10. کتاب المعاملات والمعاشرت
ماں باپ کی ابتدائی ذمہ داریاں: نو مولود بچہ کے کان میں اذان
رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو (اپنے نواسے حسن بن علی کے کان میں نماز والی اذان پڑھتے ہوئے دیکھا(جب آپ ﷺ کی صاحبزادی) فاطمہؓ کے ہاں ان کی ولادت ہوئی ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد) تشریح بسم اللہ الرحمن الرحیم خاتم النبیین سیدنا حضرت محمد ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کا یہ امتیاز ہے کہ اس میں انسانی زندگی کے تمام شعبوں کے متعلق واضح ہدایات دی گئی ہیں ۔ اس سلسلہ معارف الحدیث کی اس سے پہلی پانچ جلدوں میں رسول اللہ ﷺ کی جو احادیث اور آپ ﷺ کے جو ارشادات مرتب کر کے پیش کئے جا چکے ہیں ان کا تعلق یا عقائد و ایمانیات سے تھا یا اخلاق و جذبات اور قلب و روح کی کیفیات سے یا طہارت اور نماز ، روزہ ، حج و زکوٰۃ و عبادات اور اذکار و دعوات سے ۔ اب ان احادیث کا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے جن کا تعلق معاشرتی حقوق اور آداب اور معاشی معاملات سے ہے اور جن سے معلوم ہو گا کہ ہم اپنے ابناء جنس اور عزیزوں ، قریبوں چھوٹوں اور بڑوں ، اپنوں اور پرایوں کے ساتھ ، جن سے زندگی میں ہمارا واسطہ پڑتا ہے کس طرح پیش آئیں ، کیسا برتاؤ کریں اور کس کے کس پر کیا حقوق ہیں اور لین دین ، خرید و فروخت ، قرض و امانت ، تجارت و زراعت ، مزدوری و دستکاری ، کارخانہ داری و کرایہ داری اور اسی طرح دوسرے معاشی مشغلوں کے بارے میں اللہ و رسول کے کیا احکام ہیں اور ان کی کون سی شکلیں جائز اور کون سی ناجائز ہیں ۔ معاشرت و معاملات کی خصوصی اہمیت یہ دونوں باب (معاشرت و معاملات) اس لحاظ سے شریعت کے نہایت اہم ابواب ہیں کہ ان میں ہدایتِ ربانی اور خواہشاتِ نفسانی اور احکام شریعت اور دنیوی مصلحت و منفعت کی کشمکش ، عبادات وغیرہ دوسرے تمام ابواب سے زیادہ ہوتی ہے اس لئے اللہ کی بندگی و فرمانبرداری اور اس کے رسول ﷺ اور اس کی شریعت کی تابعداری کا جیسا امتحان ان میدانوں میں ہوتا ہے دوسرے کسی میدان میں نہیں ہوتا ۔ اور یہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے بنی آدم کو فرشتوں پر نوعی فضیلت حاصل ہوئی ، ورنہ ظاہر ہے کہ ایمان و یقین اور ہمہ وقتی ذکر و عبادت اور روح کی لطافت و طہارت میں انسان فرشتوں کی برابری بھی نہیں کر سکتا ۔ معاشرت سے متعلق احکام و ہدایات اس تمہید کے بعد ہم پہلے معاشرت کے سلسلہ کی حدیثیں پیش کرتے ہیں ۔ نکاح و طلاق اور عدت و نفقہ وغیرہ سے متعلق اھادیث بھی اس ضمن میں درج ہوں گی ۔ معاشرتی احکام و ہدایات کا سلسلہ بچے کی پیدائش ہی سے شروع ہو جاتا ہے ۔ اس لئے ہم انہی حدیثوں سے اس سلسلہ کا آغاز کر رہے ہیں جن میں پیدائشی ہی کے سلسلہ میں ہدایات دی گئی ہیں اور بتلایا گیا ہے کہ پیدا ہونے ولاے بچے کے بارے میں ماں باپ کی ذمہ داریاں کیا ہیں ۔ تشریح ..... حضرت ابو رافعؓ کی اس حدیث میں حضرت حسنؓ کے کان میں صرف اذان پڑھنے کا ذکر ہے لیکن ایک دوسری حدیث سے جو “کنز العمال” میں مسند ابو یعلی موصلی کی تخریج سے حضرت حسین بن علی (رضی اللہ عنہما) سے روایت کی گئی ہے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے نومولود بچہ کے داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت پڑھنے کی تعلیم و ترغیب دی ، اور اس برکت اور تاثیر کا بھی ذکر فرمایا کہ اس کی وجہ سے بچہ ام الصبیان کے ضرر سے محفوظ رہے گا (جو شیطانی اثرات سے بھی ہوتا ہے) ۔ ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ نومولود بچہ کا پہلا حق گھر والوں پر یہ ہے کہ سب سے پہلے اس کے کانوں کو اور کانوں کے ذریعہ اس کے دل و دماغ کو اللہ کے نام اور اس کی توحید اور ایمان و نماز کی دعوت و پکار سے آشنا کریں ۔ اس کا بہتر سے بہتر طریقہ یہی ہو سکتا ہے کہ اس کے کانوں میں اذان و اقامت پڑھی جائے ۔ اذان و اقامت میں دین حق کی بنیادی تعلیم اور دعوت نہایت مؤثر طریقے سے دی گئی ہے نیز ان دونوں کی یہ تاثیر اور خاصیت بہت سی احادیث میں بیان کی گئی ہے کہ اس سے شیطان بھاگتا ہے اس لئے بچہ کی حفاظت کی بھی یہ ایک تدبیر ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے پیدائش کے وقت نومولود مسلمان بچے کے کان میں اذان و اقامت پڑھنے کی تعلیم دی ، اور جب عمر پوری کرنے کے بعد اس کو موت آ جائے تو غسل دے کر اور کفنا کر اس پر نماز جنازہ پڑھنے کی ہدایت فرمائی ۔ اس طرح یہ بتلا دیا اور جتلا دیا کہ مؤمن کی زندگی اذان اور نماز کے درمیان کی زندگی ہے اور بس اس طرح گزرنی چاہئے جس طرح اذان کے بعد نماز کے انتظار اور اس کی تیاری میں گزرتی ہے ۔ نیز یہ کہ مسلمان بچے کا پہلا حق یہ ہے کہ پیدائش کے ساتھ ہی اس کے کان میں اذان دی جائے اور آخری حق یہ ہے کہ اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے ۔
تحنیک اور دعائے برکت
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا کرتے تھے آپ ﷺ ان کے لئے خیر و برکت کی دعا فرماتے تھے اور تحنیک فرماتے تھے ۔ (صحیح مسلم) تشریح رسول اللہ ﷺ کی معرفت اور صحبت کے نتیجہ میں صحابہ کرامؓ کو آپ ﷺ کے ساتھ عقیدت کا جو تعلق تھا اس کا ایک ظہور یہ بھی تھا کہ نومولود بچے آپ ﷺ کی خدمت میں لائے جاتے تھے تا کہ آپ ﷺ ان کے لئے خیر و برکت کی دعا فرمائیں اور کھجور یا ایسی ہی کوئی چیز چبا کر بچے کے تالو پر مل دیں اور اپنا لعاب دہن اس کے منہ میں ڈال دیں جو خیر و برکت کا باعث ہو ۔ اس عمل کو تحنیک کہتے ہیں ۔
تحنیک اور دعائے برکت
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ ہجرت سے پہلے مکہ میں حمل سے تھیں جب ہجرت کر کے مدینہ آئیں تو قباء میں ان کی ولادت ہوئی اور عبداللہ بن زبیر پیدا ہوئے کہتی ہیں کہ میں بچے کو لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور میں نے اس کو آپ ﷺ کی گود میں رکھ دیا ۔ آپ ﷺ نے چھوہارا منگوایا اور اس کو چبایا پھر اپنا لعاب دہن اس کے منہ میں دالا اور پھر اس کے تالو پر ملا ، پھر اس کے لئے دعا کی اور برکت سے نوازا ، اور یہ اسلام میں پہلا بچہ تھا (جو ہجرت کے بعد ایک مہاجر کے گھر پیدا ہوا) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح صحیح بخاری کی اس حدیث کی ایک روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے پیدا ہونے سے مسلمانوں کو خاص کر اس لئے بہت زیادہ خوشی ہوئی تھی کہ یہ بات مشہور ہو گئی تھی کہ یہودیوں نے مسلمانوں پر ایسا جادو کر دیا ہے کہ ان کے بچے پیدا ہی نہ ہوں گے ۔ عبداللہ بن زبیرؓ کی پیدائش نے اس کو غلط ثابت کر دیا اور مسلمانوں کے جو دشمن یہ جادو والی بات مشہور کر رہے تھے وہ ذلیل ہوئے ۔ کتب حدیث میں “تحنیک” کے بہت سے واقعات مروی ہیں ۔ ان سے معلوم ہوا کہ جب کسی گھرانے میں بچہ پیدا ہو تو چاہئے کہ اللہ کے کسی مقبول اور صالح بندے کے پاس اس کو لے جائیں ، اس کے لئے خیر و برکت کی دعائیں بھی کرائیں اور “تحنیک” بھی کرائیں ۔ یہ ان سنتوں میں سے ہے جن کا رواج بہت ہی کم رہ گیا ہے ۔
عقیقہ
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ہم لوگوں کا یہ دستور تھا کہ جب کسی کے لڑکا پیدا ہوتا و وہ بکری یا بکرا ذبح کرتا اور اس کے خون سے بچے کے سر کو رنگ دیتا ، پھر جب اسلام آیا تو (رسول اللہ ﷺ کی تعلیم و ہدایت کے مطابق) ہمارا طریقہ یہ ہو گیا کہ ہم ساتویں دن عقیقہ کی بکری یا بکرے کی قربانی کرتے اور بچے کا سر صاف کرا کے اس کے سر پر زعفران لگا دیتے ہیں ۔ (سنن ابی داؤد) اور اسی حدیث کی رزین کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ ساتویں دن عقیقہ کے ساتھ ہم بچے کا نام بھی رکھتے ہیں ۔ تشریح دنیا کی قریب قریب سب ہی قوموں اور ملتوں میں یہ بات مشترکہ ہے بچہ پیدا ہونے کو ایک نعمت اور خوشی کی بات سمجھا جاتا ہے اور کسی تقریب کے ذریعہ اس خوشی کا اظہار بھی کیا جاتا ہے ۔ یہ انسانی فطرت کا تقاضا بھی ہے اور اس میں ایک بڑی مصلحت یہ ہے کہ اس سے نہایت لطیف اور خوبصورت طریقے پر یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ باپ اس بچے کو اپنا ہی بچہ سمجھتا ہے ، اور اس بارے میں اس کو اپنی بیوی پر کوئی شک و شبہ نہیں ہے ۔ اس سے بہت سے فتنوں کا دروازہ بند ہو جاتا ہے ۔ عربوں میں اس کے لئے جاہلیت میں بھی عقیقہ کارواج تھا ۔ دستور یہ تھا کہ پیدائش کے چند روز بعد نومولود بچے کے سر کے وہ بال جو وہ ماں کے پیٹ سے لے کے پیدا ہوا ہے صاف کرا دئیے جاتے اور اس دن خوشی میں کسی جانور کی قربانی کی جاتی (جو ملتِ ابراہیمیؑ کی نشانیوں میں سے ہے) رسول اللہ ﷺ نے اصولی طور پر اس کو باقی رکھتے ہوئے بلکہ اس کی ترغیب دیتے ہوئے اس کے بارے میں مناسب ہدایات دیں اور خود عقیقے کر کے عملی نمونہ بھی پیش فرمایا ۔
عقیقہ
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا یہ دستور تھا کہ جب وہ بچے کا عقیقہ کرتے تو روئی کے ایک پھوئے میں عقیقہ کے جانور کا خون بھر لیتے ، پھر جب بچے کا سر منڈوا دیتے تو وہ خون بھرا پھویا اس کے سر پر رکھ دیتے (اور اس کے سر کو عقیقہ کے خون سے رنگین کر دیتے ، یہ ایک جاہلانہ رسم تھی) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ :“بچے کے سر پر خون نہیں بلکہ اس کی جگہ خلوق لگایا کرو”۔ (صحیح حبان) تشریح خلوق ایک مرکب خوشبو کا نام ہے جو زعفران وغیرہ سے تیار کی جاتی ہے ۔ حضرت بریدہ اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما کی ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ عقیقہ کا رواج عربوں میں زمانہ جاہلیت میں بھی تھا چونکہ اس میں بہت سی مصلحتیں تھیں جن کی طرف اوپر اشارہ کیا جا چکا ہے ، اور یہ بنیادی طور پر شریعت اسلامی کے مزاج کے مطابق تھا ، اور غالباً مناسکِ حج کی طرح ملتِ ابراہیمی کے بقایا میں سے تھا اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس کی اصل کو باقی رکھا اور جاہلانہ رسوم کی اصلاح فرمائی ۔ اسی طرح بیہقی کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ عقیقہ کا رواج یہود میں بھی تھا لیکن وہ صرف لڑکوں کی طرف سے عقیقہ کی قربانی کرتے تھے لڑکیوں کی طرف سے نہیں کرتے تھے جس کی وجہ سے غالباً لڑکیوں کی ناقدری تھی ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی بھی اصلاح فرمائی اور حکم دیا کہ لڑکوں کی طرح لڑکیوں کی طرف سے بھی عقیقہ کیا جائے ۔ (1) البتہ دونوں صنفوں میں قدرتی اور فطری فرق ہے (جس کا لحاظ میراث اور قانونِ شہادت وغیرہ میں بھی کیا گیا ہے) اس کی بناء پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ لڑکی کے عقیقہ میں ایک بکری اور لڑکے کے عقیقہ میں (اگر استطاعت اور وسعت ہو) تو دو بکریوں کی قربانی کی جائے ۔
عقیقہ
ام کرز رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ (عقیقہ کے بارے میں) فرما رہے تھے کہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں کی جائیں اور لڑکی طرف سے ایک بکری اور اس میں کوئی حرج نہیں کہ عقیقہ کے جانور نر ہوں یا مادہ ۔ (جامع ترمذی ، سنن نسائی)
عقیقہ
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کے بچہ پیدا ہوا اور وہ اس کی طرف سے عقیقہ کی قربانی کرنا چاہے تو لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرے ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن نسائی) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عقیقہ فرائض و واجبات کی طرح کوئی لازمی چیز نہیں ہے ، بلکہ اس کا درجہ استحباب کا ہے جیسا کہ حدیث کے خط کشیدہ الفاظ سے معلوم ہوتا ہے ۔ واللہ اعلم ۔ اسی طرح لڑکے کے عقیقہ میں دو بکریاں کرنا بھی کچھ ضروری نہیں ہے ، ہاں اگر وسعت ہو تو دو کی قربانی بہتر ہے ورنہ ایک بھی کافی ہے ۔ آگے درج ہونے والی ایک حدیث سے معلوم ہو گا کہ خود رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے عقیقہ میں ایک ایک ہی بکری کی قربانی کی تھی ۔
عقیقہ
حضرت حسن بصری نے حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر بچہ اپنے عقیقہ کے جانور کے عوض رہن ہوتا ہے جو ساتویں دن اس کی طرف سے قربانی کیا جائے اور اس کا سر منڈوا دیا جائے اور نام رکھا جائے ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی ، سنن نسائی) تشریح عقیقہ کے جانور کے عوض بچے کے رہن ہونے کے شارحین نے کئی مطلب بیان کئے ہیں ۔ اس عاجز کے نزدیک دل کو زیادہ لگنے والی بات یہ ہے کہ بچہ اللہ تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت ہے اور صاحب استطاعت کے لئے عقیقہ کی قربانی اس کا شکرانہ اور گویا اس کا فدیہ ہے ۔ جب تک یہ شکریہ پیش پیش نہ کیا جائے اور فدیہ ادا نہ کر دیا جائے وہ بار باقی رہے گا اور گویا بچہ اس کے عوض رہن رہے گا ۔ پیدائش ہی کے دن عقیقہ کرنے کا حکم غالبا اس لئے نہیں دیا گیا کہ اس وقت گھر والوں کو زچہ کی دیکھ بھال کی فکر ہوتی ہے علاوہ ازیں اسی دن بچے کا سر صاف کرا دینے میں طبی اصول پر ضرر کا بھی خطرہ ہے ۔ ایک ہفتہ کی مدت ایسی ہے کہ اس میں زچہ بھی عموماً ٹھیک ہو جاتی ہے اور بچہ بھی سات دن تک اس دنیا کی ہوا کھا کے ایسا ہو جاتا ہے کہ اس کا سر صاف کرا دینے میں ضرر کا خطرہ نہیں رہتا ۔ واللہ اعلم ۔ اس حدیث سے اور بعض دوسری احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عقیقہ کے ساتھ ساتویں دن بچے کا نام بھی رکھا جائے ۔ لیکن بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بعض بچوں کا نام پیدائش کے دن ہی رکھ دیا تھا اس لئے ساتویں دن سے پہلے نام رکھ دینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے ، ہاں اگر پہلے نام نہ رکھا گیا ہو تو ساتویں دن عقیقہ کے ساتھ بھی نام رکھ دیا جائے ۔ جن حدیثوں میں ساتویں دن عقیقہ کے ساتھ نام رکھنے کا ذکر ہے ان کا مطلب یہی سمجھنا چاہئے ۔
عقیقہ
حضرت سلمان بن عامر الضبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بچے کے ساتھ عقیقہ ہے (یعنی اللہ تعالیٰ جس کو بچہ عطا فرمائے وہ عقیقہ کرے) لہذا بچے کی طرف سے قربانی کرو اور اس کا سر صاف کرا دو ۔ (صحیح بخاری) تشریح عقیقہ میں جیسا کہ ان حدیثوں سے ظاہر ہے دو ہی کام ہوتے ہیں ۔ ایک بچے کا سر منڈوا دینا اور دوسرا اس کی طرف سے شکرانہ اور فدیہ کے طور پر جانور قربان کر دینا ۔ ان دونوں عملوں میں ایک خاص ربط اور مناسبت ہے اور یہ ملت ابراہیمیؑ کے شعائر میں سے ہیں ۔ حج میں بھی ان دونوں کا اسی طرح جوڑ ہے اور حاجی قربانی کرنے کے بعد سر صاف کراتا ہے ۔ اس لحاظ سے عقیقہ عملی طور پر اس کا بھی اعلان ہے کہ ہمارا رابطہ اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہے اور یہ بچہ بھی ملت ابراہیمیؑ کا ایک فرد ہے ۔
عقیقہ
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (اپنے نواسوں) حسن اور حسینؓ کا عقیقہ کیا اور ایک ایک مینڈھا ذبح کیا ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے عقیقہ میں رسول اللہ ﷺ نے صرف ایک ایک مینڈھے کی قربانی غالبا اس لئے کی کہ اس وقت اتنی وسعت تھی ۔ اور اس طرح ان لوگوں کے لئے جن کو زیادہ وسعت حاصل نہ ہو ایک نظیر بھی قائم ہو گئی ۔ اس حدیث کی بعض روایات میں بجائے ایک ایک مینڈھے کے دو دو مینڈھوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے ۔ لیکن محدثین کے نزدیک سنن ابی داؤد کی یہی روایت قابلِ ترجیح ہے جس میں ایک ایک مینڈھے کا ذکر کیا گیا ہے ۔
عقیقہ
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حسن کے عقیقہ میں ایک بکری کی قربانی کی اور آپ ﷺ نے (اپنی صاحبزادی سیدہ) فاطمہؓ سے فرمایا کہ اس کا سر صاف کر دو اور بالوں کے وزن بھر چاندی صدقہ کر دو ہم نے وزن کیا تو ایک درہم کے برابر یا اس سے بھی کچھ کم تھے ۔ (جامع ترمذی) تشریح اس حدیث میں عقیقہ کے سلسلے میں قربانی کے علاوہ بچے کے بالوں کے وزن بھر چاندی صدقہ کرنے کا بھی ذکر ہے ، یہ بھی مستحب ہے ۔ اس حدیث کے بیان کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے صاحبزادہ حسنؓ کے بالوں کے وزن بھر چاندی صدقہ کرنے کا حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جو حکم دیا تھا بعض حضرات نے اس کی توجیہ یہ کی ہے کہ حضرت حسنؓ کی پیدائش کے دنوں میں ان کے ماں باپ (حضرت فاطمہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما) کے ہاں اتنی وسعت نہیں تھی کہ وہ عقیقہ کی قربانی کر سکتے ، اس لئے رسول اللہ ﷺ نے بکری کی قربانی تو اپنی طرف سے کر دی ، لیکن حضرت فاطمہؓ سے فرما دیا کہ بچے کے بالوں کے وزن بھر چاندی وہ صدقہ کر دیں ، تا کہ ان کی طرف سے بھی کچھ شکرانہ صدقے کی شکل میں اللہ کے حضور میں گزر جائے ۔
تسمیہ (نام رکھنا)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : باپ پر بچے کا یہ بھی حق ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے اور اس کو حسن ادب سے آراستہ کرے ۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح بچے کا اچھا نام رکھنا بھی ایک حق ہے ۔ احادیث نبویﷺ میں اس بارے میں بھی واضح ہدایات وارد ہوئی ہیں ۔
تسمیہ (نام رکھنا)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : آدمی اپنے بچے کو سب سے پہلا تحفہ نام کا دیتا ہے اس لئے چاہئے کہ اس کا نام اچھا رکھے ۔ (ابو الشیخ)
تسمیہ (نام رکھنا)
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : قیامت کے دن تم اپنے اور اپنے آباء کے نام کے ساتھ پکارے جاؤ گے (یعنی پکارا جائے گا فلاں بن فلاں) لہذا تم اچھے نام رکھا کرو ۔ (مسند احمد ، سنن ابی داؤد)
تسمیہ (نام رکھنا)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : تمہارے ناموں میں اللہ کو سب سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں ۔ (صحیح مسلم) تشریح عبداللہ اور عبدالرحمن کے زیادہ پسندیدہ ہونے کی وجہ ظاہر ہے اس میں بندے کی عبدیت کا اعلان ہے اور وہ چیز اللہ کو پسند ہے ۔ اسی طرح انبیاء علیہم السلام کے نام بھی پسندیدہ ناموں میں سے ہیں وہ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ نسبت کو ظاہر کرتے ہیں ۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صاحبزادے کا نام ابراہیم رکھا تھا ۔ اور سنن ابی داؤد وغیرہ میں آپ ﷺ کا یہ ارشاد بھی مروی ہے : “سَمُّوْا بِاَسْمَاءِ الْاَنْبِيَاء” (یعنی پیغمبروں کے نام پہ نام رکھو) اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے بعض بچوں کے نام ایسے رکھے جو معنوی لحاظ سے اچھے ہیں ، اگرچہ وہ پیغمبروں کے معروف ناموں میں سے نہیں ہیں مثلاً اپنے نواسوں کا نام حسن اور حسین رکھا ، اور ایک انصاری صحابی کے بچے کا نام مُنذِر رکھا ۔ الغرض اس باب میں رسول اللہ ﷺ کے طرز عمل اور آپ کے ارشادات سے یہی رہنمائی ملتی ہے کہ باپ کی ذمہ داری ہے کہ بچے کا اچھا نام رکھے یا اپنے کسی بزرگ سے رکھوائے ۔
حسنِ ادب اور دینی تربیت
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنے بچوں کی زبان سے سب سے پہلے “لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ” کہلواؤ ، اور موت کے وقت ان کو اسی کلمہ “لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ” کی تلقین کرو ۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح اللہ کے سارے پیغمبروں نے اور ان سب کے آخر میں ان کے خاتم سیدنا حضرت محمدﷺ نے اس چند روزہ دنیوی زندگی کے بارے میں یہی بتایا ہے کہ یہ دراصل آنے والی اس اخروی زندگی کی تمہید اور اس کی تیاری کے لئے ہے جو اصل اور حقیقی زندگی ہے اور جو کبھی ختم نہ ہو گی ۔ اس نقطہ نظر کا قدرتی اور لازمی تقاضا ہے کہ دنیا کے سارے مسئلوں سے زیادہ آخرت کو بنانے اور وہاں فوز و فلاح حاصل کرنے کی فکر کی جائے ، اس لئے رسول اللہ ﷺ نے ہر صاحبِ اولاد پر اس کی اولاد کا یہ حق بتایا ہے کہ وہ بالکل شروع ہی سے اس کی دینی تعلیم و تربیت کی فکر کرے ، اگر وہ اس میں کوتاہی کرے گا تو قصوروار ہو گا ۔ اس سلسلہ کی چند حدیثیں ذیل میں پڑھئے : انسانی ذہن کی صلاحیتوں کے بارے میں جدید تجربات اور تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے اور اب گویا تسلیم کر لی گئی ہے کہ پیدائش کے وقت ہی سے بچے کے ذہن میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ جو آوازیں وہ کان سے سنے اور آنکھوں سے جو کچھ دیکھے اس سے اثر لے ، اور وہ اثر لیتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے پیدا ہونے کے بعد یہ بچے کے کان میں (خاص کان میں) اذان و اقامت پڑھنے کی جو ہدایت فرمائی ہے (جیسا کہ حضرت ابو رافع اور حضرت حسین بن علی کی متذکرہ بالا روایات سے معلوم ہو چکا ہے) اس سے بھی یہ صاف اشارہ ملتا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس کی اس حدیث میں ہدایت فرمائی گئی ہے کہ بچے کی زبان جب بولنے کے لئے کھلنے لگے تو سب سے پہلے اس کو کلمہ “لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ” کی تلقین کی جائے اور اسی سے زبانی تعلیم و تلقین کا افتتاح ہو ۔ آگے بھی یہ ہدایت فرمائی گئی کہ جب آدمی کا وقتِ آخر آئے تو اس وقت بھی اس کو اسی کلمہ کی تلقین کی جائے ۔ بڑا خوش نصیب ہے اللہ کا وہ بندہ جس کی زبان سے دنیا میں آنے کے بعد سب سے پہلے یہی کلمہ نکلے اور دنیا سے جاتے وقت یہی اس کا آخری کلمہ ہو ۔ اللہ تعالیٰ نصیب فرمائے ۔
حسنِ ادب اور دینی تربیت
حضرت سعید بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : کسی باپ نے اپنی اولاد کو کوئی عطیہ اور تحفہ حسن ادب اور اچھی سیرت سے بہتر نہیں دیا ۔ (جامع ترمذی) تشریح یعنی باپ کی طرف سے اولاد کے لئے سب سے اعلیٰ اور بیش بہا تحفہ یہی ہے کہ ان کی ایسی تربیت کرے کہ وہ شائستگی اور اچھے اخلاق و سیرت کے حامل ہوں ۔
حسنِ ادب اور دینی تربیت
