10. حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کی مرویات
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کی مرویات
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا میں اپنے چچاؤں کے ساتھ جبکہ ابھی میں نوعمر تھا حلف المطیبیب جسے حلف الفضول بھی کہا جاتا ہے میں شریک ہوا تھا، مجھے یہ پسند نہیں کہ میں اس معاہدے کو توڑ ڈالوں اگرچہ مجھے اس کے بدلے میں سرخ اونٹ بھی دیئے جائیں، امام زہری (رح) فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ اسلام نے جو بھی معاہدہ کیا اس کی شدت میں اضافہ ہی ہوا ہے اور اسلام اس کا قائل نہیں ہے، البتہ نبی ﷺ نے قریش اور انصار کے درمیان مواخات قائم فرما دی تھی۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کی مرویات
حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) نے ان سے پوچھا کہ اے لڑکے ! کیا تم نے نبی صلی اللہ سے یا کسی صحابی سے یہ مسئلہ سنا ہے کہ اگر کسی آدمی کو نماز میں شک ہوجائے تو وہ کیا کرے ؟ ابھی یہ بات ہو رہی تھی کہ سامنے سے حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) آتے ہوئے دکھائی دیئے، انہوں نے پوچھا کہ کیا باتیں ہو رہی ہیں ؟ حضرت عمر (رض) نے فرمایا میں اس لڑکے سے یہ پوچھ رہا تھا کہ کیا تم نے نبی ﷺ سے یا کسی صحابی سے یہ مسئلہ سنا ہے کہ اگر کسی آدمی کو نماز میں شک ہوجائے تو وہ کیا کرے ؟ حضرت عبدالرحمن (رض) نے فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر تم میں سے کسی کو نماز میں شک ہوجائے اور اسے یاد نہ رہے کہ اس نے ایک رکعت پڑھی ہے یا دو ؟ تو اسے چاہیے کہ وہ اسے ایک شمار کرے، اگر دو اور تین میں شک ہو تو انہیں دو سمجھے، تین اور چار میں شک ہو تو انہیں تین شمار کرے، اس کے بعد نماز سے فراغت پا کر سلام پھیر نے سے قبل سہو کے دو سجدے کرلے۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کی مرویات
بجالہ کہتے ہیں کہ میں احنف بن قیس کے چچا جزء بن معاویہ کا کاتب تھا، ہمارے پاس حضرت عمر (رض) کا ان کی وفات سے ایک سال پہلے خط آیا، جس میں لکھا تھا کہ ہر جادوگر کو قتل کردو، مجوس میں جن لوگوں نے اپنے محرم رشتہ داروں سے شادیاں کر رکھی ہیں، ان میں تفریق کرا دو اور انہیں زمزمہ (کھانا کھاتے وقت مجوسی ہلکی آواز سے کچھ پڑھتے تھے) سے روک دو ، چناچہ ہم نے تین جادوگر قتل کیئے اور کتاب اللہ کی روشنی میں مرد اور اس کی محرم بیوی کے درمیان تفریق کا عمل شروع کیا۔ پھر جزء نے ایک مرتبہ بڑی مقدار میں کھانا تیار کروایا، اپنی ران پر تلوار رکھی اور مجوسیوں کو کھانے کے لئے بلایا، انہوں نے ایک یا دو خچروں کے برابر وزن کی چاندی لاکر ڈھیر کردی اور بغیر زمزمے کے کھانا کھالیا، نیز پہلے حضرت عمر (رض) مجوسیوں سے جزیہ نہیں لیتے تھے لیکن جب حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے اس بات کی گواہی دی کہ نبی ﷺ نے ہجر نامی علاقے کے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا تو انہوں نے بھی مجوسیوں سے جزیہ لینا شروع کردیا۔ سفیان کہتے ہیں کہ بجالہ نے مصعب کے ساتھ ٧٠ ھ میں حج کیا تھا۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کی مرویات
ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم (رض) نے حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور حضرت سعد (رض) سے فرمایا میں تمہیں اس اللہ کی قسم اور واسطہ دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں، کیا آپ کے علم میں یہ بات ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے ؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کی مرویات
