32. مکاتب کے بیان میں
مکاتب کے احکام کے بیان
عبداللہ بن عمر کہتے تھے مکاتب غلام رہے گا جب تک اس پر کچھ بھی بدل کتابت میں سے باقی رہے۔ عروہ بن زبیر اور سلیمان بن یسار کہتے تھے مکاتب غلام ہے جب تک اس پر کچھ بھی بدل کتاب میں سے باقی ہے۔ کہا مالک نے میری رائے یہی ہے کہ اگر مکاتب اپنی بدل کتابت سے زیادہ مالک چھوڑ کر مرجائے اور اپنی اولاد کو جو حالت کتابت میں پیدا ہوئی تھی یا عقدکتابت میں داخل تھی چھوڑ جائے تو پہلے اس کے مالک میں سے بدل کتابت ادا کریں گے پھر جس قدر بچ رہے گا اس کی وارث مکاتب کی اولاد ہوگی۔
مکاتب کے احکام کے بیان
حمید بن قیس مکی سے روایت ہے کہ ایک مکابت ابن متوکل کا مکہ میں مرگیا اور کچھ بدل کتابت اس پر باقی رہ گیا تھا اور لوگوں کا قرض بھی تھا اور ایک بیٹی چھوڑ گیا تو مکہ کے عامل کو اس باب میں حکم کرنا دشوار ہو تو اس نے عبدالملک بن مروان کو لکھا عبدالملک نے اس کے جواب میں لکھا کہ پہلے لوگوں کا قرض ادا کر پھر جس قدر بدل کتابت باقی رہ گیا ہے اس کو ادا کر بعد اس کے جو کچھ بچے وہ اس کی بیٹی اور مولیٰ کو تقسیم کر دے۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے اگر غلام اپنے مولیٰ کو کہے مجھ کو مکاتب کردے تو مولیٰ پر ضروری نہیں خواہ مخواہ مکاتب کرے اور میں نے کسی عالم سے نہیں سنا کہ مولیٰ پر جبر ہوگا اپنے غلام کے مکاتب کرنے پر اور جب وہ شخص اس نے اللہ جل جلالہ کے اس قول کو بیان کرتا کہ مکاتب کرو اپنے غلاموں کو اگر اس میں بہتری جانو تو وہ یہ آئیتیں پڑھتے جب تم احرام کھول ڈالو شکار کرو۔ جب نماز ہوجائے تو پھیل جاؤ زمین میں اور اللہ کا فضل ڈھونڈو۔ کہا مالک بلکہ یہ امر اذن کے واسطے ہے نہ کہ وجودجوب کے واسطے۔ کہا مالک نے میں نے بعض اہل علم سے سنا اس آیت کی تفسیر میں (دو تم اپنے مکاتبوں کو اس مالک سے جو دیا تم کو اللہ تعالیٰ نے) کہتے تھے مراد اس آیت سے یہ ہے کہ آدمی اپنے غلام کو مکاتب کرے پھر اس کے بدل کتابت میں سے کچھ معاف کردے۔ کہا مالک نے میں نے یہ اچھا سنا اور اسی پر لوگوں کو عمل کرتے ہوئے پایا۔ کہا مالک نے جب غلام مکاتب ہوجائے اس کا مال اسی کو ملے گا۔ مگر اولاد اس کے عقد کتابت میں داخل نہ ہوگی البتہ جب شرط لگائے تو اولاد بھی داخل ہوگی۔ کہا مالک نے جس شخص نے اپنے غلام کو مکاتب کیا اور اس غلام کی ایک لونڈی تھی جو حاملہ تھی اس سے مگر حمل کا حال نہ غلام کو معلوم تھا نہ مولیٰ کو تو وہ بچہ جب پیدا ہوگا مکاتب کو نہ ملے گا بلکہ مولیٰ کو ملے گا البتہ لونڈی مکاتب ہی کی رہے گی کیونکہ وہ اس کا مال ہے۔ کہا مالک نے اگر ایک عورت اپنا مکاتب چھوڑ کر مرگئی اور اس کے دو وارث ہیں ایک خاوند اور ایک لڑکا اس عورت کا پھر مکاتب مرگیا قبل ادا کرنے بدل کتابت کے تو خاوند اور لڑکا موافق کتاب اللہ کے اس کی میراث کو تقسیم کرلیں گے۔ (ایک ربع خاوند کا ہوگا اور باقی بیٹے کا) اور جو بعد ادا کرنے بدل کتابت کے مرا تو میراث اس کی سب بیٹے کو ملے گی خاوند کو کچھ نہ ملے گا۔ کہا مالک نے اگر مکاتب اپنے غلام کو مکاتب کرے تو دیکھیں گے اگر اس نے رعایت کے طور پر بدل کتابت کم ٹھہریا ہے تو یہ کتابت جائز نہ ہوگی اور جو بدل کتابت اپنا فائدہ دیکھ کر ٹھہرایا ہے تو جائز ہوگی۔ کہا مالک نے جو شخص اپنی مکاتبہ لونڈی سے صحبت کرے اور وہ حاملہ ہوجائے تو اس لونڈی کو اختیار ہے چاہے وہ ام ولد بن کر رہے چاہے اپنی کتابت قائم رکھے اگر حاملہ نہ ہو تو وہ مکاتب رہے گی۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ جو غلام دو آدمیوں میں مشترکہ ہو اس کو کوئی مکاتب نہیں کرسکتا اگرچہ دوسراشریک اجزات بھی دے بلکہ دونوں شریک مل کر مکاتب کرسکتے ہیں کیونکہ اگر ایک شرفیک اپنے حصہ کو مکاتب کردے گا اور مکاتب بدل کتابت ادا کردے گا تو اس قدر حصہ آزاد ہوناپڑے گا اب اس شریک پر جس نے کچھ حصہ آزاد کیا لام نہیں کہ دوسرے شریک کو ضمانت دے کر اس کی آزادی پوری کرے کیونکہ آنحضرت ﷺ نے یہ حکم فرمایا ہے دوسرے شریک کے حصہ کی قیمت ادا کرنے کا وہ عتاق میں ہے نہ کی کتابت میں۔ کہا مالک نے اگر اس شریک کو یہ مسئلہ معلوم نہ ہو وہ اپنے حصہ کو مکاتب کرکے کل یا بعض بدل کتابت وصول کرے تو جس قعف وصول کیا ہو اس کو وہ اور اس کا شریک اپنے حصوں کو موافق بانٹ لیں کتابت باطل ہوجائے گی اور وہ مکاتب بدستور غلام رہے گا۔ کہا مالک نے جو مکاتب دو آدمیوں میں مشترک ہو پھر ایک آدمی ان میں سے اس کو مہلت دے اور دوسرانہ دے اور جس شخص نے مہلت نہ دی وہ اپنا کچھ حق وصول کرلے بعد اس کے مکاتب مرجائے اور اس قدر مال نہ چھوڑے کہ اس کے بدل کتابت کو کافی ہو تو جس قدر مال چھوڑ گیا ہے تو پہلے دونوں شریک اپنے اپنے بقایا وصول کر کے جو کچھ بچے گا برابر بانٹ لیں گے۔ اگر مکاتب عاجز ہوگا اور جس شخص نے مہلت نہ دی اس نے دوسرے شریک کی نسبت کچھ زیادہ وصول کرلیا ہے تو غلام دونوں میں آدھا آدھا مشترک رہے گا اور جس نے زیادہ لیا ہے وہ اپنے شریک کو کچھ نہ پھیرے گا کیونکہ اس نے اپنے شریک کی اجازت سے لیا ہے۔ اگر ایک نے اپنا حصہ معاف کردیا تھا اور دوسرے نے کچھ وصول کیا پھر غلام عاجز ہوگیا تو وہ غلام دونوں میں مشترک رہے گا اور جس نے کچھ وصول کرلیا ہے وہ دوسرے شریک کو کچھ نہ دے گا کیونکہ اس نے اپنا حق وصول کیا اس کی مثال یہ ہے کہ دو آدمیوں کا قرض ایک ہی دستاویز کی فو سے ایک آدمی پر ہو پھر ایک شخص اس کو مہلت دے اور دوسرا حرض کرکے کچھ وصول کرلے بعد اس کے قرض دار مفلس ہوجائے پھر جس شخص نے وصول کرلیا ہے وہ دوسرے شریک کو اس میں سے کچھ نہ دے گا۔
کتابت میں ضمانت کا بیان
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ امر اتفاقی ہے کہ چند غلام اگر ایک ہی عقد میں مکاتب کئے جائیں تو ایک کا بار دوسرے کو اٹھانا پڑے گا اگر ان میں سے کوئی مرجائے تو بدل کتابت کم نہ ہوگا اگر کوئی ان میں سے عاجز ہو کر ہاتھ پاؤں چھوڑ دے تو اس کے ساتھیوں کو چاہیے کہ موافق طاقت کے اس سے مزدوری کرائیں اور بدل کتابت کے ادا کرنے میں مددلیں اگر سب آزاد ہوں گے وہ بھی آزاد ہوگا اور جو سب غلام ہوں گے وہ بھی غلام ہوگا۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ امر اتفاقی ہے کہ بدل کتابت کی ضمانت نہیں ہوسکتی تو غلام کو جب مولیٰ مکاتب کرے تو بدل کتابت کی ضمانت اگر غلام عاجز ہوجائے یا مرجائے کسی سے نہیں لے سکتا نہ یہ مسلمانوں کا طریقہ ہے کیونکہ اگر کوئی شخص مکاتب کے بدل کتابت کا ضامن ہو اور مولیٰ اس پیچھا کرے ضامن سے بدل کتابت وصول کرے تو یہ وصول کرنا ناجائز طور پر ہوگا کیونکہ ضامن نے نہ مکاتب کو خرید کیا تاکہ جو مالک دیا ہے اس کے عوض میں آجائے نہ مکاتب آزاد ہوا کہ وہ مالک اس کی آزادی کا بدلہ ہو بلکہ مکاتب جب عاجز ہوگیا تو پھر اپنے مولیٰ کا غلام ہوگیا اس کی وجہ یہ ہے کہ کتابت دین صحیح نہیں جس کی ضمانت درست ہو۔ کہا مالک نے جب غلام ایک ہی عقد میں مکتب کئے جائیں اور ان میں آپس میں ایسی قرابت نہ ہو جس کے سبب سے ایک دوسرے وارث نہ ہوں تو وہ سب ایک دوسرے کے کفیل ہوں گے کوئی ان میں سے بغیر دوسرے کے آزاد نہ ہو سکے گا۔ یہاں تک کہ بدل کتابت پوراپورا ادار کردیں اگر ان میں سے کوئی مرجائے اور اس قدر مال چھوڑ گیا جو وسب کے بدل کتابت سے زیادہ ہے تو اس مال میں سے بدل کتابت ادا کیا جائے گا اور جو کچھ بچ رہے گا مولیٰ لے لے گا اس کے ساتھیوں کو نہ ملے گا پھر ایک غلام کی آزادی میں جس قدر روپیہ اس مال میں صرف ہوا ہے اس کو مولیٰ ہر ایک غلام سے مجرالے گا۔ کیونکہ جو غلام مرگیا ہے وہ ان کا کفیل تھا جس قدر روپیہ اس کا ان کی آزادی میں اٹھا ان کو ادا کرنا پڑے گا۔ اگر اس مکاتب کا جو مرگیا کوئی آزادلڑکا ہو جو حالت کتابت میں پیدا نہ ہوا ہو نہ عقد کتابت اس پر واقع ہوا ہو تو وہ اس کا وارث نہ ہوگا کیونکہ مکاتب مرتے وقت آزاد نہ تھا۔
مکاتب سے قطاعة کرنے کا بیان
حضرت ام سلمہ اپنے مکاتبوں سے قطاعت کرتیں سونے چاندی پر۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ امر اتفاقی ہے کہ جو مکاتب دو آدمیوں میں مشترک ہو تو ایک شریک کو جائز نہیں کہ بغیر دوسرے شریک کی اذن کے اپنے حصے کی قطاعت کرے کیونکہ غلام اور اس کا مالک دونوں میں مشترک ہے ایک کو نہیں پہنچتا کہ اس کے مال میں تصرف کرے بغیر دوسرے شریک کے پوچھے ہوئے اگر ایک شریک نے قطاعت کے بغیر دوسرے سے پوچھے ہوئے اور زرقطاعت وصول کرلیا بعد اس کے مکاتب کچھ مال چھوڑ کر مرگیا تو قطاعت کرچکا اس کو اس مکاتب کے مالک میں استحقاق نہ ہوگا نہ یہ ہوسکے گا کہ زرقطاعت کو پھیر دے اور اس مکاتب کو پھر غلام کرلے البتہ جو شخص اپنے شریک کے اذن سے قطاعت کرے پھر مکاتب عاجز ہوجائے اور قطاعت کرنے والا یہ چاہے کہ زر قطاعت پھیر کر اس غلام کا اپنے حصے کے موافق مالک ہوجائے تو ہوسکتا ہے۔ اگر مکاتب مرجائے اور مال چھوڑ جائے تو جس شریک نے قطاعت نہیں کی اس کا بدل کتابت ادا کرکے جو کچھ مال بچے گا اس کو دونوں شریک اپنے حصے کے موافق بانٹ لیں گے اگر ایک نے قطاعت کی اور دوسرے نے نہ کی اور دوسرے نے ننہ کی بعد اس کے مکاتب عاجز ہوگیا تو جس نے قطاعت کی اس سے کہا جائے گا اگر تجھ کو منظور ہے تو جس قدر روپیہ تو نے قطاعت کا لیا ہے اس کا آدھا اپنے شریک کو پھیر دے غلام تم دونوں میں مشرت رہے گا ورنہ پورا غلام اس شخص کا ہوجائے گا جس نے قطاعت نہیں کی۔ کہا مالک نے جو مکاتب دو آدمیوں میں مشترک ہو ایک آدمی ان میں سے قطاعت کرے دوسرے کے اذن سے پھر جس نے قطاعت نہیں کی وہ بھی اسی قدر غلام سے وصول کرے جتنا قطاعت کرنے والے نے وصول کیا ہے یا اس سے زیادہ بعد اس کے مکاتب عاجز ہوجائے تو قطاعت والا قطاعت نہ کرنے والے سے کچھ پھیر نہ سکے گا اگر دوسرے شریک نے قطاعت سے کم وصول کیا پھر غلام عاجز ہوگیا تو قطاعت والے کو اختیار ہے اگر چاہے تو جتنی قطاعت زیادہ ہے اس کا نصف اپنے شریک کو دے کر غلام میں آدھم ساجھا کریں اگر نہ دے تو سارا غلام دوسرے شریک کا جائے گا اگر مکاتب مرجائے اور مال چھوڑ گیا اور قطاعت والے نے چاہا کہ جتنا زیادہ لیا ہے اس کا نصف اپنے شریک کو پھیر دے اور میراث میں شریک ہوجائے تو ہوسکتا ہے اور جس نے قطاعت نہیں کی وہ بھی مکاتب سے قطاعت کے برابریا اس سے زیادہ وصول کرچکا ہے اس صورت میں میراث دونوں کے ملے گی کیونکہ ہر ایک نے اپنا حق وصول کرلیا۔ کہا مالک نے جو مکاتب دو آدمیوں میں مشترک ہو ایک اس سے قطاعت کرے اپنے حق کے نصف پر دوسرے کے اذن سے پھر جس نے قطاعت نہیں کی وہ بھی مکاتب سے قطاعت سے کم وصول کرے بعد اس کے مکاتب عاجز ہوجائے تو قطاعت والا اگر چاہے جتنی قطاعت زیادہ ہے اس کا آدھا اپنے شریک کو دے کر غلام میں آدھم ساجھا کرلیں ورنہ اس قدر حصہ غلام کا دوسرے شریک کا ہوجائے گا۔ کہا مالک نے اس کی شرح یہ ہے کہ مثلا ایک غلام دو آدمیوں میں مشترک ہو دونوں مل کر اس کو مکاتب کریں پھر ایک شریک اپنے نصف حق پر غلام سے قطاعت کرلے یعنی پورے غلام کے ربع پر بعد اس کے مکاتب عاجز ہوجائے تو جس نے قطاعت کی ہے اس سے کہا جائے گا کہ جس قدر تو نے زیادہ لیا ہے اس کا نصف اپنے شریک کو پھیر دے اور غلام میں آدھم ساجھا رکھ اگر وہ انکار کرے تو قطاعت والے کا ربع غلام بھی اس شریک کو مل جائے گا اس صورت میں اس شریک کے تین ربع ہوں گے اور اس کا ایک ربع۔ کہا مالک نے اگر مکاتب سے اس مولیٰ قطاعت کرے اور وہ آزاد ہوجائے اور جس قدر قطاعت کا روپیہ مکاتب پر رہ جائے وہ اس پر قرض ہے بعد اس کے مکاتب مرجائے اور وہ مقروض ہو لوگوں کا تو مولیٰ دوسرے قرض خواہوں کے برابر نہ ہوگا بلکہ اس مال میں سے پہلے اور قرض خواہ اپنا قرضہ وصول کریں گے۔ کہا مالک نے جو مکاتب مقروض ہو اس سے مولیٰ قطاعت نہ کرے ایسا نہ ہو کہ وہ غلام آزاد ہوجائے بعد اس کے سارا مال اس کا قرض خواہوں کو مل جائے مولیٰ کو کچھ نہ ملے گا۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے اگر کوئی شخص اپنے غلام کو مکاتب کرے پھر اس سے سونے پر قطاعت کرے اور بدل کتابت معاف کردے اس شرط سے کہ زر قطاعت فی الفوردے دے تو اس میں کچھ قباحت نہیں ہے اور جس شخص نے اس کو مکروہ رکھا ہے اس نے یہ خیال کیا کہ اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص کا میعادی قرضہ کسی پر ہو وہ اس کے بدلے میں کچھ نقد لے کر قرضہ چھوڑ دے حالانکہ یہ قرض کی مثل نہیں ہے بلکہ قطاعت اس لئے ہوتی ہے کہ غلام جلد آزاد ہوجائے اور اس کے لئے میراث اور شہادت اور حدود لازم آجائیں اور حرمت عتاقہ ثابت ہوجائے اور یہ نہیں لے کہ اس نے روپیوں کو روپیوں کے عوض میں یا سونے کو سونے کے عوض میں خریدا بلکہ اس کی مثال یہ ہے۔ ایک شخص نے اپنے غلام سے کہا تو مجھے اس قدر اشرفیاں لادے اور تو آزاد ہے پھر اس سے کم کرکے کہا اگر اتنے بھی لادے تو بھی تو آزاد ہے۔ کیونکہ بدل کتابت دین صحیح نہیں ہے ورنہ جب مکاتب مرجاتا تو مولیٰ بھی اور قرض خواہوں کے برابر اس کے مال کا دعویٰ دار ہوتا ہے۔
مکاتب کسی شخص کو زخمی کرے
