36. کتاب مساقات کے بیان میں
مساقات کا بیان
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا خبیر کے یہودیوں سے جس دن خبیر فتح ہوا جو تم کو اللہ نے دیا ہے اس پر میں تہیں برقرار رکھوں گا اس شرط سے کہ جتنے پھل یہاں پیدا ہوتے ہیں وہ ہم میں تم میں مشترک ہوں تو رسول اللہ ﷺ عبداللہ بن رواضہ کو بھیجتے تھے وہ درختوں کو دیکھ کر ان کے پھلوں کا اندازہ کرتے تھے اگر تم چاہو تو تم ان پھولوں کو لے لو اور جو اندازہ ہوا ہے اس کا آدھا ہم کو دیدو ہم تم کو اس اندازے کے آدھے پھل دیں گے یہود خود پھل لے لیا کرتے۔
مساقات کا بیان
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن روحہ کو بھیجتے تھے خبیر کی طرف وہ پھلوں کا اور زمینوں کا اندازہ کردیتے تھے ایک بار یہودیوں نے اپنی عورتوں کا زیور جمع کیا اور عبداللہ بن روحہ کو دینے لگے یہ لے مگر ہمارے محصول میں کمی کردو عبداللہ بن روحہ نے کہا اے یہود اللہ کی ساری مخلوق میں میں تم کو زیادہ برا سمجھتا ہوں اس پر بھی میں نہیں چاہتا کہ تم پر ظلم کروں اور جو تم مجھے رشوت دیتے ہو وہ حرام ہے اس کو ہم لوگ نہیں کھاتے اس وقت یہودی کہنے لگے اس وجہ سے اب تک آسمان اور زمین قائم ہیں۔ کہا مالک نے اگر کوئی ایسی زمین کی مساقات کرے جس میں درخت بھی ہوں انگور کے یا کھجور کے اور خالی زمین بھی ہو تو اگر خالی زمین ثلث یا ثلث سے کم ہو تو مساقات درست ہے اور اگر خالی زمین زیادہ ہو اور درخت ثلث یا ثلث سے کم میں ہوں تو ایسی زمین کا کرایہ دینا درست ہے مگر مساقات درست نہیں کیونکہ لوگوں کا یہ دستور ہے کہ زمین میں مساقات کیا کرتے ہیں اور اس میں تھوڑی سی زمین میں درخت بھی رہتے ہیں یا جس مصحف یا تلوار میں چاندی لگی ہو اس کو چاندی کے بدلے میں بیچنے میں یا ہار یا انگوٹھی کو جس میں سونا بھی ہوسونے کے بدلے میں بیچتے ہیں اور ہمیشہ سے لوگ اس قسم کی خریدو فروخت کرتے چلے آئے ہیں اور اس کی کوئی حد نہیں مقرر کی کہ اس قدر سونا یا چاندی ہو تو حلال ہے اور اس سے زیادہ ہو تو حرام ہے مگر ہمارے نزدیک لوگوں کے عملدرامد کے موافق یہ حکم ٹھہرا ہے کہ جب مصحف یا تلوار یا انگوٹھی میں سونا چاندی دثلث قیمت کے برابر ہو یا اس سے کم تو اس کی بیع چاندی یا سونے کے بدلے میں درست ہے ورنہ درست نہیں۔
غلاموں کی خدمت کی شرط کرنا مساقات میں۔
کہا مالک نے اگر عامل زمین کے مالک سے یہ شرط کرلے کہ کام کاج کے واسطے جو غلام پہلے مقرر تھے وہ میرے پاس بھی مقرر رکھنا تو اس میں کچھ قباحت نہیں کیونکہ اس میں عامل کی کچھ منفعت نہیں ہے صرف اتنافائدہ ہے کہ اس کے ہونے سے عامل کو محنت کم پڑے گی اگر وہ نہ ہوتے تو محنت زیادہ پڑتی۔ اس کی ایسی ہے کہ ایک مساقات ان درختوں میں ہو کہ جن میں پانی چشموں سے آتا ہے اور ایک مساقاہ ان درختوں میں ہو کہ نہاں پانی بھر کر اونٹ پر لانا پڑتا ہے دونوں برابر نہیں ہوسکتیں اس لئے کہ ایک میں محنت زیادہ ہے اور دوسرے میں کم۔ کہا مالک نے عامل کو یہ نہیں پہنچتا کہ ان غلاموں سے اور کوئی کام لے یا مالک سے اس کی شرط کرلے۔ کہا مالک نے عامل کو یہ درست نہیں کہ مالک سے ان غلاموں کی شرط کرلے جو پہلے سے باغ میں مقرر نہ تھے۔ کہا مالک نے زمین کے مالک کو یہ درست نہیں کہ جو غلام پہلے سے باغ میں مقرر تھے ان میں سے کسی غلام کے نکال لینے کی شرط مقرر کرے بلکہ اگر کسی غلام کو نکالنا چاہے تو مساقات کے اول نکال لے اسی طرح اگر کسی کو شریک کرنا چاہے تو مساقات کے اول شریک کرلے بعد اس کے مساقات کرے۔
کراء الارض زمین کو کرایہ پر دینے کے بیان میں
رافع بن خدیج سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع کیا کھیتوں کے کرایہ دینے سے حنظلہ نے کہا میں نے رافع سے پوچھا اگر سونے یا چاندی کے بدلے میں کرایہ کر دے انہوں نے کہا کچھ قباحت نہیں۔
کراء الارض زمین کو کرایہ پر دینے کے بیان میں
سعید بن مسیب سے ابن شہاب نے پوچھا زمین کو کرایہ پر دینا سونے یا چاندی کے بدلے میں درست ہے کہا ہاں کچھ قباحت نہیں۔
کراء الارض زمین کو کرایہ پر دینے کے بیان میں
ابن شہاب نے سالم بن عبداللہ سے پوچھا کہ کھتیوں کا کرایہ دینا کیسا ہے انہوں نے کہا کچھ قباحت نہیں سونے یا چاندی کے بدلے میں ابن شہاب نے کہا کیا تم کو رافع بن خدیج کی حدیث نہیں پہنچی سام نے کہا رافع نے زیادتی کی اگر میرے پاس زمین مزروعہ ہوتی تو میں اس کو کرایہ دیتا۔ عبدالرحمن بن عورف نے ایک زمین کرایہ کو لی ہمیشہ ان کے پاس رہی مرے دم تک ان کے بیٹے نے کہا ہم اس کو اپنی ملک سمجھتے تھے اس وجہ سے کہ معت تک ہمارے پاس رہی جب عبدالرحمن مرنے لگے تو انہوں نے کہا وہ کرایہ کی ہے اور حکم کیا کہ کرایہ ادا کرنے کا جو ان پر باقی تھا سونے یا چاندی کی قسم سے۔
کراء الارض زمین کو کرایہ پر دینے کے بیان میں
عروہ بن زبیر اپنی زمین کو کرایہ پر دیتے تھے چاندی یا سونے کے بدلے میں۔