرف وہی رہتا جو کھلا منافق ہوتا، اور واقعی طور پر (عہد نبوی ﷺ میں) ایک شخص دو آدمیوں پر ٹیک دے کر مسجد میں لایا جاتا، اور وہ صف میں شامل ہوتا، اور جو شخص اچھی طرح وضو کرے اور مسجد کا ارادہ کر کے نکلے، پھر اس حالت میں نماز پڑھے، تو وہ جو قدم بھی چلے گا ہر قدم پر اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند فرمائے گا، اور ایک گناہ مٹا دے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٤٩٥) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساجد ٤٤ (٦٥٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ٤٧ (٥٥٠) ، سنن النسائی/الإمامة ٥٠ (٨٥٠) ، مسند احمد (١/٣٨٢، ٤١٤، ٤١٥) (صحیح) (سند میں ابراہیم بن مسلم لین الحدیث ہیں، اور صحیح مسلم میں ولعمری کے بغیر یہ حدیث ہے، نیز ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود : ٥٥٩، والإرواء : ٤٨٨ ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ نماز باجماعت فرض ہے، جمہور علماء اس کو سنت مؤکدہ کہتے ہیں، ابن مسعود (رض) نے اس کے چھوڑ دینے کو گمراہی قرار دیا، ابوداود کی روایت میں ہے کہ تم کافر ہوجاؤ گے، تارک جماعت کو منافق بتلایا اگر وہ اس کا عادی ہے، ورنہ ایک یا دو بار کے ترک سے آدمی منافق نہیں ہوتا، ہاں نفاق پیدا ہوتا ہے، کبھی کبھی مسلمان بھی جماعت سے پیچھے رہ جاتا ہے۔
نماز کے لئے چلنا
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اپنے گھر سے نماز کے لیے نکلے اور یہ دعا پڑھے : اللهم إني أسألک بحق السائلين عليك وأسألک بحق ممشاي هذا فإني لم أخرج أشرا ولا بطرا ولا رياء ولا سمعة وخرجت اتقاء سخطک وابتغاء مرضاتک فأسألك أن تعيذني من النار وأن تغفر لي ذنوبي إنه لا يغفر الذنوب إلا أنت اے اللہ ! میں تجھ سے اس حق ١ ؎ کی وجہ سے مانگتا ہوں جو مانگنے والوں کا تجھ پر ہے، اور اپنے اس چلنے کے حق کی وجہ سے، کیونکہ میں غرور، تکبر، ریا اور شہرت کی نیت سے نہیں نکلا، بلکہ تیرے غصے سے بچنے اور تیری رضا چاہنے کے لیے نکلا، میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے جہنم سے پناہ دیدے، اور میرے گناہوں کو معاف کر دے، اس لیے کہ گناہوں کو تیرے علاوہ کوئی نہیں معاف کرسکتا تو اللہ تعالیٰ اس کی جانب متوجہ ہوگا، اور ستر ہزار فرشتے اس کے لیے دعائے مغفرت کریں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٢٣٢، ومصباح الزجاجة : ٢٩٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢١) (ضعیف) (سند میں عطیہ العوفی، فضیل بن مرزوق اور فضل بن موفق سب ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : ا لضعیفہ : ٢٤ ) وضاحت : ١ ؎: اگرچہ اللہ تعالیٰ پر کسی کا کوئی ایسا حق لازم نہیں ہے جس کا کرنا اس کو ضروری ہو کیونکہ وہ ہمارا مالک و مختار ہے جو چاہے سو کرے، اس سے کسی کی مجال نہیں کہ کچھ پوچھ بھی سکے، پر ہمارے مالک نے اپنی عنایت اور فضل سے بندوں کے حق اپنے ذمے لئے ہیں، جن کو وہ ضرور پورا کرے گا، اس لئے کہ وہ سچا ہے، اس کا وعدہ بھی سچا ہے، اہل سنت کا یہی مذہب ہے۔ معتزلہ اپنی گمراہی سے یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پر نیک بندوں کو جنت میں لے جانا، اور بروں کو سزا دینا واجب ہے اور ہم یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا وعدہ کیا ہے، لیکن واجب اس پر کچھ نہیں ہے، نہ کسی کا کوئی زور بھی اس پر چل سکتا ہے، نہ کسی کی مجال ہے کہ اس کے سامنے کوئی ذرا بھی چون وچرا کرسکے، اگر وہ چاہے تو دم بھر میں سب بدکاروں اور کافروں اور منافقوں کو بخش دے، اور ان کو جنت میں لے جائے، اور جتنے نیک اور عابد اور متقی بندے ہیں، ان سب کو جہنم میں ڈال دے، غرض یہ سب کچھ اس کی قدرت کے لحاظ سے ممکن ہے، اور اس کو ایسا اختیار ہے، اگرچہ ایسا ظہور میں نہ آئے گا، کیونکہ اس کا وعدہ سچا ہے، اور اس نے وعدہ کیا ہے کہ نیک بندوں کو میں جنت میں لے جاؤں گا، اور کافروں کو جہنم میں، ایسا ہی ہوگا۔
