21. کتاب الحج
احرام کے لئے غسل کرنے کا بیان
اسما بنت عمیس سے روایت ہے کہ انہوں نے جنا محمد بن ابی بکر کو مقام بیدا میں تو ذکر کیا ابوبکر نے رسول اللہ ﷺ سے آپ ﷺ نے فرمایا کہ غسل کر کے احرام باندھ لے۔
احرام کے لئے غسل کرنے کا بیان
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ اسماء بنت عمیس نے جنا محمد بن ابی بکر کو ذوالحلیفہ میں تو حکم کیا ان کو ابوبکر نے غسل کر کے احرام باندھنے کا۔
احرام کے لئے غسل کرنے کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر غسل کرتے تھے احرام کے واسطے احرام باندھنے سے پہلے اور غسل کرتے تھے مکہ میں داخل ہونے کے واسطے اور غسل کرتے تھے نویں تاریخ کو عرفات میں ٹھہرنے کے واسطے۔
محرم کے غسل کرنے کا بیان
عبداللہ بن حنین سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس اور مسور بن مخرمہ نے اختلاف کیا ابوا میں تو کہا عبداللہ بن عباس نے محرم اپنا سر دھو سکتا ہے مسور بن مخرمہ نے کہا نہیں دھو سکتا ہے کہ عبداللہ بن حنین کو بھیجا عبداللہ بن عباس نے ابوایوب انصاری کے پاس تو پایا میں نے ان کو غسل کرتے ہوئے دو لکڑیوں کے بیچ میں جو کنوئیں پر لگی ہوتی ہیں اور وہ پردہ کئے ہوئے تھے ایک کپڑے کو تو سلام کیا میں نے ان کو، پوچھا انہوں نے کون ہے یہ میں نے کہا عبداللہ بن حنین ہوں مجھ کو بھیجا ہے عبداللہ بن عباس نے تاکہ تم سے پوچھوں کس طرح غسل کرتے تھے رسول اللہ ﷺ جب وہ محرم ہوتے تھے تو ابوایوب نے اپنا ہاتھ کپڑے پر رکھ کر سر سے کپڑا ہٹایا یہاں تک کہ ان کا سر مجھ کو دکھائی دینے لگا پھر کہا انہوں نے ایک آدمی سے جو پانی ڈالتا تھا ان پر کہ پانی ڈال تو پانی ڈالا اس نے ان کے سر پر اور انہوں نے اپنا سر دونوں ہاتھوں سے ملا کر آگے لائے پھر پیچھے لے گئے اور کہا کہ ایسا ہی دیکھا تھا میں نے رسول اللہ ﷺ کو کرتے ہوئے۔
محرم کے غسل کرنے کا بیان
عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب نے کہا یعلی بن منبہ کے اور وہ پانی ڈالا کرتے جب حضرت عمر غسل کرتے تھے کہ پانی ڈال میرے سر پر یعلی نے کہا تم چاہتے ہو کہ گناہ مجھ پر ہو اگر تم حکم کرو تو میں ڈالوں حضرت عمر نے کہا ڈال کیونکہ پانی ڈالنے سے اور کچھ نہ ہوگا مگر بال اور زیادہ پریشان ہوں گے۔
محرم کے غسل کرنے کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر جب نزدیک ہوتے مکہ کے ٹھہر جاتے ذی طوی میں دو گھاٹیوں کے بیچ میں یہاں تک کہ صبح ہوجاتی تو نماز پڑھتے صبح کی پھر داخل ہوتے مکہ میں اس گھاٹی کی طرف سے جو مکہ کے اوپر کی جانب میں ہے اور جب حج یا عمرہ کے ارادے سے آتے تو مکہ میں داخل نہ ہوتے جب تک غسل نہ کرلیتے ذی طوی میں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہوتے ان کو بھی غسل کا حکم کرتے قبل مکہ میں داخل ہونے کے۔
محرم کے غسل کرنے کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نہیں دھوتے تھے اپنے سر کو احرام کی حالت میں مگر جب احتلام ہوتا۔
جن کپڑوں کا احرام میں پہننا ممنوع ہے ان کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے پوچھا رسول اللہ ﷺ سے محرم کون سے کپڑے پہنے تو فرمایا آپ ﷺ نے نہ پہنو قمیص اور نہ باندھو عمامہ اور نہ پہنو پائجامہ اور نہ ٹوپی اور نہ موزہ مگر جس کو چپل نہ ملے تو وہ اپنے موزوں کو پہن لے اور ان کو کاٹ ڈالے اس طرح کہ ٹخنے کھلے رہیں اور نہ پہنو ان کپڑوں کو جن میں زعفران لگی ہو اور ورس۔
احرام میں رنگین کپڑے پہننے کا بیان
عبداللہ بن دینار سے روایت ہے کہ منع کیا رسول اللہ ﷺ نے اس بات سے کہ محرم رنگا ہوا کپڑا زعفران میں ورس میں پہنے اور فرمایا آپ ﷺ نے جس کو نعلین نہ ملیں وہ موزے پہن لے مگر اس کو ٹخنوں سے نیچا کر کے کاٹ لے۔
احرام میں رنگین کپڑے پہننے کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا اسلم سے جو مولیٰ تھے عمر بن خطاب کے حدیث بیان کرتے تھے عبداللہ بن عمر سے کہ عمر بن خطاب نے دیکھا طلحہ بن عبیداللہ کو رنگین کپڑے پہنے ہوئے احرام میں تو پوچھا حضرت عمر نے کیا یہ کپڑا رنگا ہوا ہے طلحہ، طلحہ نے کہا اے امیر المومنین یہ مٹی کا رنگ ہے حضرت عمر نے کہا تم لوگ پیشوا ہو لوگ تمہاری پیروی کرتے ہیں اگر کوئی جاہل جو اس رنگ سے واقف نہ ہو اس کپڑے کو دیکھے تو یہی کہے گا کہ طلحہ بن عبیداللہ رنگین کپڑے پہنتے تھے احرام میں، تو نہ پہنو تم لوگ ان رنگین کپڑوں میں سے کچھ۔
احرام میں رنگین کپڑے پہننے کا بیان
اسما بنت ابوبکر خوب گہرے کسم کے رنگے ہوئے کپڑے پہنتی تھیں احرام میں لیکن زعفران اس میں نہ ہوتی تھیں۔
محرم کو پیٹی باندھنے کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر مکروہ جانتے تھے پیٹی کا باندھنا واسطے محرم کے۔
محرم کو پیٹی باندھنے کا بیان
یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ سعد بن مسیب کہتے تھے کہ اگر محرم اپنے کپڑوں کے نیچے پیٹی باندھے تو کچھ قباحت نہیں ہے جب اس کے دونوں کناروں میں تسمے ہوں وہ ایک دوسرے سے باندھ دیئے جاتے ہوں۔
محرم کو اپنا منہ ڈھانپنا کیسا ہے
فرافصہ بن عمیر حنفی سے روایت ہے کہ انہوں نے دیکھا عثمان بن عفان کو عرج (ایک گاؤں کا نام ہے مدینہ سے تین منزل پر) میں ڈھانپتے تھے منہ اپنا احرام میں
محرم کو اپنا منہ ڈھانپنا کیسا ہے
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے ٹھوڑی کے اوپر ( والا حصہ) سر میں داخل ہے محرم اس کو نہ چھپائے۔
محرم کو اپنا منہ ڈھانپنا کیسا ہے
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے کفن دیا اپنے بیٹے واقد بن عبداللہ کو اور وہ مرگئے تھے جحفہ میں احرام کی حالت میں اور کہا کہ اگر ہم احرام نہ باندھے ہوتے تو ہم اس کو خوشبو لگاتے، پھر ڈھانپ دیا سر اور منہ ان کا۔
محرم کو اپنا منہ ڈھانپنا کیسا ہے
عبداللہ بن عمر کہتے تھے جو عورت احرام باندھے ہو وہ نقاب نہ ڈالے منہ پر اور دستانے نہ پہنے۔
محرم کو اپنا منہ ڈھانپنا کیسا ہے
فاطمہ بنت منذر سے روایت ہے کہ ہم اپنے منہ ڈھانپتی تھیں احرام میں اور ہم ساتھ ہوتے اسما بنت ابی ابکر صدیق کے سو انہوں نے منع نہ کیا ہم کو۔
حج میں خوشبو لگانے کا بیان
حضرت ام المومنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ میں خوشبو لگاتی تھی رسول اللہ ﷺ کے احرام کو احرام باندھنے سے پہلے اور احرام کھولنے کے وقت طواف زیارت سے پہلے۔
حج میں خوشبو لگانے کا بیان
عطا بن ابی رباح سے روایت ہے کہ ایک اعرابی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور آپ ﷺ حنین میں تھے اور وہ اعرابی ایک کرتہ پہنے ہوئے تھا جس میں زرد رنگ کا نشان تھا تو کہا اس نے یا رسول اللہ ﷺ میں نے نیت کی ہے عمرہ کی پس میں کیا کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اپنا کرتہ اتار اور زردی دھو ڈال اپنے بدن سے اور جو حج میں کرتا ہے وہی عمرہ میں کر۔
حج میں خوشبو لگانے کا بیان
اسلم جو مولیٰ ہیں عمر بن خطاب کے ان سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب کو خوشبو آئی اور وہ شجرہ میں تھے سو کہا کہ یہ خوشبو کس شخص سے آتی ہے معاویہ بن ابی سفیان بولے مجھ سے اے امیر المومنین، حضرت عمر نے کہا ہاں تمہیں قسم ہے خداوند کریم کے بقا کی، معاویہ بولے کہ حبیبہ نے خوشبو لگا دی میرے اے امیر المومنین۔ حضرت عمر نے کہا میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ تم دھو ڈالو اس کو جا کر۔
حج میں خوشبو لگانے کا بیان
صلت بن زبید سے روایت ہے کہ انہوں نے کئی اپنے عزیزوں سے سنا کہ حضرت عمر بن خطاب کو خوشبو آئی اور وہ شجرہ میں تھے اور آپ کے پہلو میں کثیر بن صلت تھے تو کہا عمر نے کس میں سے یہ خوشبو آتی ہے کثیر نے کہا مجھ میں سے میں نے اپنے بال جمائے تھے کیونکہ میرا ارادہ سر منڈانے کا نہ تھا بعد احرام کھولنے کے، حضرت عمر نے کہا شربہ (وہ گڑھا جو کھجور کے درخت کے پاس ہوتا ہے جس میں پانی بھرا رہتا ہے) کے پاس جا اور سر کو مل کر دھو ڈال تب ایسا کیا کثیر بن صلت نے۔
حج میں خوشبو لگانے کا بیان
یحییٰ بن سعید اور عبداللہ بن ابی بکر اور ربیعہ بن ابی عبدالرحمن (رض) روایت ہے کہ ولید بن عبدالملک نے پوچھا سالم بن عبداللہ اور خارجہ بن زید سے کہ بعد کنکریاں مارنے کے اور سر منڈانے کے قبل طواف الافاضہ کے خوشبو لانگا کیسا ہے تو منع کیا سالم نے اور جائز رکھا خارجہ بن زید بن ثابت نے۔
احرام باندھنے کے میقاتوں کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ احرام باندھیں اہل مدینہ ذوالحلیفہ سے اور اہل شام جحفہ سے اور اہل نجد قرن سے کہا عبداللہ بن عمر نے پہنچا مجھ کو کہ فرمایا آپ ﷺ نے احرام باندھیں اہل یمن یلملم سے۔
احرام باندھنے کے میقاتوں کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ حکم کیا رسول اللہ ﷺ نے اہل مدینہ کو ذوالحلیفہ سے احرام باندھنے کا اور اہل شام کو جحفہ سے اور اہل نجد کو قرن سے عبداللہ بن عمر نے کہا ان تینوں کو تو سنا میں نے رسول اللہ ﷺ سے اور مجھے خبر پہنچی کہ آپ ﷺ نے فرمایا احرام باندھیں اہل یمن یلملم سے۔
احرام باندھنے کے میقاتوں کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے احرام باندھا فرع سے۔ مالک نے ایک معتبر شخص سے سنا کہ عبداللہ بن عمر نے احرام باندھا بیت المقدس سے۔ امام مالک کو پہنچا کہ رسول اللہ ﷺ نے احرام باندھا عمرہ کا جعرانہ سے۔
لبیک کہنے کا بیان اور احرام کی ترکیب کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی لبیک یہ تھی لبیک اللہم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنمعہ لک والملک لا شریک لک اور عبداللہ بن عمر اس میں زیادہ کرتے لیبک لبیک لبیک وسعدیک والخیر بیدیک لبیک الرغباء الیک والعمل۔
لبیک کہنے کا بیان اور احرام کی ترکیب کا بیان
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ پڑھتے تھے ذوالحلیفہ میں مسجد میں دو رکعتیں پھر جب اونٹ پر سوار ہوجاتے لبیک پکار کر کہتے۔
لبیک کہنے کا بیان اور احرام کی ترکیب کا بیان
سالم بن عبداللہ نے سنا اپنے باپ عبداللہ بن عمر سے کہتے تھے کہ یہ میدان ہے جس میں تم جھوٹ باندھتے ہو رسول اللہ ﷺ پر کہ آپ ﷺ نے احرام باندھا وہاں سے حالانکہ نہیں لبیک کہی آپ ﷺ نے مگر ذوالحلیفہ کی مسجد کے پاس سے۔
لبیک کہنے کا بیان اور احرام کی ترکیب کا بیان
عبیداللہ بن جریج سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن عمر سے پوچھا اے ابوعبدالرحمن میں نے تم کو چار باتیں ایسی کرتے ہوئے دیکھیں جو تمہارے ساتھیوں میں سے کسی کو نہیں کرتے دیکھا، عبداللہ بن عمر نے کہا کون سے باتیں بتاؤ اے ابن جریج، انہوں نے کہا میں نے دیکھا تم کو نہیں چھوتے ہو تم طواف میں مگر رکن یمانی اور حجر اسود کو اور میں نے دیکھا تم کو کہ پہنتے ہو تم جوتیاں ایسے چمڑے کی جس میں بال نہیں رہتے اور میں نے دیکھا خضاب کرتے ہو تم زرد اور میں نے دیکھا تم کو جب تم مکہ میں ہوتے ہو تو لوگ چاند دیکھتے ہی احرام باندھ لینے ہیں اور تم نہیں باندھتے مگر آٹھویں تاریخ کو، عبداللہ بن عمر نے جواب دیا ارکان کا حال یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کسی رکن کو چھوتے نہیں دیکھا سوائے حجر اسود اور رکن یمانی کے اور جوتیوں کا حال یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسے چمڑے کی جوتیاں پہنتے دیکھا جس میں بال نہیں رہتے آپ ﷺ وضو کر کے بھی ان کو پہن لیتے تو میں بھی ان کو پہننا پسند کرتا ہوں اور زرد رنگ کا حال یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو زرد خضاب کئے ہوئے دیکھا تو میں بھی اس کو پسند کرتا ہوں اور احرام کا حال یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ لبیک نہیں پکارتے تھے یہاں تک کہ اونٹ آپ ﷺ کا سیدھا کھڑا ہوجاتا چلنے کے واسطے۔
