20. کتاب الزکوة
جن مالوں میں زکوة واجب ہوتی ہے ان کا بیان
ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے اور پانچ اوقیوں سے جو چاندی کم ہو اس میں زکوٰۃ نہیں ہے اور پانچ وسق سے جو غلہ کم ہو اس میں زکوٰۃ نہیں ہے۔
جن مالوں میں زکوة واجب ہوتی ہے ان کا بیان
ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جو کھجور پانچ وسق سے کم ہو اس میں زکوٰۃ نہیں ہے اور جو چاندی پانچ اوقیہ سے کم ہو اس میں زکوٰۃ نہیں ہے اور پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ امام مالک کو پہنچا کہ عمر بن عبدالعزیز نے لکھا اپنے عامل کو دمشق میں کہ زکوٰۃ سونے چاندی اور زراعت اور جانوروں میں ہے۔
سونے اور چاندی کی زکوة کا بیان
محمد بن عقبہ نے پوچھا قاسم بن محمد بن ابی بکر سے کہ میں نے اپنے مکاتب سے مقاطعت کی ہے ایک مال عظیم پر تو کیا زکوٰۃ اس میں واجب ہے قاسم بن محمد نے کہا کہ ابوبکر صدیق کسی مال میں سے زکوٰۃ نہ لیتے تھے۔
سونے اور چاندی کی زکوة کا بیان
قدامہ بن مظعون سے روایت ہے کہ جب میں عثمان بن عفان کے پاس اپنی سالانہ تنخواہ لینے آیا تو مجھ سے پوچھتے کہ تمہارے پاس کوئی ایسا مال ہے جس پر زکوٰۃ واجب ہو اگر میں کہتا ہاں تو تنخواہ میں سے زکوٰۃ اس مال کی لے لیتے اور جو کہتا نہیں تو تنخواہ دے دیتے۔
سونے اور چاندی کی زکوة کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے کسی مال میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی جب تک اس پر کوئی سال نہ گزرے۔
سونے اور چاندی کی زکوة کا بیان
ابن شہاب نے کہا کہ سب سے پہلے معاویہ نے تنخواہوں میں سے زکوٰۃ لی۔
کانوں کی زکوة کا بیان
کئی ایک لوگوں سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جاگیر کردی تھیں بلال بن حارث مزنی کو کانیں قبیلہ کی جو فرح کی طرف ہیں تو ان کانوں سے آج تک کچھ نہیں لیا جاتا سوائے زکوٰۃ کے۔
دفینے کی زکوة کا بیان
ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا رکاز میں پانچواں حصہ لیا جائے گا۔
بیان ان چیزوں کا جن میں زکوة واجب نہیں ہے جیسے زیور اور سونے چاندی کا ڈلا اور عنبر
قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ حضرت ام المومنین عائشہ پرورش کرتی تھیں اپنے بھائی محمد بن ابی بکر کی یتیم بیٹیوں کی اور ان کے پاس زیور تھا تو نہیں نکالتی تھیں اس میں سے زکوٰۃ۔
بیان ان چیزوں کا جن میں زکوة واجب نہیں ہے جیسے زیور اور سونے چاندی کا ڈلا اور عنبر
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر اپنی بیٹیوں اور لونڈیوں کو سونے کا زیور پہناتے تھے اور ان کے زیوروں میں سے زکوٰۃ نہیں نکالتے تھے۔
یتیم کے مال کی زکوة کا بیان اور اس میں تجارت کرنے کا ذکر
امام مالک کو پہنچا کہ عمر بن خطاب نے فرمایا تجارت کرو یتیموں کے مال میں تاکہ زکوٰۃ ان کو تمام نہ کرے۔
یتیم کے مال کی زکوة کا بیان اور اس میں تجارت کرنے کا ذکر
قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ حضرت ام المومنین عائشہ پرورش کرتی تھیں میری اور میرے بھائی کی دونوں یتیم تھے ان کی گود میں تو نکالتی تھیں ہمارے مالوں میں سے زکوٰۃ۔ ا مام مالک کو پہنچا کہ حضرت ام المومنین عائشہ یتیموں کا مال تاجر کو دیتی تھیں تاکہ وہ اس میں تجارت کریں۔
