21. حضرت عباس (رض) کی مرویات

【1】

حضرت عباس (رض) کی مرویات

ایک مرتبہ حضرت عباس (رض) نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ ! ﷺ آپ کے چچا خواجہ ابوطالب آپ کا بہت دفاع کیا کرتے تھے، آپ کی وجہ سے انہیں کیا فائدہ ہوا ؟ فرمایا وہ جہنم کے اوپر والے حصے میں ہیں، اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوتے۔

【2】

حضرت عباس (رض) کی مرویات

حضرت عباس (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب انسان سجدہ کرتا ہے تو اس کے ساتھ سات ہڈیاں سجدہ کرتی ہیں، چہرہ، دونوں ہاتھ، دونوں پاؤں اور دونوں گھٹنے۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

【3】

حضرت عباس (رض) کی مرویات

ایک مرتبہ حضرت عباس (رض) نبی صلی اللہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے یا رسول اللہ ! ﷺ میں آپ کا چچا ہوں، میں بوڑھا ہوچکا ہوں اور میری موت کا وقت قریب ہے، مجھے کوئی ایسی دعاء سکھا دیجئے جس کے ذریعے اللہ مجھے نفع عطاء فرمائے، نبی ﷺ نے فرمایا اے عباس ! آپ واقعی میرے چچا ہیں، لیکن میں اللہ کے معاملے میں آپ کے کسی کام نہیں آسکتا، البتہ آپ اپنے رب سے دنیا و آخرت میں درگذر اور عافیت کی دعاء مانگتے رہا کریں، یہ بات نبی ﷺ نے تین مرتبہ فرمائی پھر حضرت عباس (رض) ایک سال بعد دوبارہ آئے، تب بھی نبی ﷺ نے انہیں یہی دعاء تلقین فرمائی۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

【4】

حضرت عباس (رض) کی مرویات

ایک مرتبہ حضرت عباس (رض) نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ کے چچا خواجہ ابو طالب آپ کا بہت دفاع کیا کرتے تھے، آپ کی وجہ سے انہیں کیا فائدہ ہوا ؟ فرمایا وہ جہنم کے اوپر والے حصے میں ہیں، اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوتے۔

【5】

حضرت عباس (رض) کی مرویات

حضرت عباس (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب انسان سجدہ کرتا ہے تو اس کے ساتھ سات ہڈیاں سجدہ کرتی ہیں، چہرہ، دونوں ہاتھ، دونوں پاؤں اور دونوں گھٹنے۔

【6】

حضرت عباس (رض) کی مرویات

حضرت عباس (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ وادی بطحاء میں نبی ﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ وہاں سے ایک بادل گذرا، نبی ﷺ نے فرمایا جانتے ہو، یہ کیا ہے ؟ ہم نے کہا اسے سحاب (بادل) کہتے ہیں، فرمایا " مزن " بھی کہتے ہیں ؟ ہم نے عرض کیا جی ہاں ! مزن بھی کہتے ہیں، پھر فرمایا اسے " عنان " بھی کہتے ہیں ؟ اس پر ہم خاموش رہے۔ پھر فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ آسمان اور زمین کے درمیان کتنا فاصلہ ہے ؟ ہم نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، فرمایا آسمان اور زمین کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے، اسی طرح ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک بھی پانچ سو سال کا فاصلہ ہے اور ہر آسمان کی کثافت پانچ سو سال کی ہے، پھر ساتویں آسمان کے اوپر ایک سمندر ہے، اس سمندر کی سطح اور گہرائی میں زمین و آسمان کا فاصلہ ہے، پھر اس کے اوپر آٹھ پہاڑی بکرے ہیں جن کے گھٹنوں اور کھروں کے درمیان زمین و آسمان جتنا فاصلہ ہے، پھر اس کے اوپر عرش ہے جس کے اوپر اور نیچے والے حصے کے درمیان زمین و آسمان جتنا فاصہ ہے اور سب سے اوپر اللہ تبارک وتعالی ہے جس سے بنی آدم کا کوئی عمل بھی مخفی نہیں۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