لبیک کہنے کا بیان اور احرام کی ترکیب کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نماز پڑھتے ذوالحلیفہ کی مسجد میں پھر نکل کر سوار ہوتے اس وقت احرام باندھتے۔ امام مالک کو پہنچا کہ عبدالملک بن مروان نے لبیک پکارا ذوالحلیفہ کی مسجد سے جب اونٹ ان کا سیدھا ہوا چلنے کو اور ابان بن عثمان نے یہ حکم کیا تھا ان کو۔
لبیک بلند آواز سے کہنے کا بیان
سائب بن خلاد انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آئے میرے پاس جبرائیل اور کہا کہ حکم کروں میں اپنے اصحاب کو بلند آواز سے لبیک پکارنے کا۔ کہا مالک نے میں نے سنا اہل علم سے کہتے تھے یہ حکم عورتوں کو نہیں ہے بلکہ عورتیں آہستہ سے لبیک کہیں اس طرح کہ آپ ہی سنیں۔
حج افراد کا بیان
حضرت ام المومنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ ہم نکلے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حجہ الوداع کے سال تو ہم میں سے بعض لوگوں نے احرام باندھا عمرہ کا اور بعضوں نے حج اور عمرہ دونوں کا اور بعضوں نے صرف حج کا اور رسول اللہ ﷺ نے صرف حج کا احرام باندھا سو جس نے عمرہ کا احرام باندھا تھا اس نے عمرہ کر کے احرام کھول ڈالا اور جس نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا یا صرف حج کا اس نے احرام نہ کھولا دسویں تاریخ تک۔
حج افراد کا بیان
حضرت ام المومنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حج افراد کیا۔
حج افراد کا بیان
حضرت ام المومنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے افراد کیا حج کا۔
قران کا بیان
امام محمد باقر سے روایت ہے کہ مقداد بن الاسود آئے حضرت علی کے پاس اور وہ پلا رہے تھے اپنے اونٹ کے بچوں کو گھلا ہو آٹا اور چارہ پانی میں، تو کہا مقداد نے یہاں عثمان بن عفان منع کرتے ہیں قران سے درمیان حج اور عمرہ کے پس نکلے علی اور ان کے ہاتھوں میں آٹے کے نشان تھے سو میں اب تک اس آٹے کے نشانوں کو جو ان کے ہاتھ پر تھے نہیں بھولا اور گئے حضرت عثماں بن عفان کے پاس اور کہا کیا تم منع کرتے ہو قران سے درمیان حج اور عمرہ کے انہوں نے کہا ہاں میرے رائے یہی ہے تو حضرت علی غصے سے باہر نکلے کہتے تھے لبیک اللہم البیک بحجہ وعمرۃ۔
قران کا بیان
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نکلے حجہالوادع کے سال حج کرنے کے لئے تو ان کے بعض اصحاب نے احرام باندھا حج کا اور بعض نے حج اور عمرہ دونوں کا اور بعض نے صرف عمرہ کا سو جس شخص نے حج کا احرام باندھا تھا یا حج اور عمرہ دونوں کا اس نے احرام نہ کھولا اور جس نے صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا اس نے عمرہ کر کے احرام کھول ڈالا۔
لبیک موقوف کرنے کا وقت
محمد بن ابی بکر نے پوچھا انس بن مالک (رض) جب وہ دونوں صبح کو جا رہے تھے منیٰ سے عرفہ کو، تم کیا کرتے تھے آج کے روز رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بولے بعض لوگ ہم میں سے آج کے روز لبیک کہتے تھے پکار کر تو کوئی منع نہ کرتا بعض لوگ تکبیر کہتے تو کوئی منع نہ کرتا۔
لبیک موقوف کرنے کا وقت
محمد باقر سے روایت ہے کہ حضرت علی لبیک کہتے تھے حج میں مگر جب زوال ہوتا آفتاب کا عرفہ کے روز تو موقوف کرتے لبیک کو۔
لبیک موقوف کرنے کا وقت
ام المومنین عائشہ موقوف کرتی تھیں لبیک جب جاتی تھیں عرفات کو۔
لبیک موقوف کرنے کا وقت
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر موقوف کرتے تھے لبیک کہنے کو حج میں حرم میں طواف کرنے بیت اللہ کا اور سعی کرنے تک پھر لبیک کہنے لگتے یہاں تک کہ صبح کو منیٰ سے چلتے عرفہ کو سو جب عرفات کو چلتے لبیک موقوف کرتے اور عمرہ میں موقوف کرتے لبیک کو جب داخل ہوتے حرم میں۔
لبیک موقوف کرنے کا وقت
ابن شہاب کہتے تھے کہ عبداللہ بن عمر طواف میں لبیک نہ کہتے تھے۔
لبیک موقوف کرنے کا وقت
حضرت ام المومنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ وہ جب عرفات میں آتیں تو نمرہ میں اترتیں پھر اراک میں اترنے لگیں اور عائشہ اپنے مکان میں جب تک ہوتیں تو بھی، ان کے ساتھی لبیک کہا کرتے جب سوار ہوتیں تو لبیک کہنا موقوف کریں اور عائشہ بعد حج کے عمرہ ادا کرتیں مکہ سے احرام باندھ کر ذلحجہ میں پھر یہ چھوڑ دیا اور محرم کے چاند سے پہلے جحفہ میں آکر ٹھہرتیں جب چاند ہوتا تو عمرہ کا احرام باندھتیں۔
لبیک موقوف کرنے کا وقت
یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز صبح کو چلے نویں تاریخ کو منیٰ سے عرفہ کو تو بلند آواز سے تکبیر سنی، انہوں نے اپنے آدمیوں کو بھیج کر کہلوایا کہ اے لوگو یہ وقت لبیک کہنے کا ہے۔
اہل مکہ کے احرام کا اور جو لوگ مکہ میں ہوں اور ملک والے ان کے بھی احرام کا بیان
قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے کہا اے مکہ والو لوگ تو بال بکھرے ہوئے پریشان یہاں تک آتے ہیں اور تم تیل لگائے ہوتے ہو جب چاند دیکھو ذی الحجہ کا تو تم بھی احرام باندھ لیا کرو۔
اہل مکہ کے احرام کا اور جو لوگ مکہ میں ہوں اور ملک والے ان کے بھی احرام کا بیان
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ عبداللہ بن زبیر نو برس مکے میں رہے جب چاند دیکھتے ذی الحجہ کا تو احرام باندھ لیتے اور عروہ بن زبیر بھی ایسا ہی کرتے۔
ہدی کے جانور کے گلے میں کچھ لٹکانے سے آدمی محرم نہیں ہوجاتا۔
عمرہ بنت عبدالرحمن (رض) روایت ہے کہ زیاد بن ابی سفیان نے لکھا ام المومنین عائشہ کو کہ عبداللہ بن عباس کہتے ہیں جو شخص ہدی روانہ کرے تو اس پر حرام ہوگئیں وہ چیزیں جو حرام ہیں محرم پر یہاں تک کہ ذبح کی جائے ہدی سو میں نے ایک ہدی تمہارے پاس روانہ کی ہے تم مجھے لکھ بھیجو اپنا فتوی یا جو شخص ہدی لے کر آتا ہے اس کے ہاتھ کہلا بھیجو، عمرہ نے کہا عائشہ بولیں ابن عباس جو کہتے ہیں ویسا نہیں ہے میں نے خود اپنے ہاتھ سے رسول اللہ ﷺ کی ہدی کے ہار بٹے تھے اور رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے لٹکائی اور اس کو روانہ کیا میرے باپ کے ساتھ سو آپ پر کوئی چیز حرام نہ ہوئی ان چیزوں میں سے جن کو حلال کیا تھا اللہ نے ان کے لئے یہاں تک کہ ذبح ہوگئی ہدی۔
ہدی کے جانور کے گلے میں کچھ لٹکانے سے آدمی محرم نہیں ہوجاتا۔
یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ انہوں نے پوچھا عمرہ بنت عبدالرحمن (رض) کہ جو شخص ہدی روانہ کرے مگر خود نہ جائے کیا اس پر کچھ لازم ہوتا ہے وہ بولیں میں نے سنا عائشہ سے کہتی تھیں محرم نہیں ہوتا مگر جو شخص احرام باندھے اور لبیک کہے۔
ہدی کے جانور کے گلے میں کچھ لٹکانے سے آدمی محرم نہیں ہوجاتا۔
ربیعہ بن عبداللہ نے دیکھا ایک شخص کو عراق میں کپڑے اتارے ہوئے تو پوچھا لوگوں سے اس کا سبب لوگوں نے کہا اس نے حکم کیا ہے اپنی ہدی کی تقلید کا سو اس لئے سلے ہوئے کپڑے اتار ڈالے ربیعہ نے کہا میں نے ملاقات کی عبداللہ بن زبیر سے اور یہ قصہ بیان کیا انہوں نے کہا قسم کعبہ کے رب کی یہ امر بدعت ہے۔
جس عورت کو حج میں حیض آجائے اس کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے جو عورت احرام باندھے ہو حج یا عمرہ کا پھر اس کو حیض آنا شروع ہوجائے تو وہ لبیک کہا کرے جب اس کا جی چاہے اور طواف نہ کرے اور سعی نہ کرے صفا مروہ کے درمیان باقی سب ارکان ادا کرے لوگوں کے ساتھ فقط طواف اور سعی نہ کرے اور مسجد میں نہ جائے جب تک کہ پاک نہ ہو۔
حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کا بیان
امام مالک کو پہنچا کہ رسول اللہ ﷺ نے تین عمرے ادا کئے ایک حدیبیہ کے سال اور ایک عمرہ قضا کے سال اور ایک عمرہ جعرانہ کے سال۔
حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کا بیان
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نہیں عمرہ کیا مگر تین بار ایک شوال اور دو ذیقعدہ میں۔
حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کا بیان
عبدالرحمن بن حرملہ اسلمی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے پوچھا سعید بن مسیب سے کہ میں عمرہ کروں قبل حج کے انہوں نے کہا ہاں رسول اللہ ﷺ نے عمرہ کیا قبل حج کے۔
حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کا بیان
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ عمر بن ابی سلمہ نے اجازت مانگی حضرت عمر سے عمرہ کرنے کی شوال میں تو اجازت دی آپ ﷺ نے تو وہ عمرہ کر کے لوٹ آئے اپنے گھر کو اور حج نہ کیا۔
عمرہ میں لبیک کب موقوف کرے
عروہ بن زبیر لبیک موقوف کرتے تھے عمرہ میں جب داخل ہوجاتے حرم میں
تمتع کا بیان
محمد بن عبداللہ بن حارث سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا سعد بن ابی وق اس اور ضحاک بن قیس سے جس سال معاویہ بن ابی سفیان نے حج کیا اور وہ دونوں ذکر کر رہے تھے تمتع کا تو ضحاک بن قیس نے کہا کہ تمتع وہی کرے گا جو اللہ کے احکام سے ناواقف ہو سعد نے کہا بری بات کہی تم نے اے بھتیجے میرے۔ ضحاک نے کہا کہ عمر بن خطاب نے منع کیا تمتع سے سعد نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کو کیا اور ہم نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ کیا۔
تمتع کا بیان
عبداللہ بن عمر کہتے تھے قسم اللہ کی مجھ کو قبل حج کے عمرہ کرنا اور ہدی لے جانابہتر معلوم ہوتا ہے اس بات سے کہ عمرہ کروں بعد حج کے ذی الحجہ میں۔
تمتع کا بیان
عبداللہ بن عمر کہتے تھے جس شخص نے عمرہ کیا حج کے مہینوں میں شوال یا ذی قعدہ یا ذی الحجہ میں قبل حج کے پھر ٹھہرا رہا مکہ میں یہاں تک کہ پالیا اس نے حج کو اس نے تمتع کیا اگر حج کرے تو اس پر ہدی لازم ہے اگر میسر ہو اگر ہدی نہ میسر ہو تو تین روزے حج میں رکھے اور سات روزے جب حج سے لوٹے تو رکھے۔
تمتع کا بیان
یحییٰ بن سعید سے روایت ہے انہوں نے سنا سعید بن مسیب سے کہتے تھے جس نے عمرہ کیا شوال یا ذی قعدہ میں یا ذی الحجہ میں پھر مکہ میں ٹھہرا رہا یہاں تک کہ حج پایا تو وہ متمتع ہے اگر حج کرے تو اس پر ہدی لازم ہوگی اگر میسر ہے ورنہ تین روزے حج میں اور سات جب لوٹے رکھنے ہوں گے۔
عمرہ کی متفرق حدیثوں کا بیان
ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک عمرہ سے لے کر دوسرے عمرہ تک کفارہ ہے ان گناہوں کا جو ان دونوں کے بیچ میں ہوں اور حج مبرور کا کوئی بدلہ نہیں ہے سوائے جنت کے۔
عمرہ کی متفرق حدیثوں کا بیان
ابوبکر بن عبدالرحمن (رض) روایت ہے کہتے تھے ایک عورت آئی رسول اللہ ﷺ کے پاس اور کہا میں نے تیاری کی تھی حج کی پھر کوئی عارضہ مجھ کو ہوگیا تو حج ادا نہ کرسکی آپ ﷺ نے فرمایا رمضان میں عمرہ کرلے کیونکہ ایک عمرہ رمضان میں ایک حج کے برابر ہے۔
عمرہ کی متفرق حدیثوں کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عمر فرماتے تھے جدائی کرو حج اور عمرہ میں تاکہ حج بھی پورا ادا ہو اور عمرہ بھی پورا ادا ہو اور وہ اس طرح کہ حج کے مہینوں میں نہ کرے بلکہ اور دنوں میں کرے۔ امام مالک کو پہنچا ہے کہ حضرت عثمان بن عفان جب عمرہ کرتے تو کبھی اپنے اونٹ سے نہ اترتے یہاں تک کہ لوٹ آتے مدینہ کو۔
محرم کے نکاح کا بیان
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے مولیٰ ابورافع اور ایک شخص انصاری کو بھیجا ان دونوں نے نکاح کردیا ان کا میمونہ بنت حارث سے اور رسول اللہ ﷺ مدینہ میں تھے نکلنے سے پہلے۔
محرم کے نکاح کا بیان
نبیہ بن وہب سے روایت ہے کہ عمر بن عبیداللہ نے بھیجا ان کو ابان بن عثمان کے پاس اور ابان ان دنوں میں امیر تھے حاجیوں کے اور دونوں احرام باندھے ہوئے تھے کہلا بھیجا کہ میں چاہتا ہوں کہ نکاح کروں طلحہ بن عمر کا شیبہ بن جبیر کی بیٹی سے سو تم بھی آؤ، ابان نے اس پر انکار کیا اور کہا کہ سنا میں نے عثمان بن عفان سے انہوں نے کہا سنا میں نے رسول اللہ ﷺ سے فرماتے تھے آپ ﷺ نہ نکاح کرے محرم اپنا اور نہ غیر کا اور نہ پیغام بھیجے نکاح کا۔
