46. کتاب مختلف بابوں کے بیان میں
مدینہ کے واسطے اور مدینہ کے رہنے والوں کے واسطے دعا کا بیان
انس بن مالک سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے اے پروردگار برکت دے مدینہ والوں کی ناپ میں اور برکت دے ان کے صاع میں اور مد میں۔
مدینہ کے واسطے اور مدینہ کے رہنے والوں کے واسطے دعا کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ جب لوگ پہلا میوہ دیکھتے تو رسول اللہ ﷺ کے پاس آتے آپ ﷺ اس کو لے کر فرماتے اے پروردگار برکت دے ہمارے پھلوں میں اور برکت دے ہمارے شہر میں اور برکت دے ہمارے صاع میں اور برکت دے ہمارے مد میں، اے پروردگار ابراہیم نے جو تیرے بندے اور تیرے دوست ہیں اور تیرے نبی تھے دعا کی تھی مکہ کے واسطے تیرا بندہ ہوں اور نبی ہوں جیسے ابراہیم نے دعا کی تھی مکہ کے لئے اور اتنی اور اس کے ساتھ (اشارہ کرکے) پھر آپ ﷺ سب سے چھوٹے بچے کو جو موجود ہوتا بلاتے اور وہ میوہ اس کو دے دیتے۔
مدنیے میں رہنے کا بیان اور مدنیے سے نکلنے کا بیان
یحنس جو مولیٰ تھا زبیر بن عوام کا نقل کرتا ہے میں بیٹھا تھا عبداللہ بن عمر (رض) کے پاس اتنے میں ایک لونڈی آئی ان کی اور بولی میں مدینہ سے نکلنا چاہتی ہوں اے ابوعبدالرحمن کیونکہ یہاں سختیاں ہیں اور وہ زمانہ فساد کا تھا مدینہ میں، عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا بیٹھ نالائق میں نے سنا ہے رسول اللہ ﷺ سے کہ آپ ﷺ فرماتے تھے مدینہ کی تکلیف اور سختیوں پر جو صبر کرے گا میں اس کا قیامت کے روز گواہ ہوں گا یا اس کی شفاعت کروں گا۔
مدنیے میں رہنے کا بیان اور مدنیے سے نکلنے کا بیان
جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے بیعت کی رسول اللہ ﷺ سے اسلام پر اس کو بخار آنے لگا مدینہ میں وہ آپ ﷺ کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ ﷺ میری بیعت تور دیجئے آپ نے انکار کیا پھر آیا اور کہا میری بیعت تور دیجئے آپ ﷺ نے انکار کیا وہ مدینہ سے نکل گیا اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا مدینہ مثل دھونکنی یا کھریا (بھٹی) ہے کہ جو میل نکال دیتی ہے اور خالص کندن رکھ لیتی ہے۔
مدنیے میں رہنے کا بیان اور مدنیے سے نکلنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے مجھے ایسی بستی میں جانے کا حکم ہوا جو بہت سی بستیوں کو کھاجائے گی لوگ اس کو یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے برے آدمیوں کو نکال باہر کرتا ہے جیسے کھریا لوہے کا میل نکال دیتی ہے۔
مدنیے میں رہنے کا بیان اور مدنیے سے نکلنے کا بیان
عروہ بن زبیر (رض) سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ کوئی شخص مدینہ سے نفرت کرکے نہیں نکلتا مگر اللہ جل جلالہ اس سے بہتر دوسرا آدمی مدینہ کو دے دیتا ہے۔
مدنیے میں رہنے کا بیان اور مدنیے سے نکلنے کا بیان
سفیان بن ابی زہیر سے روایت ہے کہا سنا میں نے رسول اللہ ﷺ سے فرماتے تھے کہ فتح ہوگا یمن وہاں سے لوگ سیر کرتے ہوئے مدینہ کو آئیں گے اور اپنے گھر بار کو اور جو ان کے ساتھ جائے گا مدینہ سے سے جائیں گے حالانکہ مدینہ بہتر ہوگا ان کے لئے کاش وہ جانتے ہوتے اور فتح ہوگا شام وہاں سے کچھ لوگ سیر کرتے ہوئے آئیں گے اور اپنے گھر بار کو اور جو ان کا کہنا مانے گا مدینہ سے لے جائیں گے حالانکہ مدینہ بہتر ہوگا ان کے لئے کاش وہ جانتے ہوتے اور عراق فتح ہوگا وہاں سے کچھ لوگ سیر کرتے ہوئے آئیں گے اور اپنے گھر بار کو اور جو ان کا کہنا مانے گا مدینہ سے لے جائیں گے حالانکہ مدینہ بہتر ہوگا ان کے لئے کاش وہ جانتے ہوتے۔
مدنیے میں رہنے کا بیان اور مدنیے سے نکلنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے البتہ تم چھوڑ دو گے مدینہ کو اچھے حال میں یہاں تک کہ آئے گا اس میں کتا یا بھیڑیا تو پیشاب کیا کرے گا مسجد کے کھمبوں یا منبر پر صحابہ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ اس زمانے میں مدینہ کے پھلوں کو کون کھائے گا آپ ﷺ نے فرمایا جو جانور بھولے ہوں گے پرندے اور درندے۔ عمر بن عبدالعزیز جب مدینہ سے نکلے تو مدینہ کی طرف دیکھ کر روئے اور اپنے غلام مزاحم سے کہنے لگے کہ شاید تم اور ہم ان لوگوں میں سے ہوں جن کو مدینہ نے نکال دیا۔
مدینہ منورہ کی حرمت کا بیان
انس بن مالک سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جب کہ آپ ﷺ کو احد کا پہاڑ دکھائی دیا کہ یہ وہ پہاڑ ہے جو ہم کو چاہتا ہے اور ہم بھی اس کو چاہتے ہیں اے میرے رب ! ابراہیم نے حرام کیا مکہ کو اور میں حرام کرتا ہوں مدینہ کے دونوں کناروں کے درمیان لڑائی کو۔
مدینہ منورہ کی حرمت کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ وہ کہتے تھے اگر میں ہر نوں کو چرتے ہوئے دیکھوں مدینہ میں تو ہرگز نہ چھیڑوں ان کو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مدینہ کے دونوں کنارے حرام ہیں۔
مدینہ منورہ کی حرمت کا بیان
ابو ایوب انصاری نے لڑکوں کو دیکھا انہوں نے ایک لومڑی کو گھیر رکھا تھا ایک کونے میں تو آپ نے لڑکوں کو ہنکا دیا اور لومڑی کو چھوڑ دیا۔ کہا مالک نے ابوایوب نے یہ کہا کیا رسول اللہ ﷺ کے حرم میں ایسا کام ہوتا ہے۔ ایک شخص سے روایت ہے کہ میرے پاس زید بن ثابت آئے اور میں اسواف میں تھا اور میں نے شکار کیا تھا ایک چڑیا کا انہوں نے میرے ہاتھ سے اس کو لے کر چھوڑ دیا۔
مدینہ کی وبا کا بیان
حضرت ام المومنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ میں آئے تو ابوبکر اور بلال کو بخار آیا حضرت عائشہ ان کے پاس گئیں اور کہا کہ اے میرے باپ کیا حال ہے اے بلال کیا حال ہے حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ابوبکر کو جب بخار آتا تو وہ ایک شعر پڑھتے جس کا ترجمہ یہ ہے ہر آدمی صبح کرتا ہے اپنے گھر میں اور موت اس سے نزدیک ہوتی ہے اس کے جوتی کے تسمے سے۔ اور بلال کا جب بخار اترتا تو اپنی آواز نکالتے اور پکار کر کہتے کاش کہ مجھے معلوم ہوتا کہ میں ایک رات پھر مکہ کی وادی میں رہوں گا اور میرے گرد اذخر اور جلیل ہوں گی ( اذخر اور جلیل دونوں گھاس ہیں مکہ کی) اور کبھی میں پھر اتروں گا مجنہ کے پانی پر ( مجنہ ایک جگہ ہے کئی میل پر مکہ سے وہاں زمانہ جاہلیت میں بازار تھے) اور کبھی پھر دکھلائی دینگے مجھے شامہ طفیل (دو پہاڑ ہیں مکہ سے تیس میل پر یا دو چشمے ہیں) حضرت عائشہ نے یہ باتیں سن کر رسول اللہ ﷺ سے آکر بیان کیں آپ نے دعا فرمائی اے پروردگار محبت ڈال دے ہمارے دلوں میں مدینہ کی جتنی محبت تھی مکہ کی یا اس سے بھی زیادہ اور صحت اور تندرستی کردے مدینہ میں اور برکت دے اس کے صاع اور مد میں اور دور کردے بخار وہاں کا اور بھیج دے اس بخار کو جحفہ (ایک بستی ہے مکہ سے بیاسی میل دور وہاں یہودی رہتے تھے) میں۔ حضرت عائشہ (رض) نے کہا کہ عامر بن فہیرہ کہتے تھے کہ میں نے موت کو مرنے سے آگے دیکھ لیا نامرد کی موت اوپر سے آتی ہے۔
مدینہ کی وبا کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے مدینہ کی راہوں پر فرشتے ہیں اس میں نہ طاعون آتا ہے نہ دجال۔
مدینہ سے یہودیوں کے نکالنے کا بیان
عمر بن عبدالعزیز سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آخری کلام یہ فرمایا اللہ جل جلالہ تباہ کرے یہود اور نصاری کو انہوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو مسجدیں بنایا آگاہ رہو عرب میں دو دین نہ رہیں۔
مدینہ سے یہودیوں کے نکالنے کا بیان
ابن شہاب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جزیرہ عرب میں دو دین نہ رہیں۔
مدینہ کی فضیلت کا بیان
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا احد کو دیکھ کر کہ یہ پہاڑ ہم کو چاہتا ہے ہم بھی اسے چاہتے ہیں۔
مدینہ کی فضیلت کا بیان
اسلم جو مولیٰ ہیں عمر بن خطاب کے ان سے روایت ہے کہ ہم مکہ کے راستے میں عبداللہ بن عیاش کی ملاقات کو گئے، ان کے پاس نیبذ پائی اسلم نے کہا کہ اس شربت کو حضرت عمر (رض) بہت چاہتے ہیں عبداللہ بن عیاش ایک بڑا سا پیالہ بھر کر حضرت عمر (رض) کے پاس لائے اور ان کے سامنے رکھ دیا انہوں نے اس کو اٹھا کر پینا چاہا پھر سر اٹھا کر کہا یہ شربت بہت اچھا ہے پھر اس کو پیا اس کے بعد ایک شخص ان کے داہنی طرف بیٹھا تھا اس کو دے دیا جب عبداللہ بن عیاش لوٹ کر چلے تو حضرت عمر (رض) نے ان کو بلایا اور کہا تو کہتا ہے کہ مکہ بہتر ہے مدینہ سے عبداللہ بن عیاش نے کہا کہ وہ حرم ہے اللہ کا اور امن کی جگہ ہے اور وہاں اس کا گھر ہے حضرت عمر (رض) نے کہا میں اللہ کے گھر اور حرم کا نہیں پوچھتا (بلکہ ان دونوں میں کون سا افضل ہے) پھر حضرت عمر (رض) نے کہا تو کہتا ہے کہ مکہ بہتر ہے مدینہ سے، عبداللہ بن عیاش نے کہا کہ مکہ میں اللہ کا حرم ہے اور امن کی جگہ ہے وہاں اس کا گھر ہے حضرت عمر (رض) نے کہا میں اللہ کے گھر اور حرم میں کچھ نہیں کہتا پھر عبداللہ بن عیاش چلے گئے۔
طاعون کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) شام کی طرف نکلے جب سرغ (ایک بستی ہے) میں پہنچے تو لشکر کے بڑے بڑے افسران سے ملے جیسے ابوعیبدہ بن جراح اور ان کے ساتھی انہوں نے کہا شام میں آج کل وباء ہے حضرت عمر (رض) نے کہا ابن عباس (رض) سے کہ بلاؤ بڑے بڑے مہاجرین کو جنہوں نے پہلے ہجرت کی ہے تو بلایا ان کو حضرت عمر (رض) نے ان سے مشورہ کیا اور بیان کیا ان سے کہ شام میں وباء ہو رہی ہے انہوں نے اختلاف کیا بعضوں نے کہا آپ کام کے واسطے نکلے ہیں لوٹنا مناسب نہیں ہے بعضوں نے کہا کہ آپ کے ساتھ اور لوگ بھی ہیں اور صحابہ ہیں مناسب نہیں کہ آپ ان کو اس وبا میں لے جائیں حضرت عمر (رض) نے کہا جاؤ اور کہا بلاؤ انصار کو ابن عباس کہتے ہیں میں نے انصار کو بلایا اور وہ آئے ان سے مشورہ کیا انہوں نے بھی مہاجرین کی مثل بیان کی اور اسی طرح اختلاف کیا آپ نے کہا جاؤ۔ پھر کہا قریش کے بوڑھے بوڑھے لوگوں کو جہنوں نے ہجرت کی فتح مکہ کے بعد بلاؤ، میں نے ان کو بلایا ان میں سے دو آدمیوں نے بھی اختلاف نہیں کیا بلکہ سب نے کہا ہمارے نزدیک مناسب یہ ہے کہ آپ لوٹ جائیں اور لوگوں کو اس وباء میں نہ لے جائیے جب حضرت عمر (رض) نے لوگوں میں منادی کرادی کہ صبح کو اونٹ پر سوار ہو کر چلے اور اس وقت ابوعیبدہ نے کہا کہ اللہ جل جلالہ کی تقدیر سے بھاگے جاتے ہو حضرت عمر (رض) نے کہا کاش یہ بات کسی اور نے کہی ہوتی ہاں ہم بھاگتے ہیں اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر کی طرف کیا اگر تمہارے پاس اونٹ ہوں اور تم ایک وادی میں جاؤ جس کے دو کنارے ہوں ایک کنارہ سرسبز اور شاداب ہو اور دوسرا خشک اور خراب ہو اگر تو اپنے اونٹوں کو سرسبز اور شاداب میں چرائے تب بھی تو نے اللہ کی تقدیر سے چرایا اور جو تو نے خشک اور خراب میں چرائے تب بھی تو نے اللہ کی تقدیر سے چرایا اتنے میں عبدالرحمن بن عوف آئے اور وہ کہیں کام کو گئے ہوئے تھے انہوں نے کہا میں اس مسئلے کا عالم ہوں میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپ ﷺ فرماتے تھے کہ جب تم سنو کہ کسی سر زمین میں وباء ہے تو وہاں نہ جاؤ اور جب کسی سر زمین میں وبا پڑے اور تم وہاں موجود ہو تو بھاگو بھی نہیں کہا ابن عباس نے کہ اس وقت حضرت عمر (رض) نے اللہ جل جلالہ کی حمد بیان کی اور لوٹ کھڑے ہوئے۔
طاعون کا بیان
سعد بن ابی وقاص نے اسامہ بن زید سے پوچھا تم نے کیا سنا ہے رسول اللہ ﷺ سے طاعون کے بارے میں انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ طاعون ایک عذاب ہے جو بھیجا گیا تھا بنی اسرائیل کے گروہ پر یا یہ کہا کہ ان پر جو تم سے پہلے تھے تو جب سنو تم کسی زمین میں طاعون ہے تو وہاں نہ جاؤ اور جب کسی زمین میں طاعون پڑے اور تم وہاں موجود ہو تو بھاگو بھی نہیں ابوالنصر نے کہا نہ نکلو بھاگنے کے قصد سے۔
طاعون کا بیان
عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب شام کی طرف نکلے جب سرع میں پہنچے ان کو خبر ملی شام میں وبا پڑی ہے تو عبدالرحمن بن عوف نے ان سے کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب کسی زمین میں سنو کہ وبا ہے تو وہاں نہ جاؤ اور جب وبا پڑے اس زمین میں جس میں تم ہو تو اس سے نکل نہ بھاگو یہ سن کر حضرت عمر سرغ سے لوٹ آئے۔ سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر سرغ سے لوٹ آئے عبدالرحمن بن عوف کی حدیث سن کر امام مالک کو پہنچا کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ ایک گھر رکبہ میں (ایک مقام ہے درمیان میں عمرہ اور ذات عرق کے) پسند ہے مجھ کو شام میں دس گھروں سے۔
تقدیر میں گفتگوں کی ممانعت
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بحث کی آدم اور موسیٰ علیہما السلام نے تو غالب ہوئے آدم موسیٰ پر موسیٰ نے کہا تو وہی آدم ہے کہ گمراہ کیا تو نے لوگوں کو اور نکالا ان کو جنت سے آدم نے کہا کہ تو وہی موسیٰ ہے کہ اللہ نے تجھے علم دیا ہر چیز کا اور برگزیدہ کیا رسالت سے انہوں نے کہا ہاں پھر آدم نے کہا باوجود اس کے تو مجھے ملامت کرتا ہے ایسے کام پر جو میری تقدیر میں لکھا جا چکا تھا قبل میرے پیدا ہونے کے۔
تقدیر میں گفتگوں کی ممانعت
مسلم بن یسار جہنی سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) سے سوال ہوا اس آیت کے متعلق یعنی یاد کر اس وقت کو جب تیرے پروردگار نے آدم کی پیٹھ سے ان کی تمام اولاد کو نکالا اور ان کو گواہ کیا ان پر اس بات کا کیا میں نہیں ہوں پروردگار تمہارا، بولے کیوں نہیں تو پروردگار ہے ہمارا، ہم نے اس واسطے گواہ کیا کہ کہیں ایسا نہ کہو تم قیامت کے روز کہ ہم تو اس سے غافل تھے حضرت عمر (رض) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ سے بھی اس آیت کی تفسیر کا سوال ہوا آپ ﷺ نے فرمایا اللہ جل جلالہ نے آدم کو پیدا کیا پھر ان میں اپنا داہنا ہاتھ پھیرا اور اولاد نکالی اور فرمایا میں نے ان کو جنت کے لئے پیدا کیا اور یہ لوگ جنیتوں کے کام کریں گے پھر بایاں ہاتھ پھیرا ان کی پیٹھ پر اور اولاد نکالی فرمایا میں نے ان کو جہنم کے لئے پیدا کیا اور یہ جہنموں کے کام کریں گے ایک شخص بولا یا رسول اللہ ﷺ پھر عمل کرنے سے کیا فائدہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب پیدا کرتا ہے کسی بندے کو جنت کے واسطے تو اس سے جنیتوں کے کام کراتا ہے اور موت کے وقت بھی وہ نیک عمل کرکے مرتا ہے تو اللہ جل جلالہ اسے جنت میں داخل کرتا ہے اور جب کسی بندے کو جہنم کے لئے پیدا کرتا ہے تو اس سے جہنیموں کے کام کراتا ہے یہاں تک کہ موت بھی اسے برے کام پر آتی ہے تو اسے جہنم میں داخل کرتا ہے۔ امام مالک کو پہنچا کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ چھوڑے جاتا ہوں میں تم میں دو چیزوں کو نہیں گمراہ ہو گے جب تک پکڑے رہو گے ان کو، کتاب اللہ اور اس کے رسول کی سنت۔
