1072. حضرت فاطمہ بنت قیس کی حدیثیں
حضرت فاطمہ بنت قیس کی حدیثیں
امام عامر شعبی سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ حاضر ہوا اور حضرت فاطمہ بنت قیس کے یہاں گیا تو انہوں نے مجھے یہ حدیث سنائی کہ نبی ﷺ کے دور میں ان کے شوہرنے انہیں طلاق دیدی، اسی دوران نبی ﷺ نے اسے ایک دستہ کے ساتھ روانہ فرمادیا، تو مجھ سے اس کے بھائی نے کہا کہ تم اس گھر سے نکل جاؤ ! میں نے اس سے پوچھا کہ کیا عدت ختم ہونے تک مجھے نفقہ اور رہائش ملے گی ؟ اس نے کہا نہیں میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگئی اور عرض کیا کہ فلاں شخص نے مجھے طلاق دیدی ہے اور اس کا بھائی مجھے گھر سے نکال رہا ہے اور نفقہ اور سکنی بھی نہیں دے رہا ؟ نبی ﷺ نے پیغام بھیج کر اسے بلایا اور فرمایا بنت آل قیس کے ساتھ تمہارا کیا جھگڑا ہے ؟ اس نے کہا کہ یا رسول اللہ ! میرے بھائی نے اسے اکٹھی تین طلاقیں دیدی ہیں، اس پر نبی ﷺ نے فرمایا اے بنت آل قیس ! دیکھو شوہر کے ذمے اس بیوی کا نفقہ اور سکنی واجب ہوتا ہے جس سے وہ رجوع کرسکتا ہو اور جب اس کے پاس رجوع کی گنجائش نہ ہو تو عورت کو نفقہ اور سکنی نہیں ملتا، اس لئے تم اس گھر سے فلاں عورت کے گھر منتقل ہوجاؤ، پھر فرمایا اس کے یہاں لوگ جمع ہو کر باتیں کرتے ہیں اس لئے تم ابن ام مکتوم کے یہاں چلی جاؤ، کیونکہ وہ نابینا ہیں اور تمہیں دیکھ نہیں سکیں گے اور تم اپنا آئندہ نکاح خود سے نہ کرنا بلکہ میں خود تمہارا نکاح کروں گا، اسی دوران مجھے قریش کے ایک آدمی نے پیغام نکاح بھیجا، میں نبی ﷺ کے پاس مشورہ کرنے کے لئے حاضر ہوئی تو نبی ﷺ نے فرمایا کیا تم اس شخص سے نکاح نہیں کرلیتیں جو مجھے اس سے زیادہ محبوب ہے ؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں، یا رسول اللہ ! آپ جس سے چاہیں میرا نکاح کرا دیں، چناچہ نبی ﷺ نے مجھے حضرت اسامہ بن زید کے نکاح میں دیدیا،
حضرت فاطمہ بنت قیس کی حدیثیں
امام شعبی کہتے ہیں کہ جب میں وہاں سے جانے لگا تو انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ میں تمہیں نبی ﷺ کی ایک حدیث سناتی ہوں، ایک مرتبہ نبی ﷺ باہر نکلے اور ظہر کی نماز پڑھائی جب رسول اللہ ﷺ نے اپنی نماز پوری کرلی تو فرمایا کہ بیٹھے رہو ! منبر پر تشریف فرما ہوئے، لوگ حیران ہوئے تو فرمایا لوگو ! اپنی نماز کی جگہ پر ہی بیٹھے رہو ! میں نے تمہیں کسی بات کی ترغیب یا اللہ سے ڈرانے کے لئے جمع نہیں کیا۔ میں نے تمہیں صرف اس لئے جمع کیا ہے کہ تمیم داری میرے پاس آئے اور اسلام پر بیعت کی اور مسلمان ہوگئے اور مجھے ایک بات بتائی جس نے خوشی اور آنکھوں کی ٹھنڈک سے مجھے قیلولہ کرنے سے روک دیا، اس لئے میں نے چاہا کہ تمہارے پیغمبر کی خوشی تم تک پھیلادوں چناچہ انہوں نے مجھے خبردی کہ وہ اپنے چچا زاد بھائیوں کے ساتھ ایک بحری کشتی میں سوار ہوئے، اچانک سمندر میں طوفان آگیا، وہ سمندر میں ایک نامعلوم جزیہ کی طرف پہنچے یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا تو وہ چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر جزیہ کے اندر داخل ہوئے تو انہیں وہاں ایک جانور ملا جو موٹے اور گھنے بالوں والا تھا، انہیں سمجھ نہ آئی کہ وہ مرد ہے یا عورت انہوں نے اسے سلام کیا اس نے جواب دیا، انہوں نے کہا تو کون ہے ؟ اس نے کہا اے قوم اس آدمی کی طرف گرجے میں چلو کیونکہ وہ تمہاری خبر کے بارے میں بہت شوق رکھتا ہے ہم نے اس سے پوچھا کہ تم کون ہو اس نے بتایا کہ میں جساسہ ہوں، چناچہ وہ چلے یہاں تک کہ گرجے میں داخل ہوگئے وہاں ایک انسان تھا جسے انتہائی سختی کے ساتھ باندھا گیا تھا وہ انتہائی غمگین اور بہت زیادہ شکایت کرنے والا تھا، انہوں نے اسے سلام کیا، اس نے جواب دیا اور پوچھا تم کون ہو ؟ انہوں نے کہا ہم عرب کے لوگ ہیں، اس نے پوچھا کہ اہل عرب کا کیا بنا ؟ کیا ان کے نبی کا ظہور ہوگیا ؟ انہوں نے کہا ہاں ! اس نے پوچھا پھر اہل عرب نے کیا کیا ؟ انہوں نے بتایا کہ اچھا کیا، ان پر ایمان لے آئے اور ان کی تصدیق کی اس نے کہا کہ انہوں نے اچھا کیا وہ ان کے دشمن تھے لیکن اللہ نے انہیں ان پر غالب کردیا، اس نے پوچھا کہ اب عرب کا ایک خدا، ایک دین اور ایک کلمہ ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں ! اس نے پوچھا زغر چشمے کا کیا بنا ؟ انہوں نے کہا کہ صحیح ہے لوگ اس کا پانی خود بھی پیتے ہیں اور اپنے کھیتوں کو بھی اس سے سیراب کرتے ہیں، اس نے پوچھا عمان اور بیسان کے درمیان باغ کیا کیا بنا ؟ انہوي نے کہا کہ صحیح ہے اور ہر سال پھل دیتا ہے اس نے پوچھا بحیرہ طربیہ کا کیا بنا ؟ انہوں نے کہا کہ بھرا ہوا ہے اس پر وہ تین مرتبہ بےچینی اور قسم کھا کر کہنے لگا اگر میں اس جگہ سے نکل گیا تو اللہ کی زمین کا کوئی حصہ ایسا نہیں چھوڑوں گا جسے اپنے پاؤں تلے روند نہ دوں سوائے طیبہ کے کہ اس پر مجھے کوئی قدرت نہیں ہوگی، نبی ﷺ نے فرمایا یہاں پہنچ کر میری خوشی بڑھ گئی (تین مرتبہ فرمایا) مدینہ ہی طیبہ ہے اور اللہ نے میرے حرم میں داخل ہونا دجال پر حرام قرار دے رکھا ہے، پھر نبی ﷺ نے قسم کھا کر فرمایا اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، مدینہ منورہ کا کوئی تنگ یا کشادہ، وادی اور پہاڑ ایسا نہیں ہے جس پر قیامت تک کے لئے تلوارسونتا ہوا فرشتہ مقرر نہ ہو، دجال اس شہر میں داخل ہونے کی طاقت نہیں رکھتا۔ عامر کہتے ہیں کہ پھر میں محرر بن ابی ہریرہ سے ملا اور ان سے حضرت فاطمہ بنت قیس کی یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے کہا میں گواہی دیتاہوں کہ میرے والد صاحب نے مجھے یہ حدیث اسی طرح سنائی تھی جس طرح حضرت فاطمہ نے آپ کوئی سنائی ہے البتہ والد صاحب نے بتایا تھا کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے وہ مشرق کی جانب ہے۔ پھر میں قاسم بن محمد سے ملا اور ان سے یہ حدیث فاطمہ ذکر کی انہوں نے فرمایا میں گواہی دیتاہوں کہ حضرت عائشہ نے مجھے بھی یہ حدیث اسی طرح سنائی تھی جیسے حضرت فاطمہ نے آپ کو سنائی ہے، البتہ انہوں نے یہ فرمایا تھا کہ دونوں حرم یعنی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ دجال پر حرام ہوں گے۔
حضرت فاطمہ بنت قیس کی حدیثیں
حضرت فاطمہ بنت قیس سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ باہر نکلے اور ظہر کی نماز پڑھائی جب رسول اللہ ﷺ نے اپنی نماز پوری کرلی تو فرمایا کہ بیٹھے رہو ! منبر پر تشریف فرما ہوئے، لوگ حیران ہوئے تو فرمایا لوگو ! اپنی نماز کی جگہ پر ہی بیٹھے رہو ! میں نے تمہیں کسی بات کی ترغیب یا اللہ سے ڈرانے کے لئے جمع نہیں کیا۔ میں نے تمہیں صرف اس لئے جمع کیا ہے کہ تمیم داری میرے پاس آئے اور اسلام پر بیعت کی اور مسلمان ہوگئے اور مجھے ایک بات بتائی کہ وہ اپنے چچا زاد بھائیوں کے ساتھ ایک بحری کشتی میں سوار ہوئے، اچانک سمندر میں طوفان آگیا، وہ سمندر میں ایک نامعلوم جزیرے کی طرف پہنچے یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا تو وہ چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر جزیرے کے اندر داخل ہوئے تو انہیں وہاں ایک جانور ملا جو موٹے اور گھنے بالوں والا تھا، انہیں سمجھ نہ آئی کہ وہ مرد ہے یا عورت انہوں نے اسے سلام کیا اس نے جواب دیا، انہوں نے کہا تو کون ہے ؟ اس نے کہا اے قوم اس آدمی کی طرف گرجے میں چلو کیونکہ وہ تمہاری خبر کے بارے میں بہت شوق رکھتا ہے ہم نے اس سے پوچھا کہ تم کون ہو اس نے بتایا کہ میں جساسہ ہوں، چناچہ وہ چلے یہاں تک کہ گرجے میں داخل ہوگئے وہاں ایک انسان تھا جسے انتہائی سختی کے ساتھ باندھا گیا تھا، اس نے پوچھا تم کون ہو ؟ انہوں نے کہا ہم عرب کے لوگ ہیں، اس نے پوچھا کہ اہل عرب کا کیا بنا ؟ کیا ان کے نبی کا ظہور ہوگیا ؟ انہوں نے کہا ہاں ! اس نے پوچھا پھر اہل عرب نے کیا کیا ؟ انہوں نے بتایا کہ اچھا کیا، ان پر ایمان لے آئے اور ان کی تصدیق کی اس نے کہا کہ انہوں نے اچھا کیا، پھر اس نے پوچھا کہ اہل فارس کا کیا بنا ؟ کیا وہ ان پر غالب آگئے ؟ انہوں نے کہا کہ وہ ابھی تک تو اہل فارس پر غالب نہیں آئے، اس نے کہا کہ یاد رکھو ! عنقریب وہ ان پر غالب آجائیں گے، اس نے کہا مجھے زغر کے چشمہ کے بارے میں بتاؤ، ہم نے کہا یہ کثیر پانی والا ہے اور وہاں کے لوگ اس کے پانی سے کھیتی باڑی کرتے ہیں پھر اس نے کہا نخل بیسان کا کیا بنا ؟ کیا اس نے پھل دینا شروع کیا ؟ انہوں نے کہا کہ اس کا ابتدائی حصہ پھل دینے لگا ہے اس پر وہ اتنا اچھلا کہ ہم سجھے یہ ہم پر حملہ کردے گا، ہم نے اس سے پوچھا کہ تو کون ہے ؟ اس نے کہا کہ میں مسیح (دجال) ہوں عنقریب مجھے نکلنے کی اجازت دیدی جائے گی، پس میں نکلوں گا تو زمین میں چکرلگاؤں گا اور چالیس راتوں میں ہر ہر بستی پر اتروں گا مکہ اور طیبہ کے علاوہ کیونکہ ان دونوں پر داخل ہونا میرے لئے حرام کردیا گیا ہے، نبی ﷺ نے فرمایا مسلمانو ! خوش ہوجاؤ کہ طیبہ یہی مدینہ ہے، اس میں دجال داخل نہ ہوسکے گا۔