یتیم کے مال کی زکوة کا بیان اور اس میں تجارت کرنے کا ذکر
یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے بھائی کے یتیم لڑکوں کے واسطے کچھ مال خریدا پھر وہ مال بڑی قیمت کا بکا۔
ترکہ کی زکوة کا بیان
کہا مالک نے ایک شخص مرگیا اور اس نے اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں دی تو اس کے تہائی مال سے زکوٰۃ وصول کی جائے نہ زیادہ اس سے اور یہ زکوٰۃ مقدم ہوگی اس کی وصیتوں پر کیونکہ زکوٰۃ مثل دین کے ہے اس پر اس واسطے وصیت پر مقدم کی جائے گی مگر یہ حکم جب ہے کہ میت نے وصیت کی ہو زکوٰۃ ادا کرنے کی اگر وہ وصیت نہ کرے لیکن وارث اس کو ادا کردیں تو بہتر ہے مگر ان کو ضروری نہیں۔
دین کی زکوة کا بیان
سائب بن یزید سے روایت ہے کہ عثمان بن عفان فرماتے تھے یہ مہینہ تمہاری زکوٰۃ کا ہے تو جس شخص پر کچھ قرض ہو تو چاہئے کہ قرض اپنا ادا کر دے اور باقی جو مال بچ جائے اس کی زکوٰۃ ادا کرے۔
دین کی زکوة کا بیان
ایوب بن ابی تمیمہ سختیانی سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے لکھا ایک مال کے بارے میں (جس کو بعض حکام نے ظلم سے چھین لیا تھا) کہ پھیر دیں اس کو مالک کی طرف اور اس میں سے زکوٰۃ ان برسوں کی جو گزر گئے وصول کرلیں اس کے بعد ایک نامہ لکھا کہ زکوٰۃ ان برسوں کی نہ لی جائے کیونکہ وہ مال ضمار تھا۔
دین کی زکوة کا بیان
یزید بن خصیفہ سے روایت ہے کہ انہوں نے پوچھا سلیمان بن یسار سے ایک شخص کے پاس مال ہے لیکن اس پر اسی قدر قرض ہے کیا زکوٰۃ اس پر واجب ہے بولے نہیں۔
اموال تجارے کی زکوة کا بیان
زریق بن حیان سے روایت ہے کہ وہ مقرر تھے مصر کے محصول خانہ پر ولید اور سلیمان بن عبدالملک اور عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں کہ عمر بن عبدالعزیز نے لکھا ان کو جو شخص گزرے اوپر تیرے مسلمانوں میں سے تو جو مال ان کو ظاہر ہو اموال تجارت میں سے تو لے اس میں سے ہر چالیس دینار میں سے ایک دینار یعنی چالیسواں حصہ اور جو چالیس دینار سے کم ہو تو اسی حساب سے بیس دینار تک اگر بیس دینار سے ایک تہائی دینار بھی کم تو اس مال کو چھوڑ دے اس میں سے کچھ نہ لے اور جو تیرے اوپر کوئی ذمی گزرے تو اس کے مال تجارت میں سے ہر بیس دینار میں سے ایک دینار لے جو کم ہو اسی حساب سے دس دینار تک اگر دس دینار سے ایک تہائی دینار بھی کم ہو تو کچھ نہ لے اور جو کچھ تو لے اس کی ایک رسید سال تمام کے واسطے لکھ دے۔
کنز کے بیان میں
عبداللہ بن دینار سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا عبداللہ بن عمر سے کسی نے پوچھا کنز کسے کہتے ہیں جواب دیا کنز وہ مال ہے جس کی زکوٰۃ نہ دی جائے۔
کنز کے بیان میں
ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ کہتے تھے جس شخص کے پاس مال ہو اور وہ اس کی زکوٰۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے روز وہ مال ایک گنجے سانپ کی صورت بنے گا جس کی دو آنکھوں پر سیاہ داغ ہوں گے اور ڈھونڈے گا اپنے مالک کو یہاں تک کہ پائے گا اس کو پھر کہے گا اس سے میں تیرا مال ہوں جس کی زکوٰۃ تو نے نہیں دی تھی۔