【7】

حضرت عباس (رض) کی مرویات

حضرت عباس (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ ! قریش کے لوگ جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو بڑے ہشاش بشاش چہرے کے ساتھ ملتے ہیں اور جب ہم سے ملتے ہیں تو اجنبیوں کی طرح ؟ اس پر نبی صلی اللہ علیہ سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ اس ذات کی قسم ! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، کسی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ تم سے اللہ اور اس کے رسول کی خاطر محبت نہ کرنے لگے۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

【8】

حضرت عباس (رض) کی مرویات

ایک مرتبہ حضرت عباس (رض) نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ کے چچا خواجہ ابو طالب آپ کا بہت دفاع کیا کرتے تھے، آپ کی وجہ سے انہیں کیا فائدہ ہوا ؟ فرمایا وہ جہنم کے اوپر والے حصے میں ہیں، اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوتے۔

【9】

حضرت عباس (رض) کی مرویات

حضرت عباس (رض) فرماتے ہیں کہ غزوہ حنین کے موقع پر میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھا، اس وقت نبی ﷺ کے ساتھ میرے اور ابو سفیان بن حارث کے علاوہ کوئی نہ تھا، ہم دونوں نبی ﷺ کے ساتھ چمٹے رہے اور کسی صورت جدا نہ ہوئے، اس وقت نبی ﷺ اپنے سفید خچر پر سوار تھے جو انہیں فروہ بن نعامہ الجذامی نے ہدیہ کے طور پر پیش کیا تھا۔ جب مسلمان اور کفار آمنے سامنے ہوئے تو ابتدائی طور پر مسلمان پشت پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے اور نبی ﷺ باربار ایڑ لگا کر اپنے خچر پر کفار کی طرف بڑھنے لگے، میں نے نبی ﷺ کے خچر پر لگام پکڑ رکھی تھی اور میں اسے آگے جانے سے روک رہا تھا لیکن نبی ﷺ مشرکین کی طرف تیزی سے بڑھنے میں کوئی کوتاہی نہ کر رہے تھے، ابو سیفان بن حارث نے نبی ﷺ کی سواری کی رکاب تھام رکھی تھی۔ نبی ﷺ نے جنگ کا رخ دیکھ کر فرمایا عباس ! یا اصحاب السمرۃ کہہ کر مسلمانوں کو پکارو، میری آواز طبعی طور پر اونچی تھی اس لئے میں نے اونچی آواز سے پکار کر کہا این اصحاب السمرۃ ! ؟ بخدا ! یہ آواز سنتے ہی مسلمان ایسے پلٹے جیسے گائے اپنی ولد کی طرف واپس پلٹتی ہے اور لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھے اور کفار پر جا پڑے۔ ادھر انصار نے اپنے ساتھیوں کو پکارتے ہوئے کہا اے گروہ انصار ! پھر منادی کرنے والوں نے صرف بنو حارث بن خزرج کا نام لے کر انہیں پکارا، جب نبی ﷺ نے اس کیفیت کو اپنے خچر پر سوار ملاحظہ فرمایا اور ایسا محسوس ہوا کہ خود نبی ﷺ بھی آگے بڑھ کر قتال میں شریک ہونا چاہتے ہیں تو فرمایا اب گھمسان کا رن پڑا ہے، پھر نبی ﷺ نے چند کنکریاں اٹھائیں اور کفار کے چہروں پر انہیں پھینکتے ہوئے فرمایا رب کعبہ کی قسم ! انہیں شکست ہوگئی، رب کعبہ کی قسم ! انہیں شکست ہوگئی۔ میں جائزہ لینے کے لئے آگے بڑھا تو میرا خیال یہ تھا کہ لڑائی تو ابھی اسی طرح جاری ہے، لیکن بخدا ! جیسے ہی نبی ﷺ نے ان پر کنکریاں پھینکیں تو مجھے محسوس ہوا کہ ان کی تیزی سستی میں تبدیل ہو رہی ہے اور ان کا معاملہ پشت پھیر کر بھاگنے کے قریب ہے چناچہ ایسا ہی ہوا اور اللہ نے انہیں شکست سے دو چار کردیا اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا میں اب بھی نبی ﷺ کو اپنے خچر پر سوار ان کی طرف ایڑ لگا کر جاتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔

【10】

حضرت عباس (رض) کی مرویات

حضرت عباس (رض) سے مروی ہے کہ وہ اور حضرت ابو سفیان (رض) نبی ﷺ کے ہمراہ تھے، نبی ﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا اور فرمایا کہ اب گھمسان کا رن پڑا ہے اور فرمایا یہ آواز لگاؤ یا اصحاب سورت البقرۃ۔

【11】

حضرت عباس (رض) کی مرویات

عبدالمطلب بن ربیعہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عباس (رض) بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم لوگ باہر نکلتے ہیں اور دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ قریش کے لوگ آپس میں باتیں کر رہے ہیں لیکن ہمیں دیکھ کر وہ خاموش ہوجاتے ہیں، اس پر نبی ﷺ کو غصہ آیا اور دونوں آنکھوں کے درمیان موجود رگ پھول گئی، پھر فرمایا اللہ کی قسم ! کسی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہوسکتا جب تک وہ اللہ کی رضا کے لئے اور میری قرابت کی وجہ سے تم سے محبت نہ کرنے لگے۔

【12】

حضرت عباس (رض) کی مرویات

حضرت عباس (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس شخص نے ایمان کا مزہ چکھ لیا جو اللہ کو رب مان کر، اسلام کو دین مان کر اور محمد ﷺ کو پیغمبر مان کر راضی اور مطمئن ہوگیا۔

【13】

حضرت عباس (رض) کی مرویات

حضرت عباس (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس شخص نے ایمان کا مزہ چکھ لیا جو اللہ کو رب مان کر، اسلام کو دین مان کر اور محمد ﷺ کو پیغمبر مان کر راضی اور مطمئن ہوگیا

【14】

حضرت عباس (رض) کی مرویات

حضرت عباس (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب انسان سجدہ کرتا ہے تو اس کے ساتھ سات ہڈیاں سجدہ کرتی ہیں، چہرہ، دونوں ہاتھ، دونوں پاؤں اور دونوں گھٹنے۔

【15】

حضرت عباس (رض) کی مرویات

مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) نے مجھے پیغام بھیج کر بلوایا، ابھی ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت عمر (رض) کا غلام جس کا نام یرفا تھا اندر آیا اور کہنے لگا کہ حضرت عثمان، عبدالرحمن، سعد اور حضرت زبیر بن العوام (رض) اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں ؟ فرمایا انہیں بھی بلا لو۔ حضرت عباس (رض) نے اندر داخل ہوتے ہی فرمایا امیرالمومنین ! میرے اور اس کے درمیان فیصلہ کر دیجئے، اس وقت ان کا جھگڑا بنو نضیر سے حاصل ہونے والے مال فئی کے بارے میں تھا، لوگوں نے بھی کہا کہ امیرالمومنین ! ان کے درمیان فیصلہ کر دیجئے اور ہر ایک کو دوسرے سے راحت عطاء فرمائیے، حضرت عمر (رض) نے فرمایا میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین آسمان قائم ہیں، کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے ؟ لوگوں نے اثبات میں جواب دیا، پھر انہوں نے حضرت عباس و علی (رض) سے بھی یہی سوال پوچھا اور انہوں نے بھی تائید کی، اس کے بعد انہوں نے فرمایا کہ میں تمہیں اس کی حقیقت سے آگاہ کرتا ہوں۔ اللہ نے یہ مال فئی خصوصیت کے ساتھ صرف نبی ﷺ کو دیا تھا، کسی کو اس میں سے کچھ نہیں دیا تھا اور فرمایا " وما افاء اللہ علی رسولہ منہم فما اوجفتم علیہ من خیل ولا رکاب " اس لئے یہ مال نبی ﷺ کے لئے خاص تھا، لیکن بخدا ! انہوں نے تمہیں چھوڑ کر اپنے لئے محفوظ نہیں کیا اور نہ ہی اس مال کو تم پر ترجیح دی، انہوں نے یہ مال بھی تمہارے درمیان تقسیم کردیا یہاں تک کہ یہ تھوڑا سا بچ گیا جس میں سے وہ اپنے اہل خانہ کو سال بھر کا نفقہ دیا کرتے تھے اور اس مال میں سے بھی اگر کچھ بچ جاتا تو اسے اللہ کے راستہ میں تقسیم کردیتے، جب نبی ﷺ کا وصال ہوگیا تو حضرت صدیق اکبر (رض) نے فرمایا کہ نبی ﷺ کے بعد ان کے مال کا ذمہ دار اور سرپرست میں ہوں، چناچہ انہوں نے اس میں وہی طریقہ اختیار کیا جس پر نبی ﷺ چلتے رہے۔