حضرت فاطمہ بنت قیس کی حدیثیں
حضرت فاطمہ بنت قیس سے مروی ہے کہ میرے شوہر ابوعمر بن حفص بن مغیرہ نے ایک دن مجھے طلاق کا پیغام بھیج دیا اور اس سے ساتھ پانچ صاع کی مقدار میں جو بھی بھیج دئیے میں نے کہا میرے پاس خرچ کرنے کے لئے اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور میں تمہارے گھر ہی کی عدت گذار سکتی ہوں ؟ اس نے کہا نہیں یہ سن کر میں نے اپنے کپڑے سمیٹے، پھر نبی کی خدمت میں حاضر ہوئی اور سارا واقعہ ذکر کیا، نبی نے پوچھا انہوں نے تمہیں کتنی طلاقیں دیں ؟ میں نے بتایا تین طلاقیں نبی نے فرمایا انہوں نے سچ کہا تمہیں کوئی نفقہ نہیں ملے گا اور تم اپنے چچا زاد بھائی ابن ام مکتوم کے گھر میں جا کر عدت گذار لو، کیونکہ ان کی بینائی نہایت کمزور ہوچکی ہے، تم ان کے سامنے بھی اپنے دوپٹے کو اتار سکتی ہو، جب تمہاری عدت گذر جائے تو مجھے بتانا۔ عدت کے بعد میرے پاس کئی لوگوں نے پیغام نکاح بھیجا جن میں حضرت معاویہ اور ابوجہم بھی شامل تھے، نبی نے فرمایا معاویہ تو خاک نشین اور حفیف الحال ہیں، جبکہ عورتوں کو مارتے ہیں (انکی طبیعت میں سختی ہے) البتہ تم اسامہ بن زید سے نکاح کرلو۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حضرت فاطمہ بنت قیس کی حدیثیں
حضرت فاطمہ بنت قیس سے مروی ہے کہ مجھے میرے شوہر نے تین طلاقیں دیں تو نبی نے میرے لئے رہائش اور نفقہ مقرر نہیں فرمایا۔
حضرت فاطمہ بنت قیس کی حدیثیں
حضرت فاطمہ بنت قیس سے مروی ہے کہ مجھے میرے شوہر نے تین طلاقیں دیں تو نبی نے مجھے ابن ام مکتوم کے گھر میں عدت گذارنے کا حکم دیا۔
حضرت فاطمہ بنت قیس کی حدیثیں
حضرت فاطمہ بنت قیس سے مروی ہے کہ نبی نے مجھ سے فرمایا جب تمہاری عدت گذر جائے تو مجھے بتانا عدت کے بعد میرے پاس کئی لوگوں نے پیغام نکاح بھیجا جن میں حضرت معاویہ اور ابوجہم بھی شامل تھے، نبی نے فرمایا معاویہ تو خاک نشین اور حفیف الحال ہیں جبکہ عورتوں کو مارتے ہیں (انکی طبیعت میں سختی ہے) البتہ تم اسامہ بن زید سے نکاح کرلو انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے کہا " اسامہ " نبی نے ان سے فرمایا کہ تمہارے حق میں اللہ اور اس کے رسول کی بات ماننا زیادہ بہتر ہے، چناچہ میں نے اس رشتے کو منظور کرلیا بعد میں لوگ مجھ پر رشک کرنے لگے۔
حضرت فاطمہ بنت قیس کی حدیثیں
حضرت فاطمہ سے مروی ہے کہ نبی نے مدینہ منورہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ طیبہ ہے۔
حضرت فاطمہ بنت قیس کی حدیثیں
حضرت فاطمہ بنت قیس سے مروی ہے کہ نبی نے تین طلاق یافتہ عورت کے لئے رہائش اور نفقہ مقرر نہیں فرمایا۔
حضرت فاطمہ بنت قیس کی حدیثیں
حضرت فاطمہ بنت قیس سے مروی ہے کہ میرے شوہر ابوعمر بن حفص بن مغیرہ نے ایک دن مجھے طلاق کا پیغام بھیج دیا اور اس کے ساتھ پانچ صاع کی مقدار میں جو بھی بھیج دئیے میں نے کہا میرے پاس خرچ کرنے کے لئے اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور میں تمہارے گھر ہی کی عدت گذار سکتی ہوں ؟ اس نے کہا نہیں یہ سن کر میں نے اپنے کپڑے سمیٹے پھر نبی کی خدمت میں حاضر ہوئی اور سارا واقعہ ذکر کیا نبی نے پوچھا انہوں نے تمہیں کتنی طلاقیں دیں ؟ میں نے بتایا تین طلاقیں، نبی نے فرمایا انہوں نے سچ کہا، تمہیں کوئی نفقہ نہیں ملے گا اور تم اپنے چچا زاد بھائی ابن ام مکتوم کے گھر میں جا کر عدت گذار لو، کیونکہ ان کی بینائی نہایت کمزور ہوچکی ہے تم ان کے سامنے بھی اپنے دوپٹے کو اتار سکتی ہو جب تمہاری عدت گذر جائے تو مجھے بتانا۔ عدت کے بعد میرے پاس کئی لوگوں نے پیغام نکاح بھیجا جن میں حضرت معاویہ اور ابوجہم بھی شامل تھے، نبی نے فرمایا معاویہ تو خاک نشین اور حفیف الحال ہیں جبکہ عورتوں کو مارتے ہیں (انکی طبیعت میں سختی ہے) البتہ تم اسامہ بن زید سے نکاح کرلو۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حضرت فاطمہ بنت قیس کی حدیثیں
حضرت فاطمہ بنت قیس سے مروی ہے کہ نبی نے تین طلاق یافتہ عورت کے لئے رہائش اور نفقہ مقرر نہیں فرمایا : ابراہیم اور شعمی کہتے ہیں کہ حضرت عمر نے فرمایا ہے کہ فاطمہ کی بات کی تصدیق نہ کرو ایسی عورت کو رہائش اور نفقہ دونوں ملیں گے۔
حضرت فاطمہ بنت قیس کی حدیثیں
حضرت فاطمہ بنت قیس سے مروی ہے کہ نبی نے تین طلاق یافتہ عورت کے لئے رہائش اور نفقہ مقرر نہیں فرمایا۔
حضرت فاطمہ بنت قیس کی حدیثیں