عبداللہ بن قارظ ایک مرتبہ حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کی عیادت کے لئے ان کے یہاں گئے، وہ بیمار ہوگئے تھے، حضرت عبدالرحمن (رض) نے ان سے فرمایا کہ تمہیں قرابت داری نے جوڑا ہے، نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں رحمان ہوں، میں نے رحم کو پیدا کیا ہے اور اسے اپنے نام سے نکالا ہے، جو اسے جوڑے گا میں اسے جوڑوں گا اور جو اسے توڑے گا، میں اسے توڑ کر پاش پاش کر دوں گا۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کی مرویات
نضر بن شیبان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میری ملاقات ابو سلمہ بن عبدالرحمن (رض) ہوئی، میں نے ان سے کہا کہ اپنے والد صاحب کے حوالے سے کوئی حدیث سنائیے جو انہوں نے نبی ﷺ سے خود سنی ہو اور وہ بھی ماہ رمضان کے بارے میں، انہوں نے کہا اچھا، میرے والد صاحب نے نبی ﷺ کی یہ حدیث سنائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کئے ہیں اور میں نے اس کا قیام سنت قرار دیا ہے، جو شخص ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اور تراویح ادا کرے، وہ گناہوں سے اس طرح نکل جائے گا جیسے وہ بچہ جسے اس کی ماں نے آج ہی جنم دیا ہو۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کی مرویات
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو عورت پانچ وقت کی نماز پڑھتی ہو، ماہ رمضان کے روزے رکھتی ہو، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرتی ہو اور اپنے شوہر کی اطاعت کرتی ہو، اس سے کہا جائے گا کہ جنت کے جس دروازے سے چاہو، داخل ہوجاؤ۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کی مرویات
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ باہر نکلے، میں بھی پیچھے پیچھے چلا، نبی ﷺ ایک باغ میں داخل ہوگئے، وہاں آپ ﷺ نے نماز شروع کردی اور اتنا طویل سجدہ کیا کہ مجھے اندیشہ ہونے لگا کہ کہیں آپ کی روح تو قبض نہیں ہوگئی۔ میں دیکھنے کے لئے آگے بڑھا تو آپ ﷺ نے سر اٹھا کر فرمایا عبدالرحمن ! کیا ہوا ؟ میں نے اپنا اندیشہ ذکر کردیا، اس پر نبی ﷺ نے فرمایا جبرئیل نے مجھ سے کہا ہے کہ کیا میں آپ کو خوشخبری نہ سناؤں ؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو شخص آپ پر درود بھیجے گا، میں اس پر اپنی رحمت نازل کروں گا اور جو شخص آپ پر سلام پڑھے گا میں اس پر سلام پڑھوں گا یعنی اسے سلامتی دوں گا۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کی مرویات
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ باہر نکلے، (میں بھی پیچھے پیچھے چلا) نبی ﷺ ایک باغ میں داخل ہوگئے، وہاں آپ ﷺ نے نماز شروع کردی اور اتنا طویل سجدہ کیا کہ مجھے اندیشہ ہونے لگا کہ کہیں آپ کی روح تو قبض نہیں ہوگئی۔ میں دیکھنے کے لئے آگے بڑھا تو آپ ﷺ نے سر اٹھا کر فرمایا کون ہے ؟ میں نے عرض کیا عبدالرحمن ہوں، نبی ﷺ نے فرمایا عبدالرحمن ! کیا ہوا ؟ میں نے اپنا اندیشہ ذکر کردیا، اس پر نبی ﷺ نے فرمایا جبرئیل میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے خوشخبری سنائی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو شخص آپ پر درود بھیجے گا، میں اس پر اپنی رحمت نازل کروں گا اور جو شخص آپ پر سلام پڑھے گا میں اس پر سلام پڑھوں گا یعنی اسے سلامتی دوں گا اس پر میں نے بارگاہ الٰہی میں سجدہ شکر ادا کیا ہے۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کی مرویات
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) ایک سفر میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھے، نبی ﷺ قضاء حاجت کے لئے تشریف لے گئے، اتنی دیر میں نماز کا وقت ہوگیا، لوگوں نے نماز کھڑی کردی اور حضرت عبدالرحمن نے آگے بڑھ کر امات فرمائی، پیچھے سے نبی ﷺ بھی آگئے اور آپ ﷺ نے لوگوں کے ساتھ ان کی اقتداء میں ایک رکعت ادا کی اور سلام پھیر کر فرمایا تم نے اچھا کیا۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کی مرویات
