47. حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اخلاق وعادات میں
حضور ﷺ کے اخلاق وعادات میں
خارجہ کہتے ہیں کہ ایک جماعت زید بن ثابت کے پاس حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ حضور اکرم ﷺ کے کچھ حالات سنائیں انہوں نے فرمایا کہ حضور اکرم ﷺ کے کیا حالات سناؤں ( وہ احاطہ بیان سے باہر ہیں) میں حضور ﷺ کا ہمسایہ تھا (اس لئے تو یا ہر وقت حاضر باش تھا اور اکثر حالات سے واقف اس کے ساتھ ہی کاتب وحی بھی تھا) جب حضور اکرم ﷺ پر وحی نازل ہوتی تو آپ ﷺ مجھے بلا بھیجتے میں حاضر ہو کر اس کو لکھ لیتا تھا (حضور اکرم ﷺ ہم لوگوں کے ساتھ غایت درجہ دلداری اور بےتکلفی فرماتے تھے جس قسم کا تذکرہ ہم کرتے تھے حضور ﷺ بھی ہمارے ساتھ ویسا ہی تذکرہ فرماتے تھے۔ جب ہم لوگ کچھ دنیاوی ذکر کرتے تو حضور اکرم ﷺ بھی اس قسم کا تذکرہ فرماتے (یہ نہیں کہ بس آخرت ہی کا ذکر ہمارے ساتھ کرتے ہوں اور دنیا کی بات سننا بھی گوارا نہ کریں) اور جس وقت ہم آخرت کی طرف متوجہ ہوتے تو حضور اکرم ﷺ بھی آخرت کے تذکرے فرماتے، یعنی جب آخرت کا کوئی تذکرہ شروع ہوجاتا تو اسی کے حالات اور تفصیلات حضور اکرم ﷺ بیان فرماتے اور جب کچھ کھانے پینے کا ذکر ہوتا تو حضور اکرم ﷺ بھی ویسا ہی تذکرہ فرماتے۔ (کھانے کے آداب، فوائد، لذیذ کھانوں کا ذکر، مضر کھانوں کا تذکرہ وغیرہ وغیرہ۔ چناچہ گذشتہ ابواب میں بہت سے ارشادات حضور ﷺ کے اس نوع کے گزر چکے ہیں کہ سرکہ کیا ہی اچھا سالن ہے، زیتون کا تیل استعمال کیا کرو کہ مبارک درخت سے ہے وغیرہ) یہ سب کچھ آپ ﷺ ہی کے حالات کا تذکرہ کر رہا ہوں۔
حضور ﷺ کے اخلاق وعادات میں
حضرت عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ قوم کے بدترین شخص کی طرف سے بھی حضور اقدس ﷺ تالیف قلوب کے خیال سے اپنی توجہ اور اپنی خصوصی گفتگو مبذول فرماتے تھے، (جس کی وجہ سے اس کو اپنی خصوصیت کا خیال ہوجاتا تھا) چناچہ خود میری طرف بھی حضور ﷺ کی توجہات عالیہ اور کلام کا رخ بہت زیادہ رہتا تھا، حتیٰ کہ میں یہ سمجھنے لگا کہ میں قوم کا بہترین شخص ہوں اسی وجہ سے حضور اکرم ﷺ سب سے زیادہ توجہ فرماتے ہیں۔ میں اسی خیال سے ایک دن دریافت کیا کہ حضور ﷺ سے کہ میں افضل ہوں یا ابوبکر (رض) ؟ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ابوبکر ( رض ) ۔ پھر میں نے پوچھا کہ میں افضل ہوں یا عمر (رض) ؟ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا عمر ( رض ) ۔ پھر میں نے پوچھا کہ میں افضل ہوں یا عثمان (رض) ؟ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ عثمان ( رض) ؟۔
حضور ﷺ کے اخلاق وعادات میں
حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے دس برس حضور اقدس ﷺ کی خدمت کی مجھے کسی بات پر حضور اکرم ﷺ نے اف تک بھی نہیں فرمایا نہ کسی کام کے کرنے پر یہ فرمایا کہ کیوں کیا اور اسی طرح نہ کبھی کسی کام کے نہ کرنے پر یہ فرمایا کہ کیوں نہیں کیا۔ حضور اقدس ﷺ اخلاق میں تمام دنیا سے بہتر تھے (ایسے خلقت کے اعتبار سے بھی حتی کہ) میں نے کبھی کوئی ریشمی کپڑا یا خالص ریشم یا کوئی اور نرم چیز ایسی چھوئی جو حضور اقدس ﷺ کی بابرکت ہتھیلی سے زیادہ نرم ہو اور میں نے کبھی کسی قسم کا مشک یا کوئی عطر حضور ﷺ کے پسینہ کی خوشبو سے زیادہ خوشبو دار نہیں سونگھا۔