نماز کے لئے چلنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تاریکیوں میں مسجدوں کی جانب چل کر جانے والے ہی (قیامت کے دن) اللہ تعالیٰ کی رحمت میں غوطہٰ مارنے والے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٥٥، ومصباح الزجاجة : ٢٩٤) (ضعیف) (اس حدیث کی سند میں ابو رافع اسماعیل بن رافع ضعیف ہیں، نیز ولید بن مسلم مدلس ہیں، اور یہاں عنعنہ سے روایت کی ہے، نیز ملاحظہ ہو : الضعیفہ : ٢٠٥٩ )
نماز کے لئے چلنا
سہل بن سعد ساعدی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تاریکیوں میں (نماز کے لیے) چل کر جانے والے خوش ہوجائیں کہ ان کے لیے قیامت کے دن کامل نور ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٦٧٦، ومصباح الزجاجة : ٢٩٥) (صحیح) (طرق و شواہد کی وجہ سے یہ ضعیف ہے، ورنہ ابراہیم الحلبی صدوق ہیں، لیکن غلطیاں کرتے ہیں، اور یحییٰ شیرازی مقبول ہیں، عراقی نے اسے حسن غریب کہا ہے، نیز حاکم نے اس کی تصحیح کی ہے، اور ذہبی نے موافقت کی ہے، (مستدرک الحاکم ١ / ٢١٢) ، اور ابن خزیمہ نے بھی تصحیح کی ہے، نیز ملاحظہ ہو : تراجع الألبانی : رقم : ٥٦٤ ، و صحیح ابی داود : ٥٧٠ )
نماز کے لئے چلنا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تاریکیوں میں مسجدوں کی جانب چل کر جانے والوں کو قیامت کے دن کامل نور کی بشارت سنا دو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٠١، ومصباح الزجاجة : ٢٩٦) (صحیح) (سند میں سلیمان بن داود الصائغ ضعیف ہیں، لیکن دوسری سند سے یہ صحیح ہے، تراجع الألبانی : رقم : ٥٦٤ ، نیز بوصیری نے دس شاہد کا ذکر لیا ہے )
مسجد سے جو جتنا زیادہ دور ہوگا اس کو اتنا زیادہ ثواب ملے گا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسجد میں جو جتنا ہی دور سے آتا ہے، اس کو اتنا ہی زیادہ اجر ملتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٤٩ (٥٥٦) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٥١، ٤٢٨) (صحیح )
مسجد سے جو جتنا زیادہ دور ہوگا اس کو اتنا زیادہ ثواب ملے گا
ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ مدینہ میں ایک انصاری شخص کا مکان انتہائی دوری پر تھا، اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اس کی کوئی نماز نہیں چھوٹتی تھی، مجھے اس کی یہ مشقت دیکھ کر اس پر رحم آیا، اور میں نے اس سے کہا : اے ابوفلاں ! اگر تم ایک گدھا خرید لیتے جو تمہیں گرم ریت پہ چلنے، پتھروں کی ٹھوکر اور زمین کے کیڑے مکوڑوں سے محفوظ رکھتا (تو اچھا ہوتا) ! اس انصاری نے کہا : اللہ کی قسم میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ میرا گھر محمد ﷺ کے گھر کے کسی گوشے سے ملا ہو، اس کی یہ بات مجھے بہت ہی گراں گزری ١ ؎ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ ﷺ نے اس کو بلایا اور اس سے پوچھا، تو اس نے آپ کے سامنے بھی وہی بات کہی، اور کہا کہ مجھے نشانات قدم پر ثواب ملنے کی امید ہے، اس پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس ثواب کی تم امید رکھتے ہو وہ تمہیں ملے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٤٩ (٦٦٣) ، سنن ابی داود/الصلاة ٤٩ (٥٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٣٣) سنن الدارمی/الصلاة ٦٠ (١٣٢١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی کہ یہ کیسا مسلمان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس رہنا پسند نہیں کرتا ہے۔
