22. کتاب الجہاد کے بیان میں
جہاد کی طرف رغبت دلانے کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص اللہ کی راہ میں جہاد کرے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی دن بھر روزہ رکھے اور رات بھر عبادت کرے، نہ تھکے نماز سے اور نہ روزے سے یہاں تک کہ لوٹے جہاد سے
جہاد کی طرف رغبت دلانے کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ ضامن ہے اس شخص کا جو جہاد کرے اس کی راہ میں اور نہ نکلے گھر سے مگر جہاد کی نیت سے، اللہ کے کلام کو سچا جان کر ؛ اس بات کا کہ داخل کرے گا اللہ اس کو جنت میں یا پھیر لائے گا اس کو اس کے گھر میں جہاں سے نکلا ہے ثواب اور غنیمت کے ساتھ۔
جہاد کی طرف رغبت دلانے کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا گھوڑے ایک شخص کے واسطے اجر ہیں اور ایک شخص کے واسطے درست ہیں اور ایک شخص کے واسطے گناہ ہیں؛ اجر اس کے واسطے ہیں جو باندھے ان کو جہاد کے واسطے پھر لمبی کردے اس کی رسی، ان کی کسی موضع یا چراگاہ میں تو جس قدر دور تک اس رسی کے سبب سے چرے اس کی واسطے نیکیاں لکھی جائیں گی، اگر وہ رسی توڑا کر ایک اونچان یا نیچان چڑھیں ان کے ہر قدم اور لید پر نیکیاں لکھی جائیں گی اور اگر وہ کسی نہر پر جا نکلے اور پانی پائے اور مالک کا ارادہ پانی پلانے کا نہ تھا تب بھی اس کے واسطے نیکیاں لکھی جائیں۔ اور درست اس کے واسطے ہیں جو تجارت کے واسطے باندھے اور ان کی زکوٰۃ ادا کرے۔ اور گناہ اس کے واسطے ہیں جو فخر اور ریا اور مسلمانوں کی دشمنی کے لئے باندھے۔ اور حضرت سے سوال ہوا گدھوں کے باب میں، آپ نے فرمایا کہ اس مقدمے میں میرے اوپر کچھ نہیں اترا مگر یہ آیت جو اکیلی تمام نیکیوں کو شامل ہے " فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَه۔ وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَه۔ " 99 ۔ الزلہ۔
جہاد کی طرف رغبت دلانے کا بیان
عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا میں نہ بتاؤں تم کو وہ شخص جو سب سے بڑھ کر درجہ رکھتا ہے؛ وہ شخص ہے جو اپنے گھوڑے کی لگام پکڑے ہوئے جہاد کرتا ہے اللہ کی راہ میں، کیا نہ بتاؤں میں تم کو اس کے بعد جو سب سے بڑھ کر درجہ رکھتا ہے وہ شخص ہے جو ایک گوشے میں بکریوں کا غلہ لے کر نماز پڑھتا ہے اور اللہ کو پوجتا ہے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔
جہاد کی طرف رغبت دلانے کا بیان
عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ ہم نے بیعت کی رسول اللہ ﷺ سے سننے اور اطاعت کرنے پر آسانی اور سختی میں خوشی اور غم میں اور بیعت کی ہم نے اس بات پر کہ جو مسلماں حکومت کے لائق ہوگا اس سے نہ جھگڑیں گے اور اس امر پر کہ ہم سچ کہیں گے یا سچ پر جمے رہیں گے جہاں ہوں گے، اللہ کے کام میں کسی کے برا کہنے سے نہ ڈریں گے۔
جہاد کی طرف رغبت دلانے کا بیان
زید بن اسلم سے روایت ہے کہ ابوعبیدہ بن جراح نے حضرت عمر کو روم کے لشکروں کا اور اپنے خوف کا حال لکھا ؛ حضرت عمر نے جواب لکھا کہ بعد حمد ونعت کے معلوم ہو کہ بندہ مومن پر جب کوئی سختی اترتی ہے تو اس کے بعد اللہ پاک خوشی دیتا ہے؛ اور ایک سختی دو آسانیوں پر غالب نہیں ہو سکتی؛ اور بیشک اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ؛ " اے ایمان والو صبر کرو مصیبتوں پر اور صبر کرو کفار کے مقابلہ میں اور قائم رہو جہاد پر اور ڈرو اللہ سے شاید کہ تم نجات پاؤ "۔
دشمن کے ملک میں کلام اللہ لے جانے کی ممانعت ہے۔