محرم کے نکاح کا بیان
ابو غطفان بن طریف سے روایت ہے کہ ان کے باپ طریف نے نکاح کیا ایک عورت سے احرام میں تو باطل کردیا اس کو حضرت عمر نے۔
محرم کے نکاح کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے نہ نکاح کرے محرم اور نہ پیغام بھیجے اپنا اور نہ غیر کا۔ امام مالک کو پہنچا کہ سعید بن مسیب اور سالم بن عبداللہ بن سلیمان بن یسار سے سوال ہوا محرم کے نکاح کا تو ان سب نے کہا محرم نہ نکاح کرے اپنا نہ پرایا۔
محرم کو پچھنے لگانے کا بیان
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پچھنے لگائے احرام میں اپنے سر پر لحی جمل میں جو ایک مقام ہے مکہ کی راہ میں
محرم کو پچھنے لگانے کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے ہیں محرم پچھنے نہ لگائے مگر جب اس کو ضرورت پڑے۔
جس شکار کا محرم کو کھانا درست ہے اسکا بیان
ابو قتادہ انصاری سے روایت ہے کہ وہ آپ ﷺ کے ساتھ تھے مکہ کے ایک راستے میں، پیچھے رہ گیا وہ (ابوقتادہ) اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ جو احرام باندھے ہوئے تھے لیکن وہ (ابوقتادہ) احرام نہیں باندھے ہوئے تھے انہوں نے ایک گورخر کو دیکھا تو اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور ساتھیوں سے کوڑا مانگا انہوں نے انکار کیا پھر برچھا مانگا انہوں نے انکار کیا آخر انہوں نے خود برچھا لے کر حملہ کیا گورخر پر اور قتل کیا اس کو اور بعض صحابہ نے وہ گوشت کھایا اور بعض نے انکار کیا جب رسول اللہ ﷺ سے ملے تو آپ ﷺ سے بیان کیا آپ ﷺ نے فرمایا وہ ایک کھانا تھا جو کھلایا تم کو اللہ جل جلالہ نے۔
جس شکار کا محرم کو کھانا درست ہے اسکا بیان
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ زبیر بن عوام ناشتہ کرتے تھے ہرن کے بھونے ہوئے گوشت کا جس کو قدید کہتے ہیں۔
جس شکار کا محرم کو کھانا درست ہے اسکا بیان
عطاء بن یسار نے ابوقتادہ کی حدیث گورخر مارنے کی ویسی ہی روایت کی جیسے اوپر بیان ہوئی مگر اس حدیث میں اتنا زیادہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کیا اس گوشت میں کچھ تمہارے پاس باقی ہے۔
جس شکار کا محرم کو کھانا درست ہے اسکا بیان
زید بن کعب بہزی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نکلے مکہ کے قصد سے احرام باندھے ہوئے جب روحا میں پہنچے تو ایک گورخر زخمی دیکھا تو بیان کیا یہ ماجرا رسول اللہ ﷺ سے، آپ ﷺ نے فرمایا اس کو پڑا رہنے دو اس کا مالک آجائے گا اتنے میں بہزی آیا وہی اس کا مالک تھا وہ بولا یا رسول اللہ ﷺ اس گورخر کے آپ ﷺ مختار ہیں آپ ﷺ نے ابوبکر کو حکم کیا انہوں نے اس کا گوشت تقسیم کیا سب ساتھیوں کو پھر آپ ﷺ آگے بڑھے جب اثابہ میں پہنچے جو درمیان میں ہے رویثہ اور عرج کے تو دیکھا کہ ایک ہرن اپنا سر جھکائے ہوئے سائے میں کھڑا ہے اور ایک تیر اس کو لگا ہوا ہے تو کہا بہزی نے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو کہ کھڑا رہے اس کے پاس، تاکہ کوئی اس کو نہ چھیڑے یہاں تک کہ لوگ آگے بڑھ جائیں۔
جس شکار کا محرم کو کھانا درست ہے اسکا بیان
ابوہریرہ جب آئے بحرین سے تو جب پہنچے ربذہ میں تو چند سوار ملے عراق کے احرام باندھے ہوئے تو پوچھا انہوں نے ابوہریرہ (رض) شکار کے گوشت کا حال جو ربذہ والوں کے پاس تھا ابوہریرہ (رض) نے ان کو کھانے کی اجازت دی پھر کہا کہ مجھ کو شک ہوا اس حکم میں تو جب آیا میں مدینہ تو ذکر کیا میں نے عمر بن خطاب سے حضرت عمر نے پوچھا تم نے کیا حکم دیا ان کو میں نے کہا کہ میں نے حکم دیا کھانے کا حضرت عمر نے کہا اگر تم ان کو کچھ اور حکم دیتے تو میں تمہارے ساتھ ایسا کرتا یعنی ڈرانے لگے۔
جس شکار کا محرم کو کھانا درست ہے اسکا بیان
سالم بن عبداللہ نے سنا ابوہریرہ (رض) وہ کہتے تھے عبداللہ بن عمر سے کہ مجھ کو ملے کچھ لوگ احرام باندھے ہوئے ربذہ میں تو پوچھا انہوں نے شکار کے گوشت کی بابت جو حلال لوگوں کے پاس موجود ہو وہ کھاتے ہوں اس کو ابوہریرہ (رض) نے ان کو کھانے کی اجازت دی، کہا ابوہریرہ (رض) نے جب میں مدینہ میں آیا حضرت عمر کے پاس میں نے ان سے بیان کیا انہوں نے کہا تو نے کیا فتوی دیا ؟ میں نے کہا میں نے فتوی دیا کھانے کا حضرت عمر نے کہا اگر تو اور کسی بات کا فتوی دیتا تو میں تجھے سزا دیتا۔
جس شکار کا محرم کو کھانا درست ہے اسکا بیان
کعب الاحبار جب آئے شام سے تو چند سوار ان کے ساتھ تھے احرام باندھے ہوئے راستے میں انہوں نے شکار کا گوشت دیکھا تو کعب الاحبار نے ان کو کھانے کی اجازت دی جب مدینہ میں آئے تو انہوں نے حضرت عمر سے بیان کیا آپ نے کہا تمہیں کس نے فتوی دیا بولے کعب نے حضرت عمر نے فرمایا کہ میں نے کعب کو تمہارے اوپر حاکم کیا یہاں تک کہ تم لوٹو، پھر ایک روز مکہ کی راہ میں ٹڈیوں کا جھنڈ ملا کعب نے فتوی دیا کہ پکڑ کر کھائیں جب وہ لوگ حضرت عمر کے پاس آئے ان سے بیان کیا آپ نے کعب سے پوچھا کہ تم نے یہ فتوی کیسے دیا کعب نے کہا کہ ٹڈی دریا کا شکار ہے حضرت عمر بولے کیونکر، کعب بولے اے امیر المومنین قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ ٹڈی ایک مچھلی کی چھینک سے نکلتی ہے جو ہر سال میں دو بار چھینکتی ہے۔
جس شکار کا محرم کو کھانا درست نہیں ہے اس کا بیان
صعب بن جثامہ لیثی سے روایت ہے کہ انہوں نے تحفہ بھجا ایک گورخر رسول اللہ ﷺ کے پاس اور آپ ﷺ ابوا یا ودان میں تھے آپ ﷺ نے واپس کردیا صعب کہتے ہیں جب رسول اللہ ﷺ نے میرے چہرے کا حال دیکھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہم نے اس واسطے واپس کردیا کہ ہم احرام باندھے ہوئے ہیں۔
جس شکار کا محرم کو کھانا درست نہیں ہے اس کا بیان
عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا عثمان بن عفان کو عرج میں گرمی کے روز انہوں نے ڈھانپ لیا تھا منہ اپنا سرخ کمبل سے اتنے میں شکار کا گوشت آیا تو انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کھاؤ انہوں نے کہا آپ نہیں کھاتے آپ نے فرمایا میں تمہاری مثل نہیں ہوں میرے واسطے تو شکار ہوا ہے۔
جس شکار کا محرم کو کھانا درست نہیں ہے اس کا بیان
حضرت ام المومنین عائشہ نے فرمایا عروہ بن زبیر سے کہ اے بیٹے میرے بھائی کے، یہ دس راتیں ہیں احرام کی اگر تیرے جی میں شک ہو تو بالکل چھوڑ دے شکار کا گوشت۔
حرم کے شکار کا بیان
کہا مالک نے جو جانور شکار کیا جائے حرم میں یا کتا شکاری جانور پر حرم میں چھوڑا جائے لیکن وہ حل میں جا کر اس کو مارے تو وہ شکار کھانا حلال نہیں ہے اور جس نے ایسا کیا اس پر جزا لازم ہے لیکن جو کتا حل میں شکار پر چھوڑے اور وہ اس کو حرم میں لے جا کر مارے اس کا کھانا درست نہیں مگر جزا لازم نہ ہوگی الاّ یہ کہ اس نے حرم کے قریب کتے کو چھوڑا ہو اس صورت میں جزا لازم ہوگی۔
شکار جزا کا بیان
کہا مالک نے فرمایا اللہ جل جلالہ نے اے ایمان والو مت مارو شکار جب تم احرام باندھے ہو اور جو کوئی تم میں سے قصدا شکار مارے تو اس پر جزا ہے اس کی مثل جانور کے جب حکم کردیں اس کو دو پرہیز گار شخص، خواہ جزا ہدی ہو جب کعبہ میں پہنچے یا کفارہ ہو مسکینوں کو کھلانا یا اس قدر روزے تاکہ چکھے وبال اپنے کام کا
محرم کو کون سے جانور مارنے درست ہیں
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ پانچ جانور ہیں محرم کو ان کا قتل منع نہیں ہے کوا اور چیل بچھو اور چوہا اور کاٹنے والا کتا۔
محرم کو کون سے جانور مارنے درست ہیں
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پانچ جانور ایسے ہیں کہ جو کوئی ان کو احرام کی حالت میں مار ڈالے تو کچھ گناہ نہیں ہے ایک بچھو دوسرے چوہا تیسرے کاٹنا کتا چوتھے چیل پانچواں کوا۔
محرم کو کون سے جانور مارنے درست ہیں
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پانچ جانور ناپاک ہیں قتل کئے جائیں گے حل اور حرم میں چوہا اور بچھو اور کوا اور چیل اور کاٹنا کتا۔
محرم کو کون سے جانور مارنے درست ہیں
ابن شہاب سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب نے حکم کیا سانپوں کے مارنے کا حرم میں۔
جو کام محرم کو درست ہیں ان کا بیان
ربیعہ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے دیکھا حضرت عمر بن خطاب کو جوئیں نکالتے تھے اپنے اونٹ کی اور پھینک دیتے تھے جوں کو خاک میں موضع سقیا میں اور وہ احرام باندھے ہوئے تھے مالک نے کہا میں اس کام کو مکروہ جانتا ہوں۔
جو کام محرم کو درست ہیں ان کا بیان
مرجانہ نے سنا حضرت ام المومنین عائشہ سے ان سے سوال ہوا کہ کیا محرم اپنے بدن کو کھجائے ؟ بولیں ہاں کھجائے اور زور سے کھجائے اور اگر میرے ہاتھ باندھ دیئے جائیں اور پاؤں قابو میں ہوں تو اسی سے کھجاؤں۔
جو کام محرم کو درست ہیں ان کا بیان
ایوب بن موسیٰ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے آئینہ میں دیکھا بسبب کسی مرض کے جو ان کی آنکھ میں تھا اور وہ احرام باندھے ہوئے تھے۔
جو کام محرم کو درست ہیں ان کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر مکروہ جانتے تھے اپنے اونٹ کی جوں یا لیکھ نکالنے کو۔
جو کام محرم کو درست ہیں ان کا بیان
محمد بن عبداللہ بن ابی مریم نے پوچھا سعید بن مسیب سے کہ میرا ایک ناخن ٹوٹ گیا ہے اور میں احرام باندھے ہوئے ہوں سعید نے کہا کاٹ ڈال اس کو۔
دوسرے کی طرف سے حج کرنے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ فضل بن عباس رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سوار تھے اتنے میں ایک عورت آئی خنعم سے مسئلہ پوچھنے لگی رسول اللہ ﷺ سے، تو فضل اس عورت کی طرف دیکھنے لگے اور وہ عورت فضل کی طرف دیکھنے لگی رسول اللہ ﷺ فضل کا منہ اور طرف پھیرنے لگے اس عورت نے کہا یا رسول اللہ ﷺ حج اللہ کا فرض ہوا میرے باپ پر ایسے وقت میں کہ میرا باپ بوڑھا ہے اونٹ پر بیٹھ نہیں سکتا کیا میں اس کی طرف سے حج کرلوں فرمایا آپ ﷺ نے ہاں ! اور یہ قصہ حجہ الوداع میں ہوا۔
احصار کا بیان
کہا مالک نے جس شخص کو احصار ہوا دشمن کے باعث سے اور وہ اس کی وجہ سے بیت اللہ تک نہ جاسکا تو وہ احرام کھول ڈالے اور اپنی ہدی کو نحر کرے اور سر منڈائے جہاں پر اس کو احصار ہوا ہے اور قضا اس پر نہیں ہے۔ امام مالک کو پہنچا کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے اصحاب کو جب روکا کفار نے تو احرام کھول ڈالے حدیبیہ میں اور نحر کیا ہدی کو اور سر منڈائے اور حلال ہوگئے ہر شئے سے یعنی بیت اللہ کا طواف اور اس کی طرف ہدی کو پہنچانے سے پہلے، پھر ہم نہیں جانتے کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم کیا ہو کسی کو اپنے اصحاب اور ساتھیوں میں سے دوبارہ قضا یا اعادہ کرنے کا۔
احصار کا بیان
عبداللہ بن عمر جب نکلے مکہ کی طرف عمرہ کی نیت سے جس سال فساد درپیش تھا یعنی حجاج بن یوسف لڑنے کو آیا تھا عبداللہ بن زبیر سے جو حاکم تھے مکہ کے تو کہا اگر میں روکا جاؤ بیت اللہ جانے سے تو کروں گا جیسا کیا تھا میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ، جب روکا تھا آپ ﷺ کو کفار نے تو عبداللہ بن عمر نے احرام باندھا تھا عمرہ کا اس خیال سے کہ رسول اللہ ﷺ نے بھی حدیبیہ کے سال میں احرام باندھا تھا عمرہ کا پھر عبداللہ بن عمر نے سوچا تو یہ کہا کہ عمرہ اور حج دونوں کا حکم احصار کی حالت میں یکساں ہے پھر متوجہ ہوئے اپنے ساتھیوں کی طرف اور کہا کہ حج اور عمرہ کا حال یکساں ہے میں نے تم کو گواہ کیا کہ میں نے اپنے اوپر حج بھی واجب کرلیا عمرہ کے ساتھ پھر چلے گئے عبداللہ یہاں تک کہ آئے بیت اللہ میں اور ایک طواف کیا اور اس کو کافی سمجھا اور نحر کیا ہدی کو۔
