386. حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) کی مرویات

【1】

حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) کی مرویات

یزید بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میرے والد نے مجھے نماز میں بآواز بلند بسم اللہ پڑھتے ہوئے سنا تو فرمایا کہ بیٹا اس سے اجتناب کرو، یزید کہتے ہیں کہ میں نے ان سے زیادہ نبی ﷺ کے کسی صحابی کو بدعت سے اتنی نفرت کرتے ہوئے نہیں دیکھا، کیونکہ میں نے نبی ﷺ اور تینوں خلفاء کے ساتھ نماز پڑھی ہے، میں نے ان میں سے کسی کو بلند آواز سے بسم اللہ پڑھتے ہوئے نہیں سنا لہذا تم بھی نہ پڑھا کرو، بلکہ الحمدللہ رب العلمین سے قرأت کا آغاز کیا کرو۔

【2】

حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) کی مرویات

حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر کتے بھی ایک امت نہ ہوتے تو میں ان کی نسل ختم کرنے کا حکم دے دیتا، لہذا جو انتہائی کالا سیاہ کتا ہو، اسے قتل کردیا کرو اور جو لوگ بھی اپنے یہاں کتے کو رکھتے ہیں جو کھیت، شکار یا ریوڑ کی حفاظت کے لئے نہ ہو، ان کے اجر وثواب سے روزانہ ایک قیراط کی کمی ہوتی رہتی ہے۔

【3】

حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) کی مرویات

اور ہمیں حکم تھا کہ بکریوں کے ریوڑ میں نماز پڑھ سکتے ہیں لیکن اونٹوں کے باڑے میں نماز نہیں پڑھ سکتے، کیونکہ ان کی پیدائش شیطان سے ہوئی ہے (ان کی فطرت میں شیطانیت پائی جاتی ہے)

【4】

حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) کی مرویات

حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) سے مروی ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو فتح مکہ کے موقع پر قرآن کریم پڑھتے ہوئے سنا تھا، اگر لوگ میرے پاس مجمع نہ لگاتے تو میں تمہیں نبی ﷺ کے انداز میں پڑھ کر سناتا، نبی ﷺ نے سورت فتح کی تلاوت فرمائی تھی۔ معاویہ بن قرہ کہتے ہیں کہ اگر مجھے بھی مجمع لگ جانے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں تمہارے سامنے حضرت عبداللہ بن مغفل کا بیان کردہ طرز نقل کر کے دکھاتا کہ نبی ﷺ نے کس طرح قرأت فرمائی تھی۔

【5】

حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) کی مرویات

حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا ہر دواذانوں کے درمیان نماز ہے، جو چاہے پڑھ لے۔

【6】

حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) کی مرویات

حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) سے مروی ہے کہ غزوہ خیبر کے موقع پر مجھے چمڑے کا ایک برتن ملا جس میں چربی تھی، میں نے اسے پکڑ کر بغل میں دبا لیا اور کہنے لگا کہ میں اس میں سے کسی کو کچھ نہیں دوں گا، اچانک میری نظر پڑی تو نبی ﷺ مجھے دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔

【7】

حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) کی مرویات

حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ابتداء کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا تھا، پھر بعد میں فرمادیا کہ اب اس کی ضرورت نہیں ہے اور شکاری کتے اور بکریوں کے ریوڑ کی حفاظت کے لئے کتے رکھنے کی اجازت دے دی۔ اور فرمایا کہ جب کسی برتن میں کتا منہ ڈال دے تو اسے سات مرتبہ دھویا کرو اور آٹھویں مرتبہ مٹی سے بھی مانجھا کرو۔

【8】

حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) کی مرویات

حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے کنگھی کرنے سے منع فرمایا ہے، الاّ یہ کہ کبھی کبھار ہو۔

【9】

حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) کی مرویات

حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے کسی کو کنکری مارنے سے منع کیا ہے اور فرمایا کہ اس سے دشمن زیر نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی شکار پکڑا جاسکتا ہے۔

