847. حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
کریب (رح) کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت اسامہ بن زید (رض) سے پوچھا یہ بتائیے کہ جس رات آپ نبی کریم ﷺ کے ردیف بنے تھے آپ نے کیا کیا تھا ؟ انہوں نے فرمایا ہم مغرب کے لئے اس گھاٹی میں پہنچے جہاں لوگ اپنی سواریوں کو بٹھایا کرتے تھے، نبی کریم ﷺ نے بھی وہاں اپنی اونٹنی کو بٹھایا پھر پیشاب کیا اور پانی سے استنجاء کیا پھر وضو کا پانی منگوا کر وضو کیا جو بہت زیادہ مبالغہ آمیز نہ تھا، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ﷺ نماز کا وقت ہوگیا ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا نماز تمہارے آگے ہے۔ پھر آپ ﷺ اپنی سواری پر سوار ہو کر مزدلفہ پہنچے وہاں مغرب کی نماز پڑھی پھر لوگوں نے اپنے اپنے مقام پر سواریوں کو بٹھایا اور ابھی سامان کھولنے نہیں پائے تھے کہ نماز عشاء کھڑی ہوگئی، نماز پڑھی اور لوگ آرام کرنے لگے میں نے پوچھا کہ جب صبح ہوئی تو پھر آپ نے کیا کیا ؟ انہوں نے فرمایا کہ اس وقت نبی کریم ﷺ کے ردیف حضرت فضل بن عباس (رض) تھے اور میں قریش کے لوگوں میں پیدل چل رہا تھا۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ بن زید (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا نقد معاملے میں سود نہیں ہوتا، وہ تو ادھار میں ہوتا ہے۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ بن زید (رض) کے ایک آزاد کردہ غلام سے مروی ہے کہ ایک دن وہ حضرت اسامہ (رض) کے ساتھ اپنے مال کی تلاش میں وادی قری گیا ہوا تھا حضرت اسامہ (رض) کا معمول تھا کہ وہ پیر اور جمعرات کے دن روزہ رکھا کرتے تھے ان کے غلام نے ان سے پوچھا کہ آپ اس قدر بوڑھے اور کمزور ہونے کے باوجود بھی پیر اور جمعرات کا روزہ اتنی پابندی سے کیوں رکھتے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ بھی پیر اور جمعرات کا روزہ رکھا کرتے تھے کسی نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پیر اور جمعرات کے دن لوگوں کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ بن زید (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں جہینہ کے ریتلے علاقوں میں سے ایک قبیلے کی طرف بھیجا، ہم نے صبح کے وقت ان پر حملہ کیا اور قتال شروع کردیا ان میں سے ایک آدمی جب بھی ہمارے سامنے آتا تو وہ ہمارے سامنے سب سے زیادہ بہادری کے ساتھ لڑتا تھا اور جب وہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگتے تو وہ پیچھے سے ان کی حفاظت کرتا تھا میں نے ایک انصاری کے ساتھ مل کر اسے گھیر لیا جوں ہی ہم نے اس کے گرد گھیرا تنگ کیا تو اس نے فوراً " لا الہ الا اللہ " کہہ لیا اس پر انصاری نے اپنے ہاتھ کو کھینچ لیا لیکن میں نے اسے قتل کردیا، نبی کریم ﷺ کو یہ بات معلوم ہوئی تو فرمایا اسامہ ! جب اس نے لا الہ الا اللہ کہہ لیا تھا تو تم نے پھر بھی اسے قتل کردیا ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ﷺ اس نے جان بچانے کے لئے یہ کلمہ پڑھا تھا نبی کریم ﷺ نے اپنی بات کو اتنی مرتبہ دہرایا کہ میں یہ خواہش کرنے لگا کہ کاش ! میں نے اسلام ہی اس دن قبول کیا ہوتا۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ بن زید (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا میں نے اپنے پیچھے اپنی امت کے مردوں پر عورتوں سے زیادہ شدید فتنہ کوئی نہیں چھوڑا۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ بن زید (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کوئی مسلمان کسی کافر کا اور کوئی کافر کسی مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتا۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ بن زید (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ مدینہ منورہ کے کسی ٹیلے پر چڑھے تو فرمایا کہ جو میں دیکھ رہا ہوں کیا تم بھی وہ دیکھ رہے ہو ؟ میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے گھروں میں فتنے اس طرح رونما ہو رہے ہیں جیسے بارش کے قطرے برستے ہیں۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ بن زید (رض) سے مروی ہے کہ عرفہ سے واپسی پر نبی کریم ﷺ نے انہیں اپنے پیچھے بٹھا لیا گھاٹی میں پہنچ کر نبی کریم ﷺ نیچے اترے اور پیشاب کیا راوی نے پانی بہانے کی تعبیر اختیار نہیں کی پھر میں نے ان پر پانی ڈالا اور ہلکا سا وضو کیا، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ﷺ نماز کا وقت ہوگیا ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا نماز تمہارے آگے ہے۔ پھر آپ ﷺ اپنی سواری پر سوار ہو کر مزدلفہ پہنچے وہاں مغرب کی نماز پڑھی پھر لوگوں نے اپنے اپنے مقام پر سواریوں کو بٹھایا اور ابھی سامان کھولنے نہیں پائے تھے کہ نماز عشاء کھڑی ہوگئی۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
ابوصالح کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوسعید (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سونے کو سونے کے بدلے برابر وزن کے ساتھ بیچاجائے حضرت ابن عباس (رض) سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ جو بات کہتے ہیں یہ بتائیے کہ اس کا ثبوت آپ کو قرآن میں ملتا ہے یا آپ نے نبی کریم ﷺ سے اس کے متعلق کچھ سنا ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ چیز نہ تو مجھے کتاب اللہ میں ملی ہے اور نہ ہی میں نے براہ راست نبی کریم ﷺ سے سنی ہے البتہ حضرت اسامہ بن زید (رض) نے مجھے بتایا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا سود کا تعلق ادھار سے ہوتا ہے۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
