11. حضرت ابوعبیدہ بن الجراح (رض) کی مرویات
حضرت ابوعبیدہ بن الجراح (رض) کی مرویات
عیاض بن غطیف کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح (رض) بیمار ہوگئے، ہم ان کی عیادت کے لئے گئے تو ان کی اہلیہ جن کا نام تحیفہ تھا ان کے سر کے قریب بیٹھی ہوئی تھیں، ہم نے ان سے پوچھا کہ ان کی رات کیسی گذری ؟ انہوں نے کہا بخدا ! انہوں نے ساری رات اجروثواب کے ساتھ گذاری ہے، حضرت ابوعبیدہ (رض) کہنے لگے کہ میں نے ساری رات اجر کے ساتھ نہیں گذاری، پہلے ان کے چہرے کا رخ دیوار کی طرف تھا، اب انہوں نے اپنا چہرہ لوگوں کی طرف کرلیا اور فرمایا کہ میں نے جو بات کہی ہے، تم اس کے متعلق مجھ سے سوال نہیں کرتے ؟ لوگوں نے کہا کہ ہمیں آپ کی بات پر تعجب ہوتا تو آپ سے سوال کرتے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اللہ کی راہ میں اپنی زائد چیز خرچ کر دے اس کا ثواب سات سو گنا ہوگا، جو اپنی ذات اور اپنے اہل خانہ پر خرچ کرے، کسی بیمار کی عیادت کرے یا کسی تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹا دے تو ہر نیکی کا بدلہ دس نیکیاں ہونگی اور روزہ ڈھال ہے بشرطیکہ اسے انسان پھاڑ نہ دے اور جس شخص کو اللہ جسمانی طور پر کسی آزمائش میں مبتلا کرے وہ اس کے لئے بخشش کا سبب بن جاتی ہے۔
حضرت ابوعبیدہ بن الجراح (رض) کی مرویات
حضرت ابوعبیدہ بن الجراح (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ کا سب سے آخری کلام یہ تھا کہ حجاز میں جو یہودی آباد ہیں اور جزیرہ عرب میں جو اہل نجران آباد ہیں انہیں نکال دو اور جان لو کہ بد ترین لوگ وہ ہیں جو اپنے انبیاء (علیہم السلام) کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیتے ہیں۔
حضرت ابوعبیدہ بن الجراح (رض) کی مرویات
حضرت ابوعبیدہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے دجال کا تذکرہ فرمایا اور اس کی ایسی صفات بیان فرمائیں جو مجھے اب یاد نہیں ہیں، البتہ اتنی بات یاد ہے کہ لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ ! اس وقت آج کی نسبت ہمارے دلوں کی کیفیت کیا ہوگی ؟ فرمایا کہ آج سے بہتر ہوگی۔
حضرت ابوعبیدہ بن الجراح (رض) کی مرویات
حضرت ابوعبیدہ (رض) سے مروی ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد ہر آنے والے نبی نے اپنی اپنی قوم کو دجال سے ڈرایا ہے اور میں بھی تمہیں اس سے ڈرا رہا ہوں، پھر نبی ﷺ نے ہمارے سامنے اس کی کچھ صفات بیان فرمائیں اور فرمایا ہوسکتا ہے کہ مجھے دیکھنے والا یا میری باتیں سننے والا کوئی شخص اسے پالے، لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ ! ﷺ اس وقت ہمارے دلوں کی کیفیت کیا ہوگی ؟ کیا آج کی طرح ہوں گے ؟ فرمایا بلکہ اس سے بھی بہتر کیفیت ہوگی۔
حضرت ابوعبیدہ بن الجراح (رض) کی مرویات
حضرت ابوعبیدہ بن الجراح (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ کا سب سے آخری کلام یہ تھا کہ حجاز میں جو یہودی آباد ہیں اور جزیرہ عرب میں جو اہل نجران آباد ہیں انہیں نکال دو اور جان لو کہ بد ترین لوگ وہ ہیں جو اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیتے ہیں۔
حضرت ابوعبیدہ بن الجراح (رض) کی مرویات
