4. کتاب الصلوة
اذان کے بیان میں
یحییٰ بن سعید انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قصد کیا دو لکڑیاں بنانے کا اس لئے کہ جب ان کو ماریں تو آواز پہنچے لوگوں کو اور جمع ہوں لوگ نماز کے لئے پس دکھائے گئے عبداللہ بن زید دو لکڑیاں اور کہا کہ یہ لکڑیاں تو ایسی ہیں جیسی رسول اللہ ﷺ نے چاہیں پھر کہا گیا ان سے خواب میں کہ تم نماز کے لئے اذان کیوں نہیں دیتے تو جب جاگے تو رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور ان سے خواب بیان کیا تو نبی ﷺ نے اذان کا حکم دیا۔
اذان کے بیان میں
ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جب سنو تم اذان کو تو کہو جیسا کہ کہتا جاتا ہے مؤذن۔
اذان کے بیان میں
ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے اگر معلوم ہوتا لوگوں کو جو کچھ اذان دینے میں اور صف اول میں ثواب میں پھر نہ پاسکتے ان کو بغیر قرعہ کے البتہ قرعہ ڈالتے اور اگر معلوم ہوتا لوگوں کو جو کچھ نماز کے اول وقت پڑھنے میں ثواب ہے البتہ جلدی کرتے اس کی طرف اور اگر معلوم ہوتا جو کچھ ثواب ہے عشاء اور صبح کی نماز باجماعت پڑھنے کا البتہ آتے جماعت میں گھٹنوں کے بل گھسٹتے ہوئے۔
اذان کے بیان میں
ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جب تکبیر ہو نماز کی تو نہ دوڑتے ہوئے آؤ تم بلکہ اطمینان اور سہولت سے تو جتنی نماز تم کو ملے پڑھ لو اور جو نہ ملے اس کو پورا کرلو کیونکہ جب کوئی تم میں سے قصد کرتا ہے نماز کا تو وہ نماز ہی میں ہوتا ہے۔
اذان کے بیان میں
عبداللہ بن عبدالرحمن انصاری سے ابوسعید خدری نے کہا کہ تو بکریوں کو اور جنگل کو دوست رکھتا ہے تو جب جنگل میں ہو اپنی بکریوں میں اذان دے نماز کی بلند آواز سے کیونکہ نہیں پہنچتی آواز مؤذن کی نہ جن کو نہ آدمی کو اور نہ کسی شئے کو مگر وہ گواہ ہوتا ہے اس کا قیامت کے روز کہا ابوسعید نے سنا میں نے اس کو رسول اللہ ﷺ سے۔
اذان کے بیان میں
ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ جب اذان ہوتی ہے نماز کے لئے شیطان پیٹھ موڑ کر پادتا ہوا بھاگتا ہے تاکہ نہ سنے اذان کو پھر جب اذان ہو چکتی ہے چلا آتا ہے پھر جب تکبیر ہوتی ہے بھاگ جاتا ہے پیٹھ موڑ کر پھر جب تکبیر ہو چکتی ہے چلا آتا ہے یہاں تک کہ وسوسہ ڈالتا ہے نمازی کے دل میں اور کہتا ہے اس سے خیال کر فلاں چیز کا خیال کر جس کو خیال نماز کو اول بھی نہ تھا یہاں تک کہ رہ جاتا ہے نماز اور خبر نہیں ہوتی اس کو کہ کتنی رکعتیں پڑھیں۔
اذان کے بیان میں
سہل بن سعد سے روایت ہے کہا انہوں نے دو وقت کھل جاتے ہیں دراوزے آسمان کے اور کم ہوتا ہے ایسا دعا کر نیوالا کہ نہ قبول ہو دعا اس کی ایک جس وقت اذان ہو نماز کی دوسری جس وقت صف باندھی جائے جہاد کے لئے۔
اذان کے بیان میں
مالک بن ابی عامر اصبحی جو دادا ہیں امام مالک کے کہتے ہیں کہ میں نہیں دیکھتا کسی چیز کو کہ باقی ہو اس طور پر جس پر پایا میں نے صحابہ کو مگر اذان کو۔
اذان کے بیان میں
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے تکبیر سنی اور وہ بقیع میں تھے تو جلدی جلدی چلے مسجد کو۔
