971. حضرت سلمان فارسی (رض) کی مرویات
حضرت سلمان فارسی (رض) کی مرویات
حضرت سلمان فارسی (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کچھ مشرکین نے نبی کریم ﷺ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ تمہارے پیغمبر تمہیں قضائے حاجت تک کا طریقہ سکھاتے ہیں، حضرت سلمان فارسی (رض) نے فرمایا کہ ہاں ! وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم قبلہ کی جانب اس وقت رخ نہ کیا کریں دائیں ہاتھ سے استنجاء نہ کیا کریں اور تین پتھروں سے کم پر اکتفاء نہ کریں جن میں لید ہو اور نہ ہڈی۔
حضرت سلمان فارسی (رض) کی مرویات
حضرت سلمان فارسی (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنے لئے ہدیہ قبول فرما لیتے تھے لیکن صدقہ قبول نہیں فرماتے تھے۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حضرت سلمان فارسی (رض) کی مرویات
حضرت سلمان فارسی (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کچھ مشرکین نے نبی کریم ﷺ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ تمہارے پیغمبر تمہیں قضائے حاجت تک کا طریقہ سکھاتے ہیں، حضرت سلمان فارسی (رض) نے فرمایا کہ ہاں ! وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم قبلہ کی جانب اس وقت رخ نہ کیا کریں دائیں ہاتھ سے استنجاء نہ کیا کریں اور تین پتھروں سے کم پر اکتفاء نہ کریں جن میں لید ہو اور نہ ہڈی۔
حضرت سلمان فارسی (رض) کی مرویات
عمرو بن قرہ (رح) کہتے ہیں کہ حضرت حذیفہ (رض) مدائن شہر میں رہتے تھے اور کچھ باتیں ذکر کرتے تھے جو نبی کریم ﷺ نے فرمائی تھیں ایک دن حضرت حذیفہ (رض) حضرت سلمان فارسی (رض) کے پاس آئے حضرت سلمان فارسی (رض) نے ان سے فرمایا کہ حذیفہ ! نبی کریم ﷺ بعض اوقات غصے میں کچھ باتیں کہتے تھے اور کچھ باتیں خوشی کی حالت میں کہتے تھے میں جانتا ہوں کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ میں نے اپنے جس امتی کو غصے کی حالت میں سخت سست کہا ہو یا اسے لعنت ملامت کی ہو تو میں بھی اولاد آدم میں سے ہوں اور جس طرح عام لوگوں کو غصہ آتا ہے مجھے بھی آتا ہے اور اللہ نے مجھے رحمتہ للعالمین بنایا ہے اے اللہ ! میرے ان کلمات کو قیامت کے دن اس شخص کے لئے باعث رحمت بنا دیجئے گا۔
حضرت سلمان فارسی (رض) کی مرویات
ابوعثمان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت سلمان فارسی (رض) کے ساتھ ایک درخت کے نیچے تھا انہوں نے اس کی ایک خشک ٹہنی کو پکڑ کر اسے ہلایا تو اس کے پتے گرنے لگے پھر انہوں نے فرمایا کہ اے ابو عثمان ! تم مجھ سے یہ کیوں نہیں پوچھتے کہ میں نے ایسا کیوں کیا ؟ میں نے کہا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک درخت کے نیچے تھا تو نبی کریم ﷺ نے میرے ساتھ بھی اسی طرح کیا تھا اور یہی سوال و جواب ہوئے تھے جس کے بعد نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ جب کوئی مسلمان خوب اچھی طرح وضو کرے اور پانچوں نمازیں پڑھے تو اس کے گناہ اسی طرح جھڑ جاتے ہیں جیسے یہ پتے جھڑ رہے ہیں پھر نبی کریم ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ " واقم الصلاۃ طرفی النھار وزلفا من اللیل ان الحسنات یذہبن السئیات ذلک ذکرٰی للذاکرین "
حضرت سلمان فارسی (رض) کی مرویات
حضرت سلمان فارسی (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کچھ مشرکین نے نبی کریم ﷺ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ تمہارے پیغمبر تمہیں قضائے حاجت تک کا طریقہ سکھاتے ہیں، حضرت سلمان فارسی (رض) نے فرمایا کہ ہاں ! وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم قبلہ کی جانب اس وقت رخ نہ کیا کریں دائیں ہاتھ سے استنجاء نہ کیا کریں اور تین پتھروں سے کم پر اکتفاء نہ کریں جن میں لید ہو اور نہ ہڈی۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حضرت سلمان فارسی (رض) کی مرویات
حضرت سلمان فارسی (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے حسب استطاعت پاکیزگی حاصل کرے، تیل لگائے اپنے گھر کی خوشبو لگائے پھر مسجد کی طرف روانہ ہو تو کسی دو آدمیوں کے درمیان تفرق پیدا نہ کرے حسب استطاعت نماز پڑھے جب امام گفتگو کر رہا ہو تو خاموشی اختیار کرے تو اگلے جمعہ تک اس کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔
حضرت سلمان فارسی (رض) کی مرویات
حضرت سلمان فارسی (رض) کا جب وقت آخر قریب آیا تو وہ رونے لگے اور فرمانے لگے کہ نبی کریم ﷺ نے ہم سے ایک عہد لیا تھا اور اسی عہد پر ہمیں چھوڑا تھا کہ دنیا میں زیادہ سے زیادہ سامان ہمارے پاس ایک مسافر کے توشے جتنا ہونا چاہئے راوی کہتے ہیں کہ حضرت سلمان فارسی (رض) کے وصال کے بعد جب ہم نے ان کے ترکے کا جائزہ لیا تو اس تمام ترکے کی قیمت صرف بیس یا تیس سے کچھ اوپر درہم تھے۔
حضرت سلمان فارسی (رض) کی مرویات
حضرت سلمان فارسی (رض) سے مروی ہے کہ ہم فارس کے سرداروں کی اولاد میں سے تھے۔۔۔۔۔ پھر انہوں نے پوری حدیث ذکر کرتے ہوئے (جو عنقریب ٢٤١٣٨ پر آیا چاہتی ہے) فرمایا کہ میں زمین کے نشیب و فراز طے کرتے ہوا چلتا رہا یہاں تک کہ دیہاتیوں کی ایک قوم پر میرا گذر ہوا تو انہوں نے مجھے غلام بنا کر بیچ ڈالا اور مجھے ایک عورت نے خرید لیا میں نے ان لوگوں کو نبی کریم ﷺ کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا لیکن اس وقت تک زندگی تلخ ہوچکی تھی میں نے اپنی مالکہ سے کہا کہ مجھے ایک دن کی چھٹی دے دے اس نے مجھے چھٹی دے دی۔ میں وہاں سے روانہ ہوا کچھ لکڑیاں کاٹیں اور انہیں بیچ کر کھانا تیار کیا اور اسے لے کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور نبی کریم ﷺ کے سامنے پیش کیا نبی کریم ﷺ نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ یہ صدقہ ہے نبی کریم ﷺ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ تم لوگ ہی کھالو نبی کریم ﷺ نے اسے تناول نہ فرمایا میں نے سوچا کہ یہ ایک علامت ہے (جو پوری ہوگئی) پھر کچھ عرصہ گذرنے کے بعد ایک مرتبہ دوبارہ میں نے اپنی مالکہ سے ایک دن کی چھٹی مانگی جو اس نے مجھے دے دی میں نے حسب سابق لکڑیاں کاٹ کر بیچ کر کھانا تیار کیا اور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا نبی کریم ﷺ اپنے ساتھیوں کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے میں نے وہ کھانا نبی کریم ﷺ کے سامنے لے جا کر رکھ دیا نبی کریم ﷺ نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا یہ ہدیہ ہے نبی کریم ﷺ نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور صحابہ (رض) سے بھی فرمایا کہ کھاؤ اللہ کے نام سے۔ پھر میں نبی کریم ﷺ کے پیچھے جا کر کھڑا ہوگیا نبی کریم ﷺ نے اپنی چادر ہٹا دی تو وہاں مہر نبوت نظر آگئی میں نے اسے دیکھتے ہی کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں نبی کریم ﷺ نے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے ؟ میں نے نبی کریم ﷺ کو اس آدمی کے متعلق بتایا اور پوچھا یا رسول اللہ ! ﷺ کیا وہ آدمی جنت میں جائے گا کیونکہ اس نے ہی مجھے بتایا تھا کہ آپ اللہ کے نبی ہیں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جنت میں صرف وہی آدمی جائے گا جو مسلمان ہوگا میں نے پھر اپنا سوال دہرایا نبی کریم ﷺ نے پھر وہی جواب دیا۔
حضرت سلمان فارسی (رض) کی مرویات
حضرت سلمان فارسی (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کچھ مشرکین نے نبی کریم ﷺ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ تمہارے پیغمبر تمہیں قضائے حاجت تک کا طریقہ سکھاتے ہیں، حضرت سلمان فارسی (رض) نے فرمایا کہ ہاں ! وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم قبلہ کی جانب اس وقت رخ نہ کیا کریں دائیں ہاتھ سے استنجاء نہ کیا کریں اور تین پتھروں سے کم پر اکتفاء نہ کریں جن میں لید ہو اور نہ ہڈی۔
حضرت سلمان فارسی (رض) کی مرویات
حضرت سلمان فارسی (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو اس بات سے حیاء آتی ہے کہ اس کا کوئی بندہ اس کے سامنے ہاتھ پھیلا کر کوئی سوال کرے اور وہ انہیں خالی لوٹا دے۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حضرت سلمان فارسی (رض) کی مرویات
