39. کتاب رہن کے بیان میں یعنی گروی رکھنے کے بیان میں
رہن کا روکنا درست نہیں ہے۔
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نہ روکی جائے گی رہن۔ کہا مالک نے جو شخص باغ رہن کرے ایک میعاد معین پار تو جو پھل اس باغ میں رہن سے پہلے نکل چکے تھے وہ رہن نہ ہوں گے مگر جس صورت میں مرتہن نے شرط کرلی ہو تو وہ پھل بھی رہن رہیں گے اور جو کوئی شخص حاملہ لونڈی کو رہن رکھے یا بعد رہن کے وہ حاملہ ہوجائے تو اس کا بچہ بھی اس کے ساتھ رہن رہے گا یہی فرق ہے پھل اور بچے میں اس وسطے کہ پھل بیع میں بھی داخل نہیں ہوتے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جس شخص نے کھجور کے درخت بیچے تو پھل بائع (بچنے والا) (بچنے والا) کو ملیں گے مگر جب مشتری (خریدنے والا) شرط کرلے۔
پھلوں اور جانوروں کے رہن کا بیان
کہا مالک نے ہمارے نزدیک اس میں کچھ اختلاف نہیں ہے اگر کوئی لونڈی یا جانور بیچے اور اس کے یٹ میں بچہ ہو تو وہ بچہ مشتری (خریدنے والا) کا ہوگا خواہ مشتری (خریدنے والا) اس کی شرط لگائے یا نہ لگائے تو کھجور کا درخت جانور کی مانند نہیں نہ پھل کھجور کے بچے کے مانند ہیں۔ کہا مالک نے یہ بھی اس کی دلیل ہے کہ آدمی درخت کے پھلوں کو رہن کرسکتا ہے بغیر درختوں کے اور یہ نہیں ہوسکتا کہ پیٹ کے بچے کو رہن کرے بغیر اس کی ماں کے آدمی ہو یا جانور۔
جانور کو رہن رکھنے کا بیان
کہا مالک نے ہمارے نزدیک اس میں کچھ اختلاف نہیں ہے کہ شئے مرہوں اگر ایسی ہو جس کا تلف ہونا معلوم ہوجائے جیسے زمین اور گھر اور جانور تو اس صورت میں شئے مرہوں کے تلف ہونے سے مرتہن کا کچھ حق کم نہ ہوگا بلکہ راہن کا نقصان ہوگا اور جو شئے مرہوں ایسی ہو جس کا تلف ہوناصرف مرتہن کے کہنے سے معلوم ہو (جیسے سونا چاندی وغیرہ) تو مرتہن اس کی قیمت کا ضامن ہوگا (جس صورت میں گواہ نہ رکھتا ہو اس کے تلف ہونے کا) اب اگر راہن اور مرتہن زر رہن میں اختلاف کریں تو مرتہن سے کہا جائے گا تو خلفاً شئے مرہوں کے اوصاف اور زررہن کو بیان کر جب وہ بیان کرے گا تو نگاہ والے لوگ اس شئے کی قیمت مرتہن نے جو اوصاف بیان کئے ہیں ان کے لحاظ سے لگائیں گے اگر قیمت زر رہن سے زیادہ ہو تو رہن جس قدر زیادہ ہے مرتہن سے وصول کرلے گا اگر قیمت زر رہن سے کم ہو تو راہن سے حلف لیں گے اگر وہ حلف کرلے گا تو جس قدر مرتہن نے زر رہن قیمت سے زیادہ بیان کیا ہے وہ اس کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گا اور جو حلف سے انکار کرے تو اس قدر مرتہن کو ادا کرے گا اگر مرتہن نے کہا میں شئے مرہوں کی قیمت نہیں جانتا تو راہن سے شئے مرہوں کے اوصاف پر حلف لے کر اس کے بیان پر فیصلہ کریں گے جب کہ وہ کوئی امرخلاف واقعہ بیان نہ کرے۔ کہا مالک نے اگر ایک شئے دو آدمیوں کے پاس رہن ہو تو ایک مرتہن اپنے دین کا تقاضا کرے اور شئے مرہوں کو بیچنا چاہے اور ایک مرتہن راہن کو مہلت دے اگر شئے مرہوں ایسی ہے کہ اس کے نصف بیچ ڈالنے سے دوسرے مرتہن کا نقصان نہیں ہوتا تو آدھی بیچ کر ایک مرتہن کا دین ادا کردیں گے اور جو نقصان ہوتا ہے تو کل شئے مرہوں کو بیچ کر جو مرتہن تقاضا کرتا ہے اس کو نصف دے دیں گے اور جس مرتہن نے مہلت دی ہے وہ اگر خوشی ہے چاہے تو نصف ثمن کو راہن کے حوالہ کر دے نہیں تو حلف کرے میں نے اس واسطے مہلت دی تھی کہ شئے مرہوں اپنے حال پر میرے پاس رہے پھر اس کا حق اسی وقت ادا کردیا جائے۔ کہا مالک نے اگر غلام کو رہن رکھے تو غلام کا مال راہن لے لے گا مگر جب مرتہن شرط کرلے کہ اس کا مال بھی اس کے ساتھ رہن رہے۔
رہن کے مختلف مسائل کا بیان
کہا مالک نے ایک شخص نے اسباب رہن رکھا وہ مرتہن کے پاس تلف ہوگیا لیکن راہن اور متہن کو زر رہن کی مقدار میں اختلاف نہیں ہے البتہ شئے مرہوں کی قیمت میں اختلاف ہے راہن کہتا ہے اس کی قیمت بیس دینار ہے۔ اور مرتہن کہتا ہے اس کی قیمت دس دینار تھی اور رہن بیس دینار ہے اور مرہن سے کہا جائے گا کہ شئے مرہوں کے اوصاف بیان کر جب وہ بیان کرے تو اس سے حلف لے کر نگاہ والوں سے ایسی شئے کی قیمت دریافت کریں اگر وہ قیمت زر رہن سے زیادہ ہو تو مرتہن سے کہا جائے گا جس قدر زیادہ ہے وہ راہن کو دے اگر قیمت کم ہے تو مرتہن جس قدر کم ہے راہن سے لے لے اگر برابر ہے تو خیر قصہ چکا نہ یہ کچھ دے نہ وہ کچھ دے۔
رہن کے مختلف مسائل کا بیان
کہا مالک نے اگر شئے مرہوں موجود ہو لیکن راہن زر رہن دس دینار بیان کرے اور مرتہن بیس دینار تو مرتہن حلف اٹھائے اگر شئے مرہوں کی بیس دینار قیمت ہو تو اسی شئے مرہوں کو اپنے دین کے بدلے میں لے لے البتہ اگر راہن بیس دینارادا کر کے اپنی شئے لینا چاہے تو لے سکتا ہے اگر اس شئے مرہوں کی قیمت بیس دینار سے کم ہو تو مرتہن سے حلف لے پھر راہن کو اختیار ہے یا بیس دینار دے کر اپنی شئے لے لے یا خود بھی حلف اٹھائے کہ میں نے اتنے پر رہن کی تھی اگر حلف اٹھائے تو جس قدر شئے مرہوں کی قیمت سے مرتہن نے دین زیادہ بیان کیا ہے وہ اس کے ذمے سے ساقط ہوجائے گا ورنہ دینار پڑے گا۔
رہن کے مختلف مسائل کا بیان
کہا مالک نے اگر وہ شئے مرہوں سے تلف ہوگئی اب اختلاف ہوا زرہن کی مقدا اور شئے مرہوں کی قیمتیں مرتہن نے کہا زر رہن بیس دینار تھا اور شئے مرہوں کی قیمت دس دینار تھی اور راہن نے کہا زر رہن دس دینار تھا اور شئے مرہوں کی قیمت بیس دینار تھی تو مرتہن سے کہیں گے شئے مرہوں کے اوصاف بیان کر جب وہ بیان کرے تو اس سے حلف لے کر نگاہ والوں سے قیمت کا اندازہ کرائیں اگر قیمت بیس دینار سے زیادہ (مثلاتیس دینار ہو) تو مرتہن سے حلف لے کر جس قدر قیمت زیادہ (مثلادس دینار) راہن کو دلادیں گے اگر قیمت بیس کم ہو (مثلا پندرہ دینار) تو مرتہن سے زر رہن پر حلف لے کر جس قدر قیمت ہے وہ گویا مرتہن کو وصول ہوچکی باقی کے واسطے راہن سے حلف لیں گے اگر وہ حلف اٹھائے گا تو مرتہن راہن سے کچھ نہ لے سکے گا اگر حلف نہ اٹھالے تو بیس دینار میں جتنا کم ہے وہ راہن سے مرتہن کو دلادیں گے۔
جانور کو کرایہ پر لینے اور اس میں زیادت کرنے کا بیان