تقدیر میں گفتگوں کی ممانعت
طاؤس الیمانی سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا میں نے چند صحابہ کو پایا کہتے تھے کہ ہر چیز تقدیر سے ہے طاؤس نے کہا میں نے عبداللہ بن عمر سے سنا کہتے تھے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ ہر چیز تقدیر سے ہے یہاں تک کہ عاجزی اور ہوشیاری بھی۔
تقدیر میں گفتگوں کی ممانعت
عمرو بن دینار سے روایت ہے کہ میں نے عبداللہ بن زبیر سے سنا خطبہ میں فرماتے تھے کہ اللہ ہی ہدایت کرنے والا اور گمراہ کرنے والا ہے۔
تقدیر میں گفتگوں کی ممانعت
ابی سہیل بن مالک عمر بن عبدالعزیز کے ساتھ جا رہے تھے انہوں نے پوچھا ابوسہیل سے کہ تمہاری کیا رائے ہے قدریہ کے بارے میں ابوسہیل نے کہا میری رائے یہ ہے کہ ان سے توبہ کراؤ توبہ کرلیں تو بہتر، نہیں تو قتل کئے جائیں عمر بن عبدالعزیز نے کہا میری رائے بھی یہی ہے مالک نے کہا میری بھی یہی رائے ہے ان لوگوں کے بارے میں۔
قدر کے بیان میں مختلف حدیثیں
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ نہ چاہے کوئی عورت طلاق اپنی بہن کی تاکہ خالی کرے پیالہ اس کا بلکہ نکاح کرلے کیونکہ جو اس کے مقدر میں ہے اس کو ملے گا۔
قدر کے بیان میں مختلف حدیثیں
محمد بن کعب قرظی سے روایت ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان نے منبر پر کہا اے لوگوں جو اللہ جل جلالہ دے اس کو کوئی روکنے والا نہیں ہے اور جو نہ دے اس کو کوئی دینے والا نہیں ہے اور کسی طاقت والے کی طاقت کام نہیں آتی جس شخص کو اللہ بھلائی پہنچانا چاہتا ہے اس کو دین میں سمجھ دیتا ہے اور علم فقہ دیتا ہے پھر کہا معاویہ نے میں نے ان کلمات کو رسول اللہ ﷺ سے سنا انہیں لکڑیوں پر۔ امام مالک سے روایت ہے کہ پہلے زمانے میں لوگ یوں کہا کرتے تھے کہ سب خوبیاں اس اللہ کی ہیں جس نے پیدا کیا عرش کو جیسے چاہے جو وقت مقرر کردیا ہے اس سے پہلے کوئی چیز نہیں ہوسکتی کافی ہے مجھ کو اللہ اور کافی ہے ایسا کافی ہے کہ سنتا ہے اللہ جو اس کو پکارے اللہ کے سوا کوئی شخص نہیں جس سے دعا کیا جائے۔ امام مالک کو پہنچا کہ پہلے زمانے میں یوں کہا جاتا تھا کہ کوئی آدمی نہیں مرے گا جب تک کہ اس کا رزق پورا نہ ہو پس اختصار کرو طلب معاش میں۔
خوش خلقی کے بیان میں
معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ آخری وصیت جو رسول اللہ ﷺ نے مجھ کو کی جب میں رکاب میں پاؤں رکھنے لگا یہ تھی کہ اے معاذ خوش خلقی کر لوگوں سے۔
خوش خلقی کے بیان میں
حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جب دنیا کے دو کاموں میں اختیار ہوا تو آپ نے آسان امر کو اختیار کیا بشرطیکہ اس میں گناہ نہ ہو اگر گناہ ہوتا تو سب سے زیادہ آپ اس سے پرہیز کرتے اور رسول اللہ ﷺ اپنی ذات کے واسطے کسی سے بدلہ نہیں لیتے تھے مگر جب اللہ کی حرمت میں خلل پڑے تو اس وقت بدلہ لیتے تھے اللہ کے واسطے۔
خوش خلقی کے بیان میں
علی بن حسین بن علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے اسلام کی بہتریوں میں سے یہ ہے کہ آدمی بےکار اور فضول چیزوں کو چھوڑ دے۔ حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اذن چاہا رسول اللہ ﷺ کے پاس آنے کا اور میں آپ ﷺ کے ساتھ تھی گھر میں آپ ﷺ نے فرمایا برا آدمی ہے یہ پھر آپ ﷺ نے اس کو آنے کی اجازت دی حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ تھوڑی دیر نہیں گزری تھی کہ رسول اللہ ﷺ کو میں نے اس کے ساتھ ہنستے ہوئے سنا جب وہ چلا گیا تو میں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ابھی تو آپ ﷺ نے اس کو برا کہا تھا ابھی آپ ﷺ اس سے ہنسنے لگے آپ ﷺ نے فرمایا کہ سب آدمیوں میں برا وہ آدمی ہے جس سے لوگ بچیں یا ڈریں اس کے شر کے سبب سے۔
خوش خلقی کے بیان میں
کعب احبار نے کہا کہ جب تم کسی بندہ کا حال جاننا چاہو اس کے پروردگار کے پاس تو دیکھو لوگ اس کو کیسا کہتے ہیں۔
خوش خلقی کے بیان میں
یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ مجھ کو یہ پہنچا کہ آدمی حسن خلق کی وجہ سے رات بھر عبادت کرنے والے اور دن بھر پیاسے رہنے والے کا درجہ حاصل کرتا ہے۔
خوش خلقی کے بیان میں
سعید بن مسیب نے کہا کیا میں بہ بتاؤں تم کو وہ چیز جو بہت سی نمازوں اور صدقہ سے بہتر ہے لوگوں نے کہا بتاؤ سعید نے کہا ایک دوسرے کے بیچ صلح کرادیں اور بچو تم بغض اور عدوات سے یہ خصلت مونڈنے والی ہے نیکیوں کو۔ امام مالک کو پہنچا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں اس واسطے بھیجا گیا کہ اخلاق کی خوبیوں کو پورا کردوں
حیا یعنی شرم کے بیان میں
زید بن طلحہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ ہر دین کا ایک خلق ہے اور اسلام کا خلق حیاء ہے۔
حیا یعنی شرم کے بیان میں
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دیکھا ایک شخص کو نصیحت کر رہا تھا اپنے بھائی کو حیاء کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا جانے دے کیونکہ حیاء ایمان میں سے ہے۔
غضب کے بیان میں
حمید بن عبدالرحمن بن عوف سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا رسول اللہ ﷺ کے پاس اور بولا کہ یا رسول اللہ ﷺ مجھے چند باتیں بتاد یجئے جن سے میں نفع اٹھاؤں اور بہت باتیں نہ بتانا میں بھول جاؤں گا آپ ﷺ نے فرمایا تو غصہ مت کیا کر۔
غضب کے بیان میں
ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ وہ آدمی وزر آور نہیں ہے جو کشتی میں لوگوں کو پچھاڑ دے وزر آور ہے جو اپنے نفس پر قادر ہو غصے کے وقت۔
ملاقات ترک کرنے کے بیان میں
ابو ایوب انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان کو درست نہیں کہ اپنے بھائی مسلمان کی ملاقات ترک کرے یعنی اس کو چھوڑ دے تین دن سے زیادہ یا یہ ملے تو وہ نہ دیکھے یا وہ ملے تو نہ دیکھے بہتر ان دونوں میں وہ ہے جو پہلے سلام علیک کرے۔
ملاقات ترک کرنے کے بیان میں
انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مت بغض کرو مر حسد کرو مت پیٹھ پھیرو ایک دوسرے سے بلکہ ہوجاؤ اللہ کے بندے بھائی بھائی نہیں درست ہے کسی مسلمان کو کہ اپنے بھائی کو چھوڑ دے تین راتوں سے زیادہ۔
ملاقات ترک کرنے کے بیان میں
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ بچو تم بدگمانی سے کیونکہ بدگمانی بڑا جھوٹ ہے اور مت کھوج لگاؤ اور مت تفتیش کرو اور مت حرص کرو دنیا کی اور مت حسد کرو نہ بغض کرو نہ ایک دوسرے سے پیٹھ موڑو بلکہ ہوجاؤ اللہ کے بندے بھائی بھائی۔
ملاقات ترک کرنے کے بیان میں
عطا بن عبداللہ (رض) خراسانی سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہا مصافحہ کرو ایک دوسرے سے دل کا کینہ جاتا رہے گا ہدیہ بھیجو ایک دوسرے کی دوست ہوجاؤ گے اور دشمنی جاتی رہے گی۔
ملاقات ترک کرنے کے بیان میں
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ جنت کے دروازے کھل جائے ہیں پیر اور جمعرات کے روز تو ہر بندہ مسلمان جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا وہ بخش دیا جاتا ہے مگر وہ شخص جو اپنے بھائی سے عداوت رکھتا ہو کہا جاتا ہے کہ ان دونوں آدمیوں کے متعلق کہ دیکھتے رہو جب تک وہ مل جائیں ان دونوں آدمیوں کو دیکھتے رہو جب تک وہ مل جائیں۔
ملاقات ترک کرنے کے بیان میں
ابوہریرہ (رض) نے کہا ہر ہفتہ میں دو مرتبہ پیر اور جمعرات کے روز بندوں کے اعمال دیکھے جاتے ہیں پھر ہر مومن بندہ بخش دیا جاتا ہے مگر وہ بندہ جو اپنے بھائی سے عداوت رکھتا ہو تو حکم ہوتا ہے کہ ابھی ان دونوں کو رہنے دو یہاں تک کہ مل جائیں
کپڑے زینت کے واسطے پہننے کا بیان
جابر بن عبداللہ انصاری (رض) سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے غزوہ بن انمار میں تو ہم ایک درخت کے تلے اترے ہوئے تھے اتنے میں رسول اللہ ﷺ دکھائی دئے میں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ سائے میں آئے آپ ﷺ آکر اتر میں اپنی زنبیل کو دیکھنے گیا اس میں ڈھونڈنے لگا تو ایک ککڑی ملی میں اس کو توڑ کر رسول اللہ ﷺ کے سامنے لے گیا آپ ﷺ نے پوچھا یہ کہاں سے آئی جابر نے کہا یا رسول اللہ ﷺ مدینہ سے ہم اس کو لے کر نکلے تھے پھر جابر کہتے ہیں ہمارے ساتھ ایک شخص تھا جس کا سامان سفر ہم نے کردیا تھا وہ ہمارے جانور چراتا تھا جب وہ پیٹھ موڑ کر جانور چرانے جانے لگا تو وہ چادریں اوڑھے ہوئے تھا جو پھٹ کر چندی چندی ہوگئی تھیں رسول اللہ ﷺ نے اس کو دیکھ کر فرمایا کہ کیا اور کپڑے اس کے پاس نہیں ہیں جابر نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ہیں گٹھری میں بندھے ہیں میں نے اس کو پہننے کے لئے دئیے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس سے کہو کہ وہ کپڑے پہن لے میں نے اس کو بلایا اس نے وہ کپڑے گٹھری سے نکال کر پہن لئے جب پھرجانے لگا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس کو کیا ہوگیا تھا اللہ اس کی گردن مارے اب کیا اچھا معلوم نہیں ہوتا اس کو اس شخص نے یہ سن کر کہا یا رسول اللہ ﷺ کیا اللہ کی راہ میں میری گردن ماری جائے آپ ﷺ نے فرمایا ہاں اللہ کی راہ میں پھر وہ شخص شہید ہوا اللہ کی راہ میں۔ حضرت عمر (رض) نے کہا کہ میں چاہتا ہوں عالم کو اچھے کپڑے پہنے ہوئے دیکھوں۔
کپڑے زینت کے واسطے پہننے کا بیان
حضرت عمر (رض) نے کہا کہ جب اللہ تم کو وسعت دے تو اپنے اوپر بھی وسعت کرو اپنے کپڑے بنالو۔
رنگین کپڑے پہننے اور سونا پہننے کا بیان
کہا مالک نے مردوں کو کسم سے رنگی ہوئی چادریں اوڑھنا گھر یا اس کے گرداگرد میں حرام نہیں سمجھتا لیکن نہ پہننا میرے نزدیک بہتر اور اس سوائے اس کے اور لباس پہننا اچھا ہے۔
اون اور ریشم کے کپڑے پہننے کا بیان
حضرت عائشہ (رض) نے عبداللہ بن زبیر کو ایک کپڑا پہناتا جس میں اون اور ریشم تھا اور حضرت عائشہ بھی اس کو پہنا کرتی تھیَ
جو کپڑا عورتوں کو پہننا مکروہ ہے اس کا بیان
مرجانہ سے روایت ہے کہ حفصہ بنت عبدالرحمن بن ابی بکر عائشہ (رض) کے پاس گئیں ایک باریک سر بند اوڑھ کر حضرت عائشہ (رض) نے اس کو پھار ڈالا اور موٹے کپڑے کا سر بند اوڑھا دیا۔
جو کپڑا عورتوں کو پہننا مکروہ ہے اس کا بیان
ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ جو عورتیں کپڑا پہنے ہوئے ہیں لیکن ننگی ہیں خود بھی سیدھی راہ سے ہٹی ہوئی ہیں اور خاوند کو بھی ہٹا دیتی ہیں جنت میں نہ جائیں گی بلکہ جنت کی خوشبو تک نہ سونگھیں گی حالانکہ جنت کی خوشبو پانچ سو برس کی راہ سے آتی ہے۔
جو کپڑا عورتوں کو پہننا مکروہ ہے اس کا بیان
ابن شہاب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کو بیدار ہوئے اسمان کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ رات کو اللہ جل جلالہ نے کتنے ایک خزانے کھولے اور کتنے ایک فتنے واقع ہوئے کتنی عورتیں ایسی ہیں جو دینا میں تو کپڑے پہنے ہوئی ہیں مگر قیامت کے روز ننگی ہوں گی ہوشیار کردو ان کو ٹھریوں والیوں کو۔
کپڑا بے کار لٹکانے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ جو شخص اپنا کپڑ لٹکائے گا تکبر کے طور پر تو قیامت کے روز اللہ جل جلالہ اس کی طرف نظر تک نہ کرے گا۔
کپڑا بے کار لٹکانے کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ نہیں نظر کرے گا اللہ قیامت کے روز اس شخص کی طرف جو اپنا تہ بند لٹکائے تکبر کے طور پر۔
کپڑا بے کار لٹکانے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ نہیں نظر کرے گا اللہ جل جلالہ قیامت کے روز اس شخص کی طرف جو اپنا کپڑا لٹکائے غرور اور گھمنڈ کے طور پر۔
کپڑا بے کار لٹکانے کا بیان
عبدالرحمن بن یعقوب سے روایت ہے کہ کہتے ہیں ابوسعید خدری (رض) سے پوچھا ازار کا حال انہوں نے کہا مجھے علم ہے میں بتاتا ہوں میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپ ﷺ فرماتے تھے کہ مومن کی ازار پنڈلیوں تک ہوتی ہے خیر ٹخنوں تک بھی رکھے تو کچھ قباحت نہیں ہے اس سے نیچے جہنم میں جانے کی بات ہے اللہ قیامت کے روز اس شخص کی طرف نظر نہ کرے گا جو اپنی ازار لٹکائے غرو اور گھمنڈ کے طور پر۔
عورت اپنا کپڑا لٹکا دے تو کیا حکم ہے ؟
ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ازار لٹکانے کا ذکر کی تو میں نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ عورت کیا کرے آپ ﷺ نے فرمایا ایک بالشت ازار نیچے رکھے ام سلمہ نے کہا اتنی تو کھل جائے گی آپ ﷺ نے فرمایا ایک ہاتھ نیچے رکھے اس سے زیادہ نہیں۔
جوتی پہننے کا بیان
ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ نہ چلے تم میں کوئی ایک جوتی پہن کر چاہئے کہ دونوں جوتیاں پہنے یا دونوں اتار دے۔
جوتی پہننے کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ جب جوتا پہنے کوئی تم میں سے چاہے کہ داہنے پیر میں اول پہنے اور جب اتارے تو پہلے بائیں پیر کا اتارے تو داہنا پیر پہنتے وقت شروع میں رہے اور اتارتے وقت اخیر میں رہے۔
جوتی پہننے کا بیان
کعب الاحبار سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی جوتی اتاری کعب الاحبار نے کہا تم نے کیوں جوتیاں اتاریں شاید تو نے اس آیت کو دیکھ کر اتاری ہوں گی اللہ جل جلالہ نے حضرت موسیٰ علی نبینا سے جب وہ طور پر جانے لگے فرمایا اتار جوتیاں اپنی مگر تو جانتا ہے موسیٰ (علیہ السلام) کی جوتیاں کا ہے کی تھیں۔ کہا مالک نے مجھ معلوم نہیں اس شخص نے کیا جواب دیا کعب نے کہا حضرت موسیٰ کی جوتیاں مردہ گدھے کی کھال کی تھیں۔