جو شخص سوائے دشمن کے اور کسی سبب سے رک جائے اس کا بیان
عبداللہ بن عمر نے کہا جو شخص بیماری کی وجہ سے رک جائے تو وہ حلال نہ ہوگا یہاں تک کہ طواف کرے خانہ کعبہ کا اور سعی کرے صفا اور مروہ کے بیچ میں اگر ضرورت ہو کسی کپڑے کے پہننے کی یا دوا کی تو اس کا استعمال کرے اور جزا دے۔
جو شخص سوائے دشمن کے اور کسی سبب سے رک جائے اس کا بیان
ام المومنین عائشہ نے فرمایا کہ محرم حلال نہیں ہوتا بغیر خانہ کعبہ پہنچے ہوئے۔
جو شخص سوائے دشمن کے اور کسی سبب سے رک جائے اس کا بیان
ایوب بن ابی تمیمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا ایک شخص سے جو بصرہ کا رہنے والا پرانا آدمی تھا اس نے کہا کہ میں چلا مکہ کو راستہ میں میرا کو لہا ٹوٹ گیا تو میں نے مکہ میں کسی کو بھیجا وہاں عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمر اور لوگ بھی تھے ان میں سے کسی نے مجھ کو اجازت نہ دی احرام کھول ڈالنے کی یہاں تک کہ میں وہیں پڑا رہا سات مہینے تک جب اچھا ہوا تو عمرہ کر کے احرام کھولا۔
جو شخص سوائے دشمن کے اور کسی سبب سے رک جائے اس کا بیان
عبداللہ بن عمر نے کہا جو شخص خانہ کعبہ نہ جاسکے بیماری کی وجہ سے تو اس کا احرام نہ کھلے گا یہاں تک کہ طواف کرے بیت اللہ اور سعی کرے صفا اور مروہ کے بیچ میں
جو شخص سوائے دشمن کے اور کسی سبب سے رک جائے اس کا بیان
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ سعید بن حزابہ مخزومی گرپڑے مکہ کو آتے ہوئے راہ میں اور وہ احرام باندھے ہوئے تھے تو جہاں پانی دیکھ کر ٹھہرے تھے وہاں پوچھا عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر اور مروان بن حکم ملے ان سے بیان کیا اس عارضے کو ان سب نے کہا جیسی ضرورت ہو ویسی دوا کرے اور فدیہ دے۔ جب اچھا ہو تو عمرہ کر کے احرام کھولے پھر آئندہ سال حج کرے اور موافق طاقت کے ہدی دے۔
کعبہ کے بنانے کا حال
روایت ہے حضرت ام المومنین عائشہ سے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ تیری قوم نے جب بنایا کعبہ کو تو حضرت ابراہیم نے جیسے بنایا تھا اس میں کمی کی، حضرت عائشہ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ آپ اس کو جیسے حضرت ابراہیم نے بنایا تھا ویسا کیوں نہیں بنا دیتے آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تیری قوم کا کفر قریب نہ ہوتا تو میں بنا دیتا۔ عبداللہ بن عمر نے کہا اسی وجہ سے شاید رسول اللہ ﷺ نے رکن شامی اور عراقی کو جو حطیم کے متصل ہیں استلام نہ کیا کیونکہ خانہ کبعہ ابراہیم کی بنا پر نہ تھا۔
کعبہ کے بنانے کا حال
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ حضرت ام المومنین عائشہ نے فرمایا مجھے کچھ فرق نہیں معلوم ہوتا اس میں کہ نماز پڑھوں کعبہ کے اندر یا حطیم میں۔
طواف میں رمل کا بیان
جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا دیکھا میں نے رسول اللہ ﷺ کو کہ رمل کی آپ ﷺ نے حجر اسود سے حجرا اسود تک تین پھیروں میں
طواف میں رمل کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر رمل کرتے تھے حجر اسود تک تین پھیروں میں اور باقی چار پھیروں میں معمولی چال سے چلتے تھے۔
طواف میں رمل کا بیان
عروہ بن زبیر جب طواف کرتے خانہ کعبہ کا تو دوڑ کر چلتے تین پھیروں میں اور آہستہ سے کہتے اے اللہ سوائے تیرے کوئی سچا معبود نہیں اور تو جلا دے گا ہم کو بعد مرنے کے۔
طواف میں رمل کا بیان
عروہ بن زبیر نے دیکھا عبدا اللہ بن زبیر کو انہوں نے احرام باندھا عمرہ کا تنیعم سے پھر دیکھا کہ وہ دوڑ کر چلتے ہیں پہلے تین پھیروں میں خانہ کعبہ کے گرد۔
طواف میں رمل کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر جب احرام باندھتے مکہ سے تو طواف نہ کرتے بیت اللہ کا اور نہ سعی کرتے صفا مروہ کے درمیان یہاں تک کہ لوٹتے منیٰ سے اور نہ رمل کرتے۔
طواف میں استلام کرنے کا بیان
امام مالک کو پہنچا کہ رسول اللہ ﷺ جب طواف سے فارغ ہو کر دوگانہ رکعت پڑھ چکتے اور پھر صفا مروہ کو نکلنے کا ارادہ کرتے تو حجر اسود کو چوم لیتے نکلنے سے پہلے۔
طواف میں استلام کرنے کا بیان
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عبدالرحمن بن عوف سے کس طرح تم نے چوما حجر اسود کو عبدالرحمن نے کہا کبھی میں نے چوما اور کبھی ترک کیا آپ ﷺ نے فرمایا ٹھیک کیا تم نے۔
طواف میں استلام کرنے کا بیان
ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ ان کے باپ عروہ بن زبیر جب طواف کرتے خانہ کعبہ کا تو سب رکنوں کا استلام کرتے خصوصا رکن یمانی کو ہرگز نہ چھوڑتے مگر جب مجبور ہوجاتے۔
حجر اسود کے استلام کے وقت اس کو چومنے کا بیان
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا جب وہ طواف کر رہے تھے خانہ کعبہ کا حجر اسود کو ! کہ تو ایک پتھر ہے نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان اور اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو تجھے چومتے نہ دیکھا ہوتا تو میں نہ چومتا تجھ کو پھر چوما حجر اسود کو۔
دوگانہ طواف کا بیان
عروہ بن زبیر دو طواف ایک ساتھ نہ کرتے تھے اسطرح پر کہ ان دونوں کے بیچ دوگانہ طواف ادا نہ کریں بلکہ ہر سات پھیروں کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے مقام ابراہیم کے پاس یا اور کسی جگہ۔
دو گانہ طواف کا ادا کرنا بعد نماز صبح یا عصر کے
عبدالرحمن بن عبدالقاری نے طواف کیا خانہ کعبہ کا حضرت عمر بن خطاب کے ساتھ بعد نماز فجر کے تو جب حضرت عمر طواف ادا کرچکے تو آفتاب نہ پایا پس سوار ہوئے یہاں تک کہ بٹھایا اونٹ ذی طوی میں وہاں دوگانہ طواف ادا کیا۔
دو گانہ طواف کا ادا کرنا بعد نماز صبح یا عصر کے
ابو زبیر مکی سے روایت ہے کہ دیکھا میں نے عبداللہ بن عباس کو طواف کرتے تھے بعد عصر کے پھرجاتے تھے اپنے حجرے میں پھر معلوم نہیں وہاں کیا کرتے تھے۔
دو گانہ طواف کا ادا کرنا بعد نماز صبح یا عصر کے
ابو زبیر مکی سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا خانہ کعبہ کو خالی ہوجاتا طواف کرنے والوں سے بعد نماز صبح اور بعد نماز عصر کے کوئی طواف نہ کرتا۔
خانہ کعبہ سے رخصت ہونے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب نے فرمایا کوئی حاجی مکہ سے نہ لوٹے یہاں تک کہ طواف کرے خانہ کعبہ کا کیونکہ آخری عبادت یہ ہے طواف کرنا خانہ کعبہ کا ہے۔
خانہ کعبہ سے رخصت ہونے کا بیان
یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے ایک شخص کو مرا الظہران سے پھیر دیا اس واسطے کہ اس نے طواف الوداع نہیں کیا تھا۔
خانہ کعبہ سے رخصت ہونے کا بیان
عروہ بن زبیر نے کہا کہ جس شخص نے طواف الافاضہ ادا کیا اس کا حج اللہ نے پورا کردیا اب اگر اس کو کوئی امر مانع نہیں تو چاہیے کہ رخصت کے وقت طواف الوداع کرے اور اگر کوئی مانع یا عارضہ درپیش ہو تو حج تو پورا ہوچکا۔
طواف کے مختلف مسائل کا بیان
حضرت ام المومنین ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ شکایت کی انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اپنی بیماری کی سو آپ ﷺ نے فرمایا مردوں کے پیچھے سوار ہو کر تو طواف کرلے ام سلمہ نے کہا کہ میں نے طواف کیا اور رسول اللہ ﷺ اس وقت خانہ کعبہ کے ایک گوشے کی طرف نماز پڑھ رہے تھے اور سورت والطور وکتاب مسطور پڑھ رہے تھے
طواف کے مختلف مسائل کا بیان
ابو ماعز اسلمی سے روایت ہے کہ وہ بیٹھے تھے عبداللہ بن عمر کے ساتھ اتنے میں ایک عورت آئی مسئلہ پوچھنے ان سے، تو کہا اس عورت نے کہ میں نے قصد کیا خانہ کعبہ کے طواف کا جب مسجد کے دروازے پر آئی تو مجھے خون آنے لگا سو میں چلی گئی جب خون موقوف ہوا تو پھر آئی جب مسجد کے دروازے پر پہنچی تو خون آنے لگا تو میں پھر چلی گئی پھر جب خون موقوف ہوا پھر آئی جب مسجد کے دروزاے پر پہنچی تو پھر خون آنے لگا عبداللہ بن عمر نے کہا یہ لات ہے شیطان کی، تو غسل کر پھر کپڑے سے شرمگاہ کو باندھ اور طواف کر۔ امام مالک کو پہنچا کہ سعد بن ابی وقاص جب مسجد میں آتے اور نویں تاریخ قریب ہوتی تو عرفات کو جاتے قبل طواف اور سعی کے پھر جب وہاں سے پلٹتے تو طواف اور سعی کرتے۔
سعی صفا سے شروع کرنے کا بیان
جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ سنا میں نے رسول اللہ ﷺ سے آپ ﷺ جب نکلتے مسجد حرام سے صفا کی طرف فرماتے تھے شروع کرتے ہیں ہم اس سے جس سے شروع کیا اللہ جل جلالہ نے تو شروع کی سعی آپ ﷺ نے صفا سے۔
سعی صفا سے شروع کرنے کا بیان
جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کھڑے ہوتے صفا پر تین بار اللہ اکبر کہتے اور فرماتے نہیں ہے کوئی معبود سچا سوائے اللہ پاک کے کوئی اس کا شریک نہیں ہے اسی کی سلطنت ہے اور اسی کی تعریف ہے وہ ہر شئے پر قادر ہے، تین بار اس کو کہتے تھے اور دعا مانگتے تھے پھر مروہ پر پہنچ کر ایسا ہی کرتے۔
سعی صفا سے شروع کرنے کا بیان
نافع نے سنا عبداللہ بن عمر سے وہ صفا پر دعا مانگتے تھے اے پروردگار ! تو نے فرمایا کہ دعا کرو میں قبول کروں گا اور تو وعدہ خلافی نہیں کرتا میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ جیسے تو نے مجھ کو اسلام کی راہ دکھائی سو مرتے دم تک اسلام سے نہ چھڑائیوں یہاں تک کہ میں مروں مسلمان رہ کر۔
سعی کی مختلف احادیث کا بیان
عروہ بن زبیر نے کہا کہ میں نے پوچھا ام المومنین عائشہ سے دیکھو اللہ جل جلالہ فرماتا ہے بیشک صفا اور مروہ اللہ کی پاک نشانیوں میں سے ہیں سو جو حج کرے خانہ کعبہ کا یا عمرہ کرے تو ان دونوں کے درمیان سعی کرنے میں اس پر کچھ گناہ نہیں ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر سعی نہ کرے تب بھی برا نہیں ہے حضرت عائشہ نے جواب دیا کہ ہرگز ایسا نہیں اگر جیسا کہ تم سمجھتے ہو ویسا ہوتا تو اللہ جل جلالہ یوں فرماتا کہ گناہ ہے اس پر سعی نہ کرنے میں صفا اور مروہ کے درمیان اور یہ آیت تو انصار کے حق میں اتری ہے وہ لوگ حج کیا کرتے تھے منات کے واسطے اور منات مقابل قدید کے تھا اور قدید ایک قریہ کا نام ہے مکہ اور مدینہ کے درمیان میں وہ لوگ صفا اور مروہ کے بیچ میں سعی کرنا برا سمجھتے تھے جب دین اسلام سے مشرف ہوئے تو انہوں نے پوچھا رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں تو اس وقت اللہ جل جلالہ نے اتاری یہ آیت کہ صفا اور مروہ دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں جو شخص حج کرے خانہ کعبہ کا اور عمرہ کرے تو سعی کرنا گنا نہیں ہے ان دونوں کے درمیان میں۔
سعی کی مختلف احادیث کا بیان
ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ سودہ بیٹی عبداللہ بن عمر کی عروہ بن زبیر کے نکاح میں تھیں ایک روز وہ نکلیں حج یا عمرہ میں پیدل سعی کرنے صفا اور مروہ کے بیچ اور وہ ایک موٹی عورت تھیں تو آئی سعی کرنے کو جب لوگ فارغ ہوئے عشاء کی نماز سے اور سعی ان کی پوری نہیں ہوئی تھی کہ اذان ہوگئی صبح کی پھر انہوں نے پوری کی سعی اپنی اس درمیان میں اور عروہ جب لوگوں کو دیکھتے تھے کہ سوار ہو کر سعی کرتے ہیں تو سختی سے منع کرتے تھے اور وہ لوگ بیماری کا حیلہ کرتے تھے عروہ سے شرم کی وجہ سے تو عروہ کہتے تھے ہم سے اپنے لوگوں کے آپس میں ان لوگوں نے نقصان پایا مراد کو نہ پہنچے۔
سعی کی مختلف احادیث کا بیان
جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ صفا اور مروہ میں جب آتے تو معمولی چال سے چلتے جب وادی کے اندر آپ کے قدم آتے تو دوڑ کر چلتے یہاں تک کہ وادی سے نکل جاتے۔
عرفہ کے دن روزہ رکھنے کا بیان
ام الفضل سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے ان کے سامنے شک کیا رسول اللہ ﷺ کے روزے میں عرفہ کے دن بعضوں نے کہا آپ ﷺ روزے سے ہیں بعضوں نے کہا نہیں تو ام الفضل نے ایک پیالہ دودھ کا آپ ﷺ کے پاس بھیجا اور آپ ﷺ اپنے اونٹ پر سوار تھے عرفات میں تو پی لیا آپ ﷺ نے اس کو۔