زکوة چار پایوں کی
امام مالک نے پڑھا حضرت عمر بن خطاب کی کتاب صدقہ اور زکوٰۃ کے باب میں اس میں لکھا تھا بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ کتاب ہے صدقہ کی چوبیس اونٹنیوں تک ہر پانچ میں ایک بکری لازم ہے جب چوبیس سے زیادہ ہوں پینتیس تک ایک برس کی اونٹنی ہے اگر ایک برس کی اونٹنی نہ ہو تو دو برس کا اونٹ ہے اس سے زیادہ میں پنتالیس اونٹ تک دو برس کی اونٹنی ہے اس سے زیادہ میں ساٹھ اونٹ تک تین برس کی اونٹنی ہے جو قابل ہو جفتی کے اس سے زیادہ میں پچھتر اونٹ تک چار برس کی اونٹنی ہے اس سے زیادہ میں نوے اونٹ تک دو اونٹنیاں ہیں دو دو برس کی اس سے زیادہ میں ایک سو بیس اونٹ تک تین تین برس کی دو اونٹنیاں ہیں جو قابل ہوں جفتی کے اس سے زیادہ میں ہر چالیس اونٹ تک دو برس کی اونٹنی ہے اور ہر پچاس اونٹ میں تین برس کی اونٹنی ہے بکریاں جو جنگل میں چرتی ہوں جب چالیس تک پہنچ جائیں ایک بکری زکوٰۃ کی لازم ہوگی اس سے زیادہ میں تین سو بکریوں تک تین بکریاں بعد اس کے ہر سینکڑے میں ایک بکری دینا ہوگی اور زکوٰۃ میں بکرا نہ لیا جائے گا اسی طرح بوڑھے اور عیب دار مگر جب زکوٰۃ لینے والے کی رائے میں مناسب ہو اور جد اجدا اموال ایک نہ کئے جائیں گے اسی طرح ایک مال جدا جدا نہ کیا جائے گا زکوٰۃ کے خوف سے اور جو دو آدمی شریک ہوں تو وہ آپس میں رجوع کرلیں برابر کا حصہ لگا کر اور چاندی میں جب پانچ اوقیہ ہو تو چالیسواں حصہ لازم آئے گا۔
گائے بیل کی زکوة کا بیان
طاؤس یمانی سے روایت ہے کہ معاذ بن جبل نے تیس گایوں میں سے ایک گائے ایک برس کی لی اور چالیس گایوں میں دو برس کی ایک گائے لی اور اس سے کم میں کچھ نہ لیا اور کہا کہ نہیں سنا میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں یہاں تک کہ پوچھوں گا آپ ﷺ سے پس وفات پائی رسول اللہ ﷺ نے معاذ بن جبل کے آنے سے پہلے۔
جب دو سال کی زکوة کسی پر واجب ہوجائے اس کے طریقے کا بیان
سفیان بن عبداللہ کو عمر بن خطاب نے متصدق ( یعنی زکوٰۃ وصول کرنے والا) کرکے بھیجا تو وہ بکریوں میں بچوں کو بھی شمار کرتے تھے لوگوں نے کہا تم بچوں کو شمار کرتے ہیں لیکن بچہ لیتے نہیں ہو تو جب آئے وہ عمر بن خطاب کے پاس بیان کیا ان سے یہ امر تو کہا حضرت عمر نے ہاں ہم گنتے ہیں بچوں کو بلکہ اس بچے کو جس کو چرواہا اٹھا کر چلتا ہے لیکن نہیں لیتے اس کو نہ موٹی بکری کو جو کھانے کے واسطے موٹی کی جائے اور نہ اس بکری کو جو اپنے بچے کو پالتی ہو اور نہ حاملہ کو اور نہ نر کو اور لیتے ہیں ہم ایک سال یا دو سال کی بکری ہو جو متوسط ہے نہ بچہ ہے نہ بوڑھی ہے نہ بہت عمدہ ہے۔
زکوة میں لوگوں کو تنگ کرنے کی ممانعت
حضرت ام المومنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عمر کے پاس بکریاں آئیں زکوٰۃ کی اس میں ایک بکری دیکھی بہت دودھ والی تو پوچھا آپ نے یہ بکری کیسی ہے لوگوں نے کہا زکوٰۃ کی بکری ہے حضرت عمر نے فرمایا کہ اس کے مالک نے کبھی اس کو خوشی سے نہ دیا ہوگا لوگوں کو فتنے میں نہ ڈالو ان کے بہترین اموال نہ لو اور باز آؤ ان کا رزق چھین لینے سے۔
