309. حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کی مرویات
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کی مرویات
حضرت سلمہ (رض) سے مروہ ہے کہ ایک مرتبہ میں نے ایک شخص کو مقابلہ کی دعوت دی اور اسے قتل کردیا، نبی ﷺ نے اس کا سارا سازوسامان مجھے انعام میں بخش دیا۔
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کی مرویات
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے ایک آدمی کو بائیں ہاتھ سے کھانا کھاتے ہوئے دیکھا تو فرمایا دائیں ہاتھ سے کھاؤ، اس نے کہا کہ میں دائیں ہاتھ سے کھانے کی طاقت نہیں رکھتا، نبی ﷺ نے فرمایا تجھے اس کی توفیق نہ ہو، چناچہ اس کے بعد اس کا داہنا ہاتھ اس کے منہ تک نہیں جاسکا۔
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کی مرویات
حضرت سلمہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے ایک شخص کو قتل کردیا، نبی ﷺ نے فرمایا اسے کس نے قتل کیا ہے ؟ لوگوں نے بتایا ابن اکوع نے، نبی ﷺ نے فرمایا اس کا سارا سازو سامان اسی کا ہوگیا۔
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کی مرویات
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ کا ایک غلام تھا جس کا نام " رباح " تھا۔
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کی مرویات
حضرت سلمہ (رض) سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی ﷺ کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھتے تھے، پھر ہم لوگ اس وقت واپس آتے تھے کہ جب ہمیں باغات میں اتنا بھی سایہ نہ ملتا کہ کوئی شخص وہاں سایہ حاصل کرسکتا ہے۔
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کی مرویات
حضرت سلمہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم نے بنو ہوازن پر حضرت صدیق اکبر (رض) کی معیت میں شب خون مارا انہیں نبی ﷺ نے ہمارا امیر مقرر کیا تھا۔
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کی مرویات
حضرت سلمہ (رض) سے مروی ہے کہ جس رات ہم نے حضرت صدیق اکبر (رض) کی معیت میں " جنہیں نبی ﷺ نے ہمارا امیر مقرر کیا تھا " بنو ہوازن پر حملہ کیا، اس میں باہم پہچاننے کے لئے ہماری شناخت کی علامت یہ لفظ تھا امت امت، اس رات میں نے اپنے ہاتھ سے سات گھرانے والوں کو قتل کیا تھا۔
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کی مرویات
حضرت سلمہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے ایک آدمی کو " جس کا نام بسر بن راعی العیر تھا " بائیں ہاتھ سے کھانا کھاتے ہوئے دیکھا تو فرمایا دائیں ہاتھ سے کھاؤ، اس نے کہا کہ میں دائیں ہاتھ سے کھانے کی طاقت نہیں رکھتا، نبی ﷺ نے فرمایا تجھے اس کی توفیق نہ ہو، چناچہ اس کے بعد اس کا داہنا ہاتھ اس کے منہ تک نہیں جاسکا۔
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کی مرویات
حضرت سلمہ (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص ہمارے اوپر تلوار سونتے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کی مرویات
حضرت سلمہ (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں ایک مرتبہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی کو چھینک آئی، نبی ﷺ نے یرحمک اللہ کہہ کر اسے جواب دیا، اس نے دوبارہ چھینک ماری تو نبی ﷺ نے فرمایا اس شخص کو زکام ہے۔
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کی مرویات