عرفہ کے دن روزہ رکھنے کا بیان
قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ ام المومنین عرفہ کے روز روزہ رکھتی تھیں قاسم نے کہا میں نے دیکھا کہ عرفہ کی شام کو جب امام چلا تو وہ ٹھہری رہیں یہاں تک کہ زمین صاف ہوگئی پھر ایک پیالہ پانی کا منگایا اور روزہ افطار کیا۔
منیٰ کے دنوں میں یعنی گیارھویں بارھویں تیرھویں ذی الحجہ کے روزے کے بیان میں
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع کیا منیٰ کے دنوں میں روزہ رکھنے سے۔
منیٰ کے دنوں میں یعنی گیارھویں بارھویں تیرھویں ذی الحجہ کے روزے کے بیان میں
ابن شہاب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن حذافہ کو بھیجا منیٰ کے دنوں میں کہ لوگوں میں پھر کر پکار دیں کہ یہ دن کھانے اور پینے اور اللہ کی یاد کے ہیں۔
منیٰ کے دنوں میں یعنی گیارھویں بارھویں تیرھویں ذی الحجہ کے روزے کے بیان میں
ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع کیا دو دن روزہ رکھنے سے ایک عیدالفطر اور دوسرے عیدالاضحی کے دن۔
منیٰ کے دنوں میں یعنی گیارھویں بارھویں تیرھویں ذی الحجہ کے روزے کے بیان میں
عبداللہ بن عمرو بن عاص گئے اپنے باپ عمرہ بن عاص کے پاس ان کو کھانا کھاتے ہوئے پایا تو انہوں نے بلایا عبداللہ کو عبداللہ نے کہا میں روزے سے ہوں انہوں نے کہا ان دنوں میں منع کیا رسول اللہ ﷺ نے روزے رکھنے سے اور حکم کیا ہم کو ان دنوں میں افطار کرنے کا۔
جو جانور ہدی کے لئے درست ہے اس کا بیان
عبداللہ بن ابی بکر بن حزم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہدی بھیجی ایک اونٹ کی جو ابوجہل بن ہشام کا تھا حج یا عمرہ میں
جو جانور ہدی کے لئے درست ہے اس کا بیان
ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دیکھا ایک شخص کو ہانکتا تھا اونٹ ہدی کا آپ ﷺ نے فرمایا سوار ہوجا اس پر وہ بولا کہ ہدی ہے یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ نے فرمایا سوار ہوجا خرابی ہو تیری، دوسری یا تیسری مرتبہ میں آپ ﷺ نے یہ کہا۔
جو جانور ہدی کے لئے درست ہے اس کا بیان
عبداللہ بن دینار سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر حج میں دو اونٹوں کی ہدی کیا کرتے تھے اور عمرہ میں ایک ایک اونٹ کی میں نے دیکھا ان کو کہ وہ نحر کرتے تھے اپنے اونٹ کا اور اونٹ کھڑا ہوتا تھا خالد بن اسید کے گھر میں وہیں وہ اترتے تھے اور میں نے دیکھا ان کو عمرہ میں کہ برچھا مارا انہوں نے اپنے اونٹ کی گردن میں یہاں تک کہ نکل آیا وہ اس کے بازو سے۔
جو جانور ہدی کے لئے درست ہے اس کا بیان
یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے ہدی بھیجی ایک اونٹ کی حج یا عمرہ میں۔
جو جانور ہدی کے لئے درست ہے اس کا بیان
ابو جعفر قاری سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عیاش نے دو اونٹوں کو ہدی کیا ایک اونٹ ان میں سے بختی تھا۔
جو جانور ہدی کے لئے درست ہے اس کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے جب جنے اونٹنی ہدی کی تو اس کے بچے کو بھی ساتھ لے چلیں اور اپنی ماں کے ساتھ قربانی کریں اگر اس کے چلنے کے لئے کوئی سواری نہ ہو تو اس کو اپنی ماں پر سوار کردیا جائے تاکہ اس کے ساتھ نحر کیا جائے۔
جو جانور ہدی کے لئے درست ہے اس کا بیان
ہشام بن عروہ نے کہا کہ میرے باپ عروہ کہتے تھے کہ اگر تجھ کو ضرورت پڑے تو اپنی ہدی پر سوار ہوجا مگر ایسا نہ ہو کہ اس کی کمر ٹوٹ جائے اور جب ضرورت ہو تجھ کو اس کے دودھ کی تو پی لے جبکہ بچہ اس کا سیر ہوجائے، پھر جب تو اس کو نحر کرے تو اس کے بچے کو بھی اس کے ساتھ نحر کر۔
ہدی ہانکنے کی ترکیب کا بیان
عبداللہ بن عمر جب ہدی لے جاتے مدینہ سے تو تقلید کرتے اس کی اور اشعار کرتے اس کا ذوالحلیفہ میں، مگر تقلید اشعار سے پہلے کرتے لیکن دونوں ایک ہی مقام میں کرتے اس طرح پر کہ ہدی کا منہ قبلہ کی طرف کر کے پہلے اس کے گلے میں دو جوتیاں لٹکا دیتے پھر اشعار کرتے بائیں طرف سے اور ہدی کو اپنے ساتھ لے جاتے یہاں تک کہ عرفہ کے روز عرفات میں بھی سب لوگوں کے ساتھ رہتے پھر جب لوگ لوٹتے تو ہدی بھی لوٹ کر آتی، جب منیٰ میں صبح کو یوم النحر میں پہنچتے تو اس کو نحر کرتے قبل حلق یا قصر کے اور عبداللہ بن عمر اپنی ہدی کو آپ نحر کرتے ان کو کھڑا کرتے صف باندھ کر منہ ان کا قبلہ کی طرف کرتے پھر اس کو نحر کرتے اور ان کا گوشت بھی کھاتے دوسروں کو بھی کھلاتے۔
ہدی ہانکنے کی ترکیب کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر جب اپنی ہدی کے کوہان میں زخم لگاتے اشعار کے لئے کہتے اللہ کے نام سے اللہ بڑا ہے
ہدی ہانکنے کی ترکیب کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر فرماتے تھے کہ ہدی وہ جانور ہے جس کی تقلید اور اشعار ہو اور کھڑا کیا جائے اس کو عرفات میں۔
ہدی ہانکنے کی ترکیب کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر اپنے اونٹوں کو جو ہدی کے ہوتے تھے مصری کپڑے اور چارجامی اور جوڑے اوڑھاتے تھے (قربانی کے بعد) ان کپڑوں کو بھیج دیتے تھے کعبہ شریف اوڑھانے کو۔
ہدی ہانکنے کی ترکیب کا بیان
امام مالک نے پوچھا عبداللہ بن دینار سے کہ عبداللہ بن عمر اونٹ کی جھول کا کیا کرتے تھے جب کعبہ شریف کا غلاف بن گیا تھا ؟ انہوں نے کہا صدقہ میں دے دیتے تھے
ہدی ہانکنے کی ترکیب کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے قربانی کے لئے پانچ برس یا زیادہ کا اونٹ ہونا چاہیے۔
ہدی ہانکنے کی ترکیب کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر اپنے اونٹوں کے جھول نہیں پھاڑتے تھے اور نہ جھول پہناتے تھے یہاں تک کہ عرفہ کو جاتے منیٰ سے۔
ہدی ہانکنے کی ترکیب کا بیان
عروہ بن زبیر اپنے بیٹوں سے کہتے تھے اے میرے بیٹو ! اللہ کے لئے تم میں سے کوئی ایسا اونٹ نہ دے جو آپ اپنے دوست کو دیتے ہوئے شرماتے ہو اس لئے کہ اللہ جل جلالہ سب کریموں سے کریم ہے اور زیادہ حقدار ہے اس امر کا کہ اس کے واسطے چیز چن کردی جائے۔
جب ہدی مر جائے یا چلنے سے عاجز ہوجائے یا کھو جائے اس کا بیان
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ہدی لے جانے والے نے پوچھا آپ ﷺ سے یا رسول اللہ ﷺ جو ہدی راستے میں ہلاک ہونے لگے اس کا کیا کروں آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو اونٹ ہدی کا ہلاک ہونے لگے اس کو نحر کر اور اس کے گلے میں جو قلادہ پڑا تھا وہ اس کے خون میں ڈال دے پھر اس کو چھوڑ دے کہ لوگ کھا لیں اس کو۔
جب ہدی مر جائے یا چلنے سے عاجز ہوجائے یا کھو جائے اس کا بیان
سعید بن مسیب نے کہا جو شخص ہدی کا اونٹ لے جائے پھر وہ تلف ہونے لگے اور وہ اس کو نحر کر کے چھوڑ دے کہ لوگ اس میں سے کھائیں تو اس پر کچھ الزام نہیں ہے البتہ اگر خود اس میں سے کھائے یا کسی کو کھانے کا حکم دے تو تاوان لازم ہوگا، عبداللہ بن عباس نے بھی ایسا ہی کہا ہے۔
جب ہدی مر جائے یا چلنے سے عاجز ہوجائے یا کھو جائے اس کا بیان
ابن شہاب نے کہا جو شخص اونٹ جزا کا یا نذر کا یا تمتع کا لے گیا پھر وہ راستے میں تلف ہوگیا تو اس پر اس کا عوض لازم ہے۔
جب ہدی مر جائے یا چلنے سے عاجز ہوجائے یا کھو جائے اس کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے کہا جو شخص اونٹ ہدی کا لے جائے پھر وہ راستے میں مرجائے یا گم ہوجائے تو اگر نذر کو ہو تو اس کا عوض دے اور جو نفل ہو تو چاہے عوض دے چاہے نہ دے۔
محرم جب اپنی بیوی سے صحبت کرے اس کی ہدی کا بیان
امام مالک کو پہنچا کہ حضرت عمر بن خطاب اور علی بن ابی طالب اور ابوہریرہ (رض) سوال ہوا کہ ایک شخص نے جماع کیا اپنی بی بی سے احرام میں وہ کیا کرے ان سب نے جواب دیا کہ وہ دونوں حج کے ارکان ادا کرتے جائیں یہاں تک کہ حج پورا ہوجائے پھر آئندہ سال ان پر حج اور ہدی لازم ہے۔ حضرت علی نے یہ بھی فرمایا کہ پھر آئندہ سال جب حج کریں تو دونوں جدا جدا رہیں یہاں تک کہ حج پورا ہوجائے۔
محرم جب اپنی بیوی سے صحبت کرے اس کی ہدی کا بیان
یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا سعید بن مسیب سے وہ کہتے تھے لوگوں سے تم کیا کہتے ہو اس شخص کے بارے میں جس نے جماع کیا اپنی عورت سے، احرام کی حالت میں تو لوگوں نے کچھ جواب نہ دیا تب سعید نے کہا کہ ایک شخص نے ایسا ہی کیا تھا تو اس نے مدینہ میں کسی کو بھیجا دریافت کرنے کے لئے بعض لوگوں کے پاس، بعض لوگوں نے کہا کہ میاں بیوی میں ایک سال تک جدائی کی جائے، سعید نے کہا دونوں حج کرنے چلے جائیں اور اس حج کو پورا کریں جو فاسد کردیا ہے جب فارغ ہو کر لوٹیں تو دوسرے سال اگر زندہ رہیں تو پھر حج کریں اور ہدی دیں اور دوسرے حج کا احرام وہیں سے باندھیں جہاں سے پہلے حج کا احرام باندھا تھا اور مرد عورت جدا رہیں جب تک فارغ نہ ہوں حج سے۔
جس شخص کو حج نہ ملے اس کی ہدی کا بیان
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ ابوایوب انصاری حج کرنے کو نکلے جب نازیہ میں پہنچے مکہ کے راستے میں تو ان کا اونٹ گم ہوگیا سو آئے وہ مکہ میں حضرت عمر بن خطاب کے پاس دسویں تاریخ کو ذی الحجہ کی اور بیان کیا ان سے حضرت عمر نے فرمایا کہ عمرہ کرلے اور احرام کھول ڈال پھر آئندہ سال حج کے دن آئیں تو حج کر اور ہدی دے موافق اپنی طاقت کے۔
جس شخص کو حج نہ ملے اس کی ہدی کا بیان
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ ہبار بن اسود آئے یوم النحر کو اور عمر بن خطاب نحر کر رہے تھے اپنی ہدی کا تو کہا انہوں نے اے امیر المومنیں ہم نے تاریخ کے شمار میں غلطی کی ہم سمجھتے تھے کہ آج عرفہ کا روز ہے حضرت عمر نے کہا مکہ کو جاؤ اور تم اور تمہارے ساتھی سب طواف کرو اگر کوئی ہدی تمہارے ساتھ ہو تو اس کو نحر کر ڈالو پھر حلق کرو یا قصر اور لوٹ جاؤ اپنے وطن کو، آئندہ سال آؤ اور حج کرو اور ہدی دو جس کو ہدی نہ ملے وہ تین روزے حج کے دنوں میں رکھے اور سات روزے جب لوٹے تب رکھے۔
جو شخص صبحت کرے اپنی بی بی سے قبل طواف الزیادہ کے اس کی ہدی کا بیان
عبداللہ بن عباس سے سوال ہوا کہ ایک شخص نے صحبت کی اپنی بی بی سے اور وہ منیٰ میں تھا قبل طواف زیارہ کے، تو حکم کیا اس کو عبداللہ بن عباس نے ایک اونٹ نحر کرنے کا۔
جو شخص صبحت کرے اپنی بی بی سے قبل طواف الزیادہ کے اس کی ہدی کا بیان
عبداللہ بن عباس نے کہا جو شخص صحبت کرے اپنی بی بی سے قبل طواف زیارہ کے تو وہ ایک عمرہ کرے اور ہدی دے۔ ربیعہ بن ابی عبدالرحمن نے بھی ایسا ہی کہا ہے۔
موافق طاقت کے ہدی کیا چیز ہے۔
حضرت علی فرماتے تھے کہ مَا اسْتَيْسَرَ مِنْ الْهَدْيِ سے مراد ایک بکری ہے۔ امام مالک کو پہنچا کہ عبداللہ بن عباس کہتے تھے مَا اسْتَيْسَرَ مِنْ الْهَدْيِ سے ایک بکری مراد ہے۔
موافق طاقت کے ہدی کیا چیز ہے۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے مَا اسْتَيْسَرَ مِنْ الْهَدْيِ سے ایک بکری یا گائے مراد ہے۔
موافق طاقت کے ہدی کیا چیز ہے۔
عبداللہ بن ابی بکر سے روایت ہے کہ ایک آزاد لونڈی عمرہ بنت عبدالرحمن کی جس کا نام رقیہ تھا مجھ سے کہتی تھی کہ میں چلی عمرہ بنت عبدالرحمن کے ساتھ مکہ کو تو آٹھویں تاریخ ذی الحجہ کی وہ مکہ میں پہنچیں اور میں بھی ان کے ساتھ تھی تو طواف کیا خانہ کعبہ کا اور سعی کی صفا اور مروہ کے درمیان میں پھر عمرہ مسجد کے اندر گئیں اور مجھ سے کہا کہ تیرے پاس قینچی ہے میں نے کہا نہیں عمرہ نے کہا کہیں سے ڈھونڈھ کر لاؤ سو میں ڈھونڈھ کر لائی عمرہ نے اپنی لٹیں بالوں کی اس سے کاٹیں جب یوم النحر ہوا تو ایک بکری ذبح کی۔
مختلف حدیثیں ہدی کے بیان میں
