40. ترکے کی تقسیم کے بیان میں
اولاد کی میراث کا بیان
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اجماعی ہے کہ جب ماں یا باپ مرجائے اور لڑکے اور لڑکیاں چھوڑ جائے تو لڑکے کو دوہرا حصہ اور لڑکی کو ایک حصہ ملے گا۔ اگر میت کی صرف لڑکیاں ہوں دو یا دو سے زیادہ تو دو ثلث ترکے کے اس کو ملیں گے اگر ایک ہی لڑکی ہے اس کو آدھاتر کہ ملے گا۔ اگر میت کے ذوی الفروض میں سے بھی کوئی ہو اور لڑکے لڑکیاں بھی ہوں تو پہلے ذوی الفروض کا حصہ دے کر جو بچ رہے گا اس میں سے دوہرا حصہ لڑکے کو اور ایک حصہ لڑکی کو ملے گا۔ اور جب بیٹے بیٹیاں نہ ہوں تو پوتے پوتیاں ان کی مثل ہوں گی جیسے وہ وارث ہوتے ہیں یہ بھی وارث ہوں گے اور جیسے وہ محجوب (محروم) ہوتے ہیں یہ بھی محجوب ہوں گے۔ اگر ایک بیٹا بھی موجود ہوگا تو بیٹے کی اولاد کو یعنی پوتے اور پوتیوں کو ترکہ نہ ملے گا اگر کوئی بیٹا نہ ہو لیکن دو بیٹیاں یا زیادہ موجود ہوں تو پوتیوں کو کچھ نہ پہنچے گا مگر جس صورت میں ان پوتیوں کے ساتھ کوئی پوتا بھی ہو خواہ انہی کے ہمرتبہ ہو یا ان سے بھی زیادہ دور ہو۔ (مثلا پوتے کا بیٹا یا پوتا ہو) تو بعد بیٹیوں کے حصے دینے کے اور باقی ذوی الفروض کے جو کچھ بچ رہے گا اس کو للذکور مثل حظ الانثییین کے بانٹ لیں گے اور اس پوتے کے ساتھ وہ پوتیاں جو اس سے زیادہ میت کے (رشتہ وتر کہ میں) قریب ہیں یا اس کے برابر ہیں وارث ہوں گی جو اس سے بھی زیادہ پوتیاں دور ہیں وہ وارث نہ ہوں گی۔ اور جو کچھ نہ بچے گا تو پوتیوں اور پوتے کو کچھ نہ ملے گا۔ اگر میت کی صرف ایک بیٹا ہو تو اس کو آدھا مال ملے گا اور پوتیوں کو جتنی ہوں چھٹا حصہ ملے گا۔ اگر ان پوتیوں کے ساتھ کوئی پوتا بھی ہو تو اس صورت میں ذوی الفورض کے حصے ادا کردیں گے اور جو بچ رہے گا وہ للذکر مثل حظ الانثیین پوتا اور پوتیاں تقسیم کرلیں گی اور یہ پوتا ان پوتیوں کو حصہ دلادے گا جو اس کے ہمرتبہ ہوں یا اس سے زیادہ قریب ہوں مگر جو اس سے بعید ہوں گی وہ محروم ہوں گی اگر ذوی الفروض سے کچھ نہ بچے تو ان پوتے پوتیوں کو کچھ نہ ملے گا کیونکہ اللہ جل جلالہ اپنی کتاب میں ارشاد فرماتے ہیں کہ وصیت کرتا ہے تم کو اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد میں مرد کو دوہرا حصہ اور عورت کو ایک اگر سب بیٹیاں ہوں دو سے زیادہ تو ان کو دوتہائی مال ملے گا اگر ایک بیٹی ہو تو اس کو نصف ملے گا۔
خاوند اور بیوی کی میراث کا بیان
کہا مالک نے جب میت کا لڑکا لڑکی یا پوتاپوتی نہ ہو تو اس کے خاوند کو آدھا مال ملے گا اگر میت کی اولاد ہے یا میت کے بیٹے کی اولاد ہے مرد ہو یا عورت تو خاوند کو ربع (چوتھائی) حصہ ملے گا بعد ادا کرنے وصیت اور دین (قرض کے اور خاوند جب مرجائے اور اولاد نہ ہو اور اس کے بیٹے کی اولاد ہو تو اس کی بی بی کو ربع (چوتھائی) حصہ ملے گا۔ اگر اولاد ہو یا بیٹے کی اولاد ہو مرد ہو یا عورت تو بیوی کو ثمن (آٹھواں حصہ اور وصیت اور دین (قرض ادا کرنے کے کیونکہ اللہ جل جلالہ ارشاد فرماتا ہے تمہارے واسطے آدھا ترکہ ہے تمہاری بیویوں کا اگر ان کی اولاد نہ ہو اور اگر ان کی اولاد ہو تو تم کو ربع (چوتھائی) ملے گا بعد وصیت اور دین کے اور عورتوں کو تمہارے ترکہ سے ربع (چوتھائی ملے گا اگر تمہاری اولاد نہ ہو اور اگر اولاد ہو تو ان کو ثمن (آٹھواں ملے گا بعد وصیت اور دین (قرض) ادا کرنے) کے۔
