6. حضرت طلحہ بن عبیدالہ (رض) کی مرویات
حضرت طلحہ بن عبیدالہ (رض) کی مرویات
حضرت طلحہ بن عبیداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عبداللہ، ابو عبداللہ اور ام عبداللہ کیا خوب گھرانے والے ہیں۔
حضرت طلحہ بن عبیدالہ (رض) کی مرویات
حضرت طلحہ بن عبیداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ یوں نبی ﷺ کے حوالے سے احادیث بیان کرنا میری عادت نہیں ہے البتہ میں نے انہیں یہ فرماتے ہوئے ضرور سنا ہے کہ عمرو بن العاص قریش کے نیک لوگوں میں سے ہیں اور عبداللہ، ابو عبداللہ اور ام عبداللہ کیا خوب گھرانے والے ہیں۔
حضرت طلحہ بن عبیدالہ (رض) کی مرویات
عبدالرحمن بن عثمان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم حضرت طلحہ بن عبیداللہ (رض) کے ساتھ تھے، ہم لوگوں نے احرام باندھ رکھا تھا، تھوڑی دیر بعد کوئی شخص ان کی خدمت میں ایک پرندہ بطور ہدیہ کے لایا، حضرت طلحہ (رض) اس وقت سو رہے تھے، ہم میں سے کچھ لوگوں نے اسے کھالیا اور کچھ لوگوں نے اجتناب کیا، جب حضرت طلحہ (رض) بیدار ہوئے تو انہوں نے ان لوگوں کی تصویب فرمائی جنہوں نے اسے کھالیا تھا اور فرمایا کہ ہم نے بھی حالت احرام میں دوسرے کا شکار نبی ﷺ کی موجودگی میں کھالیا تھا۔
حضرت طلحہ بن عبیدالہ (رض) کی مرویات
یحییٰ بن طلحہ (رح) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) نے حضرت طلحہ (رض) کو یہ فرمایا کہ کیا بات ہے، نبی ﷺ کے وصال مبارک کے بعد سے آپ پراگندہ حال اور غبار آلود رہنے لگے ہیں ؟ کیا آپ کو اپنے چچا زاد بھائی کی یعنی میری خلافت اچھی نہیں لگی ؟ انہوں نے فرمایا بات یہ ہے نہیں ہے، اصل بات یہ ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر کوئی شخص نزع کی حالت میں وہ کلمہ کہہ لے تو قیامت کے دن وہ اس کے لئے باعث نور ہو، (مجھے افسوس ہے کہ میں نبی ﷺ سے اس کلمے کے بارے میں پوچھ نہیں سکا اور خود نبی ﷺ نے بھی نہیں بتایا، میں اس وجہ سے پریشان ہوں) ۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ میں وہ کلمہ جانتا ہوں، حضرت ابو طلحہ (رض) نے پوچھا کہ وہ کیا کلمہ ہے ؟ فرمایا وہی کلمہ جو نبی ﷺ نے اپنے چچا کے سامنے پیش کیا تھا یعنی لا الہ الا اللہ، حضرت طلحہ (رض) فرمانے لگے کہ آپ نے سچ فرمایا۔
حضرت طلحہ بن عبیدالہ (رض) کی مرویات
قیس کہتے ہیں کہ میں نے حضرت طلحہ (رض) کے اس ہاتھ کا دیدار کیا ہے جو شل ہوگیا تھا، یہ وہی مبارک ہاتھ تھا جس کے ذریعے انہوں نے غزوہ احد کے موقع پر نبی ﷺ کی حفاظت میں اپنے ہاتھ پر مشرکین کے تیر روکے تھے۔
حضرت طلحہ بن عبیدالہ (رض) کی مرویات
یحییٰ بن طلحہ (رح) ویسے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) نے حضرت طلحہ (رض) کو یہ فرمایا کہ کیا بات ہے، نبی ﷺ کے وصال مبارک کے بعد سے آپ پراگندہ حال اور غبار آلود رہنے لگے ہیں ؟ کیا آپ کو اپنے چچازاد بھائی کی یعنی میری خلافت اچھی نہیں لگی ؟ انہوں نے فرمایا بات یہ نہیں ہے، اصل بات یہ ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر کوئی شخص نزع کی حالت میں وہ کلمہ کہہ لے تو قیامت کے دن وہ اس کے لئے باعث نور ہو (مجھے افسوس ہے کہ میں نبی ﷺ سے اس کلمے کے بارے میں پوچھ نہیں سکا اور خود نبی ﷺ نے بھی نہیں بتایا، میں اس وجہ سے پریشان ہوں) ۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ میں وہ کلمہ جانتا ہوں، حضرت ابو طلحہ (رض) نے پوچھا کہ وہ کیا کلمہ ہے ؟ فرمایا وہی کلمہ جو نبی ﷺ نے اپنے چچا کے سامنے پیش گیا تھا یعنی لا الہ الا اللہ، حضرت طلحہ (رض) فرمانے لگے کہ آپ نے سچ فرمایا۔
