364. قیصر کے پیغامبر کی روایت
قیصر کے پیغامبر کی روایت
سعید بن ابوراشد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حمص میں میری ملاقات تنوخی سے ہوئی جو نبی ﷺ کے پاس ہرقل کے ایلچی بن کر آئے تھے، وہ میرے پڑوسی تھے، انتہائی بوڑھے ہوچکے تھے اور سٹھیا جانے کی عمر تک پہنچ چکے تھے، میں نے ان سے کہا کہ آپ مجھے نبی ﷺ کے نام ہرقل کے خط اور ہرقل کے نام نبی ﷺ کے خط کے بارے کچھ بتاتے کیوں نہیں ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں، نبی ﷺ تبوک میں تشریف لائے ہوئے تھے، آپ نے حضرت دحیہ کلبی کو ہرقل کے پاس بھیجا، جب ہرقل کے پاس نبی ﷺ کا مبارک خط پہنچا تو اس نے رومی پادریوں اور سرداروں کو جمع کیا اور کمرے کا دروازہ بند کرلیا اور ان سے کہنے لگا کہ یہ آدمی میرے پاس آیا ہے جیسا کہ تم نے دیکھ ہی لیا ہے، مجھے جو خط بھیجا گیا ہے، اس میں مجھے تین میں سے کسی ایک صورت کو قبول کرنے کی دعوت دی گئی ہے، یا تو میں ان کے دین کی پیروی کرلوں یا انہیں زمین پر مال کی صورت میں ٹیکس دوں اور زمین ہمارے پاس ہی رہے، یا پھر ان سے جنگ کروں، اللہ کی قسم ! آپ لوگ جو کتابیں پڑھتے ہو، ان کی روشنی میں آپ جانتے ہو کہ وہ میرے ان قدموں کے نیچے کی جگہ بھی حاصل کرلیں گے، تو کیوں نہ ہم ان کے دین کی پیروی کرلیں یا اپنی زمین کا مال کی صورت میں ٹیکس دے دیا کریں۔ یہ سن کر ان سب کے نرخروں سے ایک جیسی آواز نکلنے لگی، حتی کہ انہوں نے اپنی ٹوپیاں اتاردیں اور کہنے لگے کہ کیا آپ ہمیں عیسائیت چھوڑنے کی دعوت دے رہے ہیں یا یہ کہ ہم کسی دیہاتی کے جو حجاز سے آیا ہے، غلام بن جائیں، جب ہرقل نے دیکھا کہ اگر یہ لوگ اس کے پاس سے اسی حال میں چلے گئے تو وہ پورے روم میں اس کے خلاف فساد برپا کردیں گے تو اس نے فورا پینترا بدل کر کہا کہ میں نے تو یہ بات محض اس لئے کہی تھی کہ اپنے دین پر تمہارا جماؤ اور مضبوطی دیکھ سکوں۔ پھر اس نے عرب تجیب کے ایک آدمی کو جو نصار عرب پر امیر مقرر تھا، بلایا اور کہا کہ میرے پاس ایسے آدمی کو بلا کر لاؤ جو حافظہ کا قوی ہو اور عربی زبان جانتاہو، تاکہ میں اسے اس شخص کی طرف اس کے خط کا جواب دے کر بھیجوں، وہ مجھے بلا لایا، ہرقل نے اپنا خط میرے حوالے کردیا اور کہنے لگا کہ میرا یہ خط اس شخص کے پاس لے جاؤ، اگر اس کی ساری باتیں تم یاد نہ رکھ سکو تو کم از کم تین چیزیں ضرور یاد رکھ لینا، یہ دیکھنا کہ وہ میری طرف بھیجے ہوئے اپنے خط کا کوئی ذکر کرتے ہیں یا نہیں ؟ یہ دیکھنا کہ جب وہ میرا خط پڑھتے ہیں تورات کا ذکر کرتے ہیں یا نہیں ؟ اور ان کی پشت پر دیکھنا، تمہیں کوئی عجیب چیز دکھائی دیتی ہے یا نہیں ؟ میں ہرقل کا خط لے کر روانہ ہو اور تبوک پہنچا، نبی ﷺ اپنے صحابہ کے درمیان پانی کے قریبی علاقے میں اپنی ٹانگوں کے گرد ہاتھوں سے حلقہ بنا کر بیٹھے ہوئے تھے، میں نے لوگوں سے پوچھا کہ تمہارے ساتھی کہاں ہیں ؟ انہوں نے مجھے اشارہ سے بتادیا، میں چلتا ہوا آیا اور نبی ﷺ کے سامنے بیٹھ گیا، انہیں خط پکڑایا جسے انہوں نے اپنی گود میں رکھ لی اور اور مجھ سے پوچھا کہ تمہارا تعلق کہاں سے ہے ؟ میں نے کہا کہ میں ایک تنوخی آدمی ہوں، نبی ﷺ نے پوچھا کہ تمہیں ملت حنیفیہ اسلام جو تمہارے باپ ابراہیم کی ملت ہے میں کوئی رغبت محسوس ہوتی ہے ؟ میں نے کہا میں ایک قوم کا قاصد ہوں اور ایک قوم کے دین پر ہوں، میں جب تک ان کے پاس لوٹ نہ جاؤں اس دین سے برگشتہ نہیں ہوسکتا، اس پر نبی ﷺ مسکرا کر یہ آیت پڑھنے لگے کہ، جسے آپ چاہیں اسے ہدایت نہیں دے سکتے، البتہ اللہ جسے چاہتا ہے، ہدایت دے دیتا ہے اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو زیادہ جانتا ہے۔ اے تنوخی بھائی ! میں نے ایک خط کسری کی طرف لکھا تھا، اس نے اسے ٹکڑے ٹکڑے کردیا، اللہ اسے اور اس کی حکومت کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کردے گا، میں نے نجاشی کی طرف بھی خط لکھا تھا، اس نے اسے پھاڑ دیا، اللہ اسے اور اس کی حکومت کو توڑ پھوڑ دے گا، میں نے تمہارے بادشاہ کو بھی خط لکھا لیکن اس نے اسے محفوظ کرلیا، لہذا جب تک زندگی میں کوئی خیر رہے گی، لوگوں پر اس کا رعب ودبدبہ باقی رہے گا، میں نے اپنے دل میں سوچا کہ یہ تین میں سے پہلی بات ہے جس کی مجھے بادشاہ نے وصیت کی تھی، چناچہ میں اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکالا اور اس سے اپنی تلوار کی جلد پر یہ بات لکھ لی۔ پھر نبی ﷺ نے وہ خط اپنی بائیں جانب بیٹھے ہوئے ایک آدمی کو دے دیا، میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ خط پڑھنے والے صاحب کون ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ حضرت امیر معاویہ (رض) ہیں، بہرحال ! ہمارے بادشاہ کے خط میں لکھا ہوا تھا کہ آپ مجھے اس جنت کی دعوت دیتے ہیں جس کی چوڑائی زمین و آسمان کے برابر ہے جو متقیوں کے لئے تیار کی گئی ہے، تو جہنم کہاں ہے ؟ نبی ﷺ نے فرمایا سبحان اللہ ! جب دن آتا ہے تو رات کہاں جاتی ہے ؟ میں نے اپنے ترکش سے تیر نکال کر اپنی تلوار کی جلد پر یہ بات بھی لکھ لی۔ نبی ﷺ جب خط پڑھ کر فارغ ہوئے تو فرمایا کہ تمہارا ہم پر حق بنتا ہے کیونکہ تم قاصد ہو، اگر ہمارے پاس کوئی انعام ہوتا تو تمہیں ضرور دیتے لیکن ابھی ہم سفر میں پراگندہ ہیں، یہ سن کر لوگوں میں سے ایک آدمی نے پکار کر کہا کہ میں اسے انعام دوں گا، چناچہ اس نے اپنا خیمہ کھولا اور ایک صفوری حلہ لے آیا اور لا کر میری گود میں ڈال دیا، میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ انعام دینے والے صاحب کون ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ حضرت عثمان غنی (رض) ہیں۔ پھر نبی ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کون شخص اسے اپنا مہمان بنائے گا ؟ اس پر ایک انصاری نوجوان نے کہا کہ میں بناؤں گا، پھر وہ انصاری کھڑا ہوا اور میں بھی کھڑا ہوگیا، جب میں مجلس سے نکل گیا تو نبی ﷺ نے مجھے پکار کر فرمایا اے تنوخی بھائی ! ادھر آؤ میں دوڑتا ہوا گیا اور اسی جگہ پر جا کر کھڑا ہوگیا جہاں میں پہلے بیٹھا تھا، نبی ﷺ نے اپنی پشت سے کپڑا ہٹایا اور فرمایا یہاں دیکھو اور تمہیں جو حکم دیا گیا ہے اسے پورا کرو، چناچہ میں گھوم کر نبی ﷺ کی پشت مبارک کی طرف آیا، میں نے کندھوں کے درمیان مہر نبوت دیکھی جو پھولے ہوئے غدود کی مانند تھی۔