39. حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عبادت کا ذکر
حضور ﷺ کی عبادت کا ذکر
مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ اس قدر لمبی نفلیں پڑھتے تھے کہ آپ ﷺ کے قدم مبارک ورم کر گئے تھے۔ صحابہ (رض) نے عرض کیا کہ آپ ﷺ اس قدر مشقت برداشت کرتے ہیں حالانکہ حق تعالیٰ جل شانہ نے آپ ﷺ کے اول و آخر کے سب گناہ بخش دئیے ہیں۔ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا ( کہ جب حق تعالیٰ جل شانہ نے مجھ پر اتنا انعام فرمایا) تو کیا میں اس کا شکر ادا نہ کروں ؟۔
حضور ﷺ کی عبادت کا ذکر
حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ اس درجہ نوافل پڑھا کرتے تھے کہ پاؤں پر ورم ہوجاتا تھا کسی نے عرض کیا کہ آپ ﷺ پر اگلے پچھلے سب گناہوں کی معافی کی بشارت نازل ہوچکی ہے پھر آپ ﷺ اس درجہ کیوں مشقت برداشت فرماتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟۔
حضور ﷺ کی عبادت کا ذکر
ابوہریرہ (رض) سے ہی مروی ہے کہ حضور اقدس ﷺ سے عرض کیا گیا کہ آپ ﷺ اتنی طویل نماز پڑھتے کہ آپ ﷺ کے قدم مبارک ورم کر آتے آپ صلی اللہ سے عرض کیا گیا کہ آپ ﷺ اتنی طویل نماز پڑھتے ہیں حالانکہ آپ کے سب اگلے اور پچھلے گناہ معاف ہوچکے ہیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟۔
حضور ﷺ کی عبادت کا ذکر
اسود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے حضور اقدس ﷺ کی رات کی نماز یعنی تہجد اور وتر کے متعلق استفسار کیا کہ حضور اقدس ﷺ کا کیا معمول تھا انہوں نے فرمایا کہ حضور اقدس ﷺ (عشاء کی نماز کے بعد) شب کے نصف اول میں استراحت فرماتے تھے اس کے بعد تہجد پڑھتے تھے۔ یہاں تک کہ اخیر شب ہوجاتی تب وتر پڑھتے۔ اس کے بعد اپنے بستر پر تشریف لے آتے۔ اگر رغبت ہوتی تو اہل کے پاس تشریف لے جاتے یعنی صحبت کرتے پھر صبح کی اذان کے بعد فوراً اٹھ کر اگر غسل کی ضرورت ہوتی تو غسل فرماتے ورنہ وضو فرما کر نماز کے لئے تشریف لے جاتے۔
حضور ﷺ کی عبادت کا ذکر
حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ میں ایک رات (لڑکپن میں) اپنی خالہ حضرت میمونہ (ام المومنین (رض) کے یہاں سویا۔ حضور اقدس ﷺ اور ان کے اہل تکیہ کے طولانی حصہ پر سر رکھے ہوئے تھے اور میں تکیہ کے چوڑائی پر سر رکھے ہوئے تھا (قاضی عیاض وغیرہ حضرات نے بجائے تکیہ کے بسترے کا ترجمہ فرمایا ہے لیکن جب کہ لفظ کا اصل ترجمہ تکیہ ہی ہے اور تکیہ مراد لینے میں کوئی بُعد بھی نہیں تو پھر بستر مراد لینے کی ضرورت نہیں ہے کہ مثلا تکیہ لمبائی پر حضور اقدس ﷺ سر مبارک رکھ کر قبلہ کی طرف منہ کر کے لیٹ گئے اور ابن عباس تکیہ کے چوڑان پر سر رکھ کر (یعنی قبلہ کی طرف سر رکھ کر لیٹ گئے ہوں) حضور اقدس صلی اللہ (اپنی اہلیہ سے تھوڑی باتیں فرمانے کے بعد) سو گئے اور تقریباً سو گئے اور تقریبا نصف رات ہونے پر یا اس سے کچھ پہلے بیدار ہوئے اور اپنے چہرہ مبارک پر ہاتھ پھیر کر نیند کے آثار کو دور فرمانے لگے اور پھر سورت آل عمران کے اخیر رکوع ان فی خلق السموات والارض کو تلاوت فرمایا (علماء کہتے ہیں کہ جاگنے کے بعد تھوڑا سا قرآن شریف پڑھ لینا چاہئے کہ اس سے نشاط پیدا ہوتا ہے اور ان آیات کا پڑھنا مستحب ہے) اس کے بعد مشکیزہ کی طرف جو پانی سے بھرا ہوا لٹک رہا تھا تشریف لے گئے اور اس سے (برتن میں پانی لے کر) وضو کیا اور نماز کی نیت باندھ لی۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں بھی وضو کر کے حضور اقدس ﷺ کے (بائیں جانب) برابر کھڑا ہوگیا، حضور اقدس ﷺ نے (اس لئے کہ مقتدی کو دائیں جانب کھڑا ہونا چاہئے) میرے سر پر دست مبارک رکھ کر میرا کان مروڑا (تنبیہ کے لئے ایسا کیا ہو اور ایک روایت میں ہے کہ اونگھنے لگا تو حضور اقدس ﷺ نے میرا کان پکڑا) ایک روایت میں ہے کہ کان پکڑ کر دائیں جانب کو کھینچا تاکہ سنت کے موافق امام کے دائیں جانب کھڑے ہوجائیں پھر حضور اقدس ﷺ دو دو رکعت پڑھتے رہے۔ معن (رض) جو اس کے راوی ہیں وہ کہتے ہیں کہ چھ مرتبہ حضور اقدس ﷺ نے دو دو رکعت پڑھی ہوگی۔ ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک تہجد کی بارہ رکعتیں ہیں) پھر وتر پڑھ کر لیٹ گئے صبح نماز کے لئے جب بلال بلانے آئے تو دو رکعت سنت مختصر قرأت سے پڑھ کر صبح کی نماز کے لئے تشریف لے گئے۔
حضور ﷺ کی عبادت کا ذکر
حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ تہجد (مع وتر کبھی) تیرہ رکعت پڑھا کرتے تھے۔
حضور ﷺ کی عبادت کا ذکر
حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ جب کبھی کسی عارض کی وجہ سے رات کو تہجد نہیں پڑھ سکتے تھے تو دن میں چاشت کے وقت بارہ رکعتیں پڑھ لیا کرتے تھے۔
حضور ﷺ کی عبادت کا ذکر
حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا کہ جب رات کو تہجد کے لئے اٹھو تو شروع میں اول دو مختصر رکعتیں پڑھ لو۔
حضور ﷺ کی عبادت کا ذکر
حضرت زید بن خالد (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دن یہ ارادہ کیا کہ حضور اقدس ﷺ کی نماز کو آج غور سے دیکھوں گا۔ میں آپ ﷺ کے مکان یا خیمہ کی چوکھٹ پر سر رکھ کر لیٹ گیا (تاکہ غور سے دیکھتا رہوں) حضور اقدس ﷺ نے اول دو مختصر رکعتیں پڑھیں۔ اس کے بعد طویل طویل دو دو رکعتیں پڑھیں (تین دفعہ طول کا لفظ اس کی زیادتی طول بیان کرنے کے لئے فرمایا) پھر ان سے مختصر دو رکعتیں پڑھیں پھر ان سے بھی مختصر دو رکعتیں پڑھیں پھر وتر پڑھے یہ سب تیرہ رکعتیں ہوئی۔
حضور ﷺ کی عبادت کا ذکر
ابوسلمہ (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے دریافت کیا کہ حضور اقدس ﷺ رمضان المبارک میں تہجد کی کتنی رکعتیں پڑھتے تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ حضور اکرم ﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ( گویا آٹھ رکعت تہجد اور تین رکعت وتر چناچہ خود اس کی تفصیل فرماتی ہیں) کہ اول چار رکعت پڑھتے تھے یہ نہ پوچھ کہ وہ کتنی طویل ہوتی تھیں اور کس عمدگی کے ساتھ بہترین حالت یعنی خشوع و خضوع سے پڑھی جاتی تھیں اسی طرح پھر چار رکعت اور پڑھتے ان کی بھی لمبائی اور عمدگی کا حال کچھ نہ پوچھ۔ پھر تین رکعات پڑھتے تھے یعنی وتر حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے حضور اکرم ﷺ سے عرض کیا کہ آپ ﷺ وتر سے پہلے سو جاتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن دل جاگتا رہتا ہے۔ (یہ انبیاء (علیہم السلام) کا خاصہ ہے کہ ان کے قلوب جاگتے رہتے ہیں ) ۔
حضور ﷺ کی عبادت کا ذکر
حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ حضور اقدس ﷺ رات کو گیارہ رکعت پڑھا کرتے تھے جس میں ایک رکعت وتر ہوتی تھی۔ جب آپ ﷺ لیٹتے تو اپنی دائیں کروٹ پر آرام فرماتے۔
حضور ﷺ کی عبادت کا ذکر
حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ رات کو نو رکعات پڑھتے تھے۔
حضور ﷺ کی عبادت کا ذکر
حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک رات حضور اقدس ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی ( بعض روایات میں آیا ہے کہ یہ قصہ رمضان المبارک کی رات کا تھا اس لئے محتمل ہے کہ یہ تہجد کی نماز ہو یا تراویح ہو) حضور اکرم ﷺ نے نماز شروع فرما کر یہ دعا پڑھی۔ اللہ اکبر ذوالملکوت والجبروت والکبریاء والعظمہ (اللہ جل جلالہ عم نوالہ کی ذات وصفات سب سے برتر ہے وہ ایسی ذات ہے جو بڑی بادشاہت والی ہے۔ بڑے غلبہ والی ہے بڑائی اور بزرگی و عظمت والی ذات ہے) پھر حضور اکرم ﷺ نے ( سورت فاتحہ پڑھ کر) سورت بقرہ تلاوت فرمائی پھر رکوع کیا۔ یہ رکوع قیام ہی جیسا تھا ( اس کے دو مطلب علماء فرماتے ہیں اور دونوں محتمل ہیں ایک تو یہ کہ رکوع تقریبا اتنا ہی طویل تھا کہ جتنا قیام۔ یعنی اگر قیام مثلا ایک گھنٹہ کا تھا تو تقریبا ایک ہی گھنٹہ کا رکوع بھی تھا۔ اس قول کے موافق اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر رکوع سجدہ نماز میں معمول سے زیادہ لمبا ہوجائے تو نماز ہوجاتی ہے۔ دوسرے یہ کہ جیسے قیام معمول سے زائد تھا۔ ایسے ہی یہ رکوع بھی معمول رکوع سے طویل تھا۔ اس صورت میں قیام کے ایک گھنٹہ ہونے کی صورت میں رکوع اگر پندرہ منٹ کا بھی ہوگیا تو اس حدیث کا مصداق بن گیا۔ اس قول کے موافق نماز اپنے عام معمول کے موافق رہی یعنی جو رکن لمبا ہوتا ہے جیسا کھڑا ہونا وہ لمبا رہا اور جو مختصر ہوتا تھا جیسے رکوع یا سجدہ وہ مختصر رہا البتہ ہر رکن عام نمازوں کے اعتبار سے بڑھا ہوا تھا۔ حضور اکرم ﷺ اپنے اس رکوع میں سبحان ربی العظیم سبحان ربی العظیم فرماتے رہتے۔ پھر رکوع سے سر مبارک اٹھا کر کھڑے ہوئے اور یہ کھڑا ہونا بھی رکوع ہی جیسا تھا۔ اس وقت لربی الحمد لربی الحمد فرماتے رہے پھر سجدہ ادا کیا اور وہ سجدہ بھی کھڑے ہونے کے برابر ہی تھا۔ اس میں سبحان ربی الاعلی سبحان ربی الاعلیٰ فرماتے رہے پھر سجدہ سے اٹھ کر بیٹھے یہ بھی سجدہ کی طرح طویل تھا اس میں حضور ﷺ رب اغفر لی رب اغفرلی فرماتے رہے۔ غرض سورت نساء، سورت مائدہ یا سورت انعام راوی کو ان اخیر کی دو سورتوں میں شک ہوگیا ہے کہ کونسی تھی لیکن اول کی تین محقق ہیں۔ غرض تینوں سورتیں وہ اور ان دونوں میں سے ایک سورت یہ چاروں سورتیں تلاوت فرمائیں۔
حضور ﷺ کی عبادت کا ذکر
حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ حضور اقدس ﷺ ایک رات تہجد میں صرف ایک ہی آیت کا تکرار فرماتے رہے۔
حضور ﷺ کی عبادت کا ذکر
عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے ایک شب حضور اقدس ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ حضور اکرم ﷺ نے اتنا طویل قیام فرمایا کہ میں نے ایک برے کام کا ارادہ کرلیا کسی نے پوچھا کہ کس کام کا ارادہ کرلیا کہنے لگے کہ میں نے ارادہ کیا کہ میں بیٹھ جاؤں اور حضور اکرم ﷺ کو تنہا چھوڑ دوں۔
حضور ﷺ کی عبادت کا ذکر
حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ ( زمانہ ضعف میں) نوافل میں قرآن شریف چونکہ زیادہ پڑھتے تھے اس لئے بیٹھ کر تلاوت فرماتے اور رکوع میں تشریف لے جاتے اور کھڑے ہونے کی حالت میں رکوع فرماتے پھر سجدہ کرتے اور اسی طرح دوسری رکعت ادا فرماتے۔
حضور ﷺ کی عبادت کا ذکر