حضور ﷺ کے اخلاق وعادات میں
حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ کے پاس ایک شخص بیٹھا تھا جس پر زرد رنگ کا کپڑا تھا۔ حضور اقدس ﷺ کی عادت شریفہ یہ تھی کہ ناگوار بات کو منہ در منہ منع نہ فرماتے تھے اس لئے سکوت فرمایا اور جب وہ شخص چلا گیا تو حضور اکرم ﷺ نے حاضرین سے ارشاد فرمایا کہ تم لوگ اس کو زرد کپڑے سے منع کردیتے تو اچھا ہوتا۔
حضور ﷺ کے اخلاق وعادات میں
حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نہ تو طبعا فحش گو تھے نہ بتکلف فحش بات فرماتے تھے، نہ بازاروں میں چلا کر (خلاف وقار) باتیں کرتے تھے۔ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے، بلکہ معاف فرما دیتے تھے اور اس کا تذکرہ بھی نہ فرماتے تھے۔
حضور ﷺ کے اخلاق وعادات میں
حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے اپنے دست مبارک سے اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کے علاوہ کبھی کسی کو نہیں مارا۔ نہ کبھی کسی خادم کو نہ کسی عورت (بیوی باندی وغیرہ) کو۔
حضور ﷺ کے اخلاق وعادات میں
حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ حضور اقدس ﷺ نے اپنی ذات کے لئے کبھی کسی ظلم کا بدلہ لیا ہو۔ البتہ اللہ کی حرمتوں میں سے کسی حرمت کا مرتکب ہوتا (یعنی مثلا کسی حرام فعل کا کوئی مرتکب ہوتا۔ شراح حدیث نے لکھا ہے کہ اسی میں آدمیوں کے حقوق بھی داخل ہیں تو حضور ﷺ سے زیادہ غصے والا کوئی شخص نہیں ہوتا تھا۔ حضور اقدس ﷺ جب کبھی دو امروں میں اختیار دئیے جاتے تو ہمیشہ سہل کو اختیار فرماتے تاوقتیکہ اس میں کسی قسم کی معصیت وغیرہ نہ ہو۔
حضور ﷺ کے اخلاق وعادات میں
حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ سے ایک شخص نے حاضری کی اجازت چاہی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ شخص اپنے قبیلہ کا کیسا برا آدمی ہے۔ یہ ارشاد فرمانے کے بعد اس کو حاضری کی اجازت مرحمت فرمادی اور اس کے اندر آنے پر اس کے ساتھ نہایت نرمی سے باتیں کیں جب وہ چلا گیا تو حضرت عائشہ (رض) نے پوچھا کہ حضور ﷺ نے اس کے بارے میں حاضر ہونے سے پہلے تو یہ لفظ ارشاد فرمایا تھا، پھر اس قدر نرمی سے اس کے ساتھ کلام فرمایا یہ کیا بات ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ عائشہ ! بدترین لوگوں میں سے ہے وہ شخص کہ لوگ اس کی بدکلامی کی وجہ سے اس کو چھوڑ دیں۔
حضور ﷺ کے اخلاق وعادات میں
