9. روزوں کا بیان
روزوں کی فضیلت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : انسان کی ہر نیکی دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : سوائے روزے کے اس لیے کہ وہ میرے لیے خاص ہے، اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، آدمی اپنی خواہش اور کھانا میرے لیے چھوڑ دیتا ہے، روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں : ایک افطار کے وقت اور دوسری اپنے رب سے ملنے کے وقت، اور روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی بو سے بہتر ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث وکیع عن الأعمش قد أخرجہ : صحیح مسلم/الصوم ٣٠ (١١٥١) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٢٠) ، وحدیث أبي معاویہ عن الأعمش قد أخرجہ : صحیح مسلم/الصوم ٣٠ (١١٥١) ، (تحفة الأشراف : ١٢٤٧٠) ، مسند احمد (٢/٢٣٢، ٢٥٧، ٢٦٦، ٢٧٣، ٢٩٣، ٣٥٢، ٤٤٣، ٤٤٥، ٤٧٥، ٤٧٧، ٤٨٠، ٥٠١) ، سنن الدارمی/ الصوم ٥٠ (١٨١١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ روزہ دار کے سوا دوسری نیکیوں کا ثواب معین اور معلوم ہے، یا ان کا ثواب دینا فرشتوں کو سونپ دیا گیا ہے اور روزے کا ثواب اللہ تعالیٰ نے خاص اپنے علم میں رکھا ہے، اور وہ خود ہی قیامت کے دن روزہ دار کو عنایت فرمائے گا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اور نیکیوں میں ریا کی گنجائش ہے، روزہ ریا سے پاک ہے، آدمی اسی وقت روزہ رکھے گا اور حیوانی و نفسانی خواہشات سے اسی وقت باز رہے گا جب اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا ڈر ہوگا، ورنہ روزہ نہ رکھے گا اور لوگوں کے سامنے اپنے آپ کو روزہ دار ظاہر کرے گا۔ خلوف سے مراد وہ بو ہے جو سارے دن بھوکا پیاسا رہنے کی وجہ سے روزہ دار کے منہ سے آتی ہے۔
روزوں کی فضیلت
قبیلہ عامر بن صعصعہ کے مطرف نامی ایک فرد بیان کرتے ہیں کہ عثمان بن ابی العاص ثقفی (رض) نے انہیں پلانے کے لیے دودھ منگایا، تو انہوں نے کہا کہ میں روزے سے ہوں، اس پر عثمان (رض) نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : روزہ جہنم سے ڈھال ہے جیسے تم میں سے کسی کے پاس لڑائی میں ڈھال ہوتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الصیام ٤٣ (٢٢٣٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٧١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٢، ٢١٧) (صحیح )
روزوں کی فضیلت
سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہا جاتا ہے، قیامت کے دن پکارا جائے گا، کہا جائے گا روزہ دار کہاں ہیں ؟ تو جو روزہ داروں میں سے ہوگا وہ اس دروازے سے داخل ہوگا اور جو اس میں داخل ہوگا وہ کبھی پیاسا نہ ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصوم ٥٥ (٧٦٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٧٧١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصوم ٤ (١٨٩٦) ، بدأالخلق ٩ (٣٢٥٧) ، صحیح مسلم/الصوم ٣٠ (١١٥٢) ، کلاھمادون جملة الظمأ، سنن النسائی/الصیام ٤٣ (٢٢٣٨) ، مسند احمد (٥/٣٣٣، ٣٣٥) (صحیح) (وَمَنْ دَخَلَهُ لَمْ يَظْمَأْ أَبَدًا کا جملہ صحیح نہیں ہے، تراجع الألبانی : رقم : ٣٥١ )
ماہ رمضان کی فضیلت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے روزہ رکھا، اس کے اگلے گناہ بخش دئیے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٢٧ (٣٨) ، الصوم ٦ (١٩٠١) ، التراویح ١ (٢٠٠٩) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٣ (١٦٠٤) ، الصوم ٢٢ (٢١٩٦) الإیمان ٢١ (٥٠٢٧) ، ٢٢ (٥٠٣٠) ، (تحفة الأشراف : ١٥٣٥٣) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٥ (٧٦٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣١٨ (١٣٧١) ، سنن الترمذی/الصوم ١ (٦٨٣) ، ٨٣ (٨٠٨) ، موطا امام مالک/الصلاة في رمضان ١ (٢) ، مسند احمد (٢/٢٤١، ٢٨١، ٢٨٩، ٤٠٨، ٤٢٣، ٤٧٣، ٤٨٦، ٥٠٣، ٥٢٩، سنن الدارمی/الصوم ٥٤ (١٨١٧) (صحیح )
ماہ رمضان کی فضیلت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیطان اور سرکش جن زنجیروں میں جکڑ دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، اور اس کا کوئی بھی دروازہ کھلا ہوا نہیں رہتا، جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، اور اس کا کوئی بھی دروازہ بند نہیں رہتا، منادی پکارتا ہے : اے بھلائی کے چاہنے والے ! بھلائی کے کام پہ آگے بڑھ، اور اے برائی کے چاہنے والے ! اپنی برائی سے رک جا، کچھ لوگوں کو اللہ جہنم کی آگ سے آزاد کرتا ہے، اور یہ (رمضان کی) ہر رات کو ہوتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصوم ١ (٦٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١٢٤٩٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصوم ٥ (١٨٩٨، ١٨٩٩) ، بدأالخلق ١١ (٣٦٧٧) ، صحیح مسلم/الصوم ١ (١٠٧٩) ، سنن النسائی/الصیام ٣ (٢٠٩٩) ، موطا امام مالک/الصیام ٢٢ (٥٩) ، مسند احمد (٢/٢٨١، ٢٨٢، ٣٥٧، ٣٧٨، ٤٠١) ، سنن الدارمی/الصوم ٥٣ (١٨١٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہی وجہ ہے کہ رمضان میں اہل ایمان کی توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھ جاتی ہے، اور وہ اس میں تلاوت قرآن، ذکر و عبادت اور توبہ و استغفار کا خصوصی اہتمام کرنے لگتے ہیں۔
ماہ رمضان کی فضیلت
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ہر افطار کے وقت کچھ لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے اور یہ (رمضان کی) ہر رات کو ہوتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٣٣٥، ومصباح الزجاجة : ٥٩٧) (حسن صحیح) (حدیث شواہد کی بناء پر صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو : صحیح الترغیب : ٩٩١ - ٩٩٢، صحیح ابن خزیمہ : ١٨٨٣ )
ماہ رمضان کی فضیلت
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رمضان آیا تو رسول کرام ﷺ نے فرمایا : یہ مہینہ آگیا اور اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو اس سے محروم رہا وہ ہر طرح کے خیر (بھلائی) سے محروم رہا، اور اس کی بھلائی سے محروم وہی رہے گا جو (واقعی) محروم ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٤، ومصباح الزجاجة : ٥٩٨) (حسن صحیح )
شک کے دن روزہ
صلہ بن زفر کہتے ہیں کہ ہم شک والے دن میں عمار بن یاسر (رض) کے پاس تھے ان کے پاس ایک بھنی ہوئی بکری لائی گئی بعض لوگ اس کو دیکھ کر الگ ہوگئے، (کیونکہ وہ روزے سے تھے) عمار (رض) نے کہا : جس نے ایسے دن میں روزہ رکھا اس نے ابوالقاسم ﷺ کی نافرمانی کی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ١١ (١٩٠٦) ، (تعلیقا) سنن ابی داود/الصوم ١٠ (٢٣٣٤) ، سنن الترمذی/الصوم ٣ (٦٨٦) ، سنن النسائی/الصیام ٢٠ (٢١٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٥٤) وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الصوم ١ (١٧٢٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: شک والے دن سے مراد ٣٠ شعبان کا دن ہے یعنی بادلوں کی وجہ سے ٢٩ ویں کو چاند نظر نہ آیا ہو تو پتہ نہیں چلتا کہ یہ شعبان کا تیسواں دن ہے یا رمضان کا پہلا دن اسی وجہ سے اسے شک کا دن کہتے ہیں۔
شک کے دن روزہ
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے چاند دیکھنے سے ایک روز پہلے روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٣٣٩، ومصباح الزجاجة : ٥٩٩) (صحیح) (سند میں عبد اللہ بن سعید المقبری ضعیف ہے، لیکن دوسرے طرق سے یہ صحیح ہے، صحیح ابو داود : ٢٠١٥ )
شک کے دن روزہ
معاویہ بن ابی سفیان (رض) منبر پر کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان سے پہلے منبر پر فرمار ہے تھے : روزہ فلاں فلاں دن شروع ہوگا، اور ہم اس سے پہلے سے روزہ رکھنے والے ہیں لہٰذا جس کا جی چاہے پہلے سے روزہ رکھے، اور جس کا جی چا ہے مؤخر کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٤٣٦، ومصباح الزجاجة : ٦٠٠) (ضعیف) (سند میں ھیثم بن حمید ضعیف ہے، نیز ( ١٦٥٠ ) نمبر پر ابوہریرہ (رض) کی حدیث کے یہ مخالف ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی رمضان کا دن آجائے تب روزہ شروع کرے، واضح رہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے، مسئلہ کے لیے حدیث نمبر ( ١٦٥٠ ) کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیں۔
شعبان کے روزے رمضان کے روزوں کے ساتھ ملا دینا
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ شعبان کو رمضان سے ملا دیتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصوم ٣٧ (٧٣٦) ، سنن النسائی/الصیام ١٩ (٢١٧٨) ، ٧٠ (٢٣٥٤، ٢٣٥٥) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٣٢) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصوم ١١ (٢٣٣٦) ، مسند احمد (٦/٣٠٠، ٣١١) ، سنن الدارمی/الصوم ٣٣ (١٧٨٠) (صحیح) (ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود : ٢٠٢٤ )
شعبان کے روزے رمضان کے روزوں کے ساتھ ملا دینا
ربیعہ بن الغاز سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے رسول اللہ ﷺ کے روزے کے سلسلے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : آپ ﷺ پورے شعبان روزے رکھتے تھے یہاں تک کہ اسے رمضان سے ملا دیتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصیام ٤٤ (٧٤٥ مختضراً ) ، سنن النسائی/الصیام ١٩ (٢١٨٨) ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٨١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصوم ٥٢ (٩٧٠) ، صحیح مسلم/الصیام ٣ (١٠٨٢) ، موطا امام مالک/الصیام ٢٢ (٥٦) ، مسند احمد (٦/٨٠، ٨٩، ١٠٦) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ١٧٣٩) (حسن صحیح) (صحیح أبی داود : ٢١٠١ ) وضاحت : ١ ؎: پورے شعبان روزے رکھنے کے معنی یہ ہیں کہ آپ ﷺ شعبان میں روزے زیادہ رکھتے تھے کیونکہ اس مہینہ میں اعمال رب العالمین کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں، اور آپ کو یہ بات بےحد پسند تھی کہ جب آپ کے اعمال بارگاہ الٰہی میں پیش ہوں تو آپ روزے کی حالت میں ہوں۔
رمضان سے ایک دن قبل روزہ رکھنا منع ہے، سوائے اس شخص کے جو پہلے سے کسی دن کا روزہ رکھتا ہو اور وہی دن رمضان سے پہلے آجائے۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رمضان سے ایک دن یا دو دن پہلے روزہ نہ رکھو، الا یہ کہ کوئی آدمی پہلے سے روزے رکھ رہا ہو تو وہ اسے رکھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الصوم ٣١ (٢١٧١، ٢١٧٢) ، ٣٨ (٢١٨٩) ، (تحفة الأشراف : ١٥٣٩١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصوم ١٤ (١٩١٤) ، صحیح مسلم/الصوم ٣ (١٠٨٢) ، سنن ابی داود/الصوم ١١ (٢٣٣٥) ، سنن الترمذی/الصوم ٢ (٦٨٥) ، مسند احمد (٣/٢٣٤، ٣٤٧، ٤٠٨، ٤٣٨، ٧ ٧ ٤، ٤٩٧، ٥١٣) ، سنن الدارمی/الصوم ٤ (١٧٣١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مثلاً پہلے سے جمعرات یا سوموار (پیر) کے روزے رکھنے کا معمول ہو، اور یہ دن اتفاق سے رمضان سے دو یا ایک دن پہلے آجائے تو اس کا روزہ رکھے کیونکہ یہ روزہ رمضان کے استقبال کے لیے نہیں ہے۔
رمضان سے ایک دن قبل روزہ رکھنا منع ہے، سوائے اس شخص کے جو پہلے سے کسی دن کا روزہ رکھتا ہو اور وہی دن رمضان سے پہلے آجائے۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب نصف شعبان ہوجائے، تو روزے نہ رکھو، جب تک کہ رمضان نہ آجائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصوم ١٢ (٢٣٣٧) ، سنن الترمذی/الصوم ٣٨ (٧٣٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٠٥١، ١٤٠٩٥) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الصوم ٣٤ (١٧٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ بات عام امت کے لئے ہے، نبی اکرم ﷺ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ شعبان کے روزوں کو رمضان سے ملا دیا کرتے تھے کیونکہ آپ کو روحانی قوت حاصل تھی اس لئے روزہ آپ کے لئے کمزوری کا سبب نہیں بنتا تھا، لیکن امت کے لئے حکم یہ ہے کہ وہ نصف ثانی میں روزہ نہ رکھیں تاکہ ان کی قوت و توانائی رمضان کے روزوں کے لئے برقرار رہے۔
چاند دیکھنے کی گواہی
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک اعرابی (دیہاتی) نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور اس نے کہا : رات میں نے چاند دیکھا ہے، تو آپ ﷺ نے پوچھا : کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور محمد ﷺ اس کے رسول ہیں ؟ اس نے کہا : ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : اے بلال اٹھو، اور لوگوں میں اعلان کر دو کہ لوگ کل روزہ رکھیں ۔ ابوعلی کہتے ہیں : ایسے ہی ولید بن ابی ثور اور حسن بن علی کی روایت ہے، اس کو حماد بن سلمہ نے روایت کیا ہے، اور انہوں نے ابن عباس (رض) کا ذکر نہیں کیا اور کہا : تو بلال (رض) نے اعلان کیا کہ لوگ قیام اللیل کریں (یعنی صلاۃ تراویح پڑھیں) اور روزہ رکھیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصوم ١٤ (٢٣٤٠، ٢٣٤١) ، سنن الترمذی/الصوم ٧ (٦٩١) ، سنن النسائی/الصوم ٦ (٢١١٥) ، (تحفة الأشراف : ٦١٠٤) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الصوم ٦ (١٧٣٤) (ضعیف) (سند میں سماک ہیں جن کی عکرمہ سے روایت میں اضطراب ہے )
چاند دیکھنے کی گواہی
ابوعمیر بن انس بن مالک کہتے ہیں کہ میرے انصاری چچاؤں نے جو رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے تھے، مجھ سے بیان کیا ہے کہ ہمارے اوپر شوال کا چاند مشتبہ ہوگیا تو اس کی صبح ہم نے روزہ رکھا، پھر شام کو چند سوار آئے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے پاس گواہی دی کہ انہوں نے کل چاند دیکھا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ روزہ توڑ دیں اور دوسرے دن صبح عید کے لیے نکلیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٥٥ (١١٥٧) ، سنن النسائی/صلاة العیدین ١ (١٥٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١٥٦٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٥٧، ٥٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عید کے چاند کے لئے دو آدمیوں کی شہادت ضروری ہے، اور اہل حدیث کا یہ قول ہے کہ اگر شوال کے چاند کے دن یعنی رمضان کی ٢٩ تاریخ کو بادل ہو تو تیس دن پورے کرے جب تک چاند ثابت نہ ہو، جیسا کہ آگے آنے والی ابوہریرہ (رض) کی حدیث میں آیا ہے۔