【16】

حضرت عباس (رض) کی مرویات

مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) نے مجھے پیغام بھیج کر بلوایا، ابھی ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت عمر (رض) کا غلام جس کا نام یرفا تھا اندر آیا اور کہنے لگا کہ حضرت عثمان، عبدالرحمن، سعد اور حضرت زبیر بن العوام (رض) اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں ؟ فرمایا انہیں بھی بلا لو۔ حضرت عباس (رض) نے اندر داخل ہوتے ہی فرمایا امیرالمومنین ! میرے اور اس کے درمیان فیصلہ کر دیجئے، اس وقت ان کا جھگڑا بنو نضیر سے حاصل ہونے والے مال فئی کے بارے میں تھا، لوگوں نے بھی کہا کہ امیرالمومنین ! ان کے درمیان فیصلہ کر دیجئے اور ہر ایک کو دوسرے سے راحت عطاء فرمائیے، کیونکہ اب ان کا جھگڑا بڑھتا ہی جارہا ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین آسمان قائم ہیں، کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے ؟ لوگوں نے اثبات میں جواب دیا، پھر انہوں نے حضرت عباس و علی (رض) سے بھی یہی سوال پوچھا اور انہوں نے بھی تائید کی، اس کے بعد انہوں نے فرمایا کہ میں تمہیں اس کی حقیقت سے آگاہ کرتا ہوں۔ اللہ نے یہ مال فئی خصوصیت کے ساتھ صرف نبی ﷺ کو دیا تھا، کسی کو اس میں سے کچھ نہیں دیا تھا اور فرمایا " وماافاء اللہ علی رسولہ منہم فما اوجفتم علیہ من خیل ولارکاب " اس لئے یہ مال نبی ﷺ کے لئے خاص تھا، لیکن بخدا ! انہوں نے تمہیں چھوڑ کر اپنے لئے محفوظ نہیں کیا اور نہ ہی اس مال کو تم پر ترجیح دی، انہوں نے یہ مال بھی تمہارے درمیان تقسیم کردیا یہاں تک کہ یہ تھوڑا سا بچ گیا جس میں سے وہ اپنے اہل خانہ کو سال بھر کا نفقہ دیا کرتے تھے اور اس مال میں سے بھی اگر کچھ بچ جاتا تو اسے اللہ کے راستہ میں تقسیم کردیتے اور وہ اپنی زندگی میں اسی طریقے پر عمل کرتے رہے، میں تم سے اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا تم بھی یہ بات جانتے ہو ؟ لوگوں نے کہا جی ہاں ! پھر انہوں نے حضرت عباس (رض) اور علی (رض) سے بھی یہی سوال پوچھا اور انہوں نے بھی یہی جواب دیا، جب نبی ﷺ کا وصال ہوگیا تو حضرت صدیق اکبر (رض) نے فرمایا کہ نبی ﷺ کے بعد ان کے مال کا ذمہ دار اور سرپرست میں ہوں، چناچہ انہوں نے اس میں وہی طریقہ اختیار کیا جس پر نبی ﷺ چلتے رہے اور اب تم (انہوں نے حضرت عباس (رض) اور علی (رض) کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا) یہ سمجھتے ہو کہ ابوبکر ایسے تھے، حالانکہ اللہ جانتا ہے کہ وہ اس معاملے میں سچے، نیکو کار، راہ راست پر اور حق کی تابعداری کرنے والے تھے۔

【17】

حضرت عباس (رض) کی مرویات

ایک مرتبہ حضرت عباس (رض) نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے یا رسول اللہ ! مجھے کوئی دعاء سکھا دیجئے، نبی ﷺ نے فرمایا آپ اپنے رب سے دنیا و آخرت میں در گذر اور عافیت کی دعاء مانگتے رہا کریں، پھر حضرت عباس (رض) ایک سال بعد دوبارہ آئے، تب بھی نبی ﷺ نے انہیں یہی دعاء تلقین فرمائی۔