حضرت امام حسن (رض) فرماتے ہیں کہ مجھ سے (میرے چھوٹے بھائی) حضرت امام حسین (رض) نے کہا کہ میں نے اپنے والد حضرت علی (رض) سے حضور اکرم ﷺ کا اپنے اہل مجلس کے ساتھ کا طرز پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ آپ ﷺ ہمیشہ خندہ پیشانی اور خوش خلقی کے ساتھ متصف رہتے تھے (یعنی چہرہ انور پر تبسم اور بشاشت کا اثر نمایاں ہوتا تھا) آپ ﷺ نرم مزاج تھے (یعنی کسی بات میں لوگوں کو آپ ﷺ کی موافقت کی ضرورت ہوتی تھی تو آپ ﷺ سہولت سے موافق ہوجاتے تھے) نہ آپ سخت گو تھے اور نہ سخت دل تھے۔ نہ آپ چلا کر بولتے تھے نہ فحش گوئی اور بدکلامی فرماتے تھے نہ عیب گیر تھے کہ دوسروں کے عیوب پکڑیں نہ زیادہ مبالغہ سے تعریف کرنے والے نہ زیادہ مذاق کرنے والے نہ بخیل (تین لفظ) اس جگہ نقل کئے گئے تینوں کا ترجمہ لکھ دیا) آپ ﷺ ناپسند بات سے اعراض فرماتے تھے۔ یعنی ادھر التفات نہ فرماتے گویا سنی ہی نہیں دوسرے کی کوئی خواہش اگر آپ کو پسند نہ آتی تو اس کو مایوس بھی نہ فرماتے تھے اور اس کا وعدہ بھی نہ فرماتے تھے آپ نے تین باتوں سے اپنے آپ کو بالکل علیحدہ فرما رکھا تھا۔ جھگڑے سے اور تکبر سے اور بیکار بات سے اور تین باتوں سے لوگوں کو بچا رکھا تھا، نہ کسی کی مذمت فرماتے تھے، نہ کسی کو عیب لگاتے تھے، نہ کسی کے عیوب تلاش فرماتے تھے۔ آپ ﷺ صرف وہی کلام فرماتے تھے جو باعث اجر وثواب ہو جب آپ ﷺ گفتگو فرماتے تو حاضرین مجلس اس طرح گردن جھکا کر بیٹھتے جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں ( کہ ذرا بھی حرکت ان میں ہوتی تھی کہ پرندہ ذرا سی حرکت سے اڑجاتا ہے) جب آپ ﷺ چپ ہوجاتے تب وہ حضرات کلام کرتے (یعنی حضور اقدس ﷺ کی گفتگو کے درمیان کوئی شخص نہ بولتا تھا جو کچھ کہنا ہوتا حضور ﷺ کے چپ ہونے کے بعد کہتا تھا) آپ ﷺ کے سامنے کسی بات میں نزاع نہ کرتے تھے۔ آپ ﷺ سے جب کوئی شخص بات کرتا تو اس کے خاموش ہونے تک سب ساکت رہتے۔ ہر شخص کی بات (توجہ سے سننے میں) ایسی ہوتی جیسے پہلے شخص کی گفتگو یعنی بےقدری سے کسی کی بات نہیں سنی جاتی تھی، ورنہ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ مجلس کی ابتداء میں تو توجہ تام ہوتی ہے پھر کچھ دیر ہونے سے اکتانا شروع کردیتے ہیں اور کچھ بےتوجہی سی ہوجایا کرتی ہے) جس بات سے سب ہنستے اور آپ ﷺ بھی تبسم فرماتے اور جس سے سب لوگ تعجب کرتے تو آپ ﷺ بھی تعجب میں شریک رہتے یہ نہیں کہ سب سے الگ چپ چاپ بیٹھے رہیں بلکہ معاشرت اور طرز کلام میں شرکاء مجلس کے شریک حال رہتے) اجنبی مسافر آدمی کی سخت گفتگو اور بےتمیزی کے سوال پر صبر فرماتے (یعنی گاؤں کے لوگ جا بےجا سوالات کرتے آداب کی رعایت نہ کر کے ہر قسم کے سوالات کرتے۔ حضور اکرم ﷺ ان پر گرفت نہ فرماتے ان پر صبر کرتے) اور اس وجہ سے وہ لوگ ہر قسم کے سوالات کرلیتے تھے۔ بعض صحابہ (رض) آپ ﷺ کی مجلس اقدس تک مسافروں کو لے کر آیا کرتے تھے (تاکہ ان کے ہر قسم کے سوالات سے خود بھی منتفع ہوں اور ایسی باتیں جن کو ادب کی وجہ سے یہ حضرات خود نہ پوچھ سکتے تھے وہ بھی معلوم ہوجائیں) آپ یہ بھی تاکید فرماتے رہتے تھے کہ جب کسی طالب حاجت کو دیکھو تو اس کی امداد کیا کرو ( اگر آپ کی کوئی تعریف کرتا تو آپ ﷺ اس کو گوارا نہ فرماتے البتہ) بطور شکریہ اور ادائے احسان کے کوئی آپ ﷺ کی تعریف کرتا تو آپ ﷺ سکوت فرماتے۔ یعنی حد سے تجاوز کرتا تو روک دیتے۔ کسی کی گفتگو قطع نہ فرماتے تھے کہ دوسرے کی بات کاٹ کر اپنی شروع نہ فرمائیں۔ البتہ اگر کوئی حد سے تجاوز لگتا تو اسے روک دیتے تھے یا مجلس سے تشریف لے جاتے تاکہ وہ خود رک جائے۔