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : اپنی اولاد کا اکرام کرو ، اور (اچھی تربیت کے ذریعہ) ان کو حسنِ ادب سے آراستہ کرو ۔ (سنن ابن ماجہ) تشریح اولاد کا اکرام یہ ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ کا عطیہ اور اس کی امانت سمجھ کر ان کی قدر اور ان کا لحاظ کیا جائے حسبِ استطاعت ان کی ضروریات حیات کا بندوبست کیا جائے ۔ ان کو بوجھ اور مصیبت نہ سمجھا جائے ۔
حسنِ ادب اور دینی تربیت
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارے بچے جب سات سال کے ہو جائیں تو ان کو نماز کی تاکید کرو اور جب دس سال کے ہو جائیں تو نماز مین کوتاہی کرنے پر ان کو سزا دو اور ان کے بستر بھی الگ کر دو ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح عام طور سے بچے سات سال کی عمر میں سمجھدار اور باشعور ہو جاتے ہین ، اس وقت سے ان کو خدا پرستی کے راستے پر ڈالنا چاہئے ، اور اس کے لے ان سے نماز کی پابندی کرانی چاہئے ۔ دس سال کی عمر میں ان کا شعور کافی ترقی کر جاتا ہے اور بلوغ کا زمانہ قریب آ جاتا ہے ، اس وقت نماز کے بارے میں ان پر سختی کرنی چاہئے اور اگر وہ کوتاہی کریں تو مناسب طور پر ان کو سرزنش بھی کرنی چاہئے ۔ نیز اس دعمر کو پہنچ جانے پر ان کو الگ الگ سلانا چاہئے ۔ ایک ساتھ اور ایک بستر پر نہ سلانا چاہئے (دس سال سے پہلے اس کی گنجائش ہے) ۔ حدیث کا مدعا یہ ہے کہ ماں باپ پر یہ سب اولاد کے حقوق ہیں ، لڑکوں کے بھی اور لڑکیوں کے بھی اور قیامت کے دن ان سب کے بارے میں باز پرس ہو گی ۔
خاص کر لڑکیوں کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص کے ہاں لڑکی پیدا ہو ، پھر وہ نہ تو اسے کوئی ایذاء پہنچائے اور نہ اس کی توہین اور ناقدری کرے ، اور نہ محبت اور برتاؤ میں لڑکوں کو اس پر ترجیح دے (یعنی اس کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرے جیسا کہ لڑکوں کے ساتھ کرتا ہے) تو اللہ تعالیٰ لڑکی کے ساتھ اس حسنِ سلوک کے صلے میں اس کو جنت عطا فرمائے گا ۔ (مسند احمد ، مستدرک حاکم) تشریح آج تک بھی بہت سے علاقوں میں لڑکی کو ایک بوجھ اور مصیبت سمجھا جاتا ہے ، اور اس کے پیدا ہونے پر گھر میں بجائے خوشی کے افسردگی اور غمی کی فضاء ہو جاتی ہے ۔ یہ حالت تو آج ہے لیکن اسلام سے پہلے عربوں میں تو بےچاری لڑکی کو باعث ننگ و عار تصور کیا جاتا تھا اور اس کا یہ حق بھی نہیں سمجھا جاتا تھا کہ اس کو زندہ ہی رہنے دیا جائے ۔ بہت سے شقی القلب خود اپنے ہاتھوں سے اپنی بچی کا گلا گھونٹ کر اس کا خاتمہ کر دیتے تھے ، یا اس کو زندہ زمین میں دفن کر دیتے تھے ۔ ان کا یہ حال قرآن مجید میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے : وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُم بِالْأُنثَىٰ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ ﴿٥٨﴾ يَتَوَارَىٰ مِنَ الْقَوْمِ مِن سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ ۚأَيُمْسِكُهُ عَلَىٰ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ (النحل 59:16) جب ان میں سے کسی کو لڑکی پیدا ہونے کی خبر سنائی جاتی ہے تو وہ دل مسوس کر رہ جاتا ہے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے ، ان کو منہ نہیں دکھانا چاہتا ، اس برائی کی وجہ سے جس کی اسے خبر ملی ہے ، سوچتا ہے کیا اس نومولود بچی کو ذلت کے ساتھ باقی رکھے یا اس کو کہیں لے جا کر مٹی میں دبا دے ۔ یہ تھا لڑکیوں کے بارے میں ان عربوں کا ظالمانہ رویہ جن میں رسول اللہ ﷺ مبعوث ہوئے ۔ اس فضا اور اس پس منظر کو پیش نظر رکھ کے اس بارے میں رسول اللہ ﷺ کے مندرجہ ذیل ارشادات پرھئے :
خاص کر لڑکیوں کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس بندے یا بندی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیٹیوں کی ذمہ داری ڈالی گئی (اور اس نے اس ذمہ داری کو ادا کیا) اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا ، تو یہ بیٹیاں اس کے لئے دوزخ سے بچاؤ کا سامان بن جائیں گی ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حضرت صدیقہؓ کی اسی حدیث کی ایک روایت میں وہ واقعہ بھی بیان کیا گیا ہے جس کے سلسلہ میں رسول اللہ ﷺ نے یہ حدیث ارشاد فرمائی تھی ۔ اور وہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک نہایت غریب عورت کچھ مانگنے کے لئے آئی ، اس کے ساتھ اس کی دو بچیاں بھی تھیں ، اتفاق سے ان کے پاس اس وقت صرف ایک کھجور تھی ۔ حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ میں نے وہی کھجور اسی بےچاری کو دے دی ۔ اس نے اس ایک کھجور کے دو ٹکڑے کر کے دونوں بچیوں میں تقسیم کر دئیے ، اور خود اس میں سے کچھ بھی نہیں لیا اور چلی گئی ۔ کچھ دیر کے بعد رسول اللہ ﷺ گھر میں تشریف لائے تو میں نے آپ سے یہ واقعہ بیان کیا ۔ اس پر اپﷺ نے فرمایا کہ : جس بندے یا بندی پر بیٹیوں کی ذمہ داری پڑے ، اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے ، تو یہ بیٹیاں آخرت میں اس کی نجات کا سامان بنیں گی ۔ مطلب یہ ہے کہ یہ آدمی اگر بالفرض اپنے کچھ گناہوں کی وجہ سے سزا اور عذاب کے قابل ہو گا تو لڑکیوں کے ساتھ حسن سلوک کے صلہ میں اس کی مغفرت فرما دی جائے گی اور وہ دوزخ سے بچا دیا جائے گا ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ایک دوسری روایت میں جس کو امام مسلم نے روایت کیا ہے ۔ واقعہ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ایک بےچاری مسکین عورت اپنی دو بچیوں کو گود میں لئے ان کے پاس آئی اور سوال کیا ، تو حضرت عائشہؓ نے اس کو تین کھجوریں دیں ، اس نے ایک ایک دونوں بچیوں کو دے دی ، اور ایک خود کھانے کے لئے اپنے منہ میں رکھنے لگی ، بچیوں نے اس تیسری کھجور کو بھی مانگا تو اس نے خود نہیں کھائی ، بلکہ وہ بھی آدھی آدھی کر کے دونوں بچیوں کو دے دی ۔ حضرت عائشہؓ اس کے اس طرز عمل سے بہت متاثر ہوئیں اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ : “اللہ تعالیٰ نے اس عورت کے اسی عمل کی وجہ سے اس کے لئے جنت کا اور دوزخ سے رہائی کا فیصلہ فرما دیا ” ۔ ہو سکتا ہے کہ حضرت صدیقہ کے ساتھ یہ دونوں واقعے الگ الگ پیش آئے ہوں ، اور یہ بھی ممکن ہے کہ واقعہ ایک ہی ہو اور راویوں کے بیان میں اختلاف ہو گیا ہو ۔
خاص کر لڑکیوں کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جو بندہ دو لڑکیوں کا بار اٹھائے اور ان کی پرورش کرے ، یہاں تک کہ وہ سنِ بلوغ کو پہنچ جائیں تو وہ اور میں قیامت کے دن اس طرح ساتھ ہوں گے ۔ راوی حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ کی انگلیوں کو بالکل ملا کر دکھایا ۔ (یعنی یہ کہ جس طرح یہ انگلیاں ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں ، اسی طرح میں اور وہ شخص بالکل ساتھ ہوں گے) ۔ (صحیح مسلم)
خاص کر لڑکیوں کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس بندے نے تین بیٹیوں یا تین بہنوں یا دو ہی بیٹیوں یا بہنوں کا بار اٹھایا اور ان کی اچھی تربیت کی اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور پھر ان کا نکاح بھی کر دیا تو اللہ تعالیی کی طرف سے اس بندے کے لئے جنت کا فیصلہ ہے ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی) تشریح ان حدیثوں میں رسول اللہ ﷺ نے حسن سلوک کو لڑکیوں کا صرف حق ہی نہیں بتلایا بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر داخلہ جنت اور عذاب دوزخ سے نجات کا آپ نے اعلان فرمایا ، اور یہ انتہائی خوش خبری سنائی کہ لڑکیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والے اہل ایمان قیامت میں اس طرح میرے قریب اور بالکل میرے ساتھ ہوں گے جس طرح ایک ہاتھ کی باہم ملی ہوئی انگلیاں ساتھ ہوتی ہیں ۔
داد و دہش میں مساوات و برابری بھی اولاد کا حق ہے
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے والد مجھے لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے (بعض روایات میں ہے کہ گود میں لے کر حاضر ہوئے) اور عرض کیا کہ میں نے اس بیٹے کو ایک غلام ہبہ کر دیا ہے ۔ بعض روایات میں بجائے غلام کے باغ ہبہ کرنے کا ذکر ہے ، بہرحال آنحضرتﷺ نے ان سے پوچھا : کیا تم نے اپنے سب بچوں کو اتنا ہی اتنا دیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ : نہیں (اوروں کو تو نہیں دیا ، صرف اسی لڑکے نعمان کو دیا ہے) آپ ﷺ نے فرمایا : پھر یہ تو ٹھیک نہیں اور فرمایا کہ : اس کو واپس لے لو ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ : کیا تم یہ چاہتے ہو کہ تمہاری سب اولاد یکساں طور پر تمہاری فرمانبردار اور خدمت گزار بنے ؟ انہوں نے رض کیا کہ : ہاں ! حضرتﷺ یہ تو ضرور چاہتا ہوں ! تو آپ ﷺ نے فرمایا پھر ایسا ن کرو (کہ ایک دو دو اور دوسروں کو محروم رکھو) اور نعمان بن بشیرؓ ہی کی ایک دوسری روایت میں (یہی واقعہ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ میرے والد نے(میری والدہ کے اصرار پر) میرے لئے کچھ ہبہ کیا تو میری والدہ عمرہ بنت رواحہؓ نے کہا کہ میں جب خوش اور مطمئن ہوں گی جب تم رسول اللہ ﷺ کو اس ہبہ کا گواہ بنا دو گے ۔ چنانچہ میرے والد نعمان حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میری بیوی عمرہ بنت رواحہ سے میرا جو بچہ (نعمان) ہے میں نے اس کے لئے کچھ ہبہ کیا ہے ، تو اس کی ماں نے مجھ سے تاکید کی ہے کہ حضور ﷺ کو اس کا گواہ بنا دوں اور اس طرح حضور ﷺ کی منظوری بھی حاصل کر کے ہبہ کو پکا کر دوں) آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ : کیا تم نے اپنے اور سب بچوں کے لئے بھی اتنا ہبہ کیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں (اوروں کے لئے تو نہیں کیا) آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم (یعنی خدا سے ڈرو اور اپنی اولاد کے ساتھ مساوات اور برابری کا سلوک کرو) حضرت نعمان بن بشیرؓ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کے اس فرمانے پر والد صاحب نے رجوع کر لیا اور ہبہ واپس لے لیا ۔ اور ایک روایت میں ہے : حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ : میں بےانصافی کے معاملہ کا گواہ نہیں بن سکتا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح رسول اللہ ﷺ نے اولاد کے بارے میں یہ بھی ہدایت فرمائی ہے کہ داد و دہش میں سب کے ساتھ انصاف اور برابری کا برتاؤ کیا جائے یہ نہ ہو کہ کسی کو زیادہ نوازا جائے اور کسی کو محروم رکھا جائے یا کم دیا جائے ۔ یہ چیز بذات خود بھی مطلوب ہے اور اس عدل و انصاف کا بھی تقاضا ہے جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے ۔ اس کے علاوہ اس میں یہ بھی حکمت و مصلحت ہے کہ اگر اولاد میں سے کسی کو زیادہ نوازا جائے اور کسی کو کم تو ان میں باہم بغض و حسد پیدا ہو گا جو دین اور تقوے کے لئے تباہ کن اور ہزار فتنوں کی جڑ ہے ۔ نیز اولاد میں جس کے ساتھ ناانصافی ہو گی اس کے دل میں باپ کی طرف سے میل آئے گا اور شکایت کدورت پیدا ہو گی اور ظاہر ہے کہ اس کا انجام کتنا خراب ہو گا ۔ ان سب وجوہ سے رسول اللہ ﷺ نے اس بارے میں سخت تاکیدیں فرمائی ہیں اور اس رویہ کو ایک طرح کا ظلم قرار دیا ہے ۔ اس باب میں مندرجہ ذیل حدیثیں پڑھئے : تشریح ..... جیسا کہ ظاہر ہے اس حدیث میں اس بات سے ممانعت فرمائی گئی ہے اور اس کو جور یعنی بےانصافی قرار دیا گیا ہے کہ اولاد میں سے کسی کے ساتھ داد و دہش میں ترجیحی سلوک کیا جائے ۔ بعض فقہاء نے اس کو حرام تک کہا ہے لیکن اکثر فقہاء نے اور ائمہ اربعہ میں امام ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ اور امام شافعیؒ نے (بعض دوسرے دلائل اور قرائن کی بناء) پر اس کو حرام تو نہیں ، لیکن مکروہ اور سخت ناپسندیدہ قرار دیا ہے مگر واضح رہے کہ یہ حکم اسی صورت میں ہے جب کہ ترجیحی سلوک کسی ایسی وجہ کے جو شرعاً معتبر ہو ، لیکن اگر کوئی ایسی وجہ موجود ہو تو پھر اس وجہ کے بقدر ترجیحی سلوک درست ہو گا ۔ مثلاً اولاد میں سے کسی کی صحت مستقل طور پر خراب ہے اور دوسرے بھائیوں کی طرح معاشی جدوجہد نہیں کر سکتا تو اس کے ساتھ خصوصی سلوک عدل و انصاف کے خلاف نہ ہو گا بلکہ ایک درجہ میں ضروری اور باعث اجر ہو گا ۔ اسی طرح اگر اولاد میں سے کسی نے اپنے کو دین و ملت کی خدمت میں اس طرح لگا دیا ہے کہ معاشی جدو جہد میں زیادہ حصہ نہیں لے سکتا تو اس کےساتھ بھی مناسب حد تک خصوصی سلوک جائز ہے بلکہ باعث اجر ہو گا ۔ علیٰ ہذا اگر کسی ایک بھائی کے ساتھ خصوصی اور ترجیحی سلوک پر دوسرے بھائی رضامند ہوں تب بھی یہ جائز ہو گا ۔
داد و دہش میں مساوات و برابری بھی اولاد کا حق ہے
داد و دہش میں اپنی سب اولاد کے ساتھ مساوات اور برابری کا معاملہ کرو ۔ اگر میں اس معاملہ میں کسی کو ترجیح دیتا تو عورتوں (یعنی لڑکیوں) کو ترجیح دیتا ۔ (یعنی مساوات اور برابری ضروری نہ ہوتی تو میں حکم دیتا کہ لڑکیوں کو لڑکوں سے زیادہ دیا جائے) ۔ (سنن سعید ابن منصور ، معجم کبیر للطبرانی) تشریح اس حدیث سے فقہاء کی ایک جماعت نے یہ سمجھا ہے کہ ماں باپ کے انتقال کے بعد میراث میں اگرچہ لڑکیوں کا حصہ لڑکوں سے نصف ہے ، لیکن زندگی میں ان کا حصہ بھائیوں کے برابر ہے ، لہذا ماں باپ کی طرف سے جو کچھ اور جتنا کچھ لڑکوں کو دیا جائے وہی اور اتنا ہی لڑکیوں کو دیا جائے ۔
نکاح اور شادی کی ذمہ داری
حضرت ابو سعید خدری اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : جس کو اللہ تعالیٰ اولاد دے تو چاہئے کہ اس کا اچھا نام رکھے اور اس کو اچھی تربیت دے اور سلیقہ سکھائے ، پھر جب وہ سن بلوغ کو پہنچے تو اس کے نکاح کا بندوبست کرے ، اگر (اس نے اس میں کوتاہی کی اور) شادی کی عمر کو پہنچ جانے پر بھی (اپنی غفلت اور بےپروائی سے) اس کی شادی کا بندوبست نہیں کیا اور وہ اس کی وجہ سے حرام میں مبتلا ہو گیا تو اس کا باپ اس گناہ کا ذمہ دار ہو گا ۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح رسول اللہ ﷺ نے باپ کی یہ بھی ذمہ داری بتلائی ہے کہ جب بچہ یا بچی نکاح کے قابل ہو جائے تو اس کے نکاح کا بندوبست کیا جائے اور تاکید فرمائی کہ اس میں غفلت نہ برتی جائے ۔ تشریح ..... اس حدیث میں اولاد کے قابل شادیہ ہو جانے پر ان کے نکاح اور شادی کے بندوبست کو بھی باپ کا فریضہ قرار دیا گیا ہے ۔ افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس بارے میں بڑی کوتاہی ہو رہی ہے ، جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے دوسروں کی تقلید میں نکاح شادی کو بےحد بھاری اور بوجھل بنا لیا ہے اور ان کے رسم و رواج کی بیڑیاں اپنے پاؤں میں ڈال لی ہیں ۔ اگر ہم اس بارے میں رسول اللہ ﷺ کے اسوہ حسنہ کی پیروی کریں اور نکاح شادی اس طرح کرنے لگیں جس طرح رسول اللہ ﷺ نے خود اپنے اور اپنی صاحبزادیوں کے نکاح کئے تھے تو یہ کام اتنا ہلکا پھلکا ہو جائے جتنا ایک مسلمان کےھ لئے جمعہ کی نماز ادا کرنا اور پھر اس نکاح اور شادی میں وہ برکتیں ہوں جن سے ہم بالکل محروم ہو گئے ہیں ۔
ماں باپ کے حقوق اولاد پر: ماں باپ اولاد کی جنت اور دوزخ ہیں
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : حضرت (ﷺ) ! اولاد پر ماں باپ کا کتنا حق ہے ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : وہ تمہاری جنت اور دوزخ ہیں ۔ (سنن ابن ماجہ) تشریح رسول اللہ ﷺ نے جس طرح ماں باپ پر اولاد کے حقوق اور اس سلسلہ کی ان کی ذمہ داریاں بیان فرمائیں اسی طرح اولاد پر ماں باپ کے حقوق اور اس سلسلہ کے ان کے فرائض بھی بتلائے ، بلکہ اس کو آپ ﷺ نے اپنی تعلیم و ہدایت میں جزو ایمان کا درجہ دیا ۔ قرآن مجید جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ پر نازل کیا ہوا صحیفہ ہدایت ہے ، اس میں ماں باپ کی خدمت اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم اللہ تعالیٰ کی توحید اور عبادت کے ساتھ ساتھ اس طرح دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کے اعمال میں خدا کی عبادت کے بعد ماں باپ کی خدمت اور راحت رسانی کا درجہ ہے ۔ سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد فرمایا گیا ہے : وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا (بنى اسرائيل 23:17) اور تمہارے رب کا قطعی حکم ہے کہ صرف اسی کی عبادت اور پرستش کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھے سے اچھا برتاؤ اور ان کی خدمت کرو ۔ اور دوسری جگہ سورہ لقمان میں ماں باپ کا حق بیان کرتے ہوئے یہاں تک فرمایا گیا ہے کہ اگر بالفرض کسی کے ماں باپ کافر و مشرک ہوں اور اولاد کو بھی کفر و شرک کے لئے مجبور کریں تو اولاد کو چاہئے کہ ان کے کہنے سے کفر و شرک تو نہ کرے لیکن دنیا میں ان کے ساتھ اچھا سلوک اور ان کی خدمت پھر بھی کرتی رہے ۔ وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖوَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا (سوره لقمان 15:31) آگے درج ہونے والی حدیثوں میں رسول اللہ ﷺ نے ماں باپ کے حقوق اور ان سے متعلق اولاد کے فرائض کے بارے میں جو کچھ فرمایا ہے وہ دراصل قرآن مجید کی ان آیات ہی کی تشریح تفسیر ہے ۔ تشریح ..... مطلب یہ ہے کہ اگر تم ماں باپ کی فرمانبرداری و خدمت کرو گے اور ان کو راضی رکھو گے تو جنت پا لو گے اور اس کے برعکس اگر ان کی نافرمانی اور ایذاء رسانی کر کے انہیں ناراض کرو گے اور ان کا دل دکھاؤ گے تو پھر تمہارا ٹھکانہ دوزخ میں ہو گا ۔
اللہ کی رضا والدین کی رضامندی سے وابستہ ہے
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : اللہ کی رضامندی والد کی رضامندی میں ہے اور اللہ کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے ۔ (جامع ترمذی) تشریح حدیث کا مطلب اور مدعا یہ ہے کہ جو اپنے مالک و مولا کو راضی رکھنا چاہے وہ اپنےوالد کو راضی اور خوش رکھے ۔ اللہ کی رضا حاصل ہونے کے لئے والد کی رضا جوئی شرط ہے اور والد کی ناراضی کا لازمی نتیجہ اللہ کی ناراضی ہے ، لہذا جو کوئی والد کو ناراض کرے گا وہ رضائے الہی کی دولت سے محروم ہو گا ۔ اس حدیث میں والد کا لفظ آیا ہے جو عربی زبان میں باپ ہی کے لیے استعماقل ہوتا ہے ۔ (ماں کے لئے والدہ کا لفظ بولا جاتا ہے) اس بناء پر اس حدیث میں ماں کا ذخر صراحۃً نہیں آیا ہے۔ لیکن چونکہ دوسری احادیث میں جو عنقریب درج ہوں گی اس بارے میں ماں کا درجہ باپ سے بھی بلند اور بالا تر بتایا گیا ہے ، اس لئے ماں کی خوشی اور ناخوشی کی بھی وہی اہمیت ہو گی اور اس کا بھی وہی درجہ ہو گا جو اس حدیث میں باپ کی رضامندی اور ناراضی کا بتایا گیا ہے ۔
ماں کا حق باپ سے بھی زیادہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ مجھ پر حسن و سلوک کا سب سے زیادہ حق کس کا ہے ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : تمہاری ماں ، پھر میں کہتا ہوں تمہاری ماں ، پھر میں کہتا ہوں تمہاری ماں ، اس کے بعد تمہارے باپ کا حق ہے ، اس کے بعد جو تمہارے قریبی رشتہ دار ہوں پھر جو ان کے بعد قریبی رشتہ دار ہوں ۔(صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں سوال کرنے والے صحابی کا نام مذکور نہیں ہے ، لیکن جامع ترمذی اور سنن ابی داؤد میں بہز بن حکیم بن معاویہ قشیری سے روایت کیا ہے کہ میرے دادا معاویہ بن حیدہ قشیری نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا تھا کہ “مَنْ أَبَرُّ” (مجھے کس کی خدمت اور کس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہئے ؟) یعنی اس بارے میں سب سے زیادہ اور سب سے مقدم حق کس کا ہے ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ : “أُمَّكَ” (تمہاری ماں کا) انہوں نے پوچھا “ثُمَّ مَنْ” (پھر کس کا حق ہے ۔) آپ ﷺ نے پھر فرمایا “أُمُّكَ” (تمہاری ماں کا) انہوں نے پھر پوچھا “ثُمَّ مَنْ” (اس کے بعد کس کا حق ہے) آپ ﷺ نے پھر فرمایا : “ أُمُّكَ” انہوں نے اس کے بعد پھر پوچھا “ثُمَّ مَنْ” (پھر ماں کے بعد کس کا حق ہے ؟) تو چوتھی دفعہ میں آپ ﷺ نے فرمایا : “ أَبَاكَ، ثُمَّ الْأَقْرَبَ فَالْأَقْرَبَ ” یعنی ماں کے بعد تمہارے باپ کا حق ہے ، اس کے بعد درجہ بدرجہ اہل قرابت اور رشتہ داروں کا حق ہے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے ۔ ان دونوں حدیثوں کا مضمون بلکہ سوال جواب کے الفاظ بھی قریب قریب یکساں ہیں اس لئے اس کا بہت امکان ہے کہ صحیحین کی حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت میں جس شخص کے سوال کا ذکر کیا گیا ہے وہ یہی معاویہ بن حیدہ قشیری ہوں جن کی حدیث ان کے پوتے بہز بن حکیم نے امام ترمذی اور امام ابو داؤد نے روایت کی ہے ۔ ان دونوں حدیثوں کا صریح مدعا یہ ہے کہ خدمت اور حسن سلوک کے بارے میں ماں کا حق باپ سے زیادہ اور مقدم ہے ۔ قرآن مجید سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کیوں کہ کئی جگہ اس میں ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کی تاکید کے ساتھ خاص طور سے ماں کی ان تکلیفوں اور مصیبتوں کا ذکر فرمایا گیا ہے جو حمل اور ولادت میں اور پھر دودھ پلانے اور پالنے میں خصوصیت کے ساتھ ماں کو اُٹھانی پڑتی ہیں ۔
بوڑھے ماں باپ کی خدمت میں کوتاہی کرنے والے بدبخت اور محروم