کہا مالک نے اگر مکاتب کسی شخص کو ایسا زخمی کرے جس میں دیت واجب ہو تو اگر مکاتب اپنے بدل کتابت کے ساتھ دیت بھی ادا کرسکے تو دیت ادا کردے وہ مکاتب بنا رہے گا اگر اس پر قدر نہ ہو تو اپنی کتابت سے عاجز ہوا کیونکہ دیت کا ادا کرنا کتابت پر مقدم ہے پھر جب دیت دینے سے عاجز ہوجائے تو اس کے مولیٰ کو اختیار ہے اگر چاہے تو دیت ادا کردے اور مکاتب کو غلام سمجھ کر رکھ لے اب وہ بدستور اس کا غلام ہوجائے گا اگر چاہے تو خود مکاتب کو اس شخص کے حوالے کر جو زخمی ہوا ہے مگر مولیٰ پر لازم نہیں ہے کہ غلام دے ڈالنے سے زیادہ اور کچھ اپنا نقصان کرے۔ کہا مالک نے اگر چند غلام ایک ساتھ مکاتب ہوں پھر ان میں سے ایی غلام کسی شخص کو زخمی کرے تو سب غلاموں سے کہا چائے گا دیت ادا کرو اگر ادا کریں گے اپنی کتابت پر قائم رہیں گے اگر نہ کریں گے سب کے سب عاجز سمجھے جائیں گے چاہے جس غلام نے زخمی کیا ہے اس کو حوالے کردے باقی غلام بدستور مولیٰ کے غلام ہوجائیں گے کیونکہ وہ دیت دینے سے عاجز ہوگئے۔ کہا مالک نے اس کی شرح یوں ایک شخص انے اپنے غلاموں کو تین ہزار درہم پر مکاتب کیا اور اس کے زخم کی دیت ایک ہزار درہم وصول پائی تو اب جب وہ مکاتب دوہزار درہم ادا کردے گا آزاد ہوجائے گا اگر مولیٰ کے اس غلام پر ہزارہی درہم بابت کتابت کے باقی تھے کہ ایک ہزار درہم دیت کے پائے تو ہو آزاد ہوجائے گا اور جس قدر درہم باقی تھے اس سے زیادہ دیت کے درہم پائے تو مولیٰ جتنے باقی تھے اتنے لے کر باقی مکاتب کو پھیر دے گا اور مکاتب آزاد ہوجائے گا یہ درست نہیں کہ مکاتب کی دیت اسی کو حوالہ کردیں وہ کھاپی کر برابر کردے پھر اگر عاجز ہوجائے تو کا نالنگڑالولا ہو کر اپنے مولیٰ کے پاس آئے کیونکہ مولیٰ نے اس کو اختیاردیا تھا اس کے مال اور کمائی پر نہ اپنی اولاد کی قیمت یا اپنی دیت پر کہ وہ کھاپی کر برابر کردے بلکہ مکاتب کی دیت اور اس کی اولاد کی دیت جو حالت کتابت میں پیدا ہوئی یا ان پر عقد کتابت ہوا مولیٰ کو دی جائے گی اور اس کے بدل کتابت میں مجرا ہوگی۔
مکاتب کی کتابت کو بیچنے کا بیان
کہا مالک نے جو شخص اپنے غلام کو روپیوں اشرفیوں پر مکاتب کرے وہ اس کی کتابت کو کسی اسباب کے بدلے میں بیچے مگر نقدا نقد وعدے پر نہیں کیونکہ اگر وعدہ کرے گا تو کالی کی بیع بعوض کالی کے ہوجائے گی یعنی دین کی بعوض دین کے اور اگر کسی مال پر مکاتب کیا ہو جیسے اونٹ یا گائے یا بکریاں یا غلاموں پر تو مشتری (خریدنے والا) کو جائز ہے کہ روپیہ اشرفی دے کر اس کی کتابت خرید لے یا دوسری جنس دے کر سوا اس جنس کے جس پر مکاتب ہوا ہے مگر یہ ضروری ہے کہ دام نقدا نقد دے دیر نہ کرے۔ کہا مالک نے اگر چند شریک ہیں ایک مکاتب میں ان میں سے ایک شریک نے اپنا حصہ کتابت بیچنا چاہا ثلث یا ربع یا نصف تو مکاتب کو مثل شفیع کے یہ جبر نہیں پہنچتا کہ اس حصے کو خودخریدے کیونکہ یہ خرید مثل قطاعت کے ہے اور مکاتب کو یہ درست نہیں کہ اپنے شریک سے قطاعت کرلے مگر اور شریکوں کے اذن سے اور اس قدر حصہ خریدنے سے اس کو پوری آزادی بھی حاصل نہیں ہوتی اور اپنے مال پر قادر نہیں ہے بلکہ تھوڑا حصہ خریدنے میں یہ بھی خیال ہے کہ عاجز ہوجائے کیونکہ اس کا مال اس خرید میں صرف ہوجائے گا اور یہ اس کی مثل نہیں ہے کہ مکاتب اپنے تئیں پورا پورا خرید لے ہاں جس صورت میں باقی شرکاء بھی اجازت دیں تو اوروں سے زیادہ اس کو اس حصے کے خریدنے کا استحقاق ہوگا۔ کہا مالک نے مکاتب کی قسط کی بیع درست نہیں کیونکہ اس میں دھوکہ ہے اس واسطے کہ اگر مکاتب عاجز ہوگیا تو اس کے ذمے جو روپیہ تھا باطل ہوگیا اور اگر مکاتب مرگیا یا مفلس ہوگیا اور اس پر لوگوں کے قرضے ہیں تو جس شخص نے اس کی قسط خریدی تو وہ قرض خواہوں کے برابر نہ ہوگا بلکہ مثل مکاتب کے مولیٰ کے ہوگا اور مولیٰ مکاتب کے قرض خواہوں کے برابر نہیں ہوتا اسی طرح خراج مولیٰ کا اگر غلام کے ذمے پر جمع ہوجائے تب بھی مولیٰ اور قرض خواہوں کے برابر نہ ہوگا۔ کہا مالک نے مکاتب اگر اپنی کتابت کو خرید لے نقد روپیہ اشرفی کے بدلے میں یا کسی اسباب کے بدلے میں جو بدل کتابت کی جنس سے نہ ہو یا اسی جنس سے مؤ جل ہو یا معجل ہو تو درست ہے۔ کہا مالک نے اگر مکاتب مرجائے اور اپنی ام ولد اور اولاد صغار کو جو اسی ام ولد سے ہو یا کسی اور عورت سے چھوڑ جائے اور اولاد اس کی محنت مزدوری پر قادر نہ ہو اور کتابت سے عاجز ہوجانے کا خوف ہو تو ام ولد کو بیچ ڈالیں گے جب اس کی قیمت اس قدر ہو کہ بدل کتابت پورا پورا ادا ہو سکے کیونکہ مکاتب کو اگر خوف ہوتا عجز کا تو وہ اس ام ولد کو بیچ سکتا ہے اسی طرح اولاد پر جب خوف ہوگا عجز کا تو ان کے باپ کی ام ولد بیچی جائے گی اور وہ آزاد ہوجائیں گے اگر اس ولد کی قیمت بدل کتابت کو مکتفی نہ ہو اور ام ولد سے محنت مزدوری نہ ہو سکے نہ مکاتب کی اولاد سے تو سب کے سب اپنے مولیٰ کے غلام ہوجائیں گے۔ کہا مالک نے جو شخص مکاتب کی کتابت خریدے پھر مکاتب مرجائے قبل اپنی کتابت ادا کرنے کے تو جس شخص نے کتابت خریدی ہے وہی اس کا وارث ہوگا اگر مکاتب عاجز ہوجائے تو اسی کا غلام ہوجائے گا اور اگر مکاتب نے بدل کتابت اس شخص کو ادا کردیا اور عاجز ہوگیا تو ولاء اس شخص کو ملے گی جس نے اس کو مکاتب کیا تھا نہ کہ اس شخص کو جس نے اس کی کتابت خریدی تھی۔