ماں باپ کی میراث کا بیان
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ میت اگر بیٹا یا پوچا چھوڑ جائے تو اس کے باپ کو چھٹا حصہ ملے گا۔ اگر میت کا بیٹا یا پوتا نہ ہو تو جتنے ذوی الفروض اور ہوں ان کا حصہ دے کر جو بچ رہے گا سدس (چھٹا) ہو یا سدس سے زیادہ وہ باپ کو ملے گا۔ اگر ذوی الفروض کے حصے ادا کرے سدس نہ بچے تو باپ کو سدس فرض کے طور پر دلا دیں گے۔ میت کی ماں کو جب میت کی اولاد یا اس کے بیٹے کی اولاد یا دو یا زیادہ بھائی بہنیں سگے یا سوتیلے یا مادری ہوں تو چھٹا حصہ ملے گا۔ ورنہ پورا ثلث مال ملے گا جب میت کی اولاد نہ ہو اس کے بیٹے کی اولاد ہو نہ اس کے دو بھاڑی یا دو بہنیں ہو مگر دو مسئلوں میں ایک یہ کہ میت زوجہ اور ماں باپ چھوڑ جائے تو زوجہ کو ربع ملے گا اور ماں کو جو بچ رہا اس کا ثلث یعنی کل مال کا ربع ملے گا دوسرا یہ کہ ایک عورت مرجائے اور خاوند اور ماں باپ کو چھوڑ جائے تو خاوند کو نصف ملے گا بعد اس کے جو بچ رہے گا اس کا ثلث ماں کو ملے گا یعنی کل مال کا سدس کیونکہ اللہ جل جلالہ فرماتا ہے اپنی کتاب میں کہ " میت کے ماں باپ میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا ترکے میں اگر میت کی اولاد ہو اگر اس کی اولاد نہ ہو اور ماں باپ وارث ہوں تو ماں کو تہائی حصہ ملے گا اور باقی باپ کو اور اگر میت کے بھائی ہوں یا بہنیں تو ماں کو چھٹا حصہ ملے گا "
اخیافی بھائی یا بہنوں کی میراث کا بیان
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ اخیافی بھائی اور اخیافی بہنیں جب کہ میت کی اولاد ہو یا اس کے بیٹے کی اولاد ہو یعنی پوتے یا پوتیاں یا میت کا باپ یا دادا موجود ہو تو ترکے سے محروم رہیں گے البتہ اگر یہ لوگ نہ ہوں تو ترکہ پائیں گے اگر ایک بھائی اخیافی یا ایک بہن اخیافی ہو تو اس کو چھٹا حصہ ملے گا اگر دو ہوں تو ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا اگر دو سے زیادہ ہوں تو ثلث (تہائی) مال میں سب شریک ہوں گے برابر برابر بانٹ لیں گے بہن بھی بھائی کے برابر لے گی کیونکہ اللہ جل جلالہ فرماتا ہے کہ اگر کوئی شخص مرجائے جو کلالہ ہو یا کوئی عورت مرجائے کلالہ ہو کر اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن (اخیافی جیسے سعد بن ابی وقاص کی قرأت میں ہے) ہو تو ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا اگر اس سے زیادہ ہوں (یعنی ایک بھائی اور ایک بہن یا دو بہنیں دو بھائی یا اس سے زیادہ ہوں) تو وہ سب ثلث (تہائی) میں شریک ہوں گے (یعنی مرد اور عورت سب برابرپائیں گے۔
سگے بھائی بہن کی میراث کا بیان
