3. حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت عثمان غنی (رض) سے عرض کیا کہ آپ لوگوں نے سورت انفال کو جو مثانی میں سے ہے سورت برائۃ کے ساتھ جو کہ مئین میں سے ہے ملانے پر کس چیز کی وجہ سے اپنے آپ کو مجبور پایا اور آپ نے ان کے درمیان ایک سطر کی بسم اللہ تک نہیں لکھی اور ان دونوں کو سبع طوال میں شمار کرلیا آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ حضرت عثمان غنی (رض) نے فرمایا کہ نبی ﷺ پر جب وحی کا نزول ہو رہا تھا تو بعض اوقات کئی کئی سورتیں اکٹھی نازل ہوجاتی تھیں اور نبی ﷺ کی عادت تھی کہ جب کوئی وحی نازل ہوتی تو آپ ﷺ اپنے کسی کاتب وحی کو بلا کر اسے لکھواتے اور فرماتے کہ اسے فلاں سورت میں فلاں جگہ رکھو، بعض اوقات کئی آیتیں نازل ہوتیں، اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ بتا دیتے کہ ان آیات کو اس سورت میں رکھو اور بعض اوقات ایک ہی آیت نازل ہوتی لیکن اس کی جگہ بھی آپ ﷺ بتادیا کرتے تھے۔ سورت انفال مدینہ منورہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی تھی، جبکہ سورت برائۃ نزول کے اعتبار سے قرآن کریم کا آخری حصہ ہے اور دونوں کے واقعات و احکام ایک دوسرے سے حد درجہ مشابہت رکھتے تھے، ادھر نبی ﷺ دنیا سے رخصت ہوگئے اور ہم پر یہ واضح نہ فرما سکے کہ یہ اس کا حصہ ہے یا نہیں ؟ میرا گمان یہ ہوا کہ سورت برائۃ، سورت انفال ہی کا جزو ہے اس لئے میں نے ان دونوں کو ملادیا اور ان دونوں کے درمیان، بسم اللہ والی سطر بھی نہیں لکھی اور اسے سبع طوال میں شمار کرلیا۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حمران کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عثمان غنی (رض) نے پتھر کی چوکی پر بیٹھ کر وضو فرمایا اس کے بعد فرمایا کہ میں تم سے نبی ﷺ کی زبانی سنی ہوئی ایک حدیث بیان کرتا ہوں، اگر کتاب اللہ میں ایک آیت (جو کتمان علم کی مذمت پر مشتمل ہے) نہ ہوتی تو میں تم سے یہ حدیث کبھی بیان نہ کرتا، کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص وضو کرے اور خوب اچھی طرح کرے، پھر مسجد میں داخل ہو کر نماز پڑھے، تو اگلی نماز پڑھنے تک اس کے سارے گناہ معاف ہوجائیں گے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ محرم خود نکاح کرے اور نہ کسی کا نکاح کروائے، بلکہ پیغام نکاح بھی نہ بھیجے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
سعید بن مسیب (رح) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عثمان غنی (رض) حج کے ارادے سے نکلے، جب راستے کا کچھ حصہ طے کرچکے تو کسی نے حضرت علی (رض) سے جا کر کہا کہ حضرت عثمان (رض) نے حج تمتع سے منع کیا ہے، یہ سن کر حضرت علی (رض) نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا جب وہ روانہ ہوں تو تم بھی کوچ کرو، چناچہ حضرت علی (رض) اور ان کے ساتھیوں نے عمرہ کا احرام باندھا، حضرت عثمان غنی (رض) کو پتہ چلا تو انہوں نے حضرت علی (رض) سے اس سلسلے میں کوئی بات نہ کی، بلکہ حضرت علی (رض) نے خود ہی ان سے پوچھا کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ حج تمتع سے روکتے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا ہاں ! حضرت علی (رض) نے پوچھا کہ کیا آپ نے نبی ﷺ کے حج تمتع کرنے کے بارے میں نہیں سنا ؟ انہوں نے فرمایا کیوں نہیں۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے اپنے اعضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھویا۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
ابو انس (رح) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عثمان غنی (رض) نے اپنے اعضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھویا، اس وقت ان کے پاس چند صحابہ کرام (رض) بھی موجود تھے، حضرت عثمان غنی (رض) نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ کو اسی طرح وضو کرتے ہوئے نہیں دیکھا ؟ انہوں نے کہا جی ہاں ! اسی طرح دیکھا ہے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سب سے افضل اور بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص حکم الٰہی کے مطابق اچھی طرح مکمل وضو کرے تو فرض نمازیں درمیانی اوقات کے گناہوں کا کفارہ بن جائیں گی۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
ابو سہلہ کہتے ہیں کہ جس دن حضرت عثمان غنی (رض) کا محاصرہ ہوا اور وہ " یوم الدار " کے نام سے مشہور ہوا، انہوں نے فرمایا کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے ایک عہد لیا تھا، میں اس پر ثابت قدم اور قائم ہوں۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص نماز عشاء اور نماز فجر جماعت کے ساتھ پڑھ لے تو یہ ایسے ہے جیسے ساری رات قیام کرنا اور ایک روایت میں اس طرح ہے کہ جو شخص عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھ لے تو یہ ایسے ہے جیسے نصف رات قیام کرنا اور جو شخص فجر کی نماز بھی جماعت کے ساتھ پڑھ لے تو یہ ساری رات قیام کرنے کی طرح ہے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص نماز عشاء اور نماز فجر جماعت کے ساتھ پڑھ لے تو یہ ایسے ہے جیسے ساری رات قیام کرنا اور ایک روایت میں اس طرح ہے کہ جو شخص عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھ لے تو یہ ایسے ہے جیسے نصف رات قیام کرنا اور جو شخص فجر کی نماز بھی جماعت کے ساتھ پڑھ لے تو یہ ساری رات قیام کرنے کی طرح ہے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
عطاء بن فروخ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عثمان غنی (رض) نے ایک شخص سے کوئی زمین خریدی، لیکن جب اس کی طرف سے تاخیر ہوئی تو انہوں نے اس سے ملاقات کی اور اس سے فرمایا کہ تم اپنی رقم پر قبضہ کیوں نہیں کرتے ؟ اس نے کہا کہ آپ نے مجھے دھوکہ دیا، میں جس آدمی سے بھی ملتا ہوں وہ مجھے ملامت کرتا ہے، انہوں نے فرمایا کہ کیا تم صرف اس وجہ سے رکے ہوئے ہو ؟ اس نے اثبات میں جواب دیا، فرمایا پھر اپنی زمین اور پیسوں میں سے کسی ایک کو ترجیح دے لو (اگر تم اپنی زمین واپس لینا چاہتے ہو تو وہ لے لو اور اگر پیسے لینا چاہتے ہو تو وہ لے لو) کیونکہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے اللہ تعالیٰ اس شخص کو جنت میں ضرور داخل کرے گا جو نرم خو ہو خواہ خریدار ہو یا دکاندار، ادا کرنے والا ہو یا تقاضا کرنے والا۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
علقمہ (رح) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے ساتھ تھا جو حضرت عثمان (رض) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، حضرت عثمان (رض) نے ان سے پوچھا کہ عورتوں کے لئے آپ کے پاس کیا باقی بچا ؟ عورتوں کا تذکرہ ہوا تو حضرت ابن مسعود (رض) نے مجھے قریب ہونے کے لئے کہا کہ میں اس وقت نوجوان تھا، پھر خود حضرت عثمان غنی (رض) ہی فرمانے لگے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ مہاجرین کے نوجوانوں کی ایک جماعت کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ تم میں سے جس کے پاس استطاعت ہو اسے شادی کر لینی چاہیے کیونکہ اس سے نگاہیں جھک جاتی ہیں اور شرمگاہ کی بھی حفاظت ہوجاتی ہے اور جو ایسا نہ کرسکے، وہ روزے رکھے کیونکہ یہ شہوت کو توڑ دیتے ہیں۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تم میں سب سے بہترین وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے، راوی حدیث ابو عبدالرحمن سلمی کہتے ہیں کہ اسی حدیث نے مجھے یہاں (قرآن پڑھانے کے لئے) بٹھا رکھا ہے۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی روایت کی گئی ہے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا جو آدمی بائع (بچنے والا) اور مشتری (خریدنے والا اور بیچنے والا) ہونے میں یا ادا کرنے والا اور تقاضا کرنے والا ہونے کی صورت میں نرم خو ہو، وہ جنت میں داخل ہوگا۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حمران کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عثمان غنی (رض) نے وضو کے لئے پانی منگوایا، چناچہ کلی کی، ناک میں پانی ڈالا اور تین مرتبہ چہرہ دھویا اور دونوں بازوؤں کو تین تین مرتبہ دھویا، سر کا مسح کیا اور دونوں پاؤں کے اوپر والے حصے پر بھی مسح فرمایا اور ہنس پڑے، پھر اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ تم مجھ سے ہنسنے کی وجہ کیوں نہیں پوچھتے ؟ لوگوں نے کہا امیرالمومنین ! آپ ہی بتائیے کہ آپ کیوں ہنسے ؟ فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے بھی اسی طرح پانی منگوایا اور اس جگہ کے قریب بیٹھ کر اسی طرح وضو کیا جیسے میں نے کیا، پھر نبی ﷺ بھی ہنس پڑے اور اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ تم مجھ سے ہنسنے کی وجہ کیوں نہیں پوچھتے ؟ صحابہ کرام (رض) نے پوچھا یا رسول اللہ ! آپ کو کس چیز نے ہنسایا ؟ فرمایا انسان جب وضو کا پانی منگوائے اور چہرہ دھوئے تو اللہ اس کے وہ تمام گناہ معاف فرما دیتا ہے جو چہرے سے ہوتے ہیں، جب بازو دھوتا ہے تب بھی ایسا ہی ہوتا ہے، جب سر کا مسح کرتا ہے تب بھی ایسا ہی ہوتا ہے اور جب پاؤں کو پاک کرتا ہے تب بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