کہا مالک نے اگر کوئی شخص جانور کرایہ پر لے اس اقرار سے کہ فلاں مقام تک جاؤں گا پھر اس سے آگے بڑھ جائے تو جانور کے مالک کو اختیار ہے کہ اگر چاہے جتنا آگے گیا ہے اتنی دور کا کرایہ دستور کے موافق اور لے لے نہیں تو اپنے جانور کی قیمت اس دن کی اور اس مقام کی جہاں تک جانا ٹھہرا تھا کرایہ دار سے لے لے اور کرایہ جو پہلے ٹھہرچکا تھا وہ بھی لے لے اگر صرف جانے پر کرایہ ہوا تھا اور جو آنے پر کرایہ ہوا تھا تو جو کرایہ ٹھہرا تھا اس کا نصف لے کیونکہ نصف کرایہ جانے کا تھا اور نصف آنے کا اور جس وقت کرایہ دارنے زیادتی کی اس وقت اس پر نصف ہی کرایہ واجب ہوا تھا اگر کرایہ دارنے آنے جانے کے لئے جانور کرایہ پر لیا اور جب جانے کی جگہ پہنچا تو وہ جانور مرگیا تو کرایہ دار پر تاوان نہ ہوگا اور مالک کو نصف کرایہ ملے گا اسی طرح اگر رب المال مضا رب کو منع کر دے کہ فلاں فلاں مال نہ خریدنا اور مضارب وہی خریدے اس خیال سے کہ میں ضمان دے دوں گا اور نفع سارا مار کھاؤں گا تو رب المال کو اختیار ہے چاہے اس سے مال میں مضاربت قائم رکھے چاہے اپنا رائس المال پھیرلے اسی طرح نضاعت میں صاحب مال اگر یہ کہے کہ فلاں فلاں مال خریدنا اور وہ شخص دوسرا مال خریدے تو صاحب مال کو اختیار ہے چاہے اسی مال کو اپنا سمجھے یا اپنا رائس المال پھیرلے۔
جس عورت سے جبرا کوئی جماع کرے تو کیا حکم ہے۔
ابن شہاب سے روایت ہے کہ عبدالملک بن مروان نے حکم دیا ایک عورت کے مہر دینے کا اس شخص پر جس نے اس سے جبرا جماع کیا تھا۔
جس عورت سے جبرا کوئی جماع کرے تو کیا حکم ہے۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے جو شخص کسی عورت کو غصب کرے بکر ہو یا ثیبہ اگر وہ آزاد ہے تو اس پر مہر مثل لازم ہے اور اگر لونڈی ہے تو جتنی قیمت اس کی جماع کی وجہ سے کم ہوگئی دینا ہوگا اور اس کے ساتھ غصب کرنے والے کو سزا بھی ہوگی لیکن لونڈی کو سزا نہ ہوگی۔ اگر غلام نے کسی کی لونڈی غصب کرکے یہ کام کیا تو تاوان اس کے مولیٰ پر ہوگا مگر جب مولیٰ اس غلام کو جنایت کے بدلے میں دے ڈالے۔ یحییٰ نے نقل کیا کہ کہا مالک نے جو شخص مالک سے بن پوچھے اس کے جانور کو ہلاک کر دے تو اسے دن کی قیمت دینی ہوگی نہ کہ اس کے مانند اور جانو اور اسی طرح مالک کو جانور کے بدلے میں ہمیشہ اسی دن کی قیمت دی جائے گی نہ کہ جانوریہی حکم ہے اور اسباب کا۔ کہا مالک نے البتہ اگر کسی کا اناج تلف کر دے تو اسی قسم کا اتنا ہی اناج دے دے کیونکہ چاندی سونے (جن کا مثل اور بدل ہوا کرتا ہے) کے مشابہ ہے نہ کہ جانور کے۔ کہا مالک نے اگر امانت کے روپوں سے کچھ مال خریدا اور نفع کمایا تو وہ نفع اس شخص کا ہوجائے گا جس کے پاس روپے امانت تھے مالک کو دینا ضروری نہیں کیونکہ اس نے جھ امانت میں تصرف کیا تو وہ اس کا ضامن ہوگیا۔
مرتد کا حکم
زید بن اسلم سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جو شخص اپنا دین بدل ڈالے تو اس کی گردن مارو۔ کہا مالک نے رسول اللہ ﷺ نے یہ جو فرمایا جو شخص اپنا دین بدل ڈالے اس کی گردن مارو ہمارے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں جو مسلمان اسلام سے باہر ہوجائیں جیسے زنادقہ یا ان کی مانند تو جب مسلمان ان پر غلبہ پائیں تو ان کو قتل کردیں یہ بھی ضروری نہیں کہ پہلے ان سے توبہ کرنے کو کہیں کیونکہ ان کی توبہ کا اعتبار نہیں ہوسکتا وہ کفر کو اپنے دل میں رکھتے ہیں اور ظاہر میں اپنے تئیں مسلمان کہتے ہیں لیکن اگر مسلمان شخص (کسی شبہ کی وجہ سے) علانیہ دین اسلام سے پھر جائے تو اس سے توبہ کرائیں (اور جو شبہ ہوا ہو اس کو دور کردیں) اگر توبہ کرے تو بہتر۔ ورنہ قتل کیا جائے اور جو کافر ایک کفر کے دین کو چھوڑ کر دوسرا کفر کا دین اختیار کرے مثلا پہلے یہودی تھا پھر نصرانی ہوجائے تو اس کو قتل نہ کریں گے بلکہ جو دین اسلام کو چھوڑ کر اور کوئی دین اختیار کرے گا اسی کے لئے یہ سزا ہے۔
مرتد کا حکم
محمد بن عبداللہ بن عبدالقاری سے روایت ہے کہ حضرت عمر کے پاس ایک شخص آیا ابوموسیٰ اشعری کے پاس سے حضرت عمر نے اس سے وہاں کے لوگوں کا حال پوچھا اس نے بیان کیا پھر حضرت عمر نے کہا تم کو کوئی نادر چیز معلوم ہے وہ شخص بولا ہاں ایک شخص کافر ہوگیا تھا بعد اسلام کے حضرت عمر نے پوچھا تم نے اس سے کیا کیا وہ شخص بولا ہم نے اسے پکڑا اور اس کی گردن ماردی حضرت عمر نے کہا تم نے اس کو تین دن تک قید کیا ہوتا اور ہر روز روٹی دی ہوتی پھر توبہ کروائی ہوتی شائدوہ توبہ کرتا اور پھر اللہ کے حکم مان لیتا پھر حضرت عمر نے فرمایا یا اللہ میں اس وقت وہاں موجود نہ تھا میں نے حکم کیا نہ میں خوش ہوا جب کہ مجھے معلوم ہوا۔
جو شخص اپنی عورت کے ساتھ کسی اجنبی مرد کو پائے اس کا کیا حکم ہے
ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ سعد بن عبادہ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا اگر میں اپنی عورت کے ساتھ کسی مرد کو پاؤں کیا میں اس کو مہلت دوں یہاں تک کہ چار گواہ لاؤں فرمایا آپ ﷺ نے ہاں۔
جو شخص اپنی عورت کے ساتھ کسی اجنبی مرد کو پائے اس کا کیا حکم ہے
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ ایک شخص نے شام والوں میں سے اپنی عورت کے ساتھ ایک مرد کو پایا تو مار ڈالا اس مرد کو یا مرد عورت دونوں کو معاویہ بن ابی سفیان ان کو اس فیصلہ دشوار ہوا انہوں نے ابوموسیٰ اشعری کو لکھا کہ تم حضرت علی (رض) سے اس مسئلہ کو پوچھو ابوموسیٰ نے حضرت علی (رض) سے پوچھا حضرت علی نے کہا یہ واقعہ میرے ملک میں نہیں ہوا میں تم کو قسم دیتا ہوں تم سچ بیان کرو کہاں یہ امر ہوا ابوموسیٰ نے کہا مجھے معاویہ بن سفیان نے لکھا ہے کہ میں تم سے اس مسئلہ کو پوچھوں حضرت علی نے کہا میں ابوا لحسن ہوں اگر چار گواہ نہ لائے تو قتل پر راضی ہوجائے۔
منبوذ کا حکم
سنین بن ابی جمیلہ نے ایک منبوذ پایا حضرت عمر کے زمانے میں انہوں نے کہا میں اس کو حضرت عمر کے پاس لے آیا حضرت عمر نے پوچھا تو نے اس کو کیوں اٹھایا میں نے کہا یہ پڑے پڑے مرجاتا اس واسطے میں نے اٹھا لیا اتنے میں حضرت عمر کے عریف نے کہا اے امیر المومنین میں اس شخص کو جانتا ہوں نیک آدمی ہے حضرت عمر نے کہا نیک ہے اس نے کہا ہاں حضرت عمر نے کہا جادہ مبنوذ آزاد ہے تجھ کو اس کی ولا ملے گی اور ہم اس کا خرچ دیں گے۔ کہا مالک نے منبوذ آزاد رہے گا اور ولاء اس کی مسلمانوں کو ملے گی وہی اس کے وارث ہوں گے وہی اس کی طرف سے دیت بھی دیں گے۔
لڑکے کو باپ سے ملانے کا بیان
حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ عتبہ بن ابی وقاص نے مرتے وقت اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص سے کہا کہ زمعہ کی لونڈی کا لڑکا میرے نطفہ سے ہے تو اس کو اپنے پاس رکھیوں تو جب مکہ فتح ہوا تو سعد نے اس لڑکے کو لے لیا اور کہا میرے بھائی کا بیٹا ہے اس نے وصیت کی تھی اس کے لینے کی عبد زمعہ نے کہا یہ لڑکا میرا بھائی ہے میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے دونوں نے جھگڑا کیا رسول اللہ ﷺ کے پاس سعد نے کہا یا رسول اللہ ﷺ یہ بیٹا ہے میرے بھائی کا اس نے مجھے وصیت کی تھی اور میرے باپ کی لونڈی سے پیدا ہوا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عبد زمعہ سے کہ یہ لڑکا تیرا ہے پھر فرمایا لڑکا ماں کے خاوند یا مالک کا ہوتا ہے اور زنا کرنے والے کے لئے پتھر ہیں پھر سودہ بنت زمعہ سے کہا کہ تو اس لڑکے سے پردہ کیا کر کیونکہ وہ لڑکا مشابہ تھا عتبہ بن ابی وقاص کے سو اس لڑکے نے نہ دیکھا سودہ کر یہاں تک کہ انتقال ہوا اس کا۔
لڑکے کو باپ سے ملانے کا بیان
عبداللہ بن امیہ سے روایت ہے کہ ایک عورت کا خاوند مرگیا تو اس نے چار مہینے دس دن تک عدت کی پھر دوسرے شخص سے نکاح کرلیا ابھی اس کے پاس ساڑھے چار مہینے رہی تھی کہ ایک لڑکا جنا حاصا پورا تو اس کا خاوند حضرت عمر کے پاس آیا اور اس نے یہ حال بیان کیا حضرت عمر نے اپنی پرانی عورتوں کو جاہلیت کے زمانے میں تھیں بلوایا اور ان سے پوچھا ان میں سے ایک عورت بولی میں تم کو اس عورت کا حالات باتی ہوں یہ حاملہ ہوگئی تھی اپنے پہلے خاوند سے جو مرگیا تو حیض کا خون بچے پر پڑتے پڑتے وہ بچہ سوکھ گیا تھا اس کے پیٹ میں تو جب اس نے دوسرا نکاح کیا مر کی منہ پہنچے سے پھر بچے کو حرکت ہوئی اور بڑا ہوگیا حضرت عمر نے اس کی تصدیق کی اور نکاح توڑ ڈالا تو فرمایا کہ خیر ہوئی تمہاری کوئی بری بات مجھے نہیں پہنچی اور لڑکے کا نسب پہلے خاوند سے ثابت کیا،۔
لڑکے کو باپ سے ملانے کا بیان
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ حضرت عمر جاہلیت کے بچوں کو جو ان کا دعوی کرتا اسلام کے زمانے میں اسی سے ملا دیتے ایک بار دو آدمی دعوی کرتے ہوئے آئے ایک لڑکے کا حضرت عمر نے قائف کو بلایا قائف نے دیکھ کر کہا اس لڑکے میں دونوں شریک ہیں حضرت عمر نے قائف کو درے سے مارا پھر اس عورت کو بلایا اور کہا تو اپنا حال مجھ سے کہہ اس نے ایک مرد کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ میرے پاس آتا تھا اور میں اپنے لوگوں کے اونٹوں میں ہوتی تھی تو وہ مجھ سے الگ نہیں ہوتا تھا بلکہ مجھ سے چمٹا رہتا تھا یہاں تک کہ وہ بھی اور بھی بھی گمان کرتے حمل رہ جانے کا پھرجاتا اور مجھے خون آیا کرتا تب دوسرا مرد آتا وہ بھی صحبت کرتا میں نہیں جانتی ان دونوں میں سے یہ کسی کا نطفہ ہے قائف یہ سن کر خوشی کے مارے پھول گیا حضرت عمر نے کہا لڑکے سے تجھے اختیار ہے جس سے چاہے ان دنوں میں سے مولات کرلے۔
لڑکے کو باپ سے ملانے کا بیان
حضرت عمر نے یا عثمان نے جب ایک عورت نے دھوکہ سے اپنے کو آزاد قرار دے کر ایک شخص سے نکاح کیا اور اولاد ہوئی یہ فیصلہ کیا کہ خاوند اپنی اولاد کو فدیہ دے کر چھڑالے اس کے مانند غلام لونڈی دے کر۔ کہا مالک نے قیمت دینا بہت بہتر ہے۔
جو لڑکا کسی شخص سے ملا جائے اس کی وارث ہونے کا بیان
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے ایک شخص مرجائے اور کئی بیٹے چھوڑ جائے اب ایک بیٹا ان میں سے یہ کہے کہ میرے باپ نے یہ کہا تھا کہ فلاں شخص میرا بیٹا ہے تو ایک آدمی کے کہنے سے اس کا نسب ثابت نہ ہوگا اور وارثوں کے حصوں میں سے اس کو کچھ نہ ملے گا البتہ جس نے اقرار کیا ہے اس کے حصے میں سے اس کو ملے گا۔ کہا مالک نے اس کی تفسیر یہ ہے ایک شخص مرجائے اور دو بیٹے چھوڑ جائے اور چھ سو دینار ہر ایک بیٹا تین تین سو دینار لے پھر ایک بیٹا یہ کہے کہ میرے باپ نے اقرار کیا تھا اس امر کا کہ فلاں شخص میرا بیٹا ہے تو وہ اپنے حصے میں سے اس کو سو دینار دے کیونکہ ایک وارث نے اقرار کیا ایک نے اقرار نہ کیا تو اس کو آدھا حصہ ملے گا اگر وہ بھی اقرار کرلیتا تو پورا حصہ یعنی دو سو دینار ملتے اور نسب ثابت ہوجاتا اس کی مثال یہ ہے ایک عورت اپنے باپ یا خاوند کے ذمے پر قرض کا اقرار کرے اور باق وارث انکار کریں تو وہ اپنے حصے کے موافق اس میں سے قرضہ ادا کرے اسی حساب سے۔ کہا مالک نے ایک مرد بھی اس قرض خواہ کے قرضے کا گواہ ہو تو اس کو حلف دے کر ترکے میں سے پورا قرضہ دلادیں گے۔ کیونکہ ایک مرد جب گواہ ہو اور مدعی بھی حلف کرے تو دعویٰ ثابت ہوجاتا ہے البتہ اگر قرض خواہ حلف نہ کرے تو جو وارث اقرار کرتا ہے اسی کے حصے کے موافق قرضہ وصول کرے۔
لونڈیوں کی اولاد کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا کیا حال ہے لوگوں کو جماع کرتے ہیں اپنی لونڈیوں سے پھر ان سے جدا ہوجاتے ہیں اب سے میرے پاس جو لونڈی آئے گی اور اس کے مولیٰ کو اقرار ہوگا اس سے جماع کرنے کا تو میں اس لڑکے کو مولیٰ سے ملادوں گا تم کو اختیار ہے چاہے عزل کرو یا نہ کرو۔
لونڈیوں کی اولاد کا بیان
صفیہ بن عبید سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا کیا حال ہے لوگوں کو جماع کرتے ہیں اپنی لونڈیوں سے پھر ان کو چھوڑ دیتے ہیں وہ نکلی پھرتی ہیں اب میرے پاس جو لونڈی آئے گی اور مولیٰ کا اقرار ہوگا اس سے صحبت کرنے کا تو میں اس کے لڑکے کا نسب مولیٰ سے ثابت کردوں گا اب اس کے بعد چاہے انہیں بھیجا کرو چاہے روکے رکھا کرو کہا مالک نے ام ولد جب جنایت کرے تو مولیٰ اس کا تاوان دے اور ام ولد کو اس جنایت کے عوض میں نہیں دے سکتا مگر قیمت سے زیادہ تاوان نہ دے گا۔
بنجر زمین کو آباد کرنے کا بیان
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جو شخص بنجر زمین کو آباد کرے وہ اسی کی ہے جو شخص ظلم سے وہاں کچھ تصرف کرے اس کو کچھ حق نہیں ہے۔
بنجر زمین کو آباد کرنے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا جو شخص بنجر زمین کو آباد کرے وہ اسی کی ہے۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہی حکم ہے۔
پانی لینے کا بیان
عبداللہ بن ابی بکر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دونالوں میں ایک کا نام مہروز تھا اور دوسرے کا نام مذینیب کہ جس کا باغ نالہ کے متصل ہے وہ اپنے باغ میں ٹخنوں ٹخنوں پانی بھر کے پھر دوسرے کے باغ میں پانی چھوڑ دے۔
پانی لینے کا بیان
ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے نہیں روکا جائے گا پانی جو بچ رہا ہو تاکہ گھانس بچ جائے۔
پانی لینے کا بیان