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) سے مروی ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس علاقے میں یہ وبا پھیلی ہوئی ہو، تم وہاں مت جاؤ اور اگر تم کسی علاقے میں ہو اور وہاں وبا پھیل جائے تو وہاں سے نہ نکلو۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کی مرویات
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) سے مروی ہے کہ عرب کی ایک قوم مدینہ منورہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی، ان لوگوں نے اسلام قبول کرلیا، لیکن انہیں مدینہ منورہ کی آب وہوا موافق نہ آئی اس لئے وہ شدید بخار میں مبتلا ہوگئے اور ان پر یہ مصیبت آپڑی، چناچہ وہ لوگ مدینہ منورہ سے نکل گئے، راستے میں ان کا آمنا سامنا کچھ صحابہ کرام (رض) سے ہوگیا، انہوں نے ان سے پوچھا کہ تم لوگ کیوں واپس جا رہے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ ہمیں وہاں کی آب وہوا موافق نہیں آئی اور ہمیں پیٹ کی بیماریاں لاحق ہوگئی ہیں، انہوں نے کہا کہ کیا نبی ﷺ کی ذات میں تمہارے لئے نمونہ موجود نہیں ہے ؟ اس پر صحابہ کرام (رض) میں دو گروہ ہوگئے، بعض نے انہیں منافق قرار دیا اور بعض کہنے لگے کہ یہ منافق نہیں ہیں، بلکہ مسلمان ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ منافقین کے بارے دو گروہوں میں بٹ گئے، حالانکہ اللہ نے انہیں ان کی حرکتوں کی وجہ سے اس مصیبت میں مبتلا کیا۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کی مرویات
عبداللہ بن عامر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ مکہ مکرمہ جا رہے تھے، آدھی رات کو حضرت عمر (رض) کے کانوں میں ابن مطرف جو اونٹوں کا حدی خوان تھا، کی آواز پڑی، حضرت عمر (رض) نے اپنی سواری کو بٹھایا اور لوگوں میں داخل ہوگئے، وہاں حضرت عبدالرحمن بھی موجود تھے، جب طلوع فجر ہوگئی تو حضرت عمر (رض) نے اس سے فرمایا اب بس کرو، اب خاموش ہوجاؤ کیونکہ طلوع فجر ہوچکی، اب اللہ کا ذکر کرو۔ پھر حضرت عمر فاروق (رض) کی نگاہ حضرت عبدالرحمن بن عوف کے موزوں پر پڑی تو فرمایا کہ آپ نے موزے پہن رکھے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ یہ تو میں نے اس ہستی کی موجودگی میں بھی پہنے ہیں جو آپ سے بہتر تھی، حضرت عمر (رض) نے فرمایا میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ ان موزوں کو اتار دیجئے، اس لئے کہ مجھے خطرہ ہے کہ اگر لوگوں نے آپ کو دیکھ لیا تو وہ آپ کی پیروی کرنے لگیں گے۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کی مرویات
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے مجھے اور حضرت عمر (رض) کو زمین کا فلاں فلاں ٹکڑا عنایت کیا تھا، حضرت زبیر (رض) نے آل عمر کے پاس جا کر ان سے ان کا حصہ خرید لیا اور حضرت عثمان (رض) کے پاس آکر کہنے لگے کہ عبدالرحمن کا یہ خیال تھا کہ نبی ﷺ نے انہیں اور حضرت عمر (رض) کو زمین کا فلاں ٹکڑا عنایت فرمایا تھا اور میں نے آل عمر کا حصہ خرید لیا ہے، حضرت عثمان (رض) نے فرمایا کہ عبدالرحمن کی شہادت قابل اعتبار ہے۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کی مرویات
ابن سعدی کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے ہجرت اس وقت تک ختم نہیں ہوتی جب تک دشمن قتال نہ کرے، حضرت امیر معاویہ، حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہجرت کی دو قسمیں ہیں، ایک تو گناہوں سے ہجرت ہے اور دوسری اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت ہے اور ہجرت اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک توبہ قبول ہوتی رہے گی اور توبہ اس وقت تک قبول ہوتی رہے گی جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہوجائے اور جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا تو ہر دل پر مہر لگا دی جائے گی اور عمل سے لوگوں کی کفایت کرلی جائے گی (یعنی اس وقت کوئی عمل کام نہ آئے گا اور نہ اس کی ضرورت رہے گی) ۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کی مرویات