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ سگے بھائی بہن بیٹے یا پوتے کے ہوتے ہوئے یا باپ کے ہوتے ہوئے کچھ نہ پائیں گے بلکہ سگے بھائی بہن بیٹیوں یا پوتیوں کے ساتھ وارث ہوتے ہیں۔ جب میت کا دادا یعنی باپ کا باپ زندہ نہ ہو تو جس قدر مال بعد ذوی الفروض کے حصہ دینے کے بچ رہے گا وہ سگے بہن بھائیوں کا ہوگا بانٹ لیں گے اس کو اللہ کی کتاب کے موافق للذکر مثل حظ الانثیین کے طور پر اور اگر کچھ نہ بچے گا تو کچھ نہ پائیں گے۔ کہا مالک نے اگر میت کا باپ اور دادا یعنی باپ کا باپ نہ ہو نہ اس کا بیٹاہو نہ پوتا ہو نہ بیٹے نہ پوتے صرف ایک بہن ہو سگی تو اس کو آدھا مال ملے گا اگر دوسگی بہنیں ہوں یا زیادہ تو دو ثلث (دوتہائی) ملیں گے اگر ان بہنوں کے ساتھ کوئی بھائی بھی ہو تو بہنوں کو کوئی معین حصہ نہ ملے گا۔ بلکہ اور ذوی الفروض کا فرض ادا کر کے جو بچ رہے گا وہ للذکر مثل حظ الانثیین کے طور پر بھائی بہن بانٹ لیں گے مگر ایک مسئلہ میں سگے بھائی یا بہنوں کے لئے کچھ نہیں بچتا تو وہ اخیافی بھائی بہنوں کے شریک ہوجائیں گے۔ صورت اس مسئلے کی یہ ہے ایک عورت مرجائے اور خاوند اور ماں اور سگے بھائی بہنیں اور اخیافی بھائی بہنیں چھوڑ جائے تو خاوند کو نصف اور ماں کو سدس (چھٹا) اور اخیافی بھائی بہنوں کو ثلث ملے گا اب سگے بہن بھائیوں کے واسطے کچھ نہ بچا تو ثلث (تہائی) میں وہ اخیافی بھائی بہنوں کے شریک ہوجائیں گے مگر مرد اور عورت سب کو برابر پہنچے گا اس واسطے کہ سب بھائی بہن مادری ہیں کیونکہ ماں سب کی ایک ہے۔ کیونکہ اللہ جل جلالہ، فرماتا ہے کہ اگر کوئی شخص کلالہ مرے اس کا بھائی ہو یا بہن تو ہر ایک کو سدس ملے گا اگر زیادہ ہوں تو سب شریک ہوں گے ثلث (تہائی) میں۔ پس حقیقی بہن بھائی بھی اخیافی بہن بھائیوں کے ساتھ شریک ہوگئے ثلث (تہائی) میں اس مسئلے میں اس لئے کہ وہ بھی مادری بھائی ہیں۔
سوتیلے یعنی علاتی بھائی بہنوں کی میراث کا بیان جس کا باپ ایک ہو اور ماں جدا جدا
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ جب سگے بھائی بہنیں نہ ہوں تو سوتیلے بھائی بہنیں ان کی مثل ہوں گے ان کا مرد ان کے مرد کے برابر ہے اور ان کی عورت ان کی عورت کے برابر ہے۔ (تو اگر میت کا صرف ایک سوتیلا بھائی ہو تو کل مال لے لے گا اگر صرف ایک سوتیلی بہن ہو تو نصف لے گی اگر دو یا تین سوتیلی بہنیں ہوں تو دو ثلث لیں گی اگر سوتیلے بھائی اور بہن بھی ہوں تو للذکرمثل حظ الانثیین کے طور پر تقسیم ہوگا) مگر سگے بھائی بہنوں میں یہ فرق ہے کہ سوتیلے بھائی بہن اخیافی بھائی بہنوں کے اس مسئلے میں شریک نہ ہوں گے جو ابھی بیان ہوا کیونکہ ان کی ماں جدا ہے۔ اگر سگی بہنیں اور سوتیلی بہنیں جمع ہوں اور سگی بہنوں کے ساتھ کوئی سگا بھائی بھی ہو تو سوتیلی بہنوں کو کچھ نہیں ملے گا اگر سگا بھائی نہ ہو بلکہ ایک سگی بہن ہو اور باقی سوتیلی بہنیں تو سگی بہن کو نصف ملے گا اور سوتیلی بہنوں کو سدس (چھٹا) ثلثین (دوثلث) کے پورا کرنے کے واسطے اگر سوتیلی بہنوں کے ساتھ کوئی سوتیلا بھائی بھی ہو تو ان کا کوئی حصہ معین نہ ہوگا بلکہ ذوی الفروض کو دے کر جو بچ رہے گا اس کو سوتیلے بھائی بہن للذکر مثل الانثیین کے طور پر بانٹ لیں گے اور اگر کچھ نہ بچے گا تو کچھ نہ لیں گے اگر سگی بہنیں دو ہوں یا زیادہ تو دو ثلث ان کو ملیں گے اور سوتیلی بہنوں کو کچھ نہ ملے گا مگر جب سوتیلی بہنوں کے ساتھ کوئی سوتیلا بھائی بھی ہو تو ذوی الفروض کا حصہ ادا کرکے جو کچھ بچے گا اس کو للذکرین مثل حظ الانثیین کے طور پر بانٹ لیں گے۔ اگر کچھ نہ بچے گا تو کچھ نہ ملے گا۔ اخیافی بھائی بہنوں کو خواہ سگے بھائی بہنوں کے ساتھ ہوں یا سوتیلے بھائی بہنوں کے ایک کو سدس (چھٹا) ملے گا اور دو کو ثلث مرد اور عورت ان کے سب برابر ہیں۔ جیسے اوپر گزر چکا ہے۔
