509. حضرت ابوسعید بن معلی (رض) کی حدیثیں
حضرت ابوسعید بن معلی (رض) کی حدیثیں
حضرت ابو سعید بن معلی (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نماز پڑھ رہا تھا، اتفاقا وہاں سے نبی ﷺ کا گذر ہوا، آپ ﷺ نے مجھے آواز دی، لیکن میں نماز پوری کرنے تک حاضر نہ ہوا، اس کے بعد حاضر ہوا تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں میرے پاس آنے سے کس چیز نے روکے رکھا ؟ عرض کیا کہ میں نماز پڑھ رہا تھا، نبی ﷺ نے فرمایا کیا اللہ تعالیٰ کا فرمان نہیں ہے کہ اے اہل ایمان ! اللہ اور اس کے رسول جب تمہیں کسی ایسی چیز کی طرف بلائیں جس میں تمہاری حیات کا راز پوشیدہ ہو تو تم ان کی پکار پر لبیک کہا کرو، پھر فرمایا کیا میں تمہیں مسجد سے نکلنے سے قبل قرآن کریم کی سب سے عظیم سورت نہ سکھا دوں ؟ پھر جب نبی ﷺ مسجد سے نکلنے لگے تو میں نے آپ کو یاد دہانی کرائی، نبی ﷺ نے فرمایا وہ سورت فاتحہ ہے، وہی سبع مثانی ہے اور وہی قرآن عظیم ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔
حضرت ابوسعید بن معلی (رض) کی حدیثیں
حضرت ابوالمعلی سے مروی ہے کہ ایک دن نبی ﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے اس بات میں اختیار دے دیا کہ جب تک چاہے دنیا میں رہے اور جو چاہے کھائے اور اپنے رب کی ملاقات کے درمیان، اس نے اپنے رب سے ملنے کو ترجیح دی، یہ سن کر حضرت صدیق اکبر (رض) رونے لگے، صحابہ کرام (رض) کہنے لگے ان بڑے میاں کو تو دیکھو، نبی ﷺ نے ایک نیک آدمی کا ذکر کیا جسے اللہ نے دنیا اور اپنی ملاقات کے درمیان اختیار دیا اور اس نے اپنے رب سے ملاقات کو ترجیح دی ؟ لیکن نبی ﷺ کے ارشاد کی حقیقت کو ہم میں سب سے زیادہ جاننے والے حضرت ابوبکر (رض) ہی تھے، حضرت ابوبکر (رض) کہنے لگے کہ ہم اپنے مال و دولت، بیٹوں اور آباؤ اجداد کو آپ کے بدلے میں پیش کرنے کے لئے تیار ہیں، نبی ﷺ نے فرمایا لوگوں میں اپنی رفاقت اور اپنی مملوکہ چیزوں میں مجھ پر ابن ابی قحافہ (رض) سے زیادہ کسی کے احسانات نہیں ہیں، اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابن ابی قحافہ (رض) کو بناتا، لیکن یہاں ایمانی اخوت ومودت ہی کافی ہے، یہ جملہ دو مرتبہ فرمایا : اور تمہارا پیغمبر خود اللہ کا خلیل ہے۔