7. اقامت نماز اور اس کا طریقہ

【1】

نماز شروع کرنے کا بیان

ابو حمید ساعدی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو قبلہ رخ ہوتے، اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر الله أكبر کہتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٤٥ (٨٢٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ١١٧ (٩٦٤، ٩٦٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ٧٨ (٣٠٤، ٣٠٥) ، سنن النسائی/التطبیق ٦ (١٠٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٢٤) سنن الدارمی/الصلاة ٣٢ (١٢٧٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس تکبیر کو تکبیر تحریمہ کہتے ہیں، جو متفقہ طور پر نماز میں فرض ہے، علماء اہل حدیث کے نزدیک جلسہ اولیٰ اور جلسۂ استراحت کے سوا، نماز کے تمام ارکان جو نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہیں، فرض ہیں، اور تکبیر تحریمہ اور ہر رکعت میں سورة فاتحہ اور تشہد اخیر اور سلام کے علاوہ اذکار نماز میں سے کوئی ذکر واجب نہیں ہے، اس کے علاوہ اور ادعیہ و اذکار سنت ہیں، اب تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اٹھانا کانوں تک یا مونڈھوں تک دونوں طرح وارد ہے، اور یہ سنت ہے۔

【2】

نماز شروع کرنے کا بیان

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب اپنی نماز شروع کرتے تو یہ دعا پڑھتے : سبحانک اللهم وبحمدک و تبارک اسمک وتعالى جدک ولا إله غيرك اے اللہ ! تو پاک ہے اور سب تعریف تیرے لیے ہے، تیرا نام بابرکت ہے، تیری شان بلند ہے، اور تیرے علاوہ کوئی مستحق عبادت نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٢٢ (٧٧٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ٦٥ (٢٤٢) ، سنن النسائی/الافتتاح ١٨ (٩٠٠، ٩٠١) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٠، ٦٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ٣٣ (١٢٧٥) (صحیح )

【3】

نماز شروع کرنے کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب تکبیر تحریمہ کہتے تو تکبیر اور قرات کے درمیان تھوڑی دیر خاموش رہتے، میں نے عرض کیا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، مجھے بتائیے آپ تکبیر و قرات کے درمیان جو خاموش رہتے ہیں تو اس میں کیا پڑھتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : میں یہ دعا پڑھتا ہوں : اللهم باعد بيني وبين خطاياي كما باعدت بين المشرق والمغرب اللهم نقني من خطاياي کا لثوب الأبيض من الدنس اللهم اغسلني من خطاياي بالماء والثلج والبرد اے اللہ ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان ایسی دوری کر دے جیسی دوری تو نے مشرق و مغرب کے درمیان رکھی ہے، اے اللہ ! مجھے گناہوں سے ویسے ہی صاف کر دے جس طرح سفید کپڑا میل و کچیل سے صاف کیا جاتا ہے، اے اللہ ! میرے گناہوں کو پانی، برف اور اولے سے دھو دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٨٩ (٧٤٤) ، صحیح مسلم/المساجد ٢٧ (٥٩٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٢٣ (٧٨١) ، سنن النسائی/الافتتاح ١٤ (٨٩٥) ١٥ (٨٩٦) ، تحفة الأشراف : ١٤٨٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٣١، ٤٤٨، ٤٩٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ٣٧ (١٢٨٠) (صحیح )

【4】

نماز شروع کرنے کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب نماز شروع کرتے تو یہ دعا پڑھتے : سبحانک اللهم وبحمدک تبارک اسمک وتعالى جدک ولا إله غيرك اے اللہ ! تو پاک ہے اور ساری تعریفیں تیرے لیے ہیں، تیرا نام بابرکت ہے، تیری شان بلند ہے، اور تیرے علاوہ کوئی مستحق عبادت نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الموا قیت ٦٥ (٢٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٨٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٢٢ (٧٧٥) (صحیح )

【5】

نماز میں تعوذ

جبیر بن مطعم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جس وقت آپ نماز میں داخل ہوئے تو آپ نے الله أكبر کبيرا تین مرتبہ، الحمد لله كثيرا تین مرتبہ، سبحان الله بكرة وأصيلا تین مرتبہ کہا، اور پھر اللهم إني أعوذ بک من الشيطان الرجيم من همزه ونفخه ونفثه پڑھا اے اللہ ! میں مردود شیطان کے جنون، وسوسے اور کبر و غرور سے تیری پناہ چاہتا ہوں ١ ؎۔ عمرو بن مرہ کہتے ہیں کہ شیطان کا ہمز اس کا جنون، نفث اس کا شعر ہے، اور نفخ اس کا کبر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٢١ (٧٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٣١٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٠٣، ٤٠٤، ٣/٥٠، ٤/٨٠، ٨١، ٨٣، ٨٥، ٦/١٥٦) (ضعیف) (سند میں عاصم عنزی کی صرف ابن حبان نے توثیق کی ہے، یعنی وہ مجہول ہیں، نیز عاصم کے نام میں بھی اختلاف ہے، لیکن آخری ٹکڑا : اللهم إني أعوذ بک من الشيطان الرجيم ثابت ہے، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء ٢ /٥٤ ) وضاحت : ١ ؎: جو شخص متبع سنت ہو اس کو چاہیے کہ کبھی سبحانک اللهم پڑھے، کبھی اللهم باعد بيني ..، کبھی إني وجهت ، اور کبھی حدیث میں مذکور یہ دعا اور ہر وہ دعا جو اس موقع پر صحیح اور ثابت ہے، تاکہ ہر ایک سنت کا ثواب ہاتھ آئے، یہ ایسی نعمت غیر مترقبہ ہے جس سے دوسرے لوگ ہمیشہ محروم رہتے ہیں۔

【6】

نماز میں تعوذ

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللهم إني أعوذ بک من الشيطان الرجيم وهمزه ونفخه ونفثه اے اللہ ! میں مردود شیطان کے جنون، وسوسے اور کبر و غرور سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔ راوی کہتے ہیں : ہمز سے مراد اس کا جنون ہے، نفث سے مراد شعر ہے اور نفخ سے مراد کبر و غرور ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٣٣٢، ومصباح الزجاجة : ٣٠٢) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٢٢ (٧٧٥) ، سنن الترمذی/المواقیت ٦٥ (٢٤٢) ، مسند احمد (١/٤٠٣) (صحیح) (سند میں عطاء بن السائب اختلاط کی وجہ سے ضعیف ہیں، اور محمد بن فضیل نے ان سے اختلاط کے بعد روایت کی ہے، نیز ابو عبدالرحمن السلمی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے ابن مسعود (رض) سے نہیں سنا ہے، لیکن طرق و شواہد کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، تراجع الألبانی : رقم : ٤٧٢ ، و الإرواء : ٢ /٥٤) ۔ وضاحت : ١ ؎: طیبی کہتے ہیں کہ اگر یہ تفسیر حدیث میں داخل ہے تو اس کے سوا دوسری تفسیر نہیں ہوسکتی، اور جو راوی نے یہ تفسیر کی ہے تو نفث سے سحر بھی مراد ہوسکتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ومن شر النفاثات في العقد سورة الفلق : 4، اور ہمز سے شیطان کا وسوسہ بھی مراد ہوسکتا ہے، جیسے قرآن میں ہے۔

【7】

نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھنا

ہلب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ہماری امامت فرماتے تو اپنا بایاں ہاتھ دائیں ہاتھ سے پکڑے رہتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الموا قیت ٧٣ (٢٥٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٣٥) (حسن صحیح )

【8】

نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھنا

وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا کہ آپ نے اپنا بایاں ہاتھ دائیں ہاتھ سے پکڑا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٧٨٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ١١٦ (٧٢٦) ، سنن النسائی/الافتتاح ١١ (٨٩٠) ، مسند احمد (٤/٣١٦، ٣١٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ٣٥ (١٢٧٧) ، ٩٢ (١٣٩٧) (صحیح )

【9】

نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھنا

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ میرے پاس گزرے اور میں اپنے بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ پر رکھے ہوئے تھا، تو آپ ﷺ نے میرا دایاں ہاتھ پکڑ کر بائیں ہاتھ پر رکھ دیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٢٠ (٧٥٥) ، سنن النسائی/الافتتاح ١٠ (٨٨٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٣٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٤٧) (صحیح )

【10】

قرائت شروع کرنا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ الحمد لله رب العالمين سے قراءت شروع کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٦ (٤٩٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٢٤ (٧٨٣) ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٤٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣١، ١١٠، ١٧١، ١٩٤، ٢٨١) ، سنن الدارمی/الصلاة ٣١ (١٢٧٢) (صحیح )

【11】

قرائت شروع کرنا

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور ابوبکرو عمر (رض) الحمد لله رب العالمين سے قراءت شروع کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٨٩ (٧٤٣) ، صحیح مسلم/الصلاة ١٣ (٣٩٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٢٤ (٧٨٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ٦٨ (٢٤٦) ، سنن النسائی/الافتتاح ٢٠ (٩٠٣، ٩٠٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٢، ١٤٣٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصلاة ٦ (٣٠) ، مسند احمد (٣/١٠١، ١١١، ١١٤، ١٨٣) ، سنن الدارمی/الصلاة ٣٤ (١٢٧٦) (صحیح )

【12】

قرائت شروع کرنا

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ الحمد لله رب العالمين سے قراءت شروع فرماتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٤٥، ومصباح الزجاجة : ٣٠٣) (صحیح) (سند میں أبو عبد اللہ مجہول الحال ہیں، اور بشر بن رافع متکلم فیہ، لیکن اصل حدیث کثرت طرق و شواہد کی وجہ سے صحیح ہے )

【13】

قرائت شروع کرنا

ابن عبداللہ بن مغفل اپنے والد عبداللہ بن مغفل (رض) سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے ایسا آدمی بہت کم دیکھا جس کو اسلام میں نئی بات نکالنا ان سے زیادہ ناگوار ہوتا ہو، انہوں نے مجھے بسم الله الرحمن الرحيم (بآواز) بلند پڑھتے ہوئے سنا تو کہا : بیٹے ! تم اپنے آپ کو بدعات سے بچاؤ، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ ، ابوبکر، عمر اور عثمان (رض) عنہم کے ساتھ نماز پڑھی، لیکن میں نے ان میں سے کسی کو بھی بسم الله الرحمن الرحيم بآواز بلند پڑھتے ہوئے نہیں سنا، لہٰذا جب تم قراءت کرو تو الحمد لله رب العالمين سے کرو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٦٦ (٢٤٤) ، سنن النسائی/الافتتاح ٢٢ (٩٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٨٥، ٥/٥٤، ٥٥) (ضعیف) (سند میں یزید بن عبد اللہ بن مغفل مجہول الحال ہے )

【14】

نماز فجر میں قرآت

قطبہ بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فجر میں آیت کریمہ : والنخل باسقات لها طلع نضيد پڑھتے ہوئے سنا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٣٥ (٤٥٧) ، سنن الترمذی/الصلاة ١١٢ (٣٠٦) ، سنن النسائی/الافتتاح ٤٣ (٩٥١) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٢٢) سنن الدارمی/الصلاة ٦٦ (١٢٣٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ آیت سورة ق ( ١٠ ) میں ہے، مطلب یہ ہے کہ سورة (ق) اور اس کے برابر سورتیں فجر میں پڑھتے۔

【15】

نماز فجر میں قرآت

عمرو بن حریث (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، آپ فجر میں : فلا أقسم بالخنس الجوار الکنس ١ ؎ کی قراءت فرما رہے تھے، گویا کہ میں یہ قراءت اب بھی سن رہا ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٣٥ (٨١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧١٥) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/ الصلاة ٣٥ (٤٥٦) ، سنن النسائی/ الافتتاح ٤٤ (٩٥٢) ، مسند احمد (٤/٣٠٦، ٣٠٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ٦٦ (١٣٣٧) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: یعنی سورة تکویر کی قراءت فرما رہے تھے یہاں بھی جزء بول کر کل مراد لیا گیا ہے۔

【16】

نماز فجر میں قرآت

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فجر کی نماز میں ساٹھ ( ٦٠ ) آیات سے سو ( ١٠٠ ) آیات تک پڑھا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٣٥ (٦٤٧) ، سنن النسائی/المواقیت ٢ (٤٩٦) ، ١٦ (٥٢٦) ، ٢٠ (٥٣١) ، الافتتاح ٤٢ (٩٤٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٠٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/المواقیت ١١ (٥٤١) ، ١٣ (٥٤٧) ، ٢٣ (٥٦٨) ، ٣٨ (٥٩٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣ (٣٩٨) ، مسند احمد (٤/٤٢٠، ٤٢١، ٤٢٣، ٤٢٤، ٤٢٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ٦٦ (١٣٣٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی سورة (ق) پڑھی جس میں یہ آیت ہے، یہاں بھی جزء بول کر کل مراد لیا گیا ہے۔

【17】

نماز فجر میں قرآت

ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں نماز پڑھاتے تو ظہر کی پہلی رکعت لمبی کرتے، اور دوسری رکعت چھوٹی کرتے، اور اسی طرح فجر کی نماز میں بھی کرتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفردبہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢١١٦، ١٢١٤٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ٩٦ (٧٥٩) ، ٩٧ (٧٦٢) ، ١٠٧ (٧٧٦) ، ١٠٩ (٧٧٨) ، ١١٠ (٧٧٩) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٤ (٤٥١) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٢٩ (٧٩٩) ، سنن النسائی/الافتتاح ٥٦ (٩٧٥) ، مسند احمد (٤/٣٨٣، ٥/٢٩٥، ٣٠٠، ٣٠٥، ٣٠٧، ٣٠، ٣١٠، ٣١١) ، سنن الدارمی/الصلاة ٦٣ (١٣٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: پہلی رکعت میں قراءت کو طول دینا بہ نسبت دوسری رکعت کے مستحب ہے، اور اس کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ لوگوں کو جماعت مل جائے، اور پہلی رکعت نہ چھوٹے، اور بعضوں نے کہا یہ نماز فجر کے لیے خاص ہے، واللہ اعلم۔

【18】

نماز فجر میں قرآت

عبداللہ بن سائب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فجر کی نماز میں سور ۃ مومنون کی تلاوت فرمائی، جب اس آیت پہ پہنچے جس میں عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر ہے، تو آپ کو کھانسی آگئی، اور آپ رکوع میں چلے گئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٠٦ (٧٧٤ تعلیقاً ) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٥ (٤٥٥) ، سنن ابی داود/الصلاة ٨٩ (٦٤٩) ، سنن النسائی/الافتتاح ٧٦ (١٠٠٨) ، (تحفة الأشراف : ٥٣١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤١١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس باب کی احادیث میں رسول اللہ ﷺ کی مقدار قراءت مختلف بتائی گئی ہے، جس سے حسب موقعہ پڑھنے پر استدلال کیا جاسکتا ہے، آخری حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ پوری سورة کا پڑھنا ضروری نہیں، پہلی رکعت میں قراءت طویل کرنا، اور دوسری میں ہلکی کرنا بھی سنت رسول ہے، اور ظاہری فائدہ اس کا یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت رکعت فوت ہونے سے بچ جاتی ہے۔

【19】

جمعہ کے دن نماز فجر میں قرآت

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جمعہ کے دن صبح کی نماز میں الم تنزيل السجدة (سورۃ سجدۃ) ، اور هل أتى على الإنسان (سورۃ الدہر) پڑھتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٠ (٨٧٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢١٨ (١٠٧٤، ١٠٧٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٥٨ (٥٢٠) ، سنن النسائی/الافتتاح ٤٧ (٩٥٧) ، الجمعة ٣٨ (١٤٢٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٦١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٢٦، ٣٠٧، ٣٢٨، ٣٣٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ جمعہ کو نماز فجر میں ان دونوں سورتوں کا پڑھنا مستحب ہے كان يقرأ کے صیغے سے اس پر نبی اکرم ﷺ کی مواظبت کا پتہ چلتا ہے، بلکہ ابن مسعود (رض) کی روایت میں جس کی تخریج طبرانی نے کی ہے، اس پر آپ کی مداومت کی تصریح آئی ہے، اس میں شاید یہ حکمت ہوگی کہ ان دونوں سورتوں میں انسان کی پیدائش، خاتمہ، آدم، جنت اور جہنم کا ذکر ہے، اور قیامت کا حال ہے، اور یہ سب باتیں جمعہ کے دن ہونے والی ہیں، اور کچھ ہوچکی ہیں۔

【20】

جمعہ کے دن نماز فجر میں قرآت

سعد (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جمعہ کے دن صبح کی نماز میں الم تنزيل اور هل أتى على الإنسان پڑھا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٩٤٥، ومصباح الزجاجة : ٣٠٤) (صحیح) (سند میں حارث بن نبہان ضعیف ہیں، لیکن ابن مسعود (رض) کی اگلی حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے، نیز ابن عباس (رض) کی حدیث پہلے گزری )

【21】

جمعہ کے دن نماز فجر میں قرآت

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جمعہ کے دن نماز فجر میں الم تنزيل اور هل أتى على الإنسان پڑھا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ١٠ (٨٩١) ، سجود القرآن ٢ (١٠٢٨) ، صحیح مسلم/الجمعة ١٧ (٨٨٠) ، سنن النسائی/الافتتاح ٤٧ (٩٥٦) ، (تحفة الأشراف : ١٣٦٤٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٧٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٩٢ (١٥٨٣) (صحیح )

【22】

جمعہ کے دن نماز فجر میں قرآت

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جمعہ کے دن فجر کی نماز میں الم تنزيل اور هل أتى على الإنسان پڑھا کرتے تھے۔ اسحاق بن سلیمان کہتے ہیں کہ عمرو بن ابی قیس نے ہم سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے ایسے ہی روایت کی ہے مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٥٠١، ومصباح الزجاجة : ٣٠٤/أ) (صحیح )

【23】

ظہر اور عصر میں قرآت

قزعہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید خدری (رض) سے رسول اللہ ﷺ کی نماز کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا : تمہارے لیے اس میں کوئی خیر نہیں ١ ؎، میں نے اصرار کیا کہ آپ بیان تو کیجئیے، اللہ آپ پہ رحم کرے، ابو سعید خدری (رض) نے کہا : رسول اللہ ﷺ کے لیے نماز ظہر کی اقامت کہی جاتی اس وقت ہم میں سے کوئی بقیع جاتا، اور قضائے حاجت (پیشاب پاخانہ) سے فارغ ہو کر واپس آتا، پھر وضو کرتا تو وہ رسول اللہ ﷺ کو ظہر کی پہلی رکعت میں پاتا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٣٤ (٤٥٤) ، سنن النسائی/ الافتتاح ٥٦ (٩٧٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٨٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیوں کہ علم عمل کے لئے ہے، اگر تم اس پر عمل نہ کرسکے تو وہ تمہارے خلاف قیامت کے دن حجت ہوگا۔ ٢ ؎: مسجد نبوی سے مشرقی سمت میں بقیع غرقد نامی علاقہ ہے، جس جگہ مقبرہ ہے، یہاں مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ آدمی قضاء حاجت کے لئے اتنا دور جاتا اور نماز نبوی اتنی لمبی ہوتی کہ واپس آ کر پہلی رکعت پا جاتا، شاید رسول اکرم ﷺ کبھی کبھی لمبی قراءت کرتے تھے، ورنہ آپ نے نماز ہلکی پڑھانے کا حکم دیا ہے۔

【24】

ظہر اور عصر میں قرآت

ابومعمر کہتے ہیں کہ میں نے خباب (رض) سے پوچھا : آپ لوگ ظہر اور عصر میں رسول اللہ ﷺ کی قراءت کو کیسے پہچانتے تھے ؟ انہوں نے کہا : آپ کی داڑھی مبارک (کے بال) کے ہلنے سے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٩١ (٧٤٦) ، ٩٦ (٧٦٠) ، ٩٧ (٧٦١) ، ١٠٨ (٧٧٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٢٩ (٨٠١) ، (تحفة الأشراف : ٣٥١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٠٩، ١١٢، ٦/٣٩٥) (صحیح )

【25】

ظہر اور عصر میں قرآت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے فلاں یعنی عمرو بن سلمہ سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کے مشابہ کسی کی نماز نہیں دیکھی، آپ ﷺ ظہر کی پہلی دو رکعتیں لمبی کرتے، اور آخری دونوں ہلکی کرتے، اور عصر کی نماز بھی ہلکی کرتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الافتتاح ٦١ (٩٨٣) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٨٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٠٠، ٣٢٩، ٣٣٠، ٥٣٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس خیال سے کہ وہ کام کاج اور بازار کا وقت ہوتا ہے، لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔

【26】

ظہر اور عصر میں قرآت

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ تیس بدری صحابہ اکٹھے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ آؤ ہم سری نماز میں رسول اللہ ﷺ کی قراءت کا اندازہ کریں، تو ان لوگوں نے ظہر کی پہلی رکعت میں آپ ﷺ کی قراءت کا اندازہ تیس آیت کے بہ قدر کیا، اور دوسری رکعت میں اس کے آدھا، اور عصر کی نماز میں ظہر کی پچھلی دونوں رکعتوں کے نصف کے بہ قدر، اس اندازے میں ان میں سے دو شخصوں کا بھی اختلاف نہیں ہوا ا ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٣٢٤، ومصباح الزجاجة : ٣٠٥) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصلاة ٣٤ (٤٥٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٣٠ (٨٠٤) ، سنن النسائی/الصلاة ١٦ (٤٧٦) ، مسند احمد (٣/٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ٦٢ (١٣٢٥) (ضعیف) (سند میں زید العمی ضعیف راوی ہیں، اور ابوداود اور طیالسی نے مسعودی سے جو مختلط روای ہیں بعد اختلاط روایت کی ہے، لیکن مرفوع حدیث دوسری سند سے صحیح مسلم میں ہے، لفظ قیاس کے بغیر جیسا کہ اوپر کی تخریج میں مذکور ہے) ۔ وضاحت : ١ ؎: اس باب کی احادیث سے صاف ظاہر ہے کہ کبھی کبھی ایک آدھ آیت کو اس طرح پڑھنا کہ پیچھے والے سن لیں درست ہے، سری و جہری میں فرق یہی ہے کہ سری میں اتنا آہستہ پڑھنا کہ خود سنے اور پاس والا بھی، اور جہری کہتے ہیں کہ خود بھی سنے اور دوسرے بھی سنیں، سنت کی پیروی میں کبھی کبھی ایک آدھ آیت سنانا درست ہے۔

【27】

کبھی کبھار ظہر وعصر کی نماز میں ایک آیت آواز سے پڑھنا

ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ظہر کی پہلی دونوں رکعتوں میں (سری) قراءت فرماتے تھے، اور کبھی کبھی ہمیں کوئی آیت سنا دیا کرتے تھے ا ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٩٦ (٧٥٩) ، ٩٧ (٧٦٢) ، ١٠٧ (٧٧٦) ، ١٠٩ (٧٧٨) ، ١١٠ (٧٧٩) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٤ (٤٥١) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٢٩ (٧٩٨، ٧٩٩، ٨٠٠) ، سنن النسائی/الافتتاح ٥٦ (٩٧٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٨٣، ٥/٢٩٥، ٣٠٠، ٣٠٥، ٣٠٧، ٣٠٨، ٣١٠، ٣١١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اگرچہ رکعتوں میں نبی ﷺ سری قراءت کرتے لیکن پڑھتے پڑھتے کبھی ایک آدھ آیت آواز سے بھی پڑھ دیتے۔

【28】

کبھی کبھار ظہر وعصر کی نماز میں ایک آیت آواز سے پڑھنا

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں ظہر کی نماز پڑھاتے تو ہم سورة لقمان اور سورة ذاريات کی کئی آیتوں کے بعد کوئی آیت سن لیا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الافتتاح ٥٥ (٩٧٢) ، (تحفة الأشراف : ١٨٩١) (ضعیف) (سند میں ابواسحاق مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٤١٢٠ )

【29】

مغرب کی نماز میں قرات

عبداللہ بن عباس (رض) اپنی ماں سے روایت کرتے ہیں (ابوبکر بن ابی شیبہ نے کہا کہ ان کی والدہ کا نام لبابہ ہے) : انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو مغرب میں والمرسلات عرفا پڑھتے سنا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٩٨ (٧٦٣) ، المغازي ٨٣ (٤٤٢٩) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٥ (٤٦٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٣٢ (٨١٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ١١٤ (٣٠٨) ، سنن النسائی/الافتتاح ٦٤ (٩٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٥٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصلاة ٥ (٢٤) ، حم : ٦/٣٣٨، ٣٤٠، سنن الدارمی/الصلاة ٦٤ (١٣٣١) (صحیح )

【30】

مغرب کی نماز میں قرات

جبیر بن مطعم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو مغرب کی نماز میں والطور پڑھتے سنا۔ جبیر بن مطعم (رض) نے ایک دوسری حدیث میں کہا کہ جب میں نے آپ ﷺ کو سورة الطور میں سے یہ آیت کریمہ أم خلقوا من غير شيء أم هم الخالقون سے فليأت مستمعهم بسلطان مبين، یعنی : کیا یہ بغیر کسی پیدا کرنے والے کے خودبخود پیدا ہوگئے ہیں ؟ کیا انہوں نے ہی آسمانوں و زمینوں کو پیدا کیا ہے ؟ بلکہ یہ یقین نہ کرنے والے لوگ ہیں، یا کیا ان کے پاس تیرے رب کے خزانے ہیں ؟ یا ان خزانوں کے یہ داروغہ ہیں، یا کیا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر سنتے ہیں ؟ (اگر ایسا ہے) تو ان کا سننے والا کوئی روشن دلیل پیش کرے ، (سورۃ الطور : ٣٥ -٣٨) تک پڑھتے ہوئے سنا تو قریب تھا کہ میرا دل اڑ جائے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٩٩ (٧٦٥) ، الجہاد ١٧٢ (٣٠٥٠) ، المغازي ١٢ (٤٠٢٣) ، تفسیر الطور ١ (٤٨٥٤) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٥ (٤٦٣) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٣٢ (٨١١) ، سنن النسائی/الافتتاح ٦٥ (٩٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٣١٨٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصلاة ٥ (٢٣) ، مسند احمد (٤/٨٣، ٨٤، ٨٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ٦٤ (١٣٣٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ان آیتوں کے عمدہ مضمون کا اثر دل پر ایسا ہوا کہ دل ہی ہاتھ سے جانے کو تھا، سبحان اللہ ایک تو قرآن کا اثر کیا کم ہے، دوسرے نبی اکرم ﷺ کی زبان مبارک سے آیتوں کی تلاوت، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شفق کے ختم ہونے تک مغرب کا وقت پھیلا ہوا ہے۔

【31】

مغرب کی نماز میں قرات

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ مغرب کی نماز میں قل يا أيها الکافرون اور قل هو الله أحد پڑھتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٧٢٢) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٩٢ (٤١٧) ، سنن النسائی/الافتتاح ٦٨ (٩٩٣) ، مسند احمد (٢/٩٤، ٩٥، ٩٩) (شاذ) (یہ حدیث شاذ ہے، اس لئے کہ محفوظ اور ثابت حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ ان دونوں سورتوں کو مغرب کی سنت میں پڑھتے تھے، ملاحظہ ہو : المشکاة : ٨٥٠ ) وضاحت : ١ ؎: یہ حدیث شاذ یعنی ضعیف ہے، اوپر گزرا کہ نبی اکرم ﷺ نے مغرب میں سورة والمرسلات اور سورة والطور جیسی درمیانی سورتیں پڑھی ہیں، مغرب میں ہمیشہ چھوٹی سورتوں کو ہی پڑھنا درست نہیں، بقول علامہ ابن القیم یہ مروان اور اس کے متبعین کی سنت ہے، ہم کو رسول اللہ ﷺ کی سنت پر عمل کرنا چاہیے۔

【32】

عشاء کی نماز میں قرآت

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھی، کہتے ہیں : میں نے آپ ﷺ کو والتين والزيتون پڑھتے ہوئے سنا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٠٠ (٧٦٧) ، ١٠٢ (٧٦٩) ، تفسیر التین ١ (٤٩٥٦) ، التوحید ٥٢ (٧٥٤٦) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٦ (٤٦٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٧٥ (١٢٢١) ، سنن الترمذی/الصلاة ١١٥ (٣١٠) ، سنن النسائی/الافتتاح ٧٢ (١٠٠١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/ ٢٨٦، ٣٠٢) (صحیح )

【33】

عشاء کی نماز میں قرآت

اس سند سے بھی براء (رض) سے اسی کے مثل مروی ہے، اس میں ہے کہ براء (رض) نے کہا کہ میں نے کسی بھی انسان کو آپ ﷺ سے اچھی آواز یا قراءت والا نہیں سنا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٠٢ (٧٦٩) ، التوحید ٥٢ (٧٥٤٦) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٦ (٤٦٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٧٥ (١٢٢١) ، سنن الترمذی/الصلاة ١١٥ (٣١٠) ، سنن النسائی/الافتتاح ٧٢ (١٠٠١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصلاة ٥ (٧) ، مسند احمد (٤/٢٩٨، ٣٠٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سبحان اللہ، نبی اکرم ﷺ تمام کمالات اور صفات انسانی اور جمال ظاہری اور باطنی کے مجموعہ تھے، حسن صورت اور حسن سیرت دونوں میں بےنظیر تھے، اور حسن خلق ان سب پر طرہ تھا۔

【34】

عشاء کی نماز میں قرآت

جابر (رض) سے روایت ہے کہ معاذ بن جبل (رض) نے اپنے ساتھیوں کو عشاء کی نماز پڑھائی اور نماز لمبی کردی، تو نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا : یہ سورتیں پڑھا کرو : والشمس وضحاها، سبح اسم ربک الأعلى، والليل إذا يغشى اور اقرأ بسم ربك ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٣٦ (٤٦٥) ، سنن النسائی/الإمامة ٣٩ (٨٣٢) ، ٤١ (٨٣٦) ، الافتتاح ٦٣ (٩٨٥) ، ٧٠ (٩٩٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٩١٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ٦٠ (٧٠١) ، ٦٣ (٧٠٥) ، الأدب ٧٤ (٦١٠٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ٦٨ (٦٠٠) ، ١٢٧ (٧٩٠) ، مسند احمد (٣/٢٩٩، ٣٠٨، ٣٦٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عشاء میں یہ سورتیں اور ان کے ہم مثل سورتیں پڑھنی چاہیے، جیسے سورة بروج، سورة انشقاق، سورة طارق، سورة غاشیہ، سورة فجر اور سورة لم یکن یہ سورتیں حدیث میں مذکور سورتوں کے قریب قریب ہیں، عشاء میں ایسی ہی سورتیں پڑھنا سنت ہے تاکہ مقتدیوں پر بوجھ نہ ہو۔

【35】

امام کے پیچھے قرأت کرنا

عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس شخص کی نماز نہیں جو سورة فاتحہ نہ پڑھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٩٥ (٧٥٦) ، صحیح مسلم/الصلاة ١١ (٣٩٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٣٦ (٨٢٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ٦٩ (٢٤٧) ، ١١٥ (٣١١) ، سنن النسائی/الافتتاح ٢٤ (٩١١) ، (تحفة الأشراف : ٥١١٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣١٤، ٣٢٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ٣٦ (١٢٧٨) (صحیح )

【36】

امام کے پیچھے قرأت کرنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے کوئی نماز پڑھی اور اس میں سورة فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص و ناتمام ہے ، ابوالسائب کہتے ہیں کہ میں نے کہا : اے ابوہریرہ ! کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں (تو کیا پھر بھی سورة فاتحہ پڑھوں) ابوہریرہ (رض) نے میرا بازو دبایا اور کہا : اے فارسی ! اسے اپنے دل میں پڑھ لیا کر۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ١١ (٣٩٥) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٣٥ (٨٢١) ، سنن الترمذی/تفسیر الفاتحة (٢٩٥٣) ، سنن النسائی/الافتتاح ٢٣ (٩١٠) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٣٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصلاة ٩ (٣٩) ، مسند احمد (٢/٢٤١، ٢٥٠، ٢٨٥، ٢٩٠، ٤٥٧، ٤٧٨، ٤٨٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی بہرحال ہر شخص کو ہر رکعت میں سورة فاتحہ پڑھنا چاہیے، امام ہو یا مقتدی، سری نماز ہو یا جہری، اہل حدیث کا یہی مذہب ہے، اور دلائل کی روشنی میں یہی قوی ہے، اور امام بخاری (رح) نے اس مسئلہ میں القراء ۃ خلف الإمام نامی ایک رسالہ تحریر فرمایا ہے، اور امام شافعی کا بھی یہی قول ہے، ابوحنیفہ (رح) کہتے ہیں کہ مقتدی کسی نماز میں قراءت نہ کرے نہ سری نماز میں نہ جہری نماز میں اور دلیل ان کی یہ ہے : اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو (سورة الأعراف : 204) ، اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت سے سورة فاتحہ کا نہ پڑھنا ثابت نہیں ہوتا، اس لئے کہ مقتدی کو آہستہ سے سورة فاتحہ پڑھنا چاہیے جیسے ابوہریرہ (رض) نے کہا کہ اپنے دل میں پڑھ لے، اور یہ مثل خاموش رہنے کے ہے، خاموش رہنے کا مطلب یہ ہے کہ آواز بلند نہ کرو، تاکہ امام کی قراءت میں حرج واقع نہ ہو، اور دوسری حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ جب تم امام کے پیچھے ہو تو سوائے سورة فاتحہ کے کچھ نہ پڑھو کیونکہ جو آدمی سورة فاتحہ نہ پڑھے تو اس کی نماز نہیں ہوتی، تنویر العینین میں ہے کہ جو بھی صورت ہو اور جس طرح بھی ہو بہر حال سورة فاتحہ کا پڑھ لینا ہی بہتر ہے، اور یہی مقتدی کے لئے مناسب ہے، اور بیہقی نے یزید بن شریک سے روایت کی کہ انہوں نے عمر (رض) سے قراءت خلف الامام کے بارے پوچھا تو عمر (رض) نے کہا : سورة فاتحہ پڑھا کرو ، یزید نے کہا : اگرچہ جہری نماز میں ہو ؟ تو عمر (رض) نے کہا : اگرچہ جہری نماز میں ہو ، احناف کی دوسری دلیل یہ حدیث ہے جس میں آپ نے ﷺ فرمایا : مالی انازع القرآن، اور اس کا جواب یہ ہے کہ منازعت (چھینا جھپٹی) اسی وقت ہوگی جب مقتدی بآواز بلند قراءت کرے، اور آہستہ سے صرف سورة فاتحہ پڑھ لینے میں کسی منازعت کا اندیشہ نہیں، اور اسی حدیث میں یہ وارد ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : سورة فاتحہ کے علاوہ اور کچھ نہ پڑھو ، اور ممکن ہے کہ مقتدی امام کے سکتوں میں سورة فاتحہ پڑھے، پس آیت اور حدیث دونوں کی تعمیل ہوگئی، اور کئی ایک حنفی علماء نے اس کو اعدل الاقوال کہا ہے، صحیح اور مختار مذہب یہ ہے کہ مقتدی ہر نماز میں جہری ہو یا سری سورة فاتحہ ضرور پڑھے، اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ سورة فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے جس کے بغیر نماز نہیں ہوتی، خلاصہ کلام یہ کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ سورة فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی ہے، خواہ وہ فرض ہو یا نفل اور خواہ پڑھنے والا اکیلے پڑھ رہا ہو یا جماعت سے، امام ہو یا مقتدی ہر شخص کے لیے ہر رکعت میں سورة فاتحہ پڑھنا ضروری ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوگی کیونکہ لا نفی جس پر آتا ہے اس سے ذات کی نفی مراد ہوتی ہے، اور یہی اس کا حقیقی معنی ہے، یہ صفات کی نفی کے لیے اس وقت آتا ہے جب ذات کی نفی مشکل اور دشوار ہو، اور اس حدیث میں ذات کی نفی کوئی مشکل نہیں کیونکہ از روئے شرع نماز مخصوص اقوال و افعال کو مخصوص طریقے سے ادا کرنے کا نام ہے ، لہذا بعض یا کل کی نفی سے ذات کی نفی ہوجائے گی، اور اگر بالفرض ذات کی نفی نہ ہوسکتی ہو تو وہ معنی مراد لیا جائے گا جو ذات سے قریب تر ہو، اور وہ صحت کی نفی ہے نہ کہ کمال کی، اس لیے کہ صحت اور کمال ان دونوں مجازوں میں سے صحت ذات سے اقرب اور کمال ذات سے ابعد ہے اس لیے یہاں صحت کی نفی مراد ہوگی جو ذات سے اقرب ہے نہ کہ کمال کی نفی کیونکہ وہ صحت کے مقابلے میں ذات سے ابعد ہے۔

【37】

امام کے پیچھے قرأت کرنا

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس شخص کی نماز نہیں جو فرض و نفل کی ہر رکعت میں الحمد لله اور کوئی دوسری سورت نہ پڑھے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٣٥٩، ومصباح الزجاجة : ٣٠٦) (ضعیف) (ابو سفیان طریف بن شہاب السعدی ضعیف ہیں، اصل حدیث صحیح مسلم میں ہے، نیز ملاحظہ ہو : صحیح ابو داود : ٧٧٧ )

【38】

امام کے پیچھے قرأت کرنا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : ہر وہ نماز جس میں سورة فاتحہ نہ پڑھی جائے، ناقص ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦١٨١، ومصباح الزجاجة : ٣٠٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٤٢، ٢٧٥) (حسن صحیح) (اس سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، لیکن اصل حدیث صحیح اور ثابت ہے )

【39】

امام کے پیچھے قرأت کرنا

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر وہ نماز جس میں سورة فاتحہ نہ پڑھی جائے، ناقص ہے، ناقص ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٦٩٤، ومصباح الزجاجة : ٣٠٩) (ط . الجامعة الإسلامیة) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٠٤، ٢١٥) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ ایک رکن چھوٹ گیا پس معلوم ہوا کہ سورة فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے۔

【40】

امام کے پیچھے قرأت کرنا

ابوالدرداء (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے ان سے پوچھا اور کہا : جس وقت امام قراءت کر رہا ہو کیا میں امام کے پیچھے قراءت کروں ؟ تو انہوں نے کہا کہ ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا : کیا ہر نماز میں قراءت ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ، یہ سن کر لوگوں میں سے ایک شخص بولا : اب تو قراءت واجب ہوگئی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٤٤، ومصباح الزجاجة : ٣٠٨) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الافتتاح ٣١ (٩٢٤) ، مسند احمد (١/٤٤٨) (ضعیف الإسناد) (اس حدیث کی سند میں معاویہ بن یحییٰ الصدفی ضعیف ہیں )

【41】

امام کے پیچھے قرأت کرنا

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم ظہر و عصر میں امام کے پیچھے پہلی دونوں رکعتوں میں سورة فاتحہ اور کوئی ایک سورة پڑھتے تھے، اور آخری دونوں رکعتوں میں صرف سورة فاتحہ پڑھتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣١٤٤، ومصباح الزجاجة : ٣٠٩) (صحیح )

【42】

امام کے دو سکتوں کے بارے میں

سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دو سکتے یاد رکھے ہیں، عمران بن حصین (رض) نے اس کا انکار کیا، اس پر ہم نے مدینہ میں ابی بن کعب (رض) کو لکھا، تو انہوں نے لکھا کہ سمرہ (رض) نے ٹھیک یاد رکھا ہے۔ سعید نے کہا : ہم نے قتادہ سے پوچھا : وہ دو سکتے کون کون سے ہیں ؟ انہوں نے کہا : ایک تو وہ جب آپ ﷺ نماز شروع کرتے اور دوسرا جب قراءت فاتحہ سے فارغ ہوتے۔ پھر بعد میں قتادہ نے کہا : دوسرا سکتہ اس وقت ہوتا جب غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہہ لیتے، قتادہ نے کہا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ پسند تھا کہ جب امام قراءت سے فارغ ہوجائے تو تھوڑی دیر خاموش رہے، تاکہ اس کا سانس ٹھکانے آجائے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٢٣ (٧٧٩، ٧٨٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ٧٢ (٢٥١) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٨٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢١) (ضعیف) (اس حدیث کی سند میں حسن بصری ہیں، ان کا سماع سمرہ (رض) سے عقیقہ والی حدیث کے سوا کسی اور حدیث میں ثابت نہیں ہے، اس بناء پر یہ حدیث ضعیف ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٥٠٥ ) وضاحت : ١ ؎: یہ بھی جائز ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی سورت بھی پڑھے، پھر سورة فاتحہ کا پڑھنا کیونکر جائز نہ ہوگا، لیکن اولی یہ ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی صرف سورة فاتحہ پر قناعت کرلے، امام محمد نے موطا میں عبداللہ بن شداد سے مرسلاً روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے نماز میں امامت کی، ایک شخص نے آپ ﷺ کے پیچھے قراءت کی، تو اس کے پاس والے نے اس کی چٹکی لی، جب وہ نماز پڑھ چکا تو بولا : تم نے چٹکی کیوں لی، پاس والے نے کہا : نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس کا امام ہو تو امام کی قراءت مقتدی کے لئے بھی کافی ہے ، اس سے یہی مراد ہے کہ سورة فاتحہ کے علاوہ مقتدی اور دوسری سورة نہ پڑھے، اس باب کی تمام احادیث سے ثابت ہے کہ ہر نماز میں خواہ فرض ہو یا نفل، جہری ہو یا سری سورة فاتحہ پڑھنا ضروری ہے، بغیر فاتحہ پڑھے کوئی نماز درست نہیں ہوتی، یہ وہ مسئلہ ہے کہ امام المحدثین محمد بن اسماعیل البخاری نے اس پر مستقل کتاب لکھی ہے، اور امام بیہقی نے ان سے بھی کئی گنا ضخیم کتاب لکھی ہے، اور سورة فاتحہ کے نہ پڑھنے والوں کے تمام شہبات کا مسکت جو اب دیا ہے، نیز مولانا عبدالرحمن محدث مبارکپوری، اور مولانا ارشاد الحق نے اس موضوع پر مدلل کتابیں لکھی ہیں۔

【43】

امام کے دو سکتوں کے بارے میں

حسن بصری کہتے ہیں کہ سمرہ (رض) نے کہا کہ میں نے نماز میں دو سکتے یاد کئے، ایک سکتہ قراءت سے پہلے اور ایک سکتہ رکوع کے وقت، اس پر عمران بن حصین (رض) نے ان کا انکار کیا تو لوگوں نے مدینہ ابی بن کعب (رض) کو لکھا تو انہوں نے سمرہ (رض) کی تصدیق کی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٢٤ (٧٨٢) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١١، ٢١، ٢٣) (ضعیف) (اس حدیث میں حسن بصری ہیں جن کا سماع سمرہ (رض) سے حدیث عقیقہ کے علاوہ کسی اور حدیث سے ثابت نہیں ہے، اس لئے یہ حدیث ضعیف ہے، ملاحظہ ہو : حدیث نمبر ٨٤٤ )

【44】

جب امام قرأت کرے تو خاموش ہو جاؤ

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : امام اس لیے ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، لہٰذا جب وہ ألله أكبر کہے تو تم بھی ألله أكبر کہو، اور جب قراءت کرے تو خاموشی سے اس کو سنو ١ ؎، اور غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہے تو آمین کہو، اور جب رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اور جب سمع الله لمن حمده کہے تو اللهم ربنا ولک الحمد کہو، اور جب سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو، اور جب بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تم سب بھی بیٹھ کر پڑھو ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٦٩ (٦٠٤) ، سنن النسائی/الافتتاح ٣٠ (٩٢٢، ٩٢٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢٣١٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ٧٤ (٧٢٢) ، صحیح مسلم/الصلاة ١٩ (١٤٤) ، مسند احمد (٢/٣٧٦، ٤٢٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ٧١ (١٣٥٠) ، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٩٦٠، ١٢٣٩) (حسن صحیح )

【45】

جب امام قرأت کرے تو خاموش ہو جاؤ

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب امام جہری قراءت کرے تو تم خاموش رہو، اور جب وہ قعدہ میں ہو تو تم میں سے ہر ایک پہلے التحيات پڑھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ١٦ (٤٠٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٨٢ (٩٧٢، ٦٠٤) ، سنن النسائی/الإمامة ٣٨ (٨٣١) ، التطبیق ٢٣ (١٠٦٥) ، السہو ٤٤ (١٢٨١) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٠١، ٠٥ ٤، ٤٠٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ٧١ (١٣٥١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی زور سے قراءت نہ کرو، یہ مطلب نہیں کہ سورة فاتحہ نہ پڑھو، کیونکہ فاتحہ کے بغیر نماز ہی نہیں ہوتی، کیونکہ دوسری حدیثوں سے جو خود ابوہریرہ (رض) سے مروی ہیں یہ ثابت ہے کہ مقتدی کو سورة فاتحہ ہر ایک نماز میں پڑھنا چاہیے، ابھی اوپر گزرا کہ ابوالسائب نے ابوہریرہ (رض) سے کہا کہ میں کبھی امام کے پیچھے ہوتا ہوں ؟ انہوں نے کہا : اے فارسی ! اپنے دل میں پڑھ لو، بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ امام کی قراءت کے وقت مقتدی زور سے قراءت نہ کرے، کیونکہ ایسا کرنے سے امام کو تکلیف ہوتی ہے، کبھی وہ بھول جاتا ہے۔ ٢ ؎: اگر امام کسی عذر کے سبب بیٹھ کر نماز پڑھائے، تو مقتدی کھڑے ہو کر نماز پڑھیں، اگر وہ معذور نہیں ہیں، اس حدیث کا یہ حکم کہ امام بیٹھ کر پڑھائے تو بیٹھ کر پڑھو منسوخ ہے، مرض الوفات کی حدیث سے۔

【46】

جب امام قرأت کرے تو خاموش ہو جاؤ

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے صحابہ کو کوئی نماز پڑھائی، (ہمارا خیال ہے کہ وہ صبح کی نماز تھی) نماز سے فراغت کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم میں سے کسی نے قراءت کی ہے ؟ ، ایک آدمی نے کہا : جی ہاں، میں نے کی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : میں سوچ رہا تھا کہ کیا بات ہے قرآن پڑھنے میں کوئی مجھ سے منازعت (کھینچا تانی) کر رہا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٣٧ (٨٢٦، ٨٢٧) ، سنن الترمذی/الصلاة ١١٧ (٣١٢) ، سنن النسائی/الافتتاح ٢٨ (٩٢٠) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٦٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصلاة ١٠ (٤٤) ، مسند احمد (٢/٢٤٠، ٢٨٤، ٢٨٥، ٣٠٢، ٤٨٧) (صحیح )

【47】

جب امام قرأت کرے تو خاموش ہو جاؤ

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی، اس کے بعد پہلی جیسی روایت ذکر کی، البتہ اس میں اتنا زیادہ ہے : پھر لوگوں نے جہری نماز میں خاموشی اختیار کرلی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٦٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جہری نماز میں لوگوں نے آواز سے پڑھنا چھوڑ دیا، یا سورت کا پڑھنا ہی چھوڑ دیا، اور یہ مطلب نہیں ہے کہ سورت فاتحہ کا پڑھنا بھی چھوڑ دیا جیسا حنفیہ نے سمجھا ہے کیونکہ اس کے بغیر تو نماز ہی نہیں ہوتی، واضح رہے کہ حدیث کا آخری ٹکڑا فسکتوا مدرج ہے، زہری کا کلام ہے۔

【48】

جب امام قرأت کرے تو خاموش ہو جاؤ

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کے لیے امام ہو تو امام کی قراءت اس کی قراءت ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٦٧٥، ومصباح الزجاجة : ٣١٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٣٩) (ضعیف) (سند میں جابر الجعفی ضعیف بلکہ متہم بالکذب راوی ہے، اس لئے علماء کی اکثریت نے اس حدیث کی تضعیف فرمائی ہے، شیخ البانی نے شواہد کی بناء پر اس کی تحسین کی ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٨٥٠ ، نیز ملاحظہ ہو : مصباح الزجاجة : و فتح الباری : ٢ /٢٤٢ وسنن الترمذی ب تحقیق احمد شاکر ٢ /١٢١-١٢٦، و سنن الدار قطنی : ١ /٣٢٣- ٣٣٣ ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث کے بارے میں علامہ ذہبی فرماتے ہیں : له طرق أخرى كلها واهية یعنی اس حدیث کے تمام کے تمام طرق واہی ہیں، علامہ ابن حجر فرماتے ہیں : طرق کلها معلولة یعنی اس کے تمام طرق معلول ہیں، امام بخاری جزء قراء ت میں فرماتے ہیں : هذا خبر لم يثبت عند أهل العلم من أهل الحجاز وأهل العراق وغيرهم لإرساله و انقطاعه یعنی یہ حدیث حجاز و عراق وغیرہ کے اہل علم کے نزدیک بسبب مرسل اور منقطع ہونے کے ثابت نہیں، اور اگر ثابت مان بھی لیا جائے، تو اس کا معنی یہ ہے کہ صرف سورة فاتحہ پڑھے کچھ اور پڑھنے کی ضرورت نہیں، فاتحہ کافی ہے تاکہ اس کا معنی دوسری احادیث کے مطابق ہوجائے۔

【49】

آواز سے آمین کہنا۔

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، اس لیے کہ فرشتے بھی آمین کہتے ہیں، اور جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے، تو اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١١١ (٧٨٠) ، ١١٣ (٧٨٢) ، التفسیر ٢ (٤٤٧٥) ، الدعوات ٦٣ (٦٤٠٢) ، سنن النسائی/الافتتاح ٣٣ (٩٢٧، ٩٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٣٦) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصلاة ١٨ (٤١٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٧٢ (٩٣٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ٧١ (٢٥٠) ، موطا امام مالک/الصلاة ١١ (قبیل ٤٥) ، مسند احمد (٢/٢٣٨، ٤٦٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ٣٨ (١٢٨٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے امام نسائی نے امام کے بلند آواز سے آمین کہنے پر استدلال کیا ہے کیونکہ اگر امام آہستہ آمین کہے گا تو مقتدیوں کو امام کے آمین کہنے کا علم نہیں ہو سکے گا تو ان سے امام کے آمین کہنے کے وقت آمین کہنے کا مطالبہ درست نہ ہوگا۔

【50】

آواز سے آمین کہنا۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب امام (آمین) کہے تو تم بھی آمین کہو ١ ؎، اس لیے کہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہوگئی، اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الافتتاح ٣٣ (٩٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٨٧) ، وحدیث سلمة بن عبد الرحمن تفرد بہ ابن ماجہ ١٥٣٠٢، (تحفة الأشراف : ١٥٣٠٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی پہلے امام بلند آواز سے آمین کہے، پھر مقتدی بھی آواز سے آمین کہیں، اور اس کی دلیل میں کئی حدیثیں ہیں، اور حنفیہ کہتے ہیں کہ آمین آہستہ سے کہنا چاہیے، اور دلیل دیتے ہیں وائل کی حدیث سے جس میں یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب غير المغضوب عليهم ولا الضالين پر پہنچے تو آہستہ سے آمین کہی، (مسند امام احمد، مسند ابویعلی، طبرانی، دارقطنی، مستدرک الحاکم) ہم کہتے ہیں کہ خود اس حدیث سے زور سے آمین کہنا ثابت ہوتا ہے، ورنہ وائل نے کیوں کر سنا اور سفیان نے اس حدیث کو وائل سے روایت کیا، اس میں یہ ہے کہ آپ ﷺ نے آمین کہی بلند آواز سے، اور صاحب ہدایہ نے آمین کو دھیرے سے کہنے پر ابن مسعود (رض) کے قول سے استدلال کیا ہے، اور وہ روایت ضعیف ہے، نیز صحابی کا قول مرفوع حدیثوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا، اور یہ بھی ممکن ہے کہ ابن مسعود (رض) کی مراد اخفاء سے یہ ہو کہ زور سے کہنے میں مبالغہ نہ کرے، واللہ اعلم۔

【51】

آواز سے آمین کہنا۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ لوگوں نے آمین کہنا چھوڑ دیا حالانکہ رسول اللہ ﷺ جب غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہتے تو آمین کہتے، یہاں تک کہ پہلی صف کے لوگ سن لیتے، اور آمین سے مسجد گونج اٹھتی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٤٤، ومصباح الزجاجة : ٣١١) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٧٢ (٩٣٤) (ضعیف) (اس کی سند میں ابو عبداللہ مجہول ہیں، اور بشر بن رافع ضعیف ہیں، اس لئے ابن ماجہ کی یہ روایت جس میں فيرتج بها المسجد (جس سے مسجد گونج جائے) کا لفظ ضعیف ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٤٦٥ )

【52】

آواز سے آمین کہنا۔

علی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا کہ جب آپ ﷺ ولا الضالين کہتے تو آمین کہتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٦٥، ومصباح الزجاجة : ٣١٢) (صحیح) (اس حدیث کی سند میں محمد بن عبد الرحمن بن أبی لیلیٰ ضعیف ہیں، لیکن بعد میں آنے والی صحیح سندوں سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : المشکاة : ٨٤٥ ، فواد عبد الباقی اور خلیل مامون شیحا کے نسخوں میں اور مصباح الزجاجہ کے دونوں نسخوں میں عثمان بن ابی شیبہ ہے، مشہور حسن نے ابوبکر بن ابی شیبہ ثبت کیا ہے، اور ایسے تحفة الأشراف میں ہے، اس لئے ہم نے ابوبکر کو ثبت کیا ہے، جو ابن ماجہ کے مشاہیر مشائخ میں ہیں، اس لئے کہ امام مزی نے تحفہ میں یہی لکھا ہے، اور تہذیب الکمال میں حمید بن عبدالرحمن کے ترجمہ میں تلامیذ میں ابوبکر بن ابی شیبہ کے نام کے آگے (م د ق) کا رمز ثبت فرمایا ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ صحیح مسلم، ابوداود، اور ابن ماجہ میں ابوبکر کے شیخ حمید بن عبد الرحمن ہی ہیں، ملاحظہ ہو، تہذیب الکمال : ( ٧ / ٣٧٧) ، اور عثمان بن ابی شیبہ کے سامنے (خ م) یعنی بخاری و مسلم کا رمز دیا ہے، یعنی ان دونوں کتابوں میں حمید سے روایت کرنے والے عثمان ہیں، ایسے ہی عثمان کے ترجمہ میں حمید بن عبد الرحمن کے آگے (خ م) کا رمز دیا ہے ) وضاحت : ١ ؎: آمین کے معنی ہیں قبول فرما، اور بعضوں نے کہا کہ آمین اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے، اور بہر حال زور سے آمین کہنا سنت نبوی اور باعث اجر ہے، اور جو کوئی اس کو برا سمجھے اس کو اپنی حدیث مخالف روش پر فکر مند ہونا چاہیے کہ وہ حدیث رسول کے اعراض سے کیوں کر اللہ کے یہاں سرخرو ہو سکے گا۔

【53】

آواز سے آمین کہنا۔

وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، جب آپ نے ولا الضالين کہا، تو اس کے بعد آمین کہا، یہاں تک کہ ہم نے اسے سنا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٧٦٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٧٢ (٩٣٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ٧٠ (٢٤٨) ، سنن النسائی/الافتتاح ٤ (٨٨٠) ، مسند احمد (٤/٣١٥، ٣١٧، سنن الدارمی/الصلاة ٣٩ (١٢٨٣) (صحیح )

【54】

آواز سے آمین کہنا۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : یہود نے تم سے کسی چیز پر اتنا حسد نہیں کیا جتنا سلام کرنے، اور آمین کہنے پر حسد کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٧٤، ومصباح الزجاجة : ٣١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٢٥) (صحیح )

【55】

آواز سے آمین کہنا۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہود نے تم سے کسی چیز پر اتنا حسد نہیں کیا جتنا آمین کہنے پر کیا، لہٰذا تم آمین کثرت سے کہا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٨٩٧، ومصباح الزجاجة : ٣١٤) (ضعیف جدا) (سند میں طلحہ بن عمرو متروک ہے، اس لئے یہ ضعیف ہے، لیکن اصل حدیث بغیر آخری ٹکڑے فأکثروا من قول آمين کے ثابت ہے )

【56】

رکوع کرتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھانا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ آپ ان دونوں ہاتھوں کو اپنے کندھوں کے مقابل لے جاتے، اور جب رکوع میں جاتے، اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے، (تو بھی اسی طرح ہاتھ اٹھاتے رفع یدین کرتے) اور دونوں سجدوں کے درمیان آپ ہاتھ نہ اٹھاتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٩ (٧٢١) ، سنن ابی داود/الصلاة ١١٦ (٢٥٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ٧٦ (٨٧٥) ، سنن النسائی/الافتتاح ١ (٨٧٧) ، التطبیق ١٩ (١٠٥٨) ، ٢١ (١٠٦٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٨١٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ٨٣ (٧٣٥) ، ٨٤ (٧٣٦) ، ٨٥ (٧٣٨) ، ٨٦ (٧٣٩) ، موطا امام مالک/الصلاة ٤ (١٦) ، مسند احمد (٢/٨، ١٨، ٤٤، ٤٥، ٤٧، ٦٢، ١٠٠، ١٤٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ٤١ (١٢٨٥) ، ٧١ (١٣٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے نماز شروع کرتے وقت، رکوع جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کا مسنون ہونا ثابت ہوگیا ہے، جو لوگ اسے منسوخ یا مکروہ کہتے ہیں ان کا قول درست نہیں۔

【57】

رکوع کرتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھانا

مالک بن حویرث (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب تکبیر تحریمہ کہتے، تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کانوں کے قریب تک اٹھاتے، اور جب رکوع میں جاتے تو بھی اسی طرح کرتے (یعنی رفع یدین کرتے) ، اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو بھی ایسا ہی کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ الصلاة ٩ (٣٩١) ، سنن ابی داود/الصلاة ١١٨ (٧٤٥) ، سنن النسائی/ الافتتاح ٤ (٨٨٢) ، التطبیق ١٨ (١٠٥٧) ، ٣٦ (١٠٨٦، ١٠٨٧) ، ٨٤ (١١٤٤) ، (تحفة الأشراف : ١١١٨٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ٨٤ (٧٣٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ٤١ (١٢٨٦) (صحیح )

【58】

رکوع کرتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھانا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ اپنے دونوں ہاتھ نماز میں مونڈھوں (کندھوں) کے بالمقابل اٹھاتے جس وقت نماز شروع کرتے، جس وقت رکوع کرتے (یعنی رفع یدین کرتے) ، اور جس وقت سجدہ کرتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٦٥٥، ومصباح الزجاجة : ٣١٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصلاة ٤ (١٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ٤١ (١٢٨٥) (صحیح) (اسماعیل بن عیاش کی روایت اہل حجاز سے ضعیف ہے، لیکن دوسرے طرق و شواہد سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود : ٧٢٤ ) وضاحت : ١ ؎: سجدے کے وقت بھی رفع یدین کرنا اس روایت میں وارد ہے۔

【59】

رکوع کرتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھانا

عمیر بن حبیب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے دونوں ہاتھ ہر تکبیر کے ساتھ فرض نماز میں اٹھاتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٩٦، ومصباح الزجاجة : ٣١٦) (صحیح) (اس سند میں رفدة بن قضاعہ ضعیف راوی ہیں، اور عبد اللہ بن عبید بن عمیر نے اپنے والد سے کچھ نہیں سنا ہے، کما فی التاریخ الأوسط والتاریخ الکبیر : ٥ /٤٥٥، اور تاریخ کبیر میں عبد اللہ کے والد کے ترجمہ میں ہے کہ انہوں نے اپنے والد سے سنا ہے، بایں ہمہ طرق شواہد کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود : ٧٢٤ )

【60】

رکوع کرتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھانا

محمد بن عمرو بن عطاء کہتے ہیں کہ میں نے ابو حمید ساعدی کو کہتے سنا اور وہ رسول اللہ ﷺ کے دس اصحاب کے بیچ میں تھے جن میں سے ایک ابوقتادہ بن ربعی تھے، ابو حمید ساعدی (رض) نے کہا : میں تم میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کو سب سے زیادہ جانتا ہوں، آپ ﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو سیدھے کھڑے ہوجاتے، اور اپنے دونوں ہاتھ مونڈھوں کے بالمقابل اٹھاتے، پھر ألله أكبر کہتے، اور جب رکوع میں جانے کا ارادہ کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ مونڈھوں کے بالمقابل اٹھاتے، اور جب سمع الله لمن حمده کہتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور سیدھے کھڑے ہوجاتے، اور جب دو رکعت کے بعد (تیسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوتے تو ألله أكبر کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ مونڈھوں کے بالمقابل اٹھاتے (یعنی رفع یدین کرتے) ، جیسا کہ نماز شروع کرتے وقت کیا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٨٥ (٨٢٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ١١٧ (٩٦٤، ٩٦٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ٧٨ (٣٠٤، ٣٠٥) ، سنن النسائی/التطبیق ٦ (١٠٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٢٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ٧٠ (١٣٤٦) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ١٠٦١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ حدیث صحیح ہے، اور اس میں دس صحابہ کی رفع یدین پر گواہی ہے، کیونکہ سب نے سکوت اختیار کیا، اور کسی نے ابوحمید (رض) پر نکیر نہیں کی، ان دس میں حسن بن علی (رض) بھی تھے۔

【61】

رکوع کرتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھانا

عباس بن سہل ساعدی (رض) کہتے ہیں کہ ابو حمید ساعدی، ابواسید ساعدی، سہل بن سعد اور محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہم اکٹھے ہوئے، اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی نماز کا تذکرہ کیا، ابوحمید (رض) نے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کو تم سب سے زیادہ جانتا ہوں، آپ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو ألله أكبر کہتے، اور دونوں ہاتھ اٹھاتے، پھر جب رکوع کے لیے ألله أكبر کہتے تو دونوں ہاتھ اٹھاتے، پھر جب رکوع سے اٹھتے تو دونوں ہاتھ اٹھاتے (یعنی رفع یدین کرتے) ، اور سیدھے کھڑے رہتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی جگہ واپس لوٹ آتی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١١٧ (٧٣٣، ٧٣٤) ، التشہد ١٨١ (٩٦٦، ٩٦٧) ، سنن الترمذی/الصلاة ٧٨ (٢٦٠) ، ٨٦ (٢٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٩٢) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الصلاة ٧٠ (١٣٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ تیسری رکعت کے لئے اٹھتے وقت بھی رفع یدین کرتے تھے، اس طرح کل چار جگہیں ہوئیں جس میں آپ رفع یدین کرتے تھے، تکبیر تحریمہ کے وقت، رکوع جاتے وقت، رکوع سے اٹھتے وقت، اور تیسری رکعت کے لئے اٹھتے وقت۔

【62】

رکوع کرتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھانا

علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو ألله أكبر کہتے، اور اپنے دونوں ہاتھ مونڈھوں کے مقابل اٹھاتے، اور جب رکوع کا ارادہ کرتے تو اسی طرح کرتے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اسی طرح کرتے (یعنی رفع یدین کرتے) ، اور جب دو سجدوں (یعنی رکعتوں کے بعد) اٹھتے تو اسی طرح کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة المسافرین ٢٦ (٧٧١) ، سنن الترمذی/الصلاة ٨٢ (٢٦٦) ، الدعوات ٣٢ (٣٤٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٢٨) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ١١٨ (٧٤٤) ، سنن النسائی/الافتتاح ١٧ (٨٩٨) ، موطا امام مالک/الصلاة ٤ (١٧) ، مسند احمد (١/٩٣، ١٠٢، ١١٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ٣٣ (١٢٧٧) (حسن صحیح )

【63】

رکوع کرتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھانا

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر تکبیر کے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٧٢٧، ومصباح الزجاجة : ٣١٧) (صحیح) (سند میں عمر بن ریاح متروک ہے، لیکن کثرت شواہد کی وجہ سے اصل حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : صحیح ابوداود : ٧٢٤ )

【64】

رکوع کرتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھانا

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز میں داخل ہوتے، اور جب رکوع کرتے، تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے تھے (یعنی رفع یدین کرتے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٢٣، ومصباح الزجاجة : ٣١٨) (صحیح) (اسناد صحیح ہے، لیکن دار قطنی نے موقوف کو صواب کہا ہے، اس لئے عبد الوہاب الثقفی کے علاوہ کسی نے اس حدیث کو مرفوعاَ حمید سے روایت نہیں کی ہے، جب کہ حدیث کی تصحیح ابن خزیمہ اور ابن حبان نے کی ہے، اور البانی صاحب نے بھی صحیح کہا ہے، نیز ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود : ٧٢٤ )

【65】

رکوع کرتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھانا

وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ رسول اللہ ﷺ کو میں ضرور دیکھوں گا کہ آپ کیسے نماز پڑھتے ہیں، (چنانچہ ایک روز میں نے دیکھا) کہ آپ ﷺ نماز کے لیے کھڑے ہوئے، قبلے کی طرف رخ کیا، اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں کانوں کے بالمقابل کیا، پھر جب رکوع کیا تو (بھی) اسی طرح اٹھایا (یعنی رفع یدین کیا) ، اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھایا، تو (بھی) اسی طرح اٹھایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١١٦ (٧٢٦) ، سنن النسائی/الافتتاح ٤ (٨٨٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣١٥، ٣١٨، ٣١٨، ٣١٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ٤١ (١٢٨٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مالک بن حویرث اور وائل بن حجر (رض) دونوں ان صحابہ میں سے ہیں جنہوں نے نبی اکرم ﷺ کی آخری عمر میں آپ کے ساتھ نماز پڑھی ہے، اس لئے ان دونوں کا اسے روایت کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ رفع الیدین کے منسوخ ہونے کا دعویٰ باطل ہے۔

【66】

رکوع کرتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھانا

ابوالزبیر سے روایت ہے کہ جابر بن عبداللہ (رض) جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے، اور جب رکوع کے لیے جاتے، یا رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی اسی طرح کرتے (یعنی رفع یدین کرتے) اور کہتے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسے ہی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ابراہیم بن طہمان (راوی حدیث) نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں کانوں تک اٹھا کر بتایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٦٥٠، ومصباح الزجاجة : ٣١٩) (صحیح )

【67】

نماز میں رکوع

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب رکوع کرتے تو نہ اپنا سر اونچا رکھتے، اور نہ نیچا رکھتے بلکہ ان دونوں کے بیچ سیدھا رکھتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٤٠، ومصباح الزجاجة : ٣٢٠) ، وقد أخرجہ : (مطولاً ) صحیح مسلم/الصلاة ٤٦ (٤٩٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٢٤ (٧٨٣) ، مسند احمد (٦/٣١، ١١٠، ١٧١، ١٩٤، ٢٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس طرح کہ پیٹھ اور گردن برابر رکھتے، اور اسی طرح سے بالاجماع رکوع کرنا سنت ہے، اور اہل حدیث کے نزدیک یہ تعدیل ارکان میں داخل ہے، اور نماز میں تعدیل ارکان فرض ہے، یہی قول ائمہ ثلاثہ اور ابویوسف کا بھی ہے، لیکن ابوحنیفہ اور محمد رحمہما اللہ نے اس کو واجب کہا ہے، اہل حدیث کا بھی یہی مذہب ہے، نماز کے آداب و شروط اور سنن کے ساتھ دو رکعت پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ بہت ساری نماز پڑھی جائیں جن میں سنت کا اہتمام نہ کیا جائے، اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو نیک عمل کی توفیق دے۔

【68】

نماز میں رکوع

ابومسعود (عقبہ بن عمرو بن ثعلبہ انصاری) (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ نماز درست نہیں ہوتی ہے جس کے رکوع و سجود میں آدمی اپنی پیٹھ سیدھی نہ رکھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٤٨ (٨٥٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ٨١ (٢٦٥) ، سنن النسائی/الافتتاح ٨٨ (١٠٢٨) ، التطبیق ٥٤ (١١١٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٩٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١١٩، ١٢٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ٧٨ (١٣٦٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے یہ بھی نکلتا ہے کہ تعدیل ارکان نماز میں فرض ہے، اور یہی قول ہے اہل حدیث کا اور امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک نفی کمال پر محمول ہے، اور ان کا یہی قاعدہ ہے، وہ اکثر حدیثوں کو جو اس مضمون کی آئی ہیں نفی کمال پر ہی محمول کرتے ہیں، جیسے لا صلاة إلا بفاتحة الکتاب وغیرہ۔

【69】

نماز میں رکوع

علی بن شیبان (رض) سے روایت ہے اور وہ ان لوگوں میں سے تھے جو اپنی قوم کے نمائندہ بن کر آئے تھے، وہ کہتے ہیں : ہم نکلے یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، ہم نے آپ ﷺ سے بیعت کی اور آپ کے پیچھے نماز پڑھی، آپ نے کنکھیوں سے ایک شخص کو دیکھا جو رکوع و سجود میں اپنی پیٹھ سیدھی نہیں کر رہا تھا، جب نبی اکرم ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا : اے مسلمانوں کی جماعت ! اس شخص کی نماز نہیں ہوگی جو رکوع و سجود میں اپنی پیٹھ سیدھی نہ رکھے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٢٠، ومصباح الزجاجة : ٣٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٣) (صحیح )

【70】

نماز میں رکوع

وابصہ بن معبد (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، جب آپ رکوع کرتے تو اپنی کمر برابر رکھتے یہاں تک کہ اگر آپ کی کمر پر پانی ڈال دیا جاتا تو وہ تھم جاتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٧٣٩، ومصباح الزجاجة : ٣٢٢) (صحیح) (سند میں طلحہ بن زید، عثمان بن عطاء، اور ابراہیم بن محمد ضعیف ہیں، لیکن دوسرے طرق اور شواہد سے یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : مصباح الزجاجہ ب تحقیق، د ؍ عوض الشہری، و مجمع الزوائد : ٢ / ١٢٣ ) وضاحت : ١ ؎ : سبحان اللہ، مکمل نماز اس کو کہتے ہیں، یہ تو ظاہری آداب ہیں اور دل کے خشوع و خضوع اور اطمینان اس کے علاوہ ہیں، بڑا ادب یہ ہے کہ نماز میں ادھر ادھر کے دنیاوی خیالات نہ آئیں، اور نمازی یہ سمجھے کہ میں اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے دیکھ رہا ہوں، اگر یہ کیفیت نہ طاری ہو سکے تو یہی سمجھے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اور اس کی ہر ایک حرکت کو دیکھ رہا ہے۔

【71】

گھٹنوں پر ہاتھ رکھنا

معصب بن سعد سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے والد (سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) کے قریب (نماز پڑھتے ہوئے) رکوع کیا تو تطبیق کی۔ انہوں نے میرے ہاتھ پر مارا اور فرمایا : ہم پہلے اس طرح کیا کرتے تھے، پھر ہمیں حکم دیا کہ (ہاتھ) گھٹنوں کے اوپر رکھیں۔ وضاحت : تطبیق کا مطلب یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کو ملا کر انگلیوں میں انگلیاں ڈال کر رانوں کے درمیان ہاتھ رکھے جائیں۔ رکوع کا یہ طریقہ منسوخ ہوچکا ہے۔ جو حکم منسوخ ہوچکا ہو، اس پر عمل کرنا جائز نہیں۔ رکوع کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہاتھ گھٹنوں پر اس طرح رکھے جائیں جس طرح گھٹنوں کو پکڑا جاتا ہے۔

【72】

گھٹنوں پر ہاتھ رکھنا

عائشہ (رض) سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ رکوع کرتے تھے تو اپنے ہاتھ گھٹنوں پر رکھتے تھے اور بازوؤں کو (پہلوؤں سے) دور رکھتے تھے۔

【73】

رکوع سے اٹھائے تو کیا پڑھے ؟

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سمع الله لمن حمده کہہ لیتے تو ربنا ولک الحمد کہتے۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث أبي سلمة أخرجہ : سنن النسائی/الافتتاح ٨٤ (١٠٢٤) ، التطبیق ٩٤ (١١٥٧) ، وحدیث سعید بن المسیب تفرد بہ ابن ماجہ : (تحفة الأشراف : ١٣١١٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/ الأذان ١٢٤ (٧٩٥) ، ١٢٥ (٧٩٦) ، صحیح مسلم/ الصلاة ١٠ (٣٩٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٤٤ (٨٣٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ٨٣ (٢٦٧) ، مسند احمد (٢/٢٣٦، ٢٧٠، ٣٠٠، ٣١٩، ٤٥٢، ٤٩٧، ٥٠٢، ٥٢٧، ٥٣٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث میں اور کئی دوسری حدیثوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ امام سمع الله لمن حمده کہے اور اس کے بعد ربنا ولک الحمد کہے اور مقتدی امام کے ربنا ولک الحمد کہنے کے بعد یہ کلمات کہے، علماء کے درمیان امام اور مقتدی دونوں کے بارے میں اختلاف ہے کہ کیا دونوں ہی یہ دونوں کلمات کہیں یا صرف امام دونوں کلمات کہے اور مقتدی ربنا ولک الحمد پر اکتفاء کرے، یا امام سمع الله لمن حمده پڑھے اور مقتدی ربنا ولک الحمد، شافعیہ اور بعض محدثین کا مذہب ہے کہ امام دونوں کلمات کہے اور مقتدی صرف ربنا ولک الحمد پڑھے، امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک امام صرف سمع الله لمن حمده کہے، اور مقتدی صرف ربنا ولک الحمد، ان کی دلیل یہ حدیث ہے کہ جب امام سمع الله لمن حمده کہے تو تم ربنا ولک الحمد کہو، لیکن اس سے یہ کہاں نکلتا ہے کہ امام ربنا ولک الحمد نہ کہے، یا مقتدی سمع الله لمن حمده نہ کہے، دوسری متعدد صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ نبی اکرم ﷺ دونوں کلمے کہتے تھے، اسی لئے امام طحاوی حنفی نے بھی اس مسئلہ میں ابوحنیفہ (رح) کے قول کو نہیں لیا، اور ب اتباع حدیث یہ حکم دیا ہے کہ امام دونوں کلمے کہے، اب رہ جاتا ہے کہ کیا مقتدی دونوں کلمے کہے یا صرف دوسرے کلمے پر اکتفاء کرے، جب کہ روایت ہے کہ إن النبي ﷺ کان يقول : إنما جعل الإمام ليؤتم به ... وإذا قال : سمع الله لمن حمده فقولوا : اللهم ربنا ولک الحمد يسمع الله لکم فإن الله تبارک وتعالى قال على لسان نبيه ﷺ: سمع الله لمن حمده (صحیح مسلم، ابوعوانہ، مسند احمد، سنن ابی داود) نبی اکرم ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ امام تو صرف اسی لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے جب امام سمع الله لمن حمده کہے تو تم اللهم ربنا ولک الحمد کہو اللہ تمہاری سنے گا، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم ﷺ کی زبان مبارک سے یہ بات کہی ہے کہ اللہ کی جس نے حمد کی اللہ نے اس کی حمد سن لی ، محدث عصر امام البانی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ مقتدی سمع الله لمن حمده کہنے میں امام کے ساتھ شرکت نہ کرے، جیسے اس میں اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ امام مقتدی کے قول ربنا ولک الحمد میں اس کا شریک نہیں ہے، اس لیے کہ اس رکن میں امام اور مقتدی کیا کہیں اس کے لیے یہ حدیث نہیں وارد ہوئی ہے بلکہ یہ واضح کرنے کے لیے یہ حدیث آئی ہے کہ مقتدی امام کے سمع الله لمن حمده کہنے کے بعد ربنا ولک الحمد کہے، ایسے ہی حدیث : صلوا کما رأيتموني أصلي کے عموم کا تقاضا ہے کہ مقتدی بھی امام کی طرح سمع الله لمن حمده وغیرہ کہے، (صفۃ صلاۃ النبی ﷺ ، والاختیارات الفقہیہ للإمام الالبانی ص ١٢٥ -١٢٦) ، خلاصہ یہ کہ امام اور مقتدی دونوں دونوں کلمات کہیں اور مقتدی امام کے سمع الله لمن حمده کہنے کے بعد ربنا ولک الحمد کہے، واللہ اعلم۔

【74】

رکوع سے اٹھائے تو کیا پڑھے ؟

انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب امام سمع الله لمن حمده کہے تو تم ربنا ولک الحمد کہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٨ (٣٧٨) ، الأذان ٨٢ (٧٣٢) ، صحیح مسلم/الصلاة ١٩ (٤١١) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٤٧ (٨٥٣) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٥١ (٣٦١) ، سنن النسائی/الإمامة ١٦ (٧٩٥) ، موطا امام مالک/الجماعة ٥ (١٦) ، مسند احمد (٣/١١٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ٤٤ (١٢٩١) (صحیح )

【75】

رکوع سے اٹھائے تو کیا پڑھے ؟

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جب امام سمع الله لمن حمده کہے تو تم اللهم ربنا ولک الحمد کہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ (تحفة الأشراف : ٤٠٤٧، ومصباح الزجاجة : ٣٢٤) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٠ (٤٧٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٤٤ (٨٤٧) ، سنن النسائی/التطبیق ٢٥ (١٠٦٩) ، مسند احمد (٣/٨٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ٧١ (١٣٥٢) (صحیح )

【76】

رکوع سے اٹھائے تو کیا پڑھے ؟

عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو فرماتے : سمع الله لمن حمده اللهم ربنا لک الحمد ملء السموات وملء الأرض وملء ما شئت من شيء بعد، اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی سن لی جس نے اس کی تعریف کی، اے اللہ ! اے ہمارے رب ! تیرے لیے آسمانوں اور زمین بھر کر حمد ہے، اور اس کے بعد اس چیز بھر کر جو تو چاہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٠ (٤٧٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٤٤ (٨٤٦) ، (تحفة الأشراف : ٥١٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٥٣، ٣٥٤، ٣٥٦، ٣٨١) (صحیح )

【77】

رکوع سے اٹھائے تو کیا پڑھے ؟

ابوجحیفہ (رض) کہتے ہیں کہ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے پاس مال و دولت کا ذکر چھیڑا، آپ نماز میں تھے، ایک شخص نے کہا : فلاں کے پاس گھوڑوں کی دولت ہے، دوسرے نے کہا : فلاں کے پاس اونٹوں کی دولت ہے، تیسرے نے کہا : فلاں کے پاس بکریوں کی دولت ہے، چوتھے نے کہا : فلاں کے پاس غلاموں کی دولت ہے، جب رسول اللہ ﷺ اپنی نماز سے فارغ ہوئے اور آخری رکعت کے رکوع سے اپنا سر اٹھایا، تو آپ ﷺ نے فرمایا :اللهم ربنا ولک الحمد ملئ السموات وملئ الأرض وملئ ما شئت من شيئ بعد اللهم لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولا ينفع ذا الجد منک الجد اے اللہ ! اے ہمارے رب ! تیرے لیے تعریف ہے، آسمانوں بھر، زمین بھر اور اس کے بعد اس چیز بھر جو تو چاہے، اے اللہ ! نہیں روکنے والا کوئی اس چیز کو جو تو دے، اور نہیں دینے والا ہے کوئی اس چیز کو جسے تو روک لے، اور مالداروں کو ان کی مالداری تیرے مقابلہ میں نفع نہیں دے گی ، رسول اللہ ﷺ نے جَدّ کہنے میں اپنی آواز کو کھینچا تاکہ لوگ جان لیں کہ بات ایسی نہیں جیسی وہ کہہ رہے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٨٢٠، ومصباح الزجاجة : ٣٢٥) (ضعیف) (اس حدیث کی سند میں ابو عمرو مجہول ہیں، اس بناء پر یہ حدیث ضعیف ہے، لیکن حدیث میں مذکور دعاء اللهم ربنا صحیح ہے، ملاحظہ ہو : صحیح مسلم عن ابن عباس رضی اللہ عنہما، ومصباح الزجاجة )

【78】

سجدے کا بیان

ام المؤمنین میمونہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب سجدہ کرتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو پہلو سے الگ رکھتے کہ اگر ہاتھ کے بیچ سے کوئی بکری کا بچہ گزرنا چاہتا تو گزر جاتا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٦ (٤٩٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٥٨ (٨٩٨) ، سنن النسائی/التطبیق ٥٢ (١١١٠) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٣١، ٣٣٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ٧٩ (١٣٦٩) (صحیح )

【79】

سجدے کا بیان

عبداللہ بن اقرم خزاعی (رض) کہتے ہیں کہ میں ایک بار اپنے والد کے ساتھ نمرہ کے میدان میں تھا کہ ہمارے پاس سے کچھ سوار گزرے، انہوں نے راستے کی ایک جانب اپنی سواریوں کو بٹھایا، مجھ سے میرے والد نے کہا : تم اپنے جانوروں میں رہو تاکہ میں ان لوگوں کے پاس جا کر ان سے پوچھوں (کہ کون لوگ ہیں) ، وہ کہتے ہیں : میرے والد گئے، اور میں بھی قریب پہنچا تو دیکھا کہ نبی اکرم ﷺ تشریف فرما ہیں، میں نماز میں حاضر ہوا اور ان لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی، جب جب رسول اللہ ﷺ سجدہ میں جاتے میں آپ کی دونوں بغلوں کی سفیدی کو دیکھتا تھا ٢ ؎۔ ابن ماجہ کہتے ہیں : لوگ عبیداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں، اور ابوبکر بن ابی شیبہ نے کہا کہ لوگ عبداللہ بن عبیداللہ کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٨٩ (٢٧٤) ، سنن النسائی/التطبیق ٥١ (١١٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٥١٤٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: نمرہ : عرفات سے متصل ایک جگہ کا نام ہے، جو عرفات سے پہلے پڑتا ہے۔ ٢ ؎: سجدے میں آپ ﷺ دونوں بازوؤں کو پسلی سے اس قدر دور رکھتے کہ بغل صاف نظر آتی۔ اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مرفوعاً مروی ہے۔

