44. کتاب چوری کے بیان میں
جس چوری میں ہاتھ کاٹا جاتا ہے اس کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہاتھ کاٹا ایک ڈھال کی چوری میں جس کی قیمت تین درہم تھی
جس چوری میں ہاتھ کاٹا جاتا ہے اس کا بیان
عبداللہ بن عبدالرحمن مکی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو میوہ درخت پر لٹکتا ہو یا جو بکری پہاڑ پر پھرتی ہو اس کے اٹھا لینے میں ہاتھ نہ کاٹا جائے گا مگر جب وہ بکری اپنے گھر میں آجائے یا میوہ کاٹ کر کھانے کو کہیں رکھا جائے پھر اس کو کوئی چرائے تو ہاتھ کاٹا جائے گا بشرطیکہ قیمت اس کی ڈھال کے برابر ہو۔
جس چوری میں ہاتھ کاٹا جاتا ہے اس کا بیان
حضرت عمرہ بنت عبدالرحمن (رض) روایت ہے کہ ایک شخص نے حضرت عثمان (رض) کے زمانے میں ترنج چرایا حضرت عثمان نے اس کی قیمت لگوائی وہ تین درہم کا نکلا بارہ درہم فی دینار کے حساب سے تو حضرت عثمان نے اس کا ہاتھ کاٹا۔
جس چوری میں ہاتھ کاٹا جاتا ہے اس کا بیان
حضرت ام المومنین عائشہ (رض) نے فرمایا کہ ابھی کچھ زیادہ زمانہ نہیں ہوا اور نہ میں بھولی ہوں کہ چور کا ہاتھ ربع دینا میں یا زیادہ میں کاٹا جائے گا۔
جس چوری میں ہاتھ کاٹا جاتا ہے اس کا بیان
عمرہ بنت عبدالرحمن (رض) روایت ہے کہ حضرت ام المومنین عائشہ (رض) مکہ کو گئیں ان کے ساتھ دو لونڈیاں تھیں ان کی آزاد کی ہوئیں اور ایک غلام تھا عبداللہ بن ابی بکر کی اولاد کا حضرت عائشہ (رض) نے مکہ سے ان دو لونڈیوں کے ہاتھ ایک چادر بھیجی جس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں مردوں کی۔ ایک سبز کپڑے میں لپیٹ کر سی دیا تھا اس غلام نے کیا کیا کپڑے کی سیون ادھیڑ کر اس میں سے چادر نکال لی اور اس کی جگہ ایک تھیلا پوستین رکھ دی اور پھر سی دیا جب وہ لونڈیاں مدینہ کو آئیں اور وہ امانت جن کو حضرت عائشہ نے کہا تھا کہ سپرد کی انہوں نے اڈھیر کر دیکھا تو نمدہ ہے چادر نہیں ہے لونڈیوں سے پوچھا لونڈیوں نے حضرت عائشہ (رض) بیان کیا یا ان کو لکھ بھیجا اور اپنا گمان غلام پر ظاہر کیا جب غلام سے پوچھا گیا تو اس نے اقرار کیا حضرت عائشہ نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم کیا اس کا ہاتھ کاٹا گیا حضرت عائشہ نے فرمایا ربع دینار یا زیادہ میں ہاتھ کاٹا جاتا ہے۔
جو غلام بھاگ جائے پھر چوری کرے اس کے ہاتھ کاٹنے کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ ایک غلام عبداللہ بن عمر کا بھاگا ہوا تھا اس نے چوری کی عبداللہ بن عمر نے اس غلام کو سعید بن العاص کے پاس بھیجا جو حاکم تھے مدینہ کے ہاتھ کاٹنے کو، سعید بن عاص نے نہ مانا اور کہا جب کوئی بھاگ جائے تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جاتا عبداللہ بن عمر نے کہا کہ تو نے یہ حکم کس کتاب اللہ میں پایا، پھر عمد اللہ بن عمر نے حکم کیا اس کا ہاتھ کاٹا گیا۔
جو غلام بھاگ جائے پھر چوری کرے اس کے ہاتھ کاٹنے کا بیان
زر یق بن حکیم نے ایک بھاگے ہوئے غلام کو گر فتار کیا جس نے چوری کی تھی پھر ان کو یہ مسئلہ مشکل معلوم ہوا انہوں نے عمر بن عبدالعزیز کو لکھا وہ اس زمانے میں امیرالمو منین تھے اور یہ بھی لکھا کہ میں سنتا تھا جو غلام بھاگ جائے پھر وہ چوری کرے تو اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے عمر بن عبد العز یز نے جواب میں لکھا اور میری تحریر کا حوالہ دیا اور کہا کہ تو نے لکھا ہے کہ تو سنتا تھا جو غلام بھاگا ہوا ہو وہ چوری کرے تو اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے گا حالانکہ اللہ نے فرمایا ہے کہ جو مرد چوری کرے یا عورت چوری کرے تو ان کے ہاتھ کاٹو یہ بدلہ ہے ان کے کام کا اور عذاب ہے اللہ کی طرف سے اللہ غالب ہے حکمت والا پس اگر اس غلام نے ربع دینار کے موافق یا اس سے زیادہ چوری کی ہو اس کا ہاتھ کاٹ ڈال۔ قاسم بن محمد اور سالم بن عبداللہ اور عروہ بن الزبیر کہتے تھے بھاگا ہوا غلام جب اس قدر چرائے جس میں ہاتھ کاٹنا واجب ہوتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک اس میں کچھ اختلاف نہیں ہے۔
جب چور حاکم تک پہنچ جائے پھر اسکی سفارش نہیں کرنی چاہیے۔
صفوان بن عبداللہ بن صفوان سے روایت ہے کہ صفوان بن امیہ سے کسی نے کہا کہ جس نے ہجرت نہیں کی تو وہ تباہ ہوا تو صفوان مدینہ میں آئے اور مسجد نبوی میں اپنی چادر سر کے تلے رکھ کر سو رہے چور آیا اور چادر ان کی لے گیا صفوان نے اٹھ کر چور کو گرفتار کیا اور رسول اللہ کے پاس لے آئے آپ نے چور سے پوچھا کہ کیا تو نے صفوان کی چادر چرائی وہ بولا ہاں آپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم کیا صفوان نے کہا میری نیت یہ نہ تھی یا رسول اللہ وہ چادر تو اس پر صدقہ ہے آپ نے فرمایا تجھ کو یہ امر میرے پاس لانے سے پہلے کرنا تھا
جب چور حاکم تک پہنچ جائے پھر اسکی سفارش نہیں کرنی چاہیے۔
ربیعہ بن ابی عبدالرحمن (رض) روایت ہے کہ زبیر بن عوام نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ چور کو پکڑے ہوئے حاکم کے پاس لئے جاتا تھا زبیر نے سفارش کی کہا چھوڑ دے وہ بولا کبھی نہیں چھوڑوں گا جب تک کہ حاکم کے پاس نہ لے جاؤں گا زبیر نے کہا جب تو حاکم کے پاس لے گیا تو اللہ کی لعنت سفارش کرنے والے پر اور سفارش ماننے والے پر
ہاتھ کاٹنے کے مختلف مسائل کا بیان
قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ ایک شخص یمن کا رہنے والا ہاتھ پاؤں کٹا ہوا مدینہ میں آیا اور ابوبکر (رض) کے پاس اتر کر بولا کہ یمن کے حاکم نے مجھ پر ظلم کیا اور وہ راتوں کو نماز پڑھتا تھا ابوبکر (رض) نے کہا کہ قسم تیرے باپ کی تیری رات چوروں کی رات نہیں ہے۔ اتفاقا ایک ہار اسما بنت عمیس ابوبکر کی بی بی کا گم ہوگیا لوگوں کے ساتھ وہ لنگڑا بھی ڈھونڈتا پھرتا تھا اور کہتا تھا کہ اے پروردگار تباہ کر اس کو جس نے ایسے نیک گھر والوں کے ہاں چوری کی، پھر وہ ہار ایک سنار کے پاس ملا سنار بولا مجھے اس لنگڑے نے دیا ہے اس لنگڑے نے اقرار کیا یا گواہی سے ثابت ہوا حضرت ابوبکر (رض) نے حکم کیا تو اس کا بایاں ہاتھ کاٹا گیا حضرت ابوبکر (رض) نے کہا قسم اللہ کی مجھے اس کی بدعا جو اپنے اوپر کرتا تھا چوری سے زیادہ سخت معلوم ہوئی۔ کہا مالک نے اگر ایک شخص نے کئی بار چوری کی بعد اس کے گرفتار ہوا تو سب چوریوں کے بدلے میں صرف اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا جب اس کا ہاتھ نہ کٹاہو اور جو ہاتھ کٹنے کے بعد اس نے چوری کی ربع رینار کے موافق تو بایاں پاؤں کاٹا جائے گا۔
ہاتھ کاٹنے کے مختلف مسائل کا بیان