چا ند دیکھ کر روزہ رکھنا اور چاند دیکھ کر افطار ( عید) کرنا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم چاند دیکھ لو تو روزہ رکھو، اور چاند دیکھ کر ہی روزہ توڑا کرو، اور اگر چاند بادل کی وجہ سے مشتبہ ہوجائے تو تیس دن کی تعداد پوری کرو ١ ؎۔ عبداللہ بن عمر (رض) چاند نکلنے کے ایک روز پہلے سے ہی روزہ رکھنا شروع کردیتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٨٠٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصوم ٥ (١٩٠٠) ، ١١ (١٩٠٨) ، صحیح مسلم/الصوم ٢ (١٠٨١) ، سنن ابی داود/الصوم ٤ (٢٣٢٠) ، سنن النسائی/الصوم ٧ (٢١٢٢) ، موطا امام مالک/الصیام ١ (١) مسند احمد (٢/٥، ٥/٥، ١٣، ٦٣، ١٤٥) ، سنن الدارمی/الصوم ٢ (١٧٢٦) (صحیح) (ملاحظہ ہو : الإرواء : ٤/١٠ و صحیح أبی داود : ٢٠٠٩ ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ روزہ رکھنے اور چھوڑنے میں چاند دیکھنا ضروری ہے محض فلکی حساب کافی نہیں۔ رہا یہ مسئلہ کہ ایک علاقہ کی رویت دوسرے علاقہ والوں کے لیے معتبر ہوگی یا نہیں تو اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے، رویت ہلال کا مسئلہ ہمیشہ بحث کا موضوع بنا رہتا ہے، اس لیے اس مسئلہ کی وضاحت ضروری ہے : اگر کسی جگہ چاند نظر آجائے تو کیا سارے مسلمانوں کے لیے واجب ہے کہ وہ اس رویت کی بنا پر روزہ رکھیں یا روزہ توڑ دیں یا ہر ملک اور علاقہ کے لوگ اپنے ملک کے مطلع کے مطابق چاند دیکھ کر اس کا اعتبار کریں، اور اس کے مطابق عمل کریں۔ ( ١ ) جمہور اہل علم جن میں امام ابوحنیفہ اور امام احمد بھی داخل ہیں کے نزدیک اگر ایک شہر میں چاند نکل آئے تو ہر جگہ کے لوگ اس کے مطابق روزہ رکھیں، اور چھوڑیں، یعنی ایک علاقے کی رویت دوسرے علاقے کے لیے کافی ہوگی، اس لیے کہ حدیث میں وارد صوموا اور أفطروا کا حکم عام ہے، اس کے مخاطب دنیا کے تمام مسلمان ہیں، ان کے نزدیک رویت ہلال میں مطالع کے اتفاق اور اختلاف کا کوئی اعتبار نہیں۔ ( ٢ ) علماء کی ایک جماعت جن میں امام شافعی سرفہرست ہیں کے نزدیک رویت ہلال کے مسئلے میں اختلاف مطالع مؤثر اور معتبر ہے، زیر نظر حدیث میں جو حکم ہے وہ ان لوگوں کے لیے جن کے یہاں ہلال نظر آگیا ہے، لیکن جہاں چاندنظر ہی نہیں آیا تو ان کے لیے یہ حکم اس وقت مؤثر ہوگا جب چاند نظر آئے جائے گا جیسے صوم و صلاۃ کے اوقات میں ہر جگہ کے طلوع اور غروب کا اعتبار ہے، ایسے ہی چاند کی رویت میں بھی اختلاف مطالع مؤثر ہے، اس لیے ایک علاقہ کی رویت دوسرے علاقے کے مسلمانوں کے لئے کافی نہیں، اس حدیث کے مخاطب صرف وہ مسلمان ہیں جنھوں نے چاند دیکھا ہو، اور جن علاقے کے مسلمانوں نے چاند دیکھا ہی نہیں وہ اس کے مخاطب نہیں ہیں، اس لیے ہر علاقے کے لیے اپنی اپنی الگ الگ رویت ہے جس کے مطابق وہ روزہ رکھنے اور عید منانے کا فیصلہ کریں گے۔ شیخ الإسلام ابن تیمیہ کہتے ہیں : اہل علم کا اس مسئلے پر اتفاق ہے کہ مطالع مختلف ہوتے ہیں، اگر مطلع ایک ہو تو روزہ لازمی طور پر رکھنا ہوگا، ورنہ اختلاف مطالع کی صورت میں روزہ رکھنا ضروری نہیں ہوگا، شافعیہ کا صحیح ترین قول نیز حنبلی مذہب کا ایک قول یہی ہے، اس عقلی دلیل کے ساتھ اختلاف مطالع کے مؤثر ہونے کی نقلی دلیل صحیح مسلم میں آئی ہے : کریب کہتے ہیں کہ میں شام آیا اور جمعہ کی رات میں رمضان کا چاند دیکھا آخری مہینہ میں واپس مدینہ آیا تو مجھ سے ابن عباس (رض) نے پوچھا : تم لوگوں نے شام میں کب چاند دیکھا تو میں نے جواب دیا کہ جمعہ کی رات کو لوگوں نے چاند دیکھا اور روزہ رکھا، ابن عباس (رض) نے کہا : ہم لوگوں نے مدینہ میں سنیچر کی رات کو چاند دیکھا ہے، ہم چاند دیکھ کر روزہ توڑیں گے یا تیس دن پورا کریں گے، اس لیے کہ رسول اکرم ﷺ نے ہمیں ایسے ہی حکم دیا ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ اہل علم کا عمل اس حدیث پر ہے۔ اس قصے سے یہ بات واضح ہے کہ ابن عباس (رض) نے شام والوں کی رویت کا اعتبار نہیں کیا بلکہ مدینہ والوں کی رویت کو معتبر مانا۔ اس مذہب کے قائلین اختلاف مطالع کو جو کہ ایک حقیقت ہے رویت ہلال کے مسئلہ میں معتبر مانتے ہیں، امت میں اس سلسلے میں شروع سے اختلاف چلا آ رہا ہے، جس کی بنیاد حدیث کے ساتھ ساتھ اختلاف مطالع کو معتبر ماننا بھی ہے۔ کتاب الزلال کے مؤلف فرماتے ہیں : یہ بات یقینی طور پر جان لینی چاہیے صحیح بات جس پر محقق علمائے حدیث و اہل نظر اور فلکیات کے ماہرین کا اتفاق ہے کہ رویت ہلال میں دیکھا جائے گا کہ جس جگہ رویت ہوئی ہے، وہاں سے دو ہزار دو سو چھبیس ( ٢٢٢٦ ) کلومیٹر کے درمیان کی دوری کا حکم اتحاد مطالع کی وجہ سے روزہ رکھنے اور توڑنے میں یکساں ہوگا، اور اگر اس سے زیادہ مسافت ہوگی تو اس کا اعتبارصحیح نہیں ہوگا، اور ہر علاقے کا حکم اس کے مطلع کے اختلاف کے مطابق ہوگا، چاہے یہ دوری مشرق و مغرب کی ہو یا شمال و جنوب کی اور چاہے یہ ایک ملک میں ہو یا ایک اقلیم میں، یہ شرعی دلائل اور فلکیاتی حساب کے موافق ہے، اور اس سے سارے اشکالات ختم ہوجاتے ہیں واللہ اعلم رویت ہلال سے متعلق سعودی عرب کے کبار علماء کے بورڈ کے متفق علیہ فتوے کا خلاصہ درج ذیل ہے : اختلافِ مطالع ضروری طور پر معلوم و مشہور چیز ہے، جس کے بارے میں کوئی اختلاف ہے ہی نہیں، ہاں علماء کے نزدیک اس کے معتبر ماننے اور نہ ماننے کے درمیان اختلاف ہے، اختلافِ مطالع کو رویت ہلال کے سلسلے میں مؤثر و معتبر ماننا اور نہ ماننا ان مسائل میں سے ہے جن میں اجتہاد کی گنجائش ہے، معتبر اہل علم اور اہل دین کے یہاں اس میں اختلاف رہا ہے، اور یہ جائز قسم کا اختلاف ہے، اہل علم کی اس میں دو رائے ہے، ایک گروہ اختلافِ مطالع کو مؤثر مانتا ہے، اور دوسرے گروہ کے یہاں اختلافِ مطالع کا اعتبار نہیں ہے، ہر فریق کا اپنا اپنا استدلال ہے، علماء بورڈ نے اس مسئلے کے مختلف گوشوں پر غور و خوض کر کے اور یہ مان کر کہ یہ مسئلہ چودہ سال سے امت میں موجود ہے، اس رائے کا اظہار کیا کہ ان گزشتہ صدیوں میں ہمیں کسی ایسے زمانے کا علم نہیں ہے جس میں ایک شہر کی رویت کی بنا پر سب لوگوں نے ایک دن ہی عید منائی ہو، اس لیے بورڈ کے ممبران کا فیصلہ یہ ہے کہ یہ مسئلہ جیسے ہے ویسے ہی رہنے دیا جائے، ہر اسلامی ملک کو اس بات کا حق ہے کہ ان دونوں میں سے ان کے علماء وفقہاء جس رائے کے مطابق فتوی دیں اس کے مطابق عمل کیا جائے، رہ گیا چاند کا ثبوت فلکیاتی حساب سے تو علماء بورڈ اسے بالاجماع غیر معتبر مانتا ہے، واللہ اعلم۔ (ملاحظہ ہو : توضیح الأحکام من بلوغ المرام للشیخ عبداللہ بن عبدالرحمن البسام حدیث نمبر : ٥٤١ )
چا ند دیکھ کر روزہ رکھنا اور چاند دیکھ کر افطار ( عید) کرنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم چاند دیکھو تو روزہ رکھو، اور جب چاند دیکھو تو روزہ توڑ دو ، اگر بادل آجائے تو تیس روزے پورے کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ٢ (١٠٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٠٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصوم ١١ (١٩٠٦) ، سنن الترمذی/الصوم ٢ (٦٨٤) ، سنن النسائی/الصیام ٧ (٢١٢٠) ، مسند احمد (٢/ ٢٥٩، ٢٦٣، ٢٨، ٢٨٧، ٤١٥، ٤٢٢، ٤٣٠، ٤٣٨، ٤٥٤، ٤٥٦، ٤٦٩، ٤٩٧) ، سنن الدارمی/الصوم ٢ (١٧٦٧) (صحیح )
مہینہ کبھی انتیس دن کا بھی ہورتا ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مہینہ میں کتنے دن گزرے ہیں ؟ ہم نے عرض کیا : بائیس دن گزرے ہیں اور آٹھ دن باقی ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : مہینہ اتنا، اتنا اور اتنا ہے، اور تیسری بار ایک انگلی بند کرلی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٥١، ومصباح الزجاجة : ٦٠١) ، مسند احمد (٢/٢٥١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: آپ ﷺ نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے تین بار اشارہ فرمایا، اور تیسری بار میں ایک انگلی بند کرلی تو ٢٩ دن ہوئے، مطلب آپ کا یہ تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جو کہا کہ ٢٢ دن گزرے ہیں اور آٹھ دن باقی ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ مہینہ تیس دن کا ہوتا ہے، یہ بات نہیں ہے، ٢٩ دن کا بھی ہوتا ہے، اور نبی کریم ﷺ نے ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن سے ایک ماہ کے لئے ایلا کیا تھا، پھر ٢٩ دن کے بعد ان کے پاس آگئے، اس سے معلوم ہوا کہ اگر ایک مہینہ تک کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کے لئے قسم کھائے تو ٢٩ دن قسم پر عمل کرنا کافی ہے۔
مہینہ کبھی انتیس دن کا بھی ہورتا ہے
سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مہینہ اتنا، اتنا اور اتنا ہے، تیسری دفعہ میں ٢٩ کا عدد بنایا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ٤ (١٠٨٦) ، سنن النسائی/الصیام ٨ (٢١٣٧، ٢١٣٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٢٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٨٤) (صحیح )
مہینہ کبھی انتیس دن کا بھی ہورتا ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں بہ نسبت ٣٠ دن کے زیادہ تر انتیس دن کے روزے رکھے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٦٢٢، ومصباح الزجاجة : ٦٠٢) (حسن صحیح) (ملاحظہ ہو : صحیح أبی داود : ٢٠١١ )
عید کے دونوں مہینوں کا بیان
ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عید کے دونوں مہینے رمضان اور ذی الحجہ کم نہیں ہوتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ١٢ (١٩١٢) ، صحیح مسلم/الصوم ٧ (١٠٨٩) ، سنن ابی داود/الصوم ٤ (٢٣٢٣) ، سنن الترمذی/الصوم ٨ (٦٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٨، ٤٧، ٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی دونوں مہینے ٢٩ دن کے نہیں ہوتے، اگر ایک ٢٩ کا ہوتا ہے، تو دوسرا تیس کا، اور بعض نے کہا : مطلب یہ ہے کہ گو ان مہینوں کے دن کم ہوں لیکن اجر و ثواب کم نہیں ہوتا، تیس دن کا ثواب ملتا ہے اور یہی صحیح ہے۔
عید کے دونوں مہینوں کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا : عید الفطر وہ دن ہے جس میں تم لوگ روزہ توڑ دیتے ہو، اور عید الاضحی وہ دن ہے جس میں تم لوگ قربانی کرتے ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٤٢٨) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصوم ٥ (٢٣٢٤) ، سنن الترمذی/الصوم ١١ (٦٩٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ جب مسلمان عید کریں تو ہر ایک کو اس میں شریک ہوجانا چاہیے، جماعت سے الگ رہ کر اپنی عید علیحدہ کرنا اور چاند کی تحقیق میں مبالغہ کرنا ضروری نہیں ہے، ہماری عید جماعت کی عید کے ساتھ پوری ہوجائے گی، اور جس نے جھوٹ بولا یا جھوٹی گواہی دی اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
سفر میں روزہ رکھنا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سفر میں روزہ رکھا بھی ہے، اور نہیں بھی رکھا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٣٨ (١٩٤٨) ، صحیح مسلم/الصوم ١٥ (١١١٣) ، سنن النسائی/الصوم ٣١ (٢٢٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٤٢٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصوم ٤٢ (٢٤٠٤) ، موطا امام مالک/الصیام ٧ (٢١) ، مسند احمد (١/٢٤٤، ٣٥٠) ، سنن الدارمی/الصوم ١٥ (١٧٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سفر میں روزہ رکھنے کے سلسلہ میں اختیار ہے چاہے رکھے یا نہ رکھے، اور آگے جو باب آ رہا ہے اس کی حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھنا افضل ہے، اس لئے بہتر یہی ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھا جائے۔
سفر میں روزہ رکھنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ حمزہ اسلمی (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : میں روزہ رکھتا ہوں تو کیا میں سفر میں بھی روزہ رکھوں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : اگر چاہو تو رکھو، اور چاہو تو نہ رکھو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ١٧ (١١٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٦٩٨٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصوم ٤٢ (٢٤٠٤) ، سنن النسائی/الصیام ٣١ (٢٣٠٨) ، ٤٣ (٢٣٨٦) ، مسند احمد (٣/٤٩٤) ، سنن الدارمی/الصوم ١٥ (١٧٤٨) (صحیح )
سفر میں روزہ رکھنا
ابوالدرداء (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں سخت گرمی کے دن دیکھا کہ آدمی اپنا ہاتھ گرمی کی شدت کی وجہ سے اپنے سر پر رکھ لیتا، اور لوگوں میں رسول اللہ ﷺ اور عبداللہ بن رواحہ (رض) کے سوا کوئی بھی روزے سے نہ تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ١٧ (١١٢٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٩١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصوم ٣٥ (١٩٤٥) ، سنن ابی داود/الصوم ٤٤ (٢٤٠٩) ، مسند احمد (٥/١٩٤، ٦/٤٤) (صحیح )
سفر میں روزہ موقوف کر دینا
کعب بن عاصم (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الصیام ٢٥ (٢٢٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١١١٠٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥ /٤٣٤) ، سنن الدارمی/الصوم ١٥ (١٧٥١) (صحیح )
سفر میں روزہ موقوف کر دینا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨١١٠، ومصباح الزجاجة : ٦٠٣) (صحیح )
سفر میں روزہ موقوف کر دینا
عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سفر میں روزہ رکھنے والا ایسا ہے جیسے کہ حضر میں روزہ نہ رکھنے والا ۔ ابواسحاق کہتے ہیں : یہ حدیث کچھ نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٧٣٠، ومصباح الزجاجة : ٦٠٤) (ضعیف) (ابوسلمہ کا اپنے والد عبدالرحمن سے سماع نہیں ہے، اور اسامہ بن زید ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٤٩٨ )
حاملہ اور دودھ پلانے والی کے لئے روزہ موقوف کردینا
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ قبیلہ بنی عبدالاشہل کے اور علی بن محمد کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی عبداللہ بن کعب کے ایک شخص نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے سوار ہمارے اوپر حملہ آور ہوئے تو میں آپ ﷺ کے پاس آیا، اور آپ دوپہر کا کھانا تناول فرما رہے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا : قریب آ جاؤ اور کھاو ٔ میں نے کہا : میں روزے سے ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : بیٹھو میں تمہیں روزے کے سلسلے میں بتاتا ہوں اللہ تعالیٰ نے مسافر سے آدھی نماز معاف کردی ہے، اور مسافر، حاملہ اور مرضعہ (دودھ پلانے والی) سے روزہ معاف کردیا ہے، قسم اللہ کی نبی اکرم ﷺ نے یہ دونوں باتیں فرمائیں، یا ایک بات فرمائی، اب میں اپنے اوپر افسوس کرتا ہوں کہ میں نے آپ کے کھانے میں سے کیوں نہیں کھایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصوم ٤٣ (٢٤٠٨) ، سنن الترمذی/الصوم ٢١ (٧١٥) ، سنن النسائی/الصوم ٢٨ (٢٢٧٦) ، ٣٤ (١٣١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٤٧، ٥/٢٩) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اگر ان کے روزہ رکھنے سے پیٹ کے بچہ کو یا دودھ پینے والے بچے کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو وہ روزہ نہ رکھیں، اور بعد میں ان کی قضا کریں۔
حاملہ اور دودھ پلانے والی کے لئے روزہ موقوف کردینا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حاملہ کو جسے اپنی جان کا ڈر ہو، اور دودھ پلانے والی عورت کو جسے اپنے بچے کا ڈر ہو، رخصت دی کہ وہ دونوں روزے نہ رکھیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٤٠) (ضعیف جدا) (اس کی سند میں ربیع بن بدر متروک راوی ہیں )
رمضان کی قضا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میرے اوپر رمضان کے روزے ہوتے تھے میں ان کی قضاء نہیں کر پاتی تھی یہاں تک کہ شعبان کا مہینہ آجاتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٤٠ (١٩٥٠) ، صحیح مسلم/الصوم ٢٦ (١١٤٦) ، سنن ابی داود/الصوم ٤٠ (٢٣٩٩) ، سنن النسائی/الصیام ٣٦ (٢٣٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٧٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصیام ٢٠ (٥٤) ، مسند احمد (٦/١٢٤، ١٧٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جب شعبان کا مہینہ آتا تو نبی اکرم ﷺ بھی اس مہینہ میں بہت روزے رکھتے، ام المومنین عائشہ (رض) بھی قضا کرتیں، اور قضا میں دیر کرنے کی وجہ یہ ہوتی کہ نبی کریم ﷺ کو عائشہ (رض) کی محبت بہت تھی، پہلے روزے رکھنے سے اندیشہ تھا کہ نبی کریم ﷺ کو تکلیف ہوگی۔
