8. حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
ابن ابی نجیح کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے طاؤس سے پوچھا کہ اگر کوئی آدمی جمرات کی رمی کرتے ہوئے کسی جمرہ کو سات کی بجائے چھ کنکریاں مار دے تو کیا حکم ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ایک مٹھی کے برابر گندم صدقہ کر دے، اس کے بعد میں مجاہد (رض) سے ملا تو ان سے بھی یہی سوال کیا اور طاؤس کا جواب بھی ذکر کردیا، انہوں نے کہا کہ اللہ ان پر رحم کرے، کیا انہیں حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کی یہ حدیث نہیں پہنچی کہ نبی ﷺ کے ساتھ ہم نے جو حج کیا تھا، اس میں جمرات کی رمی کرنے کے بعد جب ہم لوگ بیٹھے اور آپس میں بات چیت ہونے لگی تو کسی نے کہا کہ میں نے چھ کنکریاں ماری ہیں، کسی نے سات کہا، کسی نے آٹھ اور کسی نے نو کہا، لیکن انہوں نے اس میں کوئی حرج محسوس نہیں کیا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ مکہ مکرمہ میں بیمار ہوگئے، نبی ﷺ ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے، انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں میں اس سر زمین میں ہی نہ مرجاؤں جہاں سے میں ہجرت کر کے جا چکا تھا اور جیسے سعد بن خولہ کے ساتھ ہوا تھا، اس لئے آپ اللہ سے میری صحت کے لئے دعاء کیجئے، نبی ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا اے اللہ ! سعد کو شفاء عطاء فرما۔ پھر حضرت سعد (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے پاس بہت سامان ہے، میری وارث صرف ایک بیٹی ہے، کیا میں اپنے سارے مال کو اللہ کے راستہ میں دینے کی وصیت کرسکتا ہوں ؟ فرمایا نہیں، انہوں نے دو تہائی مال کی وصیت کے بارے پوچھا، نبی ﷺ نے پھر منع فرمادیا، انہوں نے نصف کے متعلق پوچھا تب بھی منع فرمادیا، پھر جب ایک تہائی مال کے متعلق پوچھا تو نبی ﷺ نے فرمایا ہاں ! ایک تہائی مال کی وصیت کرسکتے ہو اور یہ ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے، یاد رکھو ! تم اپنا مال جو اپنے اوپر خرچ کرتے ہو، یہ بھی صدقہ ہے اپنے و اہل و عیال پر جو خرچ کرتے ہو، یہ بھی صدقہ ہے، اپنی بیوی پر جو خرچ کرتے ہو، وہ بھی صدقہ ہے، نیز یہ کہ تم اپنے اہل خانہ کو اچھی حالت میں چھوڑ کر جاؤ، یہ اس سے بہت بہتر ہے کہ تم انہیں اس حال میں چھوڑ جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوجائیں۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
عامربن سعد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کے بھائی عمر مدینہ منورہ سے باہر حضرت سعد (رض) کے پاس ان کے بکریوں کے فارم میں چلے گئے، جب حضرت سعد (رض) نے انہیں دیکھا ( تو وہ پریشان ہوگئے کہ اللہ خیر کرے، کوئی اچھی خبر لے کر آیا ہو) اور کہنے لگے کہ اس سوار کے پاس اگر کوئی بری خبر ہے تو میں اس سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، جب وہ ان کے قریب پہنچے تو کہنے لگے اباجان ! لوگ مدینہ منورہ میں حکومت کے بارے میں جھگڑ رہے ہیں اور آپ دیہاتیوں کی طرح اپنی بکریوں میں مگن ہیں ؟ حضرت سعد (رض) نے ان کے سینے پر ہاتھ مار کر فرمایا خاموش رہو، میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بندے کو پسند فرماتے ہیں جو متقی ہو، بےنیاز ہو اور اپنے آپ کو مخفی رکھنے والا ہو۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
ابن معمر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ عامربن سعد نے حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) کو جبکہ وہ گورنر مدینہ تھے اپنے والد حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کے حوالے سے یہ حدیث سنائی کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص صبح نہار منہ مدینہ منورہ کے دونوں اطراف میں کہیں سے بھی عجوہ کھجور کے سات دانے لے کر کھائے تو اس دن شام تک اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔ راوی کا گمان ہے کہ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ اگر شام کو کھالے تو صبح تک اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکے گی، حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) نے فرمایا عامر ! اچھی طرح سوچ لو کہ تم نبی ﷺ کے حوالے سے کیا حدیث بیان کر رہے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ میں اس بات پر گواہ ہوں کہ حضرت سعد (رض) پر جھوٹ نہیں باندھ رہا اور یہ کہ حضرت سعد (رض) نے نبی ﷺ پر جھوٹ نہیں باندھا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
عامر بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) اپنی سواری پر سوار ہو کر وادی عقیق میں اپنے محل کی طرف جا رہے تھے، وہاں پہنچے تو ایک غلام کو درخت کاٹتے ہوئے دیکھا، انہوں نے اس سے وہ ساری لکڑیاں وغیرہ چھین لیں (جو اس نے کاٹی تھیں) جب حضرت سعد (رض) واپس آئے تو غلام کے مالکان ان کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ انہوں نے غلام سے جو کچھ لیا ہے وہ واپس کردیں، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے جو چیز مجھے عطاء فرمائی ہے، میں اسے واپس لوٹا دوں، اللہ کی پناہ اور یہ کہہ کر وہ چیزیں واپس لوٹانے سے انکار کردیا۔ فائدہ : اس کی وضاحت عنقریب حدیث نمبر 1460 میں آرہی ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ابن آدم کی سعادت ہے کہ وہ ہر معاملے میں اللہ سے استخارہ کرے اور اس کے فیصلے پر راضی رہے اور ابن آدم کی بدنصیبی ہے کہ وہ اللہ سے استخارہ کرنا چھوڑ دے اور اللہ کے فیصلے پر ناگواری کا اظہار کرے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تین چیزیں ابن آدم کی سعات مندی کی علامت ہیں اور تین چیزیں اس کی بدنصیبی کی علامت ہیں، ابن آدم کی خوش نصیبی تو یہ ہے کہ اسے نیک بیوی ملے، اچھی رہائش ملے اور عمدہ سواری ملے جبکہ اس کی بدنصیبی یہ ہے کہ اسے بری بیوی ملے، بری رہائش ملے اور بری سواری ملے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا عنقریب فتنوں کا دور آئے گا، اس دور میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوگا، کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا اور شاید یہ بھی فرمایا کہ لیٹنے والا بیٹھنے والے سے بہتر ہوگا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ (کے سامنے ایک مرتبہ بنو ناجیہ کا تذکرہ ہوا تو) فرمایا کہ میں ان سے ہوں اور وہ مجھ سے ہیں۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر جنت کی ناخن سے بھی کم کوئی چیز دنیا میں ظاہر ہوجائے تو زمین و آسمان کی چاروں سمتیں مزین ہوجائیں اور اگر کوئی جنتی مرد دنیا میں جھانک کر دیکھ لے اور اس کا کنگن نمایاں ہوجائے تو اس کی روشنی سورج کی روشنی کو اس طرح مات کر دے جیسے سورج کی روشنی ستاروں کی روشنی کو مات کردیتی ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) نے اپنی آخری وصیت میں فرمایا تھا کہ میری قبر کو لحد کی صورت میں بنانا اور اس پر کچی اینٹیں نصب کرنا جیسے نبی ﷺ کے ساتھ کیا گیا تھا۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے جو یہاں ذکر ہوئی۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے موزوں پر مسح کرنے کے حوالے سے فرمایا ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو کسی زندہ انسان کے حق میں یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ یہ زمین پر چلتا پھرتا جنتی ہے، سوائے حضرت عبداللہ بن سلام (رض) کے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
ابو عثمان کہتے ہیں کہ جب زیاد کی نسبت کا مسئلہ بہت بڑھا تو ایک دن میری ملاقات حضرت ابوبکرہ (رض) سے ہوئی، میں نے ان سے پوچھا کہ یہ آپ لوگوں نے کیا کیا ؟ میں نے حضرت سعد (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ نبی ﷺ سے یہ بات میرے ان کانوں نے سنی ہے کہ جو شخص حالت اسلام میں اپنے باپ کے علاوہ کسی اور شخص کو اپنا باپ قرار دیتا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ شخص اس کا باپ نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے، حضرت ابوبکرہ (رض) نے فرمایا کہ میں نے بھی نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ایک ڈھال کی قیمت کے برابر کوئی چیز چوری کرنے پر چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایام منیٰ میں نبی ﷺ نے مجھے یہ منادی کرنے کا حکم دیا کہ ایام تشریق کھانے پینے کے دن ہیں اس لئے ان میں روزہ نہیں ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) فرماتے ہیں کہ مدینہ منورہ کے دونوں کناروں کے درمیان کی جگہ حرم ہے، نبی ﷺ نے اسے حرم قرار دیا ہے جیسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ مکرمہ کو حرم قرار دیا تھا، اے اللہ ! اہل مدینہ کو دوگنی برکتیں عطاء فرما اور ان کے صاع اور مد میں برکت عطاء فرما۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ کی خدمت میں ایک پیالہ لایا گیا، نبی ﷺ نے اس میں موجود کھانا تناول فرمایا : اس میں سے کچھ بچ گیا تو نبی ﷺ نے فرمایا اس راہداری سے ابھی ایک جنتی آدمی آئے گا جو یہ بچا ہوا کھانا کھائے گا، حضرت سعد (رض) کہتے ہیں کہ میں اپنے بھائی عمیر کو وضو کرتا ہوا چھوڑ کر آیا تھا، میں نے اپنے دل میں سوچا کہ یہاں سے عمیر ہی آئے گا، لیکن وہاں سے حضرت عبداللہ بن سلام (رض) آئے اور انہوں نے وہ کھانا کھایا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے موزوں پر مسح کرنے کے حوالے سے فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
سلیمان بن ابی عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت سعد (رض) کو دیکھا کہ انہوں نے ایک آدمی کو پکڑ رکھا ہے جو حرم مدینہ میں شکار کر رہا تھا، انہوں نے اس سے اس کے کپڑے چھین لئے، تھوڑی دیر بعد اس کے مالکان آگئے اور ان سے کپڑوں کا مطالبہ کرنے لگے، حضرت سعد (رض) نے فرمایا کہ اس شہر مدینہ کو جناب رسول اللہ ﷺ نے حرم قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ جس شخص کو تم یہاں شکار کرتے ہوئے دیکھو، اس سے اس کا سامان چھین لو، اس لئے اب میں تمہیں وہ لقمہ واپس نہیں کرسکتا جو نبی ﷺ نے مجھے کھلایا ہے، البتہ اگر تم چاہو تو میں تمہیں اس کی قیمت دے سکتا ہوں۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ وہ عشاء کی نماز مسجد نبوی میں پڑھتے تھے اور ایک رکعت وتر پڑھ کر اس پر کوئی اضافہ نہ کرتے تھے، کسی نے ان سے پوچھا کہ اے ابو اسحاق ! آپ ایک رکعت وتر پڑھنے کے بعد کوئی اضافہ نہیں کرتے ؟ انہوں نے فرمایا ہاں ! میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص وتر پڑھے بغیر نہ سوئے، وہ عقلمند ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ مسجد نبوی میں میرا گذر حضرت عثمان غنی (رض) کے پاس سے ہوا، میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے نگاہیں بھر کر مجھے دیکھا لیکن سلام کا جواب نہیں دیا، میں حضرت عمر فاروق (رض) کے پاس آیا اور ان سے دو مرتبہ کہا کہ امیرالمومنین ! کیا اسلام میں کوئی نئی چیز پیدا ہوگئی ہے ؟ انہوں نے فرمایا نہیں خیر تو ہے، میں نے کہا کہ میں ابھی حضرت عثمان (رض) کے پاس سے مسجد میں گذرا تھا، میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے نگاہیں بھر کر مجھے دیکھا لیکن سلام کا جواب نہیں دیا۔ حضرت عمر (رض) نے پیغام بھیج کر حضرت عثمان (رض) کو بلا بھیجا اور فرمایا کہ اپنے بھائی کے سلام کو جواب دینے سے آپ کو کس چیز نے روکا ؟ حضرت عثمان (رض) نے فرمایا میں نے تو ایسا نہیں کیا، میں نے کہا کیوں نہیں، حضرت عثمان (رض) نے قسم کھالی، میں نے بھی قسم کھالی، تھوڑی دیر بعد حضرت عثمان (رض) کو یاد آگیا تو انہوں نے فرمایا ہاں ! ایسا ہوا ہے، میں اللہ سے معافی مانگتا اور توبہ کرتا ہوں، آپ ابھی ابھی میرے پاس سے گذرے تھے، دراصل میں اس وقت ایک بات سوچ رہا تھا جو میں نے نبی ﷺ سے سنی تھی اور بخدا ! جب بھی مجھے وہ بات یاد آتی ہے میری آنکھیں پتھرا جاتی ہیں اور میرے دل پر پردہ آجاتا ہے (یعنی مجھے اپنے آپ کی خبر نہیں رہتی) حضرت سعد (رض) نے فرمایا کہ میں آپ کو اس کے بارے بتاتا ہوں، نبی ﷺ نے ایک مرتبہ کسی گفتگو کی ابتداء میں ایک دعاء کا ذکر چھیڑا، تھوڑی دیر کے بعد ایک دیہاتی آیا اور اس نے نبی ﷺ کو مشغول کرلیا، یہاں تک کہ جب نبی ﷺ کھڑے ہوئے تو میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے چلا گیا، جب مجھے اندیشہ ہوا کہ جب تک میں نبی ﷺ کے قریب پہنچوں گا، نبی ﷺ اپنے گھر پہنچ چکے ہوں گے تو میں نے زور سے اپنا پاؤں زمین پر مارا، نبی ﷺ میری طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے کون ہے ؟ ابواسحاق ہو ؟ میں نے عرض کیا جی یا رسول اللہ ! نبی ﷺ نے مجھے رکنے کے لئے فرمایا : میں نے عرض کیا کہ آپ نے ہمارے سامنے ابتداء میں ایک دعاء کا تذکرہ کیا تھا، بعد میں اس دیہاتی نے آکر آپ کو اپنی طرف مشغول کرلیا، نبی ﷺ نے فرمایا ہاں ! وہ حضرت یونس (علیہ السلام) کی دعاء ہے جو انہوں نے مچھلی کے پیٹ میں مانگی تھی یعنی " لاالہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین " کوئی بھی مسلمان جب بھی کسی معاملے میں ان الفاظ کے ساتھ اپنے پروردگار سے دعاء کرے وہ دعاء ضرور قبول ہوگی۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) ایک مرتبہ نبی ﷺ کے ساتھ روانہ ہوئے، جب ثنیۃ الوداع تک پہنچے تو وہ رونے لگے اور کہنے لگے کہ آپ مجھے عورتوں اور بچوں کے ساتھ چھوڑے جا رہے ہیں ؟ نبی ﷺ نے فرمایا کیا تم اس بات پر خوش نہیں کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہو جو حضرت ہارون (علیہ السلام) کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے حاصل تھی، صرف نبوت کا فرق ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مجھے امید ہے کہ میری امت اپنے رب کے پاس اتنی عاجز نہیں ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ان کا حساب کتاب نصف دن تک مؤخر کردے، کسی نے حضرت سعد (رض) سے پوچھا کہ " نصف دن " سے کیا مراد ہے۔ فرمایا پانچ سو سال۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مجھے امید ہے کہ میری امت اپنے رب کے پاس اتنی عاجز نہیں ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ان کا حساب کتاب نصف دن تک مؤخر کردے، کسی نے حضرت سعد (رض) سے پوچھا کہ " نصف دن " سے کیا مراد ہے۔ فرمایا پانچ سو سال۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا کہ اللہ اس بات پر قادر ہے کہ تم پر تمہارے اوپر سے یا پاؤں کے نیچے سے عذاب بھییج دے، تو نبی ﷺ نے فرمایا ابھی اس کی تاویل ظاہر ہونے کا وقت نہیں آیا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر جنت کی ناخن سے بھی کم کوئی چیز دنیا میں ظاہر ہوجائے تو زمین و آسمان کی چاروں سمتیں مزین ہوجائیں اور اگر کوئی جنتی مرد دنیا میں جھانک کر دیکھ لے اور اس کا کنگن نمایاں ہوجائے تو اس کی روشنی سورج کی روشنی کو اس طرح مات کر دے جیسے سورج کی روشنی ستاروں کی روشنی کو مات کردیتی ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے غزوہ احد کے دن نبی ﷺ کے دائیں بائیں دو آدمیوں کو دیکھا جنہوں نے سفید کپڑے پہن رکھے تھے اور وہ بڑی سخت جنگ لڑ رہے تھے، میں نے انہیں اس سے پہلے دیکھا تھا اور نہ بعد میں۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ دو نمازیں ایسی ہیں جن کے بعد کوئی نفلی نماز نہ پڑھی جائے، نماز فجر، جب تک کہ سورج طلوع نہ ہوجائے اور نماز عصر، جب تک سورج غروب نہ ہوجائے۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے غزوہ احد کے دن نبی ﷺ کے دائیں بائیں دو آدمیوں کو دیکھا جنہوں نے سفید کپڑے پہن رکھے تھے اور وہ بڑی سخت جنگ لڑ رہے تھے، میں نے انہیں اس سے پہلے دیکھا تھا اور نہ بعد میں۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر (رض) نے نبی ﷺ سے گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کی، اس وقت نبی ﷺ کے پاس قریش کی کچھ عورتیں (ازواج مطہرات (رض) عنہن) بیٹھی ہوئی باتیں کر رہی تھیں، وہ نبی ﷺ سے اضافہ کا مطالبہ کر رہی تھیں اور ان کی آوازیں اونچی ہو رہی تھیں، لیکن حضرت عمر (رض) نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو ان سب نے جلدی جلدی اپنے دوپٹے سنبھال لئے، نبی ﷺ نے انہیں اندر آنے کی اجازت دے دی، جب وہ اندر آئے تو نبی ﷺ مسکرا رہے تھے، حضرت عمر (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اللہ آپ کو اسی طرح ہنستا مسکراتا ہوا رکھے۔ نبی ﷺ نے فرمایا مجھے تو تعجب ان عورتوں پر ہے جو پہلے میرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں، لیکن جیسے ہی انہوں نے تمہاری آواز سنی، جلدی سے پردہ کرلیا، حضرت عمر (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ یہ آپ سے ڈریں، پھر حضرت عمر (رض) نے فرمایا اے اپنی جان کی دشمن عورتو ! تم مجھ سے ڈرتی ہو اور نبی ﷺ سے نہیں ڈرتی ہو ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ! کیونکہ تم نبی ﷺ سے زیادہ سخت اور ترش ہو، نبی ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، شیطان جب تمہیں کسی راستے سے گذرتا ہوا دیکھ لیتا ہے، تو اس راستے کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کرلیتا ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص قریش کو ذلیل کرنا چاہے گا اللہ اسے ذلیل کر دے گا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں مکہ مکرمہ میں بیمار ہوگیا، نبی ﷺ میری عیادت کے لئے تشریف لائے، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے پاس بہت سا مال ہے، میری وارث صرف ایک بیٹی ہے، کیا میں اپنے دو تہائی مال کو اللہ کے راستہ میں دینے کی وصیت کرسکتا ہوں ؟ فرمایا نہیں، میں نے نصف کے متعلق پوچھا تب بھی منع فرما دیا، پھر جب ایک تہائی مال کے متعلق پوچھا تو نبی ﷺ نے فرمایا ہاں ! ایک تہائی مال کی وصیت کرسکتے ہو اور یہ ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے (تین مرتبہ فرمایا) پھر اپنا ہاتھ پیشانی پر رکھ کر میرے چہرے، سینے اور پیٹ پر پھیرا اور یہ دعاء کی کہ اے اللہ ! سعد کو شفاء دے اور اس کی ہجرت کو تام فرما، مجھے آج تک نبی ﷺ کے ہاتھوں کی ٹھنڈک اپنے جگر میں محسوس ہوتی ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
ایک مرتبہ حضرت سعد (رض) نے ایک آدمی کو یہ کہتے ہوئے سنا " لبیک ذا المعارج " تو فرمایا کہ (جس کی پکار پر تم لبیک کہہ رہے ہو) وہ بلندیوں والا ہوگا لیکن ہم نے نبی ﷺ کی موجودگی میں کبھی یہ لفظ نہیں کہا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ شخص ہم میں سے نہیں جو قرآن کریم کو عمدہ آواز کے ساتھ نہ پڑھے وکیع نے اس کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت خوش آوازی سے نہ کرنے والا ہم میں سے نہیں ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا بہترین ذکر وہ ہے جو خفی ہو اور بہترین رزق وہ ہے جو کفایت کرسکے۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے جو یہاں مذکور ہوئی۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ بیمار ہوگئے، انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا میں اپنے سارے مال کی اللہ کے راستہ میں وصیت نہ کردوں ؟ نبی ﷺ نے فرمایا نہیں، عرض کیا کہ نصف مال کی وصیت کردوں ؟ فرمایا نہیں، عرض کیا کہ نصف مال کی وصیت کردوں ؟ فرمایا نہیں، عرض کیا کہ ایک تہائی کی وصیت کر دوں ؟ فرمایا ہاں ایک تہائی کی وصیت کردو اور ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم اپنے اہل خانہ پر جو کچھ بھی خرچ کرو گے، تمہیں اس پر ثواب ملے گا، حتی کہ وہ لقمہ جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو گے، تمہیں اس پر بھی ثواب ملے گا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ ! سب سے زیادہ سخت مصیبت کن لوگوں پر آتی ہے، فرمایا انبیاء کرام (علیہم السلام) پر، پھر صالحین پر، پھر درجہ بدرجہ عام لوگوں پر، انسان پر آزمائش اس کے دین کے اعتبار سے آتی ہے، اگر اس کے دین میں پختگی ہو تو اس کے مصائب میں مزید اضافہ کردیا جاتا ہے اور اگر اس کے دین میں کمزوری ہو تو اس کے مصائب میں تخفیف کردی جاتی ہے اور انسان پر مسلسل مصائب آتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب وہ زمین پر چلتا ہے تو اس کا کوئی گناہ نہیں ہوتا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ مکہ مکرمہ میں بیمار ہوگئے، نبی ﷺ ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا میں اپنے سارے مال کو اللہ کے راستہ میں دینے کی وصیت کرسکتا ہوں ؟ فرمایا نہیں، میں نے نصف کے متعلق پوچھا تب بھی منع فرمادیا، پھر جب ایک تہائی مال کے متعلق پوچھا تو نبی ﷺ نے فرمایا ہاں ! ایک تہائی مال کی وصیت کرسکتے ہو اور یہ ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے، یاد رکھو ! کہ تم اپنے اہل خانہ کو اچھی حالت میں چھوڑ کر جاؤ، یہ اس سے بہت بہتر ہے کہ تم انہیں اس حال میں چھوڑ جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوجائیں، تم اپنا مال جو اپنے اوپر خرچ کرتے ہو، یہ بھی صدقہ ہے اپنے اہل و عیال پر جو خرچ کرتے ہو، یہ بھی صدقہ ہے، اپنی بیوی پر جو خرچ کرتے ہو یہ بھی صدقہ ہے، نیز راوی کہتے ہیں کہ اس وقت حضرت سعد (رض) کی صرف ایک بیٹی ہی تھی، پھر حضرت سعد (رض) نے ہجرت کا ذکر کیا تو نبی ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ابن عفراء پر رحم فرمائے، ہوسکتا ہے کہ اللہ تمہیں اتنی بلندی عطاء کرے کہ ایک قوم کو تم سے فائدہ ہو اور دوسروں کو نقصان ہو۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
ایک مرتبہ حضرت سعد (رض) نے اپنے ایک بیٹے کو یہ دعاء کرتے ہوئے سنا کہ اے اللہ ! میں تجھ سے جنت، اس کی نعمتوں اور اس کے ریشمی کپڑوں اور فلاں فلاں چیز کی دعاء کرتا ہوں اور جہنم کی آگ، اس کی زنجیروں اور بیڑیوں سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں تو انہوں نے فرمایا کہ تم نے اللہ سے بڑی خیر مانگی اور بڑے شر سے اللہ کی پناہ چاہی، میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عنقریب ایک ایسی قوم آئے گی جو دعاء میں حد سے آگے بڑھ جائے گی اور یہ آیت تلاوت فرمائی کہ تم اپنے رب کو عاجزی کے ساتھ اور چپکے سے پکارا کرو، بیشک وہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا، تمہارے لئے اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ اے آپ سے جنت کا اور اس کے قریب کرنے قول و عمل کا سوال کرتا ہوں اور جہنم اور اس کے قریب کرنے والے قول و عمل سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ جب دائیں جانب سلام پھیرتے تو آپ ﷺ کا دایاں رخسار اپنی چمک کے ساتھ نظر آتا اور جب بائیں جانب سلام پھیرتے تو آپ ﷺ کے بائیں رخسار کی سفیدی دکھائی دیتی۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ مکہ مکرمہ میں بیمار ہوگئے، نبی ﷺ ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے، حضرت سعد (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے پاس بہت سا مال ہے، میری واث صرف ایک بیٹی ہے، کیا میں اپنے دو تہائی مال کو اللہ کے راستہ میں دینے کی وصیت کرسکتا ہوں ؟ فرمایا نہیں، میں نے نصف کے متعلق پوچھا تب بھی منع فرما دیا، پھر جب ایک تہائی مال کے متعلق پوچھا تو نبی ﷺ نے فرمایا ہاں ! ایک تہائی مال کی وصیت کرسکتے ہو اور یہ ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا بندہ مومن کے متعلق اللہ کی تقدیر اور فیصلے پر مجھے تعجب ہوتا ہے کہ اگر اسے کوئی بھلائی حاصل ہوتی ہے تو وہ اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتا ہے اور اگر کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اس پر بھی الحمدللہ کہہ کر صبر کرتا ہے (اور صبر و شکر دونوں اللہ کو پسند ہیں) مومن کو تو ہر چیز کے بدلے ثواب ملتا ہے حتی کہ اس لقمے پر بھی جو وہ اٹھا کر اپنی بیوی کے منہ میں دیتا ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ مکہ مکرمہ میں بیمار ہوگئے، نبی ﷺ ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے، وہ اس بات کو اچھا نہیں سمجھتے تھے کہ جس علاقے سے وہ ہجرت کرچکے ہیں وہیں ان کا انتقال ہو، نبی ﷺ نے دو مرتبہ فرمایا سعد بن عفراء پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں اور ان کی صرف ایک ہی بیٹی تھی۔ حضرت سعد (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا میں اپنے سارے مال کو اللہ کے راستہ میں دینے کی وصیت کرسکتا ہوں ؟ فرمایا نہیں انہوں نے نصف کے متعلق پوچھا تب بھی منع فرما دیا، پھر جب ایک تہائی مال کے متعلق پوچھا تو نبی ﷺ نے فرمایا ہاں ! ایک تہائی مال کی وصیت کرسکتے ہو اور یہ ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے تم اپنے اہل خانہ کو اچھی حالت میں چھوڑ کر جاؤ، یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں اس حال میں چھوڑ کر جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوجائیں اور تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے اس پر تمہیں صدقہ کا ثواب ملے گا، حتی کہ اس لقمے پر بھی جو تم اٹھا کر اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو اور ہوسکتا ہے کہ اللہ تمہیں رفعتیں عطاء فرمائے اور تمہارے ذریعے بہت سے لوگوں کو نفع پہنچائے اور بہت سے لوگوں (کافروں) کو نقصان۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) نے اپنی آخری وصیت میں فرمایا تھا کہ میری قبر کو لحد کی صورت میں بنانا اور اس پر کچی اینٹیں نصب کرنا جیسے نبی ﷺ کے ساتھ کیا گیا تھا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعید بن مسیب (رح) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے عرض کیا کہ میں آپ سے ایک حدیث کے متعلق سوال کرنا چاہتا ہوں لیکن مجھے آپ سے پوچھتے ہوئے ڈر لگتا ہے، انہوں نے فرمایا بھتیجے ! ایسا نہ کرو، جب تمہیں پتہ ہے کہ مجھے ایک بات کا علم ہے تو تم مجھ سے بےتکلف ہو کر سوال کرو اور مت ڈرو، میں نے پوچھا کہ جب نبی ﷺ نے غزوہ تبوک کے موقع پر اپنے نائب کے طور پر مدینہ منورہ میں حضرت علی (رض) کو چھوڑا تھا تو ان سے کیا فرمایا تھا ؟ حضرت سعد (رض) نے فرمایا کہ جب نبی ﷺ نے حضرت علی (رض) کو غزوہ تبوک کے موقع پر مدینہ منورہ میں اپنا نائب مقرر کر کے وہاں چھوڑ دیا تو وہ کہنے لگے یا رسول اللہ ! کیا آپ مجھے بچوں اور عورتوں کے پاس چھوڑ جائیں گے ؟ نبی ﷺ نے فرمایا کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہو سوائے نبوت کے جو حضرت ہارون (علیہ السلام) کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے تھی، انہوں نے کہا کیوں نہیں، یا رسول اللہ ! یہ کہہ کر حضرت علی (رض) تیزی سے واپس چلے گئے، مجھے آج بھی ان کے قدموں سے اڑنے والا غبار اپنی آنکھوں کے سامنے محسوس ہوتا ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ کی موجودگی میں طاعون کا ذکر چھڑ گیا، نبی ﷺ نے فرمایا کہ یہ ایک عذاب ہے جو تم سے پہلی امتوں پر آیا تھا، اس لئے جس علاقے میں یہ وبا پھیلی ہوئی ہو، تم وہاں مت جاؤ اور اگر تم کسی علاقے میں ہو اور وہاں یہ وبا پھیل جائے تو وہاں سے نہ نکلو۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا بندہ مومن کے متعلق اللہ کی تقدیر اور فیصلے پر مجھے تعجب ہوتا ہے کہ اگر اسے کوئی بھلائی حاصل ہوتی ہے تو وہ اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتا ہے اور اگر کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اس پر بھی الحمدللہ کہہ کر صبر کرتا ہے ( اور صبروشکر دونوں اللہ کو پسند ہیں) مومن کو تو ہر چیز کے بدلے ثواب ملتا ہے حتی کہ اس لقمے پر بھی جو وہ اٹھا کر اپنی بیوی کے منہ میں دیتا ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ ! ایک آدمی جو اپنی قوم میں کم حیثیت شمار ہوتا ہو، کیا اس کا اور دوسرے آدمی کا حصہ برابر ہوسکتا ہے ؟ نبی ﷺ نے فرمایا تم پر افسوس ہے، کیا کمزوروں کے علاوہ بھی کسی اور کے ذریعے تمہیں رزق ملتا اور تمہاری مدد ہوتی ہے ؟
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ ! سب سے زیادہ سخت مصیبت کن لوگوں پر آتی ہے، فرمایا انبیاء کرام (علیہم السلام) پر، پھر صالحین پر، پھر درجہ بدرجہ عام لوگوں پر، انسان پر آزمائش اس کے دین کے اعتبار سے آتی ہے، اگر اس کے دین میں پختگی ہو تو اس کے مصائب میں مزید اضافہ کردیا جاتا ہے اور اگر اس کے دین میں کمزوری ہو تو اس کے مصائب میں تخفیف کردی جاتی ہے اور انسان پر مسلسل مصائب آتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب وہ زمین پر چلتا ہے تو اس کا کوئی گناہ نہیں ہوتا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت زبیر (رض) فرماتے تھے کہ غزوہ احد کے دن نبی ﷺ نے میرے لئے اپنے والدین کو جمع فرمایا (یعنی مجھ سے یوں فرمایا کہ میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں )
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے صحابہ کرام (رض) سے مخاطب ہو کر فرمایا کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات سے عاجز ہے کہ دن میں ایک ہزار نیکیاں کما لے، صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اس کی طاقت کس میں ہے ؟ نبی ﷺ نے فرمایا سو مرتبہ سبحان اللہ کہہ لیا کرے، اس کے نامہ اعمال میں ایک ہزار نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور ایک ہزار گناہ مٹا دئیے جائیں گے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
ابوعثمان کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعد (رض) جو اللہ کے راستہ میں سب سے پہلا تیر پھینکنے والے تھے اور حضرت ابوبکر (رض) جو قلعہ طائف کی شہر پناہ پر چڑھنے والے تھے دونوں سے سنا ہے کہ ہم نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی اور شخص کو اپنا باپ قرار دیتا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ شخص اس کا باپ نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کے ساتھ اپنے آپ کو سات میں کا سا تواں آدمی پایا ہے (جس نے اسلام قبول کیا ہو) اس وقت ہمارے پاس کھانے کے لئے سوائے انگور کی شاخوں اور پتوں کے کوئی دوسری چیز نہیں ہوتی تھی اور ہم میں سے ہر ایک اس طرح مینگنی کرتا تھا جیسے بکری مینگنی کرتی ہے، اس کے ساتھ کوئی اور چیز نہیں ملتی تھی اور آج بنو اسد کے لوگ مجھ ہی کو میرے اسلام پر ملامت کرتے ہیں، تب تو میں بڑے خسارے میں رہا اور میری ساری محنت برباد ہوگئی۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی اور شخص کو اپنا باپ قرار دیتا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ شخص اس کا باپ نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایام منیٰ میں نبی ﷺ نے مجھے یہ منادی کرنے کا حکم دیا کہ ایام تشریق کھانے پینے کے دن ہیں اس لئے ان میں روزہ نہیں ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) فرماتے ہیں کہ وصیت میں ایک تہائی کی مقدار نبی ﷺ میرے حوالے سے مقرر فرمائی تھی، آپ ﷺ میرے پاس عیادت کے لئے تشریف لائے تھے، آپ ﷺ نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم نے وصیت کردی ؟ میں نے کہا جی ! میں نے سارا مال فقراء، مساکین اور مسافروں کے نام وقف کرنے کی وصیت کردی ہے، فرمایا ایسا نہ کرو، میں نے عرض کیا کہ میرے ورثاء غنی ہیں، بہرحال ! میں دوتہائی کی وصیت کردیتا ہوں ؟ فرمایا نہیں، میں نے نصف کا ذکر کیا، فرمایا نہیں، میں نے تہائی کا ذکر کیا، فرمایا ہاں ! ایک تہائی صحیح ہے اور یہ بھی زیادہ ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مرنے کے بعد مردے کی قبر سے اس کی کھوپڑی نکل آنے، بیماریوں کے متعدی ہونے اور بدشگونی کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اگر کسی چیز میں نحوست ہوتی تو عورت، گھوڑے اور گھر میں ہوتی۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
محمد بن عبداللہ کہتے ہیں کہ جس سال حضرت امیر معاویہ (رض) حج کے لئے تشریف لے گئے، اس سال انہوں نے حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) اور ضحاک بن قیس کو حج تمتع کا ذکر کرتے ہوئے سنا، ضحاک کہنے لگے کہ حج تمتع تو وہ آدمی کرسکتا ہے جو اللہ کے حکم سے ناواقف اور جاہل ہو، اس پر حضرت سعد (رض) نے فرمایا بھتیجے ! تم نے یہ بہت بری بات کہی، ضحاک کہنے لگے کہ حضرت عمر فاروق (رض) نے تو اس سے منع کیا ہے ؟ فرمایا نبی ﷺ نے بھی اس طرح حج کیا ہے کہ ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ کو جمع کرلیا اور ہم نے بھی ان کے ساتھ ایسا ہی کیا ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ سے یہ بات میرے ان کانوں نے سنی ہے اور میرے دل نے اسے محفوظ کیا ہے کہ جو شخص حالت اسلام میں اپنے باپ کے علاوہ کسی اور شخص کو اپنا باپ قرار دیتا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ شخص اس کا باپ نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے، حضرت ابوبکرہ (رض) نے فرمایا کہ نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے میرے بھی کانوں نے سنا ہے اور دل نے اسے محفوظ کیا ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) سے نبی ﷺ نے فرمایا کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہو جو حضرت ہارون (علیہ السلام) کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے حاصل تھی، صرف نبوت کا فرق ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تم میں سے کسی کا پیٹ قئی سے بھر جانا اس بات کی نسبت زیادہ بہتر ہے کہ وہ شعر سے بھر جائے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تم میں سے کسی کا پیٹ قئی سے بھر جانا اس بات کی نسبت زیادہ بہتر ہے کہ وہ شعر سے بھر جائے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے طاعون کے متعلق فرمایا کہ جس علاقے میں یہ وباء پھیلی ہوئی ہو، تم وہاں مت جاؤ اور اگر تم کسی علاقے میں ہو اور وہاں وباء پھیل جائے تو وہاں سے نہ نکلو۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ عیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے عرض کیا کہ میں آپ سے ایک حدیث کے متعلق سوال کرنا چاہتا ہوں لیکن مجھے آپ سے پوچھتے ہوئے ڈر لگتا ہے، کیونکہ آپ کے مزاج میں حدت بہت ہے، انہوں نے فرمایا کون سی حدیث ؟ میں نے پوچھا کہ جب نبی ﷺ نے غزوہ تبوک کے موقع پر اپنے نائب کے طور پر مدینہ منورہ میں حضرت علی (رض) کو چھوڑا تھا تو ان سے کیا فرمایا تھا ؟ حضرت سعد (رض) نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہو سوائے نبوت کے جو حضرت ہارون (علیہ السلام) کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے تھی، انہوں نے کہا میں خوش ہوں، پھر دو مرتبہ کہا کیوں نہیں۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) نے حضرت سعد (رض) سے کہا کہ لوگوں کو آپ سے ہر چیز حتی کہ نماز کے معاملے میں بھی شکایات ہیں، انہوں نے فرمایا کہ میں تو پہلی دو رکعتیں نسبتا لمبی کرتا ہوں اور دوسری دو رکعتیں مختصر کردیتا ہوں اور میں نے نبی ﷺ کی اقتداء میں جو نمازیں پڑھی ہیں، ان کی پیروی کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا، حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ مجھے آپ سے یہی امید تھی۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