عامر بن سعد (رح) کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت سعد (رض) کے پاس طاعون کے حوالے سے سوال پوچھنے کے لئے آیا تو حضرت اسامہ (رض) نے فرمایا اس کے متعلق میں تمہیں بتاتا ہوں، میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ طاعون ایک عذاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم سے پہلے لوگوں (بنی اسرائیل) پر مسلط کیا تھا، کبھی یہ آجاتا ہے اور کبھی چلا جاتا ہے لہٰذا جس علاقے میں یہ وباء پھیلی ہوئی ہو تو تم اس علاقے میں مت جاؤ اور جب کسی علاقے میں یہ وباء پھیلے اور تم پہلے سے وہاں موجود ہو تو اس سے بھاگ کر وہاں سے نکلو مت۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ بن زید (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ﷺ کل ہم انشاء اللہ کہاں پڑاؤ کریں گے ؟ یہ فتح مکہ کے موقع کی بات ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کیا عقیل نے ہمارے لئے بھی کوئی گھر چھوڑا ہے ؟ پھر نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کوئی مسلمان کسی کافر کا اور کوئی کافر کسی مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتا۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ بن زید (رض) سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی کریم ﷺ اتنے تسلسل کے ساتھ روزے رکھتے کہ لوگ کہتے اب نبی کریم ﷺ ناغہ نہیں کریں گے اور بعض اوقات اتنے تسلسل کے ساتھ ناغہ فرماتے کہ یوں محسوس ہوتا کہ اب روزہ رکھیں گے ہی نہیں، البتہ ہفتہ میں دو دن ایسے تھے کہ اگر نبی کریم ﷺ ان میں روزے سے ہوتے تو بہت اچھا، ورنہ ان کا روزہ رکھ لیتے تھے اور کسی مہینے میں نفلی روزے اتنی کثرت سے نہیں رکھتے تھے جتنی کثرت سے ماہ شعبان میں رکھتے تھے یہ دیکھ کر ایک دن میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ﷺ آپ بعض اوقات اتنے روزے رکھتے ہیں کہ افطار کرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے اور بعض اوقات اتنے ناغے کرتے ہیں کہ روزے رکھتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے، البتہ دو دن ایسے ہیں کہ اگر آپ کے روزوں میں آجائیں تو بہتر ورنہ آپ ان کا روزہ ضرور رکھتے ہیں نبی کریم ﷺ نے پوچھا کون سے دو دن ؟ میں نے عرض کی پیر اور جمعرات، نبی کریم ﷺ نے فرمایا ان دو دنوں میں رب العالمین کے سامنے تمام اعمال پیش کئے جاتے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال پیش ہوں تو میں روزے سے ہوں۔ پھر میں نے عرض کیا کہ جتنی کثرت سے میں آپ کو ماہ شعبان کے نفلی روزے رکھتے ہوئے دیکھتا ہوں، کسی اور مہینے میں نہیں دیکھتا ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا رجب اور رمضان کے درمیان اس مہینے کی اہمیت سے لوگ غافل ہوتے ہیں حالانکہ اس مہینے میں رب العالمین کے سامنے اعمال پیش کئے جاتے ہیں اس لئے میں چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال پیش ہوں تو میں روزے سے ہوں۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ بن زید (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ جب بیت اللہ میں داخل ہوئے تو اس کے سارے کونوں میں دعاء فرمائی لیکن وہاں نماز نہیں پڑھی بلکہ باہر آکر خانہ کعبہ کی جانب رخ کر کے دو رکعتیں پڑھیں اور فرمایا یہ ہے قبلہ۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ بن زید (رض) سے مروی ہے کہ جب مرض الوفات میں نبی کریم ﷺ کی طبیعت بوجھل ہوئی تو میں اور میرے ساتھ کچھ لوگ مدینہ منورہ آگئے میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ خاموش تھے اور کسی سے بات نہیں کر رہے تھے، مجھے دیکھ کر نبی کریم ﷺ نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے اور مجھ پر پھیر دیئے میں سمجھ گیا کہ نبی کریم ﷺ میرے لئے دعاء فرما رہے تھے۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ عرفات سے روانہ ہوئے حضرت اسامہ (رض) نبی کریم ﷺ کے ردیف تھے نبی کریم ﷺ اپنی سواری کو لگام سے پکڑ کر کھینچنے لگے حتٰی کہ اس کے کان کجاوے کے اگلے حصے کے قریب آگئے اور نبی کریم ﷺ فرماتے جا رہے تھے لوگو ! اپنے اوپر سکون اور وقار کو لازم پکڑو، اونٹوں کو تیز دوڑانے میں کوئی نیکی نہیں ہے۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ بن زید (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا نقد معاملے میں سود نہیں ہوتا وہ تو ادھار میں ہوتا ہے۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ بن زید (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ (رئیس المنافقین) عبداللہ بن ابی کی عیادت کرنے کے لئے گیا تو نبی کریم ﷺ نے اس سے فرمایا میں تمہیں یہودیوں سے محبت کرنے سے منع کرتا تھا وہ کہنے لگا کہ اسعد بن زرارہ (رض) نے ان سے نفرت کرلی (بس وہی کافی ہے) یہ کہہ کر کچھ عرصے بعد وہ مرگیا۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے بیت اللہ کے اندر نماز پڑھی ہے۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ شب عرفہ کو میں نبی کریم ﷺ کا ردیف تھا جب سورج غروب ہوگیا تو نبی کریم ﷺ میدان عرفات سے روانہ ہوئے، اچانک نبی کریم ﷺ کو اپنے پیچھے لوگوں کی بھاگ دوڑ کی وجہ سے شور کی آوازیں آئیں تو فرمایا لوگو ! آہستہ تم اپنے اوپر سکون کو لازم کرلو، کیونکہ سواریوں کو تیز دوڑانا کوئی نیکی نہیں ہے پھر جہاں لوگوں کا رش ہوتا تو نبی کریم ﷺ اپنی سواری کی رفتار ہلکی کرلیتے اور جہاں راستہ کھلا ہوا ملتا تو رفتار تیز کردیتے، یہاں تک کہ مزدلفہ آپہنچے اور وہاں مغرب اور عشاء دونوں نمازیں اکٹھی ادا فرمائیں۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ شب عرفہ کو میں نبی کریم ﷺ کا ردیف تھا جب سورج غروب ہوگیا تو نبی کریم ﷺ میدان عرفات سے روانہ ہوئے، اچانک نبی کریم ﷺ کو اپنے پیچھے لوگوں کی بھاگ دوڑ کی وجہ سے شور کی آوازیں آئیں تو فرمایا لوگو ! آہستہ تم اپنے اوپر سکون کو لازم کرلو، کیونکہ سواریوں کو تیز دوڑانا کوئی نیکی نہیں ہے پھر جہاں لوگوں کا رش ہوتا تو نبی کریم ﷺ اپنی سواری کی رفتار ہلکی کرلیتے اور جہاں راستہ کھلا ہوا ملتا تو رفتار تیز کردیتے یہاں تک کہ اس گھاٹی میں پہنچے جہاں لوگ اپنی سورایوں کو بٹھایا کرتے تھے نبی کریم ﷺ نے بھی وہاں اپنی اونٹنی کو بٹھایا پھر پیشاب کیا اور پانی سے استنجاء کیا پھر وضو کا پانی منگوا کر وضو کیا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ﷺ نماز کا وقت ہوگیا ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا نماز تمہارے آگے ہے پھر آپ ﷺ اپنی سواری پر سوار ہو کر مزدلفہ پہنچے وہاں مغرب اور عشاء کی نماز اکٹھے پڑھی۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ بن زید (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا نقد معاملے میں سود نہیں ہوتا وہ تو ادھار میں ہوتا ہے۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
عامربن سعد (رح) کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت سعد (رض) کے پاس طاعون کے حوالے سے سوال پوچھنے کے لئے آیا تو حضرت اسامہ (رض) نے فرمایا اس کے متعلق میں تمہیں بتاتا ہوں، میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ طاعون ایک عذاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم سے پہلے لوگوں (بنی اسرائیل) پر مسلط کیا تھا، کبھی یہ آجاتا ہے اور کبھی چلا جاتا ہے لہٰذا جس علاقے میں یہ وباء پھیلی ہوئی ہو تو تم اس علاقے میں مت جاؤ اور جب کسی علاقے میں یہ وباء پھیلے اور تم پہلے سے وہاں موجود ہو تو اس سے بھاگ کر وہاں سے نکلو مت۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
