316. حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی (رض) کی حدیثیں
حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی (رض) کی حدیثیں
حضرت ربیعہ بن کعب (رض) سے مروی ہے کہ میں نبی ﷺ کے حجرہ مبارکہ میں سویا کرتا تھا میں سنتا تھا کہ نبی ﷺ جب بھی نماز کے لئے بیدار ہوتے تو کافی دیر تک الحمد للہ رب العالمین کہتے رہتے پھر کافی دیر تک سبحان اللہ العظیم وبحمدہ کہتے رہتے۔
حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی (رض) کی حدیثیں
حضرت ربیعہ بن کعب (رض) سے مروی ہے کہ میں نبی ﷺ کے حجرہ مبارکہ میں سویا کرتا تھا تاکہ وضو کا پانی پیش کرسکوں میں سنتا تھا کہ نبی ﷺ جب بھی نماز کے لئے بیدار ہوتے تو کافی دیر تک الحمد للہ رب العالمین کہتے رہتے پھر کافی دیر تک سبحان اللہ العظیم وبحمدہ کہتے رہتے۔
حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی (رض) کی حدیثیں
حضرت ربیعہ بن کعب (رض) سے مروی ہے کہ میں نبی ﷺ کے حجرہ مبارکہ میں سویا کرتا تھا تاکہ وضو کا پانی پیش کرسکوں، میں سنتا تھا کہ نبی ﷺ جب بھی نماز کے لئے بیدار ہوتے تو کافی دیر تک الحمد للہ رب العالمین کہتے رہتے، پھر کافی دیر تک سبحان اللہ العظیم وبحمدہ کہتے رہتے۔
حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی (رض) کی حدیثیں
حضرت ربیعہ اسلمی (رض) سے مروی ہے کہ میں نبی ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا ایک دن نبی ﷺ نے مجھ سے فرمایا ربیعہ ! تم شادی کیوں نہیں کرلیتے ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! واللہ میں تو شادی نہیں کرنا چاہتا کیونکہ ایک تو میرے پاس اتنا نہیں ہے کہ عورت کی ضروریات پوری ہوسکیں اور دوسری بات یہ بھی ہے کہ مجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ کوئی چیز مجھے آپ سے دور کردے، نبی ﷺ نے یہ سن کر مجھ سے اعراض فرما لیا اور میں آپ کی خدمت کرتا رہا۔ کچھ عرصہ بعد نبی ﷺ نے دوبارہ مجھ سے یہی فرمایا کہ ربیعہ ! تم شادی کیوں نہیں کرلیتے ؟ میں نے حسب سابق وہی جواب دے دیا لیکن پھر میں اپنے دل میں سوچنے لگا کہ مجھ سے زیادہ نبی ﷺ جانتے ہیں کہ دنیا و آخرت میں میرے لئے کیا چیز بہتر ہے، اس لئے اب اگر نبی ﷺ نے دوبارہ فرمایا تو میں کہہ دوں گا ٹھیک ہے یا رسول اللہ ! آپ مجھے جو چاہیں حکم دیں۔ چناچہ جب تیسری مرتبہ نبی ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ ربیعہ تم شادی کیوں نہیں کرلیتے ؟ تو میں نے عرض کیا کیوں نہیں ! آپ مجھے جو چاہیں حکم دیجئے، نبی ﷺ نے انصار کے ایک قبیلے کا نام لے کر جن کے ساتھ نبی ﷺ کا تعلق تھا، فرمایا ان کے پاس چلے جاؤ اور جا کر کہو کہ نبی ﷺ نے مجھے آپ لوگوں کے پاس بھیجا ہے اور یہ حکم دیا ہے کہ آپ لوگ فلاں عورت کے ساتھ میرا نکاح کردیں۔ چناچہ میں ان کے پاس چلا گیا اور انہیں نبی ﷺ کا یہ پیغام سنا دیا، انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور کہنے لگے کہ نبی ﷺ کا قاصد اپنا کام مکمل کئے بغیر نہیں جائے گا، چناچہ انہوں نے اس عورت کے ساتھ میرا نکاح کردیا اور میرے ساتھ خوب مہربانی کے ساتھ پیش آئے اور مجھ سے گواہوں کا بھی مطالبہ نہ کیا، وہاں سے لوٹ کر میں نبی ﷺ کی خدمت میں غمگین ہو کر حاضر ہوا، نبی ﷺ نے پوچھا ربیعہ ! تمہیں کیا ہوا ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں ایک شریف قوم کے پاس پہنچا، انہوں نے میرا نکاح کرادیا میرا اکرام کیا اور مہربانی سے پیش آئے اور مجھ سے گواہوں کا بھی مطالبہ نہیں کیا (ایسے شریف لوگوں کی عورت کو دینے کے لئے) میرے پاس مہر بھی نہیں ہے، نبی ﷺ نے حضرت بریدہ سے فرمایا اے بریدہ اسلمی ! اس کے لئے کھجور کی گٹھلی کے برابر سونا جمع کرو، انہوں نے اسے جمع کیا اور میں وہ لے کر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، نبی ﷺ نے فرمایا یہ سونا ان لوگوں کے پاس لے جاؤ اور ان سے کہو کہ یہ اس لڑکی کا مہر ہے، چناچہ میں نے ان کے پاس پہنچ کر یہی کہہ دیا کہ یہ اس کا مہر ہے، انہوں نے رضامندی سے اسے قبول کرلیا اور کہنے لگے کہ بہت ہے اور پاکیزہ (حلال) ہے۔ تھوڑی دیر بعد میں پھر نبی ﷺ کے پاس غمگین ہو کر واپس آگیا، نبی ﷺ نے پوچھا ربیعہ ! اب کیوں غمگین ہو ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں نے ان لوگوں سے زیادہ شریف لوگ کہیں نہیں دیکھے، میں نے انہیں جو دے دیا، وہ اسی پر راضی ہوگئے اور تحسین کرتے ہوئے کہنے لگے کہ بہت ہے اور پاکیزہ (حلال) ہے، ایسے لوگوں کو دعوت ولیمہ کھلانے کے لئے میرے پاس کچھ نہیں ہے تو نبی ﷺ نے پھر حضرت بریدہ سے فرمایا کہ اس کے لئے ایک بکری لاؤ، چناچہ وہ ایک نہایت صحت مند اور بہت بڑا مینڈھا لے کر آئے، پھر نبی ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ عائشہ کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ وہ تھیلی دے دیں جس میں غلہ رکھا ہوا ہے، چناچہ میں نے ان کے پاس جا کر نبی ﷺ کا پیغام پہنچا دیا، انہوں نے فرمایا کہ یہ تھیلی ہے، اس میں نو صاع جَو ہے اور بخدا ! اس کے علاوہ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے، یہی لے جاؤ، چناچہ میں وہ تھیلی لے کر نبی ﷺ کے پاس آیا اور حضرت عائشہ کا پیغام پہنچا دیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا یہ دونوں چیزیں ان لوگوں کے پاس لے جاؤ اور ان سے کہو کہ اس کی روٹیاں بنالیں، چناچہ میں ان کے پاس چلا گیا اور وہ مینڈھا بھی ساتھ لے گیا، میرے ساتھ قبیلہ اسلم کے کچھ لوگ تھے وہاں پہنچ کر ان لوگوں سے کہا کہ اس آٹے کی روٹیاں پکالیں اور اس مینڈھے کا گوشت پکا لیں، وہ کہنے لگے کہ روٹیوں کے معاملے میں ہم آپ کی کفایت کریں گے اور مینڈھے کے معاملے میں آپ ہماری کفایت کرو، چناچہ میں نے اور میرے ساتھیوں نے مل کر مینڈھے کو پکڑا، اسے ذبح کیا، اس کی کھال اتاری اور اسے پکانے لگے، اس طرح روٹی اور گوشت تیار ہوگیا اور میں نے اپنا ولیمہ کردیا اور اس میں نبی ﷺ کو بھی دعوت دی۔ کچھ عرصے کے بعد نبی ﷺ نے مجھے زمین کا ایک ٹکڑا مرحمت فرمادیا اور اس کے ساتھ ہی حضرت صدیق اکبر کو بھی ایک ٹکڑا دے دیا، جب دنیا آئی تو ایک مرتبہ ہم دونوں کے درمیان کھجور کے ایک درخت کے متعلق اختلاف رائے ہوگیا میں کہتا تھا کہ یہ درخت میری حدود میں ہے اور حضرت صدیق اکبر کا کہنا تھا کہ یہ میری حدود میں ہے میرے اور ان کے درمیان اس بات پر تکرار ہونے لگی تو حضرت ابوبکر نے مجھے ایک ایسا لفظ کہہ دیا جس پر بعد میں وہ خود پشیمان ہونے لگے اور فرمانے لگے ربیعہ ! تم بھی مجھے اسی طرح کا لفظ کہہ دو تاکہ معاملہ برابر ہوجائے، میں نے کہا کہ میں تو ایسا نہیں کروں گا، حضرت صدیق اکبر نے فرمایا یا تم یہ لفظ کہہ دو ، ورنہ میں نبی ﷺ کے سامنے تمہارے خلاف استغاثہ کروں گا، میں نے پھر کہا کہ میں تو ایسا نہیں کروں گا۔ اس پر حضرت صدیق اکبر زمین چھوڑ کر نبی ﷺ کی خدمت میں روانہ ہوگئے، میں بھی ان کے پیچھے روانہ ہونے لگا تو قبیلہ اسلم کے کچھ لوگ میرے پاس آئے اور مجھ سے کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ ابوبکر پر رحم فرمائے، وہ کس بناء پر تمہارے خلاف نبی ﷺ کے سامنے استغاثہ کر رہے ہیں جبکہ خود ہی انہوں نے ایسی بات کہی ہے ؟ میں نے انہیں جواب دیا کہ تم جانتے ہو یہ کون ہیں ؟ یہ ابوبکر صدیق ہیں، یہ ثانی اثنین ہیں، یہ ذو شیبۃ المسلمین ہیں، تم لوگ واپس چلے جاؤ، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں دیکھ لیں کہ تم میری مدد کے لئے آئے ہو اور وہ غضب ناک ہو کر نبی ﷺ کے پاس پہنچیں، انہیں غصے میں دیکھ کر نبی ﷺ کو غصہ آجائے گا اور ان کے غصے کی وجہ سے اللہ کو غصہ آجائے گا اور ربیعہ ہلاک ہوجائے گا، انہوں نے پوچھا کہ پھر آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟ میں نے کہا کہ تم لوگ واپس چلے جاؤ، پھر میں اکیلا ہی حضرت صدیق اکبر کے پیچھے روانہ ہوگیا، حضرت صدیق اکبر نے بارگاہ نبوت میں حاضر ہو کر سارا واقعہ بعینہ بتادیا، نبی ﷺ نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور فرمایا ربیعہ ! صدیق کے ساتھ تمہارا کیا جھگڑا ہے ؟ میں عرض کیا یا رسول اللہ ! ایسی ایسی بات ہوئی تھی اور انہوں نے ایک ایسا لفظ کہہ دیا تھا جس پر بعد میں خود انہیں ناپسندیدگی ہوئی اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم بھی میری طرح یہ جملہ مجھے کہہ دو تاکہ معاملہ برابر ہوجائے، لیکن میں نے انکار کردیا، نبی ﷺ نے فرمایا ٹھیک ہے، تم وہی جملہ نہ دہراؤ، یہ کہہ دو کہ اے ابوبکر ! اللہ آپ کو معاف فرمائے، چناچہ میں نے یہی الفاظ کہہ دیئے اور حضرت صدیق اکبر روتے ہوئے واپس چلے گئے۔
حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی (رض) کی حدیثیں
حضرت ربیعہ بن کعب (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے مجھ سے فرمایا مانگو، میں تمہیں عطاء کروں گا، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے کچھ سوچنے کی مہلت دیجئے، نبی ﷺ نے فرمایا تم سوچ بچار کرلو، میں نے سوچا کہ دنیا کی زندگی تو گذر ہی جائے گی، لہذا آخرت سے بہتر مجھے اپنے لئے کوئی چیز محسوس نہ ہوئی، چناچہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگیا، نبی ﷺ نے پوچھا تمہاری کیا ضرورت ہے ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اپنے پروردگار سے سفارش کر دیجئے کہ وہ مجھے جہنم سے آزادی کا پروانہ عطاء کردے، نبی ﷺ نے پوچھا تمہیں یہ بات کس نے بتائی ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اللہ کی قسم ! مجھے یہ بات کسی نے نہیں سمجھائی، بلکہ میں نے خود ہی اپنے معاملے میں غور و فکر کیا کہ دنیا تو دنیا والوں سے بھی چھن جاتی ہے لہذا میں نے سوچا کہ آخرت کے لئے درخواست پیش کردیتا ہوں، نبی ﷺ نے فرمایا تو پھر سجدوں کی کثرت کے ساتھ میری مدد کرو۔
حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی (رض) کی حدیثیں
حضرت ربیعہ بن کعب (رض) سے مروی ہے کہ میں نبی ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا اور سارا دن ان کے کام کاج میں لگا رہتا تھا، جب نبی ﷺ نماز عشاء پڑھ لیتے اور اپنے گھر میں چلے جاتے تو میں ان کے دروازے پر بیٹھ جاتا اور یہ سوچتا کہ ہوسکتا ہے نبی ﷺ کو کوئی کام پڑجائے، میں نبی ﷺ کو مسلسل سبحان اللہ وبحمدہ کہتے ہوئے سنتا، حتی کہ تھک کر واپس آجاتا یا نیند سے مغلوب ہو کر سو جاتا، ایک مرتبہ نبی ﷺ نے میری خدمت اور اپنے آپ کو ہلکان کرنے کو دیکھ کر مجھ سے فرمایا مانگو، میں تمہیں عطاء کروں گا، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے کچھ سوچنے کی مہلت دیجئے، نبی ﷺ نے فرمایا تم سوچ بچار کرلو، میں نے سوچا کہ دنیا کی زندگی تو گذر ہی جائے گی، لہذا آخرت سے بہتر مجھے اپنے لئے کوئی چیز محسوس نہ ہوئی، چناچہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگیا، نبی ﷺ نے پوچھا تمہاری کیا ضرورت ہے ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اپنے پروردگار سے سفارش کر دیجئے کہ وہ مجھے جہنم سے آزادی کا پروانہ عطاء کردے، نبی ﷺ نے پوچھا تمہیں یہ بات کس نے بتائی ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اللہ کی قسم ! مجھے یہ بات کسی نے نہیں سمجھائی، بلکہ میں نے خود ہی اپنے معاملے میں غور و فکر کیا کہ دنیا تو دنیا والوں سے بھی چھن جاتی ہے لہذا میں نے سوچا کہ آخرت کے لئے درخواست پیش کردیتا ہوں، نبی ﷺ نے فرمایا تو پھر سجدوں کی کثرت کے ساتھ میری مدد کرو۔