عبداللہ بن رقیم کہتے ہیں کہ جنگ جمل کے زمانے میں ہم لوگ مدینہ منورہ پہنچے، وہاں ہماری ملاقات حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے ہوئی، تو انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے مسجد نبوی کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کردینے اور حضرت علی (رض) کا دروازہ کھلا رکھنے کا حکم دیا تھا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ شخص ہم میں سے نہیں جو قرآن کریم کو عمدہ آواز کے ساتھ نہ پڑھے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص عشاء کی نماز کے بعد اچانک سفر سے واپس آکر اپنے اہل خانہ کو پریشان کرے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عثمان بن مظعون (رض) نے گوشہ نشینی اختیار کرنا چاہی لیکن نبی ﷺ نے انہیں اس کی اجازت نہ دی، اگر نبی ﷺ انہیں اس چیز کی اجازت دے دیتے تو ہم بھی کم از کم اپنے آپ کو خصی کرلیتے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسی نے نبی ﷺ سے پوچھا کیا تر کھجور کو خشک کھجور کے بدلے بیچناجائز ہے ؟ نبی ﷺ نے فرمایا کیا ایسا نہیں ہے کہ تر کھجور خشک ہونے کے بعد کم رہ جاتی ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا ایسا ہی ہے، اس پر نبی ﷺ نے اسے ناپسندیدہ قرار دیا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم نبی ﷺ کے ساتھ کہیں جا رہے تھے، راستے میں ہمارا گذر بنو معاویہ کی مسجد پر ہوا، نبی ﷺ نے اس مسجد میں داخل ہو کردو رکعت نماز پڑھی، ہم نے بھی نبی ﷺ کے ساتھ یہ نماز پڑھی، اس کے بعد نبی ﷺ نے طویل دعاء فرمائی اور فراغت کے بعد فرمایا میں نے اپنے پروردگار سے تین چیزوں کی درخواست کی تھی، ایک درخواست تو میں نے یہ کی تھی کہ میری امت کو سمندر میں غرق کر کے ہلاک نہ کرے، اللہ نے میری یہ درخواست قبول کرلی، دوسری درخواست میں نے یہ کی تھی کہ میری امت کو قحط سالی کی وجہ سے ہلاک نہ کرے، اللہ نے میری یہ درخواست بھی قبول کرلی اور تیسری درخواست میں نے یہ کی تھی کہ میری امت آپس میں نہ لڑے لیکن اللہ نے یہ دعاء قبول نہیں فرمائی۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
عمرو بن سعد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھے اپنے والد حضرت سعد (رض) سے کوئی کام پڑگیا، انہوں نے اپنا مقصد بیان کرنے سے پہلے ایک لمبی چوڑی تمہید باندھی جیسا کہ لوگوں کی عادت ہے، جب وہ اس سے فارغ ہوئے تو حضرت سعد (رض) نے فرمایا بیٹا ! آپ اپنی بات پوری کرچکے ؟ عرض کیا جی ہاں ! فرمایا تم اپنی ضرورت سے بہت زیادہ دور نہیں ہو (میں تمہاری ضرورت پوری کردوں گا) لیکن جب سے میں نے تم سے یہ بات سنی ہے، مجھے تم میں کوئی دلچسپی نہیں رہی، میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے عنقریب ایک ایسی قوم آئے گی جو اپنی زبان (چرب لسانی) کے بل بوتے پر کھائے گی جیسے گائے زمین سے اپنی زبان کے ذریعے کھانا کھاتی ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ اہل کوفہ نے حضرت عمر فاروق (رض) سے حضرت سعد (رض) کی شکایت کی کہ وہ اچھی طرح نماز نہیں پڑھاتے، حضرت عمر (رض) نے ان سے پوچھا، تو انہوں نے فرمایا کہ میں تو پہلی دو رکعتیں نسبتا لمبی کرتا ہوں اور دوسری دو رکعتیں مختصر کر دیتاہوں اور میں نے نبی ﷺ کی اقتداء میں جو نمازیں پڑھی ہیں، ان کی پیروی کرنے میں، میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا، حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ مجھے آپ سے یہی امید تھی۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مسلمان سے قتال کرنا کفر ہے اور اسے گالی دینا فسق ہے اور کسی مسلمان کے حلال نہیں ہے وہ تین دن سے زیادہ اپنے بھائی سے قطع کلامی کرے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مسلمانوں میں سب سے بڑا جرم اس شخص کا ہے جس نے کسی چیز کے متعلق سوال کیا اور ناگوار گذرنے والے امور کو معلوم کرنے کی کوشش کی، یہاں تک کہ اس کے سوال کے نتیجے میں اس چیز کی حرمت کا حکم نازل ہوگیا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص قریش کو ذلیل کرنا چاہے گا اللہ اسے ذلیل کر دے گا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے کچھ لوگوں کو مال و دولت عطاء فرمایا : لیکن ان ہی میں سے ایک آدمی کو کچھ نہیں دیا، حضرت سعد (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے نبی ! آپ نے فلاں فلاں کو تو دے دیا، لیکن فلاں شخص کو کچھ بھی نہیں دیا، حالانکہ وہ پکا مومن بھی ہے، نبی ﷺ نے فرمایا مسلمان نہیں ؟ یہ سوال جواب تین مرتبہ ہوئے، پھر نبی ﷺ نے فرمایا کہ میں کچھ لوگوں کو دے دیتا ہوں اور ان لوگوں کو چھوڑ دیتا ہوں جو مجھے زیادہ محبوب ہوتے ہیں اور انہیں کچھ نہیں دیتا، اس خوف اور اندیشے کی بناء پر کہ کہیں انہیں ان کے چہروں کے بل گھسیٹ کر جہنم میں نہ ڈال دیا جائے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ نے چھپکلی کو مار دینے کا حکم دیا ہے اور آپ ﷺ نے اس کا نام " فویسق " رکھا ہے (جو کہ فاسق کی تصغیر ہے)
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھا، میں مکہ مکرمہ میں ایسا بیمار ہوگیا کہ موت کے قریب جا پہنچا، نبی ﷺ میری عیادت کے لئے تشریف لائے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے پاس بہت سا مال ہے، میری وارث صرف ایک بیٹی ہے، کیا میں اپنے دو تہائی مال کو اللہ کے راستہ میں دینے کی وصیت کرسکتا ہوں ؟ فرمایا نہیں، انہوں نے نصف کے متعلق پوچھا تب بھی منع فرما دیا، پھر جب ایک تہائی مال کے متعلق پوچھا تو نبی ﷺ نے فرمایا ہاں ! ایک تہائی مال کی وصیت کرسکتے ہو اور یہ ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے، یاد رکھو ! تم اپنا مال جو اپنے اوپر خرچ کرتے ہو، یہ بھی صدقہ ہے، نیز یہ کہ تم اپنے اہل خانہ کو اچھی حالت میں چھوڑ کر جاؤ، یہ اس سے بہت بہتر ہے کہ تم انہیں اس حال میں چھوڑ کر جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوجائیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا میں اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہ جاؤں گا ؟ نبی ﷺ نے فرمایا ایسا ہرگز نہیں ہوگا، تم جو عمل بھی رضاء الٰہی کے لئے کرو گے، تمہارے درجے اور بلندی میں اس کی برکت سے اضافہ ہوگا اور ہوسکتا ہے کہ تمہیں زیادہ عمر ملے اور اللہ تمہارے ذریعے ایک قوم (مسلمانوں کو نفع پہنچائے اور دوسرے لوگوں (کافروں) کو نقصان پہنچائے، اے اللہ ! میرے صحابہ کی ہجرت کو مکمل فرما، انہیں ان کی ایڑیوں کے بل نہ لوٹا، افسوس ! سعد بن خولہ پر، یہ مکہ مکرمہ میں ہی فوت ہوگئے تھے جس پر نبی ﷺ افسوس کا اظہار فرما رہے تھے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عثمان بن مظعون (رض) نے گوشہ نشینی اختیار کرنا چاہی لیکن نبی ﷺ نے انہیں اس کی اجازت نہ دی، اگر نبی ﷺ انہیں اس چیز کی اجازت دے دیتے تو ہم بھی کم از کم اپنے آپ کو خصی کرلیتے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہر نبی نے اپنی امت کے سامنے دجال کے اوصاف ضرور ذکر کئے ہیں، لیکن میں تمہارے سامنے اس کا ایک ایسا وصف بیان کروں گا جو مجھ سے پہلے کسی نبی نے بیان نہیں کیا، یاد رکھو ! دجال کانا ہوگا (اور ربوبیت کا دعوی کرے گا) جبکہ اللہ کانا نہیں ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ کی موجودگی میں طاعون کا ذکر چھڑ گیا، نبی ﷺ نے فرمایا کہ یہ ایک عذاب ہے جو تم سے پہلی امتوں پر آیا تھا، اس لئے جس علاقے میں یہ وبا پھیلی ہوئی ہو، تم وہاں مت جاؤ اور اگر تم کسی علاقے میں ہو اور وہاں وبا پھیل جائے تو وہاں سے نہ نکلو۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
ابن معمر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ عامر بن سعد نے حضرت عمربن عبدالعزیز (رح) کو جبکہ وہ گورنر مدینہ تھے اپنے والد حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کے حوالے سے یہ حدیث سنائی کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص صبح نہار منہ مدینہ منورہ کے دونوں اطراف میں کہیں سے بھی عجوہ کھجور کے سات دانے لے کر کھائے تو اس دن شام تک اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔ راوی کا گمان ہے کہ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ اگر شام کو کھالے تو صبح تک اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکے گی، حضرت عمر بن عبد العزیز (رح) نے فرمایا عامر ! اچھی طرح سوچ لو کہ تم نبی ﷺ کے حوالے سے کیا حدیث بیان کر رہے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ میں اس بات پر گواہ ہوں کہ حضرت سعد (رض) پر جھوٹ نہیں باندھ رہا اور یہ کہ حضرت سعد (رض) نے نبی ﷺ پر جھوٹ نہیں باندھا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
عمربن سعد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کے بھائی عامر مدینہ منورہ سے باہر حضرت سعد (رض) کے پاس ان کے بکریوں کے فارم میں چلے گئے، حضرت سعد (رض) نے ان سے فرمایا بیٹا ! کیا تم مجھے شورش کے کاموں کا سر غنہ بننے کے لئے کہتے ہو ؟ بخدا ! ایسا نہیں ہوسکتا کہ میرے ہاتھ میں تلوار پکڑا دی جائے اور میں اس سے کسی مومن کو قتل کردوں تو وہ اس کی خبر دے اور اگر کسی کافر کو قتل کردوں تو وہ بھی اس پر پل پڑے، میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بندے کو پسند فرماتے ہیں جو متقی ہو، بےنیاز ہو اور اپنے آپ کو مخفی رکھنے والا ہو۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے غزوہ احد کے دن نبی ﷺ کے دائیں بائیں دو آدمیوں کو دیکھا جنہوں نے سفید کپڑے پہن رکھے تھے اور وہ بڑی سخت جنگ لڑ رہے تھے، میں نے انہیں اس سے پہلے دیکھا تھا اور نہ بعد میں۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا بندہ مومن کے متعلق اللہ کی تقدیر اور فیصلے پر مجھے تعجب ہوتا ہے کہ اگر اسے کوئی بھلائی حاصل ہوتی ہے تو وہ اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتا ہے اور اگر کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اس پر بھی ثواب کی نیت سے صبر کرتا ہے ( اور صبروشکر دونوں اللہ کو پسند ہیں) مومن کو تو ہر چیز کے بدلے ثواب ملتا ہے حتی کہ اس لقمے پر بھی جو وہ اٹھا کر اپنی بیوی کے منہ میں دیتا ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعید بن مسیب (رح) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کے ایک بیٹے نے مجھے اپنے والد کے حوالے سے ایک حدیث سنائی، میں حضرت سعد (رض) کے پاس گیا اور ان سے عرض کیا کہ مجھے آپ کے حوالے سے ایک حدیث معلوم ہوئی ہے جس کے مطابق نبی ﷺ نے اپنے پیچھے مدینہ منورہ پر حضرت علی (رض) کو خلیفہ مقرر کیا تھا ؟ وہ یہ سن کر غصے میں آگئے اور فرمایا کہ تم سے یہ حدیث کس نے بیان کی ہے ؟ میں نے ان کے بیٹے کا نام لینا مناسب نہ سمجھا پھر حضرت سعد (رض) نے فرمایا کہ جب نبی ﷺ نے حضرت علی (رض) کو غزوہ تبوک میں مدینہ منورہ پر اپنا نائب مقرر کر کے وہاں چھوڑ دیا تو وہ کہنے لگے یا رسول اللہ ! میری خواہش تو یہی ہے کہ آپ جہاں بھی جائیں، میں آپ کے ہمراہ ہوں، نبی ﷺ نے فرمایا کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہو سوائے نبوت کے جو حضرت ہارون (علیہ السلام) کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے تھی۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو کسی زندہ شخص کے حق میں یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ یہ زمین پر چلتا پھرتا جنتی ہے، سوائے حضرت عبداللہ بن سلام (رض) کے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) اور دیگر صحابہ کرام (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ کے دور باسعادت میں دو بھائی تھے ان میں سے ایک دوسرے سے افضل تھا اس افضل شخص کا پہلے انتقال ہوگیا اور دوسرا بھائی اس کے بعد چالیس دن تک مزید زندہ رہا پھر وہ بھی فوت ہوگیا، نبی ﷺ کے سامنے جب ان کا تذکرہ ہوا تو لوگوں نے پہلے کے افضل ہونے کا ذکر کیا، نبی ﷺ نے فرمایا کیا یہ دوسرا بھائی نماز نہیں پڑھتا تھا ؟ لوگوں نے کہا کیوں نہیں، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، نبی ﷺ نے فرمایا تمہیں کیا خبر کہ اس کی نمازوں نے اسے کہاں تک پہنچا دیا ؟ پھر فرمایا کہ نماز کی مثال اس جاری نہر کی سی ہے جس کا پانی میٹھا اور شیریں ہو اور وہ تمہارے گھر کے دروازے پر بہہ رہی ہو اور وہ اس میں روزانہ پانچ مرتبہ غوطہ لگاتا ہو، تمہارا کیا خیال ہے، کیا اس کے جسم پر کچھ بھی میل کچیل باقی رہے گا ؟
