34. کتاب بیع کے بیان میں

【1】

عربان کے بیان میں

عمرو بن شعیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع کیا عربان کی بیع سے۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی ایک غلام یا لونڈی خریدے یا جانور کو کرایہ پر لے پھر بائع (بچنے والا) سے یا جانور والے سے کہہ دے کہ میں تجھے ایک دینار یا کم زیادہ دیتا ہوں اس شرط پر کہ اگر میں اس غلام یا لونڈی کو خرید لوں گا تو وہ دینار اس کی قیمت میں سے سمجھنا یا جانور پر سواری کروں گا تو کرایہ میں سے خیال کرنا ورنہ میں اگر غلام یا لونڈی تجھے پھیر دوں یا جانور پر سوار نہ ہوں تو دینار مفت تیرا مال ہوجائے گا اس کو واپس نہ لوں گا۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے جو غلام تجارت کا فن خوب جانتا ہو زبان اچھی بولتا ہو اس کا بدلنا حبشی جاہل غلام سے درست ہے اسی طرح اور اسباب کا جو دوسرے اسباب کی مثل نہ ہو بلکہ اس سے زیادہ کھرا ہو اور ایک غلام کا دو غلاموں کے عوض میں یا کئی غلاموں کے بدلے میں درست ہے جب وہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے کھلا کھلا فرق رکھتی ہوں اور جو ایک دوسرے کے مشابہ ہوں تو دو چیزوں کا ایک کے بدلے میں لینا درست نہیں۔ کہا مالک نے سوا کھانے کی چیزوں کے اور اسباب کا بیچنا قبضہ سے پہلے درست ہے مگر اور کسی کے ہاتھ نہ اسی بائع (بچنے والا) کے ہاتھ بشرطیکہ قیمت دے چکا ہو۔ کہا مالک نے اگر کوئی شخص حاملہ لونڈی کو بیچے مگر اس کے حمل کو نہ بیچے تو درست نہیں کس واسطے کیا معلوم ہے کہ وہ حمل مرد ہے یا عورت خوبصورت ہے یا بدصورت پورا ہے یا لنڈور زندہ ہے یا مردہ تو کس طور سے اس کی قیمت لونڈی کی قیمت میں سے وضع کرے گا۔ کہا مالک نے اگر ایک شخص ایک لونڈی یا غلام سو دینار کو خریدے اور قیمت ادا کرنے کی ایک میعاد مقرر کرے (مثلا ایک مہینے کے وعدے پر) پھر بائع (بچنے والا) شرمندہ ہو کر خریدار سے کہے کہ اس بیع کو فسخ کر ڈال اور دس دینار مجھ سے نقد یا اس قدر میعاد میں لے لے تو درست ہے اور اگر مشتری (خریدنے والا) شرمندہ ہو کر بائع (بچنے والا) سے کہے کہ بیع فسح کر ڈال اور دس دینار مجھ سے نقد لے لے یا اس میعاد کے بعد جو ٹھہری تھی تو درست نہیں کیونکہ یہ ایسا ہوا گویا بائع (بچنے والا) نے اپنے میعاد سے سو دینار کو ایک لونڈی اور دس دینار نقد یا میعادی پر بیع کیا تو سونے کی بیع سونے سے ہوئی میعاد پر اور یہ درست نہیں۔

【2】

جب غلام یا لونڈی بکے تو اس کا مال کس کو ملے۔

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے حضرت عمر نے فرمایا جو شخص غلام کو بیچے اور اس کے پاس مال ہو تو وہ مال بائع (بچنے والا) کو ملے گا مگر جب خریدار شرط کرلے کہ وہ مال میں لوں گا۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک اس پر اجماع ہے کہ خریدار اگر شرط کرلے گا اس مال کے لینے کی تو وہ مال اسی کو ملے گا نقد ہو یا کسی پر قرض ہو یا اسباب ہو معلوم ہو یا نہ معلوم ہو اگرچہ وہ مال اس زر ثمن سے زیادہ ہو۔ جس کے عوض میں وہ غلام بکا ہے کیونکہ غلام کے مال میں مولیٰ پر زکوٰۃ نہیں ہے وہ غلام ہی کا سمجھا جائے گا اور اس غلام کی اگر کوئی لونڈی ہوگی تو مولیٰ کو اس سے وطی کرنا درست ہوجائے گا اور اگر یہ غلام آزاد ہوجاتا یا مکاتب تو اس کا مال اسی کو ملتا اگر مفلس ہوجاتا تو قرض خواہوں کو مل جاتا اس کے مولیٰ سے مؤ اخذہ نہ ہوتا۔

【3】

غلام یا لونڈی کی بیع میں بائع سے کب تک مواخذہ ہوسکتا ہے۔

عبداللہ بن ابی بکر سے روایت ہے کہ ابان بن عثمان اور ہشام بن اسماعیل دونوں نے خطبے میں بیان کیا کہ غلام اور لونڈی کے عیب کی جواب دہی بائع (بچنے والا) پر تین روز تک ہے خریدنے کے وقت سے اور ایک جواب دہی سال بھر تک ہے۔ کہا مالک نے غلام اور لونڈی کو جو عارضہ لاحق ہو تین دن کے اندر وہ بائع (بچنے والا) کی طرف سے سمجھا جائے گا اور مشتری (خریدنے والا) کو اس کے پھیر دینے کا اختیار ہوگا اور اگر جنون یا جذام یا برص نکلے تو ایک برس کے اندر پھیر دینے کا اختیار ہوگا بعد ایک سال کے پھر بائع (بچنے والا) سب باتوں سے بری ہوجائے اس کو کسی عیب کی جواب دہی لازم نہ ہوگی اگر کسی نے وارثوں میں سے یا اور لوگوں میں سے ایک غلام یا لونڈی کو پیچا اس شرط سے کہ بائع (بچنے والا) عیب کی جواب دہی سے بری ہے تو پھر بائع (بچنے والا) پر جواب دہی لازم نہ ہوگی البتہ اگر جان بوجھ کر اس نے کوئی عیب چھپایا ہوگا تو جواب دہی اس پر لازم ہوگی اور مشتری (خریدنے والا) کو پھیر دینے کا اختیار ہوگا۔ یہ جواب دہی خاص غلام یا لونڈی میں ہے اور چیزوں میں نہیں۔

【4】

غلام لونڈی میں عیب نکالنے کا بیان

سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے ایک غلام بیچا آٹھ سو درہم کو اور مشتری (خریدنے والا) سے شرط کرلی کہ عیب کی جواب دہی سے میں بری ہوا بعد اس کے مشتری (خریدنے والا) نے کہا غلام کو ایک بیماری ہے تم نے مجھ سے اس کا بیان نہیں کیا تھا پھر دونوں میں جھگڑا ہوا اور گئے عثمان بن عفان کے پاس مشتری (خریدنے والا) بولا کہ انہوں نے ایک غلام میرے ہاتھ بیچا اور اس کو ایک بیماری تھی انہوں نے بیان نہیں کیا عبداللہ بن عمر نے کہا کہ میں نے شرط کرلی تھی عیب کی جواب دہی میں نہ کروں گا حضرت عثمان نے حکم کیا کہ عبداللہ بن عمر حلف کریں میں نے یہ غلام بیچا اور میرے علم میں اس کو کوئی بیماری نہ تھی عبداللہ نے قسم کھالے سے انکار کیا تو وہ غلام پھر آیا عبداللہ پاس اور اس بیماری سے اچھا ہوگیا پھر عبداللہ نے اس کو ایک ہزار پانچ سو درہم کا بیچا۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ مسئلہ اتفاقی ہے کہ جو شخص خریدے ایک لونڈی کو پھر وہ حاملہ ہوجائے خریدار سے یا غلام خرید لے پھر اس کو آزاد کر دے یا کوئی اور امر ایسا کرے جس کے سبب سے اس غلام یا لونڈی کا پھیرنا نہ ہو سکے بعد اس کے گواہ گواہی دیں کہ اس غلام یا لونڈی میں بائع (بچنے والا) کے پاس سے کوئی عیب تھا یا بائع (بچنے والا) خود اقرار کرلے کہ میرے پاس یہ عیب تھا یا اور کسی صورت سے معلوم ہوجائے کہ عیب بائع (بچنے والا) کے پاس ہی تھا تو اس غلام اور لونڈی کی خرید کے روز کے عیب سمیت قیمت لگا کر بےعیب کی بھی قیمت لگا دیں دونوں قیمتوں میں جس قدر فرق ہو اس قدرت مشتری (خریدنے والا) بائع (بچنے والا) سے پھیر لے۔ کہا مالک نے اگر کسی شخص نے ایک غلام خریدا پھر اس میں ایسا عیب پایا جس کی وجہ سے وہ غلام بائع (بچنے والا) کو بھیر سکتا ہے مگر مشتری (خریدنے والا) کے پاس جب وہ غلام آیا اس میں دوسرا عیب ہوگیا مثلا اس کا کوئی عضو کٹ گیا یا کانا ہوگیا تو مشتری (خریدنے والا) کو اختیار ہے چاہے اس غلام کو رکھ لے اور بائع (بچنے والا) سے عیب کا نقصان لے لے چاہے غلام کو واپس کر دے اور عیب کا تاوان دے اگر وہ غلام مشتری (خریدنے والا) کے پاس مرگیا تو عیب سمیت قیمت لگا دیں گے خرید کے روز کی مثلا جس دن خریدا تھا اس روز عیب سمیت اس غلام کی قیمت اسی دینار تھی اور بےعیب سو دینار تو مشتری (خریدنے والا) بیس دینار بائع (بچنے والا) سے مجرا لے گا مگر قیمت اس کی لفائی جائے گی جس دن خریدا تھا۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ اگر ایک شخص نے لونڈی خریدی پھر عیب کی وجہ سے اسے واپس کردیا مگر اس سے جماع کرچکا تھا تو اگر وہ لونڈی باکرہ تھی تو جس قدر اس کی قیمت میں نقصان ہوگیا مشتری (خریدنے والا) کو دینا ہوگا اور اگر ثییبہ تھی تو مشتری (خریدنے والا) کو کچھ دینا نہ ہوگا۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک اس پر اجماع ہے کہ اگر کوئی شخص غلام یا لونڈی یا اور کوئی جانور بیچے یہ شرط لگا کر کہ اگر کوئی عیب نکلے گا تو میں بری ہوں یا بائع (بچنے والا) عیب کی جواب دہی سے بری ہوجائے گا مگر جب جان بوجھ کر کوئی عیب اس میں ہو اور وہ اس کو چھپائے اگر ایسا کرے گا تو یہ شرط مفید نہ ہوگی اور وہ چیز بائع (بچنے والا) کو واپس کی جائے گی۔ کہا مالک نے اگر ایک لونڈی کو دو لونڈیوں کے بدلے میں بیچا پھر ان دو لونڈیوں میں سے ایک لونڈی میں کچھ عیب نکل جس کی وجہ سے وہ پھر سکتی ہے تو پہلے اس لونڈی کی قیمت لگائی جائے گی جس کے بدلے میں یہ دونوں لونڈیاں آئی ہیں پھر ان دونوں لونڈیوں کی بےعیب سمجھ کر قیمت لگا دیں گے پھر اس لونڈی کے زر ثمن کو ان دونوں لونڈیوں کی قیمت پر تقسیم کریں گے ہر ایک کا حصہ جدا ہوگا بےعیب لونڈی کا اس کے موافق اور عیب دار کا اس کے موافق پھر عیب دار لونڈی اس حصہ ثمن کے بدلے میں واپس کی جائے گی قلیل ہو یا کثیر مگر قیمت دو لونڈیوں کی اسی روز کی نگائی جائے گی جس دن وہ لونڈیاں مشتری (خریدنے والا) کے قبضے میں آئی ہیں۔ کہا مالک نے اگر ایک شخص نے ایک غلام خریدا اور اس سے مزدوری کرائی اور مزدوری کے دام حاصل کئے قلیل ہوں یا کثیر بعد اس کے اس غلام میں عیب نکلا جس کی وجہ سے وہ غلام پھیر سکتا ہے تو وہ اس غلام کو پھیر دے اور مزدوری کے پیسے رکھ لے اس کا واپس کرنا ضروری نہیں ہمارے نزدیک جماعت علماء کا یہی مذہب ہے اس کی نظیر یہ ہے کہ اگر ایک شخص نے ایک غلام خریدا اور اس کے ہاتھ سے ایک گھر بنوایا جس کی بنوائی اس کی قیمت سے دوچند سہ چند ہے پھر عیب کی وجہ سے اسے واپس کردیا تو غلام واپس ہوجائے گا اور بائع (بچنے والا) کو یہ اختیار نہ ہوگا کہ مشتری (خریدنے والا) سے گھر بنوانے کی مزدوری لے اسی طرح سے غلام کی کمائی بھی مشتری (خریدنے والا) کی رہے گی۔ کہا ملک نے اگر ایک شخص نے کئی غلام ایک ہی دفعہ (یعنی ایک ہی عقد میں) خریدے اب ان میں سے ایک غلام چوری کا نکلا یا اس میں کچھ عیب نکلا تو اگر وہی غلام سب غلاموں میں عمدہ اور ممتاز ہوگا اور اسی کی وجہ سے باقی غلام خریدے گئے ہوں تو ساری بیع فسخ ہوجائے گی اور سب غلام پھر واپس دیئے جائیں گے۔ اگر ایسا نہ ہو تو صرف اس غلام کو پھیر دے گا اور زر ثمن میں سے بقدر اس کی قیمت کے حصہ لگا کر بائع (بچنے والا) سے واپس لے گا۔

【5】

لونڈی کو شرط لگا کر بیچنے کا بیان

عبداللہ بن مسعود نے ایک لونڈی خریدی اپنی بی بی زینب ثقفیہ سے ان کی بی بی نے اس شرط سے بیچی کہ جب تم اس لونڈی کو بیچنا عبداللہ بن مسعود اس امر کو حضرت عمر سے بیان کیا انہوں نے کہا تو اس لونڈی سے صحبت مت کر جس میں کسی کی شرط لگی ہو۔