مروان بن حکم ایک مرتبہ حضرت اسامہ (رض) کے پاس سے گذرا وہ نماز پڑھ رہے تھے، مروان کہانیاں بیان کرنے لگا ایک مرتبہ جب ان دونوں کی ملاقات ہوئی تو حضرت اسامہ (رض) نے فرمایا مروان ! میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اللہ تعالیٰ کسی بےحیائی اور بہیودہ گوئی کرنے والے کو پسند نہیں فرماتا۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء دونوں نمازیں اکٹھی ادا فرمائیں۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ بن زید (رض) سے مروی ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر میں نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا یا رسول اللہ ! ﷺ کل آپ کہاں منزل کریں گے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کیا عقیل نے ہمارے لئے بھی کوئی منزل چھوڑی ہے ؟ پھر فرمایا کل انشاء اللہ ہم خیف بنوکنانہ میں پڑاؤ کریں گے جہاں قریش نے کفر پر معاہدہ کر کے قسمیں کھائی تھیں، اس کی تفصیل یہ ہے کہ بنو کنانہ نے بنو ہاشم کے خلاف قریش سے یہ معاہدہ کرلیا تھا کہ بنوہاشم کے ساتھ نکاح، بیع وشراء اور انہیں ٹھکانہ دینے کا کوئی معاملہ نہیں کریں گے، پھر فرمایا کوئی کافر کسی مسلمان کا اور کوئی مسلمان کسی کافر کا وارث نہیں ہوسکتا۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر پالان بھی تھا اور اس کے نیچے فد کی چادر تھی اور اپنے پیچھے حضرت اسامہ (رض) کو بٹھالیا، اس وقت نبی کریم ﷺ بنوحارث بن خزرج میں حضرت سعد بن عبادہ (رض) کی عیادت کے لئے جا رہے تھے، یہ واقعہ عزوہ بدر سے پہلے کا ہے راستے میں نبی کریم ﷺ کا گذر ایک ایسی مجلس پر ہوا جس میں مسلمان، بتوں کے پجاری مشرک اور یہودی سب ہی تھے اور جن میں عبداللہ بن ابی بھی موجود تھا اور حضرت عبداللہ بن رواحہ (رض) بھی۔ جب اس مجلس میں سواری کا گردوغبار اڑا تو عبداللہ بن ابی نے اپنی ناک پر اپنی چادر رکھی اور کہنے لگا کہ ہم پر گردوعبار نہ اڑاؤ نبی کریم ﷺ نے وہاں رک کر انہیں سلام کیا اور تھوڑی دیر بعد سواری سے نیچے اتر کر انہیں اللہ کی طرف بلانے اور قرآن پڑھ کر سنانے لگے یہ دیکھ کر عبداللہ بن ابی کہنے لگا اے بھائی ! جو بات آپ کہہ رہے ہیں اگر یہ برحق ہے تو اس سے اچھی کوئی بات ہی نہیں لیکن آپ ہماری مجلسوں میں آکر ہمیں تکلیف نہ دیا کریں، آپ اپنے ٹھکانے پر واپس چلے جائیں اور وہاں جو آدمی آئیں اس کے سامنے یہ چیزیں بیان کیا کریں، اس پر عبداللہ بن رواحہ (رض) کہنے لگے کہ آپ ہماری مجالس میں ضرور تشریف لایا کریں کیونکہ ہم اسے پسند کرتے ہیں، اس طرح مسلمانوں اور مشرکین و یہود کے درمیان تلخ کلامی ہونے لگی اور قریب تھا کہ وہ ایک دوسرے سے بھڑجاتے لیکن نبی کریم ﷺ انہیں مسلسل خاموش کراتے رہے۔ جب وہ لوگ پرسکون ہوگئے تو نبی کریم ﷺ اپنی سواری پر سوار ہو کر حضرت سعد بن عبادہ (رض) کے یہاں چلے گئے اور ان سے فرمایا سعد ! تم نے سنا کہ ابوحباب ( عبداللہ بن ابی) نے کیا کہا ہے ؟ اس نے اس طرح کہا ہے ؟ اس نے اس طرح کہا ہے حضرت سعد (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ﷺ اسے معاف کردیا کریں اور اس سے درگذر فرمایا کریں، بخدا ! اللہ نے جو مقام آپ کو دینا تھا وہ دے دی اور نہ یہاں کے لوگ اسے تاج شاہی پہنانے پر متفق ہوچکے تھے لیکن اللہ نے جب اس حق کے ذریعے اسے رد کردیا جو اس نے آپ کو عطاء کیا تو یہ اس پر ناگوار گذرا، اس وجہ سے اس نے ایسی حرکت کی، چناچہ نبی کریم ﷺ نے اسے معاف فرما دیا۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ (رض) نے ایک مرتبہ حضرت سعد بن مالک (رض) کو بتایا کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ میں اپنی بیوی سے عزل کرنا چاہتا ہوں ؟ نبی کریم ﷺ نے اس سے وجہ سے پوچھی تو اس نے بتایا کہ اس کے بچوں کی وجہ سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا اگر صرف اس وجہ سے کرنا چاہتے ہو تو ایسا مت کرو کیونکہ اس چیز سے تو اہل فارس وروم کو بھی نقصان نہیں ہوا۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) جب نبی کریم ﷺ پر وحی لے کر نازل ہوئے تھے تو نبی کریم ﷺ کو وضو کرنا بھی سکھایا تھا اور جب وضو سے فارغ ہوئے تو ایک چلو میں پانی لے کر شرمگاہ کے قریب اسے چھڑک لیا، لہٰذا نبی کریم ﷺ بھی وضو کے بعد اسی طرح کرتے تھے۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو نبی کریم ﷺ کے روئے انور پر غم اور کسی کمرے میں آثار دیکھے میں نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ تین دن سے میرے پاس جبرائیل نہیں آئے دیکھا تو کتے کا ایک پلاّ کسی کمرے میں چھپا ہوا تھا نبی کریم ﷺ نے حکم دیا اور اسے قتل کردیا گیا تھوڑی ہی دیر میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نمودار ہوگئے نبی کریم ﷺ انہیں دیکھ کر خوش ہوئے اور فرمایا آپ میرے پاس کیوں نہیں آ رہے تھے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں کتے یا تصویریں ہوں۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ مرض الوفات میں ایک دن نبی کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا میرے صحابہ کرام (رض) کو میرے پاس بلا کر لاؤ جب وہ آگئے تو نبی کریم ﷺ نے پردہ (چادر کو) ہٹایا اور فرمایا یہودونصاری پر اللہ کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کی کسی صاحبزادی نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں یہ پیغام بھیجا کہ ان کے بچہ پر نزع کا عالم طاری ہے آپ ہمارے یہاں تشریف لائیے، نبی کریم ﷺ نے انہیں سلام کہلوایا اور فرمایا جو لیا وہ بھی اللہ کا ہے اور جو دیا وہ بھی اللہ کا ہے اور ہر چیز کا اس کے یہاں ایک وقت مقرر ہے لہٰذا تمہیں صبر کرنا چاہئے اور اس پر ثواب کی امید رکھنی چاہئے، انہوں نے دوبارہ قاصد کو نبی کریم ﷺ کے پاس قسم دے کر بھیجا، چناچہ نبی کریم ﷺ اٹھ کھڑے ہوئے اور ہم بھی ساتھ ہی کھڑے ہوگئے۔ اس بچے کو نبی کریم ﷺ کی گود میں لا کر رکھا گیا، اس کی جان نکل رہی تھی لوگوں میں اس وقت حضرت سعد بن عبادہ (رض) اور غالباً حضرت ابی (رض) بھی موجود تھے نبی کریم ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے جسے دیکھ کر حضرت سعد (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ﷺ یہ کیا ہے ؟ فرمایا یہ رحمت ہے جو اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے دل میں چاہتا ہے ڈال دیتا ہے اور اللہ اپنے بندوں میں سے رحم دل بندوں پر ہی رحم کرتا ہے۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جعفر (رض) علی (رض) اور زید بن حارثہ (رض) ایک جگہ اکٹھے تھے دوران گفتگو حضرت جعفر (رض) کہنے لگے کہ نبی کریم ﷺ کو میں تم سب سے زیادہ محبوب ہوں، حضرت علی (رض) نے یہی بات اپنے متعلق کہی اور حضرت زید بن حارثہ (رض) نے اپنے متعلق کہی، فیصلہ کرنے کے لئے وہ کہنے لگے کہ آؤ نبی کریم ﷺ کے پاس چل کر ان سے پوچھ لیتے ہیں چناچہ وہ آئے اور نبی کریم ﷺ سے اندر آنے کی اجازت چاہی نبی کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ دیکھو، یہ کون لوگ آئے ہیں ؟ میں نے دیکھ کر عرض کیا کہ جعفر علی اور زید آئے ہیں، میں نے یہ نہیں کہا کہ میرے والد آئے ہیں نبی کریم ﷺ نے فرمایا انہیں اندر آنے کی اجازت دے دو ۔ وہ اندر آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ! ﷺ آپ کو سب سے زیادہ کس سے محبت ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا فاطمہ سے، انہوں نے کہا ہم آپ سے مردوں کے حوالے سے پوچھ رہے ہیں، نبی کریم ﷺ نے فرمایا اے جعفر ! تمہاری صورت میری صورت سے اور تمہاری سیرت میری سیرت سے سب سے زیادہ مشابہہ ہے تم مجھ سے ہو اور میرا شجرہ ہو اور علی ! تم میرے داماد اور میرے بچوں (نواسوں) کے باپ ہو، میں تم سے ہوں اور تم مجھ سے ہو اور اے زید ! تم ہمارے مولیٰ ہو اور مجھ سے ہو اور میری طرف ہو اور تمام لوگوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہو۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ بن زید (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا نقد معاملے میں سود نہیں ہوتا وہ تو ادھار میں ہوتا ہے۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں (ان کی نواسی) امیمہ بنت زینب کو لایا گیا اس کی روح اس طرح نکل رہی تھی جیسے کسی مشکیزے میں ہو، نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو لیا وہ بھی اللہ کا ہے اور جو دیا وہ اللہ کا ہے اور ہر چیز کا اس کے یہاں ایک وقت مقرر ہے نبی کریم ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے جسے دیکھ کر حضرت سعد (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ﷺ کیا آپ بھی رو رہے ہیں ؟ فرمایا یہ رحمت ہے جو اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے دل میں چاہتا ہے ڈال دیتا ہے اور اللہ اپنے بندوں میں سے رحم دل بندوں پر ہی رحم کرتا ہے۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
ابوالشعثاء کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حج کے ارادے سے نکلا، بیت اللہ شریف میں داخل ہوا جب دو ستونوں کے درمیان پہنچا تو جا کر ایک دیوار سے چمٹ گیا اتنی دیر میں حضرت ابن عمر (رض) آگئے اور میرے پہلو میں کھڑے ہو کر چار رکعتیں پڑھیں، جب وہ نماز سے فارغ ہوگئے تو میں نے ان سے پوچھا کہ نبی کریم ﷺ نے بیت اللہ میں کہاں نماز پڑھی تھی انہوں نے ایک جگہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہاں مجھے اسامہ بن زید (رض) نے بتایا تھا کہ نبی کریم ﷺ نے نماز پڑھی ہے میں نے ان سے پوچھا کہ نبی کریم ﷺ نے کتنی رکعتیں پڑھی تھیں تو حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا اسی پر تو آج تک میں اپنے آپ کو ملامت کرتا ہوں کہ میں نے ان کے ساتھ ایک طویل عرصہ گذارا لیکن یہ نہ پوچھ سکا کہ نبی کریم ﷺ نے کتنی رکعتیں پڑھی تھیں۔ اگلے سال میں پھر حج کے ارادے سے نکلا اور اسی جگہ پر جا کر کھڑا ہوگیا جہاں پچھلے سال کھڑا ہوا تھا اتنی دیر میں حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) آگئے اور میرے پہلو میں کھڑے ہوگئے پھر وہ مجھ سے مزاحمت کرتے رہے حتیٰ کہ مجھے وہاں سے باہر کردیا اور پھر اس میں چار رکعتیں پڑھیں۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ (رض) کے ایک آزاد کردہ غلام سے مروی ہے کہ ایک دن وہ حضرت اسامہ (رض) کے ساتھ اپنے مال کی تلاش میں وادی قری گیا ہوا تھا حضرت اسامہ (رض) کا معمول تھا کہ وہ پیر اور جمعرات کے دن روزہ رکھا کرتے تھے ان کے غلام نے ان سے پوچھا کہ آپ اس قدر بوڑھے اور کمزور ہونے کے باوجود بھی پیر اور جمعرات کو روزہ رکھنے میں اتنی پابندی کیوں رکھتے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ بھی پیر اور جمعرات کا روزہ رکھا کرتے تھے کسی نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے فرمایا کہ پیر اور جمعرات کے دن لوگوں کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوا تو دیکھا کہ اس میں داخل ہونے والوں کی اکثریت مساکین کی ہے جبکہ مالداروں کو (حساب کتاب کے لئے فرشتوں نے) روکا ہوا ہے البتہ جو جہنمی ہیں انہیں جہنم میں داخل کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے اور جہنم کے دروازے پر کھڑا ہوا تو دیکھا کہ اس میں داخل ہونے والوں کی اکثریت عورتوں کی ہے۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ شب عرفہ کو میں نبی کریم ﷺ کا ردیف تھا، نبی کریم ﷺ کی رفتار درمیانی تھی جہاں لوگوں کا رش ہوتا تو نبی کریم ﷺ اپنی سواری کی رفتار ہلکی کرلیتے اور جہاں راستہ کھلا ہوا ملتا تو رفتار تیز کردیتے۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
ابو وائل کہتے ہیں کہ کسی نے حضرت اسامہ (رض) سے کہا کہ آپ حضرت عثمان (رض) سے بات کیوں نہیں کرتے ؟ انہوں نے فرمایا تم سمجھتے ہو کہ میں ان سے جو بھی بات کروں گا وہ تمہیں بھی بتاؤں گا میں ان سے جو بات بھی کرتا ہوں وہ میرے اور ان کے درمیان ہوتی ہے میں اس بات کو کھولنے میں خود پہل کرنے کو پسند نہیں کرتا اور بخدا ! کسی آدمی کے متعلق میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ تم سب سے بہترین آدمی ہو خواہ وہ مجھ پر حکمران ہی ہو، جبکہ میں نے اس حوالے سے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے بھی سنا ہے کہ قیامت کے دن ایک آدمی کو لایا جائے گا اور جہنم میں پھینک دیا جائے گا جس سے اس کی انتڑیاں باہر نکل آئیں گی اور وہ انہیں لے کر اس طرح گھومے گا جیسے گدھا چکی کے گرد گھومتا ہے یہ دیکھ کر تمام جہنمی اس کے پاس جمع ہوں گے اور اس سے کہیں گے کہ اے فلاں ! تجھ پر کیا مصیبت آئی ؟ کیا تو ہمیں نیکی کا حکم اور برائی سے رکنے کی تلقین نہیں کرتا تھا ؟ وہ جواب دے گا کہ میں تمہیں تو نیکی کرنے کا حکم دیتا تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا اور تمہیں گناہوں سے روکتا تھا اور خود کرتا تھا۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے مجھے " ابنی " نامی ایک بستی کی طرف بھیجا اور فرمایا صبح کے وقت وہاں پہنچ کر اسے آگ لگا دو ۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے مجھے ایک موٹی قبطی چادر عطا فرمائی جو اس ہدیئے میں سے تھی جو حضرت دحیہ کلبی (رض) نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کیا تھا، میں نے وہ اپنی بیوی کو دے دی نبی کریم ﷺ نے مجھ سے پوچھا کیا بات ہے ؟ تم نے وہ چادر نہیں پہنی ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ﷺ میں نے وہ اپنی بیوی کو دے دی ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا اسے کہنا کہ اس کے نیچے شمیض لگائے کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ اس سے اس کے اعضاء جسم نمایاں ہوں گے۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ بعض اوقات مجھے پکڑ کر اپنی ایک ران پر بٹھا لیتے اور دوسری پر حضرت حسن (رض) کو بھر ہمیں بھینچ کر فرماتے اے اللہ ! میں چونکہ ان دونوں پر رحم کھاتا ہوں لہٰذا تو بھی ان پر رحم فرما۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے مجھے ایک موٹی قبطی چادر عطا فرمائی جو اس ہدیئے میں سے تھی جو حضرت دحیہ کلبی (رض) نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کیا تھا، میں نے وہ اپنی بیوی کو دے دی نبی کریم ﷺ نے مجھ سے پوچھا کیا بات ہے ؟ تم نے وہ چادر نہیں پہنی ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ﷺ میں نے وہ اپنی بیوی کو دے دی ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا اسے کہنا کہ اس کے نیچے شمیض لگائے کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ اس سے اس کے اعضاء جسم نمایاں ہوں گے۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کی کسی صاحبزادی نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں یہ پیغام بھیجا کہ ان کے بچہ پر نزع کا عالم طاری ہے آپ ہمارے یہاں تشریف لائیے، نبی کریم ﷺ نے انہیں سلام کہلوایا اور فرمایا جو لیا وہ بھی اللہ کا ہے اور جو دیا وہ بھی اللہ کا ہے اور ہر چیز کا اس کے یہاں ایک وقت مقرر ہے لہٰذا تمہیں صبر کرنا چاہئے اور اس پر ثواب کی امید رکھنی چاہئے، انہوں نے دوبارہ قاصد کو نبی کریم ﷺ کے پاس قسم دے کر بھیجا، چناچہ نبی کریم ﷺ اٹھ کھڑے ہوئے اور ہم بھی ساتھ ہی کھڑے ہوگئے۔ اس بچے کو نبی کریم ﷺ کی گود میں لا کر رکھا گیا، اس کی جان نکل رہی تھی لوگوں میں اس وقت حضرت سعد بن عبادہ (رض) اور غالباً حضرت ابی (رض) بھی موجود تھے نبی کریم ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے جسے دیکھ کر حضرت سعد (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ﷺ یہ کیا ہے ؟ فرمایا یہ رحمت ہے جو اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے دل میں چاہتا ہے ڈال دیتا ہے اور اللہ اپنے بندوں میں سے رحم دل بندوں پر ہی رحم کرتا ہے۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ بن زید (رض) سے مروی ہے کہ عرفہ سے واپسی پر نبی کریم ﷺ نے انہیں اپنے پیچھے بٹھا لیا گھاٹی میں پہنچ کر نبی کریم ﷺ نیچے اترے اور پیشاب کیا پھر میں نے ان پر پانی ڈالا اور ہلکا سا وضو کیا، پھر آپ ﷺ نے اپنی سواری پر سوار ہو کر مزدلفہ پہنچے اور راستے میں نماز نہیں پڑھی۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ پیر اور جمعرات کا روزہ رکھا کرتے تھے۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
زبرقان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ قریش کا ایک گروہ حضرت زید بن ثابت (رض) کے پاس سے گذرا وہ سب لوگ اکٹھے تھے انہوں نے اپنے دو غلاموں کو حضرت زید بن ثابت (رض) کے پاس یہ پوچھنے کے لئے بھیجا کہ " صلوٰۃ وسطی " سے کیا مراد ہے ؟ انہوں نے فرمایا عصر کی نماز مراد ہے پھر دو آدمی کھڑے ہوئے اور انہوں نے یہی سوال پوچھا تو فرمایا کہ اس سے مراد ظہر کی نماز ہے، پھر وہ دونوں حضرت اسامہ بن زید (رض) کے پاس گئے اور ان سے یہی سوال پوچھا تو انہوں نے بھی ظہر کی نماز بتایا اور فرمایا کہ نبی کریم ﷺ ظہر کی نماز دوپہر کی گرمی میں پڑھا کرتے تھے اور نبی کریم ﷺ کے پیچھے صرف ایک یا دو صفیں ہوتی تھیں اور لوگ قیلولہ یا تجارت میں مصروف ہوتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی " تمام نمازوں کی عموماً اور درمیانی نماز کی خصوصاً پابندی کیا کرو اور اللہ کے سامنے عاجزی سے کھڑے رہا کرو " پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا لوگ اس حرکت سے باز آجائیں ورنہ میں ان کے گھروں کو آگ لگا دوں گا۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ جس وقت نبی کریم ﷺ عرفات سے واپس ہوئے ہیں تو میں ان کا ردیف تھا نبی کریم ﷺ کی سواری نے دوڑتے ہوئے اپنا پاؤں بلند نہیں کیا یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ مزدلفہ پہنچ گئے۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے بھی سنا ہے کہ قیامت کے دن ایک آدمی کو لایا جائے گا اور جہنم میں پھینک دیا جائے گا جس سے اس کی انتڑیاں باہر نکل آئیں گی اور وہ انہیں لے کر اس طرح گھومے گا جیسے گدھا چکی کے گرد گھومتا ہے یہ دیکھ کر تمام جہنمی اس کے پاس جمع ہوں گے اور اس سے کہیں گے کہ اے فلاں ! تجھ پر کیا مصیبت آئی ؟ کیا تو ہمیں نیکی کا حکم اور برائی سے رکنے کی تلقین نہیں کرتا تھا ؟ وہ جواب دے گا کہ میں تمہیں تو نیکی کرنے کا حکم دیتا تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا اور تمہیں گناہوں سے روکتا تھا اور خود کرتا تھا۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ بن زید (رض) نے مجھے بتایا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا نقد معاملے میں سود نہیں ہوتا وہ تو ادھار میں ہوتا ہے۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
یحییٰ بن قیس کہتے کہ میں نے عطاء سے دینار کے بدلے دینار اور درہم کے بدلے درہم کے تبالے کے متعلق پوچھا جبکہ ان کے درمیان کچھ اضافی چیز بھی ہو تو انہوں نے کہا کہ حضرت ابن عباس (رض) اسے حلال قرار دیتے ہیں اس پر حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) نے کہا کہ ابن عباس وہ بات بیان کر رہے ہیں جو انہوں نے نبی کریم ﷺ سے خود نہیں سنی، حضرت ابن عباس (رض) کو معلوم ہوا تو انہوں نے فرمایا یہ چیز میں نے براہ راست نبی کریم ﷺ سے نہیں سنی ہے، البتہ حضرت اسامہ بن زید (رض) نے مجھے بتایا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا سود کا تعلق تو ادھار یا تاخیر سے ہوتا ہے۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے بیت اللہ کے اندر نماز پڑھی ہے۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