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تم میں سے کسی کا پیٹ قئی سے بھر جانا اس بات کی نسبت زیادہ بہتر ہے کہ وہ شعر سے بھر جائے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حبیب بن ابی ثابت کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ آیا ہوا تھا، پیچھے سے خبر معلوم ہوئی کہ کوفہ میں طاعون کی وباء پھوٹ پڑی ہے، میں نے لوگوں سے پوچھا کہ اس مضمون کی حدیث یہاں کون بیان کرتا ہے ؟ لوگوں نے عامربن سعد کا نام لیا، لیکن وہ اس وقت وہاں موجود نہ تھے، پھر میری ملاقات ابراہیم بن سعد سے ہوئی، انہوں نے مجھے حضرت اسامہ بن زید کے حوالے سے حضرت سعد (رض) کی یہ روایت سنائی کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب کسی قوم میں طاعون کی وباء پھیل جائے تو تم وہاں مت جاؤ اور اگر تم کسی علاقے میں پہلے سے موجود ہو اور وہاں طاعون کی وباء پھیل جائے تو وہاں سے نکلو مت، میں نے ابراہیم سے پوچھا کیا آپ نے حضرت اسامہ (رض) سے یہ روایت خود سنی ہے ؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مسلمان سے قتال کرنا کفر ہے اور اسے گالی دینا فسق ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) نے ایک مرتبہ بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! اللہ نے آج مجھے مشرکین سے بچا لیا ہے، اس لئے آپ یہ تلوار مجھے دے دیجئے، نبی ﷺ نے فرمایا کہ یہ تلوار تمہاری ہے اور نہ میری، اس لئے اسے یہیں رکھ دو ، چناچہ میں وہ تلوار رکھ کر واپس چلا گیا اور اپنے دل میں سوچنے لگا کہ شاید نبی ﷺ یہ تلوار کسی ایسے شخص کو عطاء فرما دیں جسے میری طرح کی آزمائش نہ آئی ہو، اتنی دیر میں مجھے پیچھے سے ایک آدمی کی آواز آئی جو مجھے بلا رہا تھا، میں نے سوچا کہ شاید میرے بارے کوئی حکم نازل ہوا ہے ؟ میں وہاں پہنچا تو نبی ﷺ نے فرمایا تم نے مجھ سے یہ تلوار مانگی تھی، واقعی یہ تلوار میری نہ تھی لیکن اب مجھے بطور ہبہ کے مل گئی ہے اس لئے میں تمہیں دیتا ہوں، اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی کہ اے حبیب ﷺ ! یہ لوگ آپ سے مال غنیمت کا سوال کرتے ہیں، آپ فرما دیجئے کہ مال غنیمت اللہ اور اس کے رسول کا ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ جب نبی ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ کے پاس قبیلہ جہینہ کے لوگ آئے اور کہنے لگے کہ آپ لوگ ہمارے درمیان آکر قیام پذیر ہوگئے ہیں اس لئے ہمیں کوئی وثیقہ لکھ دیجئے تاکہ جب ہم آپ کے پاس آئیں تو آپ پر ہمیں اطمینان ہو، نبی ﷺ نے انہیں وثیقہ لکھوا دیا، بعد میں وہ لوگ مسلمان ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد ماہ رجب میں نبی ﷺ نے ہمیں روانہ فرمایا : ہماری تعداد سو بھی نہیں ہوگی اور ہمیں حکم دیا کہ قبیلہ جہینہ کے پہلو میں بنو کنانہ کا ایک قبیلہ آباد ہے، اس پر حملہ کریں، ہم نے ان پر شب خون مارا لیکن ان کی تعداد بہت زیادہ تھی، چناچہ ہم نے قبیلہ جہینہ میں پناہ لی لیکن انہوں نے ہمیں پناہ دینے سے انکار کردیا اور کہنے لگے کہ تم لوگ اشہر حرم میں قتال کیوں کر رہے ہو ؟ ہم نے جواب دیا کہ ہم ان لوگوں سے قتال کر رہے ہیں جنہوں نے ہمیں بلد حرام سے شہر حرام میں نکال کر ان کی حرمت کو ختم کیا تھا۔ پھر ہم آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ اب کیا کیا جائے ؟ کچھ لوگوں نے کہا کہ ہم نبی ﷺ کے پاس چل کر انہیں ساری صورت حال سے مطلع کرتے ہیں، بعض لوگوں نے کہا کہ نہیں، ہم یہیں ٹھہریں گے، چند لوگوں کے ساتھ میری رائے یہ تھی کہ ہم لوگ قریش کے قافلے کی طرف چلتے ہیں اور ان پر حملہ کرتے ہیں، چناچہ لوگ قافلہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ اس وقت مال غنیمت کا اصول یہ تھا کہ جس کے ہاتھ جو چیز لگ گئی، وہ اس کی ہوگئی، ہم میں سے کچھ لوگوں نے جا کر نبی ﷺ کو بھی اس کی خبر کردی، نبی ﷺ کے روئے انور کا رنگ سرخ ہوگیا اور فرمایا کہ تم لوگ میرے پاس سے اکٹھے ہو کر گئے تھے اور اب جدا جدا ہو کر آ رہے ہو، تم سے پہلے لوگوں کو اسی تفرقہ نے ہی ہلاک کیا تھا، میں تم پر ایک ایسے آدمی کو امیر مقرر کر کے بھیجوں گا جو اگرچہ تم سے زیادہ بہتر نہیں ہوگا لیکن بھوک اور پیاس کی برداشت میں تم سے زیادہ مضبوط ہوگا، چناچہ نبی ﷺ نے حضرت عبداللہ بن جحش اسدی (رض) کو امیر بنا کر بھیجا، جو اسلام میں سب سے پہلے امیر تھے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت نافع بن عتبہ بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تم لوگ جزیرہ عرب والوں سے قتال کرو گے اور اللہ تمہیں ان پر فتح عطاء فرمائے گا، پھر تم اہل فارس سے جنگ کرو گے اور اللہ تمہیں ان پر بھی فتح عطاء فرمائے گا، پھر تم رومیوں سے جنگ کرو گے، اللہ تمہیں ان پر بھی فتح عطاء فرمائے گا اور پھر تم دجال سے جنگ کرو گے اور اللہ تمہیں اس پر بھی فتح نصیب فرمائے گا حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ فتح روم سے پہلے دجال کا خروج نہیں ہوگا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت نافع بن عتبہ بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تم لوگ جزیرہ عرب والوں سے قتال کرو گے اور اللہ تمہیں ان پر فتح عطاء فرمائے گا، پھر تم اہل فارس سے جنگ کرو گے اور اللہ تمہیں ان پر بھی فتح عطاء فرمائے گا، پھر تم رومیوں سے جنگ کرو گے، اللہ تمہیں ان پر بھی فتح عطاء فرمائے گا اور پھر تم دجال سے جنگ کرو گے اور اللہ تمہیں اس پر بھی فتح نصیب فرمائے گا حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ فتح روم سے پہلے دجال کا خروج نہیں ہوگا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ کے دور باسعادت میں کھیتوں کے مالکان اپنے کھیت کرائے پردے دیا کرتے تھے اور اس کا عوض یہ طے کرلیا کرتے تھے کہ نالیوں کے اوپر جو پیداوار ہو اور جسے پانی خود بخود پہنچ جائے وہ ہم لیں گے، یہ معاملہ نبی ﷺ تک پہنچا اور بعض لوگوں کا اس میں جھگڑا بھی ہوا تو نبی ﷺ نے اس طرح کرائے پر زمین لینے دینے سے منع فرمادیا اور فرمایا کہ سونے چاندی کے بدلے زمین کو کرایہ پر لیا دیا کرو۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص مسجد میں تھوک دے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے چھپا دے تاکہ وہ کسی مسلمان کے جسم یا کپڑوں کو لگ کر اس کی اذیت کا سبب نہ بن جائے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسی نے ان سے پوچھا کیا تر کھجور کو خشک کھجور کے بدلے بیچنا جائز ہے ؟ انہوں نے اس کو ناپسندیدہ سمجھا اور فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ سے بھی کسی شخص نے یہی سوال پوچھا تھا تو میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا، کیا ایسا نہیں ہے کہ تر کھجور خشک ہونے کے بعد کم رہ جاتی ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا ایسا ہی ہے، اس پر نبی ﷺ نے فرمایا پھر نہیں۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مسلمانوں میں سب سے بڑا جرم اس شخص کا ہے جس نے کسی چیز کے متعلق سوال کیا جو حرام نہ تھی لیکن اس کے سوال کے نتیجے میں اس چیز کی حرمت کا حکم نازل ہوگیا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھا، میں مکہ مکرمہ میں ایسا بیمار ہوگیا کہ موت کے قریب جا پہنچا، نبی ﷺ میری عیادت کے لئے تشریف لائے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے پاس بہت سامال ہے، میری وارث صرف ایک بیٹی ہے، کیا میں اپنے دوتہائی مال کو اللہ کے راستہ میں دینے کی وصیت کرسکتا ہوں ؟ فرمایا نہیں، انہوں نے نصف کے متعلق پوچھا تب بھی منع فرما دیا، پھر جب ایک تہائی مال کے متعلق پوچھا تو نبی ﷺ نے فرمایا ہاں ! ایک تہائی مال کی وصیت کرسکتے ہو اور یہ ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے، یاد رکھو ! تم اپنا مال جو اپنے اوپر خرچ کرتے ہو، یہ بھی صدقہ ہے، نیز یہ کہ تم اپنے اہل خانہ کو اچھی حالت میں چھوڑ کر جاؤ، یہ اس سے بہت بہتر ہے کہ تم انہیں اس حال میں چھوڑ کر جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوجائیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا میں اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہ جاؤں گا ؟ نبی ﷺ نے فرمایا ایسا ہرگز نہیں ہوگا، تم جو عمل بھی رضاء الٰہی کے لئے کرو گے، تمہارے درجے اور بلندی میں اس کی برکت سے اضافہ ہوگا اور ہوسکتا ہے کہ تمہیں زیادہ عمر ملے اور اللہ تمہارے ذریعے ایک قوم (مسلمانوں کو نفع پہنچائے اور دوسرے لوگوں (کافروں) کو نقصان پہنچائے، اے اللہ ! میرے صحابہ کی ہجرت کو مکمل فرما، انہیں ان کی ایڑیوں کے بل نہ لوٹا، افسوس ! سعد بن خولہ پر، یہ مکہ مکرمہ میں ہی فوت ہوگئے تھے جس پر نبی ﷺ افسوس کا اظہار فرما رہے تھے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے حضرت علی (رض) سے فرمایا تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے سوائے نبوت کے جو حضرت ہارون (علیہ السلام) کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے تھی۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ اہل کوفہ نے حضرت عمر فاروق (رض) سے حضرت سعد (رض) کی شکایت کی کہ وہ اچھی طرح نماز نہیں پڑھاتے، حضرت عمر (رض) نے ان سے پوچھا، انہوں نے فرمایا کہ میں تو پہلی رکعتیں نسبتا لمبی کرتا ہوں اور دوسری دو رکعتیں مختصر کردیتا ہوں اور میں نے نبی ﷺ کی اقتداء میں جو نمازیں پڑھی ہیں، ان کی پیروی کرنے میں، میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا، حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ مجھے آپ سے یہی امید تھی۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ شخص ہم میں سے نہیں جو قرآن کریم کو عمدہ آواز کے ساتھ نہ پڑھے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم (رض) نے حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور حضرت سعد (رض) سے فرمایا میں تمہیں اس اللہ کی قسم اور واسطہ دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں، کیا آپ کے علم میں یہ بات ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے ؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا پہاڑ یا چٹان کے گڑھے کی برائی اور نقصان یہ ہے کہ قبیلہ بجیلہ کا آدمی بھی بلندی سے پستی میں جا پڑتا ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسی نے ان سے پوچھا کیا بغیر چھلکے کے جو کو عام جو کے بدلے بیچنا جائز ہے ؟ انہوں نے فرمایا ایک مرتبہ نبی ﷺ سے بھی کسی شخص نے تر کھجور کو خشک کھجور کے بدلے بیچنے کا سوال پوچھا تھا تو میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا، کیا ایسا نہیں ہے کہ تر کھجور خشک ہونے کے بعد کم رہ جاتی ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا ایسا ہی ہے ؟ اس پر نبی ﷺ نے فرمایا پھر نہیں۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ سے یہ بات میرے ان کانوں نے سنی ہے اور میرے دل نے اسے محفوظ کیا ہے کہ جو شخص حالت اسلام میں اپنے باپ کے علاوہ کسی اور شخص کو اپنا باپ قرار دیتا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ شخص اس کا باپ نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے، حضرت ابو بکرہ (رض) نے فرمایا کہ نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے میرے بھی کانوں نے سنا ہے اور دل نے اسے محفوظ کیا ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعید بن مسیب (رح) کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے بدشگونی کے بارے پوچھا تو انہوں نے مجھے ڈانٹ دیا اور فرمایا تم سے یہ حدیث کس نے بیان کی ہے ؟ میں نے ان صاحب کا نام لینا مناسب نہ سمجھا جنہوں نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی تھی، انہوں نے فرمایا کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کوئی بیماری متعدی نہیں ہوتی، بدشگونی اور مردے کی قبر سے اس کی کھوپڑی نکلنے کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اگر کسی چیز میں نحوست ہوتی تو گھوڑے، عورت اور گھر میں ہوتی اور جب تم کسی علاقے میں طاعون کی وباء پھیلنے کا سنو تو وہاں مت جاؤ اور اگر تم کسی علاقے میں ہو اور وہاں طاعون کی وباء پھوٹ پڑے تو وہاں سے راہ فرار اختیار مت کرو۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ ! سب سے زیادہ سخت مصیبت کن لوگوں پر آتی ہے، فرمایا انبیاء کرام (علیہم السلام) پر، پھر درجہ بدرجہ عام لوگوں پر، انسان پر آزمائش اس کے دین کے اعتبار سے آتی ہے، اگر اس کے دین میں پختگی ہو تو اس کے مصائب میں مزید اضافہ کردیا جاتا ہے اور اگر اس کے دین میں کمزوری ہو تو اس کے مصائب میں تخفیف کردی جاتی ہے اور انسان پر مسلسل مصائب آتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب وہ زمین پر چلتا ہے تو اس کا کوئی گناہ نہیں ہوتا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ غزوہ بدر کے دن میرے بھائی عمیر شہید ہوگئے اور میں نے سعید بن عاص کو قتل کردیا اور اس کی تلوار لے لی، جس کا نام " ذوالکتیفہ " تھا، میں وہ تلوار لے کر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، نبی ﷺ نے فرمایا جاکر یہ تلوار مال غنیمت میں ڈال دو ، مجھے اپنے بھائی کی شہادت کا جو غم تھا اور مال غنیمت کے حصول کا جو خیال تھا، اسے اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا، ابھی میں تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ سورت انفال نازل ہوگئی اور نبی ﷺ نے فرمایا کہ جا کر اپنی تلوار لے لو۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت جابربن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ اہل کوفہ نے حضرت عمر فاروق (رض) سے حضرت سعد (رض) کی شکایت کی کہ وہ اچھی طرح نماز نہیں پڑھاتے، حضرت عمر (رض) نے ان سے پوچھا، تو انہوں نے فرمایا کہ میں تو پہلی دو رکعتیں نسبتا لمبی کرتا ہوں اور دوسری دو رکعتیں مختصر کردیتا ہوں اور میں نے نبی ﷺ کی اقتداء میں جو نمازیں پڑھی ہیں، ان کی پیروی کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا، حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ مجھے آپ سے یہی امید تھی۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اہل مدینہ کے ساتھ کسی ناگہانی دھوکے یا برائی کا ارادہ کرے گا، اللہ اسے اس طرح پگھلا دے گا جیسے پانی میں نمک پگھل جاتا ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا بہترین ذکر وہ ہے جو خفی ہو اور بہترین رزق وہ ہے جو کفایت کرسکے۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ مجھے کوئی دعاء سکھا دیجئے جو میں پڑھ لیا کروں ؟ نبی ﷺ نے فرمایا تم یوں کہا کرو کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اللہ بہت بڑا ہے، تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں، اللہ ہر عیب اور نقص سے پاک ہے، جو کہ تمام جہانوں کو پالنے والا ہے، گناہ سے بچنے اور نیکی کے کام کرنے کی طاقت اللہ ہی سے مل سکتی ہے جو غالب حکمت والا ہے، یہ کلمات پانچ مرتبہ کہہ لیا کرو۔ اس دیہاتی نے عرض کیا کہ ان سب کلمات کا تعلق تو میرے رب سے ہے، میرے لئے کیا ہے ؟ فرمایا تم یوں کہہ لیا کرو کہ اے اللہ مجھے معاف فرما، مجھ پر رحم فرما، مجھے رزق عطاء فرما، مجھے ہدایت عطاء فرما اور مجھے عافیت نصیب فرما۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) فرماتے ہیں کہ غزوہ احد کے دن نبی ﷺ نے میرے لئے اپنے والدین کو جمع فرمایا (یعنی مجھ سے یوں فرمایا کہ میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں )
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے صحابہ کرام (رض) سے مخاطب ہو کر فرمایا کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات سے عاجز ہے کہ دن میں ایک ہزار نیکیاں کمالے، صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اس کی طاقت کس میں ہے ؟ نبی ﷺ نے فرمایا سو مرتبہ سبحان اللہ کہہ لیا کرے، اس کے نامہ اعمال میں ایک ہزار نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور ایک ہزار گناہ مٹا دیئے جائیں گے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ جب دائیں جانب سلام پھیرتے تو آپ ﷺ کا دایاں رخسار اپنی چمک کے ساتھ نظر آتا اور جب بائیں جانب سلام پھیرتے تو آپ ﷺ کے بائیں رخسار کی سفیدی دکھائی دیتی۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص مؤذن کی اذان سنتے وقت یہ کلمات کہے کہ میں بھی اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، میں اللہ کو رب مان کر، محمد ﷺ کو اپنا رسول مان کر اور اسلام کو اپنا دین مان کر راضی اور مطمئن ہوں تو اس کے سارے گناہ معاف ہوجائیں گے۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) فرماتے ہیں کہ میں عرب کا وہ سب سے پہلا آدمی ہوں جس نے اللہ کے راستہ میں سب سے پہلا تیر پھینکا تھا، ہم نے وہ وقت دیکھا ہے جب ہم نبی ﷺ کے ساتھ مل کر جہاد کرتے تھے، اس وقت ہمارے پاس کھانے کے لئے سوائے انگور کی شاخوں اور ببول کے کوئی دوسری چیز نہ ہوتی تھی اور ہم میں سے ہر ایک اس طرح مینگنی کرتا تھا جیسے بکری مینگنی کرتی ہے، اس کے ساتھ کوئی اور چیز نہ ملتی تھی اور آج بنو اسد کے لوگ مجھ ہی کو میرے اسلام پر ملامت کرتے ہیں، تب تو میں بڑے خسارے میں رہا اور میری ساری محنت برباد ہوگئی۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
مصعب بن سعد کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب کے بارے قرآن کریم کی چار آیات مبارکہ نازل ہوئی ہیں، میرے والد کہتے ہیں کہ ایک غزوہ میں مجھے ایک تلوار ملی، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ مجھے عطاء فرما دیں، فرمایا اسے رکھ دو ، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ مجھے عطاء فرما دیجئے، کیا میں اس شخص کی طرح سمجھا جاؤں گا جسے کوئی ضرورت ہی نہ ہو ؟ نبی ﷺ نے پھر فرمایا اسے جہاں سے لیا ہے وہیں رکھ دو ، اس پر سورت انفال کی ابتدائی آیت نازل ہوئی۔ پھر جب میں نے اسلام قبول کیا تھا تو میری والدہ نے مجھ سے کہا کیا اللہ نے تمہیں صلہ رحمی اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم نہیں دیا ؟ بخدا ! میں اس وقت تک کچھ کھاؤں گی اور نہ پیوں گی جب تک تم محمد ﷺ کا انکار نہ کردو گے، چناچہ ایسا ہی ہوا، انہوں نے کھانا پیناچھوڑ دیا حتی کہ لوگ زبردستی ان کے منہ میں لکڑی ڈال کر اسے کھولتے اور اس میں کوئی پینے کی چیز انڈیل دیتے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ ہم نے انسان کو والدین کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کی ہے۔۔۔۔ لیکن اگر وہ تمہیں شرک پر مجبور کریں تو ان کی بات نہ مانو۔ پھر ایک مرتبہ نبی ﷺ میری بیمار پرسی کے لئے تشریف لائے، میں نے پوچھا یا رسول اللہ ! کیا میں اپنے کل مال کی وصیت کر دوں ؟ نبی ﷺ نے مجھے اس سے منع فرمایا : نصف کے متعلق سوال پر بھی منع کردیا، لیکن ایک تہائی کے سوال پر آپ ﷺ خاموش رہے اور اس کے بعد لوگوں نے اس پر عمل شروع کردیا۔ پھر حرمت شراب کا حکم نازل ہونے سے قبل ایک انصاری نے دعوت کا اہتمام کیا، مدعوین نے خوب کھایا پیا اور شراب کے نشے میں مد ہوش ہوگئے اور آپس میں ایک دوسرے پر فخر کرنا شروع کردیا، انصار کہنے لگے کہ انصار بہتر ہیں اور مہاجرین اپنے آپ کو بہتر قرار دینے لگے، اسی دوران ایک آدمی نے اونٹ کے جبڑے کی ہڈی اٹھائی اور ایک آدمی کی ناک زخمی کردی، جن صاحب کی ناک زخمی ہوئی وہ حضرت سعد (رض) تھے، اس پر سورت مائدہ کی آیت تحریم خمر نازل ہوگئی۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
غنیم کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے حج تمتع کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے اس وقت حج تمتع کیا تھا جب انہوں نے یعنی حضرت امیر معاویہ (رض) نے مکہ مکرمہ کے گھروں میں اسلام قبول نہیں کیا تھا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تم میں سے کسی کا پیٹ قئی سے بھر جانا اس بات کی نسبت زیادہ بہتر ہے کہ وہ شعر سے بھر جائے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
مصعب بن سعد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے اپنے والد صاحب کے ساتھ نماز پڑھی تو رکوع میں اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر گھٹنوں کے بیچ میں کر لئے، انہوں نے میرے ہاتھوں پر ایک ضرب لگائی اور فرمایا کہ ابتداء میں ہم لوگ اس طرح کیا کرتے تھے، بعد میں ہمیں گھٹنوں پر ہاتھ رکھنے کا حکم دیا گیا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص صبح نہار منہ عجوہ کھجور کے سات دانے کھالے، اسے اس دن کوئی زہر یا جادو نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا میں مدینہ منورہ کے دو کناروں کے درمیان کی جگہ کو حرم قرار دیتا ہوں، اس لئے یہاں کا کوئی درخت نہ کاٹا جائے اور نہ ہی یہاں کا جانور شکار کیا جائے اور فرمایا کہ لوگوں کے لئے مدینہ ہی سب سے بہتر ہے کاش ! کہ انہیں اس پر یقین بھی ہو، یہاں سے کوئی شخص بھی اگر بےرغبتی کی وجہ سے چلا جائے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ اس سے بہتر شخص کو وہاں آباد فرما دیں گے اور جو شخص بھی یہاں کی تکالیف اور محنت و مشقت پر ثابت قدم رہتا ہے، میں قیامت کے دن اس کے حق میں سفارش کروں گا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ " عالیہ " سے آرہے تھے، راستے میں بنو معاویہ کی مسجد پر گذر ہوا نبی ﷺ نے اس مسجد میں داخل ہو کردو رکعت نماز پڑھی، ہم نے بھی نبی ﷺ کے ساتھ یہ نماز پڑھی، اس کے بعد نبی ﷺ نے طویل دعاء فرمائی اور فراغت کے بعد فرمایا میں نے اپنے پروردگار سے تین چیزوں کی درخواست کی تھی، جن میں سے دو اس نے قبول کرلیں اور ایک قبول نہیں کی۔ ایک درخواست تو میں نے یہ کی تھی کہ میری امت کو سمندر میں غرق کر کے ہلاک نہ کرے، اللہ نے میری یہ درخواست قبول کرلی، دوسری درخواست میں نے یہ کی تھی کہ میری امت کو قحط سالی کی وجہ سے ہلاک نہ کرے، اللہ نے میری یہ درخواست بھی قبول کرلی اور تیسری درخواست میں نے یہ کی تھی کہ میری امت آپس میں نہ لڑے لیکن اللہ نے یہ دعاء قبول کرنے سے انکار کردیا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا بندہ مومن کے متعلق اللہ کی تقدیر اور فیصلے پر مجھے تعجب ہوتا ہے کہ اگر اسے کوئی بھلائی حاصل ہوتی ہے تو وہ اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتا ہے اور اگر کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اس پر بھی ثواب کی نیت سے صبر کرتا ہے (صبروشکر دونوں اللہ کو پسند ہیں) مومن کو تو ہر چیز کے بدلے ثواب ملتا ہے حتی کہ اس لقمے پر بھی جو وہ اٹھا کر اپنی بیوی کے منہ میں دیتا ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