صدقہ بن یسار سے روایت ہے کہ ایک شخص یمن کا رہنے والا آیا عبداللہ بن عمر کے پاس اور اس نے بٹ لیا تھا اپنے بالوں کو تو کہا اے ابا عبدالرحمن میں صرف عمرہ کا احرام باندھ کر آیا عبداللہ بن عمر نے کہا اگر تو میرے ساتھ ہوتا یا مجھ سے پوچھتا تو میں تجھے قران کا حکم کرتا اس شخص نے کہا اب تو ہوچکا عبداللہ بن عمر نے کہا کہ جتنے بال تیرے پریشان ہیں ان کو کتروا ڈال اور ہدی دے، ایک عورت عراق کی رہنے والی بوالی اے ابا عبدالرحمن کیا ہدی ہے اس کی ؟ انہوں نے کہا جو ہدی ہے اس کی، اس عورت نے کہا کیا ہدی ہے ؟ عبداللہ بن عمر نے کہا میرے نزدیک تو یہ ہے کہ اگر مجھے سوا بکری کے کچھ نہ ملے تب بھی بکری ذبح کرنا بہتر ہے روزے رکھنے سے۔
مختلف حدیثیں ہدی کے بیان میں
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے جو عورت احرام باندھے ہو جب احرام کھلوائے تو کنگھی نہ کرے جب تک اپنے بالوں کی لٹیں نہ کٹوا دے اور جو اس کے پاس ہدی ہو جب تک ہدی نحر نہ کرے تو اپنے بال نہ کتروائے۔
مختلف حدیثیں ہدی کے بیان میں
ابو اسما سے جو مولیٰ ہیں عبداللہ بن جعفر کے روایت ہے کہ عبداللہ بن جعفر کے ساتھ وہ مدینہ سے نکلے تو گزرے حسین بن علی پر اور وہ بیمار تھے سقیا میں پس ٹھہرے رہے وہاں عبداللہ بن جعفر یہاں تک کہ جب خوف ہوا حج کے فوت ہوجانے کا تو نکل کھڑے ہوئے عبداللہ بن جعفر اور ایک آدمی بھیج دیا حضرت علی کے پاس اور ان کی بی بی اسما بنت عمیس کے پاس وہ دونوں مدینہ میں تھے تو آئے حضرت علی اور اسماء مدینہ سے امام حسین کے پاس انہوں نے اشارہ کیا اپنے سر کی طرف حضرت علی نے حکم کیا ان کا سر مونڈا گیا سقیا میں، پھر قربانی کی ان کی طرف سے ایک اونٹ کی وہیں سقیا میں، کہا یحییٰ بن سعید نے کہ امام حسین حضرت عثمان بن عفان کے ساتھ نکلے تھے حج کرنے کو۔
عرفات اور مزدلفہ میں ٹھہرنے کا بیان
امام مالک کو پہنچا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عرفات تمام ٹھہرنے کی جگہ ہے مگر بطن عرفہ میں نہ ٹھہرو اور مزدلفہ تمام ٹھہرنے کی جگہ ہے مگر بطن محسر میں نہ ٹھہرو۔
عرفات اور مزدلفہ میں ٹھہرنے کا بیان
عبداللہ بن زبیر کہتے تھے جانو تم کہ عرفات سارا ٹھہرنے کی جگہ ہے مگر بطن محسر۔ کہا مالک نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے فلا رفث ولا فسوق ولاجدال فی الحج، نہ رفث ہے نہ فسق ہے نہ جھگڑا ہے حج میں، تو رفث کے معنی جماع کے ہیں اور اللہ خوب جانتا ہے فرمایا ہے احل لکم لیلہ الصیام الرفث الی نساء کم حلال ہے تمہارے لئے روزوں کی رات میں جماع اپنی عورتوں سے یہاں پر رفث سے جماع مراد ہے۔
بے وضو عرفات یا مزدلفہ میں ٹھہرنے کا اور سوار ہو کر ٹھہرنے کا بیان
کہا یحییٰ نے سوال ہوا امام مالک سے کہ عرفات میں یا مزدلفہ میں کوئی آدمی بےوضو ٹھہر سکتا ہے یا بےوضو کنکریاں مار سکتا ہے یا بےوضو صفا اور مروہ کے درمیان میں دوڑ سکتا ہے تو جواب دیا کہ جتنے ارکان حائضہ عورت کرسکتی ہے وہ سب کام مرد بےوضو کرسکتا ہے اور اس پر کچھ لازم نہیں آتا مگر افضل یہ ہے کہ ان سب کاموں میں باوضو ہو اور قصدا بےوضو ہونا اچھا نہیں ہے۔ سوال ہوا امام مالک سے کہ عرفات میں سوار ہو کر ٹھہرے یا اتر کر، بولے سوار ہو کر مگر جب کوئی عذر ہو اس کو یا اس کے جانور کو تو اللہ جل جلالہ قبول کرنے والا ہے عذر کو۔
وقوف عرفات کی انتہا کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن زبیر کہتے تھے جو شخص عرفہ میں نہ ٹھہرا یوم النحر کے طلوع فجر تک تو فوت ہوگیا حج اس کا اور جو یوم النحر کے طلوع فجر سے پہلے عرفہ میں ٹھہرا تو اس نے پا لیا حج کو۔
وقوف عرفات کی انتہا کا بیان
عروہ بن زبیر نے کہا کہ جب مزدلفہ کی رات کی صبح ہوگئی اور وہ عرفہ میں نہ ٹھہرا تو حج اس کا فوت ہوگیا اور جو مزدلفہ کی رات کو عرفہ میں ٹھہرا طلوع فجر سے پہلے تو پا لیا اس نے حج کو۔
عورتوں اور لڑکوں کو آگے روانہ کردینے کا بیان
سالم اور عبیداللہ سے جو دو بیٹے ہیں عبداللہ بن عمر کے روایت ہے کہ ان کے باپ عبداللہ بن عمر آگے روانہ کردیتے تھے عورتوں اور بچوں کو مزدلفہ سے منیٰ کی طرف تاکہ نماز صبح کی منیٰ میں پڑھ کر لوگوں کے آنے سے اول کنکریاں مار لیں۔
عورتوں اور لڑکوں کو آگے روانہ کردینے کا بیان
اسماء بنت ابی بکر کی آزاد لونڈی سے روایت ہے کہ ہم اسما بنت ابی بکر کے ساتھ منیٰ میں آئے منہ اندھیرے تو میں نے کہا کہ ہم منیٰ میں منہ اندھیرے آئے اسماء نے کہا ہم ایسا ہی کرتے تھے اس شخص کے ساتھ جو تجھ سے بہتر تھے۔ امام مالک نے سنا بعض اہل علم سے مکروہ جانتے تھے کنکریاں مارنا قبل طلوع فجر کے نحر کے دن اور جس نے ماریں تو نحر اس کو حلال ہوگیا۔
عورتوں اور لڑکوں کو آگے روانہ کردینے کا بیان
ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ فاطمہ بنت المنذر دیکھتی تھیں اسما بنت ابی بکر کو مزدلفہ میں کہ جو امامت کرتا تھا ان کی اور ان کے ساتھیوں کی نماز میں حکم کرتی تھیں اس شخص کو کہ نماز پڑھائے صبح کی فجر نکلتے ہی پھر سوار ہو کر منیٰ کو آتی تھیں اور توقف نہ کرتی تھیں۔
عرفات سے لوٹتے وقت چلنے کا بیان
عروہ بن زبیر نے کہا کہ سوال ہو اسامہ بن زید سے اور میں بیٹھا تھا ان کے پاس کہ رسول اللہ ﷺ حج وداع میں کس طرح چلاتے تھے اونٹ کو ؟ کہا انہوں نے چلاتے تھے ذرا تیز جب جگہ پاتے تو خوب دوڑا کر چلاتے تھے۔
عرفات سے لوٹتے وقت چلنے کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر تیز کرتے تھے اپنے اونٹ کو بطن محسر میں ایک ڈھیلے کی مار تک۔
حج میں نحر کرنے کا بیان
امام مالک کو پہنچا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا منیٰ کو نحر کی جگہ یہ ہے اور ساری منیٰ نحر کی جگہ ہے اور عمرہ میں کہا مروہ کو نحر کی جگہ یہ ہے اور سب راستے مکہ کے نحر کی جگہ ہے۔
حج میں نحر کرنے کا بیان
حضرت ام المومنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ ہم نکلے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جب پانچ راتیں باقی رہی تھیں ذیقعدہ کی اور ہم کو گمان یہی تھا کہ آپ ﷺ حج کو نکلے ہیں جب ہم نزدیک ہوئے مکہ سے تو حکم کیا رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کو جس کے ساتھ ہدی نہ تھی کہ طواف اور سعی کر کے احرام کھول ڈالے کہا عائشہ نے کہ یوم النحر کے دن ہمارے پاس گوشت آیا گائے کا تو میں نے پوچھا کہ یہ گوشت کہاں سے آیا لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیبیوں کی طرف سے نحر کیا ہے۔
حج میں نحر کرنے کا بیان
حضرت ام المومنین حفصہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا لوگوں نے احرام کھول ڈالا اور آپ ﷺ نے عمرہ کر کے اپنا احرام نہیں کھولا تو فرمایا آپ ﷺ نے میں نے تلبید کی اپنے سر کی اور تقلید کی اپنی ہدی کی تو میں احرام نہ کھولوں گا جب تک نحر نہ کرلوں۔
نحر کرنے کا بیان
حضرت علی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ہدی کے بعض جانوروں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور بعضوں کو اوروں نے ذبح کیا۔
نحر کرنے کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے کہا جو شخص نذر کرے بدنہ کی (بدنہ اونٹ یا گائے یا بیل کو کہتے ہیں) جو بھیجا جائے مکہ کو قربانی کے واسطے تو اس کے گلے میں دو جوتیاں لٹکا دے اور اشعار کرے پھر نحر کرے اس کا بیت اللہ کے پاس یا منیٰ میں دسویں تاریخ ذی الحجہ کو، اس کے سوا اور کوئی جگہ نہیں ہے اور جو شخص نذر کرے قربانی کے اونٹ یا گائے کی اس کو اختیار ہے کہ جہاں چاہے نحر کرے۔
نحر کرنے کا بیان
ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ ان کے باپ عروہ نحر کرتے تھے اپنے اونٹوں کو کھڑا کر کے۔
سر منڈانے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ رحم کرے حلق کرنے والوں پر صحابہ نے کہا اور قصر کرنے والوں پر یا رسول اللہ ﷺ ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ رحم کرے حلق کرنے والوں پر پھر صحابہ نے کہا اور قصر کرنے والوں پر یا رسول اللہ ﷺ ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اور قصر کرنے والوں پر۔
سر منڈانے کا بیان
عبدالرحمن بن القاسم سے روایت ہے کہ ان کے باپ قاسم بن محمد مکہ میں عمرہ کا احرام باندھ کر رات کو آتے اور طواف وسعی کر کے حلق میں تاخیر کرتے صبح تک لیکن جب تک حلق نہ کرتے بیت اللہ کا طواف نہ کرتے اور کبھی مسجد میں آ کر وتر پڑھتے لیکن بیت اللہ کے قریب نہ جاتے۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ کوئی شخص سر نہ منڈائے اور بال نہ کتروائے یہاں تک کہ نحر کرے ہدی کو اگر اس کے ساتھ ہو اور جو چیزیں احرام میں حرام تھیں ان کا استعمال نہ کرے جب تک احرام نہ کھول لے منیٰ میں یوم النحر کو کیونکہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے ولا تحلقو رؤسکم حتی یبلغ الھدی محلہ مت منڈاؤ سروں کو اپنے جب تک ہدی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے۔
قصر کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر جب رمضان کے روزوں سے فارغ ہوتے اور حج کا قصد ہوتا تو سر اور داڑھی کے بال نہ لیتے یہاں تک کہ حج کرتے۔
قصر کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر جب حلق کرتے حج یا عمرہ میں تو اپنی داڑھی اور مونچھ کے بال لیتے۔
قصر کا بیان
ربیعہ بن ابی عبدالرحمن (رض) روایت ہے کہ ایک شخص آیا قاسم بن محمد کے پاس اور اس نے کہا کہ میں نے طواف الافاضہ کیا اور میرے ساتھ میری بی بی نے بھی طواف الافاضہ کیا پھر میں ایک گھاٹی کی طرف گیا تاکہ صحبت کروں بی بی سے وہ بولی کہ میں نے ابھی بال نہیں کتروائے میں نے دانتوں سے اس کے بال کترے اور اس سے صحبت کی قاسم بن محمد ہنسے اور کہا کہ حکم کر اپنی عورت کو کہ بال کترے قینچی سے۔
قصر کا بیان
عبداللہ بن عمر اپنے عزیزوں میں سے ایک شخص سے ملے جس کا نام مجبر تھا انہوں نے طواف الافاضہ کرلیا تھا لیکن نہ حلق کیا نہ قصر نادانی سے، تو ان کو عبداللہ بن عمر نے لوٹ جانے کا اور حلق یا قصر کرکے اور طواف زیادہ دوبارہ کرنے کا حکم کیا۔ امام مالک کو پہنچا کہ سالم بن عبداللہ بن عمر جب ارادہ کرتے احرام کا تو قینچی منگاتے اور مونچھ اور داڑھی کے بال لیتے سواری اور لیبک کہنے سے پہلے احرام باندھ کر۔
تلبید کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب نے فرمایا جو شخص بال گوندھے احرام کے وقت وہ سر منڈا دے احرام کھولتے وقت اور اس طرح بال نہ گوندھو کہ تلبید سے مشابہت ہوجائے۔
تلبید کا بیان
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا جو شخص جوڑا باندھے یا گوندھ لے یا تلبید کرے بالوں کو احرام کے وقت تو واجب ہوگیا اس پر سر منڈانا۔
بیت اللہ کے اندر نماز پڑھنے کا اور عرفات میں نماز قصر کرنے کا اور خطبہ جلدی پڑھنے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ داخل ہوئے کعبہ شریف کے اندر اور ان کے ساتھ اسامہ بن زید اور بلال بن رابح اور عثمان بن طلحہ تھے تو دروازہ بند کرلیا اور وہاں ٹھہرے رہے، عبداللہ نے کہا میں نے بلال سے پوچھا جب نکلے کیا کیا رسول اللہ ﷺ نے ؟ تو کہا انہوں نے ایک ستون پیچھے کو بائیں طرف کیا اور دو ستون داہنی طرف اور تین ستون پیچھے اپنے اور خانہ کعبہ میں ان دنوں چھ ستون تھے پھر نماز پڑھی آپ ﷺ نے۔
بیت اللہ کے اندر نماز پڑھنے کا اور عرفات میں نماز قصر کرنے کا اور خطبہ جلدی پڑھنے کا بیان