سفر میں بے وضو اذان کہنے کو بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے اذان دی رات کو جس میں سردی اور ہوا بہت تھی پھر کہا کہ نماز پڑھ لو اپنے اپنے ڈیروں میں پھر کہا ابن عمر نے کہ رسول اللہ ﷺ حکم کرتے تھے مؤذن کو جب رات ٹھنڈی ہوتی تھی پانی برستا تھا یہ کہ پکارے نماز پڑھ لو اپنے ڈیروں میں۔
سفر میں بے وضو اذان کہنے کو بیان
نافع سے روایت ہے عبداللہ بن عمر سفر میں صرف تکبیر کہتے تھے مگر نماز فجر میں اذان بھی کہتے تھے اور عبداللہ بن عمر یہ بھی کہا کرتے تھے کہ اذان اس امام کے لئے ہے جس کے پاس لوگ جمع ہوں۔
سفر میں بے وضو اذان کہنے کو بیان
ہشام بن عروہ سے ان کے باپ نے کہا کہ جب تو سفر میں ہو تو تجھے اختیار ہے چاہے اذان یا اقامت دونوں کہہ یا فقط اقامت کہہ اور اذان نہ دے۔
سفر میں بے وضو اذان کہنے کو بیان
سعید بن مسیب نے کہا جو شخص نماز پڑھتا ہے چٹیل میدان میں تو داہنی طرف اس کے ایک فرشتہ اور بائیں طرف اس کے ایک فرشتہ نماز پڑھتا ہے اور اگر اس نے اذان دے کر تکبیر کہہ کر نماز پڑھی تو اس کے پیچھے بہت سے فرشتے نماز پڑھتے ہیں مثل پہاڑوں کے۔
اذان کا سحری کے وقت ہونا
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے بلال رات رہے سے اذان دے دیتے ہیں تو کھایا پیا کرو جب تک اذان دے عبداللہ بیٹا ام مکتوم کا۔
اذان کا سحری کے وقت ہونا
سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے بلال اذان دیتا ہے رات کو تو کھایا پیا کرو جب تک اذان نہ دے بیٹا ام مکتوم کا کہا ابن شہاب نے یا سالم نے یا عبداللہ بن عمر نے کہا تھا بیٹا ام مکتوم کا نابینا اذان نہ دیتا تھا جب تک لوگ اس سے نہ کہتے تھے صبح ہوگئی صبح ہوگئی۔
نماز کے شروع کرنے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب شروع کرتے تھے نماز کو اٹھاتے تھے دونوں ہاتھ برابر دونوں مونڈھوں کے اور جب سر اٹھاتے تھے رکوع سے تب بھی دونوں ہاتھوں کو اسی طرح اٹھاتے اور کہتے سمع اللہ لمن حمدہ ربنا ولک الحمد اور سجدوں کے بیچ میں ہاتھ نہ اٹھاتے نہ سجدے کو جاتے وقت۔
نماز کے شروع کرنے کا بیان
امام زین العابدین سے جن کا اسم مبارک علی ہے اور وہ بیٹے ہیں حضرت امام حسین بن علی بن ابی طالب کے روایت کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ تکیبر کہتے نماز میں جب جھکتے اور جب اٹھتے اور ہمیشہ رہے اسی طور سے نماز ان کی یہاں تک کہ مل گئے اللہ جل جلالہ سے۔
نماز کے شروع کرنے کا بیان
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اٹھاتے تھے ہاتھوں کو نماز میں
نماز کے شروع کرنے کا بیان
ابو سلمہ سے روایت ہے کہ ابوہریرہ امام ہوتے تھے ان کے تو تکبیر کہتے تھے جب جھکتے اور جب اٹھتے اور پھر جب فارغ ہوئے تو کہا قسم اللہ کی میں زیادہ مشابہ ہوں تم سب میں رسول اللہ ﷺ کی نماز میں۔
نماز کے شروع کرنے کا بیان
سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر تکبیر کہتے نماز میں جب جھکتے اور اٹھتے۔
نماز کے شروع کرنے کا بیان
نافع سے روایت ہے عبداللہ بن عمر جب شروع کرتے نماز کو اٹھاتے دونوں ہاتھوں کو برابر دونوں مونڈھوں کے اور جب سر اٹھاتے رکوع سے اٹھاتے دونوں ہاتھ ذرا کم اس سے۔
نماز کے شروع کرنے کا بیان
وہب بن کیسان سے روایت ہے کہ جابر بن عبداللہ انصاری سکھاتے تھے ان کو تکبیر نماز میں تو حکم کرتے تھے کہ تکیبر کہیں ہم جب جھکیں ہم اور اٹھیں ہم۔
نماز کے شروع کرنے کا بیان