رباح کہتے ہیں کہ میرے آقا نے اپنی ایک رومی باندی سے میری شادی کردی، میں اسے کے پاس گیا تو اس سے مجھ جیسا ہی ایک کالا کلوٹا لڑکا پیدا ہوگیا، میں نے اس کا نام عبداللہ رکھ دیا، دوبارہ ایسا موقع آیا تو پھر ایک کالا کلوٹا لڑکا پیدا ہوگیا، میں نے اس کا نام عبیداللہ رکھ دیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ میری بیوی پر میرے آقا کا ایک رومی غلام عاشق ہوگیا جس کا نام یوحنس تھا، اس نے اسے اپنی زبان میں رام کرلیا، چناچہ اس مرتبہ جو بچہ پیدا ہوا وہ رومیوں کے رنگ کے مشابہ تھا، میں نے اپنی بیوی سے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ اس نے کہا کہ یہ یوحنس کا بچہ ہے، ہم نے یہ معاملہ حضرت عثمان غنی (رض) کی خدمت میں پیش کیا انہوں نے فرمایا کہ کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ تمہارے درمیان وہی فیصلہ کروں جو نبی ﷺ نے فرمایا تھا ؟ نبی ﷺ کا فیصلہ یہ ہے کہ بچہ بستر والے کا ہوگا اور زانی کے لئے پتھر ہیں۔ گذشتہ حدیث ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے جو عبارت میں گذری۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حمران کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عثمان غنی (رض) بنچ پر بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے پانی منگوایا، سب سے پہلے اسے بائیں ہاتھ پر ڈالا، پھر برتن میں ہاتھ ڈال کر دونوں ہاتھوں کو تین مرتبہ دھویا، پھر تین مرتبہ چہرہ دھویا، کلی بھی کی اور ناک میں پانی بھی ڈالا، تین مرتبہ کہنیوں سمیت بازؤوں کو بھی دھویا، پھر سر کا مسح کر کے تین مرتبہ ٹخنوں سمیت پاؤں دھو لئے اور فرمایا کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص میری طرح ایسا ہی وضو کرے اور دو رکعت نماز اس طرح پڑھے کہ اپنے دل میں خیالات اور وساوس نہ لائے تو اللہ تعالیٰ اس کے گذشتہ تمام گناہ معاف فرما دے گا۔ گذشتہ حدیث ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
ابوسلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ جن دنوں حضرت عثمان غنی (رض) محصور تھے، ایک مرتبہ انہوں نے اپنے گھر کے بالاخانے سے جھانک کر فرمایا کہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر رہنے والوں کو اللہ کا واسطہ دے کر " یوم حراء " کے حوالے سے پوچھتا ہوں کہ جب جبل حراء ہلنے لگا اور نبی ﷺ نے اس پر اپنا پاؤں مار کر فرمایا اے جبل حراء ! ٹھہرجا، کہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور ایک شہید کے کوئی نہیں ہے، اس موقع پر میں موجود تھا ؟ اس پر کئی لوگوں نے ان کی تائید کی۔ پھر انہوں نے فرمایا کہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر رہنے والوں کو اللہ کا واسطہ دے کر " بیعت رضوان " کے حوالے سے پوچھتا ہوں کہ جب نبی ﷺ نے مجھے مشرکین مکہ کی طرف بھیجا تھا اور اپنے ہاتھ کو میرا ہاتھ قرار دے کر میری طرف سے میرے خون کا انتقام لینے پر بیعت کی تھی ؟ اس پر کئی لوگوں نے پھر ان کی تائید کی۔ پھر حضرت عثمان غنی (رض) نے فرمایا کہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر رہنے والوں کو اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ جب نبی ﷺ نے یہ فرمایا تھا جنت میں مکان کے عوض ہماری اس مسجد کو کون وسیع کرے گا ؟ تو میں نے اپنے مال سے جگہ خرید کر اس مسجد کو وسیع نہیں کیا تھا ؟ اس پر بھی لوگوں نے ان کی تائید کی۔ پھر انہوں نے فرمایا کہ میں نبی ﷺ کے صحابہ (رض) کو اللہ کا واسطہ دے کر " جیش عسرۃ " (جو غزوہ تبوک کا دوسرا نام ہے) کے حوالے سے پوچھتا ہوں جب کہ نبی ﷺ نے فرمایا تھا آج کون خرچ کرے گا ؟ اس کا دیا ہوا مقبول ہوگا، کیا میں نے اپنے مال سے نصف لشکر کو سامان مہیا نہیں کیا تھا ؟ اس پر بھی لوگوں نے ان کی تائید کی۔ پھر انہوں نے فرمایا کہ میں نبی ﷺ کے صحابہ (رض) کو اللہ کا واسطہ دے کر " بیر رومہ " کے حوالے سے پوچھتا ہوں جن کا پانی مسافر تک کو بیچا جاتا تھا، میں نے اپنے مال سے خرید کر مسافروں کے لئے بھی وقف کردیا، کیا ایسا ہے یا نہیں ؟ لوگوں نے اس پر بھی ان کی تائید کی۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حمران کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت عثمان غنی (رض) کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، انہوں نے سب سے پہلے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈالا، پھر دونوں ہاتھوں کو تین مرتبہ دھویا، پھر تین مرتبہ چہرہ دھویا، کلی بھی کی اور ناک میں پانی بھی ڈالا، تین مرتبہ کہنیوں سمیت بازؤوں کو بھی دھویا، پھر سر کا مسح کر کے تین تین مرتبہ ٹخنوں سمیت پاؤں دھو لئے اور فرمایا کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے جس کے بعد نبی ﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ جو شخص میری طرح ایسا ہی وضو کرے اور دو رکعت نماز اس طرح پڑھے کہ اپنے دل میں خیالات اور وساوس نہ لائے تو اللہ تعالیٰ اس کے گذشتہ تمام گناہ معاف فرمادے گا۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
نبیہ بن وہب کہتے ہیں کہ عمر بن عبیداللہ نے ایک مرتبہ حضرت ابان بن عثمان (رض) سے یہ مسئلہ دریافت کروایا کہ کیا محرم آنکھوں میں سرمہ لگا سکتا ہے ؟ انہوں نے جواب میں کہلا بھیجا کہ صبر کا سرمہ لگا سکتا ہے (صبر کرے جب تک احرام نہ کھل جائے، سرمہ نہ لگائے) کیونکہ میں نے حضرت عثمان غنی (رض) کو نبی ﷺ کے حوالے سے ایسی حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص اس بات کا یقین رکھتا ہو کہ نماز برحق اور واجب ہے، وہ جنت میں داخل ہوگا۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
سعید بن مسیب (رح) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عثمان غنی (رض) حج کے ارادے سے نکلے، جب راستے کا کچھ حصہ طے کرچکے تو کسی نے حضرت علی (رض) سے جا کر کہا کہ حضرت عثمان (رض) نے حج تمتع سے منع کیا ہے، یہ سن کر حضرت علی (رض) نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا جب وہ روانہ ہوں تو تم بھی کوچ کرو، چناچہ حضرت علی (رض) اور ان کے ساتھیوں نے عمرہ کا احرام باندھا، حضرت عثمان غنی (رض) کو پتہ چلا تو انہوں نے حضرت علی (رض) سے اس سلسلے میں کوئی بات نہ کی، بلکہ حضرت علی (رض) نے خود ہی ان سے پوچھا کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ حج تمتع سے روکتے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا ہاں ! حضرت علی (رض) نے پوچھا کہ کیا نبی ﷺ نے حج تمتع نہیں کیا تھا ؟ راوی کہتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں کہ حضرت عثمان (رض) نے انہیں کیا جواب دیا۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) نے مجھے پیغام بھیج کر بلوایا، ابھی ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت عمر (رض) کا غلام جس کا نام " یرفا " تھا اندر آیا اور کہنے لگا کہ حضرت عثمان، عبدالرحمن، سعد اور حضرت زبیر بن عوام (رض) اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں ؟ فرمایا بلا لو، تھوڑی دیر بعد وہ غلام پھر آیا اور کہنے لگا کہ حضرت عباس (رض) اور حضرت علی (رض) اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں ؟ فرمایا انہیں بھی بلا لو۔ حضرت عباس (رض) نے اندر داخل ہوتے ہی فرمایا امیرالمومنین ! میرے اور ان کے درمیان فیصلہ کر دیجئے، اس وقت ان کا جھگڑا بنو نضیر سے حاصل ہونے والے مال فئی کے بارے تھا، لوگوں نے بھی کہا کہ امیرالمومنین ! ان کے درمیان فیصلہ کر دیجئے اور ہر ایک کو دوسرے سے نجات عطاء فرمائیے کیونکہ اب ان کا جھگڑا بڑھتا ہی جارہا ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں، کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ کر جاتے ہیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے ؟ لوگوں نے اثبات میں جواب دیا، پھر انہوں نے حضرت عباس علی (رض) سے بھی یہی سوال پوچھا اور انہوں نے بھی تائید کی، اس کے بعد انہوں نے فرمایا کہ میں تمہیں اس کی حقیقت سے آگاہ کرتا ہوں۔ اللہ نے یہ مال فئی خصوصیت کے ساتھ صرف نبی ﷺ کو دیا تھا، کسی کو اس میں سے کچھ نہیں دیا تھا اور فرمایا تھا وماافاء اللہ علی رسول منہم فما اوجفتم علیہ من خیل ولارکاب اس لئے یہ نبی ﷺ کے لئے خاص تھا، لیکن بخدا ! انہوں نے تمہیں چھوڑ کر اسے اپنے لئے محفوظ نہیں کیا اور نہ ہی اس مال کو تم پر ترجیح دی انہوں نے یہ مال بھی تمہارے درمیان تقسیم کردیا یہاں تک کہ یہ تھوڑا سا بچ گیا جس میں سے وہ اپنے اہل خانہ کو سال بھر کا نفقہ دیا کرتے تھے اور اس میں سے بھی اگر کچھ بچ جاتا تو اسے کے راستہ میں تقسیم کردیتے، جب نبی ﷺ کا وصال ہوگیا تو حضرت صدیق اکبر (رض) نے فرمایا کہ نبی ﷺ کے بعد ان کے مال کا ذمہ دار اور سرپرست میں ہوں اور میں اس میں وہی طریقہ اختیار کروں گا جس پر نبی ﷺ چلتے رہے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
ابان بن عثمان (رح) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عثمان غنی (رض) کی نظر ایک جنازے پر پڑی تو کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ میں نے بھی اس موقع پر نبی ﷺ کو کھڑے ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
ابوعبید (رح) کہتے ہیں کہ عیدالفطر اور عیدالاضحی دونوں موقعوں پر مجھے حضرت عثمان غنی (رض) اور حضرت علی (رض) کے ساتھ شریک ہونے کا موقع ملا ہے، یہ دونوں حضرات پہلے نماز پڑھاتے تھے، پھر نماز سے فارغ ہو کر لوگوں کو نصیحت کرتے تھے، میں نے ان دونوں حضرات کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں دنوں کے روزے رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ حمران جو حضرت عثمان (رض) کے آزاد کردہ غلام ہیں سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عثمان غنی (رض) کو وضو کرتے ہوئے دیکھا کہ انہوں نے اپنے ہاتھوں پر تین مرتبہ پانی بہایا، تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالا، تین مرتبہ کلی کی اور مکمل حدیث ذکر کی جو پیچھے گذر چکی ہے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) نے ایک مرتبہ اپنے پاس موجود حضرات سے فرمایا کہ کیا میں آپ کو نبی ﷺ کی طرح وضو کر کے نہ دکھاؤں ؟ لوگوں نے کہا کیوں نہیں ! چناچہ انہوں نے پانی منگوایا، تین مرتبہ کلی بھی کی تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالا، تین مرتبہ چہرے کو دھویا، تین تین مرتبہ دونوں بازؤوں کو دھویا، سر کا مسح کیا اور پاؤں دھوئے، پھر فرمایا کہ جان لو کہ کان سر کا حصہ ہیں پھر فرمایا میں نے خوب احتیاط سے تمہارے سامنے نبی ﷺ کی طرح وضو پیش کیا ہے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حمران کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم حضرت عثمان (رض) کے پاس تھے، انہوں نے پانی منگوا کر وضو کیا اور فراغت کے بعد مسکرانے لگے اور فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو، میں کیوں ہنس رہا ہوں ؟ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے بھی اسی طرح وضو کیا تھا جیسے میں نے کیا اور آپ ﷺ بھی مسکرائے تھے اور دریافت فرمایا تھا کہ کیا تم جانتے ہو، میں کیوں ہنس رہا ہوں ؟ ہم نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، فرمایا جب بندہ وضو کرتا ہے اور کامل وضو کر کے نماز شروع کرتا ہے اور کامل نماز پڑھتا ہے تو نماز سے فارغ ہونے کے بعد وہ ایسے ہوجاتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے جنم لے کر آیا ہو۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