کپڑے پہننے کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ منع کیا رسول اللہ ﷺ نے دو لباسوں سے اور دو بیعوں سے ایک بیع ملامسہ اور دوسرے بیع منابذہ سے اور ایک کپڑے اوڑھ کر اختباء کرنے سے جب کہ اس کی شرمگاہ پر کوئی کپڑا نہ ہوا اور ایک کپڑا سارے بدن پر لپیٹ لینے سے۔
کپڑے پہننے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ایک کپڑا ریشمی بکتا ہوا دیکھا مسجد کے دروازے پر انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کاش آپ ﷺ اس کو خرید لیتے اور جمعہ کے روز اور جس روز آپ ﷺ کے پاس وفد کے لوگ آیا کرتے ہیں پہنا کرتے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس کپڑے کو وہ شخص پہنے گا جس کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں ہے پھر اسی قسم کے چند کپڑے آپ ﷺ کے پاس آئے آپ ﷺ نے ان میں سے ایک کپڑا حضرت عمر (رض) کو دیا حضرت عمر (رض) نے کہا یا رسول اللہ ﷺ پہلے تو آپ ﷺ نے عطارد کے کپڑے کی بابت فرمایا تھا کہ اس کو وہ شخص پہنے گا جس کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں آپ ﷺ نے فرمایا میں نے تجھے یہ کپڑا پہننے کو تھوڑی دیا ہے پھر حضرت عمر (رض) نے وہ کپڑا اپنے ایک کافر بھائی کو دے دیا جو مکہ میں تھا۔
کپڑے پہننے کا بیان
انس بن مالک نے کہا میں نے حضرت عمر (رض) کو دیکھا جب کہ وہ امیر المومنی تھے ان کے دونوں مونڈھوں کے بیچ میں کرتے میں تین پیوند لگے تھے ایک کے اوپر ایک۔
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حلیہ شریف کا بیان
انس بن مالک کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نہ لمبے تھے بہت نہ ٹھگنے تھے سفید تھے چونے کی طرح نہ بہت گندمی اور بال آپ ﷺ کے بہت گھونگریالے بھی نہ تھے اور بہت سیدتے بھی نہ تھے جب آپ ﷺ کا سن چالیس برس کا ہوا تو اللہ جل جلالہ نے آپ ﷺ کو نبوت عطا فرمائی پھر بعد بنوت کے آپ ﷺ مکہ میں دس برس رہے اور مدینہ میں دس برس رہے اور ساٹح برس کی عمر میں آپ ﷺ نے وفات ہوئی اس وقت آپ ﷺ کے سر اور داڑھی میں بیس بال بھی سفید نہ ہوں گے۔
عیسی بن مریم (علیہ السلام) اور دجال کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ مجھ کو خواب میں ایک رات معلوم ہوا کہ کعبہ کے پاس ہوں تو میں نے ایک شخص کو دیکھا گندمی رنگ جیسے کہ تو نے بہت اچھے گندمی رنگ کے آدمی دیکھے ہوں اس کے کندھوں تک بال ہیں جیسے کہ تو نے بہت اچھے کندھوں تک بال دیکھے ہوں سو اس نے مرد نے اس بال میں کنگھی کی ہے تو ان سے پانی ٹپکتا ہے دو آدمیوں پر تکیہ لگائے یوں فرمایا کہ دو آمیوں کے کندھو (رض) پر تکیہ لگائے وہی شخص بیت اللہ کا طواف کرتا ہے سو میں نے پوچھا یہ کون شخص ہے تو کسی نے مجھ سے کہا یہ کہ مسیح ہے مریم کا بیٹا پھر میں نے یکایک ایک اور شخص دیکھا نہایت گھنگریالے بال والا دائیں انکھ کا کانا اس کی کافی آنکھ ایسی تھی جیسے پھولا ہوا انگور سو میں نے پوچھا کہ یہ کون شخص ہے کسی نے مجھ سے کہا یہ مسیح دجال ہے۔
مومنوں کے طریقے کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ پانچ چیزیں پیدائشی سنت ہیں ایک ناخن کاٹنا دوسرے مونچھیں کتروانا تیسرے بغل کے بال اکھاڑنا چوتھے زیر ناف کے بال مونڈنا پانچویں ختنہ کرنا۔
مومنوں کے طریقے کا بیان۔
سعید بن مسیب نے کہا کہ حضرت ابراہیم ہی نے سب سے پہلے مہمان کی ضیافت کی اور سب سے پہلے ختنہ کیا اور سب سے پہلے مونچھیں کتریں اور سب سے پہلے سفید بال کو دیکھ کر کہا کہ اے پروردگار یہ کیا ہے اللہ جل جلالہ نے فرمایا یہ عزت اور وقار ہے، حضرت ابراہیم نے کہا تو اے پروردگار زیادہ عزت دے مجھ کو۔ کہا مالک نے مونچھوں کو اتنا کترنا چاہیے کہ ہونٹ کے کنارے کھل جائیں یہ نہیں کہ بالکل کتر ڈالے۔
بائیں ہاتھ سے کھانے کی ممانعت
جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع کیا بائیں ہاتھ سے کھانے کو اور ایک جوتا پہن کر چلنے کا اور ایک کپڑا سر سے پاؤں تک لپیٹ لینے کو اور ایک کپڑا اوڑھ کر گوٹ مار کر بیٹھنے کو اس طرح کہ شرم گاہ کھلی رہے۔
بائیں ہاتھ سے کھانے کی ممانعت
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ جب کوئی کھائے تم میں سے تو اپنے داہنے ہاتھ سے کھائے اور جب پئے تو چاہئے کہ داہنے ہاتھ سے پئے اس واسطے کہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا ہے اور بائیں ہاتھ سے پیتا ہے۔
مسکین کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مسکین وہ نہیں ہے جو گھر گھر مانگتا پھرتا ہے کہیں سے ایک لقمہ ملا کہیں سے دو لقمے کہیں سے ایک کھجور کہیں سے دو کھجوریں۔ صحابہ نے پوچھا پھر یا رسول اللہ ﷺ مسکیں کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کے پاس مال نہیں ہے کہ وہ اپنی حاجت پوری کرے نہ لوگوں کو اس کا حال معلوم ہے تاکہ اس کو صدقہ دیں نہ وہ مانگنے کو کھڑا ہوتا ہے۔
مسکین کا بیان
ام بجید سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ؛ دو مسکین کو اگرچہ جلا ہوا کھر ہو۔
کافر کی آنتوں کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔
کافر کی آنتوں کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک کافر آیا مہمان ہو کر آپ ﷺ نے ایک بکری کے دودھ دوہنے کا حکم کیا وہ سب پی گیا پھر دوسری بکری کو دوہا گیا وہ بھی پی گیا پھر تیسری بکری کا بھی پی گیا یہاں تک کہ سات بکریوں کا دودھ پی گیا پھر دوسرے دن صبح کو وہ شخص مسلمان ہوگیا آپ ﷺ نے بکری کا دودھ اس کے پینے کو دیا وہ پی نہ سکا تب آپ ﷺ نے فرمایا کہ مومن ایک آنت میں پیتا ہے اور کافر سات آنتوں میں پیتا ہے۔
چاندی کے برتن میں پینے کی ممانعت اور پانی میں پھونکنے کی مانعت کے بیان میں
ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص چاندی کے برتن میں پئے وہ اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ غٹاغٹ ڈالتا ہے۔
چاندی کے برتن میں پینے کی ممانعت اور پانی میں پھونکنے کی مانعت کے بیان میں
ابو مثنی جہنی سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں بیٹھا ہوا تھا مروان بن حکم کے پاس کہ اتنے میں ابوسعید خدری آئے مروان نے ان سے کہا کیا تم نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ منع کیا ہے آپ نے پانی میں پھونکنے سے، حضرت ابوسعید خدری نے کہا ہاں ! ایک شخص بولا یا رسول اللہ ﷺ میں ایک سانس میں سیر نہیں ہوتا تو آپ نے فرمایا پیالے کو اپنے منہ سے جدا کرکے سانس لے لیا کر پھر وہ شخص بولا میں پانی میں کوڑا دیکھوں تو کیا کروں آپ ﷺ نے فرمایا اس کو بہادے۔ امام مالک کو پہنچا کہ عمر بن خطاب اور علی بن ابی طالب اور عثمان بن عفان کھڑے ہو کر پانی پیتے تھے۔
کھڑے ہو کر پانی پینے کا بیان
ابن شہاب سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ (رض) اور سعد بن ابی وقاص کھڑے ہو کر پانی پینے میں کچھ قباحت نہیں جانتے تھے۔
کھڑے ہو کر پانی پینے کا بیان
ابو جعفر قاری نے دیکھا کہ عبداللہ بن عمر (رض) کھڑے کر پانی پیتے تھے۔
کھڑے ہو کر پانی پینے کا بیان
عبداللہ بن زبیر (رض) کھڑے ہو کر پانی پیتے تھے۔
پانی یا شربت پلانا شروع کرنا داہنی طرف سے۔
انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کے پاس دودھ آیا جس میں کنوئیں کا پانی ملا ہوا تھا اور داہنی طرف آپ ﷺ کے بدوی تھا اور بائیں طرف ابوبکر (رض) تھے تو آپ ﷺ نے پی کر اعرابی کو دیا اور کہا پہلے داہنی طرف والے کو دو پھر جو اس سے ملا ہوا ہے پھر جو اس سے ملا ہوا ہے۔
پانی یا شربت پلانا شروع کرنا داہنی طرف سے۔
سہل بن سعد سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس دودھ آیا آپ ﷺ نے پیا آپ ﷺ کے داہنی طرف ایک لڑکا تھا اور بائیں طرف بوڑھے بوڑھے لوگ تھے آپ ﷺ نے لڑکے سے فرمایا اگر تو اجازت دے تو پہلے میں ان لوگوں کو دے دوں ؟ جو بائیں طرف تھے، لڑکے نے کہا نہیں ! اللہ کی قسم یا رسول اللہ ﷺ میں اپنا حصہ آپ ﷺ کے جو ٹھے میں سے کسی کو دینا نہیں چاہتا تو رسول اللہ ﷺ نے اسی لڑکے کو دے دیا۔
کھانے پینے کی مختلف احادیث کا بیان
انس بن مالک سے روایت ہے کہ ابوطلحہ نے ام سلیم سے : کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی آواز سنی جو بھوک کی وجہ سے نہیں نکلتی تھی۔ تو تیرے پاس کوئی چیز ہے کھانے کی ام سلیم نے کچھ روٹیاں جو کی نکالیں اور ایک کپڑے میں لپیٹ کر میری بغل میں دبا دیں اور کچھ کپڑا مجھے اڑھا دیا پھر میں رسول اللہ ﷺ کے پاس اس کو لے کر آگیا، آپ ﷺ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ بہت سے آپ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے میں کھڑا ہو رہا آپ ﷺ نے خود پوچھا کیا تجھ کو ابا طلحہ نے بھیجا ہے ؟ میں نے کہا ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا کھانے کے واسطے ؟ میں نے کہا ہاں ! رسول اللہ ﷺ نے اپنے سب ساتھیوں کو فرمایا سب اٹھو ! سب اٹھ کر چلے، میں سب کے آگے آگیا اور ابوطلحہ کو جا کر خبر کی، ابوطلحہ نے ام سلیم سے کہا رسول اللہ ﷺ لوگوں کو ساتھ لئے ہوئے آتے ہیں اور ہمارے پاس اس قدر کھانا نہیں ہے جو سب کو کھلائیں ام سلیم نے کہا اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے ابوطلحہ نکلے اور رسول اللہ ﷺ سے آکر ملے یہاں تک کہ ابوطلحہ اور رسول اللہ ﷺ دونوں مل کر آئے آپ ﷺ نے فرمایا اے ام سلیم جو کچھ تیرے پاس ہو لے آ ! ام سلیم وہی روٹیاں لے آئیں آپ ﷺ نے ان کو ٹکڑے ٹکڑے کرایا پھر ام سلیم نے ایک کپی گھی کی اس پر نچوڑ دی وہ ملیدہ بن گیا اس کے بعد جو اللہ جل جلالہ کو منظور تھا وہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا پھر آپ ﷺ نے فرمایا دس آدمیوں کو بلاؤ انہوں نے دس آدمیوں کو بلایا وہ سب کھا کر سیر ہو کر چلے گئے پھر آپ ﷺ نے فرمایا دس آدمیوں کو بلاؤ وہ بھی آئے اور سیر ہو کر چلے گئے پھر آپ ﷺ نے فرمایا دس آدمیوں کو بلاؤ وہ بھی آئے اور سیر ہو کر چلے گئے پھر آپ ﷺ نے فرمایا دس کو اور بلاؤ یہاں تک کہ جتنے لوگ آئے ستر (70) آدمی تھے یا اسی (80) سب سیر ہوگئے۔
کھانے پینے کی مختلف احادیث کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے دو شخصوں کا کھانا کفایت کرتا ہے تین آدمیوں کو اور تین کا کھانا چار کو کفایت کرتا ہے۔
کھانے پینے کی مختلف احادیث کا بیان
جابر بن عبداللہ اسلمی سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے بند کر دروازے کو اور منہ باندھا کرو مشک کا اور بند رکھا کرو برتن کو اور بجھا دیا کرو چراغ کو کہ شیطان دروازہ کو نہیں کھولتا اور ڈاٹ کو نہیں نکالتا اور برتن نہیں کھولتا اور چوہا گھر والوں کو جلا دیتا ہے۔
کھانے پینے کی مختلف احادیث کا بیان
ابی شریح الکعبی سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جو ایمان لایا ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر تو اسے چاہئے نیک بات بولا کرے یا چپ رہے اور جو ایمان لایا ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر تو اسے چاہئے اپنے ہمسایہ (یعنی پڑوسی) کی خاطر داری کیا کرے اور جو ایمان لایا ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر اس کو چاہئے کہ اپنے مہمان کی آؤ بھگت کرے ایک رات دن تک مہمانی اچھے طور سے کرے اور تین رات دن تک جو کچھ خاطر ہو کھلائے اور زیادہ اس سے ثواب ہے اور مہمان کو لائق نہیں کہ بہت ٹھہرے میزبان کے پاس کہ تکلیف دے اس کو۔
کھانے پینے کی مختلف احادیث کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص راستہ میں جا رہا تھا اس کو بہت شدت سے پیاس لگی تو اس نے ایک کنواں دیکھا اس میں اتر کر پانی پیا جب کنوئیں سے نکلا تو دیکھا ایک کتا ہانپ رہا ہے اور پیاس کے مارے کیچڑ چاٹ رہا ہے، اس نے سوچا اس کا بھی پیاس کی وجہ سے میری طرح حال ہوگا، پھر اس نے کنوئیں میں اتر کر اپنے موزے میں پانی بھرا اور منہ میں اس کو دبا کر اوپر چڑھا اور کتے کو پانی پلایا اللہ جل جلالہ اس سے خوش ہوگیا اور اس کو بخش دیا۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم کو جانوروں کے پانی پلانے میں بھی ثواب ہے آپ ﷺ نے فرمایا کیوں نہیں ہر جاندار کے جگر میں ثواب ہے۔
کھانے پینے کی مختلف احادیث کا بیان
جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر بھیجا ساحل دریا کی طرف اور ان پر حاکم مقر کیا ابوعیبدہ بن جراح کو۔ اس لشکر میں تین سو آدمی تھے میں بھی ان میں شریک تھا راہ میں کھانا ختم ہوچکا ابوعبیدہ نے حکم کیا کہ جس قدر کھانا باقی ہے اس کو اکٹھا کرو سب اکٹھا کیا گیا تو دو ظرف کھجور کے ہوئے ابوعبیدہ اس میں سے ہر روز ہم کو تھوڑا تھوڑ کھانا دیا کرتے تھے یہاں تک کہ ایک کھجور ہمارے حصہ میں آنے لگی پھر وہ بھی تمام ہوگئی وہب بن کیسان کہتے ہیں میں نے جابر سے پوچھا ایک ایک کھجور میں تمہارا کیا ہوتا تھا ؟ انہوں نے کہا جب وہ بھی نہ رہی تو قدر معلوم ہوئی۔ دریا کے کنارے پر ہم نے ایک مچھلی پڑی پائی پہاڑ کے برابر سارا لشکر اس سے اٹھارہ دن رات تک کھاتا رہا پھر ابوعیبدہ نے حکم کیا اس مچھلی کی ہڈیاں کھڑی کرنے کا دو ہڈیاں کھڑی کر کے رکھی گئیں تو ان کے نیچے سے اونٹ چلا گیا اور ان سے نہ لگا۔
کھانے پینے کی مختلف احادیث کا بیان
عمر بن سعد بن معاذ کی دادی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اے مسلمان عورتو ! نہ ذلیل کرے کوئی تم میں سے اپنے ہمسائے کو اگرچہ وہ ایک کھر جلا ہوا بکری کا بھیجے۔
کھانے پینے کی مختلف احادیث کا بیان