حضرت فاطمہ بنت قیس سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی باہر نکلے اور ظہر کی نماز پڑھائی جب رسول اللہ ﷺ نے اپنی نماز پوری کرلی تو بیٹھے رہو، منبر پر تشریف فرما ہوئے لوگ حیران ہوئے تو فرمایا لوگو، ! اپنی نماز کی جگہ پر ہی رہو میں نے تمہیں کسی بات کی ترغیب یا اللہ سے ڈرانے کے لئے جمع نہیں کیا۔ میں نے تمہیں صرف اس لئے جمع کیا ہے کہ تمیم داری میرے پاس آئے اور اسلام پر بیعت کی اور مسلمان ہوگئے اور مجھے ایک بات بتائی کہ وہ اپنے چچا زاد بھائیوں کے ساتھ ایک بحری کشتی میں سوار ہوئے، اچانک سمندر میں طوفان آگیا، وہ سمندر میں ایک نامعلوم جزیرہ کی طرف پہنچے یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا تو وہ چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر جزیرہ کے اندر داخل ہوئے تو انہیں وہاں ایک جانور ملا جو موٹے اور گھنے بالوں والا تھا، انہیں سمجھ نہ آئی کہ وہ مرد ہے یا عورت انہوں نے اسے سلام کیا، اس نے جواب دیا، انہوں نے کہا تم کون ہو ؟ اس نے کہا : اے قوم ! اس آدمی کی طرف گرجے میں چلو کیونکہ وہ تمہاری خبر کے بارے میں بہت شوق رکھتا ہے ہم نے اس سے پوچھا تم کون ہو ؟ اس نے بتایا کہ میں جساسہ ہوں چناچہ وہ چلے یہاں تک کہ گرجے میں داخل ہوگئے وہاں ایک انسان تھا جسے انتہائی سختی کے ساتھ باندھا گیا تھا، اس نے پوچھا تم کون ہو ؟ انہوں نے کہا ہم عرب کے لوگ ہیں، اس نے پوچھا کہ اہل عرب کا کیا بنا ؟ کیا ان کے نبی کا ظہور ہوگیا ؟ انہوں نے کہا ہاں ! اس نے پوچھا پھر اہل عرب نے کیا کیا ؟ انہوں نے بتایا کہ اچھا کیا، ان پر ایمان لے آئے اور ان کی تصدیق کی، اس نے کہا کہ انہوں نے اچھا کیا پھر اس نے پوچھا کہ اہل فارس کا کیا بنا، کیا وہ ان پر غالب آگئے ؟ انہوں نے کہا کہ وہ ابھی تک اہل فارس پر غالب نہیں آئے، اس نے کہا یاد رکھو ! عنقریب وہ ان پر غالب آجائیں گے، اس نے کہا : مجھے زغر کے چشمہ کے بارے میں بتاؤ، ہم نے کہا یہ کثیر پانی والا ہے اور وہاں کے لوگ اس کے پانی سے کھیتی باڑی کرتے ہیں پھر اس نے کہا نخل بیسان کا کیا بنا ؟ کیا اس نے پھل دینا شروع کیا ؟ انہوں نے کہا کا اس کا ابتدائی حصہ پھل دینے لگا ہے، اس پر ہو اتنا اچھلا کہ ہم سمجھے یہ ہم پر حملہ کر دے گا، ہم نے اس سے پوچھا کہ تو کون ہے ؟ انہوں نے کہا کہ میں مسیح (دجال) ہوں، عنقریب مجھے نکلنے کی اجازت دے دی جائی گی۔ پس میں نکلوں گا تو زمین میں چکر لگاؤں گا اور چالیس راتوں میں ہر بستی پر اتروں گا مکہ اور طیبہ کے علاوہ کیونکہ ان دونوں پر داخل ہونا میرے لئے حرام کردیا گیا ہے، نبی نے فرمایا مسلمانو ! خوش ہوجاؤ کہ طیبہ یہی مدینہ ہے، اس میں دجال داخل نہ ہو سکے گا۔
حضرت فاطمہ بنت قیس کی حدیثیں
حضرت فاطمہ بنت قیس سے مروی ہے کہ میرے شوہر ابوعمرو بن حفص بن مغیرہ نے ایک دن مجھے طلاق کا پیغام بھیج دیا اور اس کے ساتھ پانچ قفیز کی مقدار میں جو اور پانچ قفیز کی مقدار میں کھجور بھیج دی، اس کے علاوہ رہائش یا کوئی خرچہ نہیں دیا، میں نبی کی خدمت میں حاضر ہوئی اور سارا واقعہ ذکر کیا نبی نے فرمایا انہوں نے سچ کہا تمہیں کوئی نفقہ نہیں ملے گا اور تم اپنے چچا زاد بھائی ابن ام مکتوم کے گھر میں جا کر عدت گذار لو یاد رہے کہ ان کے شوہر نے انہیں طلاق بائن دی تھی۔
حضرت فاطمہ بنت قیس کی حدیثیں
حضرت فاطمہ بنت قیس سے مروی ہے کہ میرے شوہر ابوعمر بن حفص بن مغیرہ نے ایک دن مجھے طلاق کا پیغام بھیج دیا اور اس کے ساتھ پانچ صاع کی مقدار میں جو بھی بھیج دئیے، میں نے کہا میرے پاس خرچ کرنے کے لئے اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور میں تمہارے گھر میں ہی عدت گذار سکتی ہوں ؟ اس نے کہا نہیں یہ سن کر میں نے اپنے کپڑے سمیٹے پھر نبی کی خدمت میں حاضر ہوئی اور سارا واقعہ ذکر کیا نبی نے پوچھا انہوں نے تمہیں کتنی طلاقیں دیں ؟ میں نے بتایا تین طلاقیں، نبی نے فرمایا انہوں نے سچ کہا، تمہیں کوئی نفقہ نہیں ملے گا اور تم اپنے چچا زاد بھائی ابن ام مکتوم کے گھر میں جا کر عدت گذار لو، کیونکہ ان کی بینائی نہایت کمزور ہوچکی ہے، تم ان کے سامنے بھی اپنے دوپٹے کو اتار سکتی ہو، جب تمہاری عدت گذر جائے تو مجھے بتانا۔ عدت کے بعد میرے پاس کئی لوگوں نے پیغام نکاح بھیجا جن میں حضرت معاویہ اور ابوجہم بھی شامل تھے، نبی نے فرمایا معاویہ تو خاک نشین اور حفیف الحال ہیں جبکہ عورتوں کو مارتے ہیں (انکی طبیعت میں سختی ہے) البتہ تم اسامہ بن زید سے نکاح کرلو۔