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک مجوسی آدمی نبی ﷺ کی مجلس سے نکلا، میں نے اس سے اس مجلس کی تفصیلات معلوم کیں، تو اس نے مجھے بتایا کہ نبی ﷺ نے اسے ٹیکس اور قتل میں سے کوئی ایک صورت قبول کرلینے کا اختیار دیا تھا جس میں سے اس نے ٹیکس والی صورت کو اختیار کرلیا۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کی مرویات
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر کے دن میں مجاہدین کی صف میں کھڑا ہوا تھا، میں نے دائیں بائیں دیکھا تو دو نوعمر نوجوان میرے دائیں بائیں کھڑے تھے، میں نے دل میں سوچا کہ اگر میں دو بہادر آدمیوں کے درمیان ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا ؟ اتنی دیر میں ان میں سے ایک نے مجھے چٹکی بھری اور کہنے لگا چچاجان ! کیا آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں میں نے کہا ہاں ! لیکن بھتیجے ! تمہیں اس سے کیا کام ہے ؟ اس نے کہا مجھے پتہ چلا ہے کہ وہ نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کرتا ہے، اللہ کی قسم ! اگر میں نے اسے دیکھ لیا تو میں اس وقت تک اس سے جدا نہیں ہوں گا جب تک کہ ہم میں سے کسی کو موت نہ آجائے۔ مجھے اس کی بات پر تعجب ہوا اور ابھی میں اس پر تعجب کر ہی رہا تھا کہ دوسرے نے مجھے چٹکی بھری اور اس نے بھی مجھ سے یہی بات کہی، تھوڑی دیر بعد مجھے ابوجہل لوگوں میں گھومتا ہوا نظر آگیا، میں نے ان دونوں سے کہا یہی ہے وہ آدمی جس کا تم مجھ سے پوچھ رہے تھے، یہ سنتے ہی وہ دونوں اس پر اپنی تلواریں لے کر ٹوٹ پڑے یہاں تک کہ اسے قتل کر کے ہی دم لیا اور واپس آکر نبی ﷺ کو اس کی خبر دی۔ نبی ﷺ نے پوچھا کہ تم میں سے کس نے اسے قتل کیا ہے ؟ دونوں میں سے ہر ایک نے کہا کہ میں نے اسے قتل کیا ہے، نبی ﷺ نے فرمایا کیا تم نے اپنی تلواریں صاف کرلیں ہیں ؟ انہوں نے کہا نہیں، نبی ﷺ نے انہیں دیکھ کر فرمایا کہ تم دونوں نے اسے قتل کیا ہے اور اس کے سازوسامان کا فیصلہ معاذ بن عمرو بن الجموح کے حق میں کردیا، ان دونوں بچوں کے نام معاذ بن عمرو بن الجموح اور معاذ بن عفراء تھے۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کی مرویات
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم ! جس کے قبضے میں محمد ﷺ کی جان ہے، تین چیزیں ایسی ہیں جن پر میں قسم کھا سکتا ہوں، ایک تو یہ کہ صدقہ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا اس لئے صدقہ دیا کرو، دوسری یہ کہ جو شخص کسی ظلم پر ظالم کو صرف رضاء الٰہی کے لئے معاف کر دے، اللہ تعالیٰ اس کی عزت میں اضافہ فرمائے گا اور تیسری یہ کہ جو شخص ایک مرتبہ مانگنے کا دروازہ کھول لیتا ہے، اللہ اس پر تنگدستی کا دروازہ کھول دیتا ہے۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کی مرویات
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ابوبکر جنت میں ہوں گے، عمر، علی، عثمان، طلحہ، زبیر، عبدالرحمن بن عوف، سعد بن مالک، سعید بن زید اور ابوعبیدہ بن الجراح (رض) اجمعین بھی جنت میں ہوں گے۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کی مرویات
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا میں اپنے چچاؤں کے ساتھ جبکہ ابھی میں نوعمر تھا حلف المطیبین جسے حلف الفضول بھی کہا جاتا ہے میں شریک ہوا تھا، مجھے یہ پسند نہیں کہ میں اس معاہدے کو توڑ ڈالوں اگرچہ مجھے اس کے بدلے میں سرخ اونٹ بھی دیئے جائیں۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کی مرویات