عمرہ بنت عبدالرحمن (رض) روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے نہ منع کیا جائے اس پانی سے کنوئی کے جو بچ رہے۔
مروت کا بیان
یحییٰ بن عمارہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے نہ ضرر ہے اسلام میں نہ ضرار۔
مروت کا بیان
ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے منع کرتے تم میں سے کوئی اپنے ہمسایہ کو لکڑی گاڑنے سے اپنی دیوار میں پھر ابوہریرہ (رض) کہتے تھے کیا وجہ ہے کہ تم اس حدیث کو متوجہ ہو کر نہیں سنتے قسم اللہ کی میں اس کو خوب مشہور کروں گا۔
مروت کا بیان
یحییٰ بن عمارہ سے روایت ہے کہ ضحاک بن خلیفہ نے ایک نہر نکالی عرض میں سے محمد بن مسلمہ کی زمین میں سے ہو کر انہوں نے منع کیا ضحاک نے کہا تم کیوں منع کرتے ہو تمہارا تو اس میں نفع ہے اپنی زمین کو اول اور آخر پانی دیا کرنا اور کچھ ضرر نہیں محمد نہ مانا ضحاک نے حضرت عمر سے بیان کیا حضرت عمر نے محمد بن مسلمہ کا بلا کر کہا تم اجازت دو محمد نے کہا میں نہ دوں گا حضرت عمر نے کہا تم اپنے بھائی مسلمان کو ایسی بات سے منع کرتے ہو جس میں اس کا نفع ہے اور تمہارا بھی نفع ہے تم بھی پانی لیا کرنا اول اور آخر میں اور تمہارا کچھ ضرر نہیں محمد نے کہا قسم اللہ کی میں اجازت نہ دوں گا حضرت عمر نے کہا وہ نہر بہائی جائے اگرچہ تمہارے پیٹ پر سے ہو پھر حضرت عمر نے ضحاک کو حکم کیا نہر جاری کرنے گا محمد بن مسلمہ کی زمین سے ہو کر ضحاک نے ایسا ہی کہا۔
مروت کا بیان
یحییٰ بن عمارہ سے روایت ہے کہ میرے دادا کے باغ میں سے ہو کر ایک نہر بہتی تھی عبدالرحمن بن عوف کی عبدالرحمن نے یہ چاہا کہ اس کو باغ کی دوسری طرف سے لے جائیں کیونکہ وہ قریب تھا ان کی زمین سے لیکن باغ کے مالک یعنی میرے داد نے اجازت نہ دی عبدالرحمن نے حضرت عمر سے بیان کیا حضرت عمر نے اجازت دے دی۔
قسمت کا بیان
ثور بن زید ویلی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو زمین یا مکان جاہلیت کے زمانے میں تقسیم ہوچکا ہے وہ اسی طور پر رہیگا البتہ جو مکان یا زمین اسلام کے زمانے تک تقسیم نہیں ہوئی تو وہ اسلام کے قاعدوں کے موافق تقسیم ہوگی۔ کہا مالک نے اگر ایک شخص مرجائے اور بارانی اور چاہی زمینیں چھوڑ جائے تو بارانی کو چاہی کے ساتھ ملا کر تقسیم نہ کریں گے بلکہ جدا جدا تقسیم کریں گے۔ (کیونکہ بارانی کا لگان دسواں حصہ اور چاہی کا بیسواں حصہ پیداوار کا) مگر جب سب شریک ملا کر تقسیم کرنے پر راضی ہوجائیں تو ملا کر تقسیم کردیں گے البتہ بارانی اور زیر تالاب یا کاریز کو ملا کر تقسیم کردیں گے۔ (کیونکہ ان کا دھارا ایک ہے یعنی دونوں قسموں کی زمینوں کا لگان پیداوار کا دسواں حصہ ہے اسی طرح اگر کسی قسم کے مال ہوں ایک ہی جگہ اور ایک دوسرے کے مشابہ ہوں تو ہر ایک مال کی قیمت لگا کر ایک ساتھ تقسیم کردیں گے مکانوں اور گھروں کا بھی یہی حکم ہے۔
ضواری اور حریسہ کا بیان
حرام بن سعد محیصہ سے روایت ہے کہ براء بن عازب کا اونٹ ایک باغ میں چلا گیا اور نقصان کیا تو رسول اللہ ﷺ نے حکم کیا کہ باغ کی حفاظت دن کو باغ والے کے ذمے پر ہے البتہ اگر رات کو کسی کا جانور باغغ میں جا کر نقصان کرے تو ضمان اس کا جانور کے مالک پر ہوگا۔
ضواری اور حریسہ کا بیان
یحییٰ بن عبدالرحمن بن حاطب سے روایت ہے کہ غلاموں نے ایک شخص کا اونٹ چرا کر کاٹ ڈالا جب یہ مقدمہ حضرت عمر کے پاس گیا آپ ﷺ نے کثیر بن صلت سے کہا ان غلاموں کا ہاتھ کاٹ ڈال پھر حاطب سے کہا میں سمجھتا ہوں کہ تو ان غلاموں کو بھوکا رکھتا ہوگا پھر حضرت عمر نے کہا حاطب سے قسم اللہ کی میں تجھ سے ایسا تاوان دلاؤں گا جو تجھ پر بہت گران گزرے آپ ﷺ نے اونٹ والے سے پوچھا تیرا اونٹ کتنے کا ہوگا اس نے کہا میں نے چار سو درہم کو اسے اس نے نہیں بیچا حضرت عمر نے کہا تو آٹھ سو درہم اس کے دے کہا مالک نے ہمارے نزدیک قیمت دوچند لینے میں اس روایت پر عمل نہ ہوگا لیکن در آمد لوگوں کی یہ رہی کہ اس جانور کی جو قمیت چرانے کے دن ہوگی وہ دینی ہوگی۔
جو شخص کسی جانور کو نقصان پہنچائے اس کا حکم۔
کہا مالک نے جو کسی کے جانور کو نقصان پہنچائے تو نقصان کی وجہ سے جس قدر قیمت اس کی کم ہوجائے اس کا تاوان دینا ہوا۔ کہا مالک نے ایک اونٹ حملہ کرے کسی آدمی پر اور وہ آدمی اپنی جان کو خوف کرکے اس کو مار ڈالے یا زخمی کرے تو اگر وہ گواہ رکھتا ہو اس امر کا کہ اونٹ نے اس پر حملہ کیا تھا تو اس پر تاوان نہ ہوگا اور نہ تاوان دینا ہوگا۔
کاریگروں کا جو مالک دیا جاتا ہے اس کا بیان
کہا مالک نے اگر کسی نے اپنا کپڑا رنگریز کو رنگنے کو دیا اس نے رنگا اب کپڑے والا یہ کہے میں نے تجھ سے یہ رنگ نہیں کہا تھا اور رنگریز کہے تو نے یہی رنگ کہا تھا تو رنگریز کا قول قسم سے مقبول ہوگا ایسا ہی درزی کا بھی حکم ہے اور سنار کا جب وہ حلف اٹھالیں البتہ اگر ایسی بات کا دعویٰ کرتے ہوں جو بالکل عرف اور رواج کے خلاف ہو تو اس کا قول مقبول نہ ہوگا بلکہ کپڑے والے سے قسم لی جائے گی اگر وہ قسم نہ کھائے گا تو کاریگر سے قسم لی جائے گی۔ کہا مالک نے ایک شخص نے اپنا کپڑا رنگریز کو دیا رنگنے کو واسطے رنگریز نے وہ کپڑا دوسرے شخص کو پہننے کو دے دیا۔ تو رنگریز پر اس کا تاوان ہوگا اگر پہننے والے کو یہ معلوم نہ ہو کہ یہ کپڑا کسی اور کا ہے اور جو معلوم ہو تو تاوان اسی پر ہوگا۔
حوالے اور کفالت کا بیان
کہا مالک نے ایک شخص نے اپنے ذمے پر جو قرض ہے اس کو اپنے ایک قرض دار پر اتاردیا قرض خواہ کی رضامندی سے اب وہ قرض دار مفلس ہوگیا یا بےجائداد مرگیا تو قرض خواہ پھر اس سے مطالبہ نہیں کرسکتا۔ ہمارے نزدیک اس میں کچھ اختلاف نہیں ہے البتہ اگر ایک شخص دوسرے کے ذمے پر جو قرض ہے اس کا ضامن ہوگیا پھر جو ضامن ہوا تھا بےجائداد مرگیا یا مفلس ہوگیا تو قرض خواہ قرضدار سے مطالبہ کرسکتا ہے۔
جو شخص کپڑا خرید کرے اور اس میں عیب نکلے