【80】

سجدے کا بیان

وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ سجدہ کرتے تو اپنے گھٹنے اپنے ہاتھوں سے پہلے رکھتے، اور جب سجدہ سے اٹھتے تو اپنے ہاتھ اپنے گھٹنوں سے پہلے اٹھاتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٤١ (٨٣٨) ، سنن الترمذی/الصلاة ٨٥ (٢٦٨) ، سنن النسائی/التطبیق ٣٨ (١٠٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٨١) ، سنن الدارمی/الصلاة ٧٤ (١٣٥٩) (ضعیف) (سند میں شریک القاضی ضعیف ہیں، نیز : ملاحظہ ہو : الإرواء : ٣٥٧ ، و ضعیف أبی داود : ١٥١ ) وضاحت : ١ ؎: امام دارقطنی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو عاصم سے شریک کے علاوہ کسی اور نے روایت نہیں کیا ہے، اور شریک تفرد کی صورت میں قوی نہیں ہیں، علامہ البانی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے متن کو عاصم بن کلیب سے ثقات کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے، اور رسول اللہ ﷺ کے طریقہ نماز کو شریک کی نسبت زیادہ تفصیل سے بیان کیا ہے، اس کے باوجود ان ثقہ راویوں نے سجدہ میں جانے اور اٹھنے کی کیفیت کا ذکر نہیں کیا ہے، خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس حدیث میں شریک کو وہم ہوا ہے، اور یہ حدیث انتہائی ضعیف ہے جو قطعاً قابل استدلال نہیں، اور صحیح حدیث ابوداود میں ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے جس میں ہے کہ دونوں ہاتھ کو دونوں گھٹنوں سے پہلے رکھے، علامہ ابن القیم نے ابوہریرہ (رض) کی اس حدیث کو مقلوب کہا ہے کہ اصل حدیث یوں ہے : وليضع رکبتيه قبل يديه یعنی نمازی دونوں ہاتھوں سے پہلے اپنے گھٹنے زمین پر رکھے، لیکن محدث عبدالرحمن مبارکپوری، علامہ احمد شاکر، شیخ ناصر الدین البانی نے ابن القیم کے اس رائے کی تردید کی ہے، اور ابن خزیمہ نے کہا ہے کہ گھٹنوں سے پہلے ہاتھ رکھنے والی روایت کو منسوخ کہنا صحیح نہیں ہے، کیونکہ سعد بن ابی وقاص (رض) کی یہ روایت : كنا نضع اليدين قبل الرکبتين فأمرنا بالرکبتين قبل اليدين یعنی : پہلے ہم گھٹنوں سے قبل ہاتھ رکھتے تھے، پھر ہمیں ہاتھوں سے قبل گھٹنے رکھنے کا حکم دیا گیا انتہائی ضعیف ہے، اور قطعاً قابل استدلال نہیں۔ مسئلے کی مزید تنقیح اور کے لیے ہم یہاں پر اہل علم کے اقوال نقل کرتے ہیں : اہل حدیث کا مذہب ہے کہ سجدے میں جانے کے لیے گھٹنے سے پہلے دونوں ہاتھوں کو زمین پر رکھا جائے گا، یہی صحیح ہے اس لیے کہ یہ نبی اکرم ﷺ کے فعل اور حکم دونوں سے ثابت ہے، رہا فعل تو ابن عمر (رض) کی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب سجدہ کرتے تو گھٹنے سے پہلے اپنے ہاتھ زمین پر رکھتے اس حدیث کی تخریج ایک جماعت نے کی ہے جن میں حاکم بھی ہیں، حاکم کہتے ہیں کہ یہ حدیث مسلم کی شرط پر صحیح ہے، اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے، اور جیسا کہ ان دونوں نے کہا ایسا ہی ہے، اس کی تصحیح ابن خزیمہ ( ٦٢٧ ) نے بھی کی ہے (ملاحظہ ہو : ارواء الغلیل ٢ /٧٧-٧٨) ، رہ گیا امر نبوی تو وہ ابوہریرہ (رض) کی مرفوع حدیث سے ثابت ہے : إذا سجد أحدکم فلا يبرك كما يبرک البعير و ليضع يديه قبل رکبتيه یعنی : جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اونٹ کے بیٹھنے کی طرح زمین پر نہ بیٹھے، گھٹنوں سے پہلے اپنے ہاتھوں کو زمین پر رکھے ، اس حدیث کی تخریج ابوداود، نسائی اور جماعت نے کی ہے، اور اس کی سند نووی اور زرقانی کے بقول جید ہے، اور یہی حافظ ابن حجر کا قول ہے، اور ان دونوں حدیثوں کے معارض صرف وائل بن حجر کی حدیث ہے، اور یہ راوی حدیث شریک بن عبداللہ القاضی کی وجہ سے ضعیف ہے، اس لیے کہ وہ سیٔ الحفظ (کمزور حافظہ کے) ہیں، تو جب وہ تفرد کی حالت میں ناقابل حجت ہیں تو جب ثقات کی مخالفت کریں گے تو کیا حال ہوگا، اسی لیے حافظ ابن حجر بلوغ المرام میں فرماتے ہیں کہ ابوہریرہ کی حدیث وائل کی حدیث سے زیادہ قوی ہے، اور اس کو عبدالحق اشبیلی نے ذکر کیا ہے۔ طحاوی شرح معانی الآثار ( ١ /١٥٠) میں فرماتے ہیں کہ اونٹ کے گھٹنے اس کے ہاتھ میں ہوتے ہیں، ایسی ہی دوسرے چوپایوں کے اور انسان کا معاملہ ایسے نہیں تو ارشاد نبوی ہوا کہ نمازی اپنے گھٹنوں پر نہ بیٹھے جو کہ اس کے پاؤں میں ہوتے ہیں، جیسا کہ اونٹ اپنے گھٹنوں پر (جو اس کے ہاتھ میں ہوتے ہیں) بیٹھتا ہے، لیکن بیٹھنے کی ابتداء ایسے کرے کہ پہلے اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر رکھے جس میں اس کے گھٹنے نہیں ہیں پھر اپنے گھٹنوں کو رکھے تو اپنے اس فعل میں وہ اونٹ کے بیٹھنے کے خلاف کرے گا، البانی صاحب کہتے ہیں کہ اس سنت میں وارد حکم بظاہر واجب ہے، ابن حزم نے محلی میں اس کو واجب کہا ہے ( ٤ /١٢٨) ، واجب کہنے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اس کے الٹا ناجائز ہے، اور اس میں اس اتفاق کی تردید ہے جس کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے فتاویٰ میں نقل کیا ہے کہ دونوں طرح جائز ہے، (فتاوی ابن تیمیہ ١ /٨٨) ، البانی صاحب کہتے ہیں کہ اس متروک سنت پر تنبیہ ہونی چاہیے تاکہ اس پر عمل کرنے کا اہتمام ہو، اور یہی چیز ابوحمید ساعدی (رض) کی دس صحابہ رسول کے ساتھ حدیث میں ہے کہ رسول اکرم ﷺ زمین کی طرف جاتے تھے اور آپ کے دونوں ہاتھ پہلو سے دور ہوتے تھے پھر سجدہ کرتے تھے، اور سبھی نے ابوحمید سے کہا کہ آپ نے سچ فرمایا، نبی اکرم ﷺ ایسے ہی نماز پڑھتے تھے، اس کی روایت ابن خزیمہ (صحیح ابن خزیمہ ١ /٣١٧-٣١٨) وغیرہ نے صحیح سند سے کی ہے۔ جب آپ کو یہ معلوم ہوگیا اور آپ نے میرے ساتھ لفظ هوى کے معنی پر غور کیا جس کے معنی یہ ہیں کہ پہلو سے دونوں ہاتھ کو الگ کرتے ہوئے زمین پر جانا تو آپ پر بغیر کسی غموض کے یہ واضح ہوجائے گا کہ ایسا عادۃً اسی وقت ممکن ہے جب کہ دونوں ہاتھ کو آدمی زمین پر لے جائے نہ کہ گھٹنوں کو اور اس میں وائل (رض) کی حدیث کے ضعف پر ایک دوسری دلیل ہے، اور یہی مالک، اوزاعی، ابن حزم اور ایک روایت میں احمد کا ہے، (ملاحظہ ہو : الاختیارات الفقہیہ للإمام الالبانی، ٩٠ -٩١) البانی صاحب صفۃ صلاۃ النبی ﷺ میں دونوں ہاتھوں کو زمین پر سجدہ کے لیے آگے کرنے کے عنوان کے تحت فرماتے ہیں : نبی اکرم ﷺ سجدہ میں جاتے وقت اپنے دونوں ہاتھ زمین پر گھٹنوں سے پہلے رکھتے تھے، اور اس کے کرنے کا حکم دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اونٹ کی طرح نہ بیٹھے، بلکہ اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے زمین پر رکھے۔ پہلی حدیث کی تخریج میں فرماتے ہیں کہ اس کی تخریج ابن خزیمہ، دارقطنی اور حاکم نے کی ہے، اور حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے، اور اس کے خلاف وارد حدیث صحیح نہیں ہے، اس کے قائل مالک ہیں، اور احمد سے اسی طرح مروی ہے کمافی التحقیق لابن الجوزی، اور مروزی نے مسائل میں امام اوزاعی سے صحیح سند سے یہ روایت کی ہے کہ میں نے لوگوں کو اپنے ہاتھ زمین پر گھٹنوں سے پہلے رکھتے پایا ہے۔ اور دوسری حدیث جس میں دونوں ہاتھوں کو پہلے زمین پر رکھنے کا حکم ہے، اس کی تخریج میں لکھتے ہیں : ابوداود، تمام فی الفوائد، سنن النسائی صغریٰ و کبریٰ صحیح سند کے ساتھ، عبدالحق نے احکام کبریٰ میں اس کی تصحیح کی ہے اور کتاب التہجد میں کہا کہ یہ اس سے پہلی یعنی اس کی مخالف وائل والی حدیث کی سند سے زیادہ بہتر ہے، بلکہ وائل کی حدیث اس صحیح حدیث اور اس سے پہلے کی حدیث کے مخالف ہونے کے ساتھ ساتھ سند کے اعتبار سے بھی ضعیف ہے، اور اس معنی کی جو حدیثیں ہیں، وہ بھی ضعیف ہیں جیسا کہ میں نے سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ ( ٩٢٩ ) اور ارواء الغلیل ( ٣٥٧ ) میں اس کی کی ہے، اس کے بعد فرماتے ہیں کہ جان لیں کہ اونٹ کی مخالفت کی صورت یہ ہے کہ سجدے میں جاتے وقت دونوں ہاتھوں کو زمین پر گھٹنوں سے پہلے رکھا جائے، کیونکہ سب سے پہلے اونٹ بیٹھتے وقت اپنے گھٹنے کو جو اس کے ہاتھوں (یعنی اس کے دونوں پیر) میں ہوتے ہیں، زمین پر رکھتا ہے، جیسا کہ لسان العرب وغیرہ میں آیا ہے، اور امام طحاوی نے مشکل الآثار اور شرح معانی الآثار میں ایسے ہی ذکر کیا ہے، اور ایسے ہی امام قاسم سرقسطی (رح) کا قول ہے، چناچہ انہوں نے غریب الحدیث میں صحیح سند کے ساتھ ابوہریرہ (رض) کا یہ قول نقل کیا ہے کہ کوئی شخص نماز میں اڑیل اونٹ کی طرح قطعاً نہ بیٹھے، (امام سرقسطی کہتے ہیں کہ یہ سجدہ میں جانے کی صورت میں ہے) یعنی وہ اپنے آپ کو زمین پر اس طرح نہ پھینکے جس طرح اڑیل اونٹ بےاطمینانی سے بیٹھتا ہے، بلکہ اطمینان کے ساتھ نیچے جائے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر رکھے، پھر اس کے بعد اپنے گھٹنوں کو، اس سلسلے میں ایک مرفوع حدیث مروی ہے جس میں یہ تفصیل موجود ہے، پھر قاسم سرقسطی نے اوپر والی حدیث ذکر کی، ابن القیم کا یہ کہنا عجیب ہے کہ یہ بات عقل سے دور ہے، اور اہل زبان کے یہاں غیر معروف بھی ہے۔ ہم نے جن مراجع کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس کے علاوہ دوسرے بہت سارے مراجع میں ان کی تردید ہے، جس کی طرف رجوع کیا جانا چاہیے، ہم نے اس مسئلہ کو شیخ حمود تویجری پر اپنے رد میں تفصیل سے بیان کیا ہے (ملاحظہ ہو : صفۃ الصلاۃ، ١٤٠ -١٤١ )

【81】

سجدے کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مجھے سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٣٣ (٨٠٩) ، ١٣٤ (٨١٠) ، ١٣٧ (١١٥) ، ١٣٨ (٨١٦) ، صحیح مسلم/الصلاة ٤٤ (٤٩٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٥٥ (٨٨٩، ٨٩٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ٨٨ (٢٧٣) ، سنن النسائی/التطبیق ٤٠ (١٠٩٤) ، ٤٣ (١٠٩٧) ، ٤٥ (١٠٩٩) ، ٥٦ (١١١٤) ، ٥٨ (١١١٦) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٢١، ٢٢٢، ٢٥٥، ٢٧٠، ٢٧٩، ٢٨٠، ٢٨٥، ٢٨٦، ٢٩٠، ٣٠٥، ٣٢٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ٧٣ (١٣٥٧) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ١٠٤٠) (صحیح )

【82】

سجدے کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سات (اعضاء) پر سجدہ کروں، اور بالوں اور کپڑوں کو نہ سمیٹوں ۔ ابن طاؤس کہتے ہیں کہ (وہ سات اعضاء یہ ہیں) : دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے، دونوں قدم، اور وہ پیشانی و ناک کو ایک شمار کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٣٤ (٨١٢) ، صحیح مسلم/الصلاة ٤٤ (٤٩٠) ، سنن النسائی/التطبیق ٤٣ (١٠٩٧) ، ٤٥ (١٠٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٢٢، ٢٩٢، ٣٠٥) (صحیح )

【83】

سجدے کا بیان

عباس بن عبدالمطلب (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جب بندہ سجدہ کرتا ہے تو اس کے ساتھ سات اعضاء سجدہ کرتے ہیں : اس کا چہرہ، اس کی دونوں ہتھیلیاں، دونوں گھٹنے اور دونوں قدم ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٤ (٤٩٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٥٥ (٨٩١) ، سنن الترمذی/الصلاة ٨٨ (٢٧٢) ، سنن النسائی/التطبیق ٤١ (١٠٩٥) ، ٤٦ (١١٠٠) ، (تحفة الأشراف : ٥١٢٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١ /٢٠٦، ٢٠٨، ١٠٩٨) (صحیح )

【84】

سجدے کا بیان

صحابی رسول احمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سجدہ کرتے تو ہاتھوں (اور بازوؤں) کو پہلووں سے اتنا دور کرتے کہ ہمیں (اس مشقت کی کیفیت کو دیکھ کر) ترس آتا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٥٨ (٩٠٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٤٢، ٥/٣١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ الگ رکھنے کی وجہ سے آپ کو کافی مشقت اٹھانی پڑتی تھی۔

【85】

رکوع اور سجدہ میں تسبیح

عقبہ بن عامر جہنی (رض) کہتے ہیں کہ جب آیت کریمہ : فسبح باسم ربک العظيم نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا : اسے اپنے رکوع میں کہا کرو ، پھر جب سبح اسم ربک الأعلى نازل ہوئی تو ہم سے فرمایا : اسے اپنے سجدے میں کہا کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٥١ (٨٧٥، ٨٧٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٥٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ٦٩ (١٣٤٤) (ضعیف) (سند میں موسیٰ بن ایوب منکر الحدیث، اور ایاس بن عامر غیر قوی ہیں اس لئے یہ ضعیف ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی رکوع میں سبحان ربي العظيمِ اور سجدہ میں سبحان ربي الأعلى کہو۔

【86】

رکوع اور سجدہ میں تسبیح

حذیفہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو رکوع میں سبحان ربي العظيم تین بار، اور سجدہ میں سبحان ربي الأعلى تین بار کہتے سنا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٣٩١) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٧ (٧٧٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٥١ (٨٧٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ٧٩ (٢٦٢) ، سنن النسائی/الافتتاح ٧٧ (١٠٠٩) ، التطبیق ٧٤ (١١٣٤) ، مسند احمد (٥/٣٨٢، ٣٨٤، ٣٩٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ٦٩ (١٣٤٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ ادنی درجہ ہے، کم سے کم تین بار کہنا چاہیے۔

【87】

رکوع اور سجدہ میں تسبیح

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ قرآن کی عملی تفسیر کرتے ہوئے اکثر اپنے رکوع میں سبحانک اللهم وبحمدک اللهم اغفر لي اے اللہ ! تو پاک ہے، اور سب تعریف تیرے لیے ہے، اے اللہ ! تو مجھے بخش دے پڑھتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٢٣ (٧٩٤) ، ١٣٩ (٨١٧) ، المغازي ٥١ (٤٢٩٣) ، تفسیر سورة النصر ١ (٤٩٦٨) ، ٢ (٤٩٦٨) ، صحیح مسلم/الصلاة ٤٢ (٤٨٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٥٢ (٨٧٧) ، سنن النسائی/التطبیق ١٠ (١٠٤٨) ، ٦٤ (١١٢٣) ، ٦٥ (١١٢٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٣، ٤٩، ١٩٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: قرآن شریف میں ہے فسبح بحمد ربک واستغفره، اس کا مطلب یہی ہے کہ نماز میں یوں کہو : سبحانک اللهم وبحمدک اللهم اغفرلي، اور جو لفظ نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہے اس کا اہتمام بہتر ہے، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رکوع اور سجدے میں دعا کرنا درست ہے، اور نماز میں جہاں تک اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور دعا ہو سکے کرے، اور دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی مانگے، اور جو دعائیں حدیث میں وارد ہیں ان کے سوا بھی جو دعا چاہے کرے کوئی ممانعت نہیں ہے۔

【88】

رکوع اور سجدہ میں تسبیح

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی شخص رکوع کرے تو اپنے رکوع میں تین بار سبحان ربي العظيم کہے، جب اس نے ایسا کرلیا تو اس کا رکوع مکمل ہوگیا، اور جب کوئی شخص سجدہ کرے تو اپنے سجدہ میں تین بار سبحان ربي الأعلى کہے، جب اس نے ایسا کرلیا تو اس کا سجدہ مکمل ہوگیا، اور یہ کم سے کم تعداد ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٥٤ (٨٨٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ٧٩ (٢٦١) ، (تحفة الأشراف : ٩٥٣٠) (ضعیف) (اس حدیث کی سند میں اسحاق بن یزید الہذلی مجہول ہیں ) وضاحت : ١ ؎: امام ترمذی نے کہا : مستحب ہے کہ آدمی تین بار سے کم تسبیح نہ کرے، اور ابن المبارک نے کہا کہ امام کو پانچ بار کہنا مستحب ہے، تاکہ مقتدی تین بار کہہ سکیں، اور اس سے زیادہ جہاں تک چاہے کہہ سکتا ہے، بشرطیکہ اکیلا نماز پڑھتا ہو، کیونکہ جماعت میں ہلکی نماز پڑھنا سنت ہے، تاکہ لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔

【89】

سجدہ میں اعتدال

جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں کا کوئی شخص سجدہ کرے تو اعتدال سے کرے ١ ؎، اور اپنے دونوں بازوؤں کو کتے کی طرح نہ بچھائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/المواقیت ٨٩ (٢٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٣١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٠٥، ٣١٥، ٣٨٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سجدہ میں اعتدال یہ ہے کہ دونوں ہتھیلیوں کو زمین پر رکھے، اور دونوں کہنیاں زمین سے اٹھائے رکھے، اور پیٹ کو ران سے جدا رکھے، حافظ ابن حجر نے کہا : بازوؤں کو بچھانا مکروہ ہے کیونکہ خشوع اور آداب کے خلاف ہے، البتہ اگر کوئی دیر تک سجدے میں رہے تو وہ اپنے گھٹنے پر بازو ٹیک سکتا ہے، کیونکہ حدیث میں ہے کہ صحابی نے نبی اکرم ﷺ سے سجدے کی مشقت کی شکایت کی، تو آپ ﷺ نے فرمایا : گھٹنوں سے مدد لو ۔

【90】

سجدہ میں اعتدال

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سجدوں میں اعتدال کرو، اور تم میں سے کوئی اپنے بازو کتے کی طرح بچھا کر سجدہ نہ کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الافتتاح ٨٩ (١٠٢٩) ، التطبیق ٥٣ (١١١١) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/المواقیت ٨ (٥٣٢) ، الأذان ١٤١ (٨٢٢) ، صحیح مسلم/الصلاة ٤٥ (٤٩٣) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٥٨ (٩٨٧) ، سنن الترمذی/المواقیت ٩٠ (٢٧٦) ، مسند احمد (٣/١١٥، ١٧٧، ١٧٩، ١٩١، ٢١٤، ٢٧٤، ٢٩١) ، سنن الدارمی/الصلاة ٧٥ (١٣٦١) (صحیح )

【91】

دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو اس وقت تک سجدہ نہ کرتے، جب تک کہ سیدھے کھڑے نہ ہوجاتے، اور جب سجدہ کر کے اپنا سر اٹھاتے تو اس وقت تک دوسرا سجدہ نہ کرتے جب تک کہ سیدھے بیٹھ نہ جاتے، اور بیٹھنے میں اپنا بایاں پاؤں بچھا دیتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٦ (٤٩٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٢٤ (٧٨٣) ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٤٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/ ٢١، ١٩٤) (صحیح )

【92】

دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا۔

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : تم دونوں سجدوں کے درمیان اقعاء نہ کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٩٣ (٢٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٤١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٨٢، ١٤٦) (ضعیف) (اس حدیث کی سند میں الحارث روای ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٤٧٨٧ ) وضاحت : ١ ؎: اقعاء : دونوں پنڈلیاں کھڑی کر کے سرین اور دونوں ہاتھ زمین پر رکھ کر بیٹھنے کو اقعاء کہتے ہیں، اور دونوں قدم کھڑا کر کے اس پر بیٹھنے کو بھی اقعاء کہا جاتا ہے، ممانعت پہلی صورت کی ہے۔

【93】

دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا۔

علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : يا علي لا تقع إقعاء الکلب ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث أبي اسحاق عن الحارث تقدم فيحدیث (٨٩٤) ، وحدیث أبي موسیٰ عن الحارث، قد تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٠٢٨) (حسن) (شواہد کے بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں أبو مالک ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎: اس طرح نماز میں بیٹھنا ہمیشہ مکروہ ہے، کیونکہ اس میں ستر کھلنے کا ڈر ہوتا ہے، اگر یہ ڈر نہ ہو تو نماز کے باہر مکروہ نہیں ہے۔

【94】

دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا۔

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم سجدہ سے اپنا سر اٹھاؤ تو کتے کی طرح نہ بیٹھو، بلکہ اپنی سرین اپنے دونوں قدموں کے درمیان رکھو، اور اپنے قدموں کے اوپری حصہ کو زمین سے ملا دو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٢١، ومصباح الزجاجة : ٣٢٦) (موضوع) (علاء بن زید انس (رض) سے موضوع احادیث روایت کرتا ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٢٦١٤ )

【95】

دونوں سجدوں کے درمیان کی دعا۔

حذیفہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ دونوں سجدوں کے درمیان (جلسہ میں) رب اغفر لي رب اغفر لي اے میرے رب ! مجھے بخش دے، اے میرے رب ! مجھے بخش دے پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٢٧ (٧٧٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٥١ (٨٧٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ٧٩ (٢٦٢، ٢٦٣) ، سنن النسائی/الافتتاح ٧٧ (١٠٠٩) ، التطبیق ٧٤ (١١٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٠٠، ٣٨٢، ٣٨٤، ٣٨٩، ٣٩٤، ٣٩٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ٧٦ (١٣٦٣) (صحیح )

【96】

دونوں سجدوں کے درمیان کی دعا۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تہجد کی نماز میں دونوں سجدوں کے درمیان رب اغفر لي وارحمني واجبرني وارزقني وارفعني اے میرے رب ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم کر، مجھ کو ضائع شدہ چیزوں کا بدلہ دیدے، مجھے رزق دے، اور مجھے بلندی عطا فرما پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٤٧٥، ومصباح الزجاجة : ٥٢٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٤٥ (٨٥٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ٩٥ (٢٨٤، ٢٨٥) ، مسند احمد (١/٣١٥، ٣٧١) (فلم يقولا : في صلاة الليل وقالا : اهدني بدل وارفعني ) (صحیح ابی داود : ٧٩٦) (صحیح )

【97】

تشہد میں پڑھنے کی دعا

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ جب ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے تو کہتے : السلام على الله قبل عباده السلام على جبرائيل وميكائيل وعلى فلان وفلان سلام ہو اللہ پر اس کے بندوں سے پہلے، اور سلام ہو جبرائیل و میکائیل اور فلاں فلاں پر ، اور وہ مراد لیتے تھے (فلاں اور فلاں سے) فرشتوں کو، رسول اللہ ﷺ نے ہمیں کہتے سنا تو فرمایا : تم السلام على الله نہ کہو، کیونکہ اللہ ہی سلام ہے، لہٰذا جب تم تشہد کے لیے بیٹھو تو کہو التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبرکاته السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين عمدہ آداب و تسلیمات اللہ کے لیے ہیں اور نماز اور اچھی باتیں سب اسی کے لیے ہیں، اے نبی ! آپ پر سلام ہو، اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں، ہم پر سلام ہو، اور اللہ کے نیک بندوں پر بھی جب بندہ یہ کہتا ہے تو یہ دعا ہر اس نیک بندے کو پہنچ جاتی ہے جو آسمان و زمین میں ہے، أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٤٨ (٨٣١) ، ١٥٠ (٨٣٥) ، العمل في الصلاة ٤ (٢٣٩٧) ، الاستئذان ٣ (٦٢٣٠) ، ٢٨ (٦٢٦٠) ، الدعوات ١٧ (٦٣٢٨) ، التوحید ٥ (٧١٢٩) ، صحیح مسلم/الصلاة ١٦ (٤٠٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٨٢ (٩٦٨) ، سنن النسائی/التطبیق ١٠٠ (١١٦٣) ، السہو ٤١ (١٢٧٨) ، ٤٣ (١٢٨٠) ، ٥٦ (١٢٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٤٢، ٩٢٤٥، ٩٢٩٦، ٩٣١٤) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٠٠ (٢٨٩) ، النکاح ١٦ (١١٠٥) ، مسند احمد (١/٣٧٦، ٣٨٢، ٤٠٨، ٤١٣، ٤١٤، ٤٢٢، ٤٢٣، ٤٢٨، ٤٣١، ٤٣٧، ٤٣٩، ٤٤٠، ٤٥٠، ٤٦٤، ٤٦٩) (صحیح ) اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مرفوعاً مروی ہے۔ اس سند سے بھی عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ انہیں تشہد سکھاتے تھے، پھر آگے پہلی حدیث کے مانند بیان کیا۔

【98】

تشہد میں پڑھنے کی دعا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں تشہد سکھاتے جس طرح قرآن کی سورت سکھاتے، آپ کہتے : التحيات المبارکات الصلوات الطيبات لله السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبرکاته السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله بابرکت دعائیں اور پاکیزہ نمازیں سب اللہ کے لیے ہیں، اے نبی ! آپ پر سلام، اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں، ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلام ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ١٦ (٤٠٣) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٨٢ (٩٧٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٠١ (٢٩٠) ، سنن النسائی/التطبیق ١٠٣ (١١٧٥) ، السہو ٤٢ (١٢٧٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٥٠، ٥٦٠٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٩٢) (صحیح )

【99】

تشہد میں پڑھنے کی دعا

ابوموسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطبہ دیا، اس میں آپ نے ہمارے لیے طریقے بیان فرمائے، اور ہمیں ہماری نماز سکھائی، آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم نماز ادا کرو اور تشہد میں بیٹھو تو بیٹھتے ہی سب سے پہلے یہ پڑھو : التحيات الطيبات الصلوات لله السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبرکاته السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله آداب بندگیاں، پاکیزہ خیرات، اور نماز اللہ ہی کے لیے ہیں، اے نبی ! آپ پر سلام اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں، اور سلام ہو ہم پر، اور اللہ کے تمام نیک و صالح بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں ، یہ سات کلمے نماز کا سلام ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٩٨٧ ومصباح الزجاجة : ٣٢٨) ، وقدأخرجہ : صحیح مسلم/الصلاة ١٦ (٤٠٤) ، دون قولہ : سبع کلمات ، سنن ابی داود/الصلاة ١٨٢ (٧٢ ٩، ٩٧٣) ، دون طرفہ الآخر، سنن النسائی/الإمامة ٣٨ (٨٣١) ، التطبیق ٢٣ (١٠٦٥) ، مسند احمد (٤/٤٠٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ٨٤ (١٣٧٩) (صحیح )

【100】

تشہد میں پڑھنے کی دعا

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں تشہد ایسے سکھاتے تھے جس طرح قرآن کی سورت سکھاتے تھے : التحيات لله والصلوات والطيبات لله السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبرکاته السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله أسأل الله الجنة وأعوذ بالله من النار اللہ کے نام اور اس کی مدد سے، آداب بندگیاں اللہ کے لیے ہیں، اور نماز اور پاکیزہ خیرات اللہ ہی کے لیے ہیں، اے نبی ! آپ پر سلام اور اللہ کی رحمت، اور اس کی برکتیں نازل ہوں، اور سلام ہو ہم پر، اور اللہ کے تمام نیک و صالح بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے، اور رسول ہیں، میں اللہ سے جنت کا طلبگار ہوں، اور جہنم سے پناہ چاہتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/التطبیق ١٠٤ (١١٧٦) ، السہو ٤٥ (١٢٨٢) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٦٥، ومصباح الزجاجة : ٣٢٩) (ضعیف) (سند میں ابوالزبیر مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٣٧٢ )

【101】

نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھنا

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ پر سلام بھیجنا تو ہمیں معلوم ہوگیا، لیکن درود کیسے بھیجیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تم کہو : اللهم صل على محمد عبدک ورسولک کما صليت على إبراهيم و بارک على محمد وعلى آل محمد کما بارکت على إبراهيم اے اللہ ! اپنے بندے اور رسول محمد ( ﷺ ) پر رحمت نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم (علیہ السلام) پر رحمت نازل فرمائی ہے، اور محمد ( ﷺ ) اور ان کے اہل و عیال پہ برکت اتار جیسا کہ تو نے ابراہیم (علیہ السلام) پر اتاری ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر الأحزاب ١٠ (٤٧٩٨) ، الدعوات ٣٢ (٦٣٥٨) ، سنن النسائی/السہو ٥٣ (١٢٩٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٠٩٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: نبی اکرم ﷺ پر صلاۃ (درود) کے حدیث میں کئی الفاظ وارد ہیں جو چاہے پڑھے۔

【102】

نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھنا

ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ مجھ سے کعب بن عجرہ (رض) ملے اور کہنے لگے : کیا میں تمہیں ایک ہدیہ نہ دوں ؟ رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے تو ہم نے عرض کیا : آپ پر سلام بھیجنا تو ہمیں معلوم ہوگیا، لیکن آپ پر درود کیسے بھیجیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ کہو : اللهم صل على محمد وعلى آل محمد کما صليت على إبراهيم إنک حميد مجيد اللهم بارک على محمد وعلى آل محمد کما بارکت على إبراهيم إنک حميد مجيد اے اللہ ! محمد ( ﷺ ) اور ان کے اہل و عیال پہ رحمت نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم (علیہ السلام) پر رحمتیں نازل فرمائی ہیں، بیشک تو تعریف والا اور بزرگی والا ہے، اے اللہ ! تو محمد ( ﷺ ) اور آپ کے اہل و عیال پہ برکت نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم (علیہ السلام) پر برکتیں نازل فرمائی ہیں، بیشک تو تعریف اور بزرگی والا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ١٠ (٣٣٧٠) ، تفسیر الأحزاب ١٠ (٤٧٩٧) ، الدعوات ٣٢ (٦٣٥٧) ، صحیح مسلم/الصلاة ١٧ (٤٠٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٨٣ (٩٧٦، ٩٧٧) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٣٤ (٤٨٣) ، سنن النسائی/السہو ٥١ (١٢٨٨، ١٢٨٩) ، (تحفة الأشراف : ١١١١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٤١، ٢٤٤) ، سنن الدارمی/ الصلاة ٨٥ (١٣٨١) (صحیح )

【103】

نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھنا

ابو حمید ساعدی (رض) سے روایت ہے کہ لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! ہمیں آپ پر درود بھیجنے کا حکم دیا گیا ہے تو ہم آپ پر درود کیسے بھیجیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : کہو : اللهم صل على محمد وأزواجه وذريته كما صليت على إبراهيم و بارک على محمد وأزواجه وذريته كما بارکت على آل إبراهيم في العالمين إنک حميد مجيد اے اللہ ! محمد ( ﷺ ) اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد پر رحمت نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم (علیہ السلام) پر نازل فرمائی ہے اور محمد ( ﷺ ) اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد پر برکت نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم (علیہ السلام) کی آل پر سارے جہاں میں برکت نازل فرمائی ہے، بیشک تو تعریف اور بزرگی والا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ١٠ (٣٣٦٩) ، الدعوات ٣٣ (٦٣٦٠) ، صحیح مسلم/الصلاة ١٧ (٤٠٧) ، سنن ابی داود/الصلاة (٩٧٩) ، ١٨٣ (١٢٩٣) ، سنن النسائی/السہو ٥٤ (١٢٩٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٩٦) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/ قصرالصلاة ٢٢ (٦٦) ، مسند احمد (٥/٤٢٤) (صحیح )

【104】

نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھنا

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ جب تم رسول اللہ ﷺ پہ درود (صلاۃ) بھیجو تو اچھی طرح بھیجو، تمہیں معلوم نہیں شاید وہ درود نبی اکرم ﷺ پر پیش کیا جائے، عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ لوگوں نے ان سے عرض کیا : پھر تو آپ ہمیں درود سکھا دیجئیے، انہوں نے کہا : کہو : اللهم اجعل صلاتک ورحمتک وبرکاتک على سيد المرسلين وإمام المتقين وخاتم النبيين محمد عبدک ورسولک إمام الخير وقائد الخير ورسول الرحمة اللهم ابعثه مقاما محمودا يغبطه به الأولون والآخرون اللهم صل على محمد وعلى آل محمد کما صليت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم إنک حميد مجيد اللهم بارک على محمد وعلى آل محمد کما بارکت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم إنک حميد مجيد اے اللہ ! اپنی عنایتیں، رحمتیں اور برکتیں رسولوں کے سردار، متقیوں کے امام خاتم النبیین محمد ( ﷺ ) پر نازل فرما، جو کہ تیرے بندے اور رسول ہیں، خیر کے امام و قائد اور رسول رحمت ہیں، اے اللہ ! ان کو مقام محمود پر فائز فرما، جس پہ اولین و آخرین رشک کریں گے، اے اللہ ! محمد ﷺ اور آل محمد پر اپنی رحمت نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم (علیہ السلام) اور آل ابراہیم پہ اپنی رحمت نازل فرمائی ہے، بیشک تو تعریف اور بزرگی والا ہے، اے اللہ ! تو محمد ﷺ اور آل محمد پہ برکت نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم (علیہ السلام) اور آل ابراہیم پہ نازل فرمائی ہے، بیشک تو تعریف والا اور بزرگی والا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩١٦٨ ومصباح الزجاجة : ٣٢٩) (ضعیف) (مسعودی اختلاط کے شکار روای ہیں، اس لئے متروک الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎: بعضوں نے کہا بہتر درود وہی ہے جو صحیح روایت سے آپ ﷺ سے مروی ہے، اور بعضوں نے کہا جس کے الفاظ زیادہ جامع اور زیادہ عمدہ ہوں، اور یہ جو عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا : شاید آپ ﷺ پر تمہارا درود پیش کیا جائے ، حالانکہ دوسری حدیث میں ہے کہ تمہارا درود میرے اوپر پیش کیا جاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جس درود میں اخلاص اور صدق نہ ہو وہ قبول نہیں ہوتا، اور جب قبول نہ ہو تو پیش بھی نہ کیا جائے گا، بلکہ درود بھیجنے والے پر واپس کیا جائے گا جیسے تحفہ جب قبول نہیں ہوتا تو واپس کردیا جاتا ہے، شیخ البانی نے صفۃ صلاۃ النبی ﷺ میں صحیح سندوں سے ثابت درود (صلاۃ) کے سارے صیغوں اور الفاظ کو جمع کردیا ہے، جس سے مکمل طور پر استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

【105】

نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھنا

عامر بن ربیعہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب کوئی مسلمان مجھ پر درود بھیجتا ہے تو فرشتے جب تک وہ مجھ پر درود بھیجتا ہے اس کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں، اب بندہ چاہے تو مجھ پر کم درود بھیجے یا زیادہ بھیجے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٠٣٩، ومصباح الزجاجة : ٣٣٠) (حسن) (سند میں عاصم بن عبید اللہ منکر الحدیث ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : مصباح الزجاجة و الترغیب والترھیب للمنذری ٢ /٥٠٠ )

【106】

نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھنا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو مجھ پر درود پڑھنا بھول گیا، وہ جنت کا راستہ بھول گیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٣٩١، ومصباح الزجاجة : ٣٣١) (حسن صحیح) (سند میں جبار بن مغلس ضعیف ہیں، لیکن دوسرے شواہد سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٣٣٧ ، وفضل الصلاة علی النبی ﷺ: ص ٤٦ )

【107】

تشہد میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کن الفاظ میں درود پڑھے ( دعا بعد ازدرود)۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی شخص آخری تشہد (تحیات اور درود) سے فارغ ہوجائے تو چار چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگے : جہنم کے عذاب سے، قبر کے عذاب سے، موت و حیات کے فتنے سے، اور مسیح دجال کے فتنے سے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٥ (٥٨٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٨٤ (٩٨٣) ، سنن النسائی/السہو ٦٤ (١٣١١) ، (تحفة الأشراف : ١٤٥٨٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجنائز ٨٧ (١٢٧٧) ، مسند احمد (٢/ ٢٣٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ٨٦ (١٣٨٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: زندگی کا فتنہ یہ ہے کہ دنیا میں مشغول ہو کر اللہ سے غافل ہوجائے، یا گناہوں میں مبتلا ہوجائے، اور موت کا فتنہ یہ ہے کہ معاذ اللہ خاتمہ برا ہو، شیطان کے بہکاوے میں آجائے، کلمہ توحید اخیر وقت نہ پڑھ سکے، اور دجال کا فتنہ تو مشہور ہے، اور اس کا ذکر قیامت کی نشانیوں میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ، غرض یہ ہے کہ تشہد اور درود کے بعد یہ دعا پڑھے : اللهم إني أعوذ بک من عذاب جهنم وأعوذ بک من عذاب القبر وأعوذ بک من فتنة المحيا والممات وأعوذ بک من فتنة المسيح الدجال، اور بعض روایتوں میں زیادہ ہے : اللهم إني أعوذ بک من المأثم والمغرم، اور بعض روایتوں میں یہ دعاء وارد ہے : اللهم إني ظلمت نفسي ظلما کثيرا ولا يغفر الذنوب إلا أنت فاغفر لي مغفرة من عندک وارحمني إنك أنت الغفور الرحيم، اور بعض روایتوں میں یہ دعا وارد ہے : اللهم اغفر لي ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت وما أسرفت وما أنت أعلم به مني أنت المقدم وأنت المؤخر لا إله إلا أنت، ان سب دعاؤں میں سے جو دعا چاہے پڑھے، اور جو چاہے دعا کرے اور اللہ سے مانگے، کچھ ممانعت نہیں ہے لیکن پہلے تشہد کی دعائیں پڑھے، پھر جو چاہے مانگے۔

【108】

تشہد میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کن الفاظ میں درود پڑھے ( دعا بعد ازدرود)۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی سے فرمایا : تم نماز میں کیا کہتے ہو ؟ ، اس نے کہا : میں تشہد پڑھتا ہوں، پھر اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرتا ہوں اور جہنم سے پناہ مانگتا ہوں، لیکن اللہ کی قسم ! میں آپ کی اور معاذ کی گنگناہٹ اچھی طرح نہیں سمجھتا ١ ؎، آپ ﷺ نے فرمایا : ہم بھی اسی کے گرد گنگناتے ہیں ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٣٦٣، ومصباح الزجاجة : ٣٣٢) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٢٧ (٧٩٢) ، مسند احمد (٣/٤٧٤، ٥/٧٤) (صحیح) (حدیث مکرر ہے، ملاحظہ کریں : ٣٨٤٧ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی آپ ﷺ اور معاذ دھیمی آواز میں دعاء مانگا کرتے تھے۔ ٢ ؎: یعنی جنت کے سوال اور جہنم سے پناہ مانگنے جیسی دعائیں ہماری بھی ہوتی ہیں۔

【109】

تشہد میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کن الفاظ میں درود پڑھے ( دعا بعد ازدرود)۔

نمیر خزاعی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ اپنے دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر نماز میں رکھے ہوئے تھے، اور اپنی انگلی سے اشارہ کر رہے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٨٦ (٩٩١) ، سنن النسائی/السہو ٣٦ (١٢٧٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٧١٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٧١) (صحیح) (آنے والی حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے اور اس باب میں وارد دوسری احادیث سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ شروع ہی سے آپ ﷺ اسی طرح انگلی کے اشارہ کی شکل پر بیٹھتے تھے، نہ یہ کہ جب أشهد أن لا إله کہتے تھے تو اٹھال یتے، اور إلا الله کہتے تو گرا دیتے، جو لوگ ایسا کہتے ہیں ان کے پاس کوئی صحیح دلیل نہیں۔

【110】

تشہد میں اشارہ۔

وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے انگوٹھے اور بیچ والی انگلی کا حلقہ بنایا، اور ان دونوں سے متصل (شہادت کی) انگلی کو اٹھایا، اس سے تشہد میں دعا کر رہے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٧٨٦، ومصباح الزجاجة : ٣٣٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ١١٦ (٧٢٦) ، ١٨٠ (٩٥٧) ، سنن النسائی/الافتتاح ١١ (٨٩٠) ، السہو ٣٤ (١٢٦٩) ، مسند احمد (٤/٣١٦، ٣١٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: احادیث میں تشہد کی حالت میں داہنے ہاتھ کے ران پر رکھنے کی مختلف ہیئتوں (کیفیتوں) کا ذکر ہے انہیں میں سے ایک ہیئت یہ بھی ہے کہ خنصر (چھوٹی انگلی) اور بنصر (اس کے بعد کی انگلی) کو بند کرلے اور شہادت کی انگلی کو کھلی چھوڑ دے، اور انگوٹھے اور بیچ والی انگلی سے حلقہ بنا لے، یہ کیفیت زیر نظر وائل بن حجر کی حدیث میں ہے، علامہ طیبی (رح) نے کہا ہے کہ فقہاء نے اس حلقے کی کیفیت میں اختلاف کیا ہے، بعضوں نے کہا کہ ( ٥٣ ) کی شکل بنائے، وہ یہ ہے کہ خنصر اور بنصر اور وسطیٰ یعنی سب سے چھوٹی اور اس کے بعد والی اور درمیانی انگلی ان تینوں کو بند کرلے، اور شہادت کی انگلی کو چھوڑ دے، اور انگوٹھے کو شہادت کی انگلی کی جڑ سے لگائے، یہ ابن عمر (رض) سے منقول ہے، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ انگوٹھے کو بیچ کی انگلی سے ملائے، اور بیچ کی انگلی بھی بند رہے، ( ٤٣ ) کی شکل پر، عبداللہ بن زبیر (رض) سے ایسا ہی منقول ہے، تیسرا طریقہ یہ ہے کہ خنصر اور بنصر کو بند کرے اور کلمے کی انگلی کو چھوڑ دے اور انگوٹھے اور بیچ کی انگلی سے حلقہ بنا لے، جیسے وائل بن حجر (رض) سے منقول ہے، اور یہ آخری طریقہ مختار ہے۔

【111】

تشہد میں اشارہ۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب نماز میں بیٹھتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے، اور دائیں ہاتھ کے انگوٹھے سے متصل انگلی کو اٹھاتے اور اس سے دعا کرتے، اور بائیں ہاتھ کو بائیں گھٹنے پہ پھیلا کر رکھتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢١ (٥٨٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٠٥ (٢٩٤) ، سنن النسائی/السہو ٣٥ (١٢٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصلاة ١٢ (٤٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ٨٣ (١٣٧٨) (صحیح )

【112】

سلام کا بیان

عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرتے، یہاں تک کہ آپ کے رخسار کی سفیدی دکھائی دینے لگتی، اور آپ کہتے : السلام عليكم ورحمة الله۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٨٩ (٩٩٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٠٦ (٢٩٥) ، سنن النسائی/السہو ٧٠ (١٣٢٣، ١٣٢٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٥٠٤) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٢ (٥٨٢) ، مختصرا، مسند احمد (١/٣٩٠، ٤٠٦، ٤٠٨، ٤٠٩، ٤١٤، ٤٤٤، ٤٤٨، سنن الدارمی/ الصلاة ٨٧ (١٣٨٥) (صحیح )

【113】

سلام کا بیان

سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٢ (٥٨٢) ، سنن النسائی/السہو ٦٧ (١٣١٧، ١٣١٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٨٦٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٧٢، ١٨١) ، سنن الدارمی/الصلاة ٨٧ (١٣٨٥) (صحیح )

【114】

سلام کا بیان

عمار بن یاسر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرتے تھے، یہاں تک کہ آپ کے رخسار کی سفیدی دکھائی دیتی، اور کہتے : السلام عليكم ورحمة الله . السلام عليكم ورحمة الله۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٥٥، ومصباح الزجاجة : ٣٣٤) (صحیح) (یہ سابقہ حدیث سے تقویت پاکر صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، سند کی تحسین بوصیری نے کی ہے )

【115】

سلام کا بیان

ابوموسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ علی (رض) نے ہمیں جنگ جمل کے دن ایسی نماز پڑھائی کہ رسول اللہ ﷺ کی نماز کی یاد تازہ ہوگئی، جسے یا تو ہم بھول چکے تھے یا چھوڑ چکے تھے، تو انہوں نے دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٩٨٢، ومصباح الزجاجة : ٣٣٥) (منکر) (یہ حدیث ابوبکر بن عیاش اور ابو اسحاق کی وجہ سے منکر ہے، لیکن یہ ٹکڑا فسلم على يمينه وعلى شماله صحیح ہے، کیونکہ اس سے پہلے والی صحیح حدیثوں سے ثابت ہے، صحیح ابن خزیمہ ) وضاحت : ١ ؎: جنگ جمل : جمادی الآخرہ ٣٦ ھ میں علی (رض) اور عثمان (رض) کے قاتلین کے قصاص کا مطالبہ کرنے والوں کے درمیان یہ جنگ بصرہ میں واقع ہوئی۔ ٢ ؎: اہل حدیث کے نزدیک نماز سے باہر آنے کے لئے سلام پھیرنا واجب ہے، اور دوسری حدیث میں ہے کہ نماز کی تحلیل (یعنی اس کے ختم کرنے اور اس سے باہر جانے کا راستہ) سلام ہے، اب صحیح اور مشہور یہی ہے کہ دائیں اور بائیں طرف دو سلام کرے، ابن القیم نے کہا کہ پندرہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے دو سلام نقل کئے ہیں، ان میں سے ابن مسعود، سعد، جابر، ابوموسی، عمار بن یاسر، عبداللہ بن عمر، براء، وائل، ابو مالک، عدی، طلق، اوس اور ابورمثہ رضی اللہ عنہم ہیں، ان میں سے بعض روایتیں صحیح ہیں، بعض حسن ہیں، ان کی مخالف پانچ حدیثیں ہیں، جن میں ایک سلام مذکور ہے، اور ان کی صحت میں اختلاف ہے، ابن مسعود (رض) کی ایک روایت میں وبرکاتہ کا لفظ زیادہ ہے جس کو ابوداود نے وائل بن حجر کی روایت سے نقل کیا ہے، اور امام مالک (رح) کا قول یہی ہے کہ ایک ہی سلام کرنا کافی ہے سلام کے سلسلے میں مختلف روایات ثابت ہیں، اس لئے سب صورتیں صحیح ہیں، اور ثابت شدہ تمام احادیث پر عمل کرنا مشروع و مسنون ہے، ہاں جس کیفیت پر رسول اکرم ﷺ اور آپ کے اصحاب زیادہ رہا کرتے تھے اس کو زیادہ کرنا اولیٰ ہے، نیز ان کیفیات کے لئے، (ملاحظہ ہو : صفۃ صلاۃ النبی ﷺ للألبانی، ص ١٨٧ ، ١٨٨ ) ۔

【116】

ایک سلام پھیرنا

سعد ساعدی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے سامنے کی جانب ایک سلام پھیرا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٧٩٨، ومصباح الزجاجة : ٣٣٦) (صحیح) (اس کی سند میں عبد المہیمن ضعیف ہیں، دوسری صحیح سندوں سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : مصباح الزجاجة مع تعلیقات الشہری )

【117】

ایک سلام پھیرنا

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے سامنے کی جانب ایک سلام پھیرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/المواقیت ١٠٦ (٢٩٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦٨٩٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٣٦) (صحیح )

【118】

ایک سلام پھیرنا

سلمہ بن الاکوع (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے نماز پڑھی تو ایک مرتبہ سلام پھیرا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٥٥٣، ومصباح الزجاجة : ٣٣٧) (صحیح) (یہ حدیث پہلی والی حدیث سے تقویت پاکر صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں یحییٰ بن راشد ضعیف ہیں )

【119】

امام کے سلام کا جواب دینا

سمرہ بن جندب (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب امام سلام پھیرے تو تم اس کے سلام کا جواب دو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٩٠ (١٠٠١) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٩٧) (ضعیف) (اس حدیث کی سند میں ابوبکر الہذلی متروک ہیں، نیز حسن بصری کا سماع سمرہ (رض) سے حدیث عقیقہ کے سوا ثابت نہیں ہے )

【120】

امام کے سلام کا جواب دینا

سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اپنے اماموں کو اور باہم ایک دوسرے کو سلام کریں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف )

【121】

امام صرف اپنے دعانہ کرے

ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص امامت کرے وہ مقتدیوں کو چھوڑ کر صرف اپنے لیے دعا کو خاص نہ کرے، اگر اس نے ایسا کیا تو اس نے ان سے خیانت کی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٤٣ (٩٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٤٨ (٣٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٨٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٥٠، ٢٦٠، ٢٦١) (ضعیف) (بقیہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے )

【122】

سلام کے بعد دعا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سلام پھیرتے تو (اپنے مصلے پر قبلہ رو) اس قدر بیٹھتے جتنے میں یہ دعا پڑھتے : اللهم أنت السلام ومنک السلام تبارکت يا ذا الجلال والإکرام اے اللہ ! تو ہی سلام ہے اور تیری جانب سے سلامتی ہے، اے بزرگی و برتری والے ! تو بابرکت ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٦ (٥٩٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٦٠ (١٥١٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٠٩ (٢٩٨) ، سنن النسائی/السہو ٨٢ (١٣٣٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٦٢، ١٨٤، ٢٣٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ٨٨ (١٣٨٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی سلام پھیرتے وقت جس ہیئت پر ہوتے اس ہیئت پر صرف اتنی ہی مقدار بیٹھتے جس میں یہ کلمات ادا کرلیں پھر قبلہ سے پلٹ کر چہرہ مبارک نمازیوں کی طرف کرلیتے کیونکہ نماز فجر کے سلسلہ میں آیا ہے کہ آپ ﷺ اس کے بعد سورج نکلنے تک اپنی جگہ ہی میں بیٹھے رہتے تھے۔

【123】

سلام کے بعد دعا

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب نماز فجر میں سلام پھیرتے تو یہ دعا پڑھتے : اللهم إني أسألک علما نافعا ورزقا طيبا وعملا متقبلا اے اللہ ! میں تجھ سے نفع بخش علم، پاکیزہ روزی اور مقبول عمل کا سوال کرتا ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٥٠، ومصباح الزجاجة : ٣٣٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٩٤، ٣١٨، ٣٢٢) (صحیح) (سند میں مولیٰ ام سلمہ مبہم ہے، لیکن ثوبان کی حدیث (جو أبوداود، و ترمذی میں ہے) سے تقویت پا کر یہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے یہ معلوم ہو کہ اللهم أنت السلام کے بعد جہاں نماز پڑھی ہے اسی جگہ بیٹھے ہوئے دوسری دعا بھی پڑھ سکتے ہیں، اور پہلی حدیث کا مطلب یہ ہے کہ کبھی آپ ﷺ نے ایسا بھی کیا کہ اللهم أنت السلام کے بعد اٹھ گئے، دوسری حدیث میں نماز کے بعد آیۃ الکرسی اور تسبیحات کا پڑھنا وارد ہے، اور ممکن ہے کہ فرض کے بعد آپ ﷺ یہ چیزیں نہ پڑھتے ہوں بلکہ سنتوں کے بعد پڑھتے ہوں۔

【124】

سلام کے بعد دعا

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دو خصلتوں پر اگر مسلمان بندہ مداومت کرے تو جنت میں داخل ہوگا، وہ دونوں سہل آداب ہیں، لیکن ان پر عمل کرنے والے کم ہیں، (ایک یہ کہ) ہر نماز کے بعد دس بار سبحان الله، دس بار الله أكبر اور دس بار الحمد لله کہے ، میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ ان کو اپنی انگلیوں پر شمار کر رہے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا : یہ پڑھنے میں ایک سو پچاس ہیں اور میزان میں ایک ہزار پانچ سو ۔ (دوسرے یہ کہ) جب وہ اپنی خواب گاہ پر جائے تو سو مرتبہ سبحان الله، الحمد لله، الله أكبر کہے، یہ پڑھنے میں سو ہیں اور میزان میں ایک ہزار ہیں، تم میں سے کون ایسا ہے جو ایک دن میں دو ہزار پانچ سو گناہ کرتا ہو ، لوگوں نے عرض کیا : ایک مسلمان کیسے ان اعمال کی محافظت نہیں کرتا ؟ (جبکہ وہ بہت ہی آسان ہیں) آپ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی شخص نماز میں ہوتا ہے تو شیطان اس کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے : فلاں فلاں بات یاد کرو یہاں تک کہ وہ نہیں سمجھ پاتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھیں، اور جب وہ اپنی خواب گاہ پہ ہوتا ہے تو شیطان اس کے پاس آتا ہے، اور اسے برابر تھپکیاں دیتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ سو جاتا ہے (اور تسبیحات نہیں پڑھ پاتا) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأدب ١٠٩ (٥٠٦٥) ، سنن الترمذی/الدعوات ٢٥ (٣٤١٠) ، سنن النسائی/السہو ٩١ (١٣٤٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٣٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٦٠، ٢٠٥) (صحیح )

【125】

سلام کے بعد دعا

ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے کہا گیا یا میں نے کہا : اللہ کے رسول ! مال و دولت والے اجر و ثواب میں آگے بڑھ گئے، وہ بھی ذکرو اذکار کرتے ہیں جس طرح ہم کرتے ہیں، اور وہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتے ہیں اور ہم نہیں کر پاتے ہیں، ابوذر (رض) کہتے ہیں : مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا میں تمہیں ایسا عمل نہ بتاؤں کہ جب تم اسے کرنے لگو تو ان لوگوں (کے مقام) کو پالو گے جو تم سے آگے نکل گئے، بلکہ ان سے بھی آگے بڑھ جاؤ گے، تم ہر نماز کے بعد الحمد لله سبحان الله اور الله أكبر کہو ( ٣٣ ) بار، ( ٣٣ ) بار اور ( ٣٤ ) بار ۔ سفیان نے کہا : مجھے یاد نہیں کہ ان تینوں کلموں میں سے کس کو ( ٣٤ ) بار کہا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٩٣٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ١٥٥ (٨٤٣) ، الدعوات ١٧ (٦٣٢٩) عن أبي ہریرة، صحیح مسلم/المساجد ٢٦ (٥٩٥) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٥٩ (١٥٠٤) ، موطا امام مالک/القرآن ٧ (٢٢) ، مسند احمد (٢/٢٣٨، ٥/١٦٧، ١٦٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ٩٠ (١٣٩٣) (حسن صحیح )

【126】

سلام کے بعد دعا

ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب اپنی نماز سے فارغ ہوتے تو تین بار استغفر الله کہتے، پھر اللهم أنت السلام ومنک السلام تبارکت يا ذا الجلال والإکرام کہتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٦ (٥٩١) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٦٠ (١٥١٣) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٠٩ (٣٠٠) ، سنن النسائی/السہو ٨١ (١٣٣٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٧٥، ٢٧٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ٨٨ (١٣٨٨) (صحیح )

【127】

نماز سے فارغ ہو کر کس جانب پھرے ؟

ہلب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ہماری امامت فرماتے تو اپنے دائیں اور بائیں دونوں طرف سے مڑتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٠٤ (١٠٤١) ، سنن الترمذی/الصلاة ١١٠ (٣٠١) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٢٦، ٢٢٧) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ نماز سے فارغ ہو کر جدھر جی چاہے ادھر مقتدیوں کی طرف مڑ جائے، یہ ضروری نہیں کہ دائیں طرف ہی مڑے، اگرچہ دائیں طرف مڑنا بہتر ہے، لیکن واجب نہیں ہے کہ ہمیشہ ایسا ہی کرے۔

【128】

نماز سے فارغ ہو کر کس جانب پھرے ؟

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ تم میں سے کوئی اپنی ذات میں شیطان کے لیے حصہ مقرر نہ کرے، وہ یہ سمجھے کہ اس پر اللہ کا یہ حق ہے کہ نماز کے بعد وہ صرف اپنے دائیں جانب سے پھرے، میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ اکثر بائیں جانب سے مڑتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٥٩ (٨٥٢) ، صحیح مسلم/المسافرین ٧ (٧٠٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٠٥ (١٠٤٢) ، سنن النسائی/السہو ١٠٠ (١٣٦١) ، (تحفة الأشراف : ٩١٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٣، ٤٢٩، ٤٦٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ٨٩ (١٣٩٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: رسول اللہ ﷺ کے حجرے آپ کے مصلّے سے بائیں جانب پڑتے تھے، آپ اکثر بائیں جانب مڑتے، اور اٹھ کر اپنے حجروں میں تشریف لے جاتے۔

【129】

نماز سے فارغ ہو کر کس جانب پھرے ؟

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ نماز سے فراغت کے بعد (کبھی) دائیں اور (کبھی) بائیں جانب سے مڑتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٦٩٥، ومصباح الزجاجة : ٣٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٧٤، ١٩٠، ٢١٥، ٢٤٨) (حسن صحیح) (یہ سند حسن ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : مصباح الزجاجة )

【130】

نماز سے فارغ ہو کر کس جانب پھرے ؟

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سلام پھیرتے تو عورتیں آپ کے سلام پھیرتے ہی کھڑی ہوجاتیں، اور آپ کھڑے ہونے سے پہلے اپنی جگہ پر تھوڑی دیر ٹھہرے رہتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٥٢ (٨٣٧) ، ١٦٤ (٨٤٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٠٣ (١٠٤٠) ، سنن النسائی/السہو ٧٧ (١٣٣٣، ١٣٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٨٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٩٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تاکہ عورتیں مردوں سے پہلے چلی جائیں جیسا کہ اس کے بعد آنے والی حدیث میں اس کی صراحت ہے۔

【131】

جب نماز تیار ہو اور کھانا سامنے آجائے

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب شام کا کھانا سامنے رکھ دیا جائے، اور نماز بھی شروع ہو رہی ہو تو پہلے کھانا کھاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ١٦ (٥٥٧) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٤٦ (٣٥٣) ، سنن النسائی/الإمامة ٥١ (٨٥٤) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ٤٢ (٦٧٢) ، الأطعمہ ٥٨ (٥٤٦٣) ، مسند احمد (٣/١٠٠، ١١٠، ١٦١، ٢٣١، ٢٣٨، ٢٤٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ٥٨ (١٣١٨) (صحیح )

【132】

جب نماز تیار ہو اور کھانا سامنے آجائے

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب شام کا کھانا لگا دیا جائے اور نماز بھی تیار ہو تو پہلے کھانا کھالو ۔ نافع نے کہا کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے ایک رات کا کھانا کھایا، اور وہ اقامت سن رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٤٢ (٦٧٣) ، الأطعمة ٥٨ (٥٤٦٣) ، صحیح مسلم/المساجد ١٦ (٥٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٧٥٢٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الأطعمة ١٠ (٣٧٥٧) ، مسند احمد (٢/١٠٣) (صحیح )

【133】

جب نماز تیار ہو اور کھانا سامنے آجائے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب شام کا کھانا سامنے ہو اور نماز بھی تیار ہو تو پہلے کھانا کھاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٩٤٠، ١٧٢٦٤) ، وحدیث علی بن محمد أخرجہ : صحیح مسلم/المساجد ١٦ (٥٥٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ٤٢ (٦٧١) ، سنن الدارمی/الصلاة ٥٨ (١٣١٧) (صحیح )

【134】

بارش کی رات میں جماعت

ابوملیح کہتے ہیں کہ میں بارش والی رات میں (گھر سے) نکلا، جب واپس آیا تو میں نے دروازہ کھلوایا، میرے والد (اسامہ بن عمیر ھذلی رضی اللہ عنہ) نے اندر سے پوچھا : کون ؟ میں نے جواب دیا : ابوالملیح، انہوں نے کہا : ہم نے دیکھا کہ ہم حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے، اور بارش ہونے لگی اور ہمارے جوتوں کے تلے بھی نہ بھیگے، اتنے میں رسول اللہ ﷺ کے منادی نے اعلان کیا : صلوا في رحالکم اپنے اپنے ٹھکانوں پر نماز پڑھ لو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢١٣ (١٠٥٧، ١٠٥٨) ، سنن النسائی/الإمامة ٥١ (٨٥٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٧٤، ٧٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: نبی اکرم ﷺ نے جماعت میں حاضر ہونا معاف کردیا تاکہ لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔

【135】

بارش کی رات میں جماعت

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ بارش والی رات ہوتی یا ہوا والی ٹھنڈی رات ہوتی تو رسول اللہ ﷺ کا منادی اعلان کرتا : صلوا في رحالکم اپنے اپنے ٹھکانوں پر نماز پڑھ لو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢١٤ (١٠٦١، ١٠٦٠) ، (تحفة الأشراف : ٧٥٥٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ١٨ (٦٣٢) ، ٤٠ (٦٦٦) ، صحیح مسلم/المسافرین ٣ (٦٩٧) ، سنن النسائی/الأذان ١٧ (٦٥٥) ، موطا امام مالک/الصلاة ٢ (١٠) ، مسند احمد (٢/٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ٥٥ (١٣١١) (صحیح )

【136】

بارش کی رات میں جماعت

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جمعہ کے دن جب کہ بارش ہو رہی تھی فرمایا : اپنے اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٨٩٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ١٠ (٦١٦) ، ٤١ (٦٦٨) ، الجمعة ١٤ (٩٠١) ، صحیح مسلم/المسافرین ٣ (٦٩٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢١٤ (١٠٦٦) ، مسند احمد (١/٢٧٧) (صحیح) (گزری اور آنے والی حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے )

【137】

بارش کی رات میں جماعت

عبداللہ بن حارث بن نوفل سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس (رض) نے مؤذن کو جمعہ کے دن اذان دینے کا حکم دیا، اور یہ بارش کا دن تھا، تو مؤذن نے کہا :الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله، پھر عبداللہ بن عباس (رض) نے کہا : حي على الصلاة، حي على الفلاح کی جگہ لوگوں میں اعلان کر دو کہ وہ اپنے گھروں میں نماز ادا کرلیں، لوگوں نے یہ سنا تو عبداللہ بن عباس (رض) سے کہنے لگے آپ نے یہ کیا کیا ؟ انہوں نے کہا : یہ کام اس شخصیت نے کیا ہے، جو مجھ سے افضل تھی، اور تم مجھے حکم دیتے ہو کہ میں لوگوں کو ان کے گھروں سے نکالوں کہ وہ میرے پاس جمعہ کے لیے اپنے گھٹنوں تک کیچڑ سے لت پت آئیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٠ (٦١٦) ، صحیح مسلم/المسافرین ٣ (٦٩٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢١٤ (١٠٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٨٣) ، مسند احمد (١/٢٧٧) (صحیح )

【138】

نمازی کے سترے کا یبان

طلحہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم نماز پڑھتے اور چوپائے ہمارے سامنے سے گزرتے تھے، اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : کجاوہ کی پچھلی لکڑی کے مثل اگر کوئی چیز تمہارے آگے ہو تو جو کوئی آگے سے گزرے نمازی کو کچھ بھی نقصان نہ ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٧ (٤٩٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٠٢ (٦٨٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٣٣ (٣٣٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٠١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٦١، ١٦٢) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کجاوہ (پالان) کی پچھلی لکڑی کا اندازہ بقدر ایک ہاتھ کے کیا ہے، اور موٹا بقدر ایک انگلی کے کافی ہے، اور سترے کے نزدیک کھڑا ہونا نمازی کے لئے بہتر ہے، اسی طرح سترے کو دائیں یا بائیں ابرو کے مقابل کرنا چاہیے۔

【139】

نمازی کے سترے کا یبان

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے لیے سفر میں نیزہ لے جایا جاتا اور اسے آپ کے آگے گاڑ دیا جاتا، آپ اس کی جانب نماز پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٩٢٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة ٩٢ (٤٣٠) ، صحیح مسلم/الصلاة ٤٧ (٥٠٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٠٢ (٦٨٦) ، سنن النسائی/القبلة ٤ (٧٤٨) ، مسند احمد (٢/١٣، ١٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٢٦ (١٤٥٢) (صحیح )

【140】

نمازی کے سترے کا یبان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک چٹائی تھی جسے دن میں بچھایا جاتا تھا، اور رات میں آپ اس کو لپیٹ کر اس کی جانب نماز پڑھتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٨١ (٧٧٠) ، اللباس ٤٣ (٥٨٦١) ، صحیح مسلم/المسافرین ٣٠ (٧٨٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣١٧ (١٣٦٨) ، سنن النسائی/القبلة ١٣ (٧٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٢٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٠، ٦١، ٢٤١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بعضوں نے اعتکاف کا ذکر کیا ہے، بہر حال سترے کی طرف نماز پڑھنا اس حدیث سے بھی نکلتا ہے، اور اسی لئے مؤلف نے اس کو اس باب میں رکھا ہے، سترہ وہ آڑ جو نمازی اپنے سامنے کسی چیز سے کرلیتا ہے، اس کے آگے سے لوگ گزر سکتے ہیں۔

【141】

نمازی کے سترے کا یبان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب کوئی شخص نماز پڑھے تو اپنے سامنے کچھ رکھ لے، اگر کوئی چیز نہ پائے تو کوئی لاٹھی کھڑی کرلے، اگر وہ بھی نہ پائے تو لکیر کھینچ لے، پھر جو چیز بھی اس کے سامنے سے گزرے گی اسے نقصان نہیں پہنچائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٠٣ (٩٨٩، ٦٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٤٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/ ٢٤٩، ٢٥٤، ٢٦٦، ٣/٢٤٩، ٢٥٥، ٢٦٦) (ضعیف) (اس حدیث کی سند میں ابو عمرو اور ان کے دادا حریث مجہول ہیں، نیز ملاحظہ ہو : المشکاة : ٧٨١ )

【142】

نمازی کے سامنے سے گز رنا

بسر بن سعید کہتے ہیں کہ لوگوں نے مجھے زید بن خالد (رض) کے پاس بھیجا تاکہ میں ان سے (نمازی) کے آگے سے گزرنے کے متعلق سوال کروں، انہوں نے خبر دی کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے : چالیس ... تک ٹھہرے رہنا نمازی کے آگے سے گزرنے سے بہتر ہے ۔ سفیان بن عیینہ (راوی حدیث) کہتے ہیں : مجھے یاد نہیں کہ آپ ﷺ نے چالیس سال یا چالیس مہینے یا چالیس دن یا چالیس گھنٹہ کہا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ما جہ، (تحفة الأشراف : ٣٧٤٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٠١ (٥١٠) ، صحیح مسلم/الصلاة ٤٨ (٥٠٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٠٩ (٧٠١) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٣٥ (٣٣٦) ، سنن النسائی/القبلة ٨ (٧٥٧) ، مسند احمد (٤/١٦٩) (صحیح) (آگے کی حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے )

【143】

نمازی کے سامنے سے گز رنا

بسر بن سعید سے روایت ہے کہ زید بن خالد (رض) نے ابوجہیم انصاری (رض) کے پاس کسی کو یہ پوچھنے کے لیے بھیجا کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے اس شخص کے بارے میں کیا سنا ہے، جو نمازی کے آگے سے گزرے ؟ انہوں نے کہا : میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اگر تم میں سے کوئی جان لے کہ اپنے بھائی کے آگے سے نماز کی حالت میں گزرنے میں کیا گناہ ہے، تو اس کے لیے چالیس ... تک ٹھہرے رہنا آگے سے گزرنے سے بہتر ہے ۔ راوی کہتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں کہ آپ ﷺ نے چالیس سال، چالیس مہینے یا چالیس دن فرمایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٠١ (٥١٠) ، صحیح مسلم/الصلاة ٤٨ (٥٠٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٠٩ (٧٠١) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٣٥ (٣٣٦) ، سنن النسائی/القبلة ٨ (٧٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٨٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/قصر الصلاة ١٠ (٣٤) ، مسند احمد (٤/١٦٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٣٠ (١٤٥٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بہر حال نمازی کے سامنے سے گزرنا سخت گناہ ہے، بعض علماء نے کہا ہے کہ یہ اس وقت ہے جب نمازی کے قریب سے گزرے، بعض نے کہا تین ہاتھ کے اندر، اور کسی نے کہا پانچ ہاتھ کے اندر، اور بعض لوگوں نے چالیس ہاتھ کی دوری کا ذکر کیا ہے، نیز بعض لوگوں نے کہا کہ سجدہ کے مقام پر دیکھے تو جہاں تک اس کی نظر جاتی ہو اس کے اندر سے گزرنا گناہ ہے، اس کے آگے گزرے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

【144】

نمازی کے سامنے سے گز رنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر تم میں سے کوئی اس گناہ کو جان لے جو اپنے بھائی کے آگے سے نماز کی حالت آڑے میں گزرنے سے ہے تو وہ ایک قدم اٹھانے سے سو سال کھڑے رہنا بہتر سمجھے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٨٩، ومصباح الزجاجة : ٣٤٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٧١) (ضعیف) (اس حدیث کی سند میں عبداللہ بن عبدالرحمن اور ان کے چچا عبید اللہ بن عبداللہ دونوں ضعیف ہیں )

【145】

جس چیز کے سامنے سے گز رنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ مقام عرفہ میں نماز پڑھا رہے تھے، میں اور فضل ایک گدھی پر سوار ہو کر صف کے کچھ حصے کے سامنے سے گزرے، پھر ہم سواری سے اترے اور گدھی کو چھوڑ دیا، پھر ہم صف میں شامل ہوگئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ١٨ (٧٦) ، الصلاة ٩٠ (٤٩٣) ، الأذان ١٦١ (٨٦١) ، جزاء الصید ٢٥ (١٨٥٧) ، المغازي ٧٧ (٤٤١٢) ، صحیح مسلم/الصلاة ٤٧ (٥٠٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ١١٣ (٧١٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٣٦ (٣٣٧) ، سنن النسائی/القبلة ٧ (٧٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٩٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/قصر الصلاة ١١ (٣٨) ، مسند احمد (١/٢١٩، ٢٦٤، ٣٣٧، ٣٦٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٢٩ (١٤٥٥) (صحیح) (صحیح بخاری میں بمنى بدل بعرفة ہے، اور وہی محفوظ ہے، ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود : ٧٠٩ )

【146】

جس چیز کے سامنے سے گز رنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ان کے حجرہ میں نماز پڑھ رہے تھے، اتنے میں آپ کے سامنے سے عبداللہ یا عمر بن ابی سلمہ گزرے، تو آپ ﷺ نے ہاتھ سے اشارہ کیا وہ لوٹ گئے، پھر زینب بنت ام سلمہ گزریں، تو آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اسی طرح اشارہ کیا مگر وہ سامنے سے گزرتی چلی گئیں، جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے، تو فرمایا : یہ عورتیں نہیں مانتیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٩٣، ومصباح الزجاجة : ٣٤١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٩٤) (ضعیف) (سند میں قیس والد محمد مجہول ہیں، اور بعض نسخوں میں عن أمہ آیا ہے، اور امام مزی نے عن امہ کو معتمد مانا ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اپنی جہالت اور نافہمی کی وجہ سے مردوں پر غالب آجاتی ہیں۔

【147】

جس چیز کے سامنے سے گز رنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : کالا کتا اور بالغ عورت نماز کو توڑ دیتے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١١٠ (٧٠٣) ، سنن النسائی/القبلة ٧ (٧٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٧٩) ، مسند احمد (١/٣٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جب نمازی کے سامنے سے گزریں اور سترہ نہ ہو، یہ حدیث صحیح ہے، اس کا نسخ مخالفین جس حدیث سے بیان کرتے ہیں وہ ضعیف ہے، اور منسوخ ہونا قرین قیاس بھی نہیں ہے، اس لئے کہ یہ صحیح حدیث عبداللہ بن عباس (رض) سے مروی ہے، اور انہوں نے بہت آخر زمانہ میں کم سنی میں نبی اکرم ﷺ سے حدیثیں سنی ہیں۔

【148】

جس چیز کے سامنے سے گز رنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عورت، کتے اور گدھے کا گزرنا نماز کو توڑ دیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٢٩، ومصباح الزجاجة : ٣٤٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٢٥، ٢٩٩) (صحیح )

【149】

جس چیز کے سامنے سے گز رنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے

عبداللہ بن مغفل (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عورت، کتے اور گدھے کا گزرنا نماز کو توڑ دیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٦٥٤، ومصباح الزجاجة : ٣٤٣) ، مسند احمد (٤/٨٦، ٥/٥٧) (صحیح )

【150】

جس چیز کے سامنے سے گز رنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے

ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب نمازی کے آگے کجاوہ کی لکڑی کے مثل کوئی چیز نہ ہو تو اس کی نماز عورت، گدھے اور کتے کے گزرنے سے ٹوٹ جاتی ہے ١ ؎۔ عبداللہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ابوذر (رض) سے پوچھا کہ کالے کتے کی تخصیص کی کیا وجہ ہے ؟ اگر لال کتا ہو تو ؟ انہوں نے کہا : میں نے نبی اکرم ﷺ سے یہی سوال کیا تھا جو تم نے مجھ سے کیا ہے تو آپ نے فرمایا : کالا کتا شیطان ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٥٠ (٥١٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ١١٠ (٧٠٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٣٧ (٣٣٨) ، سنن النسائی/القبلة ٧ (٧٥١) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٩ ١، ١٥١، ١٥٥، ١٦٠، ١٦١) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٢٨ (١٤٥٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جمہور نے ان روایتوں کی تاویل کی ہے کہ نماز ٹوٹنے سے مراد توجہ بٹ جانے کی وجہ سے نماز میں نقص اور خلل کا پیدا ہونا ہے نہ کہ نماز کا فی الواقع ٹوٹ جانا ہے، اوپر کے حواشی میں اہل علم کی آراء کا ذکر آگیا ہے، جن علماء نے ان تینوں کے گزرنے سے نماز کے باطل ہونے کی بات کہی ہے، ان میں شیخ الإسلام ابن تیمیہ، ابن القیم، ابن قدامہ اور ظاہر یہ ہیں، ان کے یہاں وہ روایات جن میں نماز کے نہ دہرانے کی بات ہے، وہ عام احادیث ہیں، جن میں سے مذکورہ تین چیزوں کو استثناء حاصل ہے، تو اب سابقہ حدیث عام مخصوص ہوگی اور ابوذر (رض) کی حدیث پر عمل ہوگا۔ ٢ ؎: یعنی شیطان کتے کی صورت اختیار کر کے نماز توڑنے کے لئے آتا ہے، یا خود کالا کتا شیطان ہوتا ہے، یعنی شریر اور منحوس ہوتا ہے، غرض نماز کا اس سے ٹوٹ جانا حکم شرعی ہے اس میں قیاس کو دخل نہیں، اور تعجب ہے کہ حنفیہ ایک ضعیف حدیث سے قہقہہ کو ناقص وضو جانتے ہیں، اور قیاس کو ترک کرتے ہیں اور یہاں صحیح حدیث کو قیاس کے خلاف نہیں مانتے، بعض لوگوں نے اسے حقیقت پر محمول کیا ہے اور کہا ہے کہ شیطان کالے کتے کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ کالا کتا دوسرے کتوں کے مقابل زیادہ ضرر رساں ہوتا ہے اس لیے اسے شیطان کہا گیا ہے۔

【151】

نمازی کے سامنے سے جو چیز گزرے اس کو کہاں تک ہو سکے رو کے۔

حسن عرنی کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس (رض) کے پاس ان چیزوں کا ذکر ہوا جو نماز کو توڑ دیتی ہیں، لوگوں نے کتے، گدھے اور عورت کا ذکر کیا، عبداللہ بن عباس (رض) نے پوچھا : تم لوگ بکری کے بچے کے بارے میں کیا کہتے ہو ؟ ایک دن آپ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے، تو بکری کا ایک بچہ آپ کے سامنے سے گزرنے لگا تو آپ ﷺ جلدی سے قبلہ کی طرف بڑھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٣٩٨، ومصباح الزجاجة : ٣٤٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ١١١ (٧٠٩) ، مسند احمد (١/٢٤٧، ٢٩١، ٣٠٨، ٣٤٣) (صحیح) (حسن العرنی اور ابن عباس (رض) کے مابین انقطاع کی وجہ سے سند ضعیف ہے، لیکن دوسرے طریق سے یہ صحیح ہے، صحیح ابی داو د : ٧٠٢ ، نیز مصباح الزجاجة، موطا امام مالک/ الجامعہ الاسلامیہ : ٣٤٦ ) وضاحت : ١ ؎: آپ ﷺ جلدی سے قبلہ کی طرف بڑھے تاکہ اسے گزرنے سے روک دیں۔

【152】

نمازی کے سامنے سے جو چیز گزرے اس کو کہاں تک ہو سکے رو کے۔

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی نماز پڑھے تو سترہ کی جانب پڑھے، اور اس سے قریب کھڑا ہو، اور کسی کو اپنے سامنے سے گزرنے نہ دے، اگر کوئی گزرنا چاہے تو اس سے لڑے ١ ؎ کیونکہ وہ شیطان ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٨ (٥٠٥) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٠٨ (٦٩٧، ٦٩٨) ، سنن النسائی/القبلة ٨ (٧٥٨) ، (تحفة الأشراف : ٤١١٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/ قصر الصلاة ١٠ (٣٣) ، مسند احمد (٣/٣٤، ٤٣، ٤٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٢٥ (١٤٥١) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مقاتلہ سے مراد دفع کرنا اور روکنا ہے، لیکن اسلحے کا استعمال کسی سے بھی منقول نہیں ہے۔ ٢ ؎: یعنی عزی نامی شیطان ہے۔

【153】

نمازی کے سامنے سے جو چیز گزرے اس کو کہاں تک ہو سکے رو کے۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی نماز پڑھ رہا ہو تو اپنے سامنے کسی کو گزرنے نہ دے، اور اگر وہ نہ مانے تو اس سے لڑے، کیونکہ اس کے ساتھ اس کا ساتھی (شیطان) ہے ۔ حسن بن داود منکدری نے کہا کہ اس کے ساتھ عزّی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٨ (٥٠٦) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٩٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٨٦، ٨٩) (صحیح )

【154】

جو نماز پڑھے جبلہ اس کے اور قبلہ کے درمیان کوئی چیز حائل ہو

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ رات میں نماز پڑھتے تھے، اور میں آپ کے اور قبلہ کے درمیان جنازہ کی طرح آڑے لیٹی ہوتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٥١ (٥١٢) ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٤٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٠٨ (٣٨٢، ٣٨٣) ، سنن ابی داود/الصلاة ١١٢ (٧١٢) ، سنن النسائی/الطہارة ١٢٠ (١٦٦) ، موطا امام مالک/صلاة اللیل ١ (٢) ، مسند احمد (٦/٤٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٢٧ (١٤٥٣) (صحیح )

【155】

جو نماز پڑھے جبلہ اس کے اور قبلہ کے درمیان کوئی چیز حائل ہو

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ ان کا بستر رسول اللہ ﷺ کی سجدہ گاہ کے بالمقابل ہوتا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللباس ٤٥ (٤١٤٨) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٢٢) (صحیح )

【156】

جو نماز پڑھے جبلہ اس کے اور قبلہ کے درمیان کوئی چیز حائل ہو

عبداللہ بن شداد (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے ام المؤمنین میمونہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی اکرم ﷺ نماز پڑھتے تھے اور میں آپ کے سامنے لیٹی ہوتی تھی، اور بسا اوقات جب آپ سجدہ فرماتے تو آپ کا کپڑا مجھ سے چھو جاتا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٩ (٣٧٩) ، ٢١ (٣٨١) ، ٧ (٥١٧) ، ١٠ (٥١٨) ، صحیح مسلم/الصلاة ٥١ (٥١٣) ، سنن ابی داود/الصلاة ٩١ (٦٥٦) ، سنن النسائی/المساجد ٤٤ (٧٣٩) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٦٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٣٠، ٣٣٥، ٣٣٦) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٠١ (١٤١٣) (صحیح )

【157】

جو نماز پڑھے جبلہ اس کے اور قبلہ کے درمیان کوئی چیز حائل ہو

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بات چیت کرنے والے، اور سوئے ہوئے شخص کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٠٦ (٦٩٤) ، (تحفة الأشراف : ٦٤٤٨) (حسن) (تراجع الا ٔلبانی : رقم : ٢٥١ ) وضاحت : ١ ؎: یہ ممانعت تنزیہی ہے یعنی بہتر ہے کہ اس طرح نماز نہ ادا کی جائے، یا اس حدیث کا مفہوم یہ کہ مسجد وسیع اور جگہ بہت ہو لیکن خواہ مخواہ قصداً ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھے جو باتیں کر رہا ہو، تو ایسا کرنا درست نہیں ہے، ورنہ اوپر حدیث میں گزرا کہ ام المومنین عائشہ (رض) آپ ﷺ کے آگے سوئی ہوتیں، اور آپ ﷺ نماز پڑھتے۔

【158】

امام سے قبل رکوع، سجدہ میں جانا منع ہے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ہمیں سکھاتے کہ ہم رکوع اور سجدے میں امام سے پہل نہ کریں اور (فرماتے) جب امام اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو، اور جب سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٤٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ مقتدی کو ہر ایک رکن امام کے بعد کرنا چاہیے، امام کے ساتھ ساتھ یا امام سے پہلے یا امام کے بعد زیادہ دیر سے کرنا درست نہیں ہے۔

【159】

امام سے قبل رکوع، سجدہ میں جانا منع ہے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص امام سے پہلے اپنا سر اٹھاتا ہے، کیا وہ اس بات سے نہیں ڈرتا کہ اللہ تعالیٰ اس کے سر کو گدھے کے سر سے بدل دے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٢٥ (٤٢٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ٧٦ (٦٢٣) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٩٢ (٥٨٢) ، سنن النسائی/الإمامة ٣٨ (٨٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤٣٦٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ٥٣ (٦٩١) ، مسند احمد (٢/٢٦٠، ٢٧١، ٤٢٥، ٤٥٦، ٤٦٩، ٤٧٢، ٥٠٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ٧٢ (١٣٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی گدھے کی طرح اس کو بیوقوف بنا دے، اور آخرت میں وہ گدھے کی طرح اٹھے، بعضوں نے کہا کہ دنیا میں بھی گدھے کی طرح مسخ ہوسکتا ہے، اس لئے کہ یہ مسخ خاص ہے اور اس امت میں وہ ہوسکتا ہے، البتہ مسخ عام نہیں ہوگا۔

【160】

امام سے قبل رکوع، سجدہ میں جانا منع ہے

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرا بدن بھاری ہوگیا ہے، لہٰذا جب میں رکوع میں جاؤں تب تم رکوع میں جاؤ، اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھا لوں تو تم اپنا سر اٹھاؤ، اور جب سجدہ میں چلا جاؤں تو تم سجدہ میں جاؤ، میں کسی شخص کو نہ پاؤں کہ وہ مجھ سے پہلے رکوع یا سجدے میں چلا جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٩٩٤، ومصباح الزجاجة : ٣٤٥) (صحیح) (دوسری سندوں سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں دارم مجہول ہیں، ملاحظہ : الصحیحة : ١٧٢٥ )

【161】

امام سے قبل رکوع، سجدہ میں جانا منع ہے

معاویہ بن ابی سفیان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم رکوع اور سجدے میں مجھ سے سبقت نہ کرو، اگر میں رکوع تم سے پہلے کروں گا تو تم مجھ کو پالو گے جب میں رکوع سے سر اٹھا رہا ہوں گا، اور اگر میں سجدہ میں تم سے پہلے جاؤں گا تو تم مجھ کو پالو گے جب میں سجدہ سے سر اٹھا رہا ہوں گا، کیونکہ میرا جسم بھاری ہوگیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٤٢٦، ومصباح الزجاجة : ٣٤٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٧٥ (٦١٩) ، مسند احمد (٤/٩٢، ٩٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ٧٢ (١٣٥٤) (حسن صحیح )