مکاتب کی محنت مزورری کا بیان
عروہ بن زبیر اور سلیمان بن یسار سے سوال ہوا جو شخص اپنے لئے اور اپنے بیٹوں کو مکاتب کرے اور پھر مرجائے تو اس کے بیٹے بدل کتابت کے ادا کرنے میں محنت مزدوری کریں گے یا غلام رہیں گے انہوں نے کہا سعی کریں گے اپنے باپ کی کتابت میں اور ان کے باپ کے مرجانے کی وجہ سے بدل کتابت میں کچھ کمی نہ ہوگی۔ کہا مالک نے اگر مکاتب کے بیٹے کمسن ہوں محنت مزدوری نہ کرسکیں تو ان کے بڑے ہونے کا انتظار نہ کیا جائے گا اور اپنے باپ کے مولیٰ کے غلام ہوجائیں گے مگر جس صورت میں مکاتب اس قدر مال چھوڑ جائے جو ان کے بلوغ تک کی قسطوں کو کافی ہو اس صورت میں بلوغ تک انتظار کیا جائے گا بعد بلوغ کے اگر بدل کتابت کو ادا کردیں تو آزاد ہوجائیں گے اور اگر عاجز ہوجائیں تو غلام ہوجائیں گے۔ کہا مالک نے اگر مکاتب مرجائے اور اس قدر مال چھوڑ جائے جو بدل کتابت کو مکتفی نہ ہو اور اپنی اولاد اور ام ولد کو جو کتابت میں داخل ہو چھوڑ جائے پھر ام ولد یہ چاہے وہ مال لے کر اولاد کے اور اپنے آزاد کرنے میں محنت مزدوری کرے تو اگر وہ ام ولد معتبر اور مشقت محنت پر قادر ہو تو وہ مال اس کے حوالے کیا جائے گا ورنہ وہ مال مولیٰ لے لے گا اور ام ولد اور مکاتب کی اولاد غلام ہوجائیں گے مولیٰ کے۔ کہا مالک نے اگر چند غلام ایک ہی وقت میں مکاتب کئے جائیں اور ان میں آپس میں کوئی قرابت نہ ہو پھر بعض ان میں سے عاجز ہوجائیں اور بعض محنت مزدوری کر کے بدل کتابت ادا کریں تو سب آزاد ہوجائیں گے پھر جن لوگوں نے محنت مزدوری کی ہے وہ ان لوگوں سے عاجز ہوگئے تھے ان کا حصہ پھیر لیں گے۔
اگر مکاتب جو قسطیں مقرر ہوئی تھیں اس سے پہلے بدل کتابت ادا کردے تو آزاد ہوجائے گا۔
ربیعہ بن ابی عبدالرحمن وغیرہ سے روایت ہے کہ فرافصۃ بن عمیر کا ایک مکاتب تھا جو مدت پوری ہونے سے پہلے سب بدل کتابت لے کر آیا فرافصہ نے اس کے لینے سے انکار کیا مکاتب مروان کے پاس گیا جو حاکم تھا مدینہ کا اس سے بیان کیا مروان نے فرافصہ کو بلا بھیجا اور کہا بدل کتابت لے لے فرافصہ نے انکار کیا مروان نے حکم کیا کہ مکاتب سے وہ مال لے کر بیت المال میں رکھا جائے اور مکاتب سے کہا جا تو آزاد ہوگیا جب فرافصہ نے یہ حال دیکھا تو مال لے لیا۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ مکاتب اگر اپنی سب قسطوں کو مدت سے پیشتر ادا کر دے تو درست ہے اس کے مولیٰ کو درست نہیں کہ لینے سے انکار کرے کیونکہ مولیٰ اس کے سبب سے ہر شرط کو اور خدمت کو اس کے ذمے سے اتار دیتا ہے اس لئے کہ کسی آدمی کی آزادی پوری نہیں ہوتی جب تک اس کی حرمت تمام نہ ہو اور اس کی گواہی جائز نہ ہو اور اس کو میراث کا استحقاق نہ ہو اور اس کے مولیٰ کو لائق نہیں کہ بعد آزادی کے اس پر کسی کام یا خدمت کی شرط لگائے۔ کہا مالک نے جو مکاتب سخت بیمار ہوجائے اور یہ چاہے کہ سب قسطیں اپنے مولیٰ کو ادا کر کے آزاد ہوجائے تاکہ اس کے وارث میراث پائیں جو پہلے سے آزاد ہیں اس کی کتابت میں داخل نہیں ہیں تو مکاتب کو یہ امر درست ہے کیونکہ اس سے اس کی حرمت پوری ہوتی ہے اور اس کی گواہی درست ہوتی ہے اور جن آدمیوں کے قرضہ کا اقرار کرے وہ اقرار جائز ہوتا ہے اور اس کی وصیت درست ہوتی ہے اور اس کے مولیٰ کو انکار نہیں پہنچتا اس خیال سے کہ اپنا مال بچانا چاہتا ہے۔
جب مکاتب آزاد ہوجائے اس کی میراث کا بیان