ابن شہاب کہتے تھے جب پا لیا کسی شخص نے رکوع اور تکبیر کہہ لی تو یہ تکبیر کافی ہوجائے کی تکبیر تحریمہ سے۔
مغرب اور عشاء کی نماز میں قرأت کا بیان
جبیر بن مطعم سے روایت ہے کہ سنا انہوں نے رسول اللہ ﷺ نے پڑھا سورت طور کو مغرب کی نماز میں
مغرب اور عشاء کی نماز میں قرأت کا بیان
ام فضل نے عبداللہ بن عباس کو سورت المرسلات عرفا پڑھتے سنا تو کہا اے بیٹے میرے ! یاد دلا دیا تو نے یہ سورت پڑھ کر اخیر جو سنا میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس سورت کو پڑھا تھا آپ ﷺ نے مغرب میں
مغرب اور عشاء کی نماز میں قرأت کا بیان
ابو عبداللہ صنابحی سے روایت ہے کہ میں آیا مدینہ میں جب ابوبکر خلیفہ تھے تو پڑھی میں نے پیچھے ان کے مغرب کی نماز تو پہلی دو رکعتوں میں سورت فاتحہ اور ایک سورت مفصل کو چھوٹی سورتوں میں سے پڑھی پھر جب تیسری رکعت کے واسطے کھڑے ہوئے تو میں نزدیک ہوگیا ان کے یہاں تک کہ میرے کپڑے قریب تھے کہ چھو جائیں ان کے کپڑوں سے تو سنا میں نے پڑی انہوں نے سورت فاتحہ اور اس آیت کو ربنا (رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَيْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً اِنَّكَ اَنْتَ الْوَھَّابُ ) 3 ۔ ال عمران : 8) ۔
مغرب اور عشاء کی نماز میں قرأت کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر جب اکیلے نماز پڑھتے تھے تو چاروں رکعتوں میں سورت فاتحہ اور ایک ایک سورت پڑھتے تھے اور کبھی دو دو تین سورتیں ایک رکعت میں پڑھتے تھے فرض کی نماز میں اور مغرب کی نماز میں دو رکعتوں میں فاتحہ اور سورت پڑھتے تھے۔
مغرب اور عشاء کی نماز میں قرأت کا بیان
برا بن عازب سے روایت ہے کہ میں نے نماز پڑھی ساتھ رسول اللہ ﷺ کے عشاء کی تو پڑھی آپ ﷺ نے اس میں والتین والزیتوں۔
کلام پڑھنے کا طریقہ۔
حضرت علی سے روایت ہے کہ منع کیا حضرت نے ریشمی کپڑا اور سونے کی انگوٹھی پہننے سے اور قرآن کو رکوع میں پڑھنے سے۔
کلام پڑھنے کا طریقہ۔
فروہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ آئے لوگوں کے پاس اور وہ نماز پڑھ رہے تھے آوازیں ان کی بلند تھیں کلام اللہ پڑھنے سے تو فرمایا آپ ﷺ نے نمازی کانا پھوسی کرتا ہے اپنے پروردگار سے تو چاہئے کہ سمجھ کر کانا پھوسی کرے اور نہ پکارے ایک تم میں دوسرے پر قرآن میں۔
کلام پڑھنے کا طریقہ۔
انس بن مالک نے کہا نماز کو کھڑا ہوا میں پیچھے ابوبکر اور عمر اور عثمان کے جب نماز شروع کرتے تو کوئی ان میں سے بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ پڑھتا۔
کلام پڑھنے کا طریقہ۔
مالک بن ابی عامر اصبحی سے روایت ہے کہ ہم سنتے تھے قرأت عمر بن خطاب کی اور وہ ہوتے تھے نزدیک دار ابی جہم کے اور ہم ہوتے تھے بلاط میں
کلام پڑھنے کا طریقہ۔
نافع سے روایت ہے عبداللہ بن عمر جب فوت ہوجاتی کچھ نماز ان کی ساتھ امام کے جس میں پکار کر قرأت کی ہوتی تو جب سلام پھیرتا امام، اٹھتے عبداللہ بن عمر اور پڑھتے جو رہ گئی تھی نماز میں پکار کر۔
کلام پڑھنے کا طریقہ۔
یزید بن رومان سے روایت ہے کہ میں نماز پڑھتا تھا نافع کے ایک جانب تو اشارہ کردیتے تھے مجھ کو واپس بتادیتا تھا میں ان کو جہاں وہ بھول جاتے تھے اور ہم نماز میں ہوتے تھے۔
صبح کی نماز میں قرأت کا بیان