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ آدمی ذلیل ہو وہ خوار ہو ، وہ رسوا ہو ۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ کون ؟ (یعنی کس کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے) آپ ﷺ نے فرمایا : وہ بدنصیب جو ماں باپ کو یا دونوں میں سے کسی ایک ہی کو بڑھاپے کی حالت میں پائے پھر (ان کی خدمت اور ان کا دل خوش کر کے) جنت حاصل نہ کر لے ۔ (صحیح مسلم) تشریح حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث اوپر درج ہو چکی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ ماں باپ تمہاری جنت اور تمہاری دوزخ ہیں (یعنی ماں باپ کی خدمت اور راحت رسانی جنت حاصل کرنے کا خاص وسیلہ ہے اور اس کے برعکس ان کی نافرمانی اور ایذاء رسانی آدمی کو دوزخی بنا دیتی ہے) پھر یہ بھی ظاہر ہے کہ جب ماں باپ بڑھاپے کی عمر کو پہنچ کے اذکار رفتہ ہو جائین تو اس وقت وہ خدمت اور راحت رسانی کے زیادہ محتاج ہوتے ہیں ، اور اس حالت میں ان کی خدمت اللہ کے نزدیک نہایت محبوب اور مقبول عمل اور جنت تک پہنچنے کا سیدھا زینہ ہے ۔ پس اللہ تعالیٰ جس بندے کو اس کا موقع میسر فرمائے اور وہ ماں باپ کا یا دونوں میں سے کسی ایک ہی کا بڑھاپا پائے اور پھر ان کی خدمت کر کے جنت تک نہ پہنچ سکے بلاشبہ وہ بڑا بدنصیب اور محروم ہے اور ایسوں کے حق میں رسول اللہ ﷺ کا فرمانا ہے کہ وہ نامراد ہوں ، ذلیل و خوار ہوں ، رسوا ہوں ۔
ماں باپ کی خدمت بعض حالات میں ہجرت اور جہاد سے بھی مقدم
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں جہاد میں جانا چاہتا ہوں ۔ آپ ﷺ نے پوچھا کیا تمہارے ماں باپ ہیں ؟ اس نے کہا ۔ ہاں ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تو پھر ان کی خدمت اور راحت رسانی میں جدو جہد کرو ۔ یہی تمہارا جہاد ہے ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح غالباً رسول اللہ ﷺ پریہ بات منکشف ہو گئی تھی یا کسی وجہ سے اس کے بارے میں شبہ ہو گیا تھا کہ اس آدمی کے ماں باپ اس کی خدمت کے محتاج ہیں ، اور یہ ان کو چھوڑ کے ان کی اجازت کے بغیر جہاد کے لئے آ گیا ہے ، اس لئے آپ ﷺ نے اس کو یہ حکم دیا کہ وہ گھر واپس جا کر ماں باپ کی خدمت کرے ، کیوں کہ ایسی حالت میں اس کے لئے ماں باپ کی خدمت مقدم ہے ۔ اس حدیث سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہو گا کہ جس کسی کے ماں باپ ہوں وہ جہاد اور دین کی کسی خدمت کے لئے کبھی گھر سے باہر نہ نکلے ، اور صرف وہی لوگ جہاد میں اور دین کی خدمت میں لگیں جن کے ماں باپ نہ ہوں ۔ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جہاد کرتے تھے اور ان میں بڑی تعداد انہی کی ہوتی تھی جن کے ماں باپ زندہ ہوتے تھے ۔
ماں باپ کی خدمت بعض حالات میں ہجرت اور جہاد سے بھی مقدم
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص یمن سے ہجرت کر کے حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچا تو آپ ﷺ نے اس سے پوچھا : کیا یمن میں تمہارا کوئی ہے ؟ اس نے عرض کیا کہ : ہاں ! میرے والدین ہیں ۔ آپ نے دریافت فرمایا کیا : انہوں نے تم کو اجازت دی ہے ؟ (اور تم ان کی اجازت سے یہاں آئے ہو ؟) اس نے عرض کیا : کہ ایسا تو نہیں ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا تو پھر ماں باپ کے پاس جاؤ اور یہاں آنے کی (اور جہاد اور دین کی محنت میں لگنے کی) ان سے اجازت مانگو ، پھر وہ اگر تمہیں اجازت دے دیں تو آؤ اور جہاد میں لگ جاؤ اور اگر وہ اجازت نہ دیں تو ان کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے رہو ۔ (سنن ابی داؤد ، مسند احمد) تشریح ہجرت کر کے آنے والوں اور جہاد میں شرکت کرنے والوں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا جو عام مستقل رویہ اور اسوہ حسنہ تھا اس کی روشنی میں اس قسم کی تمام احادیث کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ان کا تعلق اس صورت سے ہے جب ماں باپ خدمت کے سخت محتاج ہوں اور اگر دوسرا ان کی خبر گیری کرنے والا نہ ہو اور اس وجہ سے وہ اجازت بھی نہ دیں تو پھر بلاشبہ ان کی خدمت اور خبر گیری ہجرت اور جہاد سے بھی مقدم ہو گی ۔
جنت ماں کے قدموں میں ہے
معاویہ بن جاہمہ سے روایت ہے کہ میرے والد جاہمہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ : “میرا ارادہ جہاد میں جانے کا ہے اور میں آپ ﷺ سے اس بارے میں مشورہ لینے کے لئے حاضر ہوا ہوا ۔” آپ ﷺ نے ان سے پوچھا : کیا تمہاری ماں ہیں ؟ انہوں نے عرض کیا : “ہاں ! ہیں” ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تو پھر انہی کے پاس اور انہی کی خدمت مین رہو ، ان کے قدموں میں تمہاری جنت ہے ۔ (مسند احمد ، سنن نسائی)
جنت ماں کے قدموں میں ہے
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : میں سویا تو میں نے خواب دیکھا کہ میں جنت میں ہوں ، وہیں میں نے کسی کے قرآن پڑھنے کی آواز سنی تو میں نے دریافت کیا کہ : “اللہ کا یہ کون بندہ ہے جو یہاں جنت میں قرآن پڑھ رہا ہے ؟ ” تو مجھے بتایا گیا کہ “یہ حارثہ بن النعمان ہیں” ماں باپ کی خدمت و اطاعت شعاری ایسی ہی چیز ہے ، ماں باپ کی خدمت و اطاعت شعاری ایسی ہی چیز ہے ۔ (رسول اللہ ﷺ نے اپنا یہ خواب بیان فرمانے کے بعد فرمایا کہ) حارثہ بن النعمان اپنی ماں کے بہت ہی خدمت گزار اور اطاعت شعار تھے (یعنی اس عمل نے ان کو اس مقام تک پہنچایا کہ رسول اللہ ﷺ نے جنت میں ان کی قرأت سنی) ۔ (شرح السنہ للبغوی و شعب الایمان)
ماں کی خدمت بڑے سے بڑے گناہ کی معافی کا ذریعہ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ : حضرت ! میں نے ایک بہت بڑا گناہ کیا ہے ، تو کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے (اور مجھے معافی مل سکتی ہے) آپ ﷺ نے پوچھا : تمہاری ماں زندہ ہے ؟ اس نے عرض کیا کہ : ماں تو نہیں ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تو کیا تمہاری کوئی خالہ ہے ؟ اس نے عرض کیا کہ : ہاں خالہ موجود ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تو اس کی خدمت اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو (اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے تمہاری توبہ قبول فرما لے گا اور تمہیں معاف فرما دے گا) ۔ (جامع ترمذی) تشریح توبہ کیا ہے ؟ گناہ پر دل سے نادم و پشیمان ہو کر اللہ سے معافی مانگنا ، تا کہ اللہ کے غضب اور اس عذاب سے بچ جائے جس کا وہ گناہ کی وجہ سے مستحق ہو چکا ہے ، اور توبہ کی قبولیت یہ ہے کہ اللہ پاک اس کو معاف فرما دے اور اس سے راضی ہو جائے ۔ یوں تو سارے ہی اعمال صالحہ میں یہ خاصیت ہے کہ وہ گناہوں کے گندے اثرات کو مٹاتے ہیں اور اللہ کی رجا و رحمت کو کھینچتے ہیں (إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ) لیکن بعض اعمال صالحہ اس بارے میں معمولی امتیازی شان رکھتے ہیں ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ماں باپ کی خدمت اور اسی طرح خالہ اور نانی کی خدمت بھی انہی اعمال میں سے ہے جن کی برکت سے اللہ تعالیٰ بڑے بڑے گناہگاروں اور سیاہ کاروں کی توبہ قبول فرما لیتا ہے اور ان سے راضی ہو جاتا ہے ۔
خدمت اور حسن سلوک کافر و مشرک ماں کا بھی حق ہے
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور قریش مکہ کے (حدیبیہ والے) معاہدے کے زمانہ میں میری ماں جو اپنے مشرکانہ مذہب پر قائم تھی (سفر کر کے مدینے میں) میرے پاس آئی تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میری ماں میرے پاس آئی ہے اور وہ کچھ خواہش مند ہے ، تو کیا میں اس کی خدمت کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ! اس کی خدمت کرو (اور اس کے ساتھ وہ سلوک کرو جو بیٹی کو ماں کے ساتھ کونا چاہئے) (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حضرت اسماء صدیق رضی اللہ عنہا کی صاحبزادی اور دوسری ماں سے حضرت عائشہؓ کی بڑی بہن تھیں ، ان کی ماں کا نام روایات میں قتیلہ بنت العزی ذکر کیا گیا ہے (جن کو حضرت ابو بکرؓ نے زمانہ جاہلیت ہی میں طلاق دے کر الگ کر دیا تھا ، بہرحال اسلام کے دور میں یہ ان کی بیوی نہیں رہیں اور اپنے مشرکانہ طریقے ہی پر قائم رہیں ۔ صلح حدیبیہ کے زمانہ میں جب مشرکین مکہ کو مدینہ آنے کی اور مدینہ کے مسلمانوں کو مکہ جانے کی آزادی حاصل ہو گئی تو حضرت اسماء کی یہ ماں اپنی بیٹی کے پاس مدینے آئیں ۔ حضرت اسماءؓ نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ : “مجھے ان کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرنا چاہئے ، کیا ان کے کافر و مشرک ہونے کی وجہ سے میں ان سے “ترک موالات” کروں یا ماں کے رشتے کا لحاظ کر کے ان کی خدمت اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کروں ؟ ” آپ نے حکم دیا کہ : ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو جو ماں کا حق ہے ۔ حدیث میں “رَاغِبَةٌ” کا لفظ ہے جس کا ترجمہ اس عاجز نے خواہش مند کیا ہے ، اس بناء پر مطلب یہ ہو گا کہ حضرت اسماء نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ میری ماں جو مشرک ہیں کچھ خواہش مند ہو کر یہاں آئی ہیں یعنی وہ اس کی طالب و متوقع ہیں کہ میں ان کی مالیل خدمت کروں ۔ بعض شارحین نے اس کا ترجمہ منحرف اور بیزار بھی کیا ہے اور لغت کے لحاظ سے اس کی بھی گنجائش ہے ۔ اس بناء پر مطلب یہ ہو گا کہ میری ماں ملنے تو آئی ہیں لیکن ہمارے دین سے منحرف اور بےزار ہیں ، ایسی صورت میں ان کے ساتھ میرا رویہ کیا ہو نا چاہئے ؟ کیا ماں ہونے کی وجہ سے ان کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کروں ، یا بے تعلقی اور بےرخی کا رویہ اختیار کروں بہرحال رسول اللہ ﷺ نے ان کو ہدایت فرمائی کہ ان کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرو ، جو ماں کا حق ہے ۔ (نَعَمْ صِلِيهَا) اوپر قرآن مجید کی وہ آیت ذکر کی جا چکی ہے جس میں مسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ اگر کسی کے ماں باپ کافر و مشرک ہوں ، اور وہ اولاد کو بھی کفر شرک کے لئے مجبور کریں اور دباؤ ڈالیں تو اولاد ان کی یہ بات تو نہ مانے لیکن ان کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک برابر کرتی ہے ۔
ماں باپ کے مرنے کے بعد ان کے خاص حقوق
ابو اُسید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک وقت جب ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے بنی سلمہ میں سے ایک شخص آئے اور انہوں نے دریافت کیا کہ : یا رسول اللہ! کیا میرے ماں باپ کے مجھ پر کچھ ایسے بھی حق ہیں جو ان کے مرنے کے بعد مجھے ادا کرنے چاہئیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ! ان کے لئے خیر و رحمت کی دعا کرتے رہنا ، ان کے واسطے اللہ سے مغفرت اور بخشش مانگنا ، ان کا اگر کوئی عہد معاہدہ کسی سے ہو تو اس کو پورا کرنا ، ان کے تعلق سے جو رشتے ہوں ان کا لحاظ رکھنا اور ان کا حق ادا کرنا ، اور ان کے دوستوں کا اکرام و احترام کرنا ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ) تشریح اولاد پر ماں باپ کے حقوق کا سلسلہ ان کی زندگی کے ساتھ ختم نہیں ہو جاتا بلکہ ان کے مرنے کے بعد ان کے کچھ اور حقوق عائد ہو جاتے ہیں جن کا ادا کرتے رہنا سعادت مند اولاد کی ذمہ داری اور اللہ تعالیٰ کی خاص رضا اور رحمت کا وسیلہ ہے ۔
ماں باپ کے مرنے کے بعد ان کے خاص حقوق
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جو کوئی یہ چاہے کہ قبر میں اپنے باپ کو آرام پہنچائے اور خدمت کرے تو باپ کے انتقال کے بعد اس کے بھائیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھے ، جو رکھنا چاہئے ۔ (صحیح ابن حبان)
ماں باپ کے مرنے کے بعد ان کے خاص حقوق
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : باپ کی خدمت اور حسن سلوک کی ایک اعلیٰ قسم یہ ہے کہ ان کے انتقال کے بعد ان کے دوستوں کے ساتھ (اکرام و احترام کا) تعلق رکھا جائے اور باپ کی دوستی و محبت کا حق ادا کیا جائے ۔ (صحیح مسلم) تشریح حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی ان دونوں حدیثوں میں صرف باپ کے بھائیوں اور اہل محبت کا ذخر کیا گیا ہے ۔ اور یہ بات پہلے معلوم ہو چکی ہے کہ اس باب میں ماں کا حق باپ سے بھی زیادہ ہے ۔ علاوہ ازیں ابھی اوپر حضرت ابو اسید ساعدی کی روایت سے جو حدیث ذکر کی جا چکی ہے اس میں ماں باپ دونوں کے اہل قرابت کے ساتھ حسن سلوک اور اہل محبت کے اکرام و احترام کو اولاد پر ماں باپ کے مرنے کے بعد ان کا حق بتایا گیا ہے ۔
ماں باپ کے مرنے کے بعد ان کے خاص حقوق
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی آدمی کے ماں باپ کا یا دونوں میں سے کسی کا انتقال ہو جاتا ہے اور اولاد زندگی میں ان کی نافرمان اور ان کی رضامندی سے محروم ہوتی ہے ، لیکن یہ اولاد ان کے انتقال کے بعد (سچے دل) سے ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے خیر و رحمت کی دعا اور مغفرت و بخشش کی استدعا کرتی ہے (اور اس طرح اپنے قصور کی تلافی کرنا چاہتی ہے) تو اللہ تعالیٰ نافرمان اولاد کو فرمانبردار قرار دے دیتا ہے (پھر وہ ماں باپ کی نافرمانی کے وبال اور عذاب سے بچ جاتی ہے) (شعب الایمان للبیہقی) تشریح جس طرح زندگی میں ماں باپ کی فرمانبرداری و خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک اعلیٰ درجے کا عمل صالح ہے جو بڑے بڑے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے اسی طرح ان کے مرنے کے بعد ان کے لئے اخلاص اور الحاح سے رحمت و مغفرت کی دعا ایسا عمل ہے جو ایک طرف تو ماں باپ کے لئے قبر میں راحت و سکون کا وسیلہ بنتا ہے اور دوسری طرف اس سے اولاد کے ان قصورون کی تلافی ہو جاتی ہے جو ماں باپ کی فرمانبرداری اور خدمت میں ان سے ہوئی ہو اور وہ خود اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت کی مستحق ہو جاتی ہے ۔ قرآن پاک میں اولاد کو خاص طور سے ہدایت فرمائی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ماں باپ کے لئے رحمت اور مغفرت مانگا کرے ۔ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا (بنی اسرائیل ع ۲) اور اللہ سے یوں عرض کیا کرو کہ : اے پروردگار ! میرے ماں باپ پر رحمت فرما جس طرح انہوں نے مجھے پچپنے میں (شفقت کے ساتھ) پالا تھا ۔
ماں باپ کی خدمت اور فرمانبرداری کی دنیوی برکات
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ ماں باپ کی خدمت و فرمانبرداری اور حسن سلوک کی وجہ سے آدمی کی عمر بڑھا دیتا ہے ۔ (مسند ابن منبع ،کامل ابن عدی) تشریح ماں باپ کی خدمت اور فرمانبرداری کی اصل جزاء تو جنت اور رضائے الٰہی ہے جیسا کہ ان احادیث سے معلوم ہو چکا ہے جو “ماں باپ کے حقوق” کے زیر عنوان پہلے درج ہو چکی ہیں ، لیکن رسول اللہ ﷺ نے بتلایا ہے کہ ماں باپ کی خدمت اور فرمانبرداری کرنے والی اولاد کو اللہ تعالیٰ کچھ خاص برکتوں سے اس دنیا میں بھی نوازا جاتا ہے ۔ اس طرح کی احادیث کا تقدیر کے مسئلہ سے کوئی ٹکراؤ نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ کو ازل سے معلوم تھا اور معلوم ہے کہ فلاں آدمی ماں باپ کی خدمت اور فرمانبرداری کرے گا اسی لحاظ سے اس کی عمر اس سے زیادہ مقرر فرمائی گئی جتنی کہ اس کو ماں باپ کی خدمت اور فرمانبرداری نہ کرنے کی صورت میں دی جاتی ۔ اسی طرح ان سب حدیثوں کو سمجھنا چاہئے جن میں کسی اچھے عمل پر رزق میں وسعت اور برکت وغیرہ کی خوش خبری سنائی گئی ہے ۔ حالانکہ رزق کی تنگی اور وسعت بھی مقدر ہے ۔
ماں باپ کی خدمت اور فرمانبرداری کی دنیوی برکات
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنے آباء (ماں باپ) کی خدمت و فرمانبرداری کرو ، تمہاری اولاد تمہاری فرمانبردار اور خدمت گزار ہو گی اور تم پاک دامنی کے ساتھ رہو تمہاری عورتیں پاک دامن رہیں گی ۔ (معجم اوسط للطبرانی) تشریح مطلب یہ ہے کہ جو اولاد ماں باپ کی فرمانبرداری اور خدمت کرے گی اللہ تعالیٰ اس کی اولاد کو اس کا فرمانبردار اور خدمت گزار بنا دے گی ، اسی طرح جو لوگ پاکدامنی کی زندگی گزاریں گے ، اللہ تعالیٰ ان کی بیویوں کو پاک دامنی کی توفیق دے گا ۔
والدین کی نافرمانی و ایذاء رسانی عظیم ترین گناہ
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے کبیرہ (یعنی بڑے بڑے) گناہوں کے بارے میں دریافت کیا گیا (کہ وہ کون کون سے گناہ ہیں) تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ : خدا کے ساتھ شرک کرنا ، ماں باپ کی نافرمانی و ایذاء رسانی ، کسی بندے کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا ۔ (صحیح بخاری) تشریح رسول اللہ ﷺنے جس طرح ماں باپ کی فرمانبرداری اور راحت رسانی کو اعلیٰ درجہ قرار دیا ہے (جو جنت اور رضائے الٰہی کا خاص وسیلہ ہے) اسی طرح ان کی نافرمانی اور ایذاء رسانی کو “اکبر الکبائر” یعنی بدترین اور خبیث ترین گناہوں میں سے بتلایا ہے ۔ صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت میں ان گناہوں کو “اکبر الکبائر” (یعنی کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑے گناہ) بتایا ہے ، اور جس ترتیب سے آپ ﷺ نے ان کا ذکر فرمایا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شرک کے بعد والدین کے حقوق (یعنی ان کی نافرمانی اور ایذاء رسانی) کا درجہ ہے ، حتی کہ قتل نفس کا درجہ بھی اس کے بعد ہے ۔
والدین کی نافرمانی و ایذاء رسانی عظیم ترین گناہ
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : اپنے ماں باپ کو گالی دینا بھی کبیرہ گناہوں میں سے ہے ۔ عرض کیا گیا کہ : یا رسول اللہ کیا کوئی اپنے ماں باپ کو بھی گالی دے سکتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ! اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی کے ماں باپ کو گالی دے ، پھر وہ جواب میں اس کے ماں باپ کو گالی دے ، (تو گویا اس نے خود ہی اپنے ماں باپ کو گالی دلوائی) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی آدمی کا کسی دوسرے کو ایسی بات کہنا یا ایسی حرکت کرنا جس کے نتیجہ میں دوسرا آدمی اس کے ماں باپ کو گالی دینے لگے اتنی ہی بری بات ہے جتنی کہ خود اپنے ماں باپ کو گالی دینا ، اور یہ گناہِ کبیرہ کے درجہ کی چیز ہے ۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیم میں ماں باپ کے احترام کا کیا مقام ہے ، اور اس بارے میں آدمی کو کتنا محتاط رہنا چاہئے ۔
دوسرے اہل قرابت کے حقوق اور صلہ رحمی کی اہمیت
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : رحم (یعنی حق قرابت) مشتق ہے رحمن سے (یعنی خداوند رحمٰن کی رحمت کی ایک شاخ ہے اور اس نسبت سے) اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا کہ جو تجھے جوڑے گا میں اسے جوڑوں گا ، اور جو تجھے توڑے گا میں اس کو توڑوں گا ۔ (صحیح بخاری) تشریح اسلامی تعلیم میں والدین کے علاوہ دوسرے اہل قرابت کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوق کی ادائیگی پر بھی بہت زیادہ زور دیا گیا ہے اور “صلہ رحمی” اس کا خاص عنوان ہے ۔ قرآن مجید میں جہاں والدین کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید فرمائی گئی ہے وہیں “وَذِى الْقُرْبَى” فرما کر دوسرے اہل قرابت کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوقِ قرابت کی ادائیگی کی بھی وصیت فرمائی گئی ہے ۔ ابھی چند صفحے پہلے صحیح بخاری و صحیح مسلم کے حوالہ سے ایک سائل کے جواب میں رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد گزر چکا ہے کہ : خدمت اور حسن سلوک کا سب سے پہلا حق تم پر تمہاری ماں کا ہے ، اس کے بعد باپ کا ، اس کے بعد درجہ بدرجہ دوسرے اہلِ قرابت کا ۔ اب یہاں چند وہ حدیثیں اور پڑھ لیجئے جن میں صلہ رحمی کی اہمیت اور اس کے فضائل و برکات بیان فرمائے گئے ہیں ، یا اس کے برعکس قطع رحمی کے برے انجام سے خبردار کیا گیا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ انسانوں کی باہم قرابت اور رشتہ داری کے تعلق کو اللہ تعالیٰ کے اسم پاک رحمن سے اور اس کی صفت رحمت سے خاص نسبت ہے اور وہی اس کا سرچشمہ ہے ، اور اسی لیے اس کا عنوان رحم مقرر کیا گیا ہے ۔ اس خصوصی نسبت ہی کی وجہ سے عنداللہ اس کی اتنی اہمیت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ جو صلہ رحمی کرے گا (یعنی قرابت اور رشتہ داری کے حقوق ادا کرے گا ، اور رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا) اس کو اللہ تعالیٰ اپنے سے وابستہ کر لے گا ، اور اپنا بنا لے گا ، اور جو کوئی اس کے برعکس قطع رحمی کا رویہ اختیار کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو اپنے سے کاٹ دے گا اور دور اور بے تعلق کر دے گا ۔ اسی ایک حدیث سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیم میں صلہ رحمی کی (یعنی رشتہ داروں اور اہلِ قرابت کے ساتھ حسن سلوک کی) کتنی اہمیت ہے ، اور اس میں کوتاہی کتنا سنگین جرم اور کتنی بڑی محرومی ہے ۔ آگے درج ہونے والی حدیثوں کا مضمون بھی اس کے قریب ہی قریب ہے ۔
دوسرے اہل قرابت کے حقوق اور صلہ رحمی کی اہمیت
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسولِ خدا ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ فرماتے تھے کہ : اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ “میں الرحمٰن ہوں ، میں نے رشتہ قرابت کو پیدا کیا ہے اور اپنے نام رحمٰن کے مادہ سے نکال کر اس کو رحم کا نام دیا ہے ، پس جو اسے جوڑے گا میں اس کو جوڑوں گا اور جو اس کو توڑے گا مین اس کو توڑوں گا ۔”(سنن ابی داؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت اور مشیت سے پیدائش کا ایسا نظام بنایا ہے کہ ہر پیدا ہونے والا رشتوں کے بندھنوں میں بندھا ہوتا ہے ، پھر ان رشتوں کے کچھ فطری تقاضے اور حقوق ہیں جن کا عنوان اللہ تعالیٰ نے رحم مقرر کیا ہے ، جو اس کے نام پاک رحمٰن سے گویا مشتق ہے (یعنی دونوں کا مادہ ایک ہی ہے) پس جو بندہ انسان کی فطرت میں رکھے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے مقرر کئے ہوئے ان حقوق اور تقاضوں کو ادا کرے گا (یعنی صلہ رحمی کرے گا) اس کے لئے اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے کہ وہ اس کو جوڑے گا (یعنی اس کو اپنا بنا لے گا اور فضل و کرم سے نوازے گا) اور اس کےبرعکس جو قطع رحمی کا رویہ اختیار کرے گا اور قرابت کے ان حقوق کو پامال کرے گا جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں اور انسان کی فطرت میں رکھے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کو توڑ دے گا ، یعنی اپنے قرب اور اپنی رحمت و کرم سے محروم کر دے گا ۔ آج دنیا میں مسلمان جن حالات سے دو چار ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت سے محرومی کا منظر جو ہر جگہ نظر آ رہا ہے ، بلاشبہ وہ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی ہماری بہت سی بداعمالیوں کا نتیجہ ہے ، لیکن ان احادیث کی روشنی میں یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اس بربادی اور محرومی میں بڑا دخل ہمارے اس جرم کو بھی ہے کہ صلہ رحمی کی تعلیم و ہدایت کو ہماری غالب اکثریت نے بالکل ہی بھلا دیا ہے اور اس باب میں ہمارا طرز عمل غیر مسلموں سے کچھ بھی مختلف نہیں ہے ۔
