169. حضرت کعب بن مالک انصاری کی مرویات۔
حضرت کعب بن مالک انصاری کی مرویات۔
حضرت کعب بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ایک مرتبہ کھانا تناول فرمایا اور بعد میں انگلیاں چاٹ لیں۔
حضرت کعب بن مالک انصاری کی مرویات۔
حضرت کعب بن مالک (رض) کی ایک باندی تھی جو مقام سلع میں ان کی بکریاں چرایا کرتی تھی ایک مرتبہ ایک بھیڑیا ایک بکری کو لے کر بھاگ گیا اس باندی نے اس کا پیچھا کر کے اس کو جالیا اور اسے ایک دھاری دار پتھر سے ذبح کرلیا حضرت کعب بن مالک (رض) نے نبی ﷺ سے اس بکری کا حکم پوچھا تو نبی ﷺ نے انہیں اس کے کھانے کی اجازت دیدی۔
حضرت کعب بن مالک انصاری کی مرویات۔
حضرت کعب بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ کسی شخص سے اپنی دو اوقیہ چاندی کا مطالبہ کر رہے تھے کہ نبی ﷺ وہاں سے گذرے نبی ﷺ نے اشارہ کرکے مجھ سے فرمایا کہ اس کا نصف قرض معاف کردو میں نے عرض کیا بہت بہتر یا رسول اللہ نبی ﷺ نے دوسرے سے فرمایا کہ اب جو حق باقی بچا ہے اسے ادا کرو۔
حضرت کعب بن مالک انصاری کی مرویات۔
حضرت کعب بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ میں نے دیکھا کہ نبی ﷺ نے ایک مرتبہ کھانا کھایا اور بعد میں اپنی انگلیاں چاٹ لیں۔
حضرت کعب بن مالک انصاری کی مرویات۔
حضرت کعب بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ ان کی ایک سیاہ فام باندی تھی جس نے ایک بکری کو دھاری دار پتھر سے ذبح کرلیا حضرت کعب بن مالک (رض) نے نبی ﷺ سے اس بکری کا حکم پوچھا تو نبی ﷺ نے انہیں اس کے کھانے کی اجازت دیدی۔
حضرت کعب بن مالک انصاری کی مرویات۔
حضرت کعب بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا مومن کی مثال کھیتی کے ان دانوں کی سی ہے جنہیں ہوا اڑاتی ہے کبھی برابر کرتی ہے اور کبھی دوسری جگہ لے جا کر پٹخ دیتی ہے یہاں تک کہ اس کا وقت مقررہ آجائے اور کافر کی مثال ان چاولوں کی سی ہے جو اپنی جڑ پر کھڑے رہتے ہیں انہیں کوئی چیز نہیں ہلا سکتی یہاں تک کہ ایک ہی مرتبہ انہیں اتار لیا جاتا ہے۔
حضرت کعب بن مالک انصاری کی مرویات۔
حضرت کعب بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ جب اللہ نے ان کی توبہ قبول کرلی تو وہ نبی ﷺ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا اللہ نے مجھے سچ کے علاوہ کسی اور چیز کی برکت سے نجات نہیں دی اب میری توبہ میں یہ بھی شامل ہے کہ آئندہ میں کبھی جھوٹ نہ بولوں اور میں اپنا سارامال اللہ اور اس کے رسول کے لئے وقف کرتا ہوں نبی ﷺ نے فرمایا تھوڑا بہت اپنے پاس بھی رکھ لو تو بہتر ہے عرض کیا کہ پھر میں خیبر کا حصہ اپنے پاس رکھ لیتاہوں۔
حضرت کعب بن مالک انصاری کی مرویات۔
حضرت کعب بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ میں سواری اور خرچ کے اعتبار سے اس غزوے کے علاوہ کسی دوسرے غزوے میں اتنا مالدار نہیں تھا کہ جب نبی ﷺ روانہ ہوئے تو میں نے سوچا کہ کل سامان سفر درست کر کے نبی ﷺ سے جا ملوں گا چناچہ میں نے تیاری شرع کردی توشام ہوگئی لیکن میں فارغ نہیں ہوسکا حتی کہ تیسرے دن بھی اسی طرح ہوا میں کہنے لگا کہ ہائے افسوس لوگ تین دن کا سفر طے کرچکے ہیں یہ سوچ کر میں رک گیا۔ جب نبی ﷺ واپس آگئے تو لوگ مختلف عذر بیان کرنے لگے کہ میں بھی بارگاہ نبوت میں حاضر ہو کر نبی ﷺ کے سامنے کھڑا ہوگیا اور عرض کیا کہ مجھ اس غزوے سے زیادہ کسی غزوے میں سواری اور خرچ کے اعتبار سے آسانی حاصل نہ تھی اس پر نبی ﷺ نے مجھ سے اعرض فرمالیا اور لوگوں کو ہم سے بات چیت کرنے سے بھی منع فرما دیا بیویوں کے متعلق حکم دیا گیا کہ وہ ہم سے دور رہیں ایک دن میں گھر کی دیوار پر چڑھا تو مجھے جابر (رض) نظر آئے میں نے جابر (رض) سے کہا اے جابر (رض) میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تمہیں علم ہے کہ میں نے کسی دن اللہ اور اس کے رسول کو دھوکہ دیاہو لیکن وہ خاموش رہے اور مجھ سے کوئی بات نہیں کی ایک دن میں اسی حال میں تھا کہ میں نے ایک پہاڑی کی چوٹی سے کسی کو اپنانام لیتے ہوئے سنا یہاں تک کہ وہ میرے قریب آگیا اور کہنے لگا کہ کعب بن مالک (رض) کے لئے خوش خبری ہے۔