سعید بن مسیب سے سوال ہوا کہ ایک مکاتب دو آدمیوں میں مشترک ہو ایک شخص ان میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے پھر مکاتب مرجائے اور بہت سا مال چھوڑ جائے تو سعید نے کہا جس نے آزاد نہیں کیا اس کا بدل کتابت ادا کر کے باقی جو کچھ بچے گا دونوں شخص بانٹ لیں گے۔ کہا مالک نے جب مکاتب آزاد ہوجائے تو اس کا وارث وہ شخص ہوگا جس نے مکاتب کیا یا مکاتب کے قریب سے قریب رشتہ دار مردوں میں سے جس دن مکاتب مرا ہے لڑکا ہو یا اور عصبہ۔ کہا مالک نے اس طرح جو شخص آزاد ہوجائے تو اس کی میراث اس شخص کو ملے گی جو آزاد کرنے والے کا قریب سے قریب رشتہ دار ہو لڑکا ہو یا اور کوئی عصبہ جس دن وہ غلام مرا ہے۔ کہا مالک نے اگر چند بھائی کٹھا مکاتب کردیئے جائیں اور ان کی کوئی اولاد نہ ہو جو کتابت میں پیدا ہوئی ہو یا عقد کتابت میں داخل ہو تو وہ بھائی آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوں گے اگر ان میں سے کسی کا لڑکا ہوگا جو کتابت میں پیدا ہوا ہو یا اس پر عقد کتابت واقع ہوا ہو اور وہ مرجائے تو پہلے اس کے مال میں سے سب کا بدل کتابت ادا کر کے جو کچھ بچ رہے گا وہ اس کی اولاد کو ملے گا اس کے بھائیوں کو نہ ملے گا۔
مکاتب پر شرط لگانے کا بیان
کہا مالک نے جس شخص نے اپنے غلام کو مکاتب کیا سونے یا چاندی پر اور اس کی کتابت میں کوئی شرط لگا دی سفر یا خدمت یا اضحیہ کی لیکن اس شرط کو معین کردیا پھر مکاتب اپنے قسطوں کے ادا کرنے پر مدت سے پہلے قادر ہوگیا اور اس نے قسطیں ادا کردیں مگر یہ شرط اس پر باقی ہے تو وہ آزاد ہوجائے گا اور حرمت اس کی پوری ہوجائے گی اب اس شرط کو دیکھیں گے اگر وہ شرط ایسی ہے جو مکاتب کو خود ادا کرنا پڑتی ہے (جیسے سفر یا خدمت کی شرط) تو یہ مکاتب پر لازم نہ ہوگی اور نہ مولیٰ کو اس شرط کے پورا کرنے کا استحقاق ہوگا اور جو شرط ایسی ہے جس میں کچھ دینا پڑتا ہے جیسے اضحیہ یا کپڑے کی شرط تو یہ مانند روپوں اشرفیوں کے ہوگی اس چیز کی قمیت لگا کر وہ بھی اپنی قسطوں کے ساتھ ادا کر دے گا جب تک ادا نہ کرے گا آزاد نہ ہوگا۔ کہا مالک نے مکاتب مثل اس غلام کے ہے جس کو مولیٰ آزاد کر دے دس برس تک خدمت کرنے کے بعد اگر مولیٰ مرجائے اور دس برس نہ گزرنے ہوں تو ورثاء کی خدمت میں دس برس پورے کرے گا اور ولاء اس کی اسی کو ملے گی جس نے اس کی آزادی ثابت کی یا اس کی اولاد کو مردوں میں سے یا عصبہ کو۔ کہا مالک نے جو شخص اپنے مکاتب سے شرط لگائے تو سفر نہ کرنا یا نکاح نہ کرنا یا میرے ملک میں سے باہر نہ جانا بغیر میرے پوچھے ہوئے اگر تو ایسا کرے گا تو تیری کتابت باطل کردینا میرے اختیار میں ہوگا۔ اس صورت میں کتابت کا باطل کرنا اس کے اختیار میں نہ ہوگا اگرچہ مکاتب ان کاموں میں سے کوئی کام کرے اگر مکاتب کی کتابت کو مولیٰ باطل کرے تو مکاتب کو چاہیے کہ حاکم کے سامنے فریاد کرے وہ حکم کر دے کہ کتابت باطل نہیں ہوسکتی مگر اتنی بات ہے کہ مکاتب کو نکاح کرنا یا سفر کرنا یا ملک سے باہر جانا بغیر مولیٰ کے پوچھے ہوئے درست نہیں ہے خواہ اس کی شرط ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ آدمی اپنے غلام کو سو دینار کے بدلے میں مکاتب کرتا ہے اور غلام کے پاس ہزار دینار موجود ہوتے ہیں تو وہ نکاح کر کے ان دیناروں کو مہر کے بدلے میں تباہ ہو کر پھر عاجز ہو کر مولیٰ کے پاس آتا ہے نہ اس کے پاس مول ہوتا ہے نہ اور کچھ اس میں سراسر مولیٰ کا نقصان ہے یا مکاتب سفر کرتا ہے اور قسطوں کے دن آجاتے ہیں لیکن وہ حاضر نہیں ہوتا تو اس میں مولیٰ کا حرج ہوتا ہے اسی نظر سے مکاتب کو درست نہیں کہ بغیر مولیٰ کے پوچھے ہوئے نکاح کرے یا سفر کرے بلکہ ان امورات کا اختیار کرنا مولیٰ کو ہے چاہے اجازت دے چاہے منع کرے۔
مکاتب جب آزاد ہوجائے تو اس کی ولا کا بیان
کہا مالک نے مکاتب اپنے غلام کو آزاد نہیں کرسکتا مگر مولیٰ کے اذن سے اگر مولیٰ نے اذن دے دیا پھر مکاتب بھی آزاد ہوگیا تو ولاء اس کی مکاتب کو ملے گی اگر مکاتب آزاد ہونے سے پہلے مرگیا تو اس کی ولاء مکاتب کے مولیٰ کو ملے گی اسی طرح اگر وہ غلام کی آزادی سے پہلے مرگیا جب بھی اس کی ولاء مکاتب کے مولیٰ کو ملے گی۔ کہا مالک نے اگر مکاتب نے بھی اپنے غلام کو مکاتب کیا پھر مکاتب کا مکاتب مکاتب سے پہلے آزاد ہوگیا تو اس کی ولاء مکتب کے مولیٰ کو ملے گی جب تک مکاتب آزاد نہ ہو جب مکاتب آزاد ہوجائے گا اس کے مکاتب کی ولاء اس کی طرف لوٹ آئے گی۔ اگر مکاتب بدل کتابت ادا کرنے سے پہلے مرگیا یا عاجز ہوگیا تو اس کی آزاد اولاد اپنے باپ کے مکاتب کی ولاء نہ پائیں گے کیونکہ ان کے باپ کو ولاء کا استحقاق نہیں ہوا تھا اس واسطے کہ وہ آزاد نہیں ہوا تھا۔ کہا مالک نے جو مکاتب دو آدمیوں میں مشترک ہو پھر ایک شخص اپنا حق معاف کر دے اور دوسرا نہ کرے پھر مکاتب مرجائے اور مال چھوڑ جائے تو جس شخص نے معاف نہیں کیا وہ اپنا حق وصول کر کے جس قدر مال بچے گا وہ دونوں تقسیم کرلیں گے جیسے وہ غلامی کی حالت میں مرتا کیونکہ جس شخص نے اپنا حق چھوڑ دیا اس نے آزاد نہیں کیا بلکہ اپنا حق معاف کردیا۔ کہا مالک نے اس کی دلیل یہ ہے ایک شخص مرگیا اور ایک مکاتب چھوڑ گیا اور بیٹے اور بیٹیاں بھی چھوڑ گیا پھر ایک بیٹی نے اپنا حصہ آزاد کردیا تو ولاء اس کے واسطے ثابت نہ ہوگی اگر یہ آزادی ہوتی تو ولاء اس کے لئے ضروری ثابت ہوتی۔ کہا مالک نے یہ بھی اس کی دلیل ہے کہ اگر ایک شخص نے اپنا حصہ آزاد کردیا پھر مکاتب آزاد ہوگیا تو جس شخص نے آزاد کیا ہے اس کو باقی حصوں کی قیمت نہ دینا ہوگی اگر یہ آزادی ہوتی تو اس کو اوروں کے حصے کی قیمت بموجب حدیث سے دینا پڑتی۔ کہا مالک نے اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کا طریقہ جس میں کچھ اختلاف نہیں یہ ہے کہ جو شخص ایک حصہ مکاتب میں سے آزاد کر دے تو وہ اس کے مال سے آزاد نہ ہوگا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ولاء اس کو ملتی اس کے شریکوں کو نہ ملتی۔
جس مکاتب کا آزاد کرنا درست نہیں اس کا بیان
کہا مالک نے اگر چند غلام ایک ہی عقد میں مکاتب کئے جائیں تو مولیٰ ان میں سے ایک غلام کو آزاد نہیں کرسکتا جب تک باقی مکاتب راضی نہ ہوں اگر وہ کم سن ہوں تو ان کی رضامندی کا اعتبار نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ چند غلاموں میں ایک غلام نہایت ہوشیار اور محنتی ہوتا ہے اس کے سبب سے توقع یہ ہوتی ہے کہ محنت مزدوری کر کے اوروں کو بھی آزاد کرا دے مولیٰ کیا کرتا کہ اسی شخص کو آزاد کردیتا ہے تاکہ باقی غلام محنت سے عاجز ہو کر غلام ہوجائیں تو یہ جائز نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں باقی غلاموں کا ضرر ہے اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اسلام میں ضرر نہیں ہے۔ کہا مالک نے اگر چند غلام مکاتب کئے جائیں اور ان میں کوئی غلام ایسا ہو کہ نہایت بوڑھا ہو یا نہایت کم سن ہو جس کے سبب سے اور غلاموں کو بدل کتابت کی ادا کرنے میں مدد نہ ملتی ہو تو مولیٰ کو اس کا آزاد کرنا درست ہے۔
مکاتب کی اور ام دلد کی آزادی کا بیان
کہا مالک نے جو شخص اپنے غلام کو مکاتب کرے پھر مکاتب مرجائے اور ام ولد چھوڑ جائے اور اس قدر مال چھوڑ جائے کہ اس کو بدل کتابت کو مکتفی ہو تو وہ ام ولد مکاتب کے مولیٰ کی لونڈی ہوجائے گی کیونکہ وہ مکاتب مرتے وقت آزاد نہیں ہوا نہ اولاد چھوڑ گیا جس کے ضمن میں ام ولد بھی آزاد ہوجائے۔ کہا مالک نے اگر مکاتب اپنے غلام کو آزاد کر دے یا اپنے مال میں سے کچھ صدقہ دے دے اور مولیٰ کو اس کی خبر نہ ہو یہاں تک کہ مکاتب آزاد ہوجائے تو اب مکاتب کو بعد آزادی کے اس صدقہ یا عتاق کا باطل کرنا نہیں پہنچتا البتہ اگر مولیٰ کو قبل آزادی کے اس کی خبر ہوگئی اور اس نے اجازت نہ دی تو وہ صدقہ یا عتاق لغو ہوجائے گا اب پھر مکاتب کو لازم نہیں کہ بعد آزادی کے اس غلام کو پھر آزاد کرے یا صدقہ نکالے البتہ خوشی سے کرسکتا ہے۔
مکاتب کے میں وصیت کرنے کا بیان
کہا مالک نے اگر مولیٰ مرتے وقت اپنے مکاتب کو آزاد کر دے تو مکاتب کی اس حالت میں جس میں وہ ہے قیمت لگا دیں گے اگر قیمت اس کی بدل کتابت سے کم ہے تو ثلث مال میں وہ قیمت مکاتب کو معاف ہوجائے گی اور جس قدر بدل کتابت اس پر باقی ہے اس کی مقدار کی طرف خیال نہ آئے گا وہ اگر کسی کے ہاتھ سے مارا جائے تو اس کے قاتل پر قتل کے دن کی قیمت لازم آئے گی اور اگر مجروح ہو تو زخمی کرنے والے پر اس دن کی دیت لازم آئے گی اور ان سب امور میں کتابت کی مقدار کی طرف خیال نہ کریں گے کیونکہ جب تک اس پر بدل کتابت میں سے باقی ہے وہ غلام ہے البتہ اگر بدل کتابت قیمت سے کم باقی ہے تو جس قدر بدل کتابت باقی رہ گیا ہے وہ ثلث مال میں معاف ہوجائے گا گویا میت نے مکاتب کے واسطے اس قدر مال کی وصیت کی۔ کہا مالک نے تفسیر اس کی یہ ہے مثلا قیمت مکاتب کی ہزار درہم ہوں اور بدل کتابت میں اس پر سو درہم باقی ہوں تو گویا مولیٰ نے اس کے لئے سو درہم کی وصیت کی اگر ثلث مال میں سے سو درہم کی وصیت کی اگر ثلث مال میں سے سو درہم نکل سکیں تو آزاد ہوجائے گا۔ کہا مالک نے جو شخص اپنے غلام کو مکاتب کرے مرتے وقت تو اس کی قیمت لگا دیں گے اگر ثلث مال میں گنجائش ہوگی تو یہ عقد کتابت جائز ہوگا۔ کہا مالک نے اس کی تفسیر یہ ہے کہ غلام کی قیمت ہزار دینار ہو اور مولیٰ اس کو مرتے وقت دو سو دینار کو مکاتب کر گیا اور ثلث مال مولیٰ کا ہزار دینار کے مقدار ہو تو کتابت جائز ہوگی گویا یہ مولیٰ نے وصیت کی اپنے مکاتب کے لئے ثلث مال میں اگر مولیٰ نے اور بھی لوگوں کو وصیتیں کی ہیں اور ثلث مال مکاتب کی قیمت سے زیادہ نہیں ہے تو پہلے کتابت کی وصیت کو ادا کریں گے کیونکہ کتابت کا نتیجہ آزادی ہے اور آزادی اور وصیتوں پر مقدم ہے پھر اور وصیت والوں کو حکم ہوگا کہ مکاتب کا پیچھا کریں اور اس سے اپنی وصیتیں وصول کریں اور میت کے وارثوں کو اختیار ہے چاہیں وصیت والوں کو ان کی وصیتیں ادا کریں اور مکاتب کی کتابت آپ لے لیں اگر چاہیں مکاتب کو اور اس کے بدل کتابت کو وصیت والوں کے حوالے کردیں کیونکہ ثلث مال مکاتب ہی میں رہ گیا ہے اور اس واسطے کہ جب کوئی شخص وصیت کرے پھر اس کے وارث یہ کہیں کہ یہ وصیت ثلث سے زیادہ ہے اور میت نے اپنے اختیار سے زیادہ تصرف کیا تو اس کے ورثہ کو اختیار ہوگا چاہیں تو وصیت والوں کو ان کی وصیتیں ادا کریں اور چاہیں تو میت کا ثلث مال وصیت والوں کے سپرد کردیں اگر وارثوں نے مکاتب کو وصیت والوں کے سپرد کردیا تو بدل کتابت وصیت والوں کا ہوجائے گا اب اگر مکاتب نے بدل کتابت ادا کردیا تو سب وصیت والے اپنے حصوں کے موافق بانٹ لیں گے اگر مکاتب عاجز ہوگیا تو وصیت والوں کا غلام ہوجائے گا اب وصیت والے اس غلام کو وارثوں پر پھیر نہیں سکتے کیونکہ وارثوں نے اپنے اختیار سے اسے چھوڑ دیا اور اس واسطے کہ وصیت والوں کو جب وہ غلام مل گیا تو وہ اس کے ضامن ہوگئے اگر وہ غلام مرجاتا تو وارثوں سے یہ کچھ نہ لے سکتے اگر مکاتب بدل کتابت ادا کرنے سے پہلے مرگیا اور بدل کتابت سے زیادہ مال چھوڑ گیا تو وہ مال وصیت والوں کو ملے گا اگر مکاتب نے بدل کتابت ادا کردیا تو وہ آزاد ہوجائے گا اور ولاء اس کی مکاتب کرنے والے کے عصبوں کو ملے گی۔ کہا مالک نے جس مکاتب پر مولیٰ کے ہزار درہم آتے ہوں پھر مولیٰ مرتے وقت ہزار درہم معاف کر دے تو مکاتب کی قیمت لگائی جائے گی اگر اس کی قیمت ہزار درہم ہوں گے تو گویا دسواں حصہ کتابت کا معاف ہوا اور قیمت کی رو سے دو سو درہم ہوئے تو گویا دسواں حصہ قیمت کا اس نے معاف کردیا اس کی مثال ایسی ہے کہ اگر مولیٰ سب بدل کتابت کو معاف کردیتا تو ثلث مال میں صرف مکاتب کی قیمت کا حساب ہوتا یعنی ہزار درہم کا اگر نصف معاف کرتا تو ثلث مال میں نصف کا حساب ہوتا اگر اس سے کم زیادہ ہو وہ بھی اسی حساب سے۔ کہا مالک نے جو شخص مرتے وقت اپنے مکاتب کو ہزار درہم میں سے معاف کر دے مگر یہ نہ کہے کہ کون سی قسط میں یہ معافی ہوگی اول میں یا آخر میں تو ہر قسط میں سے دسواں حصہ معاف کیا جائے گا۔ کہا مالک نے جب آدمی اپنے مکاتب کو ہزار درہم اول کتابت یا آخر کتابت میں معاف کر دے اور بدل کتابت تین ہزار درہم ہوں تو مکاتب کی قیمت لگا دیں گے پھر اس قیمت کو تقسیم کریں گے ہر ایک ہزار پر جو ہزار کہ مدت اس کی کم ہے اس کی قیمت کم ہوگی بہ نسبت اس ہزار کے جو اس کے بعد سے اسی طرح جو ہزار سب کے اخیر میں ہوگا اس کی قیمت سب سے کم ہوگی کیونکہ جس قدر میعاد بڑھتی جائے گی اسی قدر قیمت گھٹتی جائے گی پھر جس ہزار پر معافی ہوئی ہے اس کی جو قیمت ان کو پڑے گی وہ ثلث مال میں سے وضع کی جائے گی اگر اس سے کم زیادہ ہو وہ بھی اسی حساب سے ہے۔ کہا مالک نے جس شخص نے مرتے وقت ربع مکاتب کی کسی کے لئے وصیت کی اور ربع کو آزاد کردیا پھر وہ شخص مرگیا بعد اس کے مکاتب مرگیا اور بدل کتابت سے زیادہ مال چھوڑ گیا تو پہلے مولیٰ کے وارثوں کو اور موصی لہ کو جس قدر بدل کتابت باقی تھا دلا دیں گے پھر جس قدر مال بچ جائے گا ثلث اس میں سے موصی لہ کو ملے گا اور دو ثلث وارثوں کو۔ کہا مالک نے جس مکاتب کو مولیٰ مرتے وقت آزاد کر دے اور ثلث میں سے وہ آزاد نہ ہو سکے تو جس قدر گنجائش ہوگی اسی قدر آزاد ہوگا اور بدل کتابت میں سے اتنا وضع ہوجائے گا مثلا مکاتب پر پانچ ہزار درہم تھے اور اس کی قیمت دو ہزار درہم تھی اور میت کا ثلث مال ہزار درہم ہے تو نصف مکاتب آزاد ہوجائے گا اور نصف بدل کتابت یعنی اڑھائی ہزار روپیہ ساقط ہوجائیں گے۔ کہا مالک نے اگر ایک شخص نے وصیت کی کہ فلانا غلام میرا آزاد ہے اور فلانے کو مکاتب کرنا پھر ثلث مال میں دونوں کی گنجائش نہ ہو تو آزادی مقدم ہوگی کتابت پر۔