حضرت فاطمہ بنت قیس کی حدیثیں
حضرت فاطمہ بنت قیس سے مروی ہے کہ میرے شوہر ابوعمر بن حفص بن مغیرہ نے ایک دن مجھے دو طلاق کا پیغام بھیج دیا، پھر وہ علی کے ساتھ یمن چلا گیا اور وہاں سے مجھے تیسری طلاق بھجوائی اس وقت مدینہ منورہ میں اس کے ذمہ دار عیاش بن ابی ربیعہ تھے، میں نے کہا کہ میرے پاس خرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے اور میں تمہارے ہی گھر میں عدت گذار سکتی ہوں ؟ اس نے کہا نہیں، یہ سن کر میں نے اپنے کپڑے سمیٹے، پھر نبی کی خدمت میں حاضر ہوئی اور سارا واقعہ ذکر کیا، نبی نے پوچھا انہوں نے تمہیں کتنی طلاقیں دیں ؟ میں نے بتایا تین طلاقیں، نبی نے فرمایا انہوں نے سچ کہا، تمہیں کوئی نفقہ نہیں ملے گا اور تم اپنے چچا زاد بھائی ابن ام مکتوم کے گھر میں جا کر عدت گذار لو، کیونکہ ان کی بینائی نہایت کمزور ہوچکی ہے، تم ان کے سامنے بھی اپنے دوپٹے کو اتار سکتی ہو، جب تمہاری عدت گذر جائے تو مجھے بتانا۔ عدت کے بعد میرے پاس کئی لوگوں نے پیغام نکاح بھیجا جن میں حضرت معاویہ اور ابوجہم بھی شامل تھے، نبی نے فرمایا معاویہ تو خاک نشین اور حفیف الحال ہیں، جبکہ عورتوں کو مارتے ہیں (انکی طبیعت میں سختی ہے) البتہ تم اسامہ بن زید سے نکاح کرلو۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حضرت فاطمہ بنت قیس کی حدیثیں
حضرت فاطمہ بنت قیس سے مروی ہے کہ میرے شوہر ابوعمر بن حفص بن مغیرہ نے ایک دن مجھے دو طلاق کا پیغام بھیج دیا اور اپنے وکیل کے ساتھ پانچ صاع کی مقدار میں جو بھی بھیج دیئے، میں نے کہا کہ میرے پاس خرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے اور میں تمہارے ہی گھر میں عدت گذار سکتی ہوں ؟ اس نے کہا نہیں، یہ سن کر میں نے اپنے کپڑے سمیٹے، پھر نبی کی خدمت میں حاضر ہوئی اور سارا واقعہ ذکر کیا، نبی نے پوچھا انہوں نے تمہیں کتنی طلاقیں دیں ؟ میں نے بتایا تین طلاقیں، نبی نے فرمایا انہوں نے سچ کہا تمہیں کوئی نفقہ نہیں ملے گا اور تم اپنے چچا زاد بھائی ابن ام مکتوم کے گھر میں جا کر عدت گذار لو، کیونکہ ان کی بینائی نہایت کمزور ہوچکی ہے، تم ان کے سامنے بھی اپنے دوپٹے کو اتار سکتی ہو، جب تمہاری عدت گذر جائے تو مجھے بتانا۔ عدت کے بعد میرے پاس کئی لوگوں نے پیغام ِ نکاح بھیجا جن میں حضرت معاویہ اور ابوجہم بھی شامل تھے، نبی نے فرمایا معاویہ تو خاک نشین اور حفیف الحال ہیں، جبکہ عورتوں کو مارتے ہیں (انکی طبیعت میں سختی ہے) البتہ تم اسامہ بن زید سے نکاح کرلو چناچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔
حضرت فاطمہ بنت قیس کی حدیثیں
حضرت فاطمہ بنت قیس سے مروی ہے کہ میرے شوہر ابوعمر بن حفص بن مغیرہ نے ایک دن مجھے دو طلاق کا پیغام بھیج دیا، اس وقت وہ علی کے ساتھ یمن گیا ہوا تھا، اس نے حارث بن ہشام اور عیاش بن ابی ربیعہ کو نفقہ دینے کے لئے بھی کہا لیکن وہ کہنے لگے کہ واللہ تمہیں اس وقت تک نفقہ نہیں مل سکتا جب تک تم حاملہ نہ ہو، وہ نبی کی خدمت میں حاضر ہوئی اور سارا واقعہ ذکر کیا نبی نے فرمایا انہوں نے سچ کہا، تمہیں کوئی نفقہ نہیں ملے گا اور تم اپنے چچا زاد بھائی ابن ام مکتوم کے گھر میں جا کر عدت گذار لو، کیونکہ ان کی بینائی نہایت کمزور ہوچکی ہے، تم ان کے سامنے بھی اپنے دوپٹے کو اتار سکتی ہو، جب تمہاری عدت گذر جائے تو مجھے بتانا۔ عدت کے بعد نبی نے انکا نکاح حضرت اسامہ سے کردیا، ایک مرتبہ مروان نے قبیصہ بن ذؤیب کو حضرت فاطمہ کے پاس یہ حدیث پوچھنے کے لئے بھیجا تو انہوں نے یہی حدیث بیان کردی، مروان کہنے لگا کہ یہ حدیث تو ہم نے محض ایک عورت سے سنی ہے، ہم عمل اس پر کریں گے جس پر ہم نے لوگوں کو عمل کرتے پایا ہے، حضرت فاطمہ کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے کہا میرے اور تمہارے درمیان قرآن فیصلہ کرے گا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے " تم انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں، الاّ یہ کہ وہ واضح بےحیائی کا کوئی کام کریں، " شاید اس کے بعد اللہ اس کے سامنے کوئی نئی صورت پیدا کردے " انہوں نے فرمایا یہ حکم تو اس شخص کے متعلق ہے جو رجوع کرسکتا ہو، یہ بتاؤ کہ تین طلاقوں کے بعد کون سی نئی صورت پیدا ہوگی۔
حضرت فاطمہ بنت قیس کی حدیثیں