حضرت کعب بن مالک انصاری کی مرویات۔
حضرت کعب بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ جب کسی سفر سے واپس آتے تو سب سے پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے وہاں دو رکعتیں پڑھتے اور سلام پھیر کر اپنی جائے نماز پر ہی بیٹھ جاتے اور لوگ آ کر نبی ﷺ کو سلام کرتے تھے۔
حضرت کعب بن مالک انصاری کی مرویات۔
حضرت کعب بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ غزوہ تبوک سے چاشت کے وقت واپس آئے تھے واپسی پر آپ نے مسجد میں دو رکعتیں پڑھیں اور نبی ﷺ جب بھی سفر سے واپس آتے تو ایسا ہی کرتے تھے۔
حضرت کعب بن مالک انصاری کی مرویات۔
حضرت کعب بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ غزوہ تبوک سے چاشت کے وقت واپس آئے تھے واپسی پر آپ نے مسجد میں دو رکعتیں پڑھیں اور نبی ﷺ جب بھی سفر سے واپس آتے تو ایسا ہی کرتے تھے۔
حضرت کعب بن مالک انصاری کی مرویات۔
حضرت کعب بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ جب کسی سفر سے واپس آتے تو سب سے پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے وہاں دو رکعتیں پڑھتے اور سلام پھیر کر اپنی جائے نماز پر ہی بیٹھ جاتے اور لوگ آ کر نبی ﷺ کو سلام کرتے تھے۔
حضرت کعب بن مالک انصاری کی مرویات۔
عبدالرحمن بن کعب کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت کعب بن مالک (رض) بیمار ہوئے تو ام مبشر ان سے کہنے لگے کہ میرے بیٹے مبشر کو میرا سلام کہنا جب موت کے بعد اس سے ملاقات ہو انہوں نے فرمایا کہ ام مبشر اللہ تمہاری مغفرت فرمائے کیا تم نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ مسلمان کی روح پرندوں کی شکل میں جنت کے درختوں پر رہتی ہے تاآنکہ قیامت کے دن اللہ اسے اس کے جسم میں واپس لوٹا دیں گے ام مبشر نے اس پر کہا کہ آپ سچ کہہ رہے ہیں میں اللہ سے معافی مانگتی ہوں۔
حضرت کعب بن مالک انصاری کی مرویات۔
حضرت کعب بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا مسلمان کی روح پرندوں کی شکل میں جنت کے درختوں پر رہتی ہیں تاآنکہ قیامت کے دن اللہ اسے اس کے جسم میں لوٹا دیں گے۔
حضرت کعب بن مالک انصاری کی مرویات۔
حضرت کعب بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا مسلمان کی روح پرندوں کی شکل میں جنت کے درختوں پر رہتی ہیں تاآنکہ قیامت کے دن اللہ اسے اس کے جسم میں لوٹادیں گے۔
حضرت کعب بن مالک انصاری کی مرویات۔
حضرت کعب بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا مسلمان کی روح پرندوں کی شکل میں جنت کے درختوں پر رہتی ہیں تاآنکہ قیامت کے دن اللہ اسے اس کے جسم میں لوٹادیں گے۔
حضرت کعب بن مالک انصاری کی مرویات۔
حضرت کعب بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا مسلمان کی روح پرندوں کی شکل میں جنت کے درختوں پر رہتی ہیں تاآنکہ قیامت کے دن اللہ اسے اس کے جسم میں لوٹا دیں گے۔
حضرت کعب بن مالک انصاری کی مرویات۔
حضرت کعب بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ ایسابہت کم ہوا ہے کہ نبی ﷺ نے سفر کا ارادہ فرمایا ہو وہ جمعرات کا دن نہ ہو۔
حضرت کعب بن مالک انصاری کی مرویات۔
حضرت کعب بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ بہت کم ایسا کرتے تھے کہ کسی غزوے کا ارادہ ہوا اور اس میں کسی دوسری جگہ کے ارادے سے اسے مخفی نہ فرماتے ہوں سوائے غزوہ تبوک کے کہ شدید گرمی میں نبی ﷺ نے لمبے سفر اور صحراؤں کا ارادہ کیا تھا اور دشمن کی ایک کثیر تعداد کا سامنا کرنا تھا اس لئے نبی ﷺ نے مسلمانوں کو اس کی وضاحت فرمادی تھی کہ تاکہ وہ دشمن سے مقابلے کے لئے خوب اچھی طرح تیاری کرلیں اور انہیں اسی جہت کا پتہ بتادیا جہاں نبی ﷺ نے ارادہ فرما رکھا تھا۔