حضرت ابوامامہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک مسلمان نے کسی شخص کو پناہ دے دی، اس وقت امیرلشکر حضرت ابوعبیدہ (رض) تھے، حضرت خالد بن ولید (رض) اور حضرت عمروبن العاص (رض) کی رائے یہ تھی کہ اسے پناہ نہ دی جائے، لیکن حضرت ابوعبیدہ (رض) نے فرمایا کہ ہم اسے پناہ دیں گے، کیونکہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کوئی بھی شخص کسی کبھی شخص کو مسلمانوں پر پناہ دے سکتا ہے۔
حضرت ابوعبیدہ بن الجراح (رض) کی مرویات
ایک مرتبہ ایک صاحب حضرت ابو عبیدہ (رض) سے ملنے کے لئے آئے تو دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں، انہوں نے ان سے رونے کی وجہ پوچھی تو حضرت ابو عبیدہ (رض) نے فرمایا کہ میں اس لئے رو رہا ہوں کہ ایک دن نبی ﷺ نے مسلمانوں کو ملنے والی فتوحات اور حاصل ہونے والے مال غنیمت کا تذکرہ کیا، اس دوران شام کا تذکرہ بھی ہوا، تو نبی ﷺ نے مسلمانوں کو ملنے والی فتوحات اور حاصل ہونے والے مال غنیمت کا تذکرہ کیا، اس دوران شام کا تذکرہ بھی ہوا، تو نبی ﷺ نے مجھ سے فرمایا ابو عبیدہ ! اگر تمہیں زندگی مل جائے تو صرف تین خادموں کو اپنے لئے کافی سمجھنا، ایک اپنے لئے، ایک اپنے ساتھ سفر کرنے کے لئے اور ایک اپنے اہل خانہ کے لئے جو ان کی خدمت کرے اور ان کی ضروریات مہیا کرے اور تین سواریوں کو اپنے لئے کافی سمجھنا، ایک جانور تو اپنی سواری کے لئے، ایک اپنے سامان اور بار برداری کے لئے اور ایک اپنے غلام کے لئے۔ لیکن اب میں اپنے گھر پر نظر ڈالتا ہوں تو یہ مجھے غلاموں سے بھرا ہوا دکھائی دیتا ہے، میں اپنے اصطبل کی طرف نگاہ دوڑاتا ہوں تو وہ مجھے سواریوں اور گھوڑوں سے بھرا ہوا دکھائی دیتا ہے، اس صورت میں، میں نبی ﷺ کا سامنا کس منہ سے کروں گا ؟ جبکہ نبی ﷺ نے ہمیں یہ وصیت فرمائی تھی کہ میری نگاہوں میں تم میں سب سے زیادہ محبوب اور میرے قریب ترین وہ شخص ہوگا جو مجھ سے اسی حال میں آکر ملاقات کرے جس کیفیت پر وہ مجھ سے جدا ہوا تھا۔
حضرت ابوعبیدہ بن الجراح (رض) کی مرویات
طاعون عمواس کے واقعے کے ایک عینی شاہد کا بیان ہے کہ جب حضرت ابوعبیدہ بن الجراح (رض) کی تکلیف شدت اختیار کرگئی تو وہ لوگوں کے سامنے خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا لوگو ! یہ تکلیف تمہارے رب کی رحمت، تمہارے نبی کی دعوت اور تم سے پہلے صالحین کی موت رہ چکی ہے اور ابو عبیدہ اللہ سے دعاء کرتا ہے کہ اسے اس میں سے اس کا حصہ عطاء کیا جائے، چناچہ اسی طاعون کی وباء میں وہ شہید ہوگئے۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ ان کے بعد حضرت معاذ بن جبل (رض) نے ان کیا نیابت سنبھالی اور خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا لوگو ! یہ تکلیف تمہارے رب کی رحمت، تمہارے نبی کی دعوت اور تم سے پہلے صالحین کی موت رہ چکی ہے اور معاذ، اللہ سے دعاء کرتا ہے کہ آل معاذ کو بھی اس میں سے حصہ عطاء کیا جائے، چناچہ ان کے صاحبزادے عبدالرحمن اس مرض میں مبتلا ہو کر شہید ہوگئے اور حضرت معاذ (رض) نے دوبارہ کھڑے ہو کر اپنے لئے دعاء کی چناچہ ان کی ہتھیلی میں بھی طاعون کی گلٹی نکل آئی۔ میں نے انہیں دیکھا ہے کہ وہ طاعون کی اس گلٹی کو دیکھتے تھے اور اپنی ہتھیلی کو چومتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ تیرے عوض مجھ پوری دنیا بھی مل جائے تو مجھے خوشی نہ ہوگی، بہرحال ! وہ بھی شہید ہوگئے، ان کے بعد حضرت عمرو بن العاص (رض) ان کے نائب مقرر ہوئے، انہوں نے کھڑے ہو کر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا لوگو ! یہ تکلیف جب آجاتی ہے تو آگ کی طرح بھڑکنا شروع ہوجاتی ہے، اس لئے تم اس سے اپنی حفاظت کرتے ہوئے پہاڑوں میں چلے جاؤ۔ یہ سن کر ابو واثلہ ہذلی کہنے لگے کہ آپ نبی ﷺ کے صحابی ہونے کے باوجود صحیح بات نہیں کہہ رہے، بخدا ! آپ میرے اس گدھے سے بھی زیادہ برے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ میں آپ کی بات کا جواب نہیں دوں گا، لیکن بخدا ! ہم اس حالت میں نہیں رہیں گے، چناچہ وہ اس علاقے سے نکل گئے اور لوگ بھی نکل کر منتشر ہوگئے، اس طرح اللہ نے ان سے اس بیماری کو ٹالا، حضرت عمرو (رض) کو یہ فیصلہ کرتے ہوئے دیکھنے والے کسی صاحب نے یہ بات حضرت عمر (رض) کو بات بتائی تو انہوں نے اس پر کسی قسم کی ناگواری کا اظہار نہ کیا۔
حضرت ابوعبیدہ بن الجراح (رض) کی مرویات
امام شعبی (رح) کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے جب جیش ذات السلاسل کو روانہ فرمایا تو حضرت ابو عبیدہ (رض) کو مہاجرین پر اور حضرت عمرو بن العاص (رض) کو دیہاتیوں پر امیر مقرر فرمایا اور دونوں سے فرمایا کہ ایک دوسرے کی بات ماننا، راوی کہتے ہیں کہ انہیں بنو بکر پر حملہ کرنے حکم دیا گیا تھا لیکن حضرت عمرو (رض) بنو قضاعہ پر حملہ کردیا کیونکہ بنو بکر سے ان کی رشتہ داری بھی تھی، یہ دیکھ کر حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) نے حضرت ابو عبیدہ (رض) کے پاس آکر کہا کہ نبی ﷺ نے آپ کو ہم پر امیر مقرر کر کے بھیجا ہے جبکہ فلاں کا بیٹا لوگوں کے معاملات پر غالب آگیا ہے اور محسوس ایسا ہوتا ہے کہ آپ کا حکم نہیں چلتا ؟ حضرت ابو عبیدہ (رض) نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے ہمیں ایک دوسرے کی بات ماننے کا حکم دیا تھا، میں تو نبی ﷺ کے حکم کی پیروی کرتا رہوں گا، خواہ عمرو نہ کریں۔
حضرت ابوعبیدہ بن الجراح (رض) کی مرویات
حضرت ابو عبیدہ بن الجراح (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ کا سب سے آخری کلام یہ تھا کہ حجاز میں جو یہودی آباد ہیں اور جزیرہ عرب میں جو اہل نجران آباد ہیں انہیں نکال دو ۔
حضرت ابوعبیدہ بن الجراح (رض) کی مرویات
عیاض بن غطیف کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح (رض) بیمار ہوگئے، ہم ان کی عیادت کے لئے گئے تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اللہ کی راہ میں اپنی زائد چیز خرچ کر دے اس کا ثواب سات سو گنا ہوگا، جو اپنی ذات اور اپنے اہل خانہ پر خرچ کرے، کسی بیمار کی عیادت کرے یا کسی تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹا دے تو ہر نیکی کا بدلہ دس نیکیاں ہوگی اور روزہ ڈھال ہے بشرطیکہ اسے انسان پھاڑ نہ دے اور جس شخص کو اللہ جسمانی طور پر کسی آزمائش میں مبتلا کرے، وہ اس کے لئے بخشش کا سبب بن جاتی ہے۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