عبداللہ بن شقیق (رح) کہتے ہیں کہ حضرت عثمان غنی (رض) لوگوں کو حج تمتع سے روکتے تھے اور حضرت علی (رض) اس کے جواز کا فتوی دیتے تھے، ایک مرتبہ حضرت عثمان (رض) نے ان سے کچھ کہا ہوگا تو حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ آپ جانتے بھی ہیں کہ نبی ﷺ نے اس طرح کیا ہے پھر بھی اس سے روکتے ہیں ؟ حضرت عثمان (رض) نے فرمایا بات تو ٹھیک ہے، لیکن ہمیں اندیشہ ہے (کہ لوگ رات کو بیویوں کے قریب جائیں اور صبح کو غسل جنابت کے پانی سے گیلے ہوں اور حج کا احرام باندھ لیں ) ۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
عبداللہ بن شقیق (رح) کہتے ہیں کہ حضرت عثمان غنی (رض) لوگوں کو حج تمتع سے روکتے تھے اور حضرت علی (رض) اس کے جواز کا فتوی دیتے تھے، ایک مرتبہ حضرت عثمان (رض) نے ان سے کچھ کہا ہوگا تو حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ آپ جانتے بھی ہیں کہ نبی ﷺ نے اس طرح کیا ہے پھر بھی اس سے روکتے ہیں ؟ حضرت عثمان (رض) نے فرمایا بات تو ٹھیک ہے، لیکن ہمیں اندیشہ ہے (کہ لوگ رات کو بیویوں کے قریب جائیں اور صبح کو غسل جنابت کے پانی سے گیلے ہوں اور حج کا احرام باندھ لیں ) ۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
ایک مرتبہ حضرت عثمان غنی (رض) نے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا میں تم سے ایک حدیث بیان کرتا ہوں جو میں نے نبی ﷺ سے سنی ہے، ایسا نہیں کہ بخل کی وجہ سے میں اسے تمہارے سامنے بیان نہ کروں گا، میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ کے راستے میں ایک رات کی پہرہ داری کرنا ایک ہزار راتوں کے قیام لیل اور صیام نہار سے بڑھ کر افضل ہے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اللہ کی رضا کے لئے مسجد کی تعمیر میں حصہ لیتا ہے، اللہ اس کے لئے اسی طرح کا ایک گھر جنت میں تعمیر کردیتا ہے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
ابوعبید (رح) کہتے ہیں کہ عیدالفطر اور عیدالاضحی دونوں موقعوں پر مجھے حضرت عثمان غنی (رض) اور حضرت علی (رض) کے ساتھ شریک ہونے کا موقع ملا ہے، یہ دونوں حضرات پہلے نماز پڑھاتے تھے، پھر نماز سے فارغ ہو کر لوگوں کو نصیحت کرتے تھے، میں نے ان دونوں حضرات کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں دنوں کے روزے رکھنے سے منع فرمایا ہے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
اور میں نے حضرت علی (رض) کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا کہ نبی ﷺ نے قربانی کا گوشت تین دن کے بعد کھانے سے منع فرمایا ہے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
محمد بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں حضرت عثمان (رض) کے آزاد کردہ غلام ابن دارہ کے پاس آیا، ان کے کانوں میں میرے کلی کرنے کی آواز گئی تو میرا نام لے کر مجھے پکارا، میں نے لبیک کہا، انہوں نے کہا کہ کیا میں آپ کو نبی ﷺ کی طرح وضو کا طریقہ نہ بتاؤں ؟ میں نے حضرت عثمان (رض) کو بنچ پر بیٹھ کر وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے جس میں انہوں نے تین مرتبہ کلی کی، تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالا، تین مرتبہ چہرہ اور تین تین مرتبہ دونوں بازو دھوئے، سر کا مسح تین مرتبہ (اور اکثر روایات کے مطابق ایک مرتبہ) کیا اور پاؤں دھولیے، پھر فرمایا کہ جو شخص نبی ﷺ کا طریقہ وضو دیکھنا چاہتا ہے، وہ جان لے کہ نبی ﷺ اسی طرح وضو فرماتے تھے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت ابو امامہ بن سہل (رض) سے مروی ہے کہ جن دنوں حضرت عثمان غنی (رض) اپنے گھر میں محصور تھے، ہم ان کے ساتھ ہی تھے تھوڑی دیر کے لئے وہ کسی کمرے میں داخل ہوئے تو چوکی پر بیٹھنے والوں کو بھی ان کی بات سنائی دیتی تھی، اسی طرح ایک مرتبہ وہ اس کمرے میں داخل ہوئے، تھوڑی دیر بعد باہر تشریف لا کر فرمانے لگے کہ ان لوگوں نے مجھے ابھی ابھی قتل کی دھمکی دی ہے، ہم نے عرض کیا کہ امیرالمومنین ! اللہ ان کی طرف سے آپ کی کفایت و حفاظت فرمائے گا۔ حضرت عثمان غنی (رض) فرمانے لگے کہ بھلا کس جرم میں یہ لوگ مجھے قتل کریں گے ؟ جب کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تین میں سے کسی ایک صورت کے علاوہ کسی مسلمان کا خون بہانا حلال نہیں ہے، یا تو وہ آدمی جو اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہوجائے، یا شادی شدہ ہونے کے باوجود بدکاری کرے، یا قاتل ہو اور مقتول کے عوض اسے قتل کردیا جائے، اللہ کی قسم ! مجھے تو اللہ نے جب سے ہدایت دی ہے، میں نے اس دین کے بدلے کسی دوسرے دین کو پسند نہیں کیا، میں نے اسلام تو بڑی دور کی بات ہے، زمانہ جاہلیت میں بھی بدکاری نہیں کی اور نہ ہی میں نے کسی کو قتل کیا ہے، پھر یہ لوگ مجھے کیوں قتل کرنا چاہتے ہیں۔ گذشتہ حدیث ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
سالم بن ابی الجعد (رح) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عثمان غنی (رض) نے چند صحابہ کرام (رض) کو بلایاجن میں حضرت عمار بن یاسر (رض) بھی تھے اور فرمایا کہ میں آپ لوگوں سے کچھ سوال کرنا چاہتا ہوں اور آپ سے چند باتوں کی تصدیق کروانا چاہتا ہوں، میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ لوگ نہیں جانتے کہ نبی ﷺ دوسرے لوگوں کی نسبت قریش کو ترجیح دیتے تھے اور بنو ہاشم کو تمام قریش پر ؟ لوگ خاموش رہے۔ حضرت عثمان غنی (رض) نے فرمایا کہ اگر میرے ہاتھ میں جنت کی چابیاں ہوں تو میں وہ بنو امیہ کودے دوں تاکہ وہ سب کے سب جنت میں داخل ہوجائیں (قرابت داروں سے تعلق ہونا ایک فطری چیز ہے، یہ دراصل اس سوال کا جواب تھا جو لوگ حضرت عثمان غنی (رض) پر اقرباء پروری کے سلسلے میں کرتے تھے) اس کے بعد انہوں نے حضرت طلحہ (رض) اور حضرت زبیر (رض) کو مخاطب کر کے فرمایا کہ میں آپ کو ان کی یعنی حضرت عمار (رض) کی کچھ باتیں بتاؤں ؟ میں نبی ﷺ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے چلتا چلتا وادی بطحاء میں پہنچا، یہاں تک کہ نبی ﷺ ان کے والدین کے پاس جا پہنچے، وہاں انہیں مختلف سزائیں دی جا رہی تھیں، عمار کے والد نے نبی ﷺ کو دیکھ کر عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا ہم ہمیشہ اسی طرح رہیں گے ؟ نبی ﷺ نے فرمایا تھا صبر کرو، پھر دعاء فرمائی اے اللہ ! آل یاسر کی مغفرت فرما، میں بھی اب صبر کر رہا ہوں۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا گھر کے سائے، خشک روٹی کے ٹکڑے، شرمگاہ کو چھپانے کی بقدر کپڑے اور پانی کے علاوہ جتنی بھی چیزیں ہیں ان میں سے کسی ایک میں بھی انسان کا استحقاق نہیں ہے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
ایک مرتبہ ایک شخص نے حضرت عثمان غنی (رض) کو مسجد کے باب ثانی کے پاس بیٹھا ہوا دیکھا، انہوں نے شانے کا گوشت منگوایا اور اس کی ہڈی سے گوشت اتار کر کھانے لگے، پھر یوں ہی کھڑے ہو کر تازہ وضو کئے بغیر نماز پڑھ لی اور فرمایا میں نبی ﷺ کی طرح بیٹھا، نبی ﷺ نے جو کھایا، وہی کھایا اور جو نبی ﷺ نے کیا، وہی میں نے بھی کیا۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
ایک مرتبہ ایام حج میں حضرت عثمان غنی (رض) نے منیٰ کے میدان میں فرمایا لوگو ! میں تم سے ایک حدیث بیان کرتا ہوں جو میں نے نبی ﷺ سے سنی ہے کہ اللہ کی راہ میں ایک دن کی چوکیداری عام حالات میں ایک ہزار دن سے افضل ہے، اس لئے جو شخص جس طرح چاہے، اس میں حصہ لے، یہ کہہ کر آپ نے فرمایا کیا میں نے پیغام پہنچا دیا ؟ لوگوں نے کہا جی ہاں ! فرمایا اے اللہ تو گواہ رہ۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
ایک مرتبہ ایام حج میں حضرت عثمان غنی (رض) نے منیٰ میں قصر کی بجائے پوری چار رکعتیں پڑھادیں، لوگوں کو اس پر تعجب ہوا، حضرت عثمان (رض) نے فرمایا لوگو ! میں مکہ مکرمہ میں آکر مقیم ہوگیا تھا اور میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص کسی شہر میں مقیم ہوجائے، وہ مقیم والی نماز پڑھے گا۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
سعید بن مسیب (رح) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان غنی (رض) کو منبر پر خطبہ دیتے ہوئے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے میں یہودیوں کے ایک خاندان اور قبیلہ سے جنہیں بنو قینقاع کہا جاتا تھا، کھجوریں خریدتا تھا اور اپنا منافع رکھ کر آگے بیچ دیتا تھا، نبی ﷺ کو معلوم ہوا تو فرمایا عثمان ! جب خریدا کرو تو اسے تول لیا کرو اور جب بیچا کرو تو تول کر بیچا کرو۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص یہ دعا پڑھ لیا کرے اسے کوئی چیز نقصان نہ پہنچا سکے گی۔ بسم اللہ الذی لایضر مع اسمہ شیء فی الارض ولا فی السماء وہو السمیع العلیم
