493. حضرت عمروبن عاص (رض) کی مرویات
حضرت عمروبن عاص (رض) کی مرویات
حضرت عمرو بن عاص (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ہمیں ایسی عورتوں کے پاس جانے سے منع فرمایا ہے جن کے شوہر موجود نہ ہوں۔
حضرت عمروبن عاص (رض) کی مرویات
حضرت عمرو بن عاص (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں کے درمیان فرق سحری کھانا ہے۔
حضرت عمروبن عاص (رض) کی مرویات
حضرت عمرو بن عاص (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے میرے پاس پیغام بھیجا کہ اپنے کپڑے اور اسلحہ زیب تن کر کے میرے پاس آؤ، میں جس وقت حاضر ہوا تو نبی ﷺ وضو فرما رہے تھے، نبی ﷺ نے ایک مرتبہ مجھے نیچے سے اوپر تک دیکھا پھر نظریں جھکا کر فرمایا میرا ارادہ ہے کہ تمہیں ایک لشکر کا امیر بنا کر روانہ کروں، اللہ تمہیں صحیح سالم اور مال غنیمت کے ساتھ واپس لائے گا اور میں تمہارے لئے مال کی اچھی رغبت رکھتا ہوں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ﷺ میں نے مال و دولت کی خاطر اسلام قبول نہیں کیا، میں نے دلی رغبت کے ساتھ اسلام قبول کیا ہے اور اس مقصد کے لئے کہ مجھے نبی ﷺ کی معیت حاصل ہوجائے، نبی ﷺ نے فرمایا نیک آدمی کے لئے حلال مال کیا ہی خوب ہوتا ہے۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حضرت عمروبن عاص (رض) کی مرویات
حضرت عمرو بن عاص (رض) سے مروی ہے کہ محمد بن ابی بکر قیدی بنا کر لائے گئے، عمرو نے ان سے سوالات پوچھنا شروع کردیئے، ان کی خواہش تھی کہ وہ ان سے امان طلب کریں، چناچہ وہ کہنے لگے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے تمام مسلمانوں کے سامنے ایک ادنیٰ مسلمان بھی کسی کو پناہ دے سکتا ہے (اور پھر اس کی حفاظت تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہوگی) ۔
حضرت عمروبن عاص (رض) کی مرویات
حضرت عمرو بن عاص (رض) نے ایک مرتبہ کچھ لوگوں کو ہدایا اور تحائف بھیجے، حضرت عمار بن یاسر (رض) کو سب سے زیادہ بڑھا کر پیش کیا، کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو حضرت عمرو (رض) نے فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے عمار کو ایک باغی گروہ قتل کر دے گا۔
حضرت عمروبن عاص (رض) کی مرویات
حضرت عمرو بن عاص (رض) نے ایک مرتبہ اپنے غلام کو حضرت علی (رض) کے پاس ان کی زوجہ حضرت اسماء بنت عمیس (رض) سے ملنے کی اجازت لینے کے لئے بھیجا، حضرت علی (رض) نے انہیں اجازت دے دی، انہوں نے کسی معاملے میں ان سے بات چیت کی اور واپس آگئے، باہر نکل کر غلام نے ان سے اجازت لینے کی وجہ پوچھی تو حضرت عمرو (رض) نہ نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے ہمیں اس بات سے منع فرمایا ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر عورتوں کے پاس نہ جائیں۔
حضرت عمروبن عاص (رض) کی مرویات
ابو مرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) کے ساتھ ان کے والد حضرت عمرو بن عاص (رض) کے یہاں آئے، انہوں نے دونوں کے سامنے کھانا لا کر رکھا اور فرمایا کھائیے، انہوں نے کہا کہ میں روزے سے ہوں، حضرت عمرو (رض) نے فرمایا کھاؤ، کہ ان ایام میں نبی ﷺ ہمیں کھانے پینے کا حکم دیتے تھے اور روزہ رکھنے سے منع فرماتے تھے، مراد ایام تشریق ہیں۔