زکوة میں لوگوں کو تنگ کرنے کی ممانعت
محمد بن یحییٰ بن حبان سے روایت ہے کہ خبر دی مجھ کو دو شخصوں نے قبیلہ اشجع سے کہ محمد بن مسلمہ انصاری آتے تھے زکوٰۃ لینے کو تو کہتے تھے صاحب مال سے لاؤ میرے پاس زکوٰۃ اپنے مال کی پھر وہ جو بکری لے کر آتا اگر وہ زکوٰۃ کے لائق ہوتی تو قبول کرلیتے۔
صدقہ لینا اور جن لوگوں کو لینا درست ہے ان کا بیان
عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا زکوٰۃ درست نہیں مالدار کی مگر پانچ آدمیوں کو درست ہے پہلے غازی جو جہاد کرتا ہو اللہ کی راہ میں دوسرے جو عامل ہو زکوٰۃ کا یعنی زکوٰۃ کو وصول اور تحصیل کرتا ہو تیسرے مدیون یعنی جو قرضدار ہو چوتھے جو زکوٰۃ کو خرید لے اپنے مال کے عوض میں پانچویں جو مسکین ہمسایہ کے پاس سے بطور ہدیہ کے آئے۔
زکوة نہ دینے والوں پر سختی کا بیان
امام مالک سے روایت ہے کہ ابوبکر صدیق نے فرمایا کہ اگر نہ دیں گے رسی بھی اونٹ باندھنے کی تو میں جہاد کروں گا ان پر۔
زکوة نہ دینے والوں پر سختی کا بیان
زید بن اسلم سے روایت ہے کہ حضرت عمربن خطاب نے دودھ پیا تو بھلا معلوم ہوا پوچھا کہ یہ دودھ کہاں سے آیا جو لایا تھا وہ بولا کہ میں ایک پانی پر گیا تھا اور اس کا نام بیان کیا وہاں پر جانور زکوٰۃ کے پانی پی رہے تھے لوگوں نے ان کا دودھ نچوڑ کر مجھے دیا میں نے اپنی مشک میں رکھ لیا وہ یہی دودھ تھا جو آپ نے پیا تو حضرت عمر نے اپنا ہاتھ منہ میں ڈال کر قے کی۔ امام مالک کو پہنچا کہ ایک عامل نے عمر بن عبدالعزیز کو لکھا کہ ایک شخص اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں دیتا عمر نے جواب میں لکھا کہ چھوڑ دے اس کو اور مسلمانوں کے ساتھ اور زکوٰۃ نہ لیا کر اس سے۔ یہ خبر اس شخص کو پہنچی اس کو برا معلوم ہوا اور اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کردی بعد اس کے عامل نے حضرت عمر کو اطلاع دی انہوں نے جواب میں لکھا کہ لے لے زکوٰۃ کو اس شخص سے۔
پھلوں اور میووں کی زکوة کا بیان
سلیمان بن یسار اور بسر بن سعید سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ بارانی اور زیر چشمہ یا تالاب کی زمین میں اور اس کھجور میں جس کو پانی کی حاجت نہ ہو دسواں حصہ زکوٰۃ ہے اور جو زمین پانی سینچ کر ترکی جائے اس میں بیسواں حصہ زکوٰۃ کا ہے۔
پھلوں اور میووں کی زکوة کا بیان
ابن شہاب زہری نے کہا کہ کھجور کی زکوٰۃ میں جعرور (ایک قسم کی خراب کھجور ہے جو سوکھنے سے کوڑا ہوجاتی ہے) اور مصران الفارہ اور عذق بن حبیق (یہ بھی ردی کھجوروں کی قسم ہیں) نہ لی جائیں گی اور مثال ان کی بکریوں کی سی ہے کہ صاحب مال کے مال کے شمار میں سب قسم کی شمار کی جائیں گی لیکن لی نہ جائیں گی۔
غلوں اور زیتوں کی زکوة کا بیان
امام مالک نے پوچھا ابن شہاب سے کہ زیتون میں کیا واجب ہے بولے دسواں حصہ۔
غلام لونڈی اور گھوڑوں اور شہد کی زکوة کا بیان
ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نہیں ہے مسلمان پر اپنے گھوڑے اور غلام کی زکوٰۃ۔
غلام لونڈی اور گھوڑوں اور شہد کی زکوة کا بیان