حضرت فاطمہ بنت قیس سے مروی ہے کہ مجھے میرے شوہر نے تین طلاقیں دیں تو نبی نے میرے لئے رہائش اور نفقہ مقرر نہیں فرمایا : لیکن حضرت عمر فاروق فرماتے ہیں کہ محض ایک عورت کی بات پر ہم کتاب اللہ اور نبی کی سنت کو چھوڑ نہیں سکتے، ہوسکتا ہے کہ وہ عورت بھول گئی ہو اور امام شعبی کہتے ہیں کہ حضرت فاطمہ نے مجھے یہ بھی بتایا تھا کہ نبی نے انہیں ابن ام مکتوم کے گھر میں عدت گذارنے کا حکم دیا تھا۔
حضرت فاطمہ بنت قیس کی حدیثیں
حضرت فاطمہ بنت قیس " جو کہ بنت سعید زید کی خالہ تھیں اور وہ عبداللہ بن عمرو بن عثمان کے نکاح میں تھیں " سے مروی ہے کہ انہیں ان کے شوہر نے تین طلاقیں دے دیں، ان کی خالہ حضرت فاطمہ نے ان کے پاس ایک قاصد بھیج کر انہیں یہاں بلا لیا، اس زمانے میں مدینہ منورہ کا گورنر مروان بن حکم تھا، قبیصہ کہتے ہیں کہ مروان نے مجھے حضرت فاطمہ کے پاس یہ پوچھنے کے لئے بھیجا کہ آپ نے ایک عورت کو اس کی عدت پوری ہونے سے پہلے اس کے گھر سے نکلنے پر مجبور کیوں کیا ؟ انہوں نے جواب دیا اس لئے کہ نبی نے مجھے بھی یہی حکم دیا تھا، پھر انہوں نے مجھے وہ حدیث سنائی، پھر فرمایا کہ میں اپنی دلیل میں قرآن کریم سے بھی اجتہاد کرتی ہوں، اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں کہ " اگر تم اپنی بیویوں کو طلاق دے دو تو زمانہ عدت (طہر) میں طلاق دیا کرو اور عدت کے ایام گنتے رہا کرو اور اللہ سے جو تمہارا رب ہے ڈرتے رہو، یہ تم انہیں اپنے گھر سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں، الاّ یہ کہ وہ کھلی بےحیائی کا کوئی کام کریں "۔۔۔ " شاید اس کے بعد اللہ کوئی نیا فیصلہ فرما دے "۔۔۔ تیسرے درجے میں فرمایا " جب وہ اپنی عدت پوری کر چکیں تو تم انہیں اچھی طرح رکھو یا اچھے طریقے سے رخصت کرو " بخدا اللہ تعالیٰ نے اس تیسرے درجے کے بعد عورت کو روک کر رکھنے کا ذکر نہیں فرمایا پھر نبی نے مجھے بھی یہی حکم دیا۔ راوی کہتے ہیں کہ میں مروان کے پاس آیا اور اسے یہ ساری بات بتائی، اس نے کہا کہ یہ تو ایک عورت کی بات ہے، یہ تو ایک عورت کی بات ہے، پھر اس نے ان کی بھانجی کو اس کے گھر واپس بھیجنے کا حکم دیا چناچہ اسے واپس بھیج دیا یہاں تک کہ اس کی عدت گذر گئی۔
حضرت فاطمہ بنت قیس کی حدیثیں
حضرت فاطمہ بنت قیس سے مروی ہے کہ مجھے میرے شوہر نے تین طلاقیں دیں تو نبی نے میرے لئے رہائش اور نفقہ مقرر نہیں فرمایا اور فرمایا کہ اے بنت آل قیس ! رہائش اور نفقہ اسے ملتا ہے جس سے رجوع کیا جاسکتا ہو۔
حضرت فاطمہ بنت قیس کی حدیثیں
حضرت فاطمہ بنت قیس سے مروی ہے کہ میرے شوہر ابوعمر بن حفص بن مغیرہ نے ایک دن مجھے طلاق کا پیغام بھیج دیا، میں نبی کی خدمت میں حاضر ہوئی اور سارا واقعہ ذکر کیا، نبی نے فرمایا تم اپنے چچا زاد بھائی ابن ام مکتوم کے گھر میں جا کر عدت گذار لو، مروان اس حدیث سے انکار کرتا تھا اور مطلقہ عورت کو اس کے گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں دیتا تھا اور بقول عروہ حضرت عائشہ بھی اس کا انکار کرتی تھیں۔
حضرت فاطمہ بنت قیس کی حدیثیں
حضرت فاطمہ بنت قیس سے مروی ہے کہ مجھے میرے شوہر نے تین طلاقیں دیں تو نبی نے میرے لئے رہائش اور نفقہ مقرر نہیں فرمایا۔
حضرت فاطمہ بنت قیس کی حدیثیں
حضرت فاطمہ بنت قیس سے مروی ہے کہ نبی نے ان سے دوران عدت فرمایا کہ مجھے بتائے بغیر شادی نہ کرنا۔
حضرت فاطمہ بنت قیس کی حدیثیں
حضرت فاطمہ بنت قیس سے مروی ہے کہ میرے شوہر ابوعمر بن حفص بن مغیرہ نے ایک دن مجھے طلاق کا پیغام بھیج دیا، میں نبی کی خدمت میں حاضر ہوئی تو نبی نے فرمایا تمہیں کوئی سکنی اور نفقہ نہیں ملے گا اور تم اپنے چچا زاد بھائی ابن ام مکتوم کے گھر میں جا کر عدت گذار لو اور فرمایا رہائش اور نفقہ اسے ملتا ہے جس سے رجوع کیا جاسکتا ہو۔
حضرت فاطمہ بنت قیس کی حدیثیں
حضرت فاطمہ بنت قیس سے مروی ہے کہ میرے شوہر ابوعمرو بن حفص بن مغیرہ نے ایک دن مجھے طلاق کا پیغام بھیج دیا، نبی نے فرمایا تم اپنے چچا زاد بھائی ابن ام مکتوم کے گھر میں جا کر عدت گذار لو۔
حضرت فاطمہ بنت قیس کی حدیثیں
حضرت فاطمہ بنت قیس سے مروی ہے کہ مجھے میرے شوہر نے تین طلاق کا پیغام بھج دیا، میں نبی کی خدمت میں حاضر ہوئی اور سارا واقعہ ذکر کیا، نبی نے فرمایا تم اپنے چچا زاد بھائی ابن ام مکتوم کے گھر میں جا کر عدت گذار لو۔
حضرت فاطمہ بنت قیس کی حدیثیں