حضور ﷺ کے اخلاق وعادات میں
حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے کبھی کسی شخص کے کوئی چیز مانگنے پر انکار نہیں فرمایا۔
حضور ﷺ کے اخلاق وعادات میں
حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ اول تو تمام لوگوں سے زیادہ ہر وقت ہی سخی تھے (کہ کوئی بھی حضور ﷺ کی سخاوت کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا کہ خود فقیرانہ زندگی بسر کرتے تھے اور عطاؤں میں بادشاہوں کو شرمندہ کرتے تھے۔ نہایت سخت احتیاج کی حالت میں ایک عورت نے چادر پیش کی اور سخت ضرورت کے درجہ میں پہنی۔ جب ہی ایک شخص نے مانگ لی اور اس کو مرحمت فرمادی۔ قرض لے کر ضرورت مندوں کی ضرورت کو پورا کرنا اور قرض خواہ کے سخت تقاضے کے وقت کہیں سے اگر کچھ آگیا اور ادائے قرض کے بعد بچ گیا تو جب تک وہ تقسیم نہ ہوجائے گھر نہ جانا ایسے مشہور واقعات اتنی کثرت سے ہیں کہ ان کا احاطہ ہو ہی نہیں سکتا) بالخصوص رمضان المبارک میں تمام مہینہ اخیر تک بہت ہی فیاض رہتے ( کہ خود حضور ﷺ کی گیارہ مہینے کی فیاضی بھی اس مہینے کی فیاضی کے برابر نہ ہوتی تھی) اور اس مہینہ میں بھی جس وقت حضرت جبرائیل (علیہ السلام) تشریف لا کر آپ ﷺ کو کلام اللہ شریف سناتے اس وقت آپ ﷺ بھلائی اور نفع پہنچانے میں تیز بارش لانے والی ہوا سے بھی زیادہ سخاوت فرماتے تھے۔
حضور ﷺ کے اخلاق وعادات میں
حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ دوسرے دن کے لئے کسی چیز کو ذخیرہ بنا کر نہیں رکھتے تھے۔
حضور ﷺ کے اخلاق وعادات میں
حضرت عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ کسی ضرورت مند نے حضور اقدس ﷺ سے کچھ سوال کیا، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میرے پاس تو اس وقت کچھ موجود نہیں ہے۔ تم میرے نام سے خرید لو جب کچھ آجائے گا تو میں ادا کردوں گا۔ حضرت عمر (رض) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ کے پاس جو کچھ تھا آپ ﷺ دے چکے ہیں (اور جو چیز آپ ﷺ کی قدرت میں نہیں ہے اس کا حق تعالیٰ شانہ نے آپ ﷺ کو مکلف نہیں بنایا) ۔ حضرت عمر (رض) کا یہ مقولہ نا گوار گزرا تو ایک انصاری صحابی (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ جس قدر جی چاہے خرچ کیجئے اور عرش کے مالک سے کمی کا اندیشہ نہ کیجئے (کہ جو ذات پاک عرش بریں کی مالک ہے اس کے یہاں آپ ﷺ کو دینے کیا کمی ہوسکتی ہے) ۔ حضور اکرم ﷺ کو انصاری کا یہ کہنا بہت پسند آیا اور حضور اکرم ﷺ نے تبسم فرمایا جس کا اثر چہرہ انور پر ظاہر ہوتا تھا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ حق تعالیٰ شانہ نے مجھے اس کا حکم فرمایا ہے۔
حضور ﷺ کے اخلاق وعادات میں
ربیع کہتی ہیں کہ میں ایک طباق کھجوروں کا اور کچھ چھوٹی چھوٹی پتلی پتلی ککڑیاں لے کر حاضر خدمت ہوئی تو حضور ﷺ نے مجھے اپنا دست مبارک بھر کر سونا اور زیور مرحمت فرمایا۔
حضور ﷺ کے اخلاق وعادات میں
حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ حضور اقدس ﷺ ہدیہ قبول فرماتے تھے اور اس پر بدلہ بھی دیا کرتے تھے۔