23. کتاب نذروں کے بیان میں
پیدل چلنے کی نذروں کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ نے پوچھا رسول اللہ ﷺ سے کہ میری ماں مرگئی اور اس پر ایک نذر واجب تھی اس نے ادا نہیں کی آپ نے فرمایا تو ادا کرو اس کی طرف سے۔
پیدل چلنے کی نذروں کا بیان
عبداللہ بن ابی بکر سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا اپنی پھوپھی سے انہوں نے بیان کیا کہ ان کی دادی نے نذر کی مسجد قبا میں پیدل جانے کی پھر مرگئیں اور اس نذر کو ادا نہیں کیا تو عبداللہ بن عباس نے ان کی بیٹی کو حکم کیا کہ وہ ان کی طرف سے اس نذر کو ادا کریں۔
پیدل چلنے کی نذروں کا بیان
عبداللہ بن ابی حبیبہ سے روایت ہے کہ میں نے کہا ایک شخص سے اور میں کمسن تھا کہ اگر کوئی شخص صرف اتنا ہی کہے کہ علی مشئی الی بیت اللہ یعنی میرے اوپر پیدل چلنا ہے بیت اللہ تک اور یہ نہیں کہا کہ میرے اوپر نذر ہے پیدل چلنے کی بیت اللہ تک تو اس پر کچھ لازم نہیں آتا، وہ شخص مجھ سے بولا کہ میرے ہاتھ میں یہ ککڑی ہے تجھے دیتا ہوں تو اتنا کہہ دے کہ میرے اوپر پیدل چلنا ہے بیت اللہ تک میں نے کہا ہاں کہتا ہوں تو میں نے کہہ دیا اور میں کم سن تھا پھر ٹھہر کر تھوڑی دیر میں مجھے عقل آئی اور لوگوں نے مجھ سے کہا کہ تجھ پیدل چلنا بیت اللہ تک واجب ہوا میں سعید بن مسیب کے پاس آیا اور ان سے پوچھا انہوں نے بھی کہا کہ تجھ پر پیدل چلنا واجب ہوا بیت اللہ تک تو میں پیدل چلا بیت اللہ تک۔
جو شخص نذر کرے پیدل چلنے کی بیت اللہ تک اس کا بیان
عروہ بن اذینه لیثی سے روایت ہے کہ کہا میں نکلا اپنی دادی کے ساتھ اور اس نے نذر کی تھی بیت اللہ تک پیدل جانے کی، راستے میں تھک گئیں تو اپنے غلام کو بھیجا عبداللہ بن عمر کے پاس مسئلہ پوچھنے کو میں بھی ساتھ گیا اس نے عبداللہ بن عمر سے پوچھا انہوں نے جواب دیا کہ اب سوار ہوجائے پھر دوبارہ جب آئے جہاں سے سوار ہوئی تھیں وہاں سے پیدل چلے۔ کہا مالک نے اور باوجود اس کے ایک ہدیہ بھی اس پر واجب ہے۔ سعید بن مسیب اور ابا سلمہ بن عبدالرحمن کہتے تھے اس مسئلہ میں جیسا عبداللہ بن عمر نے کہا۔
جو شخص نذر کرے پیدل چلنے کی بیت اللہ تک اس کا بیان
یحییٰ بن سعید نے کہا میں نے بیت اللہ تک پیدل چلنے کی نذر کی تھی میری ناف میں درد ہونے لگا میں سوار ہو کر مکے میں آیا اور عطا بن ابی رباح وغیرہ سے پوچھا انہوں نے کہا تجھ کو ہدی لازم ہے جب میں مدینہ آیا وہاں لوگوں سے پوچھا انہوں نے کہا تجھ کو دوبارہ پیدل چلنا چاہئے جہاں سے سوار ہوا تھا تو پیدل چلائیں۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک جو شخص یہ کہے کہ مجھ پر پیدل چلنا ہے بیت اللہ تک اور چلے پھر عاجز ہوجائے تو سوار ہوجائے پھر دوبارہ جب آئے تو جہاں سے سوار ہوا تھا وہاں سے پیدل چلے اگر چلنے کی طاقت نہ ہو تو جہاں تک ہو سکے چلے پھر سوار ہوجائے اور ہدی میں ایک اونٹ یا گائے دے اگر نہ ہو سکے تو بکری دے۔
کعبہ کی طرف پیدل چلنے کا بیان
کہا مالک نے اگر مرد یا عورت قسم کھائے کعبہ شریف کو پیدل جانے کی پھر قسم اس کی ٹوٹے اور اس کو پیدل جانا کعبہ کا لازم آئے تو عمرہ میں جب تک سعی سے فارغ ہو پیدل چلے اور حج میں جب تک طواف الزیارۃ سے فارغ ہوپیدل چلے۔
جونذریں دوست نہیں جنمیں اللہ کی نا فرمانی ہوتی ہے ان کا بیان
حمید بن قیس اور ثور بن زید سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دھوپ میں کھڑا ہوا دیکھا آپ ﷺ نے اس کا باعث پوچھا لوگوں نے کہا اس نے نذر کی ہے کہ میں کسی سے بات نہ کروں گا نہ سایہ لوں گا نہ بیٹھوں گا اور روزہ سے رہوں گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کو حکم کرو بات کرے، سایہ میں آئے، بیٹھے، روزہ اپنا پورا کرے۔