عبداللہ بن ابی بکر سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے تباہ کرے اللہ یہود کو حرام ہوا ان پر چربی کا کھانا تو انہوں نے اس کو بیچ کر اس کے دام کھائے۔ امام مالک کو پہنچا کہ حضرت عیسیٰ فرماتے تھے کہ اے بنی اسرائیل تم پانی پیا کرو اور ساگ پات جو کی روٹی کھایا کرو اور گیہوں کی روٹی نہ کھاؤ اس کا شکر ادا نہ کر سکوگے۔ امام مالک کو پہنچا کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں آئے وہاں ابوبکر صدیق اور عمر بن خطاب کو پایا ان سے پوچھا تم کیسے آئے انہوں نے کہا بھوک کی وجہ سے آپ ﷺ نے فرمایا میں بھی اسی سبب سے نکلا پھر تینوں آدمی ابوالہیثم ابن تیہان انصاری کے پاس گئے انہوں نے جو کی روٹی پکانے کا حکم کیا اور ایک بکری ذبح کرنے پر مستعد ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا دودھ والی کو چھوڑ دے انہوں نے دوسری بکری ذبح کی اور میٹھا پانی مشک میں بھر کر درخت سے لٹکا دیا پھر کھانا آیا تو سب نے کھایا اور وہی پانی پیا تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہی نعیم ہے جس کے بارے میں اس روز تم پوچھے جاؤ گے۔
کھانے پینے کی مختلف احادیث کا بیان
یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) روٹی گھی سے لگا کر کھا رہے تھے ایک بدو آیا آپ نے اس کے بلایا وہ بھی کھانے لگا اور روٹی کے ساتھ جو گھی کا میل کچیل پیالے میں لگ رہا تھا وہ بھی کھانے لگا حضرت عمرب نے فرمایا بڑا ندیدہ ہے اس نے کہا قسم اللہ کی میں نے اتنی مدت سے گھی نہیں کھایا نہ اس کے ساتھ کھاتے دیکھا حضرت عمر (رض) نے کہا میں بھی گھی نہ کھاؤں گا جب تک کہ لوگوں کی حالت پہلے کی سی نہ ہوجائے۔
کھانے پینے کی مختلف احادیث کا بیان
حضرت انس بن مالک (رض) روایت ہے کہ میں نے دیکھا حضرت عمر کے سامنے ایک صاع کھجور کا ڈالا جاتا تھا وہ اس کو کھاتے تھے یہاں تک کہ خراب اور سوکھی کھجور بھی کھالیتے تھے اور اس وقت آپ امیرالمؤمنین تھے۔
کھانے پینے سے متعلق مختلف احادیث کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) سے ٹڈی کے بارے میں (حلال ہے یا حرام) پوچھا گیا تو کہا حضرت عمر (رض) نے میں چاہتا ہوں کہ میرے پاس ایک زنبیل ہوتی ٹڈیوں کی کہ میں ان کو کھایا کرتا۔
کھانے پینے کی مختلف احادیث کا بیان
حمید بن مالک سے روایت ہے کہ میں بیٹھا ہوا تھا ابوہریرہ (رض) کے پاس ان کی زمین میں جو عقیق میں تھی اس کے پاس کچھ لوگ مدینہ کے آئے جانوروں پر سوار ہو کر وہیں اترے حمید نے کہا کہ ابوہریرہ (رض) نے مجھ سے کہا میری ماں کے پاس جاؤ اور میرا سلام ان سے کہو اور کچھ کھانا ہم کو کھلاؤ حمید نے کہا انہوں نے تین روٹیاں اور کچھ تیل زیتوں کا اور کچھ نمک دیا اور میرے سر پر لادھ دیا، میں ابوہریرہ (رض) کے پاس لایا اور ان کے سامنے رکھ دیا ابوہریرہ (رض) نے دیکھ کر کہا اللہ اکبر اور کہا شکر ہے اس اللہ کا جس نے ہم کو سیر کیا روٹی سے اس سے پہلے ہمارا یہ حال تھا کہ سوائے کھجور کے اور پانی کے کچھ میسر نہیں تھا وہ کھانا ان لوگوں کو پورا نہ ہوا جب وہ چلے گئے تو ابوہریرہ (رض) نے مجھ سے کہا اے بیٹے میرے بھائی کے اچھی طرح رکھ بکریوں کو اور پونچھتا رہ ناک ان کی اور صاف کر جگہ ان کی اور نماز پڑھ اسی جگہ ایک کونے میں کیونکہ وہ بہشت کے جانوروں میں سے ہیں قسم اللہ کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ایک زمانہ قریب ہے ایسے لوگوں پر آئے گا کہ اس وقت ایک چھوٹا سا گلہ بکریوں کا آدمی کو زیادہ پسند ہوگا مروان کے گھر سے۔
کھانے پینے کی مختلف احادیث کا بیان
ابو نعیم وہب بن کیسان سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کھانا آیا اور آپ ﷺ کے ساتھ آپ ﷺ کے ربیب عمر بن ابی سلمہ تھے رسول اللہ ﷺ نے ان سے کہا کہ اپنے سامنے سے کھا بسم اللہ کہہ کر۔
کھانے پینے کی مختلف احادیث کا بیان
یحییٰ بن سعید نے کہا میں نے سنا قاسم بن محمد کہتے تھے کہ ایک شخص آیا عبداللہ بن عباس کے پاس اور کہا میرے پاس ایک یتیم لڑکا ہے اس کے اونٹ ہیں کیا میں دودھ ان کا پیوں ابن عباس نے کہا کہ اگر تو اس کے گمے ہوئے اونٹ ڈھونڈتا ہے اور خارشی اونٹ میں دوا لگاتا ہے اور ان کا حوض لیپتا پوتتا ہے اور ان کو پانی کے دن پانی پلاتا ہے تو دودھ ان کا پی مگر اس طرح نہیں کہ بچے کے لئے نہ بچے اور نسل کو ضرر پہنچے یا اس اونٹنی کو ضرر پہنچے۔
کھانے پینے کی مختلف احادیث کا بیان
عروہ بن زبیر کے سامنے جب کوئی کھانے پینے کی چیز آتی یہاں تک کہ دوا بھی تو اس کو کھاتے پیتے اور کہتے سب خوبیاں اسی پروردگار کو لائق ہیں جس نے ہم کو ہدایت کی اور کھلایا اور پلایا اور نعمتیں عطا فرمائیں وہ اللہ بڑا ہے اے پروردگار تیری نعمت اس وقت آئی جب ہم سراسر برائی میں مصروف تھے ہم نے صبح کی اور شام کی اس نعمت کی وجہ سے اچھی طرح، ہم چاہتے ہیں تو پورا کرے اس نعمت کو اور ہمیں شکر کی توفیق دے سوائے تیری بہتری کے کہیں بہتری نہیں ہے کوئی معبود برحق نہیں سوائے تیرے اے پروردگار نیکوں کے اور پالنے والے سارے جہاں کے سب خوبیاں اللہ کو زیبا ہیں کوئی سچا معبود نہیں سوائے اس کے جو چاہتا ہے اللہ وہی ہوتا ہے کسی میں طاقت نہیں سوائے اللہ کے یا اللہ برکت دے ہماری روزی میں اور بچا ہم کو دوزخ کے عذاب سے۔
گوشت کھانے کا بیان
حضرت عمر (رض) نے کہا بچو تم گوشت سے کیونکہ گوشت کی طلب ہوجاتی ہے جیسے شراب پینے سے اس کی طلب ہوجاتی ہے۔
گوشت کھانے کا بیان
یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ حضرت عمربن خطاب نے جابر بن عبداللہ انصاری کو دیکھا کہ ان کے ساتھ ایک بوجھ تھا گوشت کا حضرت عمر (رض) نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ اے امیر المومنین ہم کو خواہش ہوئی گوشت کھانے کی تو ایک درہم کا گوشت خریدا حضرت عمر (رض) نے کہا کیا تم میں سے کوئی یہ نہیں چاہتا کہ اپنے پیٹ کو مارے اور ہمسائے کو کھلائے یا چچا کے بیٹے کو کھلائے کہاں بھلا دیا تم نے اس آیت کو یعنی اٹھالیئے تم نے اپنے مزے دنیا کی زندگی میں اور خوب فائدہ اٹھائے تو آج کے دن چکھو ذلت کا عذاب آخر آیت تک۔
انگوٹھی پہننے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک انگوٹھی سونے کی پہنا کرتے تھے ایک دن آپ ﷺ نے کھڑے ہو کر اسے پھینک دیا اور فرمایا اب کبھی اس کو نہ پہنوں گا لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں
انگوٹھی پہننے کا بیان
صدقہ بن یسار نے سعید بن مسیب سے پوچھا انگوٹھی پہننے کی بابت انہوں نے کہا پہن ! اور لوگوں سے کہہ دے میں نے تجھے پہننے کو کہا ہے۔
جانوروں کے گلے سے پٹے اور گھنٹے نکالنے کا بیان
عباد بن تمیم سے روایت ہے کہ ابوبشیر انصاری نے خبر دی ان کو کہ وہ ساتھ تھے رسول اللہ ﷺ کے کسی سفر میں تو رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کے ہاتھ سے کہلا بھیجا اور لوگ سو رہے تھے کہ نہ باقی رہے کسی اونٹ کی گردن میں تانت کا گنڈا یا کوئی گنڈا مگر یہ کہ کاٹ ڈالا جائے۔
جس کی نظر لگ جائے اس کو وضو کرانے کا بیان
ابو امامہ بن سہل بن حنیف کہتے تھے میرے باپ نے غسل کیا خرار میں تو انہوں نے اپنا جبہ اتارا اور عامر بن ربیعہ دیکھ رہے تھے اور سہل خوش رنگ تھے عامر بن ربیعہ نے دیکھ کر کہا میں نے تو آپ سا کوئی آدمی نہیں دیکھا اور نہ کسی بکر عورت کا پوست اسی وقت سہل کو بخار آنے لگا اور سخت بخار آیا تو رسول اللہ ﷺ کے پاس کوئی شخص آیا اور بیان کیا کہ سہل کو بخار آگیا ہے اب وہ آپ کے ساتھ نہ جائیں گے یا رسول اللہ ﷺ ، تو رسول اللہ ﷺ سہل کے پاس آئے سہل نے عامر بن ربیعہ کا کہنا بیان کیا آپ نے سن کر فرمایا کیا مار ڈالے گا ایک تم میں سے اپنے بھائی کو (اور عامر کو کہا) کیوں تو نے بارک اللہ نہیں کہا (یعنی برکت دے اللہ جل جلالہ، یا ماشاء اللہ لاقوۃ الا باللہ جیسے دوسری روایت میں ہے) نظر لگنا سچ ہے سہل کے لئے وضو کر۔ پھر عامر نے سہل کے واسطے وضو کیا (دوسری حدیث میں اس کا بیان آتا ہے) بعد اس کے سہل اچھے ہوگئے اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ گئے۔
جس کی نظر لگ جائے اس کو وضو کرانے کا بیان
ابوامامہ بن سہل بن حنیف سے روایت ہے کہ عامر بن ربیعہ نے سہل بن حنیف کو نہاتے ہوئے دیکھ لیا تو کہا میں نے آپ کا سا کوئی آدمی نہیں دیکھا نہ کسی پردہ نشین بالکل باہر نہ نکلنے والی عورت کی ایسی کھال دیکھی یہ کہتے ہی سہل اپنی جگہ سے گرپڑے لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے آکر بیان کیا اور کہا یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ کچھ سہل بن حنیف کی خبر بھی لیتے ہیں قسم اللہ کی وہ اپنا سر بھی نہیں اٹھاتے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمہاری دانست میں کس نے اس کو نظر لگائی انہوں نے کہا عامر بن ربیعہ نے آپ ﷺ نے عامر بن ربیعہ کو بلایا اور اس پر غصے ہوئے اور فرمایا کیوں قتل کرنا ہے ایک تم میں سے اپنے بھائی کو تو نے بارک اللہ کیوں نہ کہا اب غسل کر اس کے واسطے عامر نے اپنے منہ اور ہاتھ اور کہنیاں اور گٹھنے اور پاؤں کے کنارے اور تہ بند کے نیچے کا بدن پانی سے دھو کر اس پانی کو ایک برتن میں جمع کیا وہ پانی سہل پر ڈالا گیا سہل اچھے ہوگئے اور لوگوں کے ساتھ چلے۔
نظر کے منتر کا بیان
حمید بن قیس مکی سے روایت ہے کہ جعفر بن ابی طالب کے دو لڑکے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے آپ نے ان کی دایہ سے کہا کیا سبب ہے یہ لڑکے دبلے ہیں وہ بولی یا رسول اللہ ﷺ ان کو نظر لگ جاتی ہے اور ہم نے منتر اس واسطے نہ کیا کہ معلوم نہیں آپ ان کو پسند کرتے ہیں یا نہیں۔ آپ نے فرمایا منتر کرو ان کے واسطے کیونکہ اگر کوئی چیز تقدیر سے آگے بڑھتی تو نظر بڑھتی۔
نظر کے منتر کا بیان
عروہ بن زبیر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ بی بی ام سلمہ کے مکان میں گئے اور گھر میں ایک لڑکا رو رہا تھا لوگوں نے کہا اس کو نظر لگ گئی ہے آپ ﷺ نے فرمایا منتر کیوں نہیں کرتے اس کے لئے۔
بیمار کے ثواب کا بیان
عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب بندہ بیمار ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف دو فرشتے بھیجتا ہے اور فرماتا ہے کہ دیکھتے رہو وہ کیا کہتا ہے ان لوگوں سے جو اس کی بیمار پرسی کو آتے ہیں اگر وہ ان کے سامنے اللہ جل جلالہ کی تعریف اور ستائش کرتا ہے تو وہ دونوں فرشتے اوپر چڑھ جاتے ہیں اللہ جل جلالہ اسے خوب جانتا ہے مگر پوچھتا ہے بعد اس کے، فرماتا ہے اگر میں اپنے بندے کو اپنے پاس بلالوں گا تو اس کو جنت میں داخل کروں گا اور جو شفا دوں گا تو پہلے سے اس کو زیادہ گوشت اور خون عنایت کروں گا اور اس کے گناہوں کو معاف کر دوں گا۔
بیمار کے ثواب کا بیان
حضرت ام المومنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ مومن کو کوئی رنج یا مصیبت لاحق نہیں ہوتی مگر یہ کہ اس کے گناہ معاف کئے جاتے ہیں یہاں تک کہ کانٹا بھی اگر لگے تو اس کے گناہ معاف کئے جاتے ہیں یزید نے کہا مجھے یہ یاد نہیں کہ عروہ نے قص اور کفر میں سے کونسا لفظ استعمال کیا تھا۔
بیمار کے ثواب کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ جس شخص کے ساتھ اللہ جل جلالہ بہتری کرنا چاہتا ہے اس پر مصبتیں ڈالتا ہے۔
بیمار کے ثواب کا بیان
یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ ایک شخص مرگیا رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک شخص بولا واہ کیا اچھی موت ہوئی نہ کچھ بیماری ہوئی نہ کچھ آپ ﷺ نے فرمایا بھلا یہ کیا کہتا ہے تجھے کیا معلوم ہے کہ اگر جل جلالہ اس کو کسی بیماری میں مبتلا کرتا تو اس کے گناہوں کو معاف کرتا ہے۔
بیماری میں تعویذ منتر کرنے کا بیان
عثمان بن ابی عاص (رض) سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے ان کے ایسا درد ہوتا تھا جس سے قریب ہلاکت کے تھے آپ ﷺ نے فرمایا داہنا ہاتھ اپنے درد کے مقام پر سات بار پھیر اور کہہ " اعوذ بعزۃ اللہ وقدرتہ من شر ما اجد " عثمان کہتے ہیں میں نے یہی کہا اللہ نے میرا درد دور کردیا پھر میں ہمیشہ اپنے گھر والوں کو اور دوسرے لوگوں کو اس کا حکم دیا کرتا۔
بیماری میں تعویذ منتر کرنے کا بیان
حضرت ام المومنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب بیمار ہوتے تو قل ہو اللہ احدا اور قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذبرب الناس پڑھ کر اپنے اوپر پھونکتے حضرت عائشہ (رض) نے کہا کہ جب آپ ﷺ بیمار ہوئے تو میں ان سورتوں کو پڑھ کر آپ ﷺ کا داہنا ہاتھ آپ ﷺ کے جسم مبارک پر پھیرتی برکت کے واسطے
بیماری میں تعویذ منتر کرنے کا بیان
عمرہ بنت عبدالرحمن (رض) روایت ہے کہ ابوبکر (رض) حضرت عائشہ (رض) کے پاس آئے وہ بیمار تھیں اور ایک یہودی عورت ان پر پڑھ کر پھونک رہی تھی حضرت ابوبکر (رض) نے کہا کلام اللہ پڑھ کر پھونک۔
بیما کے علاج کا بیان
زید بن اسلم سے روایت ہے کہ ایک شخص کو رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں زخم لگا اور خون وہاں آکر بھر گیا تو اس شخص نے دو شخصوں کو بلایا بنی انمار میں سے ان دونوں نے آکر دیکھا رسول اللہ ﷺ نے ان سے کہا کہ تم دونوں میں سے کون طب زیادہ جانتا ہے وہ بولے یا رسول اللہ ﷺ طب میں بھی کچھ فائدہ ہے آپ ﷺ نے فرمایا دوا بھی اسی نے اتاری ہے جس نے بیماری اتاری ہے۔
بیما کے علاج کا بیان
یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ سعد بن زرارہ نے داغ لیا رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں خناق کی بیماری میں تو مرگئے۔
بیما کے علاج کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے داغ لیا لقوہ میں اور متنر کیا بچھو کا
بخار میں پانی سے غسل کرنا۔
فاطمہ بنت منذر سے روایت ہے کہ اسماء بنت ابوبکر (رض) کے پاس جب کوئی عورت آتی جو بخار میں مبتلا ہوتی تو پانی منگا کر اس کے گریبان میں ڈالتیں اور کہتیں کہ رسول اللہ حکم دیتے تھے بخار کو ٹھنڈا کرنے کا پانی سے۔
بخار میں پانی سے غسل کرنا۔
عروہ بن زبیر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بخار جہنم کا جوش ہے اس کو ٹھنڈا کرو پانی سے ،۔
بیمار پرسی اور فال بد کا بیان
جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی تم میں سے بیمار کو دیکھنے جاتا ہے تو گھس جاتا ہے پروردگار کی رحمت میں پھر جب وہاں بیٹھتا ہے تو وہ رحمت میں اس شخص کے اندر بیٹھ جاتی ہے یا مثل اس کے کچھ فرمایا۔ ابن عطیہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں ہے عدوی اور نہ صفر کا مہینہ لیکن بیماری اونٹ تندرست اونٹ کے پاس نہ اتارا جائے البتہ جس شخص کا اونٹ اچھا ہو اس کو اختیار ہے جہاں چاہے اترے لوگوں نے پوچھا اس کا کیا سبب ہے یا رسول اللہ ﷺ ؟ آپ ﷺ نے فرمایا مرض سے نفرت ہوتی ہے یا تکلیف ہوتی ہے۔
بالوں کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مونچھوں کے مونڈنے اور داڑھیوں کے چھوڑ دینے ( بڑھانے) کا حکم دیا۔
بالوں کا بیان
حمید بن عبدالرحمن بن عوف سے روایت ہے کہ انہوں نے معاویہ بن ابوسفیان سے سنا جس سال انہوں نے حج کیا اور وہ منبر پر تھے انہوں نے ایک بالوں کا چٹلا اپنے خادم کے ہاتھ سے لیا اور کہتے تھے کہ اے مدینہ والو کہاں ہیں علماء تمہارے ؟ سنا میں نے رسول اللہ ﷺ سے منع کرتے تھے اس سے اور فرماتے تھے کہ تباہ ہوئے بنی اسرائیل جب ان کی عورتوں نے یہ کام شروع کیا۔
بالوں کا بیان
ابن شہاب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے بال پیشانی کی طرف لٹکاتے رہے ایک مدت تک بعد اس کے مانگ نکالنے لگے۔
بالوں کا بیان
عبداللہ بن عمر مکروہ جانتے تھے خصی کرنے کو اور کہتے تھے کہ خصیے رکھنے میں پیدائش کو پورا کرنا ہے۔
بالوں کا بیان
صفوان بن سلیم کو پہنچا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں یتیم کا پالنے والا خواہ یتیم کا عزیز ہو یا غیر، بہشت میں ایسے ہیں جیسے یہ دونوں انگلیان جبکہ پرہیزگاری کرے اور آپ ﷺ نے اشارہ کیا کلمہ کی انگلی اور بیچ کی انگی کی طرف۔
بالوں میں کنگھی کرنے کا بیان
یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ ابوقتادہ (رض) انصاری نے رسول اللہ ﷺ سے کہا میرے بال کندھوں تک ہیں ان میں کنگھی کروں آپ ﷺ نے فرمایا ہاں کنگھی کر اور بالوں کی عزت کر ابوقتادہ کبھی کبھی ایک دن میں دو بار تیل ڈالتے اس وجہ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ بالوں کی عزت کر۔
بالوں میں کنگھی کرنے کا بیان
عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں ایک شخص نجس بال سر اور داڑھی کے پریشان تھے آیا آپ ﷺ نے اس کو اشارہ کیا یعنی مسجد سے باہر جا اور بالوں کو درست کر کے آ وہ شخص درست کر کے پھر آیا آپ ﷺ نے فرمایا کیا یہ اچھا نہیں اس صورت سے کہ آئے کوئی تم میں سے پریشان سر جیسے شیطان۔
بالوں کے رنگنے کے بیان میں
ابو سلمہ بن عبدالرحمن (رض) روایت ہے کہ عبدالرحمن بن اسود ان کا ہم صحبت تھا اور اس کے سر اور داڑھی کے بال سب سفید تھے ایک روز صبح کو آیا اپنے بالوں پر سرخ خضاب لگا کر تو لوگوں نے کہا یہ اچھا ہے وہ بولا میری ماں حضرت عائشہ (رض) نے کہلا بھیجا نخیلہ اپنی لونڈی کے ہاتھ قسم دے کر کہ تو اپنے بالوں پر خضاب لگا اور بیان کیا کہ ابوبکر (رض) بھی خضاب لگایا کرتے تھے۔ کہا مالک نے سیاہ خضاب میں میں نے کوئی حدیث نہیں سنی اور سوائے سیاہ کے اور کوئی رنگ بہتر ہے اور خضاب نہ کرنا بہت بہتر ہے اگر اللہ چاہے اور لوگوں پر اس بارے میں کچھ تنگی نہیں ہے۔ کہا مالک نے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے خضاب نہیں لگایا اگر لگایا ہوتا تو حضرت عائشہ (رض) عبدالرحمن کے پاس یہی کہلا بھیجتیں۔
سوتے وقت شیطان سے پناہ مانگنے کا بیان
خالد بن ولید نے کہا رسول اللہ ﷺ سے کہ میں ڈرتا ہوں سوتے میں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ پڑھ لیا کر پناہ مانگتا ہوں میں اللہ کے پورے کلمات سے اس کے غصے اور عذاب سے اور اس کے بندوں کے شر سے اور شیطانوں کے وسوسوں سے اور شیطانوں کے میرے پاس آنے سے۔
سوتے وقت شیطان سے پناہ مانگنے کا بیان
یحییٰ بن سعید (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جس رات معراج ہوئی ایک دیو نظر آیا گویا اس کے ایک ہاتھ میں ایک شعلہ تھا آگ کا جب رسول اللہ ﷺ نگاہ کرتے تو اس کو دیکھتے آپ ﷺ کی طرف چلا آتا تھا حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا میں آپ ﷺ کو چند کلمات سکھا دوں کہ اگر آپ ﷺ ان کو فرمائیں تو ان کا شعلہ بجھ جائے آپ ﷺ نے فرمایا کیوں نہیں سکھاؤ جبرائل نے کہا کہو اعوذ بوجہ اللہ یعنی پناہ مانگتا ہوں میں اللہ کی منہ سے جو بڑا عزت والا ہے اور اس کے کلمات سے جو پورے ہیں جن سے کوئی نیک یا بد آگے نہیں بڑھ سکتا برائی سے اس چیز کی جو آسمان سے اترے اور جو اسمان کی طرف چڑھے اور برائی سے ان چیزوں کی جن کو پیدا کیا ہے اس نے زمین میں اور جو نکلے زمین سے اور رات دن کے فتنوں سے اور شب و روز کی آفتوں سے اور حادثوں سے مگر جو حادثہ بہتر ہے یا رحمن۔
سوتے وقت شیطان سے پناہ مانگنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی قبیلہ اسلم کا بولا میں رات کو نہیں سویا، آپ ﷺ نے پوچھا کیوں کس وجہ سے ؟ وہ بولا مجھے بچھو نے کاٹا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر تو شام کے وقت یہ کہہ لیتا اعوذب کلمات اللہ التامات من شرماخلق (یعنی پناہ مانگتا ہوں میں اللہ کے پورے کلمات سے ان چیزوں کے شر سے جن کو پیدا کیا اس نے) تو بچھو تجھے کچھ ضرر نہ دیتا۔
سوتے وقت شیطان سے پناہ مانگنے کا بیان
قعقاع بن حکیم سے روایت ہے کہ کعب الاحبار نے کہا اگر میں چند کلمات نہ پڑھا کرتا تو یہودی مجھے گدھا بنا دیتے لوگوں نے پوچھا وہ کلمات کیا ہیں کعب نے کہا یعنی میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے منہ سے جو بڑی عظمت ولا ہے نہیں ہے کوئی چیز عظمت میں اس سے بڑھ کر اور اس اللہ کے پورے کلمات سے جن سے کوئی نیک یا بد آگے نہیں بڑھ سکتا اور اس اللہ کے تمام اسمائے حسنی سے جن کو میں جانتا ہوں اور جن کو میں نہیں جانتا اس چیز کے شر سے جس کو اس نے بنایا پیدا کیا اور پھیلایا۔
خدا کے واسطے دوستی رکھنے والوں کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ جل جلالہ ارشاد فرمادے گا دن قیامت کے کہ کہاں ہیں وہ لوگ جو آپس میں دوستی رکھتے تھے میری بزرگی کے واسطے آج کے دن میں ان کو سائے میں رکھوں گا یہ وہ دن ہے جس دن کہیں سایہ نہیں سوائے میرے سائے کے۔
خدا کے واسطے دوستی رکھنے والوں کا بیان
ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سات شخص جن کو اللہ تعالیٰ اپنے سائے میں رکھے گا جس دن اس کے سائے کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا ایک تو منصف حاکم دوسرے وہ جوان جو جوانی کی امنگ ہی سے اللہ کی بندگی میں مشغول ہوں تیسرے وہ مرد جس کا دل مسجد میں لگا رہے جب کہ نکلے پھر آنے تک چوتھے وہ دو مرد جو اللہ کے واسطے آپس میں محبت رکھتے ہیں تو اسی پر جدا ہوتے ہیں تو اسی پر ملتے ہیں، پانچویں وہ مرد جس نے اللہ کو یاد کیا تنہائی میں دونوں آنکھوں سے اس کی آنسو بہہ نکلے، چھٹے وہ مرد جس کو شریف خوبصورت عورت نے بدفعلی کے لئے بلایا وہ بولا مجھے خوف ہے اللہ کا جو پالنے والا ہے سارے جہان کا ساتویں وہ مرد جس نے خیرات کی چھپا کر یہاں تک کہ جو داہنے ہاتھ سے دیا بائیں ہاتھ کو اس کی خبر نہیں ہوئی
خدا کے واسطے دوستی رکھنے والوں کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب اللہ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو پکارتا ہے جبرائیل کو اور یہ فرماتا ہے کہ بیشک اللہ نے فلانے کو دوست رکھا ہے سو تو بھی اس کو دوست رکھ تو جبرائیل اس سے محبت رکھتا ہے پھر پکار دیتا ہے جبرائیل آسمان والوں میں یعنی فرشتوں میں کہ بیشک اللہ نے فلانے کو دوست رکھا ہے سو تم بھی اس کو دوست رکھو تو آسمان والے اس سے محبت رکھتے ہیں پھر اس محبوب بندے کی زمین میں قبولیت اتاری جاتی ہے یعنی زمین کے نیک لوگ اس کو مقبول جانتے ہیں اور اس سے محبت رکھتے ہیں اور جب اللہ کسی بندہ سے ناراض وغصہ ہوتا ہے۔ (تو بھی اسی طرح کرتا ہے یعنی اس کا الٹ)
خدا کے واسطے دوستی رکھنے والوں کا بیان
ابو ادریس خولانی سے روایت ہے کہ میں دمشق کی مسجد میں گیا وہاں میں نے ایک نوجوان کو دیکھا جو سفید دندان تھا اس کے ساتھ والے لوگ جب کسی بات میں اختلاف کرتے ہیں تو جو وہ کہتا ہے اسی کی سند پکڑتے ہیں اور اس کے قول پر تھم جاتے ہیں میں نے پوچھا یہ نوجوان کون ہے لوگوں نے کہا معاذ بن جبل ہیں جب دوسرا روز ہوا تو میں بہت سویرے گیا دیکھا تو وہ مجھ سے آگے آئے ہیں اور نماز پڑھ رہے ہیں میں ٹھہرا رہا جب نماز پڑھ چکے تو میں ان کے سامنے آیا اور سلام کیا پھر میں نے کہا میں تم کو اللہ جل جلالہ کے واسطے چاہتا ہوں اور محبت کرتا ہوں انہوں نے کہا اللہ کے واسطے ؟ میں نے کہا ہاں اللہ کے واسطے انہوں نے پھر کہا اللہ کے واسطے ؟ میں کہا ہاں اللہ کے واسطے پھر انہوں نے میری چادر کا کونا پکڑ کے مجھے گھسیٹا اور کہا خوش ہوجا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے کہ اللہ جل جلالہ فرماتے ہے واجب ہوئی محبت میری ان لوگوں سے جو میرے واسطے دوستی اور محبت رکھتے ہیں اور میرے واسطے مل کر بیٹھتے ہیں اور میرے واسطے اپنی جان اور مال صرف کرتے ہیں اور میرے واسطے ایک دوسرے کی ملاقات کو جاتے ہیں۔ عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں میانہ روی اور نرمی اور اچھی سج دھج ایک جز ہے نبوت کے پچیس جزوں میں سے۔
خواب کا بیان
انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اچھا خواب نیک بخت آدمی کا نبوت کا ایک جز ہے چھیالس جزوں میں سے۔ ابوہریرہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے ایسا ہی روایت کیا ہے۔
خواب کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب فارغ ہوتے صبح کی نماز سے تو فرماتے کہ تم میں سے کسی نے رات کو کوئی خواب دیکھا ہے اور فرماتے کہ میرے بعد نبوت میں سے کچھ باقی نہ رہے گا سوائے اچھے خواب کے۔
خواب کا بیان
عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد نبوت میں سے کچھ نہ رہے گا مگر مبشرات، صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ مبشرات کیا ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اچھے خواب جس کو نیک بخت آدمی دیکھے یا دوسرا اس کے واسطے دیکھے یہ جز ہے نبوت کے چھیالیس جزوں میں سے۔
خواب کا بیان
ابو قتادہ بن ربعی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے کہ اچھا خواب اللہ کی طرف سے ہے اور برا خواب شیطان کی طرف سے تو جب کوئی تم میں سے برا خواب دیکھے تو چاہئے کہ بائیں طرف تھتکار دے تین بار اور پناہ مانگے اللہ سے اس کے شر سے پھر وہ اس کو نقصان نہ پہنچائے گا اگر اللہ چاہئے ابوسلمہ نے کہا پہلے میں خواب ایسے دیکھتا جن کا بوجھ میرے اوپر پہاڑ سے بھی زیادہ رہتا جب سے میں نے اس حدیث کو سنا ان کی کچھ پرواہ نہیں کرتا۔
خواب کا بیان
عروہ بن زبیر کہتے تھے کہ یہ جو اللہ جل جلالہ نے فرمایا ان کے واسطے خوشخبریاں ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اس سے مراد نیک خواب ہیں جس کو آدمی خود دیکھے یا کوئی اس کے واسطے دیکھے۔
چوسر یا شطرنج کا بیان
ابوموسی اشعری سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ جس نے چوسر کھیلا تو اس نے نافرمانی کی اور اللہ اور اس کے رسول کی۔
چوسر یا شطرنج کا بیان
حضرت ام المومنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ ان کے گھر میں کچھ لوگ رہا کرتے تھے آپ ﷺ نے سنا ان کے پاس شطرنج ہے تو کہلا بھیجا کہ شطرنج کو تم دور کردو میرے گھر سے نہیں تو میں تم کو اپنے گھر سے نکال دوں گا اور برا جانا اس کو۔
چوسر یا شطرنج کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) جب اپنے گھر والوں میں سے کسی کو شطرنج کھیلتے دیکھتے تو اس کو مارتے اور شطرنج کو توڑ ڈالتے کہا یحییٰ نے سنا میں نے مالک سے شطرنج کھلینا بہتر نہیں ہے نہ اس میں کوئی فائدہ بھلائی ہے اور مکروہ جانتے تھے اس کو اور سنا میں نے مالک سے کہتے تھے شطرنج کھلینا اور لغو بےہودہ کھیل سب مکروہ ہیں اور پڑھتے تھے اس آیت کو پس کیا ہے بعد حق کے سوائے گمراہی کے۔
سلام کا بیان
زید بن اسلم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سلام کرے سوار پیادے کو اور جب ایک آدمی قوم میں سے سلام کرے تو ان سب سے کافی ہوجائے گا۔
سلام کا بیان
محمد بن عمرو بن عطاء سے روایت ہے کہ میں بیٹھا ہوا تھا عبداللہ بن عباس کے پاس اتنے میں ایک شخص یمن کا رہنے والا آیا اور بولا السلام علیکم و (رح) وبرکاتہ اور اس پر بھی کچھ زیادہ کیا ابن عباس (رض) کی ان دنوں بینائی جاتی رہی تھی انہوں نے کہا یہ کون ہے لوگوں نے کہا یہ وہی یمن کا رہنے والا ہے جو آیا کرتا ہے آپ کے پاس اور پتہ دیا اس کا یہاں تک کہ ابن عباس پہچان گئے اس کو ابن عباس نے کہا سلام ختم ہوگیا وبرکاتہ پر اس سے زیادہ نہ بڑھانا چاہئے کہا یحییٰ نے سوال ہوا مالک سے مرد سلام کرے عورت پر انہوں نے کہا بڑھیا پر تو کچھ قباحت نہیں لیکن جوان پر اچھا نہیں۔
یہودی اور نصرانی کے سلام کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہودی جب تم کو سلام کرتے ہیں تو السلام علیکم کے بدلے السام علیکم کہتے ہیں تم بھی علیک کہا کرو۔
سلام کی مختلف احادیث کا بیان
ابو واقد لیثی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ بیٹھے تھے مسجد میں لوگ آپ ﷺ کے ساتھ تھے اتنے میں تین آدمی آئے دو تو آپ ﷺ کے پاس آئے اور ایک چلا گیا جب وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچے تو سلام کیا اور ایک شخص ان میں سے حلقے میں جگہ پا کر بیٹھ گیا اور ایک پیچھے بیٹھا رہا اور تیسرا تو پہلے ہی چلا گیا تھا جب آپ ﷺ فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا کیا میں تم کو ان تینوں آدمیوں کا حال نہ بتلاؤں ؟ ایک تو ان میں سے اللہ کے پاس آیا اللہ نے بھی اس کو جگہ دی ایک نے ان میں سے شرم کی اللہ نے بھی اس سے شرم کی اور ایک نے ان میں سے منہ پھیرلیا اللہ نے بھی اس طرف سے منہ پھیرلیا۔
سلام کی مختلف احادیث کا بیان