دادا کی میراث کا بیان
معاویہ بن ابی سفیان نے لکھا زید بن ثابت کو اور پوچھا دادا کی میراث کے متعلق زید بن ثابت نے جواب لکھا کہ تم نے مجھ سے پوچھا دادا کی میراث کے متعلق اور یہ وہ مسئلہ ہے جس میں خلفاء حکم کرتے تھے میں حاضر تھا تم سے پہلے دو خلیفاؤں کے سامنے تو ایک بھائی کے ساتھ وہ دادا کو نصف دلاتے تھے اور دو بھائیوں کے ساتھ ثلث اگر بہت بھائی بہن ہوتے تب بھی دادا کو ثلث سے کم نہ دلاتے۔
دادا کی میراث کا بیان
حضرت عمر (رض) بن خطاب نے دادا کو اتنا دلایا جتنا کہ آج کل لوگ دلاتے ہیں۔
دادا کی میراث کا بیان
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) اور حضرت عثمان بن عفان اور زید بن ثابت نے دادا کے واسطے بھائی بہنوں کے ساتھ ایک ثلث دلایا۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ دادا باپ کے ہوتے ہوئے محروم ہو لیکن بیٹے اور پوتے کے ساتھ دادا کو چھٹا حصہ بطور فرض کے ملتا ہے اگر بیٹا یا پوتا نہ ہو نہ سگا بھائی بہن ہو نہ سوتیلا بہن بھائی مگر اور ذوی الفروض ہوں تو ان کا حصہ دے کر اگر چھٹا حصہ بچ رہے گا یا اس سے زیادہ تو دادا کو مل جائے گا اگر اتنا نہ بچے تو دادا کا چھٹا حصہ بطور فرض کے مقرر ہوگا۔ کہا مالک نے اگر دادا اور اس کے بھائی بہنوں کے ساتھ کوئی ذوی الفورض سے بھی ہو تو پہلے ذوی الفروض کو ان کا فرض دیں گے بعد اس کے جو بچے گا اس میں سے کئی صورتوں میں سے جو دادا کے لئے بہتر ہوگی کریں گے وہ صورتیں یہ ہیں ایک تو یہ کہ جس قدر مال بچا ہے اس کا ثلث داداکودے دیا جائے۔ دوسرے یہ کہ دادا بھی مثل بھائیوں کے ایک بھائی سمجھا جائے۔ اور جس قدر حصہ ایک بھائی کا ہو اسی قدر اس کو بھی ملے۔ تیسرے یہ کہ کل مال کا سدس (چھٹا حصہ) اس کو دے دیا جائے گا ان صورتوں میں جو صورت اس کے لئے بہتر ہوگی وہ کریں گے بعد اس کے دادا کودے کر جس قدر مال بچے گا وہ بھائی بہن للذکرمثل حظ الانثیین کے طور پر تقسیم کرلیں گے مگر ایک مسئلے میں تقسیم اور طور سے ہوگی (اس کو مسئلہ اکدریہ کہتے ہیں) وہ یہ ہے ایک عورت مرجائے اور خاوند اور ماں اور سگی بہن اور دادا کو چھوڑ جائے تو خاوند کو نصف اور ماں کو ثلث اور دادا کو سدس (چھٹا) اور سگی بہن کو نصف ملے گا۔ پھر دادا کو سدس (چھٹا) اور بہن کا نصف ملا کر اس کے تین حصے کریں گے دو حصے دادا کو ملیں گے اور ایک حصہ بہن کو۔ کہا مالک نے اگر دادا کے ساتھ سوتیلے بھائی ہوں تو ان کا حکم وہی ہوگا جو سگے بھائیوں کا ہے اور جب سگے بھائی بہن بھی ہوں اور سوتیلے بہن بھائی بھی ہوں تو سوتیلے صرف بھائیوں کی گنتی میں شریک ہو کر دادا کے حصے کو کم کردیں گے مگر کچھ نہ پائیں گے۔ مگر جس صورت میں سگے بھائی بہنوں کے ساتھ اخیافی یعنی مادری بھائی ہوں تو وہ بھائیوں کی گنتی میں شریک ہو کر دادا کے حصے کو کم نہ کریں گے کیونکہ اخیافی بھائی بہن دادا کے ہوتے ہوئے محروم ہیں۔ اگر دادا ہوتا اور صرف اخیافی بھائی بہن ہوتے تو کل مال دادا کو ملتا اور اخیافی بھائی بہن محروم ہوجاتے خیراب جس صورت میں دادا کے ساتھ سگے بھائی بہن اور علاقی یعنی سوتیلے بھائی بہن بھی ہوں تو جو مال بعد دادا کے حصے دینے کے بچے گا وہ سب سگے بھائی بہنوں کو ملے گا۔ اور سوتیلوں کو کچھ نہ ملے گا مگر جب سگوں میں صرف ایک بہن ہو اور باقی سب سوتیلے بھائی اور بہن ہوں تو سوتیلے بھائی اور بہنوں کے سبب سے وہ سگی بہن دادا کا حصہ کم کردی گئی پھر اپناپورا حصہ یعنی نصف لے لے گی اگر اس پر بھی کچھ بچ رہے گا تو سوتیلے بھائی اور بہن کو مثل حظ الانثیین کے طور پر تقسیم ہوگا اور اگر کچھ نہ بچے گا تو سوتیلے بھائی اور بہنوں کو کچھ نہ ملے گا۔
نانی اور دادی کی میراث کا بیان
قبیصہ بن ذویب سے روایت ہے کہ میت کی نانی ابوبکر صدیق (رض) کے پاس میراث مانگنے آئی ابوبکر (رض) نے کہا اللہ کی کتاب میں تیرا کچھ حصہ مقرر نہیں ہے اور نہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس باب میں کوئی حدیث سنی ہے تو واپس جا۔ میں نے لوگوں سے پوچھا تو مغیرہ بن شعبہ نے کہا کہ میں اس وقت موجود تھا میرے سامنے رسول اللہ ﷺ نے نانی کو چھٹا حصہ دلایا ہے ابوبکر (رض) نے کہا کوئی اور بھی تمہارے ساتھ ہے تو محمد بن مسلمہ انصاری کھڑے ہوئے اور جیسا مغیرہ بن شعبہ نے کہا تھا ویسا ہی بیان کیا ابوبکر نے چھٹا حصہ اس کو دلا دیا پھر حضرت عمر (رض) کے وقت میں ایک دادی میراث مانگنے آئی حضرت عمر (رض) نے کہا اللہ کی کتاب میں تیرا کچھ حصہ مذکور نہیں اور پہلے جو حکم ہوچکا ہے وہ نانی کے بارے میں ہوا تھا اور میں اپنی طرف سے فرائض میں کچھ بڑھا نہیں سکتا لیکن وہی چھٹا حصہ تو بھی لے اگر نانی بھی ہو تو دونوں سدس کا بانٹ لو اور جو تم دونوں میں سے ایک اکیلی ہو وہی چھٹا حصہ لے لے۔
نانی اور دادی کی میراث کا بیان
قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ نانی اور دادی دونوں آئیں حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے پاس، ابوبکر صدیق نے سدس یعنی چھٹا حصہ نانی کو دینا چاہا ایک شخص انصاری بولا اے ابوبکر تم اس کو نہیں دلاتے جو اگر مرجاتی اور میت زندہ ہوتا یعنی پوتا اور وارث ہوتا اور اس کو دلاتے ہو جو اگر مرجاتی اور میت زندہ ہوتا یعنی اس کا نواسہ تو وارث نہ ہوتا پھر ابوبکر صدیق (رض) نے یہ سن کر سدس ان دونوں کو دلایا۔
نانی اور دادی کی میراث کا بیان
ابوبکر بن عبدالرحمن حصہ نہیں دلاتے تھے مگر نانی کو یا دادی کو۔
نانی اور دادی کی میراث کا بیان