عبداللہ بن شقیق (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے حضور اکرم ﷺ کے نوافل کے متعلق دریافت کیا انہوں نے فرمایا کہ حضور اکرم ﷺ رات کے طویل حصہ میں نوافل کھڑے ہو کر پڑھتے تھے۔ اور طویل حصہ میں نوافل بیٹھ کر پڑھتے تھے۔ حضور اکرم ﷺ کی عادت شریفہ یہ تھی کہ جب کھڑے ہو کر قرآن مجید پڑھتے تو رکوع و سجود بھی کھڑے ہونے کی حالت میں ادا فرماتے اور جب قرآن مجید بیٹھ کر پڑھتے تو رکوع و سجود بھی بیٹھنے ہی کی حالت میں ادا فرماتے۔
حضور ﷺ کی عبادت کا ذکر
حضرت حفصہ (رض) کہتی ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نوافل بیٹھ کر پڑھتے اور اس میں کوئی سورت پڑھتے تو اس قدر ترتیل سے پڑھتے کہ وہ سورت اپنے سے لمبی سورت سے بھی بڑھ جاتی تھی۔
حضور ﷺ کی عبادت کا ذکر
حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ حضور اقدس ﷺ وصال کے قریب زمانہ میں اکثر نوافل بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے۔
حضور ﷺ کی عبادت کا ذکر
حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اقدس ﷺ کے ساتھ دو رکعتیں ظہر سے قبل اور دو ظہر کے بعد اور دو مغرب کے بعد اپنے گھر میں اور دو عشاء کے بعد وہ بھی گھر میں پڑھیں۔
حضور ﷺ کی عبادت کا ذکر
ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے (میری بہن ام المومنین) حضرت حفصہ (رض) کہتی تھیں کہ حضور اقدس ﷺ صبح صادق کے بعد جس وقت مؤذن اذان کہتا ہے اس وقت دو مختصر رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔
حضور ﷺ کی عبادت کا ذکر
ابن عمر (رض) سے ہی یہ مروی ہے کہ میں نے حضور ﷺ سے آٹھ رکعتیں یاد کی ہیں۔ دو ظہر سے قبل، دو ظہر کے بعد۔ دو مغرب کے بعد، دو عشاء کے بعد مجھے میری بہن حفصہ (رض) نے صبح کی دو رکعتوں کی بھی خبر دی ہے جن کو میں نے نہیں دیکھا تھا۔
حضور ﷺ کی عبادت کا ذکر
عبداللہ بن شقیق (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے حضور اقدس ﷺ کی نماز (علاوہ فرض) کے متعلق سوال کیا۔ تو انہوں نے دو رکعت ظہر سے قبل اور دو ظہر کے بعد اور دو مغرب کے بعد اور دو عشاء کے بعد اور دو صبح کی نماز سے قبل بتلائیں۔
حضور ﷺ کی عبادت کا ذکر
عاصم بن ضمرہ کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت علی (رض) سے حضور اقدس ﷺ کی نماز (علاوہ فرض) کے متعلق استفسار کیا۔ جن کو آپ ﷺ دن میں پڑھتے تھے (رات کے نوافل) یعنی تہجد وغیرہ ان کو پہلے سے معلوم ہوں گی۔ تہجد کی روایات بالخصوص کثرت سے منقول اور مشہور ہے) حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ تم اس کی طاقت کہاں رکھ سکتے ہو (یعنی جس اہتمام و انتظام اور خشوع و خضوع سے حضرت محمد ﷺ پڑھتے تھے وہ کہاں ہوسکتا ہے اس سے مقصود تنبیہ تھی کہ محض سوال اور تحقیق سے کیا فائدہ ؟ جب تک عمل کی سعی نہ ہو۔ ہم نے عرض کیا کہ جو طاقت رکھ سکتا ہوگا وہ پڑھے گا۔ اور طاقت نہیں رکھے گا وہ معلوم کرلے گا۔ تاکہ دوسروں کو بتلا سکے اور خود عمل کرنے کی کوشش کرے۔ اس پر حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ صبح کے وقت جب آفتاب آسمان پر اتنا اوپر چڑھ جاتا جتنا اوپر عصر کی نماز کے وقت ہوتا ہے اس وقت حضور اکرم ﷺ دو رکعت (صلوہ الاشراق) پڑھتے تھے اور جب مشرق کی طرف اس قدر اوپر ہوجاتا جس قدر ظہر کی نماز کے وقت مغرب کی طرف ہوتا ہے، تو اس وقت چار رکعت (چاشت کی نماز جس کا مفصل ذکر دوسرے باب میں آرہا ہے) پڑھتے تھے۔ ظہر سے قبل چار رکعت پڑھتے تھے اور ظہر کے بعد دو رکعت (یہ چھ رکعتیں سنت مؤ کدہ ہیں) اور عصر سے قبل چار رکعت پڑھتے تھے چار رکعت کے درمیان بیٹھ کر ملائکہ مقربین اور انبیاء مومنین پر سلام بھیجتے تھے۔