حضرت طلحہ بن عبیدالہ (رض) کی مرویات
داؤود بن خالد بن دینار کہتے ہیں کہ ان کا اور بنو تیم کے ایک شخص کا " جس کا نام ابو یوسف تھا " ربیعہ بن ابی عبدالرحمن کے پاس سے گذر ہوا، ابو یوسف نے ان سے کہا کہ ہمیں آپ کے علاوہ دیگر حضرات کے پاس ایسی احادیث مل جاتی ہیں جو آپ کے پاس نہیں ملتیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ احادیث تو میرے پاس بھی بہت زیادہ ہیں لیکن میں نے ربیعہ بن ہدیر کو " جو کہ حضرت طلحہ (رض) کے ساتھ چمٹے رہتے تھے " یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کے حوالے حضرت طلحہ (رض) کو سوائے ایک حدیث کے کوئی اور حدیث بیان کرتے ہوئے نہیں سنا، میں نے ان سے پوچھا کہ وہ ایک حدیث کون سی ہے ؟ تو بقول ربیعہ کے حضرت طلحہ (رض) نے فرمایا کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی ﷺ کے ساتھ نکلے، جب ہم حرہ و ارقم نامی جگہ پر (جو کہ مدینہ منورہ میں ایک ٹیلہ ہے) پہنچے اور اس کے قریب ہوئے تو ہمیں کمان کی طرح خمدار کچھ قبریں دکھائی دیں، ہم نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! ہمارے بھائیوں کی قبریں یہی ہیں ؟ نبی ﷺ نے فرمایا یہ ہمارے اصحاب کی قبریں ہیں، پھر ہم وہاں سے نکل کر جب شہداء کی قبروں پر پہنچے تو نبی ﷺ نے فرمایا ہمارے بھائیوں کی قبریں یہ ہیں۔
حضرت طلحہ بن عبیدالہ (رض) کی مرویات
موسیٰ بن طلحہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ جب ہم لوگ نماز پڑھ رہے ہوتے تھے تو جانور ہمارے سامنے سے گذرتے رہتے تھے، ہم نے یہ بات نبی ﷺ سے ذکر کی تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ اگر تمہارے سامنے کجاوے کے پچھلے حصے کی طرح کوئی چیز ہو ( جو بطور سترہ کے گاڑ لی گئی ہو) تو پھر جو مرضی چیز گذرتی رہے، تمہاری نماز میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔
حضرت طلحہ بن عبیدالہ (رض) کی مرویات
ابو سلمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ یمن کے دو آدمی حضرت طلحہ (رض) کے یہاں مہمان بنے، ان میں سے ایک صاحب تو نبی ﷺ کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے شہید ہوگئے اور دوسرے صاحب ان کے بعد ایک سال مزید زندہ رہے اور بالآخر طبعی موت سے رخصت ہوگئے، حضرت طلحہ (رض) نے ایک مرتبہ خواب میں دیکھا کہ اپنی طبعی موت مرنے والا اپنے دوسرے ساتھی سے کافی عرصہ قبل ہی جنت میں داخل ہوگیا ہے، حضرت طلحہ (رض) نے یہ خواب نبی ﷺ سے ذکر کیا، نبی ﷺ نے ان سے پوچھا کہ یہ دوسرا آدمی اپنے پہلے ساتھی کے بعد کتنا عرصہ تک زمین پر زندہ رہا ؟ انہوں نے بتایا کہ ایک سال تک، نبی ﷺ نے فرمایا کہ اس نے ایک ہزار آٹھ سو نمازیں پڑھیں اور ماہ رمضان کے روزے الگ رکھے۔ (آخر ان کا ثواب بھی تو ہوگا)
حضرت طلحہ بن عبیدالہ (رض) کی مرویات