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ شام کے لوگوں نے ابوعبیدہ بن جراح سے کہا کہ ہمارے گھوڑوں اور غلاموں کی زکوٰۃ لیا کرو انہوں نے انکار کیا اور حضرت عمر بن خطاب کو لکھ بھیجا حضرت عمر نے بھی انکار کیا پھر لوگوں نے دوبارہ ابوعبیدہ سے کہا انہوں نے حضرت عمر کو لکھا حضرت عمر نے جواب میں لکھا کہ اگر وہ لوگ ان چیزوں کی زکوٰۃ دینا چاہیں تو اسے ان سے لے کر انہی کے فقیروں کو دے دے اور ان کے غلاموں اور لونڈیوں کی خوراک میں صرف کر۔
غلام لونڈی اور گھوڑوں اور شہد کی زکوة کا بیان
عبداللہ بن ابی حزم سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز کا خط میرے باپ کے پاس آیا جب وہ منیٰ میں تھے کہ شہد اور گھوڑے کی زکوٰۃ کچھ نہ لے۔
غلام لونڈی اور گھوڑوں اور شہد کی زکوة کا بیان
عبداللہ بن دینار سے روایت ہے کہ پوچھا میں نے سعید بن مسیب سے کہ ترکی گھوڑوں میں زکوٰۃ کیا ہے انہوں نے جواب دیا کیا گھوڑوں میں بھی زکوٰۃ ہے۔
یہود ونصاری اور مجوس کے جزیہ کا بیان
ابن شہاب سے روایت ہے کہ پہنچا مجھ کو کہ رسول اللہ ﷺ نے جزیہ لیا بحرین کے مجوس سے اور عمر بن خطاب نے جزیہ لیا فارس کے مجوس سے اور عثمان بن عفان نے جزیہ لیا بربر سے۔
یہود ونصاری اور مجوس کے جزیہ کا بیان
امام محمد بن باقر سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے ذکر کیا مجوس کا اور کہا کہ میں نہیں جانتا کیا کروں ان کے بارے میں تو کہا عبدالرحمن بن عوف نے گواہی دیتا ہوں میں کہ سنا میں نے رسول اللہ ﷺ سے فرماتے تھے آپ ﷺ ان سے وہ طریقہ برتو جو اہل کتاب سے برتتے ہو۔
یہود ونصاری اور مجوس کے جزیہ کا بیان
اسلم جو مولیٰ ہیں عمر بن خطاب کے سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب نے مقرر کیا جزیہ کو سونے والوں پر ہر سال میں چار دینار اور چاندی والوں پر ہر سال میں چالیس درہم اور ساتھ اس کے یہ بھی تھا کہ بھوکے مسلمانوں کو کھانا کھلائیں اور جو کوئی مسلمان ان کے یہاں آکر اترے تو اس کی تین روز کی ضیافت کریں۔
یہود ونصاری اور مجوس کے جزیہ کا بیان
اسلم بن عدوی سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا حضرت عمر بن خطاب سے کہ شتر خانے میں ایک اندھی اونٹنی ہے تو فرمایا حضرت عمر نے وہ اونٹنی کسی گھروالوں کو دے دے تاکہ وہ اس سے نفع اٹھائیں میں نے کہا وہ اندھی ہے حضرت عمر نے کہا اس کو اونٹوں کی قطار میں باندھ دیں گے میں نے کہا وہ چارہ کیسے کھائے گی حضرت عمر نے کہا وہ جزیے کے جانوروں میں سے ہے یا صدقہ کے میں نے کہا وہ جزیے کے حضرت عمر نے کہا واللہ تم لوگوں نے اس کے کھانے کا ارادہ کیا ہے میں نے کہا نہیں اس پر نشانی جزیہ کی موجود ہے تو حکم کیا حضرت عمر نے اور وہ نحر کی گئی اور حضرت عمر کے پاس نو پیالے تھے جو میوہ یا اچھی چیز آتی آپ ان میں رکھ کر آپ ﷺ کی بیبیوں کو بھیجا کرتے اور سب سے آخر میں اپنی بیٹی حفصہ کے پاس بھیجتے اگر وہ چیز کم ہوتی تو کمی حفصہ کے حصے میں ہوتی تو پہلے آپ نے گوشت کو پیالوں میں ڈال کر آپ ﷺ کی بیبیوں کو روانہ کیا بعد اس کے پکانے کا حکم کیا اور سب مہاجرین اور انصار کی دعوت کردی۔ امام مالک کو پہنچا کہ عمر بن عبدالعزیز نے لکھ بھیجا اپنے عاملوں کو جو لوگ جزیہ والوں میں سے مسلمان ہوں ان کا جزیہ معاف کریں۔