انس بن مالک نے سنا حضرت عمر (رض) سے ان کو ایک شخص نے سلام کیا حضرت عمر (رض) نے اس کا جواب دیا پھر اس سے مزاج پوچھا اس نے کہا شکر کرتا ہوں اللہ کا حضرت عمر (رض) نے کہا میرا یہی مطلب تھا۔
سلام کی مختلف احادیث کا بیان
طفیل بن ابی بن کعب عبداللہ بن عمر (رض) کے پاس آتے اور صبح صبح ان کے ساتھ بازار کو جاتے طفیل کہتے ہیں جب ہم بازار میں پہنچے تو عبداللہ بن عمر (رض) ہر ایک ردی ودی بیچنے والے پر اور ہر دکاندار پر اور ہر مسکین پر اور ہر کسی پر سلام کرتے ایک روز میں عبداللہ بن عمر (رض) کے پاس آیا انہوں نے مجھے بازار لے جانا چاہا میں نے کہا تم بازار میں جا کر کیا کرو گے نہ تم بیچنے والوں کے پاس ٹھہرتے ہو نہ کسی اسباب کو پوچھتے ہو اس سے یہیں بیٹھے رہو ہم تم باتیں کریں گے عبداللہ بن عمر نے کہا اے پیٹ والے بازار میں سلام کرنے کو جاتے ہیں جس سے ملاقات ہوتی ہے اس کو سلام کرتے ہیں۔
سلام کی مختلف احادیث کا بیان
یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ ایک شخص نے سلام کیا عبداللہ بن عمر (رض) کو تو کہا السلام علیکم و (رح) وبرکاتہ والغایات الرائحات عبداللہ بن عمر نے کہا وعلیک الفا اور اس طرح کہا جیسے کہ اس کو برا جانا۔ امام مالک کو پہنچا کہ جب کوئی آدمی ایسے گھر میں جائے جو خالی پڑا ہو تو کہے السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحیں یعنی سلامتی ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر۔
گھر میں جاتے وقت اذن لینے کا بیان
عطا بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا ایک شخص نے کیا اجازت مانگوں میں اپنی ماں سے گھر جاتے وقت ؟ آپ نے فرمایا ہاں وہ بولا میں تو اس کے ساتھ ایک گھر میں رہتا ہوں آپ ﷺ نے فرمایا اجازت لے کر جا وہ بولا میں تو اس کی خدمت کرتا ہوں آپ ﷺ نے فرمایا اجازت لے کر جا کیا تو چاہتا ہے کہ اس کو ننگا دیکھے وہ بولا نہیں آپ ﷺ نے فرمایا پس اجازت لے کر جا۔ ابوموسی اشعری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اجازت تین بار لینا چاہیے اگر اجازت ہو تو جاؤ نہیں تو لوٹ آؤ۔
گھر میں جاتے وقت اذن لینے کا بیان
ربیعہ بن سبی عبدالرحمن (رض) روایت ہے کہ انہوں نے بہت سے علماء سے سنا کہ ابوموسیٰ اشعری نے اجازت چاہی اندر آنے کی حضرت عمر کے مکان پر تین بار جب تینوں بار جواب نہ ملا تو وہ لوٹ گئے حضرت عمر نے ان کے پیچھے آدمی بھیجا جب وہ آئے تو ان سے کہا تم اندر کیوں نہ آئے ابوموسیٰ اشعری نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپ فرماتے تھے کہ اذن تین بار لینا چاہیے اگر اجازت ہو تو جاؤ نہیں تو لوٹ آؤ حضرت عمر نے کہا تمہارے سوا اور کسی نے یہ حدیث سنی ہے اس کو لے کر آؤ اگر نہ لاؤ گے تو میں تم کو سزا دوں گا ابوموسیٰ نکلے اور مسجد میں بہت سے آدمیوں کو بیٹھے دیکھا ایک مجلس میں جس کو مجلس انصار کہتے تھے اور کہا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپ فرماتے کہ اذن تین بار لینا چاہیے اگر اجازت ہو تو جاؤ نہیں تو لوٹ آؤ میں نے یہ حدیث حضرت عمر سے بیان کی انہوں نے کہا کہ اگر کسی اور نے یہ حدیث سنی ہو تو ان کو لے کر آؤ نہیں تو میں تم کو سزا دوں گا اگر تم میں سے کسی نے یہ حدیث سنی ہو تو میرے ساتھ چلے لوگ ابوسعید ابوموسیٰ کے ساتھ آئے اور حدیث حضرت عمر سے بیان کی حضرت عمر نے ابوموسیٰ سے کہا میں نے تم کو جھوٹا نہیں سمجھا لیکن میں ڈرا ایسا نہ ہو کہ لوگ آنحضرت پر باتیں جوڑ لیا کریں
چھینک کا جواب دینے کا بیان
محمد بن عمر بن حزم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص چھینکے تو اس کا جواب دو پھر اگر چھینکے تو جواب دو پھر چھینکے تو جھٹ کہہ دو تجھ زکام ہوگیا ؟ عبداللہ بن ابی بکر نے کہا معلوم نہیں کہ تیسری کے بعد آپ نے یہ کہا یا چوتھی کے بعد۔
چھینک کا جواب دینے کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کو جب چھینک آتی اور کوئی یرحمک اللہ کہتا تو وہ یرحمنا اللہ وایاکم و یغفرلنا و لکم کہتے یعنی اللہ ہم پر رحم کرے اور تم پر بھی اور ہم کو بخشے اور تم کو بھی۔
تصویروں اور مورتیوں کا بیان میں
رافع بن اسحاق سے جو مولیٰ ہیں شفا کے روایت ہے کہ میں اور عبداللہ بن ابی طلحہ مل کر ابوسعید خدری کے پاس گئے ان کے دیکنے کو وہ بیمار تھے ابوسعید نے کہا مجھ سے بیان کیا رسول اللہ ﷺ نے کہ فرشتے اس گھر میں نہیں جاتے جس میں تصویریں یا مورتیاں ہوں اسحاق کو شک ہے کہ ابوسعید نے ان دونوں میں سے کیا کہا ،۔
تصویروں اور مورتیوں کا بیان میں
عبیداللہ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ وہ ابوطلحہ انصاری کی عیادت کو گئے وہاں سہل بن حنیف کو بھی دیکھا ابوطلحہ نے ایک آدمی کو بلایا اور کہا میرے نیچے سے شطرنجی نکال لے سہل نے کہا کیوں ابوطلحہ نے کہا اس میں تصویروں کے بارے میں جو ارشاد فرمایا وہ ہے اگر نقشی ہو کپڑے وغیرہ پر تو کچھ قباحت نہیں ابوطلحہ نے کہا ہاں یہ سچ ہے مگر میری خوشی یہی ہے کہ ہر قسم کی تصویر سے پرہیز کرو۔
تصویروں اور مورتیوں کا بیان میں
حضرت ام المومنین عائشہ (رض) نے ایک تکیہ خریدا اس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں جب آپ ﷺ نے اس کو دیکھا تو آپ ﷺ حجرے کے دروازے پر کھڑے ہو رہے اور اندر نہ آئے آپ ﷺ کے چہرہ مبارک پر ناراضگی کے آثار معلوم ہوئے حضرت عائشہ (رض) نے کہا میں توبہ کرتی ہوں اللہ اور اس کے رسول سے میرا کیا گناہ ہے آپ ﷺ نے فرمایا یہ تکیہ کیسا ہے حضرت عائشہ (رض) نے کہا میں نے اس تکیے کو اس لئے خریدا ہے کہ آپ ﷺ اس پر بیٹھیں اس پر تکیہ لگائیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تصویر بنانے والے عذاب دیئے جائیں گے قیامت کے روز ان سے کہا جائے گا تم جان ڈالو ان صورتوں کو جن کو تم نے دنیا میں بنایا تھا پھر آپ ﷺ نے فرمایا جس گھر میں تصویریں ہوتی ہیں اس میں فرشتے نہیں آتے۔
گوہ کھانے کا بیان
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ میمونہ بنت حارث کے مکان میں گئے وہاں گوہ دیکھا سفید اور آپ ﷺ کے ساتھ عبداللہ بن عباس اور خالد بن ولید تھے آپ ﷺ نے پوچھا یہ گوشت کہاں سے آیا میمونہ نے کہا میری بہن ہزیلہ بنت حارث نے بھیجا تھا آپ ﷺ نے عبداللہ بن عباس اور خالد بن ولید سے کہا کھاؤ انہوں نے کہا آپ ﷺ نہیں کھاتے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا میرے پاس اللہ جل جلالہ کی طرف سے کوئی نہ کوئی آیا کرتے ہیں میمونہ نے کہا ہم آپ ﷺ کو دودھ پلادیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں، جب آپ ﷺ دودھ پی چکے تو پوچھا یہ کہاں سے آیا میمونہ نے کہا میری بہن ہزیلہ نے تحفہ بھیجا تھا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر تم اپنی لونڈی کو جس کے آزاد کرنے کے واسطے تم نے مجھ سے مشورہ کیا تھا اپنی بہن کو دے دو اور قرابت کی رعایت کرو وہ اس کی بکریاں چرایا کرے تو مناسب ہے اور بہتر ہے تیرے واسطے۔
گوہ کھانے کا بیان
خالد بن ولید بن مغیرہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ میمونہ کے گھر میں گئے وہاں ایک گوہ بھنا ہوا آیا رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف ہاتھ اٹھایا کھانے کو عورتوں نے کہا رسول اللہ ﷺ کو بتادو جس کا یہ گوشت ہے آپ ﷺ نے ہاتھ کھینچ لیا، میں نے کہا کیا حرام ہے یا رسول اللہ ﷺ ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں لیکن یہ میرے ملک میں نہیں ہوتا اس واسطے مجھے اس کے کھانے سے کراہت آتی ہے خالد نے کہا میں نے اس کو اپنی طرف کھیینچ کر کھایا اور رسول اللہ ﷺ دیکھ رہے تھے۔
گوہ کھانے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے پکار کر کہا یا رسول اللہ ﷺ آپ گوہ کے گوشت کے بارے میں کیا فرماتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہ میں اس کو کھاتا ہوں نہ حرام کہتا ہوں۔
کتوں کے حکم
سفیان بن زہیر سے روایت ہے کہ وہ لوگوں سے حدیث بیان کر رہے تھے مسجد نبوی کے دروازے پر انہوں نے کہا میں نے سنا رسول اللہ ﷺ سے آپ ﷺ فرماتے تھے جو شخص کتا پالے نہ کھیت کی حفاظت کے واسطے نہ بکریوں کی حفاظت کے واسطے تو ہر روز اس کے اعمال میں ایک قیراط کے برابر کمی و نقصان ہوا کرے گا، سائب نے سفیان سے کہا تم نے یہ رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں قسم ہے اس مسجد کے پروردگار کی۔
کتوں کے حکم
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو کتا پالے سوائے شکاری کتے کے یا کھیت کے کتے کے تو ہر روز اس کے عمل میں سے دو قیراط کے برابر کمی و نقصان ہوگا۔
کتوں کے حکم
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم کیا کتوں کے قتل کا۔
بکریوں کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بڑا کفر مشرق کی طرف ہے اور فخر اور تکبر گھوڑوں اور اونٹ والوں میں ہے جو بلند آواز رکھتے ہیں جنگل میں رہتے ہیں اور عاجزی اور تواضع بکری والوں میں ہے۔
بکریوں کا بیان
ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ قریب ہے کہ بہترین مال مسلمان کا چند بکریاں ہوں گی جن کو لے کر کسی پہاڑ کی چوٹی پر چلا جائے گا یا کسی وادی کے اندر بھاگے گا فتنوں سے اپنا دین بچانے کو۔
بکریوں کا بیان
ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ نہ دوہے کوئی کسی کے جانور کو بلا اس کی اجازت کے بھلا کوئی تم میں یہ چاہتا ہے کہ کوئی اس کے خزانہ کی کوٹھڑی میں آ کے اس کو توڑ کے اس کے کھانے کا غلہ نکال لے جائے سو ان کے جانور کے تھن تو ان کے کھانے کی دودھ کو حفاظت میں رکھتے ہیں یعنی تھن کوٹھڑی کی طرح حفاظت کے واسطے ہیں سو ہرگز نہ دوہے کوئی کسی کے جانور کو بدون اس کی اجازت کے۔ امام مالک کو پہنچا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ آپ نے بھی ؟ فرمایا کہ میں نے بھی۔
چوہا گھی میں گر پڑے تو یا کرنا چاہئے اور کھانا بھی آجائے اور نماز کا وقت بھی آجائے تو پہلے کھانا کھا لینا چاہئے۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر (رض) کے سامنے شام کا کھانا پیش کیا جاتا تو وہ امام کی قرأت سنا کرتے اپنے گھر میں اور کھانے میں جلدی نہ کرتے جب تک اچھے طور سے نہ کھالیتے۔
چوہا گھی میں گر پڑے تو یا کرنا چاہئے اور کھانا بھی آجائے اور نماز کا وقت بھی آجائے تو پہلے کھانا کھا لینا چاہئے۔
حضرت ام المومنین میمونہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے سوال ہوا کہ اگر چوہا گھی میں گرپڑے تو کیا کرنا چاہئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کو نکال ڈالو اور اس کے آس پاس کا گھی پھینک دو ۔
جس کی نحوست سے بچنا چاہیے۔
سہل بن سعد سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر نحوست ہوتی تو تین چیزوں میں ہوتی ایک گھوڑے میں دوسرے عورت میں تیسرے گھر میں۔ عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ نحوست تین چیزوں میں ہوتی ہے ایک گھر دوسرے عورت تیسرے گھوڑے میں۔
جس کی نحوست سے بچنا چاہیے۔
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ نحوست گھر، عورت اور گھوڑے میں ہوتی ہے
جس کی نحوست سے بچنا چاہیے۔
یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ ایک عورت آئی رسول اللہ کے پاس، بولی یا رسول اللہ ایک گھر تھا جس میں ہم رہتے ہیں ہماری گنتی بھی زیادہ تھی اور مال بھی تھا، پھر گنتی بھی کم ہوگئی یعنی لوگ مرگئے اور مال میں بھی نقصان ہوا آپ ﷺ نے فرمایا چھوڑ دے تو اس گھر کو جبکہ تو اس کو برا جانتی ہے۔
جو نام برے ہیں ان کا بیان
یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ اس اونٹی کا دودھ کون دوہے گا ؟ ایک شخص کھڑا ہوا، آپ ﷺ نے پوچھا تیرا کیا نام ہے ؟ وہ بولا مرہ آپ ﷺ نے فرمایا بیٹھ جا آپ نے اس کا نام اچھا نہ سمجھا، مرہ تلخ کو بھی کہتے ہیں پھر آپ نے فرمایا کون دوہے گا ؟ اس اونٹنی کو ایک شخص اور کھڑا ہوا آپ نے پوچھا تیرا نام کیا ہے وہ بولا حرب۔ آپ نے فرمایا بیٹھ جا، پھر آپ نے فرمایا کون دوہے گا ؟ اس اونٹنی کو ایک شخص اور کھڑا ہوا آپ نے پوچھا تیرا نام کیا ہے وہ بولا یعیش آپ نے فرمایا جا دوھ۔ یعیش نام آپ نے پسند کیا کیونکہ وہ عیش سے ہے آپ فال نیک بہت لیا کرتے تھے
جو نام برے ہیں ان کا بیان
یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ عمر نے ایک شخص سے پوچھا تیرا نام کیا ہے ؟ وہ بولا جمرہ (انگارہ) انہوں نے پوچھا باپ کا نام ؟ کہا ابن شہاب (شعلہ) ، پوچھا کس قبیلے سے ؟ کہا حرقہ سے جس کے معنے جنے کے ہیں، پوچھا کہاں رہتا ہے ؟ کہا حرۃ النار میں، پوچھا کون سی جگہ میں ؟ کہا ذات لظی میں، ان کے معنے بھی شعلے اور دہکتی آگ کے ہیں، حضرت عمر نے کہا جا اپنے لوگوں کی خبر لے وہ سب جل گئے راوی نے کہا جب وہ شخص گیا تو دیکھا یہی حال تھا جو حضرت عمر نے کہا تھا یعنی سب جل گئے تھے۔
پھپنے لگانا اور اس کی مزدوری کا بیان
انس بن مالک نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے پچھنے لگوائے ابوطیبہ کے ہاتھ سے پھر آپ ﷺ نے مزدوری میں ایک صاع کھجور کا دیا اور اس کے مالکوں کو حکم دیا کہ اس کے خراج میں کمی کردیں۔ امام مالک کو پہنچا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی دوا ایسی ہوتی جو بیماری تک پہنچ جاتی تو وہ پچھنے ہوتے
پھپنے لگانا اور اس کی مزدوری کا بیان
ابن محیصہ انصاری سے روایت ہے کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا حجام کی اجرت کو اپنے خرچ میں لانا کیسا ہے ؟ (کیونکہ ان کے غلام ابوطبیہ حجام تھے وہ چاہتے تھے اس کی کمائی کھائیں) آپ ﷺ نے منع کیا مگر یہ ممانعت تنزیہا ہے اکثر علماء کے نزدیک وہ ہمیشہ پوچھا کرتے تھے اور آنحضرت ﷺ سے اجازت مانگتے تھے یہاں تک کہ آپ ﷺ نے فرمایا اس کی کمائی اپنے اونٹوں اور غلاموں کی خوراک میں صرف کر۔
پورب کا بیان