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو ایک مرتبہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ جو بندہ بھی اسے دل سے حق سمجھ کر کہے گا، اس پر جہنم کی آگ حرام ہوجائے گی، حضرت عمر فاروق (رض) نے ان سے فرمایا کہ میں آپ کو بتاؤں، وہ کلمہ کون سا ہے ؟ وہ کلمہ اخلاص ہے جو اللہ نے اپنے پیغمبر اور ان کے صحابہ (رض) پر لازم کیا تھا، یہ وہی کلمہ تقوی ہے جو نبی ﷺ نے اپنے چچا خواجہ ابو طالب کے سامنے ان کی موت کے وقت بار بار پیش کیا تھا، یعنی اللہ کی وحدانیت کی گواہی۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت زید بن خالد جہنی (رض) نے حضرت عثمان غنی (رض) سے ایک مرتبہ یہ سوال پوچھا کہ اگر کوئی آدمی اپنی بیوی سے مباشرت کرے لیکن انزال نہ ہو تو کیا حکم ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ جس طرح نماز کے لئے وضو کرتا ہے، ایسا ہی وضو کرلے اور اپنی شرمگاہ کو دھو لے اور فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہی فرماتے ہوئے سنا ہے، راوی کہتے ہیں کہ پھر میں نے یہی سوال حضرت علی، حضرت زبیر، حضرت طلحہ اور حضرت ابی بن کعب (رض) سے پوچھا تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت امامالک (رح) فرماتے ہیں کہ آیت قرآنی " نرفع درجات من نشاء " کا مطلب یہ ہے کہ علم کے ذریعے ہم جس کے درجات بلند کرنا چاہتے ہیں، کردیتے ہیں، میں نے پوچھا کہ یہ مطلب آپ سے کس نے بیان کیا ؟ فرمایا زید بن اسلم نے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ! میں نماز پڑھ رہا تھا، مجھے پتہ نہیں چل سکا کہ میں نے جفت عدد میں رکعتیں پڑھیں یا طاق عدد میں ؟ نبی ﷺ نے فرمایا اپنے آپ کو اس بات سے بچاؤ کہ دوران نماز شیطان تم سے کھیلنے لگے، اگر تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو اور اسے جفت اور طاق کا پتہ نہ چل سکے تو اسے سہو کے دو سجدے کرلینے چاہئیں، کہ ان دونوں سے نماز مکمل ہوجاتی ہے۔ مسیرہ بن معبد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہمیں یزید بن ابی کبشہ نے عصر کی نماز پڑھائی، نماز کے بعد وہ ہماری طرف رخ کر کے بیٹھ گئے اور کہنے لگے میں نے مروان بن حکم کے ساتھ نماز پڑھی تو انہوں نے بھی اسی طرح دو سجدے کئے اور ہماری طرف رخ کر کے بتایا کہ انہوں نے حضرت عثمان (رض) کے ساتھ نماز پڑھی تھی اور انہوں نے نبی ﷺ کے حوالے سے یہ حدیث بیان فرمائی تھی۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ جن دنوں حضرت عثمان غنی (رض) اپنے گھر میں محصور تھے، انہوں نے لوگوں کو جھانک کر دیکھا اور فرمانے لگے بھلا کس جرم میں تم لوگ مجھے قتل کر وگے ؟ جب کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تین میں سے کسی ایک صورت کے علاوہ کسی مسلمان کا خون بہاناحلال نہیں ہے، یا تو وہ آدمی جو اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہوجائے، یا شادی شدہ ہونے کے باوجود بدکاری کرے، یا قاتل ہو اور مقتول کے عوض اسے قتل کردیا جائے، اللہ کی قسم ! مجھے تو اللہ نے جب سے ہدایت دی ہے، میں کبھی مرتد نہیں ہوا، میں نے اسلام تو بڑی دور کی بات ہے، زمانہ جاہلیت میں بھی بدکاری نہیں کی اور نہ ہی میں نے کسی کو قتل کیا ہے، جس کا مجھ سے قصاص لیا جائے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
مالک بن عبداللہ (رح) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوذر غفاری (رض) حضرت عثمان غنی (رض) کے پاس اجازت لے کر آئے، انہوں نے اجازت دے دی، حضرت ابوذر (رض) کے ہاتھ میں لاٹھی تھی، حضرت عثمان غنی (رض) نے حضرت کعب (رض) سے پوچھا اے کعب ! عبدالرحمن فوت ہوگئے ہیں اور اپنے ترکہ میں مال چھوڑ گئے ہیں، اس مسئلے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟ انہوں نے کہا کہ اگر وہ اس کے ذریعے حقوق اللہ ادا کرتے تھے تو کوئی حرج نہیں، حضرت ابوذر غفاری (رض) نے اپنی لاٹھی اٹھا کر انہیں مارنا شروع کردیا اور فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر میرے پاس اس پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو تو مجھے یہ پسند نہیں کہ میں اپنے پیچھے اس میں سے چھ اوقیہ بھی چھوڑ دوں، میں اسے خرچ کردوں گا تاکہ وہ قبول ہوجائے، اے عثمان ! میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں، کیا آپ نے بھی یہ ارشاد سنا ہے ؟ انہوں نے فرمایا جی ہاں۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
ہانی جو حضرت عثمان (رض) کے آزاد کردہ غلام ہیں کہتے ہیں کہ جب حضرت عثمان غنی (رض) کسی قبر پر رکتے تو اتنا روتے کہ داڑھی تر ہوجاتی، کسی نے ان سے پوچھا کہ جب آپ جنت اور جہنم کا تذکرہ کرتے ہیں، تب تو نہیں روتے اور اس سے رو پڑتے ہیں ؟ فرمایا کہ جناب رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ قبر آخرت کی پہلی منزل ہے، اگر وہاں نجات مل گئی تو بعد کے سارے مراحل آسان ہوجائیں گے اور اگر وہاں نجات نہ ملی تو بعد کے سارے مراحل دشوار ہوجائیں گے اور نبی ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ میں نے جتنے بھی مناظر دیکھے ہیں، قبر کا منظر ان سب سے ہولناک ہے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
مروان سے روایت ہے کہ " عام الرعاف " میں حضرت عثمان غنی (رض) کی ناک سے ایک مرتبہ بہت خون نکلا (جسے نکسیر پھوٹنا کہتے ہیں) یہاں تک کہ وہ حج کے لئے بھی نہ جاسکے اور زندگی کی امید ختم کر کے وصیت بھی کردی، اس دوران ایک قریشی آدمی ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ کسی کو اپنا خلیفہ مقرر کر دیجئے، انہوں نے پوچھا کیا لوگوں کی بھی یہی رائے ہے ؟ اس نے کہا جی ہاں ! انہوں نے پوچھا کہ کن لوگوں کی یہ رائے ہے ؟ اس پر وہ خاموش ہوگیا۔ اس کے بعد ایک اور آدمی آیا، اس نے بھی پہلے آدمی کی باتیں دہرائیں اور حضرت عثمان (رض) نے اسے بھی وہی جواب دئیے، حضرت عثمان (رض) نے اس سے پوچھا کہ لوگوں کی رائے کسے خلیفہ بنانے کی ہے ؟ اس نے کہا حضرت زبیر (رض) کو، فرمایا ہاں ! اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، میرے علم کے مطابق وہ سب سے بہتر اور نبی صلی اللہ علیہ کی نظروں میں سب سے زیادہ محبوب تھے۔ گذشتہ روایت اس دوسری سند سے بھی مروی ہے جو عبارت میں گذری۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
ابان بن عثمان (رح) نے ایک جنازے کو دیکھا تو کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ ایک مرتبہ حضرت عثمان غنی (رض) کی نظر ایک جنازے پر پڑی تو وہ بھی کھڑے ہوگئے تھے اور انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے بھی جنازے کو دیکھا تو کھڑے ہوگئے تھے۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت زید بن خالد جہنی (رض) نے حضرت عثمان غنی (رض) سے ایک مرتبہ یہ سوال پوچھا کہ اگر کوئی آدمی اپنی بیوی سے مباشرت کرے لیکن انزال نہ ہو تو کیا حکم ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ جس طرح نماز کے لئے وضو کرتا ہے، ایسا ہی وضو کرلے اور اپنی شرمگاہ کو دھولے اور فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہی فرماتے ہوئے سنا ہے، راوی کہتے ہیں کہ پھر میں نے یہی سوال حضرت علی، حضرت زبیر، حضرت طلحہ اور حضرت ابی بن کعب (رض) سے پوچھا تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حمران کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت عثمان (رض) کے پاس آیا، وہ بنچ پر بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے خوب اچھی طرح وضو کیا اور فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ کو اسی جگہ بہترین انداز میں وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے اور جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص میری طرح ایسا ہی وضو کرے اور مسجد میں آکر دو رکعت نماز پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے گذشتہ تمام گناہ معاف فرما دے گا، نبی ﷺ نے یہ بھی فرمایا دھوکے کا شکار نہ ہوجانا۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
عبیداللہ بن عمیر کہتے ہیں کہ میں سلیمان بن علی کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اتنی دیر میں قریش کے ایک بزرگ تشریف لائے، سلیمان نے کہا دیکھو ! شیخ کو اچھی جگہ بٹھاؤ کیونکہ قریش کا حق ہے، میں نے کہا گورنر صاحب ! کیا میں آپ کو ایک حدیث سناؤں جو قریش کی توہین کرتا ہے، گویا وہ اللہ کی توہین کرتا ہے، اس نے کہا سبحان اللہ ! کیا خوب، یہ روایت تم سے کس نے بیان کی ہے ؟ میں نے کہا ربیعہ بن ابی عبدالرحمن نے سعید بن مسیب (رح) کے حوالے سے، انہوں نے عمرو بن عثمان کے حوالے سے کہ میرے والد نے مجھ سے فرمایا بیٹا ! اگر تمہیں کسی جگہ کی امارت ملے تو قریش کی عزت کرنا کیونکہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو قریش کی اہانت کرتا ہے، گویا وہ اللہ کی اہانت کرتا ہے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
ابن ابزی کہتے ہیں کہ جب حضرت عثمان غنی (رض) کا محاصرہ شروع ہوا تو حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) نے ان سے عرض کیا کہ میرے پاس بہترین قسم کے اونٹ ہیں جنہیں میں نے آپ کے لئے تیار کردیا ہے، آپ ان پر سوار ہو کر مکہ مکرمہ تشریف لے چلیں، جو آپ کے پاس آنا چاہے گا، وہیں آجائے گا ؟ لیکن انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مکہ مکرمہ میں قریش کا ایک مینڈھا الحاد پھیلائے گا جس کا نام عبداللہ ہوگا، اس پر لوگوں کے گناہوں کا آدھا بوجھ ہوگا۔ (میں وہ مینڈھا نہیں بننا چاہتا)
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ محرم خود نکاح کرے اور نہ کسی کا نکاح کروائے، بلکہ پیغام نکاح بھی نہ بھیجے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
ایک مرتبہ حضرت عثمان غنی (رض) نے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا میں تم سے ایک حدیث بیان کرتا ہوں جو میں نے نبی ﷺ سے سنی ہے، ایسا نہیں کہ بخل کی وجہ سے میں اسے تمہارے سامنے بیان نہ کروں گا، میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ کے راستے میں ایک رات کی پہرہ داری کرنا ایک ہزار راتوں کے قیام لیل اور صیام نہار سے بڑھ کر افضل ہے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا جو شخص اس حال میں مرا کہ اسے اس بات کا یقین تھا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ جنت میں داخل ہوگا۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
عمر بن عبیداللہ کو حالت احرام میں آشوب چشم کا عارضہ لاحق ہوگیا، انہوں نے آنکھوں میں سرمہ لگانا چاہا تو حضرت ابان بن عثمان (رض) نے انہیں منع کردیا اور کہا کہ صبر کا سرمہ لگا سکتا ہے (صبر کرے جب تک احرام نہ کھل جائے، سرمہ نہ لگائے) کیونکہ میں نے حضرت عثمان غنی (رض) کو نبی ﷺ کے حوالے سے ایسی حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