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع کیا قرآن شریف کو دشمن کے ملک میں لے جانے سے؛ کہا مالک نے منع اس واسطے کیا " تاکہ ایسا نہ ہو کہ دشمن قرآن شریف کو لے کر اس کی توہین کرے "۔
بچون اور عورتوں کو مارنے کی ممانعت لڑائی میں
عبدالرحمن بن کعب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع کیا تھا ان لوگوں کو جہنوں نے قتل کیا ابن ابی حقیق کو عورتوں اور بچوں کے قتل کرنے سے ; ابن کعب نے کہا کہ ایک شخص ان میں سے کہتا تھا کہ ابن ابی حقیق کی عورت نے چیخ کر ہمارا حال کھول دیا تھا ; تو میں تلوار اس پر اٹھاتا تھا پھر رسول اللہ ﷺ کی ممانعت کو یاد کر کے رک جاتا تھا، اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم اسے بھی قتل کردیتے۔
بچون اور عورتوں کو مارنے کی ممانعت لڑائی میں
نافع سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بعض لڑائیوں میں ایک عورت کو قتل کئے ہوئے پایا تو ناپسند کیا اس کے قتل کو اور منع کیا عورتوں اور بچوں کے قتل سے۔
بچون اور عورتوں کو مارنے کی ممانعت لڑائی میں
یحییٰ بن سیعد سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق نے شام کو لشکر بھیجا تو یزید بن ابی سفیان کے ساتھ پیدل چلے اور وہ حاکم تھے ایک چوتھائی لشکر کے؛ تو یزید نے ابوبکر سے کہا آپ سوار ہوجائیں نہیں تو میں اترتا ہوں، ابوبکر صدیق نے کہا نہ تم اترو اور نہ میں سوار ہوں گا، میں ان قدموں کو اللہ کی راہ میں ثواب سمجھتا ہوں پھر کہا یزید سے کہ تم پاؤ گے کچھ لوگ ایسے جو سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنی جانوں کو روک رکھا ہے اللہ کے واسطے سو چھوڑ دے ان کو اپنے کام میں اور کچھ لوگ ایسے پاؤ گے جو بیچ میں سے سر منڈاتے ہیں تو مار ان کے سر پر تلوار سے اور میں تجھ کو دس باتوں کی وصیت کرتا ہوں عورت کو مت مار اور نہ بچوں کو نہ بڈھے پھونس کو اور نہ کاٹنا پھل دار درخت کو اور نہ اجاڑنا کسی بستی کو اور نہ کونچیں کاٹنا کسی بکری اور اونٹ کی مگر کھانے کے واسطے اور مت جلانا کھجور کے درخت کو اور مت ڈبانا اس کو اور غنیمت کے مال میں چوری نہ کرنا اور نامردی نہ کرنا۔ امام مالک نے روایت نقل کی ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے اپنے عاملوں میں سے ایک عامل کو لکھا کہ ہم کو رسول اللہ ﷺ کی یہ روایت پہنچی ہے؛ کہ جب فوج روانہ کرتے تھے تو کہتے تھے ان سے جہاد کرو اللہ کا نام لے کر، اللہ کی راہ میں تم لڑتے ہو ان لوگوں سے جہنوں نے کفر کیا اللہ کے ساتھ، نہ چوری کرو نہ اقرار توڑو نہ ناک کان کاٹو نہ مارو بچوں اور عورتوں کو اور کہہ دے یہ امر اپنی فوجوں اور لشکروں سے، اگر اللہ نے چاہا تو تم پر سلامتی ہوگی۔
کسی کو امان دے تو پورا کرے اقرا کو
ایک کوفہ کے رہنے والے سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے لشکر کے ایک افسر کو لکھا ؛ کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ بعض لوگ تم میں سے کافر عجمی کو بلاتے ہیں جب وہ پہاڑ پر چڑھ جاتا ہے اور لڑائی سے باز آتا ہے، تو ایک شخص اس سے کہتا ہے مت ڈر، پھر قابو پاکر اس کو مار ڈالاتا ہے؛ قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر میں کسی کو ایسا کرتے جان لوں گا تو اس کی گردن ماروں گا۔
جو شخص اللہ کی راہ میں کچھ دے اس کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) جب جہاد کے واسطے کوئی چیز دیتے تو فرماتے " جب پہنچ جائے تو وادی قری میں تو وہ چیز تیری ہے "۔