【162】

نماز کے مکر وہات

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ بدسلوکی اور بےرخی کی بات ہے کہ آدمی نماز ختم کرنے سے پہلے اپنی پیشانی پر باربار ہاتھ پھیرے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٧١، ومصباح الزجاجة : ٣٤٧) (ضعیف) (اس حدیث کی سند میں ہارون ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٨٧٧ )

【163】

نماز کے مکر وہات

علی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم نماز میں اپنی انگلیاں نہ چٹخاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٥٣، ومصباح الزجاجة : ٣٤٨) (ضعیف) (اس کی سند میں حارث الا ٔعور ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ٣٧٨ )

【164】

نماز کے مکر وہات

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز میں منہ ڈھانپنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤١٧٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٨٦ (١٠٠٥٣) (حسن )

【165】

نماز کے مکر وہات

کعب بن عجرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس نے نماز میں تشبیک کر رکھی ہے ١ ؎، آپ ﷺ نے اس کی انگلیاں الگ الگ کردیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة (٣٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١١١٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٥٤، ٤/٢٤٢، ٢٤٣) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٢١ (١٤٤٥) (ضعیف) (علقمہ اور ابوبکر بن عیاش کے ضعف کی وجہ سے یہ ضعیف ہے ) وضاحت : ١ ؎: ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کرنے کا نام تشبیک ہے۔

【166】

نماز کے مکر وہات

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی شخص جمائی لے تو اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھ لے اور آواز نہ کرے، اس لیے کہ شیطان اس سے ہنستا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٦٨، ومصباح الزجاجة : ٣٤٩) ، قد أخرجہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ١١ (٣٢٨٩) ، سنن ابی داود/الأدب ٩٧ (٥٠٢٨) ، سنن الترمذی/الأدب ٧ (٢٧٤٨) ، مسند احمد (٢/٣٩٧، ٣/٣١) ، ومن غير ذكر : ولا يعوي (موضوع) (ولا يعوي کے لفظ کے ساتھ یہ حدیث موضوع ہے، اس کے بغیر صحیح ہے کما فی التخریج، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٢٤٢٠ ، ومصباح الز جاجہ ب تحقیق الشہری : ٣٥١ )

【167】

نماز کے مکر وہات

ثابت کے والد دینار (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : نماز میں تھوکنا، رینٹ نکالنا، حیض کا آنا اور اونگھنا، شیطان کی جانب سے ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأدب (٢٧٤٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٤٣) (ضعیف) (اس کی سند میں ابو الیقظان عثمان بن عمیر البجلی ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٣٣٧٩ )

【168】

جو شخص کسی جماعت کا امام بنے جبکہ وہ اسے ناپسند سمجھتے ہوں

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین لوگوں کی نماز قبول نہیں ہوتی : ایک تو وہ جو لوگوں کی امامت کرے جب کہ لوگ اس کو ناپسند کرتے ہوں، دوسرا وہ جو نماز میں ہمیشہ پیچھے (یعنی نماز کا وقت فوت ہوجانے کے بعد) آتا ہو، اور تیسرا وہ جو کسی آزاد کو غلام بنا لے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٦٣ (٥٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٠٣) (ضعیف) (اس کی سند میں عبد الرحمن بن زیاد افریقی ضعیف ہیں، لیکن حدیث کا پہلا ٹکڑا صحیح ہے، ملاحظہ ہو : ضعیف ابی داود : ٩٢ ، صحیح أبی دواود : ٦٠٧ )

【169】

جو شخص کسی جماعت کا امام بنے جبکہ وہ اسے ناپسند سمجھتے ہوں

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین اشخاص ایسے ہیں کہ ان کی نماز ان کے سروں سے ایک بالشت بھی اوپر نہیں جاتی : ایک وہ شخص جس نے کسی قوم کی امامت کی اور لوگ اس کو ناپسند کرتے ہیں، دوسرے وہ عورت جو اس حال میں رات گزارے کہ اس کا شوہر اس سے ناراض ہو، اور تیسرے وہ دو بھائی جنہوں نے باہم قطع تعلق کرلیا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٦٣٥، ومصباح الزجاجة : ٣٥١) (منکر) (اس سیاق سے یہ حدیث منکر ہے، اخوان متصارمان کے بجائے العبدالآبق کے لفظ سے حسن ہے، نیز ملاحظہ ہو : غایة المرام : ٢٤٨ ، ومصباح الزجاجة : ٣٥٣ ، ب تحقیق الشہری )

【170】

دو آدمی جماعت ہیں

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دو یا دو سے زیادہ لوگ جماعت ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٠٢١، ومصباح الزجاجة : ٣٥٢) (ضعیف) (اس کی سند میں ربیع اور ان کے والد بدر بن عمرو دونوں ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ٤٨٩ )

【171】

دو آدمی جماعت ہیں

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے اپنی خالہ میمونہ (رض) کے پاس رات بسر کی، نبی اکرم ﷺ رات میں نماز (تہجد) کے لیے اٹھے، میں بھی اٹھا اور جا کر آپ کے بائیں جانب کھڑا ہوگیا، آپ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنے دائیں جانب کھڑا کرلیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٤٢ (١١٧) ، الأذان ٥٧ (٦٩٧) ، ٥٩ (٦٩٩) ، ٧٩ (٧٢٨) ، اللباس ٧١ (٥٩١٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٦٩) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٦ (٧٦٣) ، سنن ابی داود/الصلاة ٧٠ (٦١٠) ، سنن النسائی/الإمامة ٢٢ (٨٠٧) ، مسند احمد (١/٢١٥، ٢٥٢، ٢٨٥، ٢٨٧، ٣٤١، ٣٤٧، ٣٥٤، ٣٥٧، ٣٦٠، ٣٦٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ٤٣ (١٢٩٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے کئی باتیں معلوم ہوئیں، ایک یہ کہ نفلی نماز میں جماعت صحیح ہے، اور دوسرے یہ کہ ایک لڑکے کے ساتھ ہونے سے جماعت ہوجاتی ہے، تیسرے یہ کہ اگر مقتدی اکیلا ہو تو امام کے دائیں طرف کھڑے ہو، چوتھی یہ کہ جس نے امامت کی نیت نہ کی ہو اس کے پیچھے نماز صحیح ہے۔

【172】

دو آدمی جماعت ہیں

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مغرب پڑھ رہے تھے میں آیا اور آپ کے بائیں جانب کھڑا ہوگیا، تو آپ نے مجھے اپنے دائیں جانب کھڑا کرلیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٢٧٩، ومصباح الزجاجة : ٣٥٢/أ) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٦ (٧٦٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ٨٢ (٦٣٤) ، مسند احمد (١/٢٦٨، ٣٦٠، ٣/٣٢٦) (صحیح) (دوسرے شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں شرحبیل ضعیف راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ٥٢٩ ، و مصباح الزجاحة : ٣٥٥ ، ب تحقیق الشہری ) وضاحت : ١ ؎: عبداللہ بن عباس (رض) کو بھی آپ ﷺ نے اسی طرح دائیں طرف کرلیا، ایک ہاتھ سے پکڑ کر پیچھے کی طرف سے گھما کر، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز اس قدر عمل کرنے سے فاسد نہیں ہوتی۔

【173】

دو آدمی جماعت ہیں

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے گھر کی ایک عورت اور میرے ساتھ نماز پڑھی، تو آپ نے مجھے اپنے دائیں جانب کھڑا کیا، اور عورت نے ہمارے پیچھے نماز پڑھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٧٠ (٦٠٩) ، سنن النسائی/الإمامة ٢١ (٨٠٤) ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ٧٨ (٧٢٧) ، صحیح مسلم/المساجد ٤٨ (٦٦٠) ، مسند احمد (٣/٢٥٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ بھی نفل ہوگی کیونکہ فرض تو آپ مسجد میں ادا کرتے تھے، اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اگر مقتدی ایک عورت اور ایک لڑکا ہو تو لڑکا امام کے دائیں طرف کھڑا ہو، اور عورت پیچھے کھڑی ہو۔

【174】

امام کے قریب کن لوگوں کا ہونا مستحب ہے ؟

ابومسعود انصاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز میں ہمارے کندھوں پہ ہاتھ پھیرتے اور فرماتے : الگ الگ نہ رہو، ورنہ تمہارے دل الگ الگ ہوجائیں گے، اور تم میں جو عقل اور شعور والے ہیں وہ میرے نزدیک کھڑے ہوں، پھر وہ لوگ جو عقل و شعور میں ان سے قریب ہوں، پھر وہ جو ان سے قریب ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٢٨ (٤٣٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ٩٦ (٦٧٤) ، سنن النسائی/الإمامة ٢٣ (٨٠٨) ، ٢٦ (٨١٣) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٩٤) مسند احمد (٤/١٢٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ٥١ (١٣٠٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اختلاف نہ کرو کا مطلب یہ ہے کہ صف میں برابر کھڑے ہو کسی کا کندھا آگے پیچھے نہ رہے، کیونکہ روحانی طور پر اس کا اثر دلوں پر پڑے گا، اور صفوں میں آگے پیچھے ہونے سے لوگوں کے دلوں میں اختلاف پیدا ہوجائے گا، جس سے مسلمانوں کی قوت و شوکت کمزور ہوجائے گی، اور دشمن کا تسلط و غلبہ بڑھے گا، اس سے معلوم ہوا کہ امام کو صفوں کی درستگی کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے، نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امام کے ساتھ پہلی صف میں وہ لوگ کھڑے ہوں جو علم و فضل اور عقل و دانش میں ممتاز ہوں، پھر وہ جو ان سے کم ہوں، پھر وہ جو ان سے کم ہوں۔

【175】

امام کے قریب کن لوگوں کا ہونا مستحب ہے ؟

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ پسند فرماتے تھے کہ مہاجرین اور انصار آپ کے قریب کھڑے ہوں، تاکہ آپ سے دین کی باتیں سیکھ سکیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٢٢، ومصباح الزجاجة : ٣٥٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٠٠، ١٩٩، ٢٦٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس لئے کہ یہ عقل اور علم و فضل میں اور لوگوں سے آگے تھے۔

【176】

امام کے قریب کن لوگوں کا ہونا مستحب ہے ؟

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کو دیکھا کہ وہ پیچھے کی صفوں میں رہتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : آگے آ جاؤ، اور نماز میں تم میری اقتداء کرو، اور تمہارے بعد والے تمہاری اقتداء کریں، کچھ لوگ برابر پیچھے رہا کرتے ہیں یہاں تک کہ اللہ ان کو پیچھے کردیتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٢٨ (٤٣٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ٩٨ (٦٨٠) ، سنن النسائی/الإمامة ١٧ (٧٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٣٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٩، ٣٤، ٥٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی آخرت میں وہ پیچھے رہ جائیں گے، اور جنت میں لوگوں کے بعد جائیں گے، یا دنیا میں ان کا درجہ گھٹ جائے گا، اور علم و عقل سے، اور اللہ تعالیٰ کی عنایت اور رحمت سے پیچھے رہیں گے، اس میں امام کے قریب کھڑے ہونے کی تاکید اور نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی ترغیب ہے۔

【177】

امامت کا زیادہ حقدار کون ہے

مالک بن حویرث (رض) کہتے ہیں کہ میں اور میرا ایک ساتھی دونوں نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، جب ہم واپس ہونے لگے تو آپ ﷺ نے ہم سے فرمایا : جب نماز کا وقت ہوجائے تو اذان و اقامت کہو، اور تم میں جو عمر میں بڑا ہو وہ امامت کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٧ (٦٢٨) ، ١٨ (٦٣٠) ، ٣٥ (٦٥٨، ٦٨٥) ، ٤٩ (٨١٩) ، الجہاد ٤٢ (٢٨٤٨) ، الادب ٢٧ (٦٠٠٨) ، أخبار الآحاد ١ (٧٢٤٦) ، صحیح مسلم/المساجد ٥٣ (٦٧٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ٦١ (٥٨٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ٣٧ (٢٠٥) ، سنن النسائی/الأذان ٧ (٦٣٥) ، ٨ (٦٣٦) ، ٢٩ (٦٧٠) ، الإمامة ٤ (٧٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١١١٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٣٦، ٥/٥٣) ، سنن الدارمی/الصلاة ٤٢ (١٢٨٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ایک اذان کہے اور دوسرا جواب دے، یا یہ کہا جائے کہ دونوں کی طرف اسناد مجازی ہے مطلب یہ ہے کہ تم دونوں کے درمیان اذان اور اقامت ہونی چاہیے جو بھی کہے، اذان اور اقامت کا معاملہ چھوٹے بڑے کے ساتھ خاص نہیں، البتہ امامت جو بڑا ہو وہ کرے۔

【178】

امامت کا زیادہ حقدار کون ہے

ابومسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگوں کی امامت وہ شخص کرے جو لوگوں میں قرآن زیادہ جانتا ہو، اگر قراءت میں سب یکساں ہوں تو امامت وہ کرے جس نے ہجرت پہلے کی ہو ١ ؎، اگر ہجرت میں سب برابر ہوں تو امامت وہ کرے جو عمر کے لحاظ سے بڑا ہو، اور کوئی شخص کسی شخص کے گھر والوں میں اور اس کے دائرہ اختیار و منصب کی جگہ میں امامت نہ کرے ٢ ؎، اور کوئی کسی کے گھر میں اس کی مخصوص جگہ پہ بغیر اس کی اجازت کے نہ بیٹھے ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٥٣ (٦٧٣) ، سنن ابی داود/الصلاة ٦١ (٥٨٢، ٥٨٣، ٥٨٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ٦٠ (٢٣٥) ، سنن النسائی/الإمامة ٣ (٧٨١) ، ٦ (٧٨٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٧٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١١٨، ١٢١، ١٢٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ابومسعود (رض) کی دوسری روایت میں یوں ہے کہ اگر قراءت میں برابر ہوں تو جس کو سنت کا علم زیادہ ہو وہ امامت کرے، اگر اس میں بھی برابر ہوں تو جس کی ہجرت پہلے ہوئی ہو وہ امامت کرے، یعنی قرآن زیادہ جانتا ہو یا قرآن کو اچھی طرح پڑھتا ہو، یہ حدیث صحیح ہے، محدثین نے اسی کے موافق یہ حکم دیا ہے کہ جو شخص قرآن زیادہ جانتا ہو وہی امامت کا حق دار ہے اگرچہ نابالغ یا کم عمر ہو، اور اسی بناء پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عمر بن ابی سلمہ کو امام بنایا تھا، حالانکہ ان کی عمر چھ یا سات برس کی تھی۔ ٢ ؎: یعنی مہمان میزبان کی امامت نہ کرے، الا یہ کہ وہ اس کی اجازت دے، اسی طرح کوئی کسی جگہ کا حکمران ہو تو اس کی موجودگی میں کوئی اور امامت نہ کرے۔ ٣ ؎: مثلاً کسی کی کوئی مخصوص کرسی یا مسند وغیر ہو تو اس پر نہ بیٹھے۔

【179】

امام پر کیا واجب ہے ؟

ابوحازم کہتے ہیں کہ سہل بن سعد ساعدی (رض) اپنی قوم کے جوانوں کو آگے بڑھاتے وہی لوگوں کو نماز پڑھاتے، کسی نے سہل (رض) سے کہا : آپ جوانوں کو نماز کے لیے آگے بڑھاتے ہیں، حالانکہ آپ کو سبقت اسلام کا بلند رتبہ حاصل ہے ؟ انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : امام (مقتدیوں کی نماز کا) ضامن ہے، اگر وہ اچھی طرح نماز پڑھائے تو اس کے لیے بھی ثواب ہے اور مقتدیوں کے لیے بھی، اور اگر خراب طریقے سے پڑھائے تو اس پر گناہ ہے لوگوں پر نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٧٠٠، ومصباح الزجاجة : ٣٥٤) (صحیح) (دوسرے شواہد کے بناء پر یہ صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں عبد الحمید ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٧٦٧ ) وضاحت : ١ ؎: امام ضامن ہے کا مطلب یہ کہ اگر وہ اچھی طرح سے نماز پڑھتا ہے، تو اس کا اجر و ثواب اس کو اور مقتدیوں دونوں کو ملے گا، اور اگر خراب طریقے سے نماز پڑھتا ہے، تو اس کا وبال اسی پر ہوگا، نہ کہ مقتدیوں پر۔

【180】

امام پر کیا واجب ہے ؟

خرشہ کی بہن سلامہ بنت حر (رض) کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا : لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ دیر تک کھڑے رہیں گے، کوئی امام نہیں ملے گا جو انہیں نماز پڑھائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٦٠ (٥٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٨١) (ضعیف) (اس کی سند میں عقیلہ مجہول ہیں )

【181】

امام پر کیا واجب ہے ؟

ابوعلی ہمدانی سے روایت ہے کہ وہ ایک کشتی میں نکلے، اس میں عقبہ بن عامر جہنی (رض) بھی تھے، اتنے میں نماز کا وقت ہوگیا، ہم نے ان سے عرض کیا کہ آپ ہماری امامت کریں، آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں اس لیے کہ آپ صحابی رسول ہیں، انہوں نے امامت سے انکار کیا، اور بولے : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جس نے لوگوں کی امامت کی اور صحیح طریقہ سے کی تو یہ نماز اس کے لیے اور مقتدیوں کے لیے بھی باعث ثواب ہے، اور اگر اس نے نماز میں کوئی کوتاہی کی تو اس کا وبال امام پر ہوگا، اور مقتدیوں پر کچھ نہ ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٥٩ (٥٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٩١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٤٥، ١٥٤، ١٥٦، ٢٠١) (صحیح )

【182】

جو لوگوں کا امام بنے تو وہ ہلکی نماز پڑھائے

ابومسعود انصاری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا، اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں فلاں شخص کی وجہ سے فجر کی نماز میں دیر سے جاتا ہوں، اس لیے کہ وہ نماز کو بہت لمبی کردیتا ہے، ابومسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اتنا سخت غضبناک کبھی بھی کسی وعظ و نصیحت میں نہیں دیکھا جتنا اس دن دیکھا، آپ ﷺ نے فرمایا : لوگو ! تم میں کچھ لوگ نفرت دلانے والے ہیں، لہٰذا تم میں جو کوئی لوگوں کو نماز پڑھائے ہلکی پڑھائے، اس لیے کہ لوگوں میں کمزور، بوڑھے اور ضرورت مند سبھی ہوتے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٢٨ (٩٠) ، الأذان ٦١ (٧٠٢) ، ٦٣ (٧٠٤) ، الأحکام ١٣ (٧١٥٩) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٧ (٤٦٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١١٨، ١١٩، ٥/٢٧٣) ، سنن الدارمی/الصلاة ٤٦ (١٢٩٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ تین صورتیں آپ ﷺ نے ایسی فرمائیں کہ اس میں سارے معذور لوگ آگئے، اب جس قدر سوچیں کوئی معذور ایسا نہیں ملے گا جو ان تین سے خارج ہو، اس حدیث سے آپ کا کمال رحم اور کرم بھی ثابت ہوتا ہے۔

【183】

جو لوگوں کا امام بنے تو وہ ہلکی نماز پڑھائے

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مختصر اور کامل نماز پڑھتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٣٧ (٤٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الاذان ٦٤ (٧٠٦، ٧٠٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٤٧ (٨٥٣) ، مسند احمد (٣/١٠١) ، سنن الدارمی/الصلاة ٤٦ (١٢٩٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مختصر تو اس طور سے ہوتی کہ سورتیں بہت لمبی نہ پڑھتے، اور پوری اس طرح سے ہوتی کہ سجدہ اور قیام اور قعدہ اچھے طور سے ادا کرتے، کم سے کم سجدہ اور رکوع میں پانچ یا تین تسبیحوں کے برابر ٹھہرتے، اسی طرح رکوع سے اٹھ کر سیدھا کھڑے ہوتے، اور سمع الله لمن حمده ربنا ولک الحمد حمدا کثيرا طيبا مبارکا فيه کہتے۔

【184】

جو لوگوں کا امام بنے تو وہ ہلکی نماز پڑھائے

جابر (رض) فرماتے ہیں کہ معاذ بن جبل (رض) نے اپنے ساتھیوں کو عشاء کی نماز پڑھائی اور نماز لمبی کردی، ہم میں سے ایک آدمی چلا گیا اور اکیلے نماز پڑھ لی، معاذ (رض) کو اس شخص کے بارے میں بتایا گیا تو انہوں نے کہا : یہ منافق ہے، جب اس شخص کو معاذ (رض) کی بات پہنچی، تو وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور آپ کو معاذ (رض) کی بات بتائی، تو آپ ﷺ نے فرمایا : معاذ ! کیا تم فتنہ پرداز ہونا چاہتے ہو ؟ جب لوگوں کو نماز پڑھاؤ تو والشمس وضحاها، سبح اسم ربک الأعلى والليل إذا يغشى اور اقرأ باسم ربك پڑھو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٣٦ (٤٦٥) ، سنن النسائی/الإمامة ٣٩ (٨٣٢) ، ٤١ (٨٣٦) ، الافتتاح ٦٣ (٩٨٥) ، ٧٠ (٩٩٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٩١٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ٦٠ (٧٠١) ، ٦٣ (٧٠٥) ، الأدب ٧٤ (٦١٠٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٢٧ (٧٩٠) ، مسند احمد (٣/٢٩٩، ٣٠٨، ٣٧٩) ، سنن الدارمی/الصلاہ ٦٥ (١٣٣٣) (صحیح) (تراجع الا ٔلبانی : رقم : ١٢٢ ) وضاحت : ١ ؎: دوسری روایت میں ہے بروج یا وانشقت پڑھو، یہ سب سورتیں قریب قریب برابر کی ہیں، عشاء کی نماز میں جب جماعت سے ہو تو یہی سورتیں پڑھنا مسنون ہے، اور آپ ﷺ نے عشاء کی نماز میں والتين بھی پڑھی۔

【185】

جو لوگوں کا امام بنے تو وہ ہلکی نماز پڑھائے

مطرف بن عبداللہ بن شخیر کہتے ہیں کہ میں نے عثمان بن ابی العاص (رض) کو کہتے سنا کہ جب نبی اکرم ﷺ نے مجھ کو طائف کا امیر بنایا، تو آپ نے میرے لیے آخری نصیحت یہ فرمائی : عثمان ! نماز ہلکی پڑھنا، اور لوگوں (عام نمازیوں) کو اس شخص کے برابر سمجھنا جو ان میں سب سے زیادہ کمزور ہو، اس لیے کہ لوگوں میں بوڑھے، بچے، بیمار، دور سے آئے ہوئے اور ضرورت مند سبھی قسم کے لوگ ہوتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٤٠ (٥٣١) ، سنن النسائی/الأذان ٣٢ (٦٧٣) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٧٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢١٨) (حسن صحیح )

【186】

جو لوگوں کا امام بنے تو وہ ہلکی نماز پڑھائے

سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ عثمان بن ابی العاص (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے آخری بات جو مجھ سے کہی وہ یہ تھی : لوگوں کی جب امامت کرو تو نماز ہلکی پڑھاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٣٧ (٤٦٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٦٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٤٠ (٥٣١) ، سنن النسائی/الأذان ٣٢ (٦٧٣) ، مسند احمد (٤/٢٢) (صحیح )

【187】

جب کوئی عارضہ پیش آ جائے تو امام نماز میں تخفیف کرسکتا ہے

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نماز شروع کرتا ہوں اور لمبی کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، اتنے میں بچے کے رونے کی آواز سن لیتا ہوں تو نماز اس خیال سے مختصر کردیتا ہوں کہ بچے کی ماں کو اس کے رونے کی وجہ سے تکلیف ہوگی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٦٥ (٧٠٩، ٧١٠) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٧ (٤٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٠٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ٤٦ (١٢٩٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عہد نبوی میں عورتیں مسجد میں آ کر نماز باجماعت ادا کرتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ بچوں کی رعایت کرتے ہوئے نماز کو مختصر پڑھاتے، تاکہ بچوں کے رونے سے ماؤں کی نماز میں خلل نہ ہو، لہذا آج بھی جن مساجد میں عورتوں کے نماز پڑھنے کا انتظام ہے، ان میں عورتیں اپنے اسلامی شعار کا لحاظ کرتے ہوئے جائیں اور نماز باجماعت ادا کریں، یہ حدیث ہر زمانے اور ہر جگہ کے لئے عام ہے۔

【188】

جب کوئی عارضہ پیش آ جائے تو امام نماز میں تخفیف کرسکتا ہے

عثمان بن ابی العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو نماز ہلکی کردیتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٧٦٥، ومصباح الزجاجة : ٣٥٦) (صحیح) (حسن بصری کا سماع عثمان (رض) سے نہیں ہے، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے )

【189】

جب کوئی عارضہ پیش آ جائے تو امام نماز میں تخفیف کرسکتا ہے

ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اس کو لمبی کروں، اتنے میں بچے کے رونے کی آواز سن لیتا ہوں تو اس ڈر سے نماز ہلکی کردیتا ہوں کہ اس کی ماں پریشان نہ ہوجائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٦٥ (٧٠٧) ، ١٦٣ (٨٦٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٢٦ (٧٨٩) ، سنن النسائی/الإمامة ٣٥ (٨٢٦) ، (تحفة الأشراف : ١٢١١٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٠٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سبحان اللہ آپ ﷺ کا رحم و کرم بےانتہا تھا، نماز ایسی عبادت میں بھی آپ ﷺ ادنیٰ ادنیٰ عورتوں تک کا خیال رکھتے، اور یہ منظور نہ ہوتا کہ کسی امتی پر سختی گزرے، ایسا مہربان نبی جو ہم کو ماں باپ سے بھی زیادہ چاہتا ہے، اور کس امت کو ملا ہے۔

【190】

صفوں کو سید ھا کرنا

جابر بن سمرہ سوائی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم اس طرح صفیں کیوں نہیں باندھتے جس طرح فرشتے اپنے رب کے پاس باندھتے ہیں ؟ ، ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! فرشتے اپنے رب کے پاس کس طرح صف باندھتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : پہلی صفوں کو مکمل کرتے ہیں، اور صف میں ایک دوسرے سے خوب مل کر کھڑے ہوتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٢٧ (٤٣٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ٩٤ (٦٦١) ، سنن النسائی/الإمامة ٢٨ (٨١٧) ، (تحفة الأشراف : ٢١٢٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٠١) (صحیح )

【191】

صفوں کو سید ھا کرنا

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنی صفیں برابر کرو، اس لیے کہ صفوں کی برابری تکمیل نماز میں داخل ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٧٤ (٧٢٣) ، صحیح مسلم/الصلاة (٤٣٣) ، سنن ابی داود/الصلاة ٩٤ (٦٦٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢٤٣) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الإمامة ٢٨ (٨١٦) ، التطبیق ٦٠ (١١١٨) ، مسند احمد (٢/٢٣٤، ٣١٩، ٥٠٥، ٣/١٧٧، ١٧٩، ٢٥٤، ٢٧٤، ٢٩١) ، سنن الدارمی/الصلاة ٤٩ (١٢٩٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: نبی اکرم ﷺ خود امامت کے وقت صفوں کو دیکھتے، اور جب اطمینان ہوجاتا کہ صفیں برابر ہوگئیں تو اس وقت تکبیر کہتے، اور کبھی اپنے ہاتھ سے صف میں لوگوں کو آگے اور پیچھے کرتے، اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ ہر ایک امام کو بذات خاص صفوں کے برابر کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہیے، اور مقتدیوں کو دیکھنا چاہیے کہ وہ برابر کھڑے ہوئے ہیں یا آگے پیچھے ہیں، اور صف بندی میں یہ ضروری ہے کہ لوگ برابر کھڑے ہوں آگے پیچھے نہ ہوں، اور قدم سے قدم مونڈھے سے مونڈھا ملا کر کھڑے ہوں، اور جب تک پہلی صف پوری نہ ہو دوسری صف میں کوئی کھڑا نہ ہو، اسی طرح سے اخیر صف تک لحاظ رکھا جائے۔

【192】

صفوں کو سید ھا کرنا

نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نیزہ یا تیر کی طرح صف سیدھی کرتے تھے، ایک بار آپ ﷺ نے ایک شخص کا سینہ صف سے باہر نکلا ہوا دیکھا تو فرمایا : اپنی صفیں برابر کرو، یا اللہ تمہارے چہروں کے درمیان اختلاف پیدا فرما دے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٢٨ (٤٣٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ٩٤ (٦٦٣ و ٦٦٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ٥٣ (٢٢٧) ، سنن النسائی/الإمامة ٢٥ (٨١١) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٢٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٧٠، ٢٧١، ٢٧٢، ٢٧٣، ٢٧٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: چہروں کے درمیان اختلاف پیدا فرما دے گا، کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے درمیان پھوٹ ڈال دے گا، جس کی وجہ سے افتراق و انتشار عام ہوجائے گا، اور بعضوں نے کہا ہے کہ اس کے حقیقی معنی مراد ہیں، یعنی تمہارے چہروں کو گدّی کی طرف پھیر کر انھیں بدل اور بگاڑ دے گا۔

【193】

صفوں کو سید ھا کرنا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ ان لوگوں پہ اپنی رحمت نازل فرماتا ہے اور فرشتے دعا کرتے ہیں جو صفیں جوڑتے ہیں، اور جو شخص صف میں خالی جگہ بھر دے تو اللہ تعالیٰ اس کے سبب اس کا ایک درجہ بلند فرمائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٧٦٤، ومصباح الزجاجة : ٣٥٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٨٩) (صحیح) (سند میں اسماعیل بن عیاش ہیں، اور ان کی اہل حجاز سے روایت ضعیف ہے، لیکن دوسرے طرق اور شواہد سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٨٩٢ ، ٢٥٣٢ ، ومصباح الزجاجة : ٣٥٨ ، ب تحقیق عوض الشہری )

【194】

صف اوّل کی فضیلت

عرباض بن ساریہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ پہلی صف کے لیے تین بار اور دوسری صف کے لیے ایک بار مغفرت کی دعا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الإمامة ٢٩ (٨١٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٨٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٢٦، ١٢٧، ١٢٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ٥٠ (١٣٠٠) (صحیح )

【195】

صف اوّل کی فضیلت

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : بیشک اللہ تعالیٰ پہلی صف والوں پر اپنی صلاۃ بھیجتا یعنی رحمت نازل فرماتا ہے، اور اس کے فرشتے صلاۃ بھیجتے یعنی اس کے حق میں دعا کرتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٠، ومصباح الزجاجة : ٣٥٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٨٥، ٢٩٦، ٢٩٧، ٢٩٨، ٢٩٩، ٣٠٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ٤٩ (١٢٩٩) (صحیح )

【196】

صف اوّل کی فضیلت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر لوگ جان لیں کہ پہلی صف میں کتنا (ثواب) ہے تو اس کو پانے کے لیے قرعہ اندازی ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٢٨ (٤٣٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦٦٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/صلاة الجماعة ٢ (٦) ، مسند احمد (٢/٢٣٦، ٢٧١، ٣٠٣، ٣٧٤) (صحیح )

【197】

صف اوّل کی فضیلت

عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ پہلی صف والوں پہ اپنی صلاۃ یعنی رحمت نازل فرماتا ہے، اور فرشتے صلاۃ بھیجتے یعنی دعا کرتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٧١٤، ومصباح الزجاجة : ٣٥٨) (حسن صحیح )

【198】

عورتوں کی صفیں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عورتوں کی سب سے بہتر صف ان کی پچھلی صف ہے، اور سب سے خراب صف ان کی اگلی صف ہے ١ ؎، مردوں کی سب سے اچھی صف ان کی اگلی صف ہے، اور سب سے بری صف ان کی پچھلی صف ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث العلاء عن أبیہ تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٠٨٣) ، وحدیث سہیل عن أبیہ قد أخرجہ : صحیح مسلم/الصلاة ٢٨ (٤٤١) ، سنن الترمذی/الصلاة ٥٢ (٢٢٤) ، (تحفة الأشراف : ١٢٧٠١) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٩٨ (٦٧٨) ، سنن النسائی/الإمامة ٣٢ (٨٢١) ، مسند احمد (٢/٢٤٧، ٣٣٦، ٣٤٠، ٣٦٦، ٤٨٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ٥٢ (١٣٠٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اگلی صف سے مراد امام کے پیچھے والی صف ہے، سب سے اچھی صف پہلی صف ہے کا مطلب یہ ہے کہ دوسری صفوں کی بہ نسبت اس میں خیر و بھلائی زیادہ ہوتی ہے کیونکہ جو صف امام سے قریب ہوتی ہے تو جو لوگ اس میں ہوتے ہیں وہ امام سے براہ راست مستفید ہوتے ہیں، تلاوت قرآن اور تکبیرات سنتے ہیں، اور عورتوں سے دور رہنے کی وجہ سے نماز میں خلل انداز ہونے والے وسوسوں اور برے خیالات سے عام طور سے محفوظ رہتے ہیں، اور سب سے بری صف ان مردوں کی آخری صف ہے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں خیر و بھلائی دوسری صفوں کی بہ نسبت کم ہے، یہ مطلب نہیں کہ اس میں جو لوگ ہوں گے وہ برے ہوں گے۔ ٢ ؎: عورتوں کی آخری صف اس لئے بہتر ہے کہ وہ مردوں سے دور ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ فتنوں سے محفوظ رہتی ہیں، اور عورتوں کی اگلی صف سب سے خراب صف اس لئے ہے کہ وہ مردوں سے قریب ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ شیطان کے وسوسوں اور فتنوں سے محفوظ نہیں رہ پاتی ہیں۔

【199】

عورتوں کی صفیں

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مردوں کی سب سے اچھی صف ان کی اگلی صف ہے، اور سب سے بری صف ان کی پچھلی صف ہے، عورتوں کی سب سے اچھی صف ان کی پچھلی صف ہے، اور سب سے بری صف ان کی اگلی صف ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٣٧١، ومصباح الزجاجة : ٣٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٩٣، ٣٣١، ٣٨٧) (حسن صحیح) (یہ سند حسن ہے اور دوسرے شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے، ملا حظہ ہو : مصباح الزجاجة : ٣٦٢ ، ب تحقیق الشہری، و صحیح ابی داود : ٦٨١ )

【200】

ستونوں کے درمیان صف بنا کر نماز ادا کرنا

قرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ستونوں کے درمیان صف بندی سے روکا جاتا تھا، اور سختی سے وہاں سے ہٹایا جاتا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٠٨٥، ومصباح الزجاجة : ٣٦٠) (حسن صحیح) (سند میں ہارون بن مسلم مستور ہیں، اور ان سے تین ثقات نے روایت کی ہے، اس لئے اس سند کی شیخ البانی نے تحسین فرمائی ہے، اور شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٣٣٥ ، صحیح ابی داود : ٦٧٧ ، و سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٣٣٥ ) وضاحت : ١ ؎: ستونوں (کھمبوں) کے بیچ میں صف باندھنے سے منع کئے جاتے تھے کیونکہ ان کے بیچ میں حائل ہونے کی وجہ سے صف ٹوٹ جاتی ہے۔

【201】

صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنا

علی بن شیبان (رض) اور (وہ وفد میں سے تھے) کہتے ہیں کہ ہم سفر کر کے نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، ہم نے آپ ﷺ سے بیعت کی اور آپ کے پیچھے نماز پڑھی، پھر ہم نے آپ کے پیچھے دوسری نماز پڑھی، آپ ﷺ نے نماز پوری کرنے کے بعد ایک شخص کو دیکھا کہ وہ صف کے پیچھے اکیلا نماز پڑھ رہا ہے، آپ اس کے پاس ٹھہرے رہے، جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا : دوبارہ نماز پڑھو، جو صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٢٠، ومصباح الزجاجة : ٣٦١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٣، ٢٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ جب ہے کہ صف میں جگہ ہو، اور بلا عذر اکیلے رہ کر صف کے پیچھے نماز پڑھے، تو اس کی نماز جائز نہ ہوگی۔

【202】

صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنا

ہلال بن یساف (رض) کہتے ہیں کہ زیاد بن ابی الجعد نے میرا ہاتھ پکڑا اور رقہ کے ایک شیخ کے پاس مجھے لا کر کھڑا کیا، جن کو وابصہ بن معبد (رض) کہا جاتا تھا، انہوں نے کہا : ایک شخص نے صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھی تو نبی اکرم ﷺ نے اسے نماز لوٹانے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٠٠ (٦٨٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ٥٦ (٢٣٠، ٢٣١) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٣٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٢٧، ٢٢٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ٦١ (١٣٢٢) (صحیح )

【203】

صف کی دائیں جانب کی فضیلت

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : صفوں کے دائیں جانب پر اللہ تعالیٰ اپنی رحمتیں نازل فرماتا ہے، اور اس کے فرشتے دعائے خیر کرتے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٩٦ (٦٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٦٦) (ضعیف) (اسامہ بن زید العدوی ضعیف الحفظ ہیں، اور معاویہ بن ہشام کے حفظ میں ضعف ہے، اور ثقات نے اس کے خلاف روایت کی ہے : إن الله وملائكته يصلون على ميامن الصفوف، اور یہ ثابت ہے، ملاحظہ ہو : ضعیف ابی داود : ١٠٤ ) وضاحت : ١ ؎: اللہ تعالیٰ کی صلاۃ رحمت اور فرشتوں کی صلاۃ دعا ہے، یہ جب ہے کہ دائیں اور بائیں طرف برابر ہوں، اور دونوں طرف نمازی ہوں اگر بائیں جانب خالی ہو اور ادھر نمازی نہ ہوں، تو بائیں جانب میں بھی وہی فضیلت ہوگی، جو دائیں جانب میں ہے۔

【204】

صف کی دائیں جانب کی فضیلت

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھتے تو ہم پسند کرتے یا میں پسند کرتا کہ آپ کے دائیں جانب کھڑے ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٨ (٧٠٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ٧٢ (٦١٥) ، سنن النسائی/الإمامة ٣٤ (٨٢٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٩) (صحیح )

【205】

صف کی دائیں جانب کی فضیلت

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا گیا : مسجد کا بایاں جانب خالی ہوگیا، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے مسجد کا بائیں جانب آباد کیا، اسے دہرا اجر ملے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٣٢٠، ومصباح الزجاجة : ٣٦٢) (ضعیف) (اس کی سند میں لیث بن ابی سلیم ضعیف ہیں )

【206】

قبلہ کا بیان

جابر (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ بیت اللہ (خانہ کعبہ) کے طواف سے فارغ ہوگئے تو مقام ابراہیم پر آئے، عمر (رض) کہنے لگے : اللہ کے رسول ! یہ ہمارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کا مقام ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى، یعنی : (مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بناؤ) ۔ ولید کہتے ہیں کہ میں نے مالک سے کہا : کیا یہ انہوں نے اسی طرح (امر کے صیغہ کے ساتھ) واتخذوا (خاء کے زیر کسرے کے ساتھ) پڑھا ؟ تو انہوں نے کہا : جی ہاں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحروف ١ (٣٩٦٩) ، سنن الترمذی/الحج ٣٣ (٨٥٦) ، ٣٨ (٨٦٢) ، سنن النسائی/المناسک ١٦٣ (٢٩٦٤) ، ١٦٤ (٢٩٦٦) ، ١٧٢ (٢٩٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٩٥) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٢٩٦٠) (ضعیف) (عمر (رض) سے آیت کا پڑھنا منکر ہے، جب کہ دوسری کتب حدیث کی اسی روایت میں یہ قراءت رسول اکرم ﷺ سے ہے، اس لئے یہ صحیح ہے، اور ابن ماجہ کی روایت منکر ہے، یہ حدیث مکرر ہے، کما تقدم، پہلی جگہ شیخ البانی صاحب نے حدیث کو منکر کہا، اور اگلی حدیث ( ١٠٠٩ ) کو معروف بتایا، اور ( ٢٩٦٠ ) میں نفس سند و متن کو صحیح کہا، اور مسلم کا ذکر کرتے ہوئے حجة النبی ﷺ کا حوالہ دیا، ملاحظہ ہو : ضعیف ابن ماجہ : ١٩٢ ، و صحیح ابن ماجہ : ٢٤١٣ ، میرے خیال میں نکارت کی وجہ عمر (رض) کا آیت کا پڑھنا ہے، جب کہ سنن ابی داود و ترمذی اور نسائی (کبری) میں اس حدیث میں آیت کی تلاوت رسول اکرم ﷺ نے ہی فرمائی ہے، اور حج کی جابر (رض) کی احادیث میں آیت کریمہ رسول اکرم ﷺ نے تلاوت فرمائی )

【207】

قبلہ کا بیان

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ عمر (رض) نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اگر آپ مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنالیں (تو بہتر ہو) ؟ تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی : واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى اور تم مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بناؤ (سورة البقرة : 125) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٣٢ (٤٠٢) ، تفسیر سورة البقرة ٥ (٤٩١٦) ، سنن الترمذی/تفسیر سورة البقرة ٧ (٢٩٥٩، ٢٩٦٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٤٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣، ٢٤، ٣٦) (صحیح )

【208】

قبلہ کا بیان

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اٹھارہ مہینے تک بیت المقدس کی جانب منہ کر کے نماز ادا کی، اور آپ ﷺ کی مدینہ تشریف آوری کے دو مہینہ بعد قبلہ خانہ کعبہ کی جانب تبدیل کردیا گیا، رسول اللہ ﷺ جب بیت المقدس کی جانب نماز پڑھتے تو اکثر اپنا چہرہ آسمان کی جانب اٹھاتے تھے، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے دل کا حال جان لیا کہ آپ خانہ کعبہ کی جانب رخ کرنا پسند فرماتے ہیں، ایک بار جبرائیل (علیہ السلام) اوپر چڑھے، آپ ان کی طرف نگاہ لگائے رہے، وہ آسمان و زمین کے درمیان اوپر چڑھ رہے تھے، آپ انتظار میں تھے کہ جبرائیل (علیہ السلام) کیا حکم لاتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی : قد نرى تقلب وجهك في السماء (سورۃ البقرہ : ١٤٤ ) ، ہمارے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا : قبلہ کعبہ کی طرف بدل دیا گیا، ہم دو رکعتیں بیت المقدس کی جانب پڑھ چکے تھے، اور رکوع میں تھے، ہم اسی حالت میں خانہ کعبہ کی جانب پھرگئے، ہم نے اپنی پچھلی نماز پر بنا کیا اور دو رکعتیں اور پڑھیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جبرائیل ہماری ان نماز کا کیا حال ہوگا جو ہم نے بیت المقدس کی جانب پڑھی ہیں ، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی : وما کان الله ليضيع إيمانکم اللہ تعالیٰ تمہاری نماز کو ضائع کرنے والا نہیں (سورة البقرة : 143) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٩١٠، ومصباح الزجاجة : ٣٦٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/التفسیر ١٢ (٤٤٩٢) ، صحیح مسلم/المساجد ٢ (٥٢٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٣٨ (٣٤٠) ، سنن النسائی/الصلاة ٢٢ (٤٨٩) ، القبلة ١ (٧٤٣) (منکر) (سند میں ابوبکر بن عیاش سئ الحفظ ہیں، اس لئے تحویل قبلہ کے بارے میں ١٨ مہینہ کا ذکر اور یہ کہ مدینہ جانے کے دو ماہ بعد تحویل قبلہ ہوا، یہ چیز شاذ اور ضعیف ہے، ملاحظہ ہو : فتح الباری ١ /٩٧، البانی صاحب نے بھی انہیں زیادات کی وجہ سے حدیث پر منکر کا حکم لگایا ہے، ورنہ اصل حدیث صحیحین میں ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے بیت المقدس کے طرف ( ١٦ ) یا ( ١٧ ) مہینے تک صلاة پڑھی ... الخ، اسی واسطے بوصیری نے حدیث کے ابتدائی دو فقرے نقل کرنے کے بعد لکھا کہ اس کی سند صحیح ہے، اور رجال ثقات ہیں، اور بخاری و مسلم وغیرہ نے اس طریق سے مذکور نص کے علاوہ بقیہ حدیث روایت کی ہے ) وضاحت : ١ ؎: آپ ﷺ قبلہ کو کعبہ کی طرف ہونا پسند کرتے تھے، اس خیال سے کہ عربوں کی عبادت گاہ اور مرکز وہی تھا، اور اس میں اس بات کی امید اور توقع تھی کہ عرب جلد اسلام کو قبول کرلیں گے، اور یہودی رسول اکرم ﷺ کے سخت دشمن تھے، ان کا قبلہ بیت المقدس تھا، اس وجہ سے بھی آپ کو ان کی موافقت پسند نہیں تھی، اور یہ آپ کا کمال ادب تھا کہ اللہ تعالیٰ سے قبلے کے بدلنے کا سوال نہیں کیا، بلکہ دل ہی میں یہ آرزو لئے رہے، اس خیال سے کہ اللہ رب العزت دلوں کی بات بھی خوب جانتا ہے۔

【209】

قبلہ کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مشرق (پورب) اور مغرب (پچھم) کے درمیان جو ہے وہ سب قبلہ ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٤٠ (٣٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٥١٢٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ حکم مدینہ والوں کے لئے ہے کیونکہ ان کا قبلہ جنوب کی طرف ہے، اور مشرق اور مغرب کے وہ درمیان ہے۔

【210】

جو مسجد میں داخل ہو، نہ بیٹھے حتیٰ کہ دو رکعت پڑھ لے

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو دو رکعت پڑھے بغیر نہ بیٹھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٦١٥، ومصباح الزجاجة : ٣٦٤) (صحیح) (شواہد سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں مطلب بن عبداللہ، اور ابوہریرہ (رض) کے درمیان انقطاع ہے، ملاحظہ ہو : مصباح الزجاجة : والإرواء : ٤٦٧، و صحیح ابی داود : ٤٨٦ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی تحیۃ المسجد کی دو رکعت پڑھ لے، اور اگر دوسری کوئی سنت یا فرض جاتے ہی شروع کر دے تو تحیۃ المسجد ادا ہوجائے گی، اب اس کو علیحدہ پڑھنے کی ضرورت نہ ہوگی، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب مسجد میں جائے تو دو رکعت پڑھے، اور یہ ہر حالت کو عام اور شامل ہے، چناچہ اگر امام خطبہ دے رہا ہو اور اس وقت کوئی مسجد میں پہنچے تب بھی دو رکعتیں پڑھ کر بیٹھے، سلیک غطفانی (رض) کی حدیث میں اس کی تصریح ہے، اور اہل حدیث کا یہی مذہب ہے۔

【211】

جو مسجد میں داخل ہو، نہ بیٹھے حتیٰ کہ دو رکعت پڑھ لے

ابوقتادہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت پڑھ لے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٦٠ (٤٤٤) ، التہجد ٢٥ (١١٦٣) ، صحیح مسلم/المسافرین ١١ (٧١٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٩ (٤٦٧، ٤٦٨) ، سنن الترمذی/الصلاة ١١٩ (٣١٦) ، سنن النسائی/المساجد ٣٧ (٧٣١) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٢٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/قصر الصلاة ١٨ (٥٧) ، حم ٥/٢٩٥، ٢٩٦، ٣٠٣، سنن الدارمی/الصلاة ١١٤ (١٤٣٣) (صحیح )

【212】

جو لہسن کھائے تو وہ مسجد کے قریب بھی نہ آئے

معدان بن ابی طلحہ یعمری سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب (رض) جمعہ کے دن خطیب کی حیثیت سے کھڑے ہوئے یا خطبہ دیا، تو انہوں نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر کہا : لوگو ! تم دو درختوں کے پھل کھاتے ہو، اور میں انہیں خبیث ١ ؎ اور گندہ سمجھتا ہوں، وہ پیاز اور لہسن ہیں، میں دیکھتا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں جس شخص کے منہ سے اس کی بو آتی تھی اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے بقیع کی طرف نکال دیا جاتا تھا، لہٰذا جو کوئی اسے کھانا ہی چاہے تو اس کو پکا کر اس کی بو زائل کرلے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ١٧ (٥٦٧) ، سنن النسائی/المساجد ١٧ (٧٠٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٤٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ دونوں خبیث اس اعتبار سے ہیں کہ انہیں کچا کھا کر مسجد میں جانا منع ہے، البتہ پک جانے کے بعد ان کا حکم بدل جائے گا، اور ان کا کھانا جائز ہوگا۔

【213】

جو لہسن کھائے تو وہ مسجد کے قریب بھی نہ آئے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو اس پودے یعنی لہسن کو کھائے، وہ ہماری مسجد میں آ کر ہمیں تکلیف نہ پہنچائے ۔ ابراہیم کہتے ہیں : میرے والد سعد ابوہریرہ (رض) کی اس حدیث میں گندنا (کراث ) ١ ؎ اور پیاز کا اضافہ کرتے تھے اور اسے بھی نبی اکرم ﷺ سے نقل کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣١١١) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساجد ١٧ (٥٦٣) ، مسند احمد (٢/٢٦٤، ٢٦٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: گندنا (کراث): ایک تیز بو والی سبزی جس کی بعض قسمیں پیاز اور لہسن کے مشابہ ہوتی ہیں، اسی قسم کی ایک سبزی کر اث مصری و کر اث شامی کہلاتی ہے۔

【214】

جو لہسن کھائے تو وہ مسجد کے قریب بھی نہ آئے

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو اس پودے (پیاز و لہسن) سے کچھ کھائے تو مسجد میں ہرگز نہ آئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٩٢٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ١٦٠ (٨٥٣) ، صحیح مسلم/المساجد ١٧ (٥٦١) ، سنن ابی داود/الأطعمة ٤١ (٣٨٢٥) ، سنن الدارمی/الأطعمة ٢١ (٢٠٩٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ دوسرے نمازیوں کو اس کی بدبو سے ایذا پہنچے گی، اور تکلیف ہوگی، یا فرشتوں کو تکلیف ہوگی، تمباکو، سگریٹ، بیڑی اور حقہ وغیرہ لہسن یا پیاز سے بھی زیادہ سخت بدبو والی چیزیں ہیں، اس لئے اس کے کھانے اور پینے سے پیدا ہونے والی بدبو کا حکم بھی پیاز اور لہسن ہی کا ہونا چاہیے، بلکہ اس سے بھی سخت۔

【215】

نمازی کو سلام کیا جائے تو وہ کیسے جواب دے ؟

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مسجد قباء میں آ کر نماز پڑھ رہے تھے، اتنے میں انصار کے کچھ لوگ آئے اور آپ کو سلام کرنے لگے، تو میں نے صہیب (رض) سے پوچھا جو آپ کے ساتھ تھے کہ رسول اللہ ﷺ ان کے سلام کا جواب کیسے دیا تھا ؟ انہوں نے کہا : آپ ﷺ ہاتھ کے اشارے سے جواب دے رہے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/السہو ٦ (١١٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٤٩٦٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دوران نماز سلام کا جواب زبان سے نہ دے ورنہ نماز فاسد ہوجائے گی، البتہ انگلی یا ہاتھ کے اشارے سے جواب دے سکتا ہے، اور اکثر علماء کا یہی قول ہے۔

【216】

نمازی کو سلام کیا جائے تو وہ کیسے جواب دے ؟

جابر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھے کسی ضرورت کے تحت بھیجا، جب میں واپس آیا تو آپ نماز پڑھ رہے تھے، میں نے آپ کو سلام کیا، تو آپ ﷺ نے اشارے سے جواب دیا، جب آپ نماز سے فارغ ہوگئے تو مجھے بلایا، اور پوچھا : ابھی تم نے مجھے سلام کیا، اور میں نماز پڑھ رہا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٧ (٥٤٠) ، سنن النسائی/السہو ٦ (١١٩٠) ، (تحفة الأشراف : ٢٩١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٣٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ آپ ﷺ نے اس لئے فرمایا کہ جابر (رض) کو جواب نہ دینے کی وجہ معلوم ہوجائے اور ان کے دل کو رنج نہ ہو، سبحان اللہ آپ کو اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کا کس قدر خیال تھا۔

【217】

نمازی کو سلام کیا جائے تو وہ کیسے جواب دے ؟

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ہم نماز میں سلام کیا کرتے تھے، پھر ہمیں ارشاد ہوا کہ نماز میں خود ایک مشغولیت ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٥٢٥، ومصباح الزجاجة : ٣٦٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/العمل في الصلاة ٣ (١٢٠١) ، ١٥ (١٢١٦) ، المناقب ٣٧ (٣٨٧٥) ، صحیح مسلم/ المساجد ٧ (٥٣٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٧٠ (٩٢٣) ، مسند احمد (١/٣٧٦، ٤٠٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جس میں نمازی کو مصروف رہنا چاہیے، اور دوسرا کام نہیں کرنا چاہیے، وہ کام جس میں نمازی کو مصروف رہنا چاہیے اللہ تعالیٰ کی یاد ہے، اور اس سے خشوع کے ساتھ دل لگانا۔

【218】

لاعلمی میں قبلہ کے علاوہ کسی اور طرف نماز پڑھنے کا حکم

عامر بن ربیعہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے، آسمان پر بادل چھا گئے اور قبلہ کی سمت ہم پر مشتبہ ہوگئی، آخر ہم نے (اپنے ظن غالب کی بنیاد پر) نماز پڑھ لی، اور اس سمت ایک نشان رکھ دیا، جب سورج نکلا تو معلوم ہوا کہ ہم نے قبلہ کی سمت نماز نہیں پڑھی ہے، ہم نے اس کا ذکر نبی اکرم ﷺ سے کیا، تو اللہ تعالیٰ نے فأينما تولوا فثم وجه الله جدھر تم رخ کرلو ادھر ہی اللہ کا چہرہ ہے (سورۃ البقرہ : ١١٥ ) نازل فرمائی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٤١ (٣٤٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٣٥) (حسن) (اس کی سند میں اشعث بن سعید متروک ہے، لیکن شواہد کی وجہ ہے یہ حسن ہے )

【219】

نمازی بلغم کس طرف تھوکے ؟

طارق بن عبداللہ محاربی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم نماز پڑھو تو اپنے سامنے اور دائیں جانب نہ تھوکو، بلکہ اپنے بائیں جانب یا قدم کے نیچے تھوک لو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٢ (٤٧٨) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٨٤ (٥٧١) ، سنن النسائی/المساجد ٣٣ (٧٢٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٩٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٩٦) (صحیح )

【220】

نمازی بلغم کس طرف تھوکے ؟

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں قبلہ کی سمت بلغم دیکھا، تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے، اور فرمایا : لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے آگے بلغم تھوکتے ہیں ؟ کیا تم میں کا کوئی یہ پسند کرے گا کہ دوسرا شخص اس کی طرف منہ کر کے اس کے منہ پر تھوکے ؟ جب کوئی شخص نماز کی حالت میں تھوکے تو اپنے بائیں جانب تھوکے، یا اپنے کپڑے میں اس طرح تھوک لے ۔ ابوبکر بن ابی شیبہ کہتے ہیں کہ پھر اسماعیل بن علیہ نے مجھے اپنے کپڑے میں تھوک کر پھر مل کر دکھایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ المساجد ١٣ (٥٥٠) ، سنن النسائی/الطہارة ١٩٣ (٣١٠) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦٦٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة ٣٥ (٤٠٨، ٤٠٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٢ (٤٧٧) ، مسند احمد (٢/٢٥٠، ٢٥١، ٢٦٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ١١٦ (١٤٣٨) (صحیح )

【221】

نمازی بلغم کس طرف تھوکے ؟

حذیفہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے شبث بن ربعی کو اپنے آگے تھوکتے ہوئے دیکھا تو کہا : شبث ! اپنے آگے نہ تھوکو، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ اس سے منع فرماتے تھے، اور کہتے تھے : آدمی جب نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو جب تک وہ نماز پڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے سامنے ہوتا ہے، یہاں تک کہ نماز پڑھ کر لوٹ جائے، یا اسے برا حدث ہوجائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٣٤٩، ومصباح الزجاجة : ٣٦٦) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: برے حدث سے مراد کوئی نیا امر اور نئی بات، جو خشوع کے خلاف ہو جیسے سامنے تھوکنا، یا اس سے مراد ہوا خارج ہونا ہے جس سے انسان کی پاکی ختم ہوجاتی ہے۔

【222】

نمازی بلغم کس طرف تھوکے ؟

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز کی حالت میں اپنے کپڑے میں تھوکا، پھر اسے مل دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٨٨، ومصباح الزجاجة : ٣٦٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة ٣٣ (٤٠٥) ، ٣٩ (٤١٧) ، سنن ابی داود/الطہارة ١٤٣ (٣٩٠) ، سنن النسائی/الطہارة ١٩٣ (٣٠٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ١١٦ (١٤٣٦) (صحیح )

【223】

نماز میں کنکریوں پر ہاتھ پھیر کر برابر کرنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے نماز میں کنکریوں کو چھوا، اس نے فضول کام کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٤٩) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الجمعة ٨ (٨٥٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٠٩ (١٠٥٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٤٠ (٤٩٨) (صحیح )

【224】

نماز میں کنکریوں پر ہاتھ پھیر کر برابر کرنا

معیقیب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز میں کنکریوں کے ہٹانے کے بارے میں فرمایا : اگر تمہیں ایسا کرنا ضروری ہو تو ایک بار کرلو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العمل في الصلاة ٨ (١٢٠٧) ، صحیح مسلم/المساجد ١٢ (٥٤٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٧٥ (٩٤٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٦٣ (٣٨٠) ، سنن النسائی/السہو ٨ (١١٩٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٨٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٢٦، ٥/٤٢٥، ٤٢٦، سنن الدارمی/الصلاة ١١٠ (١٤٢٧) (صحیح )

【225】

نماز میں کنکریوں پر ہاتھ پھیر کر برابر کرنا

ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی شخص نماز کے لیے کھڑا ہو تو کنکریوں پر ہاتھ نہ پھیرے، اس لیے کہ رحمت اس کے سامنے ہوتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٧٥ (٩٤٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٦٣ (٣٧٩) ، سنن النسائی/السہو ٧ (١١٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٥٠، ١٦٣) ، سنن الدارمی/الصلاة ١١٠ (١٤٢٨) (ضعیف) (اس حدیث کی سند میں ابو الاحوص اللیثی ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٣٧٧ )

【226】

چٹائی پر نماز پڑھنا

ام المؤمنین میمونہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ چٹائی پر نماز پڑھتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ٣٠ (٣٣٣) ، الصلاة ١٩ (٣٧٩) ، ٢١ (٣٨١) ، سنن النسائی/المساجد ٤٤ (٧٣٩) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٦٢) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساجد ٤٨ (٥١٣) ، سنن ابی داود/الصلاة ٩١ (٦٥٩) ، مسند احمد (٦/٣٣٠، ٣٣٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٠١ (١٤١٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: خمرہ : بورئیے کا ٹکڑا یا کھجور کی چٹائی۔

【227】

چٹائی پر نماز پڑھنا

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے چٹائی پر نماز پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٥٢ (٥١٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٣٠ (٣٣٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٠، ٥٢، ٥٣، ٥٩) (صحیح )

【228】

چٹائی پر نماز پڑھنا

عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس (رض) نے بصرہ میں اپنے بچھونے پر نماز پڑھی، پھر انہوں نے اپنے ساتھیوں سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ اپنے بچھونے پر نماز پڑھتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٣١٠، ومصباح الزجاجة : ٣٦٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٢) (صحیح) (اس کی سند میں زمعہ بن صالح ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر صحیح ہے، ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود : ٦٦٥ ) وضاحت : ١ ؎: حدیث میں تصریح نہیں ہے کہ بچھونا کس چیز کا تھا غالباً روئی کا ہوگا تو کپڑے پر نماز پڑھنا جائز ہوگا، دوسری حدیث میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم گرمی کی شدت سے زمین پر اپنا کپڑا بچھاتے پھر اس پر سجدہ کرتے۔

【229】

سردی یا گرمی کی وجہ سے کپڑوں پر سجدہ کا حکم

عبداللہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور بنو عبدالاشہل کی مسجد میں ہمیں نماز پڑھائی، تو میں نے دیکھا کہ آپ سجدے کے وقت اپنے دونوں ہاتھ اپنے کپڑے پر رکھے ہوئے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٥٧٨، ومصباح الزجاجة : ٣٦٩) (ضعیف) (اس کی سند میں اسماعیل بن ابی حبیبہ ضعیف ہیں، نیز سند معضل ہے، عبد اللہ بن عبد الرحمن کے بعد عن أبیہ عن جدہ کا ذکر یہاں نہیں ہے، جو آگے آ رہا ہے، نیز خود عبد اللہ بن عبد الرحمن مجہول ہیں، نیز ملاحظہ ہو : الارواء : ٣١٢ )

【230】

سردی یا گرمی کی وجہ سے کپڑوں پر سجدہ کا حکم

ثابت بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (مسجد) بنو عبدالاشہل میں نماز پڑھی، آپ اپنے جسم پہ ایک کمبل لپیٹے ہوئے تھے، کنکریوں کی ٹھنڈک سے بچنے کے لیے اپنا ہاتھ اس پر رکھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٠٦١، ومصباح الزجاجة : ٣٧٠) (ضعیف) (اس کی سند میں ابراہیم بن اسماعیل الأشہل ضعیف اور منکر الحدیث ہیں، اور امام بخاری نے تاریخ کبیر میں عبد الرحمن بن ثابت کے بارے میں فرمایا کہ ان کی حدیث صحیح نہیں ہے، ٥ /٢٦٦ و الضعفاء الصغیرلہ : ٦٩ )

【231】

سردی یا گرمی کی وجہ سے کپڑوں پر سجدہ کا حکم

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ سخت گرمی میں نماز پڑھتے تھے، جب ہم میں سے کوئی اپنی پیشانی زمین پہ نہ رکھ سکتا تو اپنا کپڑا بچھا لیتا، اور اس پر سجدہ کرتا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٢٣ (٣٨٥) ، المواقیت ١١ (٥٤٢) ، العمل في الصلاة ٩ (١٢٠٨) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٣ (٦٢٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ٩٣ (٦٦٠) ، سنن الترمذی/الجمعة ٥٨ (٥٨٤) ، سنن النسائی/التطبیق ٥٩ (١١١٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/ ١٠٠، ٤٠٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ٨٢ (١٣٧٦) (صحیح )

【232】

نماز میں مرد تسبیح کہیں اور عورتیں تالی بجائیں

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (نماز میں جب امام بھول جائے، تو اس کو یاد دلانے کے لیے) سبحان الله کہنا مردوں کے لیے ہے، اور تالی بجانا عورتوں کے لیے ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العمل في الصلاة ٥ (١٢٠٣) ، صحیح مسلم/الصلاة ٢٣ (٤٢٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٥٥ (٦٣٩) ، ١٧٣، (٩٣٩) سنن النسائی/السہو ١٥ (١٢٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١٥١٤١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٦١، ٣١٧، ٦ ٣٧، ٢ ٤٣، ٤٤٠، ٣ ٤٧، ٤٧٩، ٤٩٢، ٥٠٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ٩٥ (١٤٠٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام نماز میں بھول جائے، تو مرد سبحان الله کہہ کر اسے اس کی اطلاع دیں، اور عورت زبان سے کچھ کہنے کے بجائے دستک دے، اس کی صورت یہ ہے کہ اپنے دائیں ہاتھ کی دونوں انگلیوں سے اپنی بائیں ہتھیلی پر مارے، کچھ لوگ سبحان اللہ کہنے کے بجائے الله أكبر کہہ کر امام کو متنبہ کرتے ہیں، یہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔

【233】

نماز میں مرد تسبیح کہیں اور عورتیں تالی بجائیں

سہل بن سعد ساعدی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (نماز میں جب امام بھول جائے، تو اس کو یاد دلانے کے لیے) مردوں کے لیے سبحان الله کہنا ہے، اور عورتوں کے لیے تالی بجانا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٦٩٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/العمل في الصلاة ٥ (١٢٠٤) ، صحیح مسلم/الصلاة ٢٣ (٤٢١) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٧٣ (٩٤١) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٥٦ (٣٦٩) ، موطا امام مالک/قصر الصلاة ٢٠ (٦١) سنن الدارمی/الصلاة ٩٥ (١٤٠٤) (صحیح )

【234】

نماز میں مرد تسبیح کہیں اور عورتیں تالی بجائیں

نافع کہتے تھے کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے (نماز میں جب امام بھول جائے، تو اس کو یاد دلانے کے لیے) عورتوں کو تالی بجانے، اور مردوں کو سبحان الله کہنے کی رخصت دی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٥٠٨ و ٨٢٢٥، ومصباح الزجاجة : ٣٧١) (صحیح) (سند میں سوید بن سعید میں ضعف ہے، لیکن سابقہ شواہد سے یہ صحیح ہے، نیز بوصیری نے اس سند کی تحسین کی ہے، اور شواہد ذکر کئے ہیں )

【235】

جو توں سمیت نماز پڑھنا

ابن ابی اوس کہتے ہیں کہ میرے دادا اوس (رض) کبھی نماز پڑھتے ہوئے مجھے اشارہ کرتے تو میں انہیں ان کے جوتے دے دیتا (وہ پہن لیتے اور نماز پڑھتے) اور (پھر نماز کے بعد) کہتے : میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے جوتے پہن کر نماز پڑھتے دیکھا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٢، ومصباح الزجاجة : ٣٧٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٠٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس باب میں بہت سی حدیثیں وارد ہیں، بلکہ علماء نے خاص اس مسئلہ میں مستقل رسالے لکھے ہیں، حاصل یہ ہے کہ جوتے پہن کر نماز پڑھنا مستحب اور مسنون ہے، اور جو کہتا ہے کہ جوتے اتار کر پڑھنا ادب ہے اس کا قول غلط ہے اس لئے کہ نبی اکرم ﷺ کا کوئی فعل خلاف ادب نہیں ہوسکتا، دوسری حدیث میں ہے کہ جوتے پہن کر نماز پڑھو اور یہود کی مخالفت کرو، وہ جوتے پہن کر نماز نہیں پڑھتے، البتہ یہ ضروری ہے کہ جوتے پاک و صاف ہوں، مگر ہماری شریعت میں جوتوں کی پاکی یہ رکھی گئی ہے کہ ان کو زمین سے رگڑ دے، اور جوتوں کا دھونا کسی حدیث سے ثابت نہیں، اور نہ سلف صالحین ہی سے منقول ہے، لیکن یہ واضح رہے کہ تمدن اور شہریت کے اس زمانہ میں جب کہ مساجد میں فرش اور قالین بچھانے کا رواج ہے تو ان میں جوتا پہن کر جانا نامناسب ہے خاص کر برصغیر کے شہروں اور دیہاتوں کی مساجد میں کہ یہاں کی مٹی اور کیچڑ نیز راستہ کی گندگی اور کوڑا کرکٹ انسان کے جوتے اور کپڑوں میں لگ کر اس کو گندا کردیتے ہیں، رہ گئی بات عرب دنیا کی تو وہاں پر عام زمین ریتیلی اور پہاڑی ہے اور بالعموم جوتے یا بدن میں لگنے کے بعد بھی خود سے یا رگڑنے سے صاف ہوجاتی ہے، بہرحال صفائی اور ستھرائی کا خیال کرنا بہت اہم مسئلہ ہے، اور صاف جوتے پہن کر مناسب مقام میں نماز پڑھنے کا جواز ایک الگ مسئلہ ہے، چناچہ عرب ملکوں میں آج بھی لوگ جوتے پہن کر نماز ادا کرتے ہیں، لیکن مساجد میں جوتے پہن کر نماز نہیں ادا کرتے بلکہ اس کے لئے اندر اور باہر جگہیں ہر مسجد میں موجود ہوتی ہیں، جہاں انہیں رکھ کر آدمی مسجد میں داخل ہوتا ہے۔

【236】

جو توں سمیت نماز پڑھنا

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ کبھی جوتے نکال کر اور کبھی جوتے پہن کر نماز پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٨٩ (٦٥٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٨٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٧٤، ١٧٩، ٢٠٦، ٢١٥) (حسن صحیح )

【237】

جو توں سمیت نماز پڑھنا

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کو جوتے، اور موزے پہن کر نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٤٧٣، ومصباح الزجاجة : ٣٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٦١) (صحیح) (شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، اس کی سند میں ابو اسحاق مدلس و مختلط ہیں، اور عنعنہ سے روایت کی ہے، اور زہیر بن معاویہ خدیج کی ان سے روایت اختلاط کے بعد کی ہے )

【238】

نماز میں بالوں اور کپڑوں کو سمیٹنا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں نماز میں بالوں اور کپڑوں کو نہ سمیٹوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٣٣ (٨٠٩) ، ١٣٤ (٨١٠) ، ١٣٧ (٨١٥) ، ١٣٨ (٨١٦) ، صحیح مسلم/الصلاة ٤٤ (٤٩٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٥٥ (٨٨٩، ٨٩٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ٨٨ (٢٧٣) ، سنن النسائی/التطبیق ٤٠ (١٠٩٤) ، ٤٣ (١٠٩٧) ، ٤٥ (١٠٩٩) ، ٥٦ (١١١٤) ، ٥٨ (١١١٦) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٢١، ٢٢٢، ٢٥٥، ٢٧٠، ٢٧٩، ٢٨٠، ٢٨٥، ٢٨٦، ٢٩٠، ٣٠٥، ٣٢٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ٧٣ (١٣٥٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سمیٹنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بالوں اور کپڑوں کو مٹی نہ لگے، تو اس سے نمازی کو منع کیا گیا، اس لئے بالوں اور کپڑوں کو اپنے حال پر رہنے دے، چاہے مٹی لگے یا نہ لگے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے آگے رکوع و سجود میں اگر مٹی لگ جائے تو یہ تواضع، انکساری اور عاجزی کی نشانی ہے، جو یقینا اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔

【239】

نماز میں بالوں اور کپڑوں کو سمیٹنا

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم بالوں اور کپڑوں کو نہ سمیٹیں اور زمین پر چلنے کے سبب دوبارہ وضو نہ کریں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٨١ (٢٠٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٦٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اگر وضو کر کے زمین پر چلیں، اور پاؤں یا کپڑوں میں کوئی نجاست اور گندگی لگ جائے، تو وضو کا دہرانا ضروری نہیں صرف انہیں دھو ڈالنا کافی ہے۔

【240】

نماز میں بالوں اور کپڑوں کو سمیٹنا

مدینہ کے ایک باشندہ ابوسعد کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے مولی ابورافع کو دیکھا کہ انہوں نے حسن بن علی (رض) کو اس حال میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا کہ وہ اپنے بالوں کا جوڑا باندھے ہوئے تھے، ابورافع (رض) نے اسے کھول دیا، یا اس (جوڑا باندھنے) سے منع کیا، اور کہا : رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے کہ آدمی اپنے بالوں کو جوڑا باندھے ہوئے نماز پڑھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٢٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٨٨ (٦٤٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٦٥ (٣٨٤) ، مسند احمد (٦/٨، ٣٩١) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٠٥ (١٤٢٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ سجدے میں اگر بال کھلے ہوں گے تو وہ بھی سجدہ کریں گے، اور جب جوڑا باندھ لیا جائے تو بال زمین پر نہ گریں گے، اس سے معلوم ہوا کہ اگر مرد کے بال لمبے ہوں تو وہ ان کا جوڑا باندھ سکتا ہے، لیکن نماز کے وقت کھول دے۔

【241】

نماز میں خشوع

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (نماز کی حالت میں) اپنی نگاہیں آسمان کی طرف نہ اٹھاؤ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری بینائی چھین لی جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٠١٧، ومصباح الزجاجة : ٣٧٤) (صحیح )

【242】

نماز میں خشوع

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک روز اپنے صحابہ کو نماز پڑھائی، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی جانب رخ کر کے فرمایا : لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ اپنی نگاہیں (بحالت نماز) آسمان کی جانب اٹھاتے رہتے ہیں ؟ ، یہاں تک کہ بڑی سختی کے ساتھ آپ ﷺ نے یہ تک فرما دیا : لوگ اس سے ضرور باز آجائیں ورنہ اللہ تعالیٰ ان کی نگاہیں اچک لے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٢ ٩ (٧٥٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ٧ ٦ ١ (٩١٣) ، سنن النسائی/السہو ٩ (١١٩٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٠٩، ١١٢، ١١٥، ١١٦، ١٤٠، ٢٥٨) ، سنن الدارمی/ الصلاة ٧ ٦ (١٣٤٠) (صحیح )

【243】

نماز میں خشوع

جابر بن سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : لوگوں کو (نماز کی حالت میں) آسمان کی طرف اپنی نگاہیں اٹھانے سے باز آجانا چاہیئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی نگاہیں (صحیح سالم) نہ لوٹیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٢٣ (٤٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٢١٣٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٦٧ (٩١٢) ، مسند احمد (٥/٩٠، ٩٣، ١٠١، ١٠٨، سنن الدارمی/الصلاة ٦٧ (١٣٣٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی نماز کے اندر اس کام سے باز آجائیں، اور بعضوں نے کہا کہ جب دعا کرتا ہو تو نماز سے باہر بھی نگاہ اٹھانی مکروہ ہے، اور اکثر لوگوں نے نماز سے باہر نگاہ اٹھانے کو جائز کہا ہے، اس بناء پر کہ دعا کا قبلہ آسمان ہے جیسے نماز کا قبلہ کعبہ ہے۔

【244】

نماز میں خشوع

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ایک عورت نبی اکرم ﷺ کے پیچھے نماز پڑھا کرتی تھی، جو بہت زیادہ خوبصورت تھی، کچھ لوگ پہلی صف میں کھڑے ہوتے تاکہ اسے نہ دیکھ سکیں، اور کچھ لوگ پیچھے رہتے یہاں تک کہ بالکل آخری صف میں کھڑے ہوتے اور جب رکوع میں جاتے تو اس طرح بغل کے نیچے سے اس عورت کو دیکھتے، تو اللہ تعالیٰ نے اس کے سلسلے میں آیت کریمہ : ولقد علمنا المستقدمين منکم ولقد علمنا المستأخرين ہم نے جان لیا آگے بڑھنے والوں کو، اور پیچھے رہنے والوں کو (سورۃ الحجر : ٢٤ ) نازل فرمائی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/التفسیر سورة ١٥/١ (٣١٢٢) ، سنن النسائی/الإمامة ٦٢ (٨٧١) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٠٥) (صحیح )

【245】

ایک کپڑا پہن کر نماز پڑھنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم میں سے کوئی ایک کپڑے میں نماز پڑھ سکتا ہے ؟ ، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کیا تم میں سے ہر شخص کو دو کپڑے میسر ہیں ؟ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣١٤٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلا ٤٩ (٢٥٨) ، صحیح مسلم/الصلاة ٥٢ (٥١٥) ، سنن ابی داود/الصلاة ٨ ٧ (٦٢٥) ، سنن النسائی/القبلة ١٤ (٧٦٤) ، موطا امام مالک/الجماعة ٩ (٣٠) ، مسند احمد (٦/٢٣٠، ٢٣٩، ٢٨٥، ٣٤٥، ٤٩٥، ٤٩٨، ٤٩٩، ٥٠١) ، سنن الدارمی/الصلاة ٩٩ (١٤١٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اور ظاہر ہے کہ ہر شخص کو دو کپڑے نہیں مل سکتے، اکثر کے پاس ایک ہی کپڑا ہوتا ہے، اور نماز سب پر فرض ہے، تو ضرور ایک کپڑے میں نماز جائز ہوگی، جمہور علماء کے نزدیک نماز ایک کپڑے میں جائز ہے گو اس کے پاس دوسرے کپڑے بھی ہوں، اور بعضوں نے کہا کہ افضل یہ ہے کہ دو کپڑوں میں نماز پڑھے گو ایک کپڑے میں بھی جائز ہے۔

【246】

ایک کپڑا پہن کر نماز پڑھنا

ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور آپ ﷺ ایک کپڑا لپیٹے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٥٢ (٥١٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٨٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: متوشحًا یعنی لپیٹے ہوئے، تو شح یہ ہے کہ کپڑے کا جو کنارہ داہنے کندھے پر ہو اس کو بائیں بغل کے نیچے سے لے جائے، پھر دونوں کناروں کو ملا کر سینے پر گرہ دے لے۔

【247】

ایک کپڑا پہن کر نماز پڑھنا

عمر بن ابی سلمہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ایک کپڑا لپیٹے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے، اور اس کے دونوں کناروں کو اپنے کندھوں پر ڈالے ہوئے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٤ (٣٥٤، ٣٥٥) ، صحیح مسلم/الصلاة ٥٢ (٥١٧) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٣٨ (٣٣٩) ، سنن النسائی/القبلة ١٤ (٧٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٨٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٧٨ (٦٧٨) ، موطا امام مالک/الجماعة ٩ (٢٩) ، مسند احمد (٤/٢٦، ٢٧) (صحیح )

【248】

ایک کپڑا پہن کر نماز پڑھنا

کیسان (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو بئر علیا کے پاس ایک کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (٠٢ تحفة الأشراف : ١١١٧٠، ومصباح الزجاجة : ٣٧٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤١٧) (حسن) (اس کی سند میں عبد الرحمن بن کیسان مستور اور محمد بن حنظلہ غیر معروف ہیں، لیکن حدیث شواہد کی وجہ سے حسن ہے، ملاحظہ ہو : مصباح الزجاجة : ٣٧٩ ب تحقیق الشہری )

【249】

ایک کپڑا پہن کر نماز پڑھنا

کیسان بن جریر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا آپ ظہر و عصر ایک ہی کپڑے میں پڑھ رہے تھے، اس حال میں کہ آپ اس کو لپیٹے ہوئے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١١٧٠، مصباح الزجاجة : ٣٧٥) (حسن) (بوصیری نے اس اسناد کی تحسین کی ہے )

【250】

قرآن کریم کے سجدہ کے بارے میں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب انسان آیت سجدہ تلاوت کرتا اور سجدہ کرتا ہے، تو شیطان روتا ہوا الگ ہوجاتا ہے، اور کہتا ہے : ہائے خرابی ! ابن آدم کو سجدہ کا حکم ہوا، اس نے سجدہ کیا، اب اس کے لیے جنت ہے، اور مجھ کو سجدہ کا حکم ہوا، میں نے انکار کیا، میرے لیے جہنم ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٣٥ (٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٤٣) (صحیح )

【251】

قرآن کریم کے سجدہ کے بارے میں

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس تھا کہ اس دوران ایک شخص آیا ١ ؎ اور اس نے عرض کیا کہ کل رات میں نے ایک خواب دیکھا ہے جیسے سونے والا دیکھتا ہے، گویا میں ایک درخت کی جڑ میں نماز پڑھ رہا ہوں، میں نے سجدے کی آیت پڑھی اور سجدہ کیا، تو درخت نے بھی میرے ساتھ سجدہ کیا، اور میں نے اس کو یہ کہتے ہوئے سنا اللهم احطط عني بها وزرا واکتب لي بها أجرا واجعلها لي عندک ذخرا اے اللہ ! اس سجدہ کی وجہ سے میرے گناہ ختم کر دے، اور میرے لیے اجر لکھ دے، اور اس اجر کو میرے لیے اپنے پاس ذخیرہ بنا دے ٢ ؎۔ عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نے سجدہ کی آیت پڑھی اور سجدہ کیا، تو میں نے سنا آپ سجدہ میں وہی دعا پڑھ رہے تھے، جو اس آدمی نے درخت سے سن کر بیان کی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجمعة ٥٥ (٥٧٩) ، الدعوات ٣٣ (٣٤٢٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٦٧) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: یہاں پر شخص سے مراد ابوسعید خدری (رض) ہیں جیسا کہ دوسری روایت میں تصریح ہے۔ ٢ ؎: سجدہ تلاوت میں یہ دعا پڑھے، یا سبحان ربي الأعلى کہے، یا وہ دعا جو آگے آرہی ہے، بعض نے کہا کہ یہ دعا پڑھے : سبحان ربنا إن کان وعد ربنا لمفعولا۔

【252】

قرآن کریم کے سجدہ کے بارے میں

علی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب سجدہ کرتے تو فرماتے : اللهم لک سجدت وبک آمنت ولک أسلمت أنت ربي سجد وجهي للذي شق سمعه وبصره تبارک الله أحسن الخالقين اے اللہ ! میں نے تیرے ہی لیے سجدہ کیا، اور تجھ ہی پر ایمان لایا، اور تیرا ہی فرماں بردار ہوا تو میرا رب ہے، اور میرے چہرے نے سجدہ کیا اس ذات کے لیے جس نے کان اور آنکھ کو بنایا، اللہ تعالیٰ کتنا بابرکت ہے جو سب سے اچھا بنانے والا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٦ (٧٧١) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٢١ (٧٦٠) ، سنن الترمذی/الدعوات ٣٢ (٣٤٢١، ٣٤٢٢) ، سنن النسائی/الافتتاح ١٧ (٨٩٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٩٥، ١٠٢) (صحیح )

【253】

سجود قرآنیہ کی تعداد

ابوالدرداء (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ گیارہ سجدے کئے، ان میں سے ایک سورة النجم کا سجدہ بھی تھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجمعة ٤٧ (٥٦٨، ٥٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٩٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٢٨ (١٤٠١) ، مسند احمد (٥/١٩٤) (ضعیف) (اس کی سند میں عمر الدمشقی مجہول ہیں )

【254】

سجود قرآنیہ کی تعداد

ابوالدرداء (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ گیارہ سجدے کئے، جن میں سے کوئی مفصل میں نہ تھا (اور وہ گیارہ سجدے ان سورتوں میں تھے) : اعراف، رعد، نحل، بنی اسرائیل، مریم، حج، فرقان، نمل، سورة السجدۃ، سورة ص اور سورة حم سجدہ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٩٧، ومصباح الزجاجة : ٣٧٧) (ضعیف) (اس کی سند میں عثمان بن فائد ضعیف ہیں )

【255】

سجود قرآنیہ کی تعداد

عمرو بن العاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو قرآن میں پندرہ سجدے پڑھائے، ان میں سے تین سجدے مفصل میں اور دو سجدے سورة الحج میں ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٢٨ (١٤٠١) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٣٥) (ضعیف) (اس کی سند میں حارث بن سعید العتقی مجہول ہیں )

【256】

سجود قرآنیہ کی تعداد

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ : إذا السماء انشقت اور اقرأ باسم ربك میں سجدہ کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٠ (٥٧٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٣١ (١٤٠٧) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٨٥ (٥٧٣) ، سنن النسائی/الافتتاح ٥٢ (٩٦٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٠٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ١٠٠ (٧٦٦) ، مسند احمد (٢/٢٤٩، ٤٦١، سنن الدارمی/الصلاة ١٦٢، (١٥٠٩) (صحیح) (اس کی سند میں عطاء بن میناء مجہول ہیں، لیکن دوسری صحیح سندوں سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے )

【257】

سجود قرآنیہ کی تعداد

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے : إذا السماء انشقت میں سجدہ کیا۔ ابوبکر بن ابی شیبہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث یحییٰ بن سعید سے مروی ہے، میں نے ان کے علاوہ کسی اور کو یہ حدیث بیان کرتے ہوئے نہیں سنا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٥ ٢٨ (٥٧٣) ، سنن النسائی/الافتتاح ٥١ (٩٦٤) ، (تحفة الأشراف : (١٤٨٦٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٤٧) (صحیح )

【258】

نماز کو پو راکرنا

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور اس نے نماز پڑھی، رسول اللہ ﷺ مسجد کے ایک گوشے میں تشریف فرما تھے، اس نے آ کر آپ کو سلام کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اور تم پر بھی سلام ہو، جاؤ دوبارہ نماز پڑھو تم نے نماز نہیں پڑھی ، وہ واپس گیا اور اس نے پھر سے نماز پڑھی، پھر آ کر نبی اکرم ﷺ کو سلام کیا، آپ ﷺ نے پھر فرمایا : اور تم پر بھی سلام ہو، جاؤ پھر سے نماز پڑھو، تم نے ابھی بھی نماز نہیں پڑھی ، آخر تیسری مرتبہ اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے نماز کا طریقہ سکھا دیجئیے، آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم نماز کا ارادہ کرو تو کامل وضو کرو، پھر قبلے کی طرف منہ کرو، اور الله أكبر کہو، پھر قرآن سے جو تمہیں آسان ہو پڑھو، پھر رکوع میں جاؤ یہاں تک کہ پورا اطمینان ہوجائے، پھر رکوع سے اپنا سر اٹھاؤ، اور پورے اطمینان کے ساتھ قیام کرو، پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ سجدہ میں مطمئن ہوجاؤ، پھر سجدے سے اپنا سر اٹھاؤ یہاں تک کہ سیدھے بیٹھ جاؤ، پھر اسی طرح اپنی ساری نماز میں کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاستئذان ٨١ (٦٢٥١) ، الأیمان والنذور ١٥ (٦٦٦٧) ، صحیح مسلم/الصلاة ١١ (٣٩٧) سنن ابی داود/الصلاة ٨ ١٤ (٨٥٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ١١١ (٢٦٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٨٣) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الافتتاح ٧ (٨٨٥) ، التطبیق ١٥ (١٠٥٤) ، السہو ٦٦ (١٣١٤) ، مسند احمد (٢/٧ ٤٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ حدیث مسيء الصلاة کے نام سے اہل علم کے یہاں مشہور ہے، اس لئے کہ صحابی رسول خرباق (رض) نے یہ نماز اس طرح پڑھی تھی جس میں ارکان نماز یعنی قیام، رکوع اور سجود وغیرہ کو اچھی طرح نہیں ادا کیا تھا جس پر رسول اکرم ﷺ نے تنبیہ فرمائی، اور نماز کی یہ تفصیل بیان کی، یعنی ساری نماز کو اسی طرح اطمینان اور تعدیل ارکان کے ساتھ ادا کرنے کی ہدایت کی، ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے کہ اس شخص نے ہلکی نماز پڑھی تھی، اور رکوع اور سجدے کو پورا نہیں کیا تھا، اس حدیث سے صاف معلوم ہوا ہے کہ نماز میں تعدیل ارکان یعنی اطمینان کے ساتھ رکوع، سجود اور قومہ و جلسہ ادا کرنا فرض ہے، جب ہی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم نے نماز ادا نہیں کی۔ ائمہ حدیث نیز امام شافعی، امام احمد، اور امام ابو یوسف وغیرہم نے یہ اور اس طرح کی دوسری احادیث کے پیش نظر تعدیل ارکان کو فرض اور واجب کہا ہے، اور امام ابوحنیفہ اور امام محمد نے تعدیل ارکان کو فرض نہیں کہا، بلکہ کرخی کی روایت میں واجب کہا ہے، اور جرجانی کی روایت میں سنت کہا ہے، وجوب اور فرضیت کے قائلین کا استدلال یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے اس حدیث میں جتنی باتیں بتائی ہیں وہ سب کی سب یا شروط نماز میں سے ہیں جیسے وضو، استقبال قبلہ، یا فرائض و واجبات میں سے، جیسے تکبیر تحریمہ، قرأت فاتحہ، وغیرہ وغیرہ، اور اگر یہ اعمال فرض نہ ہوتے تو رسول اکرم ﷺ اس صحابی کو بار بار نماز ادا کرنے کے لئے کیوں حکم دیتے ؟ اور یہ فرماتے کہ ابھی تمہاری نماز نہیں ہوئی، یہ اور اس طرح کی احادیث کی روشنی میں تعدیل ارکان کو فرض اور واجب کہنے والے ائمہ کا مسلک صحیح اور راجح ہے، اس کے مقابل میں صرف ان چیزوں کو سنت کہنے والے ائمہ کے اتباع اور مقلدین کے طریقہ نماز کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا کافی ہے کہ خشوع و خضوع اور تعدیل ارکان کی کتنی اہمیت ہے، اور اس کے مقابل میں سب سے اہم عبادت کو اس طرح ادا کرنا کہ کسی طور پر بھی اطمئنان نہ ہو بس جلدی جلدی ٹکریں مار لی جائیں، یہ بعینہ وہی نماز ہوجائے گی جس کو رسول اکرم ﷺ نے صحابی سے فرمایا کہ تم نے نماز ہی نہیں ادا کی اس لئے دوبارہ نماز ادا کرو ، والله الهادي إلى الصواب .