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے جس میں کچھ اختلاف نہیں ہے کہ نانی ماں کے ہوتے ہوئے کچھ نہ پائے گی البتہ اگر ماں نہ ہو تو اس کو چھٹا حصہ ملے گا اور دادی ماں کے یا باپ کے ہوتے ہوئے کچھ نہ پائے گی جب ماں باپ نہ ہوں تو اس کو چھٹا حصہ ملے گا اگر نانی اور دادی دونوں ہوں اور میت کے ماں باپ جو نانی دادی سے زیادہ قریب ہیں نہ ہوں تو ان میں سے نانی اگر میت کے ساتھ زیادہ قریب ہوگی تو اسی کو سدس (چھٹا حصہ) ملے گا۔ اور جو دادی زیادہ قریب ہوگی یا دونوں برابر ہوں تو سدس میں دونوں شریک ہوں گے۔ کہا مالک نے میراث کسی کے واسطے نہیں ہے دادیوں اور نانیوں میں سے مگر ماں کی ماں کو اگرچہ کتنی ہی دور ہوجائے۔ ان کے سوا اور نانیوں دادیوں کو میراث (دینا مقرر) نہیں ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ترکہ دلایا نانی کو پھر ابوبکر نے بھی اس کا پوچھا جب ان کو بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے نانی کو ترکہ دلایا انہوں نے دلایا بعد اس کے دادی حضرت عمر کے وقت میں آئی آپ نے فرمایا میں فرائض کو بڑھا نہیں سکتا لیکن اگر تو بھی ہو اور نانی بھی ہو تو دونوں سدس (چھٹا) کو بانٹ لیں اور جو کوئی تم میں سے تنہا ہو تو وہ پورا سدس (چھٹا) لے لے۔
کلالہ کی میراث کا بیان
زید بن اسلم سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کلالے کے متعلق آپ ﷺ نے فرمایا کافی ہے تجھ کو وہ آیت جو گرمی میں اتری ہے سورت نساء کے آخر میں۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک اس امر میں کچھ اختلاف نہیں ہے کہ کلالہ دو قسم کا ہے ایک تو وہ آیت جو سورت نساء کے شروع میں ہے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اگر ایک شخص مرجائے کلالہ یا کوئی عورت مرجائے کلالہ اور اس کا ایک بھائی یا بہن ہو (اخیافی) تو ہر ایک کو سدس ملے گا اگر زیادہ ہوں تو سب شریک ہوں گے ثلث میں یہ وہ کلالہ ہے جس کا نہ باپ ہو نہ اس کی اولاد ہو کیونکہ اس وقت تک اخیافی بھائی بہن وارث نہیں ہوتے تھے۔ دوسری وہ آیت جو سورت نساء کے آخر میں ہے فرمایا اللہ تعالیٰ نے پوچھتے ہیں تجھ سے کلالے (کی میراث) کے متعلق کہہ دے تو اللہ تم کو حکم دیتا ہے کلالے میں اگر کوئی شخص مرجائے اس کی اولاد نہ ہو اگر دو یا ایک بہن ہو تو اس کو آدھا متروکہ ملے گا اگر بہن مرجائے تو وہ بھائی اس کے کل ترکے کا وارث ہوتا ہے جبکہ اس بہن کی اولاد نہ ہو اگر دو بہنیں ہوں تو ان کو دو ثلث ملیں گے اگر بھائی بہن ملے جلے ہوں تو مرد کو دوہرا حصہ اور عورت کو ایک حصہ ملے گا اللہ تم سے بیان کرتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہوجاؤ اللہ ہر چیز کو جانتا ہے۔ یہ وہ کلالہ ہے جس میں بھائی بہن عصبہ ہوجاتے ہیں جب میت کا بیٹا نہ ہو تو وہ دادا کے سات وارث ہوں گے کلالے میں۔ کہا مالک نے دادا بھائیوں کے ساتھ وارث ہوگا اس لئے کہ وہ ان سے اولیٰ ہے کیونکہ دادا بیٹے کے ساتھ بھی سدس (چھٹا) کا وارث ہوتا ہے برخلاف بھائی اور بہنوں کے اور کیونکہ دادا بھائی کے برابر نہ ہوگا وہ میت کے بیٹے کے ہوتے ہوئے بھی ایک سدس لیتا ہے تو بھائی بہنوں کے ساتھ ثلث کیوں نہ ملے گا اس لئے کہ اخیافی بھائی بہن سگے بھائی بہنوں کے ساتھ ثلث لیتے ہیں اگر دادا بھی موجود ہو تو وہ اخیافی بھائی بہنوں کو محروم کردے گا پھر وہ ثلث اپنے آپ لے لے گا کیونکہ اسی نے ان کو محروم کیا ہے اگر وہ نہ ہو تو اس ثلث کو اخیافی بھائی بہن لیتے تو دادا نے وہ مال لیا جو سگے یا سوتیلے بھائی بہنوں کو نہیں مل سکتا تھا بلکہ اخیافی بھائی بہنوں کا حق تھا اور دادا ان سے اولیٰ تھا اس واسطے اس نے لے لیا اور اخیافی بھائی بہن کو محروم کیا۔
