46. ان روایات کا ذکر جو حضور اقدس ﷺ

【1】

ان روایات کا ذکر جو حضور اقدس ﷺ

امام محمد باقر (رح) کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے یہاں حضور ﷺ کا بستر کیسا تھا انہوں نے فرمایا کہ چمڑے کا تھا جس کے اندر کھجور کے درخت کی چھال بھری ہوئی تھی۔ حضرت حفصہ (رض) سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے گھر میں حضور اکرم ﷺ کا بستر کیسا تھا انہوں نے بتایا کہ ایک ٹاٹ تھا جس کو دوہرا کر کے ہم حضور اکرم ﷺ کے نیچے بچھا دیا کرتے تھے۔ ایک روز مجھے خیال ہوا کہ اس کو چوہرا کر کے بچھا دیا جائے تو زیادہ نرم ہوجائے گا میں نے ایسے ہی بچھا دیا۔ حضور اکرم ﷺ نے صبح کو دریافت کیا کہ میرے نیچے رات کو کیا چیز بچھائی تھی ؟ میں نے عرض کیا کہ وہی روز مرہ کا بستر تھا رات کو اسے چوہرا کردیا تھا کہ زیادہ نرم ہوجائے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اس کو پہلے ہی حال پر رہنے دو ، اس کی نرمی رات کو مجھے تہجد سے مانع ہوئی۔

【2】

ان روایات کا ذکر جو حضور اقدس ﷺ

حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا کہ میری تعریف میں مبالغہ حد سے افزوں نہ کرو جیسے نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعریف میں مبالغہ کیا (کہ اللہ کا بیٹا ہی بنادیا) میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں اس لئے مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو۔

【3】

ان روایات کا ذکر جو حضور اقدس ﷺ

حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ کسی عورت نے حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ مجھے کچھ تخلیہ میں عرض کرنا ہے حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ کسی سڑک کے راستہ پر بیٹھ جائیں وہیں آ کر سن لوں گا۔

【4】

ان روایات کا ذکر جو حضور اقدس ﷺ

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ مریضوں کی عیادت فرماتے تھے جنازوں میں شرکت فرماتے تھے گدھے پر سوار ہوجاتے تھے غلاموں کی دعوت قبول فرما لیتے تھے آپ بنو قریظہ کی لڑائی کے دن ایک گدھے پر سوار تھے جس کی لگام کھجور کے پھر ٹوں کی اور کاٹھی بھی اس کی تھی۔

【5】

ان روایات کا ذکر جو حضور اقدس ﷺ

حضرت انس (رض) ہی کہتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ کی جو کی روٹی اور کئی دن کی باسی پرانی چکنائی کی دعوت کی جاتی۔ تو آپ ﷺ (اس کو بھی بےتکلف) قبول فرما لیتے۔ آپ کی ایک زرہ ایک یہودی کے پاس رہن تھی۔ اخیر عمر تک حضور اکرم ﷺ کے پاس اس کے چھڑانے کے لائق دام نہیں ہوئے۔

【6】

ان روایات کا ذکر جو حضور اقدس ﷺ

حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے ایک پرانے پالان پر حج کیا۔ اس پر ایک کپڑا پڑا ہوا تھا جو چار درہم کا بھی نہیں ہوگا۔ (یہ بھی ممکن ہے کہ اس پر سے مراد حضور ﷺ کی ذات والا ہو یعنی آپ معمولی سی چادر اوڑھے ہوئے تھے جو چار درہم کی بھی نہیں تھی بعض فضلائے درس کے نزدیک یہ مطلب زیادہ پسندیدہ ہے۔ لیکن بندہ ناچیز کے نزدیک پہلا مطلب زیادہ راجح ہے اور اس باب کی گیارہویں حدیث اس کی تائید کرتی ہے) اور حضور ﷺ یہ دعا مانگ رہے تھے کہ یا اللہ اس حج کو ایسا حج فرمائیو جس میں ریا اور شہرت نہ ہو۔

【7】

ان روایات کا ذکر جو حضور اقدس ﷺ

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ صحابہ (رض) کے نزدیک حضور ﷺ سے زیادہ محبوب کوئی شخص دنیا میں نہیں تھا اس کے باوجود پھر بھی وہ حضور اقدس ﷺ کو دیکھ کر اس لئے کھڑے نہیں ہوتے تھے کہ حضور ﷺ کو یہ پسند نہیں تھا۔