رمضان کی قضا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ہمیں نبی اکرم ﷺ کے پاس حیض آتا تھا تو آپ ہمیں روزے کی قضاء کا حکم دیتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطہارة ٩٧ (١٣٠) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٧٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحیض ٢٠ (٣٢١) ، صحیح مسلم/الحیض ١٥ (٣٣٥) ، سنن ابی داود/الطہارة ١٠٥ (٢٦٣) ، سنن النسائی/الحیض ١٧ (٣٨٢) ، الصیام ٣٦ (٢٣٢٠) ، مسند احمد (٦/٣٢، ٩٧، ١٢٠) (صحیح )
رمضان کا روزہ توڑنے کا کفارہ
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک شخص آیا، اس نے عرض کیا : میں ہلاک ہوگیا، آپ ﷺ نے فرمایا : تمہیں کس چیز نے ہلاک کردیا ؟ اس نے کہا : میں نے رمضان میں اپنی بیوی سے صحبت کرلی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : تم ایک غلام آزاد کرو ، اس نے کہا : میرے پاس غلام آزاد کرنے کی طاقت نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : اچھا تو دو مہینے لگاتار روزے رکھو ، اس نے کہا : میں اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا، آپ ﷺ نے فرمایا : پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ اس نے کہا : مجھے اس کی بھی طاقت نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : بیٹھ جاؤ وہ بیٹھ گیا، اسی دوران آپ کے پاس کھجور کا ایک ٹوکرا آگیا، اس ٹوکرے کو عرق کہتے تھے، آپ ﷺ نے اس سے فرمایا : جاؤ اسے صدقہ کر دو ، اس نے کہا : اللہ کے رسول ! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، مدینہ کی ان دونوں سیاہ پتھریلی پہاڑیوں کے بیچ کوئی اور گھر والا ہم سے زیادہ محتاج نہیں ہے، یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا : جاؤ اپنے گھر والوں کو کھلا دو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٣٠ (١٩٣٦) ، الہبة ٢٠ (٢٦٠٠) ، النفقات ١٣ (٥٣٦٨) ، الأدب ٦٨ (٦٠٨٧) ، ٩٥ (٦١٦٤) ، کفارات الأیمان ٢ (٦٧٠٩) ، ٣ (٦٧١٠) ، ٤ (٦٧١١) ، صحیح مسلم/الصوم ١٤ (١١١١) ، سنن ابی داود/الصوم ٣٧ (٢٣٩٠) ، سنن الترمذی/الصوم ٢٨ (٧٢٤) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٧٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصیام ٩ (٢٨) ، مسند احمد (٢/٢٠٨، ٢٤١، ٢٧٣، ٢٨١، ٥١٦) ، سنن الدارمی/الصوم ٨ (١٧٥٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ رمضان کا صیام قصداً توڑنے سے ظہار کا سا کفارہ لازم ہے، سبحان اللہ اس شخص کی بھی کیا قسمت تھی کہ روزے کا کفارہ بھی ساقط اور کھجور کا ٹوکرہ مفت ہاتھ آیا، علماء نے کہا ہے کہ یہ اس شخص کے ساتھ خاص تھا اگر دوسرا کوئی رمضان کا روزہ قصداً توڑے تو غلام آزاد کرے، اگر یہ نہ ہو سکے تو تو دو مہینے لگا تار روزے رکھے، اگر یہ نہ ہو سکے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے، اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو ٹھہرا رہے جب روزے کی طاقت آجائے یا مال ملے تو کفارہ ادا کرے، بہر حال اپنے بال بچوں کے کھلا دینے سے کفارے کا ادا ہوجانا اس شخص کے ساتھ خاص تھا، واللہ اعلم اس سند سے بھی ابوہریرہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ کے واسطے سے ایسے ہی بیان کیا ہے، اس میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : اس کی جگہ پر ایک دن کا روزہ رکھ لو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٣٧٦، ومصباح الزجاجة : ٦٠٥) ، مسند احمد (٢/٢٠٨) (صحیح )
رمضان کا روزہ توڑنے کا کفارہ
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص رمضان کا ایک روزہ بغیر کسی رخصت کے چھوڑ دے تو اسے پورے سال کے روزے (بھی) کافی نہ ہوں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصوم ٣٨ (٢٣٩٦) ، سنن الترمذی/الصوم ٢٧ (٧٢٣) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦١٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٨٦، ٤٤٢، ٤٥٨) ، سنن الدارمی/الصوم ١٨ (١٧٥٦) (ضعیف) (اس کے راوی ابن المطوس لین الحدیث اور والد مطوس مجہول ہیں، ملاحظہ ہو : ضعیف أبی داود : ٤١٣ )
بھولے سے افطار کرنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے بھول کر کھالیا اور وہ روزہ دار ہو تو اپنا روزہ پورا کرلے (توڑے نہیں) اس لیے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے کھلایا اور پلایا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٢٦ (١٩٣٣) ، سنن الترمذی/الصوم ٢٦ (٧٢٢) ، (تحفة الأشراف : ١٢٣٠٣، ١٤٤٧٩) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصوم ٣٣ (١١٥٥) ، سنن ابی داود/الصوم ٣٩ (٢٣٩٨) ، مسند احمد (٢/٣٩٥، ٤٢٥، ٤٩١، ٥١٣) ، سنن الدارمی/الصوم ٢٣ (١٧٦٧) (صحیح )
بھولے سے افطار کرنا
اسماء بنت ابی بکر (رض) کہتی ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایک دن بدلی میں روزہ افطار کرلیا، پھر سورج نکل آیا، ابواسامہ کہتے ہیں کہ میں نے ہشام سے کہا : پھر تو لوگوں کو روزے کی قضاء کا حکم دیا گیا ہوگا ؟ ، انہوں نے کہا : یہ تو ضروری ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٤٦ (١٩٥٩) ، سنن ابی داود/الصوم ٢٣ (٢٣٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٤٩) ، مسند احمد (٦/٣٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی قضا تو کرنا ضروری ہے ایسی حالت میں اس پر سب کا اتفاق ہے کہ جب دھوکہ سے روزہ کھول ڈالے بعد میں معلوم ہو کہ دن باقی تھا اور سورج نہیں ڈوبا تھا تو قضا لازم آئے گی، لیکن کفارہ لازم نہ ہوگا۔
روزہ دار کو قے آ جائے
فضالہ بن عبید انصاری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ان کے پاس ایک ایسے دن میں آئے جس میں آپ روزہ رکھا کرتے تھے، آپ نے ایک برتن منگوایا اور پانی پیا، ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ دن تو آپ کے روزے کا ہے ؟ ! آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، لیکن آج میں نے قے کی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٠٤١، ومصباح الزجاجة : ٦٠٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٨، ١٩، ٢١، ٢٢) (ضعیف) (اس میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت کی ہے، نیز ابو مرزوق کا سماع فضالہ (رض) سے ثابت نہیں ہے، اس لئے اس کی سند میں انقطاع بھی ہے )
روزہ دار کو قے آ جائے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جسے خود بہ خود قے آجائے اس پر روزے کی قضاء نہیں، اور جس نے جان بوجھ کر قے کی تو اس پر روزے کی قضاء ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث عبید اللہ عن علی قد تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٥١٩) وحدیث عبید اللہ عن الحکم قد أخرجہ : سنن ابی داود/الصوم ٣٢ (٢٣٨٠) ، سنن الترمذی/الصوم ٢٥ (٧٢٠) ، (تحفة الأشراف : ١٤٥٤٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٩٨) ، سنن الدارمی/الصوم ٢٥ (١٧٧٠) (صحیح )
روزہ دار کے لئے مسواک کرنا اور سرمہ لگانا۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : روزے دار کی اچھی عادتوں میں سے مسواک کرنا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٣٠، ومصباح الزجاجة : ٦٠٧) (ضعیف) (اس کی سند میں مجالد ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎: روزے دار کے لئے مسواک کرنا مکروہ نہیں ہے، کسی بھی وقت میں ہو، شروع دن میں یا اخیر دن میں، بلکہ سنت ہے، اکثر اہل علم کا یہی قول ہے، بعض لوگوں نے زوال کے بعد مسواک کرنا مکروہ سمجھا ہے اس وجہ سے کہ اس کے ذریعہ منہ کی بو ختم ہوجائے گی، جس کی فضیلت حدیث میں آئی ہے، لیکن یہ واضح رہے کہ اس بو کا تعلق منہ سے نہیں، بلکہ معدہ سے ہے، جو معدہ کے خالی ہونے کی حالت میں پیدا ہوتی ہے اسی کو عربی میں خلوف کہتے ہیں جس کا ذکر حدیث میں آیا ہے۔
روزہ دار کے لئے مسواک کرنا اور سرمہ لگانا۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سرمہ لگایا، اور آپ ﷺ روزے سے تھے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٩٠٦، ومصباح الزجاجة : ٦٠٨) (ضعیف )
روزہ دار کو پچھنے لگانا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پچھنا لگانے والے، اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٤١٧، ومصباح الزجاجة : ٦٠٩) (صحیح) (عبد اللہ بن بشر کا سماع اعمش سے ثابت نہیں ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: یہ حدیث تواتر کے درجے کو پہنچی ہوئی ہے، اور اس بارے میں نص ہے کہ پچھنا (سینگی) لگانے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اکثر فقہائے حدیث جیسے احمد، اسحاق بن راہویہ، ابن خزیمہ اور ابن المنذر کا یہی مذہب ہے، اور اسی کو محققین علماء جیسے شیخ الإسلام ابن تیمیہ اور ابن القیم نے اختیار کیا ہے، اور یہ مذہب صحیح اور قیاس کے موافق ہے، حجامت قے کی طرح ہے، اور جب کوئی عمداً قے کرے تو قے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، لیکن مالک، ابوحنیفہ، شافعی اور جمہور علماء اس کے جواز کے قائل ہیں اور اس حدیث کی تاویل میں ان کے مختلف اقوال ہیں ایک قول یہ ہے کہ أفطر الحاجم والمحجوم کا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں نے اپنے آپ کو افطار کے لیے پیش کردیا ہے بلکہ قریب پہنچ گئے ہیں، جسے سینگی لگائی گئی وہ ضعف و کمزوری کی وجہ سے اور سینگی لگانے والا اس لیے کہ اس سے بچنا مشکل ہے کہ جب وہ خون چوس رہا ہو تو خون کا قطرہ حلق میں چلا جائے اور روزہ ٹوٹ جائے اور ایک قول یہ ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے اور ناسخ انس (رض) کی روایت ہے جسے دارقطنی نے روایت کیا ہے : رخص النبي بعد في الحجامة للصائم وکان أنس يحتجم وهو صائم۔
روزہ دار کو پچھنے لگانا
ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا : پچھنا لگانے والے، اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصوم ٢٨ (٢٣٦٧) ، (تحفة الأشراف : ٢١٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٧٧، ٢٨٠، ٢٨٢، ٢٨٣) ، سنن الدارمی/الصیام ٣٦ (١٧٧٤) (صحیح )
روزہ دار کو پچھنے لگانا
ابوقلابہ سے روایت ہے کہ شداد بن اوس (رض) رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بقیع میں چل رہے تھے کہ اسی دوران آپ ایک شخص کے پاس سے گزرے جو چاند کی اٹھارہویں رات گزر جانے کے بعد پچھنا لگوا رہا تھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : پچھنا لگانے والے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصوم ٢٨ (٢٣٦٨) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٢٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٢٣، ١٢٤، ١٢٥) ، سنن الدارمی/الصوم ٢٦ (١٧٧١) (صحیح) (سند میں یحییٰ بن أبی کثیر مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن سابقہ حدیث تقویت پاکر صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ٤ /٦٨/٧٠ و صحیح أبی داود : ٢٠٥٠ - ٢٠٥١ )
روزہ دار کو پچھنے لگانا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے پچھنا لگوایا جب کہ آپ روزے سے تھے، اور احرام باندھے ہوئے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٣٦ (١٨٣٥) ، سنن الترمذی/الحج ٢٢ (٨٣٩) ، (تحفة الأشراف : ٦٤٩٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ١١ (١٨٣٥) ، الصوم ٣٢ (١٩٣٨) ، الطب ١٢ (٥٦٩٥) ، ١٥ (٥٧٠٠) ، صحیح مسلم/الحج ١١ (١٢٠٢) ، سنن النسائی/الحج ٩٢ (٢٨٤٩) ، مسند احمد (١/٢١٥، ٢٢١، ٢٣٦، ٢٤٨، ٢٤٩، ٢٦٠، ٢٨٣، ٢٨٦، ٢٩٢، ٣٠٦، ٣١٥، ٣٣٣، ٣٤٦، ٣٥١، ٣٧٢، ٣٧٤) ، سنن الدارمی/المناسک ٢٠ (١٨٦٠) ، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٣٠٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: صوم اور احرام دونوں حالتوں میں نبی اکرم ﷺ سے بچھنا لگوانا ثابت ہے، صحیح بخاری کے الفاظ ہیں : احْتَجَمَ وَهُوَ صَائِمٌ وَاحْتَجَمَ وَ هُوَ محْرِمٌ (نبی اکرم ﷺ نے روزے کی حالت میں پچھنا لگوایا اور احرام کی حالت میں سینگی لگوائی) ۔
روزہ دار کے لئے بوسہ لینے کا حکم
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ روزوں کے مہینے میں بوسہ لیتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ١٢ (١١٠٦) ، سنن ابی داود/الصوم ٣٣ (٢٣٨٣) ، سنن الترمذی/الصوم ٣١ (٧٢٧) ، الصوم ٢١ (١٧٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٢٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصوم ٢٤ (١٩٢٨) ، موطا امام مالک/الصیام ٦ (١٨) ، مسند احمد (٦/٣٠) ، سنن الدارمی/المقدمة ٥٣ (٦٩٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے روزے کی حالت میں بیوی کا بوسہ لینے کا جواز ثابت ہوتا ہے لیکن یہ ایسے شخص کے لیے ہے جو اپنے نفس پر قابو رکھتا ہو اور جسے اپنے نفس پر قابو نہ ہو اس کے لیے یہ رعایت نہیں۔
روزہ دار کے لئے بوسہ لینے کا حکم
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ روزے کی حالت میں بوسہ لیتے تھے، اور تم میں سے کون اپنی خواہش پہ ایسا اختیار رکھتا ہے جیسا کہ نبی اکرم ﷺ رکھتے تھے ؟ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ١٢ (١١٠٦) ، الصوم ٢١ (١٧٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٤٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصوم ٢٣ (١٩٢٧) ، سنن ابی داود/الصوم ٣٣ (٢٣٨٣) ، سنن الترمذی/الصوم ٣٢ (٧٢٩) ، موطا امام مالک/الصیام ٦ (١٨) ، مسند احمد (٦/٤٤) ، سنن الدارمی/المقدمہ ٥٣ (٦٩٨) (صحیح )
روزہ دار کے لئے بوسہ لینے کا حکم
ام المؤمنین حفصہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ روزے کی حالت میں بوسہ لیتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ١٢ (١١٠٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٨٦) (صحیح )
روزہ دار کے لئے بوسہ لینے کا حکم
نبی اکرم ﷺ کی لونڈی میمونہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کا بوسہ لیا اس حال میں کہ دونوں روزے سے ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : ان دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٩٠، ومصباح الزجاجة : ٦١٠) وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٦٣) (ضعیف جدا) (سند میں زید بن جبیر ضعیف اور ان کے شیخ ابو یزید الضنی مجہول ہیں )
روزہ دار کے لئے بیوی کے ساتھ لیٹنا
اسود اور مسروق ام المؤمنین عائشہ (رض) کے پاس گئے، اور پوچھا کیا رسول اللہ ﷺ روزے کی حالت میں مباشرت کرتے (ساتھ سوتے) تھے ؟ ، انہوں نے کہا : ہاں، آپ ایسا کرتے تھے، اور آپ تم سب سے زیادہ اپنی خواہش پر قابو رکھنے والے آدمی تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ١٢ (١١٠٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٧٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصوم ٢٣ (١٩٢٧) ، سنن الترمذی/الصوم ٣٢ (٧٢٨) ، سنن الدارمی/الطہارة ٨١ (٧٩٦) (صحیح )
روزہ دار کے لئے بیوی کے ساتھ لیٹنا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ بوڑھے روزہ دار کو بیوی سے چمٹ کر سونے کی رخصت دی گئی ہے، لیکن نوجوانوں کے لیے مکروہ قرار دی گئی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٥٧٨، ومصباح الزجاجة : ٦١١) (صحیح) (محمد بن خالد ضعیف ہے، اور عطاء بن سائب اختلاط کا شکار ہوگئے تھے، خالد واسطی نے ان سے اختلاط کے بعد روایت کی، نیز ملاحظہ ہو : صحیح أبی داود : ٢٠٦٥ ) وضاحت : ١ ؎: اس میں خطرہ ہے کہ کہیں وہ جماع نہ کر بیٹھیں۔