حضرت طلحہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دیہاتی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! اسلام کیا ہے ؟ فرمایا دن رات میں پانچ نمازیں، اس نے پوچھا کہ ان کے علاوہ بھی کوئی نماز مجھ پر فرض ہے ؟ فرمایا نہیں، پھر اس نے روزہ کی بابت پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا کہ ماہ رمضان کے روزے فرض ہیں، اس نے پوچھا کیا اس کے علاوہ بھی مجھ پر کوئی روزے فرض ہیں ؟ فرمایا نہیں پھر زکوٰۃ کا تذکرہ ہوا اور اس نے پھر یہی پوچھا کیا اس کے علاوہ بھی مجھ پر کوئی چیز فرض ہے ؟ فرمایا نہیں۔ اس پر اس نے کہا اللہ کی قسم ! میں ان چیزوں میں کسی قسم کی کمی بیشی نہ کروں گا، نبی ﷺ نے فرمایا کہ اگر یہ سچ کہہ رہا ہے اور اس نے اس بات کو سچ کر دکھایا تو یہ کامیاب ہوگیا۔
حضرت طلحہ بن عبیدالہ (رض) کی مرویات
ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم (رض) نے حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور حضرت سعد (رض) سے فرمایا میں تمہیں اللہ کی قسم اور واسطہ دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں، کیا آپ کے علم میں یہ بات ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے ؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔
حضرت طلحہ بن عبیدالہ (رض) کی مرویات
عبدالرحمن بن عثمان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم حضرت طلحہ بن عبیداللہ (رض) کے ساتھ تھے، ہم لوگوں نے احرام باندھ رکھا تھا، تھوڑی دیر بعد کوئی شخص ان کی خدمت میں ایک پرندہ بطور ہدیہ کے لایا، حضرت طلحہ (رض) اس وقت سو رہے تھے، ہم میں سے کچھ لوگوں نے اسے کھالیا اور کچھ لوگوں نے اجتناب کیا، جب حضرت طلحہ (رض) بیدار ہوئے تو انہوں نے ان لوگوں کی تصویب فرمائی جنہوں نے اسے کھالیا تھا اور فرمایا کہ ہم نے بھی حالت احرام میں دوسرے کا شکار نبی ﷺ کی موجودگی میں کھالیا تھا۔
حضرت طلحہ بن عبیدالہ (رض) کی مرویات
حضرت طلحہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ سے یہ سوال پوچھا گیا کہ نمازی کس چیز کو سترہ بنائے ؟ تو نبی ﷺ نے فرمایا کجاوے کے پچھلے حصے کی مانند کسی بھی چیز کو بنالے۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حضرت طلحہ بن عبیدالہ (رض) کی مرویات
حضرت طلحہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ کا گذر کچھ لوگوں کے پاس سے ہوا جو کھجوروں کے باغات میں تھے، نبی ﷺ نے پوچھا کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ نر کھجور کو مادہ کھجور میں ملار ہے ہیں، نبی ﷺ نے فرمایا کہ میرا خیال نہیں ہے کہ اس سے کچھ فائدہ ہوتا ہو، ان لوگوں کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے اس سال یہ عمل نہیں کیا، نبی ﷺ کو یہ خبر معلوم ہوئی تو فرمایا کہ اگر انہیں اس سے کچھ فائدہ ہوتا ہو تو انہیں یہ کام کرلینا چاہئے، میں نے تو صرف ایک گمان اور خیال ظاہر کیا ہے اس لئے میرے گمان پر عمل کرنا تمہارے لئے ضروری نہیں ہے، ہاں ! البتہ جب میں تمہیں اللہ کے حوالے سے کوئی بات بتاؤں تو تم اس پر عمل کرو کیونکہ میں اللہ پر کسی صورت جھوٹ نہیں باندھ سکتا۔
حضرت طلحہ بن عبیدالہ (رض) کی مرویات
حضرت طلحہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! آپ پر درود کس طرح پڑھا جائے، فرمایا یوں کہا کرو، اے اللہ ! محمد ﷺ اور آل محمد ﷺ پر اسی طرح درود نازل فرما جیسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر نازل کیا، بیشک تو قابل تعریف اور بزرگی والا ہے اور محمد ﷺ وآل محمد ﷺ پر اس طرح برکتوں کا نزول فرما جیسے ابراہیم (علیہ السلام) پر کیا، بیشک تو قابل تعریف اور بزرگی والا ہے۔
حضرت طلحہ بن عبیدالہ (رض) کی مرویات
حضرت طلحہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ جب بھی نیا چاند دیکھتے تو یہ دعاء پڑھتے اے اللہ ! اس چاند کو ہم پر برکت اور ایمان، سلامتی اور اسلام کے ساتھ طلوع فرما، اے چاند ! میرا اور تیرا رب اللہ ہے۔
حضرت طلحہ بن عبیدالہ (رض) کی مرویات
حضرت طلحہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے فرمایا انسان کجاوے کے پچھلے حصے کی مانند کسی بھی چیز کو سترہ بنالے پھر نماز پڑھے۔
حضرت طلحہ بن عبیدالہ (رض) کی مرویات
حضرت طلحہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ کا گذر کچھ لوگوں کے پاس سے ہوا جو کھجوروں کے باغات میں تھے، نبی ﷺ نے پوچھا کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ نر کھجور کو مادہ کھجور میں ملا رہے ہیں، نبی ﷺ نے فرمایا کہ میرا خیال نہیں ہے کہ اس سے کچھ فائدہ ہوتا ہو، ان لوگوں کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے اس سال یہ عمل نہیں کیا، نبی ﷺ کو یہ خبر معلوم ہوئی تو فرمایا کہ اگر انہیں اس سے کچھ فائدہ ہوتا ہو تو انہیں یہ کام کرلینا چاہئے، میں نے تو صرف ایک گمان اور خیال ظاہر کیا ہے اس لئے میرے گمان پر عمل کرنا تمہارے لئے ضروری نہیں ہے، ہاں ! البتہ جب میں تمہیں اللہ کے حوالے سے کوئی بات بتاؤں تو تم اس پر عمل کرو کیونکہ میں اللہ پر کسی صورت جھوٹ نہیں باندھ سکتا۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حضرت طلحہ بن عبیدالہ (رض) کی مرویات
حضرت عبداللہ بن شداد (رض) سے مروی ہے کہ بنو عذرہ کے تین آدمیوں کی ایک جماعت نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کرلیا، نبی ﷺ نے صحابہ کرام (رض) سے فرمایا کہ ان کی کفالت کون کرے گا ؟ حضرت طلحہ (رض) نے اپنے آپ کو پیش کردیا، چناچہ یہ لوگ حضرت طلحہ (رض) کے پاس رہتے رہے، اس دوران نبی ﷺ نے ایک لشکر روانہ فرمایا تو ان میں سے بھی ایک آدمی اس میں شریک ہوگیا اور وہیں پر جام شہادت نوش کرلیا۔ کچھ عرصہ کے بعد نبی ﷺ نے ایک اور لشکر روانہ فرمایا تو دوسرا آدمی بھی شریک ہوگیا اور اس دوران وہ بھی شہید ہوگیا جبکہ تیسرے شخص کا انتقال طبعی موت سے ہوگیا، حضرت طلحہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں ان تینوں کو جو میرے پاس رہتے تھے جنت میں دیکھا، ان میں سے جس کی موت طبعی ہوئی تھی وہ ان دونوں سے آگے تھا، بعد میں شہید ہونے والا دوسرے درجے پر تھا اور سب سے پہلے شہید ہونے والا سب سے آخر میں تھا، مجھے اس پر بڑا تعجب ہوا، میں نے نبی ﷺ سے اس چیز کا تذکرہ کیا تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں اس پر تعجب کیونکر ہوا ؟ اللہ کی بارگاہ میں اس مومن سے افضل کوئی نہیں ہے جسے حالت اسلام میں لمبی عمر دی گئی ہو، اس کی تسبیح و تکبیر اور تہلیل کی وجہ سے۔
حضرت طلحہ بن عبیدالہ (رض) کی مرویات
ایک مرتبہ حضرت عثمان غنی (رض) نے اپنے بالا خانے سے ان لوگوں کو جھانک کر دیکھا جنہوں نے ان کا محاصرہ کر رکھا تھا اور انہیں سلام کیا، لیکن انہوں نے اس کا کوئی جواب نہ دیا، پھر حضرت عثمان (رض) نے پوچھا کہ کیا اس گروہ میں حضرت طلحہ (رض) موجود ہیں۔ حضرت طلحہ (رض) نے فرمایا ہاں ! میں موجود ہوں، حضرت عثمان (رض) نے انا للہ کہا اور فرمایا میں ایسے گروہ کو سلام کر رہا ہوں جس میں آپ بھی موجود ہیں، پھر بھی سلام کا جواب نہیں دیتے، حضرت طلحہ (رض) نے فرمایا میں نے جواب دیا ہے، حضرت عثمان (رض) نے فرمایا کیا اس طرح جواب دیا جاتا ہے کہ میری آواز تو آپ تک پہنچ رہی ہے لیکن آپ کی آواز مجھ تک نہیں پہنچ رہی۔ طلحہ ! میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، کیا تم نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ کسی مسلمان کا خون بہانا ان تین وجوہات کے علاوہ کسی وجہ سے بھی جائز نہیں یا تو وہ ایمان لانے کے بعد مرتد ہوجائے یا شادی شدہ ہونے کے باوجود بدکاری کا ارتکاب کرے یا کسی کو قتل کرے اور بدلے میں اسے قتل کردیا جائے ؟ حضرت طلحہ (رض) نے ان کی تصدیق کی جس پر حضرت عثمان (رض) نے اللہ اکبر کہہ کر فرمایا بخدا ! میں نے اللہ کو جب سے پہچانا ہے کبھی اس کا انکار نہیں کیا، اسی طرح میں نے زمانہ جاہلیت یا اسلام میں کبھی بدکاری نہیں کی، میں نے اس کام کو جاہلیت میں طبعی ناپسندیدگی کی وجہ سے چھوڑ رکھا تھا اور اسلام میں اپنی عفت کی حفاظت کے لئے اس سے اپنا دامن بچائے رکھا، نیز میں نے کسی انسان کو بھی قتل نہیں کیا جس کے بدلے میں مجھے قتل کرنا حلال ہو۔
حضرت طلحہ بن عبیدالہ (رض) کی مرویات
حضرت طلحہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ دو آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان دونوں نے اکٹھے ہی اسلام قبول کیا، ان میں سے ایک اپنے دوسرے ساتھی کے مقابلے میں بہت محنت کرتا تھا، یہ شخص جو بہت محنت کرتا تھا ایک غزوہ میں شریک ہو کر شہید ہوگیا، دوسرا شخص اس کے بعد ایک سال تک زندہ رہا، پھر طبعی وفات سے انتقال کر گیا۔ حضرت طلحہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا میں جنت کے دروازے کے قریب ہوں، اچانک وہ دونوں مجھے دکھائی دیتے ہیں، جنت سے ایک آدمی باہر نکلتا ہے اور بعد میں فوت ہونے والے کو اندر داخل ہونے کی اجازت دے دیتا ہے، تھوری دیر بعد باہر آکر وہ شہید ہونے والے کو بھی اجازت دے دیتا ہے، پھر وہ دونوں میرے پاس آتے ہیں اور مجھ سے کہتے ہیں کہ آپ ابھی واپس چلے جائیں ابھی آپ کا وقت نہیں آیا۔ جب صبح ہوئی اور حضرت طلحہ (رض) نے لوگوں کے سامنے یہ خواب ذکر کیا تو لوگوں کو بہت تعجب ہوا، نبی ﷺ کو معلوم ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں کس بات پر تعجب ہو رہا ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ شخص زیادہ محنت کرتا تھا، پھر اللہ کے راستہ میں شہید بھی ہوا، اس کے باوجود دوسرا آدمی جنت میں پہلے داخل ہوگیا، نبی ﷺ نے فرمایا کیا وہ اس کے بعد ایک سال تک زندہ نہیں رہا تھا ؟ لوگوں نے کہا کیوں نہیں، پھر فرمایا کیا اس نے رمضان کا مہینہ پا کر اس کے روزے نہیں رکھے تھے ؟ لوگوں نے کہا کیوں نہیں، پھر فرمایا کیا اس نے سال میں اتنے سجدے نہیں کئے ؟ لوگوں نے کہا کیوں نہیں، اس پر فرمایا کہ اسی وجہ سے تو ان دونوں کے درمیان زمین آسمان کا فاصلہ ہے۔
حضرت طلحہ بن عبیدالہ (رض) کی مرویات
ابوالنضر کہتے ہیں کہ حجاج بن یوسف کے زمانے میں بصرہ کی ایک مسجد میں بنو تمیم کے ایک بزرگ میرے پاس آکر بیٹھ گئے، ان کے ہاتھ میں ایک صحیفہ بھی تھا، وہ مجھ سے کہنے لگے کہ اے بندہ خدا ! تمہارا کیا خیال ہے، کیا یہ خط اس بادشاہ کے سامنے مجھے کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے ؟ میں نے پوچھا کہ یہ خط کیسا ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ یہ نبی ﷺ کا فرمان ہے جو آپ ﷺ نے ہمارے لئے لکھوایا تھا کہ زکوٰۃ کی وصولی میں ہم پر زیادتی نہ کی جائے، میں نے کہا کہ بخدا ! مجھے تو نہیں لگتا کہ اس خط سے آپ کو کوئی فائدہ ہو سکے گا (کیونکہ حجاج بہت ظالم ہے) البتہ یہ بتائیے کہ اس خط کا کیا معاملہ ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ میں اپنے والد کے ساتھ ایک مرتبہ مدینہ منورہ آیا ہوا تھا، اس وقت میں نوجوان تھا، ہم لوگ اپنا ایک اونٹ فروخت کرنا چاہتے تھے، میرے والد حضرت طلحہ بن عبیداللہ (رض) کے دوست تھے، اس لئے ہم انہی کے یہاں جاکر ٹھہرے۔ میرے والد صاحب نے ان سے کہا کہ میرے ساتھ چل کر اس اونٹ کو بیچنے میں میری مدد کیجئے، انہوں نے کہا کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کے لئے خریدوفروخت کرے، البتہ میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں اور آپ کے ساتھ بیٹھ جاؤں گا، آپ اپنا اونٹ لوگوں کے سامنے پیش کریں، جس شخص کے متعلق مجھے یہ اطمینان ہوگا کہ یہ قیمت ادا کردے گا اور سچا ثابت ہوگا، میں آپ کو اس کے ہاتھ فروخت کرنے کا کہہ دوں گا۔ چناچہ ہم نکل کر بازار پہنچے اور ایک جگہ پہنچ کر رک گئے، حضرت طلحہ (رض) قریب ہی بیٹھ گئے، کئی لوگوں نے آکر بھاؤ تاؤ کیا، حتی کہ ایک آدمی آیا جو ہماری منہ مانگی قیمت دینے کے لئے تیار تھا، میرے والد صاحب نے ان سے پوچھا کہ اس کے ساتھ معاملہ کرلوں ؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا اور فرمایا کہ مجھے اطمینان ہے کہ یہ تمہاری قیمت پوری پوری ادا کردے گا۔ اس لئے تم یہ اونٹ اس کے ہاتھ فروخت کردو، چناچہ ہم نے اس کے ہاتھ وہ اونٹ فروخت کردیا۔ جب ہمارے قبضے میں پیسے آگئے اور ہماری ضرورت پوری ہوگئی تو میرے والد صاحب نے حضرت طلحہ (رض) سے کہا کہ نبی ﷺ سے اس مضمون کا ایک خط لکھوا کر ہمیں دے دیں کہ زکوٰۃ کی وصولی میں ہم پر زیادتی نہ کی جائے، اس پر انہوں نے فرمایا کہ یہ تمہارے لئے بھی ہے اور ہر مسلمان کے لئے بھی ہے، راوی کہتے ہیں کہ میں اسی وجہ سے چاہتا تھا کہ نبی ﷺ کا کوئی خط میرے پاس ہونا چاہیے۔ بہرحال ! حضرت طلحہ رضٰ اللہ عنہ ہمارے ساتھ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ صاحب جن کا تعلق ایک دیہات سے ہے ہمارے دوست ہیں، ان کی خواہش ہے کہ آپ انہیں اس نوعیت کا ایک مضمون لکھوا دیں کہ زکوٰۃ کی وصولی میں ان پر زیادتی نہ کی جائے، فرمایا یہ ان کے لئے بھی ہے اور ہر مسلمان کے لئے بھی، میرے والد نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میری خواہش ہے کہ آپ کا کوئی خط اس مضمون پر مشتمل میرے پاس ہو، اس پر نبی ﷺ نے ہمیں یہ خط لکھوا کردیا تھا۔