ابو عثمان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت سلمان فارسی (رض) کے ساتھ ایک درخت کے نیچے تھا انہوں نے اس کی ایک خشک ٹہنی کو پکڑ کر اسے ہلایا تو اس کے پتے گرنے لگے پھر انہوں نے فرمایا کہ اے ابو عثمان ! تم مجھ سے یہ کیوں نہیں پوچھتے کہ میں نے ایسا کیوں کیا ؟ میں نے کہا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک درخت کے نیچے تھا تو نبی کریم ﷺ نے میرے ساتھ بھی اسی طرح کیا تھا اور یہی سوال جواب ہوئے تھے جس کے بعد نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ جب کوئی مسلمان خوب اچھی طرح وضو کرے اور پانچوں نمازیں پڑھے تو اس کے گناہ اسی طرح جھڑ جاتے ہیں جیسے یہ پتے جھڑ رہے ہیں۔
حضرت سلمان فارسی (رض) کی مرویات
ابومسلم (رح) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت سلمان فارسی (رض) کے ساتھ تھا انہوں نے دیکھا کہ ایک آدمی کو حدث لاحق ہوا اور وہ اپنے موزے اتارنا چاہتا ہے حضرت سلمان فارسی (رض) نے اسے حکم دیا کہ موزوں اور عمامہ پر مسح کرے اور اپنی پیشانی کے بقدر مسح کرے اور فرمایا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو اپنے موزوں اور اوڑھنی (عمامے) پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
حضرت سلمان فارسی (رض) کی مرویات
حضرت سلمان فارسی (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے حسب استطاعت پاکیزگی حاصل کرے، تیل لگائے اپنے گھر کی خوشبو لگائے پھر مسجد کی طرف روانہ ہو تو کسی دو آدمیوں کے درمیان تفرق پیدا نہ کرے حسب استطاعت نماز پڑھے جب امام گفتگو کر رہا ہو تو خاموشی اختیار کرے تو اگلے جمعہ تک اس کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، جب تک کہ لڑائی سے بچتا رہے۔
حضرت سلمان فارسی (رض) کی مرویات
حضرت سلمان فارسی (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کچھ مشرکین نے نبی کریم ﷺ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ تمہارے پیغمبر تمہیں قضائے حاجت تک کا طریقہ سکھاتے ہیں، حضرت سلمان فارسی (رض) نے فرمایا کہ ہاں ! وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم قبلہ کی جانب اس وقت رخ نہ کیا کریں دائیں ہاتھ سے استنجاء نہ کیا کریں اور تین پتھروں سے کم پر اکتفاء نہ کریں جن میں لید ہو اور نہ ہڈی۔
حضرت سلمان فارسی (رض) کی مرویات
حضرت سلمان فارسی (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے سو رحمتیں پیدا کی ہیں جن میں سے ایک رحمت وہ ہے کہ جس کے ذریعے مخلوق ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے اور وحشی جانور تک اپنی اولاد پر ترس کھاتے ہیں اور ننانوے رحمتیں قیامت کے دن کے لئے مؤخر کردی ہیں۔
حضرت سلمان فارسی (رض) کی مرویات
عمرو بن ابی قرہ کندی (رح) کہتے ہیں کہ میرے والد نے حضرت سلمان فارسی (رض) کے سامنے اپنی بہن سے نکاح کی پیشکش کی لیکن انہوں نے انکار کردیا اور ان کی آزاد کردہ باندی " جس کا نام بقیرہ تھا " سے نکاح کرلیا پھر ابو قرہ کو معلوم ہوا کہ حضرت سلمان فارسی (رض) اور حضرت حذیفہ (رض) کے درمیان کچھ رنجش ہے تو وہ انہیں تلاش کرتے ہوئے آئے معلوم ہوا کہ وہ اپنی سبزیوں کے پاس ہیں ابوقرہ ادھر روانہ ہوگئے راستے میں حضرت سلمان فارسی (رض) سے ملاقات ہوگئی جن کے ساتھ ایک ٹوکری بھی سبزی سے بھری ہوئی تھی انہوں نے اپنی لاٹھی اس ٹوکری کی رسی میں داخل کر کے اسے اپنے کندھے پر رکھا ہوا تھا میں نے ان سے عرض کیا کہ اے ابو عبداللہ ! کیا آپ کے اور حضرت حذیفہ (رض) کے درمیان کوئی رنجش ہے ؟ حضرت سلمان فارسی (رض) نے یہ آیت پڑھی " انسان بڑا جلد باز ہے " اور وہ دونوں چلتے رہے حتیٰ کہ حضرت سلمان فارسی (رض) کے گھر پہنچ گئے۔ حضرت سلمان فارسی (رض) گھر کے اندرچلے گئے اور سلام کیا پھر ابوقرہ کو اندر آنے کی اجازت دی وہاں دروازے کے پاس ایک چادر پڑھی ہوئی تھی سرہانے کچھ اینٹیں رکھی ہوئی تھیں اور دو بالیاں پڑی ہوئی تھیں حضرت سلمان فارسی (رض) نے فرمایا کہ اپنی باندی کے بستر پر بیٹھ جاؤ جس نے اپنے آپ کو تیار کرلیا تھا انہوں نے بات کا آغاز اور فرمایا کہ حذیفہ بہت ساری ایسی چیزیں بیان کرتے ہیں جو نبی کریم ﷺ غصے کی حالت میں کچھ لوگوں سے کہہ دیتے تھے لوگ مجھ سے اس کے متعلق پوچھتے تو میں ان سے کہہ دیتا کہ حذیفہ ہی زیادہ جانتے ہیں کہ وہ کیا کہتے ہیں میں لوگوں کے درمیان نفرت بڑھانے کو اچھا نہیں سمجھتا لوگ حذیفہ کے پاس جاتے اور ان سے کہتے کہ سلمان آپ کی تصدیق کرتے ہیں اور نہ ہی تکذیب، تو ایک مرتبہ حضرت حذیفہ (رض) میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اے ام سلمان کے بیٹے سلمان ! میں نے بھی کہہ دیا ہے کہ اے ام حذیفہ کے بیٹھے حذیفہ ! تم باز آجاؤ ورنہ میں حضرت عمر (رض) کو خط لکھوں گا جب میں نے انہیں حضرت عمر (رض) کا خوف دلایا تو انہوں نے مجھے چھوڑ دیا حالانکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ میں بھی اولاد آدم میں سے ہوں سو جس بندہ مؤمن پر میں نے لعنت ملامت کی ہو یا اس کے حق میں سخت سست کہا ہو تو اے اللہ ! اسے اس کے حق میں باعث رحمت بنا دے۔
حضرت سلمان فارسی (رض) کی مرویات
حضرت سلمان فارسی (رض) سے مروی ہے کہ اپنے دور غلامی میں ایک مرتبہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں کھانا لے کر حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یہ صدقہ ہے نبی کریم ﷺ نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا اور انہوں نے اسے کھالیا نبی کریم ﷺ نے خود نہ کھایا دوبارہ میں کھانا لے کر حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یہ ہدیہ ہے جو میں آپ کے احترام میں آپ کے لئے لایا ہوں کیونکہ میں نے آپ کو دیکھا ہے کہ آپ صدقہ نہیں کھاتے چناچہ نبی کریم ﷺ نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا اور انہوں نے بھی اسے کھایا اور ان کے ساتھ نبی کریم ﷺ نے بھی اسے کھایا۔ حضرت سلمان فارسی (رض) سے مروی ہے کہ اس سلسلے میں میں اپنی مالکن سے اجازت لیتا تھا وہ دلی خوشی کے ساتھ مجھے اجازت دے دیتی میں لکڑیاں کاٹتا انہیں بیچتا اور وہ کھانا خریدا کرتا تھا۔
حضرت سلمان فارسی (رض) کی مرویات
ابومسلم (رح) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت سلمان فارسی (رض) کے ساتھ انہوں نے دیکھا کہ ایک آدمی کو حدث لاحق ہوا اور وہ اپنے موزے اتارنا چاہتا ہے حضرت سلمان فارسی (رض) نے اسے حکم دیا کہ موزوں اور عمامہ پر مسح کرے اور اپنی پیشانی کے بقدر مسح کرے اور فرمایا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو اپنے موزوں اور اوڑھنی (عمامے) پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
حضرت سلمان فارسی (رض) کی مرویات
حضرت سلمان فارسی (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے حسب استطاعت پاکیزگی حاصل کرے، تیل لگائے اپنے گھر کی خوشبو لگائے پھر مسجد کی طرف روانہ ہو تو کسی دو آدمیوں کے درمیان تفرق پیدا نہ کرے حسب استطاعت نماز پڑھے جب امام گفتگو کر رہا ہو تو خاموشی اختیار کرے تو اگلے جمعہ تک اس کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔
حضرت سلمان فارسی (رض) کی مرویات
حضرت سلمان (رض) کے حوالے سے مروی ہے کہ وہ ایک شہر کے قریب پہنچے تو اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ مجھے چھوڑ دو تاکہ میں ان کے سامنے اسی طرح دعوت پیش کر دوں جیسے میں نے نبی کریم ﷺ کو دعوت دیتے ہوئے دیکھا ہے پھر انہوں نے اہل شہر سے فرمایا کہ میں تم ہی میں کا ایک فرد تھا اللہ نے مجھے اسلام کی ہدایت دے دی اگر تم بھی اسلام قبول کرلو تو تمہارے وہی حقوق ہوں گے جو ہمارے ہیں اگر تم اس سے انکار کرتے ہو جز یہ ادا کرو اس حال میں تم ذلیل ہوگے اگر تم اس سے بھی انکار کرتے ہو تو ہم تمہیں برابر کا جواب دیں گے بیشک اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا " تین دن تک وہ اسی طرح کرتے رہے پھر جب چوتھا دن ہوا تو وہ لوگوں کو لے کر اس شہر کی طرف بڑھے اور اسے فتح کرلیا۔
حضرت سلمان فارسی (رض) کی مرویات
حضرت سلمان فارسی (رض) سے شرحبیل بن سمط پر محافظ مقرر تھے کے سامنے بیان کرتے ہوئے، مروی ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص ایک دن یا ایک رات کے لئے سرحدوں کی حفاظت کرتا ہے یہ ایسے ہے جیسے کوئی اپنی باری کے انتظار میں بیٹھ کر ایک مہینے تک روزے رکھے اور جو شخص اللہ کے راستہ میں سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے فوت ہوجائے اللہ اس کا اجر جاری رکھتا ہے اور ان اعمال کا اجر بھی جو وہ کرتا تھا مثلاً نماز، روزہ اور انفاق فی سبیل اللہ اور اسے قبر کی آزمائش سے محفوظ رکھا جائے گا اور وہ بڑی گھبراہٹ سے محفوظ رہے گا۔