【6】

لونڈی کو شرط لگا کر بیچنے کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ وہ کہتے تھے آدمی کو اس لونڈی سے وطی کرنا درست ہے جس پر سب طرح کا اختیار ہو اگر چاہے اس کو بیچ ڈالے چاہے ہبہ کر دے چاہے رکھ چھوڑے جو چاہے سو کرسکے۔ کہا مالک نے جو شخص کسی لونڈی کو اس شرط پر خریدے کہ اس کو بیچوں گا نہیں یا ہبہ نہ کروں گا یا اس کی مثل اور کوئی شرط لگا دی تو اس لونڈی سے وطی کرنا درست نہیں کیونکہ جب اس کو اس لونڈی کے بیچنے یا ہبہ کرنے کا اختیار نہیں ہے تو اس کی ملک پوری نہیں ہوئی اور جو لوازم تھے اس کی ملک کے وہ غیر کے اختیار میں رہے اور اس طرح کی بیع مکروہ ہے۔

【7】

خاوند والی لونڈی سے وطی کرنا منع ہے۔

ابن شہاب سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے عثمان بن عفان کو ایک لونڈی ہدیہ دی مگر اس کا ایک خاوند تھا اور عبداللہ نے اس لونڈی کو بصرے میں خریدا تھا تو عثمان نے کہا میں اس لونڈی سے وطی نہ کروں گا جب تک اس کا خاوند اس کو چھوڑ نہ دے عبداللہ نے اس خاوند کو راضی کردیا تو اس نے چھوڑ دیا۔

【8】

خاوند والی لونڈی سے وطی کرنا منع ہے۔

ابی سلمہ بن عبدالرحمن (رض) روایت ہے کہ عبدالرحمن بن عوف نے ایک لونڈی خریدی بعد اس کے معلوم ہوا وہ خاوند رکھتی ہے تو اس کو واپس کردیا۔

【9】

جب درخت بیچا جائے تو اس کے پھل اس میں شامل نہ ہوں گے

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص کھجور کا درخت تابیر کیا ہو بیچ تو اس کے پھل بائع (بچنے والا) کے ہوں گے مگر جس صورت میں مشتری (خریدنے والا) شرط کرلے کہ بھل میرے ہیں۔

【10】

جب تک پھلوں کی پختگی معلوم نہ ہو اس کے بیچنے کی ممانعت

ابن عمر سے روایت ہے کہ منع کیا رسول اللہ ﷺ نے پھلوں کے بیچنے سے یہاں تک کہ ان کی پختگی اور بہتری کا یقین ہوجائے منع کیا بائع (بچنے والا) کو اور مشتری (خریدنے والا) کو۔

【11】

جب تک پھلوں کی پختگی معلوم نہ ہو اس کے بیچنے کی ممانعت

حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع کیا پھلوں کے بیچنے سے یہاں تک کہ خوش رنگ ہوجائیں لوگوں نے کہا اس سے کیا مراد ہے یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ نے فرمایا سرخ یا زرد ہوجائیں اور آپ ﷺ نے فرمایا کیا اگر اللہ ان پھلوں کو پکنے نہ دے تو کس چیز کے بدلے میں تم میں سے کوئی اپنی بھائی کا مال لے گا۔

【12】

جب تک پھلوں کی پختگی معلوم نہ ہو اس کے بیچنے کی ممانعت

عمرہ بنت عبدالرحمن (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع کیا پھلوں کی بیع سے یہاں تک کہ آفت کا خوف جاتا رہے۔

【13】

جب تک پھلوں کی پختگی معلوم نہ ہو اس کے بیچنے کی ممانعت

زید بن ثابت اپنے پھلوں کو اس وقت بیچتے جب ثریا کے تارے نکل آتے۔ کہا مالک نے خربوزہ اور ککڑی اور گا جر کا بیچنا درست ہے جب ان کو بہتری کا حال معلوم ہوجائے پھر جو کچھ اگیں وہ فصل کے تمام ہونے تک مشتری (خریدنے والا) کے ہوں گے اس کا کوئی وقت مقرر نہیں ہر جگہ کے دستور اور رواج کے موافق حکم ہوگا اگر قبل اس وقت کے کسی آفت کے سبب نقصان ہو تہائی مال تک تو مشتری (خریدنے والا) کو وہ نقصان مجرادیا جائے گا تہائی سے کم اگر نقصان ہو تو مجرانہ دیا جائے گا۔

【14】

عریہ کے بیان میں

زید بن ثابت سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رخصت دی عریہ والے اپنا میوہ بیچنے کی اٹکل سے۔

【15】

عریہ کے بیان میں

ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رخصت دی عریوں کے بیچنے کی اٹکل سے بشرطیکہ پانچ وسق سے کم ہوں یا پانچ وسق کے اندر ہوں۔ کہا مالک نے عریہ کا اندازہ درختوں پر کرلیا جائے گا اور آنحضرت ﷺ نے اس کو جائز رکھا یہ تولیہ یا اقالہ یا شرکت کے مثل ہے اگر یہ اور بیعوں کے مثل ہوتا تو کھانے کی چیزوں کا تولیہ یا اقالہ یا شرکت قبل قبضے کے نا درست ہے یہ بھی درست نہ ہوتا۔

【16】

پھلوں اور کھیتوں کی بیع میں آفت کا بیان

عمرہ بنت عبدالرحمن (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک شخص نے باغ کے پھل خریدے اور اس کی درستی میں مصروف ہوا مگر ایسی آفت آئی جس سے نقصان معلوم ہوا تو باغ کے مالک سے کہا یا تو پھلوں کی قیمت کچھ کم کردو یا اس بیع کو فسخ کر ڈالو اس نے قسم کھالی میں ہرگز نہ کروں گا تب خریداری کر ڈالو اس نے قسم کھالی میں ہرگز نہ کروں گا تب خریدار کی ماں نے رسول اللہ ﷺ سے آن کر یہ سب قصہ بیان کیا آپ ﷺ نے فرمایا کیا قسم کھالی اس نے کہ میں یہ بہتری کا کام نہ کروں گا جب مالک باغ کو یہ خبر پہنچی وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ جیسا خریدار کہے وہ مجھ کو منظور ہے۔ عمر بن عبدالعزیز نے حکم کیا مشتری (خریدنے والا) کو نقصان دلانے کا جب کھیت یا میوے کو آفت پہنچے۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہی حکم ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ اس آفت سے تہائی مال یا زیادہ نقصان ہوا ہو اگر اس سے کم نقصان ہوگا اس کا شمار نہیں۔

【17】

کچھ پھل یا میوے کا بیع سے مستثنی کر نیکا بیان

قاسم بن محمد اپنے باغ کے میووں کو بیچتے پھر اس میں سے کچھ مستثنی کرلیتے۔

【18】

کچھ پھل یا میوے کا بیع سے مستثنی کر نیکا بیان

عبداللہ بن ابی بکر سے روایت ہے کہ ان کے دادا محمد بن عمرہ بن حزم نے اپنے باغ کا میوہ بیچا چار ہزار درہم کو اس میں سے آٹھ سو درہم کے کھجور مستثنی کر لئے اس باغ کا نام افرق تھا۔

【19】

کچھ پھل یا میوے کا بیع سے مستثنی کر نیکا بیان

عمرہ بنت عبدالرحمن اپنے پھلوں کو بیچتیں اور اس میں سے کچھ نکال لیتیں۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ جو آدمی اپنے باغ کا میوہ بچے اس کو اختیار ہے کہ تہائی مال تک مستثنیٰ کرے اس سے زیادہ درست نہیں اور جو سارے باغ میں سے ایک درخت یا درخت کے پھل مستثنی کرلے اور اس کو معین کر دے تو بھی کچھ قباحت نہیں ہے کیونکہ گویا مالک نے سوائے ان درختوں کے باقی کو بیچا اور ان کو نہ بیچا اس امر کا مالک کو اختیار ہے۔

【20】

جو بیع کھجوروں کی مکروہ ہے اس کا بیان

عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کھجور کو کھجور کے بدلے میں برابر برابر بیچو ایک شخص بولا یا رسول اللہ ﷺ آپ کو عامل خبری پر ایک صاع کھجور لے کردو صاع دیتا ہے کھجور دے کر ایک صاع لیتا ہے وہ بولا یا رسول اللہ ﷺ ایک صاع بہتر کھجور اور ایک صاع بری کھجور کے بدلے میں نہیں آتی آپ ﷺ نے فرمایا پہلے بری کھجور کو روپوں کے بدلے میں بیچ کر پھر عمدہ کھجور کو خرید کرلے۔

【21】

جو بیع کھجوروں کی مکروہ ہے اس کا بیان

ابو سعید اور ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو عامل مقرر کیا خیبر پر وہ عمدہ کھجور لے کر آیا آپ ﷺ نے پوچھا سب کھجوریں خبیر کی ایسی ہی ہوتی ہیں وہ بولا نہیں یا رسول اللہ ﷺ ہم اس کھجور میں سے ایک صاع دو صاع کے بدلے میں یا دو صاع تین صاع کے بدلے میں خرید کیا کرتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا ایسا نہ کرے پہلے بری کھجور کو روپوں کے بدلے میں بیچ کر پھر عمدہ کھجور روپے دے کر خرید لے۔

【22】

جو بیع کھجوروں کی مکروہ ہے اس کا بیان

زید بن ابوعیاش سے روایت ہے کہ انہوں نے پوچھا سعد بن ابی وقاص سے کہ جو کے غور اور حجاز میں پیدا ہوتا ہے کے بدلے میں بیچ سکتے ہیں انہوں نے کہا دونوں میں کونسا اچھا ہے بولے جو تو منع کیا اس سے اور سعد نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ نے لوگوں سے پوچھا کہ خشک کھجور کو رطب بدلے میں بیچنا کیسا ہے آپ ﷺ نے فرمایا رطب جب سوکھ جاتا ہے تو وزن اس کا کم ہوجاتا ہے لوگوں نے کہا ہاں آپ ﷺ نے منع فرمایا۔

【23】

مزابنہ اور محاقلہ کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع کیا مزابنہ اس کو کہتے ہیں کہ درخت پر پھل کھجور یا انگور اندزہ کر کے خشک کھجور یا انگور کے بدلے میں فروخت کی جائیں۔

【24】

مزابنہ اور محاقلہ کا بیان

ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع کیا مزابنہ اور محاقلہ سے مزابنہ کے معنی اوپر بیان ہوئے اور محاقلہ اس کو کہتے ہیں کہ گہیوں کا کھیت بدلے میں خشک گہیوں کے بیچے۔

【25】

مزابنہ اور محاقلہ کا بیان

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا مزابنہ اور محاقلہ سے دونوں کے معنی اوپر گزرے۔ ابن شہاب نے کہا میں نے سعید بن مسیب سے پوچھا کہ زمین کو کرایہ پر دینا سونے اور چاندی کے عوض میں درست ہے بولے ہاں درست ہے کچھ قباحت نہیں ہے۔ کہا مالک نے جو چیز ڈھیر لگا کر بیچی جائے اور اس کا وزن اور کیل معلوم نہ ہو تولی اور ناپی ہوئی چیز کے بدلے میں وہ مزابنہ میں داخل ہے (بشرطیکہ ایک جنس ہو) اگر ایک شخص دوسرے سے کہے کہ یہ جو تیرا ڈھیر پڑا ہے گیہوں یا کھجور یا چارہ یا گٹھلیوں یا گھاس یا کسم یا روئی یا ریشم کا اس کو ناپ تول یا شمار اگر قدر سے نکلے تو میں تجھ کو مجرا دوں گا اور جو زیادہ نکلے تو میں لے لوں گا اس قسم کی بیع درست نہیں ہے بلکہ یہ جوئے کے مشابہ ہے۔ کہا مالک نے اسی طرح اگر کوئی شخص دوسرے سے کہے کہ یہ کپڑا اتنی ٹوپیوں کو کافی ہے اگر پڑے تو میں دوں گا اور جو بڑھے میں لے لوں گا یا اس کپڑے میں اتنے کرتے بنیں گے اگر کم پڑے میں دے دوں گا اور جو زیادہ ہو لے لوں گا یا اس قدر کھا لوں میں اتنی جوتیاں بنیں گی اگر کم پڑے میں دوں گا زیادہ ہو تو لے لوں گا یا اس قدر دانوں میں اتنا تیل نکلے گا اگر کم نکلے تو میں دوں گا زیادہ نکلے تو میرا ہے یہ سب مزابنہ میں داخل ہے جائز نہیں یا یوں کہے کہ تیرے اس ڈھیر کے بدلے میں پتوں یا گٹھلیوں یا روئی یا تر کاری یا کسم کے اس قدر پتے گٹھلیاں یا روئی یا ترکاری یا کسم تول ناپ کردیتا ہوں ہر ایک کو اس کی جنس کے ساتھ بیچے تو بھی نادرست ہے۔