عامربن سعد (رح) کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت سعد (رض) کے پاس طاعون کے حوالے سے سوال پوچھنے کے لئے آیا تو حضرت اسامہ (رض) نے فرمایا اس کے متعلق میں تمہیں بتاتا ہوں، میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ طاعون ایک عذاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم سے پہلے لوگوں (بنی اسرائیل) پر مسلط کیا تھا، کبھی یہ آجاتا ہے اور کبھی چلا جاتا ہے لہٰذا جس علاقے میں یہ وباء پھیلی ہوئی ہو تو تم اس علاقے میں مت جاؤ اور جب کسی علاقے میں یہ وباء پھیلے اور تم پہلے سے وہاں موجود ہو تو اس سے بھاگ کر وہاں سے نکلو مت۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں (ان کی نواسی) امیمہ بنت زینب کو لایا گیا اس کی روح اس طرح نکل رہی تھی جیسے کسی مشکیزے میں ہو، نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو لیا وہ بھی اللہ کا ہے اور جو دیا وہ اللہ کا ہے اور ہر چیز کا اس کے یہاں ایک وقت مقرر ہے نبی کریم ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے جسے دیکھ کر حضرت سعد (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ﷺ کیا آپ بھی رو رہے ہیں ؟ فرمایا یہ رحمت ہے جو اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے دل میں چاہتا ہے ڈال دیتا ہے اور اللہ اپنے بندوں میں سے رحم دل بندوں پر ہی رحم کرتا ہے۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
ابو وائل کہتے ہیں کہ کسی نے حضرت اسامہ (رض) سے کہا کہ آپ حضرت عثمان (رض) سے بات کیوں نہیں کرتے ؟ انہوں نے فرمایا تم سمجھتے ہو کہ میں ان سے جو بھی بات کروں گا وہ تمہیں بھی بتاؤں گا میں ان سے جو بات بھی کرتا ہوں وہ میرے اور ان کے درمیان ہوتی ہے میں اس بات کو کھولنے میں خود پہل کرنے کو پسند نہیں کرتا اور بخدا ! کسی آدمی کے متعلق میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ تم سب سے بہترین آدمی ہو خواہ وہ مجھ پر حکمران ہی ہو، جبکہ میں نے اس حوالے سے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے بھی سنا ہے کہ قیامت کے دن ایک آدمی کو لایا جائے گا اور جہنم میں پھینک دیا جائے گا جس سے اس کی انتڑیاں باہر نکل آئیں گی اور وہ انہیں لے کر اس طرح گھومے گا جیسے گدھا چکی کے گرد گھومتا ہے یہ دیکھ کر تمام جہنمی اس کے پاس جمع ہوں گے اور اس سے کہیں گے کہ اے فلاں ! تجھ پر کیا مصیبت آئی ؟ کیا تو ہمیں نیکی کا حکم اور برائی سے رکنے کی تلقین نہیں کرتا تھا ؟ وہ جواب دے گا کہ میں تمہیں تو نیکی کرنے کا حکم دیتا تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا اور تمہیں گناہوں سے روکتا تھا اور خود کرتا تھا۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
ابوالشعثاء کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حج کے ارادے سے نکلا، بیت اللہ شریف میں داخل ہوا جب دو ستونوں کے درمیان پہنچا تو جا کر ایک دیوار سے چمٹ گیا اتنی دیر میں حضرت ابن عمر (رض) آگئے اور میرے پہلو میں کھڑے ہو کر چار رکعتیں پڑھیں، جب وہ نماز سے فارغ ہوگئے تو میں نے ان سے پوچھا کہ نبی کریم ﷺ نے بیت اللہ میں کہاں نماز پڑھی تھی انہوں نے ایک جگہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہاں مجھے اسامہ بن زید (رض) نے بتایا تھا کہ نبی کریم ﷺ نے نماز پڑھی ہے میں نے ان سے پوچھا کہ نبی کریم ﷺ نے کتنی رکعتیں پڑھی تھیں تو حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا اسی پر تو آج تک میں اپنے آپ کو ملامت کرتا ہوں کہ میں نے ان کے ساتھ ایک طویل عرصہ گذارا لیکن یہ نہ پوچھ سکا کہ نبی کریم ﷺ نے کتنی رکعتیں پڑھی تھیں۔ اگلے سال میں پھر حج کے ارادے سے نکلا اور اسی جگہ پر جا کر کھڑا ہوگیا جہاں پچھلے سال کھڑا ہوا تھا اتنی دیر میں حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) آگئے اور میرے پہلو میں کھڑے ہوگئے پھر وہ مجھ سے مزاحمت کرتے رہے حتیٰ کہ مجھے وہاں سے باہر کردیا اور پھر اس میں چار رکعتیں پڑھیں۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ بن زید (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں جہینہ کے ریتلے علاقوں میں سے ایک قبیلے کی طرف بھیجا، ہم نے صبح کے وقت ان پر حملہ کیا اور قتال شروع کردیا ان میں سے ایک آدمی جب بھی ہمارے سامنے آتا تو وہ ہمارے سامنے سب سے زیادہ بہادری کے ساتھ لڑتا تھا اور جب وہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگتے تو وہ پیچھے سے ان کی حفاظت کرتا تھا میں نے ایک انصاری کے ساتھ مل کر اسے گھیر لیا جوں ہی ہم نے اس کے گرد گھیرا تنگ کیا تو اس نے فوراً " لا الہ الا اللہ " کہہ لیا اس پر انصاری نے اپنے ہاتھ کو کھینچ لیا لیکن میں نے اسے قتل کردیا، نبی کریم ﷺ کو یہ بات معلوم ہوئی تو فرمایا اسامہ ! جب اس نے لا الہ الا اللہ کہہ لیا تھا تو تم نے پھر بھی اسے قتل کردیا ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ﷺ اس نے جان بچانے کے لئے یہ کلمہ پڑھا تھا نبی کریم ﷺ نے اپنی بات کو اتنی مرتبہ دہرایا کہ میں یہ خواہش کرنے لگا کہ کاش ! میں نے اسلام ہی اس دن قبول کیا ہوتا۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ عرفات سے روانہ ہوئے حضرت اسامہ (رض) نبی کریم ﷺ کے ردیف تھے نبی کریم ﷺ اپنی سواری کو لگام سے پکڑ کر کھینچنے لگے حتٰی کہ اس کے کان کجاوے کے اگلے حصے کے قریب آگئے اور نبی کریم ﷺ فرماتے جارہے تھے لوگو ! اپنے اوپر سکون اور وقار کو لازم پکڑو، اونٹوں کو تیز دوڑانے میں کوئی نیکی نہیں ہے۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ بن زید (رض) کے ایک چچا زاد بھائی " جن کا نام عیاض تھا " سے مروی ہے " جن کے نکاح میں حضرت اسامہ (رض) کی صاحبزادی بھی تھیں " کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کے سامنے ایک آدمی کا تذکرہ ہوا جو کسی شاداب علاقے سے نکلا، جب وہ مدینہ منورہ کے قریب پہنچا تو اسے وباء نے آگھیرا یہ سن کر لوگ خوفزادہ ہوگئے لیکن نبی کریم ﷺ نے فرمایا مجھے امید ہے کہ یہ وباء مدینہ منورہ کے سوراخوں سے نکل کر ہم تک نہیں پہنچے گی۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا طاعون ایک عذاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم سے پہلے لوگوں (بنی اسرائیل) پر مسلط کیا تھا، کبھی یہ آجاتا ہے اور کبھی چلا جاتا ہے لہٰذا جس علاقے میں یہ وباء پھیلی ہوئی ہو تو تم اس علاقے میں مت جاؤ اور جب کسی علاقے میں یہ وباء پھیلے اور تم پہلے سے وہاں موجود ہو تو اس سے بھاگ کر وہاں سے نکلو مت۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ بن زید (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کوئی مسلمان کسی کافر کا اور کوئی کافر کسی مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتا۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