حضرت سلمان فارسی (رض) کی مرویات
حضرت سلمان فارسی (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص ایک دن یا ایک رات کے لئے سرحدوں کی حفاظت کرتا ہے یہ ایسے ہے جیسے کوئی اپنی باری کے انتظار میں بیٹھ کر ایک مہینے تک روزے رکھے اور جو شخص اللہ کے راستہ میں سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے فوت ہوجائے اللہ اس کا اجر جاری رکھتا ہے اور ان اعمال کا اجر بھی جو وہ کرتا تھا مثلاً نماز، روزہ اور انفاق فی سبیل اللہ اور اسے قبر کی آزمائش سے محفوظ رکھا جائے گا اور وہ بڑی گھبراہٹ سے محفوظ رہے گا۔
حضرت سلمان فارسی (رض) کی مرویات
حضرت سلمان فارسی (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے حسب استطاعت پاکیزگی حاصل کرے، تیل لگائے اپنے گھر کی خوشبو لگائے پھر مسجد کی طرف روانہ ہو تو کسی دو آدمیوں کے درمیان تفرق پیدا نہ کرے حسب استطاعت نماز پڑھے جب امام گفتگو کر رہا ہو تو خاموشی اختیار کرے تو اگلے جمعہ تک اس کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، جب تک کہ لڑائی سے بچتار ہے۔
حضرت سلمان فارسی (رض) کی مرویات
حضرت سلمان (رض) سے مروی ہے کہ میں نے اپنے آقا سے اس شرط پر مکاتبت منظور کرلی کہ میں ان کے لئے کھجور کے پانچ سو پودے لگاؤں گا جب ان پر کھجور آجائے گی تو میں آزاد ہوجاؤں گا میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ شرط ذکر کی نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم یہ شرط قبول کرلو اور جب پودے لگانے کا ارادہ ہو تو مجھے مطلع کرنا چناچہ میں نے نبی کریم ﷺ کو بتادیا نبی کریم ﷺ تشریف لائے اور اپنے ہاتھ سے پودے لگانے لگے سوائے ایک پودے کے جو میں نے اپنے ہاتھ سے لگایا تھا اور اس ایک پودے کے علاوہ سب پودے پھل لے آئے۔
حضرت سلمان فارسی (رض) کی مرویات
حضرت سلمان فارسی (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا اے سلمان ! مجھ سے بغض نہ رکھیں اور نہ تم اپنے دین سے جدا ہوجاؤ گے میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ﷺ میں آپ سے بغض کیسے رکھ سکتا ہوں جبکہ اللہ نے ہمیں آپ کے ذریعے ہدایت عطاء فرمائی ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم عرب سے نفرت کرو گے تو مجھ سے نفرت کرنے والے ہوگے۔
حضرت سلمان فارسی (رض) کی مرویات
حضرت سلمان فارسی (رض) سے مروی ہے کہ میں نے تورات میں پڑھا تھا کہ کھانے کی برکت اس سے پہلے ہاتھ دھونا ہے میں نے نبی کریم ﷺ سے یہ بات ذکر کی اور تورات میں پڑھی ہوئی بات کا حوالہ دیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کھانے کی برکت اس سے پہلے ہاتھ دھونا بھی ہے اور اس کے بعد ہاتھ دھونا بھی ہے۔
حضرت سلمان فارسی (رض) کی مرویات
شقیق کہتے ہیں کہ حضرت سلمان فارسی (رض) کے پاس ایک آدمی آیا تو حضرت سلمان (رض) کے پاس جو موجود تھا وہی اس کے سامنے پیش کردیا اور فرمایا کہ اگر نبی کریم ﷺ نے ہمیں تکلف برتنے سے منع نہ کیا ہوتا تو میں تمہارے لئے تکلف کرتا۔
حضرت سلمان فارسی (رض) کی مرویات
حضرت سلمان (رض) کے حوالے سے مروی ہے کہ وہ ایک شہر کے قریب پہنچے تو اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ مجھے چھوڑ دو تاکہ میں ان کے سامنے اسی طرح دعوت پیش کردوں جیسے میں نے نبی کریم ﷺ کو دعوت دیتے ہوئے دیکھا ہے پھر انہوں نے اہل شہر سے فرمایا کہ میں تم ہی میں کا ایک فرد تھا اللہ نے مجھے اسلام کی ہدایت دے دی اگر تم بھی اسلام قبول کرلو تو تمہارے وہی حقوق ہوں گے جو ہمارے ہیں اگر تم اس سے انکار کرتے ہوجزیہ ادا کرو اس حال میں تم ذلیل ہوگے اگر تم اس سے بھی انکار کرتے ہو تو ہم تمہیں برابرکا جواب دیں گے بیشک اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا " تین دن تک وہ اسی طرح کرتے رہے پھر جب چوتھا دن ہوا تو وہ لوگوں کو لے کر اس شہر کی طرف بڑھے اور اسے فتح کرلیا۔