پھوپھی کی میراث کا بیان
ایک مولیٰ سے قریش کے روایت ہے کہ جس کو ابن موسیٰ کہتے تھے کہا کہ میں بیٹھا تھا عمر بن خطاب کے پاس انہوں نے ظہر کی نماز پڑھ کر یرفا (حضرت عمر کے غلام) سے کہا میری کتاب لے آنا وہ کتاب جو انہوں نے لکھی تھی پھوپھی کی میراث کے بارے، میں نے اپنی رائے سے پھوپھی کے واسطے میراث تجویز کی تھی اس قیاس سے کہ پھوپھی کا وارث بھتیجا ہوتا ہے وہ بھی اس کی وارث ہوگی انہوں نے کتاب منگوائی کہ ہم لوگوں سے پوچھیں اور مشورہ لیں پھر حضرت عمر (رض) نے ایک کڑا ہی یا پیالہ منگایا جس میں پانی تھا اور اس کتاب کو دھو ڈلا اور فرمایا اگر پھوپھی کو حصہ دلانا اللہ کو منظور ہوتا تو اپنی کتاب میں ذکر فرماتا۔
پھوپھی کی میراث کا بیان
حضرت عمر (رض) فرمایا کرتے تھے کہ تعجب کی بات ہے کہ پھوپھی کا بھتیجا وارث ہوتا ہے لیکن بھتیجے کی پھوپھی وارث نہیں ہوتی۔
عصبات کی میراث کا بیان
کہا مالک نے ہمارے نزدیک اس امر میں کچھ اختلاف نہیں ہے اور ہم نے اپنے شہر والوں کو اسی پر پایا کہ سگا بھائی مقدم ہے سوتیلے بھائی کا بیٹا مقدم ہے سگے بھائی کے پوتے اور سوتیلے بھائی کا بیٹا مقدم ہے سگے چچا پر اور سگا چچا مقدم ہے سوتیلے چچا پر (جو باپ کا سوتیلا بھائی ہو) اور سوتیلا چچاسگے چچا کے بیٹوں پر مقدم ہے اور سوتیلے چچا کے بیٹے باپ کے چچا پر مقدم ہیں (جو دادا کا سگا بھائی ہو) کہا مالک نے دادا بھتیجوں سے مقدم ہے اور چچا سے بھی مقدم ہے اور بھتیجاسگے بھائی کا بیٹاولاء لینے میں دادا سے مقدم ہے۔
جس کو میراث نہیں ملتی
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ اخیافی بھائی کا بیٹا اور نانا اور باپ کا اخیافی بھائی اور ماموں اور نانا کی ماں اور سگے بھائی کے بیٹے اور پھو بھی اور خالہ وارث نہ ہوں گے۔ کہا مالک نے جو عورت دور کے رشتے کی ہو ان عورتوں میں سے وہ وارث نہ ہوگی اور عورتوں میں کوئی وارث نہیں مگر جن کو اللہ جل جلالہ نے بیان کردیا ہے اپنی کتاب میں وہ ماں ہے اور بیٹی اور بیوی اور بہن سگی اور سوتیلی اور بہن اخیافی اور نانی دادی کی میراث حدیث سے ثابت ہے اسی طرح عورت اپنے اس غلام کی وارث ہوگی جس کو وہ آزاد کرے۔
ملت اور مذہب کا اختلاف ہو تو میراث نہیں ہے۔
اسامہ بن زید سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا۔
ملت اور مذہب کا اختلاف ہو تو میراث نہیں ہے۔
علی بن حسین سے روایت ہے انہوں نے کہا جب ابوطالب مرگئے تو ان کے وارث عقیل اور طالب ہوئے اور علی ان کے وارث نہیں ہوئے علی بن حسین نے کہا اسی واسطے ہم نے اپنا حصہ مکہ میں گھروں میں سے چھوڑ دیا۔
ملت اور مذہب کا اختلاف ہو تو میراث نہیں ہے۔
محمد بن اشعث کی ایک پھوپھی یہودی تھی یا نصرانی مرگئی محمد بن اشعث نے حضرت عمر (رض) سے بیان کیا اور پوچھا کہ اس کا کون وارث ہوگا عمر بن خطاب (رض) نے کہا اس کے مذہب والے وارث ہوں گے پھر عثمان (رض) بن عفان جب خلیفہ ہوئے تو ان سے پوچھا عثمان نے کہا کیا تو سمجھتا ہے کہ عمر نے جو تجھ سے کہا تھا اس کو میں بھول گیا وہی اس کے وارث ہوں گے جو اس کے مذہب والے ہیں۔