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ سیدنا صدیق اکبر (رض) کے ساتھ نکلے جنہیں نبی ﷺ نے ہمارا امیر مقرر کیا تھا، ہم بنو فزارہ سے جہاد کے لئے جا رہے تھے، جب ہم ایسی جگہ پر پہنچے جو پانی کے قریب تھی تو حضرت صدیق اکبر (رض) نے ہمیں حکم دیا اور ہم نے پڑاؤ ڈال دیا، فجر کی نماز پڑھ کر انہوں نے ہمیں دشمن پر حملہ کا حکم دیا اور ہم ان پر ٹوٹ پڑے اور اس ندی کے قریب بیشمار لوگوں کو قتل کردیا، اچانک میری نظر ایک تیز رفتار گروہ پر پڑی جو پہاڑ کی طرف چلا جا رہا تھا، اس میں عورتیں اور بچے تھے، میں ان کے پیچھے روانہ ہوگیا، لیکن پھر خطرہ ہوا کہ کہیں وہ مجھے سے پہلے ہی پہاڑ تک نہ پہنچ جائیں اس لئے میں نے ان کی طرف ایک تیر پھینکا جو ان کے اوپر پہاڑ کے درمیان جاگرا۔ پھر میں انہیں ہانکتا ہوا حضرت صدیق اکبر (رض) کے پاس لے آیا اور اسی ندی کے پاس پہنچ گیا، ان میں بنو فزارہ کی ایک عورت بھی تھی جس نے چمڑے کی پوستین پہن رکھی تھی، اس کے ساتھ اس کی بیٹی تھی جو عرب کی انتہائی حسین و جمیل لڑکی تھی، اس کی وہ بیٹی حضرت صدیق اکبر (رض) نے مجھے انعام کے طور پر بخش دی، میں نے مدینہ منورہ پہنچنے تک اس کا گھونگھٹ بھی کھول کر نہیں دیکھا، پھر رات ہوئی تب بھی میں نے اس کا گھونگھٹ نہیں ہٹایا، اگلے دن سر بازار نبی ﷺ سے میری ملاقات ہوگئی، نبی ﷺ مجھ سے فرمانے لگے سلمہ ! وہ عورت مجھے ہبہ کردو، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے وہ اچھی لگی ہے اور میں نے اب تک اس کا گھونگھٹ بھی نہیں ہٹایا، یہ سن کر نبی ﷺ خاموش ہوگئے اور مجھے چھوڑ کر چلے گئے، اگلے دن پھر سر بازار نبی ﷺ سے ملاقات ہوئی تو نبی ﷺ نے اپنی بات دہرائی اور مجھے میرے باپ کی قسم دی، میں نے قسم کھا کر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے وہ اچھی لگی ہے اور میں نے اب تک اس کا گھونگھٹ بھی نہیں ہٹایا، لیکن یا رسول اللہ ﷺ ! اب میں وہ آپ کو دیتا ہوں، نبی ﷺ نے وہ لڑکی اہل مکہ کے پاس بھجوادی جن کے قبضے میں بہت سے مسلمان قیدی تھے، نبی ﷺ نے ان کے فدیئے میں اس لڑکی کو پیش کر کے ان قیدیوں کو چھڑا لیا۔
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کی مرویات
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ غزوہ خیبر کے موقع پر نبی ﷺ کی معیت میں میرے بھائی (دوسری روایت کے مطابق چچا) نے سخت جنگ لڑی، لیکن اسی دوران اس کی تلوار اچٹ کر خود اسی پر لگ گئی اور وہ اسی کی دھار سے شہید ہوگیا، نبی ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ان کے متعلق شکوک و شبہات کا اظہار کر کے چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ وہ اپنے ہی ہتھیار سے مارا گیا، نبی ﷺ جب واپس ہوئے تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! کیا آپ کی طرف سے مجھے رجزیہ اشعار پڑھنے کی اجازت ہے ؟ نبی ﷺ نے اجازت دے دی، حضرت عمر (رض) کہنے لگے کہ سوچ سمجھ کر کہنا۔ میں نے شعر پڑھتے ہوئے کہا کہ بخدا ! اگر اللہ نہ ہوتا تو ہم کبھی ہدایت یافتہ نہ ہوتے، صدقہ و خیرات کرتے اور نہ ہی نماز پڑھتے، نبی ﷺ نے فرمایا تم نے سچ کہا، میں نے آگے کہا کہ اے اللہ ! ہم پر سکینہ نازل فرما اور دشمنوں سے آمنا سامنا ہونے پر ہمیں ثابت قدمی عطاء فرما کہ مشرکین نے ہمارے خلاف سرکشی پر کمر باندھ رکھی ہے۔ میں نے جب اپنے رجزیہ اشعار مکمل کئے تو نبی ﷺ نے پوچھا کہ یہ اشعار کس نے کہے ہیں ؟ میں نے عرض کیا میرے بھائی نے کہے، نبی ﷺ نے فرمایا اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! کچھ لوگ ان کی نماز جنازہ پڑھنے سے گھبرا رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اپنے ہتھیار سے ہی مرا ہے، نبی ﷺ نے فرمایا وہ محنت کرتا ہوا مجاہد بن کر شہید ہوا ہے۔ ایک دوسری سند میں یوں بھی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا جو لوگ ان پر نماز جنازہ پڑھنے سے گھبرا رہے ہیں انہیں غلطی لگی ہے، وہ تو محنت کرتا ہوا مجاہد بن کر شہید ہوا ہے اور اسے دوہرا اجر ملے گا، یہ کہہ کر آپ ﷺ نے دو انگلیوں سے اشاردہ فرمایا۔