【10】

حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) کی مرویات

فضیل بن زید رقاشی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ حضرت عبداللہ بن مغفل (رض) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ شراب کا تذکرہ شروع ہوگیا اور حضرت عبداللہ بن مغفل کہنے لگے کہ شراب حرام ہے، میں نے پوچھا کیا کتاب اللہ میں اسے حرام قرار دیا گیا ہے ؟ انہوں فرمایا تمہارا مقصد کیا ہے ؟ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں نے اس سلسلے میں نبی ﷺ سے جو سنا ہے وہ تمہیں بھی سناؤں ؟ میں نبی ﷺ کو کدو، حنتم اور مزفت سے منع کرتے ہوئے سنا ہے، میں نے حنتم کا مطلب پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ ہر سبز اور سفید مٹکا، میں مزفت کا مطلب پوچھا تو فرمایا کہ لک وغیرہ سے بنا ہوا برتن۔

【11】

حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) کی مرویات

حضرت عبداللہ بن مغفل نے ایک مرتبہ اپنے بیٹے کو یہ دعاء کرتے ہوئے سنا کہ اے اللہ ! میں تجھ سے جنت الفردوس اور فلاں فلاں چیز کا سوال کرتا ہوں، تو فرمایا بیٹے ! اللہ سے صرف جنت مانگو اور جہنم سے پناہ چاہو، کیونکہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس امت میں کچھ لوگ ایسے بھی آئیں گے جو دعاء اور وضو میں حد سے آگے بڑھ جائیں گے۔

【12】

حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) کی مرویات

حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا نمازی کے آگے سے عورت کتا یا گدھا گزر جائے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے۔

【13】

حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) کی مرویات

حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا جو شخص جنازے کے ساتھ جائے اور نماز جنازہ پڑھے تو اسے ایک قیراط ثواب ملے گا اور جو شخص دفن سے فراغت کا انتظار کرے اسے دو قیراط ثواب ملے گا۔

【14】

حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) کی مرویات

حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا بکریوں کے ریوڑ میں نماز پڑھ سکتے ہیں لیکن اونٹوں کے باڑے میں نماز نہیں پڑھ سکتے، کیونکہ ان کی پیدائش شیطان سے ہوئی ہے (ان کی فطرت میں شیطانیت پائی جاتی ہے) ۔

【15】

حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) کی مرویات

حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی ﷺ کے ساتھ حدیبیہ میں اس درخت کی جڑ میں بیٹھے تھے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے، اس درخت کی ٹہنیاں نبی ﷺ کی مبارک کمر سے لگ رہی تھیں حضرت علی اور سہیل بن عمرو نبی ﷺ کے سامنے تھے، نبی ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے فرمایا بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھ، تو سہیل بن عمرو نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہنے لگے کہ ہم رحمان اور رحیم کو نہیں جانتے آپ اس معاملے میں وہی لکھئے جو ہم جانتے ہیں، نبی ﷺ نے فرمایا باسمک اللہم لکھ دو ، پھر حضرت علی نے نبی ﷺ کے حکم سے یہ جملہ لکھا، یہ وہ فیصلہ ہے جس محمد رسول اللہ ﷺ نے اہل مکہ سے صلح کی ہے، تو سہیل بن عمرو نے دوبارہ ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہنے لگا کہ اگر آپ اللہ کے رسول ہیں تو پھر ہم نے آپ پر ظلم کیا، آپ اس معاملے میں وہی لکھئے جو ہم جانتے ہیں، چناچہ نبی ﷺ نے فرمایا اگر میں اللہ کا پیغمبر پھر بھی ہوں لیکن تم یوں لکھ دو کہ یہ وہ فیصلہ ہے جس پر محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب نے اہل مکہ سے صلح کی ہے۔ اسی اثناء میں تیس مسلح نوجوان کہیں سے آئے اور ہم پر حملہ کردیا، نبی ﷺ نے ان کے لئے بددعاء کی تو اللہ نے ان کی بینائی سلب کرلی اور ہم نے آگے بڑھ کر انہیں چھوڑ دیا اور اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی اللہ وہی ہے جس نے بطن مکہ میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روکے رکھے، حالانکہ تم ان پر غالب آچکے تھے اور اللہ تمہارے اعمال کو خوب دیکھتا ہے۔