روزہ دار کا غیبت اور بیہودہ گوئی میں مبتلا ہونا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص روزہ میں جھوٹ بولنا، جہالت کی باتیں کرنا، اور ان پر عمل کرنا نہ چھوڑے، تو اللہ کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٨ (١٩٠٣) ، سنن ابی داود/الصوم ٢٥ (٢٣٦٢) ، سنن الترمذی/الصوم ١٦ (٧٠٧) ، (تحفة الأشراف : ١٤٣٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٥٢، ٥٠٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حدیث کا مطلب یہ ہے کہ روزہ صرف اسی کو مت سمجھو کہ کھانا پانی چھوڑ دیا تو روزہ ادا ہوگیا، بلکہ روزہ کی غرض وغایت اور مقصد یہ ہے کہ خواہشات نفس کو قابو میں رکھے، ہر طرح کے چھوٹے بڑے گناہوں سے بچے، اور جھوٹ، غیبت، برے کام اور گالی گلوچ سے دور رہے، ورنہ خطرہ ہے کہ روزہ قبول نہ ہو اور یہ سب محنت بےکار ہوجائے، اگرچہ یہ سب باتیں یوں بھی منع ہیں خواہ روزہ ہو یا نہ ہو لیکن روزہ میں اور زیادہ سخت گناہ ہے۔
روزہ دار کا غیبت اور بیہودہ گوئی میں مبتلا ہونا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بہت سے روزہ رکھنے والے ایسے ہیں کہ ان کو اپنے روزے سے بھوک کے سوا کچھ نہیں حاصل ہوتا، اور بہت سے رات میں قیام کرنے والے ایسے ہیں کہ ان کو اپنے قیام سے جاگنے کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٤٧، ومصباح الزجاجة : ٦١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٧٣) ، سنن الدارمی/الرقاق ١٢ (٢٧٦٢) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ان کو روزہ اور عبادت کا نور حاصل نہیں ہوتا، اور نہ اس میں لذت و برکت ہوتی ہے بلکہ صوم و صلاۃ ان پر ایک بوجھ اور تکلیف ہے، دن میں بھوکا رہنا اور رات کو جاگنا بس اسی کو وہ کافی سمجھتے ہیں حالانکہ یہ ان کی غلطی ہے، اگر آداب و شروط کے مطابق عبادت کریں تو وہ قبول ہوگی اور اس سے نور و لذت کی نعمت بھی حاصل ہوگی، اور اس وقت ان کو معلوم ہوجائے گا کہ صوم و صلاۃ کا مقصد صرف بھوکا رہنا اور جاگنا نہیں ہے، افسوس ہے کہ ہمارے زمانہ میں ایسے لوگ بہت ہوگئے ہیں جو صوم و صلاۃ کو ظاہری طور سے ادا کرلیتے ہیں، اور خضوع و خشوع مطلق حاصل نہیں کرتے، اگرچہ عوام کے لئے یہ بھی کافی ہے، اور امید ہے کہ اللہ اپنی مہربانی سے قبول کرلے۔
روزہ دار کا غیبت اور بیہودہ گوئی میں مبتلا ہونا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کے روزہ کا دن ہو تو گندی اور فحش باتیں اور جماع نہ کرے، اور نہ ہی جہالت اور نادانی کا کام کرے، اگر کوئی اس کے ساتھ جہالت اور نادانی کرے تو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٣٦٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصوم ٢ (١٨٩٤) ، ٩ (١٩٠٤) ، صحیح مسلم/الصوم ٣٠ (١١٥١) ، سنن ابی داود/الصوم ٢٥ (٢٣٦٣) ، سنن الترمذی/الصوم ٥٥ (٧٦٤) ، سنن النسائی/الصوم ٢٣ (٢٢١٨) ، موطا امام مالک/الصیام ٢٢ (٥٧) ، مسند احمد (٢/٢٣٢) ، سنن الدارمی/الصوم ٥٠ (١٨١٢) (صحیح )
سحری کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سحری کھاؤ، سحری میں برکت ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠١٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصوم ٢٠ (١٩٢٣) ، صحیح مسلم/الصوم ٩ (١٠٩٥) ، سنن الترمذی/الصوم ١٧ (٧٠٨) ، سنن النسائی/الصوم ٩ (٢١٤٨) ، مسند احمد (٣/٩٩، ٢١٥، ٢٢٩، ٢٤٣) ، سنن الدارمی/الصوم ٩ (١٧٣٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ سحری کھانا مسنون ہے، اور اس میں برکت ہے کیونکہ سحری کھانے سے آدمی کی قوت و توانائی برقرار رہتی ہے، اور وہ پورے دن چاق و چوبند رہتا ہے۔
سحری کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : دن کے روزے میں سحری کھانے سے مدد لو، اور قیلولہ سے رات کی عبادت میں مدد لو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٠٩٧، ومصباح الزجاجة : ٦١٣) (ضعیف) (سند میں زمعہ بن صالح ضعیف راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٢٧٥٨ ) وضاحت : ١ ؎: دوپہر کے آرام کو قیلولہ کہتے ہیں۔
سحری دیر سے کرنا
زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سحری کھائی پھر ہم نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ انس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے زید (رض) سے پوچھا : سحری اور نماز کے درمیان کتنا فاصلہ تھا ؟ کہا : پچاس آیتیں پڑھنے کی مقدار ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٢٧ (٥٧٥) ، الصوم ١٩ (١٩٢١) ، صحیح مسلم/الصوم ٩ (١٠٩٧) ، سنن الترمذی/الصوم ١٤ (٧٠٣، ٧٠٤) ، سنن النسائی/الصوم ١١ (٢١٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٨٢، ١٨٥، ٨٦ ا، ١٨٨، ١٩٢، سنن الدارمی/الصوم ٨ (١٧٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جتنی دیر میں پچاس آیتیں پڑھی جائیں، اس حدیث سے صاف نکلتا ہے کہ نبی کریم ﷺ سحری صبح صادق کے قریب کھاتے تھے اتنا کہ سحری سے فارغ ہو کر نماز فجر کو کھڑے ہوتے، جس کو صبح صادق کی پہچان ہو، اس کے لیے ایسا ہی کرنا سنت ہے، اگر یہ نہ ہو تو صبح سے پاؤ گھنٹہ یا آدھا گھنٹہ پہلے سحری سے فارغ ہو، یہ نہیں کہ آدھی رات کو یا ایک بجے یا دو بجے سحری کرے جیسے ہمارے زمانہ کے عوام کرتے ہیں۔
سحری دیر سے کرنا
حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سحری فجر کے طلوع ہوجانے کے وقت کھائی، لیکن ابھی طلوع نہیں ہوئی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الصوم ١٠ (٢١٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٩٦، ٤٠٠) (حسن الإسناد )
سحری دیر سے کرنا
عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کسی کو بلال کی اذان اس کی سحری سے نہ روکے، وہ اذان اس لیے دیتے ہیں کہ تم میں سونے والا (سحری کھانے کے لیے) جاگ جائے، اور قیام (یعنی تہجد پڑھنے) والا اپنے گھر چلا جائے، اور فجر اس طرح سے نہیں ہے، بلکہ اس طرح سے ہے کہ وہ آسمان کے کنارے عرض (چوڑان) میں ظاہر ہوتی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٣ (٦٢١) ، الطلاق ٢٤ (٥٢٩٨) ، أخبارالآحاد ١ (٧٢٤٧) ، صحیح مسلم/الصوم ٨ (١٠٩٢) ، سنن ابی داود/الصوم ١٧ (٢٣٤٧) ، سنن النسائی/الأذان ١١ (٦٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٣٧٥) ، مسند احمد (١/٣٨٦، ٣٩٢، ٤٣٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اور جو لمبی دھاری بھیڑئے کی دم کی طرح آسمان پر ظاہر ہوتی ہے وہ صبح کاذب ہے اس کا اعتبار نہیں ہے، اس وقت کھانا پینا جائز ہے، یہاں تک کہ صبح صادق ظاہر ہوجائے جو مشرق (پورب) کی طرف آسمان کے کنارے عرض (لمبائی) میں ظاہر ہوتی ہے، یہ سورج کی روشنی ہے اسی کو پو پھٹنا کہتے ہیں۔
جلد افطار کرنا
سہل بن سعد (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تک لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے، ہمیشہ خیر میں رہیں گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ٩ (١٠٩٨) ، (تحفة الأشراف : ٤٧٢٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصوم ٤٥ (١٩٥٧) ، سنن الترمذی/الصوم ١٣ (٦٩٩) ، موطا امام مالک/الصیام ٣ (٦) ، سنن الدارمی/الصوم ١١ (١٧٤١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی سورج ڈوبنے کے بعد روزہ کھولنے میں دیر نہ کریں گے تو ہمیشہ خیر میں رہیں گے، یہ مطلب نہیں ہے کہ وقت سے پہلے ہی روزہ کھول دیں۔
جلد افطار کرنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تک لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے ہمیشہ خیر میں رہیں گے، تم لوگ افطار میں جلدی کرو اس لیے کہ یہود اس میں دیر کرتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٠٩٠، ومصباح الزجاجة : ٦١٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصوم ٢٠ (٢٣٥٣) ، مسند احمد (٢/٤٥٠) (حسن صحیح )
کس چیز سے روزہ افطار کرنا مستحب ہے َ
سلمان بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی افطار کرے تو کھجور سے افطار کرے، اور اگر اسے کھجور نہ ملے تو پانی سے افطار کرے، اس لیے کہ وہ پاکیزہ چیز ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصوم ٢١ (٢٣٥٥) ، سنن الترمذی/الصوم ١٠ (٦٩٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٨٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٨، ٢١٤) ، سنن الدارمی/الصوم ١٢ (١٧٤٣) (ضعیف) (رسول اکرم ﷺ کا عمل صحیح و ثابت ہے، اور قول ضعیف ہے، تراجع الألبانی : رقم : ١٣٢ )
رات سے روزہ کی بیت کرنا اور نفلی روزہ میں اختیار
ام المؤمنین حفصہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس شخص کا روزی نہیں جو رات ہی میں اس کی نیت نہ کرلے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصوم ٧١ (٢٤٥٤) ، سنن الترمذی/الصوم ٣٣ (٧٣٠) ، سنن النسائی/الصیام ٣٩ (٢٣٣٣، )، (تحفة الأشراف : ١٥٨٠٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصیام ٢ (٥) ، مسند احمد (٦/٢٧٨) ، سنن الدارمی/الصوم ١٠ (١٧٤٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: روزہ دار کے لیے رات میں نیت کرنے کا یہ حکم فرض اور قضا و کفارہ کے روزے کے سلسلہ میں ہے، نفلی صیام کے لئے رات میں نیت ضروری نہیں جیسا کہ ام المومنین عائشہ (رض) کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے جو نیچے آگے رہی ہے۔
رات سے روزہ کی بیت کرنا اور نفلی روزہ میں اختیار
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میرے پاس رسول اللہ ﷺ آتے اور پوچھتے : کیا تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے ؟ ہم کہتے : نہیں، تو آپ ﷺ کہتے : میں روزے سے ہوں ، اور اپنے روزے پر قائم رہتے، پھر کوئی چیز بطور ہدیہ آتی تو روزہ توڑ دیتے، ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ کبھی روزہ رکھتے، اور کبھی کھول دیتے، میں نے پوچھا : یہ کیسے ؟ تو کہا : اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کوئی صدقہ نکالے پھر کچھ دے اور کچھ رکھ لے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٧٨) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصوم ٣٢ (١١٥٤) ، سنن ابی داود/الصوم ٧٢ (٢٤٥٥) ، سنن الترمذی/الصوم ٣٥ (٧٣٤) ، سنن النسائی/الصوم ٣٩ (٢٣٢٧) ، مسند احمد (٦/٤٩، ٢٠٧) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر دعوت ہو یا عمدہ کھانا سامنے آجائے، یا کوئی دوست کھانے کے لئے اصرار کرے تو نفلی روزہ توڑ ڈالے، یہی نبی کریم ﷺ کی سنت ہے۔
روزہ کا ارادہ ہو اور صبح کے وقت جنابت کی حالت میں اٹھے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں رب کعبہ کی قسم ! یہ بات کہ کوئی جنابت کی حالت میں صبح کرے تو روزہ توڑ دے، میں نے نہیں کہی بلکہ محمد ﷺ نے کہی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٨٣، ومصباح الزجاجة : ١٧٠٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصوم ٢٢ (١٩٢٦) ، صحیح مسلم/الصیام ١٣ (١١٠٩) ، موطا امام مالک/الصیام ٤ (٩) ، مسند احمد (٢/٢٤٨، ٢٨٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ حکم یا تو منسوخ ہے یا مرجوح کیونکہ صحیحین (بخاری و مسلم) میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو فجر پا لیتی اور آپ اپنی بیوی سے جماع کی وجہ سے حالت جنابت میں ہوتے نہ کہ احتلام کی وجہ سے، پھر طلوع فجر کے بعد غسل کرتے اور روزہ رکھتے تھے، اور صحیح مسلم میں ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت میں اس بات کی تصریح ہے کہ یہ نبی اکرم ﷺ کے خصائص میں سے نہیں ہے، اور صحیح مسلم میں یہ بھی ہے کہ ابوہریرہ (رض) کو جب یہ حدیث پہنچی تو انھوں نے اس سے رجوع کرلیا۔
روزہ کا ارادہ ہو اور صبح کے وقت جنابت کی حالت میں اٹھے
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جنابت کی حالت میں رات گزارتے تھے، آپ ﷺ کے پاس بلال (رض) آتے، اور آپ کو نماز کی اطلاع دیتے تو آپ اٹھتے اور غسل فرماتے، میں آپ کے سر سے پانی ٹپکتے ہوئے دیکھتی تھی، پھر آپ نکلتے تو میں نماز فجر میں آپ کی آواز سنتی۔ مطرف کہتے ہیں : میں نے عامر سے پوچھا : کیا ایسا رمضان میں ہوتا ؟ انہوں نے کہا کہ رمضان اور غیر رمضان سب برابر تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٢٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصوم ٢٢ (١٩٢٥) ، صحیح مسلم/الصوم ١٣ (١١٠٩) ، سنن ابی داود/الصوم ٣٦ (٢٣٨٨) ، سنن الترمذی/الصوم ٦٣ (٧٧٩) ، موطا امام مالک/الصیام ٤ (١١) ، مسند احمد (١/٢١١، ٦/٣٤، ٣٦، ٣٨، ٢٠٣، ٢١٣، ٢١٦، ٢٢٩، ٢٦٦، ٢٧٨، ٢٨٩، ٢٩٠، ٣٠٨) ، سنن الدارمی/الصوم ٢٢ (١٧٦٦) (صحیح )
روزہ کا ارادہ ہو اور صبح کے وقت جنابت کی حالت میں اٹھے
نافع کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جو جنابت کی حالت میں صبح کرے، اور وہ روزہ رکھنا چاہتا ہو ؟ تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ جنبی ہونے کی حالت میں صبح کرتے تھے، اور آپ کی جنابت جماع سے ہوتی نہ کہ احتلام سے، پھر غسل کرتے اور اپنا روزہ پورا کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٨٢١٨) (صحیح )
ہمیشہ روزہ رکھنا
عبداللہ بن شخیر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے ہمیشہ روزہ رکھا، اس نے نہ تو روزہ رکھا، اور نہ ہی افطار کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الصیام ٤٢ (٢٣٨٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٥٠) ، مسند احمد (٤/٢٥) ، سنن الدارمی/الصوم ٣٧ (١٧٨٥) (صحیح )
ہمیشہ روزہ رکھنا
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے ہمیشہ روزہ رکھا اس کا روزہ ہی نہیں ہوا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التہجد ٢٠ (١١٥٣) ، الصیام ٥٧ (١٩٧٧) ، ٥٩ (١٩٧٩) ، أحادیث الأنبیاء ٣٥ (٣٤١٩) ، صحیح مسلم/الصوم ٣٥ (١١٥٩) ، سنن الترمذی/الصیام ٥٧ (٧٧٠) ، سنن النسائی/الصیام ٤١ (٢٣٧٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٣٥) ، وقد أخرجہ : ٢/١٦٤، ١٨٨، ١٩٠، ١٩٥، ٢١٢، ٣٢١) (صحیح )
ہر ماہ میں تین دن
منہال (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایام بیض کے روزہ کے رکھنے کا حکم دیتے تھے یعنی تیرہویں، چودہویں، اور پندرہویں تاریخ کے روزے کا، اور فرماتے : یہ ہمیشہ روزہ رکھنے کے مثل ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصوم ٦٨ (٢٤٤٩) ، سنن النسائی/الصیام ٥١ (٢٤٣٢، ٢٤٣٣، ٢٤٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٧١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٦٥، ٥/٢٧، ٢٨) (صحیح لغیرہ ) وضاحت : ١ ؎: ایام بیض کے روزے سے مراد ہجری مہینوں کی تیرھویں چودھویں اور پندرہویں تاریخ کے روزے ہیں انھیں ایام بیض اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان تاریخوں کی راتیں روشن ہوتی ہیں۔ اس سند سے بھی قتادہ بن ملحان (رض) سے اسی جیسی روایت مرفوعاً آئی ہے۔ ابن ماجہ کہتے ہیں شعبہ نے غلطی کی ہے، اور ہمام نے صحیح طرح سے روایت کی ہے، عبدالملک بن منہال کے بجائے صحیح عبدالملک بن قتادہ بن ملحان ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ
ہر ماہ میں تین دن
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے ہر مہینہ تین دن روزہ رکھا تو گویا اس نے ہمیشہ روزہ رکھا اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس کی تصدیق نازل فرمائی : من جاء بالحسنة فله عشر أمثالها (جو کوئی ایک نیکی کرے اس کو ویسی دس نیکیاں ملیں گی) تو ایک روزے کے دس روزے ہوئے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصوم ٥٤ (٧٦٢) ، سنن النسائی/الصیام ٥٠ (٢٤١١) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٦٧) ، مسند احمد (٥/١٤٥) (صحیح )
ہر ماہ میں تین دن
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہر مہینہ میں تین دن روزہ رکھتے تھے، معاذہ عدویہ کہتی ہیں : میں نے پوچھا : کون سے تین دنوں میں ؟ ام المؤمنین عائشہ (رض) نے کہا : آپ ﷺ پروا نہیں کرتے تھے جو بھی تین دن ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ٣٦ (١١٦٠) ، سنن ابی داود/الصوم ٧٠ (٢٤٥٣) ، سنن الترمذی/الصوم ٥٤ (٧٦٣) ، سنن النسائی/الصوم ٥١ (٢٤١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٦٦) (صحیح )
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روزے
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف زہری کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے نبی اکرم ﷺ کے روزے کے سلسلے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : آپ ﷺ روزہ رکھتے یہاں تک کہ ہم یہ کہتے کہ آپ روزے ہی رکھتے جائیں گے، اور روزے چھوڑ دیتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ ﷺ روزے رکھیں گے ہی نہیں، اور میں نے آپ کو شعبان سے زیادہ کسی مہینہ میں روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا، آپ سوائے چند روز کے پورے شعبان روزے رکھتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ٣٤ (١١٥٦) ، سنن النسائی/الصوم ١٩ (٢١٧٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٢٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصوم ٥٢ (١٩٦٩) ، سنن ابی داود/الصوم ٥٩ (٢٤٣٤) ، سنن الترمذی/الصوم ٣٧ (٧٣٦) ، موطا امام مالک/الصیام ٢٢ (٥٦) ، مسند احمد (٦/٣٩، ٨٠، ٨٤، ٨٩، ١٠٧، ١٢٨، ١٤٣، ١٥٣، ١٦٥، ١٧٩، ٢٣٣، ٢٤٢، ٢٤٩، ٢٦٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: شعبان کے مہینے میں آپ ﷺ کے کثرت سے روزے رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ اس مہینے میں انسان کے اعمال رب العالمین کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں، تو آپ اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ آپ کے اعمال اللہ کے پاس حالت روزے میں پیش ہوں، اور چونکہ آپ کو روحانی قوت حاصل تھی اس لیے یہ روزے آپ کے لیے کمزوری کا سبب نہیں بنتے تھے اس لیے پندرہویں شعبان کے بعد بھی آپ کے لیے روزہ رکھنا جائز تھا، اس کے برخلاف امت کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ شعبان کے نصف ثانی میں روزے نہ رکھے تاکہ رمضان کے روزوں کے لیے قوت و توانائی برقرار ہے۔
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روزے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ روزے رکھتے تھے یہاں تک کہ ہم یہ کہتے کہ آپ روزے چھوڑیں گے ہی نہیں، اور روزے چھوڑ دیتے یہاں تک کہ ہم یہ کہتے کہ آپ روزے رکھیں گے ہی نہیں، اور جب سے آپ مدینہ آئے آپ نے رمضان کے سوا کسی بھی مہینے کا روزہ لگاتار نہیں رکھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٥٣ (١٩٧١) ، صحیح مسلم/الصوم ٣٤ (١١٥٧) ، سنن الترمذی/الشمائل ٤٢ (٢٨٣) ، سنن النسائی/الصیام ٤١ (٢٣٤٨) ، (تحفة الأشراف : ٥٤٤٧) ، مسند احمد (١/٢٢٧، ٢٣١، ٢٤١، ٣٠١، ٣٢١) ، سنن الدارمی/الصوم ٣٦ (١٧٨٤) (صحیح )
حضرت داؤد (علیہ السلام) کے روزے
عمرو بن اوس کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرو (رض) کو کہتے سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے نزدیک روزوں میں سب سے زیادہ پسندیدہ روزہ داود (علیہ السلام) کا روزہ ہے، وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن نہیں رکھتے تھے، اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ نماز داود (علیہ السلام) کی نماز ہے، آپ آدھی رات سوتے تھے، پھر تہائی رات تک نماز پڑھتے تھے، پھر رات کے چھٹے حصہ میں سو رہتے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التہجد ٧ (١١٣١) ، أحادیث الأنبیاء ٣٨ (٣٤٢٠) ، صحیح مسلم/الصیام ٣٥ (١١٥٩) ، سنن ابی داود/الصیام ٦٧ (٢٤٤٨) ، سنن النسائی/قیام اللیل ١٣ (١٦٣١) ، الصیام ٤٠ (٢٣٤٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٩٧) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصوم ٥٧ (٧٧٠) ، سنن الدارمی/الصوم ٤٢ (١٧٩٣) (صحیح )
حضرت داؤد (علیہ السلام) کے روزے
ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! جو شخص دو دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے وہ کیسا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : بھلا ایسا کرنے کی کسی میں طاقت ہے ؟ انہوں نے کہا : وہ شخص کیسا ہے جو ایک دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ داود (علیہ السلام) کا روزہ ہے، پھر انہوں نے کہا : وہ شخص کیسا ہے جو ایک دن روزہ رکھے اور دو دن افطار کرے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : میری تمنا ہے کہ مجھے اس کی طاقت ہوتی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ٣٦ (١١٦٢) ، سنن ابی داود/الصوم ٥٣ (٢٤٢٥، ٢٤٢٦) ، سنن الترمذی/الصوم ٤٦ (٧٤٩) ، ٤٨ (٧٥٢) ، ٥٦ (٧٦٧) ، سنن النسائی/الصیام ٤٢ (٢٣٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢١١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٩٥، ٢٩٦، ٢٩٩، ٣٠٣، ٣٠٨، ٣١٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایک دن روزہ، اور دو دن افطار کو آپ ﷺ نے بہت پسند کیا کیونکہ اس میں افطار غالب اور روزہ کم ہے، تو کمزوری لاحق ہونے کا بھی ڈر نہیں ہے، اور یہ فرمایا : مجھے یہ پسند ہے کہ مجھ کو اس کی طاقت ہوتی، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آپ ﷺ کو اس سے زیادہ کی طاقت تھی، آپ صوم وصال رکھا کرتے تھے، مگر آپ کو اپنی بیویوں کے حقوق کا بھی خیال تھا، اور دوسرے کاموں کا بھی، اس لحاظ سے زیادہ روزے نہیں رکھ سکتے تھے۔
حضرت نوح (علیہ السلام) کی روزے
عبداللہ بن عمر و (رض) کو کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : نوح (علیہ السلام) نے عید الفطر اور عید الاضحی کے علاوہ ہمیشہ روزہ رکھا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٩٤٩، ومصباح الزجاجة : ٦١٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٨٠) (ضعیف) (اس میں ابن لہیعہ ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی ٤٥٩ )
ماہ شوال میں چھ روزے
رسول اللہ ﷺ کے غلام ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے عید الفطر کے بعد چھ روزے رکھے تو اس کو پورے سال کے روزے کا ثواب ملے گا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : من جاء بالحسنة فله عشر أمثالها یعنی جو ایک نیکی کرے گا اسے دس نیکیوں کا ثواب ملے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢١٠٧، ومصباح الزجاجة : ٦١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٨٠) ، سنن الدارمی/الصوم ٤٤ (١٧٩٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تو رمضان کے تیس روزے اور ٦ عید کے کل ٣٦ ہوئے، دس سے ضرب دینے میں ٣٦٠ روزے ہوتے ہیں، اور سال کے اتنے ہی دن ہیں، پس گویا اس نے سال بھر روزے رکھے، سبحان اللہ حق تعالیٰ کی اپنے ناتواں بندوں پر کیا عنایت ہے، اب اختلاف ہے کہ یہ روزے عید کے بعد ہی رکھنا شروع کرے اور شوال کی سات تاریخ تک پورے کرلے، یا شوال کے مہینہ میں جب چاہے رکھ لے ؟ مسلسل یا الگ الگ دن میں، ہر طرح جائز ہے، ہر حال میں سال بھر کے روزوں کا ثواب حاصل ہوجائے گا، ان شاء اللہ۔
ماہ شوال میں چھ روزے
ابوایوب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے رمضان کا روزہ رکھا، پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے، تو وہ پورے سال روزے رکھنے کے برابر ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ٢٩ (١١٦٤) ، سنن ابی داود/الصوم ٥٨ (٢٤٣٣) ، سنن الترمذی/الصوم ٥٣ (٧٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤١٧، ٤١٩) ، سنن الدارمی/الصوم ٤٤ (١٧٩٥) (حسن صحیح )
اللہ کے راستے میں ایک روزہ
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے جہاد کے سفر میں ایک روز بھی روزہ رکھا، تو اللہ اس ایک دن کے روزے کی وجہ سے اس کا چہرہ جہنم سے ستر سال کی مسافت کی مقدار میں دور کر دے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٣٦ (٢٨٤٠) ، صحیح مسلم/الصوم ٣١ (١١٥٣) ، سنن الترمذی/فضائل الجہاد ٣ (١٦٢٣) ، سنن النسائی/الصیام ٢٤ (٢٢٤٧، ٢٢٤٨) ، (تحفة الأشراف : ٤٣٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/ ٢٦، ٤٥، ٥٩، ٨٣) ، سنن الدارمی/الجہاد ١٠ (٢٤٤٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: خریف کی تفسیر میں اختلاف ہے اور دوسری روایت میں ستر سال کا ذکر ہے تو خریف سے وہی سال مراد ہوں گے یعنی جہنم سے وہ شخص ستر برس کے راستے کے بقدر دور ہوجائے گا۔
اللہ کے راستے میں ایک روزہ
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے جہاد کے سفر میں ایک دن بھی روزہ رکھا تو اللہ تعالیٰ اس ایک دن کے روزے کی وجہ سے اس کا چہرہ جہنم سے ستر سال کی مسافت کی مقدار میں دور کر دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/فضائل الجہاد ٣ (١٦٢٢) ، سنن النسائی/الصیام ٢٤ (٢٢٤٦) ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٧٠، ومصباح الزجاجة : ٦١٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٠٠، ٣٥٧) (صحیح )
ایّام تشر یق میں روزہ کی مما نعت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : منیٰ کے دن کھانے اور پینے کے دن ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٠٤٤، ومصباح الزجاجة : ٦١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٢٩، ٣٨٧) (حسن صحیح) (نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ٤ /١٢٩ ) وضاحت : ١ ؎: منیٰ کے دن سے مراد تشریق کے دن یعنی گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں ذی الحجہ ہے، ایک روایت میں ہے کہ ان دنوں میں روزے مت رکھو، یہ دن کھانے پینے اور جماع کے ہیں، قرآن میں ایام معدودات سے یہی دن مراد ہیں۔
ایّام تشر یق میں روزہ کی مما نعت
بشر بن سحیم (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایام تشریق کا خطبہ دیا تو فرمایا : جنت میں صرف مسلمان ہی داخل ہوگا، اور یہ (ایام تشریق) کھانے اور پینے کے دن ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٠١٩، ومصباح الزجاجة : ٦٢٠) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الإیمان وشرائعہ ٧ (٤٩٩٧) ، مسند احمد (٣/٤١٥، ٤/٣٣٥) ، سنن الدارمی/الصوم ٤٨ (١٨٠٧) (صحیح )
یوم الفطر اور یوم الا ضحی روزہ کھنے کی مما بعت
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے عید الفطر اور عید الاضحی کو روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٦٦ (١٩٩٥) ، صحیح مسلم/الصوم ٢٢ (٨٢٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٧٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصوم ٤٨ (٢٤١٧) ، سنن الترمذی/الصوم ٥٨ (٧٧٢) ، مسند احمد (٣/ ٧، ٣٤، ٤٥، ٥١، ٥٩، ٦٢، ٧١، ٧٧) ، سنن الدارمی/الصوم ٤٣ (١٩٤) (صحیح )
یوم الفطر اور یوم الا ضحی روزہ کھنے کی مما بعت
ابوعبید (سعد بن عبید الزہری) کہتے ہیں کہ میں عمر بن خطاب (رض) کے ساتھ عید میں حاضر ہوا تو انہوں نے خطبہ سے پہلے نماز عید شروع کی اور کہا : رسول اللہ ﷺ نے ان دو دنوں میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے ایک تو عید الفطر، دوسرے عید الاضحی، رہا عید الفطر کا دن تو وہ تمہارے روزے سے افطار کا دن ہے، اور رہا عید الاضحی کا دن تو اس میں تم اپنی قربانیوں کا گوشت کھاتے ہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٦٦ (١٩٩٠) ، صحیح مسلم/الصوم ٢٢ (١١٣٧) ، سنن ابی داود/الصوم ٤٨ (٢٤١٦) ، سنن الترمذی/الصوم ٥٨ (٧٧١) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٣٠، ١٠٦٦٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/العیدین ٢ (٥) ، مسند احمد (١/٢٤، ٣٤، ٤٠) (صحیح )
جمعہ کو روزہ رکھنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا، الا یہ کہ اس سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد میں رکھا جائے۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث أبي بکر بن أبي شیبہ عن حفص أخرجہ : صحیح البخاری/الصوم ٦٣ (١٩٨٥) ، صحیح مسلم/الصوم ٢٤ (١١٤٤) ، وحدیث أبي بکر بن أبي شیبہ عن أبي معاویہ قد أخرجہ : صحیح مسلم/الصوم ٢٤ (١١٤٤) ، سنن ابی داود/الصوم ٥٠ (٢٤٢٠) ، سنن الترمذی/الصوم ٤٢ (٧٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٥٨) (صحیح )
جمعہ کو روزہ رکھنا
محمد بن عباد بن جعفر کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے خانہ کعبہ کے طواف کے دوران پوچھا : کیا نبی اکرم ﷺ نے جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے ؟ کہا : ہاں، اس گھر کے رب کی قسم !۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٦٣ (١٩٨٤) ، صحیح مسلم/الصوم ٢٤ (١١٤٣) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٨٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٩٦، ٣١٢) ، سنن الدارمی/الصوم ٣٩ (١٧٨٩) (صحیح )
جمعہ کو روزہ رکھنا
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو جمعہ کے دن بہت ہی کم روزہ چھوڑتے ہوئے دیکھا ١ ؎ (جمعہ کے دن روزہ رکھنا نبی اکرم ﷺ کی خصوصیت تھی، اور خاص کر جمعہ کے دن روزہ رکھنے کی ممانعت امت کے لیے ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصوم ٦٨ (٢٤٥٠) ، سنن الترمذی/الصوم ٤١ (٧٤٢) ، سنن النسائی/الکبری/الصوم ٩٠ (٢٧٥٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٠٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٠٦) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: اوپر کی روایتوں میں جمعہ کے دن روزہ رکھنے کی صراحت سے ممانعت آئی ہے، اور اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ جمعہ کے دن اکثر روزہ سے رہتے تھے، اس میں تطبیق اس طرح سے دی گئی ہے کہ جمعہ کے دن روزہ رکھنا نبی اکرم ﷺ کی خصوصیت تھی، اور خاص کر جمعہ کے دن روزہ رکھنے کی ممانعت امت کے لیے ہے، یا یہ کہا جائے کہ ایام بیض میں جمعہ آپڑے تو آپ جمعہ کو بھی روزہ رکھ لیتے تھے، یا آپ جمعہ کو ایک دن آگے یا پیچھے ملا کر روزہ رکھتے تھے۔
ہفتہ کے دن روزہ
عبداللہ بن بسر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سنیچر کے دن روزہ نہ رکھو، سوائے فرض روزہ کے، اگر تم میں سے کسی کو انگور کی شاخ یا کسی درخت کی چھال کے علاوہ کوئی اور چیز کھانے کو نہ ملے تو اسی کو چوس لے (لیکن روزہ نہ رکھے) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥١٩١، ومصباح الزجاجة : ٦٢٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصوم ٥١ (٢٤٢١) ، سنن الترمذی/الصوم ٤٣ (٧٤٤) ، مسند احمد (٦/٣٦٨) ، سنن الدارمی/الصوم ٤٠ (١٧٩٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے، اور اس میں کراہت کا مطلب یہ ہے آدمی سنیچر کو روزے کے لیے مخصوص کر دے کیونکہ یہود اس دن کی تعظیم کرتے ہیں، رہی وہ روایتیں جن میں سنیچر کے دن صوم رکھنے کا ذکر ہے تو ان دونوں میں کوئی تعارض نہیں کیونکہ ممانعت اس صورت میں ہے جب اسے روزے کے لیے خاص کرلے۔ عبداللہ بن بسر کی بہن (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، پھر اسی جیسی روایت بیان کی۔