ابو زناد سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے ایک عامل نے چند آدمیوں کو ڈکیتی میں گرفتار کیا پھر انہوں نے کسی کو قتل نہیں کیا تھا عامل نے چاہا کہ ان کے ہاتھ کاٹے یا ان کو قتل کرے پھر عمر بن عبدالعزیز کو اس بارے میں لکھا انہوں نے جواب میں لکھا کہ اگر تو آسان امر کو اختیار کرے تو بہتر ہے۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ جو شخص بازار کے ان مالوں کو چرائے جن کو مالکوں نے کسی برتن میں محفوظ کرکے رکھاہو ملا کر ایک درسرے سے، ربع دینار کے موافق چرائے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا برابر ہے کہ مالک وہاں موجود ہو یا نہ ہو رات کو ہو یا دن کو۔ کہا مالک نے جو شخص ربع دینار کے موافق مال چرائے پھر مال مسروقہ مالک کے حوالے کردے تب بھی اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص نشے کی چیز پی چکا ہو اور اس کی بو آتی ہو اس کے منہ سے لیکن اس کو نشہ نہ ہو تو پھر بھی حد ماریں گے کیونکہ اس نے نشے کے واسطے پیا تھا اگرچہ نشہ نہ ہوا ہو، ایسا ہی چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا اگرچہ وہ چیز مالک کو پھیر دے کیونکہ اس نے لے جانے کے واسطے چرایا تھا اگرچہ لے نہ گیا۔ کہا مالک نے اگر کئی آدمی مل کر مال چرانے کے لئے ایک گھر میں گھسے اور وہاں سے ایک صندوق یا لکڑی یا زیور سب ملا کر اٹھا لائے اگر اس کی قیمت ربع دینار ہو تو سب کا ہاتھ کاٹا جائے گا اگر ہر ایک ان میں سے جدا جدا مال لے کر نکلا تو جس کا مال ربع دینار تک پہنچے گا اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ اور جس کا اس سے کم ہوگا اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے گا۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ اگر ایک گھر ہو اس میں ایک ہی آدمی رہتا ہو اب کوئی آدمی اس گھر میں سے کوئی شئے چرائے لیکن گھر سے باہر نہ لے جائے (مگر اسی گھر میں ایک کوٹھڑی سے دوسری کوٹھڑی میں رکھے یا صحن میں لائے) تو اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے گا جب تک گھر سے باہر نہ لے جائے البتہ اگر ایک گھر میں کئی کوٹھڑیاں الگ الگ ہوں اور ہر کوٹھڑی میں لوگ رہتے ہوں اب کوئی شخص کوٹھڑی والے کا مال چرا کر کوٹھڑی سے باہر نکال لائے لیکن گھر سے باہر نہ نکالے تب ہاتھ کاٹا جائے گا۔ کہا مالک نے جو غلام گھر میں آجاتا ہو یا لونڈی آجاتی ہو اور اس کے مالک کو اس پر اعتبار ہو وہ اگر کوئی چیز چرائے اپنے مالک کی تو اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے گا اسی طرح جو غلام یا لونڈی آمدو رفت نہ رکھتے ہوں نہ ان کا اعتبار ہو وہ بھی اگر اپنے مالک کا مال چرائیں تو ہاتھ نہ کاٹا جائے گا اور جو اپنے مالک کی بیوی کا مال چرائیں یا اپنی مالکہ کے خاوند کا مال چرائیں تو ہاتھ کاٹا جائے گا۔ کہا مالک نے اسی طرح مرد اپنی عورت کے اس مال کو چرائے جو اس گھر میں نہ ہو جہاں وہ دونوں رہتے ہیں بلکہ ایک اور گھر میں محفوظ ہو یا عورت اپنے خاوند کے ایسے مال کو چرائے جو اس گھر میں نہ ہو جہاں وہ دونوں رہتے ہیں بلکہ ایک اور گھر میں بند ہو تو ہاتھ کاٹا جائے گا۔ کہا مالک نے چھوٹا بچہ یا غیر ملک کا آدمی جو بات نہیں کرسکتا ان کو اگر کوئی ان کے گھر سے چرا لے جائے تو ہاتھ کاٹا جائے گا اور جو راہ میں سے لے جائے یا گھرکے باہر سے تو ہاتھ نہ کاٹا جائے گا اور ان کا حکم پہاڑ کی بکری اور درخت پر لگے ہوئے میوے کا ہوگا۔ کہا مالک نے قبر کھود کر اگر ربع دینار کے موافق کفن چرائے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا کیونکہ قبر ایک محفوظ جگہ ہے جیسے گھر لیکن جب تک کفن قبر سے باہر نکال نہ لے تب تک ہاتھ نہ کاٹا جائے گا۔
جن صورتوں میں ہاتھ نہیں کاٹا جاتا ان کا بیان