【26】

پھلوں اور میووں کی بیع کے مختلف مسائل کا بیان

کہا مالک نے جو شخص کسی معین درختوں کے پھلوں کو خریدے یا ایک باغ کے میووں کو خریدے یا معین بکریوں کے دودھ کو خریدے تو کچھ قباحت نہیں ہے بشرطیکہ خریدار قیمت ادا کرتے ہی اپنا مال وصول کرنا شروع کر دے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی روپیہ دے کر ایک کپہ میں سے کسی قدر گھی مول لے اس میں کچھ قباحت نہیں ہے اگر کپہ قبل گھی لینے کے پھٹ جائے اور گھی بہہ جائے تو خریدار اپنے روپے پھیر لے گا۔ کہا مالک نے مثال اس کی یہ ہے کہ ایک شخص تین ڈھیر کھجور کے لگائے ایک عجوہ کا جو پندرہ صاع ہے اور ایک بیس کا جو دس صاع ہے اور ایک عذق کا جو بارہ صاع ہے پھر مشتری (خریدنے والا) نے کھجور والے دینار دے یا اس شرط سے کہ ان تینوں ڈھیروں میں سے جو میں چاہوں لے لوں گا تو یہ جائز نہیں۔ کہا مالک نے اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص اپنے اونٹ یا غلام کو جو درزی یا بڑھئی یا اور کوئی کام کرتا ہو کرایہ کو دے یا مکان کرایہ پردے اور زر کرایہ پیشگی لے لے بعد اس کے اونٹ یا غلام مرجائے اور گھر گرجائے تو اونٹ والا اسی طرح غلام یا مکان والا حساب کر کے جس قدر اجرت اس کے ذمہ پر باقی رہ گئی ہو واپس کر دے گا فرض کیجئیے کہ اگر مستاجر نے اپنا نصف حق وصول کیا تھا تو نصف اجرت اس کو واپس ملے گی۔ کہا مالک نے ان سب صورتوں میں سلف کرنا یعنی اجرت پیشگی دے دینا جب ہی درست ہے کہ اجرت دیتے ہی غلام یا اونٹ یا گھر پر قبضہ کرلے یا رطب توڑنا شروع کر دے یہ نہیں کہ اس میں دیر کرے یا کوئی میعاد ٹھہرائے۔ کہا مالک نے یہ سلف مکروہ ہے کہ کوئی شخص اونٹ کا کرایہ دے دے اونٹ والے سے یہ کہے کہ حج کے دنوں میں تیرے اونٹ پر سوار ہوں گا اور ابھی حج میں ایک عرصہ باقی ہو یا ایسا ہی غلام اور گھر میں کہے تو یہ صورت گویا اس طرح پر ہوئی کہ اگر وہ اونٹ یا غلام یا گھر اس وقت تک باقی رہے تو اسی کرایہ سے اس سے منفعت اٹھا لے اور اگر وہ اونٹ یا غلام یا لونڈی واپس کی جائے تو اپنے کرایہ کے پیسے پھیر لے۔ کہا مالک نے اگر وہ شخص کرایہ دیتے ہی اونٹ یا غلام یا گھر پر قبضہ کرلیتا تو کراہت جاتی رہتی اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص غلام یا لونڈی خرید کر اپنے قبضے میں لائے اور قیمت ان کی ادا کرے بعد اس کے کسی عیب کی وجہ سے وہ غلام یا لونڈی واپس کی جائے تو مشتری (خریدنے والا) اپنا زر ثمن بائع (بچنے والا) سے پھیر لے اور اس میں کچھ قباحت نہیں ہے۔ کہا مالک نے جو شخص کسی معین غلام یا اونٹ کو کرایہ پر لے اور قبضے کی ایک میعاد مقرر کر دے یعنی یہ کہہ دے کہ فلاں تاریخ سے میں اونٹ یا غلام کو اپنے قبضے و تصرت میں لوں گا تو یہ جائز نہیں کیونکہ نہ مستاجر نے قبضہ کیا اس اونٹ یا غلام پر نہ موجر نے ایسے دین میں سلف کی جس کا دینا مستاجر پر واجب ہے۔

【27】

میووں کی بیع کا بیان

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے جو شخص کوئی میوہ تر یا خشک خریدے اس کو نہ بیچے یہاں تک کہ اس پر قبضہ کرلے اور میوے کو میوے سے بدلیں اگر بیچے تو اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے اور جو میوہ لیا ایسا ہے کہ سوکھا کر کھایا جاتا ہے اور رکھا جاتا ہے اس کو اگر میوے کے بدلے میں بیچے اور ایک جنس ہو تو اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے اور برابر بیچے کمی بیشی اس میں درست نہیں البتہ اگر جنس مختلف ہو تو کمی بیشی درست ہے مگر نقدا نقد بیچنا چاہیے اس میں میعاد لگانا درست نہیں اور جو میوہ سوکھایا نہیں جاتا بلکہ تر کھایا جاتا ہے۔ جیسے خربوزہ ککڑی، ترنج، کیلا، گا جر، انار وغیرہ اس کو ایک دوسرے کے بدلے میں اگرچہ جنس ایک ہو کمی بیشی کے ساتھ بھی درست ہے جب اس میں میعاد نہ ہو نقدا نقد ہو۔

【28】

سونے اور چاندی کی بیع کا بیان مسکوک ہو یا غیر مسکوک۔

یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ حکم کیا رسول اللہ ﷺ نے دونوں سعد کو کہ جتنے برتن سونے اور چاندی کے مال غنیمت میں آئے ہیں

【29】

سونے اور چاندی کی بیع کا بیان مسکوک ہو یا غیر مسکوک۔

ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دینار کو ایک دینار کے بدلے میں بیچو اور ایک درہم کو ایک درہم کے بدلے میں نہ زیادہ کے بدلے میں۔

【30】

سونے اور چاندی کی بیع کا بیان مسکوک ہو یا غیر مسکوک۔

ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مت بیچو سونے کے بدلے میں سونا مگر برابر نہ زیادہ کرو ایک دوسرے پر اور مت بیچو چاندی کے بدلے میں چاندی کے مگر برابر نہ زیادہ کرو ایک دوسرے پر نہ بیچو کچھ اس میں سے نقد وعدہ پر۔

【31】

سونے اور چاندی کی بیع کا بیان مسکوک ہو یا غیر مسکوک۔

مجاہد سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کے پاس بیٹھا تھا اتنے میں ایک سنار آیا اور بولا اے ابوعبدالرحمن میں سونے کا زیور بناتا ہوں پھر اس کے وزن سے زیادہ دینار لے کر اس کو بیچتا ہوں اور یہ زیادتی اپنی محنت کے عوض میں لیتا ہوں عبداللہ بن عمر منع کرتے رہے یہاں تک کہ عبداللہ بن عمر مسجد کے دروازے پر آئے یا اپنے جانور پر سوار ہونے کو آئے اس وقت عبداللہ بن عمر نے کہا دینار کو بدلے میں دینار کے اور درہم کو بدلے میں درہم کے بیچ اور زیادتی نہ لے یہی وصیت ہے۔ حضرت عثمان سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مت بیچو ایک دینار کو دو دینار کے بدلے میں نہ ایک درہم کو دو درہم کے بدلے میں۔

【32】

سونے اور چاندی کی بیع کا بیان مسکوک ہو یا غیر مسکوک۔

عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان نے ایک برتن پانی پینے کا سونے یا چاندی کا اس کے وزن سے زیادہ سونے یا چاندی کے بدلے میں بیچا تو ابوالدردا نے ان سے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ اس سے منع کرتے تھے مگر برابر برابر بیچنا درست رکھتے تھے معاویہ نے کہا میرے نزدیک کچھ قباحت نہیں ہے ابوالدردا نے کہا بھلا کان میرے عذر قبول کرے گا اگر میں معاویہ کو اس بدلہ دوں میں تو ان سے رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کرتا ہوں اور وہ مجھ سے اپنی رائے بیان کرتے ہیں اب میں تمہارے ملک میں نہ رہوں گا پھر ابودردا مدینہ میں حضرت عمر کے پاس آئے اور ان سے یہ قصہ بیان کیا حضرت عمر نے معاویہ کو لکھا کہ ایسی بیع نہ کریں مگر برابر تول کر۔

【33】

سونے اور چاندی کی بیع کا بیان مسکوک ہو یا غیر مسکوک۔

حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا مت بیچو سونے کو بدلے میں سونے کے مگر برابر برابر نہ زیادہ کرو ایک کو دوسرے پر اور نہ بیچو چاندی کے بدے میں چاندی کے مگر برابر نہ زیادہ کرو ایک کو دوسرے پر اور نہ بیچو چاندی کو بدلے میں سونے کے اس طرح پر کہ ایک نقد ہو اور دوسرا وعدے پر بلکہ تجھ سے اگر اتنی مہلت چاہے کہ اپنے گھر میں سے ہو کر آئے تو اتنی بھی اجازت مت دے میں خوف کرتا ہوں تمہارے اوپر سود کا۔

【34】

سونے اور چاندی کی بیع کا بیان مسکوک ہو یا غیر مسکوک۔

حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا بیچو سونے کو سونے کے مگر برابر برابر نہ زیادہ کرو ایک کو دوسرے پر اور نہ بیچو ایک کو دوسرے پر اور نہ بیچو چاندی کو بدلے میں سونے کے اس طرح پر کہ ایک نقد ہو دوسرا وعدہ پر بلکہ تجھ سے اگر اتنی مہلت چاہے کہ اپنے گھر میں سے ہو کر آئے تو اتنی بھی اجازت مت دے میں خوف کرتا ہوں تمہارے اوپر سود کا۔ حضرت عمر نے کہا ایک دینار بدلے میں ایک دینار کے چاہے ایک درہم بدلے میں ایک درہم کے اور ایک صاع بدلے میں ایک صاع کے اور نہ بیچو نقد بدلے میں وعدے کے۔

【35】

سونے اور چاندی کی بیع کا بیان مسکوک ہو یا غیر مسکوک۔

سعید بن مسیب کہتے تھے نہیں ربا ہے مگر سونے میں یا چاندی میں یا جو چیز ناپ تول کر بکتی ہے کھانے پینے کی۔

【36】

سونے اور چاندی کی بیع کا بیان مسکوک ہو یا غیر مسکوک۔

سعید بن مسیب کہتے تھے روپیہ اشرفی کا کانٹا گویا ملک میں فساد کرنا ہے۔ کہا امام مالک (رح) نے اگر سونے کو چاندی کے بدلے میں یا چاندی کو سونے کے بدلے میں ڈھیر لگا کر خریدے تو کچھ قباحت نہیں ہے جب وہ ڈلی ہوں یا زیور ہوں لیکن روپے اشرفی کا خریدنا بغیر گنے ہوئے جائز نہیں بلکہ اس میں دھوکا ہے اور مسلمانوں کے دستور کے خلاف ہے لیکن سونے چاندی کا ڈلا یا زیور جو تل کے بکتا ہے اس کو اٹکل سے خریدنا جیسے گیہوں یا کھجور وغیرہ کو خریدتے ہیں برا نہیں ہے۔ کہا مالک نے جو شخص کلام مجید یا تلوار یا انگوٹھی جس میں سونا یا چاندی لگا ہو روپے اشرفی کے بدلے میں خرید کرے تو دیکھیں گے اگر ان چیزوں میں سونا لگا ہوا ہے اور اشرفیوں کے بدلے میں اس کو خرید کیا اور اس چیز کی قیمت دو ثلث سے کم نہیں ہے اور جس قدر سونا اس میں لگا ہوا ہے اس کی قیمت ایک ثلث سے زیادہ نہیں ہے تو درست ہے جب نقدا نقد ہو اسی طرح اگر چاندی لگی ہوئی ہے اور روپیوں کے بدلے میں خرید کیا تب بھی یہی حکم ہے۔

【37】

بیع صرف کے بیان میں

مالک بن اوس نے کہا مجھے حاجت ہوئی سو دینار کے درہم لینے کی تو مجھے بلایا طلحہ بن عبیداللہ نے پھر ہم دونوں راضی ہوئے صرف کے اوپر اور انہوں نے دینار مجھ سے لے لئے اور ہاتھ سے لٹ پلٹ کرنے لگے اور کہا صبر کرو یہاں تک کہ میرا خزانچی غابہ آجائے حضرت عمر نے یہ سن کر کہا نہیں قسم اللہ کی مت چھوڑنا طلحہ کو بغیر روپے لئے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے سونے کا بیچنا چاندی کے بدلے میں ربا ہے مگر جب نقدا نقد ہو اور گہیوں بدلے گیہوں کے بیچنا ربا ہے مگر نقدا نقد اور کھجور بدلے کھجور کے بیچنا رہا ہے مگر نقدا نقد اور جو بدلے جو کے بیچنا رہا ہے مگر نقدا نقد اور نمک بدلے نمک کے بیچنا رہا ہے مگر نقدا نقد۔ کہا مالک نے اگر کسی شخص نے روپے اشرفیوں کے بدلے میں لئے پھر اس میں ایک روپیہ کھوٹا نکلا اب اس کو پھیرنا چاہے تو سب اشرفیاں اپنی پھیر لے اور سب روپے اس کے واپس دے دے کیونکہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا سونا بدلے میں چاندی کے ربا ہے مگر جب نقدا نقد ہو اور حضرت عمر نے فرمایا اگر تجھ سے اپنے گھر جانے کی مہلت مانگے تو مہلت نہ دے اگر ایک روپیہ اس کو پھیر دے گا اور اس سے جدا ہوجائے گا تو مثل دین کے یا میعاد کے ہوجائے گا اسی واسطے یہ مکروہ ہے خود اس بیع کو توڑ ڈالنا چاہیے کہ ایک طرف نقد ہو دوسرے طرف وعدہ خواہ ایک جنس یا کئی جنس ہوں۔

【38】

مرطلہ کا بیان

یزید بن عبداللہ بن قسیط نے کہا سعید بن مسیب کو دیکھا جب سونے کو سونے کے بدلے میں بیچتے تو اپنے سونے کو ایک پلہ میں رکھتے اور دوسرا شخص اپنے سونے کو دوسرے پلے میں رکھتا جب ترازو کا کاٹنا برابر ہوجاتا تو دوسرے کا سونا لے لیتا اور اپنا سونا دے دیتے۔ کہا مالک نے جو شخص سونے کو سونے کے بدلے میں تول کر بیچے تو کچھ قباحت نہیں اگرچہ ایک پلڑے میں گیارہ دینار چڑھیں اور دوسری طرف دس دینار جب نقدا نقد ہوں اور وزن برابر ہو اگرچہ شمار میں کم زیادہ ہوں ایسا ہی دراہم کا حکم ہے۔

【39】

بیع عینہ کا بیان اور کھانے کی چیزوں کو قبل قبضہ کے بیچنے کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص طعام خریدے پھر اس کو نہ بیچے جب تک اس پر قبضہ نہ کرے۔

【40】

بیع عینہ کا بیان اور کھانے کی چیزوں کو قبل قبضہ کے بیچنے کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص اناج خریدے پھر اس کو نہ بیچے جب تک اس پر قبضہ نہ کرے۔

【41】

بیع عینہ کا بیان اور کھانے کی چیزوں کو قبل قبضہ کے بیچنے کا بیان

عبداللہ بن عمر نے کہا ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اناج خریدتے تھے پھر آپ ﷺ ہمارے پاس ایک آدمی بھیجتے تھے وہ ہم کو حکم کرتا تھا کہ غلہ اس جگہ سے اٹھا لے جائیں جہاں خریدا ہے قبل اس کے کہ ہم اس کو بیع کریں۔