سالم بن عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ لکھا عبدالملک بن مروان نے حجاج بن یوسف کو جب وہ آیا تھا عبداللہ بن عمر کا کسی بات میں حج کے کاموں میں سے کسی میں اختلاف نہ کرنا، کہا سالم نے جب عرفہ کا روز ہوا تو عبداللہ بن عمر زوال ہوتے ہی آئے اور میں بھی ان کے ساتھ اور پکارا حجاج کے خیمہ کے پاس کہ کہاں ہے حجاج ؟ تو نکلا حجاج ایک چادر کسم میں رنگی ہوئی اوڑھے ہوئے اور کہا اے اباعبدالرحمن کیا ہے انہوں نے جواب دیا کہ اگر سنت کی پیروی چاہتا ہے تو چل حجاج بولا ابھی ؟ انہوں نے کہا ہاں ابھی، حجاج نے کہا مجھے تھوڑی مہلت دو کہ میں نہالوں پھر نکلتا ہوں عبداللہ بن عمر سواری سے اتر پڑے پھر حجاج نکلا سو میرے اور میرے باپ عبداللہ کے بیچ میں آگیا میں نے اس سے کہا اگر تجھ کو سنت کی پیروی منظور ہو تو آج کے روز خطبہ کو کم کر اور نماز جلد پڑھ وہ عبداللہ کی طرف دیکھنے لگا تاکہ ان سے سنے جب عبداللہ نے یہ دیکھا تو کہا سچ کہا سالم نے۔
منی میں آٹھویں تاریخ نمازوں کا بیان اور جمعہ منی اور عرفہ میں آپڑنے کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نماز پڑھتے تھے ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء کی منیٰ میں پھر صبح کو جب آفتاب نکل آتا تو عرفات کو جاتے۔
مزدلفہ میں نماز کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھی مغرب کی اور عشاء کی مزدلفہ میں ملا کر۔
مزدلفہ میں نماز کا بیان
اسامہ بن زید سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ لوٹے عرفات سے یہاں تک کہ جب پہنچے گھاٹی میں اترے اور پیشاب کیا اور وضو کیا لیکن پورا وضو نہ کیا میں نے کہا نماز یا رسول اللہ ﷺ ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نماز آگے ہے تیرے، پھر سوار ہوئے جب مزدلفہ میں آئے اترے اور پورا وضو کیا پھر تکبیر ہوئی تو نماز پڑھی مغرب کی اس کے بعد ہر شخص نے اپنا اونٹ اپنی جگہ میں بٹھایا پھر تکبیر ہوئی عشاء کی آپ ﷺ نے عشاء کی نماز پڑھی بیچ میں ان دونوں کے کوئی نماز نہ پڑھی۔
مزدلفہ میں نماز کا بیان
ابو ایوب انصاری نے حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مغرب اور عشاء ملا کر مزدلفہ میں پڑھیں۔
مزدلفہ میں نماز کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبدللہ بن عمر مغرب اور عشاء مزدلفہ میں ایک ساتھ پڑھتے تھے۔
منی کی نماز کے بیان میں
کہا مالک نے مکہ کے رہنے والے حج کو جائیں تو منیٰ میں قصر کریں اور دو رکعتیں پڑھیں جب تک وہ حج سے لوٹیں۔
منی کی نماز کے بیان میں
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز کی منیٰ میں دو رکعتیں پڑھیں اور ابوبکر نے بھی وہاں دو رکعتیں پڑھیں اور عمر بن خطاب نے بھی دو رکعتیں وہاں پڑھیں اور عثمان بن عفان نے بھی دو رکعتیں وہاں پڑھیں اور آدھی خلافت تک پھر چار پڑھنے لگے۔
منی کی نماز کے بیان میں
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب جب مکہ میں آئے تو دو رکعتیں پڑھ کر لوگوں سے کہا اے مکہ والوں تم اپنی نماز پوری کرو کیونکہ ہم مسافر ہیں پھر منیٰ میں حضرت عمر نے وہی دو رکعتیں پڑھیں لیکن ہم کو یہ نہیں پہنچا کہ وہاں کچھ کہا۔
منی کی نماز کے بیان میں
اسلم عدوی سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے مکہ میں دو رکعتیں پڑھ کر لوگوں سے کہا اے مکہ والوں تم اپنی نماز پوری کرو کیونکہ ہم مسافر ہیں پھر منیٰ میں بھی حضرت عمر نے دو ہی رکعتیں پڑھیں لیکن ہم کو یہ نہیں پہنچا کہ وہاں کچھ کہا ہو۔
مقیم کی نماز کا بیان مکہ اور منی میں
کہا مالک نے جو شخص ذی الحجہ کا چاند دیکھتے ہی مکہ میں آگیا اور حج کا احرام باندھا تو وہ جب تک مکہ میں رہے چار رکعتیں پڑھے اس واسطے کہ اس نے چار راتوں سے زیادہ رہنے کی نیت کرلی۔
ایام تشریق کی تکبیروں کا بیان
یحییٰ بن سعید کو پہنچا کہ حضرت عمر بن خطاب گیارہویں تاریخ کو نکلے جب کچھ دن چڑھا تو تکبیر کہی اور لوگوں نے بھی ان کے ساتھ تکبیر کہی پھر دوسرے دن نکلے جب دن نکلا اور تکبیر کہی اور لوگوں نے بھی ان کے ساتھ تکبیر کہی تاکہ ایک تکیبر دوسری تکبیر سے ملتے ملتے آواز بیت اللہ کو پہنچے اور لوگ جانیں کہ حضرت عمر رمی کرنے نکلے ہیں۔
معرس اور محصب کی نماز کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اونٹ بٹھایا بطحا میں جو ذوالحلیفہ میں تھا اور نماز پڑھی وہاں کہا نافع نے عبداللہ بن عمر بھی ایسا ہی کرتے تھے
معرس اور محصب کی نماز کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر ظہر اور عصر اور مغرب محصب میں پڑھتے پھر مکہ میں جاتے رات کو اور طواف کرتے خانہ کعبہ کا۔
منی کے دنوں میں رات کو مکہ میں رہنے کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ لوگوں نے کہا کہ حضرت عمر بن خطاب چند آدمیوں کو مقرر کرتے اس بات پر کہ لوگوں کو پھیر دیں منیٰ کی طرف جمرہ عقبہ کے پیچھے سے۔
منی کے دنوں میں رات کو مکہ میں رہنے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا کوئی حاجی منیٰ کی راتوں میں جمرہ عقبہ کے ادھر نہ رہے۔
منی کے دنوں میں رات کو مکہ میں رہنے کا بیان
ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ ان کے باپ عروہ بن زبیر نے کہا کہ منیٰ کی راتوں میں کوئی مکہ میں نہ رہے بلکہ منیٰ میں رہے۔
کنکریاں مارنے کا بیان
امام مالک کو پہنچا کہ حضرت عمر بن خطاب ٹھہرتے تھے جمرہ اولی اور وسطی کے پاس بڑی دیر تک کہ تھک جاتا تھا کھڑا ہونے والا۔
کنکریاں مارنے کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر جمرہ اولی اور وسطی کے پاس ٹھہرتے تھے بڑی دیر تک پھر تکبیر کہتے اور تسبیح اور تحمید پڑھتے اور دعا مانگتے اللہ جل جلالہ سے اور جمرہ عقبہ کے پاس نہ ٹھہرتے۔
کنکریاں مارنے کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کنکریاں مارتے وقت تکبیر کہتے ہر کنکری مارنے پر۔
کنکریاں مارنے کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے جس کا آفتاب ڈوب جائے بارہویں تاریخ کو منیٰ میں تو وہ نہ جائے جب تک تیرہویں تاریخ کو رمی نہ کرلے۔
کنکریاں مارنے کا بیان
قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ لوگ جب رمی کرنے کو جاتے تو پیدل جاتے اور پیدل آتے لیکن سب سے پہلے معاویہ بن ابی سفیان رمی کے واسطے سوار ہوئے۔
کنکریاں مارنے کا بیان
امام مالک نے پوچھا عبدالرحمن بن قاسم سے کہ قاسم بن محمد کہاں سے رمی کرتے تھے جمرہ عقبہ کی، بولے جہاں سے ممکن ہوتا۔
کنکریاں مارنے کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے تینوں دنوں میں رمی بعد زوال کے کی جائے۔
رمی جمار میں رخصت کا بیان
عاصم بن عدی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اجازت دی اونٹ والوں کو رات اور کہیں بسر کرنے کی سوائے منیٰ کے، وہ لوگ رمی کرلیں یوم النحر کو پھر دوسرے دن یا تیسرے دن دونوں پھر اگر رہیں تو چوتھے دن بھی رمی کریں
رمی جمار میں رخصت کا بیان
عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے کہ زمانہ اول میں اونٹ چرانے والے کو اجازت تھی رات کو رمی کرنے کی۔
رمی جمار میں رخصت کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ صفیہ بن ابی عبید کی بھتیجی کو نفاس ہوا مزدلفہ میں تو وہ اور صفیہ ٹھہر گئیں یہاں تک کہ منیٰ میں جب پہنچیں آفتاب ڈوب گیا یوم النحر کو تو حکم کیا ان دونوں کو عبداللہ بن عمر نے کنکریاں مارنے کا جب آئیں وہ منیٰ میں اور کوئی جزا ان پر لازم نہ کی۔
طواف الزیارة کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب نے خطبہ پڑھا عرفات میں اور سکھائے ان کو ارکان حج کے اور کہا ان سے ! جب تم آؤ منیٰ میں اور کنکریاں مار چکو تو سب چیزیں درست ہوگئیں تمہارے واسطے جو حرام تھیں احرام میں، مگر عورتوں سے صحبت کرنا اور خوشبو لگانا کوئی شخص تم میں سے صحبت نہ کرے اور نہ خوشبو لگائے جب تک طواف نہ کرلے خانہ کعبہ کا۔
طواف الزیارة کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا جو شخص کنکریاں مارے اور سر منڈائے یا بال کتروائے اور اس کے ساتھ اگر ہدی ہو تو نحر کرے پس حلال ہوجائیں گیں اس پر وہ چیزیں جو حرام تھیں مگر صحبت کرنا عورتوں سے اور خوشبو لگانا درست نہ ہوگا طواف الزیارہ تک۔
حائضہ کو مکہ میں جانے کا بیان
حضرت ام المومنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ ہم نکلے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حجہ الوداع کے سال میں تو احرام باندھا ہم نے عمرہ کا پھر فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جس شخص کے ساتھ ہدی ہو تو وہ احرام حج اور عمرہ کا ساتھ باندھے پر احرام نہ کھولے یہاں تک کہ دونوں سے فارغ ہو، حضرت عائشہ نے کہا کہ میں آئی مکہ میں حیض کی حالت میں تو میں نے نہ طواف کیا نہ سعی کی صفا مروہ کی اور شکایت کی میں نے رسول اللہ ﷺ سے، آپ ﷺ نے فرمایا اپنا سر کھول ڈال اور کنگھی کر اور عمرہ چھوڑ دے اور حج کا احرام باندھ لے میں نے ویسا ہی کیا جب ہم حج کرچکے تو رسول اللہ ﷺ نے مجھ کو عبدالرحمن بن ابی بکر کے ساتھ تنعیم کو بھیجا میں نے عمرہ ادا کیا اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عمرہ عوض ہے تیرے اس عمرہ کا تو جن لوگوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا وہ طواف اور سعی کر کے حلال ہوگئے پھر حج کے واسطے دوسرا طواف کیا جب لوٹ کر آئے منیٰ سے اور جن لوگوں نے حج کا احرام باندھا تھا یا حج اور عمرہ کا ایک ساتھ باندھا تھا انہوں نے ایک ہی طواف کیا۔ عروہ بن زبیر نے بھی حضرت عائشہ (رض) ایسا ہی روایت کیا۔
حائضہ کو مکہ میں جانے کا بیان
حضرت ام المومنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ میں آئی مکہ میں حالت حیض میں اور میں نے طواف نہ کیا خانہ کعبہ کا اور نہ سعی کی صفا اور مرہ کی تو میں نے شکوہ کیا اس کا رسول اللہ ﷺ سے آپ ﷺ نے فرمایا جو کام حاجی کرتے ہیں وہ تو بھی کر فقط طواف اور سعی نہ کر جب تک کہ پاک نہ ہو۔ کہا مالک نے جو عورت عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ میں آئے اور وہ حیض سے ہو اور حج کے دن آجائیں اور طواف نہ کرسکے تو اگر حج کے فوت ہونے کا خوف ہو تو حج کا احرام باندھ لے اور ہدی دے اور اس کا حکم قارن جیسا ہوگا ایک طواف اس کو کافی ہے اور وقوف عرفہ اور وقوف مزدلفہ اور رمی جمار حیض کی حالت میں ادا کرسکتی ہے مگر طواف الزیارہ نہ کرے جب تک حیض سے پاک نہ ہو۔
حائضہ کے طواف الزیارة کا بیان
حضرت ام المومنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ صفیہ کو حیض آیا تو بیان کیا رسول اللہ ﷺ سے آپ ﷺ نے فرمایا وہ ہمیں روکنے والی ہے لوگوں نے کہا وہ طواف الافاضہ کرچکی ہیں آپ ﷺ نے فرمایا پھر نہیں۔
حائضہ کے طواف الزیارة کا بیان
حضرت ام المومنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ سے یا رسول اللہ ﷺ صفیہ کو حیض آگیا آپ ﷺ نے فرمایا شاید وہ ہم کو روکے گی کیا اس نے طواف نہ کیا خانہ کعبہ کا، عورتوں نے کہا ہاں کیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا پھر چلو۔
حائضہ کے طواف الزیارة کا بیان
عمرہ بنت عبدالرحمن (رض) روایت ہے کہ عائشہ جب حج کرتیں عورتوں کے ساتھ اور خوف ہوتا ان کو حیض آجانے کا تو یوم النحر کو ان کو روانہ کر دیتیں طواف الافاضہ کے واسطے، جب وہ طواف کر چکتیں اب اگر ان کو حیض آتا تو ان کے پاک ہونے کا انتظار نہ کرتیں بلکہ چل کھڑی ہوتیں۔
حائضہ کے طواف الزیارة کا بیان
حضرت ام المومنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ذکر کیا صفیہ کا تو لوگوں نے کہا آپ ﷺ سے ان کو حیض آگیا آپ ﷺ نے فرمایا شاید وہ ہمیں روکنے والے ہے لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ وہ طواف کر چکیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کچھ نہیں۔ ہشام نے کہا عروہ نے کہا عائشہ نے جب ہم اس کا ذکر کرتے تھے کہ اگر پہلے سے عورتوں کو طواف کے لئے روانہ کردینا مفید نہیں تو لوگ کیوں بھیج دیتے ہیں اور اگر یہ لوگ جیسے سمجھتے ہیں کہ طواف الوداع کے لئے ٹھہرنا لازم ہے صحیح ہوتا تو منیٰ میں چھ ہزار عورتوں سے زیادہ حیض کی حالت میں پڑی ہوتیں طواف الوداع کے انتظار میں۔