【259】

نماز کو پو راکرنا

محمد بن عمرو بن عطاء کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے دس صحابہ کی موجودگی میں ١ ؎، جن میں ایک ابوقتادہ (رض) تھے، ابو حمید ساعدی (رض) کو کہتے ہوئے سنا : میں آپ لوگوں میں سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کی نماز کے بارے میں جانتا ہوں، لوگوں نے کہا : کیسے ؟ جب کہ اللہ کی قسم آپ نے ہم سے زیادہ نہ رسول اللہ ﷺ کی پیروی کی ہے اور نہ آپ ہم سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہے ؟ ، ابوحمید (رض) نے کہا : ہاں ... ضرور لیکن میں آپ لوگوں سے زیادہ جانتا ہوں، لوگوں نے کہا : پھر نبی اکرم ﷺ کا طریقہ نماز بیان کریں، انہوں نے کہا : نبی اکرم ﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو الله أكبر کہتے، پھر اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے بالمقابل اٹھاتے (رفع یدین کرتے) ، اور آپ کا ہر عضو اپنی جگہ پر برقرار رہتا، پھر قراءت کرتے، پھر الله أكبر کہتے، اور اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے بالمقابل اٹھاتے (رفع یدین کرتے) ، پھر رکوع کرتے اور اپنی دونوں ہتھیلیاں اپنے دونوں گھٹنوں پر ٹیک کر رکھتے، نہ تو اپنا سر پیٹھ سے نیچا رکھتے نہ اونچا بلکہ پیٹھ اور سر دونوں برابر رکھتے، پھر سمع الله لمن حمده کہتے، اور دونوں ہاتھ کندھے کے بالمقابل اٹھاتے (رفع یدین کرتے) یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر آجاتی، پھر زمین کی طرف (سجدہ کے لیے) جھکتے اور اپنے دونوں ہاتھ پہلو سے جدا رکھتے، پھر سجدہ سے اپنا سر اٹھاتے اور اپنا بایاں پاؤں موڑ کر اس پر بیٹھ جاتے، اور سجدہ میں پاؤں کی انگلیاں کھڑی رکھتے، پھر سجدہ کرتے، پھر الله أكبر کہتے، اور اپنے بائیں پاؤں پر بیٹھ جاتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی جگہ واپس لوٹ آتی، پھر کھڑے ہوتے اور دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کرتے، پھر جب دو رکعتوں کے بعد (تیسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوتے، تو اپنے دونوں ہاتھ کندھے کے بالمقابل اٹھاتے جیسا کہ نماز شروع کرتے وقت کیا تھا ٣ ؎، پھر اپنی باقی نماز اسی طرح ادا فرماتے، یہاں تک کہ جب اس آخری سجدہ سے فارغ ہوتے جس کے بعد سلام ہے تو بائیں پاؤں کو ایک طرف نکال دیتے، اور بائیں پہلو پہ سرین کے بل بیٹھتے ٢ ؎، لوگوں نے کہا : آپ نے سچ کہا، رسول اللہ ﷺ اسی طرح نماز پڑھتے تھے ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٤٥ (٨٢٨) ، لارسنن ابی داود/الصلاة ١٨١ (٩٦٣، ٩٦٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ١١١ (٣٠٤، ٣٠٥) ، سنن النسائی/التطبیق ٦ (١٠٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٢٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ٧٠ (١٣٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: گویا یہ حدیث دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے روایت کی کیونکہ ان سب نے ابوحمید (رض) کے کلام کی تصدیق کی۔ ٢ ؎: اس بیٹھک کو تورّک کہتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ آخری تشہد میں تورک مسنون ہے، رہی افتراش والی روایت تو وہ مطلق ہے اس میں یہ نہیں کہ یہ دونوں تشہد کے لئے ہے یا پہلے تشہد کے لئے ہے، ابوحمید ساعدی (رض) کی اس روایت نے اس اطلاق کی کردی ہے اور یہ کہ افتراش پہلے تشہد میں ہے اور تورّک آخری تشہد میں ہے۔ تورّک کے مسئلہ میں اختلاف ہے، یعنی تشہد میں سرین (چوتڑ) کے بل بیٹھے یا نہ بیٹھے، بعض نے کہا کہ دونوں قعدوں (تشہد) میں تورّک کرے، امام مالک کا یہی مذہب ہے، اور بعض نے کہا کسی قعدہ (تشہد) میں تورک نہ کرے، بلکہ بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھے، یہی امام ابوحنیفہ کا مذہب ہے، اور بعض نے کہا کہ جس قعدہ (تشہد) کے بعد سلام ہو تو اس میں تورّک کرے، خواہ وہ پہلا تشہد ہو، جیسے نماز فجر میں، یا دوسرا تشہد ہو، جیسے چار یا تین رکعتوں والی نماز، اور جس قعدہ (تشہد) کے بعد سلام نہ ہو اس میں بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر بیٹھے، اور یہ امام شافعی کا مذہب ہے، اور بعض نے کہا کہ جس نماز میں دو قعدے ہوں تو دوسرے قعدہ میں تورک کرے، اور جس نماز میں ایک ہی قعدہ ہو تو اس میں بایاں پاؤں بچھا کر بیٹھے، امام احمد اور اہل حدیث نے اسی کو اختیار کیا ہے اور حدیث سے یہی ثابت ہے۔ ٣ ؎: اس روایت سے ان لوگوں کے قول کی بھی تردید ہوتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ رفع یدین شروع اسلام میں تھا بعد میں منسوخ ہوگیا کیونکہ حدیث کا سیاق یہ بتارہا ہے کہ ابوحمید ساعدی (رض) نے دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں ان سے جو گفتگو کی وہ نبی اکرم ﷺ کی وفات کے بعد کا واقعہ ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز میں چار جگہوں پر رفع یدین کیا جائے گا، تکبیر تحریمہ کے وقت، رکوع جاتے ہوئے، رکوع سے اٹھتے ہوئے، اور قعدہ اولیٰ (پہلے تشہد) کے بعد تیسری رکعت کے لئے اٹھتے وقت۔

【260】

نماز کو پو راکرنا

عمرہ کہتی ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے پوچھا : رسول اللہ ﷺ کی نماز کیسی تھی ؟ انہوں نے کہا : نبی اکرم ﷺ جب وضو شروع کرتے تو اپنا ہاتھ برتن میں ڈال کر بسم الله کہتے اور وضو مکمل کرتے، پھر قبلہ رخ کھڑے ہوتے اور الله أكبر کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ مونڈھوں کے بالمقابل اٹھاتے، پھر رکوع کرتے، اور اپنے دونوں ہاتھ دونوں گھٹنوں پہ رکھتے اور بازوؤں کو پسلیوں سے جدا رکھتے، پھر رکوع سے سر اٹھاتے اور پیٹھ سیدھی کرتے، اور تمہارے قیام سے کچھ لمبا قیام کرتے، پھر سجدہ کرتے اور اپنے دونوں ہاتھ قبلہ رخ رکھتے، اور میرے مشاہدہ کے مطابق آپ ﷺ جہاں تک ہوسکتا اپنے بازوؤں کو (اپنی بغلوں سے) جدا رکھتے، پھر سجدہ سے اپنا سر اٹھاتے اور بائیں قدم پہ بیٹھ جاتے، اور دائیں پاؤں کو کھڑا رکھتے، (اور قعدہ اولیٰ میں) بائیں طرف مائل ہونے کو ناپسند فرماتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٨٨) (ضعیف جدا) (ملاحظہ ہو حدیث نمبر : ٨٧٤ )

【261】

سفر میں نماز کا قصر کرنا

عمر (رض) کہتے ہیں کہ سفر کی نماز دو رکعت ہے، جمعہ اور عید بھی دو رکعت ہیں، بہ زبان محمد ﷺ یہ کامل ہیں ناقص نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٩٦، ومصباح الزجاجة : ٣٧٨) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الجمعة ٣٧ (١٤٢١) ، مسند احمد (١/٣٧) (صحیح) (سند میں شریک القاضی سیء الحفظ ہیں، لیکن سفیان ثوری نے مسند احمد میں ان کی متابعت کی ہے، اور عبد الرحمن بن أبی لیلیٰ کا عمر (رض) سے سماع مختلف فیہ ہے، لیکن بعض علماء نے سماع کو ثابت مانا ہے، ملاحظہ ہو : نصب الرایہ : ٢ /١٨٩، و الإرواء : ٣ /١٠٦ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی سفر میں دو ہی رکعتیں واجب ہیں، اور یہ نہیں ہے کہ چار واجب تھیں سفر کی وجہ سے دو ہوگئیں اب قرآن کریم میں جو آیا ہے : وإذا ضربتم في الأرض فليس عليكم جناح أن تقصروا من الصلاة جب تم سفر میں ہو تو تم پر نماز کو قصر پڑھنے میں کوئی گناہ نہیں ہے (سورۃ النساء : ١٠١ ) ، یہاں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے، کہ یہ آیت سفر میں نازل ہوئی، اور خوف کی قید اتفاقی ہے، مفسرین کی ایک جماعت کی یہی رائے ہے، یا خوف کی حالت میں نازل ہوئی، اور سفر کی حالت اتفاقی ہے، مفسرین کی ایک جماعت نے آیت میں قصر سے مراد رکوع اور سجود کو ایما اور اشارہ سے کرنے کے معنی میں لیا ہے، اور امام بخاری نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ نماز پہلے دو ہی رکعت فرض ہوئی تھی پھر سفر کی نماز اپنی حالت پر باقی رہی اور حضر میں دو دو رکعتیں بڑھا دی گئیں، اکثر ائمہ کے یہاں سفر میں قصر واجب ہے، امام ابوحنیفہ کے یہاں اتمام ناجائز ہے، اور امام شافعی کے نزدیک سفر میں قصر و اتمام دونوں جائز ہے، اور قصر افضل ہے، اور احادیث سے قصر کا وجوب ہی ثابت ہوتا ہے، اور نبی کریم ﷺ سے اسفار میں ہمیشہ قصر ہی ثابت ہے، ملاحظہ ہو : (الروضہ الندیہ : ١ /٣٧٣، ٣٧٤ )

【262】

سفر میں نماز کا قصر کرنا

عمر (رض) کہتے ہیں کہ سفر کی نماز دو رکعت ہے، اور جمعہ کی نماز دو رکعت ہے، عید الفطر اور عید الاضحی کی دو دو رکعت ہے، بہ زبان محمد ﷺ یہ کامل ہیں ناقص نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٢٩، ومصباح الزجاجة : ٣٧٩) (صحیح )

【263】

سفر میں نماز کا قصر کرنا

یعلیٰ بن امیہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب (رض) سے سوال کیا، میں نے کہا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ليس عليكم جناح أن تقصروا من الصلاة إن خفتم أن يفتنکم الذين کفروا نماز قصر کرنے میں تمہارے اوپر کوئی گناہ نہیں اگر کافروں کی فتنہ انگیزیوں کا ڈر ہو (سورۃ النساء : ١٠١ ) ، اب اس وقت تو لوگ مامون (امن و امان میں) ہوگئے ہیں ؟ انہوں نے کہا : جس بات پر تمہیں تعجب ہوا مجھے بھی اسی پر تعجب ہوا تھا، تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس سلسلے میں سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ صدقہ ہے، جو اللہ تعالیٰ نے تم پر کیا ہے، لہٰذا تم اس کے صدقہ کو قبول کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١ (٦٨٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٧٠ (١١٩٩، ١٢٠٠) ، سنن الترمذی/تفسیر سورة النساء (٣٠٣٤) ، سنن النسائی/تقصیر الصلاة ١ (١٤٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٥، ٣٦) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٩ (١٥٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اللہ تعالیٰ کا ایک صدقہ ہمارے اوپر یہ ہے کہ سفر میں دشمنوں کا ڈر نہ رہتے بھی نماز قصر مشروع اور ثابت ہے، اور رسول اکرم ﷺ اپنے تمام اسفار میں قصر کرتے تھے، اس حدیث سے بھی قصر کے وجوب کی تائید ہوتی ہے، اس لئے کہ اس میں نبی اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے صدقے کو قبول کرنے کا حکم دیا ہے۔

【264】

سفر میں نماز کا قصر کرنا

امیہ بن عبداللہ بن خالد سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے کہا : ہم قرآن میں نماز حضر اور نماز خوف کا ذکر پاتے ہیں، لیکن سفر کی نماز کا ذکر نہیں پاتے ؟ تو عبداللہ بن عمر (رض) نے ان سے کہا : اللہ تعالیٰ نے ہماری جانب محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا ہے، اور ہم دین کی کچھ بھی بات نہ جانتے تھے، ہم وہی کرتے ہیں جیسے ہم نے محمد ﷺ کو کرتے دیکھا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/التقصیر ١ (١٤٣٥) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٦٦، ٩٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حالانکہ قرآن کریم میں یہ آیت موجود ہے : وإذا ضربتم في الأرض فليس عليكم جناح أن تقصروا من الصلاة إن خفتم أن يفتنکم الذين کفروا اخیر تک، یعنی : جب تم زمین میں سفر کرو تو نماز کے قصر کرنے میں تم پر گناہ نہیں، اگر تم کو ڈر ہو کہ کافر تم کو ستائیں گے ، اس آیت سے سفر کی نماز کا حکم نکلتا ہے، مگر چونکہ اس میں قید ہے کہ اگر تم کو کافروں کا ڈر ہو تو امیہ بن عبداللہ نے نماز خوف سے اس کو خاص کیا، کیونکہ صرف سفر کا حکم جس میں ڈر نہ ہو قرآن میں نہیں پایا، اور عبداللہ بن عمر (رض) کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ حکم صاف طور سے قرآن میں نہیں ہے، لیکن نبی اکرم ﷺ کے فعل سے مطلق سفر میں قصر کرنا ثابت ہے، پس حدیث سے جو امر ثابت ہو اس کی پیروی تو ویسے ہی ضروری ہے، جیسے اس امر کی جو قرآن سے ثابت ہو، ہم تک قرآن اور حدیث دونوں نبی اکرم ﷺ کے ذریعہ سے پہنچا ہے، اور قرآن میں حدیث کی پیروی کا صاف حکم ہے، جو کوئی صرف قرآن پر عمل کرنے کا دعویٰ کرے، اور حدیث کو نہ مانے وہ گمراہ ہے، اور اس نے قرآن کو بھی نہیں مانا، اس لئے کہ قرآن میں صاف حکم ہے : وما آتاکم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا اور فرمایا : من يطع الرسول فقد أطاع الله اور یہ ممکن نہیں کہ حدیث کے بغیر کوئی قرآن پر عمل کرسکے، اس لئے کہ قرآن مجمل ہے، اور حدیث اس کی تفسیر ہے، مثلاً قرآن میں نماز ادا کرنے کا حکم ہے لیکن اس کے شرائط، ارکان، اور کیفیات کا کوئی تذکرہ نہیں ہے، اسی طرح زکاۃ، حج، روزہ وغیرہ دین کے ارکان بھی صرف قرآن دیکھ کر ادا نہیں ہوسکتے، اور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے : ألا إني أوتيت القرآن ومثله معه خبردار ہو ! مجھے قرآن دیا گیا، اور اس کے مثل ایک اور ، یعنی حدیث۔

【265】

سفر میں نماز کا قصر کرنا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب اس شہر سے باہر نکلتے تو دو رکعتوں سے زیادہ نہ پڑھتے یہاں تک کہ آپ یہاں لوٹ آتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٦٥٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٩٩، ١٢٤) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حالانکہ مدینہ سے نکلتے ہی کافروں کا ڈر نہ ہوتا، پھر معلوم ہوا کہ بغیر ڈر کے بھی سفر میں قصر درست ہے، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسافر جب شہر سے نکل جائے اس وقت سے قصر شروع کرے۔

【266】

سفر میں نماز کا قصر کرنا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی اکرم ﷺ کی زبان سے حضر (اقامت) میں چار رکعتیں اور سفر میں دو رکعتیں فرض کیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین (٦٨٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٨٧ (١٢٤٧) ، سنن النسائی/الصلاة ٣ (٤٥٧) ، التقصیر ١ (١٤٤٣) الخوف ١ (١٥٣٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٧، ٢٤٣) (صحیح )

【267】

سفر میں دو نمازیں اکٹھی پڑھنا

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مغرب اور عشاء کی نماز کو سفر میں جمع کرتے تھے، نہ تو آپ کو کسی چیز کی عجلت ہوتی، نہ کوئی دشمن آپ کا پیچھا کئے ہوئے ہوتا، اور نہ آپ کو کسی چیز کا خوف ہی ہوتا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٥٥٠، ٥٩٠٧، ٦٤١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢١٧) (ضعیف) (اس کی سند میں ابراہیم بن اسماعیل ضعیف ہیں )

【268】

سفر میں دو نمازیں اکٹھی پڑھنا

معاذ بن جبل (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ظہر و عصر، اور مغرب و عشاء کی نماز کو غزوہ تبوک کے سفر میں جمع فرمایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٦ (٧٠٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٧٤ (١٢٠٦ و ١٢٠٨) ، سنن النسائی/المواقیت ٤٢ (٥٨٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٢٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٧٧ (٥٥٣) ، موطا امام مالک/ قصر الصلاة ١ (١) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٢ (١٥٥٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جمع بین الصلاتین کی دو قسمیں ہیں : ایک صوری، دوسری حقیقی، پہلی نماز کو آخر وقت میں اور دوسری نماز کو اوّل وقت میں پڑھنے کو جمع صوری کہتے ہیں، اور ایک نماز کو دوسری نماز کے وقت میں جمع کر کے پڑھنے کو جمع حقیقی کہتے ہیں، اس کی دو صورتیں ہیں ایک جمع تقدیم، دوسری جمع تاخیر، جمع تقدیم یہ ہے کہ ظہر کے وقت میں عصر اور مغرب کے وقت میں عشاء پڑھی جائے، اور جمع تاخیر یہ ہے کہ عصر کے وقت میں ظہر اور عشاء کے وقت میں مغرب پڑھی جائے، یہ دونوں جمع رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ جمع سے مراد جمع صوری ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ جمع سے مراد جمع حقیقی ہے کیوں کہ جمع کی مشروعیت آسانی کے لیے ہوئی ہے اور جمع صوری کی صورت میں تو اور زیادہ پریشانی اور زحمت ہے کیوں کہ تعیین کے ساتھ اول اور آخر وقت کا معلوم کرنا بہت دشوار امر ہے، اس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ جمع بین الصلاتین کی رخصت عرفہ اور مزدلفہ کے ساتھ خاص نہیں کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے تبوک میں بھی دو نمازوں کو ایک ساتھ جمع کیا ہے، واضح رہے کہ جمع بین الصلاتین کے لئے سفر کا تسلسل شرط نہیں، سفر کے دوران قیام کی حالت میں بھی جمع بین الصلاتین جائز ہے۔

【269】

سفر میں نفل پڑھنا

حفص بن عاصم بن عمر بن خطاب کہتے ہیں کہ ہم ابن عمر (رض) کے ساتھ ایک سفر میں تھے، انہوں نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر ہم ان کے ساتھ لوٹے، انہوں نے مڑ کر دیکھا تو کچھ لوگ نماز پڑھ رہے تھے، پوچھا : یہ لوگ کیا کر رہے ہیں ؟ میں نے کہا : سنت پڑھ رہے ہیں، انہوں نے کہا : اگر مجھے نفلی نماز (سنت) پڑھنی ہوتی تو میں پوری نماز پڑھتا، میرے بھتیجے ! میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہا، آپ ﷺ نے سفر میں دو رکعت سے زیادہ نہ پڑھی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دے دی، پھر میں ابوبکر (رض) کے ساتھ رہا، انہوں نے بھی دو رکعت سے زیادہ نہ پڑھی، پھر میں عمر (رض) کے ساتھ رہا، تو انہوں نے بھی دو رکعت سے زیادہ نہ پڑھی، پھر میں عثمان (رض) کے ساتھ رہا تو انہوں نے بھی دو رکعت سے زیادہ نہ پڑھی، اور پوری زندگی ان سب لوگوں کا یہی عمل رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو وفات دے دی، اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : لقد کان لکم في رسول الله أسوة حسنة تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے (سورۃ الاحزاب : ٢١ ) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ١١ (١١٠١) ، صحیح مسلم/المسافرین ١ (٦٨٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٧٦ (١٢٢٣) ، سنن النسائی/تقصیر الصلاة ٥ (١٤٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٦٦٩٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٢٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٩ (١٥٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تو نماز ایسی عبادت میں بھی عبداللہ بن عمر (رض) نے سنت سے زیادہ پڑھنا مناسب نہ جانا، یہ عبداللہ بن عمر (رض) کا کمال اتباع ہے، اور وہ نبی اکرم ﷺ کی اتباع میں بہت سخت تھے، یہاں تک کہ ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر ان مقامات پر ٹھہرتے جہاں نبی اکرم ﷺ ٹھہرتے تھے، اور وہیں نماز ادا کرتے جہاں آپ ﷺ نماز پڑھتے تھے۔ سفر میں نماز کی سنتوں کے پڑھنے کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے، اکثر کا یہ قول ہے کہ اگر پڑھے گا تو ثواب ہوگا، اور خود ابن عمر (رض) سے ترمذی کی روایت میں ظہر کی سنتیں پڑھنا منقول ہے، اور بعض علماء کا یہ قول ہے کہ سفر میں صرف فرض ادا کرے، سنتیں نہ پڑھے، ہاں عام نوافل پڑھنا جائز ہے، نبی کریم ﷺ اپنے اسفار مبارکہ میں فرض نماز سے پہلے یا بعد کی سنتوں کو نہیں پڑھتے تھے، سوائے فجر کی سنت اور وتر کے کہ ان دونوں کو سفر یا حضر کہیں نہیں چھوڑتے تھے، نیز عام نوافل کا پڑھنا آپ سے سفر میں ثابت ہے۔

【270】

سفر میں نفل پڑھنا

اسامہ بن زید کہتے ہیں کہ میں نے طاؤس سے سفر میں نفل پڑھنے کے بارے سوال کیا، اور اس وقت ان کے پاس حسن بن مسلم بھی بیٹھے ہوئے تھے، تو حسن نے کہا : طاؤس نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے ابن عباس (رض) کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضر اور سفر دونوں کی نماز فرض کی، تو ہم حضر میں فرض سے پہلے اور اس کے بعد سنتیں پڑھتے، اور سفر میں بھی پہلے اور بعد نماز پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٦٩٦، ومصباح الزجاجة : ٣٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٢) (منکر) (اسامہ بن زید میں کچھ ضعف ہے، اور یہ حدیث سابقہ حدیث اور خود ابن عباس (رض) کی ایک حدیث سے معارض ہے، نیز سنن نسائی میں ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ سفر میں دو رکعت سے زیادہ (فرض) نہیں پڑھتے تھے، اور نہ اس فریضہ سے پہلے اور نہ اس کے بعد (نوافل) پڑھتے تھے، ( ١٤٥٩ ) ، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ٢ /٦٠٥ )

【271】

جب مسافر کسی شہر میں قیام کرے تو کب تک قصر کرے ؟

عبدالرحمٰن بن حمید زہری کہتے ہیں کہ میں نے سائب بن یزید سے پوچھا کہ آپ نے مکہ کی سکونت کے متعلق کیا سنا ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نے علاء بن حضرمی (رض) کو کہتے سنا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مہاجرین کو منٰی سے لوٹنے کے بعد تین دن تک مکہ میں رہنے کی اجازت ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/مناقب الانصار ٤٧ (٣٩٣٣) ، صحیح مسلم/الحج ٨١ (١٣٥٢) ، سنن ابی داود/الحج ٩٢ (٢٠٢٢) ، سنن الترمذی/الحج ١٠٣ (٩٤٩) ، سنن النسائی/تقصیرالصلاة ٤ (١٤٥٥، ١٤٥٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٣٩، ٥/٥٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٠ (١٥٥٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مہاجر وہ لوگ تھے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے لئے مکہ سے مدینہ ہجرت کی تھی، آپ ﷺ نے مہاجرین کو تین دن سے زیادہ مکہ میں رہنے کی اجازت نہ دی، اس حدیث کا تعلق ترجمہ باب سے معلوم نہیں ہوتا مگر یوں کہہ سکتے ہیں کہ جب مہاجرین کو جو کہ مکہ میں مسافر تھے نبی اکرم ﷺ نے تین دن رہنے کی اجازت دی، تو معلوم ہوا کہ تین دن کی اقامت سے سفر کا حکم باطل نہیں ہوتا، پس اگر کوئی مسافر کسی شہر میں تین دن ٹھہرنے کی نیت کرے تو قصر کرے، اور اس مسئلہ میں علماء کا بہت اختلاف ہے لیکن اہل حدیث نے اس کو اختیار کیا ہے کہ اگر تردد و شک کے ساتھ مسافر کو کہیں ٹھہرنے کا اتفاق ہو تو بیس دن تک قصر کرتا رہے، اس کے بعد پوری نماز ادا کرے، کیونکہ جابر (رض) کی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے تبوک میں بیس راتوں تک کی اقامت میں قصر کا حکم دیا، اس واسطے کہ قصر حالت سفر میں مشروع تھا، اور جب اقامت کی تو سفر نہ رہا، اور اگر یقین کے ساتھ مسافر کہیں ٹھہرنے کا ارادہ کرے، تو اگر چار دن یا زیادہ کی اقامت کی نیت کرے، تو چار دن کے بعد نماز پوری پڑھے، اور جو چار دن سے کم رہنے کی نیت کرے تو قصر کرے، یہ حنبلی مذہب کا مشہور مسئلہ ہے، اور دلیل اس کی یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ ذوالحجہ کی چوتھی تاریخ کی صبح کو مکہ میں تشریف لائے، اور ساتویں دن تک قیام فرمایا، اور آٹھویں تاریخ کی صبح کو نماز فجر پڑھ کر منیٰ تشریف لے گئے، اور چار دنوں میں مکہ میں قصر کرتے رہے، جبکہ ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مکہ میں انیس دن تک نماز قصر ادا کی (صحیح البخاری) ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقامت کی حد چار دن نہیں ہے، سنن ابی داود ( ١٢٣٥ ) میں جابر (رض) سے مروی ہے کہ تبوک میں بیس دن تک اقامت رہی، اور قصر پڑھتے رہے، مختلف احادیث میں مختلف مدتوں کے ذکر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ کوئی تعارض کی بات ہے، رواۃ نے اپنی اپنی معلومات کے مطابق بیان کیا، راجح قول یہی ہے کہ مسافر جب تک اقامت کی نیت نہ کرے نماز کو قصر کرے اور جمع بھی، جب تک کہ اقامت کی نیت نہ کرے اور سفر کو ختم نہ کر دے، شیخ الإسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ مسافر کے لیے قصر و افطار اس وقت تک ہے جب تک کہ وہ اقامت اور سکونت نہ اختیار کرلے، اور چند دن کی اقامت کی نیت سے مقیم اور مسافر کے درمیان فرق وتمیز شرع اور عرف میں غیر معروف چیز ہے۔

【272】

جب مسافر کسی شہر میں قیام کرے تو کب تک قصر کرے ؟

عطاء کہتے ہیں کہ جابر بن عبداللہ (رض) نے مجھ سے میرے ساتھ کئی لوگوں کی موجودگی میں حدیث بیان کی کہ نبی اکرم ﷺ مکہ مکرمہ چار ذی الحجہ کی صبح تشریف لائے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشرکة ١٥ (٢٥٠٥) التمنی ٣ (٧٢٢٩) ، سنن النسائی/الحج ١٠٨ (٢٨٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٤٤٨) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحج ١٨ (١٢١٦) ، سنن ابی داود/الحج ٢٣ (١٧٨٨) ، مسند احمد (٣/٣٠٥، ٣١٧) (صحیح )

【273】

جب مسافر کسی شہر میں قیام کرے تو کب تک قصر کرے ؟

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے موقع پر مکہ میں انیس ( ١٩ ) دن رہے، اور دو دو رکعت پڑھتے رہے، لہٰذا ہم بھی جب انیس ( ١٩ ) دن قیام کرتے ہیں تو دو دو رکعت پڑھتے ہیں، اور جب اس سے زیادہ قیام کرتے ہیں تو چار رکعت پڑھتے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ١ (١٠٨٠) ، المغازي (٤٢٩٨) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٧٥ (٥٤٩) ، سنن ابی داود/الصلاة (١٢٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٦١٣٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن عباس (رض) کا مذہب انیس دن کی اقامت تک قصر کا تھا۔

【274】

جب مسافر کسی شہر میں قیام کرے تو کب تک قصر کرے ؟

ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے سال مکہ میں پندرہ دن قیام کیا، اور نماز قصر کرتے رہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٧٩ (١٢٣١) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٤٩) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/تقصیر الصلاة ٤ (١٤٥٤) (ضعیف) (اس حدیث کی سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت کی ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٣ /٢٦، ٢٧ )

【275】

جب مسافر کسی شہر میں قیام کرے تو کب تک قصر کرے ؟

انس (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مدینہ سے مکہ کے لیے نکلے اور واپسی تک دو دو رکعت نماز پڑھتے رہے۔ یحییٰ کہتے ہیں : میں نے انس (رض) سے پوچھا کہ آپ کتنے دنوں تک مکہ میں رہے ؟ کہا : دس دن تک۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تقصیرالصلاة ١ (١٠٨١) ، المغازي ٥٢ (٤٢٩٧) ، صحیح مسلم/المسافرین ١ (٦٩٣) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٧٩ (١٢٣٣) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٧٥ (٥٤٨) ، سنن النسائی/تقصیر الصلاة (١٤٣٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٨٧، ١٩٠) (صحیح )

【276】

نماز چھوڑ نے والے کی سزا

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بندہ اور کفر کے درمیان حد فاصل نماز کا چھوڑنا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/السنة ١٥ (٤٦٧٨) ، سنن الترمذی/الإیمان ٩ (٢٦٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٢٧٤٦) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الإیمان ٣٥ (٨٢) ، سنن النسائی/الصلاة ٨ (٤٦٤، ٤٦٥) ، مسند احمد (٣/٣٧٠، ٣٨٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٩ (١٢٦٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی کفر اور بندے میں نماز ہی حد فاصل اور حائل ہے، جہاں نماز چھوڑی یہ حد فاصل اٹھ گئی اور آدمی کافر ہوگیا، یہی امام احمد اور اصحاب حدیث کا مذہب ہے اور حماد بن زید، مکحول، مالک اور شافعی نے کہا کہ تارک نماز کا حکم مثل مرتد کے ہے، یعنی اگر توبہ نہ کرے تو وہ واجب القتل ہے، اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک تارک نماز کافر نہ ہوگا، لیکن کفر کے قریب ہوجائے گا، حالانکہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا : نماز کا ترک کفر ہے ، اور ایسا ہی منقول ہے عمر اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے، جمہور علماء اس حدیث کی تاویل کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو نماز کے چھوڑ دینے کو حلال سمجھے، وہ شخص جو محض سستی کی وجہ سے اسے چھوڑ دے وہ کافر نہیں ہوتا، لیکن بعض محققین کے نزدیک نماز کی فرضیت کے عدم انکار کے باوجود عملاً و قصداً نماز چھوڑ دینے والا بھی کافر ہے، دیکھئے اس موضوع پر عظیم کتاب تعظيم قدر الصلاة تالیف امام محمد بن نصر مروزی، ب تحقیق ڈاکٹر عبدالرحمن الفریوائی، اور تارک صلاۃ کا حکم تالیف شیخ محمد بن عثیمین، ترجمہ ڈاکٹر عبدالرحمن الفریوائی۔

【277】

نماز چھوڑ نے والے کی سزا

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہمارے اور منافقوں کے درمیان نماز معاہدہ ہے ١ ؎، جس نے نماز ترک کردی اس نے کفر کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الإیمان ٩ (٢٦٢١) ، سنن النسائی/الصلاة ٨ (٤٦٤) ، (تحفة الأشراف : ١٩٦٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جب تک وہ نماز ادا کرتے رہیں گے، ہم ان پر اسلام کے احکام جاری رکھیں گے۔

【278】

نماز چھوڑ نے والے کی سزا

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بندے اور شرک کے درمیان نماز چھوڑنے کا فرق ہے، جب اس نے نماز چھوڑ دی تو شرک کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٨١، ومصباح الزجاجة : ٣٨١) (صحیح) (اس کی سند میں یزید بن أبان الرقاشی ضعیف ہیں، لیکن دوسری احادیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : المشکاة : ٥٧٤ ، مصباح الزجاجة : ٣٨٤ ب تحقیق عوض الشہری ) وضاحت : ١ ؎: مشرک اور کافر دونوں کا حکم ایک ہے، دونوں جہنم میں ہمیشہ رہیں گے، معاذ اللہ ! اتنی صاف حدیثوں کو دیکھ کر بھی کوئی نماز ترک کر دے تو اس سے زیادہ بدبخت و بدنصیب کون ہوگا کہ مشرک اور کافر ہوگیا، اور دین محمدی سے نکل گیا، أعاذنا الله !

【279】

فرض جمعہ کے بارے میں

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا : لوگو ! مرنے سے پہلے اللہ کی جناب میں توبہ کرو، اور مشغولیت سے پہلے نیک اعمال میں سبقت کرو، جو رشتہ تمہارے اور تمہارے رب کے درمیان ہے اسے جوڑو، اس کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ کو خوب یاد کرو، اور خفیہ و اعلانیہ طور پر زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات کرو، تمہیں تمہارے رب کی جانب سے رزق دیا جائے گا، تمہاری مدد کی جائے گی اور تمہاری گرتی حالت سنبھال دی جائے گی، جان لو کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر جمعہ اس مقام، اس دن اور اس مہینہ میں فرض کیا ہے، اور اس سال سے تاقیامت فرض ہے، لہٰذا جس نے جمعہ کو میری زندگی میں یا میرے بعد حقیر و معمولی جان کر یا اس کا انکار کر کے چھوڑ دیا حالانکہ امام موجود ہو خواہ وہ عادل ہو یا ظالم، تو اللہ تعالیٰ اس کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دے اور اس کے کام میں برکت نہ دے، سن لو ! اس کی نماز، زکاۃ، حج، روزہ اور کوئی بھی نیکی قبول نہ ہوگی، یہاں تک کہ وہ توبہ کرے، لہٰذا جس نے توبہ کی اللہ اس کی توبہ قبول فرمائے گا، سن لو ! کوئی عورت کسی مرد کی، کوئی اعرابی (دیہاتی) کسی مہاجر کی، کوئی فاجر کسی مومن کی امامت نہ کرے، ہاں جب وہ کسی ایسے حاکم سے مغلوب ہوجائے جس کی تلوار اور کوڑوں کا ڈر ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٢٥٨، ومصباح الزجاجة : ٣٨٢) (ضعیف) (اس حدیث کی سند میں علی بن زید بن جدعان، اور عبداللہ بن محمد العدوی ضعیف اور متروک راوی ہے، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ٥٩١ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ظالم حاکم کی طرف سے کوئی امام ایسا ہو یا وہ خود امامت کرے، اور لوگوں کو ڈر ہو کہ اگر اس کی اقتداء نہ کریں گے تو عزت و آبرو کو نقصان پہنچے گا تو مجبوراً اور مصلحتاً فاسق کے پیچھے نماز ادا کرنی جائز ہے، اس حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ امام ہمیشہ صالح اور نیک اور ذی علم ہونا چاہیے اور اسی وجہ سے اعرابی کو مہاجر کی امامت سے منع کیا گیا ہے، کیونکہ مہاجر ذی علم نیک اور صالح ہوتے تھے بہ نسبت اعراب (بدوؤں) کے۔

【280】

فرض جمعہ کے بارے میں

عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک کہتے ہیں کہ جب میرے والد کی بینائی چلی گئی تو میں انہیں پکڑ کرلے جایا کرتا تھا، جب میں انہیں نماز جمعہ کے لیے لے کر نکلتا اور وہ اذان سنتے تو ابوامامہ اسعد بن زرارہ (رض) کے لیے استغفار اور دعا کرتے، میں ایک زمانہ تک ان سے یہی سنتا رہا، پھر ایک روز میں نے اپنے دل میں سوچا کہ اللہ کی قسم یہ تو بےوقوفی ہے کہ میں اتنے عرصے سے ہر جمعہ یہ بات سن رہا ہوں کہ جب بھی وہ جمعہ کی اذان سنتے ہیں تو ابوامامہ (رض) کے لیے استغفار اور دعا کرتے ہیں، اور ابھی تک میں نے ان سے اس کی وجہ نہیں پوچھی، چناچہ ایک روز معمول کے مطابق انہیں جمعہ کے لیے لے کر نکلا، جب انہوں نے اذان سنی تو حسب معمول (اسعد بن زرارہ (رض) کے لیے) مغفرت کی دعا کی تو میں نے ان سے کہا : ابا جان ! جب بھی آپ جمعہ کی اذان سنتے ہیں تو اسعد بن زرارہ (رض) کے لیے دعا فرماتے ہیں، آخر اس کی وجہ کیا ہے، تو انہوں نے کہا : میرے بیٹے ! اسعد ہی نے ہمیں سب سے پہلے نبی اکرم ﷺ کی مدینہ تشریف آوری سے پہلے قبیلہ بنی بیاضہ کے ہموار میدان نقیع الخضمات میں نماز جمعہ پڑھائی، میں نے سوال کیا : اس وقت آپ لوگوں کی تعداد کیا تھی ؟ کہا : ہم چالیس آدمی تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢١٦ (١٠٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١١١٤٩) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: بظاہر یہاں ایک اشکال ہوتا ہے کہ جمعہ تو مدینہ میں فرض ہوا، پھر اسعد بن زرارہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ کے تشریف لانے سے پہلے کیونکر جمعہ ادا کیا، اس کا جواب علماء نے یہ دیا ہے کہ جمعہ مکہ ہی میں فرض ہوگیا تھا، نبی اکرم ﷺ کافروں کے ڈر سے اس کو ادا نہ کرسکتے تھے، اور مدینہ میں اس کی فرضیت قرآن میں اتری، اس حدیث سے ان لوگوں کا رد ہوتا ہے جنہوں نے جمعہ کے لئے مسلمان حاکم کی شرط رکھی ہے، کیونکہ مدینہ طیبہ میں اس وقت کوئی مسلمان حاکم نہ تھا، اس کے باوجود اسعد بن زرارہ (رض) نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ جمعہ ادا کیا۔

【281】

فرض جمعہ کے بارے میں

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ہم سے پہلی امتوں کو جمعہ سے بھٹکا دیا ١ ؎، یہود نے ہفتہ کا دن، اور نصاریٰ نے اتوار کا دن (عبادت کے لیے) منتخب کیا، اس طرح وہ قیامت تک ہمارے پیچھے رہیں گے، ہم دنیا والوں سے (آمد کے لحاظ سے) آخر ہیں، اور آخرت کے حساب و کتاب میں ساری مخلوقات سے اول ہیں ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث ربعي بن حراش عن حذیفة أخرجہ : صحیح مسلم/الجمعة ٦ (٨٥٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٣١١) ، وحدیث أبي حازم عن أبي ہریرة أخرجہ مثلہ، (تحفة الأشراف : ١٣٣٩٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجمعة ١٢ (٨٩٦) ، سنن النسائی/الجمعة ١ (١٣٦٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جمعہ سے بھٹکانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں جمعہ اور اس کے علاوہ دوسرے دنوں کے اختیار کی توفیق دی، لیکن انہوں نے اسے اختیار نہ کرکے دوسرا دن اختیار کیا۔ ٢ ؎: یہ امت محمدیہ پر اللہ تعالیٰ کی عنایت ہوئی کہ دنیا میں ان کو سب کے بعد رکھا، اور آخرت میں سب سے پہلے رکھے گا، دنیا میں بعد میں رکھنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ امت سابقہ امتوں پر گواہ ہے جیسے کہ قرآن میں وارد ہے، بہرحال جمعہ کی فضیلت یہود اور نصاریٰ کو نہیں ملی، انہوں نے اس دن کے پہچاننے میں غلطی کی، اور امت محمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے صاف کھول کر یہ دن بیان کردیا، اور جمعہ کی تخصیص کی وجہ یہ ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش اسی دن کی، یعنی آدم (علیہ السلام) کو اسی دن پیدا کیا، پس ہر ایک انسان پر اس دن اپنے مالک کا شکر ادا کرنا فرض ہوا، اور قیامت بھی اسی دن آئے گی، گویا شروع اور خاتمہ دونوں اسی دن ہیں۔

【282】

جمعہ کی فضیلت

ابولبابہ بن عبدالمنذر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بیشک جمعہ کا دن تمام دنوں کا سردار اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ عظمت والا دن ہے، اس کا درجہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عید الاضحی اور عید الفطر سے بھی زیادہ ہے، اس کی پانچ خصوصیات ہیں : اللہ تعالیٰ نے اسی دن آدم کو پیدا فرمایا، اسی دن ان کو روئے زمین پہ اتارا، اسی دن اللہ تعالیٰ نے ان کو وفات دی، اور اس دن میں ایک ایسی گھڑی ہے کہ بندہ اس میں جو بھی اللہ سے مانگے اللہ تعالیٰ اسے دے گا جب تک کہ حرام چیز کا سوال نہ کرے، اور اسی دن قیامت آئے گی، جمعہ کے دن ہر مقرب فرشتہ، آسمان، زمین، ہوائیں، پہاڑ اور سمندر (قیامت کے آنے سے) ڈرتے رہتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢١٥١، ومصباح الزجاجة : ٣٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٣٠) (ضعیف) (عبداللہ بن محمد بن عقیل کی اس روایت کی سند و متن میں شدید اضطراب ہے، اس لئے یہ سیاق ضعیف ہے، اصل حدیث ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے، جس کے لئے ملاحظہ ہو : ابوداود، نیز ساعت اجابہ متفق علیہ ہے، تراجع الألبانی : رقم : ١٨٨ ) ۔ وضاحت : ١ ؎: جمعہ کی اجابت کی ساعت یعنی قبولیت دعا کی گھڑی کے بارے میں بہت اختلاف ہے، راجح قول یہ ہے کہ یہ عصر اور مغرب کے درمیان کوئی گھڑی ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ گھڑی امام کے منبر پر بیٹھنے سے نماز کے ختم ہونے کے درمیانی وقفے میں ہوتی ہے، واللہ اعلم، اور یہ جو فرمایا : جب تک حرام کا سوال نہ کرے ، یعنی گناہ کے کام کے لئے دعا نہ کرے جیسے زنا یا چوری یا ڈاکے یا قتل کے لئے، تو ایسی دعا کا قبول نہ ہونا بھی بندے کے حق میں افضل اور زیادہ بہتر ہے، اور قبول نہ ہونے والی ہر دعا کا یہی حال ہے، معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی بہتری اسی میں رکھی ہے، انسان اپنے انجام سے آگاہ نہیں، ایک چیز اس کے لئے مضر ہوتی ہے لیکن وہ بہتر خیال کر کے اس کے لئے دعا کرتا ہے۔

【283】

جمعہ کی فضیلت

شداد بن اوس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دنوں میں سب سے افضل جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم پیدا کئے گئے، اور اسی دن پہلا اور دوسرا صور پھونکا جائے گا، لہٰذا اس دن مجھ پر کثرت سے درود (صلاۃ) بھیجا کرو، اس لیے کہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جائے گا ، ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہمارا درود (صلاۃ) آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا جبکہ آپ قبر میں بوسیدہ ہوچکے ہوں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے زمین پہ انبیاء کے جسموں کے کھانے کو حرام قرار دیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٨١٩، ومصباح الزجاجة : ٣٨٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٠٧ (١٠٤٧) ، سنن النسائی/الجمعة ٥ (١٣٧٥) ، مسند احمد (٤/٨) (صحیح )

【284】

جمعہ کی فضیلت

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک کے گناہوں کا کفارہ ہے، بشرطیکہ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب نہ کیا جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٠٣٨) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الطہارة ٥ (٢٣٣) ، سنن الترمذی/المواقیت ٤٧ (٢١٤) ، مسند احمد (٢/٤٨١) (صحیح )

【285】

جمعہ کے روز غسل

اوس بن اوس ثقفی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جس نے جمعہ کے دن غسل کرایا اور خود بھی غسل کیا ١ ؎، اور نماز کے لیے سویرے نکلا اور شروع خطبہ میں حاضر ہوا، بغیر سواری کے پیدل چل کر آیا، اور امام کے قریب بیٹھا، خطبہ غور سے سنا، اور کوئی لغو کام نہیں کیا، تو اسے ہر قدم کے بدلے ایک سال کے نفلی روزوں اور تہجد کا ثواب ملے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ١٢٩ (٣٤٦، ٣٤٧) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٣٩ (٤٦٩) ، سنن النسائی/الجمعة ١٠ (١٣٨٢) ، ١٢ (١٣٨٥) ، ١٩ (١٣٩٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٨، ٩، ١٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٩٤ (١٥٨٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جمعہ کے غسل سے پہلے بیوی سے صحبت کرے کہ اسے بھی غسل کی ضرورت ہوجائے۔

【286】

جمعہ کے روز غسل

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا : جو جمعہ کے لیے آئے، وہ غسل کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٢٤٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجمعة ٢ (٨٧٧) ، ١٢ (٨٩٤) ، ٢٦ (٩١٩) ، صحیح مسلم/الجمعة ١ (٨٤٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٣٨ (٤٩٢) ، سنن النسائی/الجمعة ٧ (١٣٧٧) ، موطا امام مالک/الجمعة ١ (٥) ، مسند احمد (٢/٣، ٩، ٣٧، ٤١، ٤٢، ٤٨، ٥٣، ٥٥، ٥٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٩٠ (١٥٧٧) (صحیح )

【287】

جمعہ کے روز غسل

ابو سعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جمعہ کے دن کا غسل ہر بالغ پر واجب ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٦١ (٨٥٧) ، الجمعة ٢ (٨٧٩) ، ١٢ (٨٩٥) ، الشہادات ١٨ (٢٦٦٥) ، صحیح مسلم/الجمعة ١ (٨٤٦) ، سنن ابی داود/الطہارة ١٢٩ (٣٤١) ، سنن النسائی/الجمعة ٦ (١٣٧٦) ، (تحفة الأشراف : ٤١٦١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجمعة ١ (٤) ، مسند احمد (٣/٦) سنن الدارمی/الصلاة ١٩٠ (١٥٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: علماء کی ایک جماعت کے نزدیک جمعہ کے دن غسل کرنا واجب ہے، اہل ظاہر کا یہی قول ہے، اور جمہور علماء کرام اس کو مستحب اور مسنون کہتے ہیں۔ شیخ الإسلام ابن تیمیہ نے فرمایا ہے کہ اگر آدمی کا جسم اور اس کا لباس صاف ستھرا ہو تو اس کے حق میں یہ غسل مسنون و مستحب ہے، اور جسم اور کپڑوں کے صاف نہ ہونے یا بدن میں بو موجود ہونے کی صورت میں یہ غسل واجب ہے۔

【288】

جمعہ کے دن غسل ترک کرنے کی رخصت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اچھی طرح وضو کیا، پھر جمعہ کے لیے آیا اور امام سے قریب بیٹھ کر خاموشی سے خطبہ سنا، اس کے اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کے اور مزید تین دن کے گناہ بخش دئیے جائیں گے، اور جس نے کنکریوں کو ہاتھ لگایا اس نے لغو حرکت کی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٨ (٨٥٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٠٩ (١٠٥٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٤٠ (٤٩٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٠٤) وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٢٤) (صحیح )

【289】

جمعہ کے دن غسل ترک کرنے کی رخصت

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے جمعہ کے دن وضو کیا تو یہ بڑی اچھی بات ہے، اس سے فریضہ ادا ہوجائے گا، اور جس نے غسل کیا تو غسل زیادہ بہتر ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٨٢، ومصباح الزجاجة : ٣٨٤) (صحیح) (اس کی سند میں یزید بن ابان ضعیف ہیں، اس لئے حدیث میں وارد یہ ٹکڑا يجزئ عنه الفريضة صحیح نہیں ہے، بقیہ حدیث دوسرے شواہد کی بناء پر صحیح ہے، ملاحظہ ہو : المشکاة : ٥٤٠ ) ۔ وضاحت : ١ ؎: فبها کا مطلب ہے فباالرخصة أخذ یعنی اس نے رخصت کو اختیار کیا ہے اور نعمت کا مطلب هي الرخصة یعنی یہ رخصت خوب ہے، اس حدیث سے جمعہ کے غسل کے واجب نہ ہونے پر استدلال کیا گیا ہے کیونکہ اس میں ایک تو وضو پر اکتفا کرنے کی رخصت دی گئی ہے، اور دوسرے غسل کو افضل بتایا گیا ہے جس سے غسل نہ کرنے کی اجازت نکلتی ہے۔

【290】

جمعہ کے لئے سویرے جانا

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب جمعہ کا دن آتا ہے تو مسجد کے ہر دروازے پر فرشتے متعین ہوتے ہیں، وہ لوگوں کے نام ان کے درجات کے مطابق لکھتے رہتے ہیں، جو پہلے آتے ہیں ان کا نام پہلے (ترتیب وار) لکھتے ہیں، اور جب امام خطبہ کے لیے نکلتا ہے تو فرشتے رجسٹر بند کردیتے ہیں اور خطبہ سنتے ہیں، لہٰذا جمعہ کے لیے سویرے جانے والا ایک اونٹ قربان کرنے والے، اور اس کے بعد جانے والا گائے قربان کرنے والے، اور اس کے بعد جانے والا مینڈھا قربان کرنے والے کے مانند ہے یہاں تک کہ آپ نے مرغی اور انڈے (کی قربانی) کا بھی ذکر فرمایا اور سہل نے اپنی حدیث میں اتنا زیادہ بیان کیا کہ جو کوئی اس کے (خطبہ شروع ہو چکنے کے) بعد آئے تو وہ صرف اپنا فریضہ نماز ادا کرنے کے لیے آیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ٧ (٨٥٠) ، سنن النسائی/الإمامة ٥٩ (٨٦٥) ، الجمعة ١٣ (١٣٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٣٨، ومصباح الزجاجة : ٣٨٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجمعة، ٣١ (٩٢٩) ، بدء الخلق ٦ (٣٢١١) ، سنن الترمذی/الجمعة ٦ (٤٩٩) ، موطا امام مالک/الجمعة ١ (١) ، مسند احمد (٢/٢٣٩، ٢٥٩، ٢٨٠، ٥٠٥، ٥١٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ٣ ٩ ١ (١٥٨٥) (صحیح) (صرف ابن ماجہ میں قدر منازلهم کا لفظ ہے، دوسروں نے یہ لفظ نہیں ذکر کیا ہے ) وضاحت : ١ ؎: اور فرض ادا کرنے کے لئے آنے کا یہ نتیجہ ہوگا کہ عذاب سے بچ جائے گا، لیکن اس کو ثواب اور درجے نہ ملیں گے جیسے ان لوگوں کو ملتے ہیں جو سویرے آتے ہیں، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز جمعہ کے لیے جو جتنا جلدی مسجد میں پہنچے گا اتنا ہی زیادہ اجر و ثواب کا مستحق ہوگا، اور جتنی دیر کرے گا اتنے ہی اس کے ثواب میں کمی آتی جائے گی۔

【291】

جمعہ کے لئے سویرے جانا

سمرہ بن جندب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جمعہ اور جمعہ کے لیے سویرے آنے والے کی مثال اونٹ قربان کرنے والے، گائے قربان کرنے والے اور بکری قربان کرنے والے کی بیان فرمائی ہے، یہاں تک کہ مرغی (کی قربانی) کا بھی ذکر فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٦٠٧، ومصباح الزجاجة : ٣٨٦) (حسن صحیح) (شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں سعید بن بشیر ضعیف ہیں، نیز حسن بصری کا سماع سمرہ (رض) سے عقیقہ والی حدیث کے علاوہ ثابت نہیں ہے، ملاحظہ ہو : مصباح الزجاجة : ٣٩٠ ، ب تحقیق الشہری )

【292】

جمعہ کے لئے سویرے جانا

علقمہ بن قیس کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن مسعود (رض) کے ساتھ جمعہ کے لیے نکلا، انہوں نے تین آدمیوں کو دیکھا جو ان سے آگے بڑھ گئے تھے، تو کہا : میں چار میں سے چوتھا ہوں اور چار میں سے چوتھا کچھ دور نہیں ہے، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے پاس اسی ترتیب سے بیٹھیں گے جس ترتیب سے جمعہ کے لیے پہلے اور بعد میں جاتے رہتے ہیں، جمعہ کے لیے پہلے جانے والا وہاں بھی پہلے درجہ میں دوسرا دوسرے درجہ میں اور تیسرا تیسرے درجہ میں پھر کہا : چار میں سے چوتھا اور چار میں سے چوتھا کچھ دور نہیں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٤٣٩، ومصباح الزجاجة : ٣٨٧) (ضعیف) (اس حدیث کی سند میں عبد المجید بن عبد العزیز بن أبی رواد ہیں، جو صدوق روای ہیں لیکن خطاء کرتے ہیں، ان کی طرف سے اس حدیث میں اضطراب ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٢٨١٠ ) وضاحت : ١ ؎: چار میں کا چوتھا کچھ دور نہیں ہے یعنی اپنے نفس کو دیر میں آنے پر تنبیہ کی اور اس کو دھمکایا، اور بعضوں نے کہا : اپنے نفس کو تسلی دی کہ تین ہی آدمیوں سے پیچھے رہا، اور اپنے مالک سے قرب میں چوتھے درجہ میں ہوا، اور یہ درجہ بھی غنیمت ہے چنداں دور نہیں ہے۔

【293】

جمعہ کے دن زینت کرنا

عبداللہ بن سلام (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو جمعہ کے دن منبر پہ فرماتے ہوئے سنا : کیا اچھا ہوتا کہ تم میں سے ہر شخص جمعہ کے لیے اپنے عام استعمال کے کپڑوں کے علاوہ دو کپڑے خرید لے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢١٩ (١٠٧٨) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٣٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عام کپڑے اکثر میلے کچیلے یا کم قیمت کے ہوتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ جمعہ کا احترام اور اس کی عزت و توقیر کرے، اور اپنی حیثیت کے مطابق عمدہ اور صاف ستھرے کپڑے پہنے، جیسے کوئی حاکم اور امیر کے دربار میں جاتے وقت اچھا لباس پہننے اور زیب و زینت کا خیال رکھتا ہے۔ اس سند سے عبداللہ بن سلام (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ہمیں خطبہ دیا، اور پھر انہوں نے یہی حدیث ذکر کی۔

【294】

جمعہ کے دن زینت کرنا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے جمعہ کے دن خطبہ دیا، تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دھاری دار چادریں پہنے دیکھا، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا مشکل ہے کہ تم میں سے جو صاحب وسعت ہو وہ جمعہ کے لیے اپنے عام کپڑے کے علاوہ دوسرے دو کپڑے بنا لے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٨٩٦ ومصباح الزجاجة : ٣٨٨) (صحیح )

【295】

جمعہ کے دن زینت کرنا

ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے جمعہ کے دن اچھی طرح غسل کیا، اچھی طرح وضو کیا، سب سے اچھا کپڑا پہنا، اور اس کے گھر والوں کو اللہ نے جو خوشبو میسر کی اسے لگایا، پھر جمعہ کے لیے آیا اور کوئی لغو اور بیکار کام نہیں کیا، اور دو مل کر بیٹھنے والوں کو الگ الگ کر کے بیچ میں نہیں گھسا ١ ؎ تو اس کے اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کے گناہ معاف کردیئے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٩٥٩، ومصباح الزجاجة : ٣٨٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٧٧، ١٨٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر آگے نہیں گیا۔

【296】

جمعہ کے دن زینت کرنا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ عید کا دن ہے، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے اسے عید کا دن قرار دیا ہے، لہٰذا جو کوئی جمعہ کے لیے آئے تو غسل کر کے آئے، اور اگر خوشبو میسر ہو تو لگالے، اور تم لوگ اپنے اوپر مسواک کو لازم کرلو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٨٧٠، ومصباح الزجاجة : ٣٩٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطہارة ٣٢ (١١٣) (حسن) (شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں علی بن غراب اور صالح بن ابی الأخضر ضعیف ہیں، منذری نے اس کو حسن کہا ہے، الترغیب و الترہیب ١ /٤٩٨، نیز ملاحظہ ہو : مصباح الزجاجة : ٣٩٤ ب تحقیق الشہری ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا ہے کہ غسل نماز جمعہ کے لئے مسنون ہے نہ کہ جمعہ کے دن کے لئے، اور بعضوں نے کہا : جمعہ کے دن کے لئے مسنون ہے، پس جس پر جمعہ فرض نہ ہو، جیسے عورت، مریض، مسافر یا نابالغ اور وہ جمعہ کی نماز کے لئے آنے کا ارادہ بھی نہ رکھتا ہو تو اس کو بھی غسل کرنا مستحب ہوگا، اور پہلے قول کے لحاظ سے جن پر جمعہ فرض نہیں ہے ان پر غسل نہیں ہے۔

【297】

جمعہ کا وقت

سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ ہم جمعہ کے بعد ہی قیلولہ کرتے، اور دوپہر کا کھانا کھایا کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ٤٠ (٩٣٩) ، الحرث والمزارعة ٢١ (٢٩٤٩) ، الأطعمة ١٧ (٥٤٠٣) ، الإستئذان ١٦ (٦٢٤٨) ، صحیح مسلم/الجمعة ٩ (٨٥٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٦١ (٢٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٧٠٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٢٤ (١٠٨٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جابر (رض) کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ جمعہ پڑھ لیتے تھے، پھر لوگ اپنے اونٹوں کی طرف جاتے اور سورج ڈھلنے کے وقت ان کو چلاتے، یعنی آپ جلد جمعہ پڑھا دیتے تھے۔ سلمہ بن الاکوع اور انس (رض) کی حدیثیں آگے آرہی ہیں، ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے عہد میں جمعہ زوال (سورج ڈھلنے) سے پہلے پڑھ لیتے تھے، امام احمد کے نزدیک یہ جائز ہے، الروضۃ الندیۃ میں ہے کہ یہی حق ہے، اور جمہور علماء کے نزدیک جمعہ کا وقت زوال کے بعد سے ہے، جو ظہر کا وقت ہے کیونکہ جمعہ بدل ہے ظہر کا، امام شوکانی نے الدرر البہیہ میں اہل حدیث کا مذہب بھی یہی قرار دیا ہے، اور وہ ان حدیثوں کی تاویل کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ جمعہ کے دن صبح کا کھانا اور دن کا قیلولہ موقوف رکھتے، اور جمعہ کی نماز کا اہتمام کرتے پھر نماز پڑھ کر یہ کام کرتے، اور یہ مطلب نہیں ہے کہ زوال سے پہلے ہی جمعہ پڑھ لیتے، اور ابن سیدان کی روایت موید ہے امام احمد کے مذہب کی، کہ میں ابوبکر صدیق (رض) کے ساتھ جمعہ میں حاضر تھا، انہوں نے زوال سے پہلے خطبہ پڑھا، اور عمر اور عثمان (رض) عنہما سے بھی ایسا ہی نقل کیا (سنن دارقطنی) لیکن ابن سیدان کو لوگوں نے ضعیف کہا ہے۔

【298】

جمعہ کا وقت

سلمہ بن الاکوع (رض) کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھتے تھے، پھر گھروں کو واپس ہوتے تو دیواروں کا سایہ اتنا بھی نہ ہوتا تھا کہ ہم اس سایہ میں چل سکیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٣٥ (٤١٦٨) ، صحیح مسلم/الجمعة ٩ (٨٦٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٢٤ (١٠٨٥) ، سنن النسائی/الجمعة ١٤ (١٣٩٢) ، (تحفة الأشراف : ٤٥١٢) وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الصلاة ١٩٤ (١٥٨٧) (صحیح )

【299】

جمعہ کا وقت

مؤذن رسول سعد (رض) سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں جمعہ کی اذان اس وقت دیتے تھے جب سایہ جوتا کے تسمے کے برابر ہوجاتا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٨٢٧، ومصباح الزجاجة : ٣٩١) (ضعیف) (اس کی سند میں عبد الرحمن ضعیف اور ان کے والد سعد مجہول ہیں )

【300】

جمعہ کا وقت

انس (رض) کہتے ہیں کہ ہم جمعہ پڑھتے پھر لوٹ کر قیلولہ کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٨٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجمعة ١٦ (٣٩٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: قیلولہ : دوپہر کے کھانے کے بعد آرام کو قیلولہ کہتے ہیں۔

【301】

جمعہ کے دن خطبہ

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ دو خطبہ دیتے تھے، اور دونوں کے درمیان کچھ دیر بیٹھتے تھے۔ بشر بن مفضل نے اپنی روایت میں اضافہ کیا ہے کہ آپ ﷺ (خطبہ دیتے وقت) کھڑے ہوتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ٣٠ (٩٢٨، ٩٢٠) ، سنن النسائی/الجمعة ٣٣ (١٤١٧) ، (تحفة الأشراف : ٧٨١٢، ٨١٢٩) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٠ (٨٦١) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٢٧ (١٠٩٢) ، سنن الترمذی/الجمعة ١١ (٥٠٦) ، مسند احمد (٢/٩٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠٠ (١٥٩٩) (صحیح )

【302】

جمعہ کے دن خطبہ

عمرو بن حریث (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو منبر پہ خطبہ دیتے ہوئے دیکھا، اس وقت آپ کے سر پہ ایک کالا عمامہ تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٨٤ (١٣٥٩) ، سنن ابی داود/اللباس ٢٤ (٤٠٧٧) ، سنن النسائی/الزینة من المجتیٰ ٥٦ (٥٣٤٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨١٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٠٧ ٣) ، سنن الترمذی/الشمائل ١٦ (١٠٨، ١٠٩) ، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٣٥٨٤، ٣٥٨٧) (صحیح )

【303】

جمعہ کے دن خطبہ

جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہو کر خطبہ دیتے تھے، البتہ آپ (دونوں خطبوں کے درمیان) تھوڑی دیر بیٹھتے تھے، پھر کھڑے ہوجاتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢١٨٤) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٣ (٨٦٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٢٩ (١١٠١) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٤٧ (٥٠٧) ، سنن النسائی/الجمعة ٣٥ (١٤١٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٩٩ (١٥٩٨) (صحیح )

【304】

جمعہ کے دن خطبہ

جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کھڑے ہو کر خطبہ دیتے پھر بیٹھ جاتے، پھر کھڑے ہوتے اور قرآن کریم کی چند آیات تلاوت فرماتے اور اللہ کا ذکر کرتے، آپ کا خطبہ اور نماز دونوں ہی درمیانی ہوتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٢٩ (١١٠١) ، سنن النسائی/الجمعة ٣٥ (١٤١٩) ، صلاة العیدین ٢٦ (١٥٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٢١٦٣) (صحیح )

【305】

جمعہ کے دن خطبہ

سعد (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب میدان جنگ میں خطبہ دیتے تو کمان پر ٹیک لگا کردیتے، اور جب جمعہ کا خطبہ دیتے تو چھڑی پر ٹیک لگا کردیتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٨٢٨ ومصباح الزجاجة : ٣٩٣) (ضعیف) (سعد بن عمار بن سعد القرظ نے عن أبیہ عن جدہ ایک نسخہ حدیث روایت کیا ہے، اور ان سے ان کے لڑکے عبد الرحمن نے روایت کی ہے، اور یہ باپ اور بیٹے اور پوتے سب مجہول ہیں )

【306】

جمعہ کے دن خطبہ

عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ ان سے پوچھا گیا : نبی اکرم ﷺ بیٹھ کر خطبہ دیتے تھے یا کھڑے ہو کر ؟ تو انہوں نے کہا : کیا تم نے یہ آیت کریمہ نہیں پڑھی : وترکوک قائما جب ان لوگوں نے تجارت یا لہو و لعب دیکھا تو آپ کو کھڑا چھوڑ کر چل دیئے (سورة الجمعة : 11) ١ ؎۔ ابوعبداللہ ابن ماجہ کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے، اس کو صرف ابن ابی شیبہ ہی نے بیان کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٤٣٨، ومصباح الزجاجة : ٣٩٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ خطبہ کھڑے ہو کردیتے تھے۔ ٢ ؎: پوری آیت یوں ہے : وإذا رأوا تجارة أو لهوا انفضوا إليها وترکوک قائما جب کوئی تجارت یا تماشا اور کھیل کود دیکھتے ہیں تو ادھر چل دیتے ہیں، اور آپ کو کھڑا ہوا چھوڑ جاتے ہیں (سورة الجمعة : 11) اس آیت سے یہ نکلتا ہے کہ آپ ﷺ جمعہ کا خطبہ کھڑے ہو کردیتے تھے۔

【307】

جمعہ کے دن خطبہ

جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب منبر پر چڑھتے تو لوگوں کو سلام کرتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٠٧٥، ومصباح الزجاجة : ٣٩٥) (حسن) (شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے ورنہ اس کی سند میں عبد اللہ بن لہیعہ ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو : الاجوبہ النافعہ : ٥٨ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی حاضرین کو سلام کرتے، اور امام شافعی نے اسی حدیث کو دلیل بنا کر یہ کہا ہے کہ امام جب منبر پر جائے تو کل حاضرین کو مخاطب کر کے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہے۔

【308】

خطبہ توجہ سے سننا اور خطبہ کے وقت کا موش رہنا

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم نے جمعہ کے دن اپنے ساتھی سے دوران خطبہ کہا کہ چپ رہو، تو تم نے لغو کام کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٥٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجمعة ٣٦ (٩٣٤) ، صحیح مسلم/الجمعة ٣ (٨٥١) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٣٥ (١١١٢) ، سنن النسائی/الجمعة ٢٢ (١٤٠٣) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٥١ (٥٢١) ، موطا امام مالک/الجمعة ٢ (٦) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٩٥ (١٥٨٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی تم سے فضول اور بیکار حرکت صادر ہوئی، کیونکہ خطبہ کے درمیان خاموش رہنا، اور خطبہ سننا ضروری ہے، اگر کوئی بات کرے تو اشارہ سے اس کو منع کر دے، جب زبان سے کہا کہ خاموش رہو تو خود اس نے بات کی، اور دوسرے کو بات سے منع کیا، یہ ایک لغو حرکت ہے۔

【309】

خطبہ توجہ سے سننا اور خطبہ کے وقت کا موش رہنا

ابی بن کعب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جمعہ کے دن منبر پر کھڑے ہو کر سورة تبارک (سورۃ الملک) پڑھی، اور ہمیں اللہ عزوجل کی طرف سے گزشتہ قوموں پر پیش آنے والے اہم واقعات سے نصیحت کی، ابوالدرداء (رض) یا ابوذر (رض) نے میری جانب نظر سے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ سورة کب نازل ہوئی ؟ میں نے تو یہ ابھی سنی ہے، تو ابی بن کعب (رض) نے ان کو اشارہ کیا کہ خاموش رہو، جب وہ لوگ نماز سے فارغ ہوئے تو ابوالدرداء (رض) یا ابوذر (رض) نے ابی (رض) سے کہا کہ میں نے آپ سے پوچھا کہ یہ سورة کب نازل ہوئی تو آپ نے نہیں بتایا، ابی بن کعب (رض) نے کہا کہ آج آپ کو آپ کی نماز میں ان لغو باتوں کے سوا کچھ بھی اجر و ثواب نہیں ملے گا، چناچہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے، اور آپ سے اس کا ذکر کیا، اور ابی (رض) نے جو بات کہی تھی وہ بھی بتائی، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ابی نے سچ کہا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٨، ومصباح الزجاجة : ٣٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٤٣) (صحیح) (ابوذر (رض) کی حدیث سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٨٠ -٨١ ) وضاحت : ١ ؎: مسند احمد اور سنن ابوداود میں علی (رض) سے روایت ہے کہ جو شخص امام کے نزدیک بیٹھا لیکن اس نے لغو حرکت کی اور خطبہ نہیں سنا، اور خاموش نہیں رہا، تو اس پر وبال کا ایک حصہ ہوگا، اور جس نے کہا : خاموش رہو تو اس نے لغو کیا اور جس نے لغو کیا، اس کا جمعہ نہ ہوا، علی (رض) کہتے ہیں کہ ایسا ہی میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، اس باب کی احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ جمعہ پڑھنے کے لئے آنے والے پر ہر طرح کی دینی اور دنیاوی بات چیت خطبہ کے دوران ممنوع ہے۔ جس میں ذکر و اذکار بھی داخل ہے، اسی طریقے سے ایک دوسرے کو نصیحت و تلقین بھی، ہاں ! ضرورت و حاجت اور شرعی مصلحت کے پیش نظر امام سامعین سے مخاطب ہوسکتا ہے، جیسا کہ کئی احادیث میں رسول اللہ ﷺ سے یہ ثابت ہے۔ خود آگے کی حدیث میں سلیک غطفانی (رض) کو آپ ﷺ نے دو رکعت پڑھنے کا حکم دیا، نیز سامعین خطبہ کے دوران امام کی متابعت میں صلاۃ وسلام اور اس کی دعاؤں پر آمین بھی کہہ سکتے ہیں، لیکن یہ واضح رہے کہ اس سے خطبہ کے سننے میں یا مسجد کے احترام میں کوئی خلل واقع نہ ہو۔

【310】

جو مسجد میں اس وقت داخل ہوجب امام خطبہ دے رہا ہو؟

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ سلیک غطفانی (رض) مسجد میں آئے اس وقت نبی اکرم ﷺ خطبہ دے رہے تھے، تو آپ نے پوچھا : کیا تم نے نماز ادا کرلی ؟ انہوں نے کہا : جی نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : دو رکعت پڑھ لو ١ ؎۔ عمرو بن دینار نے سلیک کا ذکر نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث عمر و بن دینار عن جابر أخرجہ : صحیح البخاری/الجمعة ٣٢ (٩٣٠) ، ٣٣ (٩٣١) ، صحیح مسلم/الجمعة ١٤ (٨٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٣٢) ، وحدیث أبي الزبیر عن جابر قد تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٧٧١) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٣٧ (١١١٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٥٠ (٥١٠) ، سنن النسائی/الجمعة ١٦ (١٣٩٦) ، مسند احمد (٣/٢٩٧، ٣٠٨، ٣٦٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٩٦ (١٥٩٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اسے تحی ۃ المسجد کہتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص امام کے خطبہ دینے کی حالت میں آئے تو وہ دو رکعتیں پڑھے، بعض لوگوں نے اسے سلیک غطفانی (رض) کے ساتھ خاص کیا ہے، اور کہا ہے کہ انہیں یہ حکم اس لئے دیا گیا تھا کہ لوگ ان کی غربت دیکھ کر ان کا تعاون کریں، لیکن ابوداود کی ایک روایت کے الفاظ یوں آئے ہیں : إذا جاء أحدکم والإمام يخطب فليصل رکعتين جب بھی تم میں سے کوئی شخص مسجد آئے، اور امام خطبہ دے رہا ہو تو دو رکعت پڑھ لے اس سے ان کے اس قول کی تردید ہوجاتی ہے کہ یہ سلیک غطفانی (رض) کے ساتھ خاص تھا۔

【311】

جو مسجد میں اس وقت داخل ہوجب امام خطبہ دے رہا ہو؟

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ خطبہ دے رہے تھے، اسی دوران ایک شخص مسجد میں آیا، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم نے نماز پڑھ لی ؟ اس نے کہا : جی نہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : دو رکعت پڑھ لو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٥٠ (٥١١) ، سنن النسائی/الجمعة ٢٦ (١٤٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٧٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٩٦ (١٥٩٣) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ امام خطبہ کے دوران بات کرسکتا ہے، اور مقتدی بھی امام کا جواب دے سکتا ہے، لیکن ازخود مقتدی کا خطبہ کی حالت میں بات کرنا صحیح نہیں ہے۔

【312】

جو مسجد میں اس وقت داخل ہوجب امام خطبہ دے رہا ہو؟

ابوہریرہ اور جابر (رض) کہتے ہیں کہ سلیک غطفانی (رض) مسجد میں آئے اس وقت رسول اللہ ﷺ خطبہ دے رہے تھے، آپ ﷺ نے ان سے فرمایا : تم نے (میرے نزدیک) آنے سے پہلے دو رکعت پڑھ لی ہے ؟ تو انہوں نے کہا : جی نہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : دو رکعتیں پڑھ لو، اور ہلکی پڑھو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٤ (٨٧٥) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٣٧ (١١١٦) ، (تحفة الأشراف : ٢٢٩٤ و ١٢٣٦٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجمعة ٣٢ (٩٣٠) ، ٣٣ (٩٣١) ، سنن الترمذی/الجمعة ١٥ (٥١٠) ، سنن النسائی/الجمعة ١٦ (١٣٩٦) ، مسند احمد (٣/٣٨٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٩٦ (١٥٩٢) (صحیح) (اس حدیث میں قبل أن تجیٔ کا جملہ شاذ ہے ) وضاحت : ١ ؎: امام مزی کہتے ہیں کہ راوی نے اس روایت میں غلطی کی، اور صواب یہ ہے أصلّيت رکعتين قبل أن تجلس اس کو راوی نے تجيىء کردیا۔ اب علماء کا اختلاف یہ ہے کہ تحیۃ المسجد سنت ہے یا واجب ؟ ظاہر حدیث سے اس کا وجوب نکلتا ہے، اور امام شوکانی نے ایک مستقل رسالہ میں اس کے وجوب کو ثابت کیا ہے، اور علامہ نواب صدیق حسن نے الروضہ الندیہ ( ١؍ ٣٧٢) میں اسی کو حق کہا ہے، دلائل کی روشنی میں جمعہ کے دن مسجد میں آنے والے کے لئے دو رکعت ادا کرنا کم سے کم سنت موکدہ تو ہے ہی۔ جبکہ محققین نے اس کو واجب کہا ہے۔

【313】

جمعہ کے روز لوگوں کو پھلا نگنے کی مما نعت

جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی جمعہ کے دن مسجد میں داخل ہوا، اس وقت رسول اللہ ﷺ خطبہ دے رہے تھے، وہ لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر آگے جانے لگا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیٹھ جاؤ، تم نے لوگوں کو تکلیف پہنچائی، اور آنے میں تاخیر بھی کی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٢٢٦، ومصباح الزجاجة : ٣٩٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بعض لوگ جمعہ کے دن دیر سے آتے ہیں اور لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر آگے جاتے ہیں، یہ ممنوع بلکہ حرام ہے، علامہ ابن القیم نے اس کو کبیرہ گناہوں میں لکھا ہے، اس لئے آدمی کو چاہیے کہ جہاں جگہ پائے وہیں بیٹھ جائے، جب دیر میں آیا تو پیچھے ہی بیٹھے۔

【314】

جمعہ کے روز لوگوں کو پھلا نگنے کی مما نعت

معاذ بن انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھلانگے گا وہ جہنم کا پل بنایا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجمعة ١٧ (٥١٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٩٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٣٨) (ضعیف) (اس حدیث کی سند میں رشدین بن سعد، زبان بن فائد اور سہل بن معاذ ضعیف ہیں )

【315】

امام کے منبر سے اتر نے کے بعد کلام کرنا

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب جمعہ کے دن منبر سے اترتے تو ضروری امور سے متعلق گفتگو فرما لیا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٤٠ (١١٢٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٥٦ (٥١٧) ، سنن النسائی/الجمعة ٣٦ (١٤٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٠) وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١١٩، ١٢٧، ٢١٣) (شاذ) (جریر بن حازم اس روایت میں منفرد ہیں، یہ حدیث ثابت ہے، معروف نہیں ہے )

【316】

جمعہ المبارک کی نماز میں قرآن

عبیداللہ بن ابی رافع کہتے ہیں کہ مروان نے ابوہریرہ (رض) کو مدینہ منورہ میں اپنا نائب مقرر کیا، خود مکہ گئے تو ابوہریرہ (رض) نے ہمیں نماز جمعہ پڑھائی، پہلی رکعت میں سورة الجمعہ اور دوسری رکعت میں : إذا جاءک المنافقون پڑھی۔ عبیداللہ بن ابی رافع کہتے ہیں کہ میں نے نماز کے بعد ابوہریرہ (رض) سے ملاقات کی، اور ان سے کہا کہ علی (رض) بھی کوفہ میں (نماز جمعہ میں) یہ دونوں سورتیں پڑھا کرتے تھے، ابوہریرہ (رض) نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ دونوں سورتیں پڑھتے ہوئے سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٦ (٨٧٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٤٢ (١١٢٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٥٧ (٥١٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤١٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٢٩) (صحیح )

【317】

جمعہ المبارک کی نماز میں قرآن

عبیداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ضحاک (احنف) بن قیس نے نعمان بن بشیر (رض) کو لکھا کہ آپ ہمیں بتائیے کہ نبی اکرم ﷺ جمعہ کے دن نماز جمعہ میں سورة الجمعہ کے ساتھ اور کون سی سورت پڑھتے تھے ؟ نعمان بن بشیر (رض) نے کہا : آپ ﷺ هل أتاک حديث الغاشية پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٦ (٨٧٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٤٢ (١١٢٣) ، سنن النسائی/الجمعة ٣٩ (١٤٢٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٣٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجمعة ٩ (١٩) ، مسند احمد (٤/٢٧٠، ٢٧٧، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠٣ (١٦٠٧، ١٦٠٨) (صحیح )

【318】

جمعہ المبارک کی نماز میں قرآن

ابوعنبہ خولانی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نماز جمعہ میں : سبح اسم ربک الأعلى اور هل أتاک حديث الغاشية پڑھتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٧٥، (الف) ومصباح الزجاجة : ٣٩٨) (صحیح) (دوسری صحیح سند کے ساتھ صحیحین میں یہ حدیث موجود ہے، اس بناء پر یہ صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں سعید بن سنان ضعیف راوی ہیں، ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود : ١٠٢٧ ) ۔ وضاحت : ١ ؎: دوسری حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے جمعہ میں سورة ق پڑھی، اور ایک روایت میں ہے کہ سورة قمر پڑھی۔

【319】

جس شخص کو (امام کے ساتھ) جمعہ کی ایک رکعت ہی ملے

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے جمعہ کی ایک رکعت پا لی، تو اس کے ساتھ دوسری رکعت ملا لے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٥٤ ومصباح الزجاجة : ٣٩٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجمعة ٣ (١١) (صحیح) (سند میں عمر بن حبیب ضعیف راوی ہیں، لیکن دوسرے طرق کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، تراجع الألبانی : رقم : ٤٦٧ ، نیز ملاحظہ ہو الروضة الندیة ٣٧٦ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جمعہ اس کا صحیح ہوگیا، اب ایک رکعت اور پڑھ لے، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر ایک رکعت بھی نہ پائے، مثلاً : دوسری رکعت کے سجدے میں شریک ہو، یا قعدہ (تشہد) میں تو جمعہ نہیں ملا، اب وہ ظہر کی چار رکعتیں پڑھے، اور یہ بعض اہل علم کا مذہب ہے، اور بعض اہل علم کے نزدیک جمعہ میں شامل ہونے والا اگر ایک رکعت سے کم پائے یعنی جیسے رکوع کے بعد سے سلام پھیرنے کے وقت کی مدت تو وہ جمعہ دو رکعت ادا کرے اس لیے کہ حدیث میں آیا ہے : ما أدرکتم فصلوا وما فاتکم فأتموا کہ امام کے ساتھ جو ملے وہ پڑھو اور جو نہ ملے اس کو پوری کرلو تو جمعہ میں شریک ہونے والا نماز جمعہ ہی پڑھے گا، اور یہ دو رکعت ہی ہے۔