صلہ رحمی کے بعض دنیوی برکات
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جو کوئی یہ چاہے کہ اس کے رزق میں فراخی اور کشادگی ہو ، اور دنیا میں اس کے آثار قدم تا دیر رہیں (یعنی اس کی عمر دراز ہو) تو وہ (اہل قرابت کے ساتھ) صلہ رحمی کرے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح خاندانی زندگی میں بکثرت ایسا پیش آتا ہے کہ ایک آدمی رشتہ اور قرابت کے حقوق ادا نہیں کرتا ۔ اہل قرابت کے ساتھ برا سلوک کرتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ہدایت فرمائی ہے کہ ایسے آدمیوں کے ساتھ بھی صلہ رحمی کا معاملہ کیا جائے ۔ اللہ کی کتاب قرآن پاک اور رسول اللہ ﷺکی احادیث میں یہ حقیقت جا بجا بیان فرمائی گئی ہے کہ بعض نیک اعمال کے صلہ میں اللہ تعالیٰ اس دنیا میں بھی برکتوں سے نوازتا ہے ۔ اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ صلہ رحمی یعنی اہل قرابت کے حقوق کی ادائیگی اور ان کے ساتھ حسن سلوک وہ مبارک عمل ہے جس کے صلہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق میں وسعت اور عمر میں زیادتی اور برکت ہوتی ہے ۔ صلہ رحمی کی دو ہی صورتیں ہیں ، ایک یہ کہ آدمی اپنی کمائی سے اہل قرابت کی مالی خدمت کرے ، دوسرے یہ کہ اپنے وقت اور اپنی زندگی کا کچھ حصہ ان کے کاموں میں لگائے اس کے صلہ میں رزق و مال میں وسعت اور زندگی کی مدت میں اضافہ اور برکت بالکل قرین قیاس اور اور اللہ تعالیٰ کی حکمت و رحمت کے عین مطابق ہے ۔ اسبابی نقطہ نظر سے بھی یہ بات سمجھ میں آنے والی ہے یہ واقعہ اور عام تجربہ ہے کہ خاندانی جھگڑے اور خانگی الجھنیں جو زیادہ تر حقوق قرابت ادا نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں آدمی کے لئے دلی پریشانی اور اندرونی کڑھن اور گھٹن کا باعث بنتی ہیں اور کاروبار اور صحت ہر چیز متاثر کرتی ہیں لیکن جو لوگ اہل خاندان اور اقارب کے ساتھ نیکی اور صلہ رحمی کا برتاؤ کرتے ہیں اور ان کے ساتھ اچھا سلوک رکھتے ہیں ان کی زندگی انشراح و طمانیت اور خوش دلی کے ساتھ گزرتی ہے اور ہر لحاظ سے ان کے حالات بہتر رہتے ہیں اور فضل خداوندی ان میں شامل حال رہتا ہے ۔
قطع رحمی کے راستے میں رکاوٹ
حضرت جیبر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : قطع رحمی کرنے والا (یعنی رشتہ داروں اور اہلِ قرابت کے ساتھ برا سلوک کرنے والا) جنت میں نہ جا سکے گا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس ایک حدیث سے سمجھا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیم میں اور اللہ کے نزدیک صلہ رحمی کی کتنی اہمیت ہے اور قطع رحمی کس درجہ کا گناہ ہے ۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ قطع رحمی اللہ تعالیٰ کے نزدیک اتنا سخت گناہ ہے کہ اس گناہ کی گندگی کے ساتھ کوئی جنت میں نہیں جا سکے گا ، ہاں جب اس کو سزا دے کے پاک کر دیا جائے گا یا کسی وجہ سے اس کو معاف کر دیا جائے گا تو جا سکے گا ، جب تک ان دونوں میں سے ایک بات نہ ہو جنت کا دروازہ اس کے لئے بند رہے گا ۔
قطع رحمی کرنے والوں کے ساتھ بھی صلہ رحمی
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ آدمی صلہ رحمی کا حق ادا نہیں کرتا جو (صلہ رحمی کرنے والے اور اپنے اقرباء کے ساتھ) بدلہ کے طور پر صلہ رحمی کرتا ہے ۔ صلہ رحمی کا حق ادا کرنے والا دراصل وہ ہے جو اس حالت میں صلہ رحمی کرے (اور قرابت داروں کا حق ادا کرے) جب وہ اس کے ساتھ قطع رحم (اور حق تلفی) کا معاملہ کریں ۔ (صحیح بخاری) تشریح ظاہر ہے کہ قطع رحمی اور حق تلفی کرنے والوں کے ساتھ جبجوابی طور پر قطع رحمی کا برتاؤ کیا جائے گا تو یہ ہماری اور گندگی معاشرے میں اور زیادہ بڑھے گی اور اس کے برعکس جب ان کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ کیا جائے گا تو انسانی فطرت سے امید ہے کہ دیر سویر ان کی اصلاح ہو گی اور معاشرے میں صلہ رحمی کو فروغ ہو گا ۔
میاں بیوی کے باہمی حقوق اور ذمہ داریاں: بیوی پر سب سے بڑا حق اس کے شوہر کا ہے
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عورت پر سب سے بڑا حق اس کے شوہر کا ہے اور مرد پر سب سے بڑا حق اس کی ماں کا ہے ۔ (مستدرک حاکم) تشریح انسانوں کے باہمی تعلقات میں ازدواجی تعلق کی جو خاص نوعیت اور اہمیت ہے اور اس سے جو عظیم مصالح اور منافع وابستہ ہیں وہ کسی وضاحت کے محتاج نہیں ، نیز زندگی کا سکون اور قلب کا اطمینان بڑی حد تک اسی کی خوشگواری اور باہمی الفت و اعتماد پر موقوف ہے ۔ پھر جیسا کہ ظاہر ہے اس کا خاص مقصد یہ ہے کہ فریقین کو پاکیزگی کے ساتھ زندگی کی وہ مسرتیں اور راحتیں نصیب ہوں جو اس تعلق ہی سے حاصل ہو سکتی ہیں اور آدمی آوارگی اور پراگندگی سے محفوظ رہ کر زندگی کے فرائض و وظائف ادا کر سکے اور نسلِ انسانی کا وہ تسلسل بھی انسانی عظمت اور شرف کے ساتھ جاری رہے جو اس دنیا کے خالق کی مشیت ہے ۔ اور ظاہر ہے کہ یہ مقصد بھی اسی صورت میں بہتر طریقے پر پورے ہو سکتے ہیں جبکہ فریقین میں زیادہ سے زیادہ محبت و یگانگت اور تعلق میں زیادہ سے زیادہ خوشگواری ہو ۔ رسول اللہ ﷺ نے میاں بیوی کے باہمی حقوق اور ذمہ داریوں کے بارے میں جو ہدایات دی ہیں ان کا خاص مقصد یہی ہے کہ یہ تعلق فریقین کے لئے زیادہ سے زیادہ خوش گوار اور مسرت و راحت کا باعث ہو ، دل جڑے رہیں اور وہ مقاصد جن کے لئے یہ تعلق قائم کیا جاتا ہے بہتر طریقے سے پورے ہوں ۔ اس باب میں آنحضرتﷺ کی تعلیم و ہدایت کا خلاصہ یہ ہے کہ بیوی کو چاہئے کہ وہ اپنے شوہر کو اپنے لئے سب سے بالاتر سمجھے ، اس کی وفادار اور فرمانبردار رہے ، اس کی خیر خواہی اور اضا جوئی میں کمی نہ کرے ، اپنی دنیا اور آخرت کی بھلائی اس کی خوشی سے وابستہ سمجھے ۔ اور شوہر کو چاہئے کہ وہ بیوی کو اللہ کی عطا کی ہوئی نعمت سمجھے ، اس کی قدر اور اس سے محبت کرے ، اگر اس سے غلطی ہو جائے تو چشم پوشی کرے ، صبر و تحمل و دانش مندی سے اس کی اصلاح کی کوشش کرے ، اپنی استطاعت کیحد تک اس کی ضروریات اچھی طرح پوری کرے ، اس کی راحت رسانی اور دل جوئی کی کوشش کرے ۔ ان تعلیمات کی صحیح قدر و قیمت سمجھنے کے لئے اب سے قریبا ۱۴۰۰ سو سال پہلے پوری انسانی دنیا اور خاص کر عربوں کے اس ماحول کو سامنے رکھنا چاہئے جس میں بےچاری بیوی کی حیثیت ایک خرید کردہ جانور سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھی اور اس غریب کا کوئی حق نہ سمجھا جاتا تھا ۔ اس مختصر تمہید کے بعد اس سلسلہ کے رسول اللہ ﷺ کے ارشادات پڑھئے :
اگر غیر اللہ کے لئے سجدے کی گنجائش ہوتی تو عورتوں کو شوہروں کے لئے سجدے کا حکم ہوتا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :اگر میں کسی مخلوق کے لئے سجدے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے ۔ (جامع ترمذی) تشریح کسی مخلوق پر کسی دوسری مخلوق کا زیادہ سے زیادہ حق بیان کرنے کے لئے اس سے زیادہ بلیغ اور موثر کوئی دوسرا عنوان نہیں ہو سکتا جو رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں بیوی پر شوہر کا حق بیان کے لئے اختیار فرمایا ۔ حدیث کا مطلب اور مدعا یہی ہے کہ کسی کے نکاح میں آ جانے اور اس کی بیوی بن جانے کے بعد عورت پر خدا کے بعد سب سے بڑا حق اس کے شوہر کا ہو جاتا ہے ۔ اسے چاہئے کہ اس کی فرمانبرداری اور رجا جوئی میں کوئی کمی نہ کرے ۔ جامع ترمذی میں یہ حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے انہی الفاظ میں روایت کی گئی ہے ۔ (52) اور امام احمد نے مسند میں اسی مضمون کی ایک حدیث حضرت انسؓ سے ان الفاظ میں روایت کی ہے ۔ «لَا يَصْلُحُ لِبَشَرٍ أَنْ يَسْجُدَ لِبَشَرٍ، وَلَوْ صَلَحَ لِبَشَرٍ أَنْ يَسْجُدَ لِبَشَرٍ، لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا، مِنْ عِظَمِ حَقِّهِ عَلَيْهَا» (الحديث) کسی آدمی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے آدمی کو سجدہ کرے اور اگر یہ جائز ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کیا کرے ، کیوں کہ اس پر اس کے شوہر کا بہت بڑا حق ہے ۔ (53) اور سنن ابن اماجہ میں یہی مضمون حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ کی روایت سے حضرت معاذ بن جبل کے ایک واقعہ کے ضمن میں بیان کیا گیا ہے ۔ اس روایت میں واقعہ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ : “مشہور انصاری صحابی معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ملک شام گئے ہوئے تھے جب وہاں سے واپس آئے تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے حضور میں سجدہ کیا ۔ آپ ﷺ نے تعجب سے پوچھا : “ مَا هَذَا يَا مُعَاذ ؟ ” “معاذ ! یہ کیا کر رہے ہو ؟” انہوں نے عرض کیا کہ : میں شام گیا تھا ، وہاں کے لوگوں کو میں نے دیکھا کہ وہ اپنے دینی پیشواؤں پادریوں کو اور قومی سرداروں کو سجدہ کرتے ہیں ، تو میرے دل میں آیا کہ ایسے ہی ہم بھی آپ کو سجدہ کیا کریں ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : ایسا نہ کرو ۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا : فَإِنِّي لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِغَيْرِ اللَّهِ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا. (الحديث) اگر میں کسی کو اللہ کے سوا اور کے لئے سجدہ کرنے کے لئے کہتا تو عورت سے کہتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے ۔ (54) اور سنن ابی داؤد میں اس سے ملتا جلتا ایک دوسرا واقعہ رسول اللہ ﷺ کے صحابی قیس بن سعد سے روایت کیا گیا ہے ۔ وہ خود اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ : “میں حیرہ گیا تھا (یہ کوفہ کے پاس ایک قدیمی شہر تھا) وہاں کے لوگوں نے دیکھا کہ وہ ادب و تعظیم کے طور پر اپنے سردار کو سجدہ کرتے ہیں ۔ میں نے اپنی جی میں کہا کہ رسول اللہ ﷺ اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کیا کریں ، پھر جب میں (سفر لوٹ کے) آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ سے یہی بات عرض کی ۔ آپ نے مجھ سے فرمایا : «أَرَأَيْتَ لَوْ مَرَرْتَ بِقَبْرِي أَكُنْتَ تَسْجُدُ لَهُ؟» قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: «فَلَا تَفْعَلُوا، لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ النِّسَاءَ أَنْ يَسْجُدْنَ لِأَزْوَاجِهِنَّ لِمَا جَعَلَ اللَّهُ لَهُمْ عَلَيْهِنَّ مِنَ الْحَقِّ» بتاؤ اگر (میرے مرنے کے بعد) تم میری قبر کے پاس سے گزرو گے تو کیا میری قبر کو بھی سجدہ (1) کرو گے ؟ (قیس کہتے ہیں) میں نے عرض کیا کہ نہیں (میں آپ کی قبر کو تو سجدہ نہیں کروں گا) تو آپ ﷺ نے فرمایا ایسے ہی اب بھی نہ کرو ۔ (اس کے بعد آپنے ارشاد فرمایا) اگر میں کسی کو کسی دوسری مخلوق کے لئے سجدہ کرنے کے لئے کہتا تو عورتوں کو کہتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں ، اس عظیم حق کی بناء پر جو اللہ نے ان کے شوہروں کا ان پر مقرر کیا ہے۔” (55) اور مسند احمد میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایک اور واقعہ روایت کیا گیا ہے کہ ایک اونٹ نے نے رسول اللہ ﷺ کے حضور میں سجدہ کیا (یعنی وہ اس طرح آپو کے حضور میں جھک گیا جس کو دیکھنے والوں نے سجدہ سے تعبیر کیا) اس اونٹ کا یہ طرز عمل دیکھ کر بعض صحابہؓ نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ : یا رسول اللہ اونٹ جیسے چوپائے اور درخت آپ کے لئے سجدہ کرتے ہیں (یعنی جھک جاتے ہیں) تو ان کی بہ نسبت ہمارے لئے زیادہ سزاوار ہے کہ ہم آپ کو سجدہ کریں ۔ آپنے ان سے فرمایا: «اعْبُدُوا رَبَّكُمْ، وَأَكْرِمُوا أَخَاكُمْ، وَلَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا، أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا» (الحديث) عبادت اور پرستش بس اپنے رب کو کرو اور اپنے بھائی کا (یعنی میرا) بس اکرام و احترام کرو اور اگر میں کسی کو کسی دوسری مخلوق کے لئے سجدہ کرنے کو کہتا تو عورت کو کہتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے ۔ الخ ان مختلف احادیث و روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیوی پر شوہر کے حق کے بارے میں یہ سجدے والی بات مختلف موقعوں پر اور بار بار فرمائی ۔ ہر قسم کا سجدہ صرف اللہ کے لئے ان سب حدیثوں سے یہ بات بھی پوری صراحت اور وضاحت کے ساتھ معلوم ہو گئی کہ شریعت محمدی ﷺ میں سجدہ صرف اللہ کے لئے ہے اس کے سوا کسی دوسرے کے لئے حتی کہ افضل مخلوق سید الانبیاء حضرت محمدﷺ کے لئے بھی کسی طرح کے سجدہ کی گنجائش نہیں ہے ۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ حضرت م عاذ یا قیس بن سعدؓ یا جن دوسرے صحابہ نے رسول اللہ ﷺ کے حضور میں سجدے کے بارے میں عرض کیا تھا وہ سجدہ تحیہ ہی کے بارے میں عرض کیا تھا (جس کو لوگ سجدہ تعظیمی بھی کہہ دیتے ہیں) اس کا تو شبہ بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ان صحابہؓ نے معاذ اللہ سجدہ عبادت و عبودیت کے بارے میں عرض کیا ہو ۔ جو شخص رسول اللہ ﷺ پر ایمان لا چکا اور آپ ﷺ کی دعوت توحید کو قبول کر چکا اس کو تو اس کا وسوسہ بھی نہیں آ سکتا کہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کو سجدہ عبادت کرے ۔ اس لئے ماننا پڑے گا کہ ان حدیثوں کا تعلق خاص کر سجدہ تحیہ ہی سے ہے ۔ اسی لئے فقہاء نے تصریح کی ہے کہ کسی مخلوق کے لئے سجدہ تحیہ بھی حرام ہے ۔ پس جو لوگ اپنے بزرگوں ، مرشدوں کو یا مرنے کے بعد ان کے مزاروں کو سجدہ کرتے ہیں وہ بہرحال شریعت محمدی ﷺ کے مجرم اور باغی ہیں اور ان کا یہ عمل صورۃ بلاشبہ شرک ہے ۔ (غیر اللہ کے لئے سجدے کے بارے میں یہاں جو چند سطریں لکھی گئیں ، یہ مندرجہ بالا احادیث کی تشریح کا ضروری حق اور تقاضا تھا اب اصل موضوع (یعنی بیوی پر شوہر کے حقوق) سے متعلق بقیہ احادیث پڑھئے)
شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عورت جب پانچوں وقت کی نماز پڑھے اور ماہِ رمضان کے روزے رکھے اور اپنی شرم و آبرو کی حفاظت کرے اور شوہر کی فرمانبردار رہے تو پھر (اسے حق ہے کہ) جنت کے جس دروازے سے چاہے اس میں داخل ہو ۔ (حلیہ ابو نعیم) تشریح میاں بیوی کے تعلق میں یہ ضروری تھا کہ کسی ایک کو سربراہی کا درجہ دیا جائے اور اسی حساب سے اس پر ذمہ داریاں بھی ڈالی جائیں ، اور ظاہر ہے کہ فطری برتری کے لحاظ سے اس کے لئے شوہر ہی زیادہ موزوں ہو سکتا تھا ۔ چنانچہ شریعت محمدیﷺ میں گھر کا سربراہ مرد ہی کو قرار دیا گیا ہے ، اور بڑی ذمہ داریاں اسی پر ڈالی گئی ہیں ۔ فرمایا گیا ہے : “الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ” (مرد عورتوں کے سربراہ اور ذمہ دار ہیں) اور عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ گھر کے سربراہ ذمہ دار اور اور اپنے سرتاج کی حیثیت سے شوہر کی بات مانیں ، اور بیوی ہونے کی حیثیت سے ان کی مخصوص خانگی ذمہ داریاں ہیں ان کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کریں ۔ چنانچہ ان کے لئے فرمایا گیا ہے “فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ ” (النساء ۳۴) (نیک بیویاں شوہروں کی فرمانبردار ہوتی ہیں ، اور شوہر کے پیچھے بھی (اس کی آبرو اور ہر امانت کی حفاظت کرتی ہیں) اگر عورت شوہر کی اطاعت فرمانبرداری کے بجائے نافرمانی و سرکشی کا رویہ اختیار کرے تو ظاہر ہے کہ اس کے نتیجہ میں پہلے کشمکش اور پھر خانہ جنگی ہو گی جو دونوں کی دینی و دنیوی بربادی کا باعث ہو گی ۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کو شوہروں کی اطاعت و فرمانبرداری اور رضا جوئی کی تاکید بھی فرمائی ہے ، اور اس کا عظیم اجر و ثواب بیان فرما کر ترغیب بھی دی ہے ۔ تشریح ..... اس حدیث میں یہ بات خاص طور سے قابل لحاظ ہے کہ اس میں بیوی کے لئے شوہر کی اطاعت کو نماز ، روزہ اور زنا سے اپنی حفاظت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ، یہ اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ شریعت کی نگاہ میں اس کی بھی ایسی ہی اہمیت ہے جیسی کہ ان ارکان و فرائض کی ۔
شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جو عورت اس حالت میں دنیا سے جائے کہ اس کا شوہر اس سے راضی اور خوش ہو تو وہ جنت میں جائے گی ۔ (جامع ترمذی) تشریح اس سلسلہ معارف الحدیث میں یہ بات بار بار واضح کی جا چکی ہے کہ جن احادیث میں کسی خاص عمل پر جنت کی بشارت دی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ عمل اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے اور اس کا صلہ جنت ہے اور اس کا کرنے والا جنتی ہے لیکن اگر بالفرض وہ عقیدہ یا عمل کی کسی ایسی گندگی میں ملوث ہو جس کی لازمی سزا دوزخ کا عذاب ہو تو اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق اس کا اثر بھی ظاہر ہو کے رہے گا ۔ اسی روشنی میں ام سلمہؓ کی اس حدیث کا مطلب سمجھنا چاہئے ۔ دوسری بات یہاں یہ قابل لحاظ ہے کہ اگر کوئی شوہر ناواجب طور پر اپنی بیوی سے ناراض ہو تو اللہ کے نزدیک بیوی بےقصور ہو گی اور ناراضی کی ذمہ داری خود شوہر پر ہو گی ۔ (یہاں تک وہ حدیثیں مذکور ہوئی جن میں بیویوں پر شوہروں کا حق بیان کیا گیا ہے ، اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری اور رضا جوئی کی تاکید فرمائی گئی ہے ، اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری اور رضا جوئی کی تاکید فرمائی گئی ہے ۔ اب وہ حدیثیں پڑھئے جن میں شوہروں کو بیویوں کی رعایت اور دلجوئی و دلداری اور بہتر رویہ کی تاکید فرمائی گئی ہے)۔
بیویوں کے حقوق اور ان کی رعایت و مدارات کی تاکید
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (حجۃ الوداع میں یوم عرفہ کے خطبہ میں رسول اللہ ﷺ نے یہ ہدایت بھی دی) لوگو ! اپنی بیویوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو ، تم نے ان کو اللہ کیامان کے ساتھ اپنے عقد میں لیا ہے ۔ اور اسی اللہ کے کلمہ اور حکم سے وہ تمہارے لئے حلال ہوئی ہیں ۔تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ جس کا (گھر میں آنا اور) تمہارے بستروں پر بیٹھنا تمہیں ناپسند ہو وہ اس کو آ کر وہاں بیٹھنے کا موقع نہ دیں ، پس اگر وہ ایسی غلطی کریں تو ان کو (تنبیہ و تادیب کے طور پر) تم سزا دے سکتے ہو جو زیادہ سخت نہ ہو ، اور تمہارے ذمہ مناسب طریقے پر ان کے کھانے کپڑے (وغیرہ ضروریات) کا بندوبست کرنا ہے ۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں سب سے پہلی بات تو یہ فرمائی گئی ہے کہ مرد جو عورتوں کے بااختیار اور صاحب امر سربراہ ہیں وہ اپنی اس سربراہی کو خدا کے مواخذہ اور محاسبہ سے بےپروا ہو کر عورتوں پر استعمال نہ کریں ، وہ ان کے معاملہ میں خدا سے ڈریں اور یاد رکھیں کہ ان کے اور ان کی بیویوں کے رمیان خدا ہے ، اسی کے حکم اور اسی کے مقرر کئے ہوئے ضابطہ نکاح کے مطابق وہ ان کی بیوی بنی ہیں اور ان کے لئے حلال ہوئی ہیں اور وہ اللہ کی امان میں ان کی ماتحت اور زیرِ دست بنائی گئی ہیں ، یعنی ان کی بیوی بن جانے کے بعد ان کو اللہ کی امان اور پناہ حاصل ہے ۔اگر شوہر ان کے ساتھ ظلم و زیادتی کریں گے تو اللہ کی دی ہوئی امان کو توڑیں گے اور اس کے مجرم ہوں گے ۔ “أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانِ اللهِ” کا یہی مطلب ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کے اس جملہ نے بتایا کہ جب کوئی عورت اللہ کے حکم کے مطابق کسی مرد سے نکاح کر کے اس کی بیوی بن جاتی ہے تو اس کو اللہ کی ایک خاص امان حاصل ہو جاتی ہے ۔ یہ عورتوں کے لئے کتنا بڑا شرف ہے اور اس میں ان کے سربراہ شوہروں کو کتنی سخت آگاہی ہے کہ وہ یہ بات یاد رکھیں کہ ان کی بیویاں اللہ کی امان میں ہیں ۔ اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ شوہروں کا بیویوں پر یہ حق ہے کہ جن مردوں یا عورتوں کا گھر میں آنا اور بیویوں سے بات چیت کرنا انہیں پسند نہ ہو بیویاں ان کو گھر میں آنے کی اجازت نہ دیں ۔ “ وَلَكُمْ عَلَيْهِنَّ أَنْ لَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ ” کا یہی (1) مطلب ہے ۔ آگے فرمایا گیا ہے کہ اگر وہ اس کی خلاف ورزی کریں تو تم مردوں کو ان کے سربراہ کی حیثیت سے حق ہے کہ ان کی اصلاح اور تنبیہ کے لئے مناسب سمجھیں تو ان کو سزا دیں ، لیکن صراحت کے ساتھ ہدایت فرمائی گئی ہے کہ یہ سزا سخت نہ ہو “غَيْرَ مُبَرِّحٍ” کا یہی مطلب ہے ۔ آخر میں فرمایا گیا ہے کہ بیویوں کا شوہر پر یہ خاص حق ہے کہ وہ ان کو کھانے ، کپڑے وغیرہ کی ضروریات اپنی حیثیت اور معاشرے کے دستور کے مطابق پوری کریں ، اس معاملہ میں بخل و کنجوسی سے کام نہ لیں ۔ “بِالْمَعْرُوفِ” کا یہی مطلب ہے ۔
بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگو ! بیویوں کے ساتھ بہتر سلوک کے بارے میں میری وصیت مانو (یعنی میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ کی ان بندیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو ، نرمی اور مدارات کا برتاؤ رکھو ، ان کی تخلیق پسلی سے ہوئی ہے (جو قدرتی طور پر ٹیڑھی ہتی ہے) اور زیادہ کجی پسلی کے اوپر کے حصے میں ہوتی ہے ، اگر تم اس ٹیڑھی پسلی کو (زبردستی) بالکل سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو وہ ٹوٹ جائے گی ، اور اگر اسے یونہی اپنے حامل پر چھوڑ دو گے (اور درست کرنے کی کوشش نہ کرو گے) تو پھر وہ ہمیشہ ویسی ہی ٹیڑھی رہے گی ، اس لئے بیویوں کے ساتھ بہتر سلوک کرنے کی میری وصیت قبول کرو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں عورتوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے : “فَإِنَّهُنَّ خُلِقْنَ مِنْ ضِلَعٍ” (ان کی تخلیق اور بناوٹ پسلی سے ہوئی ہے) یہ واقعہ کا بیان بھی ہو سکتا ہے اور اس کو محاوراتی تمثیل بھی کہا جا سکتا ہے ۔ بہرصورت مقصد و مدعا یہ ہے کہ عورتوں کی جبلت اور سرشت میں کچھ نہ کچھ کجی ہوتی ہے ۔ (1) جیسے کہ آدمی کے پہلو کی پسلی میں قدرتی کجی ہوتی ہے ۔ آگے فرمایا گیا ہے ک زیادہ کجی اس کے اوپر والے حصے میں ہوتی ہے ، یہ غالبا اس طرف اشارہ ہے کہ عورت میں کجی کا زیادہ تر ظہور اوپر کے حصے میں ہوتا ہے جس میں سوچنے والا دماغ اور بولنے والی زبان ہے ۔ آگے فرمایا گیا ہے کہ اگر تم ٹیڑھی پسلی کو زور و قوت سے بالکل سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو وہ ٹوٹ جائے گی ۔ اور اگر یونہی چھوڑ دو گے تو وہ ہمیشہ ٹیڑھی رہے گی ۔ مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی زبردستی اور تشدد سے عورت کی مزاجی کجی نکالنے کی کوشش کرے گا تو وہ کامیاب نہ ہو سکے گا ، بلکہ ہو سکتا ہے کہ افتراق اور علیحدگی کی نوبت آ جائے اور اگر اصلاح کی بالکل فکر نہ کرے گا تو وہ کجی ہمیشہ رہے گی اور کبھی قلبی سکون اور زندگی کی خوشگواری کی وہ دولت حاصل نہ ہو سکے گی جو رشتہ اردواج کا خاص مقصد ہے ۔ اس لئے مردوں کو چاہئے کہ وہ عورتوں کی معمولی غلطیوں اور کمزوریوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کے ساتھ بہتر سلوک اور دلداری کا برتاؤ کریں ۔ اس طریقے اسے ان کی اصلاح بھی ہو سکے گی ، یہ میری خاص وصیت اور نصیحت ہے ۔ اس پر کاربند رہو ۔ “اسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا” سے آپ نے کالم شروع فرمایا تھا اور خاتمہ کلام پر پھر فرمایا : “فَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ” اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آپ کو عورتوں کے ساتھ حسن سلوک اور دلداری کے برتاؤ کا کتنا اہتمام تھا ۔
بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی ایمان والا شوہر اپنی مومنہ بیوی سے نفرت نہیں کرتا (یا یہ کہ اس کو نفرت نہیں کرنی چاہئے) اگر اس کو کوئی عادت ناپسندیدہ ہو گی تو دوسری کوئی عادت پسندیدہ بھی ہو گی ۔ (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر شوہر کو اپنی بیوی کی عادات و اطوار میں کوئی بات مرضی کے خلاف اور ناپسندیدہ معلوم ہو اور اچھی نہ لگے تو اس کی وجہ سے اس سے نفرت اور لاتعلقی کا رویہ اختیار نہ کرے اور نہ طلاق کے بارے میں سوچے ، بلکہ اس میں جو خوبیاں ہوں ان پر نگاہ کرے اور ان کی قدر و قیمت کو سمجھے ، یہ مومن شوہر کی صفت ایمان کا تقاضا اور مومنہ بیوی کے ایمان کا حق ہے ۔ اسی صورتحال کے بارے میں قرآن مجید میں ہدایت دی گئی ہے ۔ (وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّـهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا النساء۴:۱۹) اور بیویوں کے ساتھ مناسب و معقول طریقے سے گزران کرو ، اگر وہ تمہیں ناپسند بھی ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو اور اللہ نے اس میں بہت خیر و خوبی رکھی ہو ۔
بیویوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کمال ایمان کی شرط
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : مسلمانوں میں اس آدمی کا ایمان زیادہ کامل ہے جس کا اخلاق برتاؤ (سب کے ساتھ) بہت اچھا ہو (اور خاص کر) بیوی کے ساتھ جس کا رویہ لطف و محبت کا ہو ۔ (جامع ترمذی)
بیویوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کمال ایمان کی شرط
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمانوں میں زیادہ کامل الایمان وہ ہیں جن کےاخلاق بہتر ہیں اور (واقعہ میں اللہ کی نگاہ میں) تم میں اچھے اور خیر کا زیادہ حامل وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے حق میں زیادہ اچھے ہیں ۔ (جامع ترمذی)
بیویوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا معیاری اور مثالی برتاؤ
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ آدمی تم میں زیادہ اچھا اور بھلا ہے جو اپنی بیوی کے حق میں اچھا ہو ۔ (اسی کے ساتھ فرمایا) اور میں اپنی بیویوں کے لیے بہت اچھا ہوں ۔ (جامع ترمذی) (نیز مسند دارمی اور سنن ابن ماجہ مین یہی حدیث حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت کی گئی ہے) تشریح مطلب یہ ہے کہ آدمی کی اچھائی اور بھلائی کا خاص معیار اور نشانی یہ ہے کہ اس کا برتاؤ اپنی بیوی کے حق میں اچھا ہو ۔ آگے مسلمانوں کے واسطے اپنی اس ہدایت کو زیادہ موثر بنانے کے لئے رسول اللہ ﷺ نے خود اپنی مثال بھی پیش فرمائی کہ خدا کے فضل سے میں اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتا ہوں ۔ واقعہ یہ ہے کہ بیویوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا برتاؤ انتہائی دلجوئی اور دلداری کا تھا ، جس کی ایک دو مثالیں آگے درج ہونے والی حدیثوں سے بھی معلوم ہوں گی ۔
بیویوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا معیاری اور مثالی برتاؤ
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس (یعنی نکاح و رخصتی کے بعد آپ ﷺ کے ہاں آ جانے کے بعد بھی) گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی اور میرے ساتھ کھیلنے والی میری کچھ سہیلیاں تھیں (جو ساتھ کھیلنے کے لئے میرے پاس بھی آیا جایا کرتی تھیں) تو جب آنحضرتﷺ گھر میں تشریف لاتے تو وہ (آپ کے اس احترام میں کھیل چھوڑ کے) گھر کے اندر جا چھپتیں تو آپ ﷺ ان کو میرے پاس بھجوا دیتے (یعنی خود فرما دیتے کہ وہ اسی طرح میرے ساتھ کھیلتی رہیں) چنانچہ وہ آ کے پھر میرے ساتھ کھیلنے لگتیں ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا صحیح روایات کے مطابق نو سال کی عمر میں آنحضرتﷺ کے گھر آ گئیں تھیں (1) اور اس وقت وہ گڑیوں سے کھیلا کرتی تھیں اور انہیں اس سے دلچسپی تھی ۔ صحیح مسلم کی ایک دوسری حدیث میں خود حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا اپنے متعلق یہ بیان ہے : “وَزُفَّتْ إِلَيْهِ وَهِيَ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ، وَلُعَبُهَا مَعَهَا” (یعنی جب ان کی رخصتی ہوئی تو وہ نو سال کی تھیں اور ان کے کھیلنے کی گڑیاں ان کے ساتھ تھیں) صحیحین کی زیرِ تشریح حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ انہیں اس کھیل اور تفریحی مشغلہ سے نہ صرف یہ کہ منع فرماتے تھے بلکہ اس بارے میں ان کی اس حد تک دلداری فرماتے تھے کہ جب آپ کے تشریف لانے پر ساتھ کھیلنے والی دوسری بچیاں کھیل چھوڑ کے بھاگتیں تو آپ ﷺ خود ان کو کھیل جاری رکھنے کے لئے فرما دیتے ۔ ظاہر ہے کہ بیوی کی دلداری کی یہ انتہائی مثال ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا گریاں اور تصویر کا مسئلہ یہاں بعض ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ جب ذی روح کی تصویر بنانا اور اس کا گھر میں رکھنا جائز نہیں اور اس پر صحیح حدیثوں میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت صدیقہؓ کو گڑیوں سے کھیلنے اور گھر میں رکھنے کی اجازت کیوں دی ؟ بعض شارحین نے اس کا ایک جواب یہ بھی دیا ہے کہ حضرت عائشہؓ کے گڑیوں سے کھیلنے کا یہ واقعہ ہجرت کے ابتدائی زمانہ کا ہے جب کہ تصویروں کی حرمت کا حکم نہیں آیا تھا ، بعد میں جب تصویروں کے بنانے اور رکھنے کی سخت ممانعت کر دی گئی تو گڑیوں کے بنانے اور کھیلنے کی بھی گنجائش نہیں رہی ۔ لیکن اس عاجز کے نزدیک زیادہ صحیح جواب یہ ہے کہ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کی یہ گڑیاں تصویر کے حکم میں داخل ہی نہیں تھیں ۔ وہ تو چودہ سو برس پہلے کی بات ہے خود ہمارے اس زمانے میں جب کہ سینے پرونے کے فن نے وہ ترقی کر لی ہے جو معلوم ہے گھروں کی چھوٹی بچیاں اپنے کھیلنے کے لئے جو گڑیاں بناتی ہیں ہم نے دیکھا کہ تصویریت کے لحاظ سے وہ اتنی ناقص ہوتی ہیں کہ ان پر کسی طرھ بھی تصویر کا حکم نہیں لگایا جا سکتا ، اس لئے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی گڑیوں کے بارے میں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا ۔
حضور ﷺ کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دوڑ میں مقابلہ
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں ایک سفر میں حضور ﷺ کے ساتھ تھی تو پیدل دوڑ میں ہمارا مقابلہ ہوا تو میں جیت گئی اور آگے نکل گئی ، اس کے بعد جب (فربہی سے) میرا جسم بھاری ہو گیا تو (اس زمانہ میں بھی ایک دفعہ) ہمارا دوڑ میں مقابلہ ہوا تو آپ جیت گئے اور آگے نکل گئے ، اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا : “یہ تمہاری اس جیت کا جواب ہو گیا” ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح بلا شبہ بیویوں کے ساتھ حسن معاشرت اور ان کا دل خوش کرنے کی یہ بھی نہایت اعلیٰ مثال ہے ۔ اور اس میں ان لوگوں کے لئے خاص سبق ہے جن کے نزدیک دین میں اس طرح کی تفریحات کی کوئی جگہ نہیں ۔
حضور ﷺ نے حضرت عائشہؓ کو خود کھیل دکھایا
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، بیان کرتی ہیں : خدا کی قسم ! میں نے یہ منظر دیکھا ہے کہ (ایک روز) حبشی لوگ مسجد میں نیزہ ماری کا کھیل کھیل رہے تھے ۔ رسول اللہ ﷺ مجھے ان کا کھیل دکھانے کے لئے میرے لئے اپنی چادر کا پردہ کر کے میرے حجرے کے دروازے پر کھڑے ہو گئے (جو مسجد ہی میں کھلتا تھا) میں آپ کے کاندھے اور کان کے درمیان سے ان کا کھیل دیکھتی رہی ، آپ میری وجہ سے مسلسل کھڑے رہے ، یہاں تک کہ (میرا جی بھر گیا اور) میں خود ہی لوٹ آئی ۔ (حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اس واقعہ سے) انداسزہ کرو کہ ایک نو عمر اور کھیل تماشہ سے دلچسپی رکھنے والی لڑکی کا کیا مقام تھا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح ہ واقعہ بھی بیویوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی حسن معاشرت اور ان کی دل جوئی اور دلداری کی انتہائی مثال ہے ، اور اس میں امت کے لئے بڑا سبق ہے ۔ عید میں لہو و لعب کی بھی گنجائش البتہ اس سلسلہ میں یہ بات خاص طور سے قابل لحاظ ہے کہ یہ عید کا دن تھا ۔ جیسا کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی ایک روایت میں اس کی تصریح ہے ۔ (1) اور عید میں لہو و لعب کی بھی ایک حد تک گنجائش رکھی ہے ، کیوں کہ عوامی جشن و نشاط کا یہ بھی ایک فطری تقاضا ہے ۔ صحیحین اور دورسری کتب حدیث میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے یہ واقعہ مروی ہے کہ ایک دفعہ عید کے دن رسول اللہ ﷺ کپڑا اوڑھے آرام فرما رہے گھے ، دو بچیاں آئیں اور دَف بجا بجا کر جنگ بُعاث سے متعلق کچھ اشعار گانے لگیں ، اتنے میں حضرت ابو بکرؓ آ گئے ۔ انہوں نے ان بچیوں کو ڈانٹ کر بھگا دینا چاہا ، آنحضرتﷺ نے منہ کھول کر فرمایا : “دَعْهُمَا يَا أَبَا بَكْرٍ، فَإِنَّهَا أَيَّامُ عِيدٍ” (ابو بکر ! ان بچیوں کو چھوڑ دو ، یعنی جو کر رہی ہیں کرنے دو ، یہ عید کا دن ہے) مطلب یہی تھا کہ عید میں اس طرح کے لہو و لعب کی ایک حد تک گنجائش رکھی گئی ہے ۔ الغرض کھیل کو دیکھنے کا جو ذکر ہے اس کے بارے میں ایک بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ وہ عید کا دن تھا ، اور عید میں اس طرح کی تفریحات کی ایک حد تک گنجائش ہے ۔ یہ ایک بامقصد اور تربیتی کھیل تھا ، اسی لئے خود حضور ﷺ نے اس میں دلچسپی لی علاوہ ازیں نیزہ ماری کا یہ کھیل ایک بامقصد کھیل تھا جو فن جنگ کی تعلیم و تربیت کا بھی ایک ذریعہ تھا ، غالبا اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے خود بھی اس سے دلچسپی لی ۔ صحیحین کی اسی حدیث کی بعض روایات میں ہے کہ آنحضرتﷺ ان کھلاڑیوں کو “دُونَكُمْ يَا بَنِي أَرْفِدَةَ” کہہ کر ایک طرح کی داد بھی دیتے اور ان کی ہمت افزائی فرماتے تھے ۔ (1) اور اسی واقعہ سے متعلق صحیحین کی بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کھلاڑیوں حبشیوں کو (جو مسجد میں اپنا کھیل دکھا رہے تھے) مسجد سے بھگا دینا چاہا تھا لیکن رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا : “دَعْهُمْ” (یعنی انہیں کھیلنے دو) اور ان کھلاڑیوں سے فرمایا “أَمْنًا بَنِي أَرْفِدَةَ” (یعنی تم بےخوف اور مطمئن ہو کر کھیلو) ۔ پردہ کا سوال اس حدیث کے سلسلہ میں ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ یہ حبشی لوگ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے لئے یقینا غیر محرم اور اجنبی تھے ، پھر انہوں نے ان کا کھیل کیوں دیکھا اور رسول اللہ ﷺ نے کیوں دکھایا ؟ بعض شارحین نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ یہ واقعہ اس ابتدائی زمانہ کا ہے جب پردہ کا حکم نازل ہی نہیں ہوا تھا ۔ لیکن روایات کی روشنی میں یہ بات صحیح ثابت نہیں ہوتی ۔ فتح الباری میں حافظ ابن حجر نے ابن حبان کی روایت سے ذکر کیا ہے کہ یہ واقعہ ۷ھ کا ہے جب کہ حبشہ کا وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا اور حجاب کا حکم یقینا اس سے پہلے آ چکا تھا ۔ اس کے علاوہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زیر تشریح حدیث میں بھی یہ مذکور ہے کہ جس وقت وہ کھیل دیکھ رہی تھیں تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے لئے اپنی چادر مبارک کا پردہ کر دیا تھا ، اگر یہ واقعہ حجاب کے حکم سے پہلے کا ہوتا تو اس کی ضرورت نہ ہوتی ۔ دوسری بات اس سوال کے جواب میں یہ کہی گئی ہے کہ چونکہ اس کا قطعا کوئی خطرہ نہیں تھا کہ ان حبشیوں کا کھیل دیکھنے کی وجہ سے حضرت صدیقہؓ کے دل میں کوئی بُرا خیال اور وسوسہ پیدا ہو ، اس لئے ان کے لئیے یہ دیکھنا جائز تھا ۔ اور جب بھی کسی عورت کے لئے ایسی صورت ہو کہ وہ فتنہ اور مفسدہ سے مامون و محفوظ ہو تو اس کے لئے اجنبی کو دیکھنا ناجائز نہیں ہو گا ۔ امام بخاریؒ نے صحیح بخاری کتاب النکاح میں اسی حدیث پر “باب النظر الى الحبش ونحوهم من غير ريبة” کا ترجمۃ الباب قائم کر کے اسی جواب کی طرف اشارہ کیا ہے ، اور بلاشبہ یہی جواب زیادہ تشفی بخش ہے ۔ واللہ اعلم ۔
ہمسایوں کے حقوق: پڑوسی کے بارے میں حضرت جبرئیلؑ کی مسلسل وصیت اور تاکید
حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : (اللہ کے خاص قاصد جبرائیل کے پڑوسی کے حق کے بارے میں مجھے (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) برابر وصیت اور تاکید کرتے رہے ۔ یہاں تک کہ میں خیال کرنے لگا کہ وہ اس کو وارث قرار دے دیں گے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح انسان کا اپنے ماں باپ ، اپنی اولاد اور قریبی رشتہ داروں کے علاوہ ایک مستقل واسطہ اور تعلق ہمسایوں اور پڑوسیوں سے بھی ہوتا ہے ، اور اس کی خوشگواری اور ناخوشگواری کا زندگی کے چین و سکون پر اور اخلاق کے بناؤ بگاڑ پر بہت زیادہ اثر پڑتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی تعلیم و ہدایت میں ہمسائیگی اور پڑوس کے اس تعلق کو بڑی عظمت بخشی ہے اور اس کے احترام و رعایت کی بڑی تاکید فرمائی ہے ۔ یہاں تک کہ اس کا جزو ایمان اور داخلہ جنت کی شرط اور اللہ و رسول ﷺ کی محبت کا معیار قرار دیا ہے ۔ اس سلسلہ میں آپ ﷺ کے مندرجہ ذٰل ارشادات پڑھئے ! تشریح ..... مطلب یہ ہے کہ پڑوسی کے حق اور اس کے ساتھ اکرام و رعایت کا رویہ رکھنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت جبرئیل مسلسل ایسے تاکیدی احکام لاتے رہے کہ مجھے خیال ہوا کہ شاید اس کو وارث بھی بنا دیا جائے گا ، یعنی حکم آ جائے گا کہ کسی کے انتقال کے بعد جس طرح اس کے ماں باپ اس کی اولاد اور دوسرے اقارب اس کے ترکہ کے وارث ہوتے ہیں اسی طرح پڑوسی کا بھی اس میں حصہ ہو گا ۔ ظاہر ہے کہ اس ارشاد کا مقصد صرف یہ واقعہ بیان نہیں ہے بلکہ پڑوسیوں کے حق کی اہمیت کے اظہار کے لئے یہ ایک نہایت موثر اور بلیغ ترین عنوان ہے ۔
پڑوسیوں کے ساتھ اچھا رویہ اللہ و رسول ﷺ کی محبت کی شرط اور اس کا معیار
عبدالرحمن بن ابی قراد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے وضو فرمایا تو صحابہؓ آپ ﷺ کے وضو کا استعمال شدہ پانی لے لے کر اپنے پر ملنے لگے ۔ حضور ﷺ نے ان سے فرمایا کہ : تمہارے لئے اس کا کیا باعث اور محرک ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ : بس اللہ و رسول ﷺ کی محبت ! آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ :“جس کی یہ خوشی اور چاہت ہو کہ اس کو اللہ اور رسول کی محبت نصیب ہو یا یہ کہ اس سے اللہ اور رسول کو محبت ہو تو اسے چاہئے کہ وہ ان تین باتوں کا اہتمام کرے : ۱۔ بات کرے تو سچ بوے ، ۲۔ کوئی امانت اس کے سپرد کی جائے تو امانتداری کے ساتھ اس کو ادا کرے اور ۳۔ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا رویہ رکھے” ۔ (شعب الایمان للبیہقی)
پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ لازمہ ایمان
حضرت ابو شریح عدوی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اپنے کانوں سے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد سنا اور جس وقت آپ ﷺ یہ فرما رہے تھے اس وقت میری آنکھیں آپ ﷺ کو دیکھ رہی تھیں ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس کے لئے لازم ہے کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ اکرام کا معاملہ کرے اور جو اللہ پر یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے لازم ہے کہ اپنے مہمان کا اکرام کرے اور جو اللہ پر یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے لازم ہے کہ اچھی بات بولے یا پھر چپ رہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) (یہی مضمون قریب قریب انہی الفاظ میں صحیح بخاری و صحیح مسلم ہی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کیا گیا ہے) ۔
وہ آدمی مومن اور جنتی نہیں جس کے پڑوسی اس سے مامون اور بے خوف نہ ہوں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن فرمایا کہ : خدا کی قسم ! وہ شخص مومن نہیں ، خدا کی قسم ! اس میں ایمان نہیں ،خدا کی قسم ! وہ صاحب ایمان نہیں ۔ عرض کیا گیا “یا رسول اللہ ! کون شخص ؟ ” (یعنی حضور صﷺ کس بدنصیب شخص کے بارے میں قسم کے ساتھ ارشاد فرما رہے ہیں کہ وہ مومن نہیں ، اور اس میں ایمان نہیں ؟) آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ :“وہ آدمی جس کے پڑوسی اس کی شرارتوں اور مفسدہ پروازیوں سے مامون اور بےخوف نہ ہوں ۔” (یعنی ایسا آدمی ایمان سے محروم ہے) (صحیح بخاری و صحیح مسلم) (یہ حدیث قریب قریب انہی الفاظ میں حضرت طلق بن علیؓ سے طبرانی نے معجم کبیر میں اور حضرت انسؓ سے حاکم نے مستدرک میں روایت کی ہے) ۔ تشریح حدیث کے الفاظ میں غور کر کے ہر شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد کیسے جلال سے معمور ہے ، اور جس وقت آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہو گا اس وقت آپ ﷺ کا حال اور آپ ﷺ کے خطاب کا انداز کیا رہا ہو گا ۔ بہرحال اس پُرجلال ارشاد کا مدعا اور پیغام یہی ہے کہ ایمان والوں کے لئے لازم ہے کہ پڑوسیوں کے ساتھ ان کا برتاؤ اور رویہ ایسا شریفانہ رہے کہ وہ ان کی طرف سے بالکل مطمئن اور بےخوف رہیں ان کے دلوں و دماغوں میں بھی ان کے بارے میں کوئی اندیشہ اور خطرہ نہ ہو ۔ اگر کسی مسلمان کا یہ حال نہیں ہے ، اور اس کے پڑوسی اس سے مطمئن نہیں ہیں تو رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ اسے ایمان کا مقام نصیب نہیں ہے ۔
وہ آدمی مومن اور جنتی نہیں جس کے پڑوسی اس سے مامون اور بے خوف نہ ہوں
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :“وہ آدمی جنت میں داخل نہ ہو سکے گا جس کی شرارتوں اور ایذاء رسانیوں سے اس کے پڑوسی مامون نہ ہوں ” ۔ (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ جس آدمی کا کردار اور رویہ ایسا ہو کہ اس کے پڑوسی اس کی شرارتوں اور بداطواریوں سے خائف رہتے ہوں وہ اپنی اس بدکرداری کی وجہ سے اور اس کی سزا پائے بغیر جنت میں نہ جا سکے گا ۔ ان دو حدیثوں سے سمجھا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیم و ہدایت میں ہمسائیوں کے ساتھ حسن سلوک کا کیا درجہ اور مقام ہے ۔ نبوت کی زبان میں کسی عمل کی سخت تاکید اور دین میں اس کی انتہائی اہمیت جتانے کے لئے آخری تعبیر یہی ہوتی ہے کہ اس میں کوتاہی کرنے والا مومن نہیں یا یہ کہ وہ جنت میں نہ جا سکے گا ۔ افسوس یہ ہے کہ اس طرح کی حدیثیں ہمارے علمی اور درسی حلقوں میں اب کلامی بحثوں اور علمی موشگافیوں کا موضوع بن کر رہ گئی ہیں ، شاذ و نادر ہی اللہ کے وہ خوش نصیب بندے ہوں گے جو یہ حدیثیں پڑھ کر اور سن کر زندگی کے اس شعبہ کو درست کرنے کی فکر میں لگ جائیں ، حالانکہ حضور ﷺ کے ان ارشادات کا مقصد و مدعا یہی ہے ۔ یہ حدیثیں پڑھنے اور سننے کے بعد بھی پڑوسیوں کے ساتھ برتاؤ اور رویہ کو بہتر اور خوشگوار بنانے کی فکر نہ کرنا بلاشبہ بری شقاوت اور بدبختی کی نشانی ہے ۔ اسی سلسلہ “معارف الحدیث” کی پہلی جلد “کتاب الایمان” میں تفصیل سے لکھا جا چکا ہے کہ اس طرح کی حدیثیں جن میں کسی عملی یا اخلاقی تقصیر اور کوتاہی کی بناء پر ایمان کی نفی کی گئی ہے یا جنت میں نہ جا سکنے کی وعید سنائی گئی ہے ان کا مدعا اور مطلب کیا ہے اور شریعت میں ایسے لوگوں کا حکم کیا ہے ۔