مکحول کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر تم میں سے کسی کو نماز میں شک ہوجائے اور اسے یاد نہ رہے کہ اس نے ایک رکعت پڑھی ہے یا دو ؟ تو اسے چاہیے کہ وہ اسے ایک شمار کرے، اگر دو اور تین میں شک ہو تو انہیں دو سمجھے، تین اور چار میں شک ہو تو انہیں تین شمار کرے، اس کے بعد نماز سے فراغت پا کر سلام پھیرنے سے قبل سہو کے دو سجدے کرلے پھر حسین بن عبداللہ نے اس حکم کو اپنی سند سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) نے ان سے پوچھا کہ اے لڑکے ! کیا تم نے نبی صلی اللہ سے یا کسی صحابی سے یہ مسئلہ سنا ہے کہ اگر کسی آدمی کو نماز میں شک ہوجائے تو وہ کیا کرے ؟ ابھی یہ بات ہو رہی تھی کہ سامنے سے حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) آتے ہوئے دکھائی دیئے، انہوں نے پوچھا کہ کیا باتیں ہو رہی ہیں ؟ حضرت عمر (رض) نے فرمایا میں اس لڑکے سے یہ پوچھ رہا تھا کہ کیا تم نے نبی ﷺ سے یا کسی صحابی سے یہ مسئلہ سنا ہے کہ اگر کسی آدمی کو نماز میں شک ہوجائے تو وہ کیا کرے ؟۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کی مرویات
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت عمر (رض) کو شام کے سفر میں بتایا کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے یہ ایک عذاب ہے جو تم سے پہلی امتوں پر آیا تھا، اس لئے جس علاقے میں یہ وبا پھیلی ہوئی ہو، تم وہاں مت جاؤ اور اگر تم کسی علاقے میں ہو اور وہاں وبا پھیل جائے تو وہاں سے نہ نکلو یہ سن کر حضرت عمر (رض) شام سے لوٹ آئے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) شام جانے کے ارادے سے روانہ ہوئے۔۔۔۔۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) اس وقت موجود نہ تھے وہ آئے تو کہنے لگے کہ میرے پاس اس کا صحیح علم ہے، میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس علاقے میں یہ وبا پھیلی ہوئی ہو، تم وہاں مت جاؤ اور اگر تم کسی علاقے میں ہو اور وہاں وبا پھیل جائے تو وہاں سے نہ نکلو۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کی مرویات
حضرت عبدالرحمن (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں رحمان ہوں، میں نے رحم کو پیدا کیا ہے اور اسے اپنے نام سے نکالا ہے، جو اسے جوڑے گا میں اسے جوڑوں گا اور جو اسے توڑے گا میں اسے توڑ کر پاش پاش کردوں گا۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کی مرویات
حضرت عبدالرحمن (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں رحمان ہوں، میں نے رحم کو پیدا کیا ہے اور اسے اپنے نام سے نکالا ہے، جو اسے جوڑے گا میں اسے جوڑوں گا اور جو اسے توڑے گا میں اسے توڑ کر پاش پاش کردوں گا۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کی مرویات
حضرت عبداللہ بن عامر (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) شام کی طرف روانہ ہوئے جب " سرغ " میں پہنچے تو پتہ چلا کہ شام میں طاعون کی وبا پھیلی ہوئی ہے، تو حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے حضرت عمر (رض) کو بتایا کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے جس علاقے میں یہ وباء پھیلی ہوئی ہو، تم وہاں مت جاؤ اور اگر تم کسی علاقے میں ہو اور وہاں یہ وبا پھیل جائے تو وہاں سے نہ نکلو یہ سن کر حضرت عمر (رض) سرغ سے ہی لوٹ آئے۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق (رض) ایک مرتبہ شام کی طرف روانہ ہوئے، جب وہ مقام سرغ میں پہنچے تو امراء لشکر حضرت ابوعبیدہ بن الجراح (رض) وغیرہ ان سے ملاقات کے لئے آئے، انہوں نے حضرت عمر (رض) کو بتایا کہ شام میں وبا پھیلی ہوئی ہے اور راوی نے مکمل حدیث ذکر کرنے کے بعد کہا کہ پھر حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) آئے، وہ اپنی کسی ضرورت سے کہیں گئے ہوئے تھے اور کہنے لگے کہ میرے پاس اس کا یقینی علم موجود ہے۔ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب یہ وبا کسی علاقے میں پھیلی ہوئی ہو اور تم وہاں پہلے سے موجود ہو تو وہاں سے راہ فرار مت اختیار کرو اور اگر تم وہاں نہ ہو تو اس علاقے میں جاؤ مت، اس پر حضرت عمر (رض) نے اللہ کا شکر ادا کیا اور واپس لوٹ گئے۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کی مرویات
