286. حضرت ابوشریح خزاعی کی حدیثیں۔
حضرت ابوشریح خزاعی کی حدیثیں۔
حضرت ابوشریح خزاعی سے مروی ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے مہمان کا اکرام کرنا چاہیے اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہے اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اچھی بات کہنی چاہیے یا پھر خاموش رہنا چاہیے۔
حضرت ابوشریح خزاعی کی حدیثیں۔
حضرت ابوشریح سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا ضیافت تین دن تک ہوتی ہے اور جائزہ (پرتکلف دعوت) صرف ایک دن ایک رات تک ہوتی ہے اور کسی آدمی کے لئے جائز نہیں ہے کہ کسی شخص کے یہاں اتناعرصہ ٹھہرے کہ اسے گناہ گار کردے لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ گناہ گار کس طرح ہوگا فرمایا وہ اس کے یہاں ٹھہرے اور اس کے پاس مہمان نوازی کے لئے کچھ بھی نہ ہو۔
حضرت ابوشریح خزاعی کی حدیثیں۔
حضرت ابوشریح سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے تین مرتبہ قسم کھا کر یہ جملہ دہرایا کہ وہ شخص مومن نہیں ہوسکتا صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ کون شخص فرمایا جس کے پڑوسی اس کے بوائق سے محفوظ نہ ہوں صحابہ نے بوائق کا معنی پوچھا تو فرمایا شر۔
حضرت ابوشریح خزاعی کی حدیثیں۔
حضرت ابوشریح کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ عمرو بن سعید ایک لشکر مکہ مکرمہ کی طرف بھیج رہا تھا میں نے کہا اے امیر آپ سے رسول اللہ کی ایک حدیث بیان کرنے کی اجازت چاہتا ہوں جو آپ نے فتح مکہ کے دوسرے روز ارشاد فرمائی تھی اور میں نے اپنے کانوں سے اس کو سنا تھا اور دل سے یاد کیا تھا اور آنکھوں سے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے دیکھا ہے آپ نے اللہ کی حمدوثناء کرنے کے بعد فرمایا تھا کہ مکہ مکرمہ کو اللہ نے حرم بنایا ہے آدمیوں نے حرم نہیں لہذا جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس کو یہاں خون ریزی نہ کرنا چاہیے نہ یہاں کے درخت کاٹنا چاہے اگر کوئی شخص نبی ﷺ کے قتال کرنے سے یہاں کی خون ریزی کے جواز پر استدلال کرے تو اس سے کہہ دو کہ اللہ نے اپنے رسول کو خاص طور پر اجازت دی تھی اور وہ اجازت بھی دن میں صرف ایک ساعت کے لئے تھی اب دوبارہ اس کی حرمت ویسے ہی ہوگئی ہے جس طرح کل تھی یہ حکم حاضرین غائبین تک پہنچا دیں۔
حضرت ابوشریح خزاعی کی حدیثیں۔
حضرت ابوشریح سے مروی ہے کہ میں نے اپنے کانوں سے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اور آنکھوں سے دیکھا ہے کہ جو شخص اللہ پر آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے جو شخص اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس کو اپنے مہمان کا اکرام جائزہ سے کرنا چاہیے صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ جائزہ سے کیا مراد ہے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا ضیافت تین دن تک ہوتی ہے اور جائزہ (پرتکلف دعوت) صرف ایک دن ایک رات ہوتی ہے اس سے زیادہ جو ہوگا وہ اس پر صدقہ ہوگا اور جو شخص اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہوں اسے اچھی بات کہنی چاہیے یا پھر خاموش رہنا چاہیے اور کسی آدمی کے لئے جائز نہیں ہے کہ کسی شخص کے یہاں اتنا عرصہ ٹھہرے کہ اسے گناہ گار کردے۔
حضرت ابوشریح خزاعی کی حدیثیں۔
حضرت ابوشریح سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص کا خون بہا دیا جائے یا اسے زخمی کردیا جائے اسے تین میں سے کسی ایک بات کا اختیار ہے یا تو قصاص لے لے یادیت وصول کرلے یا پھر معاف کردے اگر وہ ان کے علاوہ کوئی چوتھی صورت اختیار کرنا چاہتا ہے تو اس کے ہاتھ پکڑ لو اگر وہ ان میں سے کسی ایک کو اختیار کرلیتا ہے پھر اس کے بعد سرکشی کرتے ہوئے قتل بھی کردیتا ہے تو اس کے لئے جہنم ہے جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔
حضرت ابوشریح خزاعی کی حدیثیں۔
