632. حضرت مسوربن مخرمہ (رض) اور مروان بن حکم (رض) کی مرویات
حضرت مسوربن مخرمہ (رض) اور مروان بن حکم (رض) کی مرویات
حضرت مسور (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حسن بن حسن (رح) نے ان کے پاس ان کی بیٹی سے اپنے لئے پیغام نکاح بھیجا انہوں نے قاصد سے کہا کہ حسن سے کہنا کہ وہ عشاء میں مجھ سے ملیں جب ملاقات ہوئی تو مسور (رض) نے اللہ کی حمد وثناء بیان کی اور امابعد کہہ کر فرمایا اللہ کی قسم ! تمہارے نسب اور سسرال سے زیادہ کوئی حسب نسب اور سسرال مجھے محبوب نہیں، لیکن نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جس چیز سے وہ تنگ ہوتی ہے میں بھی تنگ ہوتا ہوں اور جس چیز سے وہ خوش ہوتی ہے میں بھی خوش ہوتا ہوں اور قیامت کے دن میرے حسب نسب اور سسرال کے علاوہ سب نسب ناطے ختم ہوجائیں گے آپ کے نکاح میں حضرت فاطمہ (رض) کی بیٹی پہلے سے ہے اگر میں نے اپنی بیٹی کا نکاح آپ سے کردیا تو نبی کریم ﷺ تنگ ہوں گے یہ سن کر حسن نے ان کی معذرت قبول کرلی اور واپس چلے گئے۔
حضرت مسوربن مخرمہ (رض) اور مروان بن حکم (رض) کی مرویات
حضرت مسور (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک یہودی میرے پاس سے گذرا میں نے نبی کریم ﷺ کے پیچھے کھڑا تھا اور نبی کریم ﷺ وضو فرما رہے تھے اس نے کہا کہ ان کا کپڑا ان کی پشت پر سے ہٹادو میں ہٹانے کے لئے آگے بڑھا تو نبی کریم ﷺ نے میرے منہ پر پانی کا چھینٹادے مارا۔
حضرت مسوربن مخرمہ (رض) اور مروان بن حکم (رض) کی مرویات
حضرت مسوربن مخرمہ اور مروان سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ حدیبیہ کے سال مدینہ سے چلے اس وقت آپ ﷺ کے ہم رکاب ایک ہزار چند سو آدمی تھے عسفان کے قریب پہنچے تھے کہ جاسوس " جس کا نام بشر بن سفیان کعبی تھا " واپس آیا اور عرض کیا کہ قریش نے آپ کے مقابلہ کے لئے بہت فوجیں جمع کی ہیں اور مختلف قبائل کو اکٹھا کیا ہے وہ آپ سے لڑنے کے لئے تیار ہیں اور خانہ کعبہ میں داخل ہونے سے آپ کو روک دیں گے اور خالد بن ولید بھی اپنے ساتھیوں کو لے کر کراع غمیم تک بڑھ آئے ہیں۔ حضور ﷺ نے ہمراہیان کو مخاطب کرکے فرمایا لوگو ! کیا مشورہ ہے کیا میں ان کے اہل و عیال کی طرف مائل ہوجاؤں اور جو لوگ خانہ کعبہ سے مجھے روکنا چاہتے ہیں میں ان کے اہل و عیال کو گرفتار کرلوں اگر وہ لوگ اپنے بال بچوں کی مدد کو آئیں گے تو ان کا گروہ ٹوٹ جائے گا ورنہ ہم ان کو مفلس کرکے چھوڑ دیں گے بہرحال ان کا نقصان ہے صدیق اکبر (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ خانہ کعبہ کی نیت سے چلے ہیں لڑائی کے ارادے سے نہیں نکلے آپ کو خانہ کعبہ کا رخ کرنا چاہئے پھر جو ہم کو روکے گا ہم اس سے لڑیں گے حضور ﷺ نے فرمایا اچھا (تو خدا کا نام لے کر چل دو ) چناچہ سب چلے دئیے۔ اثنا راہ میں حضور ﷺ نے فرمایا کہ خالد بن ولید قریش کے (دو سو) سواروں کے لئے (مقام) غمیم میں ہمارا راستہ روکے پڑا ہے لہٰذا تم بھی داہنی طرف کو ہی (خالد کی جانب) چلو سب لوگوں نے داہنی طرف کا رخ کرلیا اور اس وقت تک خالد کو خبر نہ ہوئی جب تک لشکر کا غبار اڑتا ہوا انہوں نے دیکھ نہ لیا، غبار اڑتا دیکھ کر خالد نے جلدی سے جاکر قریش کو رسول اللہ ﷺ کی آمد سے ڈرایا رسول اللہ ﷺ حسب معمول چلتے رہے یہاں تک کہ جب اس پہاڑی پر پہنچے جس کی طرف سے لوگ مکہ میں اترتے ہیں تو آپ ﷺ کی اونٹنی بیٹھ گئی لوگوں نے بہت کوشش کی لیکن اونٹنی نہ اٹھی وہیں جم گئی لوگ کہنے لگے کہ قصواء (حضور ﷺ کی اونٹنی کا نام تھا) اڑگئی حضور ﷺ نے فرمایا قصواء خود نہیں اڑی ہے اس کی یہ عادت ہی نہیں ہے بلکہ اس کو اس نے روک دیا ہے جس نے اصحاب فیل کو روکا تھا۔ پھر فرمایا قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے مکہ والے عظمت حرم برقرار رکھنے کے لئے مجھ سے جو کچھ خواہش کریں گے میں دے دوں گا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے اونٹنی کو جھڑکا اونٹنی فوراً اٹھ کھڑی ہوئی، آپ ﷺ مکہ والوں کی راہ سے بچ کر دوسری طرف کا رخ کرکے چلے اور حدیبیہ سے دوسری طرف اس جگہ اترے جہاں تھوڑا تھوڑا پانی تھا۔ لوگوں نے وہی تھوڑا پانی لے لیاجب سب پانی کھینچ چکے اور پانی بالکل نہ رہا تو حضور ﷺ کے پاس پانی نہ ہونے کی شکایت آئی حضور ﷺ نے اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکال کر صحابہ (رض) کو دیا اور حکم دیا کہ اس کو پانی میں رکھ دو ۔ صحابہ کرام (رض) نے حکم کی تعمیل کی۔ جونہی تیر کو پانی میں رکھا فوراً پانی میں ایسا جوش آیا کہ سب لوگ سیراب ہو کر واپس ہوئے اور پانی پھر بھی بچ رہا۔ اسی دوران بدیل بن ورقہ خزاعی جو رسول اللہ کا راز دار تھا اپنی قوم کے آدمیوں کو ہمراہ لے کر آیا اور کہنے لگا کہ میں خاندان کعب بن لوی اور قبائل عامر بن لوی حدیبیہ کے جاری پانی پر چھوڑ کر آیا ہوں ان کے ساتھ دودھ والی اونٹنیاں بھی ہیں اور ان کے اہل و عیال بھی ہیں اور تعداد میں حدیبیہ کے پانی کے قطروں کے برابر ہیں وہ آپ سے لڑنے کے لئے اور آپ کو خانہ کعبہ سے روک دینے کے لئے تیار ہیں حضور ﷺ نے فرمایا ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے صرف عمرہ کرنے آئے ہیں۔ انہی لڑائیوں نے قریش کو کمزور کردیا ہے اور نقصان پہنچائے ہیں۔ اگر وہ صلح کرنا چاہیں تو میں ان کے لئے مدت مقرر کردوں گا کہ اس میں نہ ہم ان سے لڑیں اور نہ وہ ہم سے لڑیں۔ باقی دیگر کفار عرب کے معاملہ میں وہ دخل نہ دیں اس دوران اگر کافر مجھ پر غالب آگئے تو ان کی مراد حاصل ہوجائے گی اور اگر میں کافروں پر غالب آگیا تو قریش کو اختیار ہے اگر وہ اس (دین) میں داخل ہونا چاہیں گے جس میں اور لوگ داخل ہوگئے تو داخل ہوجائیں اور اگر مسلمان ہونا نہ چاہیں تو مدت صلح میں تو ان کو تکلیف اٹھانی ہی نہیں پڑے گی۔ اگر قریش ان باتوں میں سے کسی کو نہ مانیں گے تو اس اللہ کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں اپنے امر (دین) پر ان سے اس وقت تک برابر لڑتا رہوں گا جب تک میری گردن تن سے جدا نہ ہوجائے اور یہ یقینی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کو غلبہ عطاء فرمائے گا۔ بدیل بولا میں آپ کی بات قریش کو پہنچادوں گا۔ یہ کہہ کر بدیل چلا گیا اور قریش کے پاس پہنچ کر ان سے کہا ہم فلاں آدمی کے پاس سے تمہارے پاس آئے ہیں اس نے ہم سے ایک بات کہی ہے اگر تم چاہو تو ہم تمہارے سامنے اس کا اظہار کردیں قریش کے بیوقوف آدمی تو کہنے لگے ہم کو کوئی ضرورت نہیں کہ تم اس کی باتیں ہمارے سامنے بیان کرو لیکن سمجھ دار لوگوں نے کہا تم ان کا قول بیان کرو۔ بدیل نے حضور ﷺ کا تمام فرمان نقل کردیا یہ سن کر عروہ بن مسعود کھڑا ہوا اور کہنے لگا اے قوم کیا میں تمہارا باپ نہیں ہوں۔ سب نے کہا بیشک ہو، کہنے لگا کیا تم میری اولاد نہیں ہو سب نے کہا ہیں عروہ بولا کیا تم مجھے مشکوک آدمی سمجھتے ہو ؟ سب نے کہا نہیں عروہ بولا کیا تم کو معلوم نہیں اہل عکاظ کو میں نے ہی تمہاری مدد کے لئے بلایا تھا اور جب وہ نہ آئے تو میں اپنے اہل و عیال اور متعلقین وزیردست لوگوں کو لے کر تم سے آکر مل گیا سب نے کہا بیشک عروہ بولا اس شخص نے سب سے پہلے ٹھیک بات کہی ہے تم اس کو قبول کرلو اور مجھ کو اس کے پاس جانے کی اجازت۔ لوگوں نے کہا جاؤ۔ عروہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے گفتگو کرنے لگا حضور ﷺ نے اس سے بھی وہی کلام کیا جو بدیل سے کیا تھا۔ عروہ بولا محمد ! دیکھو اگر تم (غالب ہوجاؤگے اور) اپنی قوم کی بیخ کنی کردو گے تو کیا اس سے پہلے تم نے کسی کے متعلق سنا ہے کہ اس نے اپنی ہی قوم کی جڑ کاٹی ہو اور اگر دوسری بات ہو (قریش غالب آئے) تو اللہ کی قسم مجھے بہت سے چہرے ایسے نظر آرہے ہیں کہ تم کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے کیونکہ مختلف قوموں کی اس میں بھرتی ہے حضرت ابوبکر (رض) نے غصہ میں آکر فرمایا کیا ہم حضور ﷺ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے ؟ عروہ بولا یہ کون شخص ہے ؟ لوگوں نے کہا ابوبکر (رض) ہیں عروہ حضرت ابوبکر (رض) سے بولا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر تمہارا گزشتہ احسان مجھ پر نہ ہوتا جس کا میں بدلہ نہ دے سکا ہوں تو ضرور میں اس کا جواب دیتا یہ کہہ کر پھر حضور ﷺ سے گفتگو کرنے لگا اور بات کرتے ہوئے بار بار حضور ﷺ کی ڈاڑھی پکڑ لیتا تھا مغیرہ بن شعبہ (رض) رسول اللہ ﷺ کے پیچھے تلوار لئے زرہ پہنے (نگرانی کے لئے) کھڑے تھے عروہ جب حضور ﷺ کی داڑھی پکڑنے کے لئے ہاتھ جھکاتا تھا مغیرہ تلوار کے قبضہ کی نوک عروہ کو مار کر کہتے تھے کہ حضور ﷺ کی داڑھی سے ہاتھ ہٹالے عروہ ہاتھ ہٹالیتا تھا آخر کار عروہ نے پوچھا یہ کون شخص ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ یہ مغیرہ بن شعبہ (رض) ہیں عروہ بولا او دغا باز کیا میں نے تیری دغا بازی کے مٹانے میں تیری لئے کوشش نہیں کی تھی۔ واقعہ یہ تھا کہ مغیرہ بن شعبہ جاہلیت کے زمانہ میں ایک قوم کے پاس جاکر رہے تھے اور دھوکے سے ان کو قتل کرکے مال لے کر چلتے ہوئے تھے اور پھر آکر مسلمان ہوگئے تھے اور حضور ﷺ کی بیعت لیتے وقت فرمادیا تھا کہ اسلام تو میں قبول کرتا ہوں لیکن مال والے معاملے میں مجھے کوئی تعلق نہیں، حاصل کلام یہ ہے کہ عروہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر صحابہ کرام (رض) کو دیکھنے لگا اللہ کی قسم رسول اللہ ﷺ جو لعاب دہن منہ سے پھینکتے تھے تو زمین پر گرنے سے قبل جس شخص کے ہاتھ لگ جاتا تھا وہ اس کو اپنے چہرہ پر مل لیتا تھا اور جو بال آپ ﷺ کا گرتا تھا صحابہ کرام (رض) زمین پر گرنے سے قبل اس کو لے لیتے تھے جس کام کا آپ ﷺ حکم دیتے تھے ہر ایک دوسرے سے پہلے اس کے کرنے کو تیار ہوجاتا تھا اور حضور ﷺ کے وضو کے پانی پر کشت وخون کے قریب نوبت پہنچ جاتی تھی صحابہ کرام (رض) کلام کرتے وقت حضور ﷺ کے سامنے پست آواز سے باتیں کرتے تھے اور انتہائی عظمت کیوجہ سے تیز نظر سے حضور ﷺ کی طرف نہ دیکھتے تھے۔ یہ سب باتیں دیکھنے کے بعد عروہ واپس آیا اور ساتھیوں سے کہنے لگا اے قوم اللہ کی قسم میں بادشاہوں کے پاس قاصد بن کر گیا ہوں۔ قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے درباروں میں بھی رہاہوں لیکن میں نے کبھی کوئی بادشاہ ایسا نہیں دیکھا کہ اس کے آدمی اس کی ایسی تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد ﷺ کے ساتھی اس کی تعظیم کرتے ہیں اللہ کی قسم جب وہ تھوک پھینکتا ہے تو جس شخص کے ہاتھ وہ لگ جاتا ہے وہ اس کو اپنے چہرہ اور بدن پر مل لیتا ہے اگر وہ کسی کام کا حکم دیتا ہے تو ہر ایک دوسرے سے پہلے اس کی تعمیل کرنے کو تیار ہوجاتا ہے جس وقت وہ وضو کرتا ہے تو اس کے وضو کے پانی پر لوگ کشت و خون کرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں اس کے سامنے کلام کرتے وقت سب آوازیں پست رکھتے ہیں اور اس کی تعظیم کے لئے کوئی نظر اٹھا کر اس کی طرف نہیں دیکھتا اس نے تمہارے سامنے بہترین بات پیش کی ہے لہٰذا تم اس کو قبول کرلو۔ عروہ جب اپنا کلام ختم کرچکا تو قبیلہ بنی کنانہ کا ایک آدمی بولا مجھے ذرا ان کے پاس جانے کی اجازت دو سب لوگوں نے اس کو جانے کی اجازت دی وہ حضور ﷺ کے پاس حاضر ہونے کے ارادہ سے چل دیا جب سامنے سے نمودار ہوا تو حضور ﷺ نے فرمایا یہ فلاں شخص فلاں قوم میں سے ہے اس کی قوم قربانی کے اونٹوں کی بہت عزت و حرمت کرتی ہے لہٰذا قربانی کے اونٹ اس کی نظر کے سامنے کردو حسب الحکم قربانی کے اونٹ اس کے سامنے پیش کئے گئے اور لوگ لبیک کہتے ہوئے اس کے سامنے آئے جب اس نے یہ حالت دیکھی تو کہنے لگا کہ ان لوگوں کو کعبہ سے روکنا کسی طرح مناسب نہیں یہ دیکھ کر وہ واپس آیا اور اپنی قوم سے کہنے لگا میں نے ان کے اونٹوں کے گلے میں ہار پڑے دیکھے ہیں اور اشعار کی علامت دیکھی ہے، میرے نزدیک مناسب نہیں کہ خانہ کعبہ سے ان کو روکا جائے۔ اس کی تقریر سن کر مکرز نامی ایک شخص اٹھا اور کہنے لگا ذرا مجھے ان کے پاس اور جانے دو سب نے اجازت دے دی اور وہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کے ارادہ سے چل دیا صحابہ کے سامنے نمودار ہوا تو حضور ﷺ نے فرمایا یہ مکرز ہے اور شریر ہے مکرز خدمت میں پہنچ گیا اور حضور ﷺ سے کچھ گفتگو کی، گفتگو کر ہی رہا تھا کہ قریش کی طرف سے سہیل بن عمرو آگیا، حضور ﷺ نے صحابہ سے فرمایا اب تمہارا مقصد آسان ہوگیا سہیل نے آکر عرض کیا لائیے ہمارا اپنا ایک صلح نام لکھئے۔ حضور ﷺ نے کاتب کو بلوایا اور فرمایا لکھو بسم اللہ الرحمن الرحیم سہیل بولا اللہ کی قسم میں رحمن کو تو جانتا ہی نہیں کہ کیا چیز ہے ؟ یہ نہ لکھو بلکہ جس طرح پہلے باسمک اللہم لکھا کرتے تھے وہی اب لکھو مسلمان بولے اللہ کی قسم ہم تو بسم اللہ الرحمن الرحیم ہی لکھیں گے حضور ﷺ نے فرمایا باسمک اللہم ہی لکھ دو اس کے بعد فرمایا لکھو یہ صلح نامہ وہ ہے جس پر محمد رسول اللہ ﷺ نے صلح کی ہے سہیل بولا اللہ کی قسم اگر ہم کو یہ یقین ہوتا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو پھر کعبہ سے آپ کو نہ روکتے اور نہ آپ سے لڑتے اس لئے محمد رسول اللہ ﷺ نہ لکھو بلکہ محمد بن عبداللہ لکھوحضور ﷺ نے فرمایا تم اگرچہ مجھے نہ مانو لیکن اللہ کی قسم میں اللہ کا رسول ہوں (اچھا) محمد بن عبداللہ ہی لکھ دو ۔ زہری کہتے ہیں یہ نرمی حضور ﷺ نے اس لئے کی کہ پہلے فرماچکے تھے کہ جس بات میں حرم الہٰی کی عزت و حرمت برقرار رہے گی اور قریش مجھ سے اس کا مطالبہ کریں گے تو میں ضرور دے دوں گا خیر حضور ﷺ نے فرمایا یہ صلح نامہ اس شرط پر ہے کہ تم لوگ ہم کو خانہ کعبہ کی طرف جانے دو تاکہ ہم طواف کرلیں سہیل بولا اللہ کی قسم عرب اس کا چرچا کریں گے کہ ہم پر دباؤ ڈال کر مجبور کیا گیا (اس لئے اس سال نہیں) آئندہ سال یہ ہوسکتا ہے کاتب نے یہ بات بھی لکھ دی پھر سہیل نے کہا کہ صلح نامہ میں یہ شرط بھی ہونی چاہئے کہ جو شخص ہم میں سے نکل کر تم سے مل جائے گا وہ خواہ تمہارے دین پر ہی ہو لیکن تم کو واپس ضرور کرنا ہوگا مسلمان کہنے لگے سبحان اللہ جو شخص مسلمان ہو کر آجائے وہ مشرکوں کو کیسے دیا جاسکتا ہے۔ لوگ اسی گفتگو میں تھے کہ سہیل بن عمرو کا بیٹا ابوجندل بیڑیوں میں جکڑا ہوا آیا جو مکہ کے نشیبی علاقہ سے نکل کر بھاگ آیا تھا، آتے ہی مسلمانوں کے سامنے گرپڑا سہیل بولا محمد ﷺ یہ سب سے پہلی شرط ہے جس پر میں تم سے صلح کروں گا اس کو تم ہمیں واپس دے دو حضور ﷺ نے فرمایا ابھی تو ہم صلح نامہ مکمل نہیں لکھ پائے ہیں سہیل بولا اللہ کی قسم پھر میں کبھی کسی شرط پر صلح نہیں کروں گا حضور ﷺ نے فرمایا اس کی تو مجھے اجازت دے دو سہیل نے کہا میں اجازت نہ دوں گا حضور ﷺ نے فرمایا نہیں یہ تو کردو سہیل بولا نہیں کروں گا مکرز بولا ہم اس کی تو تم کو اجازت دیتے ہیں (لیکن مکرز کا قول تسلیم نہیں کیا گیا) ابوجندل بولے مسلمانو ! میں مسلمان ہو کر آگیا پھر مجھے مشرکوں کو واپس دیا جائے گا حالانکہ جو تکلیفیں میں نے ان کی طرف سے برداشت کیں وہ تم دیکھ رہے ہو یہ واقعہ ہے کہ ابوجندل کو کافروں نے سخت عذاب دیا تھا۔ حضرت عمر (رض) یہ سن کر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ اللہ کے سچے نبی نہیں ہے ؟ فرمایا ہوں، کیوں نہیں حضرت عمر (رض) نے عرض کیا تو کیا ہم حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں ؟ حضور ﷺ نے فرمایا ہیں کیوں نہیں، حضرت عمر (رض) نے عرض کیا تو ہم اپنے دین میں ذلت پیدا نہ ہونے دیں گے حضور ﷺ نے فرمایا میں اللہ کا رسول ہوں اس کی نافرمانی نہیں کروں گا وہی میرا مددگار ہے حضرت عمر (رض) نے کہا کیا آپ نے ہم سے نہیں کہا تھا کہ عنقریب ہم خانہ کعبہ پہنچ کر طواف کریں گے حضور ﷺ نے فرمایا ہاں یہ تو میں نے کہا تھا لیکن کیا تم سے یہ بھی کہا تھا کہ اسی سال ہم وہاں پہنچ جائیں گے حضرت عمر (رض) نے کہا نہیں یہ تو نہیں فرمایا تھا حضور ﷺ نے فرمایا تو بس تم کعبہ کو پہنچو گے اور طواف کرو گے۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابوبکر (رض) کے پاس آیا اور ان سے کہا ابوبکر ! یہ اللہ کے سچے نبی نہیں ہیں ؟ ابوبکر (رض) نے کہا ضرور ہیں۔ میں نے کہا کیا ہم لوگ حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں ؟ ابوبکر (رض) نے کہا ضرور ہیں کیوں نہیں، میں نے کہا تو ہم اپنے دین میں ذلت پیدا نہ ہونے دیں گے ابوبکر (رض) بولے کہ اے شخص وہ ضرور اللہ کے رسول ہیں اپنے رب کی نافرمانی نہیں کریں گے وہی ان کا مددگار ہے ان کے حکم کے موافق عمل کر اللہ کی قسم وہ حق پر ہیں عمر (رض) نے کہا کیا وہ ہم سے نہیں کہا تھا کہ عنقریب ہم خانہ کعبہ پہنچ کر طواف کریں گے ابوبکر (رض) نے کہا بیشک انہوں نے کہہ دیا تھا کہ اسی سال تم کعبہ میں پہنچو گے میں نے کہا نہیں ابوبکربولے تو تم کعبہ کو پہنچ کر ضرور اس کا طواف کروگے۔ حضرت عمر (رض) کہتے ہیں کہ اس قصور (تعمیل حکم میں توقف) کے تدارک کے لئے میں نے کئی نیک عمل کئے راوی کا بیان ہے کہ جب صلح نامہ مکمل ہوگیا تو حضور ﷺ نے صحابہ کرام (رض) سے فرمایا اٹھ کر جانور ذبح کرو اور سرمنڈاؤ لیکن صحابہ کرام (رض) میں سے کوئی شخص نہ اٹھا یہاں تک کہ حضور ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا لیکن پھر بھی کوئی نہ اٹھا جب کوئی نہ اٹھا تو حضور ﷺ حضرت ام سلمہ (رض) کے پاس اندر تشریف لے گئے اور لوگوں نے حضور ﷺ کے ساتھ جو معاملہ کیا تھا اس کا تذکرہ فرمایا ام سلمہ (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ آپ چپکے سے اٹھ کر بغیر کسی سے سے کچھ کہے ہوئے جا کر خود قربانی کریں اور حجام کو بلا کر سرمنڈا دیں، جب مشورہ کرکے حضور ﷺ اٹھے اور بغیر کسی سے کچھ کہے ہوئے جاکر قربانی کی اور حجام کو بلاکر سرمنڈایا لوگوں نے جو یہ دیکھا تو خود اٹھ کر قربانیاں کیں اور باہم ایک دوسرے کا سرمونڈنے لگے اور ہجوم کی وجہ سے قریب تھا کہ بعض بعض کو مار ڈالیں اور مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان راستے میں ہی سورت فتح نازل ہوگئی۔
حضرت مسوربن مخرمہ (رض) اور مروان بن حکم (رض) کی مرویات
حضرت مسور (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی (رض) نے (حضرت فاطمہ (رض) کی موجودگی میں) ابوجہل کی بیٹی کے پاس پیغام نکاح بھیجا اور نکاح کا وعدہ کرلیا اس پر حضرت فاطمہ (رض) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں عنہا کہنے لگیں آپ کی قوم کے لوگ آپس میں یہ باتیں کرتے ہیں کہ آپ کو اپنی بیٹیوں کے معاملے میں بھی غصہ نہیں آتا کیونکہ حضرت علی (رض) نے ابوجہل کی بیٹی کے پاس پیغام نکاح بھیجا ہے یہ سن کر نبی کریم ﷺ صحابہ کرام (رض) کے درمیان کھڑے ہوئے اللہ کی حمدوثناء بیان کی اور فرمایا فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے میں اس بات کو اچھا نہیں سمجھتا کہ اسے آزمائش میں مبتلا کیا جائے پھر نبی کریم ﷺ نے اپنے بڑے دامادحضرت ابوالعاص بن الربیع (رض) کا ذکر کیا اور ان کی خوب تعریف فرمائی، پھر فرمایا کہ اللہ کے نبی کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک شخص کے نکاح میں جمع نہیں ہوسکتی چناچہ حضرت علی (رض) نے یہ خیال ترک کردیا۔
حضرت مسوربن مخرمہ (رض) اور مروان بن حکم (رض) کی مرویات
حضرت مسور (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی (رض) نے (حضرت فاطمہ (رض) کی موجودگی میں) ابوجہل کی بیٹی کے پاس پیغام نکاح بھیجا اور نکاح کا وعدہ کرلیا اس پر حضرت فاطمہ (رض) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہنے لگیں آپ کی قوم کے لوگ آپس میں یہ باتیں کرتے ہیں کہ آپ کو اپنی بیٹیوں کے معاملے میں بھی غصہ نہیں آتا کیونکہ حضرت علی (رض) نے ابوجہل کی بیٹی کے پاس پیغام نکاح بھیجا ہے یہ سن کر نبی کریم ﷺ صحابہ کرام (رض) کے درمیان کھڑے ہوئے اللہ کی حمد وثناء بیان کی اور فرمایا فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے میں اس بات کو اچھا نہیں سمجھتا کہ اسے آزمائش میں مبتلا کیا جائے پھر نبی کریم ﷺ نے اپنے بڑے داماد حضرت ابوالعاص بن الربیع (رض) کا ذکر کیا اور ان کی خوب تعریف فرمائی، پھر فرمایا کہ اللہ کے نبی کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک شخص کے نکاح میں جمع نہیں ہوسکتی چناچہ حضرت علی (رض) نے یہ خیال ترک کردیا۔
حضرت مسوربن مخرمہ (رض) اور مروان بن حکم (رض) کی مرویات
امام زین العابدین (رح) فرماتے ہیں کہ حضرت امام حسین (رض) کی شہادت کے بعدجب وہ لوگ یزید کے پاس سے مدینہ منورہ پہنچے تو حضرت مسور بن مخرمہ (رض) ان سے ملے اور فرمایا آپ کو مجھ سے کوئی کام ہو تو بتائیے ؟ میں نے کہا نہیں، انہوں نے فرمایا کیا آپ مجھے نبی کریم ﷺ کی تلوار دے سکتے ہیں کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ آپ پر غالب آجائیں گے واللہ اگر آپ وہ مجھے دے دیں تو میری جان سے گذر کر ہی کوئی آدمی اس تک پہنچ سکے گا ایک مرتبہ حضرت علی (رض) نے (حضرت فاطمہ (رض) کی موجودگی میں) ابوجہل کی بیٹی کے پاس پیغام نکاح بھیجا اور نکاح کا وعدہ کرلیا اس پر حضرت فاطمہ (رض) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں عنہا کہنے لگیں آپ کی قوم کے لوگ آپس میں یہ باتیں کرتے ہیں کہ آپ کو اپنی بیٹیوں کے معاملے میں بھی غصہ نہیں آتا کیونکہ حضرت علی (رض) نے ابوجہل کی بیٹی کے پاس پیغام نکاح بھیجا ہے یہ سن کر نبی کریم ﷺ صحابہ کرام (رض) کے درمیان کھڑے ہوئے اللہ کی حمد وثناء بیان کی اور فرمایا فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے میں اس بات کو اچھا نہیں سمجھتا کہ اسے آزمائش میں مبتلا کیا جائے پھر نبی کریم ﷺ نے اپنے بڑے داماد حضرت ابوالعاص بن الربیع (رض) کا ذکر کیا اور ان کی خوب تعریف فرمائی، پھر فرمایا کہ میں کسی حلال کو حرام یا حرام کو حلال تو نہیں کرتا البتہ اللہ کے نبی کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک شخص کے نکاح میں جمع نہیں ہوسکتی چناچہ حضرت علی (رض) نے یہ خیال ترک کردیا۔
حضرت مسوربن مخرمہ (رض) اور مروان بن حکم (رض) کی مرویات
حضرت مروان (رض) اور مسور (رض) سے مروی ہے کہ جب بنوہوازن کے مسلمانوں کا وفد نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان لوگوں نے درخواست کی کہ ان کے قیدی اور مال و دولت واپس کردیا جائے (کیونکہ اب وہ مسلمان ہوگئے ہیں) نبی کریم ﷺ نے فرمایا میرے ساتھ جتنے لوگ ہیں تم انہیں دیکھ رہے ہو سچی بات مجھے سب سے زیادہ پسند ہے اس لئے دو میں سے کوئی ایک صورت اختیار کرلو یا قیدی یا مال ؟ میں تمہیں سوچنے کا وقت دیتا ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے طائف سے واپسی کے بعد دس سے کچھ اوپر راتیں انہیں سوچنے کی مہلت دی جب انہیں یقین ہوگیا کہ نبی کریم ﷺ انہیں صرف ایک ہی چیز واپس کریں گے تو وہ کہنے لگے کہ ہم قیدیوں کو چھڑانے والی صورت کو ترجیح دیتے ہیں چناچہ نبی کریم ﷺ مسلمانوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد وثناء اس کے شایان شان کی پھر امابعد کہہ کر فرمایا کہ تمہارے بھائی تائب ہو کر آئے ہیں میری رائے یہ بن رہی ہے کہ انہیں ان کے قیدی واپس لوٹادوں سو تم میں سے جو شخص اپنے دل کی خوشی سے ایسا کرسکتا ہو تو وہ ایسا ہی کرلے ؟ لوگ کہنے لگے کہ ہم خوشی سے اس کی اجازت دیتے ہیں نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہمیں کیا معلوم کہ تم میں سے کس نے اپنی خوشی سے اجازت دی ہے اور کس نے نہیں ؟ اس لئے اب تم لوگ واپس چلے جاؤ یہاں تک کہ تمہارے بڑے ہمارے سامنے تمہاری اجازت کا معاملہ پیش کریں چناچہ لوگ واپس چلے گئے پھر ان کے بڑوں نے ان سے بات کی اور واپس آکر نبی کریم ﷺ کو بتایا کہ سب نے اپنی خوشی سے ہی اجازت دی ہے بنوہوازن کے قیدیوں کے متعلق مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے۔
حضرت مسوربن مخرمہ (رض) اور مروان بن حکم (رض) کی مرویات
حضرت عمرو بن عوف (رض) جو کہ غزوہ بدر کے شرکاء میں سے تھے " سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک مرتبہ حضرت ابوعبیدہ بن جراح (رض) کو بحرین کی طرف بھیجا تاکہ وہاں سے جزیہ وصول کرکے لائیں، نبی کریم ﷺ نے اہل بحرین سے صلح کرلی تھی اور ان پر حضرت علاء بن حضرمی (رض) کو امیر بنادیا تھا چناچہ ابوعبیدہ (رض) بحرین سے مال لے کر آئے۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔ حضرت مسوربن مخرمہ (رض) سے مروی ہے کہ ابوعبیدہ (رض) بحرین سے مال لے کر آئے، انصار کو جب ان کے آنے کا پتہ چلا تو وہ نماز فجر میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ نبی کریم ﷺ جب نماز فجر پڑھ کر فارغ ہوئے تو وہ سامنے آئے نبی کریم ﷺ انہیں دیکھ کر مسکرا پڑے اور فرمایا شاید تم نے ابوعبیدہ کی واپسی اور ان کے کچھ لے آنے کی خبر سنی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا جی یا رسول اللہ ! نبی کریم ﷺ نے فرمایا خوش ہوجاؤ اور اس چیز کی امید رکھو جس سے تم خوش ہوجاؤگے واللہ مجھے تم پر فقر و فاقہ کا اندیشہ نہیں بلکہ مجھے تو اندیشہ ہے کہ تم پر دنیا اسی طرح کشادہ کردی جائے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ کردی گئی تھی اور تم اس میں ان ہی کی طرح مقابلہ بازی کرنے لگوگے۔
حضرت مسوربن مخرمہ (رض) اور مروان بن حکم (رض) کی مرویات
حضرت مسور بن مخرمہ (رض) سے مروی ہے کہ سبیعہ کے یہاں اپنے شوہر کی وفات کے چند دن بعد ہی بچے کی ولادت ہوگئی نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم حلال ہوچکی ہو لہٰذا نکاح کرسکتی ہو۔
حضرت مسوربن مخرمہ (رض) اور مروان بن حکم (رض) کی مرویات
حضرت مسور بن مخرمہ (رض) سے مروی ہے کہ سبیعہ کے یہاں اپنے شوہر کی وفات کے چند دن بعد ہی بچے کی ولادت ہوگئی اور وہ دوسرے رشتے کے لئے تیار ہونے لگیں اور نبی کریم ﷺ سے نکاح کی اجازت مانگی نبی کریم ﷺ نے انہیں اجازت دے دی اور انہوں نے دوسرا نکاح کرلیا۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حضرت مسوربن مخرمہ (رض) اور مروان بن حکم (رض) کی مرویات
حضرت مسور (رض) اور مروان (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ ذوالحلیفہ پہنچ کر ہدی کے جانور کے گلے میں قلادہ باندھا اس کا شعار کیا اور وہاں سے احرام باندھ لیا حدیبیہ میں حلق کرلیا اور اپنے صحابہ (رض) کو بھی اس کا حکم دیا اور حلق کرنے سے پہلے ہی قربانی کرلی اور صحابہ (رض) کو بھی اس کا حکم دیا۔
حضرت مسوربن مخرمہ (رض) اور مروان بن حکم (رض) کی مرویات
حضرت عائشہ (رض) کے حوالے سے مروی ہے کہ انہوں نے کوئی بیع کی یا کسی کو کوئی بخشش دی تو حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) (جو ان کے بھانجے تھے) نے کہا کہ بخدا ! عائشہ (رض) کو رکنا پڑے گا ورنہ میں انہیں اب کچھ نہیں دوں گا حضرت عائشہ (رض) کو معلوم ہوا تو فرمایا کیا اس نے یہ بات کہی ہے ؟ لوگوں نے بتایاجی ہاں ! فرمایا میں اللہ کے نام پر منت مانتی ہوں کہ آج کے بعد ابن زبیر (رض) سے کبھی کوئی بات نہیں کروں گی پھر عبداللہ بن زبیر (رض) نے حضرت مسور بن مخرمہ (رض) اور حضرت عبدالرحمن بن اسود (رض) جن کا تعلق بنو زہرہ سے تھا " سے سفارش کروائی۔۔۔۔۔۔ یہ دونوں حضرت عائشہ (رض) کی ابن زبیر (رض) سے بات کرنے اور ان کی معذرت قبول کرنے کے لئے قسمیں دیتے رہے اور کہنے لگے کہ آپ کو بھی معلوم ہے کہ نبی کریم ﷺ نے قطع کلامی سے منع کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ کسی مسلمان کے لئے اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع کلامی جائز نہیں ہے۔ طفیل بن حارث " جو کہ ازدشنوہ کے ایک فرد تھے اور حضرت عائشہ (رض) کے ماں شریک بھائی بھائی تھے " سے مروی ہے۔۔۔۔۔ پھر عبداللہ بن زبیر (رض) نے حضرت مسور بن مخرمہ (رض) اور حضرت عبدالرحمن بن اسود (رض) جن کا تعلق بنو زہرہ سے تھا " سے سفارش کروائی۔۔۔۔۔۔ یہ دونوں حضرت عائشہ (رض) کی ابن زبیر (رض) سے بات کرنے اور ان کی معذرت قبول کرنے کے لئے قسمیں دیتے رہے اور کہنے لگے کہ آپ کو بھی معلوم ہے کہ نبی کریم ﷺ نے قطع کلامی سے منع کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ کسی مسلمان کے لئے اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع کلامی جائز نہیں ہے۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حضرت مسوربن مخرمہ (رض) اور مروان بن حکم (رض) کی مرویات
حضرت مسور (رض) اور مروان (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ حدیبیہ کے سال ایک ہزار سے اوپر صحابہ کرام (رض) کو ساتھ لے کر نکلے ذوالحلیفہ پہنچ کر ہدی کے جانور کے گلے میں قلادہ باندھا اس کا شعار کیا اور وہاں سے احرام باندھ لیا اور اپنے آگے ایک جاسوس بھیج کر خود بھی روانہ ہوگئے۔
حضرت مسوربن مخرمہ (رض) اور مروان بن حکم (رض) کی مرویات
حضرت مروان (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک ڈھال چوری کرنے پر ہاتھ کاٹ دیا تھا تو اونٹ تو ڈھال سے افضل ہے۔
حضرت مسوربن مخرمہ (رض) اور مروان بن حکم (رض) کی مرویات
حضرت مسور (رض) سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو برسر منبریہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بنوہشام بن مغیرہ مجھ سے اس بات کی اجازت مانگ رہے ہیں کہ اپنی بیٹی کا نکاح علی سے کردیں میں اس کی اجازت کبھی نہیں دوں گا تین مرتبہ فرمایا میری بیٹی میرے جگر کا ٹکڑا ہے جو چیز اسے پریشان کرتی ہے وہ مجھے بھی پریشان کرتی ہے اور جو اسے تکلیف پہنچاتی ہے وہ مجھے بھی تکلیف پہنچاتی ہے۔
حضرت مسوربن مخرمہ (رض) اور مروان بن حکم (رض) کی مرویات
حضرت مسور بن مخرمہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں کہیں سے کچھ قمیضیں آئیں جن میں سونے کے بٹن لگے ہوئے تھے نبی کریم ﷺ نے وہ سب صحابہ (رض) کے درمیان تقسیم کردیں، میرے والد مخرمہ نے کہا کہ اے مسور ! ہمارے ساتھ نبی کریم ﷺ کے پاس چلو مجھے بتایا گیا ہے کہ انہوں نے کچھ ق بائیں تقسیم کی ہیں چناچہ ہم روانہ ہوگئے وہاں پہنچ کر انہوں نے مجھ سے کہا کہ اندر جا کر نبی کریم ﷺ کو بلاؤ میں اندر گیا اور نبی کریم ﷺ کو بلا کرلے آیا نبی کریم ﷺ باہر تشریف لائے تو ان میں کی ایک قمیض پہن رکھی تھی نبی کریم ﷺ نے فرمایا مخرمہ ! یہ میں نے تمہارے لئے رکھی تھی، انہوں نے اسے دیکھ کر اپنی رضامندی کا اظہار کیا تو نبی کریم ﷺ نے وہ انہیں دے دی۔
حضرت مسوربن مخرمہ (رض) اور مروان بن حکم (رض) کی مرویات
حضرت مسور بن مخرمہ اور مروان سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ حدیبیہ کے سال (عمرہ کرنے کے ارادہ سے) مدینہ سے چلے اس وقت آپ ﷺ کے ہم رکاب ایک ہزار چند سو آدمی تھے ذوالحلفیہ میں پہنچ کر قربانی کے گلے میں ہار ڈال کر اس کا شعار کیا اور عمرہ کا احرام باندھا اور ایک خزاعی آدمی کو جاسوسی کے روانہ کیا تاکہ کی خبروں سے مطلع کرے، ادھر جاسوس کو روانہ کیا ادھر خود چل پڑے وادی کے قریب پہنچے تھے کہ جاسوس واپس آیا اور عرض کیا کہ قریش نے آپ کے مقابلہ کے لئے بہت فوجیں جمع کی ہیں اور مختلف قبائل کو اکٹھا کیا ہے وہ آپ سے لڑنے کے لئے تیار ہیں اور خانہ کعبہ میں داخل ہونے سے آپ کو روک دیں گے۔ حضور ﷺ نے ہمراہیان کو مخاطب کرکے فرمایا لوگو ! کیا مشورہ ہے کیا میں ان کے اہل و عیال کی طرف مائل ہوجاؤں اور جو لوگ خانہ کعبہ سے مجھے روکنا چاہتے ہیں میں ان کے اہل و عیال کو گرفتار کرلوں اگر وہ لوگ اپنے بال بچوں کی مدد کو آئیں گے تو ان کا گروہ ٹوٹ جائے گ اور نہ ہم ان کو مفلس کرکے چھوڑ دیں گے بہرحال ان کا نقصان ہے صدیق اکبر (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ خانہ کعبہ کی نیت سے چلے ہیں لڑائی کے ارادے سے نہیں نکلے آپ کو خانہ کعبہ کا رخ کرنا چاہئے پھر جو ہم کو روکے گا ہم اس سے لڑیں گے حضور ﷺ نے فرمایا اچھا (تو خدا کا نام لے کر چل دو ) چناچہ سب چلے دئیے۔ اثنا راہ میں حضور ﷺ نے فرمایا کہ خالد بن ولید قریش کے (دو سو) سواروں کو لئے (مقام) غمیم میں ہمارا راستہ روکے پڑا ہے لہٰذا تم بھی داہنی طرف کو ہی (خالد کی جانب) چلو سب لوگوں نے دہنی طرف کا رخ کرلیا اور اس وقت تک خالد کو خبر نہ ہوئی جب تک لشکر کا غبار اڑتا ہوا انہوں نے دیکھ لیا، غبار اڑتا دیکھ کر خالد نے جلدی سے جاکر قریش کو رسول اللہ ﷺ کی آمد سے ڈرایا رسول اللہ ﷺ حسب معمول چلتے رہے یہاں تک کہ جب اس پہاڑی پر پہنچے جس کی طرف سے لوگ مکہ میں اترتے ہیں تو آپ ﷺ کی اونٹنی بیٹھ گئی لوگوں نے بہت کوشش کی لیکن اونٹنی نہ اٹھی وہیں جم گئی لوگ کہنے لگے کہ قصواء (حضور ﷺ کی اونٹنی کا نام تھا) اڑ گئی حضور ﷺ نے فرمایا قصواء خود نہیں اڑی ہے اس کی یہ عادت ہی نہیں ہے بلکہ اس کو اس نے روک دیا ہے جس نے اصحاب فیل کو روکا تھا۔ پھر فرمایا قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے مکہ والے عظمت حرم برقرار رکھنے کے لئے مجھ سے جو کچھ خواہش کریں گے میں دے دوں گا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے اونٹنی کو جھڑکا اونٹنی فوراً اٹھ کھڑی ہوئی، آپ ﷺ مکہ والوں کی راہ سے بچ کر دوسری طرف کا رخ کرکے چلے اور حدیبیہ سے دوسری طرف اس جگہ اترے جہاں تھوڑا تھوڑا پانی تھا۔ لوگوں نے وہی تھوڑا پانی لے لیاجب سب پانی کھینچ چکے اور پانی بالکل نہ رہا تو حضور ﷺ کے پاس پانی نہ ہونے کی شکایت آئی حضور ﷺ نے اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکال کر صحابہ (رض) کو دیا اور حکم دیا کہ اس کو پانی میں رکھ دو ۔ صحابہ کرام (رض) نے حکم کی تعمیل کی۔ جونہی تیر کو پانی میں رکھا فوراً پانی میں ایسا جوش آیا کہ سب لوگ سیراب ہو کر واپس ہوئے اور پانی پھر بھی بچ رہا۔ یہ کہہ کر بدیل چلا گیا اور قریش کے پاس پہنچ کر ان سے کہا ہم فلاں آدمی کے پاس سے تمہارے پاس آئے ہیں اس نے ہم سے ایک بات کہی ہے اگر تم چاہو تو ہم تمہارے سامنے اس کا اظہار کردیں قریش کے بیوقوف آدمی تو کہنے لگے ہم کو کوئی ضرورت نہیں کہ تم اس کی باتیں ہمارے سامنے بیان کرو لیکن سمجھ دار لوگوں نے کہا تم ان کا قول بیان کرو۔ بدیل نے حضور ﷺ کا تمام فرمان نقل کردیا یہ سن کر عروہ بن مسعود کھڑا ہوا اور کہنے لگا اے قوم کیا میں تمہارا باپ نہیں ہوں۔ سب نے کہا بیشک ہو کہنے لگا کیا تم میری اولاد نہیں ہو سب نے کہا ہیں عروہ بولا کیا تم مجھے مشکوک آدمی سمجھتے ہو ؟ سب نے کہا نہیں عروہ بولا کیا تم کو معلوم نہیں اہل عکاظ کو میں نے ہی تمہاری مدد کے لئے بلایا تھا اور جب وہ نہ آئے تو میں اپنے اہل و عیال اور متعلقین و زیردست لوگوں کو لے کر تم سے آکر مل گیا سب نے کہا بیشک عروہ بولا اس شخص نے سب سے پہلے ٹھیک بات کہی ہے تم اس کو قبول کرلو اور مجھ کو اس کے پاس جانے کی اجازت دو ۔ لوگوں نے کہا جاؤ۔ عروہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے گفتگو کرنے لگا حضور ﷺ نے اس سے بھی وہی کلام کیا جو بدیل سے کیا تھا۔ عروہ بولا محمد ! دیکھو اگر تم (غالب ہوجاؤگے اور) اپنی قوم کی بیخ کنی کردوگے تو کیا اس سے پہلے تم نے کسی کے متعلق سنا ہے کہ اس نے اپنی ہی قوم کی جڑکاٹی ہو اور اگر دوسری بات ہو (قریش غالب آئے) تو اللہ کی قسم مجھے بہت سے چہرے ایسے نظر آرہے ہیں کہ تم کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے کیونکہ مختلف قوموں کی اس میں بھرتی ہے حضرت ابوبکر (رض) نے غصہ میں آکر فرمایا کیا ہم حضور ﷺ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے ؟ عروہ بولا یہ کون شخص ہے ؟ لوگوں نے کہا ابوبکر (رض) ہیں۔ عروہ حضرت ابوبکر (رض) سے بولا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر تمہارا گذشتہ احسان مجھ پر نہ ہوتا جس کا میں بدلہ نہ دے سکا ہوں تو ضرور میں اس کا جواب دیتا یہ کہہ کر پھر حضور ﷺ سے گفتگو کرنے لگا اور بات کرتے ہوئے بار بار حضور ﷺ کی ڈاڑھی پکڑ لیتا تھا مغیرہ بن شعبہ (رض) رسول اللہ ﷺ کے پیچھے تلوار لئے زرہ پہنے (نگرانی کے لئے) کھڑے تھے عروہ جب حضور ﷺ کی داڑھی پکڑنے کے لئے ہاتھ جھکاتا تھا مغیرہ تلوار کے قبضہ کی نوک عروہ کو مار کر کہتے تھے کہ حضور ﷺ کی داڑھی سے ہاتھ ہٹالے عروہ ہاتھ ہٹالیتا تھا آخرکار عروہ نے پوچھا یہ کون شخص ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ یہ مغیرہ بن شعبہ (رض) ہیں عروہ بولا او دغا باز کیا میں نے تیری دغابازی کے مٹانے میں تیری لئے کوشش نہیں کی تھی۔ واقعہ یہ تھا کہ مغیرہ بن شعبہ جاہلیت کے زمانہ میں ایک قوم کے پاس جاکر رہے تھے اور دھوکے سے ان کو قتل کرکے مال لے کر چلتے ہوئے تھے اور پھر آکر مسلمان ہوگئے تھے اور حضور ﷺ کی بیعت لیتے وقت فرمادیا تھا کہ اسلام تو میں قبول کرتا ہوں لیکن مال والے معاملے میں مجھے کوئی تعلق نہیں، حاصل کلام یہ ہے کہ عروہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر صحابہ کرام (رض) کو دیکھنے لگا اللہ کی قسم رسول اللہ ﷺ جو لعاب دہن منہ سے پھینکتے تھے تو زمین پر گرنے سے قبل جس شخص کے ہاتھ لگ جاتا تھا وہ اس کو اپنے چہرہ پر مل لیتا تھا اور جو بال آپ ﷺ کا گرتا تھا صحابہ کرام (رض) زمین پر گرنے سے قبل اس کو لے لیتے تھے جس کام کا آپ ﷺ حکم دیتے تھے ہر ایک دوسرے سے پہلے اس کے کرنے کو تیار ہوجاتا تھا اور حضور ﷺ کے وضو کے پانی پر کشت وخون کے قریب نوبت پہنچ جاتی تھی صحابہ کرام (رض) کلام کرتے وقت حضور ﷺ کے سامنے پست آواز سے باتیں کرتے تھے اور انتہائی عظمت کیوجہ سے تیز نظر سے حضور ﷺ کی طرف نہ دیکھتے تھے۔ یہ سب باتیں دیکھنے کے بعد عروہ واپس آیا اور ساتھیوں سے کہنے لگا اے قوم اللہ کی قسم میں بادشاہوں کے پاس قاصد بن کر گیا ہوں۔ قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے درباروں میں بھی رہا ہوں لیکن میں نے کبھی کوئی بادشاہ ایسا نہیں دیکھا کہ اس کے آدمی اس کی ایسی تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد ﷺ کے ساتھی اس کی تعظیم کرتے ہیں اللہ کی قسم جب وہ تھوک پھینکتا ہے تو جس شخص کے ہاتھ وہ لگ جاتا ہے وہ اس کو اپنے چہرہ اور بدن پر مل لیتا ہے اگر وہ کسی کام کا حکم دیتا ہے تو ہر ایک دوسرے سے پہلے اس کی تعمیل کرنے کو تیار ہوجاتا ہے جس وقت وہ وضو کرتا ہے تو اس کے وضو کے پانی پر لوگ کشت وخون کرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں اس کے سامنے کلام کرتے وقت سب آوازیں پست رکھتے ہیں اور اس کی تعظیم کے لئے کوئی نظر اٹھا کر اس کی طرف نہیں دیکھتا اس نے تمہارے سامنے بہترین بات پیش کی ہے لہٰذا تم اس کو قبول کرلو۔ عروہ جب اپنا کلام ختم کرچکا تو قبیلہ بنی کنانہ کا ایک آدمی بولا مجھے ذرا ان کے پاس جانے کی اجازت دو سب لوگوں نے اس کو جانے کی اجازت دی وہ حضور ﷺ کے پاس حاضر ہونے کے ارادہ سے چل دیا جب سامنے سے نمودار ہوا تو حضور ﷺ نے فرمایا یہ فلاں شخص فلاں قوم میں سے ہے اس کی قوم قربانی کے اونٹوں کی بہت عزت و حرمت کرتی ہے لہٰذا قربانی کے اونٹ اس کی نظر کے سامنے کردو حسب الحکم قربانی کے اونٹ اس کے سامنے پیش کئے گئے اور لوگ لبیک کہتے ہوئے اس کے سامنے آئے جب اس نے یہ حالت دیکھی تو کہنے لگا کہ ان لوگوں کو کعبہ سے روکنا کسی طرح مناسب نہیں یہ دیکھ کر وہ واپس آیا اور اپنی قوم سے کہنے لگا میں نے ان کے اونٹوں کے گلے میں ہار پڑے دیکھے ہیں اور اشعار کی علامت دیکھی ہے، میرے نزدیک مناسب نہیں کہ خانہ کعبہ سے ان کو روکا جائے۔ اس کی تقریر سن کر مکرز نامی ایک شخص اٹھا اور کہنے لگا ذرا مجھے ان کے پاس تو جانے دوسب نے اجازت دے دی اور وہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کے ارادہ سے چل دیا صحابہ کے سامنے نمودار ہوا تو حضور ﷺ نے فرمایا یہ مکرز ہے اور شریر ہے مکرز خدمت میں پہنچ گیا اور حضور ﷺ سے کچھ گفتگو کی، گفتگو کر ہی رہا تھا کہ قریش کی طرف سے سہیل بن عمرو آگیا، حضور ﷺ نے صحابہ سے فرمایا اب تمہارا مقصد آسان ہوگیا سہیل نے آکر عرض کیا لائیے ہمارا اپنا ایک صلح نام لکھئے۔ حضور ﷺ نے کاتب کو بلوایا اور فرمایا لکھو بسم اللہ الرحمن الرحیم سہیل بولا اللہ کی قسم میں رحمن کو تو جانتا ہی نہیں کہ کیا چیز ہے ؟ یہ نہ لکھو بلکہ جس طرح پہلے باسمک اللہم لکھا کرتے تھے وہی اب لکھو مسلمان بولے اللہ کی قسم ہم تو بسم اللہ الرحمن الرحیم ہی لکھیں گے حضور ﷺ نے فرمایا باسمک اللہم ہی لکھ دو اس کے بعد فرمایا لکھو یہ صلح نامہ وہ ہے جس پر محمد رسول اللہ ﷺ نے صلح کی ہے سہیل بولا اللہ کی قسم اگر ہم کو یہ یقین ہوتا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو پھر کعبہ سے آپ کو نہ روکتے اور نہ آپ سے لڑتے اس لئے محمد رسول اللہ ﷺ نہ لکھو بلکہ محمد بن عبداللہ لکھو حضور ﷺ نے فرمایا تم اگرچہ مجھے نہ مانو لیکن اللہ کی قسم میں اللہ کا رسول ہوں (اچھا) محمد بن عبداللہ ہی لکھ دو ۔ زہری کہتے ہیں یہ نرمی حضور ﷺ نے اس لئے کی کہ پہلے فرماچکے تھے کہ جس بات میں حرم الہٰی کی عزت و حرمت برقرار رہے گی اور قریش مجھ سے اس کا مطالبہ کریں گے تو میں ضرور دے دوں گا خیر حضور ﷺ نے فرمایا یہ صلح نامہ اس شرط پر ہے کہ تم لوگ ہم کو خانہ کعبہ کی طرف جانے دو تاکہ ہم طواف کرلیں سہیل بولا اللہ کی قسم عرب اس کا چرچا کریں گے کہ ہم پر دباؤ ڈال کر مجبور کیا گیا (اس لئے اس سال نہیں) آئندہ سال یہ ہوسکتا ہے کاتب نے یہ بات بھی لکھ دی پھر سہیل نے کہا کہ صلح نامہ میں یہ شرط بھی ہونی چاہئے کہ جو شخص ہم میں سے نکل کر تم سے مل جائے گا وہ خواہ تمہارے دین پر ہی ہو لیکن تم کو واپس ضرور کرنا ہوگا مسلمان کہنے لگے سبحان اللہ جو شخص مسلمان ہو کر آجائے وہ مشرکوں کو کیسے دیا جاسکتا ہے۔ لوگ اسی گفتگو میں تھے کہ سہیل بن عمرو کا بیٹا ابوجندل بیڑیوں میں جکڑا ہو آیا جو مکہ کے نشیبی علاقہ سے نکل کر بھاگ آیا تھا، آتے ہی مسلمانوں کے سامنے گرپڑا سہیل بولا محمد ﷺ یہ سب سے پہلی شرط ہے جس پر میں تم سے صلح کروں گا اس کو تم ہمیں واپس دے دو حضور ﷺ نے فرمایا ابھی تو ہم صلح نامہ مکمل نہیں لکھ پائے ہیں سہیل بولا اللہ کی قسم پھر میں کبھی کسی شرط پر صلح نہیں کروں گا حضور ﷺ نے فرمایا اس کی تو مجھے اجازت دے دو سہیل نے کہا میں اجازت نہ دوں گا حضور ﷺ نے فرمایا نہیں یہ تو کردو سہیل بولا نہیں کروں گا مکرز بولا ہم اس کی تو تم کو اجازت دیتے ہیں (لیکن مکرز کا قول تسلیم نہیں کیا گیا) ابوجندل بولے مسلمانو ! میں مسلمان ہو کر آگیا پھر مجھے مشرکوں کو واپس دیا جائے گا حالانکہ جو تکلیفیں میں نے ان کی طرف سے برداشت کیں وہ تم دیکھ رہے ہو یہ واقعہ ہے کہ ابوجندل کو کافروں نے سخت عذاب دیا تھا۔ حضرت عمر (رض) یہ سن کر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ اللہ کے سچے نبی نہیں ہے ؟ فرمایا ہوں، کیوں نہیں حضرت عمر (رض) نے عرض کیا تو کیا ہم حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں ؟ حضور ﷺ نے فرمایا ہیں کیوں نہیں، حضرت عمر (رض) نے عرض کیا تو ہم اپنے دین میں ذلت پیدا نہ ہونے دیں گے حضور ﷺ نے فرمایا میں اللہ کا رسول ہوں اس کی نافرمانی نہیں کروں گا وہی میرا مددگار ہے حضرت عمر (رض) نے کہا کیا آپ نے ہم سے نہیں کہا تھا کہ عنقریب ہم خانہ کعبہ پہنچ کر طواف کریں گے حضور ﷺ نے فرمایا ہاں یہ تو میں نے کہا تھا لیکن کیا تم سے یہ بھی کہا تھا کہ اسی سال ہم وہاں پہنچ جائیں گے حضرت عمر (رض) نے کہا نہیں یہ تو نہیں فرمایا تھا حضور ﷺ نے فرمایا تو بس تم کعبہ کو پہنچو گے اور طواف کرو گے۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابوبکر (رض) کے پاس آیا اور ان سے کہا ابوبکر ! یہ اللہ کے سچے نبی نہیں ہیں ؟ ابوبکر (رض) نے کہا ضرور ہیں۔ میں نے کہا کیا ہم لوگ حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں ؟ بوبکر (رض) نے کہا ضرور ہیں کیوں نہیں، میں نے کہا تو ہم اپنے دین میں ذلت پیدانہ ہونے دیں گے ابوبکر (رض) بولے کہ اے شخص وہ ضرور اللہ کے رسول ہیں اپنے رب کی نافرمانی نہیں کریں گے وہی ان کا مددگار ہے ان کے حکم کے موافق عمل کر اللہ کی قسم وہ حق پر ہیں عمر (رض) نے کہا کیا وہ ہم سے بیان نہیں کیا کرتے تھے کہ عنقریب ہم خانہ کعبہ پہنچ کر طواف کریں گے ابوبکر (رض) نے کہا بیشک انہوں نے کہہ دیا تھا کہ اسی سال تم کعبہ میں پہنچوگے میں نے کہا نہیں ابوبکر بولے تو تم کعبہ کو پہنچ کر ضرور اس کا طواف کروگے۔ حضرت عمر (رض) کہتے ہیں کہ اس قصور (تعمیل حکم میں توقف) کے تدارک کے لئے میں نے کئی نیک عمل کئے راوی کا بیان ہے کہ جب صلح نامہ مکمل ہوگیا تو حضور ﷺ نے صحابہ کرام (رض) سے فرمایا اٹھ کر جانور ذبح کرو اور سرمنڈاؤ لیکن صحابہ کرام (رض) میں سے کوئی شخص نہ اٹھا یہاں تک کہ حضور ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا لیکن پھر بھی کوئی نہ اٹھا جب کوئی نہ اٹھا تو حضور ﷺ حضرت ام سلمہ (رض) کے پاس اندر تشریف لے گئے اور لوگوں نے حضور ﷺ کے ساتھ جو معاملہ کیا تھا اس کا تذکرہ فرمایا ام سلمہ (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ آپ چپکے سے اٹھ کر بغیر کسی سے سے کچھ کہے ہوئے جا کر خود قربانی کریں اور حجام کو بلاکر سرمنڈا دیں، جب مشورہ کرکے حضور ﷺ اٹھے اور بغیر کسی سے کچھ کہے ہوئے جاکر قربانی کی اور حجام کو بلاکر سرمنڈایا لوگوں نے جو یہ دیکھا تو خود اٹھ کر قربانیاں کیں اور باہم ایک دوسرے کا سر مونڈنے لگے اور ہجوم کی وجہ سے قریب تھا کہ بعض بعض کو مار ڈالیں۔ اس کے بعد حضور ﷺ نے کے پاس کچھ عورتیں آئیں اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یا ایہا الذین آمنوا اذاجاء کم المؤمنات مہاجرات الخ اس آیت کے مطابق اس دن حضرت عمر (رض) نے اپنی دو عورتوں کو طلاق دی جو اس وقت حالت شرک میں تھیں جن میں سے ایک سے تو معاویہ بن ابی سفیان نے اور دوسری سے صفوان بن امیہ نے نکاح کرلیا ان امور سے فراغت پا کر رسول اللہ ﷺ مدینہ کو لوٹ آئے۔ مدینہ پہنچنے کے بعد ایک قریشی ابوبصیر نامی مسلمان ہو کر خدمت والا میں حاضر ہوئے کافروں نے ان کی تلاش میں دو آدمی بھیجے دونوں نے آکر عرض کیا اپنا معاہدہ پورا کیجئے حضور ﷺ نے ابوبصیر کو دونوں کے حوالہ کردیا اور وہ ان کو ہمراہ لے کر نکلے ذوالحلیفہ میں پہنچے تو اتر کر کھجوریں کھانے لگے ابوبصیر نے ان دونوں میں سے ایک شخص سے کہا اللہ کی قسم میرے خیال میں یہ تلوار تو بہت ہی اچھی ہے دوسرے نے اس کو نیام سے کھینچ کر کہا ہاں بہت عمدہ ہے میں نے بارہا اس کا تجربہ کیا ہے ابوبصیر بولے ذرا مجھے دکھانا اس نے ابوبصیر کے ہاتھ میں دے دی، ابوبصیر نے اس کو تلوار سے قتل کردیا، دوسرا بھاگ کر مدینہ پہنچا اور بھاگ کر مسجد میں داخل ہوگیا حضور ﷺ نے دیکھا تو فرمایا یہ ضرور کہیں ڈر گیا ہے وہ خدمت میں پہنچا اور عرض کیا میرا ساتھی مارا گیا اور میں بھی مارے جانے کے قریب ہوں اتنے میں ابوبصیر بھی آگئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ﷺ اللہ کی قسم آپ نے اپناعہد پورا کردیا، آپ نے مجھے ان کے سپرد کردیا تھا لیکن اللہ نے مجھے ان سے نجات دی، حضور ﷺ نے فرمایا کم بخت لڑائی کی آگ بھڑکائے گا کاش اس کا کوئی مددگار ہوتا (اور ابوبصیر کو پکڑ کر مکہ لے جاتا) ابوبصیر نے جب دیکھا کہ حضور ﷺ مجھے کافروں کے حوالہ کردیں گے تو وہ وہاں سے نکل کر ساحل کی طرف چل دئیے ادھر ابوجندل بھی مکہ سے بھاگ کر ابوبصیر سے جاکر مل گئے پھر یہ حال ہوا کہ جو شخص قریش کے پاس سے مسلمان ہو کر بھاگتا وہ ابوبصیر سے مل جاتا یہاں تک کہ ان کا تقریباً ستر آدمیوں کا ایک جتھا ہوگیا، اب تو یہ صورت ہوگئی کہ قریش کا جو قافلہ شام کو جاتا اور ان کی خبر ہوجاتی تو راستے میں روک کر قافلہ والوں کو قتل کردیتے اور مال لوٹ لیتے مجبوراً قریش نے کسی کو حضور ﷺ کے پاس بھیجا اور اللہ اور رشتہ داری کا واسطہ دے کر کہا کہ کسی طرح ابوبصیر اور اس کے ہمراہیوں کو مدینہ میں بلالیں اگر ابوبصیر وغیرہ مدینہ آجائیں گے تو پھر ہم میں سے جو بھی آپ کے پاس مسلمان ہو کر جائے گا وہ امن میں ہے (ہم اس کو واپس نہ لیں گے) حضور ﷺ نے ابوبصیر وغیرہ سب لوگوں کو مدینہ بلالیا اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی وھوالذی کف ایدیہم عنکم وایدیکم عنہم الی قولہ حمیۃ الجاہلیۃ حمیت جاہلیت کے یہ معنی ہیں کہ قریش نے رسول اللہ ﷺ کی نبوت کا اقرار نہیں کیا اور بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنا گوارا نہ کیا اور مسلمانوں کو خانہ کعبہ سے روک دیا۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے معمولی فرق کے ساتھ بھی مروی ہے اور اس میں یہ بھی ہے مدینہ پہنچنے کے بعد ایک قریشی ابوبصیر نامی مسلمان ہو کر خدمت والا میں حاضر ہوئے کافروں نے ان کی تلاش میں دو آدمی بھیجے دونوں نے آکر عرض کیا اپنا معاہدہ پورا کیجئے حضور ﷺ نے ابوبصیر کو دونوں کے حوالہ کردیا اور وہ ان کو ہمراہ لے کر نکلے ذوالحلیفہ میں پہنچے تو اتر کر کھجوریں کھانے لگے ابوبصیر نے ان دونوں میں سے ایک شخص سے کہا اللہ کی قسم میرے خیال میں یہ تلوار تو بہت ہی اچھی ہے دوسرے نے اس کو نیام سے کھینچ کر کہا ہاں بہت عمدہ ہے میں نے بارہا اس کا تجربہ کیا ہے ابوبصیر بولے ذرا مجھے دکھانا اس ابوبصیر کے ہاتھ میں دے دی، ابوبصیر نے اس کو تلوار سے قتل کردیا، دوسرا بھاگ کر مدینہ پہنچا اور بھاگ کر مسجد میں داخل ہوگیا حضور ﷺ نے دیکھا تو فرمایا یہ ضرور کہیں ڈر گیا ہے۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور کہا مجبوراً قریش نے کسی کو حضور ﷺ کے پاس بھیجا اور اللہ اور رشتہ داری کا واسطہ دے کر کہا کہ کسی طرح ابوبصیر اور اس کے ہمراہیوں کو مدینہ میں بلالیں اگر ابوبصیر وغیرہ مدینہ آجائیں گے تو پھر ہم میں سے جو بھی آپ کے پاس مسلمان ہو کر جائے گا وہ امن میں ہے (ہم اس کو واپس نہ لیں گے) حضور ﷺ نے ابوبصیر وغیرہ سب لوگوں کو مدینہ بلالیا اور خدا تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی وھوالذی کف ایدیہم عنکم وایدیکم عنہم الی قولہ حمیۃ الجاہلیۃ حمیت جاہلیت کے یہ معنی ہیں کہ قریش نے رسول اللہ ﷺ کی نبوت کا اقرار نہیں کیا اور بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنا گوارا نہ کیا اور مسلمانوں کو خانہ کعبہ سے روک دیا۔
حضرت مسوربن مخرمہ (رض) اور مروان بن حکم (رض) کی مرویات
حضرت مسور (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حسن بن حسن (رح) نے ان کے پاس ان کی بیٹی سے اپنے لئے پیغام نکاح بھیجا انہوں نے قاصد سے کہا کہ حسن سے کہنا کہ وہ عشاء میں مجھ سے ملیں جب ملاقات ہوئی تو مسور (رض) نے اللہ کی حمد وثناء بیان کی اور اما بعد کہہ کر فرمایا اللہ کی قسم ! تمہارے نسب اور سسرال سے زیادہ کوئی حسب نسب اور سسرال مجھے محبوب نہیں، لیکن نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جس چیز سے وہ تنگ ہوتی ہے میں بھی تنگ ہوتا ہوں اور جس چیز سے وہ خوش ہوتی ہے میں بھی خوش ہوتا ہوں اور قیامت کے دن میرے حسب نسب اور سسرال کے علاوہ سب نسب ناطے ختم ہوجائیں گے آپ کے نکاح میں حضرت فاطمہ (رض) کی بیٹی پہلے سے ہے اگر میں نے اپنی بیٹی کا نکاح آپ سے کردیا تو نبی کریم ﷺ تنگ ہوں گے یہ سن کر حسن نے ان کی معذرت قبول کرلی اور واپس چلے گئے۔