نبیہ بن وہب کہتے ہیں کہ عمر بن عبیداللہ نے حالت احرام میں اپنے بیٹے کا نکاح کرنا چاہا تو حضرت ابان (رح) نے اسے روک دیا اور بتایا کہ حضرت عثمان غنی (رض) نبی ﷺ کے حوالے یہ حدیث بیان کیا کرتے تھے کہ محرم خود نکاح کرے اور نہ کسی کا نکاح کروائے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
رباح کہتے ہیں کہ میرے آقا نے اپنی ایک رومی باندی سے میری شادی کردی، میں اس کے پاس گیا تو اس سے مجھ جیسا ہی ایک کالا کلوٹا لڑکا پیدا ہوگیا، میں نے اس کا نام عبداللہ رکھ دیا، دوبارہ ایسا موقع آیا تو پھر ایک کالا کلوٹا لڑکا پیدا ہوگیا، میں نے اس کا نام عبیداللہ رکھ دیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ میری بیوی پر میرے آقا کا ایک رومی غلام عاشق ہوگیا جس کا نام یوحنس تھا، اس نے اسے اپنی زبان میں رام کرلیا، چناچہ اس مرتبہ جو بچہ پیدا ہوا وہ رومیوں کے رنگ کے مشابہ تھا، میں نے اپنی بیوی سے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ اس نے کہا کہ یہ یوحنس کا بچہ ہے، ہم نے یہ معاملہ حضرت عثمان غنی (رض) کی خدمت میں پیش کیا، انہوں نے فرمایا کہ کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ تمہارے درمیان وہی فیصلہ کروں جو نبی ﷺ نے فرمایا تھا ؟ نبی ﷺ کا فیصلہ یہ ہے کہ بچہ بستروالے کا ہوگا اور زانی کے لئے پتھر ہیں، پھر حضرت عثمان رضٰ اللہ عنہ نے اس کا نسب نامہ مجھ سے ثابت کردیا اور ان دونوں کو کوڑے مارے اور اس کے بعد بھی اس کے یہاں میرا ایک بیٹاپیدا ہوا جو کالا تھا۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت ابو امامہ بن سہل (رض) سے مروی ہے کہ جن دنوں حضرت عثمان غنی (رض) اپنے گھر میں محصور تھے، میں ان کے ساتھ ہی تھا تھوڑی دیر کے لئے ہم کسی کمرے میں داخل ہوتے تو چوکی پر بیٹھنے والوں کی بات بھی سنائی دیتی تھی، اسی طرح ایک مرتبہ وہ اس کمرے میں داخل ہوئے، تھوڑی دیر بعد باہر تشریف لائے تو ان کا رنگ اڑا ہوا تھا اور وہ فرمانے لگے کہ ان لوگوں نے مجھے ابھی ابھی قتل کی دھمکی دی ہے، ہم نے عرض کیا کہ امیرالمومنین ! اللہ ان کی طرف سے آپ کی کفایت و حفاظت فرمائے گا۔ حضرت عثمان غنی (رض) فرمانے لگے کہ بھلا کس جرم میں یہ لوگ مجھے قتل کریں گے ؟ جب کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تین میں سے کسی ایک صورت کے علاوہ کسی مسلمان کا خون بہانا حلال نہیں ہے، یا تو وہ آدمی جو اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہوجائے، یا شادی شدہ ہونے کے باوجود بدکاری کرے، یاقاتل ہو اور مقتول کے عوض اسے قتل کردیا جائے، اللہ کی قسم ! مجھے تو اللہ نے جب سے ہدایت دی ہے، میں نے اس دین کے بدلے کسی دوسرے دین کو پسند نہیں کیا، میں نے اسلام تو بڑی دور کی بات ہے، زمانہ جاہلیت میں بھی بدکاری نہیں کی اور نہ ہی میں نے کسی کو قتل کیا ہے، پھر یہ لوگ مجھے کیوں قتل کرنا چاہتے ہیں۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) فرماتے تھے کہ میں تم سے اگر نبی ﷺ کی احادیث بکثرت بیان نہیں کرتا تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ میں انہیں یاد نہیں رکھ سکا، بلکہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص میری طرف ایسی بات منسوب کرے جو میں نے نہی کہی اسے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لینا چاہیے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
ابوصالح جو حضرت عثمان غنی (رض) کے آزاد کردہ غلام ہیں کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان غنی (رض) کو منبر پر دوران خطبہ یہ کہتے ہوئے سنا کہ لوگو ! میں نے اب تک نبی ﷺ سے سنی ہوئی ایک حدیث تم سے بیان نہیں کی تاکہ تم لوگ مجھ سے جدا نہ ہوجاؤ لیکن اب میں مناسب سمجھتا ہوں کہ تم سے بیان کردوں تاکہ ہر آدمی جو مناسب سمجھے، اسے اختیار کرلے، میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ کے راستہ میں ایک دن کی پہرہ داری، دوسری جگہوں پر ہزار دن کی پہرہ داری سے بھی افضل ہے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو مسلمان اپنے گھر سے نکلتے وقت خواہ سفر کے ارادے سے یا ویسے ہی یہ دعاء پڑھ لے بسم اللہ آمنت باللہ، اعتصمت باللہ، توکلت علی اللہ لاحول ولاقوۃ الا باللہ، تو اسے اس کی خیر عطاء فرمائی جائے گی اور اس نکلنے کے شر سے اس کی حفاظت کی جائے گی۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے مروی ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، آپ ﷺ نے تین مرتبہ چہرہ دھویا، تین مرتبہ ہاتھ دھوئے، سر کا مسح کیا اور پاؤں کو اچھی طرح دھویا۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص حکم الٰہی کے مطابق اچھی طرح مکمل وضو کرے تو فرض نمازیں درمیانی اوقات کے گناہوں کا کفارہ بن جائیں گی۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص دن یا رات کے آغاز میں یہ دعا تین مرتبہ پڑھ لیا کرے اسے اس دن یا رات میں کوئی چیز نقصان نہ پہنچا سکے گی۔ بسم اللہ الذی لا یضر مع اسمہ شیء فی الارض و لا فی السماء وہو السمیع العلیم
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
یزید بن موہب کہتے ہیں کہ حضرت عثمان غنی (رض) نے حضرت ابن عمر (رض) کو قاضی بننے کی پیشکش کی، انہوں نے فرمایا کہ میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کروں گا اور نہ ہی امامت کروں گا، کیا آپ نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا جو اللہ کی پناہ میں آجائے وہ مکمل طور پر محفوظ ہوجاتا ہے ؟ فرمایا کیوں نہیں ! اس پر حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا پھر میں اللہ کی پناہ میں آتا ہوں کہ آپ مجھے کوئی عہدہ دیں، چناچہ حضرت عثمان (رض) نے انہیں چھوڑ دیا اور فرمایا کسی کو اس بارے میں مت بتائیے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص وضو کرے اور اچھی طرح کرے تو اس کے جسم سے اس کے گناہ نکل جاتے ہیں، حتی کہ اس کے ناخن کے نیچے سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
ابوصالح جو حضرت عثمان (رض) کے آزاد کردہ غلام ہیں کہتے ہیں کہ حضرت عثمان غنی (رض) نے فرمایا لوگو ! روانہ ہوجاؤ کیونکہ میں بھی روانہ ہونے لگاہوں، لوگ روانہ ہونے لگے تو فرمایا کہ میں نے اب تک نبی ﷺ سے سنی ہوئی ایک حدیث تم سے بیان نہیں کی، نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں ایک دن کی پہرہ داری دوسری جگہوں پر ہزار دن کی پہرہ داری سے بھی افضل ہے، اس لئے جو شخص چاہے وہ پہرہ داری کرے، کیا میں نے پیغام پہنچا دیا ؟ لوگوں نے کہا جی ہاں ! فرمایا اے اللہ تو گواہ رہ۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حمران کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عثمان غنی (رض) بنچ پر بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے پانی منگوا کر خوب اچھی طرح وضو کیا اور فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ کو اسی جگہ بہترین انداز میں وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے اور جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص میری طرح ایسا ہی وضو کرے اور مسجد میں آکر دو رکعت نماز پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے گذشتہ تمام گناہ معاف فرمادے گا، نبی ﷺ نے یہ بھی فرمایا دھوکے کا شکار نہ ہوجانا۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
ابو عون انصاری کہتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود (رض) سے ایک مرتبہ حضرت عثمان غنی (رض) نے درخواست کی کہ آپ کے حوالے سے مجھے جو باتیں معلوم ہوئی ہیں، آپ ان سے رک جائیے، حضرت ابن مسعود (رض) نے ان کے سامنے کچھ عذر پیش کئے، حضرت عثمان (رض) نے فرمایا افسوس ! میں نے اس بات کو سنا بھی ہے اور محفوظ بھی کیا ہے خواہ آپ نے نہ سنا ہو کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا ایک حکمران قتل کیا جائے گا اور شر پھیلانے والے اس میں جلد بازی کریں گے، یاد رکھو ! وہ مقتول ہونے والا امیر میں ہی ہوں، اس سے مراد حضرت عمر (رض) نہیں ہیں، کیونکہ انہیں تو صرف ایک آدمی نے شہید کیا تھا، جب کہ مجھ پر یہ سب مل کر حملہ کرنے والے ہیں۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
عبیداللہ بن عدی بن الخیار کہتے ہیں کہ حضرت عثمان غنی (رض) نے ان سے فرمایا بھتیجے ! کیا تم نے نبی ﷺ کو پایا ہے ؟ میں نے عرض کیا نہیں ! البتہ ان کے حوالے سے خالص معلومات اور ایسا یقین ضرور میرے پاس ہیں جو کنواری دوشیزہ کو اپنے پردے میں ہوتا ہے، اس پر حضرت عثمان (رض) نے حمدوثناء اور اقرار شہادتین کے بعد فرمایا اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا : اللہ و رسول کی دعوت پر لبیک کہنے والوں میں بھی تھا، نیز نبی ﷺ کی شریعت پر ایمان لانے والوں میں، میں بھی تھا، پھر میں نے حبشہ کی طرف دونوں مرتبہ ہجرت کی، مجھے نبی ﷺ کی دامادی کا شرف بھی حاصل ہوا اور میں نے نبی ﷺ کے دست حق پر بیعت بھی کی ہے، اللہ کی قسم ! میں نے کبھی ان کی نافرمانی کی اور نہ ہی دھوکہ دیا، یہاں تک کہ اللہ نے انہیں اپنے پاس بلا لیا۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) ایک مرتبہ حضرت عثمان غنی (رض) کے یہاں آئے، ان دنوں باغیوں نے ان کا محاصرہ کر رکھا تھا اور آکر عرض کیا کہ آپ مسلمانوں کے عمومی حکمران ہیں، آپ پر جو پریشانیاں آرہی ہیں، وہ بھی نگاہوں کے سامنے ہیں، میں آپ کے سامنے تین درخواستیں رکھتا ہوں، آپ کسی ایک کو اختیار کرلیجئے یا تو آپ باہر نکل کر ان باغیوں سے قتال کریں، آپ کے پاس افراد بھی ہیں، طاقت بھی ہے اور آپ برحق بھی ہیں اور یہ لوگ باطل پر ہیں یا جس دروازے پر یہ لوگ کھڑے ہیں، آپ اسے چھوڑ کر اپنے گھر کی دیوار توڑ کر کوئی دوسرا دروازہ نکلوائیں، سواری پر بیٹھیں اور مکہ مکرمہ چلے جائیں، جب آپ وہاں ہوں گے تو یہ آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے، یا پھر آپ شام چلے جائیے کیونکہ وہاں اہل شام کے علاوہ حضرت امیر معاویہ (رض) بھی موجود ہیں حضرت عثمان (رض) نے فرمایا جہاں تک تعلق ہے اس بات کا کہ میں باہر نکل کر ان باغیوں سے قتال کروں تو میں نبی