825. وہ حدیثیں جو حضرت ابن عباس (رض) نے ان سے نقل کی ہیں۔
وہ حدیثیں جو حضرت ابن عباس (رض) نے ان سے نقل کی ہیں۔
حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ان کا اور حر بن قیس فزاری کا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اس رفیق کے متعلق اختلاف رائے ہوگیا جس کی طرف سفر کر کے جانے کی بارگاہ الہٰی میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے درخواست کی تھی، حضرت ابن عباس (رض) کی رائے یہ تھی کہ وہ حضرت خضر (علیہ السلام) تھے اسی دوران وہاں سے حضرت ابی بن کعب (رض) کا گذر ہوا حضرت ابن عباس (رض) نے انہیں پکار کر کہا کہ میرا اور میرے اس ساتھی کا اس بات میں اختلاف ہوگیا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا وہ ساتھی کون تھا جس کی طرف سفر کر کے ملنے کی درخواست انہوں نے کی تھی ؟ کیا آپ نے اس حوالے سے نبی کریم ﷺ کو کچھ ذکر کرتے ہوئے سنا ہے ؟ انہوں نے فرمایا ہاں ! میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے کسی اجتماع سے خطاب فرما رہے تھے کہ ایک آدمی نے کھڑے ہو کر ان سے پوچھا کہ آپ کے علم میں اپنے سے بڑا عالم بھی ہے ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا نہیں اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ وحی آئی کہ ہمارا ایک بندہ خضر تم سے بڑا عالم ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے ملنے کا طریقہ پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے ایک مچھلی کو ان کی لئے نشانی قرار دیتے ہوئے فرمایا جب تم مچھلی کو نہ پاؤ تو واپس آجانا کیونکہ وہیں پر تمہاری ان سے ملاقات ہوجائے گی، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سفر پر روانہ ہوئے تو ایک منزل پر پڑاؤ کیا اور اپنے خادم سے کہنے لگے ہمارا ناشتہ لاؤ اس سفر میں تو ہمیں بڑی مشقت کا سامنا کرنا پڑا ہے وہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے مچھلی کو غائب پایا تو دونوں اپنے نشانات قدم پر چلتے ہوئے واپس لوٹے اور پھر وہ قصہ پیش آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے۔
وہ حدیثیں جو حضرت ابن عباس (رض) نے ان سے نقل کی ہیں۔
حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ ایک آدمی حضرت عمر فاروق (رض) کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ہمیں قحط سالی نے کھالیا حضرت عمر (رض) نے اس سے پوچھا کہ تمہارا تعلق کس قبیلے سے ہے ؟ حضرت عمر (رض) مسلسل اس کے نسب نامے کو کریدتے رہے یہاں تک کہ اسے شناخت کرلیا اور پتہ یہ چلا کہ وہ تو مالی طور پر وسعت رکھتا ہے، حضرت عمر (رض) نے فرمایا اگر کسی شخص کے پاس (مال و دولت کی ایک دو وادیاں بھی ہوں تب بھی وہ تیسری کی تلاش میں ہوگا اس پر حضرت ابن عباس (رض) نے یہ اضافہ کردیا کہ ابن آدم کا پیٹ تو صرف مٹی ہی بھر سکتی ہے پھر اللہ اس پر متوجہ ہوجاتا ہے جو توبہ کرتا ہے۔ حضرت عمر (رض) نے ان سے پوچھا کہ تم نے یہ کس سے سنا ؟ انہوں نے بتایا حضرت ابی بن کعب (رض) سے حضرت عمر (رض) نے فرمایا کل میرے پاس آنا حضرت ابن عباس (رض) جب اپنی والدہ حضرت ام الفضل (رض) کے پاس پہنچے تو ان سے اس واقعے کا تذکرہ کیا انہوں نے فرمایا کہ تمہیں حضرت عمر (رض) کے سامنے بولنے کی کیا ضرورت تھی ؟ اب حضرت ابن عباس (رض) کو یہ اندیشہ پیدا ہوگیا کہ کہیں حضرت ابی (رض) اسے بھول ہی نہ گئے ہوں لیکن ان کی والدہ نے انہیں تسلی دی کہ امید ہے کہ وہ اس بات کو نہیں بھولے ہوں گے۔ چنانچہ اگلے دن جب حضرت ابن عباس (رض) حضرت عمر (رض) کے پاس پہنچے تو ان کے پاس کوڑا پڑا ہوا تھا ہم دونوں حضرت ابی بن کعب (رض) کی طرف چل پڑے حضرت ابی (رض) باہر تشریف لائے تو انہوں نے تازہ وضو کیا ہوا تھا وہ کہنے لگے کہ مجھے " مذی " لاحق ہوگئی تھی اس لئے میں نے فقط شرمگاہ کو دھولیا ( اور وضو کرلیا) حضرت عمر (رض) نے پوچھا کیا یہ جائز ہے ؟ انہوں نے فرمایا جی ہاں ! حضرت عمر (رض) نے پوچھا کیا آپ نے یہ بات نبی کریم ﷺ سے سنی ہے ؟ انہوں نے فرمایا جی ہاں پھر حضرت عمر (رض) نے ابن عباس (رض) کی بات کے متعلق پوچھا تو انہوں نے اس کی بھی تصدیق کی۔
وہ حدیثیں جو حضرت ابن عباس (رض) نے ان سے نقل کی ہیں۔
حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ ایک آدمی حضرت عمر فاروق (رض) کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ہمیں قحط سالی نے کھالیا حضرت عمر (رض) نے اس سے پوچھا کہ تمہارا تعلق کس قبیلے سے ہے ؟ حضرت عمر (رض) مسلسل اس کے نسب نامے کو کریدتے رہے یہاں تک کہ اسے شناخت کرلیا اور پتہ یہ چلا کہ وہ تو مالی طور پر وسعت رکھتا ہے، حضرت عمر (رض) نے فرمایا اگر کسی شخص کے پاس (مال و دولت کی ایک دو وادیاں بھی ہوں تب بھی وہ تیسری کی تلاش میں ہوگا اس پر حضرت ابن عباس (رض) نے یہ اضافہ کردیا کہ ابن آدم کا پیٹ تو صرف مٹی ہی بھرسکتی ہے پھر اللہ اس پر متوجہ ہوجاتا ہے جو توبہ کرتا ہے۔ حضرت عمر (رض) نے ان سے پوچھا کہ تم نے یہ کس سے سنا ؟ انہوں نے بتایا حضرت ابی بن کعب (رض) سے حضرت عمر (رض) نے فرمایا کل میرے پاس آنا چناچہ اگلے دن وہ حضرت ابی بن کعب (رض) کی طرف چل پڑے حضرت عمر (رض) نے ان سے پوچھا یہ ابن عباس کیا کہتا ہے ؟ انہوں نے فرمایا مجھے نبی کریم ﷺ نے اسی طرح پڑھایا ہے حضرت عمر (رض) نے پوچھا کیا میں اسے لکھ لوں ؟ انہوں نے فرمایا ہاں چناچہ انہوں نے اسے لکھ لیا۔
وہ حدیثیں جو حضرت ابن عباس (رض) نے ان سے نقل کی ہیں۔
حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابی بن کعب (رض) نے حضرت عمر (رض) سے فرمایا امیرالمؤمنین ! میں نے قرآن کریم اس ذات سے تازہ بتازہ حاصل کیا ہے جس نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سے اسے حاصل کیا تھا۔
وہ حدیثیں جو حضرت ابن عباس (رض) نے ان سے نقل کی ہیں۔
حضرت ابن عباس (رض) سے بحوالہ ابی بن کعب (رض) مروی ہے کہ قرآن کریم کی سب سے آخری آیت جو نازل ہوئی وہ یہ تھی " لقدجاء کم رسول میں انفسکم۔۔۔۔۔۔۔۔ "
وہ حدیثیں جو حضرت ابن عباس (رض) نے ان سے نقل کی ہیں۔
حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہا کہ نوف بکالی کا خیال ہے کہ (حضرت خضر (علیہ السلام) والے) موسیٰ بنی اسرائیل کے موسیٰ نہیں ہیں بلکہ وہ کوئی اور موسیٰ ہیں ابن عباس (رض) بولے دشمن اللہ جھوٹ بولتا ہے مجھ سے حضرت ابی بن کعب (رض) نے یہ حدیث بیان کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے سامنے کھڑے تقریر فرما رہے تھے تقریر ختم ہونے کے بعد ایک شخص نے دریافت کیا کہ سب سے بڑا عالم کون ہے ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا میں سب سے بڑا عالم ہوں خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ تم سے زیادہ عالم ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا الہٰی اس سے ملاقات کس طرح ہوسکتی ہے ؟ حکم دیا گیا کہ اپنے ساتھ زنبیل میں ایک (بھنی ہوئی) مچھلی رکھ لو ( اور سفر کو چل دو ) جہاں وہ مچھلی گم ہوجائے وہ شخص وہیں ملے گا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک مچھلی لے کر زنبیل میں ڈالی اور چل دیئے اور اپنے ساتھ ایک خادم یوشع بن نون کو بھی لیتے گئے چلتے چلتے جب ایک پتھر کے پاس پہنچے تو دونوں (رک گئے اور) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس پتھر پر سر رکھ کر سو گئے اتنے میں مچھلی زنبیل سے پھڑک کر نکلی اور دریا میں سرنگ بناتی ہوئی اپنی راہ چلی گئی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بیدار ہوئے تو موسیٰ نے اپنے خادم سے فرمایا ہم تو اس سفر سے بہت تھک گئے اب کھانا لے آؤ اور موسیٰ کو اس وقت تک کوئی تھکاوٹ نہ ہوئی تھی جب تک کہ مقام مقررہ سے آگے نہ بڑھے تھے بلکہ اس وقت تھکان معلوم ہونے لگی جب مقام مقررہ سے آگے بڑھ گئے خادم کہنے لگا کیا بتاؤں جب ہم اس پتھر کے پاس پہنچے تو میں مچھلی وہاں بھول گیا ( اور آپ سے میں نے اس کا تذکرہ نہ کیا) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اسی جگہ کی تو ہم کو تلاش تھی چناچہ الٹے پاؤں قدم پر قدم ڈالتے واپس لوٹے۔ پتھر تک پہنچے ہی تھے کہ ایک آدمی کپڑے سے سر لپیٹے ہوئے نظر آیا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے سلام کیا خضر بولے تمہارے ملک میں سلام کا رواج کہاں ہے (یہ تم نے سلام کیسے کیا ؟ ) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا میں موسیٰ ہوں خضر بولے کیا بنی اسرائیل والے موسیٰ میں نے کہا جی ہاں اس کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کیا میں آپ کے ہمراہ اس شرط پر چل سکتا ہوں کہ خداوند تعالیٰ نے جو علم آپ کو عطا فرمایا ہے اس میں سے کچھ حصہ کی مجھے بھی تعلیم دیجئے حضرت خضر (علیہ السلام) بولے آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہ کرسکیں گے (درمیان میں بول اٹھیں گے) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص کا مجھے وہ حصہ عطا فرمایا ہے جو آپ کو نہیں دیا اور آپ کو وہ علم دیا جس سے میں ناواقف ہوں (حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا انشاء اللہ آپ مجھے ثابت قدم پائیں گے میں آپ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کروں گا) آخرکار دونوں دریا کے کنارے کنارے چل دیئے کہ کشتی موجود نہ تھی اتنے میں ادھر سے ایک کشتی کا گزر ہوا انہوں نے کشتی والوں سے سوار ہونے کے متعلق کچھ بات چیت کی حضرت خضر (علیہ السلام) کو لوگوں نے پہچان لیا اس لئے کشتی والوں نے دونوں کو بغیر کرایہ کے سوار کرلیا اس کے بعدخضر (علیہ السلام) نے کشتی کو اچھی طرح دیکھ کر بسولا نکال کر کشتی کا ایک تختہ اکھاڑ دیا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا تم نے یہ کیا کیا ؟ ان لوگوں نے تو بغیر کرایہ کے ہم کو سوار کرلیا اور تم نے ان کی کشتی توڑ کر سب کو ڈبونا چاہا تم نے یہ عجیب بات کی ؟ خضر (علیہ السلام) بولے میں نے تم سے نہیں کہہ دیا تھا کہ میرے ساتھ رہ کر صبر نہ کرسکو گے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا بھول چوک پر میری گرفت نہ کیجئے اور مجھ پر میرے کام میں دشواری نہ ڈالیے اسی دوران ایک چڑیا نے آکر سمندر میں اپنی چونچ ڈالی حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا میرا اور تمہارا علم اللہ کے علم میں اتنی بھی کمی نہیں کرسکتا جتنی کمی اس چڑیا نے اس سمندر کے پانی میں کی ہے۔ پھر یہ دونوں حضرات کشتی سے نکل کر چل دیئے راستہ میں ایک لڑکا بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا خضر (علیہ السلام) نے اس کا سرپکڑ کر اپنے ہاتھ سے گردن اکھاڑ دی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بولے تم نے جو ایک معصوم جان کو بلا قصور مار ڈالا یہ تم نے بہت برا کام کیا خضر (علیہ السلام) بولے کیا میں نے نہیں کہہ دیا تھا کہ تم میرے ساتھ رہ کر ضبط نہ کرسکو گے موسیٰ نے کہا اچھا اب اس کے بعد اگر میں آپ سے کچھ دریافت کروں تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھنا آپ نے میرا عذر بہت مان لیا آخر کار پھر دونوں چل دیئے چلتے چلتے ایک گاؤں میں پہنچے گاؤں والوں سے کھانا مانگا انہوں نے مہمانی کرنے سے انکار کردیا ان کو وہاں ایک دیوار نظر آئی جو گرنے کے قریب تھی، حضرت خضر (علیہ السلام) نے ہاتھ کا اشارہ کر کے اس کو سیدھا کردیا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا ہم ان لوگوں کے پاس آئے اور انہوں نے ہم کو نہ کھانا دیا نہ مہمانی کی لیکن آپ نے ان کی دیوار ٹھیک کردی اگر آپ چاہتے تو اس کی اجرت لے سکتے تھے حضرت خضر (علیہ السلام) بولے بس یہی میرے تمہارے درمیان جدائی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ پہلی مرتبہ کا سوال بھولے سے ہوا تھا نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ موسیٰ پر رحم فرمائے اگر وہ ضبط کرلیتے تو خدا تعالیٰ ہمارے سامنے ان کا واقعہ کچھ اور بھی بیان فرماتا۔ حضرت ابن عباس (رض) سے بحوالہ ابی بن کعب (رض) مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے یہ آیت " لوشئت لاتخذت علیہ اجرا " اس طرح بھی پڑھی ہے " لتخذت حضرت ابن عباس (رض) سے بحوالہ ابی بن کعب (رض) مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ایک دیوار گرنے کے قریب تھی، انہوں نے اسے ہاتھ کے اشارے سے سیدھا کھڑا کردیا۔ حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہا کہ نوف بکالی کا خیال ہے کہ (حضرت خضر (علیہ السلام) والے) موسیٰ بنی اسرائیل کے موسیٰ نہیں ہیں بلکہ وہ کوئی اور موسیٰ ہیں ابن عباس (رض) بولے دشمن اللہ جھوٹ بولتا ہے مجھ سے حضرت ابی بن کعب (رض) نے یہ حدیث بیان کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے سامنے کھڑے تقریر فرما رہے تھے تقریر ختم ہونے کے بعد ایک شخص نے دریافت کیا کہ سب سے بڑا عالم کون ہے ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا میں سب سے بڑا عالم ہوں خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ تم سے زیادہ عالم ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا الہٰی اس سے ملاقات کس طرح ہوسکتی ہے ؟ حکم دیا گیا کہ اپنے ساتھ زنبیل میں ایک (بھنی ہوئی) مچھلی رکھ لو ( اور سفر کو چل دو ) جہاں وہ مچھلی گم ہوجائے وہ شخص وہیں ملے گا۔ چنانچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) چل دیئے اور اپنے ساتھ ایک خادم یوشع بن نون کو بھی لیتے گئے چلتے چلتے جب ایک پتھر کے پاس پہنچے تو دونوں (رک گئے اور) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس پتھر پر سر رکھ کر سوگئے اتنے میں مچھلی زنبیل سے پھڑک کر نکلی اور دریا میں سرنگ بناتی ہوئی اپنی راہ چلی گئی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بیدار ہوئے تو موسیٰ نے اپنے خادم سے فرمایا ہم تو اس سفر سے بہت تھک گئے اب کھانا لے آؤ اور موسیٰ کو اس وقت تک کوئی تھکاوٹ نہ ہوئی تھی جب تک کہ مقام مقررہ سے آگے نہ بڑھے تھے بلکہ اس وقت تھکان معلوم ہونے لگی جب مقام مقررہ سے آگے بڑھ گئے خادم کہنے لگا کیا بتاؤں جب ہم اس پتھر کے پاس پہنچے تو میں مچھلی وہاں بھول گیا ( اور آپ سے میں نے اس کا تذکرہ نہ کیا) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اسی جگہ کی تو ہم کو تلاش تھی چناچہ الٹے پاؤں قدم پر قدم ڈالتے واپس لوٹے گویا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تعجب ہوا اور مچھلی سرنگ بنا کر چلی گئی۔۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔
وہ حدیثیں جو حضرت ابن عباس (رض) نے ان سے نقل کی ہیں۔
حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہا کہ نوف بکالی کا خیال ہے کہ (حضرت خضر (علیہ السلام) والے) موسیٰ بنی اسرائیل کے موسیٰ نہیں ہیں بلکہ وہ کوئی اور موسیٰ ہیں ابن عباس (رض) بولے دشمن اللہ جھوٹ بولتا ہے مجھ سے حضرت ابی بن کعب (رض) نے یہ حدیث بیان کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے سامنے کھڑے تقریر فرما رہے تھے تقریر ختم ہونے کے بعد ایک شخص نے دریافت کیا کہ سب سے بڑا عالم کون ہے ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا میں سب سے بڑا عالم ہوں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ تم سے زیادہ عالم ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا الہٰی اس سے ملاقات کس طرح ہوسکتی ہے ؟ حکم دیا گیا کہ اپنے ساتھ زنبیل میں ایک (بھنی ہوئی) مچھلی رکھ لو ( اور سفر کو چل دو ) جہاں وہ مچھلی گم ہوجائے وہ شخص وہیں ملے گا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک مچھلی لے کر زنبیل میں ڈالی اور چل دیئے اور اپنے ساتھ ایک خادم یوشع بن نون کو بھی لیتے گئے چلتے چلتے جب ایک پتھر کے پاس پہنچے تو دونوں (رک گئے اور) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس پتھر پر سر رکھ کر سوگئے اتنے میں مچھلی زنبیل سے پھڑک کر نکلی اور دریا میں سرنگ بناتی ہوئی اپنی راہ چلی گئی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بیدار ہوئے تو موسیٰ نے اپنے خادم سے فرمایا ہم تو اس سفر سے بہت تھک گئے اب کھانا لے آؤ اور موسیٰ کو اس وقت تک کوئی تھکاوٹ نہ ہوئی تھی جب تک کہ مقام مقررہ سے آگے نہ بڑھے تھے بلکہ اس وقت تھکان معلوم ہونے لگی جب مقام مقررہ سے آگے بڑھ گئے خادم کہنے لگا کیا بتاؤں جب ہم اس پتھرکے پاس پہنچے تو میں مچھلی وہاں بھول گیا ( اور آپ سے میں نے اس کا تذکرہ نہ کیا) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اسی جگہ کی تو ہم کو تلاش تھی چناچہ الٹے پاؤں قدم پر قدم ڈالتے واپس لوٹے۔ پتھر تک پہنچے ہی تھے کہ ایک آدمی کپڑے سے سر لپیٹے ہوئے نظر آیا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے سلام کیا خضر بولے تمہارے ملک میں سلام کا رواج کہاں ہے (یہ تم نے سلام کیسے کیا ؟ ) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا میں موسیٰ ہوں خضربولے کیا بنی اسرائیل والے موسیٰ میں نے کہا جی ہاں اس کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کیا میں آپ کے ہمراہ اس شرط پر چل سکتا ہوں کہ خداوند تعالیٰ نے جو علم آپ کو عطا فرمایا ہے اس میں سے کچھ حصہ کی مجھے بھی تعلیم دیجئے حضرت خضر (علیہ السلام) بولے آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہ کرسکیں گے (درمیان میں بول اٹھیں گے) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص کا مجھے وہ حصہ عطا فرمایا ہے جو آپ کو نہیں دیا اور آپ کو وہ علم دیا جس سے میں ناواقف ہوں (حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا انشاء اللہ آپ مجھے ثابت قدم پائیں گے میں آپ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کروں گا) آخرکار دونوں دریا کے کنارے کنارے چل دیئے کہ کشتی موجود نہ تھی اتنے میں ادھر سے ایک کشتی کا گزر ہوا انہوں نے کشتی والوں سے سوار ہونے کے متعلق کچھ بات چیت کی حضرت خضر (علیہ السلام) کو لوگوں نے پہچان لیا اس لئے کشتی والوں نے دونوں کو بغیر کرایہ کے سوار کرلیا اس کے بعد خضر (علیہ السلام) نے کشتی کو اچھی طرح دیکھ کر بسولا نکال کر کشتی کا ایک تختہ اکھاڑ دیا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا تم نے یہ کیا کیا ؟ ان لوگوں نے تو بغیر کرایہ کے ہم کو سوار کرلیا اور تم نے ان کی کشتی توڑ کر سب کو ڈبونا چاہا تم نے یہ عجیب بات کی ؟ خضر (علیہ السلام) بولے میں نے تم سے نہیں کہہ دیا تھا کہ میرے ساتھ رہ کر صبر نہ کرسکو گے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا بھول چوک پر میری گرفت نہ کیجئے اور مجھ پر میرے کام میں دشواری نہ ڈالیے اسی دوران ایک چڑیا نے آکر سمندر میں اپنی چونچ ڈالی حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا میرا اور تمہارا علم اللہ کے علم میں اتنی بھی کمی نہیں کرسکتا جتنی کمی اس چڑیا نے اس سمندر کے پانی میں کی ہے۔ پھر یہ دونوں حضرات کشتی سے نکل کر چل دیئے ساحل سمندر پر ایک لڑکا بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا خضر (علیہ السلام) نے اس کا سر پکڑ کر اپنے ہاتھ سے گردن اکھاڑ دی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بولے تم نے جو ایک معصوم جان کو بلا قصور مار ڈالا یہ تم نے بہت برا کام کیا خضر (علیہ السلام) بولے کیا میں نے نہیں کہہ دیا تھا کہ تم میرے ساتھ رہ کر ضبط نہ کرسکو گے موسیٰ نے کہا اچھا اب اس کے بعد اگر میں آپ سے کچھ دریافت کروں تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھنا آپ نے میرا عذر بہت مان لیا آخر کار پھر دونوں چل دیئے چلتے چلتے ایک گاؤں میں پہنچے گاؤں والوں سے کھانا مانگا انہوں نے مہمانی کرنے سے انکار کردیا ان کو وہاں ایک دیوار نظر آئی جو گرنے کے قریب تھی، حضرت خضر (علیہ السلام) نے ہاتھ کا اشارہ کر کے اس کو سیدھا کردیا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا ہم ان لوگوں کے پاس آئے اور انہوں نے ہم کو نہ کھانا دیا نہ مہمانی کی لیکن آپ نے ان کی دیوار ٹھیک کردی اگر آپ چاہتے تو اس کی اجرت لے سکتے تھے حضرت خضر (علیہ السلام) بولے بس یہی میرے تمہارے درمیان جدائی ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے کپڑے کا کنارہ پکڑ کر کہا کہ مجھے ان واقعات کی تفصیل تو بتا دیجئے انہوں نے فرمایا کشتی والوں سے آگے ایک ظالم بادشاہ تھا جو ثابت اور عمدہ کشتیاں چھین لیا کرتا تھا (اس لئے حضرت خضر (علیہ السلام) نے اس کشتی کو عیب دار کردیا) اور وہ لڑکا کافر تھا اس کے والدین نیک آدمی تھے (خوف ہوا کہ کہیں والدین اس کی وجہ سے تباہ نہ ہوں اس لئے حضرت خضر (علیہ السلام) نے اس کو بحکم اللہ قتل کردیا) اور وہ دیوار دو یتیم بچوں کی تھی جس کے نیچے ان کا خزانہ محفوظ تھا اس کی حفاظت کے لئے حضرت خضر (علیہ السلام) نے دیوار سیدھی کردی تھی اور یہ کام میں نے اپنی مرضی سے نہیں کئے یہ ان تمام چیزوں کی حقیقت ہے جن پر آپ صبر نہیں سکے۔
وہ حدیثیں جو حضرت ابن عباس (رض) نے ان سے نقل کی ہیں۔
حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہا کہ نوف بکالی کا خیال ہے کہ (حضرت خضر (علیہ السلام) والے) موسیٰ بنی اسرائیل کے موسیٰ نہیں ہیں بلکہ وہ کوئی اور موسیٰ ہیں ابن عباس (رض) بولے دشمن اللہ جھوٹ بولتا ہے مجھ سے حضرت ابی بن کعب (رض) نے یہ حدیث بیان کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے سامنے کھڑے تقریر فرما رہے تھے تقریر ختم ہونے کے بعد ایک شخص نے دریافت کیا کہ سب سے بڑا عالم کون ہے ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا میں سب سے بڑا عالم ہوں خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ تم سے زیادہ عالم ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا الہٰی اس سے ملاقات کس طرح ہوسکتی ہے ؟ حکم دیا گیا کہ اپنے ساتھ زنبیل میں ایک (بھنی ہوئی) مچھلی رکھ لو ( اور سفر کو چل دو ) جہاں وہ مچھلی گم ہوجائے وہ شخص وہیں ملے گا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک مچھلی لے کر زنبیل میں ڈالی اور چل دیئے اور اپنے ساتھ ایک خادم یوشع بن نون کو بھی لیتے گئے چلتے چلتے جب ایک پتھر کے پاس پہنچے تو دونوں (رک گئے اور) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس پتھر پر سر رکھ کر سو گئے اتنے میں مچھلی زنبیل سے پھڑک کر نکلی اور دریا میں سرنگ بناتی ہوئی اپنی راہ چلی گئی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بیدار ہوئے تو موسیٰ نے اپنے خادم سے فرمایا ہم تو اس سفر سے بہت تھک گئے اب کھانا لے آؤ اور موسیٰ کو اس وقت تک کوئی تھکاوٹ نہ ہوئی تھی جب تک کہ مقام مقررہ سے آگے نہ بڑھے تھے بلکہ اس وقت تھکان معلوم ہونے لگی جب مقام مقررہ سے آگے بڑھ گئے خادم کہنے لگا کیا بتاؤں جب ہم اس پتھر کے پاس پہنچے تو میں مچھلی وہاں بھول گیا ( اور آپ سے میں نے اس کا تذکرہ نہ کیا) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اسی جگہ کی تو ہم کو تلاش تھی چناچہ الٹے پاؤں قدم پر قدم ڈالتے واپس لوٹے۔ پتھر تک پہنچے ہی تھے کہ ایک آدمی کپڑے سے سر لپیٹے ہوئے نظر آیا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے سلام کیا خضر بولے تمہارے ملک میں سلام کا رواج کہاں ہے (یہ تم نے سلام کیسے کیا ؟ ) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا میں موسیٰ ہوں خضر بولے کیا بنی اسرائیل والے موسیٰ میں نے کہا جی ہاں اس کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کیا میں آپ کے ہمراہ اس شرط پر چل سکتا ہوں کہ خداوند تعالیٰ نے جو علم آپ کو عطا فرمایا ہے اس میں سے کچھ حصہ کی مجھے بھی تعلیم دیجئے حضرت خضر (علیہ السلام) بولے آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہ کرسکیں گے (درمیان میں بول اٹھیں گے) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص کا مجھے وہ حصہ عطا فرمایا ہے جو آپ کو نہیں دیا اور آپ کو وہ علم دیا جس سے میں ناواقف ہوں (حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا انشاء اللہ آپ مجھے ثابت قدم پائیں گے میں آپ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کروں گا) آخرکار دونوں دریا کے کنارے کنارے چل دیئے کہ کشتی موجود نہ تھی اتنے میں ادھر سے ایک کشتی کا گزر ہوا انہوں نے کشتی والوں سے سوار ہونے کے متعلق کچھ بات چیت کی حضرت خضر (علیہ السلام) کو لوگوں نے پہچان لیا اس لئے کشتی والوں نے دونوں کو بغیر کرایہ کے سوار کرلیا اس کے بعدخضر (علیہ السلام) نے کشتی کو اچھی طرح دیکھ کر بسولا نکال کر کشتی کا ایک تختہ اکھاڑ دیا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا تم نے یہ کیا کیا ؟ ان لوگوں نے تو بغیر کرایہ کے ہم کو سوار کرلیا اور تم نے ان کی کشتی توڑ کر سب کو ڈبونا چاہا تم نے یہ عجیب بات کی ؟ خضر (علیہ السلام) بولے میں نے تم سے نہیں کہہ دیا تھا کہ میرے ساتھ رہ کر صبر نہ کرسکو گے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا بھول چوک پر میری گرفت نہ کیجئے اور مجھ پر میرے کام میں دشواری نہ ڈالیے اسی دوران ایک چڑیا نے آکر سمندر میں اپنی چونچ ڈالی حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا میرا اور تمہارا علم اللہ کے علم میں اتنی بھی کمی نہیں کرسکتا جتنی کمی اس چڑیا نے اس سمندر کے پانی میں کی ہے۔ پھر یہ دونوں حضرات کشتی سے نکل کر چل دیئے راستہ میں ایک لڑکا بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا خضر (علیہ السلام) نے اس کا سرپکڑ کر اپنے ہاتھ سے گردن اکھاڑ دی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بولے تم نے جو ایک معصوم جان کو بلا قصور مار ڈالا یہ تم نے بہت برا کام کیا خضر (علیہ السلام) بولے کیا میں نے نہیں کہہ دیا تھا کہ تم میرے ساتھ رہ کر ضبط نہ کرسکو گے موسیٰ نے کہا اچھا اب اس کے بعد اگر میں آپ سے کچھ دریافت کروں تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھنا آپ نے میرا عذر بہت مان لیا آخر کار پھر دونوں چل دیئے چلتے چلتے ایک گاؤں میں پہنچے گاؤں والوں سے کھانا مانگا انہوں نے مہمانی کرنے سے انکار کردیا ان کو وہاں ایک دیوار نظر آئی جو گرنے کے قریب تھی، حضرت خضر (علیہ السلام) نے ہاتھ کا اشارہ کر کے اس کو سیدھا کردیا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا ہم ان لوگوں کے پاس آئے اور انہوں نے ہم کو نہ کھانا دیا نہ مہمانی کی لیکن آپ نے ان کی دیوار ٹھیک کردی اگر آپ چاہتے تو اس کی اجرت لے سکتے تھے حضرت خضر (علیہ السلام) بولے بس یہی میرے تمہارے درمیان جدائی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ پہلی مرتبہ کا سوال بھولے سے ہوا تھا نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ موسیٰ پر رحم فرمائے اگر وہ ضبط کرلیتے تو خدا تعالیٰ ہمارے سامنے ان کا واقعہ کچھ اور بھی بیان فرماتا۔ حضرت ابن عباس (رض) سے بحوالہ ابی بن کعب (رض) مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے یہ آیت " لوشئت لاتخذت علیہ اجرا " اس طرح بھی پڑھی ہے " لتخذت حضرت ابن عباس (رض) سے بحوالہ ابی بن کعب (رض) مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ایک دیوار گرنے کے قریب تھی، انہوں نے اسے ہاتھ کے اشارے سے سیدھا کھڑا کردیا۔ حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہا کہ نوف بکالی کا خیال ہے کہ (حضرت خضر (علیہ السلام) والے) موسیٰ بنی اسرائیل کے موسیٰ نہیں ہیں بلکہ وہ کوئی اور موسیٰ ہیں ابن عباس (رض) بولے دشمن اللہ جھوٹ بولتا ہے مجھ سے حضرت ابی بن کعب (رض) نے یہ حدیث بیان کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے سامنے کھڑے تقریر فرما رہے تھے تقریر ختم ہونے کے بعد ایک شخص نے دریافت کیا کہ سب سے بڑا عالم کون ہے ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا میں سب سے بڑا عالم ہوں خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ تم سے زیادہ عالم ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا الہٰی اس سے ملاقات کس طرح ہوسکتی ہے ؟ حکم دیا گیا کہ اپنے ساتھ زنبیل میں ایک (بھنی ہوئی) مچھلی رکھ لو ( اور سفر کو چل دو ) جہاں وہ مچھلی گم ہوجائے وہ شخص وہیں ملے گا۔ چنانچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) چل دیئے اور اپنے ساتھ ایک خادم یوشع بن نون کو بھی لیتے گئے چلتے چلتے جب ایک پتھر کے پاس پہنچے تو دونوں (رک گئے اور) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس پتھر پر سر رکھ کر سوگئے اتنے میں مچھلی زنبیل سے پھڑک کر نکلی اور دریا میں سرنگ بناتی ہوئی اپنی راہ چلی گئی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بیدار ہوئے تو موسیٰ نے اپنے خادم سے فرمایا ہم تو اس سفر سے بہت تھک گئے اب کھانا لے آؤ اور موسیٰ کو اس وقت تک کوئی تھکاوٹ نہ ہوئی تھی جب تک کہ مقام مقررہ سے آگے نہ بڑھے تھے بلکہ اس وقت تھکان معلوم ہونے لگی جب مقام مقررہ سے آگے بڑھ گئے خادم کہنے لگا کیا بتاؤں جب ہم اس پتھر کے پاس پہنچے تو میں مچھلی وہاں بھول گیا ( اور آپ سے میں نے اس کا تذکرہ نہ کیا) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اسی جگہ کی تو ہم کو تلاش تھی چناچہ الٹے پاؤں قدم پر قدم ڈالتے واپس لوٹے گویا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تعجب ہوا اور مچھلی سرنگ بنا کر چلی گئی۔۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔
وہ حدیثیں جو حضرت ابن عباس (رض) نے ان سے نقل کی ہیں۔
حضرت ابن عباس (رض) سے بحوالہ ابی بن کعب (رض) مروی ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے سامنے کھڑے تقریر فرما رہے تھے تقریر ختم ہونے کے بعد ایک شخص نے دریافت کیا کہ سب سے بڑا عالم کون ہے ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا میں سب سے بڑا عالم ہوں اللہ تعالیٰ کو یہ بات ناگوار ہوئی کہ موسیٰ نے علم کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کیا لہٰذا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ تم سے زیادہ عالم ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا الہٰی اس سے ملاقات کس طرح ہوسکتی ہے ؟ حکم دیا گیا کہ اپنے ساتھ زنبیل میں ایک (بھنی ہوئی) مچھلی رکھ لو ( اور سفر کو چل دو ) جہاں وہ مچھلی گم ہوجائے وہ شخص وہیں ملے گا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک مچھلی لے کر زنبیل میں ڈالی اور چل دیئے اور وہ قصہ پیش آیا جو اللہ نے بیان کیا ہے حتٰی کہ سب سے آخر میں چلتے چلتے ایک گاؤں میں پہنچے گاؤں والوں سے کھانا مانگا انہوں نے مہمانی کرنے سے انکار کردیا پھر حضرت خضر (علیہ السلام) نے ان کے سامنے کشتی والے واقعے کی حقیقت بیان کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اسے بادشاہ کی وجہ سے توڑا تھا تاکہ وہ وہاں سے گذرے اس سے کوئی تعرض نہ کرے اور رہا لڑکا تو فطری طور پر وہ کافر تھا اس کے والدین اس پر بہت شفیق تھے اگر وہ زندہ رہتا تو انہیں سرکشی اور نافرمانی میں مبتلا کردیتا اور رہی دیوار تو وہ شہر میں دو یتیم لڑکوں کی تھی۔
وہ حدیثیں جو حضرت ابن عباس (رض) نے ان سے نقل کی ہیں۔
حضرت ابن عباس (رض) سے بحوالہ ابی بن کعب (رض) مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا حضرت خضر (علیہ السلام) نے جس لڑکے کو قتل کیا تھا وہ طبعاً کافر تھا ( اگر وہ زندگی پاتا تو اپنے والدین کو بھی سرکشی اور کفر کے قریب پہنچا دیتا)
وہ حدیثیں جو حضرت ابن عباس (رض) نے ان سے نقل کی ہیں۔
حضرت ابن عباس (رض) سے بحوالہ ابی بن کعب (رض) مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا حضرت خضر (علیہ السلام) نے جس لڑکے کو قتل کیا تھا وہ طبعاً کافر تھا ( اگر وہ زندگی پاتا تو اپنے والدین کو بھی سرکشی اور کفر کے قریب پہنچا دیتا)
وہ حدیثیں جو حضرت ابن عباس (رض) نے ان سے نقل کی ہیں۔
حضرت ابن عباس (رض) سے بحوالہ ابی بن کعب (رض) مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس آیت " ان سألتک عن شیء بعدہا فلاتصاحبنی قدبلغت۔۔۔۔۔۔۔ میں لفظ " بلغت " کو مشدد یعنی " بلّغت " بھی پڑھا ہے۔
وہ حدیثیں جو حضرت ابن عباس (رض) نے ان سے نقل کی ہیں۔