کہا مالک نے جب کوئی شخص کپڑا خریدے اور اس میں عیب نکلے مثلا پھٹا ہوا ہو یا اور کچھ عیب بائع (بچنے والا) (بچنے والا) کے پاس کا ہو گواہوں کی گواہی سے یا بائع (بچنے والا) (بچنے والا) کے اقرار سے اب مشتری (خریدنے والا) نے اس کپڑے میں رصرف کیا جیسے اس کو کتربیونت کر ڈالا۔ جس سے کپڑے کی قیمت گھٹ گئی پھر اس کو عیب معلوم ہوا تو وہ کپڑا بائع (بچنے والا) کو پھیر دے اور کاٹنے کا ضمان مشتری (خریدنے والا) پر نہ ہوگا۔ کہا مالک نے اگر کسی شخص نے کپڑا خریدا اور اس میں عیب پایا مثلا پھٹا ہو یا چرا ہوا ہے بائع (بچنے والا) نے کہا مجھے اس عیب کی خبر نہ تھی اور مشتری (خریدنے والا) اس کپڑے کو کاٹ بیونت کرچکا ہے یا رنگ چکا ہے تو مشتری (خریدنے والا) کو اختیار ہے چاہے کپڑا رکھ لے اور بائع (بچنے والا) سے عیب کے موافق نقصان مجرالے چاہے کپڑا پھیر دے اور جس قدر کاٹ بیونت یا رنگ سے کپڑے کی قینت گھٹ گئی ہے اس قدر بائع (بچنے والا) کو مجرادے اگر مشتری (خریدنے والا) نے اس پر وہ رنگ کیا ہے جس کی وجہ سے اس کی قیمت بڑھ گئی تب بھی مشتری (خریدنے والا) کو اختیار ہوگا چاہے عیب کا نقصان بائع (بچنے والا) سے وصول کرکے کپڑا رکھ لے چاہے بائع (بچنے والا) کا مشریک ہوجائے۔ اس کپڑے میں اب دیکھا جائے گا کہ اس کپڑے کی قیمت عیب کے لحاظ سے کتنی ہے مثلا دس درہم ہو اور مشتری (خریدنے والا) کے رنگنے کی وجہ سے پندرہ درہم قیمت ہوگئی ہو تو بائع (بچنے والا) دو ثلث کا اور مشتری (خریدنے والا) ایک ثلث کا اس کپڑے میں شریک ہوگا جب وہ کپڑا بکے اس کی قیمت کو اسی حساب سے بانٹ لیں گے۔
جو ہبہ درست نہیں اس کا بیان
نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ میرے باپ مجھ کو رسول اللہ کے پاس لے کر آئے اور کہا یا رسول اللہ میں نے اس بیٹے کو اپنا ایک غلام ہبہ کیا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا سب بیٹوں کو تو نے ایسا ہی غلام دیا بولا نہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا رجوع کر ہبہ سے
جو ہبہ درست نہیں اس کا بیان
حضرت ام المومنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ ان کے باپ حضرت ابوبکر صدیق نے ان کو ہبہ کئے تھے کھجور کے درخت جن میں سے بیس وسق کھجور نکلتی تھی اپنے باغ میں سے جو غابہ میں تھے جب حضرت ابوبکر کی وفات ہونے لگی انہوں نے کہا اے بیٹی کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جس کا مالدار رہنا مجھے پسند ہو بعد اپنے تجھ سے زیادہ اور نہ کسی آدمی کا مفلس رہنا ناپسند ہے مجھ کو بعد اپنے تجھ سے زیادہ میں نے تجھے بیس وسق کھجور کے درخت ہبہ کئے تھے اگر تو ان درختوں سے کھجور کاٹتی اور ان پر قبضہ کرلیتی تو وہ تیرا مال ہوجاتا اب تو وہ سب وارثوں کا مال ہے اور وارث کون ہیں دو بھائی ہیں تمہارے اور دو بہنیں ہیں تو بانٹ لینا کا کو کتاب اللہ کے موافق حضرت عائشہ نے کہا اے میرے باپ قسم اللہ کی اگر بڑے سے بڑا مال ہوتا تو میں اس کو چھوڑ دیتی لیکن میں حیران ہوں اور دوسری بہن کون ہے حضرت ابوبکر نے کہا وہ جو حبیبہ بنت خارجہ کے پیٹ میں ہے میں اس کو لڑکی سمجھتا ہوں۔
جو ہبہ درست نہیں اس کا بیان
عبدالرحمن بن عبدالقاری سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے کہا کیا حال ہے لوگوں کا کہ ہبہ کرتے ہیں اپنے بیٹوں کو پھر روک لیتے ہیں اگر بیٹا مرجاتا ہے تو کہتے ہیں میرا مال میرے قبضے میں ہے کسی کو نہیں دیا اگر باپ مرجاتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ کہ وہ میرے بیٹے کو ہے اس کو میں ہبہ کرچکا ہوں جو کوئی ہبہ کرے اور اس کو نافذ نہ کرے یعنی موہوب لہ اس پر قبضہ نہ کرے اس طرح سے کہ جب موہوب لہ مرے تو وہ اس کے وارثوں کو ملے تو وہ ہبہ باطل ہے۔
جو عطیہ درست نہیں ہے اس کا بیان
کہا مالک نے جو شخص ثواب کے واسطے کسی کو کوئی شئے دے اس کا عوض نہ چاہتا ہو اور لوگوں کو اس پر گواہ کر دے تو وہ نافذ ہوجائے گا مگر جب دینے والا مرجائے معطی لہ کے قبضے سے پہلے۔ اگر دینے والا یہ چاہے کہ بعد دینے کے اس کو رکھ چھوڑے تو یہ نہیں ہوسکتا معطی کہ جب چاہے تو جبراً اس سے لے سکتا ہے۔ کہا مالک نے ایک شخص نے ایک شئے لللہ دی پھر معطی لہ قبل قبضے کے مرگیا تو اس کے وارث اس کے قائم مقام ہوں گے اگر دینے والا قبل معطی لہ کے قبضے کے مرگیا تو اب اس کو کچھ نہ ملے گا کیونکہ قبضہ نہ ہونے کے سبب سے وہ ہبہ لغو ہوگیا اگر دینے والا اس کو روک رکھے اور ہبہ پر گواہ نہ ہوں گو یہ نہیں ہوسکتا جب معطی لہ لینے کو کھڑا ہوجائے تو لے سکتا ہے۔
ہبہ کا حکم
ابی غطفان بن طریف مرسی سے روایت ہے کہ حضرت عمربن خطاب نے فرمایا جو شخص ہبہ کرے کسی ناطے والے کو صلہ رحم کے واسطے یا صدقی کے طور پر ثواب کے واسطے تو اس میں رجوع نہیں کرسکتا اور جو ہبہ کرے عوض لینے کے واسطے تو وہ رجوع کرسکتا ہے جب کہ ناراض ہو۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ جب موہوب میں کچھ تفاوت ہوجائے کمی بیشی سے اور وہ ہبہ ایسا ہو جو عوض کے واسطے دیا گیا ہو تو موہوب لہ کو اس کی قیبت قبضے کے دن کی دینی پڑے گی۔
صدقہ میں وجوع کرنے کا بیان
کہا مالک نے ہمارے نزدیک اس میں کچھ اختلاف نہیں ہے باپ اگر اپنے بیٹے کو کچھ صدقہ کے طور پردے تو بیٹا اس کو اپنے قبضے میں کرلے یا بیٹاصغیر سن ہو خودباپ کی گود میں ہو اور وہ صدقہ پر گواہ کر دے تو اب باپ کو اس میں رجوع کرنا درست نہیں کیونکہ کسی صدقہ میں رجوع درست نہیں۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکن اجماعی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے بیٹے کو کوئی چیز محبت کی وجہ سے دے نہ کہ صدقہ کے طور پر تو وہ اس میں رجوع کرسکتا ہے جب تک کہ بیٹا اس جائداد کے اعتماد پر معاملہ نہ کرنے لگے اور لوگ اس کو اس جائداد کے بھروسے پر قرض نہ دیں لیکن جب ایسا ہوجائے تو پھر رجوع نہیں کرسکتا۔
عمری کے بیان میں
جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص کسی کو عمریٰ دے اس کے واسطے اور اس کے وارثوں کے واسطے تو پھر وہ عمرہ اس کا ہوجاتا ہے دینے ولاے کو پھر نہیں مل سکتا۔
عمری کے بیان میں
عبدالرحمن بن قاسم نے سنا مکحول سے پوچھتے ہوئے قاسم سے عمریٰ کے متعلق کیا قول ہے لوگوں کا اس میں قاسم نے کہا میں نے تو لوگوں کو اپنی شرطین پوری کرتے وہئے پایا اپنے مالوں میں اور جو کچھ وہ دیا رکتے تھے اس کو بھی پورا کرتے تھے۔
عمری کے بیان میں
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر وارث ہوئے ام المومنین حفصہ کے وہ اپنا گھر زید بن خطاب کی بیٹی کو زندگی پھر رہنے کر دے گئی تھیں جب وہ مرگئیں تو عبداللہ بن عمر نے اس گھر کو لے لیا اپنا سمجھ کر۔
لقطے کا بیان