وہ شخص مومن نہیں جو پیٹ بھر کے سو جائے اور اس کا پڑوسی بُھوکا ہو
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : وہ آدمی مجھ پر ایمان نہیں لایا (اور وہ میری جماعت میں نہیں ہے) جو ایسی حالت میں اپنا پیٹ بھر کے رات کو (بےفکری سے) سو جائے کہ اس کے برابر والا اس کا پڑوسی بھوکا ہو ، اور اس آدمی کو اس کے بھوکے ہونے کی خبر ہو ۔ (مسند بزار ، معجم کبیر للطبرانی) تشریح (یہی مضمون قریب قریب انہی الفاظ میں امام بخاری نے “الادب المفرد” میں اور بیہقی نے “شعب الایمان” میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے اور حاکم نے “مستدرک” میں ان کے علاوہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت کیا ہے) ف ..... افسوس ! ہم مسلمانوں کے طرز عمل اور رسول اللہ ﷺ کے ان ارشادات میں اتنا بعد اور فاصلہ ہو گیا ہے کہ کسی ناواقف کو اس بات کا یقین کرنا مشکل ہے کہ یہ تعلیم اور ہدایت مسلمانوں کے پیغمبر ﷺ کی ہو سکتی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان ارشادات میں اعلان فرما دیا ہے کہ جو شخص اپنے پڑوسیوں کے بھوک پیاس کے مسئلوں اور اسی طرح کی دوسری ضرورتوں سے بےفکر اور بےنیاز ہو کر زندگی گزارے وہ مجھ پر ایمان نہیں لایا اس نے میری بات بالکل نہیں مانی اور وہ میرا نہیں ہے ۔ یہ بات بھی ملحوظ رکھنے کی ہے کہ ان تمام حدیثوں میں مسلم اور غیر مسلم پڑوسیوں کی کوئی تخصیص نہیں کی گئی ہے ، بلکہ آگے درج ہونے والی بعض حدیثوں سے معلوم ہو گا کہ یہ سارے حقوق غیر مسلم پڑوسیوں کے بھی ہیں ۔
ہم سائیگی کے بعض متعین حقوق
معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : پڑوسی کے حقوق تم پر یہ ہیں کہ اگر وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت اور خبر گیری کرو اور اگر انتقال کر جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جاؤ (اور تدفین کے کاموں میں ہاتھ بٹاؤ) اور وہ (اپنی ضرورت کے لئے) قرض مانگے تو بشرط استطاعت) اس کو قرض دو اور اگر وہ کوئی برا کام کر بیٹھے تو پردہ پوشی کرو اور اگر اسے کوئی نعمت ملے تو اس کو مبارک باد دو اور اگر کوئی مصیبت پہنچے تو تعزیت کرو ، اور اپنی عمارت اس کی عمارت سے اس طرح بلند نہ کرو کہ اس کے گھر کی ہوا بند ہو جائے اور (جب تمہارے گھر کوئی اچھا کھانا پکے تو اس کی کوشش کرو کہ) تمہاری ہانڈی کی مہک اس کے لئے (اور اس کے بچوں کے لئے) باعث ایذاء نہ ہو (یعنی اس کا اہتمام کرو کہ ہانڈی کی مہک اس کے گھر تک نہ جائے) الا یہ کہ اس میں سے تھوڑا سا کچھ اس کے گھر بھی بھیج دو (اس صورت میں کھانے کی مہک اس کے گھر تک جانے میں کوئی مضائقہ نہیں) (معجم کبیر للطبرانی) تشریح رسول اللہ ﷺ نے پڑوسیوں کے بعض متعین حقوق کی نشان دہی بھی فرمائی ہے ان سے اس باب میں شریعت کا اصولی نقطہ نظر بھی سمجھا جا سکتا ہے ۔ تشریح ..... اس حدیث میں ہمسایوں کے جو متعین حقوق بیان کئے گئے ہیں ان میں سے آخری دو خاص طور سے قابل غور ہیں : ایک یہ کہ اپنے گھر کی تعمیر میں اس کا لحاظ رکھو اور اس کی دیواریں اس طرح نہ اُٹھاؤ کہ پڑوسی کے گھر کی ہوا بند ہو جائے اور اس کو تکلیف پہنچے ۔ اور دوسرے یہ کہ گھر میں جب کوئی اچھی مرغوب چیز پکے تو اس کو نہ بھولو کہ ہانڈی کی مہک پڑوسی کے گھر تک جائے گی ، اور اس کے یا اس کے بچوں کے دل میں اس کی طلب اور طمع پیدا ہو گی جو ان کے لئے باعث ایذاء ہو گی ۔ اس لئے یا تو اپنے پر لازم کر لو کہ اس کھانے میں سے کچھ تم پڑوسی کے گھر بھیجو گے یا پھر اس کا اہتمام کرو کہ ہانڈی کی مہک پڑوسی کے گھر تک نہ جائے جو ظاہر ہے کہ مشکل ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کی ان دو ہدایتوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پڑوسیوں کے بارے مٰں کتنے نازک اور باریک پہلوؤں کی رعایت کو آپ ﷺ نے ضروری قرار دیا ہے ۔ قریب قریب اسی مضمون کی ایک حدیث ابن عدی نے “کامل ” میں اور خرائطی نے “مکارم الاخلاق” میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے بھی روایت کی ہے ۔ اور اس میں یہ اضافہ کیا ہے : وَإِنِ اشْتَرَيْتَ فَاكِهَةً فَأَهْدِ لَهُ، فَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَأَدْخِلْهَا سِرًّا، وَلَا يَخْرُجْ بِهَا وَلَدُكَ لِيَغِيظَ بِهِ وَلَدَهُ. (كنز العمال) اور اگر تم کوئی پھل پھلار خرید کر لاؤ ، تو اس میں سے پڑوسی کے ہاتھ بھی ہدیہ بھیجو اور اگر ایسا نہ کر سکو تو اس کو چھپا کے لاؤ) کہ پڑوس والوں کو خبر نہ ہو ، اور اس کی بھی احتیاط کرو کہ) تمہارا کوئی بچہ وہ پھل لے کر گھر سے باہر نہ نکلے کہ پڑوسی کے بچے کے دل میں اسے دیکھ کر جلن پیدا ہو ۔ اللہ تعالیٰ امت کوتوفیق دے کہ وہ اپنے رسول اللہ ﷺ کی ان ہدایتوں کی قدر و قیمت کو سمجھیں اور اپنی زندگی فکا معمول بنا کر ان کی بیش بہا برکات کا دنیا ہی میں تجربہ کریں ۔
ہم سائیگی کے بعض متعین حقوق
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کسی کے ہاں سالن کی ہانڈی پکے تو اسے چاہئے کہ شوربہ زیادہ کر لے ، پھر اس میں سے کچھ پڑوسیوں کو بھی بھیج دے ۔ (معجم اوسط للطبرانی) (رسول اللہ ﷺ کی یہ ہدایت قریب قریب انہی الفاظ میں جامع ترمذی وغیرہ میں حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کی گئی ہے) ۔
پڑوسی کی تین قسمیں ، غیر مسلم پڑوسی کا بھی حق ہے
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : پڑوسی تین قسم کے اور تین درجے کے ہوتے ہیں ایک وہ پڑوسی جس کا صرف ایک ہی حق ہو اور وہ (حق کے لحاظ سے) سب سے کم درجہ کا پڑوسی ہے ، اور دوسرا وہ پڑوسی جس کے دو حق ہوں اور تیسرا وہ جس کے تین حق ہوں ۔ تو ایک حق والا وہ مشرک (غیر مسلم) پڑوسی ہے جس سے کوئی رشتہ داری بھی نہ ہو (تو اس کا صرف پڑوسی ہونے کا حق ہے) اور دو حق والا وہ پڑوسی ہے ، جو پڑوسی ہونے کے ساتھ مسلم (یعنی دینی بھائی) بھی ہو ، اس کا ایک حق مسلمان ہونے کی وجہ سے ہو گا اور دوسرا پڑوسی ہونے کی وجہ سے اور تین حق والا پڑوسی وہ ہے ، جو پڑوسی بھی ہو ، مسلم بھی ہو اور رشتہ دار بھی ہو ۔ تو اس کا ایک حق مسلمان ہونے کا ہو گا دوسرا حق پڑوسی ہونے کا اور تیسرا رشتہ داری کا ہو گا ۔ (مسند بزار ، حلیہ ابی نعیم) تشریح اس حدیث میں صراحت اور وضاحت فرما دی گئی ہے کہ پڑوسیوں کے جو حقوق قرآن و حدیث میں بیان فرمائے گئے اور ان کے اکرام اور رعایت و حسنِ سلوک کی جو تاکید فرمائی گئی ہے ان میں غیر مسلم پڑوسی بھی شامل ہیں اور ان کے بھی وہ سب حقوق ہیں ۔ صحابہ کرامؓ نے رسول اللہ ﷺ کی تعلیم سے یہی سمجھا ۔ جامع ترمذی وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ کے متعلق روایت کیا گیا ہے کہ ایک دن ان کے گھر بکری ذبح ہوئی وہ تشریف لائے تو انہوں نے گھر والوں سے کہا : أَهْدَيْتُمْ لِجَارِنَا اليَهُودِيِّ؟ أَهْدَيْتُمْ لِجَارِنَا اليَهُودِيِّ؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ. تم لوگوں نے ہمارے یہودی پڑوسی کے لئے بھی گوشت کا ہدیہ بھیجا َ؟ تم لوگوں نے ہمارے یہودی پڑوسی کے لئے بھی بھیجا ؟ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ فرماتے تھے کہ پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کے بارے میں مجھے جبرئیل (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) برابر وصیت اور تاکید کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ وہ اس کو وارث بھی قرار دے دیں گے ۔ افسوس کہ عہد نبویﷺ سے جتنا بعد ہوتا گیا امت آپ ﷺ کی تعلیمات اور ہدایات سے اسی قدر دور ہوتی چلی گئی ۔ رسول اللہ ﷺ نے پڑوسیوں کے بارے میں جو وصیت اور تاکید امت کو فرمائی تھی اگر صحابہ کرامؓ کے بعد بھی اس پر امت کا عمل رہا ہوتا تو یقینا آج دنیا کا نقشہ کچھ اور ہوتا ۔ اللہ تعالیٰ ہم مسلمانوں کو توفیق دے کہ آنحضرتﷺ کی تعلیم و ہدایت کی قدر و قیمت سمجھیں اور اس کو اپنا دستور العمل بنائیں ۔
تعلیم و تربیت کا اہتمام بھی پڑوسی کا حق ہے
علقمہ بن عبدالرحمن بن ابزی نے اپنے والد عبدالرحمن کے واسطے سے اپنے دادا ابزی خزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن (اپنے ایک خاص خطاب میں) اراشاد فرمایا : کیا ہو گیا ہے ان لوگوں کو اور کیا حال ہے ان کا (جنہیں اللہ نے علم و تفقہ کی دولت سے نوازا ہے اور ان کے پڑوس میں ایسے پسماندہ لوگ ہیں جن کے پاس دین کا علم اور اس کی سمجھ بوجھ نہیں ہے) وہ اپنے ان پڑوسیوں کو دین سکھانے اور ان میں دین کی سمجھ بوجھ پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں ، نہ ان و وعظ و نصیحت کرتے ہیں ۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی ذمہ داری ادا کرتے ہیں ۔ اور کیا ہو گیا ہے ان (بےعلم اور پسماندہ) لوگوں کو کہ وہ اپنے پڑوسیوں سے دین سیکھنے اور دین کی سمجھ بوجھ پیدا کرنے کی فکر نہیں کرتے نہ ان سے نصیحت لیتے ہیں ۔ خدا کی قسم ! (دین کا علم اور اس کی سمجھ رکھنے والے) لوگوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے (ناواقف اور پسماندہ) پڑوسیوں کو دین سکھانے اور دین کی سمجھ بوجھ ان میں پیدا کرنے کی کوشش کریں اور وعظ و نصیحت (کے ذریعہ ان کی اصلاح) کریں اور انہیں نیک کاموں کی تاکید اور برے کاموں سے منع کریں اور اسی طرح ان کے ناواقف اور پسماندہ پڑوسیوں و چا ہئے کہ وہ خود طالب بن کر اپنے پڑوسیوں سے دین کا علم و فہم حاصل کریں اور ان سے نصیحت لیں ۔ یا پھر (یعنی اگر یہ دونوں طبقے اپنا اپنا فرض ادا نہیں کریں گے) تو میں ان کو دنیا ہی میں سخت سزا دوں گا ۔ (مسند اسحاق بن راہویہ) تشریح پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے جو ارشادات یہاں تک درج ہوئے ان کا زیادہ تر تعلق زندگی کے معاملات میں ان کے ساتھ اکرام و رعایت کے برتاؤ اور حسن سلوک سے تھا ۔ آخر میں آپ ﷺ کا ایک وہ ارشاد بھی پڑھئے جس میں ہدایت فرمائی گئی ہے کہ اگر کسی کے پڑوس میں بےچارے ایسے لوگ رہتے ہوں جو دینی تعلیم و تربیت اور اپنی عملی اور اخلاقی حالت کے لحاظ سے پسماندہ ہوں تو دوسرے لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت اور اور ان کے سدھار و اصلاح کی فکر و کوشش کریں اور اگر وہ اس میں کوتاہی کریں تو مجرم اور سزا کے مستحق ہوں گے ۔ تشریح ..... یہ حدیث کنز العمال جلد پنجم میں “حق الجار” کے زیر عنوان اسی طرح مرکوز ہے ۔ جس طرح یہاں درج کی گئی ہے ، لیکن دوسری جگہ اسی کنز العمال میں حضور و کا یہی خطاب قریب قریب انہی الفاظ میں اس اضافہ کے ساتھ مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا روئے سخن اس خطاب میں ابو موسیٰ اشعری اور ابو مالک اشعری کی قوم اشعریین کی طرف تھا ۔ اس قوم کے افراد عام طور سے دین کے علم اور تفقہ سے بہرہ مند تھے لیکن ان ہی کے علاقہ میں اور ان کے پڑوس میں ایسے لوگ بھی آباد تھے جو اس لحاظ سے بہت پسماندہ تھے ، نہ ان کی تعلیم و تربیت ہوئی تھی اور نہ خود ان می ں اس کی طلب اور فکر تھی ۔ اس لحاظ سے یہ دونوں طبقے قصور وار تھے ، اس بناء پر رسول اللہ ﷺنے اپنے کریمانہ عادت کے مطابق ان کو نامزد کئے بغیر اپنے اس خطاب میں ان دونوں پر عتاب فرمایا تھا ۔ اس روایت میں آگے یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ جب اشعریین کو یہ معلوم ہوا کہ اس خطاب میں حضور ﷺ کے عتاب کا روئے سخن ہماری طرف تھا تو ان کا ایک وفد آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو اور انہوں نے حضور ﷺ سے یہ وعدہ کیا کہ ہم ان شاء اللہ ایک سال کے اندر اندر ان آبادیوں کے لوگوں کو دین کی تعلیم دے دیں گے ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر علاقہ کے لوگوں کو جو دین کا علم رکھتے ہوں اس کا ذمہ دار قرار دیا کہ وہ اپنے پاس پڑوس کے ناواقف لوگوں کو دین کی تعلیم دیں اور تبلیغ اور وعظ و نصیحت کے ذریعہ ان ی اصلاح کی کوشش کرتے تہیں ۔ اور اس طرح ناواقف لوگوں کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے کہ وہ اپنے پاس پڑوس کے اہل علم اور اہل دین سے تعلیم اور تربیت و اصلاح کا رابطہ رکھیں ۔ اگر رسول اللہ ﷺ کی اس ہدایت پر عمل جاری رہتا تو امت کے کسی طبقہ میں بھی دین سے بےخبری اور رسول اللہ ﷺ سے وہ بےتعلقی نہ ہوتی جس میں امت کی غالب اکثریت آج مبتلا ہے ۔ بلاشبہ اس وقت کا سب سے بڑا اصلاحی اور تجدیدی کارنامہ یہی ہے کہ امت میں تعلیم اور تعلم کے اس عمومی غیر رسمی نظام کو پھر سے جاری اور قائم کیا جائے جس کی اس حدیث پاک میں ہدایت فرمائی گئی ہے ۔ بڑے خوش نصیب ہوں گے وہ بندے جن کو اس کی توفیق ملے گی ۔
کمزور اور حاجت مند طبقوں کے حقوق: مسکینوں ، یتیموں اور بیواؤں کی کفالت و سرپرستی
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی بےچاری بےشوہر والی عورت یا کسی مسکین حاجت مند کے لئے دوڑ دھوپ کرنے والا بندہ (اللہ کے نزدیک اور اجر و ثواب میں) راہ خدا میں جہاد کرنے والے بندے کے مثل ہے ۔ اور میرا گمان ہے کہ یہ بھی فرمایا تھا کہ اس قائم اللیل (یعنی شب بیدار) بندے کی طرح جو (عبادت اور شب خیزی میں) سستی نہ کرتا ہو اور اس صائم الدہر بندے کی طرح ہے جو ہمیشہ روزہ رکھتا ہو کبھی ناغہ نہ کرتا ہو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح یہاں تک جن طبقوں کے حقوق کا بیان کیا گیا یہ سب وہ تھے جن سے آدمی کا کوئی خاص تعلق اور واسطہ ہوتا ہے خواہ نسلی اور خونی رشتہ ہو یا ازدواجی رابطہ ، یا ہمسائیگی اور پڑوس کا تعلق یا عارضی اور وقتی سنگھ ساتھ ۔ لیکن رسول اللہ ﷺ کی تعلیم میں ان کے علاوہ تمام طبقوں اور ہر طرح کے حاجت مندوں ، یتیموں ، بیواؤں ، غریبوں ، مسکینوں ، مظلوموں ، آفت رسیدوں اور بیماروں وغیرہ کا بھی حق مقرر کیا گیا ہے اور آپ ﷺ نے اپنے پیروؤں کو ان کی خدمت و خبر گیری اور ہمدردی و معاونت کی تلقین و تاکید فرمائی ہے اور اس کو اعلیٰ درجہ کی نیکی قرار دے کر اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑے بڑے انعامات کی بشارت سنائی ہے ۔ ان سے طبقوں سے متعلق رسول اللہ ﷺ کے چند ارشادات ذیل میں پڑھئے ۔ شریح ..... ہر شخص جو دین کی کچھ بھی واقفیت رکھتا ہے ، جانتا ہے کہ راہِ خدا میں جہاد و جانبازی بلند ترین عمل ہے ، اسی طرح کسی بندے کا یہ حال کہ اس کی راتیں عبادت میں کٹتی ہوں اور دن کو ہمیشہ روزہ رکھتا ہو ، بڑا ہی قابلِ رشک حال ہے ۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں فرمایا ہے کہ اللہ کے نزدیک یہی درجہ اور مقام ان لوگوں کا بھی ہے جو کسی حاجت مند مسکین یا کسی ایسی لاوارث عورت کی خدمت و اعانت کے لئے جس کے سر پر شوہر کا سایہ نہ ہو دورڑ دھوپ کریں ، جس کی صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ خود محنت کر کے کمائیں اور ان پر خرچ کریں ، اور یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دوسرے لوگوں کو ان کی خبر گیری اور اعانت کی اطراف متوجہ کرنے کے لئے دوڑ دھوپ کریں ۔ بلاشبہ وہ بندے بڑے محروم ہیں جو اس حدیث کے علم میں آ جانے کے بعد اس سعادت سے محرورم رہیں ۔
کمزور اور حاجت مند طبقوں کے حقوق: مسکینوں ، یتیموں اور بیواؤں کی کفالت و سرپرستی
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : میں اور اپنے یا پرائے یتیم کی کفالت کرنے والا آدمی جنت میں اس طرح (قریب قریب) ہوں گے اور آپ ﷺ نے اپنی انگشت شہادت اور بیچ والی انگلی سے اشارہ کر کے بتلایا ، اور ان کے درمیان تھوڑی سی کشادگی رکھی ۔ (صحیح بخاری) تشریح مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی کلمہ والی انگلی اور اس کے برابر کی بیچ والی انگلی اس طرح اٹھا کر ان کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رکھا ، بتلایا کہجتنا تھوڑا سا فاصلہ اور فرق تم میری ان دو انگلیوں کے درمیان دیکھتے ہو بس اتنا ہی فاصلہ اور فرق جنت میں میرے اور اس مردِ مومن کے مقام میں ہو گا جو اللہ کے لئے اس دنیا میں کسی یتیم کی کفالت اور پرورش کا بوجھ اٹھائے خواہ وہ یتیم اس کا اپنا ہو (جیسے پوتا یا بھتیجا وغیرہ) یا پرایا ہو یعنی جس کے ساتھ رشتہ داری وغیرہ کا کوئی خاص تعلق نہ ہو ۔ اللہ تعالیٰ ان حقیقتوں پر یقین نصیب فرمائے اور وہ سعادت میسر فرمائے جس کی رسول اللہ ﷺ نے ان ارشادات میں ترغیب دی ہے ۔
کمزور اور حاجت مند طبقوں کے حقوق: مسکینوں ، یتیموں اور بیواؤں کی کفالت و سرپرستی
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : اللہ کے جس بندے نے مسلمانوں میں سے کسی یتیم بچے کو لے لیا اور اپنے کھانے پینے میں شریک کر لیا تو اللہ تعالیٰ اس کو ضرور بالضرور جنت میں داخل کر دے گا ۔ الا یہ اس نے کوئی ایسا جرم کیا ہو جو ناقابلِ معافی ہو ۔ (جامع ترمذی) تشریح اس حدیث سے صراحۃً معلوم ہوا کہ یتیم کی کفالت و پرورش پر داخلہ جنت کا قطعی بشارت اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ وہ آدمی کسی ایسے سخت گناہ کا مرتکب نہ ہو جو اللہ کے نزدیک ناقابل معافی ہو (جیسے شرک و کفر اور کونِ ناحق وغیرہ) دراصل یہ شرط اس طرح کی تمام تبشیریں حدیثوں میں ملھوظ ہوتی ہے ، اگرچہ الفاظ میں مذکور نہ ہو ۔ بہرحال اس طرح کی تمام ترغیبی اور تبشیری حدیثوں میں بطور قاعدہ کلیہ کے اس کو ملحوظ رکھنا چاہئے ۔
کمزور اور حاجت مند طبقوں کے حقوق: مسکینوں ، یتیموں اور بیواؤں کی کفالت و سرپرستی
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جس شخص نے کسی یتیم کے سر پر صرف اللہ کے لئے ہاتھ پھیرا تو سر کے جتنے بالوں پر اس کا ہاتھ پھرا تو ہر ہر بال کے حساب سے اس کی نیکیاں ثابت ہوں گی ، اور جس نے اپنے پاس رہنے والی کسی یتیم بچی یا یتیم بچے کے ساتھ بہتر سلوک کیا تو میں اور وہ آدمی جنت میں ان دو انگلیوں کی طرح قریب قریب ہوں گے اور آپ ﷺ نے اپنی دو انگلیوں کو ملا کر بتایا اور دکھایا (کہ ان دو انگلیوں کی طرح بالکل پاس پاس ہوں گے) (مسند احمد ، جامع ترمذی) تشریح اس حدیث سے صراحت کے ساتھ معلوم ہوا کہ یتیموں کے ساتھ حسن سلوک پر جو روح پرور بشارت اس حدیث میں سنائی گئی ہے وہ اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ یہ حسنِ سلوک خالصاً لوجہ اللہ ہو ۔ اس کو بھی قاعدہ کلیہ کی طرح اس کی تمام ترغیبی اور تبشیری حدیثوں میں ملحوظ رکھنا چاہئے ۔
کمزور اور حاجت مند طبقوں کے حقوق: مسکینوں ، یتیموں اور بیواؤں کی کفالت و سرپرستی
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمانوں کے گھرانوں میں بہترین گھرانہ وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہو ، اور مسلمانوں کے گھروں میں بدترین گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ برا سلوک کیا جائے ۔ (سنن ابن ماجہ)
کمزور اور حاجت مند طبقوں کے حقوق: مسکینوں ، یتیموں اور بیواؤں کی کفالت و سرپرستی
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے اپنی قساوتِ قلبی اور سخت دلی کی شکایت کی ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ :یتیموں کے سر پر (پیار کا) ہاتھ پھیرا کرو اور مسکینوں حاجت مندوں کو کھانا کھلایا کرو ۔ (مسند احمد) تشریح یتیموں کے سروں پر شفقت کا ہاتھ پھیرنا اور مسکینوں حاجت مندوں کو کھانا کھلانا دراصل وہ اعمال ہیں جو جو دل کی درد مندی اور ترحم کے جذبہ سے صادر ہوتے ہیں ، لیکن اگر کسی کا دل دردمندی اور جذبہ ترحم سے خالی ہو اور اس کے بجائے اس میں قساوت ہو تو اس کا علاج یہ ہے کہ وہ عزت اور قوت ارادی سے کام لے کر یہ اعمال کرے ، ان شاء اللہ اس کے دل کی قساوت دردمندی سے بدل جائے گی ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں اسی طریق علاج کی طرف رہنمائی فرمائی ہے ۔
محتاجوں ، بیماروں اور مصیبت زدوں کی خدمت و اعانت
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے (اس لئے) نہ تو خود اس پر ظلم و زیادتی کرے نہ دوسروں کا مظلوم بننے کے لئے اس کو بے یارو مددگار چھوڑے اور جو کوئی اپنے بھائی کی حاجت پوری کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی کرے گا اور جو کسی مسلمان کی تکلیف اور مصیبت کو دور کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی مصیبتوں میں سے اس کی کسی مصیبت کو دور کرے گا اور جو کوئی کسی مسلمان کی پردہ دری کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ دری کرے گا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
محتاجوں ، بیماروں اور مصیبت زدوں کی خدمت و اعانت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کسی مسلمان کی کوئی دنیوی تکلیف اور پریشانی دور کرے گا اللہ تعالیٰ (س کے عوض) قیامت کے دن کی تکلیف اور پریشانی سے اس کو نجات دے گا اور (جو قرض خواہ اپنے) کسی مقروض کو (اپنے قرضے کی وصولی کے سلسلے میں) سہولت دے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو دنیا و آخرت میں سہولت دے گا اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا اور جو کوئی بندہ جب تک اپنے کسی بھائی کی مدد و اعانت کرتا رہے گا اللہ تعالیٰ اس کی مدد و اعانت کرتا رہے گا ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی)
محتاجوں ، بیماروں اور مصیبت زدوں کی خدمت و اعانت