【16】

حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) کی مرویات

حضرت عبداللہ بن مغفل نے ایک مرتبہ اپنے بیٹے کو یہ دعاء کرتے ہوئے سنا کہ اے اللہ ! میں تجھ سے جنت الفردوس اور فلاں فلاں چیز کا سوال کرتا ہوں، تو فرمایا بیٹے ! اللہ سے صرف جنت مانگو اور جہنم سے پناہ چاہو، کیونکہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس امت میں کچھ لوگ ایسے بھی آئیں گے جو دعاء اور وضو میں حد سے آگے بڑھ جائیں گے۔

【17】

حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) کی مرویات

حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ مہربان ہے مہربانی کو پسند کرتا ہے اور مہربانی ونرمی پر وہ کچھ دے دیتا ہے جو سختی پر نہیں دیتا۔

【18】

حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) کی مرویات

حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا میرے پیچھے میرے صحابہ کو نشان طعن مت بنانا، جو ان سے محبت کرتا ہے وہ میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کرتا ہے اور جو ان سے نفرت کرتا ہے دراصل وہ مجھ سے نفرت کی وجہ سے ان کے ساتھ نفرت کرتا ہے جو انہیں ایذاء پہنچاتا ہے وہ مجھے ایذاء پہنچاتا ہے اور جو مجھے ایذاء پہنچاتا ہے وہ اللہ کو ایذاء دیتا ہے اور جو اللہ کو ایذاء دیتا ہے اللہ اسے عنقریب ہی پکڑ لیتا ہے۔

【19】

حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) کی مرویات

حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے جب مٹکے کی نبیذ سے منع فرمایا تھا تب بھی میں وہاں موجود تھا اور جب اجازت دی تھی تب بھی میں وہاں موجود تھا، نبی ﷺ نے فرمایا تھا کہ نشہ آور چیزوں سے اجتناب کرو۔

【20】

حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) کی مرویات

حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ مہربان ہے، مہربانی کو پسند کرتا ہے اور مہربانی ونرمی پر وہ کچھ دے دیتا ہے جو سختی پر نہیں دیتا۔

【21】

حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) کی مرویات

حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) سے مروی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ایک عورت پیشہ ور بدکارہ تھی، ایک دن اسے ایک آدمی ملا اور اس سے دل لگی کرنے لگا، اسی اثناء میں اس نے اپنے ہاتھ اس کی طرف بڑھائے تو وہ کہنے لگی پیچھے ہٹو، اللہ تعالیٰ نے شرک کو دور کردیا اور ہمارے پاس اسلام کی نعمت لے آیا، وہ آدمی واپس چلا گیا، راستے میں کسی دیوار سے ٹکر ہوئی اور اس کا چہرہ زخمی ہوگیا، وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سارا واقعہ سنا دیا، نبی ﷺ نے فرمایا اللہ نے تمہارے ساتھ خیر کا ارادہ کرلیا ہے، کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کے گناہ کی سزا فوری دے دیتے ہیں اور جب کسی بندے کے ساتھ شر کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کے گناہ کو روک لیتے ہیں اور قیامت کے دن اس کا مکمل حساب چکائیں گے اور وہ گدھوں کی طرح محسوس ہوگا۔

【22】

حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) کی مرویات

فضیل بن زید رقاشی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ حضرت عبداللہ بن مغفل (رض) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ شراب کا تذکرہ شروع ہوگیا اور حضرت عبداللہ بن مغفل کہنے لگے کہ شراب حرام ہے، میں نے پوچھا کیا کتاب اللہ میں اسے حرام قرار دیا گیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا تمہارا مقصد کیا ہے ؟ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں نے اس سلسلے میں نبی ﷺ سے جو سنا ہے وہ تمہیں بھی سناؤں ؟ میں نے نبی ﷺ کو کدو، حنتم اور مزفت سے منع کرتے ہوئے سنا ہے، میں نے حنتم کا مطلب پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ ہر سبز اور سفید مٹکا، میں نے مزفت کا مطلب پوچھا تو فرمایا کہ لک وغیرہ سے بنا ہوا ہر برتن چناچہ میں بازار گیا اور چمڑے کا بڑا ڈول خرید لیا اور وہی میرے گھر میں لٹکا رہا۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