【42】

بیع عینہ کا بیان اور کھانے کی چیزوں کو قبل قبضہ کے بیچنے کا بیان

نافع سے روایت ہے کہ حکیم بن حزام نے غلہ خریدا جو حضرت عمر نے لوگوں کو دلوایا تھا پھر حکیم بن حزام نے اس غلہ کو بیچ ڈالا قبضہ سے پہلے جب حضرت عمر کو اس کی خبر پہنچی آپ نے وہ غلہ حکیم بن حزام کو پھر وا دیا اور کہا جس غلہ کو تو خریدے پھر اس کو مت بیچ جب تک اس پر قبضہ نہ کرلے۔ امام مالک کو پہنچا کہ مروان بن حکم کے عہد حکومت میں لوگوں کو سندیں ملیں جار کے غلہ کی لوگوں نے ان سندوں کو بیچا ایک دوسرے کے ہاتھ قبل اس بات کے کہ غلہ اپنے قبضہ میں لائیں تو زید بن ثابت اور ایک اور صحابہ مروان کے پاس گئے اور کہا کیا تو ربا کو درست جانتا ہے اے مروان مروان نے کہا معاذاللہ کیا کہتے ہو انہوں نے کہا کہ یہ سندیں جن لوگوں نے خریدا پھر خرید کر دوبارہ بیچا قبلہ غلہ لینے کے مروان نے چوکیدار کو بھیجا کہ وہ سندیں لوگوں سے چھین کر سند والوں کے حوالے کردیں۔ امام مالک کو پہنچا ایک شخص نے اناج خریدنا چاہا ایک شخص سے وعدے پر تو بائع (بچنے والا) مشتری (خریدنے والا) کو بازار میں لے گیا اور اس کو بورے دکھا کر کہنے لگا کون سے غلہ میں تمہاری واسطے خرید کروں مشتری (خریدنے والا) نے کہا کیا تو میرے ہاتھ اس چیز کا بیچتا ہے جو خود تیرے پاس نہیں ہے پھر بائع (بچنے والا) اور مشتری (خریدنے والا اور بیچنے والا) دونوں عبداللہ بن عمر کے پاس آئے اور ان سے بیان کیا عبداللہ بن عمر نے مشتری (خریدنے والا) سے کہا مت خریدو اس چیز کو جو بائع (بچنے والا) کے پاس نہیں ہے اور بائع (بچنے والا) سے کہا مت بیچ اس چیز کو جو تیرے پاس نہیں ہے۔

【43】

بیع عینہ کا بیان اور کھانے کی چیزوں کو قبل قبضہ کے بیچنے کا بیان

جمیل بن عبدالرحمن نے سعید بن مسیب سے کہا میں ان غلوں کو جو سرکار کی طرف سے لوگوں کو مقرر ہیں جار میں خرید کرتا ہوں پھر میں چاہتا ہوں کہ غلہ کو میعاد لگا کر لوگوں کے ہاتھ بیچوں سعید نے کہا تو چاہتا ہے ان لوگوں کو اسی غلہ میں سے ادا کرے جو تو نے خریدا ہے جمیل نے کہا ہاں سعید بن مسیب نے اس سے منع کیا۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے جو شخص اناج خرید کرے جیسے گیہوں جو جوار باجرہ ڈالیں وغیرہ جن میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے یا روٹی کے ساتھ کھانے کی چیزیں جیسے زیتون کا تیل یا گھی یا شہد یا سرکہ یا پنیر یا دودھ یا تل کا تیل اور جو اس کے مشابہ ہیں تو ان میں سے کوئی چیز نہ بیچے جب تک ان پر قبضہ نہ کرلے۔

【44】

اناج کو میعاد پر بیچنا جس طرح مکروہ ہے اس کا بیان

سعید بن مسیب اور سلیمان بن یسار منع کرتے تھے اس بات سے کوئی شخص گیہوں کو سونے کے بدلے میں یبچے معیاد لگا کر پھر قبل سونا لینے کے اس کے بدلے میں کھجور لے لے۔

【45】

اناج کو میعاد پر بیچنا جس طرح مکروہ ہے اس کا بیان

کثیر بن فرقد نے ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم سے پوچھا کوئی شخص اناج کو سونے کے بدلے میں میعاد لگا کر بیچے پھر قبل سونا لینے کے اس کے بدلے میں کھجور خرید لے انہوں نے کہا یہ مکروہ ہے اور منع کیا اس سے۔ ابن شہاب سے بھی ایسا ہی مروی ہے۔ کہا مالک نے سعید بن المسیب اور سلیمان بن یسار ابوبکر بن محمد اور ابن شہاب نے اس بات سے منع کیا ہے کہ کوئی آدمی گیہوں کو سونے کے بدلے میں بیچے پھر اس سونے کے بدلے کھجور خرید لے اسی شخص نے جس کے ہاتھ گیہوں بیچے قبل اس بات کے کہ سونے پر قبضہ کرے اگر اس سونے کے بدلے میں کسی اور شخص سے کھجور خریدے سوائے اس شخص کے جس کے ہاتھ گیہوں بیچے ہیں اور کھجور کی قیمت کا حوالے کر دے اس شخص پر جس کے ہاتھوں گیہوں بیچے ہیں تو درست ہے۔

【46】

اناج میں سلف کرنے کا بیان

عبداللہ بن عمر نے کہا کچھ قباحت نہیں اگر ایک مرد دوسرے مرد سے سلف کرے اناج میں جب اس کا وصف بیان کر دے نرخ مقرر کر کے میعاد معین پر جب وہ سلم کسی ایسے کھیت میں نہ ہو جس کی بہتری کا حال معلوم نہ ہو یا ایسی کھجور میں نہ ہو جس کی بہتری کا حال معلوم نہ ہو۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے جو شخص سلف کرے اناج میں نرخ مقرر کر کے مدت معین پر تو جب مدت گزرے اور خریدار بائع (بچنے والا) کے پاس وہ اناج نہ پائے اور سلف کو مسخ کرے تو خریدار کو چاہیے اپنی چاندی یا سونا دیا ہو یا قیمت دی ہوئی بعینہ پھیر لے یہ نہ کرے کہ اس کے بدلے میں دوسری چیز بائع (بچنے والا) سے خرید لے جب تک اپنے ثمن پر قبضہ نہ کرلے کیونکہ اگر خریدار نے جو قیمت دی ہے اس کے سوا کچھ لے آیا اس کے بدلے میں دوسرا اسباب خرید لے تو اس نے اناج کو قبل قبضہ کے بیچا اور رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع کیا ہے۔ کہا مالک نے اگر مشتری (خریدنے والا) نے بائع (بچنے والا) سے کہا سلف کو فسخ کر ڈال اور ثمن واپس کرنے کے لئے میں تجھ کو مہلت دیتا ہوں تو یہ جائز نہیں اور اہل علم اس کو منع کرتے ہیں کیونکہ جب میعاد گزر گئی اور اناج بائع (بچنے والا) کے ذمہ واجب ہو اب مشتری (خریدنے والا) نے اپنے حق وصول کرنے میں دیر کی اس شرط سے کہ بائع (بچنے والا) سلم کو فسخ کر ڈالے تو گویا مشتری (خریدنے والا) نے اپنے اناج کو ایک مدت پر بیچا قبل قبضے کے۔ کہا مالک نے اس کی مثال یہ ہے کہ جب مدت پوری ہوئی اور خریدار نے اناج لینا پسند نہ کیا تو اس اناج کے بدلے میں کچھ روپے ٹھہرا لئے ایک مدت پر تو یہ اقالہ نہیں ہے اقالہ وہ ہے جس میں کمی بیشی بائع (بچنے والا) یا مشتری (خریدنے والا) کی طرف سے نہ ہو اگر اس میں کمی بیشی ہوگی یا کوئی میعاد بڑھ جائے گی یا کچھ فائدہ مقرر ہوگا بائع (بچنے والا) کا یا مشتری (خریدنے والا) کا تو وہ اقالہ بیع سمجھا جائے گا اور اقالہ اور شرکت اور تولیہ جب تک درست ہیں کہ کمی بیشی یا میعاد نہ ہو اگر یہ چیزیں ہوں گی تو وہ نئی بیع سمجھیں گے۔ جن وجوہ سے بیع درست ہوتی ہے یہ بھی درست ہوں گی اور جن وجوہ سے بیع نادرست ہوتی ہے یہ بھی نادرست ہوگی۔ کہا مالک نے جو شخص سلف میں عمدہ گیہوں ٹھہرائے پھر میعاد گزرنے کے بعد اس سے بہتر یا بری لے لے تو کچھ قباحت نہیں بشرطیکہ وزن وہی ہو جو ٹھہرا ہو یہی حکم انگور اور کھجور میں ہے۔

【47】

اناج جب اناج کے بدلے میں بکے تو اس میں کمی بیشی نہیں چاہئے۔

سلیمان بن یسار نے کہا سعد بن ابی وقاص کے گدھے کا چارہ تمام ہوگیا انہوں نے اپنے غلام سے کہا گھر میں سے گیہوں لے جا اور اس کے برابر جو تلوا لا زیادہ مت لیجیو۔

【48】

اناج جب اناج کے بدلے میں بکے تو اس میں کمی بیشی نہیں چاہئے۔

عبدالرحمن بن اسود کے جانور کا چارہ تمام ہوگیا انہوں نے اپنے غلام سے کہا گھر سے گیہوں لے جا اور اس کے برابر جو تلوا لا۔ ابن معیقب دوسری سے بھی ایسا ہی مروی ہے۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ نہ بیچا جائے گا گیہوں بدلے میں گیہوں کے اور کھجور بدلے کھجور کے اور گیہوں بدلے میں کھجور کے اور کھجور بدلے میں انگور کے مگر نقدا نقد کسی طرف میعاد نہ ہو اگر میعاد ہوگی تو حرام ہوجائے گا اسی طرح جتنی چیزیں روٹی کے ساتھ کھائی جاتی ہیں اگر ان میں سے ایک کو دوسرے کے ساتھ بدلے تو نقدا نقد لے۔ کہا مالک نے جتنی کھانے کی چیزیں ہیں یا روٹی کے ساتھ لگانے کی جب جنس ایک ہو تو ان میں کمی بیشی درست نہیں۔ مثلا ایک مد گیہوں کو دو مد گیہوں کے بدلے میں یا ایک مد کھجور کو دو مد کھجور کے بدلے میں یا ایک مد انگور کو دو مد انگور کے بدلے میں نہ بیچیں گے اسی طرح جو چیزیں ان کے مشابہ ہیں کھانے کی یا روٹی کے ساتھ لگانے کی جب ان کی جنس ایک ہو تو ان میں کمی بیشی درست نہیں اگرچہ نقدا نقد ہو جیسے کوئی چاندی کو چاندی کے بدلے میں اور سونے کو سونے کے بدلے میں اور بیچے تو کمی بیشی درست نہیں بلکہ ان سب چیزوں میں ضروری ہے کہ برابر ہوں۔ اور نقدا نقد ہوں۔ کہا مالک نے جب جنس میں اختلاف ہو تو کمی بیشی درست ہے مگر نقدا نقد ہونا چاہیے جیسے کوئی ایک صاع کھجور کو دو صاع گیہوں کے بدلے میں یا ایک صاع کھجور کو دو صاع انگور کے بدلے یا ایک صاع گیہوں کے دو صاع گھی کے بدلے میں خریدے تو کچھ قباحت نہیں جب نقدا نقد ہوں میعاد نہ ہو اگر میعاد ہوگی تو درست نہیں۔ کہا مالک نے یہ درست نہیں کہ ایک گیہوں کا بورا دے کر دوسرا گیہوں کا بورا اس کے بدلے میں لے یہ درست ہے کہ ایک گیہوں کا بورا دے کر کھجور کا بورا اس کے بدلے میں لے نقدا نقد کیونکہ کھجور کو گیہوں کے بدلے میں ڈھیر لگا کر اٹکل سے بیچنا درست ہے۔ کہا مالک نے جتنی چیزیں کھانے کی یا روٹی کے ساتھ لگانے کی ہیں جب ان میں جنس مختلف ہو تو ایک دوسرے کے بدلے میں ڈھیر لگا کر بیچنا درست ہے جب نقدا نقد ہو اگر اس میں میعاد ہو تو درست نہیں جیسے کوئی چاندی سونے کے بدلے میں ان چیزوں کا ڈھیر لگا کر بیچے تو درست ہے۔ کہا مالک نے اگر ایک شخص نے گیہوں تول کر ایک ڈھیر بنایا اور وزن چھپا کر کسی کے ہاتھ یبچا تو یہ درست نہیں۔ اگر مشتری (خریدنے والا) یہ چاہے کہ وہ گیہوں بائع (بچنے والا) کو واپس کر دے اس وجہ سے کہ بائع (بچنے والا) نے دیا ہو دانستہ وزن کو اس سے چھپایا اور دھوکا دیا تو ہوسکتا ہے اسی طرح جو چیز بائع (بچنے والا) وزن چھپا کر بیچے تو مشتری (خریدنے والا) کا اس کے پھیر دینے کا اختیار ہے اور ہمیشہ اہل علم اس بیع کو منع کرتے رہے۔ کہا مالک نے ایک روٹی کو دو روٹیوں سے بدلنا یا بڑی روٹی کو چھوٹی روٹی سے بدلنا اچھا نہیں البتہ اگر روٹی کو دوسری روٹی کے برابر سمجھے تو بدلنا درست ہے اگرچہ وزن نہ کرے۔ کہا مالک نے ایک مدزبد اور ایک مدلبن کو دو مدزبد کے بدلے میں لینا درست نہیں کیونکہ اس نے اپنے زبد کی عمدگی لبن کے شریک کرکے برابر کرلی اگر علیحدہ لبن کو بیچتا تو کبھی ایک صاع لبن کے بدلے میں ایک صاع زبد نہ آتی۔ اس قسم کا مسئل اوپر بیان ہوچکا۔ سعید بن مسیب سے محمد بن عبداللہ بن مریم نے پوچھا میں غلہ خرید کرتا ہوں جار کا تو کبھی میں ایک دینار اور نصف درہم کو خرید کرتا ہوں کیا نصف درہم کے بدلے میں اناج دے دوں سعید نے کہا نہیں بلکہ ایک درہم دے دے اور جس قدر باقی رہے اس کے بدلے میں بھی اناج لے لے۔