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ ابوبکر صدیق نے نماز پڑھائی صبح کی تو پڑھی اس میں سورت بقرہ دو رکعتوں میں
صبح کی نماز میں قرأت کا بیان
عروہ بن زبیر نے سنا عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے کہتے تھے نماز پڑھی ہم نے پیچھے عمر بن خطاب کے صبح کی تو پڑھی انہوں نے سورت یوسف اور سورت حج ٹھہر ٹھہر کر عروہ نے کہا قسم اللہ کی پس اس وقت کھڑے ہوتے ہوں گے نماز کو جب نکلتی ہے صبح صادق کہا عبداللہ نے ہاں
صبح کی نماز میں قرأت کا بیان
قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ فرافصہ بن عمیر حنفی نے کہا کہ میں نے سورت یوسف یاد کرلی حضرت عثمان کے پڑھنے سے آپ صبح کی نماز میں اس کو بہت پڑھا کرتے تھے۔
صبح کی نماز میں قرأت کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر سفر میں مفصل کے پہلی دس سورتوں میں سے ہر ایک رکعت میں سورت فاتحہ اور ایک سورت پڑھا کرتے تھے۔
سورت فاتحہ کی فضلیت کا بیان
ابو سعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پکارا ابی بن کعب کو اور وہ نماز پڑھ رہے تھے تو جب نماز سے فارغ ہوئے مل گئے آپ ﷺ سے پس رکھا رسول اللہ ﷺ نے ہاتھ اپنا ابی کے ہاتھ پر اور وہ نکلنا چاہتے تھے مسجد کے دروازے سے سو فرمایا آپ ﷺ نے میں چاہتا ہوں کہ نہ نکلے تو مسجد کے دروازے سے یہاں تک کہ سیکھ لے ایک سورت ایسی کہ نہیں اتری تورات اور انجیل اور قرآن میں مثل اس کے کہا ابی نے پس ٹھہر ٹھہر کر چلنے لگا میں اسی امید میں پھر کہا میں نے اے اللہ کے رسول وہ سورت جس کا آپ ﷺ نے وعدہ کیا تھا بتلائیے مجھ کو فرمایا آپ ﷺ نے کیونکر پڑھتا ہے تو جب شروع کرتا ہے نماز کو کہا ابی نے تو میں پڑھنے لگا الحمد للہ رب العالمین یہاں تک کہ ختم کیا میں نے سورت کو پس فرمایا رسول اللہ ﷺ نے وہ یہی سورت ہے اور یہ سورت سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے جو میں دیا گیا۔
سورت فاتحہ کی فضلیت کا بیان
ابی نعیم وہب بن کیسان سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا جابر بن عبداللہ انصاری سے کہتے تھے جس شخص نے ایک رکعت پڑھی اور اس میں سورت فاتحہ نہ پڑھی تو گویا اس نے نماز نہ پڑھی مگر جب امام کے پیچھے ہو
سورت فاتحہ امام کے پیچھے سری نماز میں پڑھنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ فرمایا نبی ﷺ نے جس شخص نے پڑھی نماز اور نہ پڑھی اس میں سورت فاتحہ تو نماز اس کی ناقص ہے ناقص ہے ہرگز تمام نہیں ہے ابوالسائب نے کہا اے ابوہریرہ (رض) کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں تو دبا دیا ابوہریرہ (رض) نے میرا بازو اور کہا پڑھ لے اپنے دل میں اے فارس کے رہنے والے کیونکہ میں نے سنا ہے رسول اللہ ﷺ سے فرماتے تھے فرمایا اللہ تعالیٰ نے بٹ گئی نماز میرے اور میرے بندے کے بیچ میں آدھوں آدھ آدھی میری اور آدھی اس کی اور جو بندہ میرا مانگے اس کو دوں گا فرمایا رسول اللہ ﷺ نے پڑھو بندہ کہتا ہے کہ سب تعریف اللہ کو ہے جو صاحب ہے سارے جہاں کا پروردگار کہتا ہے میری تعریف کی میرے بندے نے بندہ کہتا ہے بڑی رحمت کرنے والا مہربان پروردگار کہتا ہے خوبی بیان کی میرے بندے نے بندہ کہتا ہے کہ وہ مالک بدلے کے دن کا پروردگار کہتا ہے بڑائی کی میری میرے بندے نے بندہ کہتا ہے خاص تجھ کو پوجتے ہیں ہم اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں ہم تو یہ آیت میرے اور میرے بندے کے بیچ میں ہے بندہ کہتا ہے دکھا ہم کو سیدھی راہ ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے اپنا کرم کیا نہ دشمنوں کی اور گمراہوں کی تو یہ آیتیں بندہ کے لئے ہیں اور میر ابندہ جو مانگے سو دوں۔