حضرت فاطمہ بنت قیس سے مروی ہے کہ میرے شوہر ابوعمر بن حفص بن مغیرہ نے ایک دن مجھے طلاق کا پیغام بھیج دیا، میں نبی کی خدمت میں حاضر ہوئی اور سارا واقعہ ذکر کیا، نبی نے فرمایا تم اپنے چچا زاد بھائی ابن ام مکتوم کے گھر میں جا کر عدت گذار لو، مروان اس حدیث سے انکار کرتا تھا اور مطلقہ عورت کو اس کے گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں دیتا تھا اور بقول عروہ حضرت عائشہ بھی اس کا انکار کرتی تھیں۔
حضرت فاطمہ بنت قیس کی حدیثیں
امام عامر شیبی سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ مدینہ منورہ حاضر ہوا اور حضرت بنت قیس کے یہاں گیا تو انہوں نے مجھے یہ حدیث سنائی کہ نبی کے دور میں ان کے شوہر نے انہیں طلاق دے دی، اسی دوران نبی نے اسے ایک دستہ کے ساتھ روانہ فرما دیا، تو مجھ سے اس کے بھائی نے کہا کہ تم اس گھر سے نکل جاؤ، میں نے اس سے پوچھا کہ کیا عدت ختم ہونے تک مجھے نفقہ اور رہائش ملے گی ؟ اس نے کہا نہیں میں نبی کی خدمت میں حاضر ہوگئی اور عرض کیا کہ فلاں شخص نے مجھے طلاق دے دی ہے اور اس کا بھائی مجھے گھر سے نکال رہا ہے اور نفقہ اور سکنی بھی نہیں دے رہا ؟ نبی نے پیغام بھیج کر بلایا اور فرمایا بنت آل قیس کے ساتھ تمہارا کیا جھگڑا ہے ؟ اس نے کہا کہ یا رسول اللہ ! میرے بھائی نے اسے اکٹھی تین طلاقیں دے دی ہیں، اس پر نبی نے فرمایا اے بنت آل قیس ! دیکھو شوہر کے ذمے اس بیوی کا نفقہ اور سکنی واجب ہوتا ہے جس سے ہو رجوع کرسکتا ہو اور جب اس کے پاس رجوع کی گنجائش نہ ہو تو عورت کو نفقہ اور سکنی نہیں ملتا، اس لئے تم اس گھر سے فلاں عورت کے گھر منتقل ہوجاؤ، پھر فرمایا اس کے یہاں لوگ جمع ہو کر باتیں کرتے ہیں اس لئے تم ابن ام مکتوم کے یہاں چلی جاؤ، کیونکہ وہ نابینا ہیں اور تہ میں دیکھ نہیں سکیں گے اور تم آئندہ خود سے نکاح نہ کرنا بلکہ میں خود تمہارا نکاح کرو گا، اسی دوران مجھے قریش کے ایک آدمی نے پیغام بھیجا، میں نبی کے پاس مشورہ کرنے حاضر ہوئی تھی تو نبی نے فرمایا کیا تم اس شخص سے نکاح کرلیتیں جو مجھے اس سے زیادہ محبوب ہے ؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں، یا رسول اللہ ! آپ جس سے چاہیں میرا نکاح کرا دیں، چناچہ نبی نے مجھے حضرت اسامہ بن زید کے نکاح میں دے دیا،
حضرت فاطمہ بنت قیس کی حدیثیں
امام شعبی کہتے ہیں کہ جب میں وہاں سے جانے لگا تو انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ میں تمہیں نبی کی ایک حدیث سناتی ہوں، ایک مرتبہ نبی باہر نکلے ظہر کی نماز پڑھائی، جب رسول اللہ ﷺ نے اپنی نماز پوری کرلی تو فرمایا بیٹھے رہو، منبر پر تشریف فرما ہوئے لوگ حیران ہوئے تو فرمایا لوگو ! اپنی نماز کی جگہ پر ہی رہو میں نے تمہیں کسی بات کی ترغیب یا اللہ سے ڈرانے کے لئے جمع نہیں کیا۔ میں نے تمہیں صرف اس لئے جمع کیا ہے کہ تمیم داری میرے پاس آئے اور اسلام پر بیعت کی اور مسلمان ہوگئے اور مجھے ایک بات بتائی کہ وہ اپنے چچا زاد بھائیوں کے ساتھ ایک بحری کشتی میں سوار ہوئے، اچانک سمندر میں طوفان آگیا، وہ سمندر میں ایک نامعلوم جزیرہ کی طرف پہنچے یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا تو وہ چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر جزیرہ کے اندر داخل ہوئے تو انہیں وہاں ایک جانور ملا جو موٹے اور گھنے بالوں والا تھا، انہیں سمجھ نہ آئی کہ وہ مرد ہے یا عورت انہوں نے اسے سلام کیا، اس نے جواب دیا، انہوں نے کہا تم کون ہو ؟ اس نے کہا : اے قوم ! اس آدمی کی طرف گرجے میں چلو کیونکہ وہ تمہاری خبر کے بارے میں بہت شوق رکھتا ہے ہم نے اس سے پوچھا تم کون ہو ؟ اس نے بتایا کہ میں جساسہ ہوں، چناچہ وہ چلے یہاں تک کہ گرجے میں داخل ہوگئے، وہاں ایک انسان تھا جو انتہائی سختی کے ساتھ بندھا ہوا تھا وہ انتہائی غمگین اور بہت زیادہ شکایت کرنے والا تھا، انہوں نے سلام کیا، اس نے جواب اور پوچھا تم کون ہو ؟ انہوں نے کہا ہم عرب کے لوگ ہیں، اس نے پوچھا کہ اہل عرب کا کیا بنا ؟ کیا ان کے نبی کا ظہور ہوگیا ؟ انہوں نے کہا ہاں ! اس نے پوچھا پھر اہل عرب نے کیا کیا ؟ انہوں نے بتایا کہ اچھا کیا، ان پر ایمان لے آئے اور ان کی تصدیق کی، انہوں نے کہا کہ ان کے دشمن تھے لیکن اللہ نے ان پر غالب کردیا، اس نے پوچھا کہ اب عرب کا ایک اللہ، ایک دین ایک کلمہ ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں ! اس نے پوچھا زغر کے چشمے کا کیا بنا ؟ انہوں نے کہا صحیح ہے، لوگ اس کا پانی خود بھی پیتے ہیں اور اپنے کھیتوں کو بھی سیراب کرتے ہیں، اس نے پوچھا عمان اور بیسان کے درمیان باغ کا کیا بنا ؟ انہوں نے کہا صحیح ہے اور ہر سال پھل دیتا ہے، اس نے پوچھا بحیریہ طبریہ کا کیا بنا ؟ انہوں نے کہا کہ بھرا ہوا ہے، اس پر وہ تین مرتبہ اچھلا اور قسم کھا کر کہنے لگا اگر میں اس جگہ سے نکل گیا تو اللہ کی زمین کا کوئی حصہ ایسا نہیں چھوڑوں گا جسے اپنے پاؤں تلے روند نہ دوں، سوائے طیبہ کے کہ اس پر مجھے قدرت نہیں ہوگی، نبی نے فرمایا یہاں پہنچ کر میری خوشی بڑھ گئی (تین مرتبہ فرمایا مدینہ ہی طیبہ ہے اور اللہ نے میرے حرم میں داخل ہونا دجال پر حرام قرار دے رکھا ہے، پھر نبی نے قسم کھا کر فرمایا اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، مدینہ منورہ کا کوئی تنگ یا کشادہ، وادی اور پہاڑ ایسا نہیں ہے جس پر قیامت تک لے لئے تلوار سونتا ہوا فرشتہ مقرر نہ ہو، دجال اس شہر میں داخل ہونے کی طاقت نہیں رکھتا۔ عامر کہتے ہیں کہ پھر میں محرر بن ابی ہریرہ سے ملا اور ان سے حضرت فاطمہ بن قیس کی یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ میرے والد صاحب نے مجھے یہ حدیث اسی طرح سنائی تھی، جس طرح حضرت فاطمہ نے آپ کو سنائی ہے البتہ والد صاحب نے بتایا تھا کہ نبی نے فرمایا ہے وہ مشرق کی جانب ہے۔ پھر میں قاسم بن محمد سے ملا اور ان سے یہ حدیث فاطمہ ذکر کی، انہوں نے فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت عائشہ نے مجھے بھی یہ حدیث سی طرح سنائی تھی جیسے حضرت فاطمہ نے آپ کو سنائی ہے، البتہ انہوں نے یہ فرمایا تھا کہ دونوں حرم یعنی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ دجال پر حرام ہوں گے۔
حضرت فاطمہ بنت قیس کی حدیثیں
حضرت فاطمہ بنت قیس سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی باہر نکلے اور ظہر کی نماز پڑھائی، جب رسول اللہ ﷺ نے اپنی نماز پوری کرلی تو منبر پر تشریف فرما ہوئے لوگ حیران ہوئے تو فرمایا لوگو ! اپنی نماز کی جگہ پر ہی رہو میں نے تمہیں کسی بات کی ترغیب یا اللہ سے ڈرانے کے لئے جمع نہیں کیا۔ میں نے تمہیں صرف اس لئے جمع کیا ہے کہ تمیم داری میرے پاس آئے اور اسلام پر بیعت کی اور مسلمان ہوگئے اور مجھے ایک بات بتائی کہ وہ اپنے چچا زاد بھائیوں کے ساتھ ایک بحری کشتی میں سوار ہوئے اچانک سمندر میں طوفان آگیا، وہ سمندر میں ایک نامعلوم جزیرہ کی طرف پہنچے یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا تو وہ چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر جزیرہ کے اندر داخل ہوئے تو انہیں وہاں ایک جانور ملا جو موٹے اور گھنے بالوں والا تھا، انہیں سمجھ نہ آئی کہ وہ مرد ہے یا عورت انہوں نے اسے سلام کیا، اس نے جواب دیا، انہوں نے کہا تم کون ہو ؟ اس نے کہا : اے قوم ! اس آدمی کی طرف گرجے میں چلو کیونکہ وہ تمہاری خبر کے بارے میں بہت شوق رکھتا ہے ہم نے اس سے پوچھا تم کون ہو ؟ اس نے بتایا کہ میں جساسہ ہوں، چناچہ وہ چلے یہاں تک کہ گرجے میں داخل ہوگئے، وہاں ایک انسان تھا جسے انتہائی سختی کے ساتھ باندھا گیا تھا، اس نے پوچھا تم کون ہو ؟ انہوں نے کہا ہم عرب کے لوگ ہیں، اس نے پوچھا کہ اہل عرب کا کیا بنا ؟ کیا ان کے نبی کا ظہور ہوگیا ؟ انہوں نے کہا ہاں ! اس نے پوچھا پھر اہل عرب نے کیا کیا ؟ انہوں نے بتایا کہ اچھا کیا، ان پر ایمان لے آئے اور ان کی تصدیق کی، اس نے کہا کہ انہوں نے اچھا کیا پھر اس نے پوچھا کہ اہل فارس کا کیا بنا، کیا وہ ان پر غالب آگئے ؟ انہوں کے کہا کہ وہ ابھی تک اہل فارس پر غالب نہیں آئے، اس نے کہا یاد رکھو ! عنقریب وہ ان پر غالب آجائیں گے، اس نے کہا : مجھے زغر کے چشمہ کے بارے میں بتاؤ، ہم نے کہا یہ کثیر پانی والا ہے اور وہاں کے لوگ اس کے پانی سے کھیتی باڑی کرتے ہیں، پھر اس نے کہا نخل بیسان کا کیا بنا ؟ کیا اس نے پھل دینا شروع کیا ؟ انہوں نے کہا کا اس کا ابتدائی حصہ پھل دینے لگا ہے، اس پر وہ اتنا اچھلا کہ ہم سمجھے یہ ہم پر حملہ کر دے گا، ہم نے اس سے پوچھا کہ تو کون ہے ؟ انہوں نے کہا کہ میں مسیح (دجال) ہوں، عنقریب مجھے نکلنے کی اجازت دے دی جائی گی۔ پس میں نکلوں گا تو زمین میں چکر لگاؤں گا اور چالیس راتوں میں ہر بستی پر اتروں گا مکہ اور طیبہ کے علاوہ کیونکہ ان دونوں پر داخل ہونا میرے لئے حرام کردیا گیا ہے، نبی نے فرمایا مسلمانو ! خوش ہوجاؤ کہ طیبہ یہی مدینہ ہے، اس میں دجال داخل نہ ہو سکے گا۔