2. حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مہر نبوت کا ذکر
حضور اقدس ﷺ کی مہر نبوت کا ذکر
سائب بن یزید کہتے ہیں کہ مجھ کو میری خالہ حضور اقدس ﷺ کے پاس لے گئیں اور عرض کیا کہ یہ میرا بھانجا بیمار ہے۔ حضور اقدس ﷺ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور میرے لئے دعائے برکت کی اور حضور اکرم ﷺ نے وضو فرمایا تو میں نے حضور اکرم ﷺ کے وضو کا پانی پیا۔ میں اتفاقا یا قصدا حضور اکرم ﷺ کے پس پشت کھڑا ہوا تو میں نے مہر نبوت دیکھی جو مسہری کی گھنڈیوں جیسی تھی
حضور اقدس ﷺ کی مہر نبوت کا ذکر
جابر بن سمرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اقدس ﷺ کی مہر نبوت کو آپ ﷺ کے دونوں مونڈھوں کے درمیان دیکھا جو سرخ رسولی جیسی تھی۔ اور مقدار میں کبوتر کے انڈے جیسی تھی۔
حضور اقدس ﷺ کی مہر نبوت کا ذکر
رمیثہ کہتی ہیں کہ میں نے حضور اقدس ﷺ سے یہ مضمون سنا اور میں اس وقت حضور اقدس ﷺ کے اتنی قریب تھی کہ اگر چاہتی تو مہر نبوت کو چوم لیتی۔ وہ مضمون یہ ہے کہ حضور اقدس ﷺ سعد بن معاذ کے حق میں یہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ان کی موت کی وجہ سے حق تعالیٰ جل شانہ کا عرش بھی ان کی روح کی خوشی میں جھوم گیا۔
حضور اقدس ﷺ کی مہر نبوت کا ذکر
ابراہیم بن محمد جو حضرت علی (رض) کے پوتے ہیں وہ کہتے ہیں، کہ حضرت علی (رض) جب حضور اقدس ﷺ کی صفات بیان کیا کرتے تو یہ صفتیں بیان کرتے اور حدیث مذکورہ سابق ذکر کی۔ منجملہ ان کے یہ بھی کہتے، کہ حضور ﷺ کے دونوں مونڈھوں کے درمیان مہر نبوت تھی اور آپ ﷺ خاتم النبیین تھے۔۔
حضور اقدس ﷺ کی مہر نبوت کا ذکر
علباء بن احمر کہتے ہیں، کہ مجھ سے عمرو بن اخطب صحابی (رض) نے یہ قصہ بیان کیا۔ ایک مرتبہ حضور اقدس ﷺ نے مجھ سے کمر ملنے کے لئے ارشاد فرمایا میں نے حضور ﷺ کی کمر ملنی شروع کی تو اتفاقاً میری انگلی مہر نبوت پر لگ گئی علباء کہتے ہیں کہ میں نے عمرو سے پوچھا کہ مہر نبوت کیا چیز تھی انہوں نے جواب دیا کہ چند بالوں کا مجموعہ تھا۔
حضور اقدس ﷺ کی مہر نبوت کا ذکر
بردہ بن الحصیب (رض) فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو حضرت سلمان فارسی (رض) ایک خوان لے کر آئے جس میں تازہ کھجوریں تھیں اور حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔ حضور ﷺ نے دریافت فرمایا کہ سلمان یہ کیسی کھجوریں ہیں۔ انہوں نے عرض کیا کہ آپ ﷺ پر اور آپ ﷺ کے ساتھیوں پر صدقہ ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ ہم لوگ صدقہ نہیں کھاتے اس لئے میرے پاس سے اٹھا لو (اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ ہم لوگ سے کیا مراد ہے۔ بعض کے نزدیک حضور اقدس ﷺ کی ذات ہے جسے جمع کے لفظ سے تشریفاً تعبیر فرمایا اور بعض کے نزدیک جماعت انبیاء مراد ہیں اور بعض کے نزدیک حضور ﷺ اور حضور ﷺ کے وہ اقا رب جن کو زکوٰۃ کا مال دینا جائز نہیں مراد ہیں۔ بندہ ناچیز کے نزدیک یہ تیسرا احتمال راجح ہے اور علامہ مناوی کے اعتراضات جو اس تیسری صورت میں ہیں زیادہ وقیع نہیں) دوسرے دن پھر ایسا ہی واقعہ پیش آیا کہ سلمان کھجوروں کا طباق لائے اور حضور اقدس ﷺ کے ارشاد پر سلمان نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ یہ آپ ﷺ کے لئے ہدیہ ہے۔ حضور ﷺ نے خود ہی نوش فرمایا۔ (چنانچہ بیجوری نے اس کی تصریح کی ہے۔ حضرت سلمان کا اس طرح پر دونوں دن لانا حقیقت میں حضور اقدس ﷺ کے آقا بنانے کا امتحان تھا اس لئے کہ سلمان (رض) پرانے زمانے کے علماء میں سے تھے اڑھائی سو برس اور بعض کے قول پر ساڑھے تین سو برس ان کی عمر ہوئی۔ انہوں نے حضور اقدس ﷺ کی علامات میں جو پہلی کتب میں پڑھ رکھی تھیں یہ بھی دیکھا تھا کہ آپ ﷺ صدقہ نوش نہیں فرماتے اور ہدیہ قبول فرماتے ہیں اور آپ ﷺ کے دونوں مونڈھوں کے درمیان مہر نبوت ہے، پہلی دونوں علامتیں دیکھنے کے بعد) پھر حضور اقدس ﷺ کی پشت مبارک پر مہر نبوت دیکھی تو مسلمان ہوگئے سلمان (رض) اس وقت یہود بنی قریظہ کے غلام بنے ہوئے تھے۔ حضور ﷺ نے ان کو خریدا (مجازاً خریدا کے لفظ سے تعبیر کردیا ورنہ حقیقت میں انہوں نے حضرت سلمان (رض) کو مکاتب بنایا تھا۔ مکاتب بنانا اس کو کہتے ہیں کہ آقا غلام سے معاملہ کرلے کہ اتنی مقدار جو آپس میں طے ہوجائے کما کردے دو ، پھر تم آزاد ہو) اور بدل کتابت بہت سے درہم قرار پائے اور نیز یہ کہ حضرت سلمان ان کے لئے (تین سو) کھجور کے درخت لگائیں اور ان درختوں کے پھل لانے تک ان کی خبر گیری کریں۔ پس حضور ﷺ نے اپنے دست مبارک سے وہ درخت لگائے، حضور ﷺ کا معجزہ تھا کہ سب درخت اسی سال پھل لے آئے مگر ایک درخت نہ پھلا۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ وہ درخت حضرت سلمان فارسی کے ہاتھ کا لگایا ہوا تھا۔ حضور اقدس ﷺ کے دست مبارک کا نہیں۔ حضور ﷺ نے اس کو نکالا اور دوبارہ اپنے دست مبارک سے لگایا۔ حضور ﷺ کا دوسرا معجزہ یہ ہوا کہ بےموسم لگایا ہوا درخت بھی اسی سال پھل لے آیا۔
حضور اقدس ﷺ کی مہر نبوت کا ذکر
ابونضرہ کہتے ہیں، کہ میں نے ابوسعید (رض) سے حضور اکرم ﷺ کی مہر نبوت کا حال پوچھا، تو انہوں نے یہ بتلایا کہ آپ ﷺ کی پشت مبارک پر ایک گوشت کا ابھرا ہوا ٹکڑا تھا۔
حضور اقدس ﷺ کی مہر نبوت کا ذکر
عبداللہ بن سرجس کہتے ہیں کہ میں حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضور ﷺ کے پاس اس وقت مجمع تھا، میں نے اس طرح حضور ﷺ کے پس پشت چکر لگایا (راوی نے اس جگہ غالباً چکر لگا کر فعلی صورت بیان کی) حضور ﷺ میرا منشاء سمجھ گئے اور اپنی پشت مبارک سے چادر اتاردی۔ میں نے مہر نبوت کی جگہ کو آپ ﷺ کے دونوں شانوں کے درمیان مٹھی کے ہم شکل دیکھا، جس کے چاروں طرف تل تھے جو گویا مسوں کے برابر معلوم ہوتے تھے۔ پھر میں حضور ﷺ کے سامنے آیا اور میں نے عرض کیا اللہ تعالیٰ جل شانہ، آپ کی مغفرت فرمائے (یا اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی مغفرت فرما دی جیسا کہ سورت فتح میں اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے لیغفر لک اللہ ماتقدم من ذنبک) ۔