【320】

جس شخص کو (امام کے ساتھ) جمعہ کی ایک رکعت ہی ملے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے نماز کی ایک رکعت پالی تو اس نے نماز پا لی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٠ (٦٠٧، ٦٠٨) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٦٠ (٥٢٤) ، سنن النسائی/المواقیت ٢٩ (٥٥٤) ، الجمعة ٤٠ (١٤٢٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥١٤٣) ، وقدأخرجہ : صحیح البخاری/المواقیت ٢٩ (٥٨٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٤١ (١١٢١) ، موطا امام مالک/وقوت الصلاة ٣ (١٥) ، مسند احمد (٢/٢٤١، ٢٦٥، ٢٧١، ٢٨٠، ٣٧٥، ٣٧٦) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٢ (١٢٥٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اب یہ تمام نماز کو شامل ہے، امام کے ساتھ ایک رکعت پائے تو جماعت کا ثواب پالے گا، وقت کے اندر ایک رکعت پالے تو نماز ادا ہوگی نہ کہ قضا۔

【321】

جس شخص کو (امام کے ساتھ) جمعہ کی ایک رکعت ہی ملے

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے جمعہ یا کسی بھی نماز سے ایک رکعت پا لی تو اس نے وہ نماز پا لی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٠٠١) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/المواقیت ٣٠ (٥٥٨) (صحیح )

【322】

جمعہ کے لئے کتنی دور سے آنا چاہئے

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے انہوں نے فرمایا : قباء کے رہنے والے جمعے کے دن جمعے کی نماز رسول اللہ ﷺ کی اقتداء میں ادا کرتے تھے۔

【323】

جو بلا عذر جمعہ چھوڑ دے

ابوجعد ضمری (رض) (انہیں شرف صحبت حاصل ہے) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے تین جمعے سستی سے چھوڑ دئیے، اس کے دل پہ مہر لگ گئی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢١٠ (١٠٥٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٤٢ (٥٠٠) ، سنن النسائی/الجمعة ١٤ (١٣٦٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٨٣) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس کا دل خیر اور ہدایت کو قبول کرنے کی صلاحیت سے محروم کردیا جائے گا۔ اس کے دل پر غفلت چھا جائے گی، اور عبادت کا ذوق و شوق جاتا رہے گا، اور بعض نے کہا : اس میں نفاق آجائے گا، اور ایمان کا نور جاتا رہے گا، نبی اکرم ﷺ نے پوری زندگی جمعہ کی نماز پابندی سے پڑھائی، اہل علم نے اس کے فرض عین ہونے پر اجماع کیا ہے، اس لیے فریضہ جمعہ کا ادا کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔

【324】

جو بلا عذر جمعہ چھوڑ دے

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے تین جمعے بغیر کسی ضرورت کے چھوڑ دئیے اللہ تعالیٰ اس کے دل پہ مہر لگا دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ (تحفة الأشراف : ٢٣٦٣، ومصباح الزجاجة : ٤٠١) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الجمعة ٣ (١٣٧٣) ، مسند احمد (٣/٣٣٢) (حسن صحیح )

【325】

جو بلا عذر جمعہ چھوڑ دے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سن لو ! قریب ہے کہ تم میں سے کوئی شخص ایک یا دو میل کے فاصلے پہ بکریوں کا ایک ریوڑ اکٹھا کرلے، وہاں گھاس ملنی مشکل ہوجائے تو دور چلا جائے، پھر جمعہ آجائے اور وہ واپس نہ آئے، اور نماز جمعہ میں شریک نہ ہو، پھر جمعہ آئے اور وہ حاضر نہ ہو، اور پھر جمعہ آئے اور وہ حاضر نہ ہو، بالآخر اس کے دل پہ مہر لگا دی جاتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤١٤٨، ومصباح الزجاجة : ٤٠٢) (حسن) (سند میں معدی بن سلیمان ضعیف راوی ہیں، لیکن حدیث شاہد کی وجہ سے حسن ہے، ملاحظہ ہو : صحیح الترغیب : ٧٣٣ )

【326】

جو بلا عذر جمعہ چھوڑ دے

سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے جمعہ جان بوجھ کر چھوڑ دیا، تو وہ ایک دینار صدقہ کرے، اور اگر ایک دینار نہ ہو سکے تو آدھا دینار ہی سہی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجمعة ٣ (١٣٧٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٩٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢١١ (١٠٥٣) ، مسند احمد (٥/٨، ١٤) (ضعیف) (عقیقہ والی حدیث کے علاوہ حسن بصری کا سماع سمرہ بن جندب (رض) سے ثابت نہیں ہے )

【327】

جمعہ سے پہلے کی سنتیں

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جمعہ سے پہلے چار رکعت پڑھتے تھے، اور درمیان میں فصل نہیں کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٩٨٣، ومصباح الزجاجة : ٤٠٣) (ضعیف جدا) (سند میں عطیہ ضعیف، حجاج مدلس، مبشر بن عبید کذاب اور بقیہ مدلس رواة ہیں )

【328】

جمعہ کے بعد کی سنتیں

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ جب وہ جمعہ کی نماز پڑھ کر لوٹتے تو اپنے گھر میں دو رکعت پڑھتے، اور کہتے کہ رسول اللہ ﷺ ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٨ (٨٨٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٥٩ (٥٢٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٧٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجمعة ٣٩ (٩٣٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٤٤ (١١٢٧) ، سنن النسائی/الجمعة ٤٣ (١٤٣٠) ، مسند احمد (٢/٤٤٩، ٤٩٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٤٤ (١٤٧٧) (صحیح )

【329】

جمعہ کے بعد کی سنتیں

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جمعہ کے بعد دو رکعت پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٨ (٨٨٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٥٩ (٥٢١) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٠١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١١) (صحیح )

【330】

جمعہ کے بعد کی سنتیں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم جمعہ کے بعد سنت پڑھو تو چار رکعت پڑھو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٨ (٨٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٢٦٨٧) ، وقد أخرجہ سنن ابی داود/الصلاة ٢٤٤ (١١٣١) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٥٩ (٥٢٣) ، سنن النسائی/الجمعة ٤٢ (١٤٢٧) ، دی/الصلاة ٢٠٧ (١٦١٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عبداللہ بن عمر (رض) کی اوپر والی احادیث میں جمعہ کے بعد دو رکعت سنت مذکور ہے اور اسی پر خود ان کا عمل رہا ہے، اور اس حدیث میں چار رکعت سنت کا ذکر ہے، تطبیق یوں ہوگی کہ آدمی مسجد میں پڑھے تو چار رکعت اور گھر جا کر پڑھے تو دو رکعت پڑھ لے۔

【331】

جمعہ کے روز نماز سے قبل حلقہ بنا کر بیٹھنا اور جب امام خطبہ دے رہا ہو تو گوٹ مار کر بیٹھنا منع ہے۔

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جمعہ کے دن نماز سے پہلے مسجد میں حلقہ بنا کر بیٹھنے سے منع فرمایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٢٠ (١٠٧٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٢٤ (٣٢٢) ، سنن النسائی/المساجد ٢٢ (٧١٥) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٧٩، ٢١٢) (حسن) (شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے ورنہ اس کی سند میں ابن لہیعہ ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ جمعہ کے دن خطبہ سننا اور خاموش رہنا ضروری ہے، اور جب لوگ حلقہ بنا کر بیٹھیں گے تو خواہ مخواہ باتیں کریں گے، اس لئے حلقہ بنا کر بیٹھنے سے منع کیا گیا ہے۔

【332】

جمعہ کے روز نماز سے قبل حلقہ بنا کر بیٹھنا اور جب امام خطبہ دے رہا ہو تو گوٹ مار کر بیٹھنا منع ہے۔

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جمعہ کے دن دوران خطبہ گوٹ مار کر بیٹھنے سے منع فرمایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٨٠٣، ومصباح الزجاجة : ٤٠٤) (حسن) (اس حدیث کی سند میں بقیہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، نیز ان کے شیخ مجہول ہیں، لیکن معاذ بن انس کے شاہد سے (جو ابوداود، اور ترمذی میں ہے، اور جس کی ترمذی نے تحسین اور ابن خزیمہ نے تصحیح کی ہے) تقویت پاکر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود : ١٠١٧ ) وضاحت : ١ ؎: احتباء: یعنی گوٹ مار کر بیٹھنے کی صورت یہ ہے کہ دونوں ٹانگوں کو دونوں ہاتھوں سے باندھ کر کھڑا رکھا جائے، اور سرین (چوتڑ) پر بیٹھا جائے، اس سے ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح بیٹھنے سے نیند آتی ہے، اور ہوا خارج ہونے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔

【333】

جمعہ کے روز اذان

سائب بن یزید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے صرف ایک ہی مؤذن تھے ١ ؎، جب آپ ﷺ (خطبہ کے لیے) نکلتے تو وہ اذان دیتے، اور جب منبر سے اترتے تو اقامت کہتے، ابوبکرو عمر (رض) کے زمانہ میں بھی ایسا ہی تھا، جب عثمان (رض) خلیفہ ہوئے اور لوگ زیادہ ہوگئے، تو انہوں نے زوراء نامی ٢ ؎ بازار میں ایک مکان پر، تیسری اذان کا اضافہ کردیا، چناچہ جب عثمان (رض) (خطبہ دینے کے لیے) نکلتے تو مؤذن (دوبارہ) اذان دیتا، اور جب منبر سے اترتے تو تکبیر کہتا ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ٢١ (٩١٢) ، ٢٢ (٩١٣) ، ٢٤ (٩١٥) ، ٢٥ (٩١٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٢٥ (١٠٨٨، ١٠٩٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٥٥ (٥١٦) ، سنن النسائی/الجمعة ١٥ (١٣٩٣، ١٣٩٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٤٩، ٤٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جمعہ کے دن کے لئے ایک ہی مؤذن تھا، اب یہ اعتراض نہ ہوگا کہ ابن ام مکتوم (رض) بھی آپ ﷺ کے مؤذن تھے، کیونکہ وہ صرف فجر کی اذان دیا کرتے تھے، بلال (رض) کی اذان کے بعد، اور ابو محذورہ (رض) مکہ میں اذان دیتے تھے، اور سعد القرظ قبا میں اذان دیتے تھے، اور حارث صدائی کبھی کبھی سفر وغیرہ میں اذان دیا کرتے تھے، انہوں نے صرف اذان سیکھی تھی۔ ٢ ؎: زوراء : مدینہ کے ایک بازار کا نام تھا۔ ٣ ؎: تکبیر کو شامل کر کے یہ تیسری اذان ہوئی، اور یہ ترتیب میں پہلی اذان ہے جو خلیفہ راشد عثمان (رض) کی سنت ہے، دوسری اذان اس وقت ہوگی جب امام خطبہ دینے کے لئے منبر پر بیٹھے گا، اور تیسری اذان، اقامت (تکبیر) ہے، اگر کوئی اذان اور اقامت ہی پر اکتفا کرے تو اس نے نبی اکرم ﷺ اور ابوبکر و عمر (رض) کے سنت کی اتباع کی۔

【334】

جب امام خطبہ دے تو اس کی طرف منہ کرنا

ثابت کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب منبر پر کھڑے ہوتے تو آپ کے صحابہ اپنا چہرہ آپ ﷺ کی جانب کرلیتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٠٧٠، ومصباح الزجاجة : ٤٠٥) (صحیح) (اس کی سند میں عدی کے والد ثابت مجہول الحال ہیں، ان سے عدی کے علاوہ کسی اور نے روایت نہیں کی ہے، ثابت صحابی نہیں ہیں، اس لئے یہ حدیث مرسل ہے، مجہول تابعی ثابت نے اس حدیث کو رسول اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے، واسطہ غیر معلوم ہے اس لئے انقطاع کی وجہ سے یہ مرسل ہے، اور ابان بن تغلب کا ذکر سند میں غلط ہے، وہ ابان بن عبداللہ البجلی ہے، نیز حدیث کے شواہد ہیں، اس لئے صحیح ہے، ملاحظہ ہو : تہذیب الکمال ٤ /٣٨٥، و مصباح الزجاجة : ٤٠٥ وسلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٠٨٠ )

【335】

جمعہ گھڑی ( ساعت )

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیشک جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی ہے کہ جو مسلمان بندہ نماز پڑھتا ہوا اسے پالے، اور اس وقت اللہ تعالیٰ سے کسی بھلائی کا سوال کرے، تو اللہ اسے عطا فرماتا ہے ، اور آپ ﷺ نے ہاتھ کے اشارہ سے اس وقت کو بہت ہی مختصر بتایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٤٤١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجمعة ٣٧ (٩٣٥) ، الطلاق ٢٤ (٥٢٩٤) ، الدعوات ٦١ (٦٤٠٠) ، صحیح مسلم/الجمعة ٤ (٨٥٢) ، سنن النسائی/الجمعة ٤٤ (١٤٣٣) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٠٤ (١٦١٠) ، موطا امام مالک/الجمعة ٧ (٥١) (صحیح )

【336】

جمعہ گھڑی ( ساعت )

عمرو بن عوف مزنی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جمعہ کے دن ایک ایسی ساعت (گھڑی) ہے کہ اس میں بندہ جو کچھ اللہ تعالیٰ سے مانگے اس کی دعا قبول ہوگی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا : وہ کون سی ساعت ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نماز کے لیے اقامت کہی جانے سے لے کر اس سے فراغت تک ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٣٧ (٤٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٧٣) (ضعیف جدا) (اس حدیث کی سند میں کثیر بن عبد اللہ متروک ہے )

【337】

جمعہ گھڑی ( ساعت )

عبداللہ بن سلام (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بیٹھے ہوئے تھے، میں نے کہا : ہم اللہ کی کتاب (قرآن) میں پاتے ہیں کہ جمعہ کے دن ایک ایسی ساعت (گھڑی) ہے کہ جو مومن بندہ نماز پڑھتا ہوا اس کو پالے اور اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگے تو وہ اس کی حاجت پوری کرے گا، عبداللہ بن سلام (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میری طرف اشارہ کیا کہ وہ ایک ساعت یا ایک ساعت کا کچھ حصہ ہے میں نے کہا : آپ ﷺ نے سچ کہا، وہ ایک ساعت یا ایک ساعت کا کچھ حصہ ہے، میں نے پوچھا : وہ کون سی ساعت ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ دن کی آخری ساعت ہے میں نے کہا : یہ تو نماز کی ساعت نہیں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیوں نہیں ! بیشک مومن بندہ جب نماز پڑھتا ہے، پھر نماز ہی کے انتظار میں بیٹھا رہتا ہے، تو وہ نماز ہی میں ہوتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٣٤٢، ومصباح الزجاجة : ٤٠٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٥٠، ٤٥١) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جمعہ کے دن دعا کی قبولیت کی ساعت کے سلسلہ میں متعدد روایات وارد ہوئی ہیں، بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ نماز جمعہ کی اقامت سے فراغت نماز تک ہے، اور بعض سے پتہ چلتا ہے اخیر دن میں ہے، لیکن سب سے زیادہ صحیح حدیث اس باب میں ابوموسی اشعری (رض) کی ہے، جو صحیح مسلم میں ہے کہ یہ ساعت اس وقت ہے جب امام خطبہ کے لئے منبر پر بیٹھے نماز کی تکبیر ہونے تک ابن حجر فرماتے ہیں : عبداللہ بن سلام (رض) کا قول کہ وہ جمعہ کے دن کی آخری ساعت ہے اس باب میں سب سے زیادہ مشہور ہے، اور ابوموسی اشعری (رض) کی روایت سب سے زیادہ صحیح ہے، واللہ اعلم، اس گھڑی کو پوشیدہ رکھنے میں مصلحت یہ ہے کہ آدمی اس گھڑی کی تلاش میں پورے دن عبادت و دعا میں مشغول و منہمک رہے، والعلم عند الله

【338】

سنتوں کی بارہ رکعا ت

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص روزانہ پابندی کے ساتھ بارہ رکعات سنن موکدہ پڑھا کرے، اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنایا جائے گا : چار رکعتیں ظہر سے پہلے، اور دو رکعت اس کے بعد، دو رکعت مغرب کے بعد، دو رکعت عشاء کے بعد، دو رکعت فجر سے پہلے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٩٠ (٤١٤) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٥٧ (١٧٩٥) ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٩٣) (صحیح لغیرہ) (تراجع الألبانی : رقم : ٦٢١ ) وضاحت : ١ ؎: فرض نماز سے پہلے یا اس کے بعد جو سنتیں پڑھی جاتی ہیں، ان کی دو قسمیں ہیں : ایک قسم وہ ہے جس پر نبی اکرم ﷺ نے مداومت فرمائی ہے، بعض روایتوں میں ان کی تعداد دس بیان کی گئی ہے، اور بعض میں بارہ، اور بعض میں چودہ، انہیں سنن مؤکدہ، یا سنن رواتب کہا جاتا ہے، دوسری قسم وہ ہے جس پر آپ نے مداومت نہیں کی ہے، انہیں نوافل یا غیر موکدہ کہا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ سے مزید تقرب کے لیے نوافل یا سنن غیر موکدہ کی بھی بڑی اہمیت ہے، بہتر یہ کہ یہ سنتیں گھر میں ادا کی جائیں کیونکہ نبی اکرم ﷺ کا یہی معمول تھا، ویسے مسجد میں بھی ادا کرنا جائز اور درست ہے۔

【339】

سنتوں کی بارہ رکعا ت

ام حبیبہ بنت ابی سفیان (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے رات اور دن میں بارہ رکعتیں (سنن موکدہ) پڑھیں ١ ؎، اس کے لیے جنت میں گھر بنایا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٩٠ (٤١٥) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٥٧ (١٨٠٣، ١٨٠٤) ، (تحفةالأشراف : ١٥٨٦٢) ، وقدأخرجہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٥ (٧٢٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٩٠ (١٢٥٠) ، مسند احمد (٦/٣٢٧، ٤٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ وہی ١٢ رکعتیں ہیں جن کا ذکر ام المومنین عائشہ (رض) کی اوپر کی حدیث میں ہوا ہے۔

【340】

سنتوں کی بارہ رکعا ت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے ایک دن میں بارہ رکعتیں (سنن موکدہ) پڑھیں، اس کے لیے جنت میں گھر بنایا جائے گا : دو رکعت فجر سے پہلے، دو رکعت ظہر سے پہلے، اور دو رکعت اس کے بعد، غالباً آپ نے یہ بھی فرمایا : دو رکعت عصر سے پہلے، اور دو رکعت مغرب کے بعد، اور یہ بھی فرمایا : دو رکعت عشاء کے بعد ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٧٤٧، ومصباح الزجاجة : ٤٠٧) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/قیام اللیل ٥٧ (١٨١٢) مختصرا علی قولہ من صلی فی یوم ۔۔۔ (ضعیف) (اس کی سند محمد بن سلیمان بن اصبہانی ضعیف ہیں، لیکن واربع رکعات قبل الظہر ظہر سے پہلے چار رکعت کے لفظ سے یہ حدیث صحیح ہے ملاحظہ ہو : ٢٣٤٧ )

【341】

فجر سے پہلے دو رکعت

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب صبح صادق روشن ہوجاتی تو دو رکعت پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٣٦٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ١٢ (٦١٨) ، التہجد ٢٩ (١١٧٣) ، ٣٤ (١١٨١) ، صحیح مسلم/المسافرین ١٤ (٧٢٣) ، سنن النسائی/المواقیت ٣٨ (٥٨٤) ، قیام اللیل ٥٧ (١٧٦١، ١٧٦٢) ، ٦٠ (١٧٦٦) (صحیح )

【342】

فجر سے پہلے دو رکعت

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز سے پہلے دو رکعت پڑھتے تھے، گویا کہ آپ اقامت سن رہے ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوتر ٢ (٩٩٥) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٠ (٧٤٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٢٢ (٤٦١) ، (تحفة الأشراف : ٦٦٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣١، ٤٥، ٧٨، ٨٨، ١٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اقامت کے وقت جیسے جلدی ہوتی ہے، ویسی جلدی آپ ﷺ ان رکعتوں کے ادا کرنے میں کرتے، مطلب یہ ہے کہ ان رکعتوں میں طول نہ کرتے، مختصر سورتیں پڑھتے۔

【343】

فجر سے پہلے دو رکعت

ام المؤمنین حفصہ بنت عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جب نماز فجر کی نماز کی خبر دے دی جاتی تو آپ نماز کے لیے اٹھنے سے پہلے دو ہلکی رکعتیں پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٢ (٦١٨) ، التہجد ٢٩ (١١٧٣) ، ٣٤ (١١٨١) ، صحیح مسلم/صلاة المسافرین ١٦ (٧٣٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٠٣ (٤٣٣) ، سنن النسائی/المواقیت ٣٨ (٥٨٤) ، قیام اللیل ٥٧ (١٧٦١) ، ٦٠ (١٧٦٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٠١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٦، ١٧، ١٤١، ٦/٢٨٣، ٢٨٣، ٢٨٤، ٢٨٥، سنن الدارمی/الصلاة ١٤٦ (١٤٨٣، ١٤٨٤) (صحیح )

【344】

فجر سے پہلے دو رکعت

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب وضو کرتے تو دو رکعت پڑھتے، پھر نماز کے لیے نکلتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٣٧، ومصباح الزجاجة : ٤٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٧٧، ٨٧، ٩٨، ١١١، ١١٥) (صحیح) (سند میں ابو اسحاق السبیعی مدلس و مختلط راوی ہیں، لیکن اختلاط سے پہلے ان سے ابو الاحوص نے روایت کی ہے، چناچہ امام بخاری اور امام مسلم نے ابو الاحوص کے واسطہ سے روایت فرمائی ہے )

【345】

فجر سے پہلے دو رکعت

علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اقامت کے وقت دو رکعت پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٥٤، ومصباح الزجاجة : ٤٠٩، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٧٧، ٨٧، ٩٨، ١١١، ١١٥) (ضعیف) (حارث الاعور ضعیف اور شریک سئی الحفظ ہیں )

【346】

فجر کی سنتوں میں کو نسی وسور تیں پڑھے ؟

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فجر سے پہلے کی دونوں رکعتوں میں قل يا أيها الکافرون اور قل هو الله أحد پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٤ (٧٢٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٩٢ (١٢٥٦) ، سنن النسائی/الافتتاح ٣٩ (٩٤٦) ، (تحفةالأشراف : ١٣٤٣٨) (صحیح )

【347】

فجر کی سنتوں میں کو نسی وسور تیں پڑھے ؟

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو ایک مہینہ تک غور سے دیکھا ہے کہ آپ فجر سے پہلے کی دونوں رکعتوں میں : قل يا أيها الکافرون اور قل هو الله أحد پڑھا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٩٢ (٤١٧) ، سنن النسائی/الافتتاح ٦٨ (٩٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٩٤، ٩٥، ٩٩) (صحیح )

【348】

فجر کی سنتوں میں کو نسی وسور تیں پڑھے ؟

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فجر سے پہلے دو رکعت سنت پڑھتے تھے، اور کہتے تھے کہ یہ دونوں سورتیں جو فجر کی دونوں رکعتوں میں پڑھی جاتی ہیں کیا ہی بہتر ہیں ایک : قل هو الله أحد دوسری قل يا أيها الکافرون۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٢١٦، ومصباح الزجاجة : ٤١٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ١٢ (٦١٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٩٠ (١٢٥٥) ، سنن النسائی/الافتتاح ٤٠ (٩٤٧) ، موطا امام مالک/صلاة اللیل ٥ (٢٩) ، مسند احمد (٦/١٦٥، ١٨٣، ١٨٦، ٢٣٥) سنن الدارمی/الصلا ة ١٤٦ (١٤٨٢) (صحیح )

【349】

جب تکبیر ہو تو اس وقت اور کوئی نماز نہیں سوائے فرض نماز کے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب فرض نماز کے لیے اقامت کہہ دی جائے تو فرض نماز کے علاوہ کوئی بھی نماز نہیں ہوتی ۔ اس سند سے بھی ابوہریرہ (رض) سے اسی کے ہم مثل حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٩ (٧١٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٩٤ (١٢٦٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٩٦ (٤٢١) ، سنن النسائی/الإمامة ٦٠ (٨٦٦، ٨٦٧) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٣١، ٤٥٥، ٥١٧، ٥٣١) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٤٩ (١٤٨٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ فرض نماز کے لیے تکبیر ہوجائے تو نفل پڑھنا جائز نہیں، وہ سنت موکدہ ہی کیوں نہ ہوں، بعض لوگوں نے فجر کی سنت کو اس سے مستثنیٰ اور الگ کیا ہے، لیکن یہ استثناء صحیح نہیں ہے، اس لئے کہ مسلم بن خالد کی روایت میں جسے انہوں نے عمرو بن دینار سے روایت کیا ہے، مزید وارد ہے قيل : يا رسول الله ! ولا رکعتي الفجر ؟ قال : ولا رکعتي الفجر اس کی تخریج ابن عدی نے یحییٰ بن نصر بن حاجب کے ترجمہ میں کی ہے، اور اس کی سند کو حسن کہا ہے، اور ابوہریرہ (رض) کی روایت جس کی تخریج بیہقی نے کی ہے، اور جس میں إلا رکعتي الفجر کا اضافہ ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ اس زیادتی کے متعلق بیہقی خود فرماتے ہیں هذه الزيادة لا أصل لها یعنی یہ اضافہ بےبنیاد ہے اس کی سند میں حجاج بن نصر اور عباد بن کثیر ہیں یہ دونوں ضعیف ہیں اس لیے اس سے استدلال صحیح نہیں۔ امام ابن ماجہ نے ایک تیسری سند سے مذکورہ روایت کی مثل بیان کیا۔

【350】

جب تکبیر ہو تو اس وقت اور کوئی نماز نہیں سوائے فرض نماز کے

عبداللہ بن سرجس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا جو نماز فجر سے پہلے دو رکعت پڑھ رہا تھا، اس وقت آپ فرض پڑھ رہے تھے، جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا : اپنی دونوں نماز میں سے کس نماز کا تم نے اعتبار کیا ؟ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٩ (٧١٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٩٤ (١٢٦٥) ، سنن النسائی/الإمامة ٦١ (٨٦٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٣١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٨٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی وہ جو تم نے اکیلے پڑھی یا وہ جو امام کے ساتھ پڑھی، رسول اکرم ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ جب امام نماز کے لئے کھڑا ہو، تو اب فرض نماز کے علاوہ دوسری نماز نہ پڑھنی چاہیے، چاہے وہ فجر کی سنت ہی کیوں نہ ہو۔

【351】

جب تکبیر ہو تو اس وقت اور کوئی نماز نہیں سوائے فرض نماز کے

عبداللہ بن مالک بن بحینہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ایک شخص کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہا تھا، اور نماز فجر کے لیے اقامت کہی جا رہی تھی، آپ ﷺ نے اس سے کچھ کہا جو میری سمجھ میں نہیں آیا، جب وہ شخص نماز سے فارغ ہوا تو ہم اس کے گرد یہ پوچھنے کے لیے جمع ہوگئے کہ رسول اللہ ﷺ نے تم سے کیا کہا تھا ؟ اس شخص نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : قریب ہے کہ اب تم میں سے کوئی فجر کی نماز چار رکعت پڑھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٣٨ (٦٦٣) ، صحیح مسلم/المسافرین ٩ (٧١١) ، سنن النسائی/الإمامة ٦٠ (٨٦٨) ، (تحفة الأشراف : ٩١٥٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٤٥، ٣٤٦) ، دی/الصلاة ١٤٩ (١٤٩٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: فجر کی چار رکعت پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ اقامت کے بعد وہ دو رکعت سنت پڑھتا ہے، جبکہ وہ فرض نماز کا محل ہے، گویا کہ اس نے فرض کو چار رکعت پڑھ ڈالا۔

【352】

جس کی فجر کی سنتیں فوت ہوجائیں تو وہ کب ان کی قضاء کرے

قیس بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا جو نماز فجر کے بعد دو رکعت پڑھ رہا تھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا نماز فجر دو بار پڑھ رہے ہو ؟ ، اس شخص نے کہا : میں نماز فجر سے پہلے کی دو رکعت سنت نہ پڑھ سکا تھا، تو میں نے اب ان کو پڑھ لیا، تو نبی اکرم ﷺ خاموش رہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٩٥ (١٢٦٧، ١٢٦٨) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٩٧ (٤٢٢) ، (تحفة الأشراف : ١١١٠٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز فجر کے بعد سورج نکلنے سے پہلے فجر کی دونوں سنتیں پڑھنا جائز ہے۔

【353】

جس کی فجر کی سنتیں فوت ہوجائیں تو وہ کب ان کی قضاء کرے

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ایک مرتبہ سو گئے، اور فجر کی سنتیں نہ پڑھ سکے، تو ان کی قضاء سورج نکلنے کے بعد کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٦١، ومصباح الزجاجة : ٤١١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ فجر کی دو رکعت سنت کی قضا سورج نکلنے کے بعد بھی جائز ہے، یہی ثوری، احمد، اسحاق، اور ابن مبارک کا مذہب ہے، امام محمد کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک زوال تک ان کی قضا پڑھ لینا بہتر ہے۔

【354】

ظہر سے قبل چار سنتیں

قابوس اپنے والد (ابوظبیان) سے روایت کرتے ہیں کہ میرے والد نے ام المؤمنین عائشہ (رض) کے پاس (یہ پوچھنے کے لیے) بھیجا کہ رسول اللہ ﷺ (ان سنتوں میں سے) کس سنت پر مداومت پسند فرماتے تھے ؟ انہوں نے کہا : آپ ﷺ ظہر سے پہلے چار رکعت پڑھتے تھے، ان میں قیام لمبا، اور رکوع و سجود اچھی طرح کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٦٠، ومصباح الزجاجة : ٤١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٣) (ضعیف) (اس کی سند میں قابوس بن ابی ظبیان ضعیف ہیں، ابو ظبیان حصین بن جندب تابعی ہیں، انہوں نے جو واسطہ ذکر کیا ہے، مبہم ہے، ملاحظہ ہو : الترغیب و الترہیب للمنذری ١ / ٤٠٠ )

【355】

ظہر سے قبل چار سنتیں

ابوایوب انصاری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ظہر سے پہلے سورج ڈھلنے کے بعد چار رکعت پڑھتے تھے اور بیچ میں سلام سے فصل نہیں کرتے تھے، اور فرماتے : سورج ڈھلنے کے بعد آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٩٦ (١٢٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٨٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤١٧٥، ٤٢٠) (صحیح) (حدیث میں وارد لفظ لا يفصل بينهن بتسليم منکر اور ضعیف ہے، بقیہ حدیث صحیح ہے، تراجع الألبانی : رقم : ١٢٥ )

【356】

جس کی ظہر سے پہلے کی سنتیں فوت ہو جوئیں۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کی ظہر سے پہلے چار رکعتیں فوت ہوجاتیں تو آپ ان کو ظہر کے بعد کی دونوں رکعتوں کے بعد پڑھ لیتے۔ ابوعبداللہ ابن ماجہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث صرف قیس بن ربیع نے شعبہ سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٠١ (٤٢٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٠٨) (ضعیف) (اس باب میں صحیح حدیث کریب کی ہے، جو ام سلمہ اور عائشہ (رض) سے مروی ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٤٢٠٨ )

【357】

جس کی ظہر کے بعد دو رکعتیں فوت ہوجائیں

عبداللہ بن حارث کہتے ہیں کہ معاویہ (رض) نے ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کے پاس ایک شخص بھیجا، قاصد کے ساتھ میں بھی گیا، اس نے ام سلمہ (رض) سے سوال کیا، تو انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ میرے گھر میں نماز ظہر کے لیے وضو کر رہے تھے، اور آپ ﷺ نے صدقہ وصول کرنے والا ایک شخص روانہ کیا تھا، آپ کے پاس مہاجرین کی بھیڑ تھی، اور ان کی بدحالی نے آپ کو فکر میں مبتلا کر رکھا تھا کہ اتنے میں کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا، آپ باہر نکلے، ظہر پڑھائی پھر بیٹھے، اور صدقہ وصول کرنے والا جو کچھ لایا تھا اسے تقسیم کرنے لگے، آپ ﷺ عصر تک ایسے ہی تقسیم کرتے رہے، پھر آپ میرے گھر میں داخل ہوئے، اور دو رکعت پڑھی، اور فرمایا : صدقہ وصول کرنے والے کے معاملے نے مجھے ظہر کے بعد دو رکعت سنت کی ادائیگی سے مشغول کردیا تھا، اب نماز عصر کے بعد میں نے وہی دونوں رکعتیں پڑھی ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٨١٧١ ومصباح الزجاجة : ٤١٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/السہو ٨ (١٢٣٣) ، المغازي ٦٩ (٤٣٧٠) ، صحیح مسلم/المسافرین ٥٤ (٨٣٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٩٨ (١٢٧٣) ، سنن النسائی/المواقیت ٣٥ (٥٨٠) ، مسند احمد (٦/٣٠٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٤٣ (١٤٧٦) (منکر) (یزید بن ابی زیاد القرشی الہاشمی ضعیف ہیں، بڑھاپے کی وجہ سے حافظہ میں فرق آگیا تھا، اور تلقین قبول کرنے لگے تھے، نیز شیعہ تھے، ابن حجر کے الفاظ ہیں : ضعيف كبر فتغير وصار يتلقن وکان شيعياً (خت م ٤ ) تہذیب الکمال ٣٢؍ ١٤٠ ، والتقریب) ، بخاری نے تعلیقاً اور مسلم نے دوسرے راوی کے ساتھ ان سے حدیث روایت کی ہے، صحیحین وغیرہ میں دوسرے سیاق کے ساتھ یہ حدیث موجود ہے، اوپر کی تخریج ملاحظہ ہو )

【358】

ظہر سے پہلے اور بعد چار چار سنتیں پڑھنا۔

ام المؤمنین ام حبیبہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور ظہر کے بعد چار رکعتیں پڑھیں تو اللہ تعالیٰ اسے جہنم پر حرام کر دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٠١ (٤٢٧) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٥٧ (١٨١٨) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٥٨) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٩٦ (١٧٦٩) ، مسند احمد (٦/٣٢٦) (صحیح) (تراجع الألبانی : رقم : ٣٧٦ )

【359】

دن میں جو نو افل مستحب میں

عاصم بن ضمرہ سلولی کہتے ہیں کہ ہم نے علی (رض) سے رسول اللہ ﷺ کے دن کی نفل نماز کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا : تم ان کو ادا نہ کرسکو گے، ہم نے کہا کہ آپ ہمیں بتائیے، ہم ان میں سے جتنی ادا کرسکیں گے اتنی لے لیں گے، انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ فجر پڑھنے کے بعد رکے رہتے یہاں تک کہ جب سورج مشرق (پورب) کی جانب سے اتنا بلند ہوجاتا جتنا کہ عصر کے وقت مغرب (پچھم) کی جانب سے ہوتا ہے تو کھڑے ہوتے اور دو رکعت پڑھتے، ١ ؎ پھر ٹھہر جاتے یہاں تک کہ جب سورج (پورب) کی جانب سے اتنا بلند ہوجاتا جتنا ظہر کے وقت مغرب (پچھم) کی طرف سے بلند ہوتا ہے، تو آپ کھڑے ہوتے اور چار رکعت پڑھتے، ٢ ؎ اور جب سورج ڈھل جاتا تو نماز ظہر سے پہلے چار رکعت اور اس کے بعد دو رکعت پڑھتے، اور چار رکعت عصر سے پہلے جن میں ہر دو رکعت کے درمیان مقرب فرشتوں، انبیاء کرام اور ان کے پیروکار مسلمانوں اور مومنوں پر سلام بھیج کر فصل کرتے۔ علی (رض) نے کہا : یہ سب سولہ رکعتیں ہوئیں جو نبی اکرم ﷺ دن میں بطور نفل پڑھتے، اور ایسے لوگ بہت کم ہیں جو پابندی کے ساتھ انہیں پڑھتے رہیں۔ راوی حدیث وکیع کہتے ہیں کہ میرے والد نے اس حدیث میں اتنا اضافہ کیا کہ حبیب بن ابی ثابت نے ابواسحاق سے کہا کہ اے ابواسحاق ! اگر اس حدیث کے بدلے مجھے تمہاری اس مسجد بھر سونا ملتا تو میں پسند نہیں کرتا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٣٠١ (٥٩٨، ٥٩٩) ، سنن النسائی/الإمامة ٦٥ (٨٧٥، ٨٧٦) ، (تحفةالأشراف : ١٠١٣٧) ، مسند احمد (١/٨٥) (حسن) (شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں ابو اسحاق مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت کی ہے، نیز ملاحظہ ہو : الصحیحة : ٢٣٧ ) وضاحت : ١ ؎: یہ اشراق کی نماز ہوتی۔ ٢ ؎: یہ صلاۃ الضحیٰ (چاشت کی نماز) ہوتی۔

【360】

مغرب سے قبل دو رکعت

عبداللہ بن مغفل (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہر اذان اور اقامت کے درمیان نماز ہے، آپ نے یہ جملہ تین بار فرمایا، اور تیسری مرتبہ میں کہا : اس کے لیے جو چاہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٤ (٦٢٤) ، ١٦ (٦٢٧) ، صحیح مسلم/المسافرین ٥٦ (٨٣٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٠٠ (١٢٨٣) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٢ (١٨٥) ، سنن النسائی/الاذان ٣٩ (٦٨٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٨٦، ٥/٥٤، ٥٦، ٥٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٤٥ (١٤٨٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اذان اور اقامت کے درمیان نفلی نماز ہے، اور یہ نفل ہر نماز میں اذان اور اقامت کے درمیان ہے، اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل ثابت ہے۔

【361】

مغرب سے قبل دو رکعت

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں مؤذن اذان دیتا تو لوگ اتنی کثرت سے مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے کہ محسوس ہوتا کہ نماز مغرب کے لیے اقامت کہہ دی گئی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٠٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة ٩٥ (٥٠٣) ، الأذان ١٤ (٦٢٥) ، صحیح مسلم/المسافرین ٥٥ (٨٣٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٠٠ (١٢٨٢) ، سنن النسائی/الأذان ٣٩ (٦٨٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٠٠ (١٢٨٢) ، مسند احمد (٣/٢٨٢) (صحیح) (اس سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں، لیکن کئی ثقات نے ان کی متابعت کی ہے کما فی التخریج ) وضاحت : ١ ؎: یہ دو رکعتیں ہلکی ہوتی تھیں جب تک اذان سے فراغت ہوتی اور موذن تکبیر شروع کرتا تو ان سے فراغت ہوجاتی، نیز اس حدیث سے مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعت پڑھنے کا استحباب ثابت ہوتا ہے۔

【362】

مغرب کے بعد کی دو سنتیں

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ مغرب پڑھتے، پھر میرے گھر واپس آتے، اور دو رکعت پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ٣٩ (٩٣٧) ، التہجد ٢٥ (١١٧٥) ، عن ابن عمر صحیح مسلم/المسافرین ١٥ (٧٣٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٩٠ (١٢٥١) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٠٥ (٤٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦٢١٠) (صحیح )

【363】

مغرب کے بعد کی دو سنتیں

رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس بنو عبدالاشہل (قبیلہ) میں آئے، اور ہمیں ہماری مسجد میں مغرب پڑھائی، پھر فرمایا : یہ دونوں رکعتیں (مغرب کے بعد کی سنتیں) اپنے گھروں میں پڑھو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٥٨٤، ومصباح الزجاجة : ٤١٤) (حسن) (عبد الوہاب بن الضحاک متروک ہے، اور اسماعیل بن عیاش کی روایت اہل شام کے علاوہ سے ضعیف ہے، اور محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن حدیث کی تخریج ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں ( ١ /١٢٩/٢) محمد بن اسحاق کے طریق سے کی ہے، اس لئے عبد الوہاب اور ابن عیاش کی متابعت ہوگئی، نیز مسند احمد : ٥ /٤٢٧) میں ابن اسحاق سے تحدیث کی تصریح ہے، لیکن وہ محمود بن لبید کی حدیث ہے، اس وجہ سے یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود : ١١٧٦ ، و مصباح الزجاجة : ٤١٨ ، تحقیق الشہری ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سنتوں کا گھر میں ادا کرنا افضل ہے، کیونکہ اس میں ریا و نمود سے بچاؤ ہوتا ہے، اور گھر میں برکت بھی ہوتی ہے، افسوس ہے کہ ہمارے زمانہ میں لوگوں نے اس سنت کو چھوڑ دیا ہے، اور سنتوں کو مسجد میں ہی پڑھا کرتے ہیں، اور جمعہ کے بعد ایک فیصد بھی ایسا نہیں دیکھا جاتا، جو سنتیں گھر میں جا کر ادا کرے جیسے نبی اکرم ﷺ کا طریقہ تھا۔

【364】

مغرب کے بعد سنتوں میں کیا پڑھے ؟

عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ مغرب کے بعد کی دو رکعت سنت میں : قل يا أيها الکافرون اور قل هو الله أحد پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث زرعن عبد اللہ مسعود تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٢٦) وحدیث أبي وائل عن ابن سعود : أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٠٤ (٤٣١) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٧٨) (ضعیف) (اس کی سند میں بدل بن المحبر اور عبد الملک بن الو لید ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو : المشکاة : ٨٥١ )

【365】

مغرب کے بعد چھ رکعا ت

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعت نماز پڑھے اور ان کے درمیان کوئی غلط بات نہ کہے، تو وہ بارہ سال کی عبادت کے برابر قرار دی جائیں گی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٠٥ (٤٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١٥٤١٢) (ضعیف جدا) (اس حدیث کی سند میں عمر بن ابی خثعم منکر الحدیث ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٤٦٩ ) ، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ١٣٧٤ )

【366】

وتر کا بیان

خارجہ بن حذافہ عدوی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا : اللہ تعالیٰ نے تمہارے اوپر مزید ایک نماز مقرر کی ہے، جو تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے، وہ وتر کی نماز ہے، اللہ نے اسے تمہارے لیے عشاء سے لے کر طلوع فجر کے درمیان مقرر کیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٣٦ (١٤١٨) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢١٥ (٤٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٥٠) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الصلاة ٢٠٨ (١٦١٧) (صحیح) (اس سند میں عبد اللہ بن راشد مجہول ہیں، اس لئے ھی خیر لکم من حمرالنعم کا ٹکڑا ضیعف ہے، بقیہ حدیث دوسرے طریق سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو : تراجع الألبانی : رقم : ٤٤٢ و سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٠٨ و ١١٤١ ، و ضعیف أبی داود : ٢٥٥ )

【367】

وتر کا بیان

علی بن ابی طالب (رض) فرماتے ہیں کہ وتر واجب نہیں ہے، اور نہ وہ فرض نماز کی طرح ہے، بلکہ رسول اللہ ﷺ نے وتر پڑھی پھر فرمایا : اے قرآن والو ! وتر پڑھو، اس لیے کہ اللہ طاق ہے، طاق (عدد) کو پسند فرماتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٣٦ (١٤١٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢١٦ (٤٥٣) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٢٧ (١٦٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٠٠، ١١٠، ١٤٣، ١٤٤، ١٤٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠٩ (١٦٢١) (صحیح لغیرہ) (تراجع الألبانی : رقم : ٤٨٢ ) وضاحت : ١ ؎: قرآن والوں سے مراد قراء و حفاظ کی جماعت ہے، نہ کہ عامۃ الناس، اس کی تائید اگلی روایت میں ليس لک ولا لأصحابک کے جملہ سے ہو رہی ہے، جو عبداللہ بن مسعود (رض) نے ایک اعرابی سے کہا تھا، اس سے یہ معلوم ہوا کہ وتر واجب نہیں ہے، کیونکہ اگر واجب ہوتی تو حکم عام ہوتا۔

【368】

وتر کا بیان

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بیشک اللہ طاق (یکتا و بےنظیر) ہے، طاق کو پسند فرماتا ہے، لہٰذا اے قرآن والو ! وتر پڑھا کرو، ایک اعرابی (دیہاتی) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کیا فرماتے ہیں ؟ تو عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا : یہ تمہارے اور تمہارے ساتھیوں کے لیے نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٣٦ (١٤١٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٢٧) (صحیح )

【369】

وتر میں کون کونسی سورتیں پڑھی جائیں ؟

ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر میں : سبح اسم ربک الأعلى، قل يا أيها الکافرون اور قل هو الله أحد پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٣٩ (١٤٢٣) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٣٤ (١٧٠٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٤) ، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ١١٨٢) (صحیح )

【370】

وتر میں کون کونسی سورتیں پڑھی جائیں ؟

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ وتر میں : سبح اسم ربک الأعلى، قل يا أيها الکافرون اور قل هو الله أحد پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٢٣ (٤٦٢) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٣٤ (١٧٠٣) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٧٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢١٢ (١٦٢٧، ١٦٣٠) (صحیح ) اس سند سے بھی ابن عباس (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

【371】

وتر میں کون کونسی سورتیں پڑھی جائیں ؟

عبدالعزیز بن جریج کہتے ہیں کہ ہم نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے پوچھا : رسول اللہ ﷺ وتر میں کون سی سورتیں پڑھتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : آپ ﷺ پہلی رکعت میں : سبح اسم ربک الأعلى دوسری میں قل يا أيها الکافرون اور تیسری میں قل هو الله أحد اور معوذتین پڑھتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٣٩ (١٤٢٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٢٣ (٤٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٠٦) وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/ ٢٢٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ نبی اکرم ﷺ وتر کی تین رکعتیں پڑھتے تھے، پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الأعلى کی تلاوت فرماتے، اور دوسری رکعت میں قل يا أيها الکافرون کی، اور تیسری رکعت میں : قل هو الله أحد اور معوذتین پڑھتے تھے۔

【372】

ایک رکعت وتر کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات میں دو دو رکعت پڑھتے تھے، اور ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوتر ١ (٩٩٥) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٠ (٧٤٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٢٢ (٤٦١) ، (تحفة الأشراف : ٦٦٥٢، ٧٢٦٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٣٨ (١٤٢١) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٣٤ (١٦٩٠) ، موطا امام مالک/صلاة اللیل ٣ (١٣) ، مسند احمد (٢/٣٣، ٤٣، ٤٥، ٤٩، ٥١، ٥٤، ٨١، ٨٣، ١٥٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٥٤ (١٤٩٩) ، ١٥٥ (١٥٠٠) (صحیح )

【373】

ایک رکعت وتر کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رات کی نماز دو دو رکعت اور وتر ایک رکعت ہے ، ابومجلز (لاحق بن حمید) کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے کہا کہ آپ مجھے بتائیے کہ اگر میری آنکھ لگ جائے، اگر میں سو جاؤں ؟ تو ابن عمر (رض) نے کہا : اگر مگر اس ستارے کے پاس لے جاؤ، میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو ستارہ سماک ١ ؎ چمک رہا تھا، پھر انہوں نے وہی جملہ دہرایا، اور کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : رات کی نماز دو دو رکعت ہے، اور وتر صبح سے پہلے ایک رکعت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٥٦٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سماک: ایک ستارہ کا نام ہے، سما کان: دو روشن ستارے، ایک کا نام السماء الرامح ہے، دوسرے کا السماء الأعزل ہے۔

【374】

ایک رکعت وتر کا بیان

مطلب بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عبداللہ بن عمر (رض) سے پوچھا : میں وتر کیسے پڑھوں ؟ تو انہوں نے کہا : تم ایک رکعت کو وتر بناؤ، اس شخص نے کہا : میں ڈرتا ہوں کہ لوگ اس نماز کو بتیراء (دم کٹی نماز) کہیں گے، تو عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا : اللہ اور اس کے رسول کی سنت ہے، ان کی مراد تھی کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کی سنت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٤٥٩، ومصباح الزجاجة : ٤١٥) (صحیح) (سند میں انقطاع ہے کیونکہ بقول امام بخاری (التاریخ الکبیر : ٨ / ٨) مطلب بن عبد اللہ کا سماع کسی بھی صحابی سے ثابت نہیں ہے، الا یہ کہ انہوں نے کہا ہے کہ مجھ سے بیان کیا اس شخص نے جو نبی اکرم ﷺ کے خطبہ میں حاضر تھا، اور ابو حاتم نے فرمایا : ابن عمر (رض) سے روایت کی، میں نہیں جانتا کہ ان سے سنایا نہیں سنا (المراسیل : ٢٠٩ ) ، پھر الجرح و التعدیل میں کہا کہ ان کی روایت ابن عمر (رض) سے مرسل (منقطع) ہے، شاید یہ تصحیح شواہد کی وجہ سے ہے، جس کو مصباح الزجاجة ( ٤١٩ ) میں ملاحظہ کریں، یہ حدیث صحیح ابن خزیمہ ( ١٠٧٤ ) میں ہے، جس کے اسناد کی تصحیح البانی صاحب نے کی ہے، جب کہ ابن ماجہ میں ضعیف لکھا ہے )

【375】

ایک رکعت وتر کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہر دو رکعت پہ سلام پھیرتے تھے، اور ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٦١٨، ومصباح الزجاجة : ٤١٦) (صحیح الإسناد )

【376】

وتر میں دعاء قنوت نازلہ

حسن بن علی (رض) کہتے ہیں کہ میرے نانا رسول اللہ ﷺ نے مجھے چند کلمات سکھائے جن کو میں وتر کے قنوت میں پڑھا کروں : اللهم عافني فيمن عافيت وتولني فيمن توليت واهدني فيمن هديت وقني شر ما قضيت و بارک لي فيما أعطيت إنک تقضي ولا يقضى عليك إنه لا يذل من واليت سبحانک ربنا تبارکت وتعاليت اے اللہ ! مجھے عافیت دے ان لوگوں میں جن کو تو نے عافیت بخشی ہے، اور میری سرپرستی کر ان لوگوں میں جن کی تو نے سرپرستی کی ہے، اور مجھے ہدایت دے ان لوگوں کے زمرے میں جن کو تو نے ہدایت دی ہے، اور مجھے اس چیز کی برائی سے بچا جو تو نے مقدر کی ہے، اور میرے لیے اس چیز میں برکت دے جو تو نے عطا کی ہے، پس جو تو چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے، اور تجھ پر کسی کا حکم نہیں چل سکتا، اور جسے تو دوست رکھے وہ ذلیل نہیں ہوسکتا، اے ہمارے رب ! تو پاک، بابرکت اور بلند ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٤٠ (١٤٢٥، ١٤٢٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٢٤ (٤٦٤) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٤٢ (١٧٤٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٩٩، ٢٠٠) (صحیح )

【377】

وتر میں دعاء قنوت نازلہ

علی بن ابی طالب (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ وتر کے آخر میں یہ دعا پڑھتے تھے : اللهم إني أعوذ برضاک من سخطک وأعوذ بمعافاتک من عقوبتک وأعوذ بک منک لا أحصي ثناء عليك أنت کما أثنيت على نفسک اے اللہ ! میں تیری رضا مندی کے ذریعہ تیری ناراضی سے پناہ مانگتا ہوں، اور تیری معافی کے ذریعہ تیری سزاؤں سے پناہ مانگتا ہوں، اور تیرے رحم و کرم کے ذریعہ تیرے غیظ و غضب سے پناہ مانگتا ہوں، میں تیری حمد و ثنا کو شمار نہیں کرسکتا، تو ویسا ہی ہے جیسا کہ تو نے خود اپنی تعریف کی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٤٠ (١٤٢٧) ، سنن الترمذی/الدعوات ١١٣ (٣٥٦٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٠٧) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/قیام اللیل ٤٣ (١٧٤٩) ، مسند احمد (١/٩٦، ١١٨، ١٥٠) (صحیح )

【378】

جو قنوت میں ہاتھ نہ اٹھائے

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنی کسی بھی دعا میں اپنے ہاتھ (مبالغہ کے ساتھ) نہیں اٹھاتے تھے، البتہ آپ استسقاء میں اپنے ہاتھ اتنا اوپر اٹھاتے کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی دکھائی دیتی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاستسسقاء ٢٢ (١٠٣١) المناقب ٢٣ (٣٥٦٥) ، الدعوات ٢٣ (٦٣٤١) ، صحیح مسلم/الاستسقاء ١ (٨٩٥) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٦٠ (١٧٧٠) ، قیام اللیل ٤٣ (١٧٤٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٨) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الاستسقاء ٩ (١٥١٢) ، مسند احمد (٣/٢٨٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٩ (١٥٧٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ روایت ان بہت سی روایتوں کی معارض ہے جن سے استسقاء کے علاوہ بھی بہت سی جگہوں پر دعا میں دونوں ہاتھوں کا اٹھانا ثابت ہے، لہذا اولیٰ یہ ہے کہ انس (رض) کی اس روایت کو اس بات پر محمول کیا جائے کہ آپ نے جو نفی کی ہے، وہ اپنے علم کی حد تک کی ہے، جس سے دوسروں کے علم کی نفی لازم نہیں آتی ہے، یا یہ کہا جائے کہ اس میں ہاتھ زیادہ اٹھانے کی نفی ہے، یعنی دوسری دعاؤں میں آپ اپنے ہاتھ اتنے اونچے نہیں اٹھاتے تھے جتنا استسقاء میں اٹھاتے تھے، حتی رأيت بياض إبطيه کے ٹکڑے سے اس قول کی تائید ہو رہی ہے، اس سے مطلق قنوت میں ہاتھ نہ اٹھانے پر استدلال صحیح نہیں، اس لئے کہ قنوت نازلہ میں ہاتھ اٹھانا صحیح روایتوں سے ثابت ہے۔

【379】

دعا میں ہاتھ اٹھانا اور چہرہ پر پھیرنا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرو تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کا باطن منہ کی طرف کر کے دعا کرو، ان کے ظاہری حصہ کو منہ کی طرف نہ کرو، اور جب دعا سے فارغ ہوجاؤ تو دونوں ہتھیلیاں اپنے چہرہ پر پھیر لو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٥٨، (١٤٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٦٤٤٨، ومصباح الزجاجة : ٤١٧) ، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٣٨٦٦) (ضعیف) (اس کی سند میں صالح بن حسان ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ٣٣٤ )

【380】

رکوع سے قبل اور بعد قنوت

ابی بن کعب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ وتر پڑھتے تھے تو دعائے قنوت رکوع سے پہلے پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٣٩ (١٤٢٣) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٣٤ (١٧٠٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٢٣) (صحیح )

【381】

رکوع سے قبل اور بعد قنوت

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ ان سے نماز فجر میں دعائے قنوت کے متعلق پوچھا گیا کہ کب پڑھی جائے ؟ تو انہوں نے کہا : ہم رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد دونوں طرح دعائے قنوت پڑھا کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٨٧ ومصباح الزجاجة : ٤١٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ١٢٦ (٧٩٨) ، صحیح مسلم/المساجد ٥٤ (٦٧٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٤٥ (١٤٤٤) ، سنن النسائی/التطبیق ٢٧ (١٠٧٢) ، مسند احمد (٣/٢١٧، ٢٣٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢١٦ (١٦٣٧) (صحیح) (یہ حدیث مکرر ہے ملاحظہ ہو : ١٢٤٣ ) وضاحت : ١ ؎: محدثین نے اسی پر عمل کیا ہے، اور نماز فجر کی طرح وتر میں بھی یہ جائز رکھا ہے کہ خواہ رکوع سے پہلے قنوت پڑھے یا رکوع کے بعد، مگر رکوع کے بعد پڑھنے کی حدیثیں زیادہ قوی اور زیادہ صحیح ہیں۔

【382】

رکوع سے قبل اور بعد قنوت

محمد (محمد بن سیرین) کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے دعائے قنوت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے رکوع کے بعد دعائے قنوت پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوتر ٧ (١٠٠١) ، المغازي ٢٩ (٤٠٨٩) ، الدعوات ٥٨ (٦٣٩٤) ، صحیح مسلم/المساجد ٥٤ (٦٧٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٤٥ (١٤٤٤) ، (تحفة الأشراف : ١٤٥٣) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/التطبیق ٢٦ (١٠٧١) ، مسند احمد (٣/١١٣، ٥١١، ١٦٦، ١٦٧) (صحیح )

【383】

اخیر رات میں وتر پڑھنا

مسروق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے رسول اللہ ﷺ نماز وتر کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا : آپ ﷺ نے رات کے ہر حصے میں وتر پڑھا، کبھی رات کے شروع حصے میں، کبھی درمیانی حصے میں، اور وفات کے قریبی ایام میں اپنا وتر صبح صادق کے قریب پڑھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٧ (٧٤٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢١٨ (٤٥٦) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٢٨ (١٦٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٥٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوتر ٢ (٩٩٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٤٣ (١٤٣٥) ، مسند احمد (٦/١٢٩، ٢٠٤) ، سنن الدارمی/الصلا ة ٢١١، (١٦٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ نے وتر کو رات میں مختلف اوقات میں پڑھا ہے، لیکن اخیر عمر میں وتر کو صبح صادق کے قریب پڑھا ہے، تو ایسا ہی کرنا افضل ہے، بالخصوص ان لوگوں کے لئے جو اخیر رات میں تہجد کے لئے اٹھا کرتے ہیں، اور جو آپ ﷺ نے رات کے ابتدائی حصہ یا درمیانی حصہ میں پڑھا ہے تو اس سے جواز ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس میں امت کے لئے آسانی ہے، واللہ اعلم۔

【384】

اخیر رات میں وتر پڑھنا

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے رات کے ہر حصہ میں کبھی شروع میں، اور کبھی بیچ میں، صبح صادق کے طلوع تک نماز وتر پڑھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠١٤٥، ومصباح الزجاجة : ٩١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٧٨، ٨٦، ١٠٤، ١٣٧، ١٤٣، ١٤٧) (حسن صحیح )

【385】

اخیر رات میں وتر پڑھنا

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص کو یہ ڈر ہو کہ وہ رات کے آخری حصے میں بیدار نہ ہو سکے گا تو رات کی ابتداء ہی میں وتر پڑھ لے اور سو جائے، اور جس کو امید ہو کہ وہ رات کے آخری حصہ میں بیدار ہوجائے گا تو رات کے آخری حصہ میں وتر پڑھے کیونکہ آخر رات کی قراءت میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور یہ افضل ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢١ (٧٥٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢١٧ (٤٥٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٢٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/ ٣١٥، ٣٨٩) (صحیح )

【386】

اخیر رات میں وتر پڑھنا

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو نماز وتر سے سو جائے، یا اسے بھول جائے، تو صبح کے وقت یا جب یاد آجائے پڑھ لے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٤١ (١٤٣١) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٢٥ (٤٦٥، ٤٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٤١٦٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣١، ٤٤) (صحیح )

【387】

اخیر رات میں وتر پڑھنا

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : صبح صادق سے پہلے وتر پڑھ لو ۔ محمد بن یحییٰ کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عبدالرحمٰن بن زید کی حدیث ضعیف ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٠ (٧٥٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٢٦ (٤٦٨) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٢٩ (١٦٨٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٣٨٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٤٣ (١٤٢٢) ، مسند احمد (٣/١٣، ٣٥، ٣٧، ٧١) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢١١ (١٦٢٩) (صحیح )

【388】

تین پانچ سات اور نو رکعات وتر پڑھنا

ابوایوب انصاری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وتر حق (ثابت) ہے، لہٰذا جس کا جی چاہے پانچ رکعت وتر پڑھے، اور جس کا جی چاہے تین رکعت پڑھے، اور جس کا جی چاہے ایک رکعت پڑھے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٣٨ (١٤٢٢) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٣٤ (١٧١١، ١٧١٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤١٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢١٠ (١٦٢٦) (صحیح )

【389】

تین پانچ سات اور نو رکعات وتر پڑھنا

سعد بن ہشام کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے پوچھا : ام المؤمنین ! مجھے رسول اللہ ﷺ کی وتر کے بارے میں بتائیے، تو انہوں نے کہا : ہم رسول اللہ ﷺ کے لیے مسواک اور وضو کا پانی تیار رکھتے، پھر اللہ تعالیٰ جب چاہتا رات میں آپ کو بیدار کردیتا، آپ مسواک اور وضو کرتے، پھر نو رکعتیں پڑھتے، بیچ میں کسی بھی رکعت پر نہ بیٹھتے، ہاں آٹھویں رکعت پر بیٹھتے، اپنے رب سے دعا کرتے، اس کا ذکر کرتے اور حمد کرتے ہوئے اسے پکارتے، پھر اٹھ جاتے، سلام نہ پھیرتے اور کھڑے ہو کر نویں رکعت پڑھتے، پھر بیٹھتے اور اللہ کا ذکر اور اس کی حمد و ثنا کرتے، اور اپنے رب سے دعا کرتے، اور اس کے نبی پر درود (صلاۃ) پڑھتے، پھر اتنی آواز سے سلام پھیرتے کہ ہم سن لیتے، سلام پھیرنے کے بعد بیٹھے بیٹھے دو رکعت پڑھتے، یہ سب گیارہ رکعتیں ہوئیں، جب آپ ﷺ کی عمر زیادہ ہوگئی، اور آپ کا جسم مبارک بھاری ہوگیا، تو آپ سات رکعتیں وتر پڑھتے اور سلام پھیرنے کے بعد دو رکعت پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/السہو ٦٧ (١٣١٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٠٧) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٨ (٧٤٦) ، الصلاة ٣١٦ (١٣٤٢) ، مسند احمد (٦/٤٤، ٥٤) (صحیح )

【390】

تین پانچ سات اور نو رکعات وتر پڑھنا

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سات یا پانچ رکعتیں وتر پڑھتے تھے، اور ان کے درمیان سلام اور کلام سے فصل نہیں کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/قیام اللیل ٣٥ (١٧١٥) ، (تحفةالأشراف : ١٨٢١٤) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الوتر ٥ (٤٥٧) ، مسند احمد (٦/٢٩٠، ٣١٠، ٣٢١) (ضعیف) (اس سند میں مقسم ہیں، اور ان کا سماع ام سلمہ (رض) سے نہیں ہے، لیکن عائشہ (رض) کی حدیث کی وجہ سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٩٦١ )

【391】

سفر میں وتر پڑھنا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سفر میں دو رکعت پڑھتے تھے اس سے زیادہ نہیں، اور رات میں تہجد پڑھتے تھے، سالم بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا : آپ ﷺ (سفر میں) وتر پڑھتے تھے ؟ کہا : جی ہاں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٧٤٧، ومصباح الزجاجة : ٤٢٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٨٦) (ضعیف جدًا) (اس حدیث کی سند میں جابر بن یزید الجعفی کذاب راوی ہے، لیکن اس باب میں صحیح احادیث آئی ہیں جو ہمارے لئے کافی ہیں )

【392】

سفر میں وتر پڑھنا

عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سفر کی نماز دو رکعت مقرر کی ہے، یہ دو رکعت پوری ہے ناقص نہیں، اور سفر میں نماز وتر پڑھنا سنت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٧٧٥، ٧١١٦، ومصباح الزجاجة : ٤٢١) ، مسند احمد (١/٢٤١) (ضعیف جدا) (سند میں جابر جعفی متروک اور کذاب راوی ہے، ملاحظہ ہو : المشکاة : ١٣٥٠ )

【393】

وتر کے بعد بیٹھ کردو رکعتیں پڑھنا

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ وتر کے بعد دو ہلکی رکعت بیٹھ کر پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الوتر ١٤ (٤٧١) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٥٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٩٨) (صحیح) (اس کی سند میں میمون بن موسیٰ مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت کی ہے، لیکن دوسرے شواہد سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : مصباح الزجاجة : ٤٢٦ ب تحقیق الشہری ) وضاحت : ١ ؎: اور بعض فقہاء کو اس کی خبر نہیں ہوئی انہوں نے وتر کے بعد اس دو رکعت نفل سے منع کیا، اور شاید کبھی کبھار نبی اکرم ﷺ نے ایسا کیا ہوگا، کیونکہ آپ اکثر وتر اخیر رات میں پڑھتے تھے جیسے اوپر گزرا، اور وتر کے بعد دوسری نماز نہ پڑھتے یہاں تک کہ فجر طلوع ہوتی تو فجر کی سنتیں پڑھتے۔

【394】

وتر کے بعد بیٹھ کردو رکعتیں پڑھنا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک رکعت وتر پڑھتے تھے، پھر بیٹھ کر دو رکعت پڑھتے ١ ؎ اور ان میں قراءت کرتے، جب رکوع کا ارادہ کرتے تو کھڑے ہوتے اور رکوع کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٧١٥ ومصباح الزجاجة : ٤٢٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ١٢ (٦٩١) ، التہجد ٢٢ (١١٥٩) ، صحیح مسلم/المسافرین ١٧ (٧٣٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣١٦ (١٣٤٠) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٤٦ (١٧٥٧) ، مسند احمد (٦/٥٣، ٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: امام احمد کہتے ہیں کہ میں وتر کے بعد اس دو رکعت سے نہ منع کرتا ہوں، نہ میں اس کو پڑھتا ہوں، اور امام مالک نے اس کا انکار کیا ہے، نووی کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ نے ان دونوں رکعتوں کو بیٹھ کر پڑھا، اس امر کو ظاہر کرنے کے لئے کہ وتر کے بعد نفل پڑھنا صحیح ہے، آپ ﷺ نے ہمیشہ ان کو نہیں پڑھا، اور قاضی عیاض نے ان حدیثوں کو قبول نہیں کیا، حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ شاید یہ مسافر کے لئے ہے کہ جب تہجد کے لئے جاگنے کی امید نہ ہو تو وتر کے بعد یہ دو رکعت پڑھ کر سوئے، جیسے ثوبان (رض) سے مروی ہے کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے، آپ ﷺ نے فرمایا : سفر ایک تکلیف ہے، پھر جب کوئی تم میں سے وتر پڑھے تو دو رکعت پڑھ لے، اگر جاگے تو خیر ورنہ یہ دو رکعت اس کے لئے تہجد کے قائم مقام ہوجائے گی ، واللہ اعلم۔

【395】

وتر کے بعد اور فجر کی سنتوں کے بعد مختصر وقت کے لئے لیٹ جانا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کو جب بھی اخیر رات میں پاتی تو اپنے پاس سویا ہوا پاتی ١ ؎۔ وکیع نے کہا : ان کی مراد وتر کے بعد۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٧١٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/التہجد ٧ (١١٣٣) ، صحیح مسلم/المسافرین ١٧ (٧٤٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣١٢ (١٣١٨) ، مسند احمد (٦/١٣٧، ١٦١، ٢٠٥، ٢٧٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ وتر پڑھ کر آپ ﷺ لیٹ جاتے، اور تھوڑی دیر آرام فرماتے پھر فجر کی سنتوں کے لئے اٹھتے۔

【396】

وتر کے بعد اور فجر کی سنتوں کے بعد مختصر وقت کے لئے لیٹ جانا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب فجر کی دو رکعت سنت پڑھ لیتے تو دائیں کروٹ لیٹ جاتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٠٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ١٤ (٦٢٦) ، التہجد ٢٣ (١١٦٠) ، ٢٤ (١١٦١) ، الدعوات ٥ (٦٣١٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٠٨ (٤٤٠) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٤٩ (١٧٦٣) ، مسند احمد (٦/٣٤، ٣٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٦٥ (١٥١٤) (حسن صحیح )

【397】

وتر کے بعد اور فجر کی سنتوں کے بعد مختصر وقت کے لئے لیٹ جانا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب فجر کی دو رکعت سنت پڑھ لیتے تو پہلو پر لیٹ جاتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٦٨٥) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٩٣ (١٢٦١) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٩٤ (٤٢٠) (حسن صحیح )

【398】

سوری پر وتر پڑھنا

سعید بن یسار کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمر (رض) کے ساتھ تھا، میں پیچھے ہوگیا، اور نماز وتر ادا کی، انہوں نے پوچھا : تم پیچھے کیوں رہ گئے ؟ میں نے کہا : میں وتر پڑھ رہا تھا، انہوں نے کہا : کیا تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی میں اسوہ حسنہ نہیں ہے ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں، کہا : رسول اللہ ﷺ اپنے اونٹ ہی پر وتر پڑھ لیتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوتر ٥ (٩٩٩) ، تقصیرالصلاة ٧ (١٠٩٥) ، ٨ (١٠٩٦) ، ١٢ (١١٠٥) ، صحیح مسلم/المسافرین ٤ (٧٠٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٢٨ (٤٧٢) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٣١ (١٦٨٩) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٨٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/صلاة اللیل ٣ (١٥) مسند احمد (٢/٥٧، ١٣٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢١٣ (١٦٣١) (صحیح )

【399】

سوری پر وتر پڑھنا

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنی سواری پر وتر پڑھ لیتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦١٤٠، ومصباح الزجاجة : ٤٢٤) (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں عباد بن منصور ضعیف ہیں )

【400】

شروع رات میں وتر پڑھنا

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر (رض) سے پوچھا : تم وتر کب پڑھتے ہو ؟ کہا : شروع رات میں عشاء کے بعد، آپ ﷺ نے پوچھا : تم اے عمر ! انہوں نے کہا : رات کے اخیر حصے میں، تب نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے ابوبکر ! تم نے مضبوط کڑا پکڑا ہے (یقینی طریقہ اختیار کیا) اور اے عمر ! تم نے قوت والا کام پکڑا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٣٧٣، ومصباح الزجاجة : ٤٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٠٩، ٣٣٠) (حسن صحیح ) اس سند سے ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ابوبکر (رض) سے کہا، پھر انہوں نے اسی جیسی حدیث ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ : (تحفة الأشراف : ٨٢٢٤، ومصباح الزجاجة : ٤٢٦) (صحیح )

【401】

نماز میں بھول جانا

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھائی، آپ نے کچھ زیادہ یا کچھ کم کردیا، (ابراہیم نخعی نے کہا یہ وہم میری جانب سے ہے) تو آپ ﷺ سے عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! کیا نماز میں کچھ زیادتی کردی گئی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : میں بھی انسان ہی ہوں، جیسے تم بھولتے ہوں ویسے میں بھی بھولتا ہوں، لہٰذا جب کوئی شخص بھول جائے تو بیٹھ کر دو سجدے کرے پھر نبی اکرم ﷺ قبلہ کی جانب گھوم گئے، اور دو سجدے کئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ١٩ (٥٧٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٩٦ (١٠٢١) ، (تحفة الأشراف : ٩٤٢٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة ٢٣ (٤٠١) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٧٣ (٣٩٢) ، سنن النسائی/السہو ٢٥ (١٢٤٢) ، مسند احمد (١/٣٧٩، ٤٢٩، ٤٣٨، ٤٥٥) (صحیح )

【402】

نماز میں بھول جانا

عیاض نے ابو سعید خدری (رض) سے پوچھا کوئی شخص نماز ادا کرتا ہے اور اسے یاد نہیں رہتا کہ اس نے کتنی رکعتیں ادا کرلیں ؟ تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے، اور اسے یاد نہ رہے کہ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں ؟ تو بیٹھے بیٹھے دو سجدے کرلے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٩٧ (١٠٢٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٧ (٣٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٣٩٦) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساجد ١٩ (٥٧١) ، سنن النسائی/السہو ٢٤ (١٢٤٠) ، موطا امام مالک/الصلاة ١٦ (٦٢) ، مسند احمد (٣/١٢، ٣٧، ٥٠، ٥١، ٥٣، ٥٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٤ (١٥٣٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بیٹھے بیٹھے دو سجدے کرلے یہ اس لئے تاکہ آپ ﷺ کی امت کو اس کا مسئلہ معلوم ہو، اور اللہ تعالیٰ نے سہو کے تدارک میں دو سجدے مقرر کئے، کیونکہ بھول چوک شیطان کے وسوسہ سے ہوتی ہے، اور سجدہ کرنے سے شیطان بہت ناراض ہوتا ہے، تو اس میں یہ حکمت ہے کہ شیطان بھلانے سے باز آجائے گا، جب دیکھے گا کہ میرے بھلانے کی وجہ سے بندے کو زیادہ ثواب ملا۔ اور سجدہ سہو سنت کے ترک سے بھی مشروع ہے، اسی طرح جب نماز میں زیادتی ہوجائے یا شک ہو کہ کتنی رکعتیں پڑھیں، اور جب امام سجدہ سہو کرے تو مقتدی بھی اس کی پیروی کرے۔

【403】

بھول کر ظہر کی پانچ رکعات پڑھنا

عیاض نے ابو سعید خدری (رض) سے پوچھا نبی اکرم ﷺ نے ظہر پانچ رکعت پڑھائی، آپ ﷺ سے پوچھا گیا : کیا نماز میں اضافہ ہوگیا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا بات ہے ؟ آپ سے کہا گیا (کہ آپ نے پانچ رکعت پڑھی ہے) تو آپ ﷺ نے اپنا پاؤں موڑا، اور سہو کے دو سجدے کئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٣١ (٤٠١) ، ٣٢ (٤٠٤) ، السہو ٢ (١٢٢٦) ، الأیمان ١٥ (٦٦٧١) ، صحیح مسلم/المساجد ١٩ (٥٧٢) سنن ابی داود/الصلاة ١٩٦ (١٠١٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٧٣ (٣٩٢) ، سنن النسائی/السہو ٢٦ (١٢٥٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٤١١) وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٧٩، ٤٢٩، ٤٣٨، ٣٧٦، ٤٤٣، ٤٦٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٥ (١٥٣٩) (صحیح )

【404】

دو رکعتیں پڑھ کر بھول لے سے کھڑا ہونا ( یعنی پہلا قعدہ نہ کرنا)

ابن بحینہ (عبداللہ بن مالک) (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے کوئی نماز پڑھائی، میرا خیال ہے کہ وہ ظہر کی نماز تھی، جب آپ دوسری رکعت میں تھے تو تشہد کیے بغیر (تیسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوگئے، پھر جب آپ آخری تشہد میں بیٹھے تو سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاذان ١٤٦ (٨٢٩) ، ١٤٧ (٨٣٠) ، السہو ١ (١٢٢٤) ، ٥ (١٢٣٠) ، الأیمان ١٥ (٦٦٧٠) ، صحیح مسلم/المساجد ١٩ (٥٧٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٠٠ (١٠٣٤، ١٠٣٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٧٢ (٣٩١) ، سنن النسائی/التطبیق ١٠٦ (١١٧٨، ١١٧٩) السہو ٢١ (١٢٢٣، ١٢٢٤) ، (تحفة الأشراف : ٩١٥٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصلاة ١٧ (٦٥) ، مسند احمد (٥/٣٤٥، ٣٤٦) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٦ (١٥٤٠) (صحیح )

【405】

دو رکعتیں پڑھ کر بھول لے سے کھڑا ہونا ( یعنی پہلا قعدہ نہ کرنا)

عبدالرحمٰن اعرج سے روایت ہے کہ ابن بحینہ (رض) نے ان کو خبر دی کہ نبی اکرم ﷺ ظہر کی دوسری رکعت پڑھ کر (تیسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوگئے، اور تشہد بھول گئے، یہاں تک کہ جب آپ نماز سے فارغ ہوگئے، اور صرف سلام پھیرنا باقی رہ گیا، تو سہو کے دو سجدے کئے، اور سلام پھیرا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ترک سنت سے بھی سجدہ سہو ہوتا ہے، کیونکہ (تشہد) قعدہ اولیٰ سنت ہے۔

【406】

دو رکعتیں پڑھ کر بھول لے سے کھڑا ہونا ( یعنی پہلا قعدہ نہ کرنا)

مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی شخص دو رکعت کے بعد کھڑا ہوجائے لیکن ابھی پورے طور پہ کھڑا نہ ہوا ہو تو بیٹھ جائے، اور اگر پورے طور پہ کھڑا ہوگیا ہو تو نہ بیٹھے، اور آخر میں سہو کے دو سجدے کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٠١ (١٠٣٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٥٢ (٣٦٤ تعلیقاً ) ، (تحفة الأشراف : ٢٥ ١١٥) وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٥٣، ٢٥٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٦ (١٥٤٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب تک سیدھا کھڑا نہ ہو اس وقت تک بیٹھ سکتا ہے، اگرچہ قیام کے قریب ہوگیا ہو، اور بعض فقہاء نے کہا کہ قیام کے قریب ہوگیا ہو تو بھی نہ بیٹھے، اور حدیث میں اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔

【407】

نماز میں شک ہو تو یقین کی صورت اختیار کرنا

عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جب کوئی شخص شک کرے کہ دو رکعت پڑھی ہے یا ایک، تو ایک کو اختیار کرے، (کیونکہ وہ یقینی ہے) اور جب دو اور تین رکعت میں شک کرے تو دو کو اختیار کرے، اور جب تین یا چار میں شک کرے تو تین کو اختیار کرے، پھر باقی نماز پوری کرے، تاکہ وہم زیادتی میں ہو کمی میں نہ ہو، پھر سلام پھیرنے سے پہلے بیٹھے بیٹھے دو سجدے کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٧٥ (٣٩٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٢٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٩٠، ١٩٣، ١٩٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب اس کی رائے کسی طرف قرار نہ پکڑے، اور دونوں جانب برابر ہوں یعنی غلبہ ظن کسی طرف نہ ہو تو کم عدد اختیار کرے کیونکہ اس میں احتیاط ہے، اگر غلطی ہوگی تو یہی ہوگی کہ نماز زیادہ ہوجائے گی، اور وہ بہتر ہے کم ہوجانے سے، اور اس حالت میں یہ حدیث اگلی حدیثوں کے خلاف نہ ہوگی، جن میں سوچنے کا ذکر ہے، اور بعضوں نے کہا سوچنا چاہیے، بلکہ ہر حال میں یقین کی طرف رجوع کرنا چاہیے، اور کم عدد اختیار کرنا چاہیے، اور ابوحنیفہ (رح) نے کہا کہ اگر پہلی مرتبہ ایسا اتفاق ہو تو نماز سرے سے دوبارہ پڑھے، اگر دوسری یا تیسری بار ہو تو سوچے اور جس رائے پر اطمینان ہو اس پر عمل کرے، اگر کسی پر رائے اطمینان نہ ہو تو کم کو اختیار کرے۔

【408】

نماز میں شک ہو تو یقین کی صورت اختیار کرنا

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی شخص اپنی نماز میں شبہ کرے تو شبہ کو ختم کر کے یقین پر بنا کرے، اور جب نماز کے مکمل ہوجانے کا یقین ہوجائے تو دو سجدے کرے، اگر اس کی نماز پوری تھی تو جو رکعت زائد پڑھی وہ نفل ہوجائے گی، اور اگر ناقص تھی تو یہ رکعت نماز کو پوری کر دے گی، اور یہ دونوں سجدے شیطان کی تذلیل و تحقیر کے لیے ہوں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ١٩ (٥٧١) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٩٧ (١٠٢٤، ١٠٢٧) ، سنن النسائی/السہو ٤٢ (١٢٣٩، ١٢٤٠) (تحفة الأشراف : ٤١٦٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصلاة ١٦ (٦٢) ، مسند احمد (٣/٧٢، ٨٣، ٨٤، ٨٧) سنن الدارمی/الصلاة ١٧٤ (١٥٣٦) (حسن صحیح )

【409】

نماز میں شک ہو تو کو شش سے جو صحیح معلوم ہو اس پر عمل کرنا

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں کوئی نماز پڑھائی، ہمیں یاد نہیں کہ آپ نے اس میں کچھ بیشی کردی یا کمی کردی، پھر آپ ﷺ نے ہم سے اس کے بارے میں پوچھا تو ہم نے آپ سے اسے بیان کیا، آپ نے اپنا پاؤں موڑا اور قبلہ کی جانب رخ کیا، اور دو سجدے کئے، پھر سلام پھیرا، پھر ہماری جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا : اگر نماز کے بارے میں کوئی نیا حکم نازل ہوتا تو میں تمہیں ضرور باخبر کرتا، میں تو ایک انسان ہوں، میں بھولتا ہوں جیسے تم بھولتے ہو، لہٰذا جب میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دلا دیا کرو، اور تم میں سے جو بھی نماز میں شک کرے تو سوچے، اور جو صحیح کے قریب تر معلوم ہو اسی کے حساب سے نماز پوری کر کے سلام پھیرے، اور دو سجدے کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٣١ (٤٠١) ، ٣٢ (٤٠٤) ، السہو ٢ (١٢٢٦) ، الأیمان والنذور ١٥ (٦٦٧١) ، أخبارالآحاد ١، (٧٢٤٩) ، صحیح مسلم/المساجد ١٩ (٥٧٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٩٦ (١٠٢٠) ، سنن النسائی/السہو ٢٥ (١٢٤١، ١٢٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٤٥١) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٧٣، (٣٩٢) ، مسند احمد (١/٣٧٩، ٤١٩، ٤٣٨، ٤٥٥) ، دي الصلاة ١٧٥ (١٥٣٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مثلاً شک ہوا کہ تین رکعتیں پڑھیں یا چار تو سوچ کر جس عدد پر رائے ٹھہرے اس پر عمل کرے، اگر کسی طرف غلبہ ظن نہ ہو تو احتیاطاً کم عدد اختیار کرے، اور ہر حال میں سجدہ سہو کرے، نیز اس حدیث سے کئی باتیں معلوم ہوئیں : ایک یہ کہ نماز کے اندر بھولے سے بات کرے تو نماز نہیں جاتی، دوسرے یہ کہ ایک شخص کی گواہی میں شبہ رہتا ہے تو اس خبر کی تحقیق کرنی چاہیے، تیسرے یہ کہ جب نماز میں کمی ہوجائے تو سجدہ سہو سلام کے بعد کرنا چاہیے، اور اس کی بحث آگے آئے گی۔

【410】

نماز میں شک ہو تو کو شش سے جو صحیح معلوم ہو اس پر عمل کرنا

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی شخص نماز میں شک کرے، تو سوچ کر صحیح کو معلوم کرے، پھر دو سجدے کرے ۔ طنافسی کہتے ہیں : یہی اصل ہے جس کو کوئی شخص رد نہیں کرسکتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٩٤٥١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی سجدہ سہو سب کے نزدیک لازم ہوگا، اب اختلاف اور امور میں ہے کہ سجدہ سہو سلام کے بعد کرے، یا سلام سے پہلے۔

【411】

بھول کردویا تین رکعات پر سلام پھیرنا

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بھول کر دو ہی رکعت پر سلام پھیر دیا، تو ذوالیدین نامی ایک شخص نے آپ ﷺ سے کہا : اللہ کے رسول ! کیا نماز کم ہوگئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں ؟ آپ ﷺ نے کہا : نہ تو نماز کم ہوئی ہے نہ ہی میں بھولا ہوں ذوالیدین (رض) نے کہا : تب تو آپ نے دو ہی رکعت پڑھی ہے، آپ ﷺ نے پوچھا : کیا حقیقت وہی ہے جو ذوالیدین کہتا ہے ؟ لوگوں نے کہا : جی ہاں، آپ آگے بڑھے اور دو رکعت پڑھائی، پھر سلام پھیرا، پھر سہو کے دو سجدے کئے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٩٥ (١٠١٧) ، (تحفة الأشراف : ٧٨٣٨) (صحیح )