جو شخص اللہ کی راہ میں کچھ دے اس کا بیان
یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ سعید بن مسیب کہتے تھے؛ جب کسی شخص کو جہاد کے واسطے کوئی چیز دی جائے اور وہ دار جہاد میں پہنچ جائے تو وہ چیز اس کی ہوگئی۔
غنیمت کے بیان میں مختلف احادیث
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر نجد کی طرف روانہ کیا جس میں عبداللہ بن عمر تھے، تو غنیمت میں بہت سے اونٹ حاصل کئے اور ہر ایک کا حصہ بارہ اونٹ یا گیارہ اونٹ تھے اور ایک اونٹ زیادہ دیا گیا۔
غنیمت کے بیان میں مختلف احادیث
یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ انہوں نے سعید بن مسیب سے سنا ؛ کہتے تھے جب جہاد میں لوگ غنیمتوں کو بانٹتے تھے تو ایک اونٹ کو دس بکریوں کے برابر سمجھتے تھے۔
جس کا مال پانچواں حصہ نہیں دیا جائے گا اس کا بیان
کہا مالک نے جو کفار بند کے کنارہ پر مسلمانوں کی زمین میں ملیں اور وہ یہ کہیں کہ ہم سوادگر تھے، دریا نے ہم کو یہاں پھینک دیا مگر مسلمانوں کو اس امر کی تصدیق نہ ہو، البتہ یہ گمان ہو کہ جہاز ان کا ٹوٹ گیا یا پیاس کے سبب سے اتر پڑے بغیر اجازت مسلمانوں کے، تو امام کو ان کے بارے میں اختیار ہے اور جن لوگوں نے گرفتار کیا ان کو خمس نہیں ملے گا۔
غنیمت کے مال سے قبل تقسیم کے جس چیز کا کھانا درست ہے۔
کہا مالک نے جب مسلمان کفار کے ملک میں داخل ہوں اور وہاں کھانے کی چیزیں پائیں تو تقسیم سے پہلے کھانا درست ہے۔ کہا مالک نے، اونٹ بیل بکریاں بھی کھانے کی چیزیں ہیں، تقسیم سے قبل ان کا کھانا درست ہے۔
مال غنیمت میں سے قبل تقسیم کے جو چیز دی جائے اس کا بیان
امام مالک کو روایت پہنچی؛ کہ عبداللہ بن عمر کا ایک غلام اور ایک گھوڑا بھاگ گیا تھا تو کافروں نے ان دونوں کو پکڑ لیا ؛ پھر غنیمت میں پایا ان دونوں کو مسلمانوں نے پس واپس کردیا ان دونوں کو، عبداللہ بن عمر کو تقسیم سے قبل کے۔
ہتھیاروں کو نفل میں دنیے کا بیان
ابی قتادہ بن ربعی سے روایت ہے کہ نکلے ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جنگ حنین میں، جب لڑے ہم کافروں سے تو مسلمانوں میں گڑبڑ مچی میں نے ایک کافر کو دیکھا کہ اس نے ایک مسلمان کو مغلوب کیا ہوا ہے، تو میں نے پیچھے سے آن کر ایک تلوار اس کی گردن پر ماری، وہ میرے طرف دوڑا اور مجھے آن کر ایسا کردیا گویا موت کو مزہ چکھایا، پھر وہ خود مرگیا اور مجھے چھوڑ دیا، پھر میں حضرت عمر سے ملا ؛ اور میں نے کہا آج لوگوں کو کیا ہوا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ اللہ کا ایسا ہی حکم ہوا، پھر مسلمان واپس لوٹے اور فرمایا رسول اللہ ﷺ نے " جو کسی شخص کو مارے تو اس کا سامان اسی کو ملے گا جبکہ اس پر وہ گواہ رکھتا ہو " ابوقتادہ کہتے ہیں؛ جب میں نے یہ سنا تو اٹھ کھڑا ہوا پھر میں نے یہ خیال کیا کہ کون گواہی دے گا میری ؟ تو میں بیٹھ گیا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا جو شخص کسی کو مارے گا، اس کا سامان اسی کی ملے گا بشرطیکہ وہ گواہ رکھتا ہو تو میں اٹھ کھڑا ہوا پھر میں نے یہ خیال کیا کہ کون گواہی دے گا میری ؟ پھر بیٹھا رہا۔ پھر تیسری مرتبہ آپ ﷺ نے فرمایا ؛ میں اٹھ کھڑا ہوا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا ہوا تجھ کو اے ابوقتادہ ؟ میں نے سارا قصہ کہہ سنایا ؛ اتنے میں ایک شخص بولا سچ کہا یا رسول اللہ ﷺ اور سامان اس کافر کا میرے پاس ہے تو وہ سامان مجھے معاف کرا دیجئے ان سے حضرت ابوبکر نے کہا قسم اللہ کی ایسا کبھی نہ ہوگا، رسول اللہ ﷺ کبھی ایسا قصد نہ کریں گے کہ ایک شیر اللہ کے شیروں میں سے اللہ و رسول ﷺ کی طرف سے لڑے اور سامان تجھے مل جائے، آپ ﷺ نے فرمایا ابوبکر سچ کہتے ہیں وہ سامان ابوقتادہ کو دے دے اس نے مجھے دیدیا میں زرہ بیچ کر ایک باغ خریدا ؛ بنی سلمہ کے محلہ میں اور یہ پہلا مال ہے جو حاصل کیا میں نے اسلام میں۔
