19. حضرت جعفربن ابی طالب (رض) کی حدیث
حضرت جعفربن ابی طالب (رض) کی حدیث
ام المومنین حضرت ام سلمہ (رض) سے مروی ہے کہ جب ہم سر زمین حبش میں اترے تو ہمیں نجاشی کی صورت میں بہترین پڑوسی ملا، ہمیں دین کے حوالے اطمینان نصیب ہوا، ہم نے اللہ کی عبادت اس طرح کی کہ ہمیں کوئی نہ ستاتا تھا اور ہم کوئی ناپسندیدہ بات نہ سنتے تھے، قریش کو جب اس کی خبر پہنچی تو انہوں نے مشورہ کیا کہ قریش کے دو مضبوط آدمیوں کو نادر و نایاب تحائف کے ساتھ نجاشی کے پاس بھیجاجائے، ان لوگوں کی نگاہوں میں سب سے زیادہ عمدہ اور قیمتی چیز " چمڑا " شمار ہوتی تھی، چناچہ انہوں نے بہت سا چمڑا اکٹھا کیا اور نجاشی کے ہر سردار کے لئے بھی ہدیہ اکٹھا کیا اور یہ سب چیزیں عبداللہ بن ابی ربیعہ اور عمرو بن العاص کے حوالے کر کے انہیں ساری بات سمجھائی اور کہا کہ نجاشی سے ان لوگوں کے حوالے سے کوئی بات کرنے سے قبل ہر سردار کو اس کا ہدیہ پہنچا دینا، پھر نجاشی کی خدمت میں ہدایا و تحائف پیش کرنا اور قبل اس کے وہ ان لوگوں سے کوئی بات کرے، تم اس سے یہ درخواست کرنا کہ انہیں تمہاے حوالہ کر دے۔ یہ دونوں مکہ مکرمہ سے نکل کر نجاشی کے پاس پہنچے، اس وقت تک ہم بڑی بہترین رہائش اور بہترین پڑوسیوں کے درمیان رہ رہے تھے، ان دونوں نے نجاشی سے کوئی بات کرنے سے پہلے اس کے ہر سردار کو تحائف دیئے اور ہر ایک سے یہی کہا کہ شاہ حبشہ کے اس ملک میں ہمارے کچھ بیوقوف لڑکے آگئے ہیں، جو اپنی قوم کے دین کو چھوڑ دیتے ہیں اور تمہارے دین میں داخل نہیں ہوتے، بلکہ انہوں نے ایک نیا دین خود ہی ایجاد کرلیا ہے جسے نہ ہم جانتے ہیں اور نہ آپ لوگ، اب ہمیں اپنی قوم کے کچھ معزز لوگوں نے بھیجا ہے تاکہ ہم انہیں یہاں سے واپس لے جائیں، جب ہم بادشاہ سلامت سے ان کے متعلق گفتگو کریں تو آپ بھی انہیں یہی مشورہ دیں کہ بادشاہ سلامت ان سے کوئی بات چیت کئے بغیر ہی انہیں ہمارے حوالے کردیں، کیونکہ ان کی قوم کی نگاہیں ان سے زیادہ گہری ہیں اور وہ اس چیز سے بھی زیادہ واقف ہیں جو انہوں نے ان پر عیب لگائے ہیں، اس پر سارے سرداروں نے انہیں اپنے تعاون کا یقین دلایا۔ اس کے بعد ان دونوں نے نجاشی کی خدمت میں اپنی طرف سے تحائف پیش کئے جنہیں اس نے قبول کرلیا، پھر ان دونوں نے اس سے کہا بادشاہ سلامت ! آپ کے شہر میں ہمارے ملک کے کچھ بیوقوف لڑکے آگئے ہیں، جو اپنی قوم کا دین چھوڑ آئے ہیں اور آپ کے دین میں داخل نہیں ہوئے، بلکہ انہوں نے ایک نیا دین خود ہی ایجاد کرلیا ہے جسے نہ آپ جانتے ہیں اور نہ ہم جانتے ہیں، اب ان کے سلسلے میں ان کی قوم کے کچھ معززین نے جن میں ان کے باپ چچا اور خاندان والے شامل ہیں ہمیں آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ آپ انہیں ہمارے حوالہ کردیں کیونکہ ان کی نگاہیں زیادہ گہری ہیں اور وہ اس چیز سے بھی باخبر ہیں جو انہوں نے ان پر عیب لگائے ہیں۔ اس وقت ان دونوں کی نگاہوں میں سب سے زیادہ ناپسنیدہ چیز یہ تھی کہ کہیں نجاشی ہماری بات سننے کے لئے تیار نہ ہوجائے، ادھر اس کے پاس موجود اس کے سرداروں نے بھی کہا بادشاہ سلامت ! یہ لوگ سچ کہہ رہے ہیں، ان کی قوم کی نگاہیں زیادہ گہری ہیں اور وہ اس چیز سے بھی باخبر ہیں جو انہوں نے ان پر عیب لگائے ہیں، اس لئے آپ ان لوگوں کو ان دونوں کے حوالے کر دیجئے تاکہ یہ انہیں واپس ان کے شہر اور قوم میں لے جائیں، اس پر نجاشی کو غصہ آگیا اور وہ کہنے لگا نہیں، بخدا ! میں ایک ایسی قوم کو ان لوگوں کے حوالے نہیں کرسکتا جنہوں نے میرا پڑوسی بننا قبول کیا، میرے ملک میں آئے اور دوسروں پر مجھے ترجیح دی، میں پہلے انہیں بلاؤں گا اور ان سے اس چیز کے متعلق پوچھوں گا جو یہ دونوں ان کے حوالے سے کہہ رہے ہیں، اگر وہ لوگ ویسے ہی ہوئے جیسے یہ کہہ رہے ہیں تو میں انہیں ان کے حوالے کردوں گا اور انہیں ان کے شہر اور قوم میں واپس بھیج دوں گا اور اگر ایسا نہ ہوا تو پھر میں انہیں ان کے حوالے نہیں کروں گا بلکہ اچھا پڑوسی ہونے کا ثبوت پیش کروں گا۔ اس کے بعد نجاشی نے پیغام بھیج کر صحابہ کرام (رض) کو بلایا، جب قاصد صحابہ کرام (رض) کے پاس آیا تو انہوں نے اکٹھے ہو کر مشورہ کیا کہ بادشاہ کے پاس پہنچ کر کیا کہا جائے ؟ پھر انہوں نے آپس میں یہ طے کرلیا کہ ہم وہی کہیں گے جو ہم جانتے ہیں یا جو نبی ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے، جو ہوگا سو دیکھا جائے گا، چناچہ یہ حضرات نجاشی کے پاس چلے گئے، نجاشی نے اپنے پادریوں کو بھی بلالیا تھا اور وہ اس کے سامنے آسمانی کتابیں اور صحیفے کھول کر بیٹھے ہوئے تھے۔ نجاشی نے ان سے پوچھا کہ وہ کون سا دین ہے جس کی خاطر تم نے اپنی قوم کے دین کو چھوڑا، نہ میرے دین میں داخل ہوئے اور نہ اقوام عالم میں سے کسی کا دین اختیار کیا ؟ اس موقع پر حضرت جعفر بن ابی طالب (رض) نے کلام کیا اور فرمایا بادشاہ سلامت ! ہم جاہل لوگ تھے، بتوں کو پوجتے تھے، مردار کھاتے تھے، بےحیائی کے کام کرتے تھے، رشتہ داریاں توڑ دیا کرتے تھے، پڑوسیوں کے ساتھ بد سلوکی کرتے تھے اور ہمارا طاقتور ہمارے کمزور کو کھا جاتا تھا، ہم اسی طرز زندگی پر چلتے رہے، حتی کہ اللہ نے ہماری طرف ہم ہی میں سے ایک پیغمبر کو بھیجا جس کے حسب نسب، صدق و امانت اور عفت و عصمت کو ہم جانتے ہیں، انہوں نے ہمیں اللہ کو ایک ماننے، اس کی عبادت کرنے اور اس کے علاوہ پتھروں اور بتوں کو جنہیں ہمارے آباؤ اجداد پوجا کرتے تھے کی عبادت چھوڑ دینے کی دعوت پیش کی، انہوں نے ہمیں بات میں سچائی، امانت کی ادائیگی، صلہ رحمی، پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے، حرام کاموں اور قتل و غارت گری سے بچنے کا حکم دیا، انہوں نے ہمیں بےحیائی کے کاموں سے بچنے، جھوٹ بولنے، یتیم کا مال ناحق کھانے اور پاکدامن عورت پر بدکاری کی تہمت لگانے سے روکا، انہوں نے ہمیں حکم دیا کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور انہوں نے ہمیں نماز، زکوٰۃ اور روزے کا حکم دیا، ہم نے ان کی تصدیق کی، ان پر ایمان لائے، ان کی لائی ہوئی شریعت اور تعلیمات کی پیروی کی، ہم نے ایک اللہ کی عبادت شروع کردی، ہم اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتے تھے، ہم نے ان کی حرام کردہ چیزوں کو حرام اور حلال قرار دی ہوئی اشیاء کو حلال سمجھنا شروع کردیا، جس پر ہماری قوم نے ہم پر ظلم وستم شروع کردیا، ہمیں طرح طرح کی سزائیں دینے لگے، ہمیں ہمارے دین سے برگشتہ کرنے لگے تاکہ ہم دوبارہ اللہ کی عبادت چھوڑ کر بتوں کی پوجا شروع کردیں اور پہلے جن گندی چیزوں کو زمانہ جاہلیت میں حلال سمجھتے تھے، انہیں دوبارہ حلال سمجھنا شروع کردیں۔ جب انہوں نے ہم پر حد سے زیادہ ظلم شروع کردیا اور ہماے لئے مشکلات کھڑی کرنا شروع کردیں اور ہمارے اور ہمارے دین کے درمیان رکاوٹ بن کر حائل ہونے لگے تو ہم وہاں سے نکل کر آپ کے ملک میں آگئے، ہم نے دوسروں پر آپ کو ترجیح دی، ہم نے آپ کے پڑوس میں اپنے لئے رغبت محسوس کی اور بادشاہ سلامت ! ہمیں امید ہے کہ آپ کی موجودگی میں ہم پر ظلم نہیں ہوگا۔ نجاشی نے ان سے کہا کیا اس پیغمبر پر اللہ کی طرف سے جو وحی آتی ہے، اس کا کچھ حصہ آپ کو یاد ہے ؟ حضرت جعفر (رض) نے فرمایا جی ہاں ! اس نے کہا کہ پھر مجھے وہ پڑھ کر سنائیے، حضرت جعفر (رض) نے اس کے سامنے سورت مریم کا ابتدائی حصہ تلاوت فرمایا : بخدا ! اسے سن کر نجاشی اتنا رویا کہ اس کے آنسؤوں سے تر ہوگئی، اس کے پادری بھی اتنا روئے کہ ان کے سامنے رکھے ہوئے آسمانی کتابوں کے نسخے بھی ان کے آنسؤوں سے تربتر ہوگئے، پھر نجاشی نے کہا بخدا ! یہ وہی کلام ہے جو موسیٰ پر بھی نازل ہوا تھا اور ان دونوں کا منبع ایک ہی ہے، یہ کہہ کر ان دونوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ تم دونوں چلے جاؤ اللہ کی قسم ! میں انہیں کسی صورت میں تمہارے حوالے نہیں کروں گا۔ حضرت ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ جب وہ دونوں نجاشی کے دربار سے نکلے تو عمرو بن عاص نے کہا بخدا ! کل میں نجاشی کے سامنے ان کا عیب بیان کر کے رہوں گا اور اس کے ذریعے ان کی جڑ کاٹ کر پھینک دوں گا، عبداللہ بن ابی ربیعہ جو ہمارے معاملے میں کچھ نرم تھا کہنے لگا کہ ایسا نہ کرنا، کیونکہ اگرچہ یہ ہماری مخالفت کر رہے ہیں لیکن ہیں تو ہمارے ہی رشتہ دار، عمرو بن عاص نے کہا کہ نہیں، میں نجاشی کو یہ بتا کر رہوں گا کہ یہ لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی اللہ کا بندہ کہتے ہیں۔ چناچہ اگلے دن آکر عمرو بن عاص نے نجاشی سے کہا بادشاہ سلامت ! یہ لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی اللہ کا بندہ کہتے ہیں۔ چناچہ اگلے دن آکر عمرو بن عاص نے نجاشی سے کہا بادشاہ سلامت ! یہ لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے بڑی سخت بات کہتے ہیں، اس لئے انہیں بلا کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے ان کا عقیدہ دریافت کیجئے، بادشاہ نے صحابہ کرام (رض) کو پھر اس سوال کا جواب معلوم کرنے کے لئے بلا بھیجا، اس وقت ہمارے اوپر اس جیسی کوئی چیز نازل نہ ہوئی تھی۔ صحابہ کرام (رض) باہم مشورہ کے لئے جمع ہوئے اور کہنے لگے کہ جب بادشاہ تم سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق پوچھے گا تو تم کیا کہو گے ؟ پھر انہوں نے یہ طے کر کے وہ نجاشی کے پاس پہنچ گئے، نجاشی نے ان سے پوچھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے ؟ حضرت جعفر (رض) نے فرمایا کہ اس سلسلے میں ہم وہی کچھ کہتے ہیں جو ہمارے نبی ﷺ کہتے ہیں کہ وہ اللہ کے بندے، اس کے پیغمبر، اس کی روح اور اس کا وہ کلمہ ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم علیہا السلام کی طرف القاء کیا تھا جو کہ کنواری اور اپنی شرم وحیاء کی حفاظت کرنے والی تھیں، اس پر نجاشی نے اپنا ہاتھ زمین کی طرف بڑھا کر ایک تنکا اٹھایا اور کہنے لگا کہ آپ نے جو کچھ کہا ہے، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اس سے اس تنکے کی نسبت بھی زیادہ نہیں ہیں۔ جب نجاشی نے یہ بات کہی تو یہ اس کے ارگرد بیٹھے ہوئے سرداروں کو بہت بری لگی اور غصہ سے ان کے نرخروں سے آواز نکلنے لگی، نجاشی نے کہا تمہیں جتنا مرضی برا لگے، بات صحیح ہے، تم لوگ جاؤ آج سے تم اس ملک میں امت کے ساتھ رہو گے اور تین مرتبہ کہا کہ جو شخص تمہیں برا بھلا کہے گا اسے اس کا تاوان ادا کرنا ہوگا، مجھے یہ بات پسند نہیں کہ تم میں سے کسی کو تکلیف پہنچاؤں اگرچہ اس کے عوض مجھے ایک پہاڑ کے برابر بھی سونا مل جائے اور ان دونوں کو ان کے تحائف اور ہدایا واپس کردو، بخدا ! اللہ نے جب مجھے میری حکومت واپس لوٹائی تھی تو اس نے مجھ سے رشوت نہیں لی تھی کہ میں بھی اس کے معاملے میں رشوت لیتا پھروں اور اس نے لوگوں کو میرا مطیع نہیں بنایا کہ اس کے معاملے میں میں لوگوں کی اطاعت کرتا پھروں۔ حضرت ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں کہ اس کے بعد ان دونوں کو وہاں سے ذلیل کر کے نکال دیا گیا اور وہ جو بھی ہدایا لے کر آئے تھے، وہ سب انہیں واپس لوٹا دئیے گئے اور ہم نجاشی کے ملک میں بہترین گھر اور بہترین پڑوس کے ساتھ زندگی گذارتے رہے، اس دوران کسی نے نجاشی کے ملک پر حملہ کردیا، اس وقت ہمیں انتہائی غم و افسوس ہوا اور ہمیں یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں وہ حملہ آور نجاشی پر غالب ہی نہ آجائے اور نجاشی کی جگہ ایک ایسا آدمی برسر اقتدار آجائے جو ہمارے حقوق کا اس طرح خیال نہ رکھے جیسے نجاشی رکھتا تھا۔ بہرحال ! نجاشی جنگ کے لئے روانہ ہوا، دونوں لشکروں کے درمیان دریائے نیل کی چوڑائی حائل تھی، اس وقت صحابہ کرام (رض) نے ایک دوسرے سے کہا کہ ان لوگوں کی جنگ میں حاضر ہو کر ان کی خبر ہمارے پاس کون لائے گا ؟ حضرت زبیر (رض) جو اس وقت ہم میں سب سے کمسن تھے نے اپنے آپ کو پیش کیا، لوگوں نے انہیں ایک مشکیزہ پھلا کر دے دیا، وہ انہوں نے اپنے سینے پر لٹکا لیا اور اس کے اوپر تیرنے لگے، یہاں تک کہ نیل کے اس کنارے کی طرف نکل گئے جہاں دونوں لشکر صف آراء تھے۔ حضرت زبیر (رض) وہاں پہنچ کر سارے حالات کا جائزہ لیتے رہے اور ہم نجاشی کے حق میں اللہ سے یہ دعاء کرتے رہے کہ اسے اس کے دشمن پر غلبہ نصیب ہو اور وہ اپنے ملک میں حکمرانی پر فائز رہے اور اہل حبشہ کا نظم ونسق اسی کے ہاتھ میں رہے، کیونکہ ہمیں اس کے پاس بہترین ٹھکانہ نصیب تھا، یہاں تک کہ ہم نبی ﷺ کے پاس واپس آگئے، اس وقت آپ ﷺ مکہ مکرمہ میں ہی تھے۔