ابن جریج کہتے ہیں کہ میں عطاء سے پوچھا کیا آپ نے حضرت ابن عباس (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تمہیں طواف کا حکم دیا گیا ہے بیت اللہ میں داخل ہونے کا نہیں ؟ انہوں نے کہا کہ وہ اس میں داخل ہونے سے نہیں روکتے تھے البتہ میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ مجھے حضرت اسامہ بن زید (رض) نے بتایا ہے کہ نبی کریم ﷺ جب بیت اللہ شریف میں داخل ہوئے تو اس کے سارے کونوں میں دعاء فرمائی لیکن وہاں نماز نہیں پڑھی بلکہ باہر آکر خانہ کعبہ کی جانب رخ کر کے دو رکعتیں پڑھیں اور فرمایا یہ ہے قبلہ۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ بن زید (رض) مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ مدینہ منورہ کے کسی ٹیلے پر چڑھے تو فرمایا کہ جو میں دیکھ رہا ہوں کیا تم بھی وہ دیکھ رہے ہو ؟ لوگوں نے کہا نہیں نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے گھروں میں فتنے اس طرح رونما ہو رہے ہیں جیسے بارش کے قطرے برستے ہیں۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
عامربن سعد (رح) کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت سعد (رض) کے پاس طاعون کے حوالے سے سوال پوچھنے کے لئے آیا تو حضرت اسامہ (رض) نے فرمایا اس کے متعلق میں تمہیں بتاتا ہوں، میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ طاعون ایک عذاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم سے پہلے لوگوں (بنی اسرائیل) پر مسلط کیا تھا، کبھی یہ آجاتا ہے اور کبھی چلا جاتا ہے لہٰذا جس علاقے میں یہ وباء پھیلی ہوئی ہو تو تم اس علاقے میں مت جاؤ اور جب کسی علاقے میں یہ وباء پھیلے اور تم پہلے سے وہاں موجود ہو تو اس سے بھاگ کر وہاں سے نکلو مت۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ عرفہ سے نبی کریم ﷺ نے اپنی سواری پر پیچھے بٹھالیا لوگ کہنے لگے کہ ہمارا یہ ساتھی ہمیں بتادے گا کہ نبی کریم ﷺ نے کیا کیا ؟ حضرت اسامہ (رض) نے بتایا کہ جب نبی کریم ﷺ وقوف عرفات کے بعد روانہ ہوئے تو اپنی سواری کا سر اتنا کھینچا کہ وہ کجاوے کے درمیانے حصے سے لگ گیا یا لگنے کے قریب ہوگیا اور نبی کریم ﷺ اشارے سے لوگوں کو پرسکون رہنے کی تلقین کرنے لگے، یہاں تک کہ مزدلفہ آپہنچے اور حضرت فضل بن عباس (رض) کو اپنا ردیف بنا لیا لوگ کہنے لگے کہ ہمارا یہ ساتھی ہمیں بتادے گا کہ نبی کریم ﷺ نے کیا کیا ؟ چناچہ انہوں نے بتایا کہ نبی کریم ﷺ کل گذشتہ کی طرح آہستہ آہستہ چلتے رہے البتہ جب وادی محسر پر پہنچے تو رفتار تیز کردی یہاں تک کہ وہاں سے گذر گئے۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ بن زید (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کوئی مسلمان کسی کافر کا اور کوئی کافر کسی مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتا۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ بن زید (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ عرفات سے روانہ ہوئے اور اس گھاٹی میں پہنچے جہاں لوگ اپنی سواریوں کو بٹھایا کرتے تھے، نبی کریم نے بھی وہاں اپنی اونٹنی کو بٹھایا پھر پیشاب کیا اور پانی سے استنجاء کیا پھر وضو کا پانی منگوا کر وضو کیا جو بہت زیادہ مبالغہ آمیز نہ تھا، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ﷺ نماز کا وقت ہوگیا ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا نماز تمہارے آگے ہے۔ پھر آپ ﷺ اپنی سواری پر سوار ہو کر مزدلفہ پہنچے وہاں مغرب کی نماز پڑھی پھر لوگوں نے اپنے اپنے مقام پر سواریوں کو بٹھایا اور ابھی سامان کھولنے نہیں پائے تھے کہ نماز عشاء کھڑی ہوگئی، نماز پڑھی اور ان دونوں کے درمیان کوئی نماز نہیں پڑھی۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ بن زید (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا سود کا تعلق ادھار سے ہوتا ہے۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ بن زید (رض) کے ایک آزاد کردہ غلام سے مروی ہے کہ ایک دن وہ حضرت اسامہ (رض) کے ساتھ اپنے مال کی تلاش میں وادی قری گیا ہوا تھا حضرت اسامہ (رض) کا معمول تھا کہ وہ پیر اور جمعرات کے دن روزہ رکھا کرتے تھے ان کے غلام نے ان سے پوچھا کہ آپ اس قدر بوڑھے اور کمزور ہونے کے باوجود بھی پیر اور جمعرات کا روزہ اتنی پابندی سے کیوں رکھتے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ بھی پیر اور جمعرات کا روزہ رکھا کرتے تھے کسی نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پیر اور جمعرات کے دن لوگوں کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
ذکوان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابوسعید خدری (رض) نے مجھے حضرت ابن عباس (رض) کے پاس یہ پوچھنے کے لئے بھیجا کہ بیع صرف کے متعلق آپ جو بات کہتے ہیں، یہ بتائیے کہ اس کا ثبوت آپ کو قرآن میں ملتا ہے یا آپ نے نبی کریم ﷺ سے اس کے متعلق کچھ سنا ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ چیز نہ تو مجھے کتاب اللہ میں ملی ہے اور نہ ہی میں نے براہ راست نبی کریم ﷺ سے سنی ہے البتہ حضرت اسامہ بن زید (رض) نے مجھے بتایا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا سود کا تعلق ادھار سے ہوتا ہے۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
عامربن سعد (رح) کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت سعد (رض) کے پاس طاعون کے حوالے سے سوال پوچھنے کے لئے آیا تو حضرت اسامہ (رض) نے فرمایا اس کے متعلق میں تمہیں بتاتا ہوں، میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ طاعون ایک عذاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم سے پہلے لوگوں (بنی اسرائیل) پر مسلط کیا تھا، کبھی یہ آجاتا ہے اور کبھی چلا جاتا ہے لہٰذا جس علاقے میں یہ وباء پھیلی ہوئی ہو تو تم اس علاقے میں مت جاؤ اور جب کسی علاقے میں یہ وباء پھیلے اور تم پہلے سے وہاں موجود ہو تو اس سے بھاگ کر وہاں سے نکلو مت۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