【412】

بھول کر دو یا تین رکعات پر سلام پھیرنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں عشاء (یعنی زوال کے بعد کی دو نمازوں ظہر یا عصر) میں سے کوئی نماز دو ہی رکعت پڑھائی، پھر سلام پھیر دیا، پھر مسجد میں پڑی ہوئی ایک لکڑی پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوگئے، جلد باز لوگ تو یہ کہتے ہوئے نکل گئے کہ نماز کم ہوگئی، مقتدیوں میں ابوبکرو عمر (رض) بھی تھے، لیکن وہ آپ ﷺ سے کچھ کہنے کی ہمت نہ کرسکے، لوگوں میں ذوالیدین نامی ایک لمبے ہاتھوں والے آدمی نے کہا : اللہ کے رسول ! کیا نماز کم ہوگئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہ تو وہ کم ہوئی، نہ میں بھولا ہوں تو انہوں نے کہا : آپ نے دو ہی رکعت پڑھی ہے، آپ ﷺ نے پوچھا : کیا ایسا ہی ہے جیسا کہ ذوالیدین کہہ رہے ہیں ؟ ، تو لوگوں نے کہا : جی ہاں، آپ ﷺ کھڑے ہوئے، اور دو رکعت پڑھائی، پھر سلام پھیرا، پھر دو سجدے کئے، پھر سلام پھیرا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٨٨ (٤٨٢) ، الأذان ٦٩ (٧١٤، ٧١٥) ، السہو ٣ (١٢٢٧) ، ٤ (١٢٢٨) ، ٥ (١٢٢٩) ، الادب ٤٥ (٦٠٥١) ، أخبارالآحاد ١ (٧٢٥٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٩٥ (١٠١١) ، سنن النسائی/السہو ٢٢ (١٢٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١٤٤٦٩) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساجد ١٩ (٥٧٣) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٧٦ (٣٩٩) ، مسند احمد (٢/٢٣٥، ٤٢٣، ٤٦٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ سلام سجدہ سہو سے نکلنے کے لئے تھا کیونکہ دیگر تمام روایات میں یہ صراحت ہے کہ آپ ﷺ نے سلام پھیرا، پھر سجدہ سہو کیا (پھر اس کے لئے سلام پھیرا) رکعات کی کمی بیشی کے سبب جو سجدہ سہو آپ نے کئے ہیں، وہ سب سلام کے بعد میں ہیں۔

【413】

بھول کر دو یا تین رکعات پر سلام پھیرنا

عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز عصر میں تین ہی رکعت پر سلام پھیر دیا، پھر اٹھے اور حجرہ میں تشریف لے گئے، تو لمبے ہاتھوں والے خرباق (رضی اللہ عنہ) کھڑے ہوئے اور پکارا : اللہ کے رسول ! کیا نماز کم ہوگئی ہے ؟ آپ ﷺ غصہ کی حالت میں اپنا تہبند گھسیٹتے ہوئے نکلے، اور لوگوں سے پوچھا، تو اس کے بارے میں آپ کو خبر دی گئی، تو آپ نے چھوٹی ہوئی ایک رکعت پڑھائی، پھر سلام پھیرا، پھر دو سجدے کئے، پھر سلام پھیرا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ١٩ (٥٧٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٠٢ (١٠١٨) ، سنن النسائی/السہو ٢٣ (١٢٣٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٨٢) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٧٤ (٣٩٥) ، مسند احمد (٤/٤٢٧، ٤٣١، ٤٤٠، ٥/١١٠) (صحیح )

【414】

سلام قبل سجدہ سہو کرنا

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : شیطان تم میں سے کسی کے پاس نماز کی حالت میں آتا ہے، اور انسان اور اس کے دل کے درمیان داخل ہو کر وسوسے ڈالتا ہے، یہاں تک کہ آدمی نہیں جان پاتا کہ اس نے زیادہ پڑھی یا کم پڑھی، جب ایسا ہو تو سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کرے، پھر سلام پھیرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣١ (٥١٦) ، ١٩٨ (١٠٣٢) ، (تحفة الأشراف : ١٥٢٥٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ٤ (٦٠٨) ، صحیح مسلم/المساجد ١٩ (٣٨٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٧٤ (٣٩٧) ، موطا امام مالک/السہو ١ (١) (حسن صحیح) (قبل أن یسلم کا جملہ صحیح نہیں ہے ) وضاحت : ١ ؎: سجدہ سہو کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے کہ آدمی اسے سلام سے پہلے کرے، یا سلام کے بعد، بعض لوگوں کی رائے ہے کہ اسے سلام کے بعد کرے، یہ قول سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا ہے، اور بعض لوگوں نے کہا کہ اسے سلام سے پہلے کرے، یہی قول اکثر فقہائے مدینہ مثلاً یحییٰ بن سعید، ربیعہ اور امام شافعی وغیرہ کا ہے، اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب نماز میں زیادتی ہوئی ہو تو سجدہ سہو سلام کے بعد کرے، اور جب کمی رہ گئی ہو تو سلام سے پہلے کرے، یہ قول مالک بن انس کا ہے، اور امام احمد کہتے ہیں کہ جس صورت میں جس طرح پر سجدہ سہو نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے اس صورت میں اسی طرح سجدہ سہو کرے، وہ کہتے ہیں کہ جب دو رکعت کے بعد کھڑا ہوجائے تو ابن بحینہ (رض) کی حدیث کے مطابق سلام سے پہلے سجدہ کرے اور جب ظہر کی نماز پانچ رکعت پڑھ لے تو وہ سجدہ سلام کے بعد کرے، اور اگر ظہر و عصر کی نماز میں دو ہی رکعت میں سلام پھیر دے تو ایسی صورت میں سلام کے بعد سجدہ سہو کرے، اسی طرح جس صورت میں جیسے اللہ کے رسول ﷺ کا فعل موجود ہے، اس پر اس طرح عمل کرے، اور جس صورت میں رسول اللہ ﷺ سے کوئی فعل مروی نہ ہو تو اس میں سجدہ سہو سلام سے پہلے کرے۔

【415】

سلام قبل سجدہ سہو کرنا

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بیشک شیطان انسان اور اس کے دل کے درمیان داخل ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ وہ نہیں جان پاتا کہ اس نے کتنی رکعت پڑھی ؟ جب ایسا ہو تو سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٦٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ٤ (٦٠٨) ، العمل في الصلاة ١٨ (١٢٢٢) ، السہو ٦ (١٢٣١) ، بدء الخلق ١١ (٣٢٨٥) ، صحیح مسلم/السہو ١٩ (٣٨٩) سنن ابی داود/الصلاة ٣١ (٥١٦) ، مسند احمد (٢/٣١٣، ٣٩٨، ٤١١) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شک کی صورت میں سلام سے پہلے سجدہ سہو کرے، امام احمد نے عبدالرحمن بن عوف (رض) سے اور بخاری، اور مسلم نے ابوسعید (رض) سے ایسا ہی روایت کیا ہے، اور مغیرہ (رض) کی حدیث میں کمی کی صورت میں سلام کے بعد سجدہ منقول ہے، غرض اس باب میں مختلف حدیثیں وارد ہیں، کسی میں سلام سے پہلے سجدہ سہو منقول ہے، کسی میں سلام کے بعد، اس لیے اہل حدیث نے دونوں طرح جائز رکھا ہے، اور اسی کو صحیح مذہب قرار دیا ہے تاکہ سب حدیثوں پر عمل ہوجائے۔

【416】

سجدہ سہوسلام کے بعد کرنا

علقمہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے سلام کے بعد سہو کے دو سجدے کئے، اور بتایا کہ نبی اکرم ﷺ نے بھی ایسا کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٤٦٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٦٣، ٣٧٦) (صحیح )

【417】

سجدہ سہوسلام کے بعد کرنا

ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : ہر سہو میں سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٠٢ (١٠٣٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٨٠) (حسن )

【418】

نماز پر بنا کرنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نماز کے لیے نکلے اور آپ نے الله أكبر کہا، پھر لوگوں کو اشارہ کیا کہ وہ اپنی جگہ ٹھہرے رہیں، لوگ ٹھہرے رہے، پھر آپ گھر گئے اور غسل کر کے آئے، آپ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا، پھر آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی، جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا : میں تمہارے پاس جنابت کی حالت میں نکل آیا تھا، اور غسل کرنا بھول گیا تھا یہاں تک کہ نماز کے لیے کھڑا ہوگیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٥٩٤، ومصباح الزجاجة : ٤٢٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ٢٥ (٦٤٠، ٦٣٩) ، صحیح مسلم/المساجد ٢٩ (٦٠٥) ، سنن ابی داود/الطہارة ٩٤ (٢٣٥) ، سنن النسائی/الإمامة ١٤ (٧٩٣) ، مسند احمد (١/٣٦٨، ٢/٢٣٧، ٢٥٩، ٤٤٨) (حسن صحیح) (یہ سند حسن ہے، اس کے رواة ثقہ ہیں، اور مسلم کے راوی ہیں، یعنی سند مسلم کی شرط پر ہے، اور اسامہ بن زید یہ لیثی ابو زید مدنی صدوق ہیں، لیکن ان کے حفظ میں کچھ ضعف ہے، بو صیری اور ابن حجر وغیرہ نے شاید اسامہ بن زید کو عدوی مدنی سمجھ کر اس کی تضعیف کی ہے، لیکن متن حدیث ثابت ہے، نیز اس کے شواہد بھی ہیں، جیسا کہ تخریج سے واضح ہے، ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود : ٢٢٧ - ٢٣١ )

【419】

نماز پر بنا کرنا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جسے نماز میں قے، نکسیر، منہ بھر کر پانی یا مذی آجائے تو وہ لوٹ جائے، وضو کرے پھر اپنی نماز پر بنا کرے، لیکن اس دوران کسی سے کلام نہ کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٥٢، ومصباح الزجاجة : ٤٢٨) (ضعیف) (اس کی سند میں اسماعیل بن عیاش ہیں، اور ان کی روایت حجاز سے ضعیف ہوتی ہے، اور یہ اسی قبیل سے ہے )

【420】

نماز میں حدث ہوجائے تو کس طرح واپس جائے ؟

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب کسی شخص کو نماز میں حدث ہوجائے، تو اپنی ناک پکڑ لے اور چلا جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧١٢٩، ومصباح الزجاجة : ٤٢٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٣٦ (١١١٤) (صحیح) (تراجع الألبانی : رقم : ٣٢ ، صحیح ابی داود : ١٠٢٠ ، سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٩٧٦ ) وضاحت : ١ ؎: وضو کرنے کے لئے ناک پکڑنے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ اس سے لوگ سمجھیں کہ اس کی نکسیر پھوٹ گئی ہے، کیونکہ شرم کی بات ہے (ہوا خارج ہوجانے کی بات) کو چھپانا ہی بہتر ہے۔ اس سند سے بھی ام المؤمنین عائشہ (رض) سے اسی جیسی حدیث مرفوعاً آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفردبہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧١٢٩، ومصباح الز جاجة : ٤٢٩/أ) (صحیح) (اس کی سند میں عمر بن قیس ضعیف راوی ہیں، لیکن سابقہ متابعت سے تقویت پاکر صحیح ہے )

【421】

بیمار کی نماز

عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ مجھے ناسور ١ ؎ کی بیماری تھی، تو میں نے نبی اکرم ﷺ سے نماز کے متعلق پوچھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم کھڑے ہو کر نماز پڑھو، اگر کھڑے ہونے کی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر پڑھو، اور اگر بیٹھنے کی بھی طاقت نہ ہو تو پہلو کے بل لیٹ کر پڑھو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٧٩ (٩٥٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٥٨ (٣٧٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٣٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ١٩ (١١١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: باء اور نون دونوں کے ساتھ اس لفظ کا استعمال ہوتا ہے، باسور مقعد کے اندرونی حصہ میں ورم کی بیماری کا نام ہے اور ناسور ایک ایسا خراب زخم ہے کہ جب تک اس میں فاسد مادہ موجود رہے تب تک وہ اچھا نہیں ہوتا۔

【422】

بیمار کی نماز

وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے دائیں پہلو پر بیٹھ کر نماز پڑھی، اس وقت آپ بیمار تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٧٨٩، ومصباح الزجاجة : ٤٣٠) (ضعیف) (اس کی سند میں جابر بن یزید الجعفی ضعیف ومتروک، اور ابو حریز مجہول ہیں )

【423】

نفل نماز ( بلاعذر) بیٹھ کر پڑھنا

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے نبی اکرم ﷺ کی جان کو قبض کیا، آپ وفات سے پہلے اکثر بیٹھ کر نمازیں پڑھا کرتے تھے، اور آپ کو وہ نیک عمل انتہائی محبوب اور پسندیدہ تھا جس پر بندہ ہمیشگی اختیار کرے، خواہ وہ تھوڑا ہی ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/قیام اللیل ١٧ (١٦٥٥، ١٦٥٦) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٣٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٠٥، ٣١٩، ٣٢٠، ٣٢١، ٣٢٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : عمل اگرچہ تھوڑا ہو جب وہ ہمیشہ کیا جائے تو اس کی برکت اور ہی ہوتی ہے، اور ہمیشگی کی وجہ سے وہ اس کثیر عمل سے بڑھ جاتا ہے جو چند روز کے لئے کیا جائے، ہر کام کا یہی حال ہے مواظبت اور دوام عجب برکت کی چیز ہے، اگر کوئی شخص ایک سطر قرآن شریف کی ہر روز حفظ کیا کرے تو سال میں دو پارے ہوجائیں گے، اور پندرہ سال میں سارا قرآن حفظ ہوجائے گا، اس حدیث پر ساری حکمتیں قربان ہیں، دین و دنیا کے فائدے اس میں بھرے ہوئے ہیں، نفس پر زور ڈالو اور ہمیشہ کام کرنا سیکھو، اور ہر کام کے لئے وقت مقرر کرو اور کسی کام کا ناغہ نہ کرو، اور تھوڑا کام ہر روز اختیار کرو کہ دل پر بار نہ ہو، پھر دیکھو کیا برکت ہوتی ہے کہ تم خود تعجب کرو گے۔

【424】

نفل نماز ( بلاعذر) بیٹھ کر پڑھنا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ (نفل نماز میں) بیٹھ کر قراءت کرتے تھے، جب رکوع کا ارادہ کرتے تو اتنی دیر کے لیے کھڑے ہوجاتے جتنی دیر میں کوئی شخص چالیس آیتیں پڑھ لیتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٦ (٧٣١) ، سنن النسائی/قیام اللیل ١٦ (١٦٥١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٥٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/صلاة الجماعة ٧ (٢٢) ، مسند احمد (٦/٢١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اور اتنی قراءت کھڑے کھڑے کر کے پھر رکوع کرتے، نفل میں ایسا کرنا صحیح ہے۔

【425】

نفل نماز ( بلاعذر) بیٹھ کر پڑھنا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو ہمیشہ رات کی نماز کھڑے ہو کر پڑھتے ہوئے دیکھا، یہاں تک کہ آپ بوڑھے ہوگئے تو بیٹھ کر پڑھنے لگے، جب آپ کی قراءت سے چالیس یا تیس آیتیں باقی رہ جاتیں تو کھڑے ہو کر ان کو پڑھتے (پھر رکوع) اور سجدے کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٠٣٠، ومصباح الزجاجة : ٤٣١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/تقصیرالصلاة ٢٠ (١١١٨) ، صحیح مسلم/المسافرین ١٦ (٧٣١) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٧٩ (٩٥٣) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٥٨ (٣٧٢) ، سنن النسائی/قیام اللیل ١٦ (١٦٥٠) ، موطا امام مالک/ صلاة الجماعة ٧ (٢٢) ، مسند احمد (٦/٤٦) (صحیح )

【426】

نفل نماز ( بلاعذر) بیٹھ کر پڑھنا

عبداللہ بن شقیق عقیلی کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے رسول اللہ ﷺ کی رات کی نماز کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا : آپ ﷺ رات میں دیر تک کھڑے ہو کر نماز پڑھتے، اور کبھی دیر تک بیٹھ کر نماز پڑھتے، جب آپ کھڑے ہو کر قراءت کرتے تو رکوع کھڑے ہو کر کرتے، اور جب بیٹھ کر قراءت کرتے تو رکوع بھی بیٹھ کر کرتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٦ (٧٣٠) ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٠٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٧٩ (٩٥٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٥٨ (٣٧٥) ، سنن النسائی/ قیام اللیل ١٦ (١٦٤٧) ، مسند احمد (٦/٢٦٢، ٣٦٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: غرض نفل میں ہر طرح اختیار ہے چاہے بیٹھ کر پڑھے، چاہے کھڑے ہو کر شروع کرے پھر بیٹھ جائے، چاہے بیٹھ کر شروع کرے پھر کھڑا ہوجائے۔

【427】

بیٹھ کر نماز پڑھتے میں کھڑے ہو کر نماز پڑھتے سے آدھا ثواب ہے

عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ان کے پاس سے گزرے اس وقت وہ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : بیٹھ کر پڑھنے والے کی نماز کھڑے ہو کر پڑھنے والے کی نماز کے مقابلے میں (ثواب میں) آدھی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٨٣٧) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٦ ٧٣٥) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٧٩ (٩٥٠) ، سنن النسائی/قیام اللیل ١٨ (١٦٦٠) ، موطا امام مالک/صلاة الجماعة ٦ (١٩) ، مسند احمد (٢/١٦٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٠٨ (١٤٢٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے تندرست اور صحت مند آدمی ہی نہیں بلکہ مریض بھی مراد ہے کیونکہ انس (رض) کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کچھ لوگوں کے پاس آئے جو بیماری کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کا ثواب کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والے سے آدھا ہے ۔

【428】

بیٹھ کر نماز پڑھتے میں کھڑے ہو کر نماز پڑھتے سے آدھا ثواب ہے

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ باہر نکلے تو کچھ لوگوں کو بیٹھ کر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : بیٹھ کر پڑھنے والے کی نماز کھڑے ہو کر پڑھنے والے کی نماز کے مقابلے میں (ثواب میں) آدھی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٢٩، ومصباح الزجاجة : ٤٣٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢١٤، ٢٤٠) (صحیح )

【429】

بیٹھ کر نماز پڑھتے میں کھڑے ہو کر نماز پڑھتے سے آدھا ثواب ہے

عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جو بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا : جو کھڑے ہو کر نماز پڑھے وہ زیادہ بہتر ہے، اور جو بیٹھ کر نماز پڑھے تو اسے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والے کے مقابلے میں آدھا ثواب ہے، اور جو شخص لیٹ کر نماز پڑھے تو اسے بیٹھ کر پڑھنے والے کے مقابلے میں آدھا ثواب ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تقصیرالصلاة ١٧ (١١١٥) ، ١٨ (١١١٦) ، ١٩ (١١١٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٧٩ (٩٥١) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٥٨ (٣٧١) ، سنن النسائی/ قیام اللیل ١٩ (١٦٦١) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٣١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٣٣، ٤٣٥، ٤٤٢، ٤٤٣) (صحیح )

【430】

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مرض الوفات کی نمازوں کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ مرض الموت میں مبتلا ہوئے (ابومعاویہ نے کہا : جب آپ مرض کی گرانی میں مبتلا ہوئے) تو بلال (رض) آپ کو نماز کی اطلاع دینے کے لیے آئے، آپ ﷺ نے فرمایا : ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ، ہم نے کہا : اللہ کے رسول ! ابوبکر (رض) نرم دل آدمی ہیں، جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رونے لگیں گے، اور نماز نہ پڑھا سکیں گے، لہٰذا اگر آپ عمر (رض) کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، (تو بہتر ہو) تو آپ ﷺ نے فرمایا : ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، تم تو یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ والیوں جیسی ہو ، ام المؤمنین عائشہ (رض) نے کہا : ہم نے ابوبکر (رض) کو بلا بھیجا، انہوں نے لوگوں کو نماز پڑھائی، پھر رسول اللہ ﷺ نے طبیعت میں کچھ ہلکا پن محسوس کیا، تو دو آدمیوں کے سہارے نماز کے لیے نکلے، اور آپ کے پاؤں زمین پہ گھسٹ رہے تھے، جب ابوبکر (رض) نے آپ ﷺ کی آمد کی آہٹ محسوس کی تو پیچھے ہٹنے لگے، تو آپ ﷺ نے اشارہ کیا کہ اپنی جگہ پر رہو ان دونوں آدمیوں نے آپ ﷺ کو ابوبکر (رض) کے بائیں پہلو میں بیٹھا دیا، ابوبکر (رض) نبی اکرم ﷺ کی اور لوگ ابوبکر (رض) کی اقتداء کر رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٣٩ (٦٦٤) ، ٦٧ (٧١٢) ، ٦٨ (٧١٣) ، صحیح مسلم/الصلاة ٢٢ (٤١٨) ، ن الکبري/الأمانة ٤٠ (٩٠٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٤٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/قصرالصلاة ٢٤ (٨٣) ، مسند احمد (٥/٢٦١، ٦/٢١٠، ٢٢٤) ، سنن الدارمی/المقدمة ١٤ (٨٣) (صحیح )

【431】

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مرض الوفات کی نمازوں کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مرض الموت میں ابوبکر (رض) کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، وہ لوگوں کو نماز پڑھایا کرتے تھے (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺ نے طبیعت میں کچھ ہلکا پن محسوس کیا تو باہر نکلے، اس وقت ابوبکر (رض) نماز پڑھا رہے تھے، جب ابوبکر (رض) نے آپ ﷺ کو دیکھا تو پیچھے ہٹنے لگے، آپ ﷺ نے اشارہ کیا : اپنی جگہ رہو پھر رسول اللہ ﷺ ابوبکر کے برابر ان کے پہلو میں بیٹھ گئے، ابوبکر (رض) رسول اللہ ﷺ کی اقتداء کر رہے تھے، اور لوگ ابوبکر (رض) کی اقتداء کر رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٤٧ (٦٨٣) ، صحیح مسلم/الصلاة ٢١ (٤١٨) ، (تحفة الأشراف : ١٦٩٧٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٣١) (صحیح )

【432】

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مرض الوفات کی نمازوں کا بیان

سالم بن عبید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ پر مرض الموت میں بےہوشی طاری ہوئی، پھر ہوش میں آئے، تو آپ نے پوچھا : کیا نماز کا وقت ہوگیا ؟ لوگوں نے کہا : جی ہاں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : بلال کو حکم دو کہ وہ اذان دیں، اور ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ، پھر آپ پر بےہوشی طاری ہوئی، پھر ہوش آیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا نماز کا وقت ہوگیا ؟ لوگوں نے کہا : جی ہاں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : بلال کو حکم دو کہ وہ اذان دیں، اور ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں پھر آپ پر بےہوشی طاری ہوئی، پھر ہوش آیا، تو فرمایا : کیا نماز کا وقت ہوگیا ؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : جی ہاں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : بلال کو حکم دو کہ وہ اذان دیں، اور ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں تو عائشہ (رض) نے کہا : میرے والد نرم دل آدمی ہیں، جب اس جگہ پر کھڑے ہوں گے تو رونے لگیں گے، نماز نہ پڑھا سکیں گے، اگر آپ ان کے علاوہ کسی اور کو حکم دیتے (تو بہتر ہوتا) ! پھر آپ پر بےہوشی طاری ہوگئی، پھر ہوش آیا، تو فرمایا : بلال کو حکم دو کہ وہ اذان کہیں، اور ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، تم تو یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ والیوں جیسی ہو بلال (رض) کو حکم دیا گیا، تو انہوں نے اذان دی، اور ابوبکر (رض) سے کہا گیا تو انہوں نے لوگوں کو نماز پڑھائی، پھر رسول اللہ ﷺ نے طبیعت میں کچھ ہلکا پن محسوس کیا تو فرمایا : دیکھو کسی کو لاؤ جس پر میں ٹیک دے کر (مسجد جا سکوں) بریرہ (رض) اور ایک شخص آئے تو آپ ﷺ نے ان دونوں پر ٹیک لگایا، جب ابوبکر (رض) نے آپ کی آمد محسوس کی تو پیچھے ہٹنے لگے، آپ ﷺ نے انہیں اشارہ کیا کہ اپنی جگہ پر رہو پھر رسول اللہ ﷺ آئے، اور ابوبکر (رض) کے پہلو میں بیٹھ گئے یہاں تک کہ ابوبکر (رض) نے اپنی نماز پوری کی، پھر اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کا انتقال ہوگیا۔ ابوعبداللہ ابن ماجہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے، نصر بن علی کے علاوہ کسی اور نے اس کو روایت نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٧٨٧، ومصباح الزجاجة : ٤٣٣) (صحیح )

【433】

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مرض الوفات کی نمازوں کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ اس بیماری میں مبتلا ہوئے جس میں آپ کی وفات ہوئی، اس وقت آپ عائشہ (رض) کے گھر میں تھے، آپ ﷺ نے فرمایا : علی (رضی اللہ عنہ) کو بلاؤ عائشہ (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! کیا ہم ابوبکر (رض) کو بلا دیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : انہیں بلاؤ حفصہ (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! کیا عمر (رض) کو بلا دیں ؟ آپ نے فرمایا : بلا دو ، ام الفضل نے کہا : اللہ کے رسول ! کیا ہم عباس کو بلا دیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں جب سب لوگ جمع ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ نے اپنا سر اٹھا کر ان لوگوں کی طرف دیکھا، اور خاموش رہے، عمر (رض) نے کہا : رسول اللہ ﷺ کے پاس سے اٹھ جاؤ ١ ؎، پھر بلال (رض) آپ کو نماز کی اطلاع دینے کے لیے آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا : ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں عائشہ (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! ابوبکر (رض) نرم دل آدمی ہیں، پڑھنے میں ان کی زبان رک جاتی ہے، اور جب آپ کو نہ دیکھیں گے تو رونے لگیں گے، اور لوگ بھی رونا شروع کردیں گے، لہٰذا اگر آپ عمر (رض) کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں (تو بہتر ہو) ، لیکن ابوبکر (رض) نکلے، اور انہوں نے لوگوں کو نماز پڑھائی، پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنی طبیعت میں کچھ ہلکا پن محسوس کیا، تو دو آدمیوں پر ٹیک دے کر تشریف لائے اور آپ ﷺ کے دونوں پاؤں زمین پر گھسٹ رہے تھے، جب لوگوں نے آپ کو آتے دیکھا تو ابوبکر (رض) کو سبحان الله کہا، وہ پیچھے ہٹنے لگے تو نبی اکرم ﷺ نے ان کو اشارہ کیا کہ اپنی جگہ پر رہو، چناچہ رسول اللہ ﷺ تشریف آئے، اور ابوبکر (رض) کے دائیں جانب بیٹھ گئے، اور ابوبکر (رض) کھڑے رہے، ابوبکر (رض) نبی اکرم ﷺ کی اقتداء کر رہے تھے، اور لوگ ابوبکر (رض) کی اقتداء کر رہے تھے، عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قراءت وہاں سے شروع کی جہاں تک ابوبکر (رض) پہنچے تھے ٢ ؎۔ وکیع نے کہا : یہی سنت ہے، راوی نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کا اسی مرض میں انتقال ہوگیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٣٥٨، ومصباح الزجاجة : ٤٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣١، ٢٣٢، ٣٤٣، ٣٥٥، ٣٥٦، ٣٥٧) (حسن) (سند میں ابو اسحاق مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اس لئے علی کے ذکر کے ساتھ یہ ضعیف ہے، لیکن دوسری حدیث سے تقویت پاکر یہ حسن ہے ) وضاحت : ١ ؎: کیوں کہ بیماری کی وجہ سے آپ کو ہمارے بیٹھنے سے تکلیف ہوگی۔ ٢ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی کریم ﷺ نے علی (رض) کو اپنی مرضی سے بلایا تھا، لیکن بیویوں کے اصرار سے اور لوگوں کو بھی بلا لیا تاکہ ان کا دل ناراض نہ ہو، اور چونکہ بہت سے لوگ جمع ہوگئے اس لئے آپ دل کی بات نہ کہنے پائے، اور سکوت فرمایا، اور ابوبکر (رض) کی فضیلت اور صحابہ پر ثابت ہوئی کہ آپ نے نماز کی امامت کے لئے ان کو منتخب فرمایا، اور امامت صغری قرینہ ہے امامت کبری کا، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جماعت میں شریک ہونا کیسا ضروری ہے کہ نبی اکرم ﷺ بیماری اور کمزوری کے باوجود حجرہ سے باہر مسجد تشریف لائے۔

【434】

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنے کسی امتی کے پیچھے نماز پڑھنا

مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (ایک سفر میں) پیچھے رہ گئے، اور ہم اس وقت لوگوں کے پاس پہنچے جب عبدالرحمٰن بن عوف (رض) انہیں ایک رکعت پڑھا چکے تھے، جب انہوں نے نبی اکرم ﷺ کی آمد محسوس کی تو پیچھے ہٹنے لگے، نبی اکرم ﷺ نے ان کو نماز مکمل کرنے کا اشارہ کیا، آپ ﷺ نے فرمایا : تم نے اچھا کیا، ایسے ہی کیا کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٢٢ (٢٧٤) ، سنن النسائی/الطہارة ٨٧ (١٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٩٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/ ٢٤٨، ٢٥١، ١١٢، ١٥٠، ٢١٠، ٢٤٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ٨١ (١٣٧٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جب نماز کا وقت آ جایا کرے تو نماز شروع کردیا کرو، اور میرے انتظار میں تاخیر نہ کرو، یہ حکم آپ ﷺ نے سفر میں دیا، لیکن حضر میں تو آپ ہر روز نماز کو افضل وقت پر پڑھا کرتے تھے، اور کبھی کبھی لوگ آپ کا انتظار بھی کرتے۔

【435】

امام اس لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ بیمار ہوئے، تو آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کچھ لوگ آپ کی عیادت کے لیے اندر آئے، آپ نے بیٹھ کر نماز پڑھائی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھی، آپ ﷺ نے اشارہ کیا کہ بیٹھ جاؤ، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا : امام اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، لہٰذا جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اور جب رکوع سے سر اٹھائے تو تم بھی اپنا سر اٹھاؤ، اور جب بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ١٩ (٤١٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٠٦٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ٥١ (٦٨٨) ، تقصیر الصلاة ١٧ (١١١٣) ، ٢٠ (١١١٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ٦٩ (٦٠٥) ، مسند احمد (٦/١١٤، ١٦٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مرض الموت والی روایت سے جس میں ہے کہ آپ ﷺ نے بیٹھ کر نماز پڑھائی، اور لوگوں نے کھڑے ہو کر پڑھی، یہ روایت منسوخ ہے۔

【436】

امام اس لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ گھوڑے سے گرگئے، تو آپ کے دائیں جانب خراش آگئی، ہم آپ کی عیادت کے لیے گئے، اتنے میں نماز کا وقت ہوگیا، تو آپ ﷺ نے ہمیں بیٹھ کر نماز پڑھائی، اور ہم نے آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی، جب آپ ﷺ نے نماز پوری کرلی تو فرمایا : امام اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، لہٰذا جب وہ الله أكبر کہے، تو تم بھی الله أكبر کہو، اور جب رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اور جب سمع الله لمن حمده‏ کہے، تو تم لوگ ربنا ولک الحمد‏ کہو، اور جب سجدہ کرے تو تم سب لوگ سجدہ کرو، اور جب بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تم سب لوگ بیٹھ کر نماز پڑھو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٨ (٣٧٨) ، الأذان ٥١ (٦٨٩) ، ٨٢ (٧٣٢) ، ١٢٨ (٨٠٥) ، تقصیرالصلاة ١٧ (١١١٤) ، صحیح مسلم/الصلاة ١٩ (٤١١) ، سنن النسائی/الإمامة ١٦ (٧٩٥) ، ٤٠ (٨٣٣) ، التطبیق ٢٢ (١٠٦٢) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٦٩ (٣٦١) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٥١ (٧٩٣) ، موطا امام مالک/الجماعة ٥ (١٦) ، مسند احمد (٣/١١٠، ١٦٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ٤٤ (١٢٩١) (صحیح )

【437】

امام اس لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : امام اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، لہٰذا جب وہ الله أكبر کہے، تو تم بھی الله أكبر کہو، اور جب رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اور جب سمع الله لمن حمده‏ کہے تو تم بھی ربنا ولک الحمد‏ کہو، اور اگر وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو، اور اگر بیٹھ کر پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٨٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ٨٢ (٧٣٤) ، تقصیر الصلاة ١٧ (١١١٤) ، صحیح مسلم/الصلاة ١٩ (٤١٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ٦٩ (٦٠٣) ، مسند احمد (٢/٣١٤، ٢٣٠، ٤١١، ٤٣٨، ٤٧٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ٧١ (١٣٥٠) (صحیح )

【438】

امام اس لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بیمار ہوئے تو ہم نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی، آپ بیٹھے ہوئے تھے، اور ابوبکر (رض) تکبیر کہہ رہے تھے تاکہ لوگ سن لیں، آپ ہماری جانب متوجہ ہوئے تو ہمیں کھڑے دیکھ کر ہماری جانب اشارہ کیا، ہم بیٹھ گئے، پھر ہم نے آپ کے ساتھ بیٹھ کر نماز پڑھی، جب آپ ﷺ نے سلام پھیرا تو فرمایا : اس وقت تم فارس اور روم والوں کی طرح کرنے والے تھے کہ وہ لوگ اپنے بادشاہوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں، اور بادشاہ بیٹھے رہتے ہیں، لہٰذا تم ایسا نہ کرو، اپنے اماموں کی اقتداء کرو، اگر وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھائیں تو کھڑے ہو کر نماز پڑھو، اور اگر بیٹھ کر نماز پڑھائیں تو بیٹھ کر نماز پڑھو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ١٩ (٤١٣) ، سنن ابی داود/الصلاة ٦٩ (٦٠٦) ، ن السہو ١١ (١١٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٩٠٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٣٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ واقعہ مرض الموت والے واقعے سے پہلے کا ہے، مرض الموت والے واقعے میں ہے کہ آپ ﷺ نے بیٹھ کر امامت کرائی، اور لوگوں نے کھڑے ہو کر آپ کے پیچھے نماز پڑھی، اور آپ نے اس بارے میں کچھ نہیں کہا، اس لئے یہ بات اب منسوخ ہوگئی، اور نماز میں آپ کا التفات کرنا آپ کی خصوصیات میں سے تھا، امت کے لئے آپ کا یہ فرمان ہے کہ التفات نماز میں چھینا جھپٹی کا نام ہے جو شیطان نمازی کے ساتھ کرتا ہے۔

【439】

نماز فجر میں قنو ت

ابومالک سعد بن طارق اشجعی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے کہا : ابا جان ! آپ نے رسول اللہ ﷺ پھر ابوبکرو عمر اور عثمان (رض) عنہم کے پیچھے اور کوفہ میں تقریباً پانچ سال تک علی (رض) کے پیچھے نماز پڑھی ہے، تو کیا وہ لوگ نماز فجر میں دعائے قنوت پڑھتے تھے ؟ انہوں نے کہا : بیٹے یہ نئی بات ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٧٨ (٤٠٢) ، سنن النسائی/التطبیق ٣٢ (١٠٧٩) ، (تحفة الأشراف : ٤٩٧٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٧٢، ٦/٣٩٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: خاص خاص موقوں پر فجر کی نماز میں اور دوسری نمازوں میں بھی قنوت پڑھنا مسنون ہے۔ اسے قنوت نازلہ کہتے ہیں۔ جن لوگوں نے قراء صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دھوکے سے شہید کردیا تھا۔ نبی اکرم ﷺ نے ان کے خلاف مہینہ بھر قنوت نازلہ پڑھی جیسے کہ آگے حدیث ١٢٤٣ میں آ رہا ہے۔ طارق (رض) نے مطلقاً قنوت کو بدعت نہیں کہا بلکہ فجر کی نماز میں قنوت ہمیشہ پر ھنے کو بدعت کہا، اس سے معلوم ہوا کہ بعض اوقات ایک کام اصل میں سنت ہوتا ہے لیکن اسے غلط طریقے سے انجام دینے سے یا اس کو اس کی اصل حیثیت سے گھٹا دینے سے یا بڑھا دینے کی وجہ سے وہ بدعت بن جاتا ہے، یعنی اس عمل کی وہ خاص کیفیت بدعت ہوتی ہے اگرچہ اصل عمل بدعت نہ ہو۔

【440】

نماز فجر میں قنو ت

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو نماز فجر میں دعائے قنوت پڑھنے سے منع کردیا گیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ (تحفة الأشراف : ١٨٢١٩، ومصباح الزجاجة : ٤٣٥) (موضوع) (محمد بن یعلی متروک الحدیث اور جہمی ہے، اور عنبسہ حدیث گھڑا کرتا تھا، اور عبد اللہ بن نافع منکر احادیث کے راوی ہیں، نیز نافع کا سماع ام سلمہ (رض) سے صحیح نہیں ہے )

【441】

نماز فجر میں قنو ت

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز فجر میں دعائے قنوت پڑھتے رہے، اور عرب کے ایک قبیلہ (قبیلہ مضر پر) ایک مہینہ تک بد دعا کرتے رہے، پھر اسے آپ نے ترک کردیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٢٩ (٤٠٨٩) ، صحیح مسلم/المساجد ٥٤ (٦٧٧) ، سنن النسائی/التطبیق ٢٧ (١٠٧٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٤٥ (١٤٤٤) ، مسند احمد (٣/١١٥، ١٨٠، ٢١٧، ٢٦١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: قبیلہ مضر : جنہوں نے چند قراء کرام رضی اللہ عنہم کو دھوکے سے مار ڈالا تھا۔

【442】

نماز فجر میں قنو ت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نماز فجر سے اپنا سر اٹھاتے تو فرماتے : اللهم أنج الوليد بن الوليد وسلمة بن هشام وعياش بن أبي ربيعة والمستضعفين بمكة اللهم اشدد وطأتک على مضر واجعلها عليهم سنين كسني يوسف اے اللہ ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور مکہ کے کمزور حال مسلمانوں کو نجات دیدے، اے اللہ ! تو اپنی پکڑ قبیلہ مضر پر سخت کر دے، اور یوسف (علیہ السلام) کے عہد کے قحط کے سالوں کی طرح ان پر بھی قحط مسلط کر دے) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٢٨ (٨٠٤) ، الاستسقاء ٢ (١٠٠٦) ، الجہاد ٩٨ (٢٩٣٢) ، الأنبیاء ١٩ (٣٣٨٦) ، تفسیر آلعمران ٩ (٤٥٦٠) ، تفسیرالنساء ٢١ (٤٥٩٨) ، الدعوات ٥٨ (٦٣٩٣) ، الإکراہ ١ (٦٩٤٠) ، الأدب ١١٠ (٦٢٠٠) ، صحیح مسلم/المساجد ٥٤ (٦٧٥) ، سنن النسائی/التطبیق ٢٧ (١٠٧٤) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٣٢) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٤٥ (١٤٤٢) ، مسند احمد (٢/٢٣٩، ٢٥٥، ٢٧١، ٤١٨، ٤٧٠، ٥٠٧، ٥٢١) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢١٦ (١٦٣٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جیسے سالہا سال یوسف (علیہ السلام) کے عہد میں مصر میں گزرے تھے کہ پانی بالکل نہیں برسا اور قحط ہوگیا، ویسا ہی کفار مضر پر قحط بھیج تاکہ یہ بھوک سے تباہ و برباد ہوجائیں۔ دوسری روایت میں دعاء قنوت یوں وارد ہے : اللهم اغفر للمؤمنين والمؤمنات و المسلمين و المسلمات، و ألف بين قلوبهم، و أصلح ذات بينهم، وانصرهم على عدوک وعدوهم، اللهم العن الکفرة الذين يصدون عن سبيلك، ويکذبون رسلک، ويقاتلون أوليائك، اللهم خالف بين کلمتهم، و زلزل أقدامهم، و أنزل بهم بأسک الذي لاترده عن القوم المجرمين۔ جب کافر مسلمانوں کو ستائیں یا مسلمانوں پر کوئی آفت کافروں کی طرف سے آئے تو اس دعاء قنوت کو پڑھے، اور اس کے بعد یوں کہے : اللهم أنج فلانا وفلانا اور فلاں کی جگہ ان مسلمانوں کا نام لے جن کا چھڑانا کافروں سے مطلوب ہو۔ والمستضعفين بمكة میں مکہ کی جگہ پر اس کا نام لے جہاں یہ مسلمان کافروں کے ہاتھ سے تکلیف اٹھا رہے ہوں۔ اللهم اشدد وطأتک على مضر کی جگہ بھی ان کافروں کا نام لے جو مسلمانوں کو تکلیف دیتے ہیں۔ حدیث میں ولید، سلمہ اور عیاش رضی اللہ عنہم کے لئے آپ ﷺ نے دعا کی، یہ سب مسلمان ہوگئے تھے لیکن مکہ میں ابوجہل اور دوسرے کافروں نے ان کو سخت قید اور تکلیف میں رکھا تھا۔

【443】

نماز میں سانپ بچھو کو مار ڈالنا

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے نماز میں دو کالوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا : سانپ کو اور بچھو کو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٦٩ (٩٢١) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٧٠ (٣٩٠) ، سنن النسائی/السہو ١٢ (١٢٠٣) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٣٣، ٢٥٥، ٢٧٣، ٢٧٥، ٢٨٤، ٤٩٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٨ (١٥٤٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ یہ دونوں سخت موذی جانور ہیں اور اگر نماز کے تمام ہونے کا انتظار کیا جائے گا تو ان کے بھاگ جانے کا اندیشہ ہے، اس لئے نماز کے اندر ہی ان کو مارنا درست ہوا، اگرچہ چلنے اور عمل کثیر کی حاجت پڑے پھر بھی نماز فاسد نہ ہوگی، اور پھر مارنے کے بعد نماز وہیں سے شروع کر دے جہاں تک پڑھی تھی، واضح رہے جن کاموں کے کرنے کی اجازت نبی اکرم ﷺ نے دی ہے ان سے نماز فاسد نہیں ہوتی جیسے سانپ بچھو مارنا، اگر کوئی اور گھر میں نہ ہو تو زنجیر کھول دینا، اشارہ سے سلام کا جواب دینا، ضرورت کے وقت کھنکار دینا مثلاً باہر کوئی پکارے اور یہ گھر کے اندر نماز میں ہو تو کھنکار دے، قیام اور رکوع منبر پر کرنا، اور سجدہ کے لئے نیچے اترنا، پھر منبر پر چلے جانا، بچے کو کندھے پر اٹھا لینا، رکوع اور سجدہ کے وقت اس کو زمین پر بٹھا دینا پھر قیام کے وقت لے لینا، بھولے سے بات کرنا، اور امام بھول جائے تو اس کو بتانا یعنی لقمہ دینا، نفل نماز میں قرآن (مصحف) میں دیکھ کر پڑھنا، کوئی نمازی کے سامنے سے گزرتا ہو تو ہاتھ سے اس کو ہٹانا یا ہاتھ سے اس کو ضرب لگانا۔

【444】

نماز میں سانپ بچھو کو مار ڈالنا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کو ایک بچھو نے نماز میں ڈنک مار دیا، نماز سے فارغ ہو کر آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ بچھو پر لعنت کرے کہ وہ نمازی و غیر نمازی کسی کو نہیں چھوڑتا، اسے حرم اور حرم سے باہر، ہر جگہ میں مار ڈالو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦١٢٥، ومصباح الزجاجة : ٤٣٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٥٠) (صحیح) (اس کی سند میں حکم بن عبد الملک ضعیف ہیں، لیکن دوسرے طرق سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے )

【445】

نماز میں سانپ بچھو کو مار ڈالنا

ابورافع (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے نماز کی حالت میں ایک بچھو کو مار ڈالا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٢٢، ومصباح الزجاجة : ٤٣٧) (ضعیف) (اس کی سند میں مندل ابن علی العنبری الکوفی ضعیف راوی ہیں )

【446】

فجر اور عصر کے بعد نماز پڑھنا ممنوع ہے

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دو نمازوں سے منع فرمایا، ایک فجر کے بعد نماز پڑھنے سے سورج نکلنے تک، دوسرے عصر کے بعد نماز پڑھنے سے سورج ڈوب جانے تک ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٣٠ (٥٨٤) ، ٣١ (٥٨٨) ، اللباس ٢٠ (٥٨١٩) ، صحیح مسلم/المسافرین ٥١ (٨٢٥) ، سنن النسائی/المواقیت ٣٢ (٥٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٦٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/القرآن ١٠ (٤٨) ، مسند احمد (٢/٤٦٢، ٤٩٦، ٥١٠، ٥٢٩) ، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٢١٦٩، ٣٥٦٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مکروہ اوقات میں سے اس حدیث میں دو وقت، مذکور ہیں اور دوسری حدیث میں دیگر تین اوقات مذکور ہیں، ایک سورج نکلنے کے وقت، دوسرے سورج ڈوبنے کے وقت، تیسرے ٹھیک دوپہر کے وقت، علماء کا اس مسئلہ میں بہت اختلاف ہے، دلائل متعارض ہیں، اور اہل حدیث نے اس کو ترجیح دی ہے کہ ان اوقات میں بلاضرورت اور بلاسبب اور ضرورت سے جیسے طواف کے بعد دو رکعت یا تحیۃ المسجد کی سنت اور واجب کی قضا جیسے وتر یا فجر یا ظہر کے دو رکعت کی قضا ان اوقات میں درست اور صحیح ہے، اسی طرح مکہ مستثنیٰ ہے، وہاں ہر وقت نماز صحیح ہے، اسی طرح جمعہ کی نماز مستثنیٰ ہے اور وہ ٹھیک دوپہر کے وقت بھی صحیح ہے۔

【447】

فجر اور عصر کے بعد نماز پڑھنا ممنوع ہے

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : نماز عصر کے بعد کوئی نماز نہیں یہاں تک کہ سورج ڈوب جائے اور نماز فجر کے بعد کوئی نماز نہیں یہاں تک کہ سورج نکل آئے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٣١ (٥٨٦) ، الصوم ٦٧ (١٩٩٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٧٩) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المسافرین ٥١ (٨٢٧) ، سنن النسائی/المواقیت ٣٤ (٥٦٨) ، مسند احمد (٣/٧، ٣٩، ٤٦، ٥٢، ٥٣، ٦٠، ٦٧، ٧١) (صحیح )

【448】

فجر اور عصر کے بعد نماز پڑھنا ممنوع ہے

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میرے پاس کئی اچھے لوگوں نے گواہی دی، ان میں میرے نزدیک سب زیادہ اچھے شخص عمر (رض) تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نماز فجر کے بعد کوئی نماز نہیں یہاں تک کہ سورج نکل آئے، اور عصر کے بعد کوئی نماز نہیں یہاں تک کہ سورج ڈوب جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٣٠ (٥٨١) ، صحیح مسلم/المسافرین ٥١ (٨٢٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٩٩ (١٢٧٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٠ (١٨٣) ، سنن النسائی/المواقیت ٣٢ (٥٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٤٩٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢١، ٣٩، ٥٠، ٥١) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٤٢ (١٤٧٣) (صحیح )

【449】

نماز کے مکروہ واقات

عمرو بن عبسہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا : کیا کوئی وقت اللہ تعالیٰ کے نزدیک دوسرے وقت سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، رات کا بیچ کا حصہ، لہٰذا اس میں جتنی نمازیں چاہتے ہو پڑھو، یہاں تک کہ صبح صادق ہوجائے، پھر رک جاؤ یہاں تک کہ سورج نکل آئے، اور جب تک وہ ڈھال کے مانند رہے رکے رہو یہاں تک کہ وہ پوری طرح روشن ہوجائے، پھر جتنی نمازیں چاہتے ہو پڑھو یہاں تک کہ ستون کا اپنا اصلی سایہ رہ جائے، پھر رک جاؤ یہاں تک کہ سورج ڈھل جائے، اس لیے کہ دوپہر کے وقت جہنم بھڑکائی جاتی ہے، پھر عصر تک جتنی نماز چاہو پڑھو، پھر رک جاؤ یہاں تک کہ سورج ڈوب جائے اس لیے کہ اس کا نکلنا اور ڈوبنا شیطان کی دونوں سینگوں کے درمیان ہوتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/المواقیت ٣٩ (٥٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٦٢) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المسافرین ٥٢ (٨٣٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٩٩ (١٢٧٧) ، سنن الترمذی/الدعوات ١١٩ (٣٥٧٩) ، مسند احمد (٤/١١١، ١١٤، ٣٨٥) ، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ١٣٦٤) (صحیح) (دوسرے طرق سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں یزید بن طلق مجہول اور عبد الرحمن بن البیلمانی ضعیف ہیں، نیز جوف الليل الأوسط کا جملہ منکر ہے، بلکہ صحیح جملہ جوف الليل الاخير ہے، جو دوسری حدیثوں سے ثابت ہے )

【450】

نماز کے مکروہ واقات

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ صفوان بن معطل (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : اللہ کے رسول ! میں آپ سے ایک ایسی بات پوچھ رہا ہوں جسے آپ جانتے ہیں میں نہیں جانتا، آپ ﷺ نے پوچھا : وہ کیا ہے ؟ صفوان (رض) نے کہا : رات اور دن میں کوئی وقت ایسا بھی ہے جس میں نماز مکروہ ہو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ، جب تم نماز فجر پڑھ لو تو نماز سے رکے رہو یہاں تک کہ سورج نکل آئے، اس لیے کہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان نکلتا ہے، پھر نماز پڑھو اس میں فرشتے حاضر ہوں گے اور وہ قبول ہوگی، یہاں تک کہ سورج سیدھے سر پہ نیزے کی طرح آجائے تو نماز چھوڑ دو کیونکہ اس وقت جہنم بھڑکائی جاتی ہے، اور اس کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، یہاں تک کہ سورج تمہارے دائیں ابرو سے ڈھل جائے، لہٰذا جب سورج ڈھل جائے (تو نماز پڑھو) اس میں فرشتے حاضر ہوں گے اور وہ قبول ہوگی، یہاں تک کہ عصر پڑھ لو، پھر (عصر کے بعد) نماز چھوڑ دو یہاں تک کہ سورج ڈوب جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٦٣، ومصباح الزجاجة : ٤٣٨) ، ومسند احمد (٥/٣١٢) (صحیح )

【451】

نماز کے مکروہ واقات

ابوعبداللہ صنابحی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیشک سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان نکلتا ہے، یا فرمایا کہ سورج کے ساتھ وہ اس کی دونوں سینگیں نکلتی ہیں، جب سورج بلند ہوجاتا ہے تو وہ اس سے الگ ہوجاتا ہے، پھر جب سورج آسمان کے بیچ میں آتا ہے تو وہ اس سے مل جاتا ہے، پھر جب سورج ڈھل جاتا ہے تو شیطان اس سے الگ ہوجاتا ہے، پھر جب ڈوبنے کے قریب ہوتا ہے تو وہ اس سے مل جاتا ہے، پھر جب ڈوب جاتا ہے تو وہ اس سے جدا ہوجاتا ہے، لہٰذا تم ان تین اوقات میں نماز نہ پڑھو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/المواقیت ٣٠ (٥٦٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٧٨) ، موطا امام مالک/القرآن ١٠ (٤٤) ، مسند احمد (٤/٣٤٨، ٣٤٩) (ضعیف) (ابوعبد اللہ صنابحی عبد الرحمن بن عسیلہ تابعی ہیں اس لئے یہ حدیث مرسل اور ضعیف ہے نیز ملاحظہ ہو : ضعیف الجامع برقم : ١٤٧٢ ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ یہ اوقات مشرکین کی عبادت کے اوقات ہیں جو اللہ کے سوا سورج کی عبادت کرتے ہیں، تو ان اوقات میں گو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے لیکن مشرکین کی مشابہت کی وجہ سے مکروہ اور منع ٹھہری۔ یہاں ایک اعتراض ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ زمین کروی (گول) ہے اور وہ سورج کے گرد گھوتی ہے اب جو لوگ زمین کے چاروں طرف رہتے ہیں، ان کا کوئی وقت اس سے خالی نہ ہوگا یعنی کہیں دوپہر ضرور ہی ہوگی اور کہیں سورج نکل رہا ہوگا اور کہیں ڈوب رہا ہوگا، پس ہر وقت میں نماز منع ٹھہرے گی، اس کا جواب یہ ہے کہ ہر ایک ملک والوں کو اپنے طلوع اور غروب اور استواء سے غرض ہے، دوسرے ملکوں سے غرض نہیں، پس جس وقت ہمارے ملک میں زوال ہوجائے تو نماز صحیح ہوگی، حالانکہ جس وقت ہمارے ہاں زوال ہوا ہے اس وقت ان لوگوں کے پاس جو مغرب کی طرف ہٹے ہوئے ہیں استواء کا وقت ہوا۔ ایک اعتراض اور ہوتا ہے کہ جب سورج کسی وقت میں خالی نہ ہوا یعنی کسی نہ کسی ملک میں اس وقت استواء ہوگا، اور کسی نہ کسی ملک میں اس وقت طلوع ہوگا، اور کسی نہ کسی ملک میں غروب تو شیطان سورج سے جدا کیونکر ہوگا بلکہ ہر وقت سورج کے ساتھ رہے گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک جو شیطان سورج پر متعین ہے وہ ہر وقت اس کے ساتھ رہتا ہے، اور سورج کے ساتھ ہی ساتھ پھرتا رہتا ہے، لیکن جدا ہونے کا مقصد یہ ہے کہ سورج کے ساتھ ہی وہ ہماری سمت سے ہٹ جاتا ہے، اور مشرکوں کی عبادت کا وقت ہمارے ملک میں ختم ہوجاتا ہے، اور ہمارے لیے نماز کی ادائیگی اور عبادت کرنا صحیح ہوجاتا ہے، گو نفس الامر میں وہ سورج سے جدا نہ ہو اس لئے کہ ہر گھڑی کہیں نہ کہیں طلوع اور غروب اور استواء کا وقت ہے۔ واللہ اعلم۔

【452】

مکہ میں ہر وقت نماز کی رخصت

جبیر بن مطعم (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے بنی عبدمناف ! دن و رات کے جس وقت میں جو کوئی خانہ کعبہ کا طواف کرنا یا نماز پڑھنا چاہے اسے نہ روکو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/المناسک ٥٣ (١٨٩٤) ، سنن الترمذی/الحج ٤٢ (٨٦٨) ، سنن النسائی/المواقیت ٤٠ (٥٨٦) ، المناسک والحج ١٣٧ (٢٩٢٧) ، (تحفة الأشراف : ٣١٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٨٠، ٨١) ، ٨٤، سنن الدارمی/المناسک ٧٩ (١٩٦٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے اہل حدیث اور شافعی اور احمد اور اسحاق نے مکہ کو ممانعت کی حدیثوں سے مستثنی کیا ہے، اور مسجد حرام میں ہر وقت طواف اور نماز کو جائز رکھا ہے۔

【453】

جب لوگ نماز کو وقت سے مؤخر کرنے لگیں

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شاید تم لوگ ایسے لوگوں کو پاؤ گے، جو نماز بےوقت پڑھیں گے، اگر تم ایسے لوگوں کو پاؤ تو نماز اپنے گھر ہی میں وقت مقررہ پر پڑھ لو، پھر ان کے ساتھ بھی پڑھ لو اور اسے نفل (سنت) بنا لو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الإمامة ٢ (٧٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٢١١) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساجد ٥ (٥٣٤) ، نحوہ، سنن ابی داود/الصلاة ١٠ (٤٣٢) ، مسند احمد (١/٣٧٩، ٤٥٥، ٤٥٩) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی دوسری نماز کو کیونکہ وہ بےوقت ہے گو جماعت سے ہے، اور بعضوں نے کہا ہے کہ اول نماز نفل ہوجائے گی اور یہ فرض، اور بعضوں نے کہا اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے جس کو چاہے فرض کر دے اور جس کو چاہے نفل کر دے۔ اب یہ حدیث عام ہے اور ہر ایک نماز کو شامل ہے کہ جماعت کے ساتھ اس کو دوبارہ پڑھ سکتے ہیں، اور بعضوں نے کہا ہے کہ صرف ظہر اور عشاء کو دوبارہ پڑھے، بقیہ کو دوبارہ نہ پڑھے۔ واللہ اعلم۔

【454】

جب لوگ نماز کو وقت سے مؤخر کرنے لگیں

ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : نماز اس کے وقت پر پڑھو، اگر امام کو پاؤ کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا رہا ہے تو ان کے ساتھ نماز پڑھ لو، اگر تم نے نماز نہیں پڑھی ہے تو یہ تمہاری فرض نماز ہوگئی، ورنہ پھر یہ تمہارے لیے نفل (سنت) ہوجائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٤١ (٦٤٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٠ (٤٣١) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٥ (١٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٥٠) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الإمامة ٢ (٧٧٩، ٧٨٠) ، ٥٥ (٨٦٠) ، مسند احمد (٥/١٦٨، ١٦٩، ١٤٩، ١٥٦، ١٦٣) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٥ (٩١٢٦٤) (صحیح )

【455】

جب لوگ نماز کو وقت سے مؤخر کرنے لگیں

عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عنقریب کچھ ایسے حکمران ہوں گے جو کاموں میں مشغول رہیں گے، اور وہ نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کریں گے (تو تم وقت پہ نماز پڑھ لو) اور ان کے ساتھ اپنی نماز کو نفل بنا لو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٠ (٤٣٣) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٤، ٣٨٧، ٢/٩٥، ٣/٢٤، ٢٨، ٥/٣١٥، ٣٢٩) (صحیح )

【456】

نماز خوف

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز خوف کی (کیفیت) کے بارے میں فرمایا : امام اپنے ساتھ مجاہدین کی ایک جماعت کو نماز پڑھائے، اور وہ ایک رکعت ادا کریں، اور دوسری جماعت ان کے اور دشمن کے درمیان متعین رہے، پھر جس گروہ نے ایک رکعت اپنے امام کے ساتھ پڑھی وہ ہٹ کر اس جماعت کی جگہ چلی جائے جس نے نماز نہیں پڑھی، اور جنہوں نے نماز نہیں پڑھی ہے وہ آئیں، اور اپنے امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھیں، اب امام تو اپنی نماز سے فارغ ہوجائے گا، اور دونوں جماعتوں میں سے ہر ایک اپنی ایک ایک رکعت پڑھیں، اگر خوف و دہشت اس سے بھی زیادہ ہو، (صف بندی نہ کرسکتے ہوں) تو ہر شخص پیدل یا سواری پر نماز پڑھ لے ١ ؎۔ راوی نے کہا کہ سجدہ سے مراد رکعت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٨١٩) وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الخوف ١ (٩٤٣) ، صحیح مسلم/المسافرین ٥٧ (٨٣٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٨٥ (١٢٤٣) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٨١ (الجمعة ٤٦) (٥٦٤) ، سنن النسائی/الخوف (١٥٣٩) ، مسند احمد (٢/١٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: گو منہ قبلہ کی طرف نہ ہو اور سجدہ اور رکوع اشارے سے کرے، ابن عمر (رض) سے معلوم ہوا کہ منہ قبلہ کی طرف ہو یا نہ ہو، جاننا چاہیے کہ خوف کی نماز کا ذکر قرآن مجید میں ہے پر وہ مجمل ہے، اور احادیث میں اس کی تفصیل کئی طرح سے وارد ہے، صحیحین میں جابر (رض) سے مروی ہے کہ ہر گروہ کے ساتھ دو رکعتیں پڑھے، تو امام کی چار رکعتیں ہوں گی اور مقتدیوں کی دو دو رکعتیں۔

【457】

نماز خوف

سہل بن ابی حثمہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نماز خوف کے بارے میں کہا : امام قبلہ رو کھڑا ہو، اور ایک جماعت اس کے ساتھ کھڑی ہو، اور ایک جماعت دشمن کے سامنے اس طرح کھڑی ہو کہ ان کے رخ صف کی جانب ہوں، امام انہیں ایک رکعت پڑھائے، پھر وہ اسی جگہ میں امام سے علیحدہ اپنے لیے ایک ایک رکوع اور دو دو سجدے کر کے دوسری رکعت پوری کریں، پھر یہ لوگ دوسری جماعت کی جگہ چلے جائیں، اب وہ جماعت آئے اور امام ان کو ایک رکوع اور دو سجدے سے نماز پڑھائے، امام کی نماز دو رکعت ہوئی، اور دوسری جماعت کی ابھی ایک ہی رکعت ہوئی، لہٰذا وہ لوگ ایک رکوع اور دو سجدے الگ الگ کر کے نماز پوری کرلیں ١ ؎۔ محمد بن بشار کہتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن سعید القطان سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھ سے شعبة عن عبدالرحمٰن بن القاسم عن أبيه عن صالح بن خوات عن سهل بن أبي حثمة کے طریق سے نبی اکرم ﷺ سے مرفوعاً ً یحییٰ بن سعید کی روایت کے مثل بیان کیا۔ محمد بن بشار کہتے ہیں کہ یحییٰ القطان نے مجھ سے کہا کہ اسے بھی اس کے پاس ہی لکھ لو اور مجھے تو حدیث یاد نہیں، لیکن یہ یحییٰ کی حدیث کے ہم مثل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٣٢ (٤١٣١) ، صحیح مسلم/المسافرین ٥٧ (٨٤١) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٨٢ (١٢٣٧) ، ٢٨٣، (١٢٣٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٨١ (الجمعة ٤٦) (٥٦٦) ، سنن النسائی/الخوف (١٥٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٤٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/صلاة الخوف ١ (٢) ، مسند احمد (٣/٤٤٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٥ (١٥٦٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اور اتنی دیر تک کہ دوسرا گروہ اس رکعت سے فارغ ہو امام خاموش بیٹھا رہے، جب یہ دوسری رکعت سے فارغ ہوں تو امام سلام پھیرے اور دونوں گروہ سلام پھیر دیں، کیونکہ دونوں کی نماز ختم ہوگئی، اور پہلے گروہ کو لازم ہے کہ چپکے سے دشمن کے سامنے کھڑے رہیں بات نہ کریں یہاں تک کہ سلام پھیر دیں۔

【458】

نماز خوف

جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے اصحاب کو صلاۃ خوف پڑھائی، آپ ﷺ نے ان سب کے ساتھ رکوع کیا، پھر سجدہ کیا، اور اس صف نے سجدہ کیا جو آپ سے قریب تھی، اور دوسرے لوگ کھڑے رہے، یہاں تک کہ جب آپ ﷺ کھڑے ہوگئے تو ان لوگوں نے اپنے طور سے دو سجدے کئے، پھر پہلی صف پیچھے آگئی اور وہاں جا کر کھڑی ہوگئی، جہاں یہ لوگ تھے، اور درمیان ہی سے یہ لوگ آگے بڑھ گئے اور ان لوگوں کی جگہ کھڑے ہوگئے، اور پچھلی صف ہٹ کر اگلی کی جگہ کھڑی ہوگئی، اب پھر نبی اکرم ﷺ نے ان سب لوگوں کے ساتھ رکوع کیا، اور آپ نے اور آپ سے قریبی صف نے سجدہ کیا، جب یہ صف سجدے سے فارغ ہوگئی تو دوسری صف نے اپنے دو سجدے کئے، اس طرح سب نے ایک رکوع اور دو سجدے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ کئے، اور ہر جماعت نے دو سجدے اپنے اپنے طور پر کئے، اور دشمن قبلہ کے سامنے تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٦٧٣، ومصباح الزجاجة : ٤٤٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/ المغازي ٣١ (٤١٣٠) ، صحیح مسلم/المسافرین ٥٧ (٨٤٠) ، سنن ابی داود/الصلاة (تعلیقا) ٢٨١ (١٢٨٦) ، سنن النسائی/صلاة الخوف (١٩٣٦) ، مسند احمد (٣/٢٩٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : پس یہاں اس کی ضرورت نہ تھی کہ ایک گروہ جائے اور دوسرا آئے صرف یہ ضروری تھا کہ سب لوگ ایک ساتھ سجدہ نہ کریں ورنہ احتمال ہے کہ دشمن غفلت میں کچھ کر بیٹھے، لہذا سجدہ میں تفریق ہوئی، باقی ارکان سب نے ایک ساتھ ادا کئے، اس حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ جیسا موقع ہو اسی طرح سے صلاۃ خوف پڑھنا اولیٰ ہے، اور ہر ایک صورت جائز ہے۔

【459】

سورج اور چاند گرہن کی نماز

ابومسعود (رض) سے کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیشک سورج و چاند کسی کے موت کی وجہ سے نہیں گہناتے ١ ؎، لہٰذا جب تم اسے گہن میں دیکھو تو اٹھو، اور نماز پڑھو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الکسوف ١ (١٠٤١) ، ١٢ (١٠٥٧) ، بدأالخلق ٤ (٣٢٠٤) ، صحیح مسلم/الکسوف ٥ (٩١١) ، سنن النسائی/الکسوف ٤ (١٤٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٢٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٧ (١٥٦٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بلکہ یہ دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، یعنی اس کی قدرت کی نشانی ہے، اور سچی حکمت تھی جو آپ ﷺ نے لوگوں کو بتائی، اور ان کے غلط خیال کی تردید کہ گرہن کسی بڑے کی موت کی وجہ سے لگتا ہے، اگر ایسا ہو تو گرہن سورج اور چاند کا اپنے مقررہ اوقات پر نہ ہوتا بلکہ جب دنیا میں کسی بڑے کی موت کا حادثہ پیش آتا اس وقت گرہن لگتا حالانکہ اب علمائے ہئیت نے سورج اور چاند کے گرہن کے اوقات ایسے معلوم کرلیے ہیں کہ ایک منٹ بھی ان سے آگے پیچھے نہیں ہوتا، اور سال بھر سے پہلے یہ لکھ دیتے ہیں کہ ایک سال میں سورج گرہن فلاں تاریخ اور فلاں وقت میں ہوگا، اور چاند گرہن فلاں تاریخ اور فلاں وقت میں، اور یہ بھی بتلا دیتے ہیں کہ سورج یا چاند کا قرص گرہن سے کل چھپ جائے گا یا اس قدر حصہ، اور یہ بھی دکھلا دیتے ہیں کہ کس میں کتنا گرہن ہوگا، ان کے نزدیک زمین اور چاند کے گرہن کی علت حرکت ہے اور زمین کا سورج اور چاند کے درمیان حائل ہونا ہے۔ واللہ اعلم۔

【460】

سورج اور چاند گرہن کی نماز

نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں سورج میں گہن لگا تو آپ گھبرا کر اپنا کپڑا گھسیٹتے ہوئے مسجد میں آئے اور سورج روشن ہونے تک برابر نماز پڑھتے رہے، پھر فرمایا : کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سورج اور چاند کسی بڑے آدمی کی موت کی وجہ سے گہن لگتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے، بیشک سورج اور چاند کو کسی کی موت و پیدائش کی وجہ سے نہیں گہناتے، بلکہ اللہ تعالیٰ جب کسی چیز پر اپنی تجلی کرتا ہے تو وہ عاجزی سے جھک جاتی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٦٨ (١١٩٣) ، سنن النسائی/الکسوف ١٦ (١٤٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٣١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٦٧، ٢٦٩، ٢٧١، ٢٧٧) (منکر) ( اس میں فَإِذَا تَجَلَّى اللَّهُ لِشَيْئٍ مِنْ خَلْقِهِ خَشَعَ لَهُ کا ٹکڑا منکر ہے، سابقہ حدیث ملاحظہ ہو جو کافی ہے ) وضاحت : ١ ؎: اور دوسری حدیثوں میں دعا اور تکبیر اور صدقہ اور استغفار بھی وارد ہے، جب تک گرہن ختم نہ ہوجائے۔

【461】

سورج اور چاند گرہن کی نماز

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو آپ ﷺ مسجد گئے، اور کھڑے ہو کر الله أكبر کہا، لوگوں نے بھی آپ کے پیچھے صف لگائی، آپ نے لمبی قراءت کی، پھر الله أكبر کہا، اور دیر تک رکوع کیا، پھر رکوع سے اپنا سر اٹھایا، اور سمع الله لمن حمده‏ ربنا ولک الحمد‏ کہا، پھر کھڑے ہوئے اور لمبی قراءت کی جو پہلی قراءت سے کم تھی، پھر الله أكبر کہا، اور لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا، پھر سمع الله لمن حمده‏ ربنا ولک الحمد‏ کہا، پھر دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کیا، اور چار رکوع اور چار سجدے مکمل کئے، آپ ﷺ کے سلام پھیرنے سے پہلے سورج روشن ہوچکا تھا، پھر آپ کھڑے ہوئے، خطبہ دیا، اور اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کی جس کا وہ مستحق ہے، پھر فرمایا : بیشک سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، وہ کسی کی موت و پیدائش کی وجہ سے نہیں گہناتے، لہٰذا جب تم ان کو گہن میں دیکھو تو نماز کی طرف دوڑ پڑو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الکسوف ٤ (١٠٤٦) ، ٥ (١٠٤٧) ، ١٣ (١٠٥٨) ، العمل في الصلاة ١١ (١٢١٢) ، بدأالخلق ٤ (٣٢٠٣) ، صحیح مسلم/الکسوف ١ (٩٠١) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٦٢ (١١٨٠) ، سنن النسائی/الکسوف ١١ (١٤٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦٦٩٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الکسوف ١ (١) ، مسند احمد (٦/٧٦، ٨٧، ١٦٤، ١٦٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٧ (١٥٧٠) (صحیح )

【462】

سورج اور چاند گرہن کی نماز

سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں گہن کی نماز پڑھائی، تو ہمیں آپ کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٦٢ (١١٨٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٨٠ (٥٦٢) سنن النسائی/الکسوف ١٩ (١٤٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٤، ١٦، ١٧، ١٩، ٢٣) (ضعیف) (اس حدیث کی سند میں راوی ثعلبہ بن عباد مجہول ہیں، ملاحظہ ہو : ضعیف ابی داود : ٢١٦ ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے ابوحنیفہ (رح) نے استدلال کیا ہے کہ کسوف کی نماز میں جہر نہ کرے، جب کہ یہ حدیث ضعیف ہے، اور ضعیف حدیث قابل استدلال نہیں۔

【463】

سورج اور چاند گرہن کی نماز

اسماء بنت ابی بکر (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے گہن کی نماز پڑھائی، اور کافی لمبا قیام کیا، پھر کافی لمبا رکوع کیا، پھر رکوع سے سر اٹھایا تو کافی لمبا قیام کیا، پھر کافی لمبا رکوع کیا، پھر رکوع سے سر اٹھایا، پھر سجدہ کیا تو کافی لمبا سجدہ کیا، پھر سجدے سے سر اٹھایا، پھر سجدہ کیا، اور کافی لمبا سجدہ کیا، پھر سجدے سے سر اٹھایا اور لمبا قیام کیا، پھر لمبا رکوع کیا، پھر رکوع سے سر اٹھایا اور لمبا قیام کیا، پھر لمبا رکوع کیا پھر رکوع سے سر اٹھایا اور لمبا سجدہ کیا، پھر سجدہ سے سر اٹھایا اور لمبا سجدہ کیا، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا : جنت مجھ سے اتنی قریب ہوگئی کہ اگر میں جرات کرتا تو تمہارے پاس اس کے خوشوں (گچھوں) میں سے کوئی خوشہ (گچھا) لے کر آتا، اور جہنم بھی مجھ سے اتنی قریب ہوگئی کہ میں نے کہا : اے رب ! (کیا لوگوں پر عذاب آجائے گا) جبکہ میں ان کے درمیان موجود ہوں ؟ ۔ نافع کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا : میں نے ایک عورت کو دیکھا کہ اس کو اس کی بلی نوچ رہی تھی، میں نے پوچھا : اس کا سبب کیا ہے ؟ فرشتوں نے بتایا کہ اس عورت نے اسے باندھ رکھا تھا یہاں تک کہ وہ بھوک کی وجہ سے مرگئی، نہ اس نے اسے کھلایا اور نہ چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لیتی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٩٠ (٧٤٩) ، سنن النسائی/الکسوف ٢١ (١٤٩٩) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧١٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الکسوف ٢ (٤) ، مسند احمد (٦/٣١٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حدیث میں خشاش کا لفظ ہے خائے معجمہ سے یعنی زمین کے کیڑے مکوڑے اور بعضوں نے حشاش کہا ہے حائے حطی سے، اور یہ سہو ہے کیونکہ حشاش سوکھی گھاس کو کہتے ہیں، اسی سے حشیش ہے، اور وہ بلی کی غذا نہیں ہے، اس حدیث سے بھی ہر رکعت میں دو رکوع ثابت ہوتے ہیں، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جاندار کو قید میں رکھنا اور اس کو خوراک نہ دینا یہاں تک کہ وہ ہلاک ہوجائے بہت بڑا گناہ ہے، جس کی وجہ سے آدمی جہنم میں جائے گا۔

【464】

نماز استسقاء

اسحاق بن عبداللہ بن کنانہ کہتے ہیں کہ امراء میں سے کسی امیر نے مجھے ابن عباس (رض) کے پاس نماز استسقاء کے متعلق پوچھنے کے لیے بھیجا، تو ابن عباس (رض) نے کہا : امیر نے مجھ سے خود کیوں نہیں پوچھ لیا ؟ پھر بتایا کہ رسول اللہ ﷺ عاجزی کے ساتھ سادہ لباس میں، خشوع خضوع کے ساتھ، آہستہ رفتار سے، گڑگڑاتے ہوئے (عید گاہ کی طرف) روانہ ہوئے، پھر آپ ﷺ نے نماز عید کی طرح دو رکعت نماز پڑھائی، اور اس طرح خطبہ نہیں دیا جیسے تم دیتے ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٥٨ (١١٦٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٧٨ (الجمعة ٤٣) (٥٥٨، ٥٥٩) ، سنن النسائی/الاستسقاء ٣ (١٥٠٧) ، ٤ (١٥٠٩) ، ١٣ (١٥٢٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٠، ٢٦٠، ٣٥٥) (حسن) (تراجع الألبانی : رقم : ٥٣٤ ) وضاحت : ١ ؎: حجۃ اللہ البالغۃ میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی امت کے لئے استسقاء کئی بار مختلف طریقوں سے کیا لیکن جو طریقہ سنت کا اپنی امت کے لئے اختیار کیا وہ یہ ہے کہ لوگوں سمیت نہایت عاجزی کے ساتھ عید گاہ تشریف لے گئے، اور دو رکعتیں پڑھیں، ان میں زور سے قراءت کی، پھر خطبہ پڑھا، اور قبلے کی طرف منہ کیا، خطبہ میں دعا مانگی، اور دونوں ہاتھ اٹھائے، اور اپنی چادر پلٹی، استسقاء کی نماز دو رکعت مسنون ہے، ان کے بعد خطبہ ہے، اس کے وجوب کی کوئی دلیل نہیں ہے، اور ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک استسقاء میں صرف دعا اور استغفار کافی ہے، جب کہ متعدد احادیث میں نماز وارد ہے، اور جن حدیثوں میں نماز کا ذکر نہیں ان سے نماز کی نفی لازم نہیں آتی، اور ابن ابی شیبہ نے جو عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ استسقاء کو نکلے پھر نہ زیادہ کیا استغفار پر، یہ ایک صحابی کا موقوف اثر ہے، قطع نظر اس کے سنت کے ترک سے اس کی سنیت باطل نہیں ہوتی، اور اسی پر وہ مرفوع حدیث بھی محمول ہوگی جس میں نماز کا ذکر نہیں ہے، اور صحابہ کرام رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں آپ کا وسیلہ لیتے تھے اور عمر (رض) نے آپ ﷺ کی وفات کے بعد آپ ﷺ کے چچا عباس (رض) کا وسیلہ لیا، اس معنی میں کہ نبی اکرم ﷺ نے خود استسقاء کی نماز ادا فرمائی، اور بارش کی دعا کی، آپ سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے یہاں اور کون تھا، پھر عمر (رض) نے آپ کے چچا عباس (رض) کو نماز استسقاء کے لیے آگے بڑھایا کیونکہ آپ کی بزرگی، صالحیت اور اللہ کے رسول سے تعلق کی وجہ سے اس بات کی توقع کی تھی کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں آپ کی دعا قبول ہوگی، اور بعض روایتوں میں نماز سے پہلے خطبہ وارد ہے، اور دونوں طرح صحیح ہے، (ملاحظہ ہو : الروضہ الندیہ) ۔

【465】

نماز استسقاء

عبداللہ بن زید بن عاصم (رض) سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ عید گاہ کی جانب نماز استسقاء کے لیے نکلے، آپ نے قبلہ کی طرف رخ کیا، اپنی چادر کو پلٹا، اور دو رکعت نماز پڑھائی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاستسقاء ١ (١٠٠٥) ، ٤ (١٠١١) ، ١٥ (١٠٢٣) ، ١٦ (١٠٢٤) ، ١٧ (١٠٢٥) ، ١٨ (١٠٢٦) ، ١٩ (١٠٢٧) ، ٢٠ (١٠٢٨) ، الدعوات ٢٥ (٦٣٤٣) ، صحیح مسلم/الاستسقاء ١ (٨٩٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٥٨ (١١٦١) ، ٢٥٩ (١١٦٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٧٨ (الجمعة ٤٣) (٥٥٦) ، سنن النسائی/الاستسقاء ٢ (١٥٠٦) ، ٣ (١٥٠٨) ، ٥ (١٥١٠) ، ٦ (١٥١١) ، ٧ (١٥١٢) ، ٨ (١٥١٣) ، ١٢ (١٥٢١) ، ١٤ (١٥٢٣) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٩٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/ صلاةالإستسقاء ١ (١) مسند احمد (٤/٣٩، ٤٠، ٤١، ٤٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٨ (١٥٧٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی چادر کو اس طرح پلٹا کہ اوپر کا حصہ نیچے ہوگیا، اور نیچے کا اوپر، اور داہنا کنارہ بائیں طرف ہوگیا، اور بایاں کنارہ داہنی طرف اس کا طریقہ یہ ہے کہ داہنے ہاتھ سے چادر کا نیچے کا بایاں کونہ اور بائیں ہاتھ سے نیچے کا داہنا کونہ پکڑ کر پیٹھ کے پیچھے اپنے دونوں ہاتھوں کو پھرا دے اس طرح سے کہ جو کونہ داہنے ہاتھ سے پکڑا ہے وہ داہنے کندھے پر آجائے، اور جو بائیں ہاتھ سے پکڑا ہے وہ بائیں کندھے پر آجائے۔ اس سند سے بھی عباد بن تمیم نے اپنے چچا (عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ) سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، اس میں اتنا زیادہ ہے کہ سفیان ثوری نے مسعودی سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا : میں نے ابوبکر بن محمد بن عمرو سے پوچھا کہ چادر کو کیسے پلٹا، کیا اوپر کا حصہ نیچے کردیا، یا دائیں کو بائیں جانب کردیا ؟ انہوں نے کہا : نہیں، بلکہ دائیں کو بائیں جانب کرلیا۔

【466】

نماز استسقاء

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن نماز استسقاء پڑھنے کے لیے نکلے، تو بغیر اذان و اقامت کے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی، پھر خطبہ دیا، اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی، اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے اپنا منہ قبلہ کی طرف کیا، پھر اپنی چادر پلٹی تو دایاں جانب بائیں کندھے پر اور بایاں جانب دائیں کندھے پر کرلیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٩١، ومصباح الزجاجة : ٤٤٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٢٦) (ضعیف) (بوصیری نے اسناد کو صحیح کہا اور رجال کو ثقات بتایا، جب کہ سند میں نعمان بن راشد صدوق سئی الحفظ ہیں، ابن خزیمہ فرماتے ہیں کہ نعمان کی توثیق کے سلسلہ میں دل میں کچھ شک ہے، اس لئے کہ ان کی زہری سے روایت میں بہت خلط ملط ہے، اگر یہ خبر ثابت ہوجائے، تو اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے خطبہ دیا اور دعا کی، اور دو مرتبہ اپنی چادر پلٹی، ایک بار صلاة سے پہلے ایک بار اس کے بعد صحیح ابن خزیمہ : ٢ /٣٣٨، لیکن البانی صاحب نے حدیث کی تضعیف کی ) وضاحت : ١ ؎: استسقا (بارش طلب کرنے) میں جہاں تک ہو سکے امام کو اور رعایا کو اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر رو رو کر دعائیں مانگنی چاہیے، اور سب لوگوں کو اپنے گناہوں سے توبہ اور استغفار کرنا چاہیے، کیونکہ پانی گناہوں کی نحوست سے رک جاتا ہے۔

【467】

استسقاء میں دعا

شرحبیل بن سمط کہتے ہیں کہ انہوں نے کعب (رض) سے کہا : کعب بن مرہ ! آپ ہم سے رسول اللہ ﷺ کی کوئی حدیث بیان کیجئیے اور احتیاط برتئے، تو انہوں نے کہا : ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! اللہ تعالیٰ سے بارش مانگئے، آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر فرمایا : اللهم اسقنا غيثا مريئا مريعا طبقا عاجلا غير رائث نافعا غير ضار اے اللہ ! ہم پر اچھے انجام والی، سبزہ اگانے والی، زمین کو بھر دینے والی، جلد برسنے والی، تھم کر نہ برسنے والی، فائدہ دینے والی اور نقصان نہ پہنچانے والی بارش برسا کعب (رض) کہتے ہیں : ابھی نماز جمعہ سے ہم فارغ بھی نہ ہوئے تھے کہ بارش ہونے لگی اور مسلسل ہوتی رہی، بالآخر پھر لوگ آپ کے پاس آئے، اور بارش کی کثرت کی شکایت کی اور کہا اللہ کے رسول ! مکانات گرگئے، پھر آپ ﷺ نے یوں دعا فرمائی اللهم حوالينا ولا علينا اے اللہ ! بارش ہمارے اردگرد میں ہو ہم پر نہ ہو ، کعب (رض) کہتے ہیں : آپ ﷺ کا یہ فرمانا تھا کہ بادل دائیں اور بائیں پھٹنے لگا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١١٦٥، ومصباح الزجاجة : ٤٤١، ٤٤٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٣٥، ٢٣٦) (صحیح) (ملاحظہ ہو : الإرواء : ٢/١٤٥ )

【468】

استسقاء میں دعا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں آپ کے پاس ایک ایسی قوم کے پاس سے آیا ہوں جس کے کسی چرواہے کے پاس توشہ (کھانے پینے کی چیزیں) نہیں، اور کوئی بھی نر جانور (کمزوری دور دبلے پن کی وجہ سے) دم تک نہیں ہلاتا، تو آپ ﷺ منبر پر چڑھے اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر یوں دعا فرمائی : اللهم اسقنا غيثا مغيثا مريئا طبقا مريعا غدقا عاجلا غير رائث اے اللہ ! ہمیں سیراب کردینے والا، فائدہ دینے والا، ساری زمین پر برسنے والا، سبزہ اگانے والا، زور کا برسنے والا، جلد برسنے والا اور تھم کر نہ برسنے والا پانی نازل فرما ، پھر آپ ﷺ منبر سے اتر گئے، اس کے بعد جو بھی جس کسی سمت سے آتا وہ یہی کہتا کہ ہمیں زندگی عطا ہوگئی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٣٩٢، ومصباح الزجاجة : ٤٤٤) (صحیح) (بوصیری نے حدیث کو صحیح کہا ہے، اور رجال کو ثقات لیکن اس حدیث کی سند میں حبیب بن ابی ثابت مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٢؍١٤٦ ، اسی کے ہم مثل اوپر صحیح حدیث گذری، اور بعض اجزاء حدیث کو اصحاب سنن اربعہ نے روایت کیا ہے، ملاحظہ ہو : مصباح الزجاجہ ب تحقیق الشہری : ٤٤٨ )

【469】

استسقاء میں دعا

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے بارش کی دعا مانگی یہاں تک کہ میں نے آپ کی بغل کی سفیدی دیکھی، یا یوں کہا کہ یہاں تک کہ آپ کی بغل کی سفیدی دکھائی دی۔ معتمر کہتے ہیں : میرا خیال ہے کہ یہ استسقاء کے بارے میں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٢٢، ومصباح الزجاجة : ٤٤٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ٢/٢٣٥، ٣٧٠) (صحیح )