ﷺ کے پیچھے سب سے پہلا وہ آدمی ہرگز نہیں بنوں گا جو امت میں خونریزی کرے، رہی یہ بات کہ میں مکہ مکرمہ چلا جاؤں تو یہ میرا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے تو میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قریش کا ایک آدمی مکہ مکرمہ میں الحاد پھیلائے گا، اس پر اہل دنیا کو ہونے والے عذاب کا نصف عذاب دیا جائے گا، میں وہ آدمی نہیں بننا چاہتا اور جہاں تک شام جانے والی بات ہے کہ وہاں اہل شام کے علاوہ امیر معاویہ (رض) بھی ہیں تو میں دارالہجرۃ اور نبی ﷺ کے پڑوس کو کسی صورت نہیں چھوڑ سکتا۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص خوب اچھی طرح وضو کرے اور فرض نماز کے لئے روانہ ہو اور اسے ادا کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے گذشتہ تمام گناہ معاف فرمادے گا۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حمران کہتے ہیں کہ حضرت عثمان غنی (رض) نے جب سے اسلام قبول کیا تھا، ان کا معمول تھا کہ وہ روزانہ نہایا کرتے تھے، ایک دن نماز کے لئے میں نے وضو کا پانی رکھا، جب وہ وضو کرچکے تو فرمانے لگے کہ میں تم سے ایک حدیث بیان کرنا چاہتا تھا، پھر میں نے سوچا کہ نہ بیان کروں، یہ سن کر حکم بن ابی العاص نے کہا کہ امیرالمومنین ! بیان کردیں، اگر خیر کی بات ہوگی تو ہم بھی اس پر عمل کرلیں گے اور اگر شر کی نشاندہی ہوگی تو ہم بھی اس سے بچ جائیں گے، فرمایا میں تم سے یہ حدیث بیان کرنے لگا تھا کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے اسی طرح وضو کیا اور فرمایا جو شخص اس طرح وضو کرے اور خوب اچھی طرح کرے، پھر نماز کے لئے کھڑا ہو اور رکوع و سجود کو اچھی طرح مکمل کرے تو یہ وضو اگلی نماز تک اس کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا، بشرطیکہ کسی گناہ کبیرہ کا ارتکاب نہ کرے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے اللہ تعالیٰ اس شخص کو جنت میں ضرور داخل کرے گا جو نرم خو ہو خواہ خریدار ہو یا دکاندار، ادا کرنے والا ہو یا تقاضا کرنے والا۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
ایک مرتبہ جب مؤذن نے عصر کی اذان دی تو حضرت عثمان (رض) نے وضو کے لئے پانی منگوایا، وضو کیا اور فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص حکم الٰہی کے مطابق وضو کرے، وہ اس کے سارے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے، اس کے بعد انہوں نے چار صحابہ (رض) سے اس پر گواہی لی اور چاروں نے اس بات کی گواہی دی کہ واقعی نبی ﷺ نے یہی فرمایا تھا۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
بسر بن سعید کہتے ہیں کہ حضرت عثمان (رض) بنچوں کے پاس آکر بیٹھ گئے، وضو کا پانی منگوایا، کلی کی، ناک میں پانی ڈالا، پھر تین مرتبہ چہرہ دھویا اور تین تین مرتبہ ہاتھ دھوئے، پھر سر اور پاؤں کا تین تین مرتبہ مسح کیا (جو کہ دوسری روایات کے خلاف ہے) پھر فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ کو اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے اور چند صحابہ کرام (رض) جو وہاں موجود تھے، ان سے فرمایا کیا ایسا ہی ہے ؟ انہوں نے اس کی تصدیق کی۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
بسر بن سعید کہتے ہیں کہ حضرت عثمان (رض) بنچوں کے پاس آکر بیٹھ گئے، وضو کا پانی منگوایا اور تمام اعضاء کو تین تین مرتبہ دھویا اور چند صحابہ کرام (رض) جو وہاں موجود تھے، ان سے فرمایا کیا ایسا ہی ہے ؟ انہوں نے اس کی تصدیق کی۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حمران کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عثمان غنی (رض) مسجد کے دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے، میں نے دیکھا کہ انہوں نے پانی منگوایا، سب سے پہلے اپنے ہاتھوں کو دھویا، پھر تین مرتبہ چہرہ دھویا، کلی بھی کی اور ناک میں پانی بھی ڈالا، تین مرتبہ کہنیوں سمیت بازؤوں کو بھی دھویا، پھر سر کا مسح کر کے دونوں ہاتھ کانوں کی ظاہری سطح پر گذارے، پھر داڑھی پر پھیرے اور تین تین مرتبہ ٹخنوں سمیت پاؤں دھو لئے پھر کھڑے ہو کردو رکعتیں پڑھیں اور فرمایا کہ میں نے جس طرح نبی ﷺ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا تھا اسی طرح تمہیں بھی وضو کر کے دکھا دیا اور جس طرح انہوں نے دو رکعتیں پڑھی تھیں میں نے بھی پڑھ کر دکھا دیں اور ان دو رکعتوں سے فارغ ہو کر جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص میری طرح ایسا ہی وضو کرے اور دو رکعت نماز اس طرح پڑھے کہ اپنے دل میں خیالات اور وساوس نہ لائے تو اللہ تعالیٰ اس کے گذشتہ تمام گناہ معاف فرمادے گا۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
شقیق (رح) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ولید بن عقبہ سے حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کی ملاقات ہوئی، ولید نے کہا کیا بات ہے، آپ امیرالمومنین حضرت عثمان غنی (رض) کے ساتھ انصاف نہیں کر رہے ؟ انہوں نے کہا کہ میری طرف سے انہیں یہ پیغام پہنچا دو کہ میں غزوہ احد کے دن فرار نہیں ہوا تھا، میں غزوہ بدر سے پیچھے نہیں رہا تھا اور نہ ہی میں نے حضرت عمر (رض) کی سنت کو چھوڑا ہے، ولید نے جاکر یہ ساری بات حضرت عثمان غنی (رض) کو بتادی۔ انہوں نے فرمایا کہ حضرت عبدالرحمن (رض) نے یہ جو کہا کہ میں غزوہ احد سے فرار نہیں ہوا تھا، وہ مجھے ایسی لغزش سے کیسے عار دلا سکتے ہیں جسے اللہ نے خود معاف کردیا، چناچہ ارشادباری تعالیٰ ہے کہ تم میں سے جو لوگ دو لشکروں کے ملنے کے دن پیٹھ پھیر کر چلے گئے تھے، انہیں شیطان نے پھسلا دیا تھا بعض ان چیزوں کی وجہ سے جو انہوں نے کیں اور غزوہ بدر سے پیچھے رہ جانے کا جو طعنہ انہوں نے مجھے دیا ہے تو اصل بات یہ ہے کہ میں نبی ﷺ کی صاحبزادی اور اپنی زوجہ حضرت رقیہ (رض) کی تیمارداری میں مصروف تھا، یہاں تک کہ وہ اسی دوران فوت ہوگئیں، جبکہ نبی ﷺ نے شرکاء بدر کے ساتھ مال غنیمت میں میرا حصہ بھی شامل فرمایا اور یہ سمجھا گیا کہ نبی ﷺ نے جس کا حصہ مقرر فرمایا وہ غزوہ بدر میں شریک تھا رہی ان کی یہ بات کہ میں نے حضرت عمر (رض) کی سنت نہیں چھوڑی تو سچی بات یہ ہے کہ اس کی طاقت مجھ میں ہے اور نہ خود ان میں ہے تم جا کر ان سے یہ باتیں بیان کردینا۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھ لے تو یہ ایسے ہے جیسے نصف رات قیام کرنا اور جو شخص فجر کی نماز بھی جماعت کے ساتھ پڑھ لے تو یہ ساری رات قیام کرنے کی طرح ہے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
نبیہ بن وہب کہتے ہیں کہ ابن معمر نے شیبہ بن جبیر کی بیٹی سے اپنے بیٹے کے نکاح کا پروگرام دوران حج بنایا اور مجھے ابان بن عثمان (رح) کے پاس جو کہ امیر حج تھے بھیجا، میں نے ان کے پاس جا کر کہا کہ آپ کے بھائی اپنے بیٹے کا نکاح کرنا چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ آپ بھی اس میں شرکت کریں، انہوں نے کہا کہ میں تو اسے عراقی دیہاتی نہیں سمجھتا تھا، یاد رکھو ! محرم نکاح کرسکتا ہے اور نہ کسی کا نکاح کرا سکتا ہے پھر انہوں نے حضرت عثمان (رض) کے حوالے سے اس مضمون کی حدیث سنائی۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حمران کہتے ہیں کہ حضرت عثمان (رض) نے بنچ پر بیٹھ کر وضو کرتے ہوئے اعضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھویا اور فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص میری طرح ایسا وضو کرے، پھر نماز پڑھے تو اس کے گناہ اس کے چہرے، ہاتھوں، پاؤں اور سر سے جھڑ جاتے ہیں۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
نبیہ بن وہب کہتے ہیں کہ عمر بن عبیداللہ کی آنکھیں دکھنے لگیں تو حضرت ابان بن عثمان (رض) سے یہ مسئلہ دریافت کیا کہ وہ کیا کریں ؟ انہوں نے جواب میں کہلا بھیجا کہ صبر کا سرمہ لگا سکتا ہے (صبر کرے جب تک احرام نہ کھل جائے، سرمہ نہ لگائے) کیونکہ میں نے حضرت عثمان غنی (رض) کو نبی ﷺ کے حوالے سے ایسی حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
ابان بن عثمان (رح) نے ایک جنازے کو دیکھا تو کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ ایک مرتبہ حضرت عثمان غنی (رض) کی نظر ایک جنازے پر پڑی تو وہ بھی کھڑے ہوگئے تھے اور انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے بھی جنازے کو دیکھا تو کھڑے ہوگئے تھے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا محرم خود نکاح کرے اور نہ کسی سے پیغام نکاح بھیجے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے محرم کے متعلق فرمایا ہے کہ اگر اس کی آنکھیں دکھنے لگیں تو صبر کا سرمہ لگا لے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا جو شخص اس حال میں مرا کہ اسے اس بات کا یقین تھا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ جنت میں داخل ہوگا۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت عثمان غنی (رض) سے عرض کیا کہ آپ لوگوں نے سورت انفال کو جو مثانی میں سے ہے سورت برائۃ کے ساتھ جو کہ مئین میں سے ہے ملانے پر کس چیز کی وجہ سے اپنے آپ کو مجبور پایا اور آپ نے ان کے درمیان ایک سطر کی بسم اللہ تک نہیں لکھی اور ان دونوں کو سبع طوال میں شمار کرلیا آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ حضرت عثمان غنی (رض) نے فرمایا کہ نبی ﷺ پر جب وحی کا نزول ہو رہا تھا تو بعض اوقات کئی کئی سورتیں اکٹھی نازل ہوجاتی تھیں اور نبی ﷺ کی عادت تھی کہ جب کوئی وحی نازل ہوتی تو آپ ﷺ اپنے کسی کاتب وحی کو بلا کر اسے لکھواتے اور فرماتے کہ اسے فلاں سورت میں فلاں جگہ رکھو، بعض اوقات کئی آیتیں نازل ہوئیں اس موقع پر آپ ﷺ بتا دیتے کہ ان آیات کو اس سورت میں رکھو اور بعض اوقات ایک ہی آیت نازل ہوتی لیکن اس کی جگہ بھی آپ ﷺ بتادیا کرتے تھے۔ سورت انفال مدینہ منورہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی تھی، جبکہ سورت برائۃ نزول کے اعتبار سے قرآن کریم کا آخری حصہ ہے اور دونوں کے واقعات و احکام ایک دوسرے سے حد درجہ مشابہت رکھتے تھے، ادھر نبی صلی اللہ دنیا سے رخصت ہوگئے اور ہم پر یہ واضح نہ فرما سکے کہ یہ اس کا حصہ ہے یا نہیں ؟ میرا گمان یہ ہوا کہ سورت برائۃ، سورت انفال ہی کا جزو ہے اس لئے میں نے ان دونوں کو ملا دیا اور ان دونوں کے درمیان، بسم اللہ، والی سطر بھی نہیں لکھی اور اسے سبع طوال میں شمار کرلیا۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سب سے افضل اور بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