مصعب بن سعد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے اپنے والد صاحب کے ساتھ نماز پڑھی تو رکوع میں اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر گھٹنوں کے بیچ میں کر لئے انہوں نے مجھے اس سے منع کیا اور فرمایا کہ ابتداء میں ہم لوگ اس طرح کیا کرتے تھے، بعد میں ہمیں گھٹنوں پر ہاتھ رکھنے کا حکم دیا گیا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) عنہ، خزیمہ بن ثابت اور اسامہ بن زید (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ یہ طاعون ایک عذاب ہے جو تم سے پہلی امتوں پر آیا تھا، اس لئے جس علاقے میں یہ وباء پھیلی ہوئی ہو، تم وہاں مت جاؤ اور اگر تم کسی علاقے میں ہو اور وہاں یہ وباء پھیل جائے تو وہاں سے نہ نکلو۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا میں تمہارے سامنے دجال کا ایک ایسا وصف بیان کروں گا جو مجھ سے پہلے کسی نبی نے بیان نہیں کیا، یاد رکھو ! دجال کانا ہوگا (اور ربوبیت کا دعوی کرے گا) جبکہ اللہ کانا نہیں ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے کچھ لوگوں کو مال و دولت عطاء فرمایا : لیکن ان ہی میں سے ایک آدمی کو کچھ نہیں دیا، حضرت سعد (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے نبی ! آپ نے فلاں فلاں کو تو دے دیا، لیکن فلاں شخص کو کچھ بھی نہیں دیا، حالانکہ وہ پکا مومن بھی ہے، نبی ﷺ نے فرمایا مسلمان نہیں ؟ یہ سوال جواب تین مرتبہ ہوئے، پھر نبی ﷺ نے فرمایا کہ میں کچھ لوگوں کو دے دیتا ہوں اور ان لوگوں کو چھوڑ دیتا ہوں جو مجھے زیادہ محبوب ہوتے ہیں اور انہیں کچھ نہیں دیتا، اس خوف اور اندیشے کی بناء پر کہ کہیں انہیں ان کے چہروں کے بل گھسیٹ کر جہنم میں نہ ڈال دیا جائے۔ ابو نعیم کہتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں میری ملاقات سفیان سے ہوئی تو سب سے پہلے انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ شجاع یعنی ابو بدر کیسے ہیں ؟
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر (رض) نے نبی ﷺ سے گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کی، اس وقت نبی ﷺ کے پاس قریش کی کچھ عورتیں بیٹھی ہوئی باتیں کر رہی تھیں، نبی ﷺ سے اضافہ کا مطالبہ کر رہی تھیں اور ان کی آوازیں اونچی ہو رہی تھیں، لیکن حضرت عمر (رض) نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو ان سب نے جلدی جلدی اپنے دوپٹے سنبھال لئے اور خاموش ہوگئیں، نبی ﷺ مسکرانے لگے، حضرت عمر (رض) نے فرمایا اے اپنی جان کی دشمن عورتو ! تم مجھ سے ڈرتی ہو اور نبی ﷺ سے نہیں ڈرتی ہو ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ! کیونکہ تم نبی ﷺ سے زیادہ سخت اور ترش ہو، نبی ﷺ نے فرمایا عمر ! شیطان جب تمہیں کسی راستے سے گذرتا ہوا دیکھ لیتا ہے، تو اس راستے کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کرلیتا ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ کے دور با سعادت میں ہم لوگ اپنے کھیت کرائے پردے دیا کرتے تھے اور اس کا عوض یہ طے کرلیا کرتے تھے کہ نالیوں کے اوپر جو پیداوار ہو اور جسے پانی خود بخود پہنچ جائے وہ ہم لیں گے، نبی ﷺ نے اس طرح کرائے پر زمین دینے سے منع فرما دیا اور سونے چاندی کی بدلے زمین کو کرایہ پر دینے کی اجازت دے دی۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ جب نبی ﷺ نے حضرت علی (رض) کو غزوہ تبوک میں مدینہ منورہ پر اپنا نائب مقرر کر کے وہاں چھوڑ دیا تو وہ کہنے لگے یا رسول اللہ ! کیا آپ مجھے بچوں اور عورتوں کے پاس چھوڑ جائیں گے ؟ نبی ﷺ نے فرمایا کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہو سوائے نبوت کے جو حضرت ہارون (علیہ السلام) کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے تھی۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
ایک مرتبہ حضرت سعد (رض) نے اپنے ایک بیٹے کو یہ دعاء کرتے ہوئے سنا کہ اے اللہ ! میں تجھ سے جنت، اس کی نعمتوں اور اس کے ریشمی کپڑوں اور فلاں فلاں چیز کی دعاء کرتا ہوں اور جہنم کی آگ، اس کی زنجیروں اور بیڑیوں اور فلاں فلاں چیز سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں، تو انہوں نے فرمایا کہ تم نے اللہ سے بڑی خیر مانگی اور بڑے شر سے اللہ کی پناہ چاہی، میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عنقریب ایک ایسی قوم آئے گی جو دعاء میں حد سے آگے بڑھ جائے گی اور یہ آیت تلاوت فرمائی کہ تم اپنے رب کو عاجزی کے ساتھ اور چپکے سے پکارا کرو، بیشک وہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا، تمہارے لئے اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ اے آپ سے جنت کا اور اس کے قریب کرنے قول وعمل کا سوال کرتا ہوں اور جہنم اور اس کے قریب کرنے والے قول و عمل سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
مصعب کہتے ہیں کہ حضرت سعد (رض) ان پانچ کلمات کی تاکید فرماتے تھے اور انہیں نبی ﷺ کے حوالے سے بیان کرتے تھے کہ اے اللہ ! میں بخل اور کنجوسی سے آپ کی پناہ میں آتاہوں، میں بزدلی سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں، میں گھٹیا عمر کی طرف لوٹائے جانے سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں، دنیا کی آزمائش سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں اور عذاب قبر سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص قریش کو ذلیل کرنا چاہے گا اللہ اسے ذلیل کر دے گا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص قریش کو ذلیل کرنا چاہے گا اللہ اسے ذلیل کر دے گا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عثمان بن مظعون (رض) نے گوشہ نشینی اختیار کرنا چاہیے لیکن نبی ﷺ نے انہیں اس کی اجازت نہ دی، اگر نبی ﷺ انہیں اس چیز کی اجازت دے دیتے تو ہم بھی کم از کم اپنے آپ کو خصی کرلیتے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ تین دن سے زیادہ اپنے بھائی سے قطع کلامی کرے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے لات اور عزی کی قسم کھالی، میرے ساتھیوں نے مجھ سے کہا کہ تم نے بےہودہ بات کہی، میں نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں نے ابھی نیا نیا اسلام قبول کیا ہے، میری زبان سے لات اور عزی کے نام کی قسم نکل گئی ہے ؟ نبی ﷺ نے فرمایا تین مرتبہ یہ کہہ لو " لاالہ الا اللہ وحدہ " اور بائیں جانب تین مرتبہ تھتکار دو اور اعوذ باللہ پڑھ لو اور آئندہ ایسے مت کہنا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ کی خدمت میں ثرید کا ایک پیالہ لایا گیا، نبی ﷺ نے اس میں موجود کھانا تناول فرمایا : اس میں سے کچھ بچ گیا تو نبی ﷺ نے فرمایا اس راہداری سے ابھی ایک جنتی آدمی آئے گا جو یہ بچا ہوا کھانا کھائے گا، حضرت سعد (رض) کہتے ہیں کہ میں نے اپنے بھائی عمیر کو وضو کرتا ہوا چھوڑ کر آیا تھا، میں نے اپنے دل میں سوچا کہ یہاں سے عمیر ہی آئے گا، لیکن وہاں سے حضرت عبداللہ بن سلام (رض) آئے اور انہوں نے وہ کھانا کھایا۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ایک مرتبہ دعاء کرتے ہوئے فرمایا اے اللہ ! اہل مدینہ کے لئے ان کا مدینہ مبارک فرما اور ان کے صاع اور مد میں برکت عطاء فرما، اے اللہ ! ابراہیم آپ کے بندے اور خلیل تھے اور میں آپ کا بندہ اور رسول ہوں، ابراہیم نے آپ سے اہل مکہ کے لئے دعاء مانگی تھی، میں آپ سے اہل مدینہ کے لئے دعا مانگ رہا ہوں۔ پھر فرمایا کہ مدینہ منورہ ملائکہ جال میں جکڑا ہوا ہے، اس کے ہر سوراخ پر دو فرشتے اس کی حفاظت کے لئے مقر رہیں، یہاں طاعون اور دجال داخل نہیں ہوسکتے، جو اس کے ساتھ کوئی ناپاک ارادہ کرے گا، اللہ اسے اس طرح پگھلا دے گا جیسے نمک پانی پگھل جاتا ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے، اس وقت آپ ﷺ اپنا ایک ہاتھ دوسرے پر مارتے جا رہے تھے اور کہتے جا رہے تھے کہ مہینہ بعض اوقات اتنا اور اتنا بھی ہوتا ہے، تیسری مرتبہ آپ ﷺ نے اپنے ہاتھوں کی دس انگلیوں میں سے ایک انگلی کو بند کرلیا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ مہینہ بعض اوقات اتنا اور اتنا بھی ہوتا ہے، تیسری مرتبہ آپ ﷺ نے اپنے ہاتھوں کی دس انگلیوں میں سے ایک انگلی کو بند کرلیا (مراد 29 کا مہینہ ہونا ہے)
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ مہینہ بعض اوقات اتنا اور اتنا بھی ہوتا ہے، تیسری مرتبہ آپ ﷺ نے اپنے ہاتھوں کی دس انگلیوں میں سے ایک انگلی کو بند کرلیا (مراد 29 کا مہینہ ہونا ہے)
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا عنقریب ایک ایسی قوم آئے گی جو اپنی زبان (چرب لسانی) کے بل بوتے پر کھائے گی جیسے گائے زمین سے اپنی زبان کے ذریعے کھانا کھاتی ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے روایت ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بہترین موت یہ ہے کہ انسان حق کی خاطر مرجائے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا میں اپنے سارے مال کو اللہ کے راستہ میں دینے کی وصیت کرسکتا ہوں ؟ فرمایا نہیں، انہوں نے دو تہائی مال کی وصیت کے بارے پوچھا، نبی ﷺ نے پھر منع فرما دیا، انہوں نے نصف کے متعلق پوچھا تب بھی منع فرما دیا، پھر جب ایک تہائی مال کے متعلق پوچھا تو نبی ﷺ نے فرمایا ہاں ! ایک تہائی مال کی وصیت کرسکتے ہو اور یہ ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے، یاد رکھو ! کہ تم اپنے اہل خانہ کو اچھی حالت میں چھوڑ کر جاؤ، یہ اس سے بہت بہتر ہے کہ تم انہیں اس حال میں چھوڑ جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوجائیں۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ جب نبی ﷺ نے حضرت علی (رض) کو غزوہ تبوک میں مدینہ منورہ پر اپنا نائب مقرر کر کے وہاں چھوڑ دیا تو وہ کہنے لگے یا رسول اللہ ! کیا آپ مجھے بچوں اور عورتوں کے پاس چھوڑ جائیں گے ؟ نبی ﷺ نے فرمایا کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہو سوائے نبوت کے جو حضرت ہارون (علیہ السلام) کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے تھی۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) نے اپنی آخری وصیت میں فرمایا تھا کہ جب میں مرجاؤں تو میری قبر کو لحد کی صورت میں بنانا اور اسی طرح کرنا جیسے نبی ﷺ کے ساتھ کیا گیا تھا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) نے اپنی آخری وصیت میں فرمایا تھا کہ میری قبر کو لحد کی صورت میں بنانا اور اس پر کچی اینٹیں نصب کرنا جیسے نبی ﷺ کے ساتھ کیا گیا تھا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم طواف میں نبی ﷺ کے ساتھ شریک تھے، ہم میں سے بعض نے طواف میں سات چکر لگائے، بعض نے آٹھ اور بعض نے اس سے بھی زیادہ، لیکن نبی ﷺ نے فرمایا کوئی حرج نہیں۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ایمان کا آغاز بھی اس حال میں ہوا تھا کہ وہ اجنبی تھا اور عنقریب یہ اسی حال پر لوٹ جائے گا جیسے اس کا آغاز ہوا تھا، اس موقع پر جب لوگوں میں فساد پھیل جائے گا غرباء کے لئے خوشخبری ہوگی، اس ذات کی قسم ! جس کے دست قدرت میں ابوالقاسم کی جان ہے ایمان ان دو مسجدوں کے درمیان اس طرح سمٹ آئے گا جیسے سانپ اپنے بل میں سمٹ آتا ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد ابن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سوائے مسجد حرام کے دوسری مسجدوں کی نسبت میری اس مسجد میں ایک نماز پڑھنے کا ثواب ایک ہزار نمازوں سے بڑھ کر ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا میں مدینہ منورہ کے دو کناروں کے درمیان کی جگہ کو حرام قرار دیتا ہوں، جیسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ مکرمہ کو حرم قرار دیا تھا، اس لئے یہاں کا کوئی درخت نہ کاٹا جائے اور نہ یہ یہاں کا جانور شکار کیا جائے، یہاں سے کوئی شخص بھی اگر بےرغبتی کی وجہ سے چلا جائے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ اس سے بہتر شخص کو وہاں آباد فرما دیتے ہیں اور لوگوں کے لئے مدینہ ہی سب سے بہتر ہے اگر وہ جانتے ہوتے اور جو شخص بھی اہل مدینہ کے ساتھ برا ارادہ کرے گا، اسے اللہ اسی طرح پگھلا دے گا جیسے تانبا آگ میں یا نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ ! سب سے زیادہ سخت مصیبت کن لوگوں پر آتی ہے، فرمایا انبیاء کرام (علیہم السلام) پر، پھر درجہ بدرجہ عام لوگوں پر، انسان پر آزمائش اس کے دین کے اعتبار سے آتی ہے، اگر اس کے دین میں پختگی ہو تو اس کے مصائب میں مزید اضافہ کردیا جاتا ہے اور اگر اس کے دین میں کمزوری ہو تو اس کے مصائب میں تخفیف کردی جاتی ہے اور انسان پر مسلسل مصائب آتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب وہ زمین پر چلتا ہے تو اس کا کوئی گناہ نہیں ہوتا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے کسی غزوہ میں حضرت علی (رض) کو اپنے پیچھے اپنا نائب بنا کر چھوڑ دیا، حضرت علی (رض) کہنے لگے کہ آپ مجھے عورتوں اور بچوں کے ساتھ چھوڑے جا رہے ہیں ؟ نبی ﷺ نے فرمایا علی ! کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ تمہیں میرے ساتھ وہی نسبت ہو جو حضرت ہارون (علیہ السلام) کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ تھی ؟ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ میرے بعد نبوت کا سلسلہ نہیں ہے۔ نیز میں نے غزوہ خیبر کے موقع پر نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ کل میں یہ جھنڈا اس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوگا اور خود اللہ اور اس کے رسول کو محبوب ہوگا، ہم نے اس سعات کے لئے اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی کوشش کی، لیکن لسان نبوت سے ارشاد ہوا علی کو میرے پاس بلا کر لاؤ، جب انہیں بلا کر لایا گیا تو معلوم ہوا کہ انہیں آشوب چشم کا عارضہ لاحق ہے، نبی ﷺ نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگادیا اور جھنڈا ان کے حوالے کر یا، اللہ نے ان کے ہاتھ پر مسلمانوں کو فتح عطاء فرمائی۔ اور جب یہ آیت نازل ہوئی کہ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ، تو نبی ﷺ نے حضرت علی (رض) ، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین (رض) کو بلایا اور فرمایا اے اللہ ! یہ میرے اہل خانہ ہیں۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) نے حضرت عثمان غنی (رض) کے ایام امتحان میں فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا عنقریب فتنوں کا دور آئے گا، اس دور میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوگا، کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا راوی نے پوچھا کہ اگر کوئی شخص میرے گھر میں گھس آئے اور مجھے قتل کرنے کے ارادے سے اپنا ہاتھ بڑھائے تو کیا کروں ؟ فرمایا ابن آدم (ہابیل) کی طرح ہوجانا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت عباس (رض) کے متعلق فرمایا یہ عباس بن عبدالمطلب ہیں جو قریش میں ہاتھ کے سب سے سخی اور سب سے زیادہ جوڑ پیدا کرنے والے ہیں۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ مجھے کوئی دعاء سکھا دیجئے جو میں پڑھ لیا کروں ؟ نبی ﷺ نے فرمایا تم یوں کہا کرو کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اللہ بہت بڑا ہے، تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں، اللہ ہر عیب اور نقص سے پاک ہے، جو کہ تمام جہانوں کو پالنے والا ہے، گناہ سے بچنے اور نیکی کے کام کرنے کی طاقت اللہ ہی سے مل سکتی ہے جو غالب اور حکمت والا ہے، یہ کلمات پانچ مرتبہ کہہ لیا کرو۔ اس دیہاتی نے عرض کیا کہ ان سب کلمات کا تعلق تو میرے رب سے ہے، میرے لئے کیا ہے ؟ فرمایا تم یوں کہہ لیا کرو کہ اے اللہ مجھے معاف فرما، مجھ پر رحم فرما، مجھے رزق عطاء فرما، مجھے ہدایت عطاء فرما۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے صحابہ کرام (رض) سے مخاطب ہو کر فرمایا کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات سے عاجز ہے کہ دن میں ایک ہزار نیکیاں کمالے، صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اس کی طاقت کس میں ہے ؟ نبی ﷺ نے فرمایا سو مرتبہ سبحان اللہ کہہ لیا کرے، اس کے نامہ اعمال میں ایک ہزار نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور ایک ہزار گناہ مٹا دئیے جائیں گے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے صحابہ کرام (رض) سے مخاطب ہو کر فرمایا کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات سے عاجز ہے کہ دن میں ایک ہزار نیکیاں کما لے، صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ﷺ اس کی طاقت کس میں ہے ؟ نبی ﷺ نے فرمایا سو مرتبہ سبحان اللہ کہہ لیا کرے، اس کے نامہ اعمال میں ایک ہزار نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور ایک ہزار گناہ مٹا دئیے جائیں گے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
مصعب بن سعد کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب کے بارے قرآن کریم کی چار آیات مبارکہ نازل ہوئی ہیں، میرے والد کہتے ہیں کہ ایک غزوہ میں مجھے ایک تلوار ملی، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ مجھے عطاء فرما دیں، فرمایا اسے رکھ دو ، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ مجھے عطاء فرما دیجئے، کیا میں اس شخص کی طرح سمجھا جاؤں گا جسے کوئی ضرورت ہی نہ ہو ؟ نبی ﷺ نے پھر فرمایا اسے جہاں سے لیا ہے وہیں رکھ دو ، اس پر سورت انفال کی ابتدائی آیت نازل ہوئی۔ پھر جب میں نے اسلام قبول کیا تھا تو میری والدہ نے مجھ سے کہا کیا اللہ نے تمہیں صلہ رحمی اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم نہیں دیا ؟ بخدا ! میں اس وقت تک کچھ کھاؤں گی اور نہ پیوں گی جب تک تم محمد ﷺ کا انکار نہ کردو گے، چناچہ ایسا ہی ہوا، انہوں نے کھانا پینا چھوڑ دیا حتی کہ لوگ زبردستی ان کے منہ میں لکڑی ڈال کر اسے کھولتے اور اس میں کوئی پینے کی چیز انڈیل دیتے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ ہم نے انسان کو والدین کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کی ہے۔۔۔۔ لیکن اگر وہ تمہیں شرک پر مجبور کریں تو ان کی بات نہ مانو۔ پھر ایک مرتبہ نبی ﷺ میری بیمار پرسی کے لئے تشریف لائے، میں نے پوچھا یا رسول اللہ ! کیا میں اپنے کل مال کی وصیت کردوں ؟ نبی ﷺ نے مجھے اس سے منع فرمایا : نصف کے متعلق سوال پر بھی منع کردیا، لیکن ایک تہائی کے سوال پر آپ ﷺ خاموش رہے اور اس کے بعد لوگوں نے اس پر عمل شروع کردیا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم کسی علاقے میں طاعون کی وباء پھیلنے کا سنو تو وہاں مت جاؤ اور اگر تم کسی علاقے میں ہو اور وہاں طاعون کی وباء پھوٹ پڑے تو وہاں سے راہ فرار مت اختیار کرو۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے غزوہ احد کے موقع پر مجھ سے فرمایا تیر پھینکو، تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
یحییٰ بن عبید کہتے ہیں کہ محمد بن سعد ایک دن ہمارے سامنے بیت الخلاء سے نکلے اور وضو کرنے لگے، وضو کے دوران انہوں نے موزوں پر مسح کیا، ہمیں اس پر تعجب ہوا اور ہم نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے والد صاحب نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) فرماتے ہیں کہ میں عرب کا وہ سب سے پہلا آدمی ہوں جس نے اللہ کے راستہ میں سب سے پہلا تیر پھینکا تھا، ہم نے وہ وقت دیکھا ہے جب ہم نبی ﷺ کے ساتھ مل کر جہاد کرتے تھے، اس وقت ہمارے پاس کھانے کے لئے سوائے انگور کی شاخوں اور ببول کے کوئی دوسری چیز نہ ہوتی تھی اور ہم میں سے ہر ایک اس طرح مینگنی کرتا تھا جیسے بکری مینگنی کرتی ہے، اس کے ساتھ کوئی اور چیز نہ ملتی تھی اور آج بنو اسد کے لوگ مجھ ہی کو میرے اسلام پر ملامت کرتے ہیں، تب تو میں بڑے خسارے میں رہا اور میری ساری محنت برباد ہوگئی۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرتے ہوئے دیکھا ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ غزوہ خندق کے دن میں نے ایک آدمی کو دیکھا جو ڈھال سے اپنے آپ کو بچا رہا تھا، کبھی وہ ڈھال کو اپنی ناک کے اوپر رکھ لیتا، کبھی اس سے نیچے کرلیتا، میں نے یہ دیکھ کر اپنے ترکش کی طرف توجہ کی، اس میں سے ایک خون آلود تیر نکالا اور اسے کمان میں جوڑا، جب اس نے ڈھال کو نیچے کیا تو میں نے اسے تاک کر تیر دے مارا، اس سے پہلے میں تیر کی لکڑی لگانا نہ بھولا تھا، تیر لگتے ہی وہ نیچے گرپڑا اور اس کی ٹانگیں اوپر کو اٹھ گئیں، جسے دیکھ کر نبی ﷺ اتنے ہنسے کہ آپ ﷺ کے دندان مبارک ظاہر ہوگئے، میں نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا اس آدمی کی حرکت کی وجہ سے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
مصعب کہتے ہیں کہ حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) ان پانچ کلمات کی تاکید فرماتے تھے اور انہیں نبی ﷺ کے حوالے سے بیان کرتے تھے کہ اے اللہ ! میں بخل اور کنجوسی سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں، میں بزدلی سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں، میں گھٹیا عمر کی طرف لوٹائے جانے سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں، دنیا کی آزمائش سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں اور عذاب قبر سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے لات اور عزی کی قسم کھالی، میرے ساتھیوں نے مجھ سے کہا کہ تم نے بےہودہ بات کہی، میں نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں نے ابھی نیانیا اسلام قبول کیا ہے، میری زبان سے لات اور عزی کے نام کی قسم نکل گئی ہے ؟ نبی ﷺ نے فرمایا تین مرتبہ یہ کہہ لو " لاالہ الا اللہ وحدہ " اور بائیں جانب تین مرتبیہ تھتکار دو اور اعوذباللہ پڑھ لو اور آئندہ ایسے مت کہنا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا بہترین ذکر وہ ہے جو خفی ہو اور بہترین رزق وہ ہے جو کفایت کرسکے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر (رض) نے نبی ﷺ سے گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کی، اس وقت نبی ﷺ کے پاس قریش کی کچھ عورتیں بیٹھی ہوئی باتیں کر رہی تھیں اور ان کی آوازیں اونچی ہو رہی تھیں، لیکن جب حضرت عمر (رض) کو اندر آنے کی اجازت ملی تو ان سب نے جلدی جلدی اپنے دوپٹے سنبھال لئے، جب وہ اندر آئے تو نبی ﷺ مسکرا رہے تھے، حضرت عمر (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ﷺ اللہ آپ کو اسی طرح ہنستا مسکراتا ہوا رکھے، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ نبی ﷺ نے فرمایا مجھے تو تعجب ان عورتوں پر ہے جو پہلے میرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں، لیکن جیسے ہی انہوں نے تمہاری آواز سنی جلدی سے پردہ کرلیا، حضرت عمر (رض) نے ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا اے اپنی جان کی دشمن عورتو ! بخدا ! نبی ﷺ مجھ سے زیادہ اس بات کے حقدار ہیں کہ تم ان سے ڈرو، نبی ﷺ نے فرمایا عمر ! انہیں چھوڑ دو کیونکہ اللہ کی قسم ! شیطان جب تمہیں کسی راستے سے گذرتا ہوا دیکھ لیتا ہے، تو اس راستے کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کرلیتا ہے۔