ہتھیاروں کو نفل میں دنیے کا بیان
قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ؛ " سنا میں نے ایک شخص کو، عبداللہ بن عباس سے نفل کے معنی پوچھتا تھا "، ابن عباس نے کہا کہ " گھوڑا اور ہتھیار نفل میں داخل ہیں۔ پھر اس شخص نے یہی پوچھا، پھر ابن عباس نے یہی جواب دیا۔ پھر اس شخص نے کہا میں وہ انفال پوچھتا ہوں جن کا ذکر، اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ قاسم کہتے ہیں کہ وہ برابر پوچھے گیا، یہاں تک کہ تنگ ہونے لگے عبداللہ بن عباس اور کہا انہوں نے تم جانتے ہو اس شخص کی مثال ؛ صبیغ کی سی ہے جس کو حضرت عمر بن خطاب نے مارا تھا۔
نفل خمس میں سے دئیے جانے کا بیان
سعید بن مسیب نے کہا لوگ نفل کو خمس میں سے دیا کرتے تھے۔
گھوڑے کے حصے کا بیان جہاد میں
مالک نے روایت کیا ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے کہا " گھوڑے کے دو حصے ہیں اور مرد کا ایک حصہ ہے "۔ کہا مالک نے " میں ہمیشہ ایسا ہی سنتا ہوا آیا "۔
غنیمت کے مال میں چرانے کا بیان
عمرو بن شعیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب حنین سے لوٹے اور ارادہ رکھتے تھے جعرانہ کا ؛ مانگنے لگے لوگ آپ سے (مال غنیمت) ، اسی اثنا میں آپ کا اونٹ کانٹوں کے درخت کی طرف چلا گیا اور کانٹے آپ کی چادر میں اٹک کر چادر آپ کی پشت مبارک سے اتر گئی، تب آپ نے فرمایا ؛ " کہ میری چادر مجھ کو دے دو کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں نہ بانٹوں گا وہ چیز تم کو جو اللہ نے تم کو دی " " قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر اللہ تم کو جتنے تہامہ کے درخت ہیں اتنے اونٹ دے تو میں بانٹ دوں گا تم کو ؛ پھر نہ پاؤ گے مجھ کو بخیل نہ بودا نہ جھوٹا، پھر جب اترے رسول اللہ ﷺ کھڑ ہوئے لوگوں میں اور کہا کہ؛ اگر کسی نے تاگا اور سوئی لے لی ہو وہ بھی لاؤ کیونکہ غنیمت کے مال میں سے چرانا شرم ہے دین میں اور آگ ہے اور عیب ہے قیامت کے روز، پھر زمین سے اونٹ یا بکری کے بالوں کا ایک گچھا اٹھایا اور فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، جو مال اللہ پاک نے تم کو دیا ؛ اس میں سے میرا اتنا بھی نہیں ہے، مگر پانچواں حصہ اور پانچواں حصہ بھی تمہارے ہی واسطے ہے۔
غنیمت کے مال میں چرانے کا بیان
زید بن خالد جہنی نے کہا ایک شخص مرگیا حنین کی لڑائی میں تو بیان کیا گیا یہ رسول اللہ ﷺ سے؛ آپ ﷺ نے فرمایا نماز پڑھ لو اپنے ساتھی پر، لوگوں کے چہرے زرد ہوگئے، تب آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس شخص نے مال غنیمت میں چوری کی تھی، زید نے کہا ہم نے اس شخص کا اسباب کھولا تو چند منکے یہودیوں کے پائے جو دو درہم کے مال کے برابر تھے۔
غنیمت کے مال میں چرانے کا بیان
عبداللہ بن مغیرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے لوگوں کی جماعتوں پر تو دعا کی سب جماعتوں کے واسطے مگر ایک جماعت کے واسطے دعا نہ کی کیونکہ اس جماعت میں ایک شخص تھا جس کے بچھونے کے نیچے سے ایک کنٹھا چوری کا نکلا تھا جب رسول اللہ ﷺ اس جماعت پر آئے تو آپ نے تکبیر کہی جیسے جنازے پر کہتے ہیں۔