ابو سہلہ کہتے ہیں کہ جس دن حضرت عثمان غنی (رض) کا محاصرہ ہوا اور وہ " یوم الدار " کے نام سے مشہور ہوا، انہوں نے فرمایا کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے ایک عہد لیا تھا، میں اس پر ثابت قدم اور قائم ہوں۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
رباح کہتے ہیں کہ میرے آقا نے اپنی ایک رومی باندی سے میری شادی کردی، میں اس کے پاس گیا تو اس سے مجھ جیسا ہی ایک کالا کلوٹا لڑکا پیدا ہوگیا میں نے اس کا نام عبداللہ رکھ دیا، دوبارہ ایسا موقع آیا تو پھر ایک کالا کلوٹا لڑکا پیدا ہوگیا، میں نے اس کا نام عبیداللہ رکھ دیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ میری بیوی پر میرے آقا کا ایک رومی غلام عاشق ہوگیا جس کا نام یوحنس تھا، اس نے اسے اپنی زبان میں رام کرلیا، چناچہ اس مرتبہ جو بچہ پیدا ہوا وہ رومیوں کے رنگ کے مشابہ تھا میں نے اپنی بیوی سے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ اس نے کہا کہ یہ یوحنس کا بچہ ہے، ہم نے یہ معاملہ حضرت عثمان غنی (رض) کی خدمت میں پیش کیا، انہوں نے فرمایا کہ کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ تمہارے درمیان وہی فیصلہ کروں جو نبی ﷺ نے فرمایا تھا ؟ نبی ﷺ کا فیصلہ یہ ہے کہ بچہ بستر والے کا ہوگا اور غالباً ان دونوں کو کوڑے بھی مارے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص حکم الٰہی کے مطابق اچھی طرح مکمل وضو کرے تو فرض نمازیں درمیانی اوقات کے گناہوں کا کفارہ بن جائیں گی۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
عباد بن زاہر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان (رض) کو ایک مرتبہ دوران خطبہ یہ کہتے ہوئے سنا بخدا ! ہم لوگ سفر اور حضر میں نبی ﷺ کی ہم نشینی کا لطف اٹھاتے رہے ہیں، نبی ﷺ ہمارے بیماروں کی عیادت کرتے، ہمارے جنازہ میں شرکت کرتے ہمارے ساتھ جہاد میں شریک ہوتے، تھوڑے اور زیادہ کے ساتھ ہماری غم خواری فرماتے اور اب بعض ایسے لوگ مجھے سکھانے کے لئے آتے ہیں جنہوں نے شاید نبی ﷺ کو کبھی دیکھا بھی نہ ہوگا۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
سیعد بن مسیب (رح) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت عثمان غنی (رض) کو بنچوں پر بیٹھا ہوا دیکھا، انہوں نے آگ پر پکا ہوا کھانا منگوایا اور کھانے لگے، پھر یوں ہی کھڑے ہو کر تازہ وضو کئے بغیر نماز پڑھ لی اور فرمایا میں نبی ﷺ کی طرح بیٹھا، نبی ﷺ نے جو کھایا، وہی کھایا اور جس طرح نبی ﷺ نے نماز پڑھی، میں نے بھی اسی طرح نماز پڑھی۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
محمود بن لبید کہتے ہیں کہ حضر عثمان غنی (رض) نے جب مسجد نبوی کی توسیع کا ارادہ کیا تو لوگوں نے اس پر خوشی کا اظہار کرنے کی بجائے اسے پرانی ہیئت پر برقرار رکھنے کو زیادہ پسند کیا، لیکن حضرت عثمان (رض) نے فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اللہ کی رضا کے لئے مسجد کی تعمیر میں حصہ لیتا ہے اللہ اسی طرح کا ایک گھر اس کے لئے جنت میں تعمیر کردیتا ہے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے مری ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص جان بوجھ کر کسی جھوٹی بات کی نسبت میری طرف کرتا ہے، وہ جہنم میں اپنا گھر تیار کرلے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو جنت میں ضرور داخل کرے گا جو نرم خو ہو خواہ خریدار ہو یا دکاندار، ادا کرنے والا ہو یا تقاضا کرنے والا۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت ابو امامہ بن سہل (رض) سے مروی ہے کہ جن دنوں حضرت عثمان غنی (رض) اپنے گھر میں محصور تھے، ہم ان کے ساتھ ہی تھے فرمانے لگے کہ بھلا کس جرم میں یہ لوگ مجھے قتل کریں گے ؟ جب کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تین میں سے کسی ایک صورت کے علاوہ کسی مسلمان کا خون بہانا حلال نہیں ہے یا تو وہ آدمی جو اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہوجائے یا شادی شدہ ہونے کے باوجود بدکاری کرے یا قاتل ہو اور مقتول کے عوض اسے قتل کردیا جائے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
ابوعبید (رح) کہتے ہیں کہ عیدالفطر اور عیدالاضحی دونوں موقعوں پر مجھے حضرت عثمان غنی (رض) اور حضرت علی (رض) کے ساتھ شریک ہونے کا موقع ملا ہے، یہ دونوں حضرات پہلے نماز پڑھاتے تھے، پھر نماز سے فارغ ہو کر لوگوں کو نصیحت کرتے تھے، میں نے ان دونوں حضرات کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں دنوں کے روزے رکھنے سے منع فرمایا ہے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
اور میں نے حضرت علی (رض) کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا کہ نبی ﷺ نے قربانی کا گوشت تین دن کے بعد کھانے سے منع فرمایا ہے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
احنف بن قیس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم حج کے ارادے سے روانہ ہوئے، مدینہ منورہ سے گذر ہوا، ابھی ہم اپنے پڑاؤ ہی میں تھے کہ ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ مسجد نبوی میں لوگ بڑے گھبرائے ہوئے نظر آ رہے ہیں، میں اپنے ساتھی کے ساتھ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ لوگوں نے مل کر مسجد میں موجود چند لوگون پر ہجوم کیا ہوا ہے، میں ان کے درمیان سے گذرتا ہوا وہاں جا کر کھڑا ہوا تو دیکھا کہ وہاں حضرت علی، حضرت زبیر، حضرت طلحہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کھڑے ہیں زیادہ دیر نہ گذری تھی کہ حضرت عثمان غنی (رض) بھی دھیرے دھیرے چلتے ہوئے آگئے۔ انہوں نے آکر پوچھا کہ یہاں علی (رض) ہیں ؟ لوگوں نے کہا جی ہاں ! پھر باری باری مذکورہ حضرات صحابہ (رض) کا نام لے کر ان کی موجودگی کے بارے میں پوچھا اور لوگوں نے اثبات میں جواب دیا، اس کے بعد انہوں نے فرمایا میں تمہیں اس اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، کیا تم جانتے ہو کہ نبی ﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا تھا جو شخص فلاں قبیلے کے اونٹوں کا باڑہ خرید کر دے گا، اللہ اس کے گناہوں کو معاف فرمادے گا، میں نے اسے خرید لیا اور نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر وہ خرید لینے کے بارے بتایا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسے ہماری مسجد میں شامل کردو، تمہیں اس کا اجر ملے گا۔ لوگوں نے ان کی تصدیق کی۔ پھر انہوں نے فرمایا کہ تمہیں اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، کیا تم جانتے ہو کہ نبی ﷺ نے فرمایا تھا بیر رومہ کون خریدے گا، میں نے اسے اچھی خاصی رقم میں خریدا، نبی ﷺ کی خدمت میں آکر بتایا کہ میں نے اسے خرید لیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسے مسلمانوں کے پینے کے لئے وقف کردو، تمہیں اس کا اجر ملے گا ؟ لوگوں نے اس پر بھی ان کی تصدیق کی۔ پھر حضرت عثمان غنی (رض) نے فرمایا کہ میں تمہیں اس اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں کیا تم جانتے ہو کہ نبی ﷺ نے جیش العسرۃ (غزوہ تبوک) کے موقع پر لوگوں کے چہرے دیکھتے ہوئے فرمایا تھا کہ جو شخص ان کے لئے سامان جہاد کا انتظام کرے گا، اللہ اسے بخش دے گا، میں نے ان کے لئے اتناسامان مہیا کیا کہ ایک لگام اور ایک رسی بھی کم نہ ہوئی ؟ لوگوں نے اس پر بھی ان کی تصدیق کی اور حضرت عثمان غنی (رض) نے تین مرتبہ فرمایا اے اللہ تو گواہ رہ، یہ کہہ کر وہ واپس چلے گئے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت یعلی بن امیہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت عثمان غنی (رض) کے ساتھ طواف کیا، انہوں نے حجر اسود کا استلام کیا، جب میں رکن یمانی پر پہنچا تو میں نے حضرت عثمان غنی (رض) کا ہاتھ پکڑ لیا تاکہ وہ استلام کرلیں، حضرت عثمان غنی (رض) نے فرمایا تمہیں کیا ہوا ؟ میں نے کہا کیا آپ استلام نہیں کریں گے ؟ انہوں نے فرمایا کیا آپ نے نبی ﷺ کے ساتھ کبھی طواف نہیں کیا ؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں ! فرمایا تو کیا آپ نے نبی ﷺ کو اس کا استلام کرتے ہوئے دیکھا ہے ؟ میں نے کہا نہیں ! انہوں نے فرمایا کیا جناب رسول اللہ ﷺ کی ذات میں تمہارے لئے اسوہ حسنہ موجود نہیں ہے ؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں ؟ فرمایا پھر اسے چھوڑ دو ۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حارث جو حضرت عثمان رضٰ اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام ہیں کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت عثمان غنی (رض) تشریف فرما تھے، ہم بھی بیٹھے ہوئے تھے، اتنی دیر میں مؤذن آگیا، انہوں نے ایک برتن میں پانی منگوایا، میرا خیال ہے کہ اس میں ایک مد کے برابر پانی ہوگا، انہوں نے وضو کیا اور فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ کو اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے اور نبی ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ جو شخص میری طرح ایسا ہی وضو کرے اور کھڑا ہو کر ظہر کی نماز پڑھے تو فجر اور ظہر کے درمیان کے گناہ معاف ہوجائیں گے، پھر عصر کی نماز پڑھنے پر ظہر اور عصر کے درمیان کے گناہ معاف ہوجائیں گے، پھر مغرب کی نماز پڑھنے پر عصر اور مغرب کے درمیان اور پھر عشاء کی نماز پڑھنے مغرب اور عشاء کے درمیان کے گناہ معاف ہوجائیں گے۔ پھر ہوسکتا ہے کہ وہ ساری رات کروٹیں بدلتا رہے اور کھڑا ہو کر وضو کر کے فجر کی نماز پڑھ لے تو فجر اور عشاء کے درمیان کے گناہ معاف ہوجائیں گے اور یہ وہی نیکیاں ہیں جو گناہوں کو ختم کردیتی ہیں، لوگوں نے پوچھا کہ حضرت یہ تو حسنات ہیں باقیات (جن کا تذکرہ قرآن میں بھی آتا ہے وہ) کیا چیز ہیں ؟ فرمایا وہ یہ کلمات ہیں۔ لاالہ الا اللہ و سبحان اللہ والحمدللہ واللہ اکبر ولاحول ولاقوۃ الا باللہ۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عائشہ صدیقہ (رض) اور حضرت عثمان غنی (رض) دونوں سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر (رض) نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے اجازت چاہی، اس وقت نبی ﷺ بستر پر لیٹے ہوئے تھے اور حضرت عائشہ (رض) کی چادر اوڑھ رکھی تھی، نبی ﷺ نے انہیں اجازت دے دی اور خود اسی طرح لیٹے رہے، حضرت صدیق اکبر (رض) اپنا کام پورا کر کے چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد حضرت عمر فاروق (رض) نے آکر اجازت طلب کی، نبی ﷺ نے انہیں بھی اجازت دے دی لیکن خود اسی کیفیت پر رہے، وہ بھی اپنا کام پورا کر کے چلے گئے، حضرت عثمان (رض) کہتے ہیں کہ تھوڑی دیر بعد میں نے آکر اجازت چاہی تو آپ ﷺ اٹھ کر بیٹھ گئے اور حضرت عائشہ (رض) سے فرمایا کہ اپنے کپڑے سمیٹ لو، تھوڑی دیر میں میں بھی اپنا کام کر کے چلا گیا۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے پوچھا یا رسول اللہ ! حضرت عثمان (رض) کے آنے پر آپ نے جو اہتمام کیا، وہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر (رض) کے آنے پر نہیں کیا، اس کی کیا وجہ ہے ؟ نبی ﷺ نے فرمایا کہ عثمان میں شرم وحیاء کا مادہ بہت زیادہ ہے، مجھے اندیشہ تھا کہ اگر میں نے انہیں اندر یوں ہی بلا لیا اور میں اپنی حالت پر ہی رہا تو وہ جس مقصد کے لئے آئے ہیں اسے پورا نہ کرسکیں گے اور بعض روایات کے مطابق یہ فرمایا کہ میں اس شخص سے حیاء کیوں نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں۔ گذشتہ حدیث ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے جو عبارت میں مذکور ہے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص خوب اچھی طرح وضو کرے اور فرض نماز کے لئے روانہ ہو اور اسے ادا کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے گذشتہ تمام گناہ معاف فرمادے گا۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عثمان غنی (رض) حج کے لئے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے، ان کی زوجہ محترمہ اپنے قریبی رشتہ دار محمد بن جعفر کے پاس چلی گئیں، محمد نے رات انہی کے ساتھ گذاری، صبح ہوئی تو محمد کے جسم سے خوشبو کی مہک پھوٹ رہی تھی اور عصفر سے رنگا ہوا لحاف ان کے اوپر تھا، کوچ کرنے سے پہلے ہی لوگوں کے ذہن میں طرح طرح کے خیالات پیدا ہونے لگے، حضرت عثمان غنی (رض) نے انہیں اس حال میں دیکھا تو انہیں ڈانٹا اور سخت سست کہا اور فرمایا کہ نبی ﷺ کے منع کرنے کے باوجود بھی تم نے عصفر سے رنگا ہوا کپڑا پہن رکھا ہے ؟ حضرت علی (رض) نے بھی سن لیا اور فرمایا کہ نبی ﷺ نے اسے منع کیا تھا اور نہ ہی آپ کو انہوں نے تو مجھے منع کیا تھا۔ فائدہ : محمد بن جعفر چھوٹے بچے تھے اور حضرت عثمان (رض) کی زوجہ کے قریبی رشتہ دار تھے اور عام طور پر بچے رات کے وقت اپنے رشتہ داروں کے یہاں سو ہی جاتے ہیں۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ بتاؤ ! اگر تمہارے گھر کے صحن میں ایک نہر بہہ رہی ہو اور تم روزانہ اس میں سے پانچ مرتبہ غسل کرتے ہو تو کیا تمہارے جسم پر کوئی میل کچیل باقی رہے گی ؟ لوگوں نے کہا بالکل نہیں ! فرمایا پانچوں نمازیں گناہوں کو اسی طرح ختم کردیتی ہیں جیسے پانی میل کچیل کو ختم کردیتا ہے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص اہل عرب کو دھوکہ دے، وہ میری شفاعت میں داخل نہیں ہوگا اور اسے میری محبت نصیب نہ ہوگی۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن سینگ والی بکری سے بےسینگ والی بکری کا بھی قصاص لیا جائے گا۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
خواجہ حسن بصری (رح) کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت عثمان غنی (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا، وہ اپنے خطبے میں کتوں کو قتل کرنے اور کبوتروں کو ذبح کرنے کا حکم دے رہے تھے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
ام موسیٰ کہتی ہیں کہ حضرت عثمان غنی (رض) لوگوں میں سب سے زیادہ حسین و جمیل تھے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
ابراہیم بن سعد اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ میں ایک دن نماز پڑھ رہا تھا، ایک آدمی میرے سامنے سے گذرنے لگا، میں نے اسے روکنا چاہا لیکن وہ نہ مانا، میں نے حضرت عثمان (رض) سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا بھتیجے ! اس میں تمہارا کوئی نقصان نہیں ہے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
ایک مرتبہ حضرت عثمان غنی (رض) نے فرمایا کہ اگر تمہیں کتاب اللہ میں یہ حکم مل جاتا ہے کہ میرے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دو ، تو تم یہ بھی کر گذرو۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے میدان عرفات میں وقوف کیا، اس وقت آپ ﷺ نے حضرت اسامہ بن زید (رض) کو اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھا رکھا تھا اور فرمایا یہ وقوف کی جگہ ہے اور پورا میدان عرفہ ہی وقوف کی جگہ ہے پھر آپ ﷺ نے عرفہ سے کوچ کیا اور سواری کی رفتار تیزکردی، لوگ دائیں بائیں بھاگنے لگے، نبی ﷺ نے ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا لوگو ! مطمئن رہو، یہاں تک کہ آپ ﷺ مزدلفہ آپہنچے، مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھیں، پھر پھر مزدلفہ میں وقوف فرمایا۔ مزدلفہ کا وقوف آپ ﷺ نے جبل قزح پر فرمایا اس وقت آپ ﷺ نے اپنی سواری پر اپنے پیچھے حضرت فضیل بن عباس (رض) کو بٹھا رکھا تھا اور فرمایا یہ وقوف کی جگہ ہے اور پورا مزدلفہ ہی وقوف کی جگہ ہے پھر آپ ﷺ نے مزدلفہ سے کوچ کیا اور سواری کی رفتار تیز کردی لوگ پھر دائیں بائیں بھاگنے لگے اور نبی ﷺ نے بھی دوبارہ لوگوں کو سکون کی تلقین فرمائی اور راوی نے مکمل حدیث ذکر کی۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
مسلم کہتے ہیں کہ حضرت عثمان غنی (رض) نے اپنی زندگی کے آخری دن اکٹھے بیس غلام آزاد کئے، شلوار منگوا کر مضبوطی سے باندھ لی حالانکہ اس سے پہلے زمانہ جاہلیت یا زمانہ اسلام میں انہوں نے اسے کبھی نہ پہنا تھا اور فرمایا کہ میں نے آج رات خواب میں نبی ﷺ اور حضرات شیخین کو دیکھا ہے یہ حضرات مجھ سے کہہ رہے تھے کہ صبر کرو، کل کا روزہ تم ہمارے ساتھ افطار کروگے، پھر انہوں نے قرآن شریف کا نسخہ منگوایا اور اسے کھول کر پڑھنے کے لئے بیٹھ گئے اور اسی حال میں انہیں شہید کردیا گیا جب کہ قرآن کریم کا وہ نسخہ ان کے سامنے موجود تھا۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے مروی ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، آپ ﷺ نے تین مرتبہ چہرہ دھویا، تین مرتبہ ہاتھ دھوئے، تین مرتبہ بازو دھوئے سر کا مسح کیا اور پاؤں کو اچھی طرح دھویا۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص تین مرتبہ صبح کے وقت یہ دعا پڑھ لیا کرے اسے رات تک کوئی چیز نقصان نہ پہنچا سکے گی اور جو رات کو پڑھ لے تو صبح تک اسے کوئی چیز نقصان نہ پہنچاسکے گی، انشاء اللہ۔ بسم اللہ الذی لایضر مع الاسمہ شیء فی الارض ولا فی السماء و ہوالسمیع العلیم ہمارے پاس دستیاب نسخے میں یہاں صرف لفظ " حدثنا " لکھا ہوا ہے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
ابان بن عثمان (رح) نے ایک جنازے کو دیکھا تو کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ ایک مرتبہ حضرت عثمان غنی (رض) کی نظر ایک جنازے پر پڑی تو وہ بھی کھڑے ہوگئے اور انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے بھی جنازے کو دیکھا تو کھڑے ہوگئے تھے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا صبح کے وقت سوتے رہنے سے انسان رزق سے محروم ہوجاتا ہے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
فروخ کہتے ہیں کہ میں حضرت عثمان غنی (رض) کی شہادت کے وقت موجود تھا، انہیں ان کے خون آلود کپڑوں ہی میں سپرد خاک کیا گیا اور انہیں غسل بھی نہیں دیا گیا (کیونکہ وہ شہید تھے )
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے مروی ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جس دن اللہ کے سائے کے علاوہ کہیں سایہ نہ ہوگا اللہ اس شخص کو اپنے سائے میں جگہ عطاء فرمائے گا جو کسی تنگدست کو مہلت دے یا مقروض کو چھوڑ دے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا صبح کے وقت سوتے رہنے سے انسان رزق سے محروم ہوجاتا ہے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ محرم خود نکاح کرے اور نہ کسی کا نکاح کروائے بلکہ پیغام نکاح بھی نہ بھیجے۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
نبیہ بن وہب کہتے ہیں کہ ابن معمر نے شیبہ بن جبیر کی بیٹی سے اپنے بیٹے کے نکاح کا دوران حج پروگرام بنایا اور مجھے ابان بن عثمان (رح) کے پاس جو کہ امیر حج تھے بھیجا، میں نے ان کے پاس جا کر کہا کہ آپ کے بھائی اپنے بیٹے کا نکاح کرنا چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ آپ بھی اس میں شرکت کریں انہوں نے کہا کہ میں تو اسے دیہاتی نہیں سمجھتا تھا یاد رکھو ! محرم نکاح کرسکتا ہے اور نہ کسی کا نکاح کرا سکتا ہے، پھر انہوں نے حضرت عثمان (رض) کے حوالے سے اس مضمون کی حدیث سنائی۔
حضرت عثمان (رض) کی مرویات
حضرت عثمان غنی (رض) کی اہلیہ محترمہ نائلہ بنت فرافصہ (رض) کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عثمان (رض) کو اونگھ آئی اور وہ ہلکے سے سوگئے، ذرا دیر بعد ہوشیار ہوئے تو فرمایا کہ یہ لوگ مجھے قتل کر کے رہیں گے، میں نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہ انشاء اللہ ایسا ہرگز نہیں ہوگا بات ابھی اس حد تک نہیں پہنچی، آپ کی رعایا آپ سے محض معمولی سی ناراض ہے، فرمایا نہیں ! میں نے نبی ﷺ اور حضرات شیخین کو خواب میں دیکھا ہے وہ مجھے بتا رہے تھے کہ آج رات تم روزہ ہمارے پاس آکر افطار کروگے۔