【470】

استسقاء میں دعا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ جب میں رسول اللہ ﷺ کے چہرہ مبارک کو منبر پہ دیکھتا تھا، تو اکثر مجھے شاعر کا یہ شعر یاد آجاتا تھا، آپ ابھی منبر سے اترے بھی نہیں کہ مدینہ کے ہر پر نالہ میں پانی زور سے بہنے لگا، وہ شعر یہ ہے : وہ سفید فام شخصیت (رسول اللہ ﷺ ) جس کے چہرے کے وسیلے سے بادل سے بارش مانگی جاتی ہے، یتیموں کا نگہبان، بیواؤں کا محافظ۔ یہ ابوطالب کا کلام ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاستسقاء ٣ تعلیقاً وموصولا (١٠٠٩ عقیب حدیث عبد اللہ بن دینار) ، (تحفة الأشراف : ٦٧٧٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٩٣) (حسن )

【471】

عیدین کی نماز

عطاء کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) کو کہتے سنا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے خطبے سے پہلے نماز ادا کی، پھر خطبہ دیا، آپ ﷺ نے محسوس کیا کہ عورتوں تک آواز نہیں پہنچ سکی ہے لہٰذا آپ ان کے پاس آئے، ان کو (بھی) وعظ و نصیحت کی، اور انہیں صدقہ و خیرات کا حکم دیا، اور بلال (رض) اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنا دامن پھیلائے ہوئے تھے جس میں عورتیں اپنی بالیاں، انگوٹھیاں اور دیگر سامان ڈالنے لگیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العیدین ١٦ (٩٧٥) ، ١٨ (٩٧٧) ، الزکاة ٣٣ (١٤٤٩) ، النکاح ١٢٥ (٥٢٤٩) ، اللباس ٥٦ (٥٨٨٠) ، الاعتصام ١٦ (٧٣٢٥) ، صحیح مسلم/العیدین (٨٨٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٤٨ (١١٤٢) ، سنن النسائی/العیدین ١٣ (١٥٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٢٠، ٢٢٦، ٢٤٢، ٣٤٥، ٣٤٦، ٣٥٧، ٣٦٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢١٨ (١٦٤٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورتوں کو نماز عید کے لئے عید گاہ جانا صحیح ہے، دوسری حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے باپردہ اور کنواری عورتوں کو بھی عیدگاہ جانے کا حکم دیا یہاں تک کہ حائضہ عورتوں کو بھی، اور فرمایا : وہ مسجد کے باہر رہ کر دعا میں شریک رہیں، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ پہلے عیدگاہ میں نماز عید پڑھے اس کے بعد خطبہ دے، اور نماز عیدین کے بارے میں اختلاف ہے کہ واجب ہے یا سنت، اور حق یہ ہے کہ واجب ہے اور بعضوں نے کہا آیت :فصل لربک و انحر سے عید کی نماز مراد ہے اور جب عید کے دن جمعہ آجائے تو عید کی نماز پڑھنے سے جمعہ واجب نہیں رہتا یعنی جمعہ کا وجوب ساقط ہوجاتا ہے۔

【472】

عیدین کی نماز

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے عید کے دن بغیر اذان اور اقامت کے نماز پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العیدین ٨ (٩٦٢) ، صحیح مسلم/العیدین (٨٨٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٥٠ (١١٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٦٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٢٧، ٢٤٢، ٢٨٥، ٣٣١، ٣٤٥، ٣٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس پر سب کا اتفاق ہے اور صحیح میں جابر بن سمرہ (رض) سے بھی ایسی ہی روایت ہے، اس لئے نماز عید میں اذان یا اقامت کہنا بدعت ہے۔

【473】

عیدین کی نماز

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ (گورنر) مروان عید کے دن (عید گاہ) منبر لے گئے، اور نماز سے پہلے خطبہ شروع کردیا، ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا : مروان ! آپ نے خلاف سنت عمل کیا، عید کے دن منبر لے آئے، جب کہ پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا، اور آپ نے نماز سے پہلے خطبہ شروع کردیا جب کہ نماز سے پہلے خطبہ نہیں ہوتا تھا، ابو سعید خدری (رض) نے کہا : اس شخص نے اپنی ذمہ داری ادا کردی، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص خلاف شرع کام ہوتے ہوئے دیکھے اور اپنے ہاتھ سے اسے بدلنے کی طاقت رکھتا ہو تو چاہیئے کہ اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے، اگر ہاتھ سے بدلنے کی طاقت نہ ہو تو زبان سے، اور اگر زبان سے بھی کچھ نہ کہہ سکتا ہو تو دل میں برا جانے، اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٢٠ (٤٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٤٨ (١١٤٠) ، سنن الترمذی/الفتن ١١ (٧١٧٢) ، سنن النسائی/الإیمان ١٧ (٥٠١١) ، (تحفة الأشراف : ٤٠٨٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/العیدین ٦ (٩٥٦) ، مسند احمد (٣/١٠، ٤٩، ٥٢، ٥٣، ٥٤، ٩٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ایمان کا اخیر درجہ ہے اگر خلاف شرع کام کو دل سے بھی برا نہ جانے بلکہ ایسے کاموں پر چپ رہے اور دل میں بھی نفرت نہ لائے تو اس شخص میں ذرا بھی ایمان نہیں ہے، اس حدیث کو یاد رکھنا چاہیے۔

【474】

عیدین کی نماز

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ، ابوبکر اور عمر (رض) عید کی نماز خطبہ سے پہلے پڑھا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العیدین ٨ (٩٦٣) ، ١٩ (٩٧٩) ، صحیح مسلم/العیدین (٨٨٨) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٦٦ (الجمعة ٣١) (٥٣١) ، (تحفة الأشراف : ٧٨٢٣) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/العیدین ٨ (١٥٦٥) ، مسند احمد (٢/١٢، ٣٨) (صحیح )

【475】

عید بن کی تکبیرات

رسول اللہ ﷺ کے مؤذن سعد (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عیدین کی پہلی رکعت میں قراءت سے پہلے سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں قراءت سے پہلے پانچ تکبیریں کہا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٨٢٩، ومصباح الزجاجة : ٤٤٦) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الصلاة ٢٢٠ (١٦٤٧) (صحیح) (عبدالرحمن بن سعد ضعیف اور ان کے والد مجہول الحال ہیں، لیکن اگلی حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الإروا اء : ٣ /١٠٩ )

【476】

عید بن کی تکبیرات

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے نماز عید میں سات اور پانچ تکبیریں کہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٥١، (١١٥١) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٨٠) (صحیح )

【477】

عید بن کی تکبیرات

عمرو بن عوف (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عیدین کی پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری میں پانچ تکبیریں کہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجمعة ٣٤ (٥٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٧٤) (صحیح) (اس سند میں کثیر بن عبد اللہ ضعیف ہیں، لیکن اصل حدیث کث r ت طرق کی وجہ سے صحیح ہے، جیسا کہ اس باب کی سابقہ اور آنے والی احادیث سے واضح ہے )

【478】

عید بن کی تکبیرات

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عید الاضحی اور عید الفطر میں رکوع کی تکبیروں کے علاوہ سات اور پانچ تکبیریں کہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٥١ (١١٤٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٢٥، ١٦٥٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٦٥، ٧٠) (صحیح )

【479】

عیدین کی نماز قرائت

نعمان بن بشیر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عیدین کی نماز میں سبح اسم ربک الأعلى اور هل أتاک حديث الغاشية پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٦ (٨٧٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٤٢ (١١٢٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٦٨ (الجمعة ٣٣) (٥٣٣) ، سنن النسائی/الجمعة ٣٩ (١٤٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٦١٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجمعة ٩ (١٩) ، مسند احمد (٤/٢٧١، ٢٧٣، ٢٧٦، ٢٧٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٢١ (١٦٤٨) (صحیح )

【480】

عیدین کی نماز قرائت

عبیداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ عمر (رض) عید کے دن نکلے تو ابو واقد لیثی (رض) کے پاس یہ پوچھنے کے لیے انہوں نے آدمی بھیجا کہ نبی اکرم ﷺ اس دن نماز عید میں کون سی سورة پڑھتے تھے، تو انہوں نے کہا : سورة قٓ اور اقتربت الساع ۃ ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/العیدین ٣ (٨٩١) ، سنن ابی داود/الصلا ة ٢٥٢ (١١٥٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٦٨ (الجمعة ٣٣) ، ٥٣٤، ٥٣٥) ، سنن النسائی/العیدین ١١ (١٥٦٨) ، (تحفة الأشراف : ١٥٥١٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/العیدین ٤ (٨) ، مسند احمد (٥/٢١٧، ٢١٨، ٢١٩) (صحیح )

【481】

عیدین کی نماز قرائت

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ عیدین میں : سبح اسم ربک الأعلى اور هل أتاک حديث الغاشية پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٤٤٧، ومصباح الزجاجة : ٤٤٧) (صحیح) (سند میں موسیٰ بن عبیدہ ضعیف ہیں، لیکن سابقہ شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے )

【482】

عیدین کا خطبہ

اسماعیل بن ابی خالد کہتے ہیں کہ میں نے ابوکاہل (رض) کو دیکھا ہے، انہیں رسول اللہ ﷺ سے شرف صحبت حاصل تھا، میرے بھائی نے مجھ سے بیان کیا کہ ابوکاہل (رض) نے کہا کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو ایک اونٹنی پر خطبہ دیتے ہوئے دیکھا، اور ایک حبشی اس کی نکیل پکڑے ہوئے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/العیدین ١٦ (١٥٧٤) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٤٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٠٦) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: حبشی سے مراد بلال (رض) ہیں۔

【483】

عیدین کا خطبہ

قیس بن عائذ (رض) (ابوکاہل) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو ایک خوبصورت اونٹنی پر خطبہ دیتے ہوئے دیکھا اور ایک حبشی اس کی نکیل پکڑے ہوئے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٢١٤٢) (حسن )

【484】

عیدین کا خطبہ

نبی ط (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے حج کیا اور کہا : میں نے نبی اکرم ﷺ کو اپنے اونٹ پہ خطبہ دیتے ہوئے دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٦٢ (١٩١٦) ، سنن النسائی/الحج ١٩٨ (٣٠١٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٨٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/ ٣٠٥، ٣٠٦) (صحیح )

【485】

عیدین کا خطبہ

سعد مؤذن کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ خطبہ کے درمیان تکبیر کہتے تھے، اور عیدین کے خطبہ کے دوران کثرت سے تکبیریں پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٨٣٠، ومصباح الزجاجة : ٤٤٨) (ضعیف) (اس حدیث کی سند میں عبد الرحمن ضعیف ہیں، اور ان کے والد اور دادا مجہول الحال ہیں )

【486】

عیدین کا خطبہ

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عید کے دن نکلتے اور لوگوں کو دو رکعت پڑھاتے، پھر سلام پھیرتے، اور اپنے قدموں پر کھڑے ہو کر لوگوں کی جانب رخ کرتے، اور لوگ بیٹھے رہتے، اور آپ ﷺ فرماتے : لوگو ! صدقہ کرو، صدقہ کرو، زیادہ صدقہ عورتیں دیتیں، کوئی بالی ڈالتی، کوئی انگوٹھی اور کوئی کچھ اور، اگر آپ کو لشکر بھیجنا ہوتا تو لوگوں سے اس کا ذکر کرتے، ورنہ تشریف لے جاتے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ٦ (٣٠٤) ، العیدین ٦ (٩٦٤، ٩٨٩) ، الزکاة ٤٤ (١٤٣١) ، صحیح مسلم/الایمان ٣٤ (٧٩، ٨٠) ، العیدین ٩ (٨٤٤) ، سنن النسائی/العیدین ١٩ (١٥٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٦، ٥٧) (صحیح )

【487】

عیدین کا خطبہ

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عید الفطر یا عید الاضحی میں گئے، تو آپ ﷺ نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا، پھر تھوڑی دیر بیٹھے، پھر کھڑے ہوگئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٦٦١، ومصباح الزجاجة : ٤٤٩) (منکر) (سند میں اسماعیل بن مسلم اور ابوبحر ضعیف ہیں، نیز ابوالزبیر مدلس اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اس لئے یہ سنداً اور متناً ضعیف ہے، صحیح مسلم میں جابر بن سمرہ (رض) سے یہ خطبہ جمعہ میں محفوظ ہے )

【488】

نماز کے بعد خطبہ کا انتظار کرنا

عبداللہ بن سائب (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز عید میں حاضر ہوا، تو آپ نے ہمیں عید کی نماز پڑھائی، پھر فرمایا : ہم نماز ادا کرچکے، لہٰذا جو شخص خطبہ کے لیے بیٹھنا چاہے بیٹھے، اور جو جانا چاہے جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٥٣ (١١٥٥) ، سنن النسائی/العیدین ١٤ (١٥٧٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٣١٥) (صحیح )

【489】

عید سے پہلے یا بعد نماز پڑھنا

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عید گاہ کی طرف گئے تو آپ نے لوگوں کو عید کی نماز پڑھائی، اور اس سے پہلے یا بعد کوئی اور نماز نہ پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العیدین ٨ (٩٦٤) ، ٢٦ (٩٨٩) ، الزکاة ٢١ (١٤٣١) ، اللباس ٥٧ (٥٨٨١) ، ٥٩ (٥٨٨٣) ، صحیح مسلم/العیدین ٢ (٨٨٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٥٦ (١١٥٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٧٠ (الجمعة ٣٥) (٥٣٧) ، سنن النسائی/العیدین ٢٨ (١٥٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/ ٢٨٠، ٣٤٠، ٣٥٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢١٩ (١٦٤٦) (صحیح )

【490】

عید سے پہلے یا بعد نماز پڑھنا

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے عید میں عید سے پہلے یا بعد کوئی بھی نماز نہیں پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٧٢٩، ومصباح الزجاجة : ٤٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٨٠) (حسن صحیح )

【491】

عید سے پہلے یا بعد نماز پڑھنا

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز عید سے پہلے کچھ بھی نہیں پڑھتے تھے، جب اپنے گھر واپس لوٹتے تو دو رکعت پڑھتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤١٨٧، ومصباح الزجاجة : ٤٥١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٠) (حسن )

【492】

نماز عید کے لئے پیدل جانا

سعد مؤذن سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ عید کے لیے پیدل جاتے اور پیدل ہی واپس آتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٨٣١، ومصباح الزجاجة : ٤٥٢) (حسن) (شواہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کی سند میں عبد الرحمن ضعیف، اور ان کے والد و دادا مجہول الحال ہیں، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٦٣٦ )

【493】

نماز عید کے لئے پیدل جانا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عید کے لیے پیدل جاتے، اور پیدل ہی واپس آتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٧٤٠ و ٨٠٢٠، ومصباح الزجاجة : ٤٥٣) (حسن) (شواہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کی سند میں عبد الرحمن بن عبد اللہ العمری ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ٦٣٦ )

【494】

نماز عید کے لئے پیدل جانا

علی (رض) کہتے ہیں کہ سنت یہ ہے کہ لوگ عید کی نماز کے لیے پیدل چل کر جائیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجمعة ٣٠ (٥٣٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٤٢) (حسن) (سند میں الحارث ضعیف ہے، لیکن سابقہ حدیث سے یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٦٣٦ )

【495】

نماز عید کے لئے پیدل جانا

ابورافع کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عید گاہ کے لیے پیدل چل کر آتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٢١، ومصباح الزجاجة : ٤٥٤) (حسن) (شواہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کی سند میں دو راوی : مندل و محمد بن عبیداللہ ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٦٣٦ ) وضاحت : ١ ؎: ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ سنت یہی ہے کہ عیدگاہ کو پیدل جائے، اگر عید گاہ دور ہو یا کوئی پیدل نہ چل سکے تو سواری پر جائے۔

【496】

عید گاہ کو ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے آنا

مؤذن رسول سعد القرظ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب عیدین کی نماز کے لیے نکلتے تو سعید بن ابی العاص کے مکان سے گزرتے، پھر خیمہ والوں کی طرف تشریف لے جاتے، پھر دوسرے راستے سے واپس ہوتے، اور قبیلہ بنی زریق کے راستے سے عمار بن یاسر اور ابوہریرہ (رض) کے مکانات کو پار کرتے ہوئے مقام بلاط پر تشریف لے جاتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٨٣٢، ومصباح الزجاجة : ٤٥٦) (ضعیف) (عبدالرحمن اور ان کے والد ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎: بلاط ایک مقام کا نام ہے، جو مسجد نبوی اور بازار کے درمیان واقع تھا۔ ٢ ؎: علماء نے راستہ بدلنے کی بہت سی حکمتیں بیان فرمائی ہیں، امام نووی (رح) نے اس کی حکمت مقامات عبادت کا زیادہ ہونا بتلایا ہے، بعض کہتے ہیں کہ ایسا اس لئے کہ دونوں راستے قیامت والے دن گواہی دیں گے کہ یا اللہ تیری تکبیر و تہلیل کرتا ہوا یہ بندہ ہمارے اوپر سے گزرا تھا کیونکہ نماز عید کے لئے یہ حکم ہے کہ آتے جاتے راستوں میں بہ آواز بلند تکبیریں پڑھتے اور اللہ کا ذکر کرتے رہو، یا مقصد ہے کہ ایک کے بجائے دو راستوں کے فقراء، لوگوں کے صدقہ و خیرات سے بہرمند ہوں، یا اس لئے کہ مسلمانوں کی قوت و اجتماعیت کا زیادہ سے زیادہ مظاہرہ ہو۔

【497】

عید گاہ کو ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے آنا

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ وہ عید کے لیے ایک راستے سے جاتے، اور دوسرے راستے سے واپس آتے اور کہتے کہ رسول اللہ ﷺ ایسا ہی کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٥٤ (١١٥٦) ، (تحفة الأشراف : ٧٧٢٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٠٩) (صحیح )

【498】

عید گاہ کو ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے آنا

ابورافع (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ عید کے لیے پیدل چل کر آتے تھے اور اس راستہ کے سوا دوسری راستہ سے لوٹتے تھے جس سے پہلے آئے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٢١، ومصباح الزجاجة : ٤٥٥) (صحیح) (اگلی و پچھلی حدیثوں سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں مندل و محمد بن عبید اللہ دونوں ضعیف ہیں )

【499】

عید گاہ کو ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے آنا

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب عیدین کے لیے نکلتے تو اس راستہ کے سوا دوسرے راستہ سے لوٹتے جس سے شروع میں آئے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العیدین ٢٤ (٩٨٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٧٢ (الجمعة ٣٧) ، (٥٤١) ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٣٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٠٩، ٣٨٨) (صحیح )

【500】

عید کے روز کھیل کود کرنا اور خوشی منانا

عامر شعبی کہتے ہیں کہ عیاض اشعری نے شہر انبار میں عید کی اور کہا : کیا بات ہے کہ میں تم کو اس طرح دف بجاتے اور گاتے نہیں دیکھ رہا ہوں جیسے رسول اللہ ﷺ کے پاس بجایا، اور گایا جاتا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٠١٧، ومصباح الزجاجة : ١٣٠٢) (ضعیف) (سند میں شریک ضعیف الحدیث راوی ہیں، اور ایسے ہی سوید بن سعید متکلم فیہ راوی ہیں، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : رقم : ٤٢٨٥ )

【501】

عید کے روز کھیل کود کرنا اور خوشی منانا

قیس بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جتنی چیزیں تھیں، وہ سب میں نے دیکھیں سوائے ایک چیز کے، وہ یہ کہ عید الفطر کے روز آپ کے لیے گانا بجانا ہوتا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٠٩١، و مصباح الزجاجة : ٤٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٢٢) (ضعیف) (ابواسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے ) ان سندوں سے بھی عامر شعبی سے اسی جیسی روایت آئی ہے۔ وضاحت : ١ ؎: مصباح الزجاجة : بتحقيق د/عوض الشهري : (461)

【502】

عید کے روز برچھی نکالنا

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عید کے دن عید گاہ کی جانب صبح جاتے، اور آپ کے سامنے نیزہ لے جایا جاتا، جب آپ عید گاہ پہنچ جاتے تو آپ کے آگے نصب کردیا جاتا، آپ اس کے سامنے کھڑے ہو کر نماز عید پڑھاتے، اس لیے کہ عید گاہ ایک کھلا میدان تھا اس میں کوئی ایسی چیز نہ تھی جسے نماز کے لیے سترہ بنایا جاتا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العیدین ١٣ (٩٧٢) ، ١٤ (٩٧٣) ، (تحفة الأشراف : ٧٧٥٧) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٧ (٥٠١) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٠٢ (٦٨٧) ، سنن النسائی/العیدین ٩ (١٥٦٦) ، مسند احمد (٢/٩٨، ١٤٥، ١٥١) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٢٤ (١٤٥٠) (صحیح )

【503】

عید کے روز برچھی نکالنا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ عید یا کسی اور دن جب (میدان میں) نماز پڑھتے تو نیزہ آپ کے آگے نصب کردیا جاتا، آپ اس کی جانب رخ کر کے نماز پڑھتے، اور لوگ آپ کے پیچھے ہوتے۔ نافع کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے امراء نے اسے اختیار کر رکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٠٧٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة ٩٢ (٤٩٨) ، صحیح مسلم/الصلاة ٤٧ (٥٠١) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٠٢ (٦٨٧) ، سنن النسائی/القبلة ٤ (٧٤٨) ، مسند احمد (٢/١٣، ١٨، ١٤٢) ، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٩٤١) (صحیح )

【504】

عید کے روز برچھی نکالنا

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عید گاہ میں عید کی نماز نیزہ کو سترہ بنا کے ادا فرمائی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٨، ومصباح الزجاجة : ٤٥٩) (صحیح )

【505】

عورتوں کا عیدین میں نکلنا

ام عطیہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم عورتوں کو عیدین میں لے جائیں، ام عطیہ (رض) کہتی ہیں کہ ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ بتائیے اگر کسی عورت کے پاس چادر نہ ہو تو (کیا کرے ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا : اس کی ساتھ والی اسے اپنی چادر اڑھا دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/العیدین ١ (٨٩٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٧١ (٥٣٩) ، سنن النسائی/الحیض الاستحاضہ ٢٢ (٣٩٠) ، العیدین ٢ (١٥٥٩) ، ٣ (١٥٦٠) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٣٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحیض ٢٣ (٣٢٤) ، الصلاة ٢ (٣٥١) ، العیدین ١٥ (٩٧٤) ، ٢٠ (٩٨٠) ، ٢١ (٩٨١) ، الحج ٨١ (١٦٥٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٤٧ (١١٣٦) ، مسند احمد (٥/٨٤، ٨٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٢٣ (١٦٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ غریب و مسکین عورت بھی عیدگاہ کے لیے نکلے، اگر کپڑے نہ ہوں تو اپنی سہیلی یا رشتے دار عورت سے مانگ لے، اس حدیث سے عورتوں کے عیدین میں عیدگاہ جانے کی بڑی تاکید ثابت ہوتی ہے، بعض نے کہا کہ یہ حکم نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک میں تھا اور اب جب کہ فسق و فجور پھیل گیا ہے تو عورتوں کا باہر نکلنا مناسب نہیں، اور ام المؤمنین عائشہ (رض) نے فرمایا کہ اگر نبی کریم ﷺ عورتوں کے وہ کام دیکھتے جو انہوں نے نکالے ہیں تو یقینا ان کو مسجد میں جانے سے منع کرتے جیسے بنی اسرائیل کی عورتیں منع کی گئیں، اور اس اثر سے خود ان لوگوں کے قول کے خلاف ثابت ہوتا ہے یعنی یہ کہ عورتوں کو باہر نکلنا منع نہیں ہوا۔ برصغیر میں علماء کا ایک طبقہ عورتوں کے عیدگاہ اور مساجد جانے کی بوجوہ چند بڑی مخالفت کرتا ہے، جبکہ نصوص شرعیہ سے عورتوں کا ان جگہوں پر جانا ثابت ہے، اور یہ ان کا حق ہے جو اسلام نے انہیں دیا ہے، بالخصوص اگر ان مساجد اور دینی مراکز کے ذریعہ سے وعظ و تبلیغ اور دینی تعلیم کی ضرورت بھی پوری ہوتی ہو تو اس سلسلہ میں عورتوں کو نہ صرف یہ کہ جانے کی اجازت دینی چاہیے بلکہ اس کا اہتمام بھی کرنا چاہیے، ظاہر بات ہے کہ اسلام نے جو آداب اس سلسلہ میں بتائے ہیں اس کا لحاظ کئے بغیر عورتوں کا باہر نکلنا صحیح اور مناسب نہ ہوگا، لیکن مشاہدہ یہ ہے کہ ہر طرح کے تجارتی اور تفریحی مقامات پر عورتیں بےپردہ اور بےلگام گھوم رہی ہیں اور اس سلسلہ میں کوئی حرج اور انکار کا جذبہ لوگوں میں باقی نہیں رہا، لیکن فقہی فروع کی پابندی اس انداز سے کرائی جاتی ہے کہ شریعت سے ثابت مسائل میں بھی لوگوں کو اعتراض ہوتا ہے، لہذا ہمیں شرعی ضابطہ میں رہ کر عورتوں کو ان دینی مقامات میں جانے کی ترغیب دینی چاہیے کیونکہ یہ ان کا حق ہے، اور اس سے بڑھ کر اگر دینی مسائل کے سیکھنے سکھانے کا موقع بھی فراہم ہو تو اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔

【506】

عورتوں کا عیدین میں نکلنا

ام عطیہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کنواری اور پردہ نشیں عورتوں کو عید گاہ لے جاؤ تاکہ وہ عید میں اور مسلمانوں کی دعا میں حاضر ہوں، البتہ حائضہ عورتیں نماز کی جگہ سے الگ بیٹھیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العدین ١٥ (٩٧٤) ، مخصراً صحیح مسلم/صلاة العیدین ١ (٨٩٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٤٧ (١١٣٦، ١١٣٧) ، مطولاً سنن النسائی/صلاة العیدین ٢ (١٥٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٩٥) (صحیح )

【507】

عورتوں کا عیدین میں نکلنا

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنی بیٹیوں اور بیویوں کو عیدین میں عید گاہ لے جاتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ این ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٨١٨، ومصباح الزجاجة : ٤٦٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣١، ٣٥٣) (ضعیف) (اس حدیث کی سند میں حجاج بن أرطاہ ضعیف اور مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے )

【508】

ایک دن میں دوعیدوں کا جمعہ ہونا

ایاس بن ابورملہ شامی کہتے ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو زید بن ارقم (رض) سے پوچھتے ہوئے سنا : کیا آپ نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ کبھی ایک ہی دن دو عید میں حاضر رہے ؟ انہوں نے کہا : جی ہاں، اس آدمی نے کہا : تو آپ ﷺ کیسے کرتے تھے ؟ انہوں نے کہا : آپ ﷺ نے عید پڑھائی پھر جمعہ کے بارے میں رخصت دے دی اور فرمایا : جو پڑھنا چاہے پڑھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢١٧ (١٠٧٠) ، سنن النسائی/العیدین ٣١ (١٥٩٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٥٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٧٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٢٥، (١٦٥٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جمعہ اور عید دونوں پڑھنا افضل ہے، اور دور دراز کے لوگوں کو اگر جمعہ کے لئے جامع مسجد آنے میں مشقت اور دشواری ہو تو اس صورت میں صرف عید پر اکتفا ہوسکتا ہے، اور اس صورت میں ظہر پڑھ لے۔

【509】

ایک دن میں دوعیدوں کا جمعہ ہونا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارے آج کے دن میں دو عیدیں جمع ہوئی ہیں، لہٰذا جو جمعہ نہ پڑھنا چاہے اس کے لیے عید کی نماز ہی کافی ہے، اور ہم تو انشاء اللہ جمعہ پڑھنے والے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٤١٩، ومصباح الزجاجة : ٤٦١) (صحیح) (ابوداود : ١٠٧٣ ) نے محمد بن المصفی سے اسی سند سے یہ حدیث روایت کی ہے، اور ابن عباس کے بجائے، ابوہریرہ کہا ہے، بوصیری نے اس کو محفوظ کہا ہے، اور وہ مولف کے ہاں آنے والی روایت ہے ) اس سند سے بھی ابوہریرہ (رض) سے اسی جیسی روایت مرفوعاً آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٢١٧ (١٠٧٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢٨٢٧) (ضعیف) (سند میں بقیہ بن الولید مدلس ہیں )

【510】

ایک دن میں دوعیدوں کا جمعہ ہونا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں دو عیدیں (عید اور جمعہ) اکٹھا ہوگئیں، تو آپ نے لوگوں کو عید پڑھائی، پھر فرمایا جو جمعہ کے لیے آنا چاہے آئے، اور جو نہ چاہے نہ آئے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٧٧٢، ومصباح الزجاجة : ٤٦٢) (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں دو راوی مندل و جبارہ ضعیف ہیں )

【511】

بارش میں نماز عید

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں عید کے دن بارش ہوئی، تو آپ ﷺ نے انہیں عید مسجد ہی میں پڑھائی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٥٧ (١١٦٠) ، (تحفة الأشراف : ١٤١٢٠) (ضعیف) (اس کی سند میں عیسیٰ بن عبد الاعلی مجہول ہیں )

【512】

عید کے روز ہتھیار سے لیس ہو نا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اسلامی شہروں میں عیدین کے دنوں میں ہتھیار باندھ کر جانے سے منع فرمایا، الا یہ کہ دشمن کا سامنا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٥٠٨، ومصباح الزجاجة : ٤٦٣) (ضعیف جدا) (نائل بن نجیح کے حدیث کی کوئی اصل نہیں، نیز اسماعیل بن زیاد متروک راوی ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٥٦٤٥ )

【513】

عیدین کے روز غسل کرنا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عید الفطر اور عید الاضحی کے دن غسل کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٥٠٨، ومصباح الزجاجة : ٤٦٤) (ضعیف جدا) (یہ سند بہت ضعیف ہے، اس لئے کہ اس میں جبارہ ہیں، جن کی حدیثوں میں غفلت کی وجہ سے اضطراب ہے، نیز حجاج بن تمیم کی مروی حدیثوں کی کوئی متابعت نہیں، ملاحظہ ہو : الإرواء : ١٤٦ ، امام بزار کہتے ہیں کہ عید ین میں غسل کی کوئی صحیح حدیث مجھے یاد نہیں ہے، ملاحظہ ہو : التلخیص الحبیر ٢ /٦١ )

【514】

عیدین کے روز غسل کرنا

فاکہ بن سعد (رض) جنہیں رسول اللہ ﷺ سے شرف صحبت حاصل تھا کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عید الفطر، عید الاضحی اور عرفہ کے دن غسل فرمایا کرتے تھے اور فاکہ (رض) اپنے اہل و عیال کو ان دنوں میں غسل کا حکم دیا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٠٢٠، ومصباح الزجاجة : ٤٦٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٧٨) (موضوع) (یوسف بن خالد متروک و کذاب ہے، حدیثیں گھڑتا تھا، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ٤١٦ )

【515】

عیدین کی نماز کا وقت

عبداللہ بن بسر (رض) سے روایت ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ عید الفطر یا عید الاضحی کے دن نکلے تو امام کے تاخیر کرنے پر ناگواری کا اظہار کیا، اور کہنے لگے کہ ہم لوگ تو اس وقت عیدین کی نماز سے فارغ ہوجایا کرتے تھے، اور وہ وقت کراہت کے گزرنے کے بعد نماز الضحی (چاشت کی نفل) کا وقت ہوتا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٤٦، (١١٣٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٠٦) (صحیح) (دوسری سندوں سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں راوی عبد الوہاب بن ضحاک متروک ہیں ) وضاحت : ١ ؎: نفل فجر کے بعد اس وقت صحیح ہوتی ہے، جب سورج ایک نیزے کے مقدار بلند ہوجائے۔

【516】

تہجد دو دو رکعتیں پڑھنا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات کی نفل نماز دو دو رکعت پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث : رقم ١١٧٤، (تحفة الأشراف : ٦٦٥٢) (صحیح )

【517】

تہجد دو دو رکعتیں پڑھنا

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رات کی نماز دو دو رکعت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٠٦ (٤٣٧) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٢٤ (١٦٧٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١١٩) (صحیح )

【518】

تہجد دو دو رکعتیں پڑھنا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے رات کی نماز کے متعلق پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : دو دو رکعت پڑھے، جب طلوع فجر کا ڈر ہو تو ایک رکعت وتر پڑھ لے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث طاوس و سالم : أخرجہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٠ (٧٤٩) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٢٤ (١٦٦٨) ، (تحفة الأشراف : ٦٨٣٠، ٧٠٩٩) ، وحدیث عبد اللہ بن دینار عن ابن عمر تفرد بہ ابن ماجہ : (تحفة الأشراف : ٧١٧٦) وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوتر ١ (٩٩٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣١٤ (١٣٢٦) ، موطا امام مالک/صلاةاللیل ٣ (١٣) ، مسند احمد (٢/٤٩، ٥٤، ٦٦) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٥٤ (١٤٩٩) ، ١٥٥ (١٥٠٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس ایک رکعت سے ساری نماز جو اس نے پڑھی ہے وتر ہوجائے گی، اور رات کی نماز کبھی وتر میں داخل ہوتی ہے جیسے ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ سات رکعتیں وتر کی پڑھتے تھے، ان کے بیچ میں نہ سلام پھیرتے تھے، نہ بات کرتے تھے اور کبھی وتر الگ ہوتی ہے جیسے ام المؤمنین عائشہ (رض) کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ رات کو تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے، پانچ رکعتیں ان میں وتر کی ہوتیں، ان میں اخیر میں بیٹھتے، اور ایک حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ رات کو نو رکعتیں پڑھتے تھے، اور آٹھویں کے بعد بیٹھتے تھے پھر سلام پھیرتے تھے، پھر دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے تھے، تو کل گیارہ رکعتیں ہوئیں، پھر اخیر عمر میں سات رکعتیں وتر کی پڑھنے لگے اور چھٹی یا ساتویں رکعت میں بیٹھتے تھے، اور ایک روایت میں ہے کہ سات رکعتیں پڑھیں، صرف آخری رکعت میں بیٹھے، اور ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ رمضان و غیر رمضان میں آٹھ رکعتوں سے زیادہ نہ پڑھتے، اور تین وتر کی پڑھتے تو کل گیارہ رکعتیں ہوئیں، ابن حزم کہتے ہیں کہ احادیث میں رات کی نماز وتر سمیت تیرہ آئی ہے، اور ہر طرح سنت ہے۔

【519】

تہجد دو دو رکعتیں پڑھنا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ رات میں (نفل) نماز دو دو رکعت پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٣٨٠) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الکبرٰي الصلاة ٤٣ (٤٠٥) ، سنن ابی داود/الطہارة ٣٠ (٥٨) ، مسند احمد (١/ ٢١٨) ، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٢٨٨) (صحیح )

【520】

دن اور رات میں نماز دو دو رکعت پڑھنا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا : رات اور دن کی (نفل) نماز دو دو رکعت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٠٢ (١٢٩٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ٣٠١ (٥٩٧) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٢٤ (١٦٦٧) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٤٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٦، ٥١) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٥٥ (١٥٠٠) (صحیح) (والنہار کی زیادتی کے ساتھ یہ حدیث صحیح ہے، ابن خزیمہ ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے، اور کہا کہ اس کے رواة ثقہ ہیں، اور مسلم نے علی البارقی سے حجت پکڑی ہے، اور ثقہ کی زیادتی مقبول ہوتی ہے، علامہ البانی نے سلسلة الاحادیث الصحیحة میں اس کی تصحیح کی ہے، لیکن بعض اہل علم نے والنہار کو ضعیف کہا ہے، کیونکہ یہ زیادتی علی البارقی الازدی کے طریق سے مروی ہے، اور یہ ابن معین کے نزدیک ضیعف ہیں، ملاحظہ ہو : التلخیص ا لحبیر : ٥٤٤ )

【521】

دن اور رات میں نماز دو دو رکعت پڑھنا

ام ہانی بنت ابی طالب (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دن نماز الضحیٰ (چاشت کی نفل) آٹھ رکعت پڑھی، اور ہر دو رکعت پر سلام پھیرا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٠١ (١٢٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الغسل ٢١ (٢٨٠) ، الصلاة ٤ (٣٥٧) ، الجزیة ٩ (٣١٧١) ، الأدب ٩٤ (٦١٥٨) ، صحیح مسلم/الحیض ١٦ (٣٣٦) ، المسافرین ١٣ (٣٣٦) ، سنن الترمذی/الوتر ١٥ (٤٧٤) ، الاستئذان ٣٤ (٢٧٣٤) ، سنن النسائی/الطہارة ١٤٣ (٢٢٦) ، موطا امام مالک/صلاةالضحیٰ ٨ (٢٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٥١ (١٤٩٤) (صحیح) دون زیادة ثم سلم ۔۔۔ الخ کمارواہ الآخرون والمؤلف برقم : ١٣٧٨ ۔ وضاحت : ١ ؎: نماز الضحیٰ کی رکعتوں کی تعداد کے سلسلہ میں روایتوں میں اختلاف ہے، دو ، چار، آٹھ اور بارہ رکعات تک کا ذکر ہے، اس سلسلہ میں صحیح بات یہ ہے کہ روایتوں کے اختلاف کو گنجائش پر محمول کیا جائے، اور جتنی جس کو توفیق ملے پڑھے اس فرق کے ساتھ کہ آٹھ رکعت تک کا ذکر فعلی حدیثوں میں ہے، اور بارہ کا ذکر قولی حدیث میں ہے، بعض نے اسے بدعت کہا ہے لیکن بدعت کہنا غلط ہے، متعدد احادیث سے اس کا مسنون ہونا ثابت ہے، تفصیل کے لئے دیکھئے (مصنف ابن ابی شیبہ ٢ /٤٠٥) ۔ اکثر علماء کے نزدیک چاشت اور اشراق کی نماز ایک ہی ہے، جو سورج کے ایک یا دو نیزے کے برابر اوپر چڑھ آنے پر پڑھی جاتی ہے۔ اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ نماز الضحیٰ چاشت کی نماز اشراق کے بعد پڑھی جاتی ہے۔

【522】

دن اور رات میں نماز دو دو رکعت پڑھنا

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہر دو رکعت پر سلام ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٣٦٠، ومصباح الزجاجة : ٤٦٦) (ضعیف) (اس کی سند میں ابوسفیان طریف بن شھاب السعدی ضعیف راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٤٠٢٣ )

【523】

دن اور رات میں نماز دو دو رکعت پڑھنا

مطلب بن ابی وداعہ ١ ؎ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رات کی نماز دو دو رکعت ہے، اور ہر دو رکعت کے بعد تشہد ہے، اور اللہ کے سامنے اپنی محتاجی و مسکینی ظاہر کرنا، اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا، اور کہنا ہے کہ اے اللہ ! مجھ کو بخش دے، جو کوئی ایسا نہ کرے (یعنی اپنی محتاجی اور فقر و فاقہ ظاہر نہ کرے تو) اس کی نماز ناقص ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٠٢ (١٢٩٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٦٧) (ضعیف) (اس کے روای عبد اللہ بن نافع بن العمیاء مجہول ہیں ) وضاحت : ١ ؎: مطلب بن أبی وداعہ وہم ہے، صحیح (المطلب بن ربیعہ ہے) ملاحظہ ہو : تحفۃ الأشراف : ١١٢٨٨ ، تہذیب الکمال، ترجمہ المطلب بن ربیعہ ٢٨؍ ٧٦ ) ۔

【524】

ماہ رمضان کا قیام ( تر اویح )

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، اور (اس کی راتوں میں) قیام کیا، تو اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٠٩١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الإیمان ٢٨ (٣٧) ، لیلة القدر ١ (٢٠١٤) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٥ (٧٥٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣١٨ (١٣٧١) ، سنن الترمذی/الصوم ١ (٦٨٣) ، سنن النسائی/الصیام ٣ (٦١٠٤) ، موطا امام مالک/الصلاة في رمضان ١ (٢) ، مسند احمد (٢/٢٣٢، ٢٤١، ٣٨٥، ٤٧٣، ٥٠٣) ، سنن الدارمی/الصوم ٥٤ (١٨١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: رمضان میں رات کو عبادت کرنا سنت ہے خواہ اخیر رات میں کرے یا شروع رات میں، اور اس کا وقت نماز عشاء کے بعد سے نماز فجر تک ہے، اور قیام رمضان تہجد پڑھنے سے ادا ہوجاتا ہے، یہ ضروری نہیں کہ تراویح ہی پڑھے، تہجد کی طرح آٹھ رکعتیں تراویح کی ادا کرے، نبی کریم ﷺ سے یہی ثابت ہے۔ لیکن جو شخص آخری رات میں تہجد پڑھتا ہو یا پڑھ سکتا ہو تو اس کے حق میں یہی زیادہ افضل و بہتر ہے کہ وہ آخری رات میں پڑھے، اور اگر پہلے نماز تراویح با جماعت پڑھنی ہو، اور آخری رات میں آدمی تنہا ہو، تو باجماعت نماز اس کے لئے افضل اور زیادہ بہتر ہے اس لئے کہ باجماعت پڑھنے والے کو پوری رات کے قیام کا ثواب ملے گا۔ بیس رکعت کی مروجہ تراویح پر عوام کی محافظت نے صحیح احادیث سے ثابت گیارہ رکعت تراویح کو ترک کردیا ہے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ : ١ ۔ نبی اکرم ﷺ نے ( ١١ ) رکعت سے زیادہ نماز تراویح نہیں ادا فرمائی، اور عمر بن الخطاب (رض) نے ابی بن کعب اور تمیم داری (رض) کو سنت صحیحہ کے مطابق لوگوں کو ( ١١ ) رکعت تراویح ہی پڑھانے کا حکم دیا تھا، واضح رہے کہ عہد فاروقی میں رمضان میں لوگوں کے بیس رکعت تراویح پڑھنے کی روایت شاذ اور ضعیف ہے، اور ثقہ راویوں کی اس روایت کے خلاف ہے کہ یہ ( ١١ ) رکعات تھیں، اور ان کے پڑھانے کا حکم عمر (رض) نے دیا تھا، شاذ روایت (یعنی ثقہ راوی کی روایت جس کی ثقات نے مخالفت کی ہو) اگر صحیح بھی ہوجائے تو ثقات یا زیادہ ثقہ راوی کی صحیح اور محفوظ روایت کو لینا، اور اس پر عمل کرنا اولی اور بہتر ہے، کیونکہ یہ عدد میں سنت نبویہ کے مطابق ہے، نیز اس میں یہ بھی نہیں ہے کہ عمر (رض) نے بیس رکعت پڑھانے کا حکم دیا تھا، بلکہ لوگوں کا فعل تھا جو اس صحیح روایت کے خلاف تھا جس میں ( ١١ ) رکعت تراویح پڑھانے کا حکم موجود ہے، اگر یہ فعل عمر (رض) سے صحیح اور ثابت بھی ہوتا تو اس پر عمل اور مطابق سنت صحیح روایت پر عمل نہ کرنا ایسا امر نہیں تھا کہ عامل بالحدیث جماعت مسلمین کے گروہ سے خارج ہوجائے جیسا کہ تعصب اور جہالت کے شکار لوگ تصور کرتے ہیں، بلکہ زیادہ سے زیادہ جو بات سمجھی جاسکتی ہے وہ بیس رکعات کے جواز کی ہے، لیکن یہ بات قطعی طور سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جس فعل کو کیا، اور جس پر مواظبت فرمائی وہ افضل ہے، اور وہ ( ١١ ) رکعت ہے، ام المؤمنین عائشہ (رض) سے آپ ﷺ کی رمضان کی نماز کے بارے میں استفسار کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ نبی اکرم ﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نماز (تراویح و تہجد) نہیں پڑھتے تھے، چار رکعتیں تو ایسی ادا فرماتے کہ جس کے طول اور حسن کے متعلق کچھ نہ پوچھو، پھر چار رکعتیں مزید پڑھتے اس کے طول وحسن کو نہ پوچھو، پھر تین رکعتیں ادا فرماتے (صحیح بخاری، و صحیح مسلم) ۔ ان رکعات میں کمی بھی ممکن ہے، حتی کہ صرف ایک رکعت ہی پڑھ لے تو ایسا کرسکتا ہے، اس پر رسول اکرم ﷺ کی قولی اور فعلی دونوں حدیثیں دلیل ہیں، ام المؤمنین عائشہ (رض) سے استفسار کیا گیا کہ رسول اللہ ﷺ کتنی رکعت وتر ادا فرماتے تھے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ چار رکعتیں پڑھ کر تین وتر پڑھتے، اور چھ رکعتیں پڑھ کر تین وتر پڑھتے، اور دس رکعتیں پڑھ کر تین وتر پڑھتے، اور سات رکعات سے کم پر آپ وتر نہیں پڑھتے تھے، اور نہ تیرہ رکعات سے زیادہ پڑھتے تھے (سنن ابی داود، مسند احمد) ، اور تیرہ رکعتیں یوں کہ دو رکعتیں عشاء کے بعد کی سنتیں ہیں، یا وہ دو ہلکی رکعتیں جن سے نبی اکرم ﷺ تہجد کی نماز کا افتتاح فرماتے تھے جیسا کہ حافظ ابن حجر نے اس کو راجح قرار دیا ہے۔ اور رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ وتر حق ہے، جو چاہے پانچ رکعت وتر پڑھے، جو چاہے تین رکعت، جو چاہے ایک ہی رکعت پڑھے، (طحاوی، ومستدرک الحاکم) یہ بھی واضح رہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی سے بھی ( ٢٠ ) رکعت تراویح کا پڑھنا ثابت نہیں ہے، اور بیس رکعت پر اجماع کا جن لوگوں نے دعوی کیا ہے ان کا دعوی باطل ہے، سنت سے ثابت ( ١١ ) رکعت تراویح کی وجہ سے علماء نے اس سے زائد رکعات پر نکیر کی ہے۔

【525】

ماہ رمضان کا قیام ( تر اویح )

ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، آپ نے کسی بھی رات ہمارے ساتھ نماز تراویح نہ ادا فرمائی، یہاں تک کہ جب سات راتیں باقی رہ گئیں، تو ساتویں (یعنی تیئیسویں) رات کو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا، یہاں تک کہ رات تہائی کے قریب گزر گئی، پھر اس کے بعد چھٹی (یعنی چوبیسویں) رات کو جو اس کے بعد آتی ہے، آپ نے قیام نہیں کیا یہاں تک کہ اس کے بعد والی پانچویں یعنی (پچیسویں) رات کو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ رات آدھی کے قریب گزر گئی، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کاش آپ باقی رات بھی ہمیں نفل پڑھاتے رہتے، آپ ﷺ نے فرمایا : جو کوئی امام کے ساتھ قیام کرے یہاں تک کہ وہ فارغ ہوجائے، تو وہ ساری رات کے قیام کے برابر ہے، پھر جب اس کے بعد والی چوتھی (یعنی چھبیسویں) رات آئی تو آپ نے اس میں قیام نہیں کیا، جب اس کے بعد والی تیسری (یعنی ستائیسویں) رات آئی تو آپ ﷺ نے اپنی بیویوں اور گھر والوں کو جمع کیا، اور لوگ بھی جمع ہوئے، ابوذر (رض) نے کہا : تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ ہمیں خدشہ ہوا کہ ہم سے فلاح فوت نہ ہوجائے، ان سے پوچھا گیا : فلاح کیا ہے ؟ کہا : سحری : پھر آپ ﷺ نے ماہ رمضان کے باقی دنوں میں تراویح باجماعت نہیں پڑھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣١٨ (١٣٧٥) ، سنن الترمذی/الصوم ٨١ (٨٠٦) ، سنن النسائی/السہو ١٠٣ (١٣٦٥) ، قیام اللیل ٤ (١٦٠٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٥٩، ١٦٣) ، سنن الدارمی/الصوم ٥٤ (١٨١٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اگر مہینہ تیس دن کا شمار کیا جائے تو سات راتیں چوبیس سے رہتی ہیں، اور اگر انتیس دن کا مانا جائے تو تیئسویں سے سات راتیں رہتی ہیں اس حساب سے تیئسویں اور پچیسویں اور ستائیسویں رات میں نبی کریم ﷺ نے قیام کیا، یہ راتیں طاق بھی ہیں اور متبرک بھی، غالب یہی ہے کہ لیلۃ القدر بھی انہیں راتوں میں ہے، اس سے معلوم ہوا کہ ستائیسویں رات کا لیلۃ القدر ہونا راجح ہے، لیلۃ القدر کی تعیین میں لوگوں کا بہت اختلاف ہے اور یقینی طور پر کسی کو معلوم نہیں کہ وہ کب ہے، البتہ جو سال بھر تہجد پڑھتا رہے گا وہ لیلۃ القدر بھی ضرور پائے گا، ان شاء اللہ، اس حدیث میں یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے صرف تین راتیں تراویح پڑھیں، دوسری حدیث میں ہے کہ چوتھی رات کو بھی لوگ جمع ہوئے لیکن آپ ﷺ حجرہ مبارک سے باہر تشریف نہ لائے اور صبح کو فرمایا کہ میں ڈرا ایسا نہ ہو یہ نماز تم پر فرض ہوجائے، اس حدیث سے تراویح کے باجماعت پڑھنے کی مشروعیت ثابت ہوگئی۔

【526】

ماہ رمضان کا قیام ( تر اویح )

نضر بن شیبان کہتے ہیں کہ میں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے ملا اور کہا : آپ مجھ سے کوئی ایسی حدیث بیان کیجئے، جو آپ نے رمضان سے متعلق اپنے والد سے سنی ہو، ابوسلمہ نے کہا : ہاں، میرے والد نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ماہ رمضان کا ذکر کیا تو فرمایا : وہ ایسا مہینہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے اوپر اس کے روزے کو فرض قرار دیا ہے، اور میں نے اس کے قیام اللیل کو تمہارے لیے مسنون قرار دیا ہے، لہٰذا جو شخص ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے اس مہینے میں روزے رکھے، اور راتوں میں نفل پڑھے، وہ اپنے گناہوں سے اس طرح نکل جائے گا جیسے اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے جنا تھا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الصیام ٢٢ (٢٢١٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٢٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٩١، ١٩٥) (ضعیف) (نضر بن شیبان لین الحدیث ہے، جس کی وجہ سے یہ ضعیف ہے، لیکن دوسراٹکڑا فمن صامه وقامه إيمانا واحتسابا شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، کما تقدم، نیز ملاحظہ ہو : التعلیق الرغیب ٢ /٧٣ )

【527】

رات کا قیام

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے ہر شخص کی گدی پر رات میں شیطان رسی سے تین گرہیں لگا دیتا ہے، اگر وہ بیدار ہوا اور اللہ کو یاد کیا، تو ایک گرہ کھل جاتی ہے، پھر جب اٹھ کر وضو کیا تو ایک گرہ اور کھل جاتی ہے، پھر جب نماز کے لیے کھڑا ہوا تو ساری گرہیں کھل جاتی ہیں، اس طرح وہ چست اور خوش دل ہو کر صبح کرتا ہے، جیسے اس نے بہت ساری بھلائی حاصل کرلی ہو، اور اگر ایسا نہ کیا تو سست اور بری حالت میں صبح کرتا ہے، جیسے اس نے کوئی بھی بھلائی حاصل نہیں کی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٥٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/التہجد ١٢ (١٤٤٢) ، بدأالخلق ١١ (٣٢٦٩) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٨ (٧٧٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٠٧ (١٣٠٦) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٥ (١٦٠٨) ، موطا امام مالک/قصرالصلاة ٢٥ (٩٥) ، مسند احمد (٢/٢٤٣، ٢٥٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مولف نے اس حدیث سے قیام اللیل مراد لیا ہے، اور ممکن ہے کہ نماز فجر کے لئے اٹھنے سے اور وضو کرنے سے بھی شیطان کی یہ گرہیں کھل جائیں،والعلم عند الله، ہمیں گرہ کی تاویل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، درحقیقت شیطان یہ گرہیں لگاتا ہے اور بعضوں نے تاویل کی اور اس سے غفلت کی رسی مراد لی، اور گرہوں سے اس غفلت کو مضبوط کردینا، اور رات کے لمبی ہونے کا احساس دلا دینا مراد لیا ہے، جب کہ صحیح بخاری کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ جب وہ اٹھنے کا ارادہ کرتا ہے تو شیطان اس سے کہتا ہے کہ ابھی رات بہت ہے۔

【528】

رات کا قیام

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا گیا جو صبح تک سوتا رہا، آپ نے فرمایا : شیطان نے اس شخص کے کانوں میں پیشاب کردیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التہجد ١٣ (١١٤٤) ، بدأالخلق ١١ (٣٢٧٠) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٨ (٧٧٤) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٥ (١٦٠٩، ١٦١٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٧٥، ٤٢٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بعض لوگوں نے کہا ہے کہ کان میں پیشاب کرنا حقیقت ہے گرچہ ہمیں اس کا ادراک نہیں ہوتا، اور بعضوں کے نزدیک کنایہ ہے اس بات سے کہ جو شخص سویا رہتا ہے اور رات کو اٹھ کر نماز نہیں پڑھتا تو شیطان اس کے لئے اللہ کی یاد میں رکاوٹ بن جاتا ہے، اسی کو شیطان کے آدمی کے کان میں پیشاب کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔

【529】

رات کا قیام

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم فلاں شخص کی طرح نہ ہوجانا جو رات میں تہجد پڑھتا تھا، پھر اس نے اسے چھوڑ دیا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التہجد ١٩ (١١٥٢) ، صحیح مسلم/الصیام ٣٥ (١١٥٩) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٥٠ (١٧٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٦١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٧٠) (صحیح )

【530】

رات کا قیام

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سلیمان بن داود (علیہما السلام) کی ماں نے سلیمان سے کہا : بیٹے ! تم رات میں زیادہ نہ سویا کرو اس لیے کہ رات میں بہت زیادہ سونا آدمی کو قیامت کے دن فقیر کر دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : (تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٠٩٤، ومصباح الزجاجة : ٤٦٧) (ضعیف) (اس حدیث کو ابن الجوزی نے موضوعات میں ذکر کیا ہے، اور کہا ہے : لایصح عن رسول اللہ، ویوسف لایتابع علی حدیثہ، یہ رسول اللہ ﷺ سے صحیح نہیں ہے، اور یوسف کی حدیث کا کوئی متابع نہیں ہے )

【531】

رات کا قیام

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص رات میں زیادہ نمازیں پڑھے گا، دن میں اس کے چہرے سے نور ظاہر ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٣٣٦، ومصباح الزجاجة : ٤٦٨) (موضوع) (ابن الجوزی نے اس حدیث کو باطل کہا ہے، ( ٢ /١٠٩- ١١٠) اس کی سند میں ثابت بن موسیٰ ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٤٦٤٤ )

【532】

رات کا قیام

عبداللہ بن سلام (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ آئے تو لوگ آپ کی طرف دوڑ پڑے، اور انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ آئے ہیں، تو لوگوں کے ساتھ آپ کو دیکھنے کے لیے میں بھی آیا، جب میں نے کوشش کر کے آپ ﷺ کا چہرہ مبارک دیکھا، تو پہچان لیا کہ آپ کا چہرہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہے، پہلی بات آپ نے جو کہی وہ یہ تھی کہ لوگو ! سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ، اور رات کو نماز پڑھو، جب کہ لوگ سوئے ہوں، تب تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤ گے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/القیامة ٤٢ (٢٤٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٣١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٥١) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٥٦ (١٥٠١) ، (حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٣٢٥١) (صحیح )

【533】

رات میں بیوی کو ( نماز تہجد کے لئے) جگا نا

ابوسعید اور ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب آدمی رات میں بیدار ہو اور اپنی بیوی کو جگائے، اور دونوں دو رکعت نماز پڑھیں، تو وہ دونوں ذاکرین (اللہ کی یاد کثرت سے کرنے والے) اور ذاکرات (کثرت سے یاد کرنے والیوں) میں سے لکھے جائیں گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٠٧ (١٣٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٦٥، ١٢١٩٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ان کی شان میں قرآن میں یہ آیا ہے : والذاکرين الله كثيرا والذاکرات اللہ کی یاد کثرت سے کرنے والے مرد اور عورتیں (الأحزاب :35) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قیام اللیل (تہجد) کے لئے دو رکعت بھی کافی ہے، اور سنت آٹھ، دس اور بارہ ہے، اور اس کے بعد وتر، اگر دو رکعت بھی نہ ہو سکیں تو صرف بستر پر ہی رہ کر تھوڑی دیر دعا اور استغفار کرلے، اور اللہ کی یہ یاد بھی غنیمت ہے۔

【534】

رات میں بیوی کو ( نماز تہجد کے لئے) جگا نا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے، جو رات میں بیدار ہوا، اور نماز پڑھی، اور اپنی بیوی کو بھی جگایا، اس نے نماز پڑھی، اگر نہ اٹھی تو اس کے چہرہ پہ پانی چھڑکا، اللہ تعالیٰ اس عورت پر رحم کرے، جو رات میں بیدار ہوئی، پھر اس نے نماز پڑھی اور اپنے شوہر کو جگایا، اس نے بھی نماز پڑھی اگر نہ اٹھا تو اس کے منہ پر پانی چھڑکا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٠٧ (١٣٠٨) ، ٣٤٨ (١٤٥٠) ، سنن النسائی/ قیام اللیل ٥ (١٦١١) ، (تحفة الأشراف : ١٢٨٦٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٥٠، ٤٣٦) (حسن صحیح )

【535】

خوش آوازی سے قرآن پڑھنا

عبدالرحمٰن بن سائب کہتے ہیں کہ ہمارے پاس سعد بن ابی وقاص (رض) آئے، وہ نابینا ہوگئے تھے، میں نے ان کو سلام کیا، تو انہوں نے کہا : تم کون ہو ؟ میں نے انہیں (اپنے بارے میں) بتایا : تو انہوں نے کہا : بھتیجے ! تمہیں مبارک ہو، مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم قرآن اچھی آواز سے پڑھتے ہو، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : یہ قرآن غم کے ساتھ اترا ہے لہٰذا جب تم قرآن پڑھو، تو رؤو، اگر رو نہ سکو تو بہ تکلف رؤو، اور قرآن پڑھتے وقت اسے اچھی آواز کے ساتھ پڑھو ١ ؎، جو قرآن کو اچھی آواز سے نہ پڑھے، وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٩٠٠، ومصباح الزجاجة : ٤٦٩) وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٥٥ (١٤٦٩) (ضعیف) (اس میں راوی ابورافع، اسماعیل بن رافع ضعیف ومتروک ہیں، لیکن آخری جملہ وتغنوا به صحیح ہے، کیونکہ صحیح بخاری میں ابوہریرہ (رض) کی حدیث میں ہے، (البخاری ١٣ / ٥٠ و مسلم ( ١ /٥٤٥ ) وضاحت : ١ ؎: حدیث میں تغنى کا لفظ ہے، اور تغنى کا معنی گانا ہے، قرآن میں تغنى نہیں ہوسکتی، لہذا تغنى سے یہ مراد ہوگا کہ باریک آواز سے درد کے ساتھ اس کو پڑھنا بایں طور کہ پڑھنے والے پر اور سننے والے سب پر اثر ہو، اور دلوں میں اللہ کا خوف اور خشوع پیدا ہو، اور تجوید کے قواعد کی رعایت باقی رہے، کلمات اور حروف میں کمی اور بیشی نہ ہو، سفیان بن عیینہ نے کہا : تغنی بالقرآن کا یہ معنی ہے کہ قرآن کو دولت لازوال سمجھے، اور دنیا داروں سے غنی یعنی بےپرواہ رہے۔

【536】

خوش آوازی سے قرآن پڑھنا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ایک روز میں نے عشاء کے بعد رسول اللہ ﷺ کے پاس آنے میں دیر کردی، جب میں آئی تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم کہاں تھیں ؟ میں نے کہا : آپ کے اصحاب میں سے ایک شخص کی تلاوت سن رہی تھی، ویسی تلاوت اور ویسی آواز میں نے کسی سے نہیں سنی، یہ سنتے ہی آپ کھڑے ہوئے، اور آپ ﷺ کے ساتھ میں بھی کھڑی ہوئی، آپ نے اس شخص کی قراءت سنی، پھر آپ میری جانب متوجہ ہوئے، اور فرمایا : یہ ابوحذیفہ کے غلام سالم ہیں، اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میری امت میں ایسا شخص پیدا کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ، ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٠٣، ومصباح الزجاجة : ٤٧٠) ، ومسند احمد (٦/١٦٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سالم مولی ابوحذیفہ مشہور قاری اور خوش آواز تھے، یہ دونوں صفات ایک قاری میں بہت کم جمع ہوتی ہیں، اکثر لوگ خوش آواز تو ہوتے ہیں لیکن تجوید یعنی قواعد قراءت سے ناواقف ہوتے ہیں، اور بعض قاری ہوتے ہیں لیکن ان کی آواز اچھی نہیں ہوتی، نیز حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ عورت کو اجنبی مرد کی آواز سننے میں کوئی حرج نہیں۔

【537】

خوش آوازی سے قرآن پڑھنا

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگوں میں سب سے عمدہ آواز میں قرآن پڑھنے والا وہ ہے کہ جب تم اس کی قراءت سنو تو تمہیں ایسا لگے کہ وہ اللہ سے ڈرتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٦٤٦، ومصباح الزجاجة : ٤٧١) (صحیح) (دوسرے طرق سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس حدیث کی سند میں دو راوی عبد اللہ بن جعفر اور ابراہیم بن اسماعیل بن مجمع ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو : مصباح الزجاجة : ٤٧٥ ، ب تحقیق عوض الشہری ) وضاحت : ١ ؎: یعنی درد انگیز آواز سے پڑھتا ہو، اور اس پر رقت طاری ہوجاتی ہو۔

【538】

خوش آوازی سے قرآن پڑھنا

فضالہ بن عبید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ خوش الحان شخص کا قرآن اس سے زیادہ متوجہ ہو کر سنتا ہے جتنا کہ گانا سننے والا اپنی توجہ گانے والی کی طرف لگاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٠٤٠، ومصباح الزجاجة : ٤٧٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٩، ٢٠) (ضعیف) (ولید بن مسلم کثیر التدلیس والتسویہ اور میسرہ لین الحدیث ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٢٩٥١ )

【539】

خوش آوازی سے قرآن پڑھنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں داخل ہوئے، وہاں آپ ﷺ نے ایک شخص کی قراءت سنی تو پوچھا : یہ کون ہے ؟ عرض کیا گیا : عبداللہ بن قیس ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : انہیں داؤد (علیہ السلام) کی خوش الحانی میں سے حصہ ملا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥١١٩، ومصباح الزجاجة : ٤٧٣) ، وقد أخر جہ : سنن النسائی/الافتتاح ٨٣ (١٠٢٠) ، مسند احمد (٢/٣٥٤، ٣٦٩، ٤٥٠) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مزامیر: جمع ہے مزمار کی، مزمار کہتے ہیں ستار کو، یا بجانے کے آلہ کو، یہاں مزمار سے مراد خوش الحانی ہے، اور داود (علیہ السلام) بہت خوش الحان تھے۔

【540】

خوش آوازی سے قرآن پڑھنا

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قرآن کو اپنی آوازوں سے زینت دو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٥٥ (١٤٦٨) ، سنن النسائی/الافتتاح ٨٣ (١٠١٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/التوحید ٥٢ تعلیقًا، مسند احمد (٤/٢٨٣، ٢٨٥، ٣٠٤) ، سنن الدارمی/فضائل القرآن ٣٤ (٣٥٤٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: خطابی وغیرہ نے اس کا ایک مفہوم یہ بتایا ہے کہ قرآن کے ذریعہ اپنی آواز کو زینت دو ، یعنی اپنی آوازوں کو قرآن کی تلاوت میں مشغول رکھو، اس مفہوم کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جس میں زينوا أصواتکم بالقرآن کے الفاظ ہیں، اور یہ مطلب نہیں ہے کہ موسیقی کی طرح آواز نکالو۔

【541】

اگر نیند کی وجہ سے رات کا ورد رہ جائے

عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اپنا پورا وظیفہ (ورد) یا اس کا کچھ حصہ چھوڑ کر سو جائے، اور اسے فجر و ظہر کے درمیان پڑھ لے، تو اس کو ایسا لکھا جائے گا گویا اس نے رات میں پڑھا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٨ (٧٤٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٠٩ (١٣١٣) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٩١ (الجمعة ٥٦) (٨٥١) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٥٦ (١٧٩١، ١٧٩٢، ١٧٩٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٩٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/القرآن ٣ (٣) ، مسند احمد (١/٣٢، ٥٣) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٦٧ (١٥١٨) (صحیح )

【542】

اگر نیند کی وجہ سے رات کا ورد رہ جائے

ابوالدرداء (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اپنے بستر پہ آئے، اور ارادہ رکھتا ہو کہ رات میں اٹھ کر نماز پڑھے گا، پھر اسے ایسی نیند آئی کہ صبح ہوگئی، تو اس کا ثواب اس کی نیت کے مطابق لکھا جائے گا، اور اس کا سونا اس کے رب کی طرف سے اس پر صدقہ ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/قیام اللیل ٥٤ (١٧٨٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٣٧) (صحیح) (ملاحظہ ہو : الإرواء : ٤٥٤ )

【543】

کتنے دن میں قرآن ختم کرنا مستحب ہے ؟

اوس بن حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس ثقیف کے ایک وفد میں آئے، تو لوگوں نے قریش کے حلیفوں کو مغیرہ بن شعبہ (رض) کے پاس اتارا، اور رسول اللہ ﷺ نے بنو مالک کو اپنے ایک خیمہ میں اتارا، چناچہ آپ ﷺ ہر رات عشاء کے بعد ہمارے پاس تشریف لاتے، اور کھڑے کھڑے باتیں کرتے یہاں تک کہ ایک پاؤں سے دوسرے پاؤں پر بدل بدل کر کھڑے رہتے، اور اکثر وہ حالات بیان کرتے جو اپنے خاندان قریش سے آپ کو پیش آئے تھے، اور فرماتے : ہم اور وہ برابر نہ تھے، ہم کمزور اور بےحیثیت تھے، لیکن جب ہم مدینہ آئے تو لڑائی کا ڈول ہمارے اور ان کے درمیان رہا، ہم ان کے اوپر ڈول نکالتے اور وہ ہمارے اوپر ڈول نکالتے ١ ؎ ایک رات آپ ﷺ نے اپنے وقت مقررہ پر آنے میں تاخیر کی ؟ تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ نے آج رات تاخیر کی ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : میرا قرآن کا وظیفہ پڑھنے سے رہ گیا تھا، میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ اس کو پورا کئے بغیر نکلوں ۔ اوس کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے اصحاب سے پوچھا : آپ لوگ قرآن کے وظیفے کیسے مقرر کرتے تھے ؟ انہوں نے کہا : پہلا حزب تین سورتوں کا (بقرہ، آل عمران اور نساء) دوسرا حزب پانچ سورتوں کا (مائدہ، انعام، اعراف، انفال اور براءۃ) ، تیسرا حزب سات سورتوں کا (یونس، ہود، یوسف، رعد، ابراہیم، حجر اور نمل) ، چوتھا حزب نو سورتوں کا (بنی اسرائیل، کہف، مریم، طہٰ ، انبیاء، حج، مومنون، نور اور فرقان) ، پانچواں حزب گیارہ سورتوں کا (شعراء، نحل، قصص، عنکبوت، روم، لقمان، سجدہ، احزاب، سبا، فاطر اور یٰسین) ، اور چھٹا حزب تیرہ سورتوں کا (صافات، ص، زمر، ساتوں حوامیم، محمد، فتح اور حجرات) ، اور ساتواں حزب مفصل کا (سورۃ ق سے آخر قرآن تک) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٢٦ (١٣٩٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٧) (ضعیف) (اس سند میں ابوخالد متکلم فیہ نیز عثمان لین الحدیث ہیں، نیز ملاحظہ ہو : ضعیف ابی داود : ٢٤٦ ) وضاحت : ١ ؎: لڑائی کا ڈول ہمارے اور ان کے درمیان رہا یعنی کبھی ہمیں فتح حاصل ہوتی اور کبھی انہیں۔

【544】

کتنے دن میں قرآن ختم کرنا مستحب ہے ؟

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ میں نے قرآن حفظ کیا، اور پورا قرآن ایک ہی رات میں پڑھنے کی عادت بنا لی، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے ڈر ہے کہ کچھ ہی عرصہ گزرنے کے بعد تم اکتا جاؤ گے، لہٰذا تم اسے ایک مہینے میں پڑھا کرو میں نے کہا : مجھے اپنی قوت اور جوانی سے فائدہ اٹھانے دیجئیے آپ ﷺ نے فرمایا : تو دس دن میں پڑھا کرو میں نے کہا : مجھے اپنی قوت اور جوانی سے فائدہ اٹھانے دیجئیے، آپ ﷺ نے فرمایا : ٹھیک ہے تو سات دن میں پڑھا کرو میں نے کہا : مجھے اپنی قوت اور جوانی سے فائدہ اٹھانے دیجئیے، تو آپ ﷺ نے انکار کردیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٩٤٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصوم ٥٤ (١٩٧٨) ، فضائل القرآن ٣٤ (٥٠٥٣، ٥٠٥٤) ، صحیح مسلم/الصوم ٣٥ (١١٥٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٢٥ (١٣٨٨) ، سنن الترمذی/القراء ات ١٣ (٢٩٤٦) ، سنن النسائی/الصیام ٤٥ (٢٣٩١، ٢٣٩٢) ، مسند احمد (٢/١٦٣، ١٩٩) ، سنن الدارمی/فضائل القرآن ٣٢ (٣٥١٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی سات دن سے کم میں ختم قرآن کی اجازت نہ دی، صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ سات دن سے کم میں ختم قرآن نہ کرو، قسطلانی نے کہا کہ یہ نہی حرمت کے لئے نہیں ہے، اور بعض اہل ظاہر کے نزدیک تین دن سے کم میں قرآن ختم کرنا حرام ہے، نووی کہتے ہیں کہ اس کی کوئی حد نہیں، جب تک جی لگے اور جتنی طاقت ہو، اس کے لحاظ سے قرآن پڑھے، اور بہتر یہی ہے کہ سات دن سے کم میں ختم نہ کرے، انتہاء تین دن میں، اور قرآن کے معانی اور مطالب میں غور و فکر کر کے پڑھے، اور ہمارے زمانہ میں تو قرآن کے معانی کا ترجمہ ہر زبان میں ہوگیا ہے، پس ترجمہ کے ساتھ تلاوت کرنا زیادہ ثواب ہے، فقیہ ابواللیث کہتے ہیں کہ اقل درجہ یہ ہے کہ آدمی سال بھر میں قرآن دو بار ختم کرے، اور حسن بن زیاد نے ابوحنیفہ رحمۃ اللہ سے نقل کیا ہے کہ جس نے سال بھر میں دو بار پورے قرآن کی قراءت مکمل کی اس نے قرآن کا حق ادا کیا، کیونکہ جبرئیل (علیہ السلام) نے جس سال نبی کریم ﷺ کی وفات ہوئی، دو بار قرآن کا دور کیا، اور بعض نے کہا چالیس دن سے زیادہ ختم قرآن میں تاخیر کرنا مکروہ ہے۔

【545】

کتنے دن میں قرآن ختم کرنا مستحب ہے ؟

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے قرآن تین دن سے کم میں پڑھا، اس نے سمجھ کر نہیں پڑھا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٢٦ (١٣٩٤) ، سنن الترمذی/القراء ا ت ١٣ (٢٩٤٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٦٣، ١٩٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٣ (١٥٣٤) ، فضائل القرآن ٣٢ (٣٥١٤) (صحیح )

【546】

کتنے دن میں قرآن ختم کرنا مستحب ہے ؟

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک ہی رات میں پورا قرآن پڑھا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/قیام اللیل ١٥ (١٦٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٠٨) ، و صحیح مسلم/المسافرین ١٨ (٧٤٦) (صحیح )

【547】

رات کی نماز میں قرآت

ام ہانی بنت ابی طالب (رض) کہتی ہیں کہ میں رات میں نبی اکرم ﷺ کی قراءت اپنے گھر کی چھت پہ لیٹی ہوئی سنتی رہتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٨٠١٦، ومصباح الزجاجة : ٤٧٤) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الافتتاح ٨١ (١٠١٤) ، مسند احمد (٦/٣٤٢، ٣٤٣، ٣٤٤) ، سنن الترمذی/الشمائل ٤٣ (٣١٨) (حسن صحیح) (اس حدیث کی تخریج میں بوصیری نے شمائل ترمذی اور سنن کبریٰ کا ذکر کیا ہے، جب کہ یہ صغریٰ میں بھی ہے اس لئے یہ زوائد میں سے نہیں ہے )

【548】

رات کی نماز میں قرآت

جسرۃ بنت دجاجہ کہتی ہیں کہ میں نے ابوذر (رض) کو کہتے ہوئے سنا کہ نبی اکرم ﷺ تہجد کی نماز میں کھڑے ہوئے، اور ایک آیت کو صبح تک دہراتے رہے، اور وہ آیت یہ تھی : إن تعذبهم فإنهم عبادک وإن تغفر لهم فإنك أنت العزيز الحکيم اگر تو ان کو عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں، اور اگر تو ان کو بخش دے، تو تو عزیز (غالب) ، اور حکیم (حکمت والا) ہے (سورة المائدة : 118) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٠١٢، ومصباح الزجاجة : ٤٧٥) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الافتتاح ٧٩ (١٠١١) ، مسند احمد (٥/١٤٩) (حسن) (اس کی تخریج میں بوصیری نے سنن کبریٰ کا حوالہ دیا ہے، جب کہ یہ صغریٰ میں موجود ہے، اس لئے یہ زوائد میں سے نہیں ہے ) وضاحت : ١ ؎: یہ سورة المائدۃ کی اخیر آیت ہے، اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان پر وارد ہوئی، وہ قیامت کے دن یہ کہیں گے۔

【549】

رات کی نماز میں قرآت

حذیفہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نماز میں جب کسی رحمت کی آیت سے گزرتے تو اللہ تعالیٰ سے اس کا سوال کرتے، اور عذاب کی آیت آتی تو اس سے پناہ مانگتے، اور جب کوئی ایسی آیت آتی جس میں اللہ تعالیٰ کی پاکی ہوتی تو تسبیح کہتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٧ (٧٧٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٥١ (٨٧١) ، سنن الترمذی/الصلاة ٧٩ (٢٦٢) ، سنن النسائی/الافتتاح ٧٧ (١٠٠٩) ، التطبیق ٧٤ (١١٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٥٨) ، وحم (٥/٣٨٢، ٣٨٤، ٣٩٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ٦٩ (١٣٤٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تلاوت قرآن کے آداب میں سے یہ ہے کہ قرآن شریف سمجھ کر پڑھے، اور رحمت اور وعدوں کی آیتوں پر دعا کرے، اور عذاب و وعید کی آیتوں پر استغفار کرے، اور اللہ کی پناہ مانگے۔

【550】

رات کی نماز میں قرآت

ابولیلیٰ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے پہلو میں نماز پڑھی، آپ رات میں نفل نماز پڑھ رہے تھے، جب عذاب کی آیت سے گزرے تو فرمایا : میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں جہنم کے عذاب سے، اور تباہی ہے جہنمیوں کے لیے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٥٣ (٨٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٥٣) وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٤٧) (ضعیف) (اس سند میں محمد بن عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ ضعیف ہیں )

【551】

رات کی نماز میں قرآت

قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے نبی اکرم ﷺ کی قراءت کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا : آپ ﷺ اپنی آواز کو کھینچتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل القرآن ٢٩ (٥٠٤٥) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٥٥ (١٤٦٥) ، سنن النسائی/الافتتاح ٨٢ (١٠١٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١١٩، ١٢٧، ١٩٨، ٢٨٩) ، سنن الترمذی/الشمائل ٤٣ (٣١٥) (صحیح )

【552】

رات کی نماز میں قرآت

غضیف بن حارث کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین عائشہ (رض) کے پاس آیا، اور ان سے پوچھا : رسول اللہ ﷺ قرآن بلند آواز سے پڑھتے تھے یا آہستہ ؟ انہوں نے کہا : کبھی بلند آواز سے پڑھتے تھے اور کبھی آہستہ، میں نے کہا : اللہ اکبر، شکر ہے اس اللہ کا جس نے اس معاملہ میں وسعت رکھی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٩٠ (٢٢٦) ، فضائل القرآن ٢٣ (٢٢٩٤) ، سنن النسائی/الطہارة ١٤١ (٢٢٣) ، الغسل ٦ (٤٠٥) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٢٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/ ١٣٨، ١٤٩) (حسن صحیح )

【553】

جب رات میں بیدار ہو تو کیا دعا پڑھے ؟

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب رات میں تہجد پڑھتے تو یہ دعا پڑھتے : اللهم لک الحمد أنت نور السموات والأرض ومن فيهن ولک الحمد أنت قيام السموات والأرض ومن فيهن ولک الحمد أنت مالک السموات والأرض ومن فيهن ولک الحمد أنت الحق ووعدک حق ولقاؤك حق وقولک حق والجنة حق والنار حق والساعة حق والنبيون حق ومحمد حق اللهم لك أسلمت وبک آمنت وعليك توکلت وإليك أنبت وبک خاصمت وإليك حاکمت فاغفر لي ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت أنت المقدم وأنت المؤخر لا إله إلا أنت ولا إله غيرک ولا حول ولا قوة إلا بك اے اللہ ! تیری حمد وثناء ہے، تو آسمان و زمین اور ان میں کی تمام چیزوں کا نور ہے، تیری حمد وثناء ہے، تو آسمان و زمین اور ان میں کی تمام چیزوں کی تدبیر کرنے والا ہے، تیری حمد وثناء ہے، تو آسمان و زمین اور ان میں کی تمام چیزوں کا مالک ہے، تیری حمد وثناء ہے، تو برحق ہے، تیرا وعدہ سچا ہے، تیری ملاقات برحق ہے، تیری بات سچی ہے، جنت و جہنم برحق ہیں، قیامت برحق ہے، انبیاء برحق ہیں، اور محمد ﷺ برحق ہیں، اے اللہ ! میں نے تیرے آگے گردن جھکائی، اور تجھ پر ایمان لایا، اور تجھ ہی پر بھروسہ کیا، اور تیری ہی طرف رجوع کیا، اور تیری ہی دلیلوں سے لڑا، اور تیری ہی طرف انصاف کے لیے آیا، تو میرے اگلے اور پچھلے ظاہر اور پوشیدہ گناہوں کو بخش دے، تو ہی آگے کرنے والا ہے، تو ہی پیچھے کرنے والا ہے، تو ہی معبود ہے، تیرے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، اور تیرے سوا کسی کا زور اور طاقت نہیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التہجد ١ (١١٢٠) ، والدعوات ١٠ (٦٣١٧) ، التوحید ٨ (٧٣٨٥) ، ٢٤ (٧٤٤٢) ، ٣٥ (٧٤٩٩) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٦ (٧٦٩) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٩ (١٦٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٠٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/القرآن ٨ (٣٤) ، مسند احمد (١/٢٩٨، ٣٥٨، ٣٦٦) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٦٩ (١٥٢٧) (صحیح ) اس سند سے بھی ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب رات میں تہجد کے لیے کھڑے ہوئے ... پھر انہوں نے اسی جیسی حدیث ذکر کی۔

【554】

جب رات میں بیدار ہو تو کیا دعا پڑھے ؟

عاصم بن حمید کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے پوچھا : نبی اکرم ﷺ نماز تہجد کی ابتداء کس چیز سے کیا کرتے تھے ؟ انہوں نے کہا : تم نے مجھ سے ایک ایسی چیز کے متعلق سوال کیا ہے کہ تم سے پہلے کسی نے بھی اس کے متعلق یہ سوال نہیں کیا تھا، آپ ﷺ دس مرتبہ الله أكبر، دس مرتبہ الحمد لله، دس مرتبہ سبحان الله، دس مرتبہ استغفرالله کہتے، اور اس کے بعد یہ دعا پڑھتے : اللهم اغفر لي واهدني وارزقني وعافني اے اللہ ! مجھے بخش دے، مجھے ہدایت دے، مجھے رزق دے، اور مجھے عافیت دے ، اور آپ ﷺ قیامت کے دن جگہ کی تنگی سے پناہ مانگتے تھے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٢١ (٧٦٦) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٩ (١٦١٨) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٦٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٤٣) (حسن صحیح )

【555】

جب رات میں بیدار ہو تو کیا دعا پڑھے ؟

ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے پوچھا : نبی اکرم ﷺ جب رات میں قیام کرتے تو کس دعا سے اپنی نماز شروع کرتے تھے ؟ انہوں نے کہا : آپ یہ دعا پڑھتے تھے : اللهم رب جبرئيل وميكائيل وإسرافيل فاطر السموات والأرض عالم الغيب والشهادة أنت تحکم بين عبادک فيما کانوا فيه يختلفون اهدني لما اختلف فيه من الحق بإذنك إنک لتهدي إلى صراط مستقيم اے اللہ ! جبرائیل، ١ ؎ میکائیل، اور اسرافیل کے رب، آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے، غائب اور حاضر کے جاننے والے، تو اپنے بندوں کے درمیان ان کے اختلافی امور میں فیصلہ کرتا ہے، تو اپنے حکم سے اختلافی امور میں مجھے حق کی راہنمائی فرما، بیشک تو ہی راہ راست کی راہنمائی فرماتا ہے۔ عبدالرحمٰن بن عمر کہتے ہیں : یاد رکھو جبرائیل ہمزہ کے ساتھ ہے کیونکہ نبی اکرم ﷺ سے ایسا ہی منقول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٦ (٧٧٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٢١ (٧٦٧) ، سنن الترمذی/الدعوات ٣١ (٣٤٢٠) ، سنن النسائی/قیام اللیل ١١ (١٦٢٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٧٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٥٦) (حسن) (شواہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ سند میں یحییٰ بن ابی کثیر مدلس ہیں، اور یہاں عنعنہ سے روایت کی ہے ) وضاحت : ١ ؎: اور قرآن میں جو جبریل کا لفظ آیا ہے، اس میں بھی قراءت کا اختلاف ہے، بعض جبریل پڑھتے ہیں، اور بعض جبرائیل، اور بعض جبرئیل، یہ عبرانی لفظ ہے، اس کے معنی اللہ کا بندہ، اور جبرئیل وحی کے فرشتہ ہیں، میکائیل روزی کے، اسرافیل صور پھونکنے کے۔

【556】

رات کو تہجد کتنی رکعات پڑھے ؟

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نماز عشاء کے بعد سے فجر تک گیارہ رکعت پڑھتے تھے، اور ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے، اور ایک رکعت وتر پڑھتے تھے، اور ان رکعتوں میں سجدہ اتنا طویل کرتے کہ کوئی سر اٹھانے سے پہلے پچاس آیتیں پڑھ لے، اور جب مؤذن صبح کی پہلی اذان سے فارغ ہوجاتا تو آپ کھڑے ہوتے، اور دو ہلکی رکعتیں پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣١٦ (١٣٣٦، ١٣٣٧) ، سنن النسائی/الأذان ٤١ (٦٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٦١٥، ١٦٦١٨، ومصباح الزجاجة : ٤٧٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ١٢ (٦١٩) ، ا التہجد ٣ (١١٢٣) ، صحیح مسلم/المسافرین ١٧ (٧٣٦) ، سنن الترمذی/الصلاہ ٢٠٩ (٤٤١) ، موطا امام مالک/صلاة اللیل ٢ (٨) ، مسند احمد (٦/٣٤، ٣٥) ، سنن الدارمی/الصلاہ ١٤٨ (١٤٨٧) (صحیح) (بوصیری نے اس حدیث کی تخریج میں سنن کبریٰ کا ذکر کیا ہے، جب کہ یہ سنن صغری میں ہے، اس لئے یہ زدائد میں سے نہیں ہے، کما سیأتی : ٣٦١ أیضاً )