غنیمت کے مال میں چرانے کا بیان
ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ نکلے ہم ساتھ رسول اللہ ﷺ کے ، خبیر کے سال تو غنیمت میں سونا اور چاندی حاصل نہیں کیا بلکہ کپڑے اور اسباب ملے اور رفاعہ بن زید نے ایک غلام کالا ہدیہ دیا رسول اللہ ﷺ کو جس کا نام مدعم تھا ، تو چلے رسول اللہ ﷺ وادی القری کی طرف تو جب پہنچے ہم وادی القری میں تو مدعم اتنے میں ایک تیر بےنشان کے آلگا اور وہ مرگیا، لوگوں نے کہا مبارک ہو جنت کی اس کے واسطے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہرگز ایسا نہیں قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے وہ جو کمبل اس نے حنین کی لڑائی میں غنیمت کے مال سے قبل تقسیم لیا تھا، آگ ہو کر اس پر جل رہا ہے۔ جب لوگوں نے یہ سنا ایک شخص ایک یا دو تسمے لے کر آیا آپ ﷺ نے فرمایا یہ تسمہ یا دو تسمے آگ کے تھے۔
غنیمت کے مال میں چرانے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ جو قوم غنیمت کے مال میں چوری کرتی ہے ان کے دل بودے ہوجاتے ہیں اور جس قوم میں زنا زیادہ ہوجاتا ہے ان میں موت بھی بہت زیادہ ہوجاتی ہے اور جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے ان کی روزی بند ہوجاتی ہے اور جو قوم ناحق فیصلہ کرتی ہے ان میں خون زیادہ ہوجاتا ہے اور جو قوم عہد توڑتی ہے ان پر دشمن غالب ہوجاتا ہے۔
شہادت کا بیان
ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں نے چاہی یہ بات کہ اللہ کی راہ میں لڑوں پھر قتل کیا جاؤں پھر جلایا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں پھر جلایا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں۔ ابوہریرہ (رض) کہتے تھے؛ اس بات کی میں تین بار گواہی دیتا ہوں کہ آپ ﷺ نے ایسا ہی فرمایا۔
شہادت کا بیان
ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ؛ ہنسے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن دو شخصوں پر کہ ایک دوسرے کا قاتل ہوگا اور دونوں جنت میں جائیں گے ایک شخص نے جہاد کیا اللہ کی راہ میں اور مارا گیا بعد اس کے مارنے والے پر اللہ نے رحم کیا اور وہ مسلمان ہوا اور جہاد کیا اور شہید ہوا۔
شہادت کا بیان
ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے نہیں زخمی ہوگا کوئی شخص اللہ کی راہ میں اور اللہ خوب جانتا ہے اس کو جو زخمی ہوتا ہے اس کے راستے میں، وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے زخم سے خون جاری ہوگا جس کا رنگ بھی خون جیسا ہوگا اور خوشبو مشک جیسی ہوگی۔
شہادت کا بیان
زید بن اسلم سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب فرماتے تھے اے پروردگار ! میرا قاتل ایسے شخص کو نہ بنانا جس نے تجھے ایک سجدہ بھی کیا ہو تاکہ اس سجدہ کی وجہ سے قیامت کے دن تیرے سامنے مجھ سے جھگڑے۔
شہادت کا بیان
ابوقتادہ انصاری سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا رسول اللہ ﷺ کے پاس اور کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ اگر میں قتل کیا جاؤں اللہ کی راہ میں جس حال میں کہ میں صبر کرنے والا ہوں مخلص ہوں منہ سامنے رکھنے والا ہوں نہ پیٹھ موڑنے والا ہوں، کیا بخش دے گا اللہ گناہ میرے ؟ فرمایا آپ ﷺ نے ہاں، جب وہ شخص واپس لوٹا، آپ ﷺ نے اس کو بلایا یا بلانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ کیا کہا تو نے ؟ اس نے اپنی بات کو دہرادیا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں مگر قرض، ایسا ہی کہا مجھ سے جبرائیل نے۔