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کی مرویات
حضرت جابر (رض) اور سلمہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ کسی جہاد میں شریک تھے، اسی دوران ہمارے پاس نبی ﷺ کا ایک قاصد آیا اور کہنے لگا کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے تم عورتوں سے فائدہ اٹھاسکتے ہو۔
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کی مرویات
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ سیدنا صدیق اکبر (رض) کے ساتھ بنو ہوازن سے جہاد کے لئے نکلے، حضرت صدیق اکبر (رض) نے ایک باندی مجھے انعام کے طور پر بخش دی، نبی ﷺ مجھ سے فرمانے لگے سلمہ ! وہ عورت مجھے ہبہ کردو، نبی ﷺ نے وہ لڑکی اہل مکہ کے پاس بھجوادی جن کے قبضے میں بہت سے مسلمان قیدی تھے، نبی ﷺ نے ان کے فدیئے میں اس لڑکی کو پیش کر کے ان قیدیوں کو چھڑا لیا۔
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کی مرویات
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹی بات کی نسبت کرتا ہے، اسے جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لینا چاہئے۔
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کی مرویات
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے عاشورہ کے دن قبیلہ اسلم کے ایک آدمی کو حکم دیا کہ لوگوں میں منادی کر دے کہ جس شخص نے آچ کا روزہ رکھا ہوا ہو، اسے اپنا روزہ پورا کرنا چاہئے اور جس نے کچھ کھاپی لیا ہو، وہ اب کچھ نہ کھائے اور روزے کا وقت ختم ہونے تک اسی طرح مکمل کرے۔
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کی مرویات
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ سے جنگل میں رہنے کی اجازت مانگی تو نبی ﷺ نے انہیں اجازت دے دی۔
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کی مرویات
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ میں نے حدیبیہ کے موقع پر دوسرے لوگوں کے ساتھ نبی ﷺ کے دست حق پرست پر بیعت کی اور ایک طرف کو ہو کر بیٹھ گیا، جب نبی ﷺ کے پاس سے لوگ چھٹ گئے تو نبی ﷺ نے فرمایا ابن اکوع ! تم کیوں نہیں بیعت کر رہے ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! میں بیعت کرچکا ہوں، نبی ﷺ نے فرمایا دوبارہ سہی، راوی نے پوچھا کہ اس دن آپ نے کس چیز پر نبی ﷺ سے بیعت کی تھی ؟ انہوں نے فرمایا موت پر۔
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کی مرویات
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک جنازہ لایا گیا، نبی ﷺ نے پوچھا کیا اس نے اپنے پیچھے کوئی قرض چھوڑا ہے ؟ لوگوں نے بتایا نہیں، نبی ﷺ نے پوچھا کیا اس نے کوئی ترکہ چھوڑا ہے ؟ لوگوں نے بتایا نہیں، نبی ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھا دی، پھر دوسرا جنازہ آیا اور نبی ﷺ نے اس کے متعلق بھی یہی پوچھا کہ اس نے کوئی قرض چھوڑا ہے ؟ لوگوں نے بتایا نہیں، نبی ﷺ نے پوچھا کیا اس نے ترکہ میں کچھ چھوڑا ہے ؟ لوگوں نے بتایا جی ہاں ! تین دینار، نبی ﷺ نے اپنی انگلیوں سے اشارہ کر کے فرمایا جہنم کے تین داغ ہیں، پھر تیسرا جنازہ لایا گیا اور نبی ﷺ نے حسب سابق پوچھا کہ اس نے کوئی قرض چھوڑا ہے ؟ لوگوں نے بتایا جی ہاں ! پھر پوچھا کہ ترکہ میں کچھ چھوڑا ہے ؟ لوگوں نے بتایا جی ہاں ! پھر پوچھا کہ ترکہ میں کچھ چھوڑا ہے ؟ لوگوں نے بتایا نہیں، نبی ﷺ نے فرمایا تو پھر اپنے ساتھی کی نماز جنازہ خود ہی پڑھ لو، اس پر ایک انصاری نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! اس کا قرض میرے ذمے ہے، چناچہ نبی ﷺ نے اس کی بھی نماز جنازہ پڑھا دی۔