زید بن خالد جہنی سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا رسول اللہ ﷺ کے پاس اور پوچھا آپ ﷺ سے لقطہ کو فرمایا آپ ﷺ نے پہچان رکھ طرف اس کا لقطہ ہو خواہ چمڑے میں ہو یا کپڑے میں ہو پاور پہچان رکھ بندھن اس کا پھر ایک برس تک لوگوں سے اس کا حال کہا کر اگر اس کا مالک مل جائے تو اس کے دے دے نہیں تو لے لے پھر اس نے کہا گر کوئی بکری بہکی بھٹکی مل جائے یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ نے فرمایا بکری تیرے کام میں آئے گی یا تیرے بھائی کے نہیں تو بھیڑیا کھاجائے گا پھر اس شخص نے کہا اگر اونٹ بھولا ملے آپ ﷺ نے فرمایا اونٹ سے تجھے کیا کام وہ تو اپنے ساتھ اپنا پانی رکھتا ہے اور موزے رکھتا ہے جہاں اس کو پانی مل جاتا ہے پی لیتا ہے جو درخت ملتا ہے کھالیتا ہے یہاں تک کہ مالک اس کا اس کو پا لیاتا ہے
لقطے کا بیان
معاویہ بن عبداللہ بن بدر الجہنی (رح) سے روایت ہے ان کے باپ نے بیان کیا کہ انہوں نے شام کے راستہ میں ایک منزل میں جہاں لوگ اتر چکے تھے ایک تھیلی پائی جس میں اسی دینار تھے انہوں نے حضرت عمر (رض) سے بیان کیا آپ نے کہا مسجدوں کے دروازوں پر لوگوں سے کہا کر اور جو شخص شام سے آئے اس سے بیان کیا کر ایک برس تک جب ایک برس گزر جائے پھر تجھ کو اختیار ہے۔
لقطے کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ ایک شخص نے لقطہ پایا اس کو عبداللہ بن عمر کے پاس لے آیا اور پوچھا کیا کہتے ہو اس باب میں عبداللہ بن عمر نے کہا لوگوں سے پوچھا اور بتا اس نے کہا میں پوچھ اور بتاچکا عبداللہ بن عمر نے کہا اور سہی اس نے کہا میں پوچھ بتاچکا ہوں عبداللہ نے کہا میں کبھی تجھ کو حکم نہ کروں گا اس کے کھانے کا اگر تو چاہتا تو اس کو نہ لیتا۔
غلام لقطے کو پا کر خرچ کر ڈالے تو کیا حکم ہے۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک حکم یہ ہے غلام اگر لفظ پائے اور اس کو خرچ کر ڈالے میعاد گزرنے سے پہلے یعنی ایک برس سے پہلے تو وہ اس کے ذمہ رہے گا اب جب اس کا مالک آئے تو غلام کامولیٰ لقطے کی قیمت ادا کرے یا غلام کو حوالے کر دے اگر غلام نے میعاد گزرنے کے بعد اس کو صرف کیا تو وہ اس کے ذمے قرض رہے گا جب آزاد ہو اس سے لے لے فی الحال کچھ نہیں لے سکتا نہ مولیٰ کو اس کا دینالازم ہے۔
جو جانور مالک کے پاس سے گم ہوگئے ہوں اس کا بیان
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ ثابت بن ضحاک انصاری نے ایک اونٹ پایا حرہ میں اس کو رسی سے باندھا اور حضرت عمر سے بیان کیا حضرت عمر نے کہا تین مرتبہ اس کو بتاؤ ثابت نے کہا اپنی زمین کی خبر لیتے سے میں مجبور ہوگیا حضرت عمر نے کہا جہاں سے تو نے اس اونٹ کو پایا ہے وہیں چھوڑ دے۔
جو جانور مالک کے پاس سے گم ہوگئے ہوں اس کا بیان
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب کعبہ سے اپنی پیٹھ لگائے ہوئے بیٹھے تھے فرمایا جو شخص گم ہوئی چیز اٹھائے وہ خود گمراہ ہے۔
جو جانور مالک کے پاس سے گم ہوگئے ہوں اس کا بیان
ابن شہاب کہتے تھے کہ حضرت عمر کے زمانے میں جو اونٹ گمے ہوئے ملتے تھے وہ چھوڑ دئے جاتے تھے بچے جنا کرتے تھے کوئی انہیں نہ لیتا تھا۔ جب حضرت عثمان کا زمانہ ہوا تو انہوں نے حکم کیا کہ بتائے جائیں پھر بیچ کر ان کی قیمت بیت المال میں رکھی جائے۔ جب مالک آئے تو اس کو دیدی جائے۔
زندہ مردے کی طرف سے صدقہ دے تو مردے کو ثواب پہچنتا ہے۔
شرجیل بن سعید بن سعد بن عبادہ سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جہاد کر نکلے ان کی ماں مدینہ میں مرنے لگیں لوگوں نے ان سے کہا وصیت کروں انہوں نے کہا کیا وصیت کروں مال تو سعد کا ہے پھر مرگئیں سعد کے آنے سے پہلے۔ جب سعد آئے لوگوں نے بیان کیا سعد نے رسول سے پوچھا کہ اگر میں اپنی ماں کی طرف سے لللہ دوں تو اس کو فائدہ ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہاں پھر سعد نے کہا فلاں فلاں باغ صدقہ ہے میرے ماں کی طرف سے۔
زندہ مردے کی طرف سے صدقہ دے تو مردے کو ثواب پہچنتا ہے۔
حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ میرے ماں کا دم یکایک نکل گیا اگر بات کرنے پاتی تو ضرور صدقہ کرتی کیا میں اس کی طرف سے صدقہ کروں آپ ﷺ نے فرمایا ہاں۔ ایک شخص انصاری نے اپنے والدین کو کھجور کے درخت صدقہ میں دئیے پھر والدین مرگئے تو وہی شخص اس کا وارث ہو اس نے رسول اللہ ﷺ سے بیان کیا آپ ﷺ نے فرمایا اتجھے صدقہ کا ثواب ہوا اب میراث میں اس کو لے لے
وصیت کا حکم
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نہیں لائق ہے آدمی کو جس کے پاس چیز یا معاملہ ایسا ہو جس میں وصیت کرنا ضروری ہو اور وہ دو راتیں گزارے بغیر وصیت لکھے ہؤے کہا مالک نے اگر موصی اپنی وصیت کے بدلنے پر قادر نہ ہوتا تو چاہیے تھا کہ ہر وصیت کرنے والے کا مال اس کے اختیار سے نکل کر رکا رہتا حالانکہ ایسا نہیں ہے کبھی آدمی اپنی صحت کو بدل سکتا ہے سوائے تدبیر کے۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک ہر وصیت کو بدل سکتا ہے سائے تدبیر کے۔
ضعیف اور کم سن اور مجنوں اور احمق کی وصیت کا بیان
عمرو بن سلیم زرقی سے روایت ہے کہ حضرت عمربن خطاب سے کہا گیا کہ اس جگہ مدینہ میں ایک لڑکا ہے قریب بلوغ کے مگر بالغ نہیں ہوا قبیلہ غسان سے اور اس کے وارث شام میں ہیں اور اس کے پاس مال ہے اور یہاں اس کا کوئی وارث نہیں سوائے ایک چچا زاد بہن کے تو حضرت عمر نے کہا اس کو وصیت کرے اس لڑکے نے مال کی وصیت جس کا نام بیر جشم تھا اپنی چچا زاد بہن کے واسطے کی عمرو بن سلیم نے کہا وہ مال تیس ہزار درہم کا بکا اور اس کی چچا زاد بہن عمرو بن سلیم کی ماں تھی۔ ابوبکر بن حزم سے روایت ہے کہ ایک لڑکا غسان کا مرنے لگا مدینہ میں اور وارث اس کے شام میں تھے حضرت عمر سے اس کا ذکر ہوا اور پوچھا گیا کیا وصیت کرے آپ نے فرمایا وصیت کرے یحییٰ بن سعید نے کہا وہ لڑکا دس برس کا تھا یا بارہ برس کا اور بیر جشم چھوڑ گیا اس کی وصیت کر گیا لوگوں نے اسے تیس ہزار درہم کا بیچا۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ ضعیف العقل اور نادان اور مجنوں کی جس کو کبھی آفاقہ ہوجاتا ہے وصیت درست ہے جب اتنی عقل رکھتے ہوں کہ وصیت جو کریں اس کو سمجھیں اگر اتنی بھی عقل نہ ہو تو اس کی وصیت درست نہیں ہے۔
ثلث سے زیادہ وصیت درست نہ ہونے کا بیان
سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ میری عیادت کو آئے (یعنی بیمار پرسی کے لئے) حجہ الوداع کے سال میں اور میرا مرض شدید تھا میں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ میری بیماری کا حال تو آپ دیکھتے ہیں اور میں مالدار ہوں اور میری وارث صرف میری ایک بیٹی ہے کیا میں دو ثلث مال للہ دے دوں آپ نے فرمایا نہیں میں نے کہا آدھا مال دے دوں۔ آپ نے فرمایا نہیں پھر خود آپ نے فرمایا تہائی مال للہ دے دے اور تہائی بہت ہے اگر تو اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑ جائے تو بہتر ہے اس سے کہ فقیر بھیک منگا چھوڑ جائے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں اور تو جو چیز صرف کرے گا اللہ کی رضامندی کے واسطے تجھ کو اس کا ثواب ملے گا یہاں تک کہ تو جو اپنی بی بی کے منہ میں دیتا ہے اس کا بھی ثواب ملے گا پھر میں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ کیا میں اپنے ساتھیوں کے پیچھے رہ جاؤں گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر تو پیچھے رہ جائے گا اور نیک کام کرے گا تیرا درجہ بلند ہوگا اور شاید تو زندہ رہے (مکہ میں نہ مرے) یہاں تک کہ نفع دے اللہ جل جلالہ تیرے سبب سے ایک قوم کو اور نقصان دے ایک قوم ہے۔ کہا مالک نے اگر کوئی وصیت کرے تہائی مال کی ایک شخص کو اور کہے غلام میرا فلاں شخص کی خدمت کرے جب تک وہ شخص زندہ رہے پھر آزاد ہے بعد اس کے اس غلام کی قیمت ثلث مال نکلے تو غلام کی خدمت کی قیمت لگادیں گے اور اس غلام میں حصہ کرلیں گے جس کو ثلث مال کی وصیت کی ہے اس کا حصہ ایک ثلث ہوگا اور جس کو خدمت کی وصیت کی ہے اس کا حصہ خدمت کے موافق ہوگا بعد اس کے دونوں شخص کی خدمت یا کمائی میں سے اپنا حصہ لیا کریں گے۔ جب وہ شخص مرجائے گا جس کے واسطے خدمت کی تھی تو غلام آزاد ہوجائے گا۔ کہا مالک نے اگر کوئی وصیت کرے تہائی مال کی ایک شخص کو اور کہے غلام میرا فلاں شخص کی خدمت کرے جب تک وہ شخص زندہ رہے پھر آزاد ہے بعد اس کے اس غلام کی قیمت ثلث مال نکلے تو غلام کی خدمت کی قیمت لگادیں گے اور اس غلام میں حصہ کرلیں گے جس کو ثلث مال کی وصیت کی ہے اس کا حصہ ایک ثلث ہوگا اور جس کو خدمت کی وصیت کی ہے اس کا حصہ خدمت کے موافق ہوگا بعد اس کے دونوں شخص کی خدمت یا کمائی میں سے اپنا حصہ لیا کریں گے۔ جب وہ شخص مرجائے گا جس کے واسطے خدمت کی تھی تو غلام آزاد ہوجائے گا۔ کہا مالک نے جو شخص وصیت کرے کئی آدمیوں کے لئے پھر اس کے وارث یہ دعویٰ کریں کہ وصیت ثلث سے زیادہ ہے تو وارثوں کو اختیار ہوگا چاہے ہر ایک موصی لہ کو اس کی وصیت ادا کریں اور میت کا پورا ترکہ آلے لیں یا تہائی مال موصی لہ جتنے ہوں ان کے حوالہ کردیں اور اپنے حصوں کے موافق اس کو تقسیم کرلیں گے۔
حاملہ اور بیمار کو اور اس شخص کو جو میدان جنگ میں کھڑا ہو اپنے مال میں کتنا اختیار ہے۔
کہا مالک نے حاملہ بھی مثل بیمار کے ہے اگر بیماری خفیف ہو جس میں موت کا خوف نہ ہو تو مالک مال کو اختیار ہے جیسا چاہے تصرف کرے البتہ جس بیماری میں موت کا خوف ہو تو ثلث سے زیادہ تصرف درست نہیں۔ کہا مالک نے اسی طرح حاملہ بھی اوائل حمل میں جب تک خوشی اور سرور اور صحت سے رہے نہ مرض ہو نہ خوف اپنے کل مال میں اختیار رکھے گی۔ اللہ جل جلالہ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے ہم نے بشارت دی سارہ کو اسحاق کی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی۔ اور فرمایا اللہ جل جلالہ نے جب آدمی نے عورت سے جماع کیا تو اس کو حمل ہوگیا ہلکا ہلکا چلتے پھرتے رہے جب حمل بھاری ہوا تو دونوں نے دعا کی اللہ سے جو ان کا رب تھا کہ اگر تو ہم کو نیک (یا صحیح وسالم) بچہ دے گا تو ہم تیرا شکر ادا کریں گے۔ پس عورت حاملہ جب بوجھل ہوجائے تو اس وقت ثلث مال سے زیادہ اختیار نہیں رہتا اور یہ بعد چھ مہینے کے ہے کیونکہ اللہ جل جلالہ فرماتا ہے مائیں اپنے بچے کو دو برس کامل دودھ پلائیں جو شخص دودھ کی مدت پوری کرنا چاہے۔ اور پھر فرماتا ہے حمل اور دودھ چھڑائی اس کی تیس مہینے میں ہوتی ہے۔ تو جب حاملہ پر چھ مہینے گزر جائیں حمل کے روز سے اس وقت سے اس کا تصرف ثلث مال سے زیادہ میں درست نہ ہوگا۔ کہا مالک نے جو شخص صف جنگ میں کھڑا ہو اور لڑائی کو جائے اس کو بھی ثلث مال سے زیادہ اپنے مال میں تصرف درست نہیں وہ بھی حاملہ اور بیمار کے حکم میں ہے۔
وارث کے واسطے وصیت کا بیان اور وارث کو کچھ مال دے جانے کا بیان
کہا مالک نے ہمارے نزدیک وارث کے واسطے وصیت درست نہیں ہے مگر جب اور ورثاء اجازت دیں اور اگر بعض ورثاء اجازت دیں اور بعض نہ دیں تو جو اجازت دیں گے ان کے حصے میں سے وصیت ادا کی جائے گی۔ کہا مالک نے جو شخص بیمار ہو وہ اپنے وارثوں سے اجازت چاہے ثلث سے زیادہ وصیت کرنے کی اور وارث اجازت دیں اس بات کی کہ ثلث سے زیادہ کسی وارث کے لئے وصیت کرے تو پھر ان وارثوں کو رجوع کا اختیار نہیں اگر رجوع درست ہوتا تو ہر وارث یہی کیا کرتا جب موصی مرجاتا تو مال وصیت آپ لے لیا کرتے اور اس کی وصیت روک دیتے البتہ اگر کوئی شخص صحت کی حالت میں اپنے وارثوں سے اجازت چاہے وارث کے واسطے وصیت کرنے کی اور وہ اجازت دے دے تو اس سے رجوع کرسکتے ہیں کیونکہ جب آدمی صحیح ہے تو اپنے کل مال میں اختیار رکھتا ہے چاہے سب صدقہ دے چاہے سب کسی کے حوالے کردے تو یہ اذن لینا لغو ہوا اور وارثوں کا اذن دینا بھی اپنے وقت سے پیشتر ہوا اس واسطے ان کو رجوع درست ہے بلکہ اذن لینا اس وقت درست ہے جب وہ اپنے مال میں اختیار نہ رکھتا ہو اور ثلث سے زیادہ صرف کرنے پر قادر نہ ہو اس وقت وارثوں کو دو ثلث کا اختیار ہوگا وہ اجازت بھی دے سکتے ہیں اگر مریض نے اپنے وارث سے کہا تو اپنا حصہ میراث کا مجھے ہبہ کردے اس نے ہبہ کردیا لیکن مریض نے اس میں کچھ تصرف نہیں کیا یوں ہی مرگیا تو وہ حصہ پھر اسی وارث کا ہوجائے گا البتہ اگر میت یوں کہے ایک وارث سے کہ فلانا وارث بہت ضعیف ہے تو بھی اپنا حصہ اس کو ہبہ کردے اور اگر وہ ہبہ کردے تو درست ہوجائے گا اگر وارث نے اپنا حصہ میراث میت کو ہبہ کرد یا اس نے کچھ اس میں سے کسی کو دلایا کچھ بچ رہا تو جو بچ رہا وہ اسی وارث کا ہوگا۔
جو مرد عورت کی مثل ہو اس کا بیان اور لڑکے کا کون حقدار ہے ماں یا باپ
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ ایک مخنث خلقی حضرت ام سلمہ کے پاس تھا اس نے عبداللہ بن امیہ سے کہا اور رسول اللہ ﷺ سن رہے تھے اے عبداللہ اگر کل اللہ جل جلالہ تمہارے ہاتھ سے طائف کو فتح کرا دے تو تم غیلان کی بیٹی کو ضرور لینا جب وہ سامنے آتی ہے تو اس کے پیٹ پر چار بٹیں معلوم ہوتی ہیں اور جب پیٹھ موڑ کر جاتی ہے تو چار کی آٹھ بٹیں معلوم ہوتی ہیں (دونوں جانب پہلو سے) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ لوگ تمہارے پاس نہ آیا کریں۔