شہادت کا بیان
ابو النصر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جنگ احد کے شہیدوں کے لئے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جن کا میں گواہ ہوں حضرت ابوبکر نے کہا یا رسول اللہ ﷺ کیا ہم ان کے بھائی نہیں ہیں مسلمان ہوئے ہم جیسے وہ مسلمان ہوئے اور جہاد کیا ہم نے جیسے انہوں نے جہاد کیا آپ ﷺ نے فرمایا ہاں مگر مجھے معلوم نہیں کہ بعد میرے کیا کرو گے تو ابوبکر رونے لگے اور فرمایا کہ ہم زندہ رہیں گے بعد آپ ﷺ کے۔
شہادت کا بیان
یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ بیٹھے ہوئے تھے اور قبر کھد رہی تھی، مدینہ میں ایک شخص قبر کو دیکھ کر بولا کیا بری جگہ ہے مسلمان کی ! آپ ﷺ نے فرمایا بری بات کہی تو نے، وہ شخص بولا یا رسول اللہ ﷺ میرا یہ مطلب نہ تھا کہ اللہ کی راہ میں قتل ہونا اس سے بہتر ہے آپ ﷺ نے فرمایا بیشک اللہ کی راہ میں قتل ہونے کے برابر کوئی چیز نہیں مگر ساری زمین میں کوئی مقام ایسا نہیں کہ میں اپنی قبر وہاں پسند کرتا ہوں مدینہ سے تین بار آپ ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا۔
شہادت کا بیان
زید بن اسلم سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب فرمایا کرتے تھے اے پروردگار میں چاہتا ہوں کہ شہید ہوں تیری راہ میں اور مروں تیرے رسول کے شہر میں
شہادت کا بیان
یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب فرمایا کرتے تھے؛ عزت مومن کے تقوی میں ہے اور دین اس کی شرافت ہے اور مروت اس کا خلق ہے اور بہادری اور نامردی دونوں خلقی صفتیں ہیں جس شخص میں اللہ چاہتا ہے ان صفتوں کو رکھتا ہے تو نامرد اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے اور بہادر اس شخص سے لڑتا ہے جس کو جانتا ہے کہ گھر تک نہ جانے دے گا اور قتل ایک موت ہے موتوں میں سے اور شہید وہ ہے جو اپنی جان خوشی سے اللہ کے سپرد کر دے۔
شہید کے غسل دینے کے بیان میں
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عمر غسل دئے گئے اور کفن پہنائے گئے اور نماز جنازہ ان پر پڑھی گئی حالانکہ وہ شہید تھے۔
کونسی بات اللہ کے راستے میں بری ہے
یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ایک برس میں چالیس ہزار اونٹ بھیجتے تھے شام کے جانے والوں کو فی آدمی ایک ایک اونٹ دیتے اور عراق کے جانے والوں کو دو آدمیوں میں ایک اونٹ دیتے تھے ایک شخص عراق کا رہنے والا آیا اور حضرت عمر سے بولا کہ مجھ کو اور سحیم کو ایک اونٹ دیجئے حضرت عمر نے فرمایا میں تجھ کو دیتا ہوں اللہ کی قسم سے تیری مراد کد ہے وہ بولا ہاں۔
جہاد کی فضلیت کا بیان
انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مسجد قبا کو جاتے تو ام حرام بنت ملحان کے گھر میں آپ تشریف لے جاتے وہ آپ کو کھانا کھلاتیں اور وہ اس زمانے میں عبادہ بن صامت کے نکاح میں تھیں ایک روز آپ ان کے گھر میں گئے انہوں نے آپ کو کھانا کھلایا اور بیٹھ کر آپ کے سر کے بال دیکھنے لگیں آپ ﷺ سو گئے پھر آپ ﷺ جاگے ہنستے ہوئے ام حرام نے پوچھا آپ ﷺ کیوں ہنستے ہیں یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ نے فرمایا کچھ لوگ میرے امت کے پیش کئے گئے میرے اوپر جو اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے سوار ہو رہے تھے بڑے دریا میں جیسے بادشاہ تخت پر سوار ہوتے ہیں ام حرام نے کہا یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ دعا کیجئے کہ اللہ جل جلالہ مجھ کو بھی ان میں سے کرے آپ ﷺ نے دعا کی پھر آپ ﷺ سر رکھ کے سو گئے پھر جاگے ہنستے ہوئے ام حرام نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ کیوں ہنستے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کچھ لوگ میری امت کے پیش کئے گئے میرے اوپر جو اللہ کی راہ میں جہاد کو جاتے تھے جیسے بادشاہ تخت پر ہوتے ہیں ام حرام نے کہا یا رسول اللہ ﷺ اللہ آپ ﷺ دعا کیجئے اللہ جل جلالہ مجھ کو بھی ان میں سے کرے آپ ﷺ نے فرمایا تو پہلے لوگوں میں سے ہوچکی ام حرام معاویہ کے ساتھ دریا میں سوار ہوئیں جب دریا سے نکلیں تو جانور پر سے گر کر مرگئیں۔
جہاد کی فضلیت کا بیان
ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے اگر میری امت پر شاق نہ ہوتا تو میں کسی لشکر کا جو اللہ کی راہ میں نکلتا ہے ساتھ نہ چھوڑتا مگر نہ پاس اس قدر سواریاں ہیں کہ سب لوگوں کو ان پر سوار کروں نہ ان کے پاس اتنی سواریاں ہیں کہ وہ سب سوار ہو کر نکلیں اگر میں اکیلا جاؤں تو ان کو میرا چھوڑنا شاق ہوتا ہے میں تو یہ چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں لڑوں اور مارا جاؤں پھر جلایا جاؤں پھر مارا جاؤں پھر جلایا جاؤں پھر مارا جاؤں
جہاد کی فضلیت کا بیان
یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ جنگ احد کے روز آپ ﷺ نے فرمایا کون خبر لا کردیتا ہے مجھ کو سعد بن ربیع انصاری کی ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ ﷺ میں دوں گا وہ جا کر لاشوں میں ڈھونڈھنے لگا سعد نے کہا کہ کیا کام ہے ؟ اس شخص نے کہا مجھ کو رسول اللہ ﷺ نے تمہاری خبر لینے کو بھیجا ہے کہا کہ تم جاؤ رسول اللہ ﷺ کے پاس اور میرا سلام عرض کرو اور کہو کہ مجھے بارہ زخم برچھوں کے لگے ہیں اور میرے زخم کاری ہیں اپنی قوم سے کہ اللہ جل جلالہ کے سامنے تمہارا کوئی عذر قبول نہ ہوگا اگر رسول اللہ ﷺ شہید ہوئے اور تم میں سے ایک بھی زندہ رہا۔
جہاد کی فضلیت کا بیان
یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رغبیت دلائی جہاد میں اور بیان کیا جنت کا حال اتنے میں ایک شخص انصاری کھجوریں ہاتھ میں لئے ہوئے کھا رہا تھا وہ بولا مجھے بڑی حرص ہے دنیا کی اگر میں بیٹھا رہوں اس انتظار میں کہ کھجوریں کھالوں پھر کھجوریں پھینک دیں اور تلوار اٹھا کر لڑائی شروع کی اور شہید ہوا۔
جہاد کی فضلیت کا بیان
یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ معاذ بن جبل نے کہا جہاد دو قسم کے ہیں ایک وہ جس میں عمدہ سے عمدہ مال صرف کیا جاتا ہے اور رفیق کے ساتھ محبت کی جاتی ہے اور افسر کی اطاعت کی جاتی ہے اور فسار سے پرہیز رہتا ہے یہ جہاد سب کا سب ثواب ہے اور ایک وہ جہاد ہے جس میں اچھا مال صرف نہیں کیا جاتا اور رفیق سے محبت نہیں ہوتی اور افسر کی نافرمانی ہوتی ہے اور فسار سے پرہیز نہیں ہوتا یہ جہاد ایسا ہے اس میں جو کوئی جائے ثواب تو کیا خالی لوٹ کر آنا مشکل ہے۔
گھوڑوں کا اور گھوڑ دوڑ کا بیان اور جہاد میں صرف کرنے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا گھوڑوں کی پیشانی میں بہتری اور برکت بندھی ہوئی ہے قیامت تک۔
گھوڑوں کا اور گھوڑ دوڑ کا بیان اور جہاد میں صرف کرنے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شرط لگائی آگے بڑھنے کی ان گھوڑوں میں جو تیار کئے گئے تھے گھوڑ دوڑ کے لئے خفیا سے ثینہ الوداع تک اور جو گھوڑے تیار نہیں کئے گئے تھے ان کی حدی ثینہ الوداع سے مسجد بنی زریق تک مقرر کی عبداللہ بن عمر بھی گھوڑ دوڑ میں شریک تھے۔