سورت فاتحہ امام کے پیچھے سری نماز میں پڑھنے کا بیان
عروہ بن زبیر سورت فاتحہ پڑھتے تھے امام کے پیچھے سری نماز میں
سورت فاتحہ امام کے پیچھے سری نماز میں پڑھنے کا بیان
نافع بن جبیر امام کے پیچھے سری نماز میں سورت فاتحہ پڑھتے تھے۔
سورت فاتحہ جہری نماز میں امام کے پیچھے نہ پڑھنے کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر سے جب کوئی پوچھتا کہ سورت فاتحہ پڑھی جائے امام کے پیچھے تو جواب دیتے کہ جب کوئی تم میں سے نماز پڑھے امام کے پیچھے تو کافی ہے اس کو قرأت امام کی اور جو اکیلے پڑھے تو پڑھ لے کہا نافع نے اور تھے عبداللہ بن عمر نہیں پڑھتے تھے پیچھے امام کے۔
سورت فاتحہ جہری نماز میں امام کے پیچھے نہ پڑھنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فارغ ہوئے ایک نماز جہری سے پھر فرمایا کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ کلام اللہ پڑھا تھا ایک شخص بول اٹھا کہ ہاں میں نے یا رسول اللہ ﷺ فرمایا آپ ﷺ نے جب ہی میں کہتا تھا اپنے دل میں کیا ہوا ہے مجھ کو چھینا جاتا ہے مجھ سے کلام اللہ کہا ابن شہاب یا ابوہریرہ (رض) نے تب لوگوں نے موقوف کیا قرأت کو حضرت کے پیچھے نماز جہری میں جب سے یہ حدیث سنی آپ ﷺ سے۔
امام کے پیچھے آمین کہنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب امام کہے آمین تو تم بھی آمین کہو کیونکہ جس کی آمین مل جائے گی ملائکہ کی آمین سے بخش دئیے جائیں گے اگلے گناہ اس کے کہا ابن شہاب نے اور رسول اللہ ﷺ آمین کہتے تھے۔
امام کے پیچھے آمین کہنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جب امام غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہے تو تم آمین کہو کیونکہ جس کا آمین کہنا برابر ہوجائے گا ملائکہ کے کہنے کے بخش دئیے جائیں گے اگلے گناہ اس کے۔
امام کے پیچھے آمین کہنے کا بیان
ابویرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جب تم میں سے کوئی آمین کہتا ہے فرشتے بھی آسمان میں آمین کہتے ہیں پس اگر برابر ہوجائے ایک آمین دوسری آمین سے تو بخش دئیے جاتے ہیں اگلے گناہ اس کے۔
امام کے پیچھے آمین کہنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ فریاما رسول اللہ ﷺ نے جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم اللہم ربنا لک الحمد کہو کیونکہ جس کا کہنا ملائکہ کے کہنے کے برابر ہوجائے گا اس کے اگلے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔
نماز میں بیٹھنے کا بیان
علی بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ مجھ کو عبداللہ بن عمر نے نماز میں کنکریوں سے کھیلتا ہوا دیکھا تو جب فارغ ہوا میں نماز سے منع کیا مجھ کو اور کہا کہ کیا کر جیسے کرتے تھے رسول اللہ ﷺ میں نے کہا کیسے کرتے تھے کہا جب بیٹھتے تھے آپ ﷺ نماز میں تو داہنی ہتھیلی کو داہنی ران پر رکھتے تو سب انگلیوں کو بند کرلیتے اور کلمہ کی انگلی سے اشارہ کرتے اور بائیں ہتھیلی کو ران پر رکھتے اور کہا کہ اس طرح کرتے تھے آپ ﷺ ۔