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کی مرویات
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ (میرا بھائی) عامر ایک شاعر آدمی تھا، وہ ایک مقام پر پڑاؤ کر کے حدی کے یہ اشعار پڑھنے لگے اے اللہ ! اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہدایت یافتہ نہ ہوتے، ہم صدقہ و خیرات کرتے اور نہ ہی نماز پڑھتے، ہم تیرے لئے قربان ہوں جب ہم آگئے ہیں تو ہماری مغفرت فرما اور دشمن سے آمنا سامنا ہونے پر ہمیں ثابت قدمی عطاء فرما اور ہم پر سکینہ نازل فرما، جب ہمیں آواز دے کر بلایا جاتا ہے تو ہم آجاتے ہیں اور لوگ صرف آواز دے کر ہم پر اعتماد اور بھروسہ کرلیتے ہیں۔ نبی ﷺ نے پوچھا کہ یہ حدی خان کون ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ ابن اکوع ہیں، نبی ﷺ نے فرمایا اللہ اس پر رحم کرے، یہ سن کر ایک آدمی نے کہا واجب ہوگئی، یا رسول اللہ ﷺ ! آپ نے ہمیں اس سے فائدہ کیوں نہ اٹھانے دیا ؟ راوی کہتے ہیں کہ اسی غزوے میں عامر شہید ہوگئے، وہ ایک یہودی کو مارنے کے لئے آگے بڑھے تھے کہ ان کی تلوار کی دھار اچٹ کر انہیں کے گھٹنے پر آلگی اور وہ شہید ہوگئے۔
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کی مرویات
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے عاشورہ کے دن قبیلہ اسلم کے ایک آدمی کو حکم دیا کہ لوگوں میں منادی کردے کہ جس شخص نے آج کا روزہ رکھا ہوا ہو، اسے اپنا روزہ پورا کرنا چاہیے اور جس نے کچھ کھا پی لیا ہو، وہ اب کچھ نہ کھائے اور روزے کا وقت ختم ہونے تک اسی طرح مکمل کرے۔
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کی مرویات
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ جب ہم خیبر سے واپس آرہے تھے تو نبی ﷺ نے متفرق مقامات پر کچھ آگ روشن دیکھی، نبی ﷺ نے پوچھا کہ یہ آگ کس مقصد کے لئے جلا رکھی ہے ؟ لوگوں نے بتایا پالتو گدھوں کا گوشت پکانے کے لئے، نبی ﷺ نے فرمایا ہانڈیاں الٹ دو اور جو کچھ اس میں ہے سب بہا دو ، لوگوں میں سے ایک آدمی نے پوچھا یا رسول اللہ ! کیا اس میں جو کچھ ہے، اسے بہا کر برتن کو بھی دھوئیں ؟ نبی ﷺ نے فرمایا تو اور کیا ؟
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کی مرویات
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں " غابہ " جانے کے لئے مدینہ منورہ سے نکلا، جب میں اس کی چوٹی پر پہنچا تو مجھے حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کا ایک غلام ملا، میں نے اس سے پوچھا ارے کیا بات ہے ؟ (کیوں گھبرائے ہوئے ہو ؟ ) اس نے کہا نبی ﷺ کی اونٹنیاں چھین لی گئی ہیں، میں نے پوچھا کہ کس نے چھینی ہیں ؟ اس نے بتایا کہ ابوغطفان اور بنو فزارہ نے، اس پر میں نے تین مرتبہ اتنی بلند آواز سے " یا صباحاہ " کا نعرہ لگایا کہ مدینہ منورہ کے دونوں کانوں تک میری آواز پہنچ گئی۔ پھر میں وہاں سے ان کے پیچھے روانہ ہوا یہاں تک کہ انہیں جا لیا، انہوں نے واقعتا نبی ﷺ کی اونٹیاں پکڑ لی تھیں، میں ان پر تیروں کی بارش کرنے اور یہ شعر پڑھنے لگا کہ میں ہوں اکوع کا بیٹا، آج کا دشمنوں کو کھٹکھٹانے کا دن ہے، بالآخر میں نے ان سے وہ انٹیاں بازیاب کرا لیں، جبکہ ان لوگوں نے ابھی تک پانی بھی نہیں پیا تھا۔ پھر انہیں ہانکتا ہوا لے کر واپس روانہ ہوگیا، راستے میں نبی ﷺ سے ملاقات ہوگئی، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ وہ لوگ ابھی پیاسے ہی تھے کہ میں نے ان کے پانی پینے سے قبل تیزی سے انہیں جالیا، اس لئے آپ ان کے پیچھے روانہ ہوجائیے، نبی ﷺ نے فرمایا اے ابن اکوع ! تم نے ان پر قابو پالیا (اور اپنی چیز واپس لے لی) اب ان کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرو، اب اپنی قوم میں ان لوگوں کی مہمان نوازی ہو رہی ہوگی۔
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کی مرویات
یزید بن ابوعبید کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت سلمہ بن اکوع کی پنڈلی میں ضرب کا ایک نشان دیکھا، میں نے ان سے پوچھا کہ اے ابومسلم ! یہ نشان کیسا ہے، انہوں نے بتایا کہ مجھے یہ ضرب غزوہ خیبر کے موقع پر لگی تھی، جب مجھے یہ ضرب لگی تو لوگ کہنے لگے کہ سلمہ تو گئے، لیکن پھر مجھے نبی ﷺ کی خدمت میں لایا گیا، نبی ﷺ نے اس پر تین مرتبہ پھونک ماری اور اب تک مجھے دوبارہ اس کی تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کی مرویات
یزید بن ابوعبید (رح) کہتے ہیں کہ میں حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کے ساتھ مسجد میں آتا تھا، وہ اس ستون کے پاس نماز پڑھتے تھے جو مصحف کے قریب تھا، میں نے پوچھا اے ابومسلم ! میں آپ کو اس ستون کا خاص اہتمام کرتے ہوئے دیکھتا ہوں، اس کی کیا وجہ ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ کو اہتمام کے ساتھ اس ستون کے قریب نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کی مرویات
حضرت سلمہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا قبیلہ اسلم کو اللہ سلامت رکھے اور قبیلہ غفار کی اللہ بخشش فرمائے، بخدا ! میں یہ نہیں کہتا، یہ اللہ کا کہنا ہے۔
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کی مرویات
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) فرماتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ کے ساتھ حدیبیہ کے مقام پر آئے اور ہم چودہ سو کی تعداد میں تھے اور ہمارے پاس پچاس بکریاں تھیں وہ سیراب نہیں ہو رہی تھیں راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ کنوئیں کے کنارے بیٹھ گئے اور بیٹھ کر یا تو آپ نے دعا فرمائی اور یا اس میں آپ نے اپنا لعاب دہن ڈالا۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر اس کنوئیں میں جوش آگیا۔ پھر ہم نے اپنے جانوروں کو بھی سیراب کیا اور خود ہم بھی سیراب ہوگئے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ہمیں درخت کی جڑ میں بیٹھ کر بیعت کے لئے بلایا۔ راوی کہتے ہیں کہ لوگوں میں سے سب سے پہلے میں نے بیعت کی پھر اور لوگوں نے بیعت کی یہاں تک کہ جب آدھے لوگوں نے بیعت کرلی تو آپ نے فرمایا سلمہ بیعت کرو۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میں تو سب سے پہلے بیعت کرچکا ہوں آپ نے فرمایا پھر دوبارہ کرلو اور رسول اللہ ﷺ نے مجھے دیکھا کہ میرے پاس کوئی اسلحہ وغیرہ نہیں ہے تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے ایک ڈھال عطا فرمائی (اس کے بعد) پھر بیعت کا سلسلہ شروع ہوگیا جب سب لوگوں نے بیعت کرلی تو آپ نے فرمایا اے سلمہ ! کیا تو نے بیعت نہیں کی ؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! لوگوں میں سب سے پہلے تو میں نے بیعت کی اور لوگوں کے درمیان میں بھی میں نے بیعت کی۔ آپ نے فرمایا پھر کرلو۔ حضرت سلمہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے تیسری مرتبہ بیعت کی پھر آپ نے مجھے فرمایا اے سلمہ ! وہ ڈھال کہاں ہے جو میں نے تجھے دی تھی ؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میرے چچا عامر کے پاس کوئی اسلحہ وغیرہ نہیں تھا وہ ڈھال میں نے ان کو دے دی۔ حضرت سلمہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مسکرا پڑے اور فرمایا کہ تو بھی اس آدمی کی طرح ہے کہ جس نے سب سے پہلے دعا کی تھی، اے اللہ ! مجھے وہ دوست عطا فرما جو مجھے میری جان سے زیادہ پیارا ہو پھر مشرکوں نے ہمیں صلح کا پیغام بھیجا یہاں تک کہ ہر ایک جانب کا آدمی دوسری جانب جانے لگا اور ہم نے صلح کرلی۔ حضرت سلمہ (رض) کہتے ہیں کہ میں حضرت طلحہ بن عبیداللہ کی خدمت میں تھا اور میں ان کے گھوڑے کو پانی پلاتا تھا اور اسے چرایا کرتا اور ان کی خدمت کرتا اور کھانا بھی ان کے ساتھ ہی کھاتا کیونکہ میں اپنے گھروالوں اور اپنے مال و اسباب کو چھوڑ کر اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کر آیا تھا۔ پھر جب ہماری اور مکہ والوں کی صلح ہوگئی اور ایک دوسرے سے میل جول ہونے لگا تو میں ایک درخت کے پاس آیا اور اس کے نیچے سے کانٹے وغیرہ صاف کر کے اس کی جڑ میں لیٹ گیا اسی دوران مکہ کے مشرکوں میں سے چار آدمی آئے اور رسول اللہ کو برا بھلا کہنے لگا۔ مجھے ان مشرکوں پر بڑا غصہ آیا پھر میں دوسرے درخت کی طرف آگیا اور انہوں نے اپنا اسلحہ لٹکایا اور لیٹ گئے، وہ لوگ اس حال میں تھے کہ اسی دوران وادی کے نشیب میں سے ایک پکارنے والے نے پکارا اے مہاجرین ! ابن زنیم شہید کردئیے گئے، میں نے یہ سنتے ہی اپنی تلوار سیدھی کی اور پھر میں نے ان چاروں پر اس حال میں حملہ کیا کہ وہ سو رہے تھے اور ان کا اسلحہ میں نے پکڑ لیا اور ان کا ایک گٹھا بنا کر اپنے ہاتھ میں رکھا پھر میں نے کہا قسم ہے اس ذات کی کہ جس نے حضرت محمد کے چہرہ اقدس کو عزت عطا فرمائی تم میں سے کوئی اپنا سر نہ اٹھائے ورنہ میں تمہارے اس حصہ میں ماروں گا کہ جس میں دونوں آنکھیں ہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر میں ان کو کھینچتا ہوا رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میرے چچا حضرت عامر بھی ابن مکرز کے ساتھ مشرکوں کے ستر آدمیوں کو گھسیٹ کر رسول اللہ کی خدمت میں لائے رسول اللہ ﷺ نے ان کی طرف دیکھا اور پھر فرمایا ان کو چھوڑ دو کیونکہ جھگڑے کی ابتداء بھی انہی کی طرف سے ہوئی اور تکرار بھی انہی کی طرف سے، الغرض رسول اللہ ﷺ نے ان کو معاف فرما دیا اور اللہ تعالیٰ نے یہ (آیت مبارکہ) نازل فرمائی اور وہ اللہ کہ جس نے ان کے ہاتھوں کو تم سے روکا اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے روکا مکہ کی وادی میں اس کے بعد تم کو ان پر فتح اور کامیابی دے دی تھی، پھر ہم مدینہ منورہ کی طرف نکلے، راستہ میں ہم ایک جگہ اترے جس جگہ ہمارے اور بنی لحیان کے مشرکوں کے درمیان ایک پہاڑ حائل تھا، رسول اللہ ﷺ نے اس آدمی کے لئے مغفرت کی دعا فرمائی جو آدمی اس پہاڑ پر چڑھ کر نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ کے لئے پہرہ دے، حضرت سلمہ فرماتے ہیں کہ میں اس پہاڑ پر دو یا تین مرتبہ چڑھا پھر ہم مدینہ منورہ پہنچ گئے، رسول اللہ ﷺ نے اپنے اونٹ رباح کے ساتھ بھیج دیئے جو کہ رسول اللہ کا غلام تھا، میں بھی ان اونٹوں کے ساتھ حضرت ابوطلحہ کے گھوڑے پر سوار ہو کر نکلا، جب صبح ہوئی تو عبدالرحمن فزاری نے رسول اللہ کے اونٹوں کو لوٹ لیا اور ان سب اونٹوں کو ہانک کرلے گیا اور اس نے آپ کے چرواہے کو قتل کردیا۔