حضرت کعب بن مالک انصاری کی مرویات۔
حضرت کعب بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن لوگوں کو زندہ کیا جائے گا اور میں اور میری امتی ایک ٹیلے پر ہوں گے میرا رب مجھے سبز رنگ کا ایک قیمتی جوڑا پہنائے گا پھر مجھے اجازت ملے گی اور میں اللہ کی مرضی کے مطابق اس کی تعریف کروں گا یہی مقام محمود ہے۔
حضرت کعب بن مالک انصاری کی مرویات۔
حضرت کعب بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا دو بھوکے بھیڑیے اگر بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیئے جائیں تو وہ اتنافساد نہیں مچائیں گے جتنا انسان کے دل میں مال اور منصب کی حرص فساد برپا کرتی ہے۔
حضرت کعب بن مالک انصاری کی مرویات۔
حضرت کعب بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ جب اللہ نے شعروشاعری کے متعلق اپنا حکم نازل کیا تو وہ نبی ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اللہ نے اشعار کے متعلق وہ باتیں نازل فرمائیں ہیں جو میں کرچکا ہوں اب اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے نبی ﷺ نے فرمایا مسلمان اپنی تلوار اور زبان دونوں سے جہاد کرتا ہے۔
حضرت کعب بن مالک انصاری کی مرویات۔
حضرت ابی بن کعب (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا بعض اشعار حکمت پر مبنی ہوتے ہیں۔ حضرت کعب بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے تم جو اشعار مشرکین کے متعلق کہتے ہو ایسالگتا ہے کہ تم ان پر تیروں کی بوچھاڑ برسا رہے ہو۔
حضرت کعب بن مالک انصاری کی مرویات۔
حضرت کعب بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا مسلمان کی روح پرندوں کی شکل میں جنت کے درختوں پر رہتی ہیں تاآنکہ قیامت کے دن اللہ اسے اس کے جسم میں واپس لوٹادیں۔
حضرت کعب بن مالک انصاری کی مرویات۔
حضرت کعب بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ جب اللہ نے ان کی توبہ قبول کرلی تو وہ نبی ﷺ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا اللہ نے مجھے سچ کے علاوہ کسی اور چیز کی برکت سے نجات نہیں دی اب میری توبہ میں یہ بھی شامل ہے کہ آئندہ میں کبھی جھوٹ نہ بولوں اور میں اپنا سارامال اللہ اور اس کے رسول کے لئے وقف کرتا ہوں نبی ﷺ نے فرمایا تھوڑا بہت اپنے پاس بھی رکھ لو تو بہتر ہے عرض کیا کہ پھر میں خیبر کا حصہ اپنے پاس رکھ لیتاہوں۔
حضرت کعب بن مالک انصاری کی مرویات۔
حضرت کعب بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ سوائے غزوہ تبوک کے اور کسی جہاد میں رسول اللہ ﷺ سے پیچھے نہیں رہا ہاں غزوہ بدر میں سے رہ گیا تھا۔ اور بدر میں شریک نہ ہونے والوں پر کوئی عتاب بھی نہیں کیا گیا تھا کیونکہ رسول اللہ صرف قریش کے قافلہ کو روکنے کے ارادے سے تشریف لے گئے تھے بغیر لڑائی کے ارادہ کے اللہ نے مسلمانوں کی دشمنوں سے مڈ بھیڑ کرادی تھی میں بیعت عقبہ کی رات کو بھی حضور کے ساتھ موجود تھا جہاں ہم سب نے مل کر اسلام کے عہد کو مضبوط کیا تھا اور میں یہ چاہتا بھی نہیں ہوں کہ اس بیعت کے عوض میں جنگ بدر میں حاضر ہوتا اگرچہ بدر کی جنگ لوگوں میں اس سے زیادہ مشہور ہے۔ میرا قصہ یہ ہے کہ جس قدر میں اس جہاد کے وقت مالدار اور فراخ دست تھا اتنا کبھی نہیں ہوا اللہ کی قسم اس جنگ کے لئے میرے پاس دو اونٹنیاں تھیں اس سے پہلے کسی جنگ میں میرے پاس دو سواریاں نہ تھیں رسول اللہ کا دستور تھا کہ اگر کسی جنگ کا ارادہ فرماتے تو دوسرائی لڑائی کہہ کر اصل لڑائی کو چھپاتے تھے لیکن جب جنگ تبوک کا زمانہ آیا تو چونکہ سخت گرمی تھی ایک لمبا بےآب وگیاہ بیابان طے کرنا تھا اور کثیر دشمنوں کا مقابلہ کرنا تھا اس لئے آپ نے مسلمانوں کے سامنے کھول کر بیان کیا کہ جنگ کے لے تیاری کرلیں اور حضور کا جو ارادہ تھا لوگوں سے کہہ دیا مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور کوئی رجسٹرار بھی نہیں تھا جس میں ناموں کا