【49】

اناج بیچنے کے مختلف مسائل کا بیان

سعید بن المسیب سے محمد بن عبداللہ بن ابو مریم نے پوچھا میں غلہ خرید کرتا ہوں جار کا تو کبھی میں ایک دینار اور نصف درہم کو خرید کرتا ہوں کیا نصف درہم کے بدلے اناج دے دوں سعید نے کہا نہیں بلکہ ایک درہم دے دے اور جس قدر باقی رہے اس کے بدلے میں بھی اناج لے لے۔ محمد بن سیرین کہتے تھے مت بیچو دانوں کو بالی کے اندر جب تک پک نہ جائے۔ کہا مالک نے جو شخص اناج خریدے نرخ مقرر کرکے میعاد معین پر جب میعاد پوری ہو تو جس کے ذمہ اناج واجب ہے (مسلم الیہ) وہ کہے میرے پاس اناج نہیں ہے جو اناج میرے ذمہ ہے وہ میرے ہی ہاتھ بیچ ڈال اتنی میعاد پر وہ شخص (رب السلم) کہے یہ جائز نہیں کیونکہ آنحضرت ﷺ نے منع کیا ہے اناج بیچنے کو جب تک قبضے میں نہ آئے جس کے ذمہ پر اناج ہے وہ کہے اچھا تو کوئی اور اناج میرے ہاتھ بیچ ڈال میعاد پر تاکہ میں اسی اناج کو تیرے حوالے کردوں۔ تو یہ درست نہیں کیونکہ وہ شخص اناج دے کر پھیرلے گا اور بائع (بچنے والا) مشتری (خریدنے والا) کو جو قیمت دے گا وہ گویا مشتری (خریدنے والا) کی ہوگی جو اس نے بائع (بچنے والا) کو دی اور یہ اناج درمیان میں حلال کرنے والا ہوگا تو گویا اناج کی بیع ہوگی قبل قبضے کے۔ کہا مالک نے یہ اس واسطے کہ اہل علم نے ان چیزوں میں رواج اور دستور کا اعتبار رکھا ہے اور ان کو مثل بیع کے نہیں سمجھا اس کی نظیر یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے ناقص کم وزن روپے دیئے پھر مسلم الیہ نے اس کو پورے وزن کے روپے ادا کردیئے تو یہ درست ہے مگر ناقص روپوں کی بیع پورے وزن کے روپوں کے بدلے میں درست نہیں اگر اس شخص نے سلم کرتے وقت ناقص کم وزن روپے دے کر پورے روپے لینے کی شرط کی تھی تو درست نہ ہوگا۔ کہا مالک نے اس کی نظیر یہ بھی کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مزابنہ سے منع کیا اور عرایا کی اجازت دی وجہ یہ ہے کہ مزابنہ کا معاملہ رجارت اور ہو شیاری کے طور پر ہوتا ہے اور عرایابطوراحسان اور سلوک کے ہوتا ہے۔ کہا مالک نے یہ درست نہیں کہ ربع یا ثلث درہم یا اور کسی کسر کے بدلے میں اناج خریدے اس شرط پر کہ اس ربع یا ثلث یا کسر کے عوض میں اناج دے گا وعدے پر البتہ اس میں کچھ قباحت نہیں کہ ربع یا ثلث درہم یا کسی کسر کے بدلے میں اناج خریدے وعدے پر جب وعدہ گزرے تو ایک درہم حوالے کردے اور باقی کے بدلے میں کوئی اور چیز خرید کرلے۔ امام مالک کو پہنچا کہ حضرت عمر نے فرمایا ہمارے بازار میں کوئی احتکار نہ کرے جن لوگوں کو ہاتھ میں حاجت سے زیادہ روپیہ ہے وہ کسی ایک غلہ کو جو ہمارے ملک میں آئے خرید کر احتکار نہ کریں اور جو شخص تکلیف اٹھا کر ہمارے ملک میں غلہ لائے گرمی یا جاڑے میں تو وہ مہمان ہے عمر کا جس طرح اللہ کو منظور ہو بیچے اور جس طرح اللہ کو منظور ہو رکھ چھوڑے۔

【50】

حتکار کے بیان میں

امام مالک کو پہنچا کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا ہمارے بازار میں کوئی احتکار نہ کرے جن لوگوں کے ہاتھ میں حاجت سے زیادہ روپیہ ہے وہ کسی ایک غلہ کو جو ہمارے ملک میں آئے خرید کر احتکار نہ کریں اور جو شخص تکلیف اٹھاکر ہمارے ملک میں غلہ لائے گرمی یا جائے میں تو وہ مہمان ہے عمر کا جس طرح اللہ کو منظور ہو بیچے اور جس طرح اللہ کو منظور ہو رکھ چھوڑے۔

【51】

حتکار کے بیان میں

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب حاطب بن ابی بلتعہ کے پاس سے ہو کر گزرے اور وہ انگور بیچ رہے تھے بازار میں حضرت عمر نے فرمایا تو تم نرخ بڑھا دو یا ہمارے بازار سے اٹھ جاؤ۔ حضرت عثمان بن عفان منع کرتے تھے احتکار سے۔

【52】

جانور کو جانور کے بدلے میں بیچنے کا بیان اور جانور میں سلف کرنے کا بیان

حضرت علی نے اپنا اونٹ جس کا نام عصیفیر تھا بیس اونٹوں کے بدلے میں بیچا وعدے پر۔

【53】

جانور کو جانور کے بدلے میں بیچنے کا بیان اور جانور میں سلف کرنے کا بیان

عبداللہ بن عمر نے ایک سانڈنی چار اونٹوں کے بدلے میں خریدی اور یہ ٹھہرایا کہ ان چار اونٹوں کو زبذہ میں بائع (بچنے والا) کو پہنچائیں گے۔

【54】

جانور کو جانور کے بدلے میں بیچنے کا بیان اور جانور میں سلف کرنے کا بیان

امام مالک نے ابن شہاب سے پوچھا کہ ایک جانور کے بعلے میں دو جانور بیچنا میعاد پر بیچنا درست ہے انہوں نے کہا کچھ قباحت نہیں۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے ایک اونٹ کو دوسرے اونٹ سے بدلنے میں کچھ قباحت نہیں اس طرح ایک اونٹ اور کچھ روپے دے کر دوسرا اونٹ لے لینے میں اگرچہ اونٹ کو نقددے اور روپوں کو ادھار رکھے اور روپے نقد دے اور اونٹ کو ادھار رکھے یا دونوں کو ادھار رکھے تو بہتر نہیں ہے۔ کہا مالک نے اگر دو تین اونٹ لادنے کے دے کر ایک اونٹ سواری کا خریدے تو کچھ قباحت نہیں اگر ایک نوع کے جانور جیسے اونٹ یا بیل آپس میں ایسا اختلاف رکھتے ہوں کہ ان میں کھلم کھلا فرق ہو تو ایک جانور دے کردو جانور خریدنا نقد یا ادھار دونوں طرح سے درست ہے اگر ایک دوسرے کے مشابہ ہوں خواہ جنس ایک ہو یا مختلف تو ایک جانور دے کردو جانور لینا وعدے پر درست نہیں ہے۔ کہا مالک نے اس کی مثال یہ ہے کہ جو اونٹ یکساں ہوں ان میں باہم فرق نہ ہو ذات میں اور بوجھ لادنے میں تو ایسے اونٹوں میں سے دو اونٹ دے کر ایک اونٹ لینا وعدے پر درست نہیں البتہ اس میں کچھ قباحت نہیں کہ اونٹ خرید کر قبل قبضہ کرنے کے دوسرے کے ہاتھ بیچ ڈالے جب کہ قیمت اس کی نقد لے لے۔ کہا مالک نے جانور میں سلف کرنا درست ہے جب میعاد معین ہو اور اس جانور کے اوصاف اور حلیے بیان کردے اور قیمت دے دے تو بائع (بچنے والا) کو اسی طرح کے جانور دینے ہوں گے اور مشتری (خریدنے والا) کو لینے ہوں گے ہمارے شہر کے لوگ ہمیشہ سے ایسا ہی کرتے رہے اور اسی کے قائل رہے۔

【55】

جس طرح یا جس جانور کو بیچنا نا درست ہے۔

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع کیا حبل الحبلہ کی بیع سے یہ بیع ایام جاہلت میں مروج تھی آدمی اونٹ خریدتا تھا اس وعدے پر کہ جب اونٹنی کا بچہ ہوگا اور پھر بچے کا بچہ اس وقت میں دام لوں گا۔

【56】

جس طرح یا جس جانور کو بیچنا نا درست ہے۔

سعید بن مسیب نے کہا حیوان میں ربا نہیں ہے بلکہ حیوان میں تین بیعیں نا درست ہیں ایک مضا میں کی دوسرے ملا قیح کیتی سے حبل الحبلہ کی مضا میں وہ جانور جو مادہ کے شکم میں ہیں ملاقیح وہ جانور جو رن کے پشت میں ہیں حبل الحبلہ کا بیان ابھی ہوچکا ہے ،۔ کہا مالک نے معین جانور کی بیع جب وہ غائب ہو خواہ نزدیک ہو یا دور درست نہیں ہے۔ اگرچہ مشتری (خریدنے والا) اس جانور کو دیکھ چکا ہو اور پسند کرچکا ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ بائع (بچنے والا) مشتری (خریدنے والا) سے دام لے کر نفع اٹھائے گا۔ اور مشتری (خریدنے والا) کو معلوم نہیں وہ جانور صحیح سالم جس طور سے اس نے دیکھا تھا ملے یا نہ ملے البتہ اگر غیر معین جانور کو اوصاف بیان کرکے بیچے تو کچھ قباحت نہیں۔

【57】

جانور کو گوشت کے بدلے میں بیچنا

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع کیا جانور کے بیچنے سے گوشت کے بدلے میں۔

【58】

جانور کو گوشت کے بدلے میں بیچنا

سعید بن مسیب کہتے تھے یہ بھی جاہلیت کا جوا ہے گوشے کو ایک بکری یا دو بکریوں کے عوض میں بیچنا ،۔

【59】

جانور کو گوشت کے بدلے میں بیچنا

سعید بن مسیب کہتے تھے جانور کو گوشت کے بدلے میں بیچنا منع ہے ابولزناد نے کہا میں نے سعید بن مسیب سے پوچھا اگر کوئی شخص دس بکریوں کے بدلے میں ایک اونٹ خرید کرے تو کیسا ہے سعید نے کہا اگر ذبح کرنے کے لئے خرید کرے تو کیسا ہے سعید نے کہا اگر ذبح کرنے کے لئے خرید کرے تو بہتر نہیں ابولزناد نے کہا میں نے سب عالموں کو جانور کی بیع سے گوشت کے بدلے میں منع کرتے ہوئے پایا اور ابان بن عثمان اور ہشام بن اسماعیل کے زمانے میں عاملوں کے پروانوں میں اس کی ممانعت لکھی جاتی تھی۔

【60】

گوشت کو گوشت کے بدلے میں بیچنے کا بیان

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ گوشت اونٹ کا ہو یا بکری کا یا اور کسی جانور کا اس کا گوشت، گوشت سے بدلنا درست نہیں مگر برابر تول کر نقدا نقد اگر اٹکل سے برابری کرے تو بھی کافی ہے۔ کہا مالک نے مچھلیوں کا گوشت اگر اونٹ یا گائے یا بکری کے گوشت کے بدلے میں بیچے کم وبیش تو بھی کچھ قباحت نہیں ہے مگر یہ ضروری ہے کہ نقدا نقد ہو میعاد نہ ہو۔ کہا مالک نے پرندوں کا گوشت میرے نزدیک چرندوں اور مچھلیوں کے گوشت سے بڑافرق رکھتا ہے اگر یہ کم وبیش بیچے جائیں تو کچھ قباحت نہیں ہے مگر یہ ضروری ہے کہ نقدا نقد ہو۔ میعاد نہ ہو۔

【61】

کتے کی بیع کا بیان

ابی مسعود انصاری سے روایت ہے کہ منع کیا رسول اللہ ﷺ نے کتے کی قیمت لینے سے اور خرچی سے فاحشہ کی اور کمائی سے فال نکالنے والے کی۔

【62】

بیع سلف کا بیان اور اس کو اس کے بدلے میں بیچنے کا بیان

رسول اللہ نے منع کیا ہے بیع سے اور سلف سے۔ کہا مالک نے اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص کسی سے کہے میں تیرا اسباب اس شرط سے لیتا ہوں کہ وہ مجھ سے سلف کرے اس طرح تو یہ جایز نہیں اگر سلف کی شرط موقوف کردے تو بیع جائز ہوجائے گی۔ کہا مالک نے جن کپڑوں میں کھلم کھلا فرق ہے ان میں سے ایک کو دو یا تین کے بدلے میں بیع کرنا نقدا نقد یا میعاد پر طرح سے درست ہے اور جب ایک کپڑا دوسرے کپڑے کے مشابہ ہو اگر نام جدا جدا ہوں تو کمی بیشی درست ہے مگر ادھار درست نہیں۔ کہا مالک نے جس کپڑے کو خریدا اس کا بیچنا قبل قبضے کے بائع (بچنے والا) کے سوا اور کسی کے ہاتھ درست ہے۔ جب کہ اس کی قیمت نقد لے لے۔