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو مسلمان کسی مسلمان کو عریانی کی حالت میں کپڑے پہنائے اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے سبز جوڑے عطا فرمائے گا اور جو مسلمان کسی مسلمان کو بھوک کی حالت میں کھانا کھلائے اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے پھل اور میوے کھلائے گا اور جو مسلمان کسی مسلمان کو پیاس کی حالت میں اپنی (یا کوئی مشروب) پلائے اللہ تعالیٰ اس کو نہایت نفیس (جنت کی) شراب طہور پلائے گا ، جس پر غیبی مہر لگی ہو گی ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی)
محتاجوں ، بیماروں اور مصیبت زدوں کی خدمت و اعانت
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بھوکوں کو کھانا کھلاؤ ، بیماروں کی خبر لو (اور دیکھ بھال کرو) اور اسیروں قیدیوں کو رہائی دلانے کی کوشش کرو ۔ (صحیح بخاری) تشریح اس حدیث میں بھوکوں کو کھانا کھلانے کے علاوہ مریضوں کی عیادت اور قیدیوں کو رہا کرانے کی بھی تلقین فرمائی گئی ہے ۔ “عیادت” کے متعلق یہ بات قابل لحاظ ہے کہ ہمارے عرف اور محاورہ میں عیادت کا مطلب صرف بیمار پرسی (یعنی مریض کا حال دریافت کرنا) سمجھا جاتا ہے لیکن عربی زبان میں اس کا مفہوم اس سے زیادہ وسیع ہے اور بیمار پرسی اور خبر گیری کے علاوہ تیمار داری بھی اس کے مفہوم میں شامل ہے ۔ اس لئے اس حدیث میں مریضوں کی عیادت کا جو حکم دیا گیا ہے اس کا مطلب صرف بیمار پرسی نہیں ، بلکہ تیمار داری اور حسب استطاعت دوا علاج کی فکر بھی اس میں شامل ہے ۔ اسی طرح قیدیوں کو رہا کرانے کا جو حکم اس حدیث میں دیا گیا ہے اس کے بارے میں بھی یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ اس سے وہی اسیران بلا مراد ہیں جو ناحق قید میں رکھے گئے ہوں یا کم از کم ان کے رہا ہو جانے سے خیر کی امید ہو ، بلاشبہ ایسے گرفتار ان بلا کا رہا کرانا اور ان کو آزادی دلانا بڑا کارثواب ہے ۔
محتاجوں ، بیماروں اور مصیبت زدوں کی خدمت و اعانت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرزند آدمؑ سے فرمائے گا کہ اے ابن آدم میں بیمار پڑا تھا تونے میری خبر نہیں لی ؟ بندہ عرض کرے گا : اے میرے مالک اور پروردگار ! میں کیسے تیری تیمارداری یا بیمار پرسی کر سکتا تھا تو تو رب العالمین ہے (بیماری کا تجھ سے کیا واسطہ اور تیری بارگاہ میں اس کا کہاں گزر) ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا تجھے علم نہیں ہوا تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار پڑا تھا تو نے اس کی عیادت نہیں کی اور خبر نہیں لی ؟ کیا تجھے معلوم نہیں تھا کہ اگر تو اس کی خبر لیتا اور تیمارداری کرتا تو مجھے اس کے پاس ہی پاتا ؟ اے ابنِ آدم میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھا تو نے مجھے نہیں کھلایا ؟ بندہ عرض کرے گا : (خدا وندا !) میں تجھے کیسے کھانا کھلا سکتا تھا تو تو رب العالمین ہے (تجھے کھانے سے کیا واسطہ) اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا تو نے اس کو کھانا نہیں دیا ، کیا تجھے علم نہیں ہے کہ اگر تو اس کو کھانا کھلاتا تو اس کو میرے پاس پا لیتا ۔ اے ابن آدم میں نے پینے کے لئے تجھ سے (پانی) مانگا تھا تونے مجھے نہیں پلایا ؟ بندہ عرض کرے گا : میں تجھے پانی کیسے پلاتا تو تو رب العالمین ہے تجھے پینے سے کیا واسطہ ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میرے فلاں بندے نے تجھ سے پینے کے لئے پانی مانگا تھا تو نے اس کو نہیں پلایا اگر تو اس کو پانی پلا دیتا تو اس کو میرے پاس پا لیتا ۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں موثر اور غیر معمولی انداز میں کسمپرس بیماروں کی عیادت و تیمارداری اور بھوکوں ، پیاسوں کو کھلانے پلانے کی ترغیب دی گئی ہے اس میں غور کرنے سے سمجھا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیم و ہدایت میں ان معاشرتی اعمال اور حاجت مندوں کی خدمت و اعانت کی کس قدر اہمیت ہے اور ان کا درجہ کتنا بلند ہے ۔ فرمایا گیا ہے کہ جو کسی حاجت مند اور بیمار کی عیادت کرے گا وہ خدا کو اس کے پاس پائے گا اور اسے خدا مل جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے ۔
غلوموں اور زیرِ دستوں کے بارے میں ہدایت: غلاموں کے بنیادی حقوق
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : طعام اور لباس غلام کا حق ہے ، اور یہ بھی اس کا حق ہے کہ اسے ایسے سخت کام کی تکلیف نہ دی جائے جس کا وہ متحمل نہ ہو سکے ۔ (صحیح مسلم) تشریح رسول اللہ ﷺ جب دنیا میں مبعوث ہوئے تو عرب میں بلکہ قریب قریب اس پوری دنیا میں جس کی تاریخ معلوم ہے غلاموں کا طبقہ موجود تھا ۔ فاتح قومیں مفتوح قوموں کے افراد کو غلام بنا لیتی تھیں ، پھر وہ ان کی ملکیت ہو جاتے تھے ، ان سے جانوروں کی طرح محنت و مشقت کے کام لئے جاتے تھے ، اور ان کا کوئی حق نہیں سمجھا جاتا تھا ۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک طرف تو غلاموں کو آزاد کرنے کو بہت سے گناہوں کا کفارہ اور بہت بڑا کارِ ثواب قرار دیا اور طرح طرح سے اس کی ترغیب دی ، دوسری طرف ہدایت فرمائی کہ ان کے ساتھ بہتر سلوک کیا جائے ، ان پر محنت و مشقت کا زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے ، ان کے طعام لباس جیسی بنیادی ضرورتوں کا مناسب انتظام کیا جائے ، بلکہ حکم دیا کہ جو گھر میں کھایا جائے وہی اس کو کھلایا جائے ، جیسا کپڑا خود پہنا جائے ویسا ہی ان کو پہنایا جائے ، ان کے معاملے میں خدا کے محاسبہ اور مواخذہ سے ڈرا جائے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ ان ہدایات اور تعلیمات نے غلاموں کی دنیا ہی بدل دی ، پھر تو ان میں سے ہزاروں امت کے ائمہ اور پیشوا تک ہوئے ، ہزاروں حکومت کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوئے ، ان کی حکومتیں تک قائم ہوئیں ۔ یہ سب اس ہدایت و تعلیم ہی کے نتائج تھے جو انسانیت کے اس مظلوم و ناتواں طبقہ کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو دی تھی ، اور پھر ساری دنیا اس سے متاثر ہوئی ۔ اس سلسلہ کی چند حدیثیں ذیل میں پڑھی جائیں ۔ تشریح ..... اس حدیث میں صرف یہ فرمایا گیا ہے کہ طعام و لباس غلام کا حق ہے ۔ آقا کی یہ ذمہ داری ہے کہ س کا یہ حق ادا ہو ، اسے ضرورت بھر کھانا اور کپڑا دیا جائے ۔ آگے درج ہونے والی حدیث سے معلوم ہو گا کہ اسے وہی کھانا کھلایا جائے جو گھر میں کھایا جائے ، وہی لباس پہنایا جائے جو خود پہنا جائے ۔ یہ بھی فرمایا گیا کہ : اس پر کام کا بےجا بوجھ نہ ڈالا جائے ، اتنا ہی کام لیا جائے جتنا وہ کر سکے ۔ یہ گویا غلاموں کے بنیادی حقوق ہیں ۔
یہ غلام تمہارے بھائی ہیں ، ان سے برادرانہ سلوک کیا جائے
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : (یہ بیچارے غلام) تمہارے بھائی ہیں ، اللہ نے ان کو تمہارا زیرِ دست (محکوم) بنا دیا ہے ، تو اللہ جس کے زیرِ دست (اور تحت حکم) اس کے کسی بھائی کو کر دے تو اس کو چاہئے کہ اس کو وہ کھلائے جو خود کھاتا ہے ، اور وہ پہنائے جو خود پہنتا ہے ، اور اس کو ایسے کام کا مکلف نہ کرے جو اس کے لئے بہت بھاری ہو ، اور اگر ایسے کام کا مکلف کرے تو پھر اس کام میں خود اس کی مدد کرے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں ہر غلام کو اس کے آقا کا بھائی بتایا گیا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس کے تحت میں کر دیا ہے ۔ اس تعبیر میں اس مظلوم طبقہ کے ساتھ حسن سلوک کی جتنی موثر اپیل ہے وہ ظاہر ہے ۔ غلام اور آقا کو بھائی غالبا اسی بناء پر قررار دیا گیا ہے کہ دونوں بہرحال آدم و حوا کی اولاد ہیں ۔ ؎ بنی آدم اعضائے یکد یگرند کہ در آفرینش ز یک جوہر اند پھر اسی تعلق اور رشتہ کی بنیاد پر فرمایا گیا ہے کہ جب تمہارا غلام اور خادم تمہارا بھائی ہے تو اس کے ساتھ وہی برتاؤ ہونا چاہئے جو بھائیوں کے ساتھ ہوتا ہے اسے وہی کھلایا اور پہنایا جائے جو خود کھایا اور پہنا جائے ۔
غلام یا نوکر جو کھانا بنائے اس میں اس کو ضرور کھلایا جائے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کا خادم اس کے لئے کھانا تیار کرے ، پھر وہ اس کے پاس لے کر آئے اور اس نے اس کے پکانے اور بنانے میں گرمی اور دھوئیں کی تکلیف اٹھا لی ہے ۔ تو آقا کو چاہئے کہ کھانا تیار کرنے والے اس خادم کو بھی کھانے میں اپنے ساتھ بٹھا لے اور وہ بھی کھا لے ۔ پس اگر (کبھی) وہ کھانا تھوڑا ہو (جو دونوں کے لئے کافی نہ ہو سکے) تو آقا کو چاہئے کہ اس کھانے میں سے دو ایک لقمے ہی اس خادم کو دے دے ۔ (صحیح مسلم) تشریح رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں جن گھروں میں غلام یا باندیاں ہوتی تھیں کھانے پکانے ، جیسے خدمت کے کام انہی سے لئے جاتے تھے ۔ ان کے بارے میں آپ ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ جب وہ کھانا پکا کے لائیں تو ان کو اس میں سے کچھ حصہ ضرور دو کیوں کہ انہوں نے اس کے پکانے میں گرمی اور دھوئیں کی تکلیف برداشت کی ہے ۔ ہمارے زمانے میں اسی بنیاد پر یہی حکم کھانا پکانے والے نوکروں اور نوکرانیوں کے لئے ہو گا ۔
غلاموں کی غلطیوں اور قصوروں کو معاف کیا جائے
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! اپنے خادم اور غلام کی غلطیاں کس حد تک ہمیں معاف کر دینا چاہئیں ۔ آپ ﷺ نے سکوت فرمایا (اور کوئی جواب نہیں دیا) اس شخص نے دوبارہ آپ ﷺ کی خدمت میں یہی عرض کیا ۔ آپ ﷺ پھر خاموش رہے ، اور جواب میں کچھ نہیں فرمایا ۔ پھر جب تیسری دفعہ اس نے عرض کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ہر روز ستر دفعہ ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح پہلی اور دوسری دفعہ جو آپ ﷺ نے کوئی جواب نہیں دیا اور خاموشی اختیار فرمائی اس کی وجہ غالبا یہ تھی کہ آپ ﷺ نے سوال کرنے والے صاحب کو اپنی خاموشی سے یہ تاثر دینا چاہا کہ یہ کوئی پوچھنے کی بات نہیں ہے ، اپنے زیرِ دست خادم اور غلام کا قصور معاف کر دینا تو ایک نیکی ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی رضا اور رحمت حاصل ہوتی ہے ۔ اس لئے جہاں تک ہو سکے معاف ہی کیا جائے لیکن جب دو دفعہ کے بعد تیسری دفعہ بھی ان صاحب نے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا:“ كُلِّ يَوْمٍ سَبْعِينَ مَرَّةً” یعنی اگر بالفرض ہر روز صبح سے شام تک ستر قصور کرے تب بھی اسے معاف ہی کر دو ۔ ظاہر ہے کہ یہاں “سبعین” سے ستر کا خاص عدد مراد نہیں ہے ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اگر تمہارا زیرِ دست غلام یا نوکر بار بار غلطی اور قصور کرے تو انتقام نہ لو ، معاف ہی کر دو ۔ اس عاجز کے نزدیک معافی کے اس حکم کا مطلب یہی ہے کہ اس کو انتقاماً سزا نہ دی جائے ، لیکن اگر اصلاح و تادیب کے لئے کچھ سرزنش مناسب سمجھی جائے تو اس کا پورا حق ہے ، اور اس حق کا استعمال کرنا اس ہدایت کے خلاف نہ ہو گا ، بلکہ بعض اوقات اس کے حق میں یہی بہتر ہو گا ۔
غلاموں کی غلطیوں اور قصوروں کو معاف کیا جائے
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ : اپنی باندیوں کو برتن توڑ دینے پر سزا نہ دیا کرو ، ال لئے کہ برتنوں کی بھی عمریں مقرر ہیں تمہاری عمروں کی طرح ۔ (مسند الفردوس للدیلمی) تشریح گھروں میں کام کرنے والی باندیوں اور نوکرانیوں سے اور اسی طرح غلاموں اور نوکروں سے برتن ٹوٹ پھوٹ جاتے تھے ، اور ان بےچاروں کی پٹائی ہوتی تھی ۔ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ہدایت فرمائی ہے کہ جس طرح وقت پورا ہونے پر آدمی مر جاتا ہے اسی طرح وقت پورا ہونے پر برتن بھی ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں ، اس لئے ان بےچاروں سے انتقام لینا اور مارنا پیٹنا بہت ہی غلط بات ہے ۔ (ہاں جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا اصلاح و تادیب کی نیت سے مناسب تنبیہ اور سرزنش کی جا سکتی ہے) ۔
غلام پر ظلم کرنے والے سے قیامت میں بدلہ لیا جائے گا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : جب کوئی اپنے غلام کو ناحق مارے گا قیامت کے دن اس سے بدلہ لیا جائے گا ۔ (شعب الایمان للبیہقی)
غلام پر ظلم کا کفارہ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ فرماتے تھے کہ جس کسی نے اپنے غلام کو کسی ایسے جرم پر سزا دی جو اس نے نہیں کیا تھا ، یا اس کو طمانچہ مارا ، تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اس کو آزاد کر دے ۔ (یعنی اگر ایسا نہیں کرے گا تو خدا کے ہاں سزا کا مستحق ہو گا) ۔ (صحیح مسلم)
غلام پر ظلم کا کفارہ
حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اپنے ایک غلام کو مار رہا تھا ، میں نے پیچھے سے آواز سنی (کوئی کہہ رہا تھا) کہ اے ابو مسعود ! تجھے معلوم رہنا چاہئے (اور اس بات سے غافل نہ ہونا چاہئے) کہ اللہ کو تجھ پر اس سے زیادہ قدرت اور قابو حاصل ہے جتنا تجھے اس بےچارے غلام پر ہے ۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ فرمانے والے رسول اللہ ﷺ تھے ۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ (میں نے اس کو آزاد کر دیا) اب یہ (میری طرف سے) اللہ کے لئے آزاد ہے ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اگر تم یہ نہ کرتے (یعنی اس غلام کو اللہ کے لئے آزاد نہ کر دیتے) تو “لَلَفَحَتْكَ النَّارُ” (جس کا ترجمہ ہے کہ جہنم کی آگ تمہیں جلا ڈالتی) یا فرمایا “لَمَسَّتْكَ النَّارُ” (جس کا ترجمہ ہے کہ جہنم کی آگ تمہیں لپیٹ میں لے لیتی) ۔ (صحیح مسلم) تشریح اگر اللہ اور یوم آخرت پر ایمان ہو تو ظلم و زیادتی اور ہر قسم کے گناہوں سے بچانے کے لئے بہترین تدبیر یہی ہے کہ اللہ کی پکڑ اور آخرت کے مواخذہ و محاسبہ کو یاد دلایا جائے ۔ اللہ تعالیٰ ایمان نصیب فرمائے ۔
غلاموں کے بارے میں حضور ﷺ کی آخری وصیت
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اس دنیا سے اور امت سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہوتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو خاص طور سے دو باتوں کی تاکید اور وصیت فرمائی تھی ۔ ایک یہ کہ نماز کا پورا اہتمام کیا جائے اس سے غفلت اور کوتاہی نہ ہو یہ سب سے اہم فریضہ اور بندوں پر اللہ کا سب سے بڑا حق ہے ۔ دوسری یہ کہ غلاموں ، باندیوں کے ساتھ برتاؤ میں اس خداوند ذوالجلال سے ڈرا جائے جس کی عدالت میں ہر ایک کی پیشی ہو گی اور ہر مظلوم کو ظالم سے بدلہ دلوایا جائے گا ۔ غلاموں زیر دستوں کے لئے یہ بات کتنے شرف کی ہے کہ نبی رحمتﷺ نے اس دنیا سے جاتے وقت سب سے آخری وصیت اللہ کے حق کے ساتھ ان کے حق کی ادائیگی اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی فرمائی ، اور اس حدیث کے مطابق سب سے آخری لفظ آپ ﷺ کی زبان مبارک سے جو ادا ہوا وہ یہ تھا : “وَاتَّقُوا اللهَ فِيمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ” حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت ہے جو صحیح بخاری میں بھی مروی ہے ، یہ معلوم ہوتا ہے کہ سب سے آخری کلمہ آپ ﷺ کی زبانِ مبارک سے یہ ادا ہوا تھا : “اللهم الرفيق الاعلى” (اے اللہ ! مجھے رفیقِ اعلیٰ کی طرف اُٹھا لے) شارحین نے ان دونوں حدیثوں میں اس طرح تطبیق کی ہے کہ امت سے مخاطب ہو کر آپ ﷺ نے وصیت کے طور پر آخری بات تو وہ فرمائی تھی جو حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی مندرجہ بالا حدیث میں مذکور ہوئی ہے اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف مخاطب ہو کر آخری کلمہ وہ فرمایا تھا جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نقل کیا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
آقاؤں کی خیر خواہی اور وفاداری کے بارے میں غلاموں کو ہدایت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی غلام اور مملوک کے لئے بڑی اچھی اور کامیابی کی بات ہے کہ اللہ اس کو ایسی حالت میں اٹھائے کہ وہ اپنے پروردگار کا عبادت گزار ہو اور اپنے سید و آقا کا فرمانبردار ہو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح رسول اللہ ﷺ نے جس طرح غلاموں کے حقوق اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کے بارے میں آقاؤں کو ہدایات دیں اسی طرح غلاموں کو بھی آپ ﷺ نے نصیحت فرمائی اور ترغیب دی کہ وہ جس کے زیرِ دست ہیں ان کے ساتھ خیرخواہی اور وفاداری کا رویہ رکھیں ۔ آپ ﷺ نے غلام کی بڑی خوش نصیبی اور کامیابی یہ بتائی کہ وہ اپنے خالق و پروردگار کا عبادت گزار اور اپنے سید و آقا کا وفادار و فرمانبردار ہو ۔
آقاؤں کی خیر خواہی اور وفاداری کے بارے میں غلاموں کو ہدایت
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی غلام جب اپنے سید و آقا کی خیر خواہی اور وفاداری کرے اور خدا کی عبادت بھی اچھی طرح کرے تو وہ دہرے ثواب کا مستحق ہو گا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح رسول اللہ ﷺ کی ہدایت و تعلیم کا یہ ایک بنیادی اصول ہے کہ ہر فرد اور ہر طبقہ کو آپ ترغیب دیتے ہیں اور تاکید فرماتے ہیں کہ وہ دوسرے کا حق ادا کرے اور حقوق ادا کرنے میں اپنی کامیابی سمجھے ۔ سیدوں اور آقاؤں کو آپ ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ وہ غلاموں زیر دستوں کے بارے میں خدا سے ڈریں ، ان کے حقوق ادا کریں ، ان کے ساتھ بہتر سلوک کریں ، ان کو اپنا بھائی سمجھیں ، اور ایک فرد کاندان کی طرح رکھیں ۔ اور غلاموں اور مملوکوں کو ہدایت فرمائی اور ترغیب دی کہ وہ سیدوں اور آقاؤوں کے خیر خواہ اور وفادار ہو کر رہیں ۔ ہماری اس دنیا کے سارے شر و فساد کی جڑ بنیاد یہ ہے کہ ہر ایک دوسرے کا حق ادا کرنے سے منکر یا کم از کم بےپروا ہے ، اور اپنا حق دوسرے سے وصول کرنے بلکہ چھیننے کے لئے ہر کشمکش اور جبر و زور کو صحیح سمجھتا ہے ، اسی نے دنیا کو جہنم بنا رکھا ہے ، اور اس وقت تک یہ دنیا امن سکون سے محروم رہے گی جب تک کہ حق لینے اور چھیننے کے بجائے حق ادا کرنے پر زور نہ دیا جائے گا ۔ اگر عقل و بصیرت سے محرومی نہ ہو تو مسئلہ بالکل بدیہی ہے ۔
بڑوں اور چھوٹوں کے باہمی برتاؤ کے بارے میں ہدایات
عمرو بن شعیب اپنے والد شعیب سے اور وہ اپنے دادا حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو آدمی ہمارے چھوٹوں کے ساتھ شفقت کا برتاؤ نہ کرے اور بڑوں کی عزت کا خیال نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد) تشریح ہر معاشرہ اور سماج میں کچھ بڑے ہوتے ہیں اور کچھ ان کے چھوٹے ۔ رسول اللہ ﷺ نے بڑوں کو چھوٹوں کے ساتھ اور چھوٹون کو بڑوں کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں بھی ہدایات فرمائی ہیں ۔ اگر ان کا اتباع کیا جائے تو معاشرہ میں وہ خوشگواری اور روحانی سرور و سکونم رہے جو انسانیت کے لئے نعمتِ عظمیٰ ہے ۔ اس سلسلہ کی چند حدیثیں یہاں پڑھ لی جائیں :
بڑوں اور چھوٹوں کے باہمی برتاؤ کے بارے میں ہدایات
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بوڑھے بزرک آئے وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچنا چاہتے تھے لوگوں نے (جو اس وقت حاضر تھے) ان کے لئے گنجائش پیدا کرنے میں دیر کی (یعنی ایسا نہیں کیا کہ ان کے بڑھاپے کے احترام میں جلدی سے ان کو راستہ دے دیتے اور جگہ خالی کر دیتے) تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ : جو آدمی ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور ہمارے بڑوں کا احترام نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔(جامع ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ جو شخص رسول اللہ ﷺ اور آپ کے دین سے وابستگی چاہے ، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ بڑوں کے ساتھ ادب و احترام کا برتاؤ رکھے اور چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے پیش آئے ، اور جو ایسا نہ کرے اس کو حق نہیں ہے کہ وہ حضور ﷺ کی طرف اور آپ و کی خاص جماعت کی طرف اپنی نسبت کرے ۔ قریب قریب اسی مضمون کی ایک حدیث جامع ترمذی میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کی گئی ہے ۔
بڑوں اور چھوٹوں کے باہمی برتاؤ کے بارے میں ہدایات
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو جوان کسی بوڑھے بزرگ کا اس کے بڑھاپے ہی کی وجہ سے ادب و احترام کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس جوان کو بوڑھے ہونے کے وقت ایسے بندے مقرر کر دے گا جو اس وقت اس کا ادب و احترام کریں گے ۔ (جامع ترمذی) تشریح اوپر جو دو حدیثیں درج ہوئی ہیں ان سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بڑوں کے ادب و احترام اور چھوٹوں پر شفقت کا رسول اللہ ﷺ کی ہدایت و تعلیم میں کیا درجہ ہے اور اس میں غفلت اور کوتاہی کتنا سنگین جرم ہے ۔ اَللَّهُمَّ احْفَظْنَا اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بڑوں کا ادب و احترام اور ان کی خدمت وہ نیکی ہے جس کا صلہ اللہ تعالیٰ اس دنیا میں بھی عطا فرماتا ہے اور اصل جزاء ثواب کی جگہ تو آخرت ہی ہے ۔
اسلامی برادری کے باہمی تعلقات اور برتاؤ کے بارے میں ہدایات