【18】

حضرت عباس (رض) کی مرویات

حضرت عباس (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، وہاں تمام ازواج مطہرات موجود تھیں، سوائے حضرت میمونہ (رض) کے ان سب نے مجھ سے پردہ کیا (کیونکہ میمونہ (رض) ان کی سالی تھیں) نبی ﷺ نے فرمایا میرے منہ میں زبردستی دوا ڈالنے کے موقع پر جو شخص بھی موجود تھا اس کے منہ میں بھی زبردستی دوا ڈالی جائے لیکن میری اس قسم کا تعلق حضرت عباس (رض) کے ساتھ نہیں ہے۔ پھر فرمایا کہ ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں، حضرت عائشہ (رض) نے حضرت حفصہ (رض) سے کہا کہ نبی ﷺ سے عرض کرو کہ ابو بکرجب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو وہ رونے لگیں گے (اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکیں گے) نبی ﷺ نے پھر فرمایا کہ ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، چناچہ انہوں نے کھڑے ہو کر نماز پڑھائی، ادھر نبی ﷺ کو بھی اپنے مرض میں کچھ تخفیف محسوس ہوئی اور نبی ﷺ بھی نماز کے لئے آگئے، اس پر حضرت صدیق اکبر (رض) نے الٹے پاؤں پیچھے ہونا چاہا لیکن نبی ﷺ ان کے پہلو میں آکر بیٹھ گئے اور قرأت فرمائی۔

【19】

حضرت عباس (رض) کی مرویات

حضرت عباس (رض) سے مروی ہے کہ اپنے مرض الوفات میں نبی ﷺ نے فرمایا کہ ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں، چناچہ انہوں نے کھڑے ہو کر نماز پڑھائی، ادھر نبی ﷺ کو بھی اپنے مرض میں کچھ تخفیف محسوس ہوئی اور نبی ﷺ بھی دو آدمیوں کے سہارے نماز کے لئے آگئے، اس پر حضرت صدیق اکبر (رض) نے الٹے پاؤں پیچھے ہونا چاہا لیکن نبی ﷺ نے انہیں اشارہ سے فرمایا کہ اپنی جگہ پر ہی رہو، پھر نبی ﷺ ان کے پہلو میں آکر بیٹھ گئے اور اسی جگہ سے قرأت فرمائی جہاں تک حضرت ابوبکر (رض) پہنچے تھے۔

【20】

حضرت عباس (رض) کی مرویات

حضرت عباس (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رات کے وقت میں نبی ﷺ کے ساتھ تھا، نبی ﷺ نے فرمایا دیکھئے، آسمان میں آپ کو کوئی ستارہ نظر آتا ہے ؟ میں نے کہا جی ہاں ! فرمایا کون سا ستارہ نظر آتا ہے ؟ میں نے عرض کیا ثریا، فرمایا تمہاری نسل میں سے اس ثریا ستارے کی تعداد کے برابر لوگ اس امت کے حکمران ہوں گے جن میں سے دو آزمائش کا شکار ہوں گے۔