【63】

اس میں سلف کرنے کا بیان

قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس سے ایک شخص نے پوچھا جو کوئی کپڑوں میں سلف کرے پھر قبل قبضے کے ان کو بیچنا چاہے ابن عباس نے کہا یہ چاندی کی بیع ہے چاندی کے بدلے میں اور اس کو مکروہ جانا۔ کہا مالک نے ہماری دانست میں اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص ان کپڑوں کو اسی کے ہاتھ بیچنا چاہے جس سے خریدا ہے پہلی قیمت سے کچھ زیادہ پر کیونکہ اگر وہ کسی اور شخص سے ان کپڑوں کو بیچنا چاہے تو کچھ قباحت نہیں۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے جو شخص سلف کرے غلام میں یا جانور میں یا کسی اور اسباب میں اور اس کے اوصاف بیان کردے ایک میعاد معین پر جب میعاد گزرے تو مشتری (خریدنے والا) ان چیزوں کو اسی بائع (بچنے والا) کے ہاتھ پہلی قیمت سے زیادہ پر نہ بیچے جب تک کہ ان چیزوں کو اپنے قبضے میں نہ لائے ورنہ ربا ہوجائے گا گویا بائع (بچنے والا) نے ایک مدت تک مشتری (خریدنے والا) کے روپوں سے فائدہ اٹھایا پھر زیادہ دے کر اس کو پھیر دیا تو یہ عین ربا ہے۔ کہا مالک نے جو شخص سلف کرے سونا چاندی دے کر کسی اساب میں یا جانور میں اور اس سے اوصاف بیان کردے ایک میعاد معین پر جب میعاد گزر جائے یا نہ گزرے تو مشتری (خریدنے والا) اس اسباب یا جانور کو بائع (بچنے والا) کے ہاتھ کسی اور اسباب کے بدلے میں بیچ سکتا ہے مگر یہ ضروری ہے کہ اس اسباب کو نقد لے لے اس میں میعاد نہ ہو سوائے غلے کے کہ اس کا بیچنا قبل قبضے کے درست نہیں اور اگر مشتری (خریدنے والا) اس اس اسباب کو سوائے بائع (بچنے والا) کے اور کسی کے ہاتھ بیچے تو سونے چاندی کے بدلے میں بھی بیچ سکتا ہے مگر یہ ضروری ہے کہ دام نقد لے میعاد نہ ہو ورنہ کا لئی کی بیع کا لئی کے بدلے میں ہوجائے گی یعنی دین کے بدلے میں دین۔ کہا مالک نے جو شخص کسی اسباب میں جو کھانے پینے کا نہیں ہے سلف کرے ایک میعاد پر تو مشتری (خریدنے والا) کو اختیار ہے کہ اس اسباب کو سوائے بائع (بچنے والا) کے اور کسی کے ہاتھ سونا یا چاندی یا اسباب کے بدلے میں فروخت کر ڈالے قبضے سے پیشتر مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ بائع (بچنے والا) کے ہاتھ ہی بیچے اگر ایسا کرے تو اسباب کے بدلے میں بید ڈالے تو کچھ قباحت نہیں مگر نقدا نقد بیچے۔ کہا مالک نے جس نے روپے یا اشرفیاں دے کر سلف کی چار کپڑوں میں ایک میعاد پر اور ان کپڑوں کے اوصاف بیان کردیئے۔ جب مدت گزری تو مشتری (خریدنے والا) نے بائع (بچنے والا) پر ان چیزوں کا تقاضا کیا لیکن بائع (بچنے والا) کے پاس اس قسم کے کپڑے نہ نکلے بلکہ اس سے ہلکے اس وقت بائع (بچنے والا) نے کہا تو ان ہلکے کپڑوں میں سے آٹھ کپڑے لے لے تو مشتری (خریدنے والا) کو لینا درست ہے مگر اسی وقت نقد لینا چاہیے دیر نہ کرے اگر ان آٹھ کپڑوں کی کوئی معیاد نہ کرے گا تو درست نہیں ہے اگر قبل معیاد گزرنے کے دوسرے کپڑے اسی قسم کے ٹھہرائے تو درست نہیں البتہ دوسرے قسم کے کپڑوں سے بدلنا درست ہے۔

【64】

تانبے اور لوہے اور جو چیزیں تل کر بکتی ہیں ان کا بیان

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ جو چیزیں تل کر بکتی ہیں سوائے چاندی اور سونے کے جیسے تانبا اور پیتل اور رانگ اور سیسہ اور لوہا اور پتے اور گھاس اور روئی وغیرہ ان میں کمی بیشی درست ہے جب کہ نقدا نقد ہو مثلا ایک رطل لوہے کہ دو رطل لوہے کے بدلے میں یا ایک رطل پیتل کو دو رطل پیتل کے بدلے میں لینا درست ہے مگر جب جنس ایک ہو تو وعدے پر لینا درست نہیں۔ اگر جنس مختلف ہو اس طرح کہ کھلم کھلا فرق ہو (جیسے پیتل بدلے میں لوہے کے) تو وعدے پر لینا بھی درست ہے۔ اگر کھلم کھلا فرق نہ ہو صرف نام کا فرق ہو جیسے قلعی اور سیسہ اور پیتل اور کانسی تو میعاد پر لینا مکروہ ہے۔ کہا مالک نے ان چیزوں کو قبضے سے پہلے بیچنا درست ہے سوائے بائع (بچنے والا) کے اور کسی کے ہاتھ نقد داموں پر جب ناپ تول کرلیا ضمان میں آجاتی ہے اور ناپ تول کر خریدنے میں جب تک مشتری (خریدنے والا) اس کو پھر ناپ تول نہ لے اور قبضہ نہ کرلے ضمان میں نہیں آتی۔ یہ حکم ان چیزوں کا میں نے اچھا نسا اور ہمارے نزدیک لوگوں کا عمل اسی پر رہا۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہی حکم ہے کہ جو چیزیں کھانے اور پینے کی نہیں ہیں اور ناپ تول پر بکتی ہیں جیسے کسم اور گٹھلیاں یا پتے وغیرہ ان میں کمی بیشی درست ہے اگرچہ جنس ایک ہو مگر ادھار درست نہیں اگر جنس مختلف ہو تو ادھار بھی درست ہے اور ان چیزوں کو قبل قبضے کے بھی بیچنا درست ہے۔ سوائے بائع (بچنے والا) کے اور کسی کے ہاتھ جب قیمت نقد لے لے۔ کہا مالک نے جتنی چیزیں ایسی ہیں جو کام میں آتی ہیں جیسے ریتی اور چونا اگر اپنی جنس کے بدلے میں بیچی جائیں میعاد پر برابر برابر ہوں یا کم وبیش ناجائز ہیں اگر نقد بیچی جائیں تو درست ہے اگرچہ کم وبیش ہوں۔

【65】

ایک بیع میں دو بیع کرنے کی ممانعت ،۔

امام مالک کو پہنچا رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا دو بیعوں سے ایک بیع میں۔ ایک شخص نے دوسرے سے کہا تم میرے واستے یہ اونٹ نقد خرید کرلو میں تم سے وعدے پر خرید کرلوں گا عبداللہ بن عمر نے اس کا برا جانا اور منع کیا قاسم بن محمد سے سوال ہوا ایک شخص نے ایک چیز خریدی دس دینار کے بدلے میں یا پندہ دینار اور ادھار کے بدلے میں تو قاسم بن محمد نے اس کو برا جانا اور اس سے منع کیا۔ کہا مالک نے اگر کسی شخص نے ایک کپڑا اس شرط سے خریدا اگر نقد دے تو دس دینار دے اگر وعدے پردے تو پندرہ دینار دے بہر حال مشتری (خریدنے والا) کو دونوں میں ایک قمیت دینا ضروری ہے تو یہ جانق نہیں کیونکہ اس نے اگر دس دینار نقد نہ دیئے تو دس کے بدلے پندرہ ادھار ہوئے اور جو دس نقد دے دیئے تو گویا پندرہ ادھار اس کے بدلے میں لئے۔ کہا مالک نے اگر مشتری (خریدنے والا) نے بائع (بچنے والا) سے کہا میں نے تجھ سے اس قسم کی کھجور پندرہ صاع یا اس قسم کی دس صاع ایک دینار کے بدلے میں لی دونوں میں سے ایک ضرور لوں گا یا یوں کہا میں نے تجھ سے اس قسم کی گیہوں پندرہ صاع یا اس قسم کی گیہوں دس صاع ایک دینار کے بدلے میں لئے دونوں میں سے ایک ضرور لوں گا تو یہ درست نہیں گویا اس نے دس صاع کھجور لے کر پھر اس کو چھوڑ کر پندرہ صاع کھجور لی یا دس صاع گیہوں چھوڑ کر اس کے عوض میں پندرہ صاع لئے یہ بھی اس میں داخل ہے یعنی دو بیع کرنا ایک بیع میں۔

【66】

جس بیع میں دھوکا ہو اس کا بیان

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع کیا دھوکے کی بیع سے کہا مالک نے دھوکے کی بیع میں یہ داخل ہے کسی شخص کا جانور گم ہوگیا ہو یا غلام بھاگ گیا ہو اور اس کی قیمت پچاس دینار ہو ایک شخص اس سے کہے میں تیرے اس جانور یا غلام کو بیس دینار کو لیتا ہوں اگر وہ مل گیا تو بائع (بچنے والا) کے تیس دینار نقصان ہوئے اور جو نہ ملا تو مشتری (خریدنے والا) کے پاس بیس دینار گئے۔ کہا مالک نے اس میں ایک بڑا دھوکا ہے معلوم نہیں وہ جانور یا غلام اسی حال میں ہے یا اس میں کوئی عیب ہوگیا یا ہنر ہوگیا جس کی وجہ سے اس کی قیمت گھٹ بڑھ گئی۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ حمل کا خریدنا بھی دھوکے کی بیع میں داخل ہے معلوم نہیں بچہ نکلتا ہے یا نہیں اگر نکلے تو خوبصورت ہوگا یا بدصورت پورا ہوگا یا لنڈورا۔ نر ہو یا مادہ اور ہر ایک کی قیمت کم وبیش ہے۔ کہا مالک نے مادہ کو بیچنا اور اس کے حمل کو مشتثنی کرلینا درست نہیں جیسے کوئی کسی سے کہے میری دودھ والی بکری کی قیمت تین دینار ہیں تو دو دینار کو لے لے مگر اس کے پیٹ کا بچہ جب پیدا ہوگا تو میں لے لوں گا یہ مکروہ ہے درست نہیں۔ کہا مالک نے زیتون کی لکڑی اس کے تیل کے اور تل تیل کے بدلے میں اور مکھن گھی کے بدلے میں بیچنا درست نہیں اس لئے کہ یہ مزابنہ میں داخل ہے۔ اور اس میں دھوکہ ہے معلوم نہیں اس تل یا لکڑی یا مکھن میں اسی قدر تیل یا گھی نکلتا ہے یا اس سے کم یا زیادہ۔ کہا مالک نے اسی طرح حب البان کا بیچنا روغن بان کے بدلے میں نادرست ہے البتہ حب البان کو خوشبودار بان کے بدلے میں بیچنا درست ہے کیونکہ وہ خوشبو ملانے سے تیل کے حکم میں نہ رہا۔ کہا مالک نے ایک شخص نے اپنی چیز کسی کے ہاتھ اس شرط پر بیچی کہ مشتری (خریدنے والا) کو نقصان نہ ہوگا تو یہ جائز نہیں گویا بائع (بچنے والا) نے مشتری (خریدنے والا) کو نوکر رکھا اگر اس چیز میں نفع ہو اور اگر اتنے ہی کو بکے جتنے کو خریدا ہے یا کم کو مشتری (خریدنے والا) کی محنت برباد ہوئی تو یہ درست نہیں مشتری (خریدنے والا) کو اس کی محنت کے موافق مزدوری ملے گی اور جو کچھ نفع نقصان ہو بائع (بچنے والا) کا ہوگا مگر یہ حکم جب ہے کہ مشتری (خریدنے والا) اس چیز کو بیچ چکا ہو اگر اس نے نہیں بیچا تو بیع کو فسخ کریں گے۔ کہا مالک نے اگر کسی شخص نے اپنی چیز بیچ ڈالی پھر مشتری (خریدنے والا) شرمندہ ہو کر بائع (بچنے والا) سے کہنے لگا کچھ قیمت کم کردے بائع (بچنے والا) نے انکار کیا اور کہا تو غم نہ کھابیچ دے تجھے نقصان نہ ہوگا اس میں کچھ قباحت نہیں نہ دھوکا ہے بلکہ بائع (بچنے والا) نے ایک رائے اپنی بیان کی کچھ اس شرط پر نہیں بیچا ہمارے نزدیک یہی حکم ہے۔

【67】

ملامسہ اور منابذہ کے بیان

ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع کیا ملام سے اور منابذے سے۔ کہا مالک نے ملامسہ اس کو کہتے ہیں کہ آدمی ایک کپڑے کو چھوڑ کر خرید کرلے نہ اس کو کھولے نہ اندر سے دیکھے یا اندھیری رات میں خریدے نہ جانے اس میں کیا ہے اور منابذہ اس کو کہتے ہیں کہ بائع (بچنے والا) اپنا کپڑا مشتری (خریدنے والا) کی طرف پھینک دے اور مشتری (خریدنے والا) اپنا کپڑا بائع (بچنے والا) کی طرف نہ سوچیں نہ بچاریں یہ اس کے بدلے میں اور وہ اس کے بدلے میں یہ دونوں بیع ممنوع ہیں۔ کہا مالک نے جو تھان تہہ کیا یا چادر بستے میں بندھی ہو تو اس کو بیچنا درست نہیں جب تک کھول کر اندر نہ دیکھے۔