نماز میں بیٹھنے کا بیان
عبداللہ بن دینار سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کے پہلو میں نماز پڑھی ایک شخص نے تو جب وہ بیٹھا بعد چار رکعت کے چار زانو بیٹھا اور لپیٹ لئے دونوں پاؤں اپنے تو جب فارغ ہوئے عبداللہ بن عمر نماز سے عیب کہا اس بات کو تو اس شخص نے جواب دیا آپ کیوں ایسا کرتے ہیں کہا میں تو بیمار ہوں ،۔
نماز میں بیٹھنے کا بیان
مغیرہ بن سکیم سے روایت ہے کہ انہوں نے دیکھا عبداللہ بن عمر کو کہ بیٹھے تھے درمیان دونوں سجدوں کے دونوں پاؤں کی انگلیوں پر اور پھر سجدہ میں چلے جاتے تھے تو جب فارغ ہوئے نماز سے ذکر ہوا اس کا پس کہا عبداللہ نے کہ اس طرح بیٹھنا نماز میں درست نہیں ہے لیکن میں بیماری کی وجہ سے اس طرح بیٹھتا ہوں ،۔
نماز میں بیٹھنے کا بیان
عبیداللہ بن عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے دیکھا عبداللہ بن عمر کو چار زانوں بیٹھتے ہوئے نماز میں تو وہ بھی چار زانو بیٹھے اور کمسن تھے ان دنوں میں پس منع کیا ان کو عبداللہ نے اور کہا کہ سنت نماز میں یہ ہے کہ داہنے پاؤں کا کھڑا کرے اور بائیں پاؤں کو لٹا دے کہا عبداللہ نے کہ میں نے ان سے کہا تم چار زانو بیٹھتے ہو جواب دیا عبداللہ نے کہ میرے پاؤں میرا بوجھ اٹھا نہیں سکتے۔
نماز میں بیٹھنے کا بیان
یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ قاسم بن محمد نے سکھایا لوگوں کو بیٹھنا تشہد میں تو کھڑا کیا داہنے پاؤں کو اور جھکایا بائیں پاؤں کو اور بیٹھے بائیں سرین پر اور نہ بیٹھے بائیں پاؤں پر کہا قاسم نے کہ بتایا مجھ کو اس طرح بیٹھنا عبیداللہ نے اور کہا کہ میرے باپ عبداللہ بن عمر اسی طرح کرتے تھے۔
تشہد کا بیان
عبدالرحمن بن عبدالقاری نے سنا عمر بن خطاب سے اور وہ منبر پر تھے سکھاتے تھے لوگوں کو تشہد کہتے تھے کہو التحیات للہ الزاکیات لللہ الطیبات الصلوت لللہ الخ۔
تشہد کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر تشہد پڑھتے تھے اس طرح بسم اللہ التحیات لللہ کہتے تھے یہ پہلی دو رکعتوں کے بعد مانگتے تھے بعد تشہد کے جو کچھ جی چاہتا تھا پھر جب اخیر قعدہ کرتے اور اسی طرح پڑھتے مگر پہلے تشہد پڑھتے پھر دعا مانگتے جو چاہتے اور بعد تشہد کے جب سلام پھیرنے لگتے تو کہتے السلام علی البنی و (رح) وبرکاتہ السلام علینا وعلی عباد الصالحین السلام علیکم داہنی طرف کہتے پھر امام کے سلام کا جواب دیتے پھر اگر کوئی بائیں طرف والا ان کو سلام کرتا تو اس کو بھی جواب دیتے۔
تشہد کا بیان
حضرت بی بی عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے کہ کہتیں تشہد میں التحیات الطیبات الصلوت الزکیات۔
تشہد کا بیان
امام مالک نے ابن شہاب زہری اور نافع مولیٰ ابن عمر سے پوچھا کہ ایک شخص امام کے ساتھ آکر شریک ہوا جب ایک رکعت ہوچکی تھی اب وہ امام کے ساتھ تشہد پڑھے قعدہ اولی اور قعدہ اخیر میں یا نہ پڑھے کیونکہ اس کی تو ایک رکعت ہوئی قعدہ اولی میں اور تین رکعتیں ہوئیں قعدہ اخیرہ میں تو جواب دیا دونوں نے کہ ہاں تشہد پڑھے امام کے ساتھ امام مالک نے کہا کہ ہمارے نزدیک یہی حکم ہے۔
جو شخص سر اٹھائے امام کے پیشتر رکوع یا سجدہ میں اس کا بیان
ابوہریرہ نے کہا کہ جو شخص سر اٹھاتا ہے یا جھکاتا ہے امام کے پیشتر تو اس کا ماتھا شیطان کے ہاتھ میں ہے۔