ذمیوں کے دسویں حصہ کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نبط کے کافروں سے گیہوں اور تیل کا بیسواں حصہ لیتے تھے تاکہ مدینہ میں اس کی آمدنی زیادہ ہو اور قطنیہ سے دسواں حصہ لیتے تھے۔
ذمیوں کے دسویں حصہ کا بیان
سائب بن یزید سے روایت ہے کہ میں عامل تھا عبداللہ بن عتبہ کے ساتھ مدینہ منورہ کے بازار میں تو ہم لیتے تھے نبط کے کفار سے دسواں حصہ۔
ذمیوں کے دسویں حصہ کا بیان
امام مالک نے پوچھا ابن شہاب سے کہ حضرت عمر کفار نبط سے دسواں حصہ کیسے لیتے تھے تو ابن شہاب نے کہا کہ ایام جاہلیت میں ان لوگوں سے دسواں حصہ لیا جاتا تھا حضرت عمر نے وہی قائم رکھا ان پر۔
زکوة دیکر پھر اس کو خرید کرنے یا پھیرنے کا بیان
اسلم بن عددی سے روایت ہے کہ سنا میں نے عمر بن خطاب سے کہتے تھے میں نے ایک شخص کو عمدہ گھوڑا دے دیا اللہ کی راہ میں مگر اس شخص نے اس کو تباہ کیا تو میں نے قصد کیا کہ پھر اس سے خرید لوں اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ سستا بیچ ڈالے گا سو پوچھا میں نے رسول اللہ ﷺ سے آپ ﷺ نے فرمایا مت خرید اس کو اگرچہ وہ ایک درہم کا تجھے دے دے اس لئے کہ صدقہ دے کر پھر اس کو لینے والا ایسا ہے جیسے کتا قے کر کے پھر اس کو کھالے۔
زکوة دیکر پھر اس کو خرید کرنے یا پھیرنے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب نے ایک گھوڑا دیا اللہ کی راہ میں پھر قصد کیا اس کے خرید نے کا تو پوچھا رسول اللہ ﷺ سے آپ ﷺ نے فرمایا مت خرید اس کو اور نہ پھیر صدقہ کو۔
جن لوگوں پر صدقہ فطر واجب ہے ان کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر صدقہ فطر نکالتے اپنے غلاموں کی طرف سے جو وادی قری اور خیبر میں تھے۔ کہا مالک نے جو بہتر سنا ہے اس باب میں وہ یہ ہے کہ آدمی اس شخص کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرے جس کا نان ونفقہ اس پر واجب ہے اور اس پر خرچ کرنا ضروری ہے اور اپنے غلام اور مکاتب اور مدبر اور سب کی طرف سے صدقہ ادا کرے خواہ یہ غلام حاضر ہوں یا غائب شرط یہ ہے کہ وہ مسلمان ہوں تجارت کے واسطے ہوں یا نہ ہوں اور جو ان میں مسلمان نہ ہو اس کی طرف سے صدقہ فطر نہ دے۔
صدقہ فطر کی مقدار کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر مقرر کیا لوگوں پر ایک صاع کھجور کا اور ایک صاع جَو کا ہر آزاد اور ہر غلام پر مرد ہو یا عورت مسلمانوں میں سے۔
صدقہ فطر کی مقدار کا بیان
عیاض بن عبداللہ نے سنا ابوسعید خدری (رض) سے ہم نکالتے تھے صدقہ فطر ایک صاع گیہوں سے یا ایک صاع جَو سے یا ایک صاع کھجور سے یا ایک صاع پنیر سے یا ایک صاع انگور خشک سے نبی ﷺ کے صاع سے۔
صدقہ فطر کی مقدار کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر صدقہ فطر میں ہمیشہ کھجور دیا کرتے تھے مگر ایک بار جو دئیے۔
صدقہ فطر بھیجنے کا وقت
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر صدقہ فطر بھیج دیا کرتے تھے عید سے دو تین روز پہلے اس شخص کے پاس جہاں صدقہ فطر جمع ہوا کرتا تھا۔ کہا مالک نے میں نے دیکھا اہل علم کو وہ مستحب جانتے تھے صدقہ فطر کو نکالنا جب فجر ہو عید کی قبل نماز کے۔