ابو وائل کہتے ہیں کہ کسی نے حضرت اسامہ (رض) سے کہا کہ آپ حضرت عثمان (رض) سے بات کیوں نہیں کرتے ؟ انہوں نے فرمایا تم سمجھتے ہو کہ میں ان سے جو بھی بات کروں گا وہ تمہیں بھی بتاؤں گا میں ان سے جو بات بھی کرتا ہوں وہ میرے اور ان کے درمیان ہوتی ہے میں اس بات کو کھولنے میں خود پہل کرنے کو پسند نہیں کرتا اور بخدا ! کسی آدمی کے متعلق میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ تم سب سے بہترین آدمی ہو خواہ وہ مجھ پر حکمران ہی ہو، جبکہ میں نے اس حوالے سے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے بھی سنا ہے کہ قیامت کے دن ایک آدمی کو لایا جائے گا اور جہنم میں پھینک دیا جائے گا جس سے اس کی انتڑیاں باہر نکل آئیں گی اور وہ انہیں لے کر اس طرح گھومے گا جیسے گدھا چکی کے گرد گھومتا ہے یہ دیکھ کر تمام جہنمی اس کے پاس جمع ہوں گے اور اس سے کہیں گے کہ اے فلاں ! تجھ پر کیا مصیبت آئی ؟ کیا تو ہمیں نیکی کا حکم اور برائی سے رکنے کی تلقین نہیں کرتا تھا ؟ وہ جواب دے گا کہ میں تمہیں تو نیکی کرنے کا حکم دیتا تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا اور تمہیں گناہوں سے روکتا تھا اور خود کرتا تھا۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ بن زید (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کوئی مسلمان کسی کافر کا اور کوئی کافر کسی مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتا۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ میدان عرفات میں نبی کریم ﷺ کا ردیف میں تھا نبی کریم ﷺ نے دعاء کے لئے ہاتھ اٹھائے تو اونٹنی ایک طرف کو جھکنے لگی اور اس کی لگام گرگئی، چناچہ نبی کریم ﷺ نے ایک ہاتھ سے رسی کو پکڑ لیا اور دوسرے ہاتھ کو اٹھائے رکھا۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ میں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ جب بیت اللہ شریف سے باہر آئے تو دروازے کی طرف رخ کر کے دو مرتبہ فرمایا یہ ہے قبلہ۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ بیت اللہ میں داخل ہوا (نبی کریم ﷺ نے حضرت بلال (رض) کو حکم دیا اور انہوں نے دروازہ بند کرلیا، اس وقت بیت اللہ چھ ستونوں پر مشتمل تھا نبی کریم ﷺ چلتے ہوئے ان دو ستونوں کے قریب پہنچے جو باب کعبہ کے قریب تھے) اور بیٹھ کر اللہ کی حمدوثناء کی، تکبیروتہلیل کہی (دعاء و استغفار کیا) پھر کھڑے ہو کر بیت اللہ کے سامنے والے حصے کے پاس گئے اور اس پر اپنا سینہ مبارک، رخسار اور مبارک ہاتھ رکھ دیئے، پھر تکبیروتہلیل اور دعاء کرتے رہے پھر ہر کونے پر اسی طرح کیا اور باہر نکل کر باب کعبہ پر پہنچ کر قبلہ کی طرف رخ کر کے دو تین مرتبہ فرمایا یہ ہے قبلہ۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے انہیں کسی جانب لشکر دے کر روانہ فرمایا تھا لیکن اسی دوران نبی کریم ﷺ کا وصال ہوگیا حضرت صدیق اکبر (رض) نے ان سے پوچھا کہ نبی کریم ﷺ نے تمہیں کیا حکم دیا تھا ؟ انہوں نے عرض کیا کہ نبی کریم ﷺ نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں صبح کے وقت " ابنی " پر حملہ کروں اور اسے آگ لگا دوں۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوا تو دیکھا کہ اس میں داخل ہونے والوں کی اکثریت مساکین کی ہے جبکہ مالداروں کو (حساب کتاب کے لئے فرشتوں نے) روکا ہوا ہے البتہ جو جہنمی ہیں انہیں جہنم میں داخل کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور جہنم کے دروازے پر کھڑا ہوا تو دیکھا کہ اس میں داخل ہونے والوں کی اکثریت عورتوں کی ہے۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا سینگی لگانے والے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس علاقے میں طاعون کی وباء پھیلی ہوئی ہو تو تم اس علاقے میں مت جاؤ اور جب کسی علاقے میں یہ وباء پھیلے اور تم پہلے سے وہاں موجود ہو تو اس سے بھاگ کر وہاں سے نکلو مت۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ بعض اوقات مجھے پکڑ کر اپنی ران پر بٹھا لیتے اور دوسری پر حضرت حسن (رض) کو پھر ہمیں بھینچ کر فرماتے اے اللہ ! میں چونکہ ان دونوں سے محبت کرتا ہوں لہٰذا تو بھی ان سے محبت فرما۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ بن زید (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا میں نے اپنے پیچھے اپنی امت کے مردوں پر عورتوں سے زیادہ سخت فتنہ کوئی نہیں چھوڑا۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ بیت اللہ میں داخل ہوا (نبی کریم ﷺ نے حضرت بلال (رض) کو حکم دیا اور انہوں نے دروازہ بند کرلیا، اس وقت بیت اللہ چھ ستونوں پر مشتمل تھا نبی کریم ﷺ چلتے ہوئے ان دو ستونوں کے قریب پہنچے جو باب کعبہ کے قریب تھے) اور بیٹھ کر اللہ کی حمدوثناء کی، تکبیروتہلیل کہی (دعاء و استغفار کیا) پھر کھڑے ہو کر بیت اللہ کے سامنے والے حصے کے پاس گئے اور اس پر اپنا سینہ مبارک، رخسار اور مبارک ہاتھ رکھ دیئے، پھر تکبیروتہلیل اور دعاء کرتے رہے پھر ہر کونے پر اسی طرح کیا اور باہر نکل کر باب کعبہ پر پہنچ کر قبلہ کی طرف رخ کر کے دو تین مرتبہ فرمایا یہ ہے قبلہ۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ بن زید (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ عرفات سے روانہ ہوئے اور اس گھاٹی میں پہنچے جہاں لوگ اپنی سواریوں کو بٹھایا کرتے تھے، نبی کریم نے بھی وہاں اپنی اونٹنی کو بٹھایا پھر پیشاب کیا اور پانی سے استنجاء کیا پھر وضو کا پانی منگوا کر وضو کیا جو بہت زیادہ مبالغہ آمیز نہ تھا، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! نماز کا وقت ہوگیا ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا نماز تمہارے آگے ہے۔ پھر آپ ﷺ اپنی سواری پر سوار ہو کر مزدلفہ پہنچے وہاں مغرب کی نماز پڑھی پھر لوگوں نے اپنے اپنے مقام پر سواریوں کو بٹھایا اور ابھی سامان کھولنے نہیں پائے تھے کہ نماز عشاء کھڑی ہوگئی، نماز پڑھی اور ان دونوں کے درمیان کوئی نماز نہیں پڑھی۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ شب عرفہ کو میں نبی کریم ﷺ کا ردیف تھا، نبی کریم ﷺ کی رفتار درمیانی تھی جہاں لوگوں کا رش ہوتا تو نبی کریم ﷺ اپنی سواری کی رفتار ہلکی کرلیتے اور جہاں راستہ کھلا ہوا ملتا تو رفتار تیز کردیتے۔
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات
حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ عرفات سے روانہ ہوئے تو خود بھی پرسکون تھے اور لوگوں کو بھی پرسکون رہنے کا حکم دیا۔