【68】

مرابحہ کا بیان

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے جو شخص ایک شہر سے کپڑا خرید کرکے دوسرے شہر میں لائے پھر مرابحہ کے طور پر بیچنا چاہے تو اصل لاگت میں دلالوں کی دلالی اور تہہ کرنے کی مزدوری اور باندھا بوندھی کی اجرت اور اپنا خرچ اور مکان کا کرایہ شریک نہ کرے البتہ کپڑے کی بار برداری اس میں شریک کرلے مگر اس پر نفع نہ لے مگر جب مشتری (خریدنے والا) کو اطلاع دے اور وہ اس پر بھی نفع دینے کو راضی ہوجائے تو کچھ قباحت نہیں۔ کہا مالک نے کپڑوں کی دھلائی اور نگوائی اس لاگت میں داخل ہوگی اور اس پر نفع لیا جائے گا۔ جیسے کپڑے پر نفع لیا جاتا ہے۔ اگر کپڑوں کو بیچا اور ان چیزوں کا حال بیان نہ کیا تو ان پر نفع نہ ملے گا اب اگر کپڑا تلف ہوگیا تو کرایہ باربرداری کا محسوب ہوگا مگر اس پر نفع نہ لگایا جائے گا۔ اگر کپڑا موجود ہے تو بیع کو فسخ کردیں گے جب دونوں راضی ہوجائیں کسی امر پر۔ کہا مالک نے اگر کسی شخص نے کوئی اسباب سونے یا چاندی کے بدلے میں خریدا تو اس دن چاندی سونے کا بھاؤ یہ تھا کہ دس درہم کو ایک دینار آتا تھا پھر مشتری (خریدنے والا) اس مال کو لے کر دوسرے شہر میں آیا اور اسی شہر میں مرابحہ کے کے طور پر بیچنا چاہا اسی نرخ پر جو سونے چاندی کا اس دن تھا اگر اس نے دراہم کے بدلے میں خریدا تھا اور دیناروں کے بدلے میں بیچا یا دیناروں کے بدلے میں خریدا تھا اور درہموں کے بدلے میں بیچا اور اسباب موجود ہے۔ تلف نہیں ہوا تو خریدار کو اختیار ہوگا چاہے لے چاہے نہ لے اور اگر وہ اسباب تلف ہوگیا تو مشتری (خریدنے والا) سے وہ ثمن جس کے عوض میں بائع (بچنے والا) نے خریدا تھا نفع حساب کرکے بائع (بچنے والا) کو دلادیں گے۔ کہا مالک نے اگر ایک شخص نے اپنی چیز جو سو دینار کو پڑی تھی دس فی صدی کے نفع پر بیچی پھر معلوم ہوا کہ وہ چیز نوے دینار کو پڑی تھی اور وہ چیز مشتری (خریدنے والا) کے پاس تلف ہوگئی تو اب بائع (بچنے والا) کو اختیار ہوگا چاہے اس چیز کی قیمت بازار کی لے لے اس دم کی قیمت جس دن وہ شئے مشتری (خریدنے والا) کے پاس آئی تھی مگر جس صورت میں قیمت بازار کی اس ثمن سے جو اول میں ٹھہری تھی یعنی ایک سو دس دینار سے زیادہ ہو تو بائع (بچنے والا) کو ایک سو دس دینار سے زیادہ نہ ملیں گے اور اگر چاہے تو نوے دینار پر اسی حساب سے نفع لگا کر یعنی ننانوے دینار لے لے مگر جس صورت میں یہ ثمن قیمت سے کم ہو تو بائع (بچنے والا) کا اختیار ہوگا۔ کہا مالک نے اگر کسی شخص نے ایک چیز مرابحہ پر بیچی اور کہا سو دینار کو مجھ کو پڑی ہے پھر اس کو معلوم ہوا ایک سو بیس دینار کو پڑی تو اب خریدار کو اختیار ہوگا اگر چاہے تو بائع (بچنے والا) کا اس دن کی قیمت بازار کی جس دن وہ شئے لی ہے دے دے اور اگر چاہے تو جس ثمن پر خرید کیا ہے نفع لگا کر جہاں تک پہنچے دے مگر جس صورت میں قیمت بازار کی پہلی ثمن سے (یعنی جو سو دینار پر لگی ہے) کم ہو تو مشتری (خریدنے والا) کو یہ نہیں پہنچتا کہ اس سے کم دے اس واسطے کہ مشتری (خریدنے والا) اس پر راضی ہوچکا ہے مگر بائع (بچنے والا) نے اس سے زیادہ بیان کیا تو خریدار کو اصلی ثمن سے کم کرنے کا اختیار نہ ہوگا۔

【69】

برنامے پر بیع کرنے کا بیان

کہا مالک نے اگر چند آدمیوں نے مل کر اسباب خریدا اب ایک شخص دوسرا ان میں سے ایک شخص کو کہے تو نے جو اسباب خریدا ہے میں نے اس کے اوصاف سنے ہیں تو اپنا حصہ اس قدر نفع پر مجھے دے دے۔ میں تیری جگہ ان لوگوں کا شریک ہوجاؤں گا اور وہ منظور کرے بعد اس کے جب اس اسباب کو دیکھے تو برا اور گراں معلوم ہو اب اس کو اختیار نہ ہوگا لینا پڑے گا جب کہ اس کے ہاتھ برنامے پر بیچا ہو اور اوصاف بتادیئے ہوں۔ کہا مالک نے ایک شخص کے پاس مختلف کپڑوں کی گٹھڑیاں آئیں اور اس نے برنامہ سنا کے ان گٹھڑیوں کو فروخت کیا جب لوگوں نے مال کھول کر دیکھا تو گراں معلوم ہوا اور نادم ہوئے اس صورت میں وہ مال ان کو لینا ہوگا۔ جب کہ برنامے کے موافق ہو۔

【70】

جس بیع میں بائع اور مشتری کا اختیار ہو اس کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے بائع (بچنے والا) اور مشتری (خریدنے والا اور بیچنے والا) دونوں کو اختیار ہے جب تک جدا نہ ہوں مگر جس بیع میں اختیار کی شرط ہو۔ عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب بائع (بچنے والا) اور مشتری (خریدنے والا اور بیچنے والا) اختلاف کریں توبائع کو قول معتبر ہوگا اور بیع کا رد کر ڈالیں گے۔ کہا مالک نے ایک شخص نے ایک چیز بیچی اور بیچتے وقت یہ شرط لگائی کہ میں فلانے سے مشورہ کروں گا اگر اس نے اجازت دی تو بیع نافذ ہے اور جو اس نے منع کیا تو بیع لغو ہے مشتری (خریدنے والا) اس شرط پر راضی ہوگیا بعد اس کے پشیمان ہوا تو اس کو اختیار نہ ہوگا بلکہ بائع (بچنے والا) کو جب وہ شخص اجازت دے گا تو نافذ ہوجائے گا۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ اگر ایک شخص کوئی چیز خرید کرے کسی شخص سے پھر ثمن میں اختلاف ہو بائع (بچنے والا) کہے میں نے دس دینار کو بیچا مشتری (خریدنے والا) کہے میں نے پانچ دینار کو خریدا تو بائع (بچنے والا) سے کہا جائے گا اگر تیرا جی چاہے تو پانچ دینار کو مشتری (خریدنے والا) کو دے دے نہیں تو تو قسم کھا اس امر پر میں نے اپنی چیز نہیں بیچی مگر دس دینار کو اگر بائع (بچنے والا) نے قسم کھائی تو مشتری (خریدنے والا) سے کہا جائے گا اگر تیرا جی چاہے تو اس کی چیز دس دینار کو لے لے نہیں تو قسم کھا میں نے اس چیز کو نہیں خریدا مگر پانچ دینار کو مشتری (خریدنے والا) نے یہ قسم کھائی تو وہ بری ہوجائے گا کیونکہ ہر ایک ان میں سے دوسرے کا مدعی ہے۔

【71】

قرض میں سود کا بیان

ابو صالح نے کہا میں نے اپنا کپڑا دار نخلہ والوں کے ہاتھ بیچا ایک وعدے پر جب میں کوفے جانے لگا تو ان لوگوں نے کہا اگر کچھ کم کردو تم تمہارا روپیہ ہم ابھی دے دیتے ہیں میں نے یہ زید بن ثابت (رض) سے بیان کیا انہوں نے کہا میں تجھے اس روپے کے کھانے اور کھلانے کی اجازت نہیں دیتا۔

【72】

قرض میں سود کا بیان

عبداللہ بن عمر سے سوال ہوا ایک شخص کا میعادی قرض کسی پر آتا ہو قرضدار یہ کہے یہ مجھ سے کچھ کم کر کے نقد لے لے اور قرض خواہ اس پر راضی ہوجائے تو عبداللہ بن عمر نے اس کو مکروہ جانا اور اس سے منع کیا۔

【73】

قرض میں سود کا بیان

زید بن اسلم نے کہا کیا جاہلیت میں سود اس طور پر ہوتا تھا ایک شخص کا قرض میعادی دوسرے شخص پر آتا ہو جب میعاد گزر جائے تو قرضخواہ قرضدار سے کہے یا تم قرض ادا کرو یا سود دو اگر اس نے قرض ادا کیا تو بہتر ہے نہیں تو قرضخواہ اپنا قرضہ بڑھا دیتا اور پھر میعاد کراتا۔ کہا مالک نے اگر کسی شخص کے دوسرے شخص پر سو دینار آتے ہوں وعدے پر جب وعدہ گزر جائے تو قرضدار قرضخواہ سے کہے تو میرے ہاتھ کوئی ایسی چیز جس کی قیمت سو دینار ہوں ڈیڑھ سو دینار کو بیع ڈال ایک میعاد پر یہ بیع درست نہیں اور ہمیشہ اہل علم اس سے منع کرتے رہے اس لئے کہ قرضخواہ نے اپنی چیز کی قیمت سو دینار وصول کرلی اور وہ جو سو دینار قرضے کے تھے ان کی میعاد بڑھا دی۔ بعوض پچاس دینار کے جو اس کو فائدہ حاصل ہو اس شئے کے بیچنے میں۔ یہ بیع مشابہ ہے اس کے جو زید بن اسلم نے روایت کیا کہ جاہلیت کے زمانے میں جب قرض کی مدت گزر جاتی تو قرضخواہ قرضدار سے کہتا یا تو قرض ادا کر یا سود دے اگر وہ ادا کردیتا تو لے لیتا نہیں تو اور مہلت دے کر قرضہ کو بڑھا دیتا۔

【74】

قرض کے مختلف مسائل کا بیان

ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مالدار شخص کا دیر کرنا قرض ادا کرنے میں ظلم ہے اور جب تم میں سے کوئی حوالہ کیا جائے مالدار شخص پر تو چاہے کہ حوالہ قبول کرلے۔

【75】

قرض کے مختلف مسائل کا بیان

موسیٰ بن میسرہ نے سنا ایک شخص پوچھ رہا تھا سعید بن مسیب سے میں قرض کے بدل میں بیچا کرتا ہوں سعید نے کہا تو نہ بیچ مگر اس چیز کو جو تیرے پاس ہو۔ کہا مالک نے جو شخص کوئی چیز خرید کرے اس شرط پر کہ بائع (بچنے والا) وہ شئے مشتری (خریدنے والا) کو اتنی مدت میں سپرد کردے اس میں مشتری (خریدنے والا) نے کوئی مصلحت رکھی ہو مثلا اس وقت بازار میں اس مال کی نکاسی کی امید ہو یا اور کچھ غرض ہو پھر بائع (بچنے والا) اس وعدے میں خلاف کر اور مشتری (خریدنے والا) چاہے کہ وہ شئے بائع (بچنے والا) کو پھیر دے تو مشتری (خریدنے والا) کو یہ حق نہیں پہنچتا اور بیع لازم رہے گی اگر بائع (بچنے والا) اس شئے کو قبل میعاد کے لئے آیا تو مشتری (خریدنے والا) پر جبر نہ کیا جائے گا اس کے لینے پر۔ کہا مالک نے جو شخص اناج خرید کر اس کو تول لے پھر ایک خریدار آئے جو مشتری (خریدنے والا) سے اس اناج کو خرید کرنا چاہے مشتری (خریدنے والا) اس سے کہے کہ میں اناج تول چکا ہوں اور وہ شخص مشتری (خریدنے والا) کو سچا سمجھ کر اس غلے کو نقد مول لے لے تو کچھ قباحت نہیں مگر وعدے پر لینا مکروہ ہے جب تک وہ خریدار دوبارہ اس کو تول نہ لے۔ کہا مالک نے دین کا خریدنا درست نہیں خواہ غائب پر ہو یا حاضر پر مگر جب شخص حاضر اس کا اقرار کرے اسی طرح جو دین میت پر ہو اس کا بھی خریدنا درست نہیں کیونکہ اس میں دھوکا ہے معلوم نہیں وہ قرض ملتا ہے یا نہیں اس واسطے اگر میت یا غائب پر اور بھی دین نکلا تو اس کے پیسے مفت گئے دوسرے یہ کہ وہ قرض اس کی ضمان میں داخل نہیں ہو اگر نہ پنٹا تو اس کے پیسے مفت گئے۔ کہا مالک نے بیع سلف (قرض) میں اور بیع عینہ میں یہ فرق ہے کہ بیع عینہ والا دس دینار نقد دے کر پندرہ دینار وعدے پر لیتا ہے تو یہ صریح دھوکا ہے اور بالکل فریب ہے۔

【76】

شرکت اور تولیہ اور اقالہ کے بیان میں

کہا مالک نے جس شخص نے کئی قسم کا کپڑا بیچا اور چند رقم کے کپڑے مستثنی کرلینے کی شرط کرلی تو کچھ قباحت نہیں اگر شرط نہیں کی تو وہ ان کپڑوں میں شریک ہوجائے گا۔ اس لئے کہ ایک رقم کے کپڑوں میں بھی کم وبیش ہوتی ہے۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ شرکت اور تولیہ اور اقالہ کھانے کی چیزوں میں درست ہے ہے خواہ ان پر قبضہ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو مگر یہ ضروری ہے کہ نقد ہو میعاد نہ ہو اور کمی بیشی نہ ہوا اگر اس میں کمی بیشی ہوگی یا میعاد ہوگی تو یہ معاملے بیع سمجھے جائیں گے شرکت اور تولیہ اور اقالہ نہ ہوں گے۔ کہا مالک نے اگر کسی شخص نے کوئی اسباب جیسے کپڑا یا غلام یا لونڈی خرید کیا پھر ایک شخص نے اس سے کہا کہ مجھ کو بھی اس میں شریک کرلو اس نے قبول کیا اور دونوں نے مل کر بائع (بچنے والا) کو قیمت ادا کردی پھر وہ اسباب کسی اور کا نکلا تو جو شخص شریک ہو وہ اپنے دام پہلے مشتری (خریدنے والا) سے لے لے گا۔ اور وہ بائع (بچنے والا) سے لے گا مگر جس صورت میں مشتری (خریدنے والا) نے خریدتے وقت بائع (بچنے والا) کے سامنے اس شریک سے کہہ دیا ہو کہ اگر مبیع میں فتور نکلے تو اس کی جواب وہی بائع (بچنے والا) پر ہوگی تو اس صورت میں وہ شریک اپنا نقصان بائع (بچنے والا) سے لے گا اگر ایسا نہ ہو تو مشتری (خریدنے والا) کی شرط کچھ کام نہ آئے گی اور تاوان کا نقصان اسی پر ہوگا۔ کہا مالک نے زید نے عمرو سے یہ کہا تو اس شئے کو خرید کرلے میرے اور اپنے ساجھے میں بکوادوں گا۔ تو میری طرف سے بھی دام دے دے تو یہ درست نہیں کیونکہ یہ سلف (قرض) ہے بکوادینے کی شرط پر اگر وہ شئے تلف ہوجائے تو عمروزید سے اس کے حصہ کے دام لے لے گا البتہ اگر عمرو ایک شئے خرید کرچکا پھر زید نے کہا مجھے بھی اس میں شریک کرلے نصف کا میں بکوادوں گا تو یہ درست ہے۔