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کی مرویات
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے کسی مقام پر پڑاؤ کیا، مشرکین کا ایک جاسوس خبر لینے کے لئے آیا، اس وقت نبی ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ صبح کا ناشتہ کر رہے تھے، انہوں نے اسے بھی (مہمان ظاہر کر کے) کھانے کی دعوت دے دی، جب وہ آدمی کھانے سے فارغ ہوا تو اپنی سواری پر سوار ہو کر واپس روانہ ہو تاکہ اپنے ساتھیوں کو خبردار کرسکے، میں نے اس کا پیچھا کر کے اس کی سواری کو بٹھایا اور اس کی گردن اڑادی، نبی ﷺ نے اس کا سازوسامان مجھے بطور انعام کے دے دیا۔
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کی مرویات
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی ﷺ سے عرض کیا کہ بعض اوقات میں شکار میں مشغول ہوتا ہوں، کیا میں اپنی قمیص میں ہی نماز پڑھ سکتا ہوں ؟ نبی ﷺ نے فرمایا اسے بٹن لگالیا کرو اگرچہ کانٹا ہی ملے۔
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کی مرویات
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا جب نماز عشاء اور رات کا کھانا جمع ہوجائیں تو پہلے کھانا کھالیا کرو۔
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کی مرویات
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی ﷺ سے عرض کیا کہ بعض اوقات میں شکار میں مشغول ہوتا ہوں، کیا میں اپنی قمیص میں ہی نماز پڑھ سکتا ہوں ؟ نبی ﷺ نے فرمایا اسے بٹن لگالیا کرو، اگرچہ کانٹا ہی ملے۔
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کی مرویات
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں ہوازن کے خلاف جہاد میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھا، نبی ﷺ نے کسی مقام پر پڑاؤ کیا، مشرکین کا ایک جاسوس خبر لینے کے لئے آیا، اس وقت نبی ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ صبح کا ناشتہ کر رہے تھے، انہوں نے اسے بھی مہمان ظاہر کر کے کھانے کی دعوت دے دی، جب وہ آدمی کھانے سے فارغ ہوا تو اپنی سواری پر سوار ہو کر واپس روانہ ہوا تاکہ اپنے ساتھیوں کو خبردار کرسکے، نبی ﷺ کے صحابہ میں سے قبیلہ اسلم کا ایک آدمی بہترین قسم کی خاکستیری اونٹنی پر سوار ہو کر اس کے پیچھے لگ گیا، میں بھی دوڑتا ہوا نکلا اور اسے پکڑ لیا، اونٹنی کا سر اونٹ کے سرین کے پاس تھا اور میں اونٹنی کے سرین کے پاس، میں تھوڑا سا آگے بڑھ کر اونٹ کے سرین کے قریب ہوگیا، پھر تھوڑا سا قریب ہو کر اس کے اونٹ کی لگام پکڑ لی، میں نے اس کی سواری کو بٹھایا اور جب وہ بیٹھ گئی تو میں نے اس کی گردن اڑادی، میں اس کی سواری اور اس کے سازوسامان کو لے کر ہانکتا ہوا نبی ﷺ کی طرف روانہ ہوا راستہ میں نبی ﷺ سے آمنا سامنا ہوگیا، نبی ﷺ نے فرمایا اس شخص کو کس نے قتل کیا ؟ لوگوں نے کہا ابن اکوع نے، نبی ﷺ نے فرمایا اس کا سازوسامان بھی اسی کا ہوگیا۔
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کی مرویات
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹی بات کی نسبت کرتا ہے، اسے جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لینا چاہیے۔
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کی مرویات