جس شخص نے دو رکعتیں پڑھ کر بھولے سے سلام پھیر دیا اس کا بیان
ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سلام پھیر دیا دو رکعتیں پڑھ کر تو کہا ذوالیدین نے کیا نماز گھٹ گئی یا آپ ﷺ بھول گئے۔ رسول آپ ﷺ نے فرمایا لوگوں سے کیا سچ کہتا ہے ذوالیدین، کہا لوگوں نے ہاں سچ کہتا ہے پس کھڑے ہوئے رسول اللہ ﷺ اور پڑھیں دو رکعتیں پھر سلام پھیر کر تکبیر کہی اور سجدہ کیا مثل سجدوں کے یا کچھ بڑا پھر سرا اٹھایا اور تکبیر کہی اور سجدہ کیا مثل سجدوں کے یا کچھ بڑا پھر سر اٹھایا۔
جس شخص نے دو رکعتیں پڑھ کر بھولے سے سلام پھیر دیا اس کا بیان
ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ نماز پڑھی رسول اللہ ﷺ نے عصر کی تو سلام پھیر دیا دو رکعتیں پڑھ کر پس کھڑا ہوا ذوالیدین اور کہا کیا نماز کم ہوگئی یا بھول گئے آپ ﷺ اے اللہ کے رسول اللہ فرمایا آپ ﷺ نے کوئی بات نہیں ہوئی متوجہ ہوئے آپ ﷺ لوگوں پر اور کہا کیا ذوالیدین سچ کہتا ہے لوگوں نے کہا ہاں پس اٹھے رسول اللہ ﷺ اور تمام کیا جس قدر نماز باقی تھی پھر دو سجدے کئے بعد سلام کے اور آپ ﷺ بیٹھے تھے۔
جس شخص نے دو رکعتیں پڑھ کر بھولے سے سلام پھیر دیا اس کا بیان
ابی بکر بن سلیمان سے روایت ہے کہ پہنچا مجھ کو رسول اللہ ﷺ نے دو رکعتیں پڑھیں ظہر یا عصر کی پھر سلام پھیر دیا تو کہا ذولشمالین اور وہ ایک شخص تھا بنی زہرہ بن کلاب سے کہ نماز کم ہوگئی یا رسول اللہ ﷺ یا آپ ﷺ بھول گئے آپ ﷺ نے فرمایا نہ نماز کم ہوئی نہ میں بھولا ذوالشمالین نے کہا کچھ تو ہوا یا رسول اللہ ﷺ پس متوجہ ہوئے آپ ﷺ لوگوں پر اور کہا کیا ذوالیدین سچ کہتا ہے لوگوں نے کہا ہاں تو تمام کیا رسول اللہ ﷺ نے باقی نماز کو پھر سلام پھیرا۔
جس شخص نے دو رکعتیں پڑھ کر بھولے سے سلام پھیر دیا اس کا بیان
سعید بن مسیب اور ابی سلمہ بن عبدالرحمن (رض) بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے۔
جب مصلی کو شک ہوجائے تو اپنی یاد پر نماز تمام کرنے کا بیان
عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب شک ہو تم میں سے کسی کو نماز میں تو نہ یاد رہے اس کہ تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار تو چاہئے کہ ایک رکعت اور پڑھ لے اور دو سجدے کرے قبل سلام کے پھر اگر یہ رکعت جو اس نے پڑھی ہے درحقیقت پانچویں ہوگی تو ان سجدوں سے مل کر ایک دوگانہ ہوجائے گا اگر چوتھی ہوگی تو ان سجدوں سے ذلت ہوگی شیطان کو۔
جب مصلی کو شک ہوجائے تو اپنی یاد پر نماز تمام کرنے کا بیان
سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے کہ جب شک کرے کوئی تم میں اپنی نماز کا تو سوچے جو بھول گیا ہے پھر پڑھ لے اس کو اور دو سجدے سہو کے بیٹھ کر کرلے۔
جب مصلی کو شک ہوجائے تو اپنی یاد پر نماز تمام کرنے کا بیان
عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ پوچھا میں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص اور کعب احبار سے اس شخص کے بارے میں جو شک کرے اپنی نماز میں تو نہ یاد رہے اس کو کہ تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار پس جواب دیا دونوں نے کہ ایک رکعت اور پڑھ کردو سجدے سہو کے کرلے بیٹھے بیٹھے۔