حضرت ابن عباس (رض) سے بحوالہ ابی بن کعب (رض) مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس آیت " ان سألتک عن شیء بعدہا فلاتصاحبنی قدبلغت۔۔۔۔۔۔۔ میں لفظ " بلغت " کو مشدد یعنی " بلّغت " بھی پڑھا ہے۔
وہ حدیثیں جو حضرت ابن عباس (رض) نے ان سے نقل کی ہیں۔
حضرت ابن عباس (رض) سے بحوالہ ابی بن کعب (رض) مروی ہے کہ جب حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے اپنی ایڑی مار کر زمزم کا کنواں جاری کیا تو حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی والدہ کنکریاں اکٹھی کر کے منڈیر بنانے لگیں نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں حضرت حاجرہ (علیہا السلام) جو کہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی والدہ تھیں " پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں اگر وہ اسے یونہی چھوڑ دیتیں تو وہ ایک بہتا ہوا چشمہ ہوتا۔
وہ حدیثیں جو حضرت ابن عباس (رض) نے ان سے نقل کی ہیں۔
حضرت ابن عباس (رض) سے بحوالہ ابی بن کعب (رض) مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ جب کسی کے لئے دعاء فرماتے تو اس کا آغاز اپنی ذات سے کرتے تھے چناچہ ایک دن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہم پر اور موسیٰ (علیہ السلام) پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں اگر وہ صبر کرلیتے تو اللہ تعالیٰ ان کے واقعے کی دیگر تفصیلات بھی بیان فرما دیتا لیکن انہوں نے تو یہ کہہ دیا کہ اگر میں نے اس کے بعد آپ سے کوئی سوال پوچھا تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھئے گا آپ میری طرف سے عذر کو پہنچ گئے ہیں۔ " گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
وہ حدیثیں جو حضرت ابن عباس (رض) نے ان سے نقل کی ہیں۔
حضرت ابن عباس (رض) سے بحوالہ ابی بن کعب (رض) مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد باری تعالیٰ " وذکرہم بایام اللہ " کی تفسیر میں فرمایا کہ " ایام اللہ " سے مراد اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند بھی مروی ہے۔
وہ حدیثیں جو حضرت ابن عباس (رض) نے ان سے نقل کی ہیں۔
حضرت ابن عباس (رض) سے بحوالہ ابی بن کعب (رض) مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ جب کسی نبی کا ذکر فرماتے تو اس کا آغاز اپنی ذات سے کرتے تھے چناچہ ایک دن فرمایا ہم پر اور ہود (علیہ السلام) اور صالح (علیہ السلام) پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں۔
وہ حدیثیں جو حضرت ابن عباس (رض) نے ان سے نقل کی ہیں۔
حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ان کا اور حر بن قیس فزاری کا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اس رفیق کے متعلق اختلاف رائے ہوگیا جس طرف سفر کر کے جانے کی بارگاہ الہٰی میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے درخواست کی تھی۔ حضرت ابن عباس (رض) کی رائے یہ تھی کہ وہ حضرت خضر (علیہ السلام) تھے اسی دوران وہاں سے حضرت ابی بن کعب (رض) کا گذر ہوا حضرت ابن عباس (رض) انہیں پکار کر کہا کہ میرا اور میرے اس ساتھی کا اس بات میں اختلاف ہوگیا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا وہ ساتھی کون تھا جس کی طرف سفر کر کے ملنے کی درخواست انہوں نے کی تھی ؟ کیا آپ نے اس حوالے سے نبی کریم ﷺ کو کچھ ذکر کرتے ہوئے سنا ہے ؟ انہوں نے فرمایا ہاں میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے کسی اجتماع سے خطاب فرما رہے تھے کہ ایک آدمی نے کھڑے ہو کر ان سے پوچھا کہ آپ کے عمل میں اپنے سے بڑا کوئی عالم بھی ہے ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا نہیں اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ وحی آئی کہ ہمارا ایک بندہ خضر تم سے بڑا عالم ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے ملنے کا طریقہ پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے ایک مچھلی کو ان کے لئے نشانی قرار دیتے ہوئے فرمایا جب تم مچھلی کو نہ پاؤ تو واپس آجانا کیونکہ وہیں پر تمہاری ان سے ملاقات ہوجائے گی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سفر پر روانہ ہوئے تو ایک منزل پر پڑاؤ کیا اور اپنے خادم سے کہنے لگے ہمارا ناشتہ لاؤ اس سفر میں تو ہمیں بڑی مشقت کا سامنا کرنا پڑا ہے وہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے مچھلی کو غائب پایا تو دونوں اپنے نشانات قدم پر چلتے ہوئے واپس لوٹے اور پھر وہ قصہ پیش آیا جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے۔