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی ﷺ کے ہمراہ خیبر کی طرف روانہ ہوئے، لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا اے عامر ! ہمیں حدی کے اشعار تو سناؤ، وہ اتر کر اشعار پڑھنے لگے اور یہ شعر پڑھا واللہ اگر اللہ نہ ہوتا تو ہم ہدایت یافتہ نہ ہوتے، اس کے علاوہ بھی انہوں نے اشعار پڑھے جو مجھے یاد نہیں، نبی ﷺ نے فرمایا یہ حدی خوان کون ہے ؟ لوگوں نے بتایا عامر بن اکوع، نبی ﷺ نے فرمایا اللہ اس پر رحم کرے، تو ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے نبی ﷺ ! آپ نے ہمیں اس سے فائدہ کیوں نہ اٹھانے دیا ؟ بہرحال ! جب لوگوں نے لڑائی کے لئے صف بندی کی تو دوران جنگ عامر کو اپنی ہی تلوار کی دھار لگ گئی اور وہ اس سے جاں بحق ہوگئے، جب رات ہوئی تو لوگوں نے بہت زیادہ آگ جلائی، نبی ﷺ نے فرمایا یہ کیسی آگ ہے اور کس چیز پر جلائی گئی ہے ؟ لوگوں نے بتایا پالتو گدھوں پر ؟ نبی ﷺ نے فرمایا اس میں جو کچھ ہے سب بہادو اور ہنڈیاں توڑ دو ، ایک آدمی نے پوچھا کہ برتن میں جو کچھ ہے، اسے بہا کر برتن دوھ نہ لیں، نبی ﷺ نے فرمایا تو اور کیا ؟
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کی مرویات
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے عاشورہ کے دن قبیلہ اسلم کے ایک آدمی کو حکم دیا کہ لوگوں میں منادی کر دے کہ جس شخص نے آج کا روزہ رکھا ہوا ہو، اسے اپنا روزہ پورا کرنا چاہئے اور جس نے کچھ کھا پی لیا ہو، وہ اب کچھ نہ کھائے اور روزے کا وقت ختم ہونے تک اسی طرح مکمل کرے۔
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کی مرویات
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک جنازہ لایا گیا، نبی ﷺ نے پوچھا کیا اس نے اپنے پیچھے کوئی قرض چھوڑا ہے ؟ لوگوں نے بتایا نہیں، نبی ﷺ نے پوچھا کیا اس نے کوئی ترکہ چھوڑا ہے ؟ لوگوں نے بتایا نہیں، نبی ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھا دی، پھر دوسرا جنازہ آیا اور نبی ﷺ نے اس کے متعلق بھی یہی پوچھا کہ اس نے کوئی قرض چھوڑا ہے ؟ لوگوں نے بتایا نہیں، نبی ﷺ نے پوچھا کیا اس نے ترکہ میں کچھ چھوڑا ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ جی ہاں تین دینار، نبی ﷺ نے اپنی انگلیوں کی طرف اشارہ کر کے فرمایا جہنم کے تین داغ ہیں، پھر تیسرا جنازہ لایا گیا اور نبی ﷺ نے حسب سابق پوچھا کہ اس نے کوئی قرض چھوڑا ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ جی ہاں ! پھر پوچھا کہ ترکہ میں کچھ چھوڑا ؟ لوگوں نے بتایا نہیں ! نبی ﷺ نے فرمایا تو پھر اپنے ساتھی کی نماز جنازہ خود ہی پڑھ لو، اس پر ایک انصاری صحابی جن کا نام ابوقتادہ تھا نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اس کا قرض میرے ذمے ہے، چناچہ نبی ﷺ نے اس کی بھی نماز جنازہ پڑھا دی۔
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کی مرویات
حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ قبیلہ اسلم کے ایک گروہ کے پاس سے گذرے جو کہ بازار میں تیر اندازی کی مشق کر رہے تھے، نبی ﷺ نے فرمایا اے بنی اسماعیل ! تیر اندازی کرتے رہو کیونکہ تمہارے جد امجد (حضرت اسماعیل علیہ السلام) بھی تیر انداز تھے، تیرا اندازی کرو اور میں بھی فلاں گروہ کے ساتھ شریک ہوجاتا ہوں، اس پر دوسرے فریق نے اپنے ہاتھ کھینچ لئے، نبی ﷺ نے فرمایا تیر پھینکو، وہ کہنے لگے یا رسول اللہ ! ہم کیسے تیر پھینکیں جبکہ ان کے ساتھ تو آپ بھی ہیں، نبی ﷺ نے فرمایا تم لوگ تیر پھینکو میں تم سب کے ساتھ ہوں۔