【21】

حضرت عباس (رض) کی مرویات

عفیف کندی کہتے ہیں کہ میں ایک تاجر آدمی تھا، ایک مرتبہ میں حج کے لئے آیا، میں حضرت عباس (رض) کے پاس جو خود بھی تاجر تھے کچھ مال تجارت خریدنے کے لئے آیا، میں ان کے پاس اس وقت منیٰ میں تھا کہ اچانک قریب کے خیمے سے ایک آدمی نکلا، اس نے سورج کو جب ڈھلتے ہوئے دیکھا تو نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہوگیا، پھر ایک عورت اسی خیمے سے نکلی جس سے وہ مرد نکلا تھا، اس عورت نے اس مرد کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھنا شروع کردی، پھر ایک لڑکا جو قریب البلوغ تھا وہ بھی اسی خیمے سے نکلا اور اس مرد کے ساتھ کھڑا ہو کر نماز پڑھنے لگا۔ میں نے عباس (رض) سے پوچھا کہ عباس ! یہ کون ہے ؟ انہوں نے کہا یہ میرے بھتیجے محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہیں، میں نے پوچھا یہ عورت کون ہے ؟ انہوں نے کہا کہ یہ ان کی بیوی خدیجہ بنت خویلد ہیں، میں نے پوچھا یہ نوجوان کون ہے ؟ انہوں نے کہا کہ یہ ان کے چچا کے بیٹے علی بن ابی طالب ہیں، میں نے پوچھا یہ کیا کر رہے ہیں ؟ انہوں نے کہا یہ نماز پڑھ رہے ہیں، ان کا خیال یہ ہے کہ یہ اللہ کے نبی ہیں لیکن ابھی تک ان کی پیروی صرف ان کی بیوی اور اس نوجوان نے ہی شروع کی ہے اور ان کا خیال یہ بھی ہے کہ عنقریب قیصر و کسری کے خزانوں کو ان کے لئے کھول دیا جائے گا۔ عفیف جنہوں نے بعد میں اسلام قبول کرلیا تھا کہتے ہیں کہ اگر اللہ مجھے اسی دن اسلام قبول کرنے کی توفیق دے دیتا تو میں تیسرا مسلمان ہوتا۔

【22】

حضرت عباس (رض) کی مرویات

حضرت عباس (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ کو لوگوں کی طرف سے کچھ باتیں معلوم ہوئیں، آپ ﷺ منبر پر رونق افروز ہوئے اور لوگوں سے مخاطب ہو کر پوچھا میں کون ہوں ؟ لوگوں نے کہا کہ آپ اللہ کے پیغمبر ہیں، نبی ﷺ نے فرمایا میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں، اللہ نے مخلوقات کو پیدا کیا اور مجھے ان میں سب سے بہتر مخلوق میں رکھا، پھر اللہ نے انہیں دو گروہوں میں تقسیم کردیا اور مجھے بہترین گروہ میں رکھا، پھر اللہ نے قبائل کو پیدا کیا اور مجھے بہترین قبیلہ میں رکھا، پھر اللہ نے رہائشیں مقرر کیں اور مجھے سب سے بہترین رہائش میں رکھا، اس لئے میں رہائش کے اعتبار سے بھی تم سب سے بہتر ہوں اور اپنی ذات کے اعتبار سے بھی تم سب سے بہتر ہوں۔

【23】

حضرت عباس (رض) کی مرویات

ایک مرتبہ حضرت عباس (رض) نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ کے چچا خواجہ ابو طالب آپ کا بہت دفاع کیا کرتے تھے، آپ کی وجہ سے انہیں کیا فائدہ ہوا ؟ فرمایا وہ جہنم کے اوپر والے حصے میں ہیں، اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوتے۔

【24】

حضرت عباس (رض) کی مرویات

عبیداللہ بن عباس (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عباس (رض) کا ایک پرنالہ تھا جو حضرت عمر (رض) کے راستے میں آتا تھا، ایک مرتبہ حضرت عمر (رض) نے جمعہ کے دن نئے کپڑے پہنے، اسی دن حضرت عباس (رض) کے یہاں دو چوزے ذبح ہوئے تھے، جب حضرت عمر (رض) اس پرنالے کے قریب پہنچے تو اس میں چوزوں کا خون ملا پانی بہنے لگا، وہ پانی حضرت عمر (رض) پر گرا اور اس میں چوزوں کا خون بھی تھا، حضرت عمر (رض) نے اس پرنالے کو وہاں سے ہٹا دینے کا حکم دیا اور گھر واپس جاکر وہ کپڑے اتار کر دوسرے کپڑے پہنے اور آکر لوگوں کو نماز پڑھائی۔ نماز کے بعد ان کے پاس حضرت عباس (رض) آئے اور کہنے لگے کہ بخدا ! اس جگہ اس پرنالے کو نبی ﷺ نے لگایا تھا، حضرت عمر (رض) نے یہ سن کر فرمایا میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ آپ میری کمر پر کھڑے ہو کر اسے وہیں لگا دیجئے جہاں نبی ﷺ نے اسے لگایا تھا، چناچہ حضرت عباس (رض) نے وہ پرنالہ اسی طرح دوبارہ لگا دیا۔