ذی الحجہ کے دس دنوں کے روزے۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ان دنوں یعنی ذی الحجہ کے دس دنوں سے بڑھ کر کوئی بھی دن ایسا نہیں کہ جس میں نیک عمل کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان دنوں کے نیک عمل سے زیادہ پسندیدہ ہو ، لوگوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! اللہ کے راستے میں جہاد کرنا بھی نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کے راستے میں جہاد کرنا بھی اتنا پسند نہیں، مگر جو شخص اپنی جان اور مال لے کر نکلے، اور پھر لوٹ کر نہ آئے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العیدین ١١ (٩٦٩) ، سنن ابی داود/الصوم ٦١ (٢٤٣٨) ، سنن الترمذی/الصوم ٥٢ (٧٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٦١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٢٤، ٣٣٨، ٣٤٦) ، سنن الدارمی/الصوم ٥٢ (١٨١٤) (صحیح )
ذی الحجہ کے دس دنوں کے روزے۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دنیا کے کسی دن میں عبادت کرنا اللہ تعالیٰ کو اتنا پسند نہیں جتنا کہ ان دس دنوں میں ہے، اور ان میں ایک دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے، اور ان میں ایک رات شب قدر (قدر کی رات) کے برابر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصوم ٥٢ (٧٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١٣٠٩٨) (ضعیف) (نہ اس بن قہم قوی نہیں ہے )
ذی الحجہ کے دس دنوں کے روزے۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ان دس دنوں میں کبھی روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٠١) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الاعتکاف ٤ (١١٧٦) ، سنن ابی داود/الصوم ٦٢ (٢٤٣٩) ، سنن الترمذی/الصوم ٥١ (٧٥٦) ، مسند احمد (٦/ ٤٢، ١٢٤، ١٩٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے مراد ذی الحجہ کے ابتدائی نو دن ہیں، یہ حدیث ان روایات میں سے ہے جن کی تاویل کی جاتی ہے کیونکہ ان نو دنوں میں روزہ رکھنا مکروہ نہیں بلکہ مستحب ہے، خاص کر عرفہ کے دن کے روزے کی بڑی فضیلت آئی ہے، ہوسکتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے کسی بیماری یا سفر کی وجہ سے کبھی روزہ نہ رکھا ہو۔
عرفہ میں نویں ذی الحجہ کا روزہ
ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں سمجھتا ہوں کہ عرفہ ١ ؎ کے دن روزہ رکھنے کا ثواب اللہ تعالیٰ یہ دے گا کہ اگلے پچھلے ایک سال کے گناہ بخش دے گا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (١٣١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢١١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یوم عرفہ سعودی عرب کے کلنڈر کے حساب سے ٩ ذی الحجہ کے دن کا روزہ جس دن حج ہوتا ہے، یہ عرفات میں حجاج کے اجتماع کے دن کا روزہ ہے، اختلاف مطالع کی وجہ سے تاریخوں کے فرق میں عام مسلمان مکہ کی تاریخ کا خیال رکھیں، اور حجاج کے عرفات میں اجتماع والے حج کے دن کا روزہ رکھیں، اس دن کے روزہ سے دو سال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں البتہ جو حجاج کرام اس دن عرفات میں ہوتے ہیں ان کے لیے روزہ رکھنا منع ہے کیونکہ یہ ذکر و دعا میں مشغولیت کا دن ہوتا ہے، اس دن ان کے لیے یہی سب سے بڑی عبادت ہے۔ ٢ ؎: یہاں ایک اشکال پیدا ہوتا ہے، وہ یہ کہ ابھی جو سال نہیں آیا، اس کے گناہ بندہ پر نہیں لکھے گئے تو ان کی معافی کے کیا معنی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ عزوجل کے علم میں وہ گناہ موجود ہیں، پس ان کی معافی ہوسکتی ہے جیسے فرمایا ليغفر لک الله ما تقدم من ذنبک وما تاخر اور ممکن ہے کہ بعد کی معافی سے یہ غرض ہو کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اس کو گناہ کرنے سے بچا لے گا، یا اس کا ثواب اتنا دے گا جو دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہو سکے گا واللہ اعلم ۔
عرفہ میں نویں ذی الحجہ کا روزہ
قتادہ بن نعمان (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جس نے عرفہ کے دن روزہ رکھا تو اس کے ایک سال کے اگلے اور ایک سال کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٠٧٦، ومصباح الزجاجة : ٦٢١) (صحیح) (سند میں اسحاق بن عبداللہ بن أبی فردہ ضعیف راوی ہیں، لیکن سابقہ شاہد سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ٤/٠٩ ١- ١١٠ )
عرفہ میں نویں ذی الحجہ کا روزہ
عکرمہ کہتے ہیں کہ میں ابوہریرہ (رض) سے ان کے گھر ملنے گیا تو ان سے عرفات میں عرفہ کے روزے کے سلسلے میں پوچھا ؟ ابوہریرہ (رض) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مقام عرفات میں عرفہ کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصوم ٦٣ (٢٤٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٥٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٠٤، ٤٤٦) (ضعیف) (نیز ملاحظہ ہو : ضعیف أبی داود : ٤٢١ )
عاشورہ کا روزہ
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عاشوراء (محرم کی دسویں تاریخ) کا روزہ رکھتے، اور اس کے رکھنے کا حکم دیتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٦٢٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصوم ٦٩ (٢٠٠٢) ، صحیح مسلم/الصوم ١٩ (١١٢٥) ، سنن ابی داود/الصوم ٦٤ (٢٤٤٢) ، سنن الترمذی/الصوم ٤٩ (٧٥٣) ، موطا امام مالک/الصوم ١١ (٣٣) ، سنن الدارمی/الصوم ٤٦ (١٨٠٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: محرم کی دسویں تاریخ کو یوم عاشوراء کہتے ہیں، نبی اکرم ﷺ مکہ سے ہجرت کر کے جب مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہودی اس دن روزہ رکھتے ہیں، آپ ﷺ نے ان سے پوچھا : تم لوگ اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو ؟ تو ان لوگوں نے کہا کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون سے نجات عطا فرمائی تھی، اسی خوشی میں ہم روزہ رکھتے ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ہم اس کے تم سے زیادہ حقدار ہیں چناچہ آپ ﷺ نے اس دن کا روزہ رکھا، اور یہ بھی فرمایا : اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو اس کے ساتھ ٩ محرم کا روزہ بھی رکھوں گا تاکہ یہود کی مخالفت ہوجائے، بلکہ ایک روایت میں آپ ﷺ نے اس کا حکم بھی دیا ہے کہ تم عاشوراء کا روزہ رکھو، اور یہود کی مخالفت کرو، اس کے ساتھ ایک دن پہلے یا بعد کا روزہ بھی رکھو۔
عاشورہ کا روزہ
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ مدینہ منورہ آئے تو یہودیوں کو روزہ رکھتے ہوئے پایا، آپ ﷺ نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو نجات دی، اور فرعون کو پانی میں ڈبو دیا، تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اس دن شکریہ میں روزہ رکھا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہم موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ تم سے زیادہ حق رکھتے ہیں ١ ؎، آپ ﷺ نے اس دن روزہ رکھا، اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٤٤٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصوم ٦٩ (٢٠٠٤) ، صحیح مسلم/الصوم ١٩ (١١٣٠) ، سنن ابی داود/الصوم ٦٤ (٢٤٤٤) ، مسند احمد (١/ ٢٣٦، ٣٤٠) ، سنن الدارمی/الصوم ٤٦ (١٨٠٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : موسیٰ (علیہ السلام) کی خوشی میں شرکت کے ہم تم سے زیادہ حق دار ہیں، کیونکہ وہ دین حق پر تھے، اور ہم بھی دین حق پر ہیں۔
عاشورہ کا روزہ
محمد بن صیفی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے عاشوراء کے دن فرمایا : آج تم میں سے کسی نے کھانا کھایا ہے ؟ ہم نے عرض کیا : بعض نے کھایا ہے اور بعض نے نہیں کھایا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : جس نے کھایا ہے اور جس نے نہیں کھایا ہے دونوں شام تک کچھ نہ کھائیں، اور عروض ١ ؎ والوں کو کہلا بھیجو کہ وہ بھی باقی دن روزہ کی حالت میں پورا کریں ٢ ؎۔ راوی نے کہا اہل عروض سے آپ مدینہ کے آس پاس کے دیہات کو مراد لیتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٢٢٥، ومصباح الزجاجة : ٦٢٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٨٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عروض کا اطلاق مکہ، مدینہ اور ان دونوں کے اطراف کے دیہات پر ہوتا ہے۔ ٢ ؎: اس سے عاشوراء کے روزے کی بڑی تاکید معلوم ہوتی ہے، اور شاید یہ حدیث اس وقت کی ہو جب عاشوراء کا روزہ فرض تھا کیونکہ رمضان کا روزہ ہجرت کے بہت دنوں کے بعد مدینہ منورہ میں فرض ہوئے۔
عاشورہ کا روزہ
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر میں اگلے سال زندہ رہا تو محرم کی نویں تاریخ کو بھی روزہ رکھوں گا ۔ ابوعلی کہتے ہیں : اسے احمد بن یونس نے ابن ابی ذئب سے روایت کیا ہے، اس میں اتنا زیادہ ہے : اس خوف سے کہ عاشوراء آپ سے فوت نہ ہوجائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ٢٠ (١١٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٢٤، ٢٣٦، ٣٤٥) (صحیح )
عاشورہ کا روزہ
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس عاشوراء (محرم کی دسویں تاریخ) کا ذکر کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ وہ دن ہے جس میں دور جاہلیت کے لوگ روزہ رکھتے تھے، لہٰذا تم میں سے جو روزہ رکھنا چاہے تو رکھے، اور جو نہ چاہے نہ رکھے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ٢٠ (١١٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٨٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصوم ٦٩ (٢٠٠٢) ، سنن ابی داود/الصوم ٦٤ (٢٤٤٣) ، مسند احمد (٢/٥٧) ، سنن الدارمی/الصوم ٤٦ (١٨٠٣) (صحیح )
عاشورہ کا روزہ
ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عاشوراء کا روزہ میں سمجھتا ہوں کہ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ پچھلے ایک سال کے گناہ معاف کر دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (١٧١٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢١١٧) (صحیح )
سوموار اور جمعرات کا روزہ
ربیعہ بن الغاز سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے رسول اللہ ﷺ کے روزوں کے سلسلے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : آپ ﷺ دوشنبہ اور جمعرات کے روزے کا اہتمام کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (١٦٤٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس کی ایک وجہ تو یہ بیان کی گئی ہے کہ ان دونوں دنوں میں اعمال اللہ کے حضور پیش کئے جاتے ہیں، ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : عرض الأعمال يوم الاثنين والخميس فأحب أن يعرض عملى وأنا صائم یعنی سوموار اور جمعرات کو اعمال اللہ تعالیٰ پر پیش کئے جاتے ہیں، پس میں چاہتا ہوں کہ میرے عمل اس حالت میں اللہ تعالیٰ پر پیش کئے جائیں کہ میں روزے سے ہوں، اور دوسری وجہ وہ ہے جس کا ذکرصحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے سوموار کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : یہ وہ دن ہے جس میں میری ولادت ہوئی، اور اس میں میری بعثت ہوئی یا اسی دن مجھ پر وحی نازل کی گئی اس لیے عید میلاد النبی کسی کو منانا ہو تو اس کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ اس دن روزہ رکھا جائے نہ کہ جلوس نکالا جائے، خرافات کی جائے اور گلی کوچوں کی سجاوٹ پر لاکھوں روپئے برباد کئے جائیں، یہ سب بدعت ہے۔
سوموار اور جمعرات کا روزہ
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ دوشنبہ اور جمعرات کو روزہ رکھتے تھے، تو پوچھا گیا : اللہ کے رسول ! آپ دوشنبہ اور جمعرات کو روزہ رکھتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : دو شنبہ اور جمعرات کو اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو بخش دیتا ہے سوائے دو ایسے لوگوں کے جنہوں نے ایک دوسرے سے قطع تعلق کر رکھا ہو، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ان دونوں کو چھوڑو یہاں تک کہ باہم صلح کرلیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٧٤٦، و مصباح الزجاجة : ٦٢٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصوم ٤٤ (٧٤٧) ، مسند احمد (٢/٣٢٩) ، سنن الدارمی/الصوم ٤١ (١٧٩٢) (صحیح )
اشہر حرم کے روزے
ابومجیبہ باہلی اپنے والد یا چچا سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور عرض کیا : اللہ کے نبی ! میں وہی شخص ہوں جو آپ کے پاس پچھلے سال آیا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا سبب ہے کہ میں تم کو دبلا دیکھتا ہوں ، انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! میں دن کو کھانا نہیں کھایا کرتا ہوں صرف رات کو کھاتا ہوں آپ ﷺ نے فرمایا : تمہیں کس نے حکم دیا کہ اپنی جان کو عذاب دو ؟ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں طاقتور ہوں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم صبر کے مہینے ١ ؎ کے روزے رکھو، اور ہر ماہ ایک روزہ رکھا کرو میں نے عرض کیا : مجھے اس سے زیادہ طاقت ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : تم صبر کے مہینے کے روزے رکھو، اور ہر ماہ میں دو روزے رکھا کرو میں نے کہا : میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : صبر کے مہینہ میں روزے رکھو، اور ہر ماہ میں تین روزے اور رکھو، اور حرمت والے مہینوں میں روزے رکھو ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصوم ٥٤ (٢٤٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٤٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٨) (ضعیف) (ابومجیبہ مجہول ہے، نیز بعض روایات میں مجیبہ الباہلیہ ہے، نام میں اختلاف کے ساتھ جہالت بھی ہے، اس لئے یہ ضعیف ہے، نیز ملاحظہ ہو : ضعیف أبی داود : ٤١٩ ) وضاحت : ١ ؎: صبر کے مہینے سے مراد صیام کا مہینہ (رمضان) ہے، صبر کے اصل معنی روکنے کے ہوتے ہیں، چونکہ اس مہینہ میں روزہ دار اپنے آپ کو دن میں کھانے پینے اور جماع سے روکے رکھتا ہے اس لیے اسے شہر الصبر (صبر کا مہینہ) کہا گیا ہے۔ ٢ ؎: حرمت والے مہینوں سے مراد یہاں ذی الحجہ اور محرم کے مہینے ہیں، ویسے حرمت والے مہینے چار ہیں : رجب، ذو العقدہ، ذوالحجۃ و محرم۔
اشہر حرم کے روزے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہا : رمضان کے روزوں کے بعد سب سے افضل روزہ کون سا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کے مہینے کا جسے تم لوگ محرم کہتے ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ٣٨ (١١٦٣) ، سنن ابی داود/الصوم ٥٥ (٢٤٢٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٠٧ (٤٣٨) ، الصوم ٤٠ (٧٤٠) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٦ (١٦١٤) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٩٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٠٣، ٣٢٩، ٣٤٢، ٣٤٤) ، سنن الدارمی/الصوم ٤٥ (١٧٩٨) (صحیح )
اشہر حرم کے روزے
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے رجب کے مہینے میں روزے رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٢٩٣، ومصباح الزجاجة : ٦٢٤) (ضعیف جدا) (اس کی سند میں داود بن عطاء ضعیف ہیں، اس حدیث کو ابن الجوزی نے العلل المتناھیة میں ذکر کیا ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٤٠٤ )
اشہر حرم کے روزے