مسجد سے جو جتنا زیادہ دور ہوگا اس کو اتنا زیادہ ثواب ملے گا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ بنو سلمہ نے ارادہ کیا کہ وہ اپنے پرانے گھروں کو جو مسجد نبوی سے فاصلہ پر تھے چھوڑ کر مسجد نبوی کے قریب آ رہیں، تو نبی اکرم ﷺ نے مدینہ کی ویرانی کو مناسب نہ سمجھا، اور فرمایا : بنو سلمہ ! کیا تم اپنے نشانات قدم میں ثواب کی نیت نہیں رکھتے ؟ ، یہ سنا تو وہ وہیں رہے جہاں تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٥٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ٣٣ (٦٥٥) ، مسند احمد (٣/١٠٦، ١٨٢، ٢٦٣) (صحیح )
مسجد سے جو جتنا زیادہ دور ہوگا اس کو اتنا زیادہ ثواب ملے گا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ انصار کے مکانات مسجد نبوی سے کافی دور تھے، ان لوگوں نے ارادہ کیا کہ مسجد کے قریب آجائیں تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی : ونکتب ما قدموا وآثارهم ہم ان کے کئے ہوئے اعمال اور نشانات قدم لکھیں گے (يسين : 12) تو وہ اپنے مکانوں میں رک گئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦١٢٧، ومصباح الزجاجة : ٢٩٧) (صحیح) (سماک کی عکرمہ سے روایت میں اضطراب ہے، لیکن دوسرے طریق سے یہ صحیح ہے ) وضاحت : ا ؎ : ان حدیثوں کے خلاف وہ حدیث نہیں ہے کہ گھر کی نحوست یہ ہے کہ وہاں اذان سنائی نہ دے، کیونکہ یہ نحوست اس وجہ سے ہے کہ اکثر ایسے گھر میں رہنے سے جماعت چھوٹ جاتی ہے، نماز کا وقت معلوم نہیں ہوتا، اور ان حدیثوں میں اس شخص کی فضیلت ہے جو دور سے مسجد آئے، اور جماعت میں شریک ہو، اور ابن کثیر نے تصریح کی ہے کہ جو گھر مسجد سے زیادہ دور ہو وہی افضل ہے، امام مسلم نے جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ ہمارے گھر مسجد سے زیادہ دور تھے ہم نے چاہا کہ ان کو بیچ ڈالیں اور مسجد کے قریب آ رہیں تو نبی اکرم ﷺ نے ہم کو منع کیا، اور فرمایا : تم کو ہر قدم پر ایک درجہ ملے گا ، اور امام احمد نے روایت کی ہے کہ مسجد سے دور جو گھر ہو اس کی فضیلت مسجد سے قریب والے گھر پر ایسی ہے جیسے سوار کی فضیلت بیٹھے ہوئے شخص پر۔
باجماعت نماز کی فضیلت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی کا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا گھر میں یا بازار میں تنہا نماز پڑھنے سے بیس سے زیادہ درجہ افضل ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٨٧ (٤٧٧) ، الأذان ٣٠ (٦٤٧) ، ٣١ (٦٤٨) ، البیوع ٤٩ (٢١١٩) ، صحیح مسلم/المساجد ٤٢ (٦٤٩) ، ٤٩ (٦٤٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ٤٩ (٥٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٠٢) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ٤٧ (٢١٥) ، سنن النسائی/الإمامة ٤٢ (٨٣٨) ، موطا امام مالک/الجماعة ١ (٢) ، مسند احمد (٢/٢٥٢، ٢٦٤، ٢٦٦، ٢٧٣، ٣٢٨، ٣٩٦، ٤٥٤، ٤٧٣، ٤٧٥، ٤٨٥، ٤٨٦، ٥٢٠، ٥٢٥، ٥٢٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ٥٦ (١٣١٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ جب ہے کہ گھر میں وہ اکیلے نماز ادا کرے، اسی طرح بازار میں، دوسری روایت میں ستائیس درجے زیادہ کا ذکر ہے۔
باجماعت نماز کی فضیلت
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جماعت کی فضیلت تم میں سے کسی کے اکیلے نماز پڑھنے سے پچیس درجہ زیادہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣١١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٦٤، ٣٩٦) ، سنن الدارمی/الصلاة ٥٦ (١٣١٢) (صحیح )
باجماعت نماز کی فضیلت