【77】

قرض دار کے مفلس ہوجانے کا بیان

ابی بکر بن عبدالرحمن (رض) روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اپنا مال بیچا کسی کے ہاتھ پھر مشتری (خریدنے والا) مفلس ہوگیا اور بائع (بچنے والا) کو ثمن وصول نہیں ہوئی لیکن بائع (بچنے والا) نے اپنی چیز بجنسہ مشتری (خریدنے والا) کے پاس پائی تو بائع (بچنے والا) اس چیز کا زیادہ حقدار ہوگا اگر مشتری (خریدنے والا) مرگیا تو اس چیز میں بائع (بچنے والا) اور قرضخواہوں کے برابر ہوگا۔

【78】

قرض دار کے مفلس ہوجانے کا بیان

ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اپنا مال بیچا کسی کے ہاتھ پھر مشتری (خریدنے والا) مفلس ہوگیا اور بائع (بچنے والا) نے اپنی چیز بعینہ مشتری (خریدنے والا) کے پاس پائی تو وہ اس کا زیادہ حقدار ہے۔ کہا مالک نے جس شخص نے کوئی اسباب بیچا پھر مشتری (خریدنے والا) مفلس ہوگیا اور بائع (بچنے والا) نے اپنی چیز بعینہ مشتری (خریدنے والا) کے پاس پائی تو بائع (بچنے والا) اس کو لے لے گا اگر مشتری (خریدنے والا) نے اس میں سے کچھ بیچ ڈالا ہے تو جس قدر باقی ہے اس کا بائع (بچنے والا) زیادہ حقدار ہے بہ نسبت اور قرضخواہوں کے۔ اگر بائع (بچنے والا) تھوڑی سی ثمن پاچکا ہے پھر بائع (بچنے والا) یہ چاہے کہ اس ثمن کو پھیر کر جس قدر اسباب اپنا باقی ہے اس کو لے لے اور جو کچھ باقی رہ جائے اس میں اور قرضخواہوں کے برابر ہے تو ہوسکتا ہے۔ کہا مالک نے اگر کسی شخص نے سوت یا زمین خریدی پھر سوت کا کپڑا بن لیا اور زمین پر مکان بنایا بعد اس کے مشتری (خریدنے والا) مفلس ہوگیا اب زمین کا بائع (بچنے والا) یہ کہے کہ میں زمین اور مکان سب لئے لیتا ہوں تو یہ نہیں ہوسکتا بلکہ زمین کی اور عملے کی قیمت لگائیں کے پھر دیکھیں گے اس قیمت کا حصہ زمین پر کتنا آتا ہے اور عملے پر کتنا آتا ہے اب بائع (بچنے والا) اور مشتری (خریدنے والا اور بیچنے والا) دونوں اس میں شریک رہیں گے زمین کا مالک اپنے حصہ کے موافق اور باقی قرضخواہ عملے کے موافق۔ کہا مالک نے اس کی مثال یہ ہے جیسے زمین اور عملے کی قیمت پندرہ سو ہوئی اس میں سے زمین کی قیمت پانچ سو ہے اور عملے کی ہزار ہے تو زمین والے کا ایک ثلث ہوگا اور باقی قرضخواہوں کے دو ثلث ہوں گے۔ کہا مالک نے یہی حکم سوت میں ہے جب کہ مشتری (خریدنے والا) نے اس کو بن لیا بعد اس کے قرضدار ہو کر مفلس ہوگیا۔ کہا مالک نے اگر مشتری (خریدنے والا) نے اس چیز میں تصرف نہیں کیا مگر اس چیز کی قیمت بڑھ گئی اب بائع (بچنے والا) یہ چاہتا ہے کہ اپنی شئے پھیر لے اور قرضخواہ چاہتے ہیں کہ وہ شئے بائع (بچنے والا) کو نہ دیں گو قرضخواہ ہوں کو اختیار ہے خواہ بائع (بچنے والا) کی ثمن پوری پوری حوالے کردیں۔ اگر اس چیز کی قیمت گھٹ گئی تو بائع (بچنے والا) کو اختیار ہے خواہ اپنی چیز لے لے پھر اس کو مشتری (خریدنے والا) کے مال سے کچھ غرض نہ ہوگی خواہ اپنی چیز نہ لے اور قرضخواہوں کے ساتھ شریک ہوجائے۔ کہا مالک (رح) نے اگر کسی شخص نے لونڈی خریدی یا جانور خریدا پھر اس لونڈی یا جانور کا مشتری (خریدنے والا) کے پاس آن کر بچہ پیدا ہوا بعد اس کے مشتری (خریدنے والا) مفلس ہوگیا تو وہ بچہ بائع (بچنے والا) ہوگا البتہ اگر قرضخواہ بائع (بچنے والا) کی پوری ثمن ادا کردیں تو بچہ کو اور اس کی ماں کو دونوں کو رکھ سکتے ہیں۔

【79】

کن چیزوں میں ادھار درست ہے۔

ابو رافع سے روایت ہے کہ جو مولیٰ (غلام آزاد کئے ہوئے) تھے رسول اللہ ﷺ کے کہ رسول اللہ ﷺ نے قرض لیا ایک چھوٹا اونٹ جب صدقے کے وقت کے وقت اونٹ آئے اور آپ ﷺ نے مجھ کو حکم کیا ویسا ہی اونٹ ادا کرنے کو میں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ صدقے کے اونٹوں میں سب اونٹ اچھے بڑے بڑے ہیں چھ چھ برس کے آپ ﷺ نے فرمایا اس میں سے دے دے اچھے وہ لوگ ہیں جو قرض اچھے طور پر ادا کریں۔

【80】

جس چیز میں سلف درست ہے۔

مجاہد سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے ایک شخص سے روپے قرض لئے پھر اس سے اچھے ادا کئے وہ شخص بولا اے عبدالرحمن یہ تو میرے روپوں سے اچھے ہیں عبداللہ بن عمر نے کہا ہاں میں جانتا ہوں مگر میں اپنی خوشی سے دئے ہیں۔ کہا مالک نے جو شخص سونا چاندی یا اناج یا جانور قرض لے پھر اس سے بہتر ادا کرے تو کچھ قباحت نہیں جب کہ اس کی شرط نہ ہوئی ہو یا ایسی رسم نہ ہو یا اس کا وعدہ نہ کیا ہو اگر شرط یا رسم یا وعدے کے سبب سے ہو تو مکروہ ہے۔ بہتر نہیں۔ کہا مالک نے دیکھو رسول اللہ ﷺ نے چھوٹا اونٹ قرض لے کر اچھا بڑا اونٹ دیا اور عبداللہ بن عمر (رض) نے روپے قرض لے کر اس سے بہت دیئے مگر اس کی شرط یا وعدہ نہیں ہوا تھا تو جو کوئی خوشی سے ایسا کرے حلال ہے۔

【81】

جو سلف درست نہیں اس کا بیان

حضرت عمر بن خطابن سے کسی نے کہا جو شخص کسی کو اناج قرض دئیے اس شرط پر کہ فلانے شہر میں ادا کرنا انہوں نے اس کو مکروہ جانا اور کہا بار برداری کی اجرت کہاں جائے گی۔ ایک شخص عبداللہ بن عمر کے پاس آیا اور کہا میں نے ایک شخص کو قرض دیا اور عمدہ اس سے ٹھہرایا عبداللہ بن عمر نے کہا یہ ربا ہے اس نے کہا پھر کیا حکم کرتے ہو عبداللہ بن عمر نے کہا قرض تین طور پر ہے ایک اللہ کے واسطے اس میں تو اللہ کی رضا مندی ہے ایک اپنے دوست کی خوشی کے لئے اس میں دوست کی رضا مندی ہے ایک قرض اس واسطے ہے کہ حلال مال دے کر حرام مال لے یہ سود ہے پھر وہ شخص بولا اب مجھ کو کیا حکم کرتے ہو ابوعبدالرحمن انہوں نے کہا میرے نزدیک مناسب یہ ہے کہ تو دستاویز کو پھاڑ ڈال اگر وہ شخص جس کو تو نے قرض دیا ہے جیسا مال تو نے دیا ہے ویسا ہی دے تو لے لے اگر اس سے برا دے اور تو لے لے تو تجھے اجر ہوگا اگر وہ اپنی خوشی سے اس سے اچھا دے تو اس نے تیرا شکریہ ادا کیا اور تو نے جو اتنے دنوں تک اس کو مہلت دی اس کا ثواب تجھے ملا۔

【82】

جو سلف درست نہیں اس کا بیان

عبداللہ بن عمر کہتے تھے جو شخص کسی کو قرض دے تو سوائے قرض ادا کرنے کے اور کوئی شرط نہ کرائے۔ عبداللہ بن مسعود کہتے تھے جو شخص کسی کو قرض دے اس سے زیادہ نہ ٹھہرائے اگر ایک مٹھی گھاس کی ہو۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ جو شخص کوئی جانور جس کا حلیہ اور صفت معلوم ہو کسی کو قرض دے تو کچھ قباحت نہیں اب مقروض ویسا ہی جانور ادا کرے۔ مگر لونڈی کو قرض لینا درست نہیں کیونکہ یہ ذریعہ ہے حرام کے حلال کرنے کا لوگ ایک درسرے کی لونڈی قرض لے آئیں گے پھر جب تک جی چاہے گا اس سے جماع کریں گے بعد اس کے مالک کو پھیر دیں گے یہ تو حلال نہیں ہمیشہ اہل علم اس سے منع کرتے رہے اور کسی کو اس کی اجازت نہ دی۔

【83】

جو مول تول یا بیع ممنوع ہے اس کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے نہ بیچیں بعض تمہارے اوپر بعض کے۔

【84】

جو مول تول یا بیع ممنوع ہے اس کا بیان

ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے مت ملو بنجاروں سے آگے بڑھ کر ان کا مال خریدنے کے واسطے اور نہ بیچنے ایک تم میں کا دوسرے کی بیع پر اور نہ بخش کرو اور نہ بیچے بستی والا دیہات والے کی طرف سے اور نہ جمع کرے دودھ اونٹ اور بکری کے تھنوں میں اگر کوئی ایسی اونٹنی یا بکری خریدے پھر دودھ دوہنے کے بعد اس کا حال معلوم ہو تو مشتری (خریدنے والا) کو اختیار ہے اگر چاہے رکھ لے یا چاہے تو پھیر دے اور دوھ کے بدلے میں ایک صاع کھجور دے دے۔ کہا مالک نے یہ جو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نہ بیچے تم میں کا دوسرے کی بیع پر اس سے یہ مراد ہے کہ ایک شخص دوسرے کے مول پر مول نہ کرے جب بائع (بچنے والا) پہلے مول پر راضی ہوچکا ہو اور اپنی چیز تو لنے لگا ہو اور عیب سے اپنے تئیں بری کرنے لگا ہو یا اور کوئی کام ایسا کرے جس سے معلوم ہو کہ بائع (بچنے والا) پہلے مول پر راضی ہوچکا ہے اور جو بائع (بچنے والا) پہلے مول پر راضی نہ ہو بلکہ وہ مال اسی طرح بیچنے کے واسطے رکھا ہوا تو ہر ایک کو اس کا مول کرنا درست ہے اور اگر ایک شخص کے مول کرتے ہی اور لوگوں کو مول کرنا منع ہوجائے تو اس میں بیچنے والے کا نقصان ہے۔

【85】

جو مول تول یا بیع ممنوع ہے اس کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع کیا نجش سے اور یہ نجش ہے کہ مال کی قیمت اس کی حیثیت سے زیادہ دینے لگے لینے کی نیت سے نہیں بلکہ اس غرض سے کہ دوسرا شخص دھوکا کھا کر اس قیمت کو لے لے۔

【86】

بیع کے مختلف مسائل کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے آپ ﷺ سے بیان کیا کہ مجھ کو لوگ فریب دیتے ہیں خریدو فروخت میں آپ ﷺ نے فرمایا جب تو خریدو فروخت کیا کرے تو کہہ دیا کر کہ فریب نہیں ہے وہ شخص جب معاملہ کرتا تو یہی کہا کرتا کہ فریب نہیں ہے۔

【87】

بیع کے مختلف مسائل کا بیان

یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ محمد بن منکدر کہتے تھے اللہ اس بندے کو چاہتا ہے جو بیچتے وقت نرمی کرتا ہے اور خریدتے وقت بھی نرمی کرتا ہے قرص ادا کرتے وقت بھی نرمی کرتا ہے اور قرض وصول کرتے وقت بھی۔

【88】

بیع کے مختلف مسائل کا بیان

سعید بن مسیب کہتے تھے جب تو ایسے ملک میں آئے جہاں کے لوگ پورا پورا ناپتے اور تولتے ہوں تو وہاں زیادہ رہ جب ایسے ایسے ملک میں آئے جہان کے لوگ ناپ تول میں کمی کرتے ہوں تو وہاں کم رہ۔ کہا مالک نے کوئی شخص اونٹ یا بکریاں یا کپڑا یا غلام لونڈی بےگنے جھنڈ کے جھنڈخریدلے اچھا نہیں جو چیزیں گنتی ہے بکتی ہیں ان کو گن لینا بہتر ہے۔ ابن شہاب سے سوال ہوا کوئی شخص ایک جانور کو لے پھر دوسرے شخص کو اس سے زیادہ پر کرایہ کو دے انہوں نے کہا کچھ قباحت نہیں۔