محمد بن ابراہیم سے روایت ہے کہ اسامہ بن زید (رض) حرمت والے مہینوں میں روزے رکھتے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : شوال میں روزے رکھو ، تو انہوں نے حرمت والے مہینوں میں روزے رکھنا چھوڑ دیا، پھر برابر شوال میں روزے رکھتے رہے، یہاں تک کہ ان کا انتقال ہوگیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢١، ومصباح الزجاجة : ٦٢٥) (ضعیف) (محمد بن ابراہیم اور اسامہ بن زید کے مابین انقطاع ہے، نیز ملاحظہ ہو : التعلیق الرغیب : ٢ / ٨١ )
روزہ بدن کی زکوة ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر چیز کی زکاۃ ہے، اور بدن کی زکاۃ روزہ ہے محرز کی روایت میں اتنا اضافہ : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : روزہ آدھا صبر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٣٦، ومصباح الزجاجة : ٦٢٦) (ضعیف) (موسیٰ بن عبیدہ الر بذی ضعیف ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١٣٢٩ )
روزہ دار کو روزہ افطار کرانے کا ثواب
زید بن خالد جہنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کوئی کسی روزہ دار کو افطار کرا دے تو اس کو روزہ دار کے برابر ثواب ملے گا، اور روزہ دار کے ثواب میں سے کوئی کمی نہیں ہوگی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصوم ٨٢ (٨٠٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٦٠) ، (٤/١١٤، ١١٦، ٥/١٩٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سبحان اللہ، روزہ دار کا روزہ افطار کرانا، اس میں بھی روزے کے برابر ثواب ہے، دوسری روایت میں ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ہر شخص میں اتنی استعداد کہاں ہوتی ہے کہ روزہ دار کا روزہ افطار کرائے، آپ ﷺ نے فرمایا : یہ ثواب اس کو بھی ملے گا جو روزہ دار کا روزہ دودھ ملے ہوئے ایک گھونٹ پانی سے کھلوا دے، یا ایک کھجور، یا ایک گھونٹ پانی سے کھلوا دے، اور جو کوئی روزہ دار کو پیٹ بھر کے کھلا دے اس کو تو اللہ تعالیٰ میرے حوض سے ایک گھونٹ پلائے گا، اس کے بعد وہ پیاسا نہ ہوگا یہاں تک کہ جنت میں داخل ہوگا (سنن بیہقی) ۔
روزہ دار کو روزہ افطار کرانے کا ثواب
عبداللہ بن زبیر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سعد بن معاذ (رض) کے پاس افطار کیا اور فرمایا : تمہارے پاس روزہ رکھنے والوں نے افطار کیا، اور تمہارا کھانا، نیک لوگوں نے کھایا اور تمہارے لیے فرشتوں نے دعا کی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٢٨٧، ومصباح الزجاجة : ٦٢٧) (صحیح) (سند میں مصعب بن ثابت ضعیف ہیں، بالخصوص عبد اللہ بن زبیر سے روایت میں، لیکن قول رسول صحیح ہے، فعل رسول ضعیف ہے، نیز ملاحظہ ہو : آداب الزفاف : ٨٥ -٨٦ )
روزہ دار کے سامنے کھانا
ام عمارہ بنت کعب (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے، تو ہم نے آپ کو کھانا پیش کیا، آپ کے ساتھیوں میں سے کچھ روزے سے تھے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : روزہ دار کے سامنے جب کھانا کھایا جائے (اور وہ صبر کرے) تو فرشتے اس کے لیے دعا کرتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصوم ٦٧ (٧٨٤، ٧٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٦٥، ٤٣٩) ، سنن الدارمی/الصوم ٣٢ (١٧٧٩) (ضعیف) (لیلیٰ مولاة ام عمارة لین الحدیث ہیں، اور ان کا کوئی متابع نہیں ہے )
روزہ دار کے سامنے کھانا
بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بلال (رض) سے فرمایا : اے بلال ! دوپہر کا کھانا حاضر ہے، انہوں نے کہا : میں روزے سے ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : ہم تو اپنی روزی کھا رہے ہیں، اور بلال کی بچی ہوئی روزی جنت میں ہے، تم کو معلوم ہے، اے بلال ! روزہ دار کی ہڈیاں تسبیح بیان کرتی ہیں، اور فرشتے اس کے لیے استغفار کرتے ہیں، جب تک اس کے سامنے کھانا کھایا جاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٩٤٤، ومصباح الزجاجة : ٦٢٩) (موضوع) (محمد بن عبد الرحمن کی ناقدین نے تکذیب کی ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١٣٣٢ )
عوزہ دار کو کھانے کی دعوت دی جائے تو کیا کرے؟
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب کسی کو کھانا کھانے کے لیے بلایا جائے، اور وہ روزے سے ہو، تو کہے کہ میں روزے سے ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ٢٨ (١١٥٠) ، سنن ابی داود/الصوم ٧٦ (٢٤٦١) ، سنن الترمذی/الصوم ٦٤ (٧٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٣٦٧١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/ ٢٤٢، سنن الدارمی/الصیام ٣١ (١٧٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: میں صوم سے ہوں کہنے کا حکم دعوت قبول نہ کرنے کی معذرت کے طور پر ہے اگرچہ نوافل کا چھپانا بہتر ہے لیکن یہاں اس کے ظاہر کرنے کا حکم اس لیے ہے کہ تاکہ داعی کے دل میں مدعو کے خلاف کوئی غلط فہمی یا کدورت راہ نہ پائے۔
عوزہ دار کو کھانے کی دعوت دی جائے تو کیا کرے؟
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کسی کو کھانے کے لیے دعوت دی جائے، اور وہ روزے سے ہو تو وہ دعوت قبول کرے، پھر اگر چاہے تو کھائے اور اگر چاہے تو نہ کھائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ١٦ (١٤٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٣٠) ، سنن ابی داود/الأطعمة ١ (٣٧٤٠) ، مسند احمد (٣/٣٩٢) (صحیح )
روزہ دار کی دعا رد نہیں ہوتی
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین آدمیوں کی دعا رد نہیں کی جاتی : ایک تو عادل امام کی، دوسرے روزہ دار کی یہاں تک کہ روزہ کھولے، تیسرے مظلوم کی، اللہ تعالیٰ اس کی دعا قیامت کے دن بادل سے اوپر اٹھائے گا، اور اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دئیے جائیں گے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میری عزت کی قسم ! میں تمہاری مدد ضرور کروں گا گرچہ کچھ زمانہ کے بعد ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ٢٩ (٣٥٩٨) ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٥٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٠٤، ٣٠٥، ٤٤٥، ٤٤٧) (ضعیف) (پہلا فقرہ الإِمَامُ الْعَادِلُ کے بجائے المسافر کے لفظ کے ساتھ صحیح ہے، نیز الصَّائِمُ حَتَّى يُفْطِرَ ، وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ کا فقرہ بھی صحیح ہے، تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٥٩٦ - ١٧٩٧ ور صحیح ابن خزیمہ : ١٩٠١ ) وضاحت : ١ ؎: مظلوم کی آہ خالی جانے والی نہیں، ظالم اگر چند روز بچا رہے، تو اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہے، بلکہ یہ استدراج اور ڈھیل ہے کہ ایک نہ ایک دن دنیا ہی میں اللہ تعالیٰ اس سے بدلہ لے لے گا، حدیث میں مظلوم کو مطلق رکھا مسلمان کی قید نہیں کی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کافر پر بھی ظلم ناجائز ہے، کیونکہ سب اللہ کے بندے ہیں، اور کافر اگر مظلوم ہو تو اس کی دعا اثر کرے گی، غرض ظلم سے انسان کو ہمیشہ بچتے رہنا چاہیے، اس کے برابر کوئی گناہ نہیں، اور ظلم کا اطلاق ہر زیادتی اور نقصان پر جو ناحق کسی کے ساتھ کیا جائے، خواہ مال کا نقصان ہو یا عزت کا یا جان کا۔
روزہ دار کی دعا رد نہیں ہوتی
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : روزہ دار کی دعا افطار کے وقت رد نہیں کی جاتی ۔ ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کو سنا کہ جب وہ افطار کرتے تو یہ دعا پڑھتے : اللهم إني أسألک برحمتک التي وسعت کل شيء أن تغفر لي اے اللہ ! میں تیری رحمت کے ذریعہ سوال کرتا ہوں جو ہر چیز کو وسیع ہے کہ مجھے بخش دے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٨٤٢، ومصباح الزجاجة : ٦٣٠) (ضعیف) (اسحاق بن عبید اللہ ضعیف ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٩٢١ )
عید الفطر کے روز گھر سے نکلنے سے قبل کچھ کھانا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عید الفطر کے دن چند کھجوریں کھائے بغیر عید کے لیے نہیں نکلتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العیدین ٤ (٩٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٢) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٧٣ (٥٤٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٢٦، ٢٣٢) (صحیح) (سند میں جبارہ بن مغلس ضعیف راوی ہے، لیکن سعید بن سلیمان نے صحیح بخاری میں ان کی متابعت کی ہے ) وضاحت : ١ ؎: عید الفطر کے دن نماز سے پہلے کچھ کھا لینا سنت ہے، اگر کھجوریں ہوں تو بہتر ہے، ورنہ جو میسر ہو کھائے۔
عید الفطر کے روز گھر سے نکلنے سے قبل کچھ کھانا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ عید الفطر میں عید گاہ اس وقت تک نہیں جاتے تھے جب تک کہ اپنے (مساکین) صحابہ کو اس صدقہ فطر میں سے کھلا نہ دیتے (جو آپ کے پاس جمع ہوتا) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٢٣٤، ومصباح الزجاجة : ٦٣١) (ضعیف) (جبارہ، مندل اور عمر بن صہبان ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٤٢٤٨ )
عید الفطر کے روز گھر سے نکلنے سے قبل کچھ کھانا
بریدہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عید الفطر کے دن جب تک کہ کچھ کھا نہ لیتے نہیں نکلتے اور عید الاضحی کے دن نہیں کھاتے جب تک کہ (عید گاہ سے) واپس نہ آجاتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٧٣ (٥٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٩٥٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٥٢، ٣٦٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢١٧ (١٦٤١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ عیدالفطر کے دن نماز عید سے پہلے کچھ کھانا، اور عیدالاضحی کے دن بغیر کچھ کھائے نماز ادا کرنا سنت ہے، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کھانے میں کسی خاص چیز کی ہدایت نہیں ہے، البتہ کھجور یا چھوہارے کھا کر جانا مسنون ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ عیدالفطر کے دن طاق کھجوریں کھا کر عیدگاہ جایا کرتے تھے۔
جو شخص مر جائے اور اس کے ذمہ ررمضان کے روزے ہوں جن کو کوتاہی کی وجہ سے نہ رکھا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص مرجائے، اور اس پہ رمضان کے روزے ہوں تو اس کی جانب سے ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصوم ٢٣ (٧١٨) ، (تحفة الأشراف : ٨٤٢٣) (صحیح) (اس کی سند میں محمد بن سیرین کا ذکر وہم ہے، سنن ترمذی میں صرف محمد کا ذکر بغیر کسی نسبت کے ہے، امام ترمذی کہتے ہیں کہ محمد سے میرے نزدیک ابن عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ ہیں، اور اس حدیث کو ہم مرفوعاً اسی طریق سے جانتے ہیں، اور صحیح ابن عمر (رض) سے موقوفاً ہے، نیز ملاحظہ ہو : صحیح ابن خزیمہ ٢٠٥٦ ، و کامل ابن عدی ١؍٣٦٥ ، اور محمد بن عبدالرحمن بن أبی لیلیٰ سوء حفظ کی وجہ سے ضعیف ہیں، حافظ ابن حجر کہتے ہیں : صدوق سئی الحفظ جداً، صدوق ہیں، اور حافظہ بہت برا ہے )
جس کے ذمے نذر کے روزے ہوں اور وہ فوت ہو جائے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک عورت نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی، اور اس نے کہا : اللہ کے رسول ! میری بہن کا انتقال ہوگیا، اور اس پہ مسلسل دو ماہ کے روزے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : بتاؤ اگر تمہاری بہن پہ قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتیں ؟ اس نے کہا : ہاں، ضرور ادا کرتی، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنا زیادہ اہم ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٤٢ (١٩٥٣) ، صحیح مسلم/الصیام ٢٧ (١١٤٨) ، سنن ابی داود/الأیمان ٢٦ (٣٣١٠) ، سنن الترمذی/الصوم ٢٢ (٧١٦) ، (تحفة الأشراف : ٥٦١٢، ٥٣٩٥، ٥٥١٣، ٩٨٥٢، ٥٨٩٥، ٩٥٦١، ٦٣٨٥، ٦٣٩٦، ٦٣٢٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٢٤، ٢٢٧، ٢٥٨، ٣٦٢) ، سنن الدارمی/الصوم ٤٩ (١٨٠٩) لکن عندھم : أن أمي ماتت (صحیح )
جس کے ذمے نذر کے روزے ہوں اور وہ فوت ہو جائے
بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک عورت نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی، اور اس نے کہا : اللہ کے رسول ! میری ماں کا انتقال ہوگیا، اور اس پر روزے تھے، کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ٢٧ (١١٤٩) ، سنن ابی داود/الزکاة ٣١ (١٦٥٦) ، الوصایا ١٢ (٢٨٧٧) ، الإیمان ٢٥ (٣٣٠٩) ، سنن الترمذی/ الزکاة ٣١ (٦٦٧) ، (تحفة الأشراف : ١٩٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٥١، ٣٦١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: علامہ ابن القیم فرماتے ہیں کہ میت کی طرف سے نذر کا روزہ رکھنا جائز ہے، اور فرض اصلی یعنی رمضان کا جائز نہیں، عبداللہ بن عباس اور ان کے اصحاب اور امام احمد کا یہی قول ہے اور یہ صحیح ہے کیونکہ فرض روزہ مثل نماز کے ہے، اور نماز کوئی دوسرے کی طرف سے نہیں پڑھ سکتا، اور نذر مثل قرض کے ہے تو میت کی طرف سے وارث کا ادا کرنا کافی ہوگا، جیسے اس کی طرف سے قرض ادا کرنا، الروضہ الندیہ میں ہے کہ میت کی طرف سے ولی کا روزہ رکھنا اس وقت کافی ہوگا جب اس نے عذر سے صیام رمضان نہ رکھے ہوں، لیکن اگر بلا عذر کسی نے صیام رمضان نہ رکھے تو اس کی طرف سے ولی کا روزے رکھنا کافی نہ ہوگا جیسے میت کی طرف سے توبہ کرنا، یا اسلام لانا یا نماز ادا کرنا کافی نہیں ہے، اور ظاہر مضمون حدیث کا یہ ہے کہ ولی پر میت کی طرف سے روزہ رکھنا یا کھانا کھلانا واجب ہے خواہ میت نے وصیت کی ہو اس کی یا نہ کی ہو۔
جو ماہ رمضان میں مسلمان ہو
عطیہ بن سفیان کہتے ہیں کہ ہمارے اس وفد نے جو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں گیا تھا، ہم سے بنو ثقیف کے قبول اسلام کا واقعہ بیان کیا کہ بنو ثقیف نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں رمضان میں آئے، تو آپ ﷺ نے ان کے لیے مسجد میں ایک خیمہ لگایا، جب ان لوگوں نے اسلام قبول کرلیا، تو رمضان کے جو دن باقی رہ گئے تھے، ان میں انہوں نے روزے رکھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٦٤٤، ومصباح الزجاجة : ٦٣٢) (ضعیف) (اس کی سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اور عیسیٰ بن عبد اللہ مجہول ہیں ) وضاحت : ١ ؎: اس پر اتفاق ہے کہ کافر اگر رمضان میں مسلمان ہو تو جتنے دن رمضان کے باقی ہوں ان میں روزے رکھے، لیکن اگلے روزوں کی قضا اس پر لازم نہیں ہے۔
خا وند کی اجازت کے بغیر بیوی کا روزہ رکھنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر عورت رمضان کے علاوہ کسی دن (نفلی روزہ) نہ رکھے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصوم ٦٥ (٧٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣٦٨٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/النکاح ٨٤ (٥١٩٢) ، صحیح مسلم/الزکاة ٢٦ (١٠٢٦) ، سنن ابی داود/الصوم ٧٤ (٢٤٥٨) ، مسند احمد (٢/٢٤٥، ٣٦١) ، سنن الدارمی/الصوم ٢٠ (١٧٦١) (صحیح )
خا وند کی اجازت کے بغیر بیوی کا روزہ رکھنا
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کو منع فرمایا کہ وہ اپنے شوہروں کی اجازت کے بغیر (نفلی) روزہ رکھیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ : (تحفة الأشراف : ٤٠٢٠، ومصباح الزجاجة : ٦٣٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصوم ٧٤ (٢٤٥٩) ، مسند احمد (٣/٨٠، ٨٤) ، سنن الدارمی/الصوم ٢٠ (١٧٦٠) (صحیح )
مہمان میزبان کی اجازت کے بغیر روزہ نہ رکھے
