38. کتاب حکموں کی
سچے حکم کرنے کا بیان
ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں بھی بشر ہوں اور تم میرے پاس لڑتے جھگڑتے آتے ہو شائد تم میں سے کوئی باتیں بنا کر اپنے دعوے کو ثابت کرلے پھر میں اس کے موافق فیصلہ کروں اس کے کہنے پر تو جس شخص کو میں اس کے بھائی حقل دلا دوں وہ نہ لے کیونکہ میں ایک انگارہ آگ کا اس کو دلاتا ہوں۔
سچے حکم کرنے کا بیان
حضرت عمر بن خطاب کے پاس ایک یہودی اور ایک مسلمان لڑتے ہوئے آئے حضرت عمر کو یہودی کی طرف حق معلوم ہوا انہوں ہے اس کے موافق فیصلہ کیا پھر یہودی بولا قسم اللہ کی تم نے سچا فیصلہ کیا حضرت عمر نے اس کو درے سے مار اور کہا تجھے کیونکرمعلوم ہوا یہودی نے کہا ہماری کتابوں میں لکھا ہے جو حاکم سچا فیصلہ کرتا ہے اس کے داہنے ایک فرشتہ ہوتا ہے اور بائیں ایک فرشتہ دونوں اس کو مضبوط کرتے ہیں اور سیدھی راہ بتلاتے ہیں جب تک کہ وہ حاکم حق پر جما رہتا ہے جب حق چھوڑ دیتا ہے وہ فرشتے بھی اس کو چھوڑ کر آسمان پر چڑھ جاتے ہیں۔
گواہیوں کا بیان
زید بن خالد جہنی سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کیا نہ خبر دوں میں تم کو سب سے بہتر گواہ کی جو گواہی دیتا ہے قبل اس کے کہ پوچھا جائے اس سے۔
گواہیوں کا بیان
ربیعہ بن ابو عبدالرحمن (رض) روایت ہے کہ ایک شخص عراق کا رہنے والا حضرت عمرب کے پاس آیا اور بولا میں تمہارے پاس اس کام کو آیا ہوں جس کا سر پیر کچھ نہیں حضرت عمر نے کہا کیا ہے اس نے کہا جھوٹی گواہیاں ہمارے ملک میں بہت پھیل گئی ہیں حضرت عمر نے کہا سچ اس نے کہا ہاں تب حضرت عمر نے کہا اب کوئی شخص مسلمان قید نہ کیا جائے گا بغیر معتبر گواہوں کے۔ حضرت عمر نے کہا نہیں درست ہے گواہی دشمن کی اور متہم کی۔
جس کو حد قذف پڑی ہو اس کی گواہ کا بیان
سلیمان بن یسار وغیرہ سے سوال ہوا کہ ایک شخص کو حد قذف پڑی پھر اس کی گواہی درست ہے انہوں نے کہا ہاں جب وہ توبہ کرلے اور اس کی توبہ کی سچائی اس کے اعمال سے معلوم ہوجائے۔ ابن شہاب سے بھی یہ سوال ہوا انہوں نے بھی ایسا ہی کہا۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہی حکم ہے کیونکہ اللہ جل جلالہ نے فرمایا جو لوگ لگاتے ہیں نیک بخت بیبیوں کو پھر چار گواہ نہیں لاتے ان کو اسی کوڑے مارو پھر کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرو وہی گنہگار ہیں مگر جو لوگ توبہ کریں بعد اس کے اور نیک ہوجائیں تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے پس جو شخص حد قذف لگایا جائے پھر توبہ لرے اور نیک ہوجائے اس کی گواہی درست ہے۔
ایک گواہ اور قسم پر فیصلہ کرنے کا بیان
جعفر بن محمد اپنے باپ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ کیا ایک قسم اور ایک گواہ پر۔
ایک گواہ اور قسم پر فیصلہ کرنے کا بیان
عمر بن عبدالعزیز نے لکھا عبدالحمید بن عبدالرحمن کو اور وہ عامل تھے کوفہ کے کہ ایک قسم اور ایک گواہ پر فیصلہ کیا کر۔ ام سلمہ بن عبدالرحمن اور سلیمان بن یسار سے سوال ہوا کہ ایک گواہ اور ایک قسم پر فیصلہ کرنا درست ہے انہوں نے کہا ہاں۔ کہا مالک نے جب مدعی کے پاس ایک گواہ ہو تو اس کی گواہی لے کر مدعی کو قسم دیں گے اگر وہ قسم کھالے گا تو بری ہوجائے گا اگر وہ قسم کھانے سے انکار کرے تو مدعی کا دعویٰ اس پر ثابت ہوجائے گا۔ کہا مالک نے ایک قسم اور ایک گواہ سے فیصلہ کرنا صرف اموال کے عدوے میں ہوگا اور حدود اور نکاح اور طلاق اور عتاق اور سرقہ اور قذف میں ایک گواہ اور ایک قسم پر فیصلہ کرنا درست نہیں اور جس شخص نے عتاق کو اموال کے دعوے میں داخل کیا اس نے غلطی کی کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو غلام جب ایک گواہ لاتا اس امر پر کہ مولیٰ نے اس کو آزاد کردیا ہے تو چاہیے تھا کہ غلام سے حلف لے کے اس کو آزاد کردیتے حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ جب غلام اپنی آزادی پر ایک گواہ لائے تو اس کے مولیٰ سے حلف لیں گے اگر حلف کرلے گا تو آزادی ثابت نہ ہوگی۔ کہا مالک نے اسی طرح اگر عورت ایک گواہ لائے اس امر پر کہ اس کے خاوند نے اس کو طلاق دی تو خاوند سے قسم لیں گے اگر وہ قسم کھائے اس امر پر کہ میں نے طلاق نہیں دی تو طلاق ثابت نہ ہوگی۔ کہا مالک نے اگر طلاق اور عتاق میں جب ایک گواہ ہو تو خاوند اور مولیٰ پر قسم لازم آئے گی۔ کیونکہ عتاق ایک حد شرعی ہے جس میں عورتوں کی گواہی درست نہیں اس لئے کہ غلام جب آزاد ہوجاتا ہے تو اس کی حرمت ثابت ہوجاتی ہے اور اس کی حدیں اوروں پر پڑتی ہیں اور اوروں کی حدیں اس پر پڑتی ہیں اگر وہ زنا کرے اور محصن ہو تو رجم کیا جائے گا اگر اس کو کوئی مار ڈالے تو قاتل بھی مارا جائے گا اور اس کے وارثوں کو میراث کا استحقاق حاصل ہوگا اگر کوئی حجت کرنے والا یہ کہے کہ مولیٰ جب غلام کو آزاد کر دے پھر ایک شخص اپنا قرض مولیٰ سے مانگنے آئے اور ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی سے اپنا قرض ثابت کرے تو مولیٰ پر قرضہ ثابت ہوجائے گا اگر مولیٰ کے پاس سوائے اس غلام کے کوئی مال نہ ہوگا تو اس غلام کی آزادی فسخ کر ڈالیں گے اس سے یہ بات نکالی کہ عورتوں کی گواہی عتاق میں درست ہے تو یہ نہیں ہوسکتا کیونکہ عورتوں کی گواہی قرضے کے اثبات میں معتبر ہوئی نہ کہ عتاق میں اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص اپنے غلام کو آزاد کر دے پھر اس کا قرض خواہ ایک گواہ اور ایک قسم سے اپنا قرضہ مولیٰ پر ثابت کر دے اور اس کی وجہ سے آزادی فسخ کی جائے یا مولیٰ پر قرضے کا دعویٰ کرے اور گواہ نہ رکھتا ہو تو مولیٰ سے قسم لی جائے اور وہ انکار کرے تو مدعی سے قسم لے کر اس کا قرضہ ثابت کردیا جائے اور آزادی فسخ کی جائے اسی طرح ایک شخص نکاح کرے لونڈی سے پھر لونڈی کا مولیٰ خاوند سے کہنے لگے کہ تو نے اور فلاں شخص نے مل کر میری اس لونڈی کو اتنے دینار میں خرید کیا ہے اور خاوند انکار کرے تو مولیٰ ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ لائے اپنے قول پر اس صورت میں بیع ثابت ہوجائے گی۔ اور وہ لونڈی خاوند پر حرام ہوجائے گی۔ اور نکاح فسخ ہوجائے گا حالانکہ طلاق میں عورتوں کی گواہی درست نہیں۔ کہا مالک نے اسی طرح اگر ایک شخص قذف کرے ایک شخص کو پھر ایک مرد یا دو عورتیں گواہی دیں کہ جس شخص کو قذف کیا ہے وہ غلام ہے تو قاذف کے ذمہ سے حد ساقط ہوجائے گی حالانکہ قذف میں شہادت عورتوں کی درست نہیں۔ کہا مالک نے یہ بھی اس کی مثال ہے کہ وہ عورتیں گواہی دیں بچے کے رونے پر تو اس بچے کے لئے میراث ثابت ہوجائے گی اور جو بچہ مرگیا ہوگا تو اس کے وارثوں کو میراث ملے گی حالانکہ ان دو عورتوں کے ساتھ نہ کوئی مرد ہے نہ قسم ہے اور کبھی میراث کا مال کثیر ہوتا ہے جیسے سونا چاندی زمین، باغ، غلام وغیرہ اگر یہی دو عورتیں ایک درہم پر یا اس سے کم پر بھی گواہی دیں تو ان کی گواہی سے کچھ ثابت نہ ہوگا۔ جب تک کہ ان کے ساتھ ایک مرد یا ایک قسم نہ ہو۔ کہا مالک نے بعضے لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایک قسم اور ایک گواہ سے حق ثابت نہیں ہو تو بہ سبب قول اللہ تعالیٰ کے فان لم یکونا رجلین الایہ تو حجت ان لوگوں پر یہ ہے کہ آیا تم نہیں دیکھتے کہ اگر ایک شخص نے دعویٰ کیا ایک شخص پر مال کا کیا نہیں حلف لیا جاتا مدعی علیہ تو اگر حلف کرتا ہے باطل ہوجاتا ہے اس سے یہ یہ حق اگر نکول کرتا ہے پھر حلف دلاتے ہیں صاحب حق کو تو یہ امر ایسا ہے کہ نہیں ہے اختلاف اس میں کسی کا لوگوں میں سے اور نہ کسی شہر میں شہروں میں سے تو کسی دلیل سے نکالا ہے اس کو اور کس کتاب اللہ میں پایا ہے اس مسئلے کو تو جب اس امر کو اقرار کرے تو ضرور ہی اقرار کرے یمین مع الشاہد کا اگرچہ نہیں ہے یہ کتاب اللہ میں مگر حدیث میں تو موجود ہے آدمی کو چاہیے کہ ٹھیک راستہ پہچانے اور دلیل کا موقع دیکھے اس صورت میں اگر اللہ چاہے گا تو اس کی مشکل حل ہوجائے گی۔
ایک شخص مر جائے اور اس کا قرض لوگوں پر ہو جس کا ایک گواہ ہو اور لوگوں کا قرض اس پر ہو جس کا ایک گواہ ہو تو کس طررح فیصلہ کرنا چاہے
کہا مالک نے اگر ایک شخص مرجائے اور وہ لوگوں کا قرضدار ہو جس کا ایک گواہ ہو اور اس کا بھی قرض ایک پر آتا ہو اس کا بھی ایک گواہ ہو اور اس کے وارث قسم کھانے سے انکار کریں تو قرض خواہ قسم کا کر اپنا قرضہ وصول کریں اگر کچھ بچ رہے گا تو وہ وارثوں کو نہ ملے گا کیونکہ انہوں نے قسم نہ کھا کر اپناحق آپ چھوڑ دیا مگر جب وارث یہ کہیں کہ ہم کو معلوم نہ تھا کہ قرض میں سے کچھ بچ رہے گا اسی واسطے ہم نے قسم نہیں کھائی اور حاکم کو معلوم ہوجائے کہ وارثوں نے اسی واسطے قسم نہ کھائی تھی تو اس صورت میں وارث قسم کھا کر جو کچھ مال بچ رہا ہے اس کو کے سکتے ہیں۔
دعوے کے فیصلے کا بیان
جمیل بن عبدالرحمن عمر بن عبدالعزیز کے پاس آیا کرتے تھے جب وہ فیصلہ کرتے تھے لوگوں کا جو شخص کسی پر دعوی کرے گو مدعی اور مدعا علیہ میں یک جائی اور تعلق اور تباط معلوم ہوتا تو مدعا علیہ سے حلف لیتے ورنہ حلف نہ لیتے۔
لڑکوں کی گواہی کا بیان
ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن زبیر لڑکوں کی گواہی پر حکم کرتے تھے ان کے آپس کی مار پیٹ کے۔ کہا مالک نے لڑکے لڑ کر ایک دوسرے کو زخمی کریں تو ان کی گواہی درست ہے لیکن لڑکوں کی گواہی اور مقدمات میں درست نہیں ہے یہ بھی جب درست ہے کہ لڑ لڑا کر جدا نہ ہوگئے ہوں مکر نہ کیا ہو اگر جدا جدا چلے گئے ہوں تو پھر ان کی گواہی درست نہیں ہے مگر جب عادل لوگوں کو اپنی شہادت پر شاہد کر گئے ہوں۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبنر پر جھوٹی قسم کھانے کا بیان
جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص میرے منبر پر جھوٹی قسم کھائے اس نے اپنا ٹھکانہ نبالیا جہنم میں
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبنر پر جھوٹی قسم کھانے کا بیان
ابو امامہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنے بھائی مسلمان کا حق اڑالے جھوٹی قسم کھا کر تو اللہ جنت کو اس پر حرام کرے گا اور جہنم اس کے لئے ضروری کرے گا صحابہ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ اگرچہ وہ حق تھوڑا ہو آپ ﷺ نے فرمایا اگر ایک شاخ ہو پیلو کی اگرچہ ایک شاخ ہو پیلو کی اگرچہ ایک شاخ ہو پیلو کی تین بار فرمایا۔
منبر پر قسم کھانے کا بیان۔
ابی غطفان بن طریف سے روایت ہے کہ زید بن ثابت اور عبداللہ بن مطیع نے جھگڑا کیا ایک گھر میں جو دنوں میں مشترک تھا تو لے گئے مقدمہ مروان بن حکم کے پاس وہ ان دنوں میں حاکم تھا مدینہ کا مروانے فیصلہ کیا اس بات پر کہ زید بن ثابت قسم کھائیں منبر شریف پر زید نے کہا میں اپنی جگہ پر قسم کھاؤں گا مروان نے کہا نہیں وہیں قسم کھاؤ جہاں لوگوں نے قضیے چکتے ہیں تو زید بن ثابت قسم کھاتے تھے میں سچاہوں لیکن منبر پر قسم کھانے سے انکار کرتے تھے اور مروان کو تعجب ہوتا تھا۔