【557】

رات کو تہجد کتنی رکعات پڑھے ؟

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ رات میں تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٧ (٧٣٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٠٥٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/التہجد ١٠ (١١٤٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣١٦ (١٣٣٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢١٠ (٤٤٤) ، موطا امام مالک/صلاة اللیل ٢ (٨) (صحیح) (دوسری روایت میں ہے کہ تیرہ رکعتوں میں ایک رکعت وتر کی، اور دو رکعت فجر کی سنت تھی، نیز دوسری احادیث میں ١١ رکعت کا ذکر ہے اس لئے بعض اہل علم نے ١٣ والی رکعت کو شاذ کہا ہے، ملاحظہ ہو : فتح الباری و تمام المنة) ۔

【558】

رات کو تہجد کتنی رکعات پڑھے ؟

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ رات میں نو رکعتیں پڑھتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢١١ (٤٤٣، ٤٤٤) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٣٣ (١٦٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٥١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ١٢ (٦١٩) ، الوتر ٣ (١١٢٣) ، صحیح مسلم/المسافرین ١٧ (٧٣٨) ، سنن ابی داود/الصلاہ ٢٩٣ (١٣٣٤) ، مسند احمد (٦/١٠٠، ٢٥٣) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٤٨، (١٤٨٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس باب میں مختلف روایات وارد ہوئی ہیں، کسی میں سات رکعت ہے، کسی میں نو رکعت، کسی میں گیارہ رکعت، اور کسی میں تیرہ رکعت کا ذکر ہے، واضح رہے آپ ﷺ تہجد کی ہمیشہ آٹھ رکعت پڑھتے، اور یہ اختلاف وتر میں ہے کیونکہ آپ کبھی وتر کی ایک رکعت پڑھتے، تو کل نو رکعت ہوتیں، اور کبھی تین رکعت پڑھتے تو گیارہ رکعت ہوتیں، اور کبھی پانچ رکعت وتر پڑھتے تو سب مل کر تیرہ رکعت ہوجاتیں، اور بعض نے تیرہ رکعت کی اس طرح توجیہ کی ہے کہ آپ آٹھ رکعت تہجد، اور تین رکعت وتر، اور دو رکعت فجر کی سنتیں سب مل کر تیرہ رکعت ہوتیں ہیں پڑھتے تھے جیسا کہ آنے والی حدیث میں مذکور ہے واللہ اعلم۔

【559】

رات کو تہجد کتنی رکعات پڑھے ؟

عامر شعبی کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے رسول اللہ ﷺ کی رات کی نماز کے متعلق پوچھا تو ان دونوں نے کہا : تیرہ رکعت، ان میں آٹھ رکعت (تہجد کی ہوتی) اور تین رکعت وتر ہوتی، اور دو رکعت فجر کے بعد کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٧٧٠، ومصباح الزجاجة : ٤٧٦) (صحیح) (دوسری سندوں سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں ابواسحاق مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت کی ہے )

【560】

رات کو تہجد کتنی رکعات پڑھے ؟

زید بن خالد جہنی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے جی میں کہا کہ میں آج رات رسول اللہ ﷺ کی نماز ضرور دیکھوں گا، میں نے آپ کی چوکھٹ یا خیمہ پر ٹیک لگا لیا، آپ کھڑے ہوئے، آپ نے دو ہلکی رکعتیں پڑھیں، پھر اس کے بعد دو رکعتیں کافی لمبی پڑھیں، پھر دو رکعتیں پچھلی دو رکعتوں سے کچھ ہلکی پڑھیں، پھر دو رکعتیں پچھلی دو رکعتوں سے ہلکی پڑھیں، پھر دو رکعتیں پچھلی دو رکعتوں سے ہلکی پڑھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں، پھر وتر ادا کی تو یہ سب تیرہ رکعتیں ہوئیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٦ (٧٦٥) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣١٦ (١٣٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٥٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/صلاة اللیل ٢ (١٣) ، سنن الترمذی/الشمائل (٢٦٩) ، مسند احمد (٥/١٩٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس روایت سے تہجد کی بارہ رکعت نکلتی ہیں، اور ایک رکعت وتر کی، اور احتمال ہے کہ تہجد کی آٹھ ہی رکعت ہوں، اور پانچ وتر کی ہوں، لیکن دو ، دو رکعت الگ الگ پڑھنے سے راوی کو گمان ہوا ہو کہ یہ بھی تہجد ہے، واللہ اعلم۔

【561】

رات کو تہجد کتنی رکعات پڑھے ؟

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ وہ اپنی خالہ ام المؤمنین میمونہ (رض) کے پاس سوئے، وہ کہتے ہیں : میں تکیہ کی چوڑان میں لیٹا اور نبی اکرم ﷺ اور آپ کی بیوی اس کی لمبائی میں لیٹے، نبی اکرم ﷺ سو گئے، جب آدھی رات سے کچھ کم یا کچھ زیادہ وقت گزرا تو آپ ﷺ بیدار ہوئے، اور نیند کو زائل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ اپنے چہرہ مبارک پر پھیرنے لگے، پھر سورة آل عمران کی آخری دس آیتیں پڑھیں، اس کے بعد ایک لٹکی ہوئی مشک کے پاس گئے، اور اس سے اچھی طرح وضو کیا، پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے، میں بھی اٹھا، اور میں نے بھی ویسے ہی کیا جیسے نبی اکرم ﷺ نے کیا، پھر میں گیا، اور آپ کی بغل میں کھڑا ہوگیا، آپ ﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا، اور میرے دائیں کان کو ملتے رہے، آپ نے دو رکعتیں پڑھیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں پھر وتر ادا کی، پھر لیٹ گئے، جب مؤذن آیا تو دو ہلکی رکعتیں پڑھیں پھر نماز (فجر) کے لیے نکل گئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٥ ٣٧ (١٨٣) ، الأذان ٥٨ (٦٩٨) ، ٧٧ (٧٢٦) ، ١٦١ (٨٥٩) ، الوتر ١ (٩٩٢) ، العمل في الصلاة ١ (١١٩٨) ، الدعوات ١٠ (٦٣١٦) ، التوحید ٢٧ (٧٤٥٢) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٦ (٧٦٣) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣١٦ (١٣٦٧) ، سنن الترمذی/الشمائل ٣٨ (٢٦٥) ، سنن النسائی/الأذان ٤١ (٦٨٧) ، التطبیق ٦٣ (١١٢٢) ، قیام اللیل ٩ (١٦٢١) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٦٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/صلاة اللیل ٢ (١١) ، مسند احمد (١/٢٤٥، ٣٤٣، ٣٥٨) (صحیح )

【562】

رات کی افضل گھڑی

عمرو بن عبسہ (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، اور میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ کے ساتھ کون کون سے لوگ اسلام لائے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ایک آزاد اور ایک غلام ١ ؎ میں نے پوچھا : کیا کوئی گھڑی دوسری گھڑی کے مقابلے میں ایسی ہے جس میں اللہ کا قرب زیادہ ہوتا ہو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں رات کی درمیانی ساعت (گھڑی) ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٦٢، ومصباح الزجاجة : ٤٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/ ١١١، ١١٣، ١١٤، ٣٨٥) (صحیح) (سند میں عبد الرحمن بن البیلمانی کا سماع عمرو بن عبسہ سے ثابت نہیں ہے، نیز یزید بن طلق مجہول ہیں، لیکن شواہد ومتابعات کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، لیکن جوف الليل الأوسط کا لفظ منکر ہے، صحیح الآخر کے لفظ سے ہے، یہ حدیث ( ١٢٥١ ) نمر پر گذری ملاحظہ ہو، صحیح ابی داود : ١١٥٨ ) ۔ وضاحت : ١ ؎: آزاد سے ابوبکر صدیق (رض) اور غلام سے مراد بلال (رض) ہیں۔ ٢ ؎: یعنی درمیانی رات کے وقت، ایک دوسری حدیث میں ہے کہ اخیر تہائی رات میں اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر اترتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ اخیر کی تہائی رات زیادہ افضل ہے، اور ممکن ہے کہ درمیانی رات کے وقت سے یہی مراد ہو، کیونکہ شروع اور آخر کے اندر سب درمیان ہے۔

【563】

رات کی افضل گھڑی

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ شروع رات میں سو جاتے تھے، اور اخیر رات میں عبادت کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٠١٧، ومصباح الزجاجة : ٤٧٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/التہجد ١٥ (١١٤٦) ، صحیح مسلم/المسافرین ١٧ (٧٣٩) ، سنن النسائی/قیام اللیل ١٥ (١٦٤١) ، مسند احمد (٦/١٠٢، ٢٥٣) (صحیح) (اسرائیل نے اس حدیث کو ابو اسحاق سے اختلاط سے پہلے روایت کیا ہے )

【564】

رات کی افضل گھڑی

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس وقت اخیر کی تہائی رات رہ جاتی ہے تو ہمارا رب جو کہ برکت والا اور بلند ہے، ہر رات آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے، اور فرماتا ہے : کوئی ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اس کو دوں ؟ کوئی ہے جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا قبول کروں ؟ کوئی ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے اور میں اسے بخش دوں ؟ اور یہ سلسلہ طلوع فجر تک جاری رہتا ہے ، اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اخیر رات میں عبادت کرنا بہ نسبت اول رات کے پسند کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التہجد ١٤ (١١٤٥) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٤ (٧٥٨) ، سنن ابی داود/السنة ٢١ (٤٧٣٣) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢١٢ (٤٤٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥١٢٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/القرآن ١ (٣٠) ، مسند احمد (٢/٢٦٤، ٢٦٧، ٢٨٢، ٤١٩، ٤٨٧، ٥٠٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٦٨ (١٥٢٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ حدیث بڑی عظیم الشان ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس کی شرح میں ایک مستقل کتاب لکھی ہے، جس کا نام کتاب شرح احادیث النزول ہے، نزول : اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے جیسے سمع، بصر، کلام، ضحک، تعجب، اور صعود وغیرہ، اس کے ظاہری معنی یعنی اترنے پر ہمارا ایمان ہے، اور اس کی کیفیت اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے، اور متاخرین اہل کلام نے اس کی واہی اور کمزور تاویلیں کی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ نزول سے مراد اس کی رحمت کا نزول ہے، یا اس کے فرشتے کا اترنا ہے، جہمیہ اور منکرین صفات نے بھی یہی کہا ہے، اور علمائے حق ہمیشہ سے ان کے مخالف اور رد کرنے والے رہے ہیں، امام الائمۃ احمد بن حنبل (رح) نے ایک جہمی سے کہا : اچھا اللہ کی رحمت یا اس کا امر کہاں سے اترتا ہے، جب تو اسی بات کا قائل نہیں ہے کہ اللہ اوپر ہے، تو رحمت اور امر کس کے پاس سے اترتا ہے، اور یہ حدیث اللہ تعالیٰ کے علو کے اثبات میں ایک قوی دلیل ہے۔

【565】

رات کی افضل گھڑی

رفاعہ جہنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیشک اللہ مہلت دیتا ہے (اپنے بندوں کو کہ وہ سوئیں اور آرام کریں) یہاں تک کہ جب رات کا آدھا یا اس کا دو تہائی حصہ گزر جاتا ہے، تو فرماتا ہے : میرے بندے ! میرے سوا کسی سے ہرگز نہ مانگیں، جو کوئی مجھے پکارے گا میں اس کی دعا قبول کروں گا، جو مجھ سے سوال کرے گا میں اسے دوں گا، جو مجھ سے مغفرت چاہے گا، میں اسے بخش دوں گا، طلوع فجر تک یہی حال رہتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٦١١، ومصباح الزجاجة : ٤٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٦) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٦٨ (١٥٢٢) (صحیح) (دوسری سند سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں محمد بن مصعب ضعیف ہیں، جن کی عام احادیث او زاعی سے مقلوب (الٹی پلٹی) ہیں، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ٢ /١٩٨ ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رات کے آخری حصہ میں بیدار ہو کر عبادت کرنا چاہیے، اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرنا اور گناہوں سے مغفرت طلب کرنا چاہیے کیونکہ یہ دعاؤں کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے، اور خود اللہ رب العزت بندوں سے فرماتا ہے : جو کوئی مجھے پکارے گا، میں اس کی پکار کو سنوں گا، جو کوئی مانگے گا اسے دوں گا، اور جو کوئی گناہوں سے معافی طلب کرے گا، میں اسے معاف کر دوں گا۔

【566】

قیام اللیل کی بجائے جو عمل کافی ہوجائے

ابومسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سورة البقرہ کی آخر کی دو آیتیں جو رات میں پڑھے گا، تو وہ دونوں آیتیں اس کو کافی ہوں گی ١ ؎۔ حفص نے اپنی حدیث میں کہا کہ عبدالرحمٰن کہتے ہیں : میں نے ابومسعود (رض) سے ملاقات کی وہ طواف کر رہے تھے تو انہوں نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ١٢ (٤٠٠٨) ، صحیح مسلم/المسافرین ٤٣ (٨٠٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٢٦ (١٣٩٧) ، سنن الترمذی/فضائل القرآن ٤ (٢٨٨١) ، (تحفةالأشراف : ٩٩٩٩، ١٠٠٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١١٨، ١٢١، ١٢٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٠ (١٥٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کافی ہونے سے مراد یہ ہے کہ یہ دونوں آیتیں رات کے قیام اور عبادت کے بدلہ میں کافی ہوجائیں گی، جیسا کہ ترجمہ باب سے پتہ چلتا ہے۔

【567】

قیام اللیل کی بجائے جو عمل کافی ہوجائے

ابومسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے سورة البقرہ کی آخری دو آیتیں ایک رات میں پڑھیں، تو وہ دونوں اسے کافی ہوں گی ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح

【568】

جب نمازی کو اونگھ آنے لگے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب کسی شخص کو اونگھ آئے تو سو جائے یہاں تک کہ نیند جاتی رہے، اس لیے کہ اگر وہ اونگھنے کی حالت میں نماز پڑھے گا تو اسے یہ خبر نہ ہوگی کہ وہ استغفار کر رہا ہے، یا اپنے آپ کو بد دعا دے رہا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث أبي بکر بن أبي شیبة أخرجہ : صحیح مسلم/المسافرین ٣١ (٧٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦٩٨٣) ، وحدیث محمد بن عثمان العثمانی، تفرد بہ ابن ماجہ : (تحفة الأشراف : ١٧٠٢٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوضوء ٥٣ (٢١٢) ، سنن ابی داود/الصلا ٣٠٨ (١٣١٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٤٦ (٣٥٥) ، سنن النسائی/الطہارة ١١٧ (١٦٢) ، موطا امام مالک/صلاة اللیل ١ (٣) ، مسند احمد (٦/٥٦، ٢٠٥) ، دی/الصلاة ١٠٧ (١٤٢٣) (صحیح )

【569】

جب نمازی کو اونگھ آنے لگے

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں داخل ہوئے، تو دو ستونوں کے درمیان ایک رسی تنی ہوئی دیکھی، پوچھا یہ رسی کیسی ہے ؟ لوگوں نے کہا : زینب کی ہے، وہ یہاں نماز پڑھتی ہیں، جب تھک جاتی ہیں تو اسی رسی سے لٹک جاتی ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : اسے کھول دو ، اسے کھول دو ، تم میں سے نماز پڑھنے والے کو نماز اپنی نشاط اور چستی میں پڑھنی چاہیئے، اور جب تھک جائے تو بیٹھ رہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التہجد ١٨ (١١٥٠) ، صحیح مسلم/المسافرین ٣٢ (٧٨٤) ، سنن النسائی/قیام اللیل ١٥ (١٦٤٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٠٨ (١٣١١) ، مسند احمد (٣/١٠١، ١٨٤، ٢٠٤، ٢٥٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جب تھک جائے تو نماز سے رک جائے اور آرام کرے، مقصد یہ ہے کہ طاقت سے زیادہ نفلی عبادت ضروری نہیں ہے، جب تک دل لگے اس وقت تک کرے، بےدلی اور نفرت کے ساتھ عبادت کرنے سے بچتا رہے، اور اگر نفلی عبادت سے تھک کر کوئی آرام کرے، تاکہ دوبارہ عبادت کی قوت حاصل ہوجائے، تو اس کا یہ آرام بھی مثل عبادت کے ہوگا۔

【570】

جب نمازی کو اونگھ آنے لگے

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب کوئی شخص نماز کے لیے کھڑا ہو پھر (نیند کے غلبے کی وجہ سے) قرآن اس کی زبان پر لڑکھڑانے لگے، اور اسے معلوم نہ رہے کہ زبان سے کیا کہہ رہا ہے، تو اسے سو جانا چاہیئے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٨١٥) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المسافرین ٣١ (٧٨٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٠٨ (١٣١١) ، مسند احمد (٢/٢١٨) (صحیح )

【571】

مغرب وعشاء کے درمیان نماز پڑھنے کی فضیلت

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے مغرب اور عشاء کے درمیان بیس رکعت پڑھی، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ (تحفة الأشراف : ١٧٣٣٦، ومصباح الزجاجة : ٤٨١) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٠٤ (٤٣٥) (موضوع) (اس کی سند میں یعقوب بن ولید ہے جو حدیثیں وضع کیا کرتا تھا، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٤٦٧ )

【572】

مغرب وعشاء کے درمیان نماز پڑھنے کی فضیلت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھیں، اور بیچ میں زبان سے کوئی غلط بات نہیں نکالی، تو اس کی یہ نماز بارہ سال کی عبادت کے برابر قرار دی جائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (١١٦٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥٤١٢) (ضعیف جدا) (اس کی سند میں عمر بن ابی خثعم الیمانی منکر الحدیث اور ابو عمر حفص بن عمر ضعیف ہے )

【573】

گھر میں نفل پڑھنا

عاصم بن عمرو کہتے ہیں کہ عراق کے کچھ لوگ عمر (رض) سے ملنے کے لیے چلے، جب آپ ان کے پاس پہنچے تو آپ نے ان سے پوچھا : تم لوگ کس جگہ سے تعلق رکھتے ہو ؟ ان لوگوں نے کہا : عراق سے، پوچھا : کیا اپنے امیر کی اجازت سے آئے ہو ؟ ان لوگوں نے کہا : ہاں، انہوں نے عمر (رض) سے گھر میں نماز پڑھنے کے متعلق پوچھا : تو آپ نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : تو آپ ﷺ نے فرمایا : آدمی کا گھر میں نماز پڑھنا نور ہے، لہٰذا تم اپنے گھروں کو روشن کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٤٧٦، ومصباح الزجاجة : ٤٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٤) (ضعیف) (اس کی سند میں عاصم بن عمرو ضعیف ہیں ) اس سند سے بھی عمر بن خطاب (رض) سے اسی جیسی روایت مرفوعاً آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٢١، ومصباح الزجاجة : ٤٨٢) (ضعیف) (اس کی سند میں بھی عاصم بن عمرو ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎: مصباح الزجاجۃ کے دونوں نسخوں میں یحییٰ بن أبی الحسین ہے، صحیح : محمد بن أبی الحسین ہے، ملاحظہ ہو : التقریب : ٥٨٢٦ و ٥٨٥٩ ) ۔

【574】

گھر میں نفل پڑھنا

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب کوئی شخص اپنی نماز ادا کرلے تو اس میں سے اپنے گھر کے لیے بھی کچھ حصہ رکھے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اس کی نماز کی وجہ سے اس کے گھر میں خیر پیدا کرنے والا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٩٨٥، ومصباح الزجاجة : ٤٨٣) ، ومسند احمد (٣/١٥، ٥٩) (صحیح )

【575】

گھر میں نفل پڑھنا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٥٢ (٤٣٢) ، التہجد ٣٧ (١١٨٧) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٩ (٧٧٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٠٥ (١٠٤٣) ، ٣٤٦ (١٤٤٨) ، (تحفة الأشراف : ٨١٤٢) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢١٤ (٤٥١) ، سنن النسائی/قیام اللیل ١ (١٥٩٩) ، مسند احمد (٢/٦، ١٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: گھر کو قبرستان بنانے کا مطلب یہ ہے کہ قبرستان کی طرح گھر میں بھی عدم عبادت والی ویرانی ماحول پیدا نہ کرو، بلکہ نفلی نماز گھر ہی میں پڑھا کرو تاکہ گھر میں بھی اللہ کی عبادت والا ایک پر رونق ماحول دیکھائی دے کہ جس سے بچوں کی تربیت میں بھی پاکیزگی کا اثر نمایاں ہوگا۔

【576】

گھر میں نفل پڑھنا

عبداللہ بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا : دونوں میں کون افضل ہے گھر میں نماز پڑھنا یا مسجد میں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تم میرے گھر کو نہیں دیکھتے کس قدر مسجد سے قریب ہے، اس کے باوجود بھی مجھے فرض کے علاوہ نفلی نمازیں گھر میں پڑھنی زیادہ محبوب ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٣٢٧، ومصباح الزجاجة : ٤٨٤) ، وحم (٤/٣٤٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نوافل کا گھر میں پڑھنا زیادہ افضل ہے۔

【577】

چاشت کی نماز

عبداللہ بن حارث کہتے ہیں کہ میں نے عثمان بن عفان (رض) کے زمانے میں نماز الضحی (چاشت کی نماز) کے متعلق پوچھا اور اس وقت لوگ (صحابہ) بہت تھے، لیکن ام ہانی (رض) کے علاوہ کسی نے مجھے یہ نہیں بتایا کہ آپ نے یعنی نبی اکرم ﷺ نے یہ نماز پڑھی، ہاں ام ہانی (رض) نے یہ مجھے بتایا کہ آپ ﷺ نے آٹھ رکعت پڑھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٦١٤) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٠٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بہت سی احادیث سے یہ ثابت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے چاشت کی نماز پڑھی، اور اس کے پڑھنے کی فضیلت بیان کی، اتنی بات ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اس پر مواظبت نہیں کی، یہی وجہ ہے کہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی اکرم ﷺ کو پابندی سے چاشت کی نماز پڑھتے نہیں دیکھا، دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آپ نوافل کی طرح اس کو گھر میں ادا کرتے رہے ہوں، جس سے اکثر لوگوں کو پتا نہ چلا ہو۔

【578】

چاشت کی نماز

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جس نے نماز الضحی (چاشت کی نماز) بارہ رکعت پڑھی، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں سونے کا محل بنائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٢٩ (٤٧٣) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٥) (ضعیف) (اس کی سند میں محمد بن اسحاق مدلس اور موسیٰ بن انس ضعیف ہیں )

【579】

چاشت کی نماز

معاذہ عدویہ کہتی ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے پوچھا : کیا نبی اکرم ﷺ نماز الضحی (چاشت کی نماز) پڑھتے تھے ؟ کہا : ہاں، چار رکعت، اور جتنا اللہ چاہتا زیادہ پڑھتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٣ (٧١٩) ، سنن الترمذی/الشمائل (٢٨٨) سنن النسائی/الکبري الصلاة ٦٧ (٤٧٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٧٤، ٩٥، ١٢٠، ١٢٣، ١٤٥، ١٥٦، ١٦٨، ١٧٢، ٢٦٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: صلاۃ الضحی (چاشت کی نماز) کم سے کم دو رکعت، اور زیادہ سے زیادہ بارہ رکعت ہے، واللہ اعلم۔

【580】

چاشت کی نماز

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص نماز الضحی (چاشت) کی دو رکعتوں پر محافظت کرے گا، اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے، خواہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٢٩ (٤٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٩١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٤٣، ٤٩٧، ٤٩٩) (ضعیف) (سند میں نہ اس بن قہم ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : الارواء : ٥٦٢ )

【581】

نماز اسخارہ

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں نماز استخارہ سکھاتے تھے جس طرح قرآن کی سورة سکھایا کرتے تھے، آپ ﷺ فرماتے تھے : جب کوئی شخص کسی کام کا ارادہ کرے، تو فرض کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھے، پھر یہ دعا پڑھے : اللهم إني أستخيرک بعلمک وأستقدرک بقدرتک وأسألک من فضلک العظيم فإنک تقدر ولا أقدر و تعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم هذا الأمر (پھر متعلق کام یا چیز کا نام لے) خيرا لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو خيرا لي في عاجل أمري وآجله۔ فاقدره لي ويسره لي و بارک لي فيه وإن كنت تعلم (پھر ویسا ہی کہے جیسے پہلی بار کہا) ، وإن کان شرا لي فاصرفه عني واصرفني عنه واقدر لي الخير حيثما کان ثم رضني به اے اللہ ! میں تیرے علم کی مدد سے خیر مانگتا ہوں، اور تیری قدرت کی مدد سے قوت کا طالب ہوں، اور میں تجھ سے تیرے عظیم فضل کا سوال کرتا ہوں، اس لیے کہ تو قدرت رکھتا ہے میں قدرت نہیں رکھتا، تو جانتا ہے میں نہیں جانتا، تو غیب کی باتوں کا خوب جاننے والا ہے، اے اللہ ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام (جس کا میں قصد رکھتا ہوں) میرے لیے میرے دین، میری دنیا اور میرے انجام کار میں ١ ؎ بہتر ہے، تو اس کو میرے لیے مقدر کر دے، میرے لیے آسان کر دے، اور میرے لیے اس میں برکت دے، اور اگر یہ کام میرے لیے برا ہے (ویسے ہی کہے جیسا کہ پہلی بار کہا تھا) تو اس کو مجھ سے پھیر دے، اور مجھ کو اس سے پھیر دے، اور میرے لیے خیر مقدر کر دے، جہاں بھی ہو، پھر مجھ کو اس پر راضی کر دے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التہجد ٢٥ (١١٦٢) ، الدعوات ٤٨ (٦٣٨٢) ، التوحید ١٠ (٧٣٩٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٦٦ (١٥٣٨) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٣٢ (٤٨٠) ، سنن النسائی/النکاح ٢٧ (٣٢٥٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٠٥٥) ، ومسند احمد (٣/٨ ٤/٣٤٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس دارفانی اور اخروی زندگی میں۔ ٢ ؎: استخارہ کے لغوی معنی خیر طلب کرنے کے ہیں، چونکہ اس دعا کے ذریعہ انسان اللہ سے خیر طلب کرتا ہے، اس لیے اسے دعائے استخارہ کہتے ہیں، اس کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھنے کے بعد دعا پڑھی جائے، استخارہ کا تعلق مناجات سے ہے، اور استخارہ خود کرنا چاہیے کسی اور سے کروانے ثابت نہیں ہے۔

【582】

صلٰوة الحاجة

عبداللہ بن ابی اوفی اسلمی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے، اور فرمایا : جسے اللہ سے یا اس کی مخلوق میں سے کسی سے کوئی ضرورت ہو تو وہ وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھے، اس کے بعد یہ دعا پڑھے : لا إله إلا الله الحليم الكريم سبحان الله رب العرش العظيم الحمد لله رب العالمين اللهم إني أسألک موجبات رحمتک وعزائم مغفرتک والغنيمة من کل بر والسلامة من کل إثم أسألك ألا تدع لي ذنبا إلا غفرته ولا هما إلا فرجته ولا حاجة هي لک رضا إلا قضيتها کوئی معبود برحق نہیں سوائے اللہ کے جو حلیم ہے، کریم (کرم والا) ہے، پاکی ہے اس اللہ کی جو عظیم عرش کا مالک ہے، تمام تعریف اس اللہ کے لیے ہے، جو سارے جہان کا رب ہے، اے اللہ ! میں تجھ سے ان چیزوں کا سوال کرتا ہوں جو تیری رحمت کا سبب ہوں، اور تیری مغفرت کو لازم کریں، اور میں تجھ سے ہر نیکی کے پانے اور ہر گناہ سے بچنے کا سوال کرتا ہوں، اور میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ میرے تمام گناہوں کو بخش دے، اور تمام غموں کو دور کر دے، اور کوئی بھی حاجت جس میں تیری رضا ہو اس کو میرے لیے پوری کر دے ۔ پھر اس کے بعد دنیا و آخرت کا جو بھی مقصد ہو اس کا سوال کرے، تو وہ اس کے نصیب میں کردیا جائے گا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥١٧٨، ومصباح الزجاجة : ٤٨٥) ، قد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٣١ (٤٧٩) (ضعیف جدا) (سوید بن سعید متکلم فیہ اور فائد بن عبد الرحمن منکر الحدیث ہیں )

【583】

صلٰوة الحاجة

عثمان بن حنیف (رض) سے روایت ہے کہ ایک نابینا نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا : آپ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے صحت و عافیت کی دعا فرما دیجئیے، آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تم چاہو تو میں تمہارے لیے آخرت کی بھلائی چاہوں جو بہتر ہے، اور اگر تم چاہو تو میں تمہارے لیے دعا کروں، اس شخص نے کہا : آپ دعا کر دیجئیے، تب آپ نے اس کو حکم دیا کہ وہ اچھی طرح وضو کرے، اور دو رکعت نماز پڑھے، اس کے بعد یہ دعا کرے : اللهم إني أسألک وأتوجه إليك بمحمد نبي الرحمة يا محمد إني قد توجهت بك إلى ربي في حاجتي هذه لتقضى اللهم فشفعه في اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں، اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں محمد ﷺ کے ساتھ جو نبی رحمت ہیں، اے محمد ! میں نے آپ کے ذریعہ سے اپنے رب کی جانب اس کام میں توجہ کی تاکہ پورا ہوجائے، اے اللہ ! تو میرے حق میں ان کی شفاعت قبول فرما ۔ ابواسحاق نے کہا : یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ١١٩ (٣٥٧٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٦٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٣٨) (صحیح )

【584】

صلٰوة التسبیح

ابورافع (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عباس (رض) سے فرمایا : میرے چچا ! کیا میں آپ کو عطیہ نہ دوں ؟ کیا میں آپ کو فائدہ نہ پہنچاؤں ؟ کیا میں آپ سے صلہ رحمی نہ کروں ؟ انہوں نے کہا : کیوں نہیں، اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : آپ چار رکعت پڑھیے، اور ہر رکعت میں سورة فاتحہ اور کوئی سورة ملا کر پڑھیے، جب قراءت ختم ہوجائے تو سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر پندرہ مرتبہ رکوع سے پہلے پڑھیے، پھر رکوع کیجئیے اور انہی کلمات کو دس مرتبہ پڑھیے، پھر اپنا سر اٹھائیے اور انہیں کلمات کو دس مرتبہ پڑھیے، پھر سجدہ کیجئیے، اور انہی کلمات کو دس مرتبہ پڑھیے، پھر اپنا سر اٹھائیے، اور کھڑے ہونے سے پہلے انہی کلمات کو دس مرتبہ پڑھیے، تو ہر رکعت میں پچھتر ( ٧٥ ) مرتبہ ہوئے، اور چار رکعتوں میں تین سو ( ٣٠٠ ) مرتبہ ہوئے، تو اگر آپ کے گناہ ریت کے ٹیلوں کے برابر ہوں تو بھی اللہ انہیں بخش دے گا، انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! جو شخص اس نماز کو روزانہ نہ پڑھ سکے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہفتہ میں ایک بار پڑھ لے، اگر یہ بھی نہ ہو سکے، تو مہینے میں ایک بار پڑھ لے یہاں تک کہ فرمایا : سال میں ایک بار پڑھ لے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٠١٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٠٣ (١٢٩٧) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٣٣ (٤٨٢) (صحیح) (دوسری سند سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں موسیٰ بن عبیدہ ضعیف ہیں، علماء نے اختلاف کیا ہے کہ یہ حدیث کیسی ہے، ابن خزیمہ اور حاکم نے اس کو صحیح کہا، اور ایک جماعت نے اس کو حسن کہا، اور ابن الجوزی نے اس کو موضوعات میں ذکر کیا، حافظ ابن حجر نے کہا یہ حدیث حسن ہے، اور ابن الجوزی نے برا کیا جو اس کو موضوع قرار دیا )

【585】

صلٰوة التسبیح

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عباس بن عبدالمطلب (رض) سے فرمایا : اے عباس ! اے چچا جان ! کیا میں آپ کو عطیہ نہ دوں ؟ کیا میں آپ سے اچھا سلوک نہ کروں ؟ کیا میں آپ کو دس خصلتیں نہ بتاؤں کہ اگر آپ اس کو اپنائیں تو اللہ تعالیٰ آپ کے اگلے اور پچھلے، نئے اور پرانے، جانے اور انجانے، چھوٹے اور بڑے، پوشیدہ اور ظاہر سبھی گناہ بخش دے، وہ دس خصلتیں یہ ہیں : آپ چار رکعت پڑھیں، ہر رکعت میں سورة فاتحہ اور کوئی اور سورت پڑھیں، جب پہلی رکعت میں قراءت سے فارغ ہوجائیں تو کھڑے کھڑے پندرہ مرتبہ سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر کہیں، پھر رکوع کریں، اور بحالت رکوع اس تسبیح کو دس مرتبہ کہیں، پھر رکوع سے اپنا سر اٹھائیں اور ان کلمات کو دس مرتبہ کہیں، پھر سجدہ میں جائیں اور بحالت سجدہ ان کلمات کو دس مرتبہ کہیں، پھر سجدہ سے اپنا سر اٹھائیں، اور ان کلمات کو دس مرتبہ کہیں، پھر سجدہ کریں، اور ان کلمات کو دس مرتبہ کہیں، پھر سجدہ سے اپنا سر اٹھائیں اور ان کلمات کو دس مرتبہ کہیں، تو یہ ہر رکعت میں پچھتر ( ٧٥ ) مرتبہ ہوا، چاروں رکعتوں میں اسی طرح کریں، اگر آپ سے یہ ہو سکے تو روزانہ یہ نماز ایک مرتبہ پڑھیں، اور اگر یہ نہ ہو سکے تو ہفتہ میں ایک بار پڑھیں، اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو مہینے میں ایک بار پڑھیں، اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو اپنی عمر میں ایک بار پڑھیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الدارمی/الصلاة ٣٠٣ (١٢٩٧) ، (تحفة الأشراف : ٦٠٣٨) (صحیح )

【586】

شعبان کی پند رھویں شب کی فضیلت

علی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب نصف شعبان کی رات آئے تو اس رات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو۔ اس رات اللہ تعالیٰ سورج کے غروب ہوتے ہی پہلے آسمان پر نزول فرما لیتا ہے اور صبح صادق طلوع ہونے تک کہتا رہتا ہے : کیا کوئی مجھ سے بخشش مانگنے والا ہے کہ میں اسے معاف کر دوں ؟ کیا کوئی رزق طلب کرنے والا ہے کہ اسے رزق دوں ؟ کیا کوئی (کسی بیماری یا مصیبت میں) مبتلا ہے کہ میں اسے عافیت عطا فرما دوں ؟ ۔ تخریج دارالدعوہ : (موضوع )

【587】

شعبان کی پند رھویں شب کی فضیلت

عائشہ (رض) سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ایک رات میں نے رسول اللہ ﷺ کو (گھر میں) نہ پایا۔ میں آپ کی تلاش میں نکلی تو دیکھا کہ آپ بقیع میں ہیں اور آپ نے آسمان کی طرف سر اٹھایا ہوا ہے۔ (جب مجھے دیکھا تو) فرمایا : عائشہ ! کیا تجھے یہ ڈر تھا کہ اللہ اور اس کا رسول تجھ پر ظلم کریں گے ؟ عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ : میں نے عرض کیا : مجھے یہ خوف تو نہیں تھا لیکن میں نے سوچا (شاید) آپ اپنی کسی (اور) زوجہ محترمہ کے ہاں تشریف لے گئے ہیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نصف شعبان کو آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ (لوگوں) کو معاف فرما دیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : ضعیف

【588】

شعبان کی پند رھویں شب کی فضیلت

ابوموسیٰ اشعری (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے روایت بیان کی کہ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات (اپنے بندوں پر) نظر فرماتا ہے، پھر مشرک اور (مسلمان بھائی سے) دشمنی رکھنے والے کے سوا ساری مخلوق کی مغفرت فرما دیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : ضعیف امام ابن ماجہ (رح) نے اپنے استاد محمد بن اسحاق کی سند سے یہ روایت بیان کی تو انہوں نے ضحاک بن عبدالرحمٰن اور ابوموسیٰ اشعری (رض) کے درمیان ضحاک کے باپ کا واسطہ بیان کیا۔

【589】

شکرانے میں نماز اور سجدہ

عبداللہ بن ابی اوفی (رض) سے روایت ہے کہ جس دن نبی اکرم ﷺ کو ابوجہل کا سر لائے جانے کی بشارت سنائی گئی، تو آپ ﷺ نے دو رکعت نماز پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ (تحفة الأشراف : ٥١٨٦، ومصباح الزجاجة : ٤٨٩) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الصلاة ١٥٨ (١٥٠٣) (ضعیف) (شعثاء بنت عبد اللہ الاسدیہ مجہول اور سلمہ بن رجاء میں کلام ہے )

【590】

شکرانے میں نماز اور سجدہ

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کو کسی کام کے پورے ہوجانے کی بشارت سنائی گئی تو آپ سجدے میں گرپڑے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٢٠، ومصباح الزجاجة : ٤٩٠) (حسن) (اس کی سند میں ابن لہیعہ ضعیف ہیں لیکن شاہد کی وجہ سے یہ حسن ہے ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ انسان کو جب کوئی خوشی پہنچے تو وہ سجدہ شکر کرے، جیسا کہ نبی اکرم ﷺ کو خوشی پہنچی تو آپ نے سجدہ شکر کیا۔

【591】

شکرانے میں نماز اور سجدہ

کعب بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی تو وہ سجدے میں گرپڑے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١١٥٥، ومصباح الزجاجة : ٤٩١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خوشی کے موقع پر یا کسی مصیبت کے ٹلنے پر سجدہ شکر ادا کرنا جائز اور صحیح ہے، واضح رہے کہ کعب بن مالک، ہلال بن أمیہ، مرارہ بن ربیع رضی اللہ عنہم یہ تینوں غزوہ تبوک میں حاضر نہ ہو سکے تھے، جب آپ ﷺ غزوہ سے لوٹے تو یہ لوگ بہت شرمندہ ہوئے، اپنے قصور کا اعتراف کیا، ان کا قصہ بہت طویل ہے جو دوسری روایات میں موجود ہے، آخر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کی، اور کعب (رض) نے یہ خبر سنتے ہی سجدہ شکر ادا کیا۔

【592】

شکرانے میں نماز اور سجدہ

ابوبکرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس جب کوئی ایسا معاملہ آتا جس سے آپ خوش ہوتے، یا وہ خوش کن معاملہ ہوتا، تو آپ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے سجدے میں گرپڑتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجہاد ١٧٤ (٢٧٧٤) ، سنن الترمذی/السیر ٢٥ (١٥٧٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢، ٨، ٩، ١٠) (حسن )

【593】

نماز گناہوں کا کفارہ ہے

علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ جب میں نبی اکرم ﷺ سے کوئی حدیث سنتا تو جتنا اللہ چاہتا اس سے مجھے نفع دیتا، اور جب کوئی اور مجھ سے نبی اکرم ﷺ کی حدیث بیان کرتا تو میں اسے قسم کھلاتا، جب وہ قسم کھا لیتا تو میں اس کی تصدیق کرتا، ابوبکر (رض) نے مجھ سے حدیث بیان کی، وہ سچے تھے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے، پھر اچھی طرح وضو کرتا ہے، اور دو رکعتیں پڑھتا ہے ، مسعر کی روایت میں ہے : پھر نماز پڑھتا ہے، اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتا ہے تو اللہ اس کے گناہ بخش دیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٦٧ (١٥٢١) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٨٢ (٤٠٦) ، (تحفة الأشراف : ٦٦١٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢، ٨، ٩، ١٠) (حسن )

【594】

نماز گناہوں کا کفارہ ہے

عاصم بن سفیان ثقفی سے روایت ہے کہ وہ لوگ غزوہ سلاسل میں گئے ١ ؎، لڑائی نہیں ہوئی، ان لوگوں نے صرف مورچہ باندھا، پھر معاویہ (رض) کے پاس واپس لوٹ آئے، اس وقت ابوایوب انصاری اور عقبہ بن عامر (رض) بھی ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، عاصم نے کہا : ابوایوب ! اس سال ہم سے جہاد فوت ہوگیا، اور ہم سے بیان کیا گیا ہے کہ جو کوئی چاروں مسجدوں میں ٢ ؎ نماز پڑھے اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے، ابوایوب نے کہا : میرے بھتیجے ! کیا میں تمہیں اس سے آسان بات نہ بتاؤں ؟ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جو کوئی وضو کرے جیسا حکم دیا گیا ہے، اور نماز پڑھے جس طرح حکم دیا گیا ہے، تو اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے پوچھا : ایسے ہی ہے نا عقبہ ؟ انہوں نے کہا : ہاں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطہارة ١٠٨ (١٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٦٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٢٣) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: غزوہ سلاسل : یہ وہ غزوہ نہیں ہے جو نبی اکرم ﷺ کے زمانہ میں ٨ ھ میں ہوا تھا یہ کوئی ایسا غزوہ تھا، جو معاویہ (رض) کے زمانہ میں ہوا تھا۔ ٢ ؎: چاروں مسجدوں سے مراد : مسجدحرام، مسجد نبوی، مسجد اقصیٰ ، اور مسجد قبا ہے۔

【595】

نماز گناہوں کا کفارہ ہے

عثمان (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : اگر تم میں سے کسی کے آنگن میں نہر بہہ رہی ہو جس میں وہ ہر روز پانچ مرتبہ غسل کرے، تو کیا اس کے بدن پہ کچھ میل کچیل باقی رہ جائے گا ؟ لوگوں نے کہا : کچھ نہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : نماز گناہوں کو ایسے ہی ختم کردیتی ہے جس طرح پانی میل کچیل کو ختم کردیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٧٧٩، ومصباح الزجاجة : ٤٩٢) ، ومسند احمد (١/٧٢، ١٧٧) (صحیح )

【596】

نماز گناہوں کا کفارہ ہے

عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ایک عورت سے زنا سے کم کچھ بدتہذیبی کرلی، میں نہیں جانتا کہ وہ اس معاملہ میں کہاں تک پہنچا، بہرحال معاملہ زناکاری تک نہیں پہنچا تھا، وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور آپ سے اس کا ذکر کیا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : أقم الصلاة طرفي النهار وزلفا من الليل إن الحسنات يذهبن السيئات ذلک ذكرى للذاکرين دن کے دونوں حصوں (صبح و شام) میں اور رات کے کچھ حصہ میں نماز قائم کرو، بیشک نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں، اور یہ یاد کرنے والوں کے لیے نصیحت ہے (سورة هود : ١١٤ ) ، پھر اس شخص نے عرض کیا : کیا یہ حکم میرے لیے خاص ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہر اس شخص کے لیے جو اس پر عمل کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/مواقیت الصلاة ٥ (٥٢٦) ، التفسیر ھود ٦ (٤٦٨٧) ، صحیح مسلم/التوبة ٧ (٢٧٦٣) ، سنن الترمذی/التفسیر ١٢ (٣١١٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٣٧٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الحدود ٣٢ (٤٤٦٨) ، مسند احمد (١/٣٨٥، ٤٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: دن کے دونوں کناروں سے مراد فجر اور مغرب کی نماز ہے، اور بعض کے نزدیک صرف عشاء اور بعض کے نزدیک مغرب اور عشاء دونوں مراد ہیں، اور رات کے کچھ حصہ میں سے مراد نماز تہجد ہے، امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ ممکن ہے کہ یہ آیت معراج سے قبل نازل ہوئی ہو، کیونکہ اس سے قبل دو نمازیں ہی تھیں، ایک سورج ڈوبنے سے پہلے اور ایک سورج ڈوبنے کے بعد، اور رات کے پچھلے پہر نماز تہجد تھی، اور معراج میں پانچ وقت کی نماز فرض ہوئی۔

【597】

پانچ نمازوں کی فرضیت اور ان کی نگہداشت کا بیان

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے (معراج کی رات) میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں، تو میں انہیں لے کر لوٹا یہاں تک کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا، تو انہوں نے پوچھا : آپ کے رب نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے ؟ میں نے کہا : پچاس نمازیں میرے اوپر فرض کی ہیں، انہوں نے کہا : اپنے رب کے پاس پھرجائیں آپ کی امت انہیں ادا نہ کرسکے گی، میں اپنے رب کے پاس لوٹا، تو اس نے آدھی معاف کریں، میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس واپس آیا، اور ان سے بیان کیا، انہوں نے کہا : اپنے رب کے پاس واپس جائیں آپ کی امت اس کو انجام نہ دے سکے گی، چناچہ میں پھر اپنے رب کے پاس واپس گیا، تو اس نے فرمایا : یہ (ادا کرنے میں) پانچ وقت کی نمازیں (شمار میں) ہیں، جو (ثواب میں) پچاس نماز کے برابر ہیں، میرا فرمان تبدیل نہیں ہوتا، اٹل ہوتا ہے، میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا، تو انہوں نے کہا : اپنے رب کے پاس جائیں، تو میں نے کہا : اب مجھے اپنے رب سے شرم آتی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ١ (٣٤٩) ، الأنبیاء ٥ (٣٣٤٢) ، صحیح مسلم/الإیمان ٧٤ (١٦٣) ، سنن النسائی/الصلاة ١ (٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ روایت مختصر ہے، مفصل واقعہ صحیحین اور دوسری کتابوں میں مذکور ہے، اس میں یہ ہے کہ پہلی بار اللہ تعالیٰ نے پچاس میں سے پانچ نمازیں معاف کیں، اور نبی اکرم ﷺ موسیٰ (علیہ السلام) کے کہنے پر بار بار اللہ تعالیٰ کے پاس جاتے رہے، اور پانچ پانچ نماز کم ہوتی رہیں یہاں تک کہ پانچ رہ گئیں، یہی عدد اللہ تعالیٰ کے علم میں مقرر تھا، اس سے کم نہیں ہوسکتا تھا، سبحان اللہ مالک کی کیا عنایت ہے، ہم ناتواں بندوں سے پانچ نمازیں تو ادا ہو نہیں سکتیں، پچاس کیونکر پڑھتے، حدیث شریف سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رب العالمین عرش کے اوپر ہے، ورنہ بار بار نبی اکرم ﷺ کس کے پاس جاتے تھے، اور اس سے جہمیہ، معتزلہ اور منکرین صفات کا رد ہوتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کو جہت اور مکان سے منزہ و پاک جانتے ہیں، اور لطف یہ ہے کہ باوجود اس کے پھر اس کو ہر جہت اور ہر مکان میں سمجھتے ہیں، یہ حماقت نہیں تو کیا ہے، اگر اللہ تعالیٰ (معاذ اللہ) ہر جہت اور ہر مکان میں ہوتا تو نبی اکرم ﷺ کو ساتوں آسمانوں کے اوپر جانے کی کیا ضرورت تھی ؟۔

【598】

پانچ نمازوں کی فرضیت اور ان کی نگہداشت کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ تمہارے نبی ( ﷺ ) کو پچاس نمازوں کا حکم ہوا، پھر آپ ﷺ نے تمہارے رب سے تخفیف چاہی کہ پچاس کو پانچ کر دے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد یہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٨٠٨، ومصباح الزجاجة : ٤٩٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣١٥) (صحیح) (سند میں شریک ضعیف ہیں، لیکن اگلی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، نیز شواہد کے لئے دیکھئے : مصباح الزجاجة ٤٩٨ ابن ماجہ میں ابن عباس ہے، اور صحیح ابن عمر ہے جیسا کہ سنن ابی داود ( ١؍١٧١ ) میں ہے، اور اس کی سند میں ایوب بن جابر ضعیف ہے۔

【599】

پانچ نمازوں کی فرضیت اور ان کی نگہداشت کا بیان

عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : پانچ وقت کی نمازیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرض کی ہیں، لہٰذا جو کوئی ان کو بجا لائے اور ان کے حق کو معمولی حقیر سمجھ کر ان میں کچھ کمی نہ کرے، تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو جنت میں داخل کرنے کا وعدہ پورا کرے گا، اور جس کسی نے ان کو اس طرح ادا کیا کہ انہیں معمولی اور حقیر جان کر ان کے حق کی ادائیگی میں کوتاہی کی تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ کے پاس کوئی وعدہ نہیں، چاہے تو اسے عذاب دے، اور چاہے تو بخش دے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٩ ٣٣٧ (١٤٢٠) ، سنن النسائی/الصلاة ٦ (٤٦٢) ، (تحفة الأشراف : ٥١٢٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/صلاة اللیل ٣ (١٤) مسند احمد (٥/٣١٥، ٣١٩، ٣٢٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠٨ (١٦١٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: نماز کے حق کی ادائیگی میں کوتاہی کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے کاموں کی طرح اس کا بھی پورا خیال نہ رکھے، کبھی پڑھے اور کبھی چھوڑ دے، یا جلدی جلدی پڑھے، شرائط اور آداب اور سنن کو اچھی طرح سے نہ بجا لائے، ایسا شخص گنہگار ہے، اللہ تعالیٰ چاہے تو اسے سزا دے، اور چاہے تو معاف کر دے۔

【600】

پانچ نمازوں کی فرضیت اور ان کی نگہداشت کا بیان

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں اونٹ پر سوار ایک شخص آیا، اور اسے مسجد میں بٹھایا، پھر اسے باندھ دیا، پھر پوچھنے لگا : تم میں محمد کون ہیں ؟ رسول اللہ ﷺ لوگوں کے درمیان ٹیک لگائے ہوئے بیٹھے تھے، لوگوں نے کہا : یہ ہیں جو سفید رنگ والے، اور تکیہ لگائے بیٹھے ہیں، اس شخص نے آپ ﷺ سے کہا : اے عبدالمطلب کے بیٹے ! نبی اکرم ﷺ نے اس سے کہا : ہاں، میں نے تمہاری بات سن لی ، تو اس شخص نے کہا : اے محمد ! میں آپ سے ایک سوال کرنے والا ہوں، اور سوال میں سختی برتنے والا ہوں، تو آپ دل میں مجھ پر ناراض نہ ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : تم جو چاہو پوچھو ، اس شخص نے کہا : میں آپ کو آپ کے رب کی قسم دیتا ہوں، اور آپ سے پہلے لوگوں کے رب کی قسم دیتا ہوں، کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو سب لوگوں کی جانب نبی بنا کر بھیجا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : یا اللہ ! ہاں ، پھر اس شخص نے کہا : میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو دن رات میں پانچ وقت نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یا اللہ ! ہاں ، پھر اس شخص نے کہا : میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو سال کے اس مہینہ میں روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یا اللہ ! ہاں ، اس شخص نے کہا : میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں : کیا اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ ہمارے مالداروں سے زکاۃ و صدقات لیں، اور اس کو ہمارے غریبوں میں تقسیم کریں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یا اللہ ! ہاں ، تو اس شخص نے کہا : میں آپ کی لائی ہوئی شریعت پہ ایمان لایا، اور میں اپنی قوم کے ان لوگوں کے لیے پیغام رساں کی حیثیت سے ہوں جو پیچھے رہ گئے ہیں، اور میں قبیلہ بنو سعد بن بکر کا ایک فرد ضمام بن ثعلبہ ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٦ (٦٣) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٣ (٤٨٦) ، سنن النسائی/الصیام ١ (٢٠٩٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٧) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الإیمان ٣ (١٢) ، مسند احمد (٣/١٦٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٤٠ (١٤٧٠) (صحیح )

【601】

پانچ نمازوں کی فرضیت اور ان کی نگہداشت کا بیان

ابوقتادہ بن ربعی (رض) خبر دیتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں نے تمہاری امت پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں، اور میں نے اپنے پاس سے یہ وعدہ کیا ہے کہ جو انہیں ان کے اوقات پر پڑھنے کی پابندی کرے گا، میں اسے جنت میں داخل کروں گا، اور جو ان کی پابندی نہیں کرے گا، تو اس کے لیے میرے پاس کوئی وعدہ نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٨٢، ومصباح الزجاجة : ٤٩٤) ، وقد آخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٩ (٤٣٠) (صحیح) (شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں ضبارہ مجہول اور دوید متکلم فیہ ہیں، (تراجع الألبانی : رقم : ٥٨ ) ، نیز بوصیری نے اس حدیث کو زدا ئد ابن ماجہ میں داخل کیا ہے، فرماتے ہیں کہ مزی نے تحفة الأشراف میں اس حدیث کو ابن الاعرابی کی روایت سے ابوداود کی طرف منسوب کیا ہے، جس کو میں نے لئولُوی کی روایت میں نہیں دیکھا ہے )

【602】

مسجد حرام اور مسجد نبوی میں نماز کی فضیلت

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری مسجد میں ایک نماز دوسری مسجدوں کی ہزار نماز سے افضل ہے ١ ؎، سوائے مسجد الحرام کے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة في مسجد مکة والمدینة ١ (١١٩٠) ، صحیح مسلم/الحج ٩٤ (١٣٩٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٢٦ (٣٢٥) ، سنن النسائی/المساجد ٧ (٦٩٥) ، المناسک ١٢٤ (٢٩٠٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٦٤، ١٤٩٦٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/القبلة ٥ (٩) ، مسند احمد (٢/٢٣٩، ٢٥١، ٢٥٦، ٢٧٧، ٢٧٨، ٣٨٦، ٣٩٧، ٤٦٦، ٤٦٨، ٤٧٣، ٤٨٤، ٤٨٥، ٤٩٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: میری مسجد سے مراد مدینہ کی مسجد نبوی ہے، یہ فضیلت توسیع شدہ حصہ کو بھی شامل ہے، جیسا کہ شیخ الإسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ جہاں تک یہ مسجد نبوی بڑھتی جائے، وہ تمام حصے بھی اس فضیلت میں شامل ہوں گے۔ ٢ ؎: مسجد حرام میں ایک نماز دوسری مسجدوں کی ایک لاکھ نماز سے افضل ہے۔ اس سند سے بھی ابوہریرہ (رض) سے اسی مضمون کی حدیث مروی ہے۔

【603】

مسجد حرام اور مسجد نبوی میں نماز کی فضیلت

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میری مسجد میں ایک نماز پڑھنی دوسری مسجدوں میں ہزار نماز پڑھنے سے افضل ہے، سوائے مسجد الحرام کے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٩٤ (١٣٩٥) ، (تحفة الأشراف : ٧٩٤٨) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الحج ١٢٤ (٢٩٠٠) ، مسند احمد (٢/١٦، ٢٩، ٥٣، ٦٨، ١٠٢) (صحیح )

【604】

مسجد حرام اور مسجد نبوی میں نماز کی فضیلت

جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری مسجد میں ایک نماز پڑھنی دوسری مسجدوں میں ہزار نماز پڑھنے سے افضل ہے سوائے مسجد الحرام کے، اور مسجد الحرام میں ایک نماز پڑھنی دوسری مسجدوں کی ایک لاکھ نماز سے افضل ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٤٣٢، ومصباح الزجاجة : ٤٩٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٣٤، ٣٤٣، ٣٩٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہاں مسجد الحرام کا ذکر کرتے وقت مدینہ منورہ کی مسجد کا استثناء نہیں کیا، اور بظاہر یہی ہے کہ سوائے مسجد نبوی کے اور مسجدوں کی لاکھ نماز سے افضل ہے، کیونکہ اگر مسجد نبوی کے ایک لاکھ نماز سے افضل ہو تو دوسری مسجدوں کے ایک ارب نماز سے افضل ہوگی، اور کیا عجب ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اسی قدر ثواب عطا فرمائے، اور اس صورت میں یہ کہنا کہ دوسری مسجدوں کی ایک لاکھ نماز سے افضل ہے، صحیح ہوگا کہ جب ایک ارب نماز افضل ہوئی تو ایک لاکھ سے بطریق اولیٰ افضل ہوگی، واللہ اعلم۔

【605】

مسجد بیت المقدس میں نماز کی فضیلت

نبی اکرم ﷺ کی لونڈی میمونہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم کو بیت المقدس کا مسئلہ بتائیے ، آپ ﷺ نے فرمایا : وہ تو حشر و نشر کی زمین ہے، وہاں جاؤ اور نماز پڑھو، اس لیے کہ اس میں ایک نماز دوسری مسجدوں کی ہزار نماز کی طرح ہے میں نے عرض کیا : اگر وہاں تک جانے کی طاقت نہ ہو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تو تم تیل بھیج دو جسے وہاں کے چراغوں میں جلایا جائے، جس نے ایسا کیا گویا وہ وہاں گیا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٤ (٤٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٨٧، ومصباح الزجاجة : ٤٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٦٣) (منکر) (بوصیری نے کہا کہ بعض حدیث کو ابوداود نے روایت کیا ہے، شیخ البانی نے اس حدیث کو پہلے (صحیح ابو داود ٦٨ ) میں رکھا تھا، بعد میں اسے ضعیف ابی داود میں رکھ دیا، ابوداود کی روایت میں بیت المقدس میں نماز پڑھنے کی فضیلت کا ذکر نہیں ہے، وجہ نکارت یہ ہے کہ زیتون کا تیل فلسطین میں ہوتا ہے، حجاز سے اسے بیت المقدس بھیجنے کا کیا مطلب ہے ؟ نیز صحیح احادیث میں مسجد نبوی میں ایک نماز کا ثواب ہزار نمازوں ہے، جب کہ بیت المقدس کے بارے میں یہ ثواب صحاح میں نہیں وارد ہوا ہے )

【606】

مسجد بیت المقدس میں نماز کی فضیلت

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب سلیمان بن داود (علیہما السلام) بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے، تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے تین چیزیں مانگیں، ایک تو یہ کہ میں مقدمات میں جو فیصلہ کروں، وہ تیرے فیصلے کے مطابق ہو، دوسرے مجھ کو ایسی حکومت دے کہ میرے بعد پھر ویسی حکومت کسی کو نہ ملے، تیسرے یہ کہ جو کوئی اس مسجد میں صرف نماز ہی کے ارادے سے آئے وہ اپنے گناہوں سے ایسا پاک ہوجائے جیسے اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اس کو جنا تھا، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : دو باتیں تو اللہ تعالیٰ نے سلیمان (علیہ السلام) کو عطا فرمائیں، مجھے امید ہے کہ تیسری چیز بھی انہیں عطا کی گئی ہوگی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/المساجد ٦ (٦٩٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٤٤، ومصباح الزجاجة : ٤٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٧٦) (صحیح) (دوسری سندوں سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں عبید اللہ بن الجہم مجہول الحال ہیں، اور ایوب بن سوید بالاتفاق ضعیف، بوصیری نے ذکر کیا ہے کہ بعض حدیث کو ابوداود نے ابن عمرو کی حدیث سے روایت کیا ہے، ایسے ہی نسائی نے سنن صغری میں روایت کی ہے) ، یہ حدیث ابوداود میں ہمیں نہیں ملی، اور ایسے ہی مصباح الزجاجة کے محقق د . شہری کو بھی نہیں ملی ( ٥٠٢ ) نیز نسائی نے کتاب المساجد باب فضل المسجد الأقصی ( ١؍٨ ) میں اور احمد نے مسند میں ( ٢؍١٧٦ ) تخریج کیا ہے ابن خزیمہ ( ٢؍١٧٦ ) اور ابن حبان (١٠٤٢ مواردہ) اور حاکم ( ١؍٢٠؍٢١ ) نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے ) وضاحت : ١ ؎: سلیمان (علیہ السلام) کا حکم ہونا اس آیت سے معلوم ہوتا ہے : ففهمناها سليمان وکلا آتينا حکما وعلما (سورة الأنبياء : 79) ،فسخرنا له الريح تجري بأمره رخاء حيث أصاب (سورة ص : 36) نیز ہوا پر اور جن و انس پر اور چرند و پرند سب پر ان کی حکومت تھی، جیسا کہ اس آیت میں موجود ہے : والشياطين كل بناء وغواص (سورة ص : 37) اور تیسری بات کی صراحت چونکہ قرآن میں نہیں ہے اس لئے نبی اکرم ﷺ نے اس میں فرمایا مجھے امید ہے کہ تیسری چیز بھی انہیں عطا کی گئی ہوگی ۔

【607】

مسجد بیت المقدس میں نماز کی فضیلت

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تین مساجد : مسجد الحرام، میری اس مسجد (یعنی مسجد نبوی) اور مسجد الاقصیٰ کے علاوہ کسی اور مسجد کی جانب (ثواب کی نیت سے) سفر نہ کیا جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٩٥ (١٣٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٨٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/فضائل الصلاة ١ (١١٨٩) ، سنن ابی داود/الحج ٩٨ (٢٠٣٣) ، سنن النسائی/المساجد ١٠ (٧٠١) ، موطا امام مالک/الجمعة ٧ (١٦) ، مسند احمد (٢/٢٣٤، ٢٣٨، ٢٧٨، ٥٠١) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٣٢ (١٤٦١) (صحیح )

【608】

مسجد بیت المقدس میں نماز کی فضیلت

ابو سعید خدری اور عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین مساجد : مسجد الحرام، مسجد الاقصیٰ اور میری اس مسجد (یعنی مسجد نبوی) کے علاوہ کسی اور مسجد کی طرف (ثواب کی نیت سے) سفر نہ کیا جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث أبي سعید الخدري أخرجہ : صحیح البخاری/فضل الصلاة في مکة والمدینة ٦ (١١٨٨، ١١٨٩) ، صحیح مسلم/المناسک ٧٤ (٨٢٧) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٢٧ (٣٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٧٩) ، وحدیث عبد اللہ بن عمر و بن العاص قد تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٩١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٧، ٣٤، ٤٥، ٥١، ٥٩، ٦٢، ٧١، ٧٧) (صحیح )

【609】

مسجد قباء میں نماز کی فضیلت

اسید بن ظہیر انصاری (رض) (جو نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے تھے) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مسجد قباء میں نماز پڑھنا ایک عمرہ کے برابر ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٢٦ (٣٢٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٥) (صحیح ) وضاحت :: ١ ؎ مسجد قباء : ایک مشہور مسجد ہے، جو مسجد نبوی سے تھوڑے سے فاصلہ پر واقع ہے، رسول اکرم ﷺ جب ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے، تو سب سے پہلے اس مسجد کی بنیاد رکھی، اور مسلسل چار دن تک اسی مسجد میں نماز پڑھتے رہے، اور مسجد نبوی کے بننے کے بعد بھی آپ ﷺ مسجد قباء تشریف لے جاتے، اور وہاں نماز پڑھتے، نیز قرآن کریم میں اس کے متعلق یوں مذکور ہے : لمسجد أسس على التقوى من أول يوم أحق أن تقوم فيه جو مسجد (نبی اکرم ﷺ کے مدینہ آمد کے وقت) اوّل روز سے تقویٰ پر قائم کی گئی تھی وہی اس بات کی زیادہ مستحق ہے کہ آپ اس میں عبادت کے لیے کھڑے ہوں (سورة التوبة : 108) ، اور متعدد احادیث میں اس کی فضیلت آئی ہے۔

【610】

مسجد قباء میں نماز کی فضیلت

سہل بن حنیف (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اپنے گھر میں وضو کرے، پھر مسجد قباء آئے اور اس میں نماز پڑھے، تو اسے ایک عمرہ کا ثواب ملے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/المساجد ٩ (٧٠٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٥٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٨٧) (صحیح )

【611】

جامع مسجد میں نماز کی فضیلت

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی کی نماز اپنے گھر میں ایک نماز کے برابر ہے، محلہ کی مسجد میں پچیس نماز کے برابر ہے، اور جامع مسجد میں پانچ سو نماز کے برابر ہے، مسجد الاقصیٰ میں پچاس ہزار نماز کے برابر ہے، مسجد نبوی میں پچاس ہزار نماز کے برابر ہے، اور خانہ کعبہ میں ایک لاکھ نماز کے برابر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٣٤، ومصباح الزجاجة : ٤٩٨) (ضعیف) (اس سند میں ابوالخطاب مجہول الحال ہیں، اور رزیق کے بارے میں کلام ہے، ابن الجوزی نے اسے علل متناھیہ میں داخل کیا ہے ( ٢؍٨٦ ) ذھبی نے میزان الاعتدال ( ٤؍٥٢٠ ) میں اسے، منکر جداً یہ بہت منکر ہے کہا ہے )

【612】

منبر کی ابتداء

ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ جب مسجد چھپر کی تھی تو رسول اللہ ﷺ کھجور کے ایک تنے کی طرف نماز پڑھتے تھے، اور اسی تنے پر ٹیک لگا کر خطبہ دیتے تھے، تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک شخص نے کہا : کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ ہم آپ کے لیے کوئی ایسی چیز بنائیں جس پر آپ جمعہ کے دن کھڑے ہو کر خطبہ دیں تاکہ لوگ آپ کو دیکھ سکیں، اور آپ انہیں اپنا خطبہ سنا سکیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں پھر اس شخص نے تین سیڑھیاں بنائیں، یہی منبر کی اونچائی ہے، جب منبر تیار ہوگیا، تو لوگوں نے اسے اس مقام پہ رکھا جہاں اب ہے، جب نبی اکرم ﷺ نے منبر پر کھڑے ہونے کا ارادہ کیا، تو اس تنے کے پاس سے گزرے جس کے سہارے آپ خطبہ دیا کرتے تھے، جب آپ تنے سے آگے بڑھ گئے تو وہ رونے لگا، یہاں تک کہ پھوٹ پھوٹ کر رویا، اس وقت آپ منبر سے اترے اور اس پر اپنا ہاتھ پھیرا، تب وہ خاموش ہوا، ١ ؎ پھر آپ منبر پہ لوٹے، جب آپ نماز پڑھتے تھے تو اسی تنے کی جانب پڑھتے تھے، پھر جب (عمر (رض) کے زمانہ میں تعمیر نو کے لیے) مسجد ڈھائی گئی، اور اس کی لکڑیاں بدل دی گئیں، تو اس تنے کو ابی بن کعب (رض) نے لے لیا، اور وہ ان کے گھر ہی میں رہا یہاں تک کہ پرانا ہوگیا، پھر اسے دیمک کھا گئی، اور وہ گل کر ریزہ ریزہ ہوگیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٤، ومصباح الزجاجة : ٤٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٣٧) ، سنن الدارمی/المقدمة ٦ (٣٦) (حسن) (کھجور کے تنے کی گریہ وزاری سے متعلق کئی احادیث ہیں، جب کہ بعض اس بارے میں ہیں، نیز تفصیل کے لئے دیکھئے فتح الباری ٦؍٦٠٣ ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث میں نبی اکرم ﷺ کا ایک مشہور معجزہ مذکور ہے، یعنی لکڑی کا آپ ﷺ کی جدائی کے غم میں رونا، نیز اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر چیز میں نفس اور جان ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کچھ بعید نہیں کہ وہ جس کو چاہے قوت گویائی عطا کر دے، اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہو کہ منبر نبوی کی تین سیڑھیاں تھیں۔

【613】

منبر کی ابتداء

انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کھجور کے ایک تنے کے سہارے خطبہ دیتے تھے، جب منبر تیار ہوگیا تو آپ منبر کی طرف چلے، وہ تنا رونے لگا تو آپ نے اسے اپنے گود میں لے لیا، تو وہ خاموش ہوگیا، آپ ﷺ نے فرمایا : اگر میں اسے گود میں نہ لیتا تو وہ قیامت تک روتا رہتا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٨٩، ٦٢٩٧، ومصباح الزجاجة : ٥٠٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/المناقب ٦ (٣٦٣١) ، مسند احمد (١/ ٢٤٩، ٢٦٧، ٢٦٦، ٣٦٣) ، سنن الدارمی/المقدمة ٦ (٤٠) (صحیح )

【614】

منبر کی ابتداء

ابوحازم کہتے ہیں کہ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے منبر کے بارے میں اختلاف کیا کہ وہ کس چیز کا بنا ہوا تھا، تو لوگ سہل بن سعد (رض) کے پاس آئے، اور ان سے پوچھا ؟ انہوں نے کہا : اب لوگوں میں کوئی ایسا باقی نہیں رہا جو اس منبر کا حال مجھ سے زیادہ جانتا ہو، وہ غابہ ١ ؎ کے جھاؤ کا تھا، جس کو فلاں بڑھئی نے بنایا تھا، جو فلاں عورت کا غلام تھا، بہرحال وہ غلام منبر لے کر آیا، جب وہ رکھا گیا تو آپ اس پر کھڑے ہوئے، اور قبلہ کی طرف رخ کیا، اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے، آپ نے قراءت کی پھر رکوع کیا، اور رکوع سے اپنا سر اٹھایا، اور الٹے پاؤں پیچھے ہٹے، اور زمین پہ سجدہ کیا، پھر منبر کی طرف لوٹ گئے، اور قراءت کی، پھر رکوع کیا پھر رکوع سے اٹھ کر سیدھے کھڑے ہوئے، پھر الٹے پاؤں پیچھے لوٹے، (اور منبر سے اتر کر) زمین پر سجدہ کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٨ (٣٧٧) ، الجمعة ٢٦ (٩١٧) ، صحیح مسلم/المساجد ١٠ (٥٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٩٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٢١ (١٠٨٠) ، سنن النسائی/المساجد ٤٥ (٧٤٠) ، مسند احمد (٥/٣٣٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ٤٥ (١٢٩٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: غابہ : ایک مقام کا نام ہے، جو مدینہ سے نو میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔

【615】

منبر کی ابتداء

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک درخت کی جڑ، یا یوں کہا : ایک تنے کے سہارے کھڑے ہو کر خطبہ دیتے تھے، پھر آپ ﷺ نے ایک منبر بنوا لیا، تو وہ تنا سسکیاں لے لے کر رونے لگا، یہاں تک کہ اس کے رونے کی آواز مسجد والوں نے بھی سنی، رسول اللہ ﷺ اس کے پاس آئے، اس پر اپنا ہاتھ پھیرا، تو وہ خاموش ہوگیا، بعض نے کہا کہ اگر آپ ﷺ اس کے پاس نہ آتے تو وہ قیامت تک روتا رہتا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣١١٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجمعة ٢٦ (٩١٨) ، المناقب ٢٥ (٣٥٨٤) ، سنن النسائی/الجمعة ١٧ (١٣٩٧) ، مسند احمد (٣/٣٠٦) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠٢ (١٦٠٣) (صحیح )

【616】

نماز میں لمبا قیام کرنا

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ایک رات میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، آپ برابر کھڑے رہے یہاں تک کہ میں نے ایک برے کام کا ارادہ کرلیا، (راوی ابو وائل کہتے ہیں :) میں نے پوچھا : وہ کیا ؟ کہا : میں نے یہ ارادہ کرلیا کہ میں بیٹھ جاؤں، اور آپ کو (کھڑا) چھوڑ دوں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التھجد ٩ (١١٣٥) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٧ (٧٧٣) ، سنن الترمذی/في الشمائل (٢٧٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٤٩) وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٥، ٣٩٦، ٤١٥، ٤٤٠) (صحیح ) وضاحت : نماز تہجد باجماعت جائز ہے۔ نماز تہجد میں طویل قرات افضل ہے۔ شاگردوں کو تربیت دینے کے لیے ان سے مشکل کام کروانا جائز ہے اگرچہ اس میں مشقت ہو۔ استاد کا خود نیک عمل کرنا شاگردوں کو اس کا شوق دلاتا اور ہمت پیدا کرتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نیک کا اس قدر شوق رکھتے تھے کہ افضل کام کو چھوڑ کر جائز کام اختیار کرنے کو انہوں نے برا کام قرار دیا۔

【617】

نماز میں لمبا قیام کرنا

مغیرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے کھڑے ہوئے، یہاں تک کہ آپ کے پیروں میں ورم آگیا، تو عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے تمام گناہ بخش دئیے ہیں (پھر آپ اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں) ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا میں (اللہ کا) شکر گزار بندہ نہ بنوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التہجد ٦ (١١٣٠) ، تفسیرالفتح ٢ (٤٨٣٦) ، الرقاق ٢٠ (٦٤٧١) ، صحیح مسلم/المنافقین ١٨ (٢٨١٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٨٨ (٤١٢) ، سنن النسائی/قیام اللیل ١٥ (١٦٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٩٨) ، مسند احمد (٤/٢٥١، ٢٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس مغفرت پر شکر نہ ادا کروں ؟ سبحان اللہ ! جب نبی کریم ﷺ نے باوصف ایسے علو مرتبہ اور جلالت شان کے کہ اللہ تعالیٰ کے بعد آپ کا درجہ ہے، عبادت کو ترک نہ کیا، اور دوسرے لوگوں سے زیادہ آپ اللہ تبارک و تعالیٰ کی اطاعت و عبادت اور ذکر الٰہی میں مصروف رہتے تھے، تو کسی دوسرے کا یہ خیال کب صحیح ہوگا کہ آدمی جب ولایت کے اعلی درجہ کو پہنچ جاتا ہے تو اس کے ذمہ سے عبادت ساقط ہوجاتی ہے، یہ صاف ملحدانہ خیال ہے، بلکہ جتنا بندہ اللہ سے زیادہ قریب ہوتا جاتا ہے اتنا ہی اس کا شوق عبادت بڑھتا جاتا ہے، دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ ساری رات نماز میں کھڑے رہتے یہاں تک کہ آپ کے پاؤں سوج جاتے، اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ما أنزلنا عليك القرآن لتشقى یعنی ہم نے آپ پر اس لئے قرآن نہیں اتارا کہ آپ اتنی مشقت اٹھائیں (سورة طه : 2) ۔

【618】

نماز میں لمبا قیام کرنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھتے یہاں تک کہ آپ کے پاؤں سوج جاتے، آپ سے عرض کیا گیا : اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے سارے گناہ معاف کر دئیے ہیں (پھر آپ اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں) ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٤٨١، ومصباح الزجاجة : ٥٠٢) (صحیح )

【619】

نماز میں لمبا قیام کرنا

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا : کون سی نماز افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جس میں قیام لمبا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٢ (٦٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٢٧) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٦٨ (٣٨٧) ، مسند احمد (٣/٣٠٢، ٣٩١، ٤١٢، ٤/٣٨٥) (صحیح )

【620】

سجدے بہت سے کرنے کا بیان

ابوفاطمہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے ایسا عمل بتائیے جس پر میں جما رہوں اور اس کو کرتا رہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے اوپر سجدے کو لازم کرلو، اس لیے کہ جب بھی تم کوئی سجدہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے تمہارا ایک درجہ بلند کرے گا، اور ایک گناہ مٹا دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٧٦، ٢٨٠) (حسن صحیح )

【621】

سجدے بہت سے کرنے کا بیان

معدان بن ابی طلحہ یعمری کہتے ہیں کہ میں ثوبان (رض) سے ملا، اور ان سے کہا : آپ مجھ سے کوئی حدیث بیان کریں، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے فائدہ دے گا، یہ سن کر وہ خاموش رہے، پھر میں نے دوبارہ وہی بات کہی، تو بھی وہ خاموش رہے، تین بار ایسا ہی ہوا، پھر انہوں نے کہا : تم اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کے لیے سجدہ لازم کرلو، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جو بندہ اللہ تعالیٰ کے لیے ایک سجدہ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس کا ایک درجہ بلند کرتا ہے، اور ایک گناہ مٹا دیتا ہے ۔ معدان کہتے ہیں کہ پھر میں ابوالدرداء (رض) سے ملا، اور ان سے پوچھا تو انہوں نے بھی ایسا ہی بیان کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٣ (٤٨٨) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٧٠ (٣٨٨، ٣٨٩) ، (تحفة الأشراف : ٢١١٢، ١٠٩٦٥) ، مسند احمد (٥/٢٧٦، ٢٨٠، ٢٨٣) (صحیح )

【622】

سجدے بہت سے کرنے کا بیان

عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جو کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کے لیے ایک سجدہ کرے گا، اللہ اس کے بدلے ایک نیکی لکھے گا، اور اس کا ایک گناہ مٹا دے گا، اور اس کا ایک درجہ بلند فرمائے گا، لہٰذا تم کثرت سے سجدے کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥١٠٢، ومصباح الزجاجة : ٥٠٣) (صحیح) (صحیح مسلم وغیرہ میں ثوبان کی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں ولید بن مسلم مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت کی ہے، الإرواء : ٤٥٧ )

【623】

سب سے پہلے بندے سے نماز کا حساب لیا جائے گا

انس بن حکیم کہتے ہیں کہ ابوہریرہ (رض) نے مجھ سے کہا کہ جب تم اپنے شہر والوں کے پاس پہنچو تو ان کو بتاؤ کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : مسلمان بندے سے قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا حساب لیا جائے گا وہ فرض نماز ہوگی، اگر اس نے اسے کامل طریقے سے ادا کی ہے تو ٹھیک ہے، ورنہ کہا جائے گا کہ دیکھو کیا اس کے پاس کچھ نفل ہے ؟ اگر اس کے پاس نفل نمازیں ہوں گی تو اس سے فرض میں کمی پوری کی جائے گی، پھر باقی دوسرے فرائض اعمال کے ساتھ ایسا ہی کیا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٤٩ (٨٦٤، ٨٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٠٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٨٩ (٤١٣) ، سنن النسائی/الصلاة ٩ (٤٦٦) ، مسند احمد (٢/ ٢٩٠، ٤٢٥) (صحیح )

【624】

سب سے پہلے بندے سے نماز کا حساب لیا جائے گا

تمیم داری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن بندے سے جس چیز کا سب سے پہلے حساب لیا جائے گا وہ نماز ہوگی، اگر اس نے نماز مکمل طریقے سے ادا کی ہوگی تو نفل نماز علیحدہ لکھی جائے گی، اور اگر مکمل طریقے سے ادا نہ کی ہوگی تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے کہے گا : دیکھو، کیا میرے بندے کے پاس نفل نمازیں ہیں، تو ان سے فرض کی کمی کو پورا کرو، پھر باقی اعمال کا بھی اسی طرح حساب ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث تمیم الداری أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٤٩ (٨٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٥٤) ، وحدیث أبی ہریرة تقدم تخریجہ حدیث رقم : ١٤٢٥، (تحفة الأشراف : ١٤٢٥) (صحیح )

【625】

نفل نماوہاں نہ پڑھے جہاں فرض پڑھے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کیا تم میں کا کوئی اتنا عاجز و مجبور ہے کہ جب (فرض) نماز پڑھ چکے تو نفل کے لیے آگے بڑھ جائے، یا پیچھے ہٹ جائے، یا دائیں، بائیں ہوجائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأاذان ٥٧ (٨٤٨) تعلیقاً ، سنن ابی داود/الصلاة ١٩٤ (١٠٠٦) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٧٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٢٥) (صحیح) (سند میں لیث بن أبی سلیم ضعیف، اور ابراہیم بن اسماعیل مجہول الحال ہیں، لیکن حدیث شواہد کی بناء پر صحیح ہے، ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود : ٦٢٩ ، ٩٢٢ ، ١٠٣٤ )

【626】

نفل نماوہاں نہ پڑھے جہاں فرض پڑھے

مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : امام اس جگہ سنت (نفل نماز) نہ پڑھے جہاں پر اس نے فرض پڑھائی ہے، جب تک کہ وہاں سے دور نہ جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٥٧ (٨٤٨ تعلیقاً ) ، سنن ابی داود/الصلاة ٧٣ (٦١٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٥١٧) (صحیح) (دوسری حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں عثمان بن عطاء ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود : ٦٢٩ ) اس سند سے بھی مغیرہ (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ : (اس کی سند میں بقیہ ضعیف ہیں، ابو عبد الرحمن مجہول ہیں، اور عثمان ضعیف ہیں )

【627】

مسجد میں نماز کے لئے ایک جگہ ہمیشہ

عبدالرحمٰن بن شبل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (نماز میں) تین چیزوں سے منع فرمایا : ایک تو کوے کی طرح ٹھونگ مارنے سے، دوسرے درندے کی طرح بازو بچھانے سے، اور تیسرے نماز کے لیے ایک جگہ متعین کرنے سے جیسے اونٹ اپنی جگہ مقرر کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٤٨ (٨٦٢) ، سنن النسائی/التطبیق ٥٥ (١١١٣) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٠١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٢٨، ٤٤٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ٧٥ (١٣٦٢) (حسن )

【628】

مسجد میں نماز کے لئے ایک جگہ ہمیشہ

سلمہ بن الاکوع (رض) کہتے ہیں کہ وہ نماز الضحیٰ (چاشت کی نفل نماز) کے لیے آتے اور صف سے پہلے ستون کے پاس جاتے اور اس کے نزدیک نماز پڑھتے، میں مسجد کے ایک گوشے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ان سے کہتا : آپ اس جگہ نماز کیوں نہیں پڑھتے ؟ تو وہ کہتے : میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ اسی جگہ کا قصد کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٩٥ (٥٠٢) ، صحیح مسلم/الصلاة ٤٩ (٥٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٤١) ، مسند احمد (٤/٤٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بظاہر یہ حدیث اگلی حدیث کے خلاف ہے جس میں مسجد کے اندر ایک جگہ متعین کرنے کی ممانعت ہے، تطبیق اس طرح ممکن ہے کہ یہ ممانعت فرائض کے لئے ہے، سنن اور نوافل کے لئے نہیں، اور بعض نے کہا ہے کہ قصد کرنا اور خاص کرنا دونوں الگ الگ چیز ہے، کیوں کہ خاص کرنے میں ملکیت ثابت ہوتی ہے، اور مسجد کسی کی ملک نہیں ہے، اور قصد کرنے کا یہ مطلب ہوگا کہ اگر جگہ خالی ہو تو وہاں پڑھے، اور نبی کریم ﷺ جو اس ستون کا قصد کرتے تو اس کی کوئی علت حدیث میں مذکور نہیں ہے۔

【629】

نماز کے لئے جوتا اتار کر کہاں رکھے ؟

عبداللہ بن سائب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فتح مکہ کے دن نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، تو آپ نے اپنے جوتے بائیں طرف رکھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٨٩ (٦٤٨) ، سنن النسائی/الافتتاح ٧٦ (١٠٠٨) ، (تحفة الأشراف : ٥٣١٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ١٠٦ (٧٧٤ تعلیقاً ) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٥ (٤٥٥) ، مسند احمد (٣/٤١١) (صحیح )

【630】

نماز کے لئے جوتا اتار کر کہاں رکھے ؟

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جوتے اپنے پاؤں میں پہنے رکھو، اور اگر انہیں اتارو تو اپنے پیروں کے درمیان رکھو، اور اپنے دائیں طرف نہ رکھو، نہ اپنے ساتھی کے دائیں طرف رکھو، اور نہ پیچھے رکھو کیونکہ پیچھے والوں کو تکلیف ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٦٩، ومصباح الزجاجة : ٥٠٤) وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٩٠ (٦٥٥) (ضعیف جدا) (یہ حدیث سخت ضعیف ہے کیونکہ سند میں عبد اللہ بن سعید متروک اور منکر الحدیث ہے، لیکن ابو داود کی صحیح روایت میں سیاق اس سے مختلف ہے، ألزم نعليك قدميك اور ولا ورائك فتؤذي من خلفک صرف ابن ماجہ میں ہے، اس لئے یہ الفاظ منکر ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اگر جوتے پاک و صاف ہوں تو اس کو پہن کر نماز پڑھنا صحیح ہے، خود رسول اللہ ﷺ نے اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جوتے پہن کر نماز پڑھی ہے، نیز اس حدیث میں جوتے رکھنے کے آداب بھی سکھائے گئے ہیں۔