ملت اور مذہب کا اختلاف ہو تو میراث نہیں ہے۔
اسمعیل بن ابی حکیم سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز کا ایک غلام نصرانی تھا اس کو انہوں نے آزاد کردیا وہ مرگیا تو عمر بن عبدالعزیز نے مجھ سے کہا کہ اس کا مال بیت المال میں داخل کردو۔ سعید بن مسیب کہتے تھے کہ عمر بن خطاب نے انکار کیا غیر ملک کے لوگوں کی میراث دلانے کا اپنے ملک والوں کی مگر جو عرب میں پیدا ہوا ہو۔ کہا مالک نے اگر ایک عورت حاملہ کفار کے ملک میں سے آ کر عرب میں رہے اور وہاں (بچہ) جنے تو وہ اپنے لڑکے کی وارث ہوگی اور لڑکا اس کا وارث ہوگا۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اجماعی ہے اور اس میں کچھ اختلاف نہیں ہے کہ مسلمان کافر کا کسی رشتہ کی وجہ سے وارث نہیں ہوسکتا خواہ وہ رشتہ نانے کا ہو یا ولاء کا یا قرابت کا اور نہ کسی کو اس کی وارثت سے محروم کرسکتا ہے۔ کہا مالک نے اسی طرح جو شخص میراث نہ پائے وہ دوسرے کو محروم نہیں کرسکتا۔
جن کی موت کا وقت معلوم نہ ہو مثلا لڑائی میں کئی آدمی مارے جائیں ان کا بیان
ربیعہ بن ابی عبدالرحمن اور بہت سے علماء سے روایت ہے کہ جتنے لوگ قتل ہوئے جنگ جمل اور جنگ صفین اور یوم الحرہ میں اور جو یوم القدید میں مارے گئے وہ آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوئے مگر جس شخص کا حال معلوم ہوگیا کہ وہ اپنے وارث سے پہلے مارا گیا۔ کہا مالک نے یہی حکم ہے اگر کوئی آدمی ڈوب جائے یا مکان سے گر کر مارے جائیں یا قتل کئے جائیں جب معلوم نہ ہوسکے کہ پہلے کون مرا اور بعد میں کون مرا تو آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں گے بلکہ ہر ایک کا ترکہ اس کے وارثوں کو جو زندہ ہوں پہنچے گا۔ کہا مالک نے کوئی کسی کا وارث شک سے نہ ہوگا بلکہ علم و یقین سے وارث ہوگا مثلا ایک شخص مرجائے اور اس کے باپ کا مولیٰ (غلام آزاد کیا ہوا) مرجائے اب اس کے بیٹے یہ کہیں اس مولیٰ کا وارث ہمارا باپ تھا تو یہ نہیں ہوسکتا جب تک کہ علم و یقین یا گواہوں سے یہ ثابت نہ ہو کہ پہلے مولیٰ مرا تھا۔ اس وقت تک مولیٰ کے وارث جو زندہ ہوں اس ترکہ کو پائیں گے۔ کہا مالک نے اسی طرح اگر سگے دو بھائی مرجائیں ایک کی اولاد ہو اور دوسرا لاولد ہو ان دونوں کا ایک سوتیلا بھائی بھی ہو پھر معلوم نہ ہوسکے کہ پہلے کون سا بھائی مرا ہے تو جو بھائی لاولد مرا ہے اس کا ترکہ اس کے سوتیلے بھائی کو ملے گا اس کے بھتیجوں کو نہ ملے گا۔
لعان والی عورت کے بچے اور ولد الزنا کی میراث کا بیان
عروہ بن زبیر کہتے تھے کہ لعان والی عورت کا لڑکا یا زنا کا لڑکا جب مرجائے تو اس کی ماں کتاب اللہ کے موافق اپنا حصہ لے گی اور جو اس کے مادری بھائی ہیں وہ اپنا حصہ لیں گے باقی اس کی ماں کے موالی کو ملے گا اگر وہ آزاد کی ہوئی ہو اور اگر عربیہ ہو تو بعد ماں اور بھائی بہنوں کے حصے کے جو بچے گا وہ مسلمانوں کا حق ہوگا۔ کہا مالک نے سلیمان بن یسار سے بھی مجھے ایسا ہی پہنچا اور ہمارے شہر کے اہل علم کی یہی رائے ہے۔