محمد بن یحییٰ بن حبان سے روایت ہے کہ ایک غلام نے ایک شخص کے باغ میں سے کھجور کا پودا چرا کر اپنے مولیٰ کے باغ میں لگادیا پودے والا اپنا پودا ڈھونڈنے نکلا اس نے پالیا اور مروان بن حکم کے پاس غلام کی شکایت کی مروان نے غلام کو بلا کر قید کیا اور اس کا ہاتھ کاٹنا چاہا اس غلام کا مولیٰ رافع بن خدیج کے پاس گیا اور ان سے یہ حال کہا رافع نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپ ﷺ فرماتے تھے کہ نہیں کاٹا جائے گا ہاتھ پھل میں نہ پودے میں وہ شخص بولا مروان نے میرے غلام کو پکڑا ہے اور اس کا ہاتھ کاٹنا چاہتا ہے میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ چلیے اور مروان سے اس حدیث کو بیان کردیجیے، رافع اس شخص کے ساتھ مران کے پاس گئے اور پوچھا کیا تو نے اس شخص کے غلام کو پکڑا ہے مروان نے کہا ہاں رافع نے پوچھا اس غلام کے ساتھ کیا کرے گا مروان نے کہا ہاتھ کاٹوں گا رافع نے کہا میں نے سنا رسول اللہ ﷺ سے فرماتے تھے کہ پھل اور پودے کی چوری میں ہاتھ نہ کاٹا جائے گا مروان نے یہ سن کر حکم دیا کہ اس غلام کو چھوڑ دو ۔
جن صورتوں میں ہاتھ نہیں کاٹا جاتا ان کا بیان
سائب بن یزید سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر (رض) کے سامنے اپنے ایک غلام کو لے کر آیا اور کہا میرے اس غلام کا ہاتھ کاٹا جائے اس نے چوری کی ہے حضرت عمر (رض) نے کہا کیا چرایا ؟ وہ بولا میری بیوی کا آئینہ چرایا جس کی قیمت ساٹھ درہم تھی حضرت عمر (رض) نے کہا چھوڑ دو اس کا ہاتھ نہ کا ٹا جائے گا تمہارا خادم تھا تمہارا مال چرایا۔
جن صورتوں میں ہاتھ نہیں کاٹا جاتا ان کا بیان
ابن شہاب سے روایت ہے کہ مروان بن حکم کے پاس ایک شخص آیا جو کسی کا مال اچک لے گیا تھا مروان نے اس کا ہاتھ کاٹنا چاہا پھر زید بن ثابت کے پاس ایک شخص کو بھیجا یہ مسئلہ پوچھنے کو انہوں نے کہا اچکے کا ہاتھ نہ کاٹا جائے گا۔
جن صورتوں میں ہاتھ نہیں کاٹا جاتا ان کا بیان
ابوبکر بن محمد عمر بن حزم نے ایک نبطی (نبط کا رہنے والا) کو پکڑا جس نے انگوٹھیاں لوہے کی چرائی تھیں اور اس کو قید کیا ہاتھ کا ٹنے کے واسطے عمرہ بنت عبدالرحمن نے اپنی مولاۃ (آزاد لونڈی) کو جس کا نام امیہ تھا ابوبکر کے پاس بھیجا ابوبکر نے کہا وہ مولاۃ میرے پاس چلی آئی اور میں لوگوں میں بٹیھا ہوا تھا، بولی تمہاری خالہ عمرہ نے کہا ہے کہ اے میرے بھانجے تو نے ایک نبطی کو پکڑا ہے تھوڑی چیز کے واسطے اور چاہتا ہے اس کا ہاتھ کاٹنا میں نے کہا ہاں ! اس نے کہا عمرہ نے کہا ہے کہ قطع نہیں ہے مگر ربع دینار کی مالیت میں یا زیادہ میں تو میں نے نبطی کو چھوڑ دیا۔ کہا مالک نے غلام اگر ایسے قصور کا اقرار کرے جس میں اس کے بدن کا نقصان ہو تو درست ہے اس کو تہمت نہ لگائیں گے اس بات کی کہ اس نے مولیٰ کے ضرر کے واسطے جھوٹا اقرار کرلیا۔ کہا مالک نے اگر ایسے قصور کا اقرار کرے جس کا تاوان مولیٰ کو دینار پڑے تو اس کا اقرار صحیح نہ سمجھا جائے گا۔ کہا مالک نے اگر مزدور یا اور کوئی شخص لوگوں میں رہتا ہو اور آتا ہو پھر وہ ان کی کوئی چیز چرائے تو اس پر قطع نہیں ہے کیونکہ وہ مثل خائن کے ہوا اور خائن پر قطع نہیں ہے۔ کہا مالک نے جو شخص کوئی چیز بطور عاریتا کے لے پھر مکر جائے تو اس پر قطع نہیں ہے اس کی مثال ایسی ہے کہ کسی کا قرض کسی پر ہو اور وہ مکر جائے تو قطع نہیں ہے۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ اچک لینے میں قطع نہیں ہے اگرچہ اس شئے کی قیمت ربع دینار یا زیادہ ہو۔