【8】

ان روایات کا ذکر جو حضور اقدس ﷺ

حضرت امام حسن (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ماموں ہند بن ابی ہالہ (رض) سے پوچھا وہ حضور اکرم ﷺ کے حالات اکثر بیان کرتے تھے اور مجھے ان کے سننے کا اشتیاق تھا تو انہوں نے میرے پوچھنے پر حضور اکرم ﷺ کے حلیہ شریف کا ذکر فرمایا کہ حضور اکرم ﷺ بلند پایہ وبلند مرتبہ تھے۔ آپ ﷺ کا چہرہ انور بدر کی طرح چمکتا تھا اور پورا حلیہ شریف (جیسا کہ شروع کتاب میں پہلے باب کی ساتویں حدیث میں مفصل گزر چکا ہے) بیان فرمایا امام حسن (رض) کہتے ہیں کہ میں نے (بعض وجوہ سے) اس حدیث کا امام حسین (رض) سے ایک عرصہ تک ذکر نہیں کیا۔ ایک عرصہ کے بعد ذکر کیا تو معلوم ہوا کہ وہ مجھ سے پہلے اس حدیث کو سن چکے تھے اور صرف یہی نہیں کہ ماموں جان سے یہ حدیث سن لی ہو بلکہ والد صاحب حضرت علی (رض) سے حضور اکرم صلی اللہ کے مکان میں تشریف لے جانے اور باہر تشریف لانے اور حضور اکرم صلی اللہ کا طرز و طریقہ بھی معلوم کرچکے تھے۔ چناچہ حضرت امام حسین (رض) سے حضور اکرم ﷺ کے مکان پر تشریف لے جانے کے حالات دریافت کئے تو آپ نے فرمایا کہ حضور اقدس ﷺ مکان میں تشریف رکھنے کے وقت کو تین حصوں پر منقسم فرماتے تھے۔ ایک حصہ حق تعالیٰ شانہ کی عبادت میں خرچ فرماتے یعنی نماز وغیرہ پڑھتے تھے۔ دوسرا حصہ گھر والوں کے ادائے حقوق میں خرچ فرماتے تھے مثلا ان سے ہنسنا بولنا بات کرنا ان کے حالات کی تحقیق کرنا تیسرا حصہ خاص اپنی ضروریات راحت و آرام کے لئے رکھتے تھے پھر اس اپنے والے حصہ کو بھی دو حصوں پر اپنے اور لوگوں کے درمیان تقسیم فرما دیتے۔ اس طرح کہ خصوصی حضرات صحابہ کرام (رض) اس وقت میں داخل ہوتے ان خواص کے ذریعہ سے مضامین عوام تک پہنچتے۔ ان لوگوں سے کسی چیز کو اٹھا کر نہ رکھتے تھے (یعنی نہ دین کے امور میں نہ دنیوی منافع میں۔ غرض ہر قسم کا نفع بلا دریغ پہنچاتے تھے) امت کے اس حصہ میں آپ کا یہ طرز تھا کہ ان آنے والوں میں اہل فضل یعنی اہل علم وعمل کو حاضری کی اجازت میں ترجیح دیتے تھے۔ اس وقت کو ان کے فضلِ دینی کے لحاظ سے ان پر تقسیم فرماتے تھے بعض آنے والے ایک حاجت لے کر آتے اور بعض حضرات دو دو حاجتیں لے کر حاضر خدمت ہوتے اور بعض حضرات کئی کئی حاجتیں لے کر حاضر ہوتے۔ حضور اکرم صلی اللہ ان کی تمام حاجتیں پوری فرمایا کرتے تھے اور ان کو ایسے امور میں مشغول فرماتے جو خود ان کی اور تمام امت کی اصلاح کے لئے مفید اور کار آمد ہوں مثلاً ان دینی امور کے بارے میں حضور اکرم ﷺ سے سوالات کرنا اور حضور ﷺ کا اپنی طرف سے مناسب امور کی ان کو اطلاع فرمانا اور ان علوم و معارف کے بعد حضور ﷺ یہ بھی فرمادیا کرتے تھے کہ جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ ان مفید اور ضروری اصلاحی امور کو غائبین تک بھی پہنچا دیں اور نیز یہ بھی ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ جو لوگ کسی عذر (پردہ یا دوری یا شرم یا رعب) کی وجہ سے مجھ سے اپنی ضرورتوں کا اظہار نہیں کرسکتے تم لوگ ان کی ضرورتیں مجھ تک پہنچا سکو تو حق تعالیٰ شانہ قیامت کے دن اس شخص کو ثابت قدم رکھیں گے۔ لہٰذا تم لوگ اس میں ضرور کوششیں کیا کرو۔ حضور ﷺ کی مجلس میں ضروری اور مفید ہی باتوں کا تذکرہ ہوتا تھا اور ایسے ہی امور کو حضور اقدس ﷺ صحابہ سے خوشی سے سنتے تھے اس کے علاوہ لایعنی اور فضول باتیں حضور اکرم ﷺ کی مجلس میں نہ ہوتی تھیں۔ صحابہ (رض) حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں دینی امور کے طالب بن کر حاضر ہوتے تھے اور بلا کچھ چکھے وہاں سے نہیں آتے تھے ( چکھنے سے مراد امور دینیہ کا حاصل کرنا بھی ہوسکتا ہے اور حسی چکھنا بھی مراد ہوسکتا ہے اس لئے کہ حضور ﷺ کے پاس جو کچھ موجود ہوتا اس سے تواضع فرماتے اور خصوصی احباب کا جب مجمع ہوتا ہے تو موجودہ چیز کی تواضع ہوتی ہی ہے) صحابہ کرام حضور اقدس ﷺ کی مجلس سے ہدایت اور خیر کے لئے مشعل اور رہنما بن کر نکلتے تھے کہ وہ ان علوم کو حسب ارشاد دوسروں تک پہنچاتے رہتے تھے۔ امام حسین (رض) کہتے ہیں کہ میں نے باہر تشریف آوری کے متعلق دریافت کیا تو فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ ضروری امور کے علاوہ اپنی زبان کو محفوظ رکھتے تھے، فضول تذکروں میں وقت ضائع نہیں فرماتے تھے۔ آنے والوں کی تالیف قلوب فرماتے ان کو مانوس فرماتے۔ متوحش نہیں فرماتے تھے (یعنی تنبیہ وغیرہ میں ایسا طرز اختیار نہ فرماتے جس سے ان کو حاضری میں وحشت ہونے لگے یا ایسے امور ارشاد نہ فرماتے تھے جن کی وجہ سے دین سے نفرت ہونے لگے) ہر قوم کے کریم اور معزز کا اکرام و اعزاز فرماتے اور اس کو خود اپنی طرف بھی اسی قوم پر متولی اور سردار مقرر فرما دیتے لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈراتے ( یا مضر امور سے بچنے کی تاکید فرماتے یا لوگوں کو دوسروں سے احتیاط رکھنے کی تاکید فرماتے) اور خود اپنی بھی لوگوں کے تکلیف پہنچانے یا نقصان پہنچانے سے حفاظت فرماتے لیکن باوجود خود احتیاط رکھنے اور احتیاط کی تاکید کے کسی سے اپنی خندہ پیشانی اور خوش خلقی کو نہیں ہٹاتے تھے۔ اپنے دوستوں کی خبر گیری فرماتے اور لوگوں کے حالات آپس کے معاملات کی تحقیق فرما کر ان کی اصلاح فرماتے اچھی بات کی تحسین فرما کر اس کی تقویت فرماتے اور بری بات کی برائی فرما کر اس کو زائل فرماتے اور روک دیتے، حضور اکرم ﷺ ہر امر میں اعتدال اور میانہ روی اختیار فرماتے نہ کہ تلون اور گڑبڑ کہ کبھی کچھ فرمادیا اور کبھی کچھ لوگوں کی اصلاح سے غفلت نہ فرماتے تھے کہ مبادہ وہ دین سے غافل ہوجائیں یا کسی امر میں حد سے بڑھ جانے کی وجہ سے دین سے اکتا جائیں (اس لئے حضور اکرم صلی اللہ ان کے حالات سے غفلت نہ فرماتے تھے) ہر کام کے لئے آپ کے یہاں ایک خاص انتظام تھا۔ امرِ حق میں نہ کبھی کوتاہی فرماتے تھے، نہ حد سے تجاوز فرماتے تھے، آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے والے خلقت کے بہترین افراد ہوتے تھے۔ آپ کے نزدیک افضل وہی ہوتا تھا جس کی خیر خواہی عام ہو، یعنی ہر شخص کی بھلائی چاہتا ہو آپ کے نزدیک بڑے رتبے والا وہی ہوتا تھا جو مخلوق کی غمگساری اور مدد میں زیادہ حصہ لے۔ حضرت امام حسین (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کی مجلس کے حالات دریافت کئے تو انہوں نے فرمایا کہ آپ کی نشست وبرخاست سب اللہ کے ذکر کے ساتھ ہوتی تھی اور جب کسی جگہ آپ تشریف لے جاتے تو جہاں جگہ ملتی وہیں تشریف رکھتے اور اسی کا لوگوں کو حکم فرماتے کہ جہاں خالی جگہ مل جائے وہاں بیٹھ جایا کریں۔ لوگوں کے سروں کو پھلانگ کر آگے نہ جایا کریں یہ امر جدا گانہ ہے کہ جس جگہ حضور ﷺ تشریف رکھتے وہی جگہ پھر صدر مجلس بن جاتی، آپ حاضرین مجلس میں سے ہر ایک کا حق ادا فرماتے یعنی بشاشت اور بات چیت میں جتنا اس کا حق ہوتا اس کو پورا فرماتے کہ آپ کے پاس ہر بیٹھنے والا یہ سمجھتا تھا کہ حضور اکرم ﷺ میرا سب سے زیادہ اکرام فرما رہے ہیں، جو آپ ﷺ کے پاس بیٹھتا یا کسی امر میں آپ کی طرف مراجعت کرتا تو حضور اکرم ﷺ اس کے پاس بیٹھے رہتے یہاں تک کہ وہی خود اٹھنے کی ابتدا کرے۔ جو آپ سے کوئی چیز مانگتا آپ ﷺ اس کو مرحمت فرماتے یا اگر نہ ہوتی تو نرمی سے جواب فرماتے، آپ ﷺ کی خندہ پیشانی اور خوش خلقی تمام لوگوں کے لئے عام تھی، آپ تمام خلقت کے شفقت میں باپ تھے اور تمام خلقت حقوق میں آپ کے نزدیک برابر تھی۔ آپ کی مجلس، مجلس علم وحیا اور صبر و امانت تھی (یعنی یہ چاروں باتیں اس میں حاصل کی جاتی تھیں یا یہ کہ یہ چاروں باتیں اس میں موجود ہوتی تھیں) نہ اس میں شور و شغب ہوتا تھا نہ کسی کی عزت وآبرو اتاری جاتی تھی آپس میں سب برابر شمار کئے جاتے تھے (حسب ونسب کی بڑائی نہ سمجھتے تھے البتہ) ایک دوسرے پر فضیلت تقویٰ سے ہوتی تھی ہر شخص دوسرے کے ساتھ تواضع سے پیش آتا تھا، بڑوں کی تعظیم کرتے تھے، چھوٹوں پر شفقت کرتے تھے، اہل حاجت کو ترجیح دیتے تھے، اجنبی مسافر آدمی کی خبر گیری کرتے تھے۔

