1034. ام المؤمنین حضرت صفیہ کی حدیثیں
ام المؤمنین حضرت صفیہ کی حدیثیں
حضرت صفیہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس بیت اللہ پر حملے کے ارادے سے ایک لشکرضرور روانہ ہوگا جب وہ لوگ بیداء نامی جگہ پر پہنچیں گے تو ان کے لشکر کا درمیانی حصہ زمین میں دھنس جائے گا اور ان کے اگلے اور پچھلے حصے کے لوگ بچیں گے اور نہ ہی درمیان والے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ جو لوگ زبردستی اس لشکر میں شامل کر لئے گئے ہوں گے ان کا کیا بنے گا ؟ نبی ﷺ نے فرمایا نہیں ان کی نیتوں پر اٹھایا جائے گا۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے
ام المؤمنین حضرت صفیہ کی حدیثیں
حضرت صفیہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس بیت اللہ پر حملے کے ارادے سے ایک لشکر ضرور روانہ ہوگا جب وہ لوگ بیداء نامی جگہ پر پہنچیں گے تو ان کے لشکر کا درمیانی حصہ زمین میں دھنس جائے گا اور ان کے اگلے اور پچھلے حصے کے لوگ بچیں گے اور نہ ہی درمیان والے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ جو لوگ زبردستی اس لشکر میں شامل کر لئے گئے ہوں گے ان کا کیا بنے گا ؟ نبی ﷺ نے فرمایا نہیں ان کی نیتوں پر اٹھایا جائے گا۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے
ام المؤمنین حضرت صفیہ کی حدیثیں
صہیرہ بنت جیفر کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت صفیہ بنت حیی کی خدمت میں حاضر ہوئی اور ان سے مٹکے کی نبیذ کا حکم پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے مٹکے کی نبیذ کو حرام قرار دیا ہے۔
ام المؤمنین حضرت صفیہ کی حدیثیں
حضرت صفیہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ اعتکاف کی حالت میں تھے، میں رات کے وقت ملاقات کے لئے بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئی کچھ دیرباتیں کرنے کے بعد میں اٹھ کھڑی ہوئی نبی ﷺ بھی مجھے چھوڑنے کے لئے میرے ساتھ آئے میری رہائش اس وقت داراسامہ بن زید میں تھی، اسی اثناء میں وہاں سے دو انصاری آدمی گزرے اور نبی ﷺ کو دیکھ کر انہوں نے اپنی رفتار تیز کردی نبی ﷺ نے ان سے فرمایا ٹھہرو، یہ صفیہ بنت حیی ہیں، ان دونوں نے کہا کہ سبحان اللہ، اے اللہ کے رسول (کیا ہم آپ کے متعلق ذہن میں کوئی برا خیال لاسکتے ہیں ؟ ) نبی ﷺ نے فرمایا شیطان انسان کے اندر خون کی طرح دوڑتا ہے اس لئے مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں وہ تمہارے دلوں میں کوئی وسوسہ پیدا نہ کردے۔
ام المؤمنین حضرت صفیہ کی حدیثیں
صہیرہ بنت جیفر کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت صفیہ بنت حیی کی خدمت میں حاضر ہوئی اور ان سے مٹکے کی نبیذ کا حکم پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے مٹکے کی نبیذ کو حرام قرار دیا ہے۔
ام المؤمنین حضرت صفیہ کی حدیثیں
صہیرہ بنت جیفر کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگوں نے حج کیا، پھر مدینہ منورہ حاضر ہوئے تو وہاں حضرت صفیہ بنت حیی کی خدمت میں بھی حاضری ہوئی ہم نے ان کے پاس کوفہ کی کچھ خواتین کو بھی بیٹھے ہوئے پایا ان خواتین نے صہیرہ سے کہا کہ اگر تم چاہو تو تم لوگ سوال کرو اور ہم سنتے ہیں ورنہ ہم سوال کرتے ہیں اور تم اسے سننا، ہم نے کہا کہ تم لوگ ہی سوال کرو چناچہ انہوں نے حضرت صفیہ سے کئی سوال پوچھے مثلا میاں بیوی کے حوالے سے، ایام ناپاکی کے حوالے سے اور پھر مٹکے کی نبیذ کے حوالے سے تو حضرت صفیہ نے فرمایا اے اہل عراق تم لوگ مٹکے کی نبیذ کے متعلق بڑی کثرت سے سوال کر رہے ہو (نبی (علیہ السلام) نے اسے حرام قرار دیا ہے) البتہ تم میں سے کسی پر اس بات میں کوئی حرج نہیں ہے کہ اپنی کھجوروں کو پکائے پھر اسے مل کر صاف کرے اور مشکیزے میں رکھ کر اس کا منہ باندھ دے جب وہ اچھی ہوجائے تو خود بھی پی لے اور اپنے شوہر کو بھی پلائے۔