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی کا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا گھر میں تنہا نماز پڑھنے سے پچیس درجہ افضل ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٤٩ (٥٦٠) ، (تحفة الأشراف : ٤١٥٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ٣٠ (٦٤٧) ، مسند احمد (٣/٥٥) (صحیح )
باجماعت نماز کی فضیلت
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی کا جماعت کی نماز تنہا پڑھی گئی نماز پر ستائیس درجہ فضیلت رکھتی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٤٢ (٦٥) ، (تحفة الأشراف : ٨١٨٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ٣٠ (٦٤٥) ، ٣١ (٦٤٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ٤٧ (٢١٥) ، سنن النسائی/الامامة ٤٢ (٨٣٦) ، موطا امام مالک/الجماعة ١ (١) ، مسند احمد (٢/١٧، ٦٥، ١٠٢، ١١٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ٥٦ (١٣١٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے پہلی والی حدیث میں نماز باجماعت کی فضیلت ( ٢٥ ) گنا کا ذکر ہے اور اس حدیث میں ( ٢٧ ) گنا فضیلت بتائی گئی ہے، اس کی توجیہ علماء نے یہ کی ہے کہ یہ فضیلت رسول اللہ ﷺ کو پہلے ( ٢٥ ) گنا بتلائی گئی تھی، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مزید اضافہ فرما کر اسے ( ٢٧ ) گنا کردیا، اور بعض نے کہا کہ یہ کمی بیشی نماز میں خشوع و خضوع اور اس کے سنن و آداب کی حفاظت کے اعتبار سے ہوتی ہے۔
باجماعت نماز کی فضیلت
ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی کا جماعت کی نماز تنہا پڑھی ہوئی نماز پر چوبیس یا پچیس درجہ فضیلت رکھتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٤٨ (٥٥٤) ، سنن النسائی/الإمامة ٤٥ (٨٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٦) (حسن) (صحیح أبی داود : ٥٦٣ )
( بلاوجہ ْ) جماعت چھوٹ جانے پر شد ید وعید
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرا پختہ ارادہ ہوا کہ نماز پڑھنے کا حکم دوں اور اس کے لیے اقامت کہی جائے، پھر ایک آدمی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے، اور میں کچھ ایسے لوگوں کو جن کے ساتھ لکڑیوں کا گٹھر ہو، لے کر ان لوگوں کے پاس جاؤں جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے ہیں، اور ان کے ساتھ ان کے گھروں کو آگ لگا دوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٤٧ (٥٤٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٢٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ٢٩ (٦٤٤) ، ٣٤ (٦٥٧) ، الخصومات ٥ (٢٤٢٠) ، الأحکام ٥٢ (٧٢٢٤) ، صحیح مسلم/المساجد ٤٢ (٦٥١) ، سنن النسائی/الإمامة ٤٩ (٨٤٩) ، موطا امام مالک/الجماعة ١ (٣) ، مسند احمد (٢/٢٤٤، ٣٧٦، ٤٨٩، ٤٨٠، ٥٣١) ، سنن الدارمی/الصلاة ٥٤ (١٣١٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ابن القیم کہتے ہیں : ظاہر ہے کہ گھر کا جلانا صغیرہ گناہ پر نہیں ہوتا، تو جماعت کا ترک کرنا کبیرہ گناہ ہے، اور نبی اکرم ﷺ نے شروع سے اپنی وفات تک جماعت پر مواظبت فرمائی، اور جس نے اذان سنی گرچہ وہ اندھا ہو اس کو جماعت کے ترک کی اجازت نہ دی۔
( بلاوجہ ْ) جماعت چھوٹ جانے پر شد ید وعید
عبداللہ ابن ام مکتوم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے کہا : میں بوڑھا اور نابینا ہوں، میرا گھر دور ہے اور مجھے مسجد تک لانے والا میرے مناسب حال کوئی آدمی بھی نہیں ہے، تو کیا آپ میرے لیے (جماعت سے غیر حاضری کی) کوئی رخصت پاتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم اذان سنتے ہو ؟ ، میں نے کہا : جی ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : میں تمہارے لیے کوئی رخصت نہیں پاتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٤٧ (٥٥٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٨٨) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الإمامة ٥٠ (٨٥٢) ، مسند احمد (٣/٤٢٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے جماعت کی بڑی اہمیت و تاکید ثابت ہوتی ہے، اور نبی اکرم ﷺ نے عبداللہ ابن ام مکتوم (رض) کو جماعت سے غیر حاضر رہنے کی اجازت نہ دی، حالانکہ وہ اندھے تھے، اور انہوں نے کہا کہ میرے پاس کوئی آدمی بھی نہیں ہے جو مجھ کو پکڑ کر لائے، کیونکہ ان کا گھر مسجد سے بہت دور نہ تھا، وہ اذان کی آواز سنتے تھے اور بغیر آدمی کے آسکتے تھے، اور بعضوں نے کہا : حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمہارے لیے جماعت کا ترک جائز نہیں کیونکہ اندھا ہونا جماعت سے معافی کے لئے قوی عذر ہے، اور آپ ﷺ نے عتبان بن مالک (رض) کی جماعت ان کے اندھے ہونے کی وجہ سے معاف کی، بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے لئے ایسی رخصت نہیں پاتا کہ تم جماعت میں حاضر نہ ہو، اور جماعت کا ثواب نہ پاؤ، واللہ اعلم۔
( بلاوجہ ْ) جماعت چھوٹ جانے پر شد ید وعید
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے اذان سنی لیکن مسجد میں نہیں آیا تو اس کی نماز نہیں ہوگی، الا یہ کہ کوئی عذر ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٤٧ (٥٥١) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٦٠) (صحیح )
( بلاوجہ ْ) جماعت چھوٹ جانے پر شد ید وعید
عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم خبر دیتے ہیں کہ ان دونوں نے نبی اکرم ﷺ کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا : لوگ نماز باجماعت چھوڑنے سے ضرور باز آجائیں، ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا، پھر ان کا شمار غافلوں میں ہونے لگے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٢ (٨٦٥) ، سنن النسائی/الجمعة ٢ (١٣٧١) ، (تحفة الأشراف : ٦٦٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٣٩، ٢٥٤، ٣٣٥، ٢/٨٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠٥ (١٦١١) (صحیح) (صحیح مسلم میں یہ حدیث ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے، اور اس میں الجمعات ہے، جس کو البانی صاحب نے محفوظ بتایا ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٩٦٧ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ایمان کا نور ان کے دلوں سے جاتا رہے گا، اور عبادت کی لذت اور حلاوت ان کو حاصل نہ ہوگی، یا عبادت کا اثر ان کے دلوں پر نہ ہوگا، اور دل میں غفلت اور تاریکی بھر جائے گی، یہ فرمودہ آپ ﷺ کا مجرب ہے۔
( بلاوجہ ْ) جماعت چھوٹ جانے پر شد ید وعید
اسامہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگ جماعتوں کے چھوڑنے سے ضرور باز رہیں، ورنہ میں ان کے گھروں کو آگ لگا دوں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٠، ومصباح الزجاجة : ٢٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٠٦) (صحیح) (سند میں ولید بن مسلم مدلس ہیں، اور عثمان مجہول اور زبرقان کا سماع اسامہ (رض) سے نہیں ہے، لیکن حدیث سابقہ شواہد سے صحیح ہے، تراجع الألبانی : رقم : ٣٨١ ) وضاحت : ١ ؎: اس باب کی احادیث سے صاف ظاہر ہے کہ نماز جماعت فرض ہے، جماعت کی حاضری بہت ضروری ہے جماعت کے ترک کی رخصت صرف چند صورتوں میں ہے : سخت سردی، بارش کی رات، کوئی سخت ضرورت ہو جیسے بھوک لگی ہو اور کھانا تیار ہو، پیشاب و پاخانہ کی حاجت ہو بصورت دیگر سستی یا کاہلی کے سبب جماعت ترک کرنا جائز نہیں۔