حضرت ابوشریح سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے دن نبی ﷺ نے ہمیں بنوبکر سے قتال کرنے کی اجازت دیدی چناچہ ہم نے ان سے اپنا انتقام لیا اس وقت نبی ﷺ مکہ مکرمہ میں ہی تھے پھر آپ نے ہمیں تلوار اٹھالینے کا حکم دیا اگلے دن ہمارے ایک گروہ کو حرم شریف میں بنوہذیل کا ایک آدمی ملا جو نبی ﷺ کو سلام کرنے کے ارادے سے جارہا تھا اس نے زمانہ جاہلیت میں انہیں بہت نقصان پہنچایا تھا اور وہ اس کی تلاش میں تھے اس لئے انہوں نے قبل اس کے وہ نبی ﷺ کے پاس جاتا اور اپنے لئے پروانہ امن حاصل کرتا اسے قتل کردیا۔ نبی ﷺ کو اس واقعہ کے اطلاع ملی تو آپ انتہائی ناراض ہوئے واللہ میں نے نبی ﷺ کو اس سے زیادہ غصے کی حالت میں کبھی نہیں دیکھا ہم لوگ جلدی سے حضرت ابوبکر عمرو اور علی کے پاس گئے تاکہ ان سے سفارش کی درخواست کریں اور ہم اپنی ہلاکت کے خوف سے لرز رہے تھے۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد نبی ﷺ کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمدوثناء بیان کی جو اس کے شایان شان ہو بیان فرمائی امابعد کہہ کر فرمایا کہ مکہ مکرمہ کو اللہ نے ہی حرم قرار دیا ہے انسانوں نے نہیں میرے لئے بھی کل کے دن صرف کچھ دیر کے لئے اس میں قتال کو حلال کیا گیا تھا اور اب وہ اسی طرح قابل احترام ہے جیسے ابتداء میں اللہ نے اسے حرم قرار دیا تھا اور اللہ کے نزدیک تمام لوگوں میں سب سے زیادہ سرکش تین طرح کے لوگ ہیں۔ ١۔ حرم میں کسی کو قتل کرنے والا۔ ٢۔ اپنے قاتل کے علاوہ کسی اور کو قتل کرنے والا۔ ٣۔ زمانہ جاہلیت کے خون کا قصاص لینے والا۔ اور واللہ میں اس شخص کی دیت ضرور ادا کروں گا جسے تم نے قتل کیا ہے چناچہ نبی ﷺ نے اس کی دیت ادا کردی۔
حضرت ابوشریح خزاعی کی حدیثیں۔
ضرت ابوشریح سے مروی ہے کہ جب عمرو بن سعید نے حضرت عبداللہ بن زبیر سے مقابلے کے لئے مکہ کی طرف اپنالشکر روانہ کرنے کا ارادہ کیا تو وہ اس کے پاس گئے اور اس سے بات کی اور اسے نبی ﷺ کے فرمان کے متعلق بتایا پھر اپنی قوم کی مجلس میں آکر بیٹھ گئے میں بھی ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا انہوں نے نبی ﷺ کی حدیث اور پھر عمرو بن سعید کا جواب بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے اس سے کہا کہ اے فلاں۔ فتح مکہ کے موقع پر ہم لوگ نبی ﷺ کے ہمراہ تھے فتح مکہ کے اگلے دن بنوخزاعہ نے بنو ہذیل کے ایک آدمی پر حملہ کرکے اسے قتل کردیا وہ مقتول مشرک تھا نبی ﷺ ہمارے درمیان خطبہ دینے کے لے کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ لوگو اللہ نے جس دن زمین و آسمان کو پیدا فرمایا تھا اسی دن مکہ کو حرم قرار دیا تھا لہذا وہ قیامت تک حرم ہی رہے گا اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والے کسی آدمی کے لئے اس میں خون ریزی کرنا اور درخت کاٹنا جائز نہیں ہے یہ مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال تھا اور نہ میرے بعد کسی کے لئے حلال ہوگا اور میرے لئے بھی صرف اس مختصر وقت کے لئے حلال تھا جس کی وجہ سے یہاں کے لوگوں پر اللہ کا غضب تھا یاد رکھو کہ اب اس کی حرمت لوٹ کر کل کی طرح ہوچکی ہے یادر کھوتم میں سے جو لوگ موجود ہیں وہ غائبین تک پہنچادیں اور جو شخص تم سے یہ کہے کہ نبی ﷺ نے بھی تو مکہ میں قتال کیا تھا تو کہہ دینا کہ اللہ نے نبی ﷺ کے لئے اسے حلال کیا تھا تمہارے لئے نہیں کیا اے گروہ خزاعہ اب قتل سے اپنے ہاتھ اٹھالو کہ بہت ہوچکا ہے اس سے پہلے تم نے جس شخص کو قتل کیا ہے میں اس کی دیت دے دوں گا لیکن اس جگہ پر میرے کھڑے ہونے کے بعد جو شخص کسی کو قتل کرے گا تو مقتول کے ورثا کو دو میں سے ایک بات کا اختیار ہوگا۔ یاتوقاتل سے قصاص لے لیں یا پھر دیت لے لیں اس کے بعد نبی ﷺ نے اس آدمی کی دیت ادا کردی جسے بنوخزاعہ نے قتل کردیا تھا۔ یہ حدیث سن کر عمرو بن سعید نے حضرت ابوشریح سے کہا بڑے میاں آپ واپس چلے جائیں ہم اس کی حرمت آپ سے زیادہ جانتے ہیں یہ حرمت کسی خون ریزی کرنے والے اطاعت چھوڑنے والے اور جزیہ روکنے والے کی حفاظت نہیں کرسکتی میں نے اس سے کہا کہ میں اس موقع پر موجود تھا تم غائب تھے اور ہمیں نبی ﷺ نے غائبین تک اسے پہنچانے کا حکم دیا تھا سو میں نے یہ حکم پہنچادیا اب تم جانو اور تمہارا کام جانے۔
حضرت ابوشریح خزاعی کی حدیثیں۔
حضرت ابوشریح سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا اللہ کے نزدیک تمام لوگوں میں سب سے زیادہ سرکش تین طرح کے لوگ ہیں۔ ١۔ حرم میں کسی کو قتل کرنے والا۔ ٢۔ اپنے قاتل کے علاوہ کسی اور کو قتل کرنے والا۔ ٣۔ زمانہ جاہلیت کے خون کا قصاص لینے والا۔ اور واللہ میں اس شخص کی دیت ضرور ادا کروں گا جسے تم نے قتل کیا ہے چناچہ نبی ﷺ نے اس کی دیت ادا کردی۔