1017. حضرت عبداللہ بن ابی حددر (رض) کی حدیثیں

【1】

حضرت عبداللہ بن ابی حددر (رض) کی حدیثیں

حضرت عبداللہ بن ابی حددر (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں " اضم " نامی جگہ کی طرف بھیجا میں مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ روانہ ہوا جس میں حضرت ابو قتادہ بن حارث ربعی (رض) اور محلم بن جثامہ بھی شامل تھے جب ہم " بطن اضم " میں پہنچے تو عامر اشجعی اپنے کچھ اونٹ لے کر ہمارے پاس سے گذرا اس کے ساتھ کچھ سامان اور دودھ کا مشکیزہ بھی تھا، اس نے گذرتے ہوئے ہمیں سلام کیا جس پر ہم نے اپنے ہاتھ روک لئے لیکن محلم بن جثامہ نے اس پر حملہ کر کے اسے قتل کردیا دراصل ان دونوں کے درمیان پرانی رنجش چلی آرہی تھی محلم نے اسے قتل کر کے اس کے اونٹ اور سامان پر قبضہ کرلیا ہم لوگوں نے واپس آکر نبی کریم ﷺ کو اس واقعے سے آگاہ کیا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی " اے اہل ایمان ! جب تم زمین پر سفر کیا کرو تو خوب اچھی دیکھ بھال کرلیا کرو اور جو شخص تمہیں سلام کرے اس سے یہ مت کہا کرو کہ تو مسلمان نہیں ہے "۔

【2】

حضرت عبداللہ بن ابی حددر (رض) کی حدیثیں

حضرت عبداللہ بن ابی حدر (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک عورت سے شادی کی اور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر مہر کی ادائیگی میں ان سے مدد کی درخواست کی نبی کریم ﷺ نے پوچھا تم نے اس کا مہر کیا مقرر کیا تھا ؟ میں نے عرض کیا دو سو درہم نبی کریم ﷺ نے فرمایا اگر تم اس وادی سے دراہم کنکریوں کی طرح اٹھا رہے ہوتے تب بھی اتنا زیادہ مہر مقرر نہیں کرنا چاہئے تھا میرے پاس تو اس وقت تمہیں دینے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ کچھ عرصے بعد نبی کریم ﷺ نے مجھے بلایا اور نجد کی طرف جانے والے ایک دستے میں شامل کر کے مجھے بھی وہاں بھیج دیا اور فرمایا کہ اس دستے کے ساتھ جاؤ شاید تمہیں کچھ مل جائے اور وہ میں تم ہی کو انعام میں دے دوں چناچہ ہم لوگ روانہ ہوگئے اور شام کے وقت شہر کے قریب پہنچ گئے جب رات کی سیاہی دور ہوگئی ( اور چاندنی ہوگئی) تو ہمارے امیر نے ہمیں دو دو آدمی کر کے بھیجنا شروع کردیا ہم نے لشکر کو گھیر لیا ہمارے امیر نے کہا تھا کہ جب میں تکبیر کہہ کر حملہ کروں تو تم بھی تکبیر کہہ کر حملہ کردینا ایک دوسرے سے جدا نہ ہونا اور میں تم میں سے ہر ایک سے اس کے ساتھی کے متعلق پوچھوں گا یہ نہ ہو کہ وہ مجھے اپنے ساتھی کے پاس نہ ملے اور دشمن کا پیچھا کرتے ہوئے بہت زیادہ آگے نہ بڑھ جانا۔ جب ہم نے حملے کا ارادہ کیا تو میں نے شہر سے ایک آدمی کی آواز سنی جو چیخ رہا تھا اے شادابی ! میں نے اس سے یہ فال لی کہ ہمیں ان کی جانب سے شادابی نصیب ہوگی رات گہری ہوئی تو ہمارے امیر نے تکبیر کہہ کر حملہ کردیا اس کے پیچھے ہم نے بھی تکبیر کہتے ہوئے حملہ کردیا اچانک میرے پاس سے ایک آدمی گذرا جس کے ہاتھ میں تلوار تھی میں اس کے پیچھے لپکا تو میرا ساتھی کہنے لگا کہ ہمارے امیر نے ہمیں یہ تلقین کی تھی کہ ہم دشمن کا پیچھا کرتے ہوئے زیادہ آگے نہ بڑھیں اس لئے واپس آجاؤ جب میں اس کا پیچھاکر نے سے باز نہ آیا تو اس نے کہا کہ بخدایاتم واپس آجاؤور نہ میں انہیں جا کر بتادوں گا کہ تم نے ان کی بات نہیں مانی میں نے کہا کہ اللہ کی قسم ! میں اس کا پیچھا ضرور کروں گا اور میں اس کا پیچھا کرتا رہاحتیٰ کہ اس کے قریب پہنچ کر میں نے اس کی کمر پر ایک تیرمارا وہ گرپڑا اور کہنے لگا اے مسلمان ! جنت کے قریب آجا لیکن میں اس کے قریب نہیں گیا اور اسے دوسراتیر بھی دے مارا اور اسے ڈھیلا کردیا یہ دیکھ کر اس نے گھما کر اپنی تلوار مجھے دی ماری۔ لیکن اس کانشانہ خطا گیا اور میں نے وہ تلوار پکڑ کر اسی سے اسے قتل کردیا اور اس کا سر قلم کردیا چونکہ ہمارا حملہ بڑا شدید تھا (اس لئے دشمن بھاگ گیا) اور ہمیں بہت سے جانور اور بکریاں مال غنیمت میں ملیں اور ہم واپس روانہ ہوگئے۔ صبح ہوئی تو میرے اونٹ کے قریب ایک دوسرا اونٹ کھڑا تھا جس پر ایک خوبصورت جوان عورت سوار تھی وہ بارباربڑی کثرت کے ساتھ پیچھے مڑمڑ کر دیکھ رہی تھی میں نے اس سے پوچھا کہ تم کسے دیکھ رہی ہو ؟ اس نے کہا کہ ایک آدمی کو تلاش کررہی ہوں بخدا ! اگر وہ زندہ ہوتا تو وہ تمہیں آپکڑتا میں سمجھ گیا کہ یہ اسی شخص کی بات کررہی ہے جسے میں نے قتل کیا تھا چناچہ میں نے اسے بتایا کہ اسے تو میں قتل کرچکا ہوں اور اس کی تلواریہ ہے وہ تلوار میرے اونٹ کے پالان کے ساتھ لٹکی ہوئی تھی جبکہ تلوار کے نیام میں جو اس کے اونٹ کے پالان کے ساتھ لٹکا ہوا تھا کچھ نہیں تھا جب میں نے اسے یہ بات بتائی تو وہ کہنے لگی کہ یہ نیام پکڑو اور اگر سچے ہو تو اس سے اندازہ کرو میں نے اس کے ہاتھ سے نیام پکڑا اور دونوں کا موازنہ کیا تو وہ ایک دوسرے کے برابرنکلے یہ دیکھ کر وہ عورت رونے لگی اور ہم لوگ نبی کریم ﷺ کے پاس واپس آگئے تو نبی کریم ﷺ نے ان جانوروں میں سے مجھے بھی حصہ دیا جو ہم لے کر آئے تھے۔