746. حضرت عمرو کی حدیثیں۔
حضرت عمرو کی حدیثیں۔
حضرت عمرو بن سلمہ (رض) سے مروی ہے کہ ان کے قبیلے کا ایک وفد نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جب ان کا واپسی کا ارادہ ہوا تو وہ کہنے لگے یا رسول اللہ ہماری امامت کون کرائے گا نبی ﷺ نے فرمایا تم میں سے جسے قرآن سب سے زیادہ آتا ہو اس وقت کسی کو اتنا قرآن یاد نہ تھا جتنا مجھے یاد تھا چناچہ انہوں نے مجھے نوعمر ہونے کے باوجود آگے کردیا میں جس وقت ان کی امامت کرتا تھا تو میرے اوپر ایک چادر ہوتی تھی اور اس کے بعد میں قبیلہ جرم کے جس مجمعے میں بھی موجود ہوتا رہا ان کی امامت میں نے ہی کی اور اب تک ان کی نماز جنازہ بھی میں ہی پڑھا رہا ہوں۔
حضرت عمرو کی حدیثیں۔
حضرت عمرو بن سلمہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ شہر میں رہتے تھے جب لوگ نبی ﷺ کے پاس سے واپس آتے تو ہمارے یہاں سے ہو کر گذرتے تھے میں ان کے قریب جاتا اور ان کی باتیں سنتا یہاں تک کہ میں نے قرآن کا کچھ حصہ بھی یاد کرلیا لوگ فتح مکہ کا انتظار کررہے تھے تاکہ اسلام قبول کریں چناچہ جب مکہ مکرمہ فتح ہوگیا تو لوگ نبی ﷺ کے پاس آنے لگے وہ کہتے تھے کہ یا رسول اللہ میں فلاں قبیلے کا نمائندہ ہوں اور ان کے قبول اسلام کا پیغام لے کر آیا ہوں۔ میرے والد صاحب بھی اپنی قوم کے اسلام کا پیغام لے کر بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے تھے اور وہ واپس آنے لگے تو نبی ﷺ نے فرمایا امامت کے لئے اس شخص کو آگے کرنا جو سب سے زیادہ قرآن پڑھا ہوا ہو میں اس وقت قریب قریب بہت سے گھروں کے محلے میں رہتا تھا لوگوں نے غور کیا تو انہیں مجھ سے زیادہ قرآن پڑھا ہوا کوئی آدمی نہ مل سکا چناچہ انہوں نے نوعمر ہونے کے باوجود مجھ ہی کو آگے کردیا۔ اور میں انہیں نماز پڑھانے لگا میرے جسم پر ایک چادر ہوتی تھی میں جب رکوع یا سجدے میں جاتا تو وہ چھوٹی پڑجاتی اور میرا ستر کھل جاتایہ دیکھ کر ایک بوڑھی خاتون لوگوں سے کہنے لگی کہ اپنے امام صاحب کا ستر تو چھپاؤ چناچہ لوگوں نے میرے لئے ایک قمیض تیار کی جسے پاکر مجھے بہت خوشی ہوئی۔
حضرت عمرو کی حدیثیں۔
حضرت عمرو بن سلمہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ کی طرف سے ہمارے پاس کچھ سوار آتے تھے ہم ان سے قرآن پڑھتے تھے وہ ہم سے یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا تم میں سے جو شخص زیادہ قرآن جانتا ہو اسے تمہاری امامت کرنی چاہئے۔