حضرت سلمان فارسی (رض) کی مرویات
حضرت سلمان (رض) سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص ایک دن یا رات کے لئے سرحدوں کی حفاظت کرتا ہے یہ ایک مہینے مسلسل صیام و قیام سے افضل ہے اور جو شخص اللہ کے راستہ میں سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے فوت ہوجائے اللہ اس کا اجر جاری رکھتا ہے یہاں تک کہ دوبارہ جی اٹھے اور وہ قبر کے عذاب سے محفوظ رہے گا۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حضرت سلمان فارسی (رض) کی مرویات
حضرت سلمان فارسی (رض) فرماتے ہیں کہ میں فارس صوبہ اصبہان میں ایک جگہ کا رہنے والا ہوں جس کا نام جے تھا میرا باپ اس جگہ کا چوہدری اور سردار تھا اور مجھ سے بہت ہی زیادہ محبت تھی اور میرے حوالے سے ان کی یہ محبت اتنی بڑھی کہ انہوں نے مجھے بچیوں کی طرح گھر میں بٹھا دیا میں نے اپنے قدیم مذہب مجوسیت میں اتنی زیادہ محنت کی کہ میں آتشکدہ کا محافظ بن گیا جس کی آگ کبھی بجھنے نہیں دی جاتی تھی میرے والد کی ایک بہت بڑی جائیداد تھی ایک دن وہ اپنے کسی کام میں مصروف ہوگئے تو مجھ سے کہنے لگے بیٹا ! آج میں اس تعمیراتی کام میں مصروف ہونے کی وجہ سے زمینوں پر نہیں جاسکا اس لئے تم وہاں جا کر ان کی دیکھ بھال کرو اور مجھے چند ضروری باتیں بتادیں میں زمینوں پر جانے کے ارادے سے روانہ ہوگیا راستہ میں میرا گذر نصاریٰ کے گرجے پر ہوا میں نے اس گرجے میں سے ان کی آوازیں سنیں وہ لوگ نماز پڑھ رہے تھے چونکہ والد صاحب نے مجھے گھر میں بٹھائے رکھا تھا اس لئے مجھے لوگوں کے معاملات کا کچھ علم نہ تھا لہٰذا جب میں ان کے پاس گذرا اور ان کی آوازیں سنیں تو میں سیر کے لئے اس میں چلا گیا میں نے ان کو نماز پڑھتے دیکھا تو مجھے وہ پسند آگئی اور میں اس دین کو پسند کرنے لگا اور میں نے سوچا کہ واللہ یہ دین ہمارے دین سے زیادہ بہتر ہے شام تک میں وہیں رہا اور والد صاحب کی زمینوں پر نہیں گیا ان سے میں نے دریافت کیا کہ اس دین کا مرکز کہاں ہے ؟ انہوں نے کہا ملک شام میں ہے رات کو میں گھر واپس آیا تو گھر والوں نے پوچھا کہ تو تمام دن کہاں رہا ؟ میں نے تمام قصہ سنایا باپ نے کہا کہ بیٹا وہ دین اچھا نہیں ہے تیرا اور تیرے بڑوں کا جو دین ہے وہی بہتر ہے۔ میں نے ہرگز نہیں وہی دین بہتر ہے۔ باپ کو میری طرف سے خدشہ ہوگیا کہ کہیں چلا نہ جائے اس لئے میرے پاؤں میں ایک بیڑی ڈال دی اور گھر میں قید کردیا، میں نے ان عیسائیوں کے پاس کہلا بھیجا کہ جب شام سے سوداگر لوگ جو اکثر آتے رہتے تھے آئیں تو مجھے اطلاع کرا دیں چناچہ کچھ سوداگر آئے اور ان عیسائیوں نے مجھے اطلاع کرا دی جب وہ واپس جانے لگے تو میں نے اپنی پاؤں کی بیڑی کاٹ دی اور بھاگ کر ان کے ساتھ شام چلا گیا وہاں پہنچ کر میں نے تحقیق کی کہ اس مذہب کا سب سے زیادہ ماہر کون ہے لوگوں نے بتایا کہ گرجا میں فلاں پادری ہے میں اس کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ مجھے آپ کے دین میں داخل ہونے کی رغبت ہے اور میں آپ کی خدمت میں رہنا چاہتا ہوں اس نے منظور کرلیا میں اس کے پاس رہنے لگا لیکن وہ کچھ اچھا نہ نکلا لوگوں کو صدقہ کی ترغیب دیتا اور جو کچھ جمع ہوتا اس کو اپنے خزانہ میں رکھ لیتا غریبوں کو کچھ نہ دیتا، یہاں تک کہ اس نے سونے چاندی کے سات مٹکے جمع کر لئے تھے مجھے اس کی ان حرکتوں پر اس سے شدید نفرت ہوگئی جب وہ مرگیا اور عیسائی اسے دفن کرنے کے لئے جمع ہوئے تو میں نے ان سے کہا کہ یہ بہت برا آدمی تھا تمہیں صدقہ کرنے کا حکم اور اس کی ترغیب دیتا تھا اور جب تم اس کے پاس صدقات لے کر آتے تو وہ انہیں اپنے پاس ذخیرہ کرلیتا تھا اور مسکینوں کو اس میں سے کچھ نہیں دیتا تھا لوگوں نے پوچھا تمہیں اس بات کا علم کیسے ہوا ؟ میں نے کہا کہ میں تمہیں اس خزانے کا پتہ بتائے دیتا ہوں انہوں نے کہا ضرور بتاؤ چناچہ میں نے انہیں وہ جگہ دکھا دی اور لوگوں نے وہاں سے سونے چاندی سے بھرے ہوئے سات مٹکے برآمد کر لئے اور یہ دیکھ کہنے واللہ ہم اسے کبھی دفن نہیں کرے گے چناچہ انہوں نے اس پادری کو سولی پر لٹکا دیا اور پھر اسے پتھروں سے سنگسار کرنے لگے اس کی جگہ دوسرے شخص کو بٹھایا وہ اس سے بہتر تھا اور دنیا سے بےرغبت تھا میں نے اسے پنجگانہ نماز پڑھنے والے کو اس سے زیادہ افضل اس کی نسبت دنیا سے زیادہ بےرغبت اور رات دن عبادت کرنے والا نہیں دیکھا میں اس کی خدمت میں رہنے لگا اور اس سے مجھے ایسی محبت ہوگئی کہ اس سے پہلے کسی سے نہ ہوئی تھی بالآخر وہ بھی مرنے لگا تو میں نے اس سے پوچھا کہ مجھے کسی کے پاس رہنے کی وصیت کردو اس نے کہا کہ میرے طریقہ پر صرف ایک ہی شخص دنیا میں ہے اس کے سوا کوئی نہیں وہ موصل میں رہتا ہے تو اس کے پاس چلے جانا میں اس کے مرنے کے بعد موصل چلا گیا اور اس سے جا کر اپنا قصہ سنایا اس نے اپنی خدمت میں رکھ لیا وہ بھی بہترین آدمی تھا آخر اس کی بھی وفات ہونے لگی تو میں نے اس سے پوچھا کہ اب میں کہاں جاؤ اس نے کہا فلاں شخص کے پاس نصیبین میں چلے جانا میں اس کے پاس چلا گیا اور اس سے اپنا قصہ سنایا اس نے اپنے پاس رکھ لیا وہ بھی اچھا آدمی تھا جب اس کے مرنے کا وقت آیا تو میں نے اس سے پوچھا کہ اب میں کہاں جاؤ اس نے کہا غموریا میں فلاں شخص کے پاس چلے جانا میں وہاں چلا گیا اس کے پاس اسی طرح رہنے لگا وہاں میں نے کچھ کمائی کا دھندا بھی کیا جس سے میرے پاس چند گائیں اور کچھ بکریاں جمع ہوگئیں جب اس کی وفات کا وقت قریب آیا تو میں نے اس سے پوچھا کہ اب میں کہاں جاؤں اس نے کہا کہ اب اللہ کی قسم ! کوئی شخص اس طریقے کا جس پر ہم لوگ ہیں عالم نہیں رہا البتہ نبی آخرالزمان کے پیدا ہونے کا زمانہ قریب آگیا جو دین ابراہیمی پر ہوں گے عرب میں پیدا ہوں گے اور ان کی ہجرت کی جگہ ایسی زمین ہے جہاں کھجوروں کی پیداوار بکثرت ہے اور اس کے دونوں جانب کنکریلی زمین ہے وہ ہدیہ نوش فرمائیں گے اور صدقہ نہیں کھائیں گے ان کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی پس اگر تم سے ہوسکے تو اس سر زمین پر پہنچ جانا۔ اس کے انتقال کے کچھ عرصے بعد قبیلہ بنو قلب کے چند تاجروں کا وہاں سے گذر ہوا میں نے ان سے کہا کہ تم مجھے اپنے ساتھ عرب لے چلو تو اس کے بدلے میں یہ گائیں اور بکریاں تمہاری نذر ہیں انہوں نے قبول کرلیا اور مجھے وادی القریٰ (یعنی مکہ مکرمہ) اور وہ گائیں اور بکریاں میں نے ان کو دے دیں لیکن انہوں نے مجھ پر یہ ظلم کیا کہ مجھے مکہ مکرمہ میں اپنا غلام ظاہر کر کے آگے بیچ دیا بنو قریظہ کے ایک یہودی نے مجھے خرید لیا اور اپنے ساتھ اپنے وطن مدینہ طیبہ لے آیا مدینہ طبیہ کو دیکھتے ہی میں نے ان علامات سے جو مجھے عموریا کے ساتھی (پادری) نے بتائی تھی پہچان لیا کہ یہی وہ جگہ ہے میں وہاں رہتا رہا کہ اتنے میں حضور اقدس ﷺ نے مکے سے ہجرت فرما کر مدینہ طیبہ ایک دن میں اپنے آقا کے باغ میں کام کر رہا تھا کہ میرے آقا کے بیٹھے بیٹھے اس کا چچا زاد بھائی آگیا اور کہنے لگا بنو قیلہ پر اللہ کی مار ہو اب وہ قبا میں ایک ایسے آدمی کے پاس جمع ہو رہے تھے جو ان کے پاس آج ہی آیا ہے اور اپنے آپ کو نبی سمجھتا ہے یہ سنتے ہی مجھ پر ایسی بےخودی طاری ہوئی کہ مجھے لگتا تھا میں اپنے آقا کے اوپر گر پڑوں گا پھر میں درخت سے نیچے اترا اور اس کے چچا زاد بھائی سے کہنے لگا کہ آپ کیا کہہ رہے تھے آپ کیا کہہ رہے تھے ؟ اس پر میرے آقا کو غصہ آگیا اور اس نے مجھے ضرور سے مکہ مار کر کہا کہ تمہیں اس سے کیا مقصد ؟ جاؤ جا کر اپنا کام کرو میں نے سوچا کوئی بات نہیں اور میں نے یہ ارادہ کرلیا کہ اس کے متعلق معلومات حاصل کر کے رہوں گا میرے پاس کچھ پونجی جمع تھی شام ہوئی تو وہ لے کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگیا حضور نبی کریم ﷺ اس وقت تک قباہی میں تشریف فرما تھے میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نیک آدمی ہیں اور آپ کے ساتھ غریب اور حاجت مند لوگ ہیں یہ صدقے کا مال ہے میں دوسرے سے زیادہ آپ لوگوں کو اس کا حق دار سمجھتا ہوں حضور ﷺ نے خود تناول نہیں فرمایا صحابہ کرام (فقراء) سے فرمایا تم کھالو میں نے اپنے دل میں کہا کہ ایک علامت تو پوری نکلی پھر میں مدینہ واپس آگیا اور کچھ جمع کیا کہ اس دوران میں حضور ﷺ مدینہ منورہ پہنچ گئے میں نے کچھ کھجوریں اور کھانا وغیرہ پیش کیا اور عرض کیا