حائضہ کے طواف الزیارة کا بیان
ابو سلمہ بن عبدالرحمن (رض) روایت ہے کہ ام سلیم نے پوچھا رسول اللہ ﷺ سے اور اس کو حیض آگیا تھا یا زچگی ہوئی تھی بعد طواف الافاضہ کے یوم النحر کو تو رسول اللہ ﷺ نے اس کی اجازت دی اور وہ چلی گئیں کہا مالک نے جس عورت کو حیض آجائے منیٰ میں تو وہ ٹھہری رہے یہاں تک کہ وہ طواف الافاضہ کرے اور اگر طواف الافاضہ کے بعد اس کو حیض آیا تو اپنے شہر کو چلی جائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے ہم کو رخصت پہنچی ہے حائضہ کے واسطے اور اگر حیض آیا طواف الافاضہ سے پہلے پھر خون بند نہ ہوا تو اکثر مدت لگا لیں گے حیض کی۔
جو شکار مارے پرند چرند کا کی جزا کا بیان
ابو زبیر مکی سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے حکم کیا بجو کے مارنے میں (جزا) ایک مینڈھے کا اور ہرن میں ایک بکری اور خرگوش میں بکری کے بچے کا جو سال بھر کا ہو اور جنگلی چوہے میں بکری کے چار ماہ کے بچے کا۔
جو شکار مارے پرند چرند کا کی جزا کا بیان
محمد بن سرین سے روایت ہے کہ ایک شخص حضرت عمر بن خطاب کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے اپنے ساتھی کے ساتھ گھوڑے ڈالے ایک تنگ گھاٹی میں تو مارا ہم نے ہرن کو اور ہم دونوں احرام باندھے ہوئے تھے حضرت عمر نے ایک شخص کو جو ان کے پہلو میں بیٹھا تھا بلایا اور کہا آؤ ہم تم مل کر حکم کردیں تو دونوں نے مل کر ایک بکری کا حکم کیا وہ شخص پیٹھ موڑ کر چلا اور کہنے لگا یہ ہیں امیر المومنین ایک ہرن کا فیصہ اکیلے نہ کرسکے جب تک کہ ایک اور شخص کو اپنے ساتھ نہ بلایا۔ حضرت عمر نے یہ بات سن لی تو اس پکارا اور کہا تو نے سورت مائدہ پڑھی ہے وہ بولا نہیں حضرت عمر بولے تو اس شخص کو پہچانتا ہے جس نے میرے ساتھ مل کر فیصلہ کیا اس نے کہا نہیں حضرت عمر نے کہا اگر تو یہ کہتا کہ میں نے سورت مائدہ پڑھی ہے تو اس وقت میں تجھے مارتا پھر کہا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اپنی کتاب میں تجویز کردیں جزا کردو عادل تم میں سے وہ ہدی ہو جو پہنچے مکہ میں اور یہ شخص عبدالرحمن بن عوف ہے
جو شکار مارے پرند چرند کا کی جزا کا بیان
ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ ان کے باپ عرہ کہتے تھے نیل گائے میں ایک گائے لازم اور ہرن میں ایک بکری لازم ہے۔
جو شکار مارے پرند چرند کا کی جزا کا بیان
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ وہ کہتے تھے مکہ کے کبوتر کو جب قتل کیا جائے تو ایک بکری لازم ہے۔
احرام کی حالت اگر ٹڈی مارے تو اس کی جزا کا بیان
زید بن اسلم سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا حضرت عمر کے پاس اور کہا کہ میں نے چند ٹڈیوں کو کوڑے سے مار ڈالا اور میں احرام باندھے ہوئے تھا آپ نے فرمایا کہ ایک مٹھی بھر کھانا کسی کو کھلا دے۔
احرام کی حالت اگر ٹڈی مارے تو اس کی جزا کا بیان
یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا حضرت عمر بن خطاب کے پاس اور پوچھا آپ سے میں نے ایک ٹڈی مار ڈالی حالت احرام میں حضرت عمر نے کہا آؤ ہم تم مل کر فیصلہ کریں کعب نے کہا ایک درہم لازم ہے حضرت عمر نے کہا تیرے پاس بہت دراہم ہیں میرے نزدیک ایک کھجور بہتر ہے ایک ٹڈی سے۔
جو شخص قبل نحر کے حلق کرے اس کے فدیہ کا بیان
کعب بن عجرہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے احرام باندھے ہوئے، ان کی سر میں جوئیں پڑگئیں تو حکم دیا رسول اللہ ﷺ نے ان کو سر منڈانے کا اور کہا تین روزے رکھ یا چھ مسکینوں کو دو دو مد کھانا دے یا ایک بکری ذبح کر ان میں سے جو بھی کرے گا کافی ہے۔
جو شخص قبل نحر کے حلق کرے اس کے فدیہ کا بیان
کعب بن عجرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا شاید تجھ کو تکلیف دیتی ہیں جوئیں انہوں نے کہا ہاں یا رسول اللہ ﷺ ، آپ ﷺ نے فرمایا یا منڈاو ڈال سر اپنا اور تین روزے رکھ یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا یا ایک بکری ذبح کر۔
جو شخص قبل نحر کے حلق کرے اس کے فدیہ کا بیان
کعب بن عجرہ سے روایت ہے کہ آئے میرے پاس رسول اللہ ﷺ اور میں ہانڈی پھونک رہا تھا اپنے ساتھیوں کی اور میرے سر اور ڈاڑھی کے بال جوؤں سے بھر گئے تھے اور آپ ﷺ نے میری پیشانی تھام کر فرمایا ان بالوں کو منڈوا ڈال اور تین روزے رکھ یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا اور رسول اللہ ﷺ جانتے تھے کہ میرے پاس قربانی کے واسطے کچھ نہیں ہے۔ کہا مالک نے جس شخص نے اپنے ناک کے بال اکھاڑے یا بغل کے یا بدن پر نورہ لگایا یا سر میں زخم ہوا اور ضروت کی وجہ سے سر منڈوایا یا گدی کے بال منڈوائے پچھنے لگانے کے واسطے احرام میں، اگر بھولے سے یا نادانی سے یہ کام کرے تو ان سب صورتوں میں اس پر فدیہ ہے اور محرم کو درست نہیں کہ پچھنے لگانے کی جگہ مونڈے۔ کہا مالک نے جو شخص نادانی سے کنکریاں مارنے سے پہلے سر منڈا لے تو فدیہ دے۔
جو شخص کوئی رکن بھول جائے اس کا بیان
سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ ابن عباس نے کہا جو شخص اپنے کاموں میں سے کوئی کام بھول جائے یا چھوڑ دے تو ایک دم دے ایوب نے کہا مجھے یاد نہیں سعید نے بھول جائے کہا یا چھوڑ دے کہا۔
فدیہ کے مختلف مسائل کا بیان
کہا مالک نے جو شخص چاہے ایسے کپڑے پہننا جو احرام میں درست نہیں ہیں یا بال کم کرنا چاہے یا خوشبو لگانا چاہے بغیر ضرورت کے فدیہ کو آسان سمجھ کر تو یہ جائز نہیں ہے بلکہ رخصت ضرورت کے وقت ہے جو کوئی ایسا کرے فدیہ دے۔ کہا مالک نے جو شخص حج میں تین روزے رکھنا بھول جائے یا بیماری کی وجہ سے نہ رکھ سکے یہاں تک کہ اپنے شہر چلا جائے تو اس کو اگر ہدی کی قدرت ہو تو ہدی دے ورنہ تین روزے اپنے گھر میں رکھ کر پھر سات روزے رکھے۔
حج کی مختلف احادیث کا بیان
عبداللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ٹھہرے منیٰ میں حجہ الوداع میں اور لوگ مسئلہ پوچھتے تھے آپ ﷺ سے سو ایک شخص آیا اس نے کہا یا رسول اللہ ﷺ میں نے سر منڈا لیا قبل نحر کے آپ ﷺ نے فرمایا اب ذبح کرلے کچھ حرج نہیں ہے پھر دوسرا شخص آیا وہ بولا یا رسول اللہ ﷺ میں نے نادانی سے نحر کیا قبل رمی کے آپ ﷺ نے فرمایا رمی کرلے کچھ حرج نہیں ہے عبداللہ بن عمر نے کہا پھر جب سوال ہوا آپ ﷺ سے کسی چیز کے مقدم یا موخر کرنے کا آپ ﷺ نے فرمایا کرلے اور کچھ حرج نہیں ہے۔
حج کی مختلف احادیث کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب لوٹتے جہاد یا حج یا عمرہ سے تو تکبیر کہتے ہر چڑھاؤ پر تین بار فرمایا لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل چیز قدیر۔ ہم لوٹنے والے ہیں توبہ کرنے والے ہیں اللہ کی طرف پوجنے والے ہیں سجدہ کرنے والے ہیں اللہ اپنے پروردگار کی طرف سچا کیا اللہ نے وعدہ اپنا اور مدد کی اپنے بندے کی اور بھگادیا فوجوں کو اکیلے۔
حج کی مختلف احادیث کا بیان
کریب سے روایت ہے جو مولیٰ ہیں عبداللہ بن عباس کے، کہ رسول اللہ ﷺ کا گزر ہوا ایک عورت پر اور وہ اپنے محافہ میں تھی تو کہا گیا اس سے کہ یہ رسول اللہ ﷺ ہیں اس نے اپنے لڑکے کا بازو پکڑ کر کہا یا رسول اللہ ﷺ لڑکے کا بھی حج ہے فرمایا ہاں اور تجھ کو اجر ہے۔
حج کی مختلف احادیث کا بیان
طلحہ بن عبیداللہ بن کریز سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نہیں دیکھا جاتا شیطان کسی روز ذلیل اور منحوس اور غضبناک زیادہ عرفے کے روز سے اس وجہ سے کہ دیکھتا ہے اس دن اللہ کی رحمت اترتی ہوئی اور بڑے بڑے گناہ معاف ہوتے ہوئے مگر بدر کے روز بھی شیطان کا یہی حال تھا لوگوں نے کہا اس دن کیا تھا ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دیکھا اس نے جبرائیل کو فرشتوں کی صف باندھے ہوئے۔
حج کی مختلف احادیث کا بیان
عبیداللہ بن کریز سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بہتر دعاؤں میں عرفے کی دعا ہے اور بہتر اس میں جو کہا میں نے اور میرے سے پہلے پیغمبروں نے لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ہے۔
حج کی مختلف احادیث کا بیان
انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ داخل ہوئے مکے میں جس سال مکہ فتح ہوا آپ ﷺ کے سر پر خود تھا جب آپ ﷺ نے خود اتارا تو ایک شخص آیا اور بولا کہ یا رسول اللہ ﷺ ابن خطل کعبے کے پردے پکڑے ہوئے لٹک رہا ہے آپ ﷺ نے فرمایا اس کو مار ڈالو۔ امام مالک نے کہا کہ اس دن رسول اللہ ﷺ محرم نہیں تھے
حج کی مختلف احادیث کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر آئے مکے سے جب قدید میں پہنچے تو مدینے کے فساد کی خبر پہنچی پس آپ مکہ میں بغیر احرام کے لوٹ آئے۔ ابن شہاب سے ایسی ہی روایت ہے
حج کی مختلف احادیث کا بیان
عمران انصاری سے روایت ہے کہ میرے پاس عبداللہ بن عمر آئے اور میں مکے کی راستے میں ایک درخت کے تلے ٹھہرا ہوا تھا، تو انہوں نے پوچھا کیوں ٹھہرا تو اس درخت کے تلے، میں نے کہا سایہ کے واسطے انہوں نے کہا یا اور کسی کام کے واسطے میں نے کہا نہیں، میں صرف سایہ کے واسطے ٹھہرا ہوں، عبداللہ بن عمر نے کہا : فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جب تو منیٰ میں دو پہاڑوں کے بیچ میں پہنچے اور اشارہ کیا ہاتھ سے پورب کی طرف وہاں ایک جگہ ہے جس کو سُرر کہتے ہیں وہاں ایک درخت ہے اس کے تلے ستر نبیوں کی نال کاٹی گئی یا ستر نبیوں کو نبوت ملی پس وہ اس سبب سے خوش ہوئے۔
حج کی مختلف احادیث کا بیان
ابن ابی ملکیہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ایک جذامی عورت کے پاس سے گزرے جو خانہ کعبہ کا طواف کر رہی تھی، تو (عمر نے) کہا اے اللہ کی لونڈی لوگوں کو تکلیف مت دے، کاش تو اپنے گھر میں بیٹھتی، وہ اپنے گھر میں بیٹھی رہی یہاں تک کہ ایک شخص اس سے ملا اور بولا کہ جس شخص نے تجھ کو منع کیا تھا وہ مرگیا، اب نکل ؛ عورت بولی میں ایسی نہیں کہ زندگی میں تو میں اس شخص کی اطاعت کروں اور مرنے کے بعد اس کی نافرمانی کروں۔ امام مالک کو یہ روایت پہنچی کہ عبداللہ بن عباس کہتے تھے کہ " ملتزم " حجر اسود اور کعبہ کے دروازہ کے درمیان میں ہے۔
حج کی مختلف احادیث کا بیان
محمد بن یحییٰ بن حبان سے روایت ہے کہ ایک شخص ابوذر کے پاس سے گزرے ربذہ میں (ایک مقام کا نام ہے) ، ابوذر نے پوچھا کہاں کا قصد ہے ؟ اس نے کہا حج کا، ابوذر نے پوچھا اور کسی نیت سے تو نہیں نکلا ؟ بولا نہیں، ابوذر نے کہا پس شروع کر کام، اس شخص نے کہا میں نکلا یہاں تک کہ مکہ میں آیا اور وہاں ٹھہرا رہا پھر دیکھا میں نے لوگوں کو کہ گھیرے ہوئے ہیں ایک شخص کو، تو میں لوگوں کو چیر کے اندر گیا، کیا دیکھتا ہوں کہ وہی شخص جو ربذہ میں مجھ کو ملا تھا موجود ہے یعنی ابوذر انہوں نے مجھ کو دیکھ کر پہچانا اور کہا تو وہی ہے جس سے میں نے حدیث بیان کی تھی۔
حج کی مختلف احادیث کا بیان
امام مالک نے ابن شہاب سے پوچھا کہ حج میں شرط لگانا درست ہے ؟ بولے کیا کوئی ایسا کرتا ہے ؟ اور اس سے انکار کیا۔
عورت کو بغیر محرم کے حج کرنے کا بیان
امام مالک نے کہا کہ جن عورتوں کے خاوند نہیں ہیں اور انہوں نے حج نہیں کیا، اگر ان کا کوئی محرم نہ ہو یا ہو لیکن ساتھ نہ جاسکے تو فرض حج کو ترک نہ کرے بلکہ عورتوں کے ساتھ حج کو جائے۔
جو شخص تمتع کرے اس کے روزوں کا بیان
ام المومنین حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے ؛ وہ کہتی تھیں روزہ اس شخص کے اوپر ہے جو تمتع کرے یعنی عمرہ کر کے حج کرے اور ہدی نہ پائے حج کے احرام سے لے کر عرفہ تک روزے رکھے اگر ان دنوں میں نہ رکھے تو منیٰ کے دنوں میں رکھے۔ عبداللہ بن عمر بھی اس مقدمے میں مثل قول عائشہ کے کہتے۔