جب مصلی کو شک ہوجائے تو اپنی یاد پر نماز تمام کرنے کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر سے سوال ہوا نماز میں بھول جانے کا تو کہا سوچ لے جو بھول گیا ہے پھر پڑھ لے اس کو۔
جو شخص نماز پڑھ کر یا دو رکعتیں پڑھ کر کھڑا ہوجائے اسکا بیان
عبداللہ بن بحینہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دو رکعتیں پڑھا کر اٹھ کھڑے ہوئے اور نہ بیٹھے تب لوگ بھی آپ ﷺ کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے پس جب تمام کیا نماز کو اور انتظار کیا ہم نے سلام کا تکبیر کہی اور آپ ﷺ نے دو سجدے کئے بیٹھے بیٹھے قبل سلام کے پھر سلام پھیرا۔
جو شخص نماز پڑھ کر یا دو رکعتیں پڑھ کر کھڑا ہوجائے اسکا بیان
عبداللہ بن بحینہ سے روایت ہے کہ نماز پڑھائی رسول اللہ ﷺ نے ظہر کی پھر کھڑے ہوگئے دو رکعتیں پڑھ کر اور نہ بیٹھے تو جب پورا کرچکے نماز کو دو سجدے کئے پھر سلام پھیرا بعد اس کے۔
نماز میں اس چیز کی طرف دیکھنے کا بیان جو غافل کر دے نماز سے
مرجانہ سے روایت ہے کہ عائشہ نے فرمایا کہ ابوجہم بن حذیفہ نے تحفہ بھیجی ایک چادر شام کی رسول اللہ ﷺ کے واسطے جس میں نقش تھے تو نماز کو آئے آپ ﷺ اس کو اوڑھ کر پھر جب فارغ ہوئے نماز سے فرمایا کہ پھیر دے یہ چادر ابوجہم کو کیونکہ میں نے دیکھا اس کے بیل بوٹوں کو نماز میں پس قریب تھا کہ غافل ہوجاؤں میں۔
نماز میں اس چیز کی طرف دیکھنے کا بیان جو غافل کر دے نماز سے
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک چادر شام کی بنی ہوئی نقشی بھیجی پھر وہ چادر ابوجہم کو دے دی اور ایک چادر موٹی سادی لے لی تو ابوجہم نے کہا کیوں ایسا یا رسول اللہ ﷺ ؟ فرمایا میں نے نماز میں اس کو نقش ونگار کی طرف دیکھا۔
نماز میں اس چیز کی طرف دیکھنے کا بیان جو غافل کر دے نماز سے
عبداللہ بن ابی بکر سے روایت ہے کہ ابوطلحہ انصاری نماز پڑھ رہے تھے باغ میں تو ایک چڑیا اڑی اور ڈھونڈے لگی راہ نکلنے کی کیونکہ باغ اس قدر گنجان تھا اور پیڑ آپس میں ملے ہوئے تھے کہ چڑیا کو جگہ نکلنے کی نہ ملتی تھی پس پسند آیا ان کو یہ امر اور خوش ہوئے اپنے باغ کا یہ حال دیکھ کر تو ایک گھڑی تک اس طرف دیکھتے رہے پھر خیال آیا نماز کا سو بھول گیا کہ کتنی رکعتیں پڑھیں تب کہا مجھے آزمایا اللہ جل جلالہ نے اس مال سے تو آئے رسول اللہ ﷺ کے پاس اور بیان کیا جو کچھ باغ میں قصہ ہوا تھا اور کہا یا رسول اللہ ﷺ یہ باغ صدقہ ہے واسطے اللہ کے اور صرف کریں اس کو جہاں آپ ﷺ چاہیں۔
نماز میں اس چیز کی طرف دیکھنے کا بیان جو غافل کر دے نماز سے
عبداللہ بن ابی بکر سے روایت ہے کہ ایک شخص انصار میں سے نماز پڑھ رہا تھا اپنے باغ میں اور وہ باغ قف میں تھا جو نام ہے ایک وادی کا جو مدینہ کی وادیوں میں سے ہے ایسے موسم میں کہ کھجور پک کر لٹک رہی تھی گویا پھلوں کے طوق شاکوں کے گلوں میں پڑے تھے تو اس نے نماز میں اس طرف دیکھا اور نہایت پسند کیا پھلوں کو پھر جب خیال کیا نماز کا تو بھول گیا کتنی رکعتیں پڑھیں تو کہا کہ مجھے اس مال میں آزمائش ہوئی اللہ جل جلالہ کی پس آیا حضرت عثمان کے پاس اور وہ ان دنوں خلیفہ تھے رسول اللہ ﷺ کے اور بیان کیا ان سے یہ قصہ پھر کہا کہ وہ صدقہ ہے تو صرف کرو اس کو نیک راہوں میں پس بیچا اس کو حضرت عثمان نے پچاس ہزار کا اور اس مال کا نام ہوگیا پچاس ہزارہ۔