عبداللہ بن عمر نے کہا کہ دیکھا میں نے رسول اللہ ﷺ کو اشارہ کرتے تھے مشرق کی طرف اور فرماتے تھے فتنہ اسی طرف سے ہے فتنہ اسی طرف سے ہے جہاں سے شیطان کی چوٹی نکلتی ہے۔ امام مالک کو پہنچا کہ حضرت عمر بن خطاب نے عر اق کو جانا چاہا تو کعت احبار نے کہا آپ وہاں نہ جائیے اے امیر المو میین کیونکہ اس ملک میں جادو کے دس حصوں میں سے نو حصے ہیں اور جتنے شریر اور خبیث جن میں وہاں موجود ہیں اور وہاں ایک بیماری ہے جو لا علاج ہے۔
سانپوں کے مارنے کا بیان اور سانپوں کا حال
ابو لبابہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع کیا ان سانپوں کے مارنے سے جو گھر میں ہیں
سانپوں کے مارنے کا بیان اور سانپوں کا حال
سائبہ مولا سائبہ جو مولا تھے حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع کیا ان سانپوں کے مارنے سے جو گھر میں ہوتے ہیں مگر ذی الطفیتین اور ابتر کو کہ وہ آنکھ کو اندھا کردیتے ہیں اور حمل گرا دیتے ہیں۔
سانپوں کے مارنے کا بیان اور سانپوں کا حال
ابو سائب سے مولیٰ ہشام بن زہرہ کے روایت ہے (کہتے ہیں) کہ میں ابوسعید خدری (رض) کے پاس گیا وہ نماز پڑھ رہے تھے میں بیٹھ گیا نماز سے فارغ ہونے کا انتظار کر رہا تھا اتنے میں، میں نے ان کے تخت کے تلے سرسراہٹ سنی، دیکھا تو سانپ ہے میں اس کے مارنے کو اٹھا ابوسعید نے اشارہ کیا بیٹھ جا اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں اشارہ کرنا درست ہے جب نماز سے فارغ ہوئے تو ایک کوٹھڑی کی طرف اشارہ کیا اور کہا اس کوٹھڑی کو دیکھتے ہو ؟ میں نے کہا ہاں ابوسعید خدری (رض) نے کہا اس کوٹھڑی میں ایک نوجوان رہتا تھا جس نے نئی شادی کی تھی وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جنگ خندق میں گیا پھر وہ یکایک آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ﷺ مجھے اجازت دیجیے میں نے شادی کی ہے آپ ﷺ نے اجازت دے دی اور فرمایا ہتھیار لے کر جا کیونکہ مجھے بنی قریضہ کا خوف ہے وہ نوجوان ہتھیار لے کر گیا جب گھر پہنچا تو بیوی کو دیکھا دروازہ پر کھڑی ہے اس نوجوان نے غیرت سے برچھا اس کے مارنے کو اٹھایا وہ بولی جلدی مت کر اپنے گھر میں جا کر دیکھ کہ اس میں کیا ہے وہ گھر میں گیا دیکھا تو ایک سانپ کنڈلی مارے ہوئے اس کے بچھونے پر بیٹھا ہوا ہے وہ نوجوان سانپ کو برچھی سے چھید کر نکلا اور برچھی کو گھر میں کھڑا کردیا وہ سانپ اس برچھی کی نوک میں پیچ کھاتا رہا اور نوجوان اسی وقت مرگیا معلوم نہیں سانپ پہلے مرا یا وہ نوجوان پہلے جب رسول اللہ ﷺ سے قصہ بیان کیا گیا تو آپ نے فرمایا مدینہ میں جن مسلمان ہوگئے ہیں۔ تو جب تم کسی سانپ کو دیکھو تو تین روز تک اسے آگاہ کیا کرو اگر بعد اس کے بھی نکلے تو اس کو مار ڈالو کیونکہ وہ شیطان ہے۔
سفر کی دعا کا بیان
امام مالک کو پہنچا کہ رسول اللہ ﷺ جب اپنا پاؤں رکاب میں رکھتے سفر کے قصہ سے تو فرماتے کہ اللہ کے نام سے سفر کرتا ہوں اے پروردگار تو رفیق ہے سفر میں اور خلیفہ ہے میرے اہل و عیال میں اے پروردگار نزدیک کر دے ہم کو زمین جہاں ہم جاتے ہیں اور آسان کر ہم پر سفر اے پروردگار پناہ مانگتا ہوں میں تجھ سے سفر کی تکلیف سے اور برے لو ٹنے اور برے حال اور مال کے خولہ بنت حکیم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص کسی منزل میں اترے اور کہے کہ پناہ مانگتے ہوں میں اللہ کے پورے کلمات سے ہر مخلوق کے شر سے تو اس کو کسی چیز سے نقصان نہ ہوگا کوچ کے وقت تک
اکیلے سفر کرنے کی ممانعت مرد اور عورت کے واسطے۔
عبداللہ بن عمر بن العاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اکیلا سفر کرنے والا شیطان ہے اور دو مل کر سفر کرنے والے دو شیطان ہیں اور تین جماعت ہے۔
اکیلے سفر کرنے کی ممانعت مرد اور عورت کے واسطے۔
سعید بن المسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ شیطان قصد کرتا ہے ایک دو پر جب آدمی ہوں تو ان پر قصد نہیں کرتا
اکیلے سفر کرنے کی ممانعت مرد اور عورت کے واسطے۔
ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو عورت ایمان لائے اللہ پر اور آخرت کے دن پر اس کو درست نہیں سفر کرنا ایک دن رات کا مگر اپنے محرم کے ساتھ
سفر کے احکام کا بیان
خالد بن معدان سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ جل جلالہ نرمی کرتا ہے اور نرمی کو پسند کرتا ہے اور خوش ہوتا ہے نرمی کرنے پر اور مدد کرتا ہے نرمی پر وہ جو نہیں کرتا سختی پر جب تم چڑھو ان بےزبان جانوروں پر تو اتارو ان کو ان کی منزلوں پر اگر زمین صاف ہو جہاں گھاس نہ ہو تو جلدی سے نکال لے جاؤ تاکہ اس میں گودار ہے اور لازم کرلو رات کا چلنا کیونکہ رات کے چلنے میں جیسے راہ کٹتی ہے ویسی دن کو نہیں کٹتی تو رات کو جب اترو تو راستے میں نہ اترو کیونکہ وہاں جانور آتے جاتے ہیں اور سانپ بھی رہا کرتے ہیں۔
سفر کے احکام کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سفر بھی ایک قسم کا عذاب ہے۔ روک دیتا ہے آدمی کو کھانے اور پینے اور سونے سے تو جب تم میں سے کوئی اپنے کام کیلئے سفر کرے اور وہ کام پورا ہوجائے تو جلدی اپنے گھر لوٹ آئے۔
غلام لونڈی کے ساتھ نرمی کرنا
ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے مملوک ( غلام لونڈی) کو کپڑا اور کھانا ملے گا موافق دستور کے اور کام اس سے نہ لیا جائے طاقت سے زیادہ۔ امام مالک کو پہنچا کہ حضرت عمر بن الخطاب ہر ہفتے کے روز مدینے کے آس پاس گاؤں میں جایا کرتے تھے جب کسی غلام کو ایسے کام میں مشغول پاتے جو اس کی طاقت سے زیادہ ہوتا تو کم کردیتے تھے۔
غلام لونڈی کے ساتھ نرمی کرنا
مالک بن ابی عامر اصبحی نے حضرت عثمان بن عفان سے سنا وہ خطبے میں فرماتے تھے کہ جو لونڈی کوئی ہنر نہ جانتی ہو اس کو مجبور مت کرو کمائی پر کیونکہ جب تم اس کو مجبور کرو گے کمائی پر تو وہ غلط کام (حرام کاری) سے کمائی گی اور نابالغ غلام کو کمائی پر مجبور مت کرو کیونکہ وہ جب مجبور ہوگا تو چوری کرے گا اور جب اللہ تمہیں اچھی طرح روزی دیتا ہے تو تم بھی ان کو محنت معاف کردو جیسے اللہ نے تمہیں معاف کیا ہے اور لازم کرو وہ کمائی جو حلال ہے
غلام لونڈی کی تربیت اور وضع کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ غلام جب اپنے مولیٰ کی خیر خواہی کرے اور اللہ کی عبادت بھی کرے تو اس کو دوہرا ثواب ہوگا۔
غلام لونڈی کی تربیت اور وضع کا بیان
امام مالک کو پہنچا کہ عبداللہ بن عمر کی ایک لونڈی تھی اس نے آزاد عورتوں کی وضع بنائی تھی حضرت عمر نے اس کو دیکھا اور اپنی صاحبزادی حضرت ام المومنین حفصہ کے پاس گئے اور کہا میں نے تیرے بھائی کی لونڈی کو دیکھا جو آزاد عورتوں کی وضع بنا کو لوگوں میں پھرتی ہے اور حضرت عمر نے اس کو برا جانا
بیعت کا بیان
عبداللہ بن دینار سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے کہا کہ جب ہم رسول اللہ ﷺ سے بیعت کرتے ماننے اور طاعت کرنے پر تو شفقت اور رحمت سے آپ ﷺ فرماتے کہ جہاں تک تم کو طاقت ہو۔
بیعت کا بیان
امیمہ بنت رقیقہ سے روایت ہے کہ اس نے کہا کہ میں رسول اللہ کے پاس آئی بہت سی عورتوں میں جو بیعت کرنے کو آئی تھیں دین اسلام پر ان عورتوں نے کہا یا رسول اللہ ہم آپ ﷺ سے بیعت کرتی ہیں اس بات پر کہ شریک نہ کریں گی ساتھ اللہ کے کسی چیز کو اور نہ چوری کریں گی اور نہ زنا کریں گی اور نہ اپنی اولاد کو ماریں گی اور نہ بہتان باندھیں گی اپنی اپنی طرف سے اسی پر اور نہ آپ ﷺ کی نافرمانی کریں گی شروع کے کام میں رسول اللہ ﷺ نے کمال شفقت اور محبت سے فرمایا جہاں تک تمہاری طاقت یا قدرت ہے
بیعت کا بیان
عبداللہ بن دینار سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے عبدالملک بن مروان کو لکھا بیعت نامہ اس مضمون سے بسم اللہ الرحمن الرحیم اللہ جل جلالہ کے بندے سلام ہو تجھ پر میں تعریف کرتا ہو اس اللہ کی جس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ہے اور اقرار کرتا ہوں تیری بات سننے اور اطاعت کرنے کا اللہ جل جلالہ کے حکم کے موافق اور اس کے رسول کی سنت کے موافق جہاں تک کہ مجھے قدرت ہے۔
بری بات چیت کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے اپنے بھائی کو کافر کہا تو دونوں میں سے ایک کافر ہوگیا۔
بری بات چیت کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تو سنے کسی کو یہ کہتے ہوئے کہ لوگ تباہ ہوگئے تو وہ سب سے زیادہ تباہ ہے
بری بات چیت کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی تم میں سے زمانے کو برا نہ کہے کیونکہ اللہ خود زمانہ ہے۔
بری بات چیت کا بیان
یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ حضرت عیسیٰ کے سامنے ایک سور آیا راہ میں، آپ نے فرمایا چلا جا سلامتی سے، لوگوں نے کہا آپ سور سے اس طرح فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا کے میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میری زبان کو بری بات چیت کی عادت نہ ہوجائے۔
بات سمجھ بو جھ کر کہنا۔
بلال بن حارث سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ آدمی ایک بات کہہ دیتا ہے وہ نہیں جانتا کہ کہاں تک اس کا اثر ہوگا اس کی وجہ سے اللہ اپنی رضا مندی قیامت تک اس بندے سے لکھ دیتا ہے اور ایک ایسی بات کہتا ہے جس کو وہ نہیں جانتا کہ کہاں تک اس کا اثر ہوگا اس کی وجہ سے قیامت تک اللہ اپنی نارا ضگی اس بندے کیلئے لکھ دیتا ہے۔
بات سمجھ بو جھ کر کہنا۔
ابوہریرہ (رض) نے کہا کہ آدمی بےسمجھے بوجھے ایک بات کہہ دیتا ہے جس سے وہ جہنم میں جاتا ہے، آدمی بےسمجھے بوجھے ایک بات کہہ دیتا ہے جس سے وہ جنت میں جاتا ہے
بے ہودہ گوئی کی مذمت
ز ید بن اسلم سے روایت ہے کہ دو آدمی پورب (مشرق) سے آئے انہوں نے خطبہ پڑھا لوگ سن کر فریفتہ ہوگئے آپ نے فرمایا بعض بیان جادو کا اثر رکھتے ہیں۔ مالک کو پہنچا کہ حضرت عیسیٰ فرماتے ہیں کہ مت باتیں کرو بےکار سوائے یاد الٰہی کے کہ کہیں سخت ہوجائیں دل تمہارے اور سخت دل دور ہے اللہ سے لیکن تم نہیں سمجھتے اور مت دیکھو دوسروں کے گناہ کو گویا تم رب ہو۔ اپنے گناہوں کو دیکھو اپنے تئیں بندہ سمجھ کر، کیونکہ لوگوں میں سب طرح کے لوگ ہیں بعض اچھے ہیں۔ تو رحم کرو بیماروں پر اور اللہ کا شکر کرو اپنی تندرستی پر۔ مالک کو پہنچا کہ حضرت عائشہ (رض) بعد نماز عشاء کے اپنے لوگوں سے کہلا بھیجتیں کیا اب بھی تم آرام نہیں دیتے لکھنے والے فرشتوں کو۔
غبیت کا بیان
مطلب بن عبداللہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے پوچھا رسول اللہ ﷺ سے غیبت کس کو کہتے ہیں آپ نے فرمایا کسی کا حال ایسا بیان کرے جو اگر وہ سنے تو اس کو برا معلوم ہو، وہ بولا یا رسول اللہ ﷺ اگرچہ سچ ہو آپ نے فرمایا اگر جھوٹ ہو تو وہ بہتان ہے۔
زبان کے گناہ کا بیان
عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کو اللہ بچا دے دو چیزوں کی برائی سے وہ جنت میں جائے گا۔ ایک شخص نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ آپ ہم کو نہیں بتاتے وہ دو چیزیں کیا ہیں ؟ آپ چپ ہو رہے پھر آپ نے یہی فرمایا وہ شخص یہی بولا اور آپ چپ ہو رہے پھر آپ نے یہی فرمایا وہ شخص و ہی بولا یعنی آپ ہم کو نہیں بتاتے ؟ پھر آپ نے یہی فرمایا وہ شخص بولا آپ ہم کو نہیں بتاتے پھر آپ نے یہی فرمایا وہ شخص و ہی بولا جاتا تھا اتنے میں ایک دوسرے شخص نے اس کو چپ کرا دیا پھر رسول اللہ ﷺ نے خود ہی فرمایا جس کو اللہ دو چیزوں کے شر سے بچا دے وہ جنت میں جائے گا ایک وہ جو اس کے دونوں جبڑوں کے بیچ میں ہے یعنی زبان دوسری وہ جو اس کے دونوں پاؤں کے بیچ میں ہے (شرم گاہ) تین بار آپ نے اس کو ارشاد فرمایا۔
زبان کے گناہ کا بیان
اسلم عدوی سے روایت ہے کہ حضرت عمر گئے ابوبکر کے پاس اور وہ اپنی زبان کھینچ رہے تھے حضرت عمر نے کہا ٹھہرو بخشے اللہ تم کو ابوبکر صدیق نے کہا اسی نے مجھ کو تباہی میں ڈالا ہے۔
دو آدمی ایک کو چھوڑے کر کانا پھوسی اور نہ سرگوشی نہ کریں
عبداللہ بن دینار سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں اور عبداللہ بن عمر خالد بن عقبہ کے گھر کے پاس تھے جو بازار کے ساتھ تھا عبداللہ بن عمر سے کان میں کچھ کہنا چاہا اور عبداللہ کے ساتھ سوائے میرے اور اس شخص کے جو کان میں کہنے کو آیا تھا اور کوئی نہ تھا عبداللہ بن عمر نے ایک اور شخص کو بلایا اب ہم چار آدمی ہوگئے پھر عبداللہ بن عمر نے مجھ کو اور چوتھے شخص کو کہا ذرا ہٹ جاؤ کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپ ﷺ فرماتے اس سے تیسرے آدمی کو رنج ہوتا ہے۔
دو آدمی ایک کو چھوڑے کر کانا پھوسی اور نہ سرگوشی نہ کریں
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تین آدمی ہوں تو دو مل کر کانا پھوسی اور سرگوشی نہ کریں تیسرے کو چھوڑ کر۔
سچ اور جھوٹ کا بیان۔
صفو ان بن سیلم سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول ﷺ سے کہا میں اپنی عورت سے جھوٹ بولوں آپ نے فرمایا جھوٹ بولنا اچھا نہیں ہے اور اس میں کچھ بھلائی و خیر نہیں ہے اور وہ شخص بولا میں اپنی عورت سے وعدہ کروں اور اس سے کہوں میں تیرے لئے یوں کر دوں گا یہ بنا دوں گا آپ نے فرمایا اس میں کچھ گناہ نہیں ہے۔ امام مالک کو پہنچا کہ عبداللہ بن مسعود فرماتے تھے لازم جانوں تم سچ بولنے کو کیونکہ سچ بولنا نیکی کا راستہ بتاتا ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے اور بچو تم جھوٹ سے کیونکہ جھوٹ برائی کا راستہ بتاتا اور برائی جہنم میں لے جاتی ہے کیا تم نے نہیں سنا لوگ کہتے ہیں فلاں نے سچ کہا اور نیک ہوا، جھوٹ بولا اور بدکار ہوا۔ امام مالک کو پہنچا کہ حضرت لقمان سے کسی نے پوچھا کہ تم کو کس وجہ سے اتنی بزرگی حاصل ہوئی ؟ لقمان نے کہا سچ بولنے سے امانت داری سے اور لغو کام چھوڑ دینے سے۔ عبداللہ بن مسعود فرماتے تھے کہ ہمشہ آدمی جھوٹ بولا کرتا ہے پہلے اس کے دل میں ایک نکتہ سیاہ ہوتا ہے پھر سارا دل سیاہ ہوجاتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے ہاں جھوٹوں میں لکھ لیا جاتا ہے
سچ اور جھوٹ کا بیان۔