گھوڑوں کا اور گھوڑ دوڑ کا بیان اور جہاد میں صرف کرنے کا بیان
یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ سعید بن مسیب کہتے تھے گھوڑ دوڑ کی شرط میں کچھ قباحت نہیں ہے جب دو شخصوں کے بیچ میں ایک اور شخص آجائے اگر وہ آگے بڑھ جائے تو شرط کا روپیہ لے لے اور جب پیچھے رہ کچھ نہ دے۔
گھوڑوں کا اور گھوڑ دوڑ کا بیان اور جہاد میں صرف کرنے کا بیان
یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو لوگوں نے دیکھا کہ اپنے گھوڑے کا منہ چادر سے صاف کر رہے ہیں لوگوں نے اس کا سبب پوچھا آپ ﷺ نے فرمایا کہ رات مجھ پر عتاب ہوا گھوڑے کی خبر نہ لینے پر۔
گھوڑوں کا اور گھوڑ دوڑ کا بیان اور جہاد میں صرف کرنے کا بیان
انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب چلے خیبر کو پہنچے وہاں رات کو اور آپ ﷺ جب کسی قوم پر رات کو پہنچتے تو جنگ شروع نہ کرتے یہاں تک کہ صبح ہو تو خیبر کے یہودی اپنی کدالیں اور زنبلیں لے کر نکلے جب انہوں نے آپ ﷺ کو دیکھا تو کہنے لگے قسم ہے اللہ کی محمد ہیں اور پورا لشکر ان کے ساتھ ہے تو فرمایا آپ ﷺ نے اللہ اکبر خراب ہو خیبر انا اذانزلنا بساحہ قوم فساء صباح المنذرین۔
گھوڑوں کا اور گھوڑ دوڑ کا بیان اور جہاد میں صرف کرنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص ایک جوڑا صرف کرے اللہ کی راہ میں تو قیامت کے روز جنت کے دروازے پر پکارا جائے گا اے بندے اللہ کے ! یہ خیر ہے تو جو شخص نمازی ہوگا وہ نماز کے دروازے سے بلایا جائے گا جو شخص جہادی ہوگا وہ شخص جہاد کے دروازے سے بلایا جائے گا جو شخص صدقہ دینے والا ہوگا وہ صدقہ کے دروازے سے بلایا جائے گا جو شخص روزے بہت رکھے گا اور باب الریان سے بلایا جائے گا حضرت ابوبکر صدیق نے کہا یا رسول اللہ ﷺ جو شخص کسی ایک دروازے سے بلایا جائے اس کو کچھ حزن نہ ہوگا مگر کوئی ایسا بھی جو سب دروازوں سے بلایا جائے آپ ﷺ نے فرمایا ہاں اور مجھے امید ہے کہ تم ان میں سے ہوگے۔
ذمیوں میں سے جو کوئی مسلمان ہوجائے اس کی زمین کا بیان دو آدمیوں یا زیادہ کو ایک قبر میں دفن کرنے کا بیان اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وعدے کا بعد آپ کی وفات کے ابوبکر کی وفا کرنے کا بیان
عبدالرحمن بن ابی صعصہ سے روایت ہے کہ عمرو بن الجموع اور عبدالرحمن بن عمرو انصار سلمی جو شہید ہوئے تھے جنگ احد میں ان کی قبر کو پانی کے بہاؤ نے اکھیڑ دیا تھا اور قبر ان کی بہاؤ کے نزدیک تھی اور دونوں ایک ہی قبر میں تھے تو قبر کھودی گئی تو لاشیں ویسی ہی تہیں جیسے وہ شہید ہوئے تھے گویا کل مرے ہیں ان میں سے ایک شخص کو جب زخم لگا تھا تو اس نے ہاتھ اپنے زخم پر رکھ لیا تھا جب ان کو دفن کرنے لگے تو ہاتھ وہاں سے ہٹایا مگر ہاتھ پر وہیں آلگا جب ان کی لاشیں کھو دیں تو جنگ احد کو چھیالیس برس گزر چکے تھے۔
ذمیوں میں سے جو کوئی مسلمان ہوجائے اس کی زمین کا بیان دو آدمیوں یا زیادہ کو ایک قبر میں دفن کرنے کا بیان اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وعدے کا بعد آپ کی وفات کے ابوبکر کی وفا کرنے کا بیان
ربیعہ بن ابی عبدالرحمن (رض) روایت ہے کہ حضرت ابوبکر کے پاس روپیہ آیا بحرین سے آپ ﷺ نے منادی کرائی کہ جس سے رسول اللہ ﷺ نے کچھ دینے کا وعدہ کیا ہو وہ ہمارے پاس آئے جابر بن عبداللہ حضرت ابوبکر نے ان کو تین لپ بھر کردیئے۔