حضرت عمروبن عاص (رض) کی مرویات
ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) اپنے والد حضرت عمرو بن عاص (رض) کے پاس آئے، انہوں نے اپنے بیٹے کو کھانے کی دعوت دی، لیکن انہوں نے جواب دیا کہ میں روزے سے ہوں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے اس حوالے سے نبی ﷺ کی ایک حدیث سنی ہے۔
حضرت عمروبن عاص (رض) کی مرویات
موسیٰ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اسکندریہ میں حضرت عمرو بن عاص (رض) کے ساتھ تھا، وہاں کچھ لوگ اپنے طرز زندگانی کے متعلق گفتگو کرنے لگے، تو ایک صحابی (رض) نے فرمایا کہ نبی ﷺ کا وصال اس حال میں ہوا تھا کہ آپ ﷺ کے اہل خانہ بھوسہ ملے ہوئے جو کی روٹی سے بھی سیراب نہیں ہوتے تھے۔
حضرت عمروبن عاص (رض) کی مرویات
حضرت عمرو بن عاص (رض) نے ایک مرتبہ مصر میں خطبہ دیتے ہوئے لوگوں سے فرمایا کہ تم اپنے نبی ﷺ کے طریقے سے کتنے دور چلے گئے ہو ؟ وہ دنیا سے انتہائی بےرغبت تھے اور تم دنیا کو انتہائی محبوب و مرغوب رکھتے ہو۔
حضرت عمروبن عاص (رض) کی مرویات
حضرت عمرو بن عاص (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب کوئی حاکم فیصلہ کرے اور خوب احتیاط اور اجتہاد سے کام لے اور صحیح فیصلہ کرے تو اسے دہرا اجر ملے گا اور اگر احتیاط کے باوجود غلطی ہوجائے تو پھر بھی اسے اکہرا اجر ملے گا۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حضرت عمروبن عاص (رض) کی مرویات
حضرت عمرو (رض) سے مروی ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ایک مرتبہ خواب میں میرے پاس کچھ فرشتے آئے، انہوں نے میرے تکیے کے نیچے سے کتاب کا ستون اٹھایا اور اسے شام لے گئے، یاد رکھو ! جب فتنے رونما ہوں گے تو ایمان شام میں ہوگا۔
حضرت عمروبن عاص (رض) کی مرویات
ابو غادیہ (رض) کہتے ہیں کہ جب حضرت عمار بن یاسر (رض) شہید ہوئے تو حضرت عمرو (رض) کو اس کی اطلاع دی گئی، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عمار کو قتل کرنے والا اور اس کا سامان چھیننے والا جہنم میں جائے گا، کسی نے حضرت عمرو (رض) سے کہا کہ آپ بھی تو ان سے جنگ ہی کر رہے تھے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ نبی ﷺ نے قاتل اور سامان چھیننے والے کے بارے فرمایا تھا (جنگ کرنے والے کے بارے نہیں فرمایا تھا) ۔
حضرت عمروبن عاص (رض) کی مرویات
حضرت عمرو بن عاص (رض) سے مروی ہے کہ (قبول اسلام سے پہلے) جب ہم لوگ غزوہ خندق سے واپس ہوئے تو میں نے قریش کے کچھ لوگوں کو اکٹھا کیا جو میرے مرتبے سے واقف اور میری بات سنتے تھے اور ان سے کہا کہ تم جانتے ہو، محمد ﷺ کو ناپسندیدہ طور پر بہت سے معاملات میں غالب آتے جا رہے ہیں، میری ایک رائے ہے، تم اس میں مجھے مشورہ دو ، انہوں نے پوچھا کہ آپ کی کیا رائے ہے ؟ عمرو نے کہا میری رائے یہ ہے کہ ہم نجاشی کے پاس چلے جائیں اور وہیں رہ پڑیں، اگر محمد ﷺ اپنی قوم پر غالب آگئے تو ہم نجاشی کے پاس ہوں گے اور اس کے زیر نگیں ہونا ہمارے نزدیک محمد ﷺ کے زیر نگیں ہونے سے زیادہ بہتر ہوگا اور اگر ہماری قوم غالب آگئی تو ہم جانے پہچانے لوگ ہیں لہذا ان سے ہمیں بہتری ہی کی امید ہے، وہ کہنے لگے کہ یہ تو بہت عمدہ رائے ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ پھر نجاشی کو ہدیہ پیش کرنے کے لئے کچھ جمع کرو، اس وقت ہمارے علاقوں میں سب سے زیادہ بہترین ہدیہ چمڑا ہوتا تھا لہذا ہم نے بہت سا چمڑا جمع کرلیا اور روانہ ہوگئے، جب ہم وہاں پہنچے تو ابھی اس کے پاس ہی تھے کہ حضرت عمرو بن امیہ ضمری (رض) نجاشی کے پاس آگئے جنہیں نبی ﷺ نے حضرت جعفر اور ان کے ساتھیوں کے حوالے سے نجاشی کے پاس بھیجا تھا جب وہ واپس چلے گئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ عمرو بن امیہ ضمری ہے، اگر میں نجاشی کے پاس گیا تو اس سے درخواست کروں گا کہ عمرو کو میرے حوالے کر دے، اگر اس نے اسے میرے حوالے کردیا تو میں اس کی گردن اڑا دوں گا اور قریش کے لوگ بھی دیکھ لیں گے کہ جب میں نے محمد ﷺ کے قاصد کو قتل کردیا تو ان کی طرف سے بدلہ چکا دیا۔ چناچہ میں نے نجاشی کے پاس پہنچ کر اسے سجدہ کیا جیسا کہ پہلے بھی کرتا تھا، نجاشی نے کہا کہ میرے دوست کو خوش آمدید، کیا تم اپنے علاقے سے میرے لئے کچھ ہدیہ لائے ہو ؟ میں نے کہا جی، بادشاہ سلامت ! میں آپ کے لئے بہت سا چمڑا ہدیئے میں لے کر آیا ہوں، یہ کہہ کر میں نے وہ چمڑا اس کی خدمت میں پیش کردیا، اسے وہ بہت پسند آیا، پھر میں نے اس سے کہا کہ بادشاہ سلامت ! میں نے ابھی آپ کے پاس سے ایک آدمی کو نکلتے ہوئے دیکھا جو ہمارے ایک دشمن کا قاصد ہے، آپ اسے میرے حوالے کردیں تاکہ میں اسے قتل کرسکوں، کیونکہ اس نے ہمارے بہت سے معززین اور بہترین لوگوں کو زخم پہنچائے ہیں یہ سن کر نجاشی غضب ناک ہوگیا اور اپنا ہاتھ کھینچ کر اپنی ناک پر اتنی زور سے مارا کہ میں سمجھا کہ اس کی ناک ٹوٹ گئی ہے اس وقت اگر زمین شق ہوجاتی تو میں اس میں اتر جاتا، میں نے کہا بادشاہ سلامت ! اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ کو یہ بات اتنی ناگوار گذرے گی تو میں آپ سے کبھی اس کی درخواست نہ کرتا۔ نجاشی نے کہا کہ کیا تم مجھ سے اس شخص کا قاصد مانگتے ہو جس کے پاس وہی ناموس اکبر آتا ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آتا تھا تاکہ تم اسے قتل کردو ؟ میں نے پوچھا بادشاہ سلامت ! کیا واقعی اسی طرح ہے ؟ نجاشی نے کہا عمرو ! تم پر افسوس ہے، میری بات مانو تو ان کی اتباع کرلو، واللہ وہ حق پر ہیں اور وہ اپنے مخالفین پر ضرور غالب آئیں گے جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون اور اس کے لشکروں پر غالب آئے تھے میں نے کہا کیا آپ ان کی طرف سے مجھے اسلام پر بیعت کرتے ہیں ؟ نجاشی نے ہاں میں جواب دے کر اپنا ہاتھ پھیلا دیا اور میں نے اس سے اسلام پر بیعت کرلی۔ پھر میں اپنے ساتھیوں کے پاس واپس آیا تو میری حالت اور رائے پہلے سے بدل چکی تھی، میں نے اپنے ساتھیوں سے اپنے اسلام کو مخفی رکھا اور کچھ ہی عرصے بعد قبول اسلام کے لئے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضری کے ارادے سے روانہ ہوگیا، راستے میں حضرت خالد بن ولید (رض) سے ملاقات ہوئی، یہ واقعہ فتح مکہ سے پہلے کا ہے، وہ مکہ مکرمہ سے آرہے تھے، میں نے ان سے پوچھا ابو سلیمان ! کہاں کا ارادہ ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم ! آلات درست ہوچکے، وہ شخص یقینا نبی ہے اور اب میں اسلام قبول کرنے کے لئے جا رہا ہوں، کب تک یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا ؟ میں نے کہا کہ واللہ میں بھی اسلام قبول کرنے کے لئے حبشہ سے آرہا ہوں۔ چناچہ ہم لوگ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، پہلے حضرت خالد بن ولید (رض) نے آگے بڑھ کر اسلام قبول کیا اور بیعت کی، پھر میں نے آگے بڑھ کر عرض کیا یا رسول اللہ ! میں اس شرط پر آپ سے بیعت کرتا ہوں کہ آپ میری پچھلی خطاؤں کو معاف کردیں، بعد کے گناہوں کا میں تذکرہ نہیں کرتا، نبی ﷺ نے فرمایا عمرو ! بیعت کرلو، کیونکہ اسلام پہلے کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور اس طرح ہجرت بھی پچھلے گناہوں کو ختم کردیتی ہے، چناچہ میں نے بھی بیعت کرلی اور واپس لوٹ آیا۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ مجھے بعض بااعتماد لوگوں نے بتایا ہے کہ ان دونوں کے ساتھ عثمان بن طلحہ بن ابی طلحہ بھی تھے اور انہوں نے بھی ان دونوں کے ساتھ ہی اسلام قبول کرلیا تھا۔
حضرت عمروبن عاص (رض) کی مرویات
محمد بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ جب حضرت عمار بن یاسر (رض) شہید ہوئے تو عمرو بن حزم (رض) عنہ، حضرت عمرو بن عاص (رض) کے پاس گئے اور انہیں بتایا کہ حضرت عمار (رض) شہید ہوگئے ہیں اور نبی ﷺ نے فرمایا تھا کہ عمار کو ایک باغی گروہ قتل کر دے گا ؟ یہ سن کر حضرت عمرو بن عاص (رض) اناللہ پڑھتے ہوئے گھبرا کر اٹھے اور حضرت معاویہ (رض) کے پاس چلے گئے، حضرت معاویہ (رض) نے ان سے پوچھا کہ تمہیں کیا ہوا ؟ انہوں نے بتایا کہ حضرت عمار (رض) شہید ہوگئے ہیں، حضرت معاویہ (رض) نے فرمایا کہ حضرت عمار (رض) تو شہید ہوگئے، لیکن تمہاری یہ حالت ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا، حضرت معاویہ (رض) نے کہا کہ تم اپنے پیشاب میں گرتے، کیا ہم نے انہیں قتل کیا ہے ؟ انہیں تو حضرت علی (رض) اور ان کے ساتھیوں نے خود قتل کیا ہے، وہی انہیں لے کر آئے اور ہمارے نیزوں کے درمیان لا ڈالا۔
حضرت عمروبن عاص (رض) کی مرویات
جعفر بن مطلب جو حضرت عمرو بن عاص (رض) کے گروہ میں تھے نے ایک دیہاتی کو کھانے کی دعوت دی، یہ واقعہ گیارہ ذی الحجہ کا ہے، اس دیہاتی نے جواب دیا کہ میں روزے سے ہوں، جعفر نے اس سے کہا کہ ایک مرتبہ اسی دن حضرت عمرو بن عاص (رض) نے بھی ایک آدمی کو کھانے کی دعوت دی تھی اور اس نے یہی جواب دیا تھا کہ میں روزے سے ہوں، تو حضرت عمرو (رض) نے فرمایا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ نے اس دن کا روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔
حضرت عمروبن عاص (رض) کی مرویات
حضرت عمرو بن عاص (رض) کی وفات کا جب وقت آیا تو ان پر گریہ طاری ہوگیا، ان کے بیٹے حضرت عبداللہ (رض) نے ان سے پوچھا کہ آپ کیوں روتے ہیں ؟ کیا موت سے گھبراہٹ محسوس ہو رہی ہے ؟ انہوں نے جوابا فرمایا بخدا ! موت سے نہیں، بلکہ موت کے بعد پیش آنے والے معاملات سے، صاحبزادے نے کہا کہ آپ تو خیر پر قائم رہے، پھر انہوں نے نبی ﷺ کی رفاقت اور فتوحات شام کا تذکرہ کیا۔ حضرت عمرو (رض) کہنے لگے کہ تم نے سب سے افضل چیز تو چھوڑ ہی دی یعنی لا الہ الا اللہ کی گواہی میری تین حالتیں رہی ہیں اور ہر حالت میں میں اپنے متعلق جانتا ہوں، سب سے پہلے میں کافر تھا، نبی ﷺ کے خلاف تمام لوگوں میں انتہائی سخت تھا، اگر میں اسی حال میں مرجاتا تو میرے لئے جہنم واجب ہوجاتی، جب میں نے نبی سے بیعت کی تو میں نبی ﷺ سے تمام لوگوں کی نسبت زیادہ حیاء کرتا تھا، اسی وجہ سے میں نے نگاہیں بھر کر، کبھی نبی ﷺ کو نہیں دیکھا اور اپنی خواہشات میں بھی کبھی انہیں جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے جا ملے، اگر میں اس زمانے میں فوت ہوجاتا تو لوگ کہتے کہ عمرو کو مبارک ہو، اس نے اسلام قبول کیا، وہ خیر پر تھا، اسی حال میں فوت ہوگیا، امید ہے کہ اسے جنت نصیب ہوگی۔ پھر میں حکومت اور دوسری چیزوں میں ملوث ہوگیا، اب مجھے معلوم نہیں کہ یہ میرے لئے باعث وبال ہے یا باعث ثواب، لیکن جب میں مرجاؤں تو تم مجھ پر مت رونا، کسی تعریف کرنے والے کو یا آگ کو جنازے کے ساتھ نہ لے جانا، میرا تہبند مضبوطی سے باندھ دو کہ مجھ سے جواب طلبی ہوگی، مجھ پر آہستہ آہستہ مٹی ڈالنا اور سب طرف بکھیر دینا کیونکہ دایاں پہلو بائٰیں پہلو سے زیادہ حق نہیں رکھتا، میری قبر پر کوئی لکڑی یا پتھر نہ گاڑنا اور جب تم مجھے قبر کی مٹی میں چھپا کر فارغ ہوجاؤ تو اتنی دیر قبر پر رکنا کہ جس میں ایک اونٹ ذبح کر کے اس کے ٹکڑے بنا لئے جائیں تاکہ میں تم سے انس حاصل کرسکوں۔
حضرت عمروبن عاص (رض) کی مرویات
ابو نوفل کہتے ہیں کہ موت کے وقت حضرت عمرو بن عاص (رض) پر شدید گھبراہٹ طاری ہوگئی، ان کے بیٹے حضرت عبداللہ (رض) نے یہ کیفیت دیکھی تو پوچھا اے ابو عبداللہ ! یہ کیسی گھبراہٹ ہے ؟ نبی ﷺ تو آپ کو اپنے قریب رکھتے تھے اور آپ کو مختلف ذمہ داریاں سونپتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا بیٹا ! یہ تو واقعی حقیقت ہے، لیکن میں تمہیں بتاؤں، بخدا ! میں نہیں جانتا کہ نبی ﷺ محبت کی وجہ سے میرے ساتھ یہ معاملہ فرماتے تھے یا تالیف قلب کے لئے، البتہ میں اس بات کی گواہی دے سکتا ہوں کہ دنیا سے رخصت ہونے تک وہ دو آدمیوں سے محبت فرماتے تھے، ایک سمیہ کے بیٹے عمار (رض) سے اور ایک ام عبد کے بیٹے عبداللہ بن مسعود (رض) سے، یہ حدیث بیان کر کے انہوں نے اپنے ہاتھ اپنی ٹھوڑی کے نیچے رکھے اور کہنے لگے اے اللہ ! تو نے ہمیں حکم دیا، ہم نے اسے چھوڑ دیا، تو نے ہمیں منع کیا اور ہم وہ کام کرتے رہے اور تیری مغفرت کے علاوہ کوئی چیز ہمارا احاطہ نہیں کرسکتی، آخر دم تک پھر وہ یہی کلمات کہتے رہے، یہاں تک کہ فوت ہوگئے۔