عشاء اور فجر با جماعت ادا کرنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر لوگوں کو عشاء اور فجر کی نماز کا ثواب معلوم ہوجائے، تو وہ ان دونوں نمازوں میں ضرور آئیں، خواہ سرین کے بل گھسٹتے ہوئے کیوں نہ آنا پڑے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٨٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اگر چل نہ سکے تو ہاتھ اور سرین (چوتڑ) کے بل جماعت میں آئیں، اس حدیث سے عشاء اور فجر کی بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے، اور اس کا سبب یہ ہے کہ ان دونوں نمازوں کا وقت نیند اور سستی کا وقت ہوتا ہے، اور نفس پر بہت شاق ہوتا ہے کہ آرام چھوڑ کر نماز کے لئے حاضر ہو، اور جو عبادت نفس پر زیادہ شاق ہو اس میں زیادہ ثواب ہے۔
عشاء اور فجر با جماعت ادا کرنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : منافقین پر سب سے بھاری عشاء اور فجر کی نماز ہے، اگر وہ ان دونوں نمازوں کا ثواب جان لیں تو مسجد میں ضرور آئیں گے، خواہ سرین کے بل گھسٹتے ہوئے کیوں نہ آنا پڑے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٢٨ (٦٥١) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٢١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ٩ (٦١٥) ، ٣٢ (٦٥٤) ، ٧٢ (٧٢١) ، الشہادات ٣٠ (٢٦٨٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ٥٢ (٢٢٥) ، سنن النسائی/المواقیت ٢١ (٥٤١) ، موطا امام مالک/الصلاة ١ (٣) ، مسند احمد (٢/٢٣٦، ٢٧٨، ٣٠٣، ٣٧٥، ٣٧٦، ٤٢٤، ٤٦٦) ، سنن الدارمی/الصلاة ٥٣ (١٣٠٩) (صحیح )
عشاء اور فجر با جماعت ادا کرنا
عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ فرماتے تھے : جس شخص نے مسجد میں چالیس دن تک جماعت کے ساتھ نماز پڑھی، اور نماز عشاء کی پہلی رکعت فوت نہ ہوئی، تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ میں اس کے لیے جہنم سے آزادی لکھ دے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٤١٥، ومصباح الزجاجة : ٢٩٩) (حسن) (سند میں عمارة کی ملاقات انس (رض) سے نہیں ہے، اور اسماعیل بن عیاش مدلس ہیں، اس لئے لا تفوته الرکعة الأولى من صلاة العشاء کا ٹکڑا صحیح نہیں، بقیہ حدیث دوسرے شواہد کی بناء پر درجہ حسن تک پہنچتی ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٦٥٢ ) وضاحت : ١ ؎: اور ابوداؤد میں ہے کہ ہر شے کی ایک عمدگی ہے، اور نماز کی عمدگی تکبیر اولی ہے، اس لئے اس پر محافظت کرو، نیز اس حدیث کی روشنی میں بعض لوگوں نے کہا ہے کہ جس شخص نے جماعت کی پہلی رکعت پائی اس نے گویا تکبیر تحریمہ امام کے ساتھ پائی، کیونکہ دوسری روایت میں رکعت اولی کے بدل تکبیر اولی ہے، اور تکبیر اولی پانے میں تین قول ہیں، ایک یہ کہ امام کی تکبیر کے ساتھ ہی شریک ہو، دوسرے یہ کہ امام کی قرأت سے پہلے نماز میں شریک ہوجائے، تیسرے یہ کہ رکوع سے پہلے شریک ہوجائے، اور اخیر قول میں آسانی ہے، مولانا وحید الزمان فرماتے ہیں کہ صرف رکوع پانے سے بہت سے اہل حدیث کے نزدیک رکعت نہیں ہوتی، پس تکبیر اولی بھی نہ پائے، ہاں اگر اتنی مہلت پائے کہ سورة فاتحہ پڑھ لے تو وہ رکعت مل جائے گی، اور اس صورت میں گویا تکبیر اولی اس نے پا لی، واللہ اعلم۔
مسجد میں بیٹھے رہنا اور نماز کا انتظار کرتے رہنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی شخص مسجد میں داخل ہو کر نماز کے لیے رکے رہتا ہے تو وہ نماز ہی میں رہتا ہے، اور فرشتے اس شخص کے لیے اس وقت تک دعائے رحمت کرتے رہتے ہیں جب تک وہ اس جگہ بیٹھا رہتا ہے جس جگہ اس نے نماز ادا کی ہے، وہ کہتے ہیں : اے اللہ ! اسے بخش دے، اے اللہ ! اس پر رحم کر، اے اللہ ! اس کی توبہ قبول فرما، یہ دعا یوں ہی جاری رہتی ہے جب تک کہ اس کا وضو نہ ٹوٹے، اور جب تک وہ ایذا نہ دے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٤٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣٥ (١٧٦) ، الصلاة ٦١ (٤٤٥) ، ٨٧ (٤٧٧) ، الأذان ٣٠ (٦٤٧) ، ٣٦ (٦٥٩) ، البیوع ٤٩ (٢١١٩) ، بدء الخلق (٣٢٢٩) ٧ (٦٤٩) ، صحیح مسلم/المساجد ٤٩ (٦٤٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٠ (٤٦٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٢٩ (٣٣٠) ، سنن النسائی/المساجد ٤٠ (٧٣٤) ، موطا امام مالک/قصر الصلاة ١٨ (٥٤) ، مسند احمد (٢/٢٦٦، ٢٨٩، ٣١٢، ٣٩٤، ٤١٥، ٤٢١، ٤٨٦، ٥٠٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: فرشتے اس کے لئے اس وقت تک دعا کرتے رہتے ہیں جب تک وہ باوضو رہتا ہے، اگر وہ زبان یا ہاتھ سے کسی مسلمان کو تکلیف پہنچا دیتا ہے تو فرشتوں کی دعا بند ہوجاتی ہے، اس فضیلت کو حاصل کرنے کے لئے مسجد میں ہمیشہ باوضو رہنا چاہیے، اگرچہ بےوضو بھی رہ سکتا ہے، مگر یہ فضیلت حاصل نہ ہوگی۔
مسجد میں بیٹھے رہنا اور نماز کا انتظار کرتے رہنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو مسلمان مسجد کو نماز اور ذکر الٰہی کے لیے اپنا گھر بنا لے تو اللہ تعالیٰ اس سے ایسا خوش ہوتا ہے جیسے کہ کوئی شخص بہت دن غائب رہنے کے بعد گھر واپس لوٹے، تو گھر والے خوش ہوتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٣٨٩، ومصباح الزجاجة : ٣٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٠٧، ٣٢٨، ٣٤٠، ٤٥٣) (صحیح )
مسجد میں بیٹھے رہنا اور نماز کا انتظار کرتے رہنا
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھی، کچھ لوگ واپس چلے گئے، اور کچھ لوگ پیچھے مسجد میں رہ گئے، اتنے میں رسول اللہ ﷺ تیزی کے ساتھ آئے، آپ کا سانس پھول رہا تھا، اور آپ کے دونوں گھٹنے کھلے ہوئے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا : خوش ہوجاؤ! یہ تمہارا رب ہے، اس نے آسمان کے دروازوں میں سے ایک دروازہ کھول دیا، اور تمہارا ذکر فرشتوں سے فخریہ فرما رہا ہے اور کہہ رہا ہے : فرشتو ! میرے بندوں کو دیکھو، ان لوگوں نے ایک فریضے کی ادائیگی کرلی ہے، اور دوسرے کا انتظار کر رہے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ، ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٩٤٧، ومصباح الزجاجة : ٣٠١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/ ١٩٧، ٢٠٨) (صحیح) (ملا حظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٦٦١ ) وضاحت : ١ ؎: تیز تیز آنے کی وجہ سے نبی اکرم ﷺ کا سانس پھول گیا اور گھٹنے کھل گئے، اس سے ان لوگوں نے استدلال کیا ہے، جو کہتے ہیں کہ گھٹنے ستر میں داخل نہیں، اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کا کلام کرنا، نزول فرمانا، خوش ہونا جیسی صفات کا ذکر ہے، ان کو اسی طرح بلا تاویل و تحریف ماننا ضروری ہے۔
مسجد میں بیٹھے رہنا اور نماز کا انتظار کرتے رہنا
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم کسی شخص کو مسجد میں (نماز کے لیے) پابندی سے آتے جاتے دیکھو تو اس کے ایمان کی شہادت دو ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : إنما يعمر مساجد الله من آمن بالله اللہ کی مسجدوں کو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ اور آخرت کے دن پہ ایمان رکھتے ہیں (سورة التوبة : ١٨ ) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الإیمان ٩ (٢٦١٧) ، تفسیر القرآن ١٠ (٣٠٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٠٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٦٨، ٧٦) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٣ (١٢٥٩) (ضعیف) (اس سند میں رشدین بن سعد ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو : المشکاة : ٧٢٣ )