اندارج کیا جاتا جو شخص جنگ میں شریک نہ ہونا چاہتا وہ سمجھ لیتا تھا کہ جب تک میرے متعلق وحی نازل نہ کی گئی میری حالت چھپی رہے گی رسول اللہ ﷺ نے اس جہاد کا ارادہ اس وقت کیا تھا جب میوہ جات پختہ ہوگئے تھے اور درختوں کے سائے کافی ہوگئے تھے چناچہ رسول اللہ ﷺ نے اور سب مسلمانوں نے جنگ کی تیاری کی میں بھی روزانہ صبح کو مسلمانوں کے ساتھ جنگ کی تیاری کرنے کے ارادہ سے جاتا لیکن شام کو بغیر کچھ کام سرانجام دیئے واپس آجاتا میں اپنے دل میں خیال کرتا کہ وقت کافی ہے میں یہ کام پھر کرسکتا ہوں اسی لیت ولعل میں مدت گزر گئی اور مسلمانوں نے سخت کوشش کرکے سامان درست کرلیا اور ایک روز صبح رسول اللہ مسلمانوں کے ہمراہ چل دیئے اور میں اس وقت تک کچھ تیاری نہ کرسکا لیکن دل میں خیال کرلیا کہ ایک دوروز میں سامان درست کرکے مسلمانوں سے جاملوں گا۔ جب دوسرے روز مسلمان میدینہ سے دور نکل گئے تو سامان درست کرنے کے ارادہ سے چلا لیکن بغیر کچھ کام کئے واپس آگیا میری برابر یہی سستی رہی اور مسلمان جلدی جلدی بہت آگے بڑھ گئے میں نے جاپہنچے کا ارادہ کیا لیکن اللہ کا حکم نہ تھا کاش میں مسلمانوں سے جا کر مل گیا ہوتا رسول اللہ کے تشریف لے جانے کے بعد اب جو میں کہیں باہر نکل کر لوگوں سے ملتا تھا اور ادھرادھر گھومتا تھا تو یہ دیکھ کر مجھے غم ہوتا تھا کہ سوائے منافقوں کے اور ان کمزور لوگوں کے جن کو رسول اللہ ﷺ نے معذور سمجھ کر چھوڑ دیا تھا اور کوئی نظر نہ آتا تھا۔ راستہ میں رسول اللہ کو میری کہیں یاد نہ آئی جب تبوک میں حضور پہنچ گئے تو لوگوں کے سامنے بیٹھ کر فرمایا یہ کعب بن مالک (رض) نے کیا حرکت کی ہے ایک شخص نے جواب دیا رسول اللہ وپنی دونوں چادروں کو دیکھتا رہا اور اسی وجہ سے نہ آیا معاذ بن جبل بولے اللہ کی قسم تو نے بری بات کہی ہے یا رسول اللہ ہم کو اس کی نیکی کا احتمال ہے حضور خاموش ہوگئے۔ کعب بن مالک (رض) کہتے ہیں جب مجھے اطلاع ملی کہ حضور واپس آرہے ہیں تو مجھے فکر پیداہوئی کہ اور جھوٹ بولنے کا ارادہ کیا اور دل میں سوچا کہ کس ترکیب سے نبی ﷺ کی ناراضگی سے بچاجائے گھر میں تمام اہل رائے سے مشورہ کیا اتنے میں معلوم ہوا کہ رسول اللہ قریب ہی تشریف لاچکے ہیں میں نے تمام جھوٹ بولنے کے خیال دل سے نکال دیا میں سمجھ گیا کہ جھوٹ کی آمیزش سے حضور کی ناراضگی سے نہیں بچ سکتا لہذا سچ بولنے کا پختہ ارادہ کرلیا صبح کو نبی ﷺ تشریف لائے اور آپ کا دستور تھا کہ جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو شروع میں مسجد میں جا کردو رکعت نماز پڑھ لیتے تھے اور پھر وہیں لوگوں سے گفتگو کرنے بیٹھ جاتے تھے چناچہ نبی ﷺ نے ایساہی کیا اور جنگ سے رہ جانے والے لوگ قسمیں کھا کھا کر عذر بیان کرن لگے ان سب کی تعداد کچھ اوپر اسی تھی رسول اللہ ﷺ نے سب کے ظاہر عذ رکوقبول کرلیا اور بیعت کرلی ان کے لئے دعائے مغفرت فرمائی اور ان کی اندرونی حالت کو اللہ کے سپرد کردیا۔ سب کے بعد میں حاضر ہوا سلام کیا نبی ﷺ نے غصے کی حالت والاتبسم کیا اور ارشاد فرمایا قریب آجاؤ میں قریب ہوگیا یہاں تک کہ نبی ﷺ کے سامنے جا کر بیٹھ گیا پھر فرمایا تم کیوں رہ گئے تھے کیا تم نے سواری نہیں خریدی تھی میں نے عرض کیا خریدی تھی اللہ کی قسم اگر آپ کے علاوہ کسی دنیادار کے پاس بیٹھا ہوتا تو اس کے غضب سے عذر پیش کرکے چھوٹ جاتا کیونکہ مجھ کو اللہ نے خوش بیانی عطا فرمائی تھی لیکن واللہ میں جانتا ہوں کہ اگر میں نے آپ کے سامنے جھوٹی باتیں بیان کیں اور آپ مجھ سے ناراض ہوگئے تو عنقریب اللہ آپ کو غضب ناک کردے گا اور اگر آپ سے سچی بات بیان کردوں گا اور آپ مجھ سے ناراض ہوجائیں گے تو امید ہے اللہ مجھے معاف فرمادے گا۔ اللہ کی قسم مجھے کوئی عذر نہ تھا اور جس وقت رسول اللہ ﷺ سے پیچھے رہا اس وقت سے زائد کبھی نہ میں مال دار تھا نہ فراخ دست، حضور نے فرمایا اس شخص نے سچ کہا اب تو اٹھ جا یہاں سے کہ خدا تعالیٰ تیرے متعلق کوئی فیصلہ کرے میں فورا اٹھ گیا اور میرے پیچھے پیچھے قبیلہ بنی سلمہ کے لوگ بھی اٹھ کر آئے اور کہنے لگے کہ اللہ کی قسم ہم جانتے ہیں کہ تو نے اس سے قبل کوئی قصور نہیں کیا ہے اور جس طرح اور جنگ سے رہ جانے والوں نے معذرت پیش کی تو کوئی عذر پیش نہ کرسکا تیرے قصور کی معافی تو رسول اللہ کا دعائے مغفرت کرنا ہی کافی ہوگا۔ حضرت کعب بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم وہ مجھے برابر اتنی تنبیہ کررہے تھے کہ میں نے دوبارہ نبی ﷺ کی خدمت میں جا کر اپنے قول کی تکذیب کرنے کا ارادہ کیا لیکن میں نے ان اس پوچھا کہ اس جرم میں میری طرح کوئی اور بھی ہے انہوں نے جواب دیا ہاں تیری طرح کے دو آدمی اور بھی ہیں جو تو نے کہا ہے وہی انہوں نے کہا ہے اور ان کو وہی جواب دیا گیا ہے جو تجھے ملا ہے میں نے پوچھا کہ وہ کون ہیں انہوں نے کہا مرارہ بن ربیع عامری اور اہلال بن واقفی یہ دونوں شخص جنگ بدر میں شریک ہوچکے ہیں اور ان کی سیرت بہت بہترین تھی جب انہوں نے ان دونوں آدمیوں کا ذکر کیا تو میں اپنے قول پر قائم رہا رسول اللہ ﷺ نے صرف ہم تینوں سے کلام کرنے سے منع فرمادیا تھا اور دیگرجنگ سے غیرحاضر لوگوں سے بات چیت کرنے کی ممانعت نہ تھی۔ لوگ ہم سے بچنے لگے اور بالکل بدل گئے یہاں تک کہ تمام زمین مجھ کو اجنبی ﷺ لگنے لگی اور سمجھ میں نہ آتا تھا کہ میں کیا کروں میرے دونوں ساتھی تو کمزور تھے گھر میں بیٹھ کر روتے رہتے تھے اور میں جوان تھا طاقت وار تھا بازاروں میں گھومتا تھا باہر نکلتا تھا مسلمانوں کے ساتھ نماز میں شریک ہوتا تھا لیکن کوئی مجھ سے کلام نہ کرتا تھا میں رسول اللہ کی مجلس میں میں بھی نماز کے بعد حاضر ہوتا تھا اور نبی ﷺ کو سلام کرکے دل میں کہتا تھا دیکھوں کہ حضور نے سلام کے جواب کے لے لب مبارک ہلائے ہیں کہ نہیں پھر میں نبی ﷺ کے برابر کھڑا ہو کر نماز بھی پڑھتا تھا اور کن انکھیوں سے دیکھتا تھا کہ نبی ﷺ میری طرف متوجہ ہیں یا نہیں چناچہ جب میں متوجہ ہوتا تو نبی ﷺ میری طرف سے منہ پھیر لیتے تھے اور جب میں منہ پھیر لیتا تھا تو آپ میری طرف دیکھتے۔ اسی طرح چالیس روز گذر گئے تو ایک روز رسول اللہ کا قاصد میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ رسول اللہ تم کو حکم دیتے ہیں کہ اپنی بیوی سے علیحدہ رہو میں نے کہا طلاق دیدوں کیا کروں قاصد نے کہا بیوی سے علیحدہ رہو اس کے پاس نہ جاؤ اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے میرے دونوں ساتھیوں کو بھی کہلا بھیجا تھا میں نے اپنی بیوی سے کہا اپنے میکے چلی جاؤ وہیں رہو یہاں تک کہ اللہ اس معاملہ کے متعلق کوئی فیصلہ فرمائے۔ حضرت کعب بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میرے گھروالوں نے مجھ سے کہا کہ اگر تم اپنی بیوی کے لئے اجازت لے لو میں نے جواب دیا کہ میں حضور سے اس کی اجازت نہیں مانگوں گا معلوم نہیں کہ آپ کیا فرمائیں گے کیونکہ میں جوان آدمی ہوں اسی طرح دس روز اور گزر گئے اور پورے پچاس دن ہوگئے پچاس دن کے بعد فجر کی کی نماز اپنی چھت پر پڑھی اور بیٹھا تھا اور یہ حالت تھی کہ تمام زمین مجھ پر تنگ ہورہی تھی اور میری جان مجھ پر وبال تھی اتنے میں ایک چیخنے والے نے نہایت بلند آواز سے کہا اے کعب بن مالک (رض) تجھے خوش خبری ہو میں یہ سن کر فورا سجدہ میں گیا اور سمجھ گیا کہ کشائش کا وقت آگیا ہے رسول اللہ ﷺ نے فجر کی نماز پڑھ کر ہماری توبہ قبول ہونے کا اعلان کردیا لوگ مجھے خوش خبری دینے آئے اور میرے دونوں ساتھیوں کے پاس بھی کچھ خوش خبری دینے والے گئے ایک شخص گھوڑا دوڑا کر میرے پاس اور بنی اسلم کے ایک آدمی نے سلع پہاڑ پر چڑھ کر آواز دی کہ اس کی آواز گھوڑے کے پہنچے سے قبل مجھے پہنچ گئی جس شخص نے آواز میں نے سنی تھی جب وہ میرے پاس آیا تو میں نے اپنے دونوں کپڑے اتار کر اس کودے دیے۔ حالانکہ اللہ کی قسم اس دن ان دو کپڑوں کہ علاوہ میرے پاس کوئی کپڑا نہ تھا اور مانگ کر میں نے دو کپڑے پہن لئے۔ حضرت کعب بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو رسول اللہ بیٹھے ہوئے تھے اور صحابہ آس پاس موجود تھے حضرت طلحہ مجھے دیکھ کر فورا دورڑتے ہوئے آئے مصافحہ کیا مبارک باد دی اللہ کی قسم طلحہ کے علاوہ مہاجرین میں سے اور کوئی نہیں اٹھا طلحہ کی یہ بات میں کبھی نہیں بھولوں گا میں نے پہنچ کر رسول اللہ کو سلام کیا اس وقت چہرہ مبارک خوشی سے چمک رہا تھا کیونکہ خوشی کے وقت رسول اللہ کا چہرہ چمکنے لگتا تھا۔ فرمایا کہ کعب بن مالک (رض) جب سے تو پیدا ہوا ہے سب دنوں سے آج کا دن تیرے لئے بہت بہتر ہے اس کی خوش خبری ہو میں عرض کیا یا رسول اللہ یہ خوش خبری حضور کی طرف سے ہے یا اللہ کی طرف سے فرمایا میری طرف سے نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے ہے۔ اس روز سے آج تک میں نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کسی مسلمان کو سچ بولنے کا اس سے زیادہ بہتر انعام دیا ہو جیسا مجھے دیا اور مجھے امید ہے کہ اللہ مجھ کو باقی زندگی میں بھی جھوٹ بولنے سے بچائے گا۔ اللہ نے توبہ قبول کے متعلق یہ آیت نازل فرمائی " لقدتاب اللہ علی النبی ﷺ والمہاجرین۔۔۔۔۔۔۔۔ " حضرت کعب بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ہدایت اسلام کے بعد اللہ نے اس سچ کہنے سے بڑی کوئی نعمت مجھے عطا نہیں فرمائی کیونکہ اگر میں جھوٹ بولتا تو جس طرح جھوٹ بولنے والے ہلاک ہوگئے میں بھی ہلاک ہوجاتا ان جھوٹ بولنے والوں کے حق میں اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی " سیحلفون با اللہ لکم۔۔۔۔۔ " حضرت کعب بن مالک (رض) کہتے ہیں جن لوگوں نے قسمیں کھا کر اپنی معذرت پیش کی تھی اور رسول اللہ ﷺ نے ان کی معذرت قبول کرلی تھی ان سے بیعت لے لی تھی اور ان کے لئے دعائے مغفرت کی تھی ان کے واقعہ کے بعد ہم تینوں کا قبول توبہ کا واقعہ ہوا اور رسول اللہ ﷺ نے ہمارے معاملہ میں ڈھیل چھوڑ دی تھی یہاں تک کہ اللہ نے خود اس کا فیصلہ کیا۔ آیت " وعلی الثلاثۃ الذین " میں تینوں کے پیچھے رہنے سے جنگ سے رہ جانا مقصود ہے۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے الفاظ کے ذراتغیر کے ساتھ بھی مروی ہے۔
حضرت کعب بن مالک انصاری کی مرویات۔
حضرت کعب بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن ابی حدود پر ان کا کچھ قرض تھا ایک مرتبہ راستے میں ملاقات ہوگئی حضرت کعب بن مالک (رض) نے انہیں پکڑ لیا باہمی تکرار کی وجہ سے آوازیں بلند ہوگئیں اسی اثناء میں نبی ﷺ وہاں سے گذرے نبی ﷺ نے اشارہ کرکے مجھ سے فرمایا کہ اس کا نصف قرض معاف کردو چناچہ انہوں نے نصف چھوڑ کر نصف مال لے لیا۔
حضرت کعب بن مالک انصاری کی مرویات۔
حضرت کعب بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا مسلمان کی روح پرندوں کی شکل میں جنت کے درختوں پر رہتی ہیں تاآنکہ قیامت کے دن اللہ اسے اس کے جسم میں واپس لوٹادیں۔
حضرت کعب بن مالک انصاری کی مرویات۔
حضرت کعب بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے انہیں اوس بن حدثان کو ایام تشریق میں یہ منادی کرنے کے لئے بھیجا کہ جنت میں سوائے مومن کے اور کوئی داخل نہیں ہوسکے گا اور ایام تشریق کھانے پینے کے دن ہیں۔
حضرت کعب بن مالک انصاری کی مرویات۔
حضرت کعب بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا دو بھوکے بھیڑیے اگر بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیئے جائیں تو وہ اتنافساد نہیں مچائیں گے جتنا انسان کے دن میں مال اور منصب کی حرص فساد برپا کرتی ہے۔
حضرت کعب بن مالک انصاری کی مرویات۔