جونذریں دوست نہیں جنمیں اللہ کی نا فرمانی ہوتی ہے ان کا بیان
قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ ایک عورت عبداللہ بن عباس کے پاس آئی اور بولی میں نے نذر کی اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کی ابن عباس نے کہا مت ذبح کر اپنے بیٹے کو اور کفارہ دے اپنی قسم کا ایک شخص بولا ابن عباس (رض) سے اس نذر میں کفارہ کیوں ہوگا ابن عباس نے جواب دیا کہ ظہار بھی ایک معصیت ہے اور اس میں اللہ نے کفارہ مقرر کیا۔
جونذریں دوست نہیں جنمیں اللہ کی نا فرمانی ہوتی ہے ان کا بیان
کہا مالک نے رسول اللہ ﷺ نے جو یہ فرمایا اگر کوئی نذر کرے اللہ کی معصیت کی تو معصیت نہ کرے مراد اس سے یہ ہے کہ مثلا آدمی نذر کرے شام یا مصر یا جدہ یا زبدہ میں جانے کی یا اور کسی کام کی جو ثواب نہیں ہے اگر ایسے امورات میں اس کی قسم ٹوٹے مثلا یوں کہے کہ اگر میں زید سے بات کروں تو مصر جاؤں گا پھر زید سے پات کرے تو اس پر کچھ لازم نہیں آتا بلکہ اس نذر کا پورا کرنا ضرور ہے جس میں ثواب ہو۔
لغو قسم کا بیان
حضرت ام المومنین عائشہ فرماتی تھیں کہ لغو قسم وہ ہے جو آدمی باتوں میں کہتا ہے نہیں واللہ ہاں واللہ۔
جن قسموں میں کفارہ واجب نہیں ہوتا ان کا بیان
عبداللہ بن عمر کہتے تھے جو شخص قسم کھائے اللہ کی پھر کہے انشاء اللہ پھر نہ کرے اس کام کو جس پر قسم کھائی تھی تو اس کی قسم نہیں ٹوٹے گی۔
جن قسموں میں کفارہ واجب ہوتا ہے ان کا بیان
ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص قسم کھائے کسی کام پر پھر اس کے خلاف بہتر معلوم ہو تو کفارہ دے قسم کا اور کرے جو بہتر معلوم ہو۔
قسم کے کفارہ کا بیان
عبداللہ بن عمر کہتے تھے جو شخص قسم کھائے پھر اس کو مکرر سہ کرر کہے پھر قسم توڑے تو اس پر ایک بردے کا آزاد کرنا یا دس مسکینوں کو کپڑا پہنانا لازم آئے گا اگر ایک ہی مرتبہ کہے تو دس مسکینوں کو کھانا دے ہر مسکین کو ایک مد گہیوں کا اگر اس پر قدرت نہ ہو تو تین روزے رکھے۔
قسم کے کفارہ کا بیان
سلیمان بن یسار نے کہا کہ میں نے لوگوں کو دیکھا کہ جب کفارہ قسم کا دیتے تھے تو ہر ایک مسکین کو ایک مد گہیوں کا چھوٹے مد سے دیا کرتے تھے اور اس کو کافی سمجھتے تھے۔
قسم کے کفارہ کا بیان
عبداللہ بن عمر جب اپنی قسم کا کفارہ دیتے تھے تو دس مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے اور ہر مسکین کو ایک مد گہیوں کا دیتے تھے اور جب ایک قسم کو چند بار کہتے تھے تو اتنے ہی بردے آزاد کرتے تھے۔
قسم کے بیان میں مختلف احادیث
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ملے عمر بن خطاب سے اور وہ جا رہے تھے سواروں میں اور قسم کھا رہے تھے اپنے باپ کی فرمایا آپ ﷺ نے اللہ جل جلالہ منع کرتا ہے تم کو اس بات سے کہ قسم کھاؤ تم اپنے باپو کی جو شخص تم میں سے قسم کھانی چاہے تو اللہ کی قسم کھائے یا چپ رہے۔ امام مالک کو پہنچا رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے قسم مقلب القلوب کی۔
قسم کے بیان میں مختلف احادیث
ابن شہاب سے روایت ہے کہ ابولبابہ کی توبہ جب اللہ نے قبول کی تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ کیا چھوڑ دوں میں اپنی قوم کے گھر کو جس میں میں نے گناہ کیا اور آپ ﷺ کے قریب رہوں اور اپنے مال میں سے صدقہ نکالوں اللہ و رسول اللہ ﷺ کے واسطے تو فرمایا آپ ﷺ نے تہائی مال تجھ کو اپنے مال میں سے صدقہ نکالنا کافی ہے۔
قسم کے بیان میں مختلف احادیث
حضرت عائشہ سے سوال ہوا ایک شخص نے کہا مال میرا کعبہ کے دروازے پر وقف ہے انہوں نے کہا اس میں کفارہ قسم کا لازم آئے گا۔ کہا مالک نے جو شخص یہ کہے کہ مال میرا اللہ کی راہ میں ہے تو تہائی مال صدقہ کرے کیونکہ آپ ﷺ نے ابی لبابہ کو ایسا ہی حکم کیا۔