ام المؤمنین حضرت صفیہ کی حدیثیں
حضرت صفیہ سے مروی ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی ﷺ اپنی ازواج مطہرات کو بھی اپنے ساتھ لے کر گئے تھے، ابھی راستے ہی میں تھے کہ ایک آدمی اتر کر ازواج مطہرات کی سواریوں کو تیزی سے ہانکنے لگا، نبی ﷺ نے فرمایا ان آبگینوں (عورتوں) کو آہستہ ہی لے کر چلو دوران سفر حضرت صفیہ کا اونٹ بدک گیا، ان کی سواری سب سے عمدہ اور خوبصورت تھی، وہ رونے لگیں، نبی ﷺ کو معلوم ہوا تو تشریف لائے اور اپنے دست مبارک سے ان کے آنسو پونچھنے لگے، لیکن وہ اور زیادہ رونے لگیں، نبی ﷺ انہیں برابر منع کرتے رہے لیکن جب دیکھا کہ وہ زیادہ ہی روتی جا رہی ہیں تو نبی ﷺ نے انہیں سختی سے جھڑک کر منع فرمایا : اور لوگوں کو پڑاؤ کرنے کا حکم دیدیا حالانکہ اس مقام پر پڑاؤ کا ارادہ نہ تھا، لوگوں نے پڑاؤ ڈال لیا، اتفاق سے اس دن حضرت صفیہ ہی کی باری بھی تھی، نبی ﷺ کے لئے ایک خیمہ لگادیا گیا، نبی ﷺ اپنے خیمے میں تشریف لے گئے۔ حضرت صفیہ کہتی ہیں کہ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ نبی ﷺ کے پاس کیسے جاؤں ؟ مجھے ڈر تھا کہ نبی ﷺ مجھ سے ناراض نہ ہوگئے ہوں، چناچہ میں حضرت عائشہ کے پاس چلی گئی اور ان سے کہا آپ جانتی ہیں کہ میں نبی ﷺ سے اپنی باری کا دن کسی بھی چیز کے عوض نہیں بیچ سکتی، لیکن آج میں اپنی باری کے دن آپ کو اس شرط پر دیتی ہوں کہ آپ نبی ﷺ کو مجھ سے راضی کردیں۔ حضرت عائشہ نے حامی بھرلی اور اپنا دوپٹہ لے کر جسے انہوں نے زعفران میں رنگا ہوا تھا، اس پر پانی کے چھینٹے مارے تاکہ اس کی مہک پھیل جائے پھر نئے کپڑے پہن کر نبی ﷺ کی طرف چل پڑیں نبی ﷺ کے خیمے کے قریب پہنچ کر انہوں نے پردے کا ایک کونا اٹھایا تو نبی ﷺ نے انہیں دیکھ کر فرمایا عائشہ ! کیا بات ہے آج تمہاری باری تو نہیں ہے ؟ انہوں نے عرض کیا یہ تو اللہ کا فضل ہے جسے چاہے عطاء کردے نبی ﷺ نے وہ دوپہر اپنی زوجہ محترمہ (حضرت عائشہ) کے ساتھ قیلولہ فرمایا۔ جب روانگی کا وقت آیا تو نبی علیہ السلا نے حضرت زینب بنت جحش سے فرمایا جن کے پاس سواری میں گنجائش زیادہ تھی کہ اپنی بہن صفیہ کو اپنے ساتھ اونٹ پر سوار کرلو، حضرت زینب کے منہ سے نکل گیا کہ میں آپ کی یہودیہ بیوی کو اپنے ساتھ سوار کروں گی ؟ نبی ﷺ یہ سن کرنا راض ہوگئے اور ان سے ترک کلام فرما لیا حتی کہ مکہ مکرمہ پہنچے، منیٰ کے میدان میں ایام گزارے پھر مدینہ منورہ واپس آئے محرم اور صفر کا مہینہ گزرا لیکن حضرت زینب کے پاس نہیں گئے حتی کہ باری کے دن بھی نہیں گئے، جس سے حضرت زینب ناامید سی ہوگئیں۔ جب ربیع الاول کا مہینہ آیا تو نبی ﷺ ان کے یہاں تشریف لے گئے، وہ سوچنے لگیں کہ یہ سایہ تو کسی آدمی کا ہے، نبی ﷺ میرے پاس آنے والے نہیں تو یہ کون ہے ؟ اتنی دیر میں نبی ﷺ گھر کے اندر آگئے، حضرت زینب نبی ﷺ کو دیکھ کر کہنے لگیں یا رسول اللہ ! خوشی سے مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ آپ کی تشریف آوری پر کیا کروں ؟ ان کی ایک باندی تھی جو ان کے لئے خیمہ تیار کرتی تھی، انہوں نے عرض کیا کہ فلاں باندی آپ کی نذر پھر نبی ﷺ حضرت زینب کی چارپائی تک چل کر آئے اور اس پر اپنا ہاتھ رکھ دیا پھر ان سے تخلیہ فرمایا اور ان سے راضی ہوگئے۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے