711. حضرت عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کی مرویات
حضرت عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کی مرویات
حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ماہ رمضان میں کسی سفر میں تھے جب سورج غروب ہوگیا تو نبی کریم ﷺ نے کسی کو حکم دیا کہ اے فلاں ! اترو اور ہمارے لئے ستو گھولو، اس نے کہا یا رسول اللہ ! ابھی تو دن کا کچھ حصہ باقی ہے نبی کریم ﷺ نے اسے پھر فرمایا کہ اترو اور ستو گھولو، چناچہ اس نے اس پر عمل کیا نبی کریم ﷺ نے اس کا برتن ہاتھ میں پکڑا اور اسے نوش فرمالیا اور اس کے بعد ہاتھ سے مغرب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا جب یہاں سورج غروب ہوجائے اور رات یہاں تک آجائے تو روزہ دار روزہ کھول لے۔
حضرت عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کی مرویات
عبداللہ بن ابی المجاہد کہتے ہیں کہ ادھاربیع کے مسئلے میں حضرت عبداللہ بن شداد (رض) اور ابوبردہرضی اللہ عنہ کے درمیان اختلاف رائے ہوگیا ان دونوں نے مجھے حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) کے پاس بھیج دیا کہ ابن شداد اور ابوبردہ آپ کو سلام کہتے ہیں اور پوچھ رہے ہیں کہ کیا آپ لوگ نبی کریم ﷺ کے دور باسعادت میں گندم جو اور زیتون کی ادھاربیع کرتے تھے ؟ تو انہوں نے فرمایا ہاں ! ہم لوگ نبی کریم ﷺ کے دور میں مال غنیمت حاصل کرکے گندم، جو کشمش یا جو چیزیں بھی لوگوں کے پاس ہوتی تھیں، ان سے ادھاربیع کرلیا کرتے تھے میں نے ان سے پوچھا جس کے پاس کھیت ہوتا تھا یا جس کے پاس کھیت نہیں ہوتا تھا ؟ انہوں نے فرمایا ہم یہ بات ان سے نہیں پوچھتے تھے پھر ان دونوں حضرات نے مجھے حضرت عبدالرحمن بن ابزی (رض) کے پاس بھیجا میں نے ان سے یہ مسئلہ پوچھا تو انہوں نے بھی وہی جواب دیا جو حضرت ابن ابی اوفیٰ (رض) نے دیا تھا۔ حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہانڈیاں اور ان میں جو کچھ ہے الٹادو۔
حضرت عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کی مرویات
شیبانی (رح) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن ابی اوفیٰ (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے سبزمٹکے کی نبیذ سے منع فرمایا ہے میں نے ان سے پوچھا سفیدمٹکے کا کیا حکم ہے ؟ انہوں نے فرمایا مجھے معلوم نہیں۔
حضرت عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کی مرویات
ابویعفور کہتے ہیں کہ میرے ایک شریک نے میرے سامنے حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) سے ٹڈی دلکا حکم پوچھا انہوں نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں اور فرمایا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے ہمراہ سات غزوات میں شرکت کی ہے ان غزوات میں ہم لوگ ٹڈی دل کھایا کرتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کی مرویات
حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ماہ رمضان میں کسی سفر میں تھے جب سورج غروب ہوگیا تو نبی کریم ﷺ نے کسی کو حکم دیا کہ اے فلاں ! اترو اور ہمارے لئے ستو گھولو، اس نے کہا یا رسول اللہ ! ابھی تو دن کا کچھ حصہ باقی ہے نبی کریم ﷺ نے اسے پھر فرمایا کہ اترو اور ستو گھولو، چناچہ اس نے اس پر عمل کیا نبی کریم ﷺ نے اس کا برتن ہاتھ میں پکڑا اور اسے نوش فرمالیا اور اس کے بعد ہاتھ سے مغرب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا جب یہاں سورج غروب ہوجائے اور رات یہاں تک آجائے تو روزہ دار روزہ کھول لے۔
حضرت عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کی مرویات
حضرت ابن ابی اوفیٰ (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ بستی سے باہر کچھ گدھے ہمارے ہاتھ لگے نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہانڈیوں میں جو کچھ سے سب الٹادو، سعید بن جبیررحمتہ اللہ علیہ نے اس کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ گندگی کھاتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کی مرویات
حضرت ابن ابی اوفیٰ (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ جب رکوع سے سر اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ کہہ کر یہ فرماتے اے ہمارے پروردگار اللہ ! تمام تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں زمین و آسمان کے بھرپور ہونے کے برابر اور اس کے علاوہ جن چیزوں کو آپ چاہیں ان کے بھرپور ہونے کے برابر۔
حضرت عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کی مرویات
حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ یہ دعاء فرمایا کرتے تھے اے ! مجھے برف اولوں اور ٹھنڈے پانی سے پاکیزگی عطاء فرما، اے اللہ ! میرے قلب کو لغزشات سے اس طرح پاک فرما جیسے سفیدکپڑے کو میل کچیل سے صاف کرتا ہے میرے اور میرے گناہوں کے درمیان مشرق اور مغرب جتنا فاصلہ حائل فرمادے اے اللہ ! میں خشوع سے خالی دل، سیراب نہ ہونے والے نفس، غیر مقبول دعاء اور غیرنافع علم سے آپ کی پناہ میں آتاہوں اے اللہ ! میں ان چاروں چیزوں سے آپ کی پناہ میں آتاہوں، اے اللہ ! میں آپ سے تقویٰ والی زندگی، عمدہ موت اور شرمندگی سے پاک لوٹائے جانے کا سوال کرتا ہوں۔
حضرت عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کی مرویات
حضرت ابن ابی اوفیٰ (رض) سے مروی ہے کہ جب حضرت معاذ (رض) یمن پہنچے تو وہاں کے عیسائیوں کو دیکھا کہ وہ اپنے پادریوں اور مذہبی رہنماؤں کو سجدہ کرتے ہیں ان کے دل میں خیال آیا کہ نبی کریم ﷺ تو ان سے بھی زیادہ تعظیم کے مستحق ہیں لہٰذایمن سے واپس آکر انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں نے عیسائیوں کو اپنے پادریوں اور مذہبی رہنماؤں کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہوئے دیکھا ہے میرے دل میں خیال آتا ہے کہ ان سے زیادہ تعظیم کے مستحق تو آپ ہیں نبی کریم ﷺ نے فرمایا اگر میں کسی کو کسی کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ اپنے شوہرکوسجدہ کرے اور کوئی عورت اس وقت تک مکمل طور پر حقوق اللہ کو ادا نہیں کرسکتی جب تک اپنے شوہر کے مکمل حقوق ادانہ کرے حتیٰ کہ اگر مرد اس سے اپنی خواہش کی تکمیل کا اس وقت ارادہ کرے جبکہ وہ توے پر روٹی پکار رہی ہوتب بھی اس کی بات پوری کرے۔ گذشہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے کہ البتہ اس میں یہ اضافہ بھی ہے کہ میں نے ان لوگوں سے پوچھا کہ تم یہ کیوں کرتے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ ہم سے پہلے انبیاء (علیہم السلام) کی تعظیم کا یہی طریقہ تھا میں نے کہا کہ پھر تو ہم اپنے نبی کریم ﷺ کے ساتھ اس طرح کرنے کا زیادہ حق رکھتے ہیں نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ انہوں نے جس طرح اپنی کتابوں میں تحریف کردی ہے اسی طرح اپنے انبیاء پر جھوٹ بھی باندھتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کے بدلے میں اس سے بہتر چیز یعنی سلام عطاء فرمادیا ہے جو اہل جنت کا طریقہ تعظیم ہے۔
حضرت عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کی مرویات
حضرت ابن ابی اوفیٰ (رض) سے مروی ہے کہ جب کوئی شخص نبی کریم ﷺ کے پاس اپنے مال کی زکوٰۃ لے کر آتا تو نبی کریم ﷺ اس کے لئے دعاء فرماتے تھے ایک دن میں بھی اپنے والد کے مال کی زکوٰۃ لے کر حاضر ہوا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہم صل علی آل ابی اوفی۔
حضرت عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کی مرویات
اسماعیل (رح) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن ابی اوفیٰ (رض) سے پوچھا کیا نبی کریم ﷺ نے حضرت خدیجہ (رض) کو خوشخبری دی تھی ؟ انہوں نے فرمایا ہاں ! نبی کریم ﷺ نے انہیں جنت میں لکڑی کے ایک محل کی خوشخبری دی تھی جس میں کوئی شوروشغب ہوگا اور نہ ہی کوئی تعب۔
حضرت عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کی مرویات
حضرت ابن ابی اوفیٰ (رض) سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی کریم ﷺ عمرے کے لئے روانہ ہوئے بیت اللہ کا طواف کیا پھر باہر نکل کر صفامروہ کے درمیان سعی کی ہم لوگ نبی کریم ﷺ کو اہل مکہ سے بچاکرچل رہے تھے کہ کہیں کوئی مشرک انہیں تیر نہ ماردے یا انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچادے میں نے انہیں مشرکین کے لشکروں کے لئے بدعاء کرتے ہوئے سنا اے کتاب کو نازل کرنے والے اللہ ! جلدی حساب لینے والے لشکروں کو شکست دینے والے، انہیں شکست سے ہمکنار فرما اور انہیں ہلا کر رکھ دے۔
حضرت عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کی مرویات
طلحہ (رح) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) سے پوچھا کہ کیا نبی کریم ﷺ نے کوئی وصیت فرمائی ہے ؟ انہوں نے فرمایا نہیں، میں نے کہا تو پھر انہوں نے مسلمانوں کو وصیت کا حکم کیسے دے دیا جبکہ خود وصیت کی نہیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے کتاب اللہ پر عمل کرنے کی وصیت فرمائی ہے (لیکن کسی کو کوئی خاص وصیت نہیں فرمائی )
حضرت عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کی مرویات
حضرت ابن ابی اوفیٰ (رض) سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! میں قرآن کریم کا تھوڑا ساحصہ بھی یاد نہیں کرسکتا، اس لئے مجھے کوئی ایسی چیز سکھا دیجئے جو میرے لئے کافی ہو نبی کریم ﷺ نے فرمایا یوں کہہ لیا کرو سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولاحول ولاقوۃ الاباللہ اس نے کہا یا رسول اللہ ! یہ تو اللہ تعالیٰ کے لئے ہے میرے لئے کیا ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا یوں کہہ لیا کرو اے اللہ ! مجھے معاف فرما، مجھ پر رحم فرما، مجھے عافیت عطاء فرما، مجھے ہدایت عطاء فرما اور مجھے رزق عطاء فرما، پھر وہ آدمی پلٹ کر چلا گیا اور اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو مضبوطی سے بند کر رکھا تھا نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ شخص تو اپنے ہاتھ خیر سے بھر کر چلا گیا۔ حضرت ابن ابی اوفیٰ (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک غلام (لڑکا) آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ﷺ ! یہ ایک یتیم لڑکا ہے جس کی بیوی، ماں اور ایک یتیم بہن ہے آپ ہمیں ان چیزوں میں سے کھلائیے جو اللہ نے آپ کو کھلائی ہیں، اللہ آپ کو اپنے پاس سے اتنا دے کہ آپ راضی ہوجائیں پھر راوی نے مکمل حدیث ذکر کی۔ حضرت ابن ابی اوفیٰ (رض) سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ! یہاں ایک لڑکا ہے جو قریب المرگ ہے اسے لا الہ الا اللہ کی تلقین کی جارہی ہے لیکن وہ اسے کہہ نہیں پارہا نبی کریم ﷺ نے پوچھا کیا وہ اپنی زندگی میں یہ کلمہ نہیں پڑھتا تھا ؟ اس نے کہا کیوں نہیں نبی کریم ﷺ نے فرمایا پھر موت کے وقت اسے کسی نے روک دیا۔۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے مکمل حدیث ذکر کی۔ فائدہ۔ امام احمد کے صاحبزادے عبداللہ کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب نے یہ دونوں حدیثیں بیان نہیں کی ہیں البتہ کتاب میں لکھ دی تھیں اور انہیں کاٹ دیا تھا کیونکہ انہیں فائد بن عبدالرحمن کی احادیث پر اعتماد نہیں تھا اور ان کے نزدیک وہ متروک الحدیث تھا۔
حضرت عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کی مرویات
حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ کسی سفر میں تھے ہمیں پانی نہیں مل رہا تھا تھوڑی دیر بعد ایک جگہ پانی نظر آگیا لوگ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پانی لے کر آنے لگے جب بھی کوئی آدمی پانی لے کر آتا تو نبی کریم ﷺ یہی فرماتے کسی بھی قوم کا ساقی سب سے آخر میں پیتا ہے یہاں تک کہ سب لوگوں نے پانی پی لیا۔
حضرت عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کی مرویات
حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ماہ رمضان میں کسی سفر میں تھے جب سورج غروب ہوگیا تو نبی کریم ﷺ نے پانی منگوایا، اس نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ! ابھی تو دن کا کچھ حصہ باقی ہے نبی کریم ﷺ نے اسے پھر پانی لانے کے لئے فرمایا تین مرتبہ اسی طرح ہوا پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب یہاں سورج غروب ہوجائے اور رات یہاں تک آجائے تو روزہ دار روزہ کھول لے۔
حضرت عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کی مرویات
سعید بن جمہان (رح) کہتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) کے ہمراہ خوارج سے قتال کر رہے تھے کہ حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) کا ایک غلام خوارج سے جاملا وہ لوگ اس طرف تھے اور ہم اس طرف، ہم نے اسے " اے فیروز ! اے فیروز ! کہہ کر آوازیں دیتے ہوئے کہا ارے کمبخت ! تیرے آقا حضرت ابن ابی اوفیٰ (رض) تو یہاں ہیں وہ کہنے لگا کہ وہ اچھے آدمی ہوتے اگر تمہارے یہاں سے ہجرت کر جاتے، انہوں نے پوچھا کہ یہ دشمن اللہ کیا کہہ رہا ہے ؟ ہم نے اس کا جملہ ان کے سامنے نقل کیا تو وہ فرمانے لگے کیا میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ کرنے والی ہجرت کے بعد دوبارہ ہجرت کروں گا ؟ پھر فرمایا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ خوشخبری ہے اس شخص کے لئے جو انہیں قتل کرے یا وہ اسے قتل کردیں۔
حضرت عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کی مرویات
سعید بن جمہان (رح) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت ابن ابی اوفیٰ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت تک ان کی بینائی ختم ہوچکی تھی انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تم کون ہو ؟ میں نے بتایا کہ میں سعید بن جمہان ہوں، انہوں نے پوچھا کہ تمہارے والد صاحب کیسے ہیں ؟ میں نے عرض کیا کہ انہیں تو " ازارقہ " نے قتل کردیا ہے انہوں نے دو مرتبہ فرمایا ازارقہ پر لعنت الٰہی نازل ہو، نبی کریم ﷺ نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ جہنم کے کتے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اس سے صرف " ازارقہ " فرقے کے لوگ مراد ہیں یا تمام خوارج ہیں ؟ انہوں نے فرمایا تمام خوارج " مراد ہیں پھر میں نے عرض کیا بعض اوقات بادشاہ بھی عوام کے ساتھ ظلم اور ناانصافی وغیرہ کرتا ہے انہوں نے میرا ہاتھ زور سے دبایا اور بہت تیز چٹکی کاٹی اور فرمایا اے ابن جمہان ! تم پر افسوس ہے سواد اعظم کی پیروی کرو سواد اعظم کی پیروی کرو اگر بادشاہ تمہاری بات سنتا ہے تو اس کے گھر میں اس کے پاس جاؤ اور اس کے سامنے وہ ذکر کرو جو تم جانتے ہو اگر وہ قبول کرلے تو بہت اچھا ورنہ تم اس سے بڑے عالم نہیں ہو۔
حضرت عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کی مرویات
حضرت ابن ابی اوفیٰ (رض) سے مروی ہے کہ جب کوئی شخص نبی کریم ﷺ کے پاس اپنے مال کی زکوٰۃ لے کر آتا تو نبی کریم ﷺ اس کے لئے دعاء فرماتے تھے ایک دن میں بھی اپنے والد کے مال کی زکوٰۃ لے کر حاضر ہوا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہم صل علی آل ابی اوفی۔
حضرت عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کی مرویات
ہجری کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) کی صاحبزادی کے جنازے میں شریک ہوا وہ خود ایک سیاہ رنگ کے خچر پر سوار تھے عورتیں ان کے رہبر سے کہنے لگیں کہ انہیں جنازے کے آگے لے کر چلو اس نے ایسا ہی کیا میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا کہ جنازہ کہاں ہے ؟ (کیونکہ وہ نابینا ہوچکے تھے) اس نے بتایا آپ کے پیچھے ایک دو مرتبہ اسی طرح ہونے کے بعد انہوں نے فرمایا کیا میں نے تمہیں منع نہیں کیا تھا کہ مجھے جنازے سے آگے لے کر مت چلا کرو۔ پھر انہوں نے ایک عورت کی آواز سنی جو بین کررہی تھی انہوں نے اسے روکتے ہوئے فرمایا کیا میں نے تمہیں اس سے منع نہیں کیا تھا نبی کریم ﷺ بین کرنے سے منع فرماتے تھے ہاں البتہ آنسو بہانا چاہتی ہو بہالو، پھر جب جنازہ سامنے رکھا گیا تو انہوں نے آگے بڑھ چار تکبیرات کہیں اور تھوڑی دیر کھڑے رہے یہ دیکھ کر کچھ لوگ " سبحان اللہ " کہنے لگے انہوں نے مڑ کر فرمایا کیا تم یہ سمجھ کر رہے تھے کہ میں پانچویں تکبیر کہنے لگا ہوں ؟ انہوں نے جواب دیا جی ہاں ! فرمایا کہ نبی کریم ﷺ بھی جب تکبیر کہہ چکتے تو تھوڑی دیر کھڑے رہتے تھے۔ پھر جب جنازہ لا کر رکھا گیا تو حضرت ابن ابی اوفیٰ (رض) بیٹھ گئے کسی شخص نے ان سے پالتو گدھوں کے گوشت کے متعلق پوچھا تو فرمایا کہ غزوہ خیبر کے موقع پر شہر سے باہر ہمیں کچھ پالتو گدھے مل گئے لوگ ان پر جاپڑے اور انہیں ذبح کرلیا، ابھی کچھ ہانڈیوں میں اس کا گوشت ابل ہی رہا تھا کہ نبی کریم ﷺ کے منادی نے نداء لگائی انہیں بہادو، چناچہ ہم نے اسے بہا دیا اور میں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) کے جسم پر نہایت عمدہ لباس جو سبز ریشم کا تھا دیکھا۔