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب کوئی آدمی کسی قوم کا مہمان ہو تو ان کی اجازت کے بغیر روزہ نہ رکھے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٤١) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصوم ٧٠ (٧٨٩) (ضعیف جدا )
کھا نا کھا کر شکر کرنے والا روزہ رکھ کر صبر کرنے والے کے برابر ہے۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کھانا کھا کر اللہ کا شکر ادا کرنے والا صبر کرنے والے روزہ دار کے ہم رتبہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٩٤) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/صفة القیامة ٤٣ (٢٤٨٦) (صحیح )
کھا نا کھا کر شکر کرنے والا روزہ رکھ کر صبر کرنے والے کے برابر ہے۔
صحابی رسول سنان بن سنۃ اسلمی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کھانا کھا کر اللہ کا شکر ادا کرنے والے کو صبر کرنے والے صائم کے برابر ثواب ملتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٦٤٢، ومصباح الزجاجة : ٦٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٤٣) سنن الدارمی/الأطعمة ٤ (٢٠٦٧) (صحیح )
لیلة القدر
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رمضان کے درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : مجھے شب قدر خواب میں دکھائی گئی لیکن پھر مجھ سے بھلا دی گئی، لہٰذا تم اسے رمضان کے آخری عشرہ (دہے) کی طاق راتوں میں ڈھونڈھو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ :: صحیح البخاری/الأذان ٤١ (٦٦٩) ، ١٣٥ (٨١٣) ، ١٩١ (٨٣٦) ، لیلةالقدر ٢ (٢٠١٦) ، ٣ (٢٠١٨) ، الاعتکاف ١ (٢٠٢٦) ، ٩ (٢٠٣٦) ، ١٣ (٢٠٤٠) ، صحیح مسلم/الصوم ٤٠ (١١٦٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٥٧ (٨٩٤) ، ١٦٦ (٩١١) ، سنن النسائی/السہو ٩٨ (١٣٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٤١٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/ الاعتکاف ٦ (٩) ، مسند احمد (٣/٧، ٣٤، ٦٠، ٧٤، ٩٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: شب قدر کے سلسلہ میں نبی اکرم ﷺ سے اکیسویں، تیئسویں، پچیسویں، ستائیسویں، انتیسویں اور رمضان کی آخری رات کے اقوال مروی ہیں، امام شافعی کہتے ہیں کہ میرے نزدیک اس کا مفہوم یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ ہر سائل کو اس کے سوال کے مطابق جواب دیتے تھے، آپ سے کہا جاتا : ہم اسے فلاں رات میں تلاش کریں ؟ آپ فرماتے : ہاں، فلاں رات میں تلاش کرو، امام شافعی فرماتے ہیں : میرے نزدیک سب سے قوی روایت اکیسویں رات کی ہے، ابی بن کعب (رض) قسم کھا کر کہتے تھے کہ یہ ستائیسویں رات ہے، ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ رمضان کے آخری عشرے میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی اکرم ﷺ کو وہ مخصوص رات دکھائی گئی تھی پھر وہ آپ سے بھلا دی گئی، اس میں مصلحت یہ تھی کہ لوگ اس رات کی تلاش میں زیادہ سے زیادہ عبادت اور ذکر الٰہی میں مشغول رہیں۔
ماہ رمضان کی آخری دس راتوں کی فضیلت
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں (عبادت) میں ایسی محنت کرتے تھے کہ ویسی آپ اور دنوں میں نہیں کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الاعتکاف ٣ (١١٧٥) ، سنن الترمذی/الصوم ٧٣ (٧٩٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٢٢، ٢٥٥) (صحیح )
ماہ رمضان کی آخری دس راتوں کی فضیلت
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ (دہا) آتا تو نبی اکرم ﷺ رات کو جاگتے اور کمر کس لیتے، اور اپنے گھر والوں کو جگاتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/لیلة القدر ٥ (٢٠٢٤) ، صحیح مسلم/الاعتکاف ٣ (١١٧٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣١٨ (١٣٧٦) ، سنن النسائی/قیام اللیل ١٥ (١٦٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٣٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ یا عبادت کے لیے کمر کس لینے یا عورتوں سے بچنے اور دور رہنے سے کنایہ ہے۔
اعتکاف
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ہر سال دس دن کا اعتکاف کرتے تھے، جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا ١ ؎ اور ہر سال ایک بار قرآن کا دور آپ سے کرایا جاتا تھا، جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال دو بار آپ سے دور کرایا گیا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاعتکاف ١٧ (٢٠٤٤) ، فضائل القرآن ٧ (٤٩٩٨) ، سنن ابی داود/الصوم ٧٨ (٢٤٦٦) ، سنن الترمذی/الصوم ٧١ (٧٩١) ، (تحفة الأشراف : ١٢٨٤٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٨١، ٣٣٦، ٤١٠) ، سنن الدارمی/الصوم ٥٥ (١٨٢٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اعتکاف کے لغوی معنی روکنے اور بند کرنے کے ہیں، اور شرعی اصطلاح میں مسجد میں ایک خاص کیفیت کے ساتھ اپنے آپ کو روکنے کو اعتکاف کہتے ہیں۔ ٢ ؎: تاکہ آخر عمر میں آپ کی امت کے لوگ آپ ﷺ کی پیروی کریں، اور عبادت میں زیادہ کوشش کریں، اور بعض نے کہا : آپ نے ایک سال پہلے رمضان کے اخیر د ہے میں اپنی بیویوں کی وجہ سے اعتکاف کو ترک کیا تھا، اور شوال میں اس اعتکاف کو ادا کیا تھا، تو دوسرے رمضان میں بیس دن اعتکاف کیا گویا پہلے رمضان کے اعتکاف کی بھی قضا کی واللہ اعلم
اعتکاف
ابی بن کعب (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ رمضان کے آخری عشرے (دہے) میں اعتکاف کیا کرتے تھے، ایک سال آپ نے سفر کیا (تو اعتکاف نہ کرسکے) جب دوسرا سال ہوا تو آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصوم ٧٧ (٢٤٦٣) ، (تحفة الأشراف : ٧٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٤١) (صحیح )
اعتکاف شروع کرنا اور قضا کرنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب اعتکاف کا ارادہ کرتے تو نماز فجر پڑھ کر اعتکاف کی جگہ جاتے، ایک مرتبہ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنے کا ارادہ فرمایا، آپ ﷺ کے حکم پر مسجد میں ایک خیمہ لگا دیا گیا، ام المؤمنین عائشہ (رض) نے بھی حکم دیا تو ان کے لیے (بھی) ایک خیمہ لگایا گیا، ام المؤمنین حفصہ (رض) نے حکم دیا تو ان کے لیے بھی ایک خیمہ لگایا گیا، جب ام المؤمنین زینب (رض) نے ان دونوں کا خیمہ دیکھا تو انہوں نے بھی حکم دیا تو ان کے لیے بھی خیمہ لگایا گیا، جب رسول اللہ ﷺ نے یہ منظر دیکھا تو فرمایا : کیا ثواب کے لیے تم سب نے ایسا کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے اس رمضان میں اعتکاف نہیں کیا بلکہ شوال کے مہینہ میں دس دن کا اعتکاف کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاعتکاف ٦ (٢٠٣٣) ، ٧ ٢٠٣٤) ، ١٤، (٢٠٤١) ، ١٨ (٢٠٤٥) ، صحیح مسلم/الاعتکاف ٢ (١١٧٢) ، سنن ابی داود/الصوم ٧٧ (٢٤٦٤) ، سنن الترمذی/الصوم ١٧ (٧٩١) ، سنن النسائی/المساجد ١٨ (٧١٠) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٣٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الاعتکاف ٤ (٧) ، مسند احمد (٦/٢٢٦) (صحیح )
ایک دن یا رات کا اعتکاف
عمر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے جاہلیت کے زمانہ میں ایک رات کے اعتکاف کی نذر مانی تھی، نبی اکرم ﷺ سے پوچھا تو آپ ﷺ نے انہیں اعتکاف کرنے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاعتکاف ٥ (٢٠٣٢) ، ١٥ (٢٠٤٢) ، ١٦ (٢٠٤٣) ، صحیح مسلم/الأیمان ٦ (١٦٥٦) ، سنن ابی داود/الأیمان ٣٢ (٣٣٢٥) ، سنن الترمذی/الأیمان والنذور ١١ (١٥٣٩) ، سنن النسائی/الأیمان ٣٥ (٣٨٥١) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٧، ٢/٢٠، ٨٢، ١٥٣) ، سنن الدارمی/الأیمان والنذور ١ (٢٣٧٨) (صحیح )
معتکف مسجد میں جگہ متعین کرے
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ نافع کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے مجھے وہ جگہ دکھائی ہے جہاں پر رسول اللہ ﷺ اعتکاف کیا کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاعتکاف ١ (٢٠٢٥) ، ولیس عندہ : قال نافع، صحیح مسلم/الاعتکاف ١ (١٧٧١) ، سنن ابی داود/الصوم ٧٨ (٢٤٦٥) ، (تحفة الأشراف : ٨٥٣٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٣٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اعتکاف کے لیے ایسی مسجد شرط ہے جس میں باجماعت نماز ہوتی ہو، جمہور کا خیال ہے کہ جس پر جمعہ فرض نہیں وہ ہر اس مسجد میں اعتکاف کرسکتا ہے جس میں نماز باجماعت ہوتی ہو، لیکن جس پر جمعہ فرض ہے اس کے لیے ایسی مسجد میں اعتکاف کرنا چاہیے جہاں نماز جمعہ بھی ہوتی ہو۔
معتکف مسجد میں جگہ متعین کرے
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب اعتکاف کرتے تو آپ کا بستر بچھا دیا جاتا تھا یا چارپائی توبہ کے ستون کے پیچھے ڈال دی جاتی تھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٢٥٠، ومصباح الزجاجة : ٦٣٥) (ضعیف ) وضاحت : ١ ؎: یہ وہی ستون ہے جس میں ابولبابہ (رض) نے اپنے آپ کو باندھ لیا تھا کہ جب تک اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول نہیں کرے گا وہ اسی طرح بندھے رہیں گے۔
مسجد میں خیمہ لگا کر اعتکاف کرنا
ابوسعیدی خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک ترکی خیمہ میں اعتکاف کیا، اس کے دروازے پہ بورئیے کا ایک ٹکڑا لٹکا ہوا تھا، آپ نے اس بورئیے کو اپنے ہاتھ سے پکڑا اور اسے ہٹا کر خیمہ کے ایک گوشے کی طرف کردیا، پھر اپنا سر باہر نکال کر لوگوں سے باتیں کیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (١٧٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٤١٩) (صحیح )
دوران اعتکاف بیمار کی عیادت اور جنازے میں شر کت
عروہ بن زبیر اور عمرہ بنت عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) نے کہا : میں (اعتکاف کی حالت میں) گھر میں ضرورت (قضائے حاجت) کے لیے جاتی تھی، اور اس میں کوئی بیمار ہوتا تو میں اس کی بیمار پرسی چلتے چلتے کرلیتی تھی، اور نبی اکرم ﷺ اعتکاف کی حالت میں ضرورت ہی کے تحت گھر میں جاتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الإعتکاف ٣ (٢٠٢٩) ، صحیح مسلم/الخیض ٣ (٢٩٧) ، سنن ابی داود/الصوم ٧٩ (٢٤٦٨) ، سنن الترمذی/الصوم ٨٠ (٨٠٥) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٧٩، ١٧٩٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٨، ١٠٤) (صحیح )
دوران اعتکاف بیمار کی عیادت اور جنازے میں شر کت
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : معتکف جنازہ کے ساتھ جاسکتا ہے، اور بیمار کی عیادت کرسکتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٨٢، ومصباح الزجاجة : ٦٣٦) (موضوع) ( سند میں عبدالخالق، عنبسہ اور ہیاج سب ضعیف ہیں، نیز اس کے خلاف ام المومنین عائشہ (رض) کی یہ متفق علیہ حدیث ہے کہ آپ ﷺ اعتکاف کی حالت میں صرف ضرورت کے وقت ہی نکلتے تھے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٤٦٧٩ )
معتکف سر دھو سکتا ہے اور کنگھی کرسکتا ہے
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اعتکاف کی حالت میں مسجد سے اپنا سر میری طرف بڑھا دیتے تو میں اسے دھو دیتی اور کنگھی کردیتی، اس وقت میں اپنے حجرے ہی میں ہوتی، اور حائضہ ہوتی اور آپ ﷺ مسجد میں ہوتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٢٨٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحیض ٦ (٣٠١) ، الاعتکاف ٤ (٢٠٢١) ، اللباس ٧٦ (٥٩٢٥) ، صحیح مسلم/الحیض ٣ (٢٩٧) ، سنن ابی داود/الصوم ٧٩ (٢٤٦٨) ، سنن النسائی/الطہارة ١٧٦ (٢٧٦) ، الحیض ٢١ (٣٨٧) ، موطا امام مالک/الاعتکاف ١ (١) ، ٧ (٧) مسند احمد (٦/٣٢، ٥٥، ٨٦، ١٧٠، ٢٠٤، سنن الدارمی/الطہارة ١٠٨ (١٠٩٨) ، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٦٣٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ معتکف اعتکاف کی حالت میں اپنے بدن میں سے بعض اجزاء باہر نکال سکتا ہے، اور حجرے کا دروازہ مسجد کی طرف تھا تو آپ ﷺ مسجد کی اخیر میں بیٹھ جاتے ہوں گے اور سر مبارک حجرے کے اندر کردیتے ہوں گے، اور ام المومنین عائشہ (رض) اس کو دھو دیتی ہوں گی، تو اس طرح ام المومنین عائشہ (رض) حجرے کے اندر رہتی ہوں گی ٕاور آپ ﷺ مسجد کے اندر۔
معتکف کے گھر والے مسجد میں اس سے ملاقات کرسکتے ہیں
ام المؤمنین صفیہ بنت حیی (رض) سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے ملنے کے لیے آئیں، اور آپ رمضان کے آخری عشرے میں مسجد کے اندر معتکف تھے، عشاء کے وقت کچھ دیر آپ سے باتیں کیں، پھر اٹھیں اور گھر جانے لگیں، آپ ﷺ بھی ان کے ساتھ انہیں پہنچانے کے لیے اٹھے، جب وہ مسجد کے دروازہ پہ پہنچیں جہاں پہ ام سلمہ (رض) کی رہائش گاہ تھی تو قبیلہ انصار کے دو آدمی گزرے، ان دونوں نے آپ کو سلام کیا، پھر چل پڑے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنی جگہ ٹھہرو، یہ صفیہ بنت حیی (میری بیوی) ہیں ان دونوں نے کہا : سبحان اللہ، یا رسول اللہ ! اور یہ بات ان دونوں پہ گراں گزری، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے، مجھے خدشہ ہوا کہ کہیں شیطان تمہارے دل میں کوئی غلط بات نہ ڈال دے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاعتکاف ١١ (٢٠٣٨) ، ١٢ (٢٠٣٩) ، بدا ٔالخلق ١١ (٣٢٨١) ، الأحکام ٢١ (٧١٧١) ، صحیح مسلم/السلام ٩ (٢١٧٥) ، سنن ابی داود/الصوم ٧٩ (٢٤٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٠١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٥٦، ٢٨٥، ٣٠٩، ٦/٣٣٧) ، سنن الدارمی/الصوم ٥٥ (١٨٢١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی شیطان آدمی کا دشمن ہے وہ ایسے مواقع کی تاک میں رہتا ہے، تم نے اس وقت رات میں مجھ کو اکیلی عورت کے ساتھ دیکھا ہے ممکن ہے کہ شیطان تمہارے دل میں یہ خیال ڈالے کہ نبی کریم ﷺ اتنی رات کو اس اجنبی عورت کے ساتھ ہیں تو ضرور کوئی نہ کوئی بات ہوگی - معاذ اللہ اس وجہ سے میں نے بتلا دیا کہ یہ میری بیوی صفیہ ہیں۔
مستحاضہ اعتکاف کرسکتی ہے
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ آپ کی بیویوں میں سے کسی نے اعتکاف کیا، تو وہ سرخی اور زردی دیکھتی تھیں، تو کبھی اپنے نیچے طشت رکھ لیتی تھیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ١٠ (٣٠٩) ، الاعتکاف ١٠ (٢٠٣٧) ، سنن ابی داود/الصوم ٨١ (٢٤٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٣١) ، سنن الدارمی/الطہارة ٩٣ (٩٠٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جب خون حیض والے مقررہ دنوں سے زیادہ ہوجائے تو وہ استحاضہ ہے، مستحاضہ کو صوم و صلاۃ سب ادا کرنا چاہیے جیسا کہ اوپر گزرا، اس کا اعتکاف کرنا بھی صحیح ہے۔
اعتکاف کا ثواب
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے معتکف کے بارے میں فرمایا : اعتکاف کرنے والا تمام گناہوں سے رکا رہتا ہے، اور اس کو ان نیکیوں کا ثواب جن کو وہ نہیں کرسکتا ان تمام نیکیوں کے کرنے والے کی طرح ملے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٥٩٧، ومصباح الزجاجة : ٦٣٧) (ضعیف) ( سند میں فرقد بن یعقوب ضعیف ہے )
عیدین کی راتوں میں قیا م
ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص عیدین کی راتوں میں ثواب کی نیت سے اللہ کی عبادت کرے گا، تو اس کا دل نہیں مرے گا جس دن دل مردہ ہوجائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٨٥٧، ومصباح الزجاجة : ٦٣٨) (موضوع) ( سند میں محمد بن المصفی اور بقیہ مدلس ہیں، اور دونوں کی روایت عنعنہ سے ہے، ملاحظہ ہو : الضعیفة : ٥٢١ ، ٥١٣٦ )