صفوان بن سلیم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے کسی نے پوچھا کہ کیا مؤمن بودا بزدل ہوسکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں، پھر پوچھا کیا مومن بخیل ہوسکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں، پوچھا کیا مومن جھوٹا ہوسکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں۔
مال کو برباد کرنے کا (یعنی اسراف کا بیان) اور ذوالوجہین ( دوغلے) کا بیان
ابو صالح سے روایت ہے ( انہوں نے ابوہریرہ (رض) سنا) کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ خوش ہوتا ہے تین باتوں پر اور ناراض ہوتا ہے تین باتوں پر، خوش ہوتا ہے اس سے جو تم شریک نہ کرو اس کے ساتھ کسی کو، پکڑے رہو اللہ کی رسی کو یعنی قرآن کو) اور نصیب کرو اپنے حکم کو یعنی نیک باتیں اسے بتلاؤ اور بری باتوں سے بچاؤ اور ناراض ہوتا ہے بہت باتیں کرنے سے اور مال تلف کرنے سے یعنی بےجا خرچ کرنے سے اور بہت سوال کرنے سے۔
مال کو برباد کرنے کا (یعنی اسراف کا بیان) اور ذوالوجہین ( دوغلے) کا بیان
ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بہت برا سب آدمیوں میں ذوالوجہین ہے جو ایک گروہ کے پاس جائے و ہاں انہی کی سی بات کہہ دے جب دوسرے گروہ میں آئے و ہاں ان کی بات کہے۔
چند آدمیوں کے گناہ کی وجہ سے ساری خلقت کا تباہ ہونا
حضرت ام المومنین ام سلمہ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ کیا ہم اس وقت بھی تباہ ہوں گے جب ہم میں نیک لوگ موجود ہوں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں جب گناہ بہت ہونے لگیں۔
چند آدمیوں کے گناہ کی وجہ سے ساری خلقت کا تباہ ہونا
عمر بن عبدالعزیز کہتے تھے کہ اللہ جل جلالہ کسی خاص شخصوں کے گناہ کے سبب عام لوگوں کو عذاب میں مبتلا نہ کرے گا مگر جب گناہ کی بات اعلانیہ کی جائے گی تو سب عذاب کے مستحق ہوں گے۔
اللہ سے ڈرنے کا بیان
انس بن مالک سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عمر (رض) کو سنا اور میں ان کے ساتھ تھا آپ ایک باغ میں تھے اور میرے اور ان کے درمیان ایک دیوار حائل تھی آپ فرماتے تھے واہ واہ اے خطاب کے بیٹے ڈر اللہ سے، نہیں تو اللہ عذاب کرے گا تجھ کو۔
اللہ سے ڈرنے کا بیان
قاسم بن محمد کہتے تھے کہ میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ باتوں پر فریفیہ نہیں ہوتے تھے۔
بادل گر جنے کے وقت کیا کہنا چایے
عامر بن عبداللہ بن زبیر جب گرج کی آواز سنتے تو بات کرنا چھوڑ دیتے اور کہتے کہ پاک ہے وہ ذات جس کی پاکی بیان کرتا ہے ایک فرشتہ جو مقرر ہے ابر (بادل) پر اس کی آواز ہے جو گرج معلوم ہوئی اور بیان کرتے ہیں فرشتے پاکی اس کی اس کے ڈر سے پھر کہتے تھے کہ یہ آواز زمین کے رہنے والوں کے واسطے سخت وعید ہے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ترکے کا بیان
حضرت ام المومینن عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی بیبیوں نے بعد آپ کی وفات کے چاہا کہ حضرت عثمان کو ابوبکر صدیق کے پاس بھجیں اور اپنا ترکہ طلب کریں تو حضرت عائشہ نے کہا کیا رسول اللہ ﷺ نے نہیں فرمایا کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ترکے کا بیان
ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد میرے وارث ترکہ کو تقسم نہ کریں گے جو میں چھوڑ جاؤں اپنی بیبیوں کی خوراک کے اور عامل کے خرچ کے بعد وہ سب صدقہ ہے
جہنم کا بیان
ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ آدمیوں کی آگ جس کو وہ سلگاتے ہیں ایک جز ہے ستر جزوں میں سے جہنم کی آگ کا ( یعنی جہنم کی آگ میں اس آگ سے انہتر حصے زیادہ جلن اور تیزی ہے۔ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ آگ دنیا ہی کی کافی تھی ( جلانے کو) آپ نے فرمایا وہ آگ اس آگ سے انہتر حصے زیادہ ہے۔
جہنم کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ کیا تم جہنم کی آگ کو سرخ سمجھتے ہو جیسے دنیا کی آگ۔ وہ قار سے بھی زیادہ سیاہ ہے اور قار کو زفت کہتے ہیں۔ (تارکول)
صدقے کی فضیلت کا بیان
سعد بن یسار سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ جو شخص حلال مال سے صدقہ دے اور اللہ جل جلالہ نہیں قبول کرتا مگر مال حلال کو تو وہ اس صدقے کو اللہ جل جلالہ کی ہتھلی میں رکھتا ہے اور پروردگار اس کو پرورش کرتا ہے جیسے کوئی تم میں سے پالتا ہے اپنے بھپیرے (اونٹ کے بچے کو) کو اور وہ پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے۔
صدقے کی فضیلت کا بیان
انس بن مالک کہتے تھے کہ ابوطلحہ سب انصاریوں سے زیادہ مالدار تھے مدینے میں یعنی کھجور کے درخت سب سے زیادہ ان کے پاس تھے اور سب مالوں میں ان کو ایک باغ بہت پسند تھا جس کو بیر حاء کہتے تھے اور وہ مسجد نبوی کے سامنے تھا رسول اللہ ﷺ اس میں جایا کرتے تھے اور وہاں کا صاف پانی پیا کرتے تھے، حضرت انس فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری " لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ " 3 ۔ ال عمران : 92) یعنی تم نیکی کو نہ پہنچو گے جب تک کہ تم خرچ نہ کرو گے اس مال میں سے جس کو تم چاہتے ہو تو ابوطلحہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہا یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ نے ارشاد فرمایا ہے لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون اور مجھے اپنے سب مالوں میں بیر حاء پسند ہے وہ صدقہ ہے اللہ کی راہ میں اللہ سے اس کی بہتری اور جزاء چاہتا ہوں اور وہ بیر حاء ذخیرہ ہے اللہ کے پاس آپ نے فرمایا واہ واہ یہ مال تو بڑا اجر لانے والا ہے یا بڑے نفع والا ہے اور میں سن چکا ہوں جو تم نے اس مال کے بارے میں کہا ہے میرے نزدیک تم اس مال کو اپنے عزیزوں میں بانٹ دو ابوطلحہ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ بانٹ دوں پھر ابوطلحہ نے اس کو تقسیم کردیا اپنے عزیزوں اور چچا کے بیٹوں میں۔
صدقے کی فضیلت کا بیان
زید بن اسلم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دو وسائل کو اگرچہ آئے وہ گھوڑے پر۔
صدقے کی فضیلت کا بیان
مالک، زید بن اسلم، عمرو بن معاذ اشہلی انصاری سے روایت ہے کہ ان کی دادی فرماتی تھیں کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ اے مسلمان عورتو ! نہ حقیر کرے کوئی تم میں سے کسی ہمسائی اپنی کو اگرچہ وہ ایک کھر بھیجے بکری کا جلا ہوا۔ حضرت عائشہ (رض) کے پاس ایک فقیر آیا مانگتا ہوا اور آپ روزہ دار تھیں اور گھر میں کچھ نہ تھا سوائے ایک روٹی کے، آپ نے اپنی لونڈی سے کہا یہ روٹی فقیر کو دیدے وہ بولی آپ کے افطار کے لئے کچھ نہیں ہے آپ نے کہا دیدے لونڈی نے وہ روٹی فقیر کہ حوالے کردی شام کو ایک گھر سے حصہ آیا بکری کا گوشت پکا ہوا حضرت عائشہ نے لونڈی کو بلا کر کہا کھا یہ تیری روٹی سے بہتر ہے۔ امام مالک نے کہا کہ ایک مسکین نے سوال کیا حضرت عائشہ (رض) اور ان کے سامنے انگور رکھے تھے انہوں نے ایک آدمی سے کہا ایک دانا انگور کا اٹھا کر اس کو دے وہ شخص تعجب سے دیکھنے لگا حضرت عائشہ نے کہا ایک دانہ کئی ذروں کے برابر ہے اور ایک ذرے کا ثواب بھی ضائع نہ ہوگا۔
سوال سے بچنے کا بیان
ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا، آپ ﷺ نے ان کو دیا پھر انہوں نے سوال کیا آپ ﷺ نے پھر دیا یہاں تک کہ جو کچھ آپ کے پاس تھا تمام ہوگیا پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس جہاں تک مال ہوگا میں تم سے دریغ نہ کروں گا لیکن جو سوال سے بچے گا تو اللہ بھی اس کو بچائے گا اور جو قناعت کر کے اپنی تونگری ظاہر کرے گا تو اللہ اس کو غنی کر دے گا اور جو صبر کرے گا اللہ اس کو صبر کی توفیق دے گا اور کوئی نعمت جو لوگوں کو دی گئی ہے صبر سے زیادہ بہتر اور کشادہ نہیں ہے
سوال سے بچنے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور آپ اس وقت منبر پر ذکر کرتے صدقے کا اور سوال سے بچنے کا اوپر والا ہاتھ بہتر ہے نیچے والے ہاتھ سے اور اوپر والا خرچ کرنیوالا ہے اور نیچے والا مانگنے والا ہے۔
سوال سے بچنے کا بیان
عطار بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر کے پاس کچھ مال بھیجا حضرت عمر نے اس کو پھیر دیا پوچھا تم نے کیوں پھیر دیا حضرت عمر نے کہا یا رسول اللہ ﷺ آپ نے فرمایا کے بہتر وہ شخص ہے جو کسی سے کچھ نہ لے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ مانگ کر کچھ نہ لے اور جو بن مانگے ملے وہ اللہ کا دیا ہوا ہے حضرت عمر نے کہا قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں اب کسی سے کچھ نہ مانگوں گا اور جو بن مانگے میرے پاس آئے گا اس کو لونگا۔
سوال سے بچنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر ایک تم میں سے اپنی رسی میں لکڑی کا گٹھا باندھ کر اپنی پٹھے پر لادے تو وہ بہتر ہے اس سے کہ وہ اسے شخص کے پاس آئے جس کو اللہ نے مال دیا ہے اور اس سے مانگے وہ دے یا نہ دے۔ ایک شخص سے روایت ہے کہ جو بنی اسد میں سے تھا کہ میں اور میرے گھر کے لوگ بقیع الغرقد میں اترے میری بی بی نے کہا رسول اللہ ﷺ کے پاس جا اور کھانے کے لئے آپ سے کچھ مانگے اور اپنی محتاجی بیان کر تو میں رسول اللہ ﷺ کہ پاس گیا اور دیکھا کہ ایک شخص آپ ﷺ سے سوال کر رہا ہے اور آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ میرے پاس نہیں ہے جو میں تجھ کو دوں وہ شخص غصے میں پیٹھ موڑ کر چلا اور کہتا جاتا تھا قسم اپنی عمر کی تم اسی کو دیتے ہو جس کو چاہتے ہو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دیکھو وہ غصے ہوتا ہے اس بات پر کہ میرے پاس نہیں ہے جو میں اس کو دوں جو شخص تم میں سے سوال کرے اور اس کے پاس چالیس درہم ہوں یا اتنا مال ہو تو اس نے پلٹ کر سوال کیا میں نے کہا ایک اونٹ ہم کو بہتر ہے چالیس درہم سے پھر میں لوٹ آیا اور میں نے حضرت ﷺ سے کچھ سوال نہیں کیا بعد اس کے رسول اللہ ﷺ کے پاس جو اور خشک انگور آئے آپ نے ہم کو بھی اس میں سے حصہ دیا یہاں تک کہ اللہ نے غنی کردیا ہم کو۔
سوال سے بچنے کا بیان
سوال سے بچنے کا بیان
علاء بن عبدالرحمن کہتا ہے کہ صدقہ دینے سے مال میں کمی و نقصان نہیں ہوا اور جو بندہ معاف کرتا رہتا ہے اس کی عزت زیادہ ہوتی ہے اور جو تواضع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا رتبہ اور بلند کردیتا ہے۔
صدقہ مکروہ ہے اس کا بیان
امام مالک کو پنہچا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ درست نہیں ہے صدقہ محمد ﷺ کی آل کو کیونکہ یہ میل ہے لوگوں کا۔
صدقہ مکروہ ہے اس کا بیان
ابوبکر بن محمد، عمرو بن حزم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو عامل کیا بنی عبد اشہل میں سے صدقہ لینے پر جب لوٹ کر آیا تو رسول اللہ ﷺ سے صدقے کا اونٹ مانگا (اپنی اجرت کے سوا) آپ غصے ہوئے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے چہرہ مبارک پر غصہ معلوم ہوا اور آپ ﷺ کے غصے کی نشانی یہ تھی کہ آنکھیں آپ ﷺ کی سرخ ہوجاتیں پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ بعض آدمی مانگتے ہیں مجھ سے جو لائق نہیں دیتا اس کو نہ مجھ کو اگر میں نہ دوں تو مجھے بھی برا معلوم ہوتا ہے ( کیونکہ) سخاوت آپ ﷺ کی طبیعت خلقی تھی اور جو اسے دوں تو وہ چیز دیتا ہوں جو اس کو دینی درست نہیں وہ شخص بولا یا رسول اللہ اب میں کوئی چیز اس میں سے نہ مانگوں گا۔
صدقہ مکروہ ہے اس کا بیان
اسلم عدوی سے عبداللہ بن ارقم نے کہا کہ مجھے ایک اونٹ بتادے سواری کا میں اس کو حضرت عمر سے کہہ کر اپنی سواری کے لئے لے لوں گا میں نے کہا اچھا ایک اونٹ ہے صدقے کا عبداللہ بن ارقم نے کہا تمہیں یہ پسند ہے کہ ایک موٹا شخص گرمی کے دنوں میں اپنی شرمگاہ اور چڈ سے دھو کر تمہیں وہ پانی دے اور تو اس کو پی لے، اسلم کہتے ہیں کہ مجھے غصہ آگیا اور میں نے کہا کہ اللہ تمہیں بخشے تم مجھ سے ایسی بات کہتے ہو عبداللہ بن ارقم نے کہا کہ صدقہ بھی لوگوں کا میل ہے اور ان کا دھون ہے
علم حاصل کرنے کا بیان
حضرت لقمان فرماتے تھے اپنے بیٹے سے (مرتے وقت اس بیٹے کا نام شکو تھا یا اسم) کہ اے میرے بیٹے عالموں کے پاس بیٹھا کر اور اپنے گھٹنے ان سے ملادے کیونکہ اللہ جل جلالہ جلاتا (آباد کرتا) ہے دلوں کو حکمت کے نور سے جیسے جلاتا (آباد کرتا) ہے مری ہوئی زمین کو بارش سے۔
مظلوم کی بد دعا سے بچنے کا بیان
اسلم عدوی سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) نے اپنے مولیٰ کو جس کا نام ہنی تھا عامل مقرر کیا حمی پر (حمی وہ احاطہ ہے جہاں صدقے کے جانور جمع ہوتے ہیں) اور کہا کہ اے ہنی اپنا بازو روکے رہ لوگوں سے، ظلم مت کر کیونکہ مظلوم کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے اور جس کے پاس تیس اونٹ ہیں یا چالیس بکریاں ان کو چرانے سے مت روک اور بچا رہ عثمان نعم بن عضان اور عبدالرحمن بن عوف کے جانوروں پر رعایت کرنے سے کیونکہ اگر ان کے جانور تباہ ہوجائیں گے تو وہ اپنے باغات اور کھتیوں میں چلے آئیں گے اور تیس اونٹ والا اور چالیس والا اگر تباہ ہوجائے گا تو وہ اپنی اولاد کو لے کر میرے پاس آئے گا اور کہے گا اے امیرالمومنین اے امیرالمومنیں پھر کیا میں ان کو چھوڑ دوں گا ان کی خبر گیری نہ کروں گا، تیرا باپ نہ ہو (یہ ایک بد دعا ہے عرب کے محاورے میں) پانی اور گھاس دینا آسان ہے مجھ پر سونا چاندی دینے سے قسم اللہ کی وہ جانتا ہے کہ میں نے ان پر ظلم کیا حالانکہ وہ ان کی زمین ہے اور انہی کا پانی ہے، جس پر لڑے زمانہ جاہلیت میں پھر مسلمان ہوئے اسی زمین اور پانی پر، قسم اللہ کی اگر یہ صدقہ کے جانور نہ ہوتے جو انہی کے کام میں آتے ہیں اللہ کی راہ میں تو ان کی زمین سے ایک بالشت بھر بھی نہ لیتا۔
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ناموں کا بیان
محمد بن جبیر بن مطعم (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میرے پانچ نام ہیں، محمد (بہت سراہا ہوا) احمد (سب مخلوقات سے زیادہ تعریف کے لائق) ماحی (کفر کو مٹانے والا) میرے ہاتھ سے اللہ کفر کو مٹائے گا اور حاشر سب کا حشر میرے قدم پر ہوگا، (پانچواں) عاقب ہے