حضرت کعب بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ ابتداء رمضان میں جب کوئی روزہ دار رات کو سوجاتا اس پر کھانا پینا اور بیوی کے قریب جانا اگلے دن افطار کرنے تک حرام ہوجاتا تھا ایک مرتبہ حضرت عمر رات کے وقت نبی ﷺ کے پاس کچھ دیر گذارنے کے بعد گھر واپس آئے تو دیکھا کہ ان کی اہلیہ سو رہی ہیں انہوں نے ان سے اپنی خواہش پوری کرنے کا ارادہ کیا تو وہ کہنے لگیں کہ میں تو سو گئی تھی حضرت عمر نے کہا کہاں سوئی تھی پھر ان سے اپنی خواہش پوری کی ادھر حضرت کعب بن مالک (رض) کے ساتھ بھی ایساہی پیش آیا اگلے دن جب حضرت عمر نے نبی ﷺ کو اس واقعے کی خبردی اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی اللہ جانتا ہے کہ تم اپنی جانوں سے خیانت کرچکے ہو سو اللہ تم پر متوجہ ہوا اور اس نے تمہیں معاف کردیا۔
حضرت کعب بن مالک انصاری کی مرویات۔
حضرت کعب بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا اشعار سے مشرکین کی مذمت بیان کیا کرو مسلمان اپنی جان اور مال دونوں سے جہاد کرتا ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے تم جو اشعار مشرکین کے متعلق کہتے ہو ایسا لگتا ہے کہ تم ان پر تیروں کی بوچھاڑ کررہے ہو۔
حضرت کعب بن مالک انصاری کی مرویات۔
ایک مرتبہ ابوبکر بن محمد عمر بن حکم کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ اے ابوحفص ہمیں نبی ﷺ کی کوئی ایسی حدیث سناؤ جس میں کسی کا کوئی اختلاف نہ ہو اور وہ کہنے لگے کہ مجھ سے حضرت کعب بن مالک (رض) نے یہ ھدیث بیان کی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی ریض کی عیادت کرتا ہے وہ رحمت کے سمندر میں غوطہ لگاتا ہے اور جب مریض کے پاس جا کر بیٹھ جاتا ہے تو اس میں ڈوب جاتا ہے اور امید ہے کہ انشاء اللہ تم بھی رحمت میں ڈوب گئے ہو۔
حضرت کعب بن مالک انصاری کی مرویات۔
حضرت کعب بن مالک (رض) جو بیعت عقبہ کے شرکاء اور اس میں نبی ﷺ سے بیعت کرنے والوں میں سے تھے کہتے ہیں کہ ہم اپنی قوم کے کچھ مشرک حاجیوں کے ساتھ نکلے ہم اس وقت نماز پڑھتے اور دین سمجھتے تھے ہمارے ساتھ حضرت براء بن معرور بھی تھے جو ہم میں سب سے بڑے اور ہمارے سردار تھے جب ہم سفر کے لئے تیار ہوئے اور مدینہ منورہ سے نکلے تو تو حضڑت براء کہنے لگے کہ لوگو واللہ مجھے ایک رائے سمجھائی گئی ہے مجھے نہیں معلوم کہ تم لوگ میری موافقت کرو گے یا نہیں ہم نے ان سے پوچھا کہ وہ کیا رائے ہے وہ کہنے لگے کہ میری رائے یہ ہے کہ میں خانہ کعبہ کی طرف اپنی پشت کرکے نماز نہ پڑھا کروں ہم نے ان سے کہا ہمیں تو اپنے نبی ﷺ کے حوالے سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ وہ شام کی طرف ہی رخ کرکے نماز پڑھتے ہیں ہم ان کی مخالفت نہ کریں گے وہ کہنے لگے کہ میں تو خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھوں گا ہم نے ان سے کہا ہم ایسا نہیں کریں گے چناچہ نماز کا وقت آنے پر ہم لوگ شام کی جانب رخ کرکے نماز پڑھتے اور وہ خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے یہاں تک کہ ہم مکہ مکرمہ پہنچ گئے۔ چناچہ ہم مسجد میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ حضرت عباس بیٹھے ہیں اور ان کے ساتھ نبی ﷺ بھی بیٹھے ہوئے ہیں ہم بھی سلام کرکے بیٹھ گئے نبی ﷺ نے حضرت عباس سے پوچھا اے ابوفضل کیا آپ ان دونوں کو پہچانتے ہیں انہوں نے کہا جی ہاں یہ اپنی قوم کے سردار ہیں اور یہ کعب بن مالک (رض) ہیں واللہ مجھے نبی ﷺ کی اس وقت کی بات اب تک نہیں بھولی کہ وہ کعب جو شاعر ہے انہوں نے عرض کیا جی ہاں۔ پھر حضرت براء کہنے لگے کہ یا رسول اللہ میں اپنے ساتھ اس سفر پر نکلا تو اللہ نے مجھے اسلام کی ہدایت سے مالامال کرچکا تھا میں نے سوچا کہ اس عمارت کی طرف اپنی پشت نہ کروں چناچہ میں اس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتارہا لیکن میرے ساتھیوں نے اس معاملے میں میری مخالفت کردی جس کی وجہ سے میرے دل میں اس کے متعلق کھٹکا پیداہو گیا ہے اب آپ کی کیا رائے ہے نبی ﷺ نے فرمایا تم ایک قبلہ پر پہلے ہی قائم تھے اگر تم اس پر برقرار رہتے تو اچھا ہوتا اس کے بعد براء نبی ﷺ کے قبلے کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے حالانکہ ایسی بات نہیں ہے ہمیں ان کے متعلق زیادہ معلوم ہے۔ پھر ہم لوگ حج کے لئے روانہ ہوئے اور ایام تشریق کے درمیانی دن میں نبی ﷺ سے ایک گھاٹی پر ملاقات کا وعدہ کرلیاجب ہم حج سے فارغ ہوئے اور وہ رات آگئی جس کا ہم نے نبی ﷺ سے وعدہ کیا تھا اس وقت ہمارے ساتھ ہمارے ایک سردار ابوجابر (رض) عبداللہ بن عمرو بن حرام بھی تھے ہم نے اپنے ساتھ آتے ہوئے مشرکین سے اپنے معاملے کو پوشیدہ رکھا تھا تو ہم نے ان سے بات کی کہ اور کہا اے ابوجابر (رض) آپ ہمارے سرداروں میں سے ایک سردار ہیں ہم نہیں چاہتے کہ آپ جس دین پر ہیں اس کی وجہ سے کل کو جہنم کا ایندھن بن جائیں پھر میں نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور انہیں نبی ﷺ سے اپنی طے شدہ ملاقات کے بارے میں بتایا جس پر وہ مسلمان ہوگئے اور ہمارے ساتھ اس گھاٹی پر پہنچے جہاں انہیں بھی نقیب مقرر کیا گیا۔ جب ہم لوگ اپنی جگہ پر بیٹھ گئے تو سب سے پہلے حضرت عباس نے گفتگو کا آغاز کیا اور کہنے لگے اے گروہ خزرج محمد کو ہم میں جو حثییت حاصل ہے وہ آپ سب جانتے ہیں ہماری قوم میں سے جن لوگوں کی رائے اب تک ہم جیسی ہے ہم نے ان کی ان لوگوں سے اب تک حفاظت کی ہے۔ اس پر نبی ﷺ نے اپنے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کچھ تلاوت فرمائی اللہ کی طرف دعوت دی اور اسلام کی ترغیب دی اور فرمایا کہ میں تم سے اس شرط پر بیعت لیتاہوں کہ تم جس طرح اپنی بیوی بچوں کی حفاظت کرتے ہو میری بھی اسی طرح حفاظت کرو گے یہ سن کر حضرت براء بن معرور نے نبی ﷺ کا دست مبارک پکڑ کر عرض کیا جی ہاں اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ہم آپ کی اسی طرح حفاظت کریں گے جیسے ہم اپنی حفاظت کرتے ہیں یا رسول اللہ ہمیں بیعت کرلیجیے۔ پھر نبی ﷺ نے فرمایا کہ اپنے میں سے بارہ آدمیوں کو منتخب کرلو جو اپنی قوم کے نقیب ہوں چناچہ انہوں نے بارہ آدمی منتخب کرلیے جن میں سے نوکاتعلق خزرج سے تھا اور تین کا تعلق اوس سے تھا۔ پھر سب لوگوں نے یکے بعد دیگرے بیعت کرلی جب ہم لوگ نبی ﷺ سے بیعت کرچکے تو گھاٹی کے سرے پر کھڑے ہو کر شیطان نے بلند آواز سے چیخ کر کہا اے اہل منزل مذمم (العیاذ باللہ، مراد نبی ﷺ اور ان کے ساتھ بےدینوں کی خبرلو یہ تم سے جنگ کرنے کے لئے اکٹھے ہورہے ہیں نبی ﷺ نے فرمایا کہ یہ عقبہ کا جنگلی بیل ہے۔ اس کے بعد ہم لوگ واپس آکر سوگئے صبح ہوئی تو ہمارے پاس ہمارے خیموں کے روساء قریش آئے اور کہنے لگے کہ اے گروہ خزرج ہمیں معلوم ہوا ہے کہ تم لوگ ہمارے اس ساتھی کے پاس آئے ہو تاکہ انہیں ہمارے درمیان سے نکال کرلے جاؤ اور تم نے ان سے ہمارے ساتھ جنگ پر معاہدہ کرلیا ہے بخدا سارے عرب میں تم وہ واحد لوگ ہو جن سے لڑائی کرنا ہمیں سب سے زیادہ مبغوض ہے اس پر وہاں موجود تمام مشرکین کھڑے ہو کر ان سے قسمیں کھا کھا کر کہنے لگے کہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی اور نہ ہی ہمارے علم میں کوئی ایسی بات ہے وہ سچ بول رہے تھے کیونکہ انہیں ہمارے معاملے کی کوئی خبر نہ تھی اس دوران ہم ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد وہ لوگ اٹھ کر چلے گئے ان میں حارث بن ہشام بھی تھا جس نے نئے جوتے پہن رکھے تھے میں نے سوچا کہ میں کوئی ایساجملہ بول دو جس سے ہماری بھی اپنی قوم کی باتوں میں شرکت ثابت ہوجائے چناچہ میں نے ابوجابر (رض) سے کہا کہ اے ابوجابر (رض) آپ تو ہمارے سردار ہیں کیا آپ اس قریشی نوجوان جیسا جوتا نہیں خرید نہیں سکتے ؟ حارث کے کانوں میں یہ آواز چلی گئی اس نے اپنے جوتے تارے اور میری طرف اچھال دیئے اور کہنے لگا کہ واللہ یہ اب تم ہی پہنو گے ابوجابر (رض) کہنے لگے کہ میں نے اس کی شکل و صورت اپنے ذہن میں محفوظ کرلی ہے اس لئے یہ تم واپس کردو میں نے کہا اللہ کی قسم میں تو واپس نہیں کروں گا وہ کہنے لگے کہ بخدا یہ اچھی فال ہے اگر یہ فال سچی ہوئی تو میں اسے ضرور چھینوں گا۔ یہ ہے حضرت کعب بن مالک (رض) کی حدیث جو عقبہ اور اس کی حاضری سے متعلق واقعات پر مشتمل ہے۔