【9】

ان روایات کا ذکر جو حضور اقدس ﷺ

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر مجھے بکری کا ایک پیر بھی دیا جائے تو میں قبول کروں گا اور اگر اس کی دعوت کی جائے تو میں ضرور جاؤں گا۔

【10】

ان روایات کا ذکر جو حضور اقدس ﷺ

حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ (میری عیادت کے لئے) تشریف لائے نہ خچر پر سوار تھے نہ ترکی گھوڑے پر (یعنی نہ گھٹیا سواری تھے نہ بڑھیا بلکہ پیادہ تشریف لائے) ۔

【11】

ان روایات کا ذکر جو حضور اقدس ﷺ

یوسف بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے میرا نام یوسف تجویز فرمایا تھا اور مجھے اپنی گود میں بٹھلایا تھا اور میرے سر پر دست مبارک پھیرا تھا۔

【12】

ان روایات کا ذکر جو حضور اقدس ﷺ

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے کجاوہ پر حج کیا۔ جس پر ایک کپڑا تھا جس کی قیمت ہمارے خیال میں چار درہم ہوگی۔ حضور ﷺ یہ دعا کرتے تھے کہ خدایا اس حج کو ریا اور شہرت سے مبرا فرمائیو۔

【13】

ان روایات کا ذکر جو حضور اقدس ﷺ

حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک درزی نے حضور اکرم ﷺ کی دعوت کی۔ کھانے میں ثرید تھا اور اس پر کدو پڑا ہوا تھا۔ حضور اکرم ﷺ کو کدو چونکہ مرغوب تھا اس لئے حضور اکرم ﷺ اس پر سے کدو نوش فرمانے لگے۔ حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ اس کے بعد سے میرے لئے کوئی کھانا تیار نہیں کیا گیا جس میں مجھے کدو ڈلوانے کی قدرت ہو اور کدو اس میں نہ ڈالا گیا ہو۔

【14】

ان روایات کا ذکر جو حضور اقدس ﷺ

عمرہ کہتی ہیں کہ کسی نے حضرت عائشہ (رض) سے پوچھا کہ حضور اقدس ﷺ دولت کدہ پر کیا کرتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا کہ حضور اکرم ﷺ آدمیوں میں سے ایک آدمی تھے اپنے کپڑے میں خود ہی جوں تلاش کرلیتے تھے اور خود ہی بکری کا دودھ نکال لیتے تھے اور اپنے کام خود ہی کرلیتے تھے۔