44. حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گریہ وزاری کا ذکر
حضور اقدس ﷺ کی گریہ وزاری کا ذکر
عبداللہ بن شخیر (رض) کہتے ہیں کہ میں حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضور اکرم ﷺ نماز پڑھ رہے تھے اور رونے کی وجہ سے آپ کے سینہ سے ایسی آواز نکل رہی تھی جیسے ہنڈیا کا جوش ہوتا۔
حضور اقدس ﷺ کی گریہ وزاری کا ذکر
عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ مجھ سے حضور اکرم ﷺ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا کہ قرآن شریف سناؤ ( شاید حضور اکرم ﷺ نے اس لئے ارشاد فرمایا ہو کہ بہت سی وجوہ اس کی ہوسکتی ہیں مثلا یہی کہ قرآن شریف سننے کی سنت بھی حضور اکرم ﷺ کے فعل سے ثابت ہوجائے) میں نے عرض کیا کہ حضور ﷺ آپ ہی پر تو نازل ہوا ہے اور آپ ہی کو سناؤں۔ (شاید ابن مسعود (رض) کو یہ خیال ہوا کہ سنان تبلیغ اور یاد کرانے کے واسطے ہوتا ہے) حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ دوسرے سے سنوں۔ میں نے امتثال حکم میں سنانا شروع کیا اور سورت نساء (جو چوتھے پارہ کے پونے سے شروع ہوتی ہے) پڑھنا شروع کی اور جب اس آیت پر پہنچا فکیف اذاجئنا من کل امہ بشہید وجئنا بک علی ھٰؤلآء شہیدا۔ تو میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھا کہ دونوں آنکھیں گریہ کی وجہ سے بہہ رہی تھیں۔
حضور اقدس ﷺ کی گریہ وزاری کا ذکر
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ کے زمانہ میں ایک مرتبہ سورج گرہن ہوا۔ (یہ قصہ جمہور کے نزدیک ا ہجری کا ہے) حضور اقدس صلی اللہ مسجد میں تشریف لے گئے اور نماز شروع فرما کر اتنی دیر تک کھڑے رہے۔ گویا رکوع کرنے کا ارادہ ہی نہیں ہے ( دوسری روایت میں ہے کہ سورت بقرہ پڑھی تھی) اور پھر رکوع اتنا طویل کیا کہ گویا رکوع سے اٹھنے کا ارادہ ہی نہیں پھر ایسے ہی رکوع کے بعد سر اٹھا کر قومہ میں بھی اتنی دیر تک کھڑے رہے گویا سجدہ کرنا ہی نہیں ہے پھر سجدہ کیا اور اس میں بھی سر مبارک زمین پر اتنی دیر تک رکھے رہے گویا سر مبارک اٹھانا ہی نہیں اسی طرح سجدہ سے اٹھ کر جلسہ اور پھر جلسہ کے بعد دوسرے سجدہ میں غرض ہر ہر رکن اس قدر طویل ہوتا تھا کہ گویا یہی رکن اخیر تک کیا جائے گا۔ دوسرا کوئی رکن نہیں ہے۔ (اسی طرح دوسری رکعت پڑھی اور اخیر سجدہ میں) شدت غم اور جوش سے سانس لیتے تھے اور روتے تھے اور حق تعالیٰ شانہ کی بارگاہ عالی میں یہ عرض کرتے تھے کہ اے اللہ تو نے مجھ سے یہ وعدہ کیا تھا کہ میری موجودگی تک امت کو عذاب نہ ہوگا اے اللہ تو نے ہی یہ وعدہ کیا تھا کہ جب تک یہ لوگ استغفار کرتے رہیں گے عذاب نہیں ہوگا، اب ہم سب کے سب استغفار کرتے ہیں (حضور اکرم ﷺ کا یہ ارشاد اس مضمون کی طرف اشارہ ہے جو کلام اللہ شریف میں نویں پارہ کے اخیر میں ہے (وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِيْهِمْ وَمَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ ) 8 ۔ الانفال : 33) اس آیت شریفہ کا ترجمہ یہ ہے کہ اللہ جل شانہ ایسا نہ کریں گے کہ ان لوگوں میں آپ کے موجود ہوتے ہوئے ان کو عذاب دیں اور اس حالت میں بھی ان کو عذاب نہ دیں گے کہ وہ استعغفار کرتے رہتے ہوں) حضور اکرم ﷺ جب نماز سے فارغ ہوئے تو آفتاب نکل چکا تھا۔ حضور اکرم ﷺ نے اس کے بعد وعظ فرمایا جس میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کے بعد یہ مضمون فرمایا کہ شمس وقمر کسی کی موت یا حیات کی وجہ سے گہن نہیں ہوتے، بلکہ یہ حق تعالیٰ جل شانہ کی دو نشانیاں ہیں ( جن سے حق سبحانہ اپنے بندوں کو عبرت دلاتے ہیں اور ڈراتے ہیں) جب یہ گہن ہوجایا کریں تو اللہ جل جلالہ کی طرف فورا متوجہ ہوجایا کرو۔ اور استغفار و نماز شروع کردیا کرو۔
حضور اقدس ﷺ کی گریہ وزاری کا ذکر
حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ کی ایک لڑکی قریب الوفات تھیں۔ حضور اکرم ﷺ نے ان کو گود میں اٹھایا اور اپنے سامنے رکھ لیا۔ حضور اکرم ﷺ کے سامنے ہی رکھے رکھے ان کی وفات ہوگئی ام ایمن (جو حضور اکرم ﷺ کی ایک باندی تھیں) چلا کر رونے لگیں حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کیا اللہ کے نبی کے سامنے ہی چلا کر رونا شروع کردیا۔ (چونکہ حضور اکرم ﷺ کے آنسو بھی ٹپک رہے تھے اس لئے انہوں نے عرض کیا کہ حضور ﷺ آپ بھی تو رو رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ رونا ممنوع نہیں یہ اللہ کی رحمت ہے (کہ بندوں کے قلوب کو نرم فرمائیں اور ان میں شفقت ورحمت کا مادہ عطا فرمائیں) پھر حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ مومن ہر حال میں خیر ہی میں رہتا ہے حتی کہ خود اس کا نفس نکالا جاتا ہے اور وہ حق تعالیٰ شانہ کی حمد کرتا ہے۔
حضور اقدس ﷺ کی گریہ وزاری کا ذکر
حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ حضور ﷺ نے عثمان بن مظعون (رض) کی پیشانی کو ان کی وفات کے بعد بوسہ دیا۔ اس وقت حضور اکرم ﷺ کے آنسو ٹپک رہے تھے۔
حضور اقدس ﷺ کی گریہ وزاری کا ذکر
حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ اپنی صاحبزادی (ام کلثوم (رض) کی قبر پر تشریف فرما تھے اور آپ کے آنسو جاری تھے، حضور ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا کہ قبر میں وہ شخص اترے جس نے آج رات مجامعت نہ کی ہو،۔