کہ یہ ہدیہ ہے حضور ﷺ نے اس میں سے تناول فرمایا میں نے اپنے دل میں کہا کہ یہ دوسری علامت بھی پوری ہوگئی اس کے بعد میں ایک مرتبہ حاضرخدمت ہوا اس وقت حضور ﷺ نے ایک صحابی (رض) کے جنازے میں شرکت کی وجہ سے بقیع میں تشریف فرما تھے میں نے سلام کیا اور پشت کی طرف گھومنے لگا آپ ﷺ سمجھ گئے اور اپنی چادر مبارک کمر سے ہٹا دی میں نے مہر نبوت کو دیکھا کر جوش میں اس پر جھک گیا اس کو چوم رہا تھا اور رو رہا تھا حضور ﷺ نے فرمایا سامنے آؤ میں سامنے حاضر ہوا اور حاضر ہو کر سارا قصہ سنایا اس کے بعد میں اپنی غلامی کے مشاغل میں پھنسا رہا اور اسی بناء پر بدر واحد میں بھی شریک نہ ہوسکا۔ ایک مرتبہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنے آقا سے مکاتبت کا معاملہ کرلو، میں نے اس سے معاملہ کرلیا اس نے دو چیزیں بدل کتابت قرار دیں ایک چالیس اوقیہ نقد سونا (ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے اور ایک درہم تقریباً ٣۔ ٤ ماشتہ کا) اور دوسری یہ کہ تین سو درخت کھجور کے لگاؤں اور ان کو پرورش کروں یہاں تک کہ کھانے کے قابل ہوجائیں۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ (رض) سے فرمایا کہ اپنے بھائی کی مدد کرو چناچہ انہوں نے درختوں کے حوالے سے میری اس طرح مدد کی کہ کسی نے مجھے تیس پودے دیئے کسی نے بیس، کسی نے پندرہ اور کسی نے دس، ہر آدمی اپنی گنجائش کے مطابق میری مدد کر رہا تھا یہاں تک میرے پاس تین سو پودے جمع ہوگئے نبی کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا سلمان جا کر ان کے لئے کھدائی کرو اور فارغ ہو کر مجھے بتاؤ میں خود اپنے ہاتھ سے یہ پودے لگاؤں گا چناچہ میں نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے زمین کی کھدائی اور فارغ ہو کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں مطلع کردیا نبی کریم ﷺ میرے ساتھ باغ کی جانب روانہ ہوگئے ہم ایک ایک پودا نبی کریم ﷺ کو دیتے جاتے تھے اور نبی کریم ﷺ اسے اپنے دست مبارک سے لگاتے جاتے تھے اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں سلمان کی جان ہے ان میں سے ایک پودا بھی نہیں مرجھایا تھا اور یوں میں نے باغ کی شرط پوری کردی۔ اب مجھ پر مال باقی رہ گیا تھا اتفاق سے کسی غزوے سے مرغی کے انڈے کے برابر سونا حضور ﷺ کے پاس آگیا حضور ﷺ نے حضرت سلمان کو مرحمت فرما دیا کہ اس کو جا کر اپنے بدل کتابت میں دے دو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! یہ کیا کافی ہوگا وہ بہت زیادہ مقدار ہے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا حق تعالیٰ شانہ اسی سے عجب نہیں پورا فرما دیں چناچہ میں لے گیا اور اس میں سے وزن کر کے چالیس اوقیہ سونا اس کو تول دیا اور میں آزاد ہوگیا پھر میں غزوہ خندق میں شریک ہوا اور اس کے بعد کسی غزوے کو نہیں چھوڑا
حضرت سلمان فارسی (رض) کی مرویات
حضرت سلمان (رض) فرماتے ہیں کہ جب میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ میرے اوپرواجب الاداء مقدارتک کہاں پہنچ سکے گا ؟ تو نبی کریم ﷺ نے اسے پکر کر اپنی زبان مبارک پر پھیرا اور فرمایا اسے لے جاؤ اور اس میں سے ان کا حق ادا کردو چناچہ میں نے اسے لے لیا اور ان کو پورا حق یعنی چالیس اوقیہ ادا کردیا۔
حضرت سلمان فارسی (رض) کی مرویات
حضرت سلمان (رض) کے حوالے سے مروی ہے کہ وہ ایک شہر کے قریب پہنچے تو اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ مجھے چھوڑ دو تاکہ میں ان کے سامنے اسی طرح دعوت پیش کر دوں جیسے میں نے نبی کریم ﷺ کو دعوت دیتے ہوئے دیکھا ہے پھر انہوں نے اہل شہر سے فرمایا کہ میں تم ہی میں کا ایک فرد تھا اللہ نے مجھے اسلام کی ہدایت دے دی اگر تم بھی اسلام قبول کرلو تو تمہارے وہی حقوق ہوں گے جو ہمارے ہیں اگر تم اس سے انکار کرتے ہو جزیہ ادا کرو اس حال میں تم ذلیل ہو گے اگر تم اس سے بھی انکار کرتے ہو تو ہم تمہیں برابر کا جواب دیں گے بیشک اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا " تین دن تک وہ اسی طرح کرتے رہے پھر جب چوتھا دن ہوا تو وہ لوگوں کو لے کر اس شہر کی طرف بڑھے اور اسے فتح کرلیا۔