حضرت جعفربن ابی طالب (رض) کی حدیث
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ (رض) سے مروی ہے کہ جب ہم سر زمین حبش میں اترے تو ہمیں " نجاشی " کی صورت میں بہترین پڑوسی ملا ہمیں دین کے حوالے سے اطمینان نصیب ہوا ہم نے اللہ کی عبادت اس طرح کی کہ ہمیں کوئی نہ ستاتا تھا اور ہم کوئی ناپسندیدہ بات نہ سنتے تھے قریش کو جب اس کی خبر پہنچی تو انہوں نے مشورہ کیا کہ قریش کے دو مضبوط آدمیوں کو نادر و نایاب تحائف کے ساتھ نجاشی کے پاس بھیجا جائے ان لوگوں کی نگاہوں میں سب سے زیادہ عمدہ اور قیمتی چیز " چمڑا " شمار ہوتی تھی چناچہ انہوں نے بہت سا چمڑا اکٹھا کیا اور نجاشی کے ہر سردار کے لئے بھی ہدیہ اکٹھا کیا اور یہ سب چیزیں عبداللہ بن ابی ربیعہ اور عمرو بن العاص کے حوالے کر کے انہیں ساری بات سمجھائی اور کہا کہ نجاشی سے ان کے حوالے سے کوئی بات کرنے سے قبل ہر سردار کو اس کا ہدیہ پہنچا دینا پھر نجاشی کی خدمت میں ہدایا و تحائف پیش کرنا اور قبل اس کے کہ وہ ان لوگوں سے کوئی بات کرے تم اس سے یہ درخواست کرنا کہ انہیں تمہارے حوالہ کر دے۔ یہ دونوں مکہ مکرمہ سے نکل کر نجاشی کے پاس پہنچے اس وقت تک ہم بڑی بہترین رہائش اور بہترین پڑوسیوں کے درمیان رہ رہے تھے ان دونوں نے نجاشی سے کوئی بات کرنے سے پہلے اس کے ہر سردار کو تحائف دیئے اور ہر ایک سے یہی کہا کہ شاہ حبشہ کے اس ملک میں ہمارے کچھ بیوقوف لڑکے آگئے ہیں جو اپنی قوم کے دین کو چھوڑ دیتے ہیں اور تمہارے دین میں داخل نہیں ہوتے بلکہ انہوں نے ایک نیا دین خود ہی ایجاد کرلیا ہے جسے نہ ہم جانتے ہیں اور نہ آپ لوگ اب ہمیں اپنی قوم کے معزز لوگوں نے بھیجا ہے تاکہ ہم انہیں یہاں سے واپس لے جائیں جب ہم بادشاہ سلامت سے ان کے متعلق گفتگو کریں تو آپ بھی انہیں مشورہ دیں کہ بادشاہ سلامت ان سے کوئی بات چیت کئے بغیر ہی انہیں ہمارے حوالے کردیں، کیونکہ ان کی قوم کی نگاہیں ان سے زیادہ گہری ہیں اور وہ اس چیز سے بھی زیادہ واقف ہیں جو انہوں نے ان پر عیب لگائے ہیں، اس پر سارے سرداروں نے انہیں اپنے تعاون کا یقین دلایا۔ اس کے بعد ان دونوں نے نجاشی کی خدمت میں اپنی طرف سے تحائف پیش کئے جنہیں اس نے قبول کرلیا پھر ان دونوں نے اس سے کہا بادشاہ سلامت ! آپ کے شہر میں ہمارے ملک کے کچھ بیوقوف لڑکے آگئے ہیں جو اپنی قوم کا دین چھوڑ آئے ہیں اور آپ کے دین میں داخل نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے ایک نیا دین خود ہی ایجاد کرلیا ہے جسے نہ آپ جانتے ہیں اور نہ ہم جانتے ہیں اب ان کے سلسلے میں ان کی قوم کے کچھ معززین نے " جن میں ان کے باپ، چچا اور خاندان والے شامل ہیں ہمیں آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ آپ انہیں ہمارے حوالہ کردیں کیونکہ ان کی نگاہیں زیادہ گہری ہے اور وہ اس چیز سے بھی باخبر ہیں جو انہوں نے ان پر عیب لگائے ہیں۔ اس وقت ان دونوں کی نگاہوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز یہ تھی کہ کہیں نجاشی ہماری بات سننے کے لئے تیار نہ ہوجائے ادھر اس کے پاس موجود اس کے سرداروں نے بھی کہا بادشاہ سلامت ! یہ لوگ سچ کہہ رہے ہیں ان کی قوم کی نگاہیں زیادہ گہری ہیں اور وہ اس چیز سے بھی باخبر ہیں جو انہیں نے ان پر عیب لگائے ہیں اس لئے آپ ان لوگوں کو ان دونوں کے حوالے کر دیجئے تاکہ یہ انہیں واپس ان کے شہر اور قوم میں لے جائیں اس پر نجاشی کو غصہ آگیا اور وہ کہنے لگا نہیں بخدا ! میں ایک ایسی قوم کو ان کے حوالے نہیں کرسکتا جنہوں نے میرا پڑوسی بننا قبول کیا میرے ملک میں آئے اور دوسروں پر مجھے ترجیح دی، میں پہلے انہیں بلاؤں گا اور ان سے اس چیز کے متعلق پوچھوں گا جو یہ دونوں ان کے حوالے سے کہہ رہے ہیں اگر وہ لوگ ویسے ہی ہوئے جیسے یہ کہہ رہے ہیں تو میں انہیں ان کے حوالے کر دوں گا اور انہیں ان کے شہر اور قوم میں واپس بھیج دوں گا اور اگر ایسا نہ ہوا تو پھر میں انہیں ان کے حوالے نہیں کروں گا بلکہ اچھا پڑوسی ہونے کا ثبوت پیش کروں گا۔ اس کے بعد نجاشی نے پیغام بھیج کر صحابہ کرام (رض) کو بلایا جب قاصد صحابہ کرام (رض) کے پاس آیا تو انہوں نے اکٹھے ہو کر مشورہ کیا کہ بادشاہ کے پاس پہنچ کر کیا کہا جائے ؟ پھر انہوں نے آپس میں طے کرلیا کہ ہم وہی کہیں گے جو ہم جانتے ہیں یا جو نبی کریم ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے جو ہوگا سو دیکھاجائے گا چناچہ یہ حضرات نجاشی کے پاس چلے گئے نجاشی نے اپنے پادریوں کو بھی بلالیا تھا اور وہ اس کے سامنے آسمانی کتابیں اور صحیفے کھول کربیٹھے ہوئے تھے نجاشی نے ان سے پوچھا کہ وہ کونسا دین ہے جس کی خاطر تم نے اپنی قوم کے دین کو چھوڑا نہ میرے دین میں داخل ہوئے اور نہ اقوام عالم میں سے کسی کا دین اختیار کیا ؟ اس موقع پر حضرت جعفر بن ابی طالب (رض) نے کلام کیا اور فرمایا بادشاہ سلامت ! ہم جاہل لوگ تھے بتوں کو پوجتے تھے مردار کھاتے تھے بےحیائی کے کام کرتے تھے رشتہ داریاں توڑ دیا کرتے تھے پڑوسیوں کے ساتھ بدسلوکی کرتے تھے اور ہمارا طاقتور ہمارے کمزور کو کھا جاتا تھا ہم اسی طرز زندگی پر چلتے رہے حتی کہ اللہ نے ہماری طرف ہم ہی میں سے ایک پیغمبر کو بھیجا جس کے حسب نسب صدق و امانت اور عفت و عصمت کو ہم جانتے ہیں، انہوں نے ہمیں اللہ کو ایک ماننے اس کی عبادت کرنے اور اس کے علاوہ پتھروں اور بتوں کو " جنہیں ہمارے آباؤ اجداد پوجا کرتے تھے " کی عبادت چھوڑ دینے کی دعوت پیش کی انہوں نے ہمیں سچائی، امانت کی ادائیگی صلہ رحمی پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے حرام کاموں اور قتل و غارت گری سے بچنے کا حکم دیا انہوں نے ہمیں بےحیائی کے کاموں سے بچنے جھوٹ بولنے، یتیم کا مال ناحق کھانے اور پاکدامن عورت پر بدکاری کی تہمت لگانے سے روکا انہوں نے ہمیں حکم دیا کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور انہوں نے ہمیں نماز، زکوٰۃ اور روزے کا حکم دیا ہے ہم نے ان کی تصدیق کی، ان پر ایمان لائے ان کی لائی ہوئی شریعت اور تعلیمات کی پیروی کی، ہم نے ایک اللہ کی عبادت شروع کردی ہم اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتے تھے ہم نے ان کی حرام کردہ چیزوں کو حرام اور حلال قرار دی ہوئی اشیاء کو حلال سمجھنا شروع کردیا جس پر ہماری قوم نے ہم پر ظلم وستم شروع کردیا، ہمیں طرح طرح کی سزائیں دینے لگے ہمیں ہمارے دین سے برگشتہ کرنے لگے تاکہ ہم دوبارہ اللہ کی عبادت چھوڑ کر بتوں کی پوجا شروع کردیں اور پہلے جن گندی چیزوں کو زمانہ جاہلیت میں حلال سمجھتے تھے انہیں دوبارہ حلال سمجھنا شروع کردیں۔ جب انہوں نے ہم پر حد سے زیادہ ظلم شروع کردیا اور ہمارے لئے مشکلات کھڑی کرنا شروع کردیں اور ہمارے اور ہمارے دین کے درمیان رکاٹ بن کر حائل ہونے لگے تو ہم وہاں سے نکل کر آپ کے ملک میں آگئے ہم نے دوسروں پر آپ کو ترجیح دی ہم نے آپ کے پڑوس میں اپنے لئے رغبت محسوس کی اور بادشاہ سلامت ! ہمیں امید ہے کہ آپ کی موجودگی میں ہم پر ظلم نہیں ہوگا۔ نجاشی نے ان سے کہا کہ کیا اس پر پیغمبر پر اللہ کی طرف سے جو وحی آتی ہے اس کا کچھ حصہ آپ کو یاد ہے ؟ حضرت جعفر (رض) نے فرمایا جی ہاں ! اس نے کہا کہ پھر مجھے وہ پڑھ کر سنائیے حضرت جعفر (رض) نے اس کے سامنے سورت مریم کا ابتدائی حصہ تلاوت فرمایا بخدا ! اسے سن کر نجاشی اتنا رویا کہ اس کی داڑھی اس کے آنسوؤں سے تر ہوگئی اس کے پادری بھی اتنا روئے کہ ان کے سامنے رکھے ہوئے آسمانی کتابوں کے نسخے بھی ان کے آنسوؤں سے تربتر ہوگئے پھر نجاشی نے کہا بخدا ! یہ وہی کلام ہے جو موسیٰ پر بھی نازل ہوا تھا اور ان دونوں کا منبع ایک ہی ہے یہ کہہ کر ان دونوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ تم دونوں چلے جاؤ اللہ کی قسم میں انہیں کسی صورت میں تمہارے حوالے نہیں کروں گا۔ حضرت ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ جب وہ دونوں نجاشی کے دربار سے نکلے تو عمرو بن عاص نے کہا بخدا ! کل میں نجاشی کے سامنے ان کا عیب بیان کر کے رہوں گا اور اس کے ذریعے ان کی جڑ کاٹ کر پھینک دوں گا عبداللہ بن ابی ربیعہ " جو ہمارے معاملے میں کچھ نرم تھا " کہنے لگا کہ ایسا نہ کرنا کیونکہ اگرچہ ہماری مخالفت کر رہے ہیں لیکن ہیں تو ہمارے ہی رشتہ دار عمرو بن عاص نے کہا کہ نہیں میں نجاشی کو یہ بتا کر رہوں گا کہ یہ لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی اللہ کا بندہ کہتے ہیں۔ چنانچہ اگلے دن آکر عمرو بن عاص نے نجاشی سے کہا بادشاہ سلامت ! یہ لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں بڑی سخت بات کہتے ہیں اس لئے انہیں بلا کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے ان کا عقیدہ دریافت کیجئے بادشاہ نے صحابہ کرام (رض) کو پھر اس سوال کا جواب معلوم کرنے کے لئے بھیجا اس وقت ہمارے اوپر اس جیسی کوئی چیز نازل نہ ہوئی تھی۔ صحابہ کرام (رض) باہم مشورہ کے لئے جمع ہوئے اور کہنے لگے کہ جب بادشاہ تم سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق پوچھے گا تو تم کیا کہو گے ؟ پھر انہوں نے یہ طے کرلیا کہ ہم ان کے متعلق وہی کہیں گے جو اللہ نے فرمایا اور جو ہمارے نبی نے بتایا ہے جو ہوگا سو دیکھاجائے گا چناچہ یہ طے کر کے وہ نجاشی کے پاس پہنچ گئے نجاشی نے ان سے پوچھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے ؟ حضرت جعفر (رض) نے فرمایا کہ اس سلسلے میں ہم وہی کچھ کہتے ہیں جو ہمارے نبی کریم ﷺ کہتے ہیں کہ وہ اللہ کے بندے، اس کے پیغمبر، اس کی روح اور اس کا کلمہ ہیں جسے اللہ نے حضرت مریم (علیہا السلام) کی طرف القاء کیا تھا جو کہ کنواری اور اپنی شرم وحیاء کی حفاظت کرنے والی تھیں، اس نجاشی نے اپنا ہاتھ زمین کی طرف بڑھا کر ایک تنکا اٹھایا اور کہنے لگأ کہ آپ نے جو کچھ کہا ہے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اس سے اس تنکے کی نسبت بھی زیادہ نہیں ہیں۔ جب نجاشی نے یہ بات کہی تو یہ اس کے ارد گرد بیٹھے ہوئے سرداروں کو بہت بری لگی اور غصہ سے ان کے نرخروں سے آواز نکلنے لگی نجاشی نے کہا جتنی مرضی برا لگے بات صحیح ہے تم لوگ جاؤ آج سے تم اس ملک میں امن کے ساتھ رہو گے اور تین مرتبہ کہا کہ جو شخص تمہیں برا بھلا کہے گا اسے اس کا تاوان ادا کرنا ہوگا مجھے یہ بات پسند نہیں کہ تم میں سے کسی کو تکلیف پہنچاؤں اگرچہ اس کے عوض مجھے ایک پہاڑ کے برابر بھی سونا مل جائے اور ان دونوں کو ان کے تحائف اور ہدایا واپس کردو بخدا ! اللہ نے جب مجھے میری حکومت واپس لوٹائی تھی تو اس نے مجھ سے رشوت نہیں لی تھی کہ میں بھی اس کے معاملے میں رشوت لیتا پھروں اور اس نے لوگوں کو میرا مطیع بنایا کہ اس کے معاملے میں لوگوں کی اطاعت کرتا پھروں۔ حضرت ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں کہ اس کے بعد ان دونوں کو وہاں سے ذلیل کر کے نکال دیا گیا اور وہ جو بھی ہدایا لے کر آئے تھے وہ سب انہیں واپس لوٹا دیئے گئے اور ہم نجاشی کے ملک میں بہترین گھر اور بہترین پڑوس کے ساتھ زندگی گذارتے رہے اس دوران کسی نے نجاشی کے ملک پر حملہ کردیا اس وقت ہمیں انتہائی غم و افسوس ہوا اور ہمیں یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں وہ حملہ آور نجاشی پر غالب ہی نہ آجائے اور نجاشی کی جگہ ایک ایسا آدمی برسر اقتدار آجائے جو ہمارے حقوق کا اس طرح خیال نہ رکھے جیسے نجاشی رکھتا تھا۔ بہرحال ! نجاشی جنگ کے لئے روانہ ہوا دونوں لشکروں کے درمیان دریائے نیل کی چوڑائی حائل تھی اس وقت صحابہ کرام (رض) نے ایک دوسرے سے کہا کہ ان لوگوں کی جنگ میں حاضر ہو کر ان کی خبر ہمارے پاس کون لائے گا ؟ حضرت زبیر (رض) جو اس وقت ہم میں سب سے کمسن تھے نے اپنے آپ کو پیش کیا لوگوں نے انہیں ایک مشکیزہ پھلا کر دے دیا وہ انہوں نے اپنے سینے پر لٹکا لیا اور اس کے اوپر تیرنے لگے یہاں تک کہ نیل کے اس کنارے کی طرف نکل گئے جہاں دونوں لشکر صف آراء تھے۔ حضرت زبیر (رض) وہاں پہنچ کر سارے حالات کا جائزہ لیتے رہے اور ہم نجاشی کے حق میں اللہ سے یہ دعاء کرتے رہے کہ اسے اس کے دشمن پر غلبہ نصیب ہو اور وہ اپنے ملک میں حکمرانی پر فائز رہے اور اہل حبشہ کا نظم ونسق اسی کے ہاتھ میں رہے کیونکہ ہمیں اس کے پاس بہترین ٹھکانہ نصیب تھا یہاں تک کہ ہم نبی کریم ﷺ کے پاس واپس آگئے اس وقت آپ ﷺ مکہ مکرمہ میں ہی تھے۔