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) سے مروی ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جس علاقے میں یہ وبا پھیلی ہوئی ہو، تم وہاں مت جاؤ اور اگر تم کسی علاقے میں ہو اور وہاں وبا پھیل جائے تو وہاں سے نہ نکلو۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کی مرویات
بجالہ کہتے ہیں کہ پہلے حضرت عمر (رض) مجوسیوں سے جزیہ نہیں لیتے تھے لیکن جب حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے اس بات کی گواہی دی کہ نبی ﷺ نے ہجر نامی علاقے کے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا تو انہوں نے بھی مجوسیوں سے جزیہ لینا شروع کردیا۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کی مرویات
ابوسلمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ابو درداء (رض) بیمار ہوگئے، حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) ان کی عیادت کے لئے ان کے یہاں گئے، ابو درداء (رض) نے کہا کہ میری معلومات کے مطابق ان میں سب سے بہتر اور صلہ رحمی کرنے والے ابو محمد ہیں، حضرت عبدالرحمن (رض) نے ان سے فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں رحمان ہوں، میں نے رحم کو پیدا کیا ہے اور اسے اپنے نام سے نکالا ہے، جو اسے جوڑے گا میں اسے جوڑوں گا اور جو اسے توڑے گا، میں اسے توڑ کر پاش پاش کردوں گا۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کی مرویات
عبداللہ بن قارظ ایک مرتبہ حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کی عیادت کے لئے ان کے یہاں گئے، وہ بیمار ہوگئے تھے، حضرت عبدالرحمن (رض) نے ان سے فرمایا کہ تمہیں قرابت داری نے جوڑا، نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں رحمان ہوں، میں نے رحم کو پیدا کیا ہے اور اسے اپنے نام سے نکالا ہے، جو اسے جوڑے گا میں اسے جوڑوں گا اور جو اسے توڑے گا، میں اسے توڑ کر پاش پاش کر دوں گا
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کی مرویات
نضربن شیبان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میری ملاقات ابو سلمہ بن عبدالرحمن (رض) ہوئی، میں نے ان سے کہا کہ اپنے والد صاحب کے حوالے سے کوئی حدیث سنائیے جو انہوں نے نبی ﷺ سے خود سنی ہو اور وہ بھی ماہ رمضان کے بارے میں، انہوں نے کہا اچھا، میرے والد صاحب نے نبی ﷺ کی یہ حدیث سنائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کئے ہیں اور میں نے اس کا قیام سنت قرار دیا ہے، جو شخص ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اور تراویح ادا کرے، وہ گناہوں سے اس طرح نکل جائے گا جیسے وہ بچہ جسے اس کی ماں نے آج ہی جنم دیا ہو۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کی مرویات
حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ حضرت عمر فاروق (رض) کے ساتھ نماز کے کسی مسئلے میں مذاکرہ کر رہے تھے، ابھی یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ سامنے سے حضرت عبدالرحمن بن عوف آتے ہوئے دکھائی دیئے، انہوں نے فرمایا کہ کیا میں آپ کو نبی ﷺ کی ایک حدیث نہ سناؤں جو میں نے خود نبی ﷺ سے سنی ہے ؟ انہوں نے فرمایا کیوں نہیں، چناچہ انہوں نے یہ حدیث سنائی کہ) جس شخص نے کو نماز کی رکعتوں میں کمی کا شک ہوجائے تو وہ نماز پڑھتا رہے یہاں تک کہ بیشی میں شک ہو۔