جو مرد عورت کی مثل ہو اس کا بیان اور لڑکے کا کون حقدار ہے ماں یا باپ
یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ میں نے قاسم بن محمد سے سنا کہتے تھے حضرت عمر بن خطاب کے پاس ایک انصاری عورت تھی اس سے ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام عاصم بن عمر رکھا تھا پھر حضرت عمر نے اس عورت کو چھوڑ دیا اور مسجد قبا میں آئے وہاں عاصم کو لڑکوں کے ساتھ کھیلتا ہوا پایا مسجد کے صحن میں حضرت عمرنے اس کا بازو پکڑ کر اپنے جانور پر سوار کرلیا لڑکے کی نانی نے یہ دیکھ کر ان سے جھگڑا کیا اور اپنا لڑکا طلب کیا پھر دونوں حضرت ابوبکر صدیق کے پاس آئے حضرت عمر نے کہا میرا بیٹا ہے عورت نے کہا میرا بچہ ہے ابوبکر صدیق نے کہا عمر اسے چھوڑ دو بچے کو اور دے دو اس کی نانی کو حضرت عمرچپ ہو رہے اور کچھ تکرار نہ کی۔
اس میں عیب نکلنے کا بیان اور اس کا تاوان کس پر ہے۔
کہا مالک نے ایک شخص جانور یا کپڑا یا اور کوئی اسباب خریدے پھر یہ بیع ناجائز معلوم ہو اور مشتری (خریدنے والا) کو حکم ہو کہ وہ چیز بائع (بچنے والا) کو پھیر دے (حالانکہ اس شئے میں کوئی عیب ہوجائے) تو بائع (بچنے والا) کو اس شئے کی قیمت ملے گی اس دن کی جس دن کہ وہ شئے مشتری (خریدنے والا) کے قبضے میں آئی تھی نہ کہ اس دن کی جس دن وہ پھیرتا ہے کیونکہ جس دن سے وہ شئے مشتری (خریدنے والا) کے قبضے میں آئی تھی اس دن سے وہ اس کا ضامن ہوگیا تھا اب جو کچھ اس میں نقصان ہوجائے وہ اسی پر ہوگا اور جو کچھ زیادتی ہوجائے وہ بھی اسی کی ہوگی اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی مال ایسے وقت میں لیتا ہے جب اس کی قدر اور تلاش ہو پھر اس کو وقت میں پھیر دیتا ہے جب کہ وہ بےقدر ہو کوئی اس کو نہ پوچھے تو آدمی ایک شئے خریدتا ہے دس دینار کو پھر اس کو رکھ چھوڑتا ہے اور پھیرتا ہے ایسے وقت میں جب اس کی قیمت ایک دینار ہو تو یہ نہیں ہوسکتا کہ بےچارے بائع (بچنے والا) کا نو دینار کا نقصان کرے یا جس دن خریدا اسی دن اس کی قیمت ایک دینار تھی پھر پھیرتے وقت اس کی قیمت دس دینار ہوگئی تو بائع (بچنے والا) مشتری (خریدنے والا) کو ناحق نو دینار کا نقصان دے اسی واسطے وہ قیمت اس دن کی واجب ہوئی جس دن کہ وہ شئے مشتری (خریدنے والا) کے قبضے میں آئی ہو۔
قضاکی مختلف احادیث کا بیان اور قضا کے مکروة ہونے کا بیان
یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ ابوالدرداء نے سلمان فارسی کو لکھا کہ چلے آؤ مقدس زمین میں سلمان نے جواب لکھا کہ زمین کسی کو مقدس نہیں کرتی بلکہ آدمی کو اس کے عمل مقدس کرتے ہیں اور میں نے سنا ہے تم طبیب بنے ہو لوگوں کی دوا کرتے ہو اگر تم لوگوں کو دوا سے اچھا کرتے ہو تو بہتر ہے اور اگر تم طب نہیں جانتے تو اور خواہ مخواہ طبیب بن گئے تو بچو کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی آدمی کو مار ڈالو تو جہنم میں جاؤ پھر ابوالدردا جب فیصلہ کیا کرتے دو شخصوں میں اور وہ جانے لگتے تو دوبارہ ان کو بلاتے اور کہتے پھر بیان کرو اپنا قصہ میں تو واللہ طب نہیں جانتا یوں ہی علاج کرتا ہوں۔
قضاکی مختلف احادیث کا بیان اور قضا کے مکروة ہونے کا بیان
کہا مالک نے اگر کسی شخص نے دوسرے کے غلام سے بغیر اس کی اجازت کے کسی بڑے کام میں مدد لی جس کے واسطے نوکر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے یا مزدوربلانے کی اور غلام میں کوئی عیب ہوگیا اس کام کرنے کی وجہ سے تو اس پر ضمان لازم آئے گی اور جو غلام صحیح وسالم رہا اور اس کے مولیٰ (مالک) نے مزدوری طلب کی تو مزدوری دینی پڑے گی۔ کہا مالک نے اگر غلام کا ایک حصہ آزاد ہو اور کچھ فقیق (مملوک) تو مال اس کا اس کے پاس رہے گا اگر اس میں کوئی نیا کام نہیں کرسکتا بلکہ بقدرضرورت کھاتاپیتا ہے تو جب مرجائے گا تو وہ مال اس کو ملے گا جس کی ملک باقی تھی۔ کہا مالک نے جس روز سے لڑکا مالدار ہوجائے تو والد نے جو اس پر خرچ کیا ہو اس روز سے حساب کر کے اس سے کٹوتی لے سکتا ہے اگر چاہے، خواہ مال لڑکے کا نقد کی قسم سے ہو یا جنس کی قسم سے۔
قضاکی مختلف احادیث کا بیان اور قضا کے مکروة ہونے کا بیان
عمر بن عبدالرحمن بن دلاف مزنی سے روایت ہے کہ ایک شخص قبیلہ جہینہ کا سب حاجیوں سے آگے جا کر اچھے اچھے مہنگے اونٹ خریدا کرتا تھا اور جلدی چلا کرتا تھا سب حاجیوں سے پہلے پہنچتا تھا ایک بار وہ مفلس ہوگیا اور اس کا مقدمہ حضرت عمر کے پاس آیا آپ نے کہا بعد حمد وصلوۃ کے لوگوں کو معلوم ہو کہ اسیفع نے جو جہنیہ کے قبیلے کا ہے دین اور امانت میں بھی بات پسند کی کہ لوگ اس کو کہا کریں کہ وہ سب حاجیوں سے پہلے پہنچا آگاہ رہو کہ اس نے قرض خریدا ادا کرنے کا خیال نہ رکھا تو وہ مفلس ہوگیا اور قرض نے اس کے مال کو لپیٹ لیا تو جس شخص کا اس پر قرض آتا ہے وہ ہمارے پاس صبح کو آئے ہم اس کا مال قرضخواہوں کو تقسیم کریں گے تم لوگوں کو چاہیے کہ قرض لینے سے پرہیز کرو قرض میں لیتے ہی رنج ہوتا ہے اور آخر میں لڑائی ہوتی ہے
غلام کسی کا نقصان کرین یا کسی کو زخمی کریں تو کیا حکم ہے۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک غلام کی جنایت میں سنت یہ ہے کہ اگر غلام کا رقبہ (گردن۔ آزادی یا غلامی) اس میں پھنس جائے گا تو مولیٰ (مالک) کو اختیار ہے چاہے ان چیزوں کی قیمت یا زخم کی دیت ادا کرے اور اپنے غلام کو رکھ لے چاہے اس غلام ہی کو صاحب جنایت کے حوالے کردے غلام کی قیمت سے زیادہ مولیٰ (مالک کو کچھ نہ دینا ہوگا اگرچہ اس چیز کی قیمت یا دیت اس کی قیمت سے زیادہ ہو۔
اپنی اولاد کو جو دینا درست ہے اس کا بیان
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ عثمان بن عفان نے کہا کہ جو شخص اپنے نابالغ لڑکے کو کوئی چیز ہبہ کرے تو درست ہے جب کہ علانیہ دے اور اس پر گواہ کر دے پھر اس کا ولی باپ ہی رہے گا۔
اپنی اولاد کو جو دینا درست ہے اس کا بیان
کہا مالک نے ہمارے نزدیک حکم یہ ہے کہ جو شخص اپنے نابالغ بچے کو سونا یا چاندی دے پھر وہ بچہ مرجائے اور باپ ہی اس کا ولی تھا تو وہ مال اس بچے کا شمار نہ کیا جائے گا الاّجس صورت میں باپ نے اس مال کو جدا کردیا ہو یا کسی کے پاس رکھوایا ہو تو وہ بیٹے کا ہوگا (اب وہ مال بیٹے کے سب وارثوں کو بموجب فرائض کے پہنچے گا) ۔