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ :ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے تعلق ایک مضبوط عمارت کا سا ہے ، اس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط کرتا ہے ۔ پھر آپ ﷺ نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر دکھایا (کہ مسلمانوں کو اس طرح باہم وابستہ اور پیوستہ ہونا چاہئے) (صحیح مسلم) تشریح رسول اللہ ﷺ (اور اسی طرح آپ سے پہلے تمام انبیاء علیہم السلام بھی) اللہ تعالیٰ کی طرف سے دین حق کی دعوت اور ہدایت لے کر آئے تھے جو لوگ ان کی دعوت کو قبول کر کے ان کا دین اور ان کا راستہ اختیار کر لیتے تھے وہ قدرتی طور سے ایک جماعت اور امت بنتے جاتے تھے ۔ یہی دراصل “اسلامی برادری” اور “امت مسلمہ” تھی ۔ جب تک رسول اللہ ﷺ اس دنیا میں رونق افروز رہے یہی برادری اور یہی امت آپ ﷺ کا دست و بازو اور دعوت و ہدایت کی مہم میں آپ ﷺ کی رفیق و مددگار تھی ، اور آپ ﷺ کے بعد قیامت تک کسی کو آپ ﷺ کی نیابت میں اس مقدس مشن کی ذمہ داری سنبھالنی تھی ۔ اس کے لئے جس طرح ایمان و یقین ، تعلق باللہ اور اعمال و اخلاق کی پاکیزگی اور جذبہ دعوت کی ضرورت تھی ، اسی طرح دلوں کے جوڑ اور شیرازہ بندی کی بھی ۔ ضرورت تھی ، اگر دل پھٹے ہوئے ہوں ، اتحاد و اتفاق کے بجائے اختلاف و انتشار اور خود آپس میں جنگ و پیدار ہو تو ظاہر ہے کہ نیابت نبوت کی یہ ذمہ داری کسی طرح بھی ادا نہیں کی جا سکتی ۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اسلامیت کو بھی ایک مقدس رشتہ قرار دیا ۔ اور امت کے افراد اور مختلف طبقوں کو خاص طور سے ہدایت و تاکید فرمائی کہ وہ ایک دوسرے کو اپنا بھائی سمجھیں ، اور باہم خیرخواہ و خیر اندیش اور معاون و مدد گار بن کے رہیں ۔ ہر ایک دوسرے کا لحاظ رکھے ، اور اس دینی ناطہ سے ایک دوسرے پر جو حقوق ہوں ان کو ادا کرنے کی کوشش کریں ۔ اس تعلیم و ہدایت کی ضرورت خاص طور سے اس لئے بھی تھی کہ امت میں مختلف ملکوں ، نسلوں اور مختلف طبقوں کے لوگ تھے ۔ جن کے رنگ و مزاج اور جن کی زبانیں مختلف تھیں اور یہ رنگا رنگی آگے کو اور زیادہ بڑھنے والی تھی ۔ اس سلسلہ کی رسول اللہ ﷺ کی اہم ہدایات مندرجہ ذیل حدیثوں میں پڑھئے : تشریح ..... مطلب یہ ہے کہ جس طرح عمارت کی اینٹیں باہم مل کر مضبوط قلعہ بن جاتی ہیں اسی طرح امت مسلمہ ایک قلعہ ہے ، اور ہر مسلمان اس کی ایک ایک اینٹ ہے ان میں باہم وہی تعلق اور ارتباط ہونا چاہئے جو قلعہ کی ایک اینٹ کا دوسری اینٹ سے ہوتا ہے ۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر دکھایا کہ مسلمانوں کے مختلف افراد اور طبقوں کو باہم پیوستہ ہو کر اس طرح امت واحد ہ بن جانا چاہئے جس طرح اگ اگ دو ہاتھوں کی یہ انگلیاں ایک دوسرے سے پیوستہ ہو کر ایک حلقہ اور گویا ایک وجود بن گئیں ۔
اسلامی برادری کے باہمی تعلقات اور برتاؤ کے بارے میں ہدایات
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب مسلمان ایک شخص واحد (کے مختلف اعضاء) کی طرح ہیں ۔ اگر اس کی آنکھ دکھے تو اس کا سارا جسم درد محسوس کرتا ہے ، اور اسی طرح اگر اس کے سر میں تکلیف ہو تو بھی سارا جسم تکلیف میں شریک ہوتا ہے ۔ (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ پوری امت مسلمہ گویا ایک جسم و جان والا وجود ہے ، اور اس کے افراد اس کے اعضاء ہیں ۔ کسی کے ایک عضو میں اگر تکلیف ہو تو اس کے سارے اعضاء تکلیف محسوس کرتے ہیں ۔ اسی طرح پوری ملت اسلامیہ کو ہر مسلمان فرد کی تکلیف محسوس کرنی چاہئے ۔ اور ایک کے دکھ درد میں سب کو شریک ہونا چاہئے ۔
اسلامی برادری کے باہمی تعلقات اور برتاؤ کے بارے میں ہدایات
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے (اس لئے) نہ تو خود اس پر ظلم و زیادتی کرے نہ دوسروں کا نشانہ ظلم بننے کے لئے اس کو بےمدد چھوڑے (یعنی دوسروں کے ظلم سے بچانے کے لئے اس کی مدد کرے) اور جو کوئی اپنے ضرورت مند بھائی کی حاجت پوری کرے گا اللہ تعالیٰ کی حاجت روائی کرے گا ۔ اور جو کسی مسلمان کو کسی تکلیف اور مصیبت سے نجات دلائے گا اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن کسی مصیبت اور پریشانی سے نجات عطا فرمائے گا ۔ اور جو کسی مسلمان کی پردہ داری کرے گا ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ داری کرے گا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
اسلامی برادری کے باہمی تعلقات اور برتاؤ کے بارے میں ہدایات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے (لہذا) نہ خود اس پر ظلم و زیادتی کرے ، نہ دوسروں کا مظلوم بننے کے لئے اس کو بےیار و مددگار چھوڑے ، نہ اس کی تحقیر کرے (حدیث کے رااوی حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے اپنے سینہ مبارک کی طرف تین دفعہ اشارہ فرمایا) “تقویٰ یہاں ہوتا ہے” ۔ کسی آدمی کے لیے یہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے ، اور اس کی تحقیر کرے ۔ مسلمان کی ہر چیز دوسرے مسلمان کے لئے حرام ہے (یعنی اس پر دست دارزی حرام ہے) س کا خون بھی اس کا مال بھی اور اس کی آبرو بھی ۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے یہ ہدایت فرمانے کے ساتھ کہ کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کو حقیر و ذلیل نہ سمجھے اور اس کی تحقیر نہ کرے (لا یحقرہ) اپنے سینہ مبارک کی طرف تین دفعہ اشارہ کر کے جو یہ فرمایا کہ “التقویٰ ھھنا” (تقویٰ یہاں سینہ کے اندر اور باطن میں ہوتا ہے) اس کا مقصد اور مطلب سمجھنے کے لئے پہلے یہ جان لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑائی ، چھوٹائی ، عظمت و حقارت اور عزت و ذلت کا دار و مدار “تقویٰ” پر ہے ۔ قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے : إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ معزز اور قابلِ احترام وہ ہے جس میں تقویٰ زیادہ ہے ۔ اور تقویٰ درحقیقت خدا کے خوف اور محاسبہ آخرت کی فکر کا نام ہے ، اور ظاہر ہے کہ وہ دل کے اندر کی اور باطن کی ایک کیفیت ہے ، اور ایسی چیز نہیں ہے جسے کوئی دوسرا آدمی آنکھوں سے دیکھ کر معلوم کر سکے کہ اس آدمی میں تقویٰ ہے یا نہیں ہے ، اس لیے کسی بھی صاحب ایمان کو حق نہیں ہے کہ وہ دوسرے ایمان والے کو حقیر سمجھے اور اس کی تحقیر کرے ۔ کیا خبر جس کو تم اپنی ظاہری معلومات یا قرائن سے قابلِ تحقیر سمجھتے ہو اس کے باطن میں تقویٰ ہو اور وہ اللہ کے نزدیک مکرم ہو ۔ اس لئے کسی مسلم کے لئے روا نہیں کہ وہ دوسرے مسلم کی تحقیر کرے ۔ آگے آپ ﷺ نے فرمایا کہ :کسی آدمی کے برے ہونے کے لئے تنہا یہی ایک بات کافی ہے کہ وہ اللہ کے کسی بندے کو حقیر سمجھے اور اس کی تحقیر کرے ۔
اسلامی برادری کے باہمی تعلقات اور برتاؤ کے بارے میں ہدایات
حضرت جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی تھی ۔ نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے پر اور ہر مسلمان کے ساتھ مخلصانہ خیر خواہی پر ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ کہ رسول اللہ ﷺ سے جب میں نے بیعت کی تھی تو آپ نے خصوصیت کے ساتھ تین باتوں کا مجھ سے عہد لیا تھا ۔ ایک اہتمام سے نماز پڑھنے کا ، دوسرے زکوٰۃ ادا کرنے کا ، تیسرے ہر مسلمان کے ساتھ مخلصانہ تعلق اور اس کے لئے خیر خواہی اور خیر اندیشی کا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کو مسلمانوں کے باہمی تعلق کااتنا اہتمام تھا کہ آپ ﷺ نماز اور زکوٰۃ جیسے بنیادی ارکان کے ساتھ اس کی بھی بیعت لیتے تھے ۔
اسلامی برادری کے باہمی تعلقات اور برتاؤ کے بارے میں ہدایات
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : جس کو مسلمانوں کے مسائل و معاملات کی فکر نہ ہو وہ ان میں سے نہیں ہے اور جس کا یہ حال ہو کہ وہ ہر دن اور ہر صبح و شام اللہ اور اس کے رسول اور اس کی کتاب پاک قرآنِ مجید اور اس کے امام (یعنی خلیفہ وقت) کا اور عام مسلمانوں کا مخلص و خیرخواہ اور وفادار ہو (یعنی جو کسی وقت بھی اس اخلاص اور وفاداری سے خالی ہو) وہ مسلمانوں میں سے نہیں ہے ۔ (معجم اوسط للطبرانی) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی بندے کے اللہ کے نزدیک مسلمان اور مقبول الاسلام ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ عام مسلمانوں کے معاملات اور ان کے مصائب و مشکلات سے بےپرواہ نہ ہو بلکہ ان کی فکر رکھتا ہو ۔ اسی طرح یہ بھی شرط ہے کہ وہ اللہ و رسول اور کتاب اللہ اور حکومت اسلام اور عوام مسلمین کا ایسا مخلص اور وفادار و خیرخواہ ہو کہ یہ خلوص اس کی زندگی کا جزو بن گئی ہو ، اور اس کی رگ و پے میں اس طرح سرایت کر گئی ہو کہ وہ کسی وقت بھی اس سے خالی نہ ہو سکے ۔ خدا کے لئے ہم غور کریں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کی اس قدر اہم ہدایات کو کیسا پس پشت ڈال دیا ہے ۔
اسلامی برادری کے باہمی تعلقات اور برتاؤ کے بارے میں ہدایات
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : قسم اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے ، کوئی بندہ سچا مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے لئے وہی نہ چاہے جو اپنے لئے چاہتا ہو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ ہر مسلمان کے لئے دوسرے مسلمان کی اس درجہ خیرخواہی کہ جو خیر اور بھلائی اپنے لئے چاہے وہی اس کے لئے بھی چاہے ایمان کے شرائط اور لوازم میں سے ہے ، اور ایمان و اسلام کا جو مدعی اس سے خالی ہے وہ ایمان کی روح و حقیقت اور اس کے برکات سے محروم ہے ۔
اسلامی رشتے کے چند خاص حقوق
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک مسلم کو دوسرے مسلم پر پانچ حق ہیں ۔ سلام کا جواب دینا ، بیمار کی عیادت کرنا ، جنازے کے ساتھ جانا ، دعوت قبول کرنا اور چھینک آے پر “يرحمك الله” کہہ کے اس کے لئے دعائے رحمت کرنا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ روزمرہ کی عملی زندگی میں یہ پانچ باتیں ایسی ہیں جن سے دو مسلمانوں کا باہمی تعلق ظاہر ہوتا ہے اور نشوونما بھی پاتا ہے ، اس لئے ان کا خاص طور سے اہتمام کیا جائے ۔ ایک دوسری حدیث میں سلام کا جواب دینے کی جگہ خود سلام کرنے کا ذکر فرمایا گیا ہے ، اور ان پانچ کے علاوہ بعض اور چیزوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث میں ان پانچ کا ذکر بطور تمثیل کے فرمایا گیا ہے ، ورنہ اور بھی اس درجہ کی چیزیں ہیں جو اسی فہرست میں شامل ہیں ۔
مسلمان کی عزت و آبرو کی حفاظت و حمایت
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : جو (بےتوفیق) مسلمان کسی دوسرے مسلمان بندے کو کسی ایسے موقع پر بےمدد چھوڑے گا جس میں اس کی عزت پر حملہ ہو ، اور اس کی آبرو اتاری جاتی ہو ، تو اللہ تعالیٰ اس کو بھی ایسی جگہ اپنی مدد سے محروم رکھے گا جہاں وہ اللہ کی مدد کا خواہش مند (اور طلبگار) ہو گا ۔ اور جو (باتوفیق مسلمان) کسی مسلمان بندے کی ایسے موقع پر مدد اور حمایت کرے گا جہاں اس کی عزت و آبرو پر حملہ ہو تو اللہ تعالیٰ ایسے موقع پر اس کی مدد فرمائے گا جہاں وہ اس کی نصرت کا خواہشمند (اور طلب گار) ہو گا ۔ (سنن ابی داؤد)
مسلمان کی عزت و آبرو کی حفاظت و حمایت
حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کسی بددین منافق کے شر سے بندہ مومن کی حمایت کی (مثلا کسی شریر بددین نے کسی مومن بندے پر کوئی الزام لگایا ، اور کسی باتوفیق مسلمان نے اس کی مدافعت کی) تو اللہ تعالیٰ قیامت میں ایک فرشتہ مقرر فرمائے گا جو اس کے گوشت (یعنی جسم) کو آتش دوزخ سے بچائے گا ۔ اور جس کسی نے کسی مسلمان بندے کو بدنام کرنے اور گرانے کے لئے اس پر کوئی الزام لگایا تو اللہ تعالیٰ اس کو جہنم کے پل پر قید کر دے گا ، اس وقت تک کے لئے کہ وہ اپنے الزام کی گندگی سے پاک صاف نہ ہو جائے ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ کسی بندہ مومن کو بدنام رسوا کرنے کے لئے اس پر الزام لگانا اور اس کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا ایسا سنگین اور اتنا سخت گناہ ہے کہ اس کا ارتکاب کرنے والا اگرچہ مسلمانوں میں سے ہو جہنم کے ایک حصہ پر (جس کو حدیث میں جسر جہنم کہاگیا ہے) اس وقت تک ضرور قید میں رکھا جائے گا جب تک کہ جل بھن کر اپنے اس گناہ کی گندگی سے پاک صاف نہ ہو جائے جس طرح کہ سونا اس وقت تک آگ پر رکھا جاتا ہے جب تک کہ اس کا میل کچیل ختم نہ ہو جائے ۔ حدیث کے ظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ گناہ اللہ کے ہاں ناقابل معافی ہے ، لیکن آج ہم مسلمانوں کا ، ہمارے خوص تک کا یہ لذیذ ترین مشغلہ ہے ۔ اَللَّهُمَّ احْفَظْنَا مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا
مسلمان کی عزت و آبرو کی حفاظت و حمایت
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ فرماتے تھے کہ جب کوئی مسلمان اپنے کسی مسلم بھائی کی آبرو پر ہونے والے حملہ کا جواب دے (اور اس کی طرف سے مدافعت کرے) تو اللہ تعالیٰ کا یہ ذإہ ہو گا کہ وہ قیامت کے دن آتشِ جہنم کو اس سے دفع کرے ۔ پھر (بطورِ سند کے) آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : “وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ” (اور ہمارے ذمہ ہے ایمان والوں کی مدد کرنا) ۔ (شرح السنہ للامام محی السنہ البغوی)
مسلمان کی عزت و آبرو کی حفاظت و حمایت
حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:جس بندے نے اپنے کسی مسلمان بھائی کے خلاف کی جانے والی غیبت اور بدگوئی کی اس کی عدم موجودگی میں مدافعت اور جواب دہی کی تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے کہ آتشِ دوزخ سے اس کو آزادی بخش دے ۔ (شعب الایمان للبیہقی)
مسلمان کی عزت و آبرو کی حفاظت و حمایت
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے سامنے اس کے کسی مسلم بھائی کی غیبت اور بدگوئی کی جائے اور وہ اس کی نصرت و حمایت کر سکتا ہو اور کرے (یعنی غیبت و بدگوئی کرنے والے کو س سے روکے یا اس کا کواب دے اور مداخلت کرے) تو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی مدد فرمائے گا ، اور اگر قدرت حاصل ہونے کے باوجود وہ اس کی نصرت و حمایت نہ کرے (نہ غیبت کرنے والے کو غیبت سے روکے نہ جوابدہی اور مدافعت کرے) تو اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں س کوتاہی پر پکڑے گا (اور اس کی سزا دے گا) ۔ (شرح السنہ للامام محی السنہ للبغوی) تشریح حضرت جابر ، حضرت معاذ بن انس ، حضرت ابو الدرداء ، حضرت اسماء بنت یزید اور حضرت انس رضی اللہ عنہم کی ان پانچوں حدیثوں سے اندازاہ کیا جا سکتا ہے ہے کہ ایک بندہ مسلم کی عزت و آبرو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کس قدر محترم ہے اور دوسرے مسلمانوں کے لئے اس کی حفاظت و حمایت کس درجہ کا فریضہ ہے اور اس میں کوتاہی کس درجہ کا سنگین جرم ہے ۔ افسوس ےہے کہ ہدایت محمدی ﷺ کے اس اہم باب کو امت نے بالکل ہی فراموش کر دیا ہے ۔ بلاشبہ یہ ہمارے ان اجتماعی گناہوں میں سے ہے جن کی پاداش میں ہم صدیوں سے اللہ تعالیٰ کی نصرت سے محروم ہیں ، ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور ذلیل ہو رہے ہیں ۔
ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے آئینہ ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ایک مومن دوسرے مومن کا آئینہ ہے ، اور مومن دوسرے مومن کا بھائی ہے ، اس کے ضرر کو اس سے دفع کرتا ہے اور اس کے پیچھے سے اس کی پاسبانی و نگرانی کرتا ہے ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی) تشریح آئینہ کا یہ کام ہے کہ وہ دیکھنے والے کو اس کے چہرے کا ہر داغ دھبہ اور ہر بدنما نشان دکھا دیتا ہے ، اور صرف اسی کو دکھاتا ہے دوسروں کو نہیں دکھاتا ۔ ایک مومن کے دوسرے مومن کے لئے آئینہ ہونے کا مطلب بھی یہی ہے کہ اس کو چاہئے کہ دوسرے بھائی میں جو نامناسب اور قابلِ اصلاح بات دیکھے وہ پورے خلوص اور خیرکواہی کے ساتھ اس کو اس پر مطلع کر دے ، دوسروں میں اس کی تشہیر نہ کرے ۔ آگے ارشاد فرمایا ہے کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے ، اس دینی اخوت کے ناطے سے اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ اگر اس پر کوئی آفت اور تباہی آنے والی ہو تو وہ اپنے مقدور بھر اس کو روکنے اور اس کی زد سے اس کو بچانے کی کوشش کرے ، اور جس طرح اپنی کسی عزیز ترین چیز کی ہر طرف سے پاسبانی اور نگرانی کی جاتی ہے اسی طرح اپنے دینی و ایمانی بھائی کی نگرانی اور پاسبانی کرے ۔
عام انسانوں اور مخلوقات کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں ہدایات
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ ایمان کا افضل درجہ کیا ہے ؟ (یعنی ایمان والے اعمال و اخلاق میں وہ کون سے ہیں جن کو فضیلت کا اعلیٰ درجہ حاصل ہے) آپ ﷺ نے فرمایا : یہ کہ تمہاری محبت و مودت اور تمہاری نفرت و عداوت بس اللہ کے واسطے ہو ، اور تمہاری زبان اللہ کے ذکر میں استعمال ہو ۔ معاذ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ اس کے علاوہ اور کیا یا رسول اللہ! تو آپ ﷺ نے فرمایا : اور یہ کہ تم سب لوگوں کے وہی چاہو اور وہی پسند کرو جو اپنے لئے چاہتے اور پسند کرتے ہو اور اس چیز اور اس حالت کو سب لوگوں کے لئے ناپسند کرو جس کو اپنے لئے ناپسند کرتے ہو ۔ (مسند احمد) تشریح مندرجہ بالا حدیثوں میں مسلمانوں کو دوسرے مسلمانوں کے ساتھ تعلق اور برتاؤ کے بارے میں ہدایات دی گئی ہیں ۔ ذیل میں وہ حدیثیں پڑھئے جن میں رسول اللہ ﷺنے عام انسانوں اور دوسری مخلوقات کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں ہدایات دی ہیں ۔ تشریح ..... اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی ہدایت و تعلیم میں عام انسانوں کی اس حد تک خیرخواہی و خیر اندیشی اور ان کے ساتھ اتنا خلوص کہ جو اپنے لئے چاہے وہ سب کے لئے چاہے اور جو اپنے لئے نہ چاہے وہ کسی کے لئے بھی نہ چاہے ، اعلی درجہ کے ایمانی اعمال و اخلاق میں سے ہے ۔
عام انسانوں اور مخلوقات کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں ہدایات
حضرت جریر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اس شخص پر اللہ کی رحمت نہ ہو گی ، جو (اس کے پیدا کئے ہوئے) انسانوں پر رحم نہ کھائے گا ، اور ان کے ساتھ ترحم کا معاملہ نہ کرے گا ۔ تشریح اس حدیث میں ان لوگوں کے لئے جو دوسرے قابلِ رحم انسانوں کے ساتھ ترحم کا برتاؤ نہ کریں یعنی ان کی تکلیف اور ضرورت کو محسوس کر کے اپنے مقدور کے مطابق ان کی مدد اور خدمت نہ کریں ، بڑی سخت وعید ہے ۔ فرمایا گیا ہے کہ : ایسے لوگ خداوند رحمٰن کی رحمت سے محروم رہیں گے ۔ الفاظ میں اس کی بھی گنجائش ہے کہ اس کو بددعا سمجھا جائے ، اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ ایسے لوگ خدا کی رحمت سے محروم رہیں ۔ واضح رہے کہ چوروں ، ڈاکوؤں اور اس طرح کے دوسرے مجرموں کو سزا دینا اور قاتلوں کو قصاص میں قتل کرنا ، ترحم کی اس تعلیم و ہدایت کے خلاف نہیں ہے ، بلکہ یہ بھی عوام کے ساتھ ترحم ہی کا تقاضا ہے ۔ اگر مجرموں کو تعزیری قانون کے مطابق سخت سزائیں نہ دی جائیں تو بےچارے عوام ظالموں کے مظالم اور مجرمین کے جرائم کا اور زیادہ نشانہ بنیں گے ۔ قرآن پاک میں ارشاد فرمایا گیا ہے : وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ اے اہل دانش قصاص کے قانون میں تمہارے لئے زندگی کا سامان ہے ۔
عام انسانوں اور مخلوقات کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں ہدایات
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (اللہ کی مخلوق پر) رحم کھانے والوں اور (ان کے ساتھ) ترحم کا معاملہ کرنے والوں پر خداوند رحمن کی خاص رحمت ہو گی ۔ تم زمین والی مخلوق کے ساتھ رحم کا معاملہ کرو ، آسمان والا تم پر رحمت فرمائے گا۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی) تشریح اس حدیث میں بڑے ہی بلیغ اور موثر انداز میں تمام مخلوق کے ساتھ جس سے انسان کا واسطہ پڑتا ہے ترحم کی ترغیب دی گئی ہے ، پہلے فرمایا گیا ہے کہ ترحم کرنے والوں پر خدا کی رحمت ہو گی ، اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ تم کدا کی زمینی مخلوق کے ساتھ رحم کا برتاؤ کرو ، آسمان والا (رب العرش) تم پر رحمت کرے گا ۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے لئے “مَنْ فِي السَّمَاءِ” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کا لفظی ترجمہ ہے کہ “وہ جو آسمان میں ہے” ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کو آسمان سے وہ نسبت نہیں ہے جو ایک مکین کو اپنے خاص رہائشی مکان سے ہوتی ہے ، آسمان بھی زمین اور دوسری مخلوق کی طرح اس کی ایک مخلوق ہے وہ “ مَن رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ” ہے ، اور اس کی خالقیت اور الوہیت و ربوبیت کا دونوں سے یکساں تعلق ہے ۔ (وَهُوَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ إِلَـٰهٌ وَفِي الْأَرْضِ) (1) اس کے باوجود فوقیت اور بالاتری کے لحاظ سے اس کی نوعیت اور کیفیت جانتا ہے ، اسی نسبت کے اعتبار سے اس حدیث میں “مَنْ فِي الأَرْضِ” کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کے لئے “مَنْ فِي السَّمَاءِ” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔
عام انسانوں اور مخلوقات کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں ہدایات
حضرت انس اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ساری مخلوق اللہ کی عیال (گویا اس کا کنبہ) ہے اس لئے اللہ کو زیادہ محبوب اپنی مخلوق میں وہ آدمی ہے جو اللہ کی عیال (یعنی اس کی مخلوق) کے ساتھ احسان اور اچھا سلوک کرے ۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح آدمی کے “عیال” ان کو کہا جاتا ہے جن کی زندگی کی ضروریات کھانے ، کپڑے وغیرہ کا وہ کفیل ہو ۔ بلاشبہ اس لحاظ سئ ساری مخلوق اللہ کی “عیال” ہے ، وہی سب کا پروردگار اور روزی رساں ہے ۔ اس نسبت سے جو آدمی اس کی مخلوق کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے گا ، اس حدیث میں فرمایا گیا ہے ک وہ اس کی محبت اور پیار کا مستحق ہو گا ۔
جانوروں کے ساتھ بھی اچھے برتاؤ کی ہدایت
حضرت سہیل بن الحنظلیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک اونٹ کے پاس سے گزرے جس کا پیٹ (بھوک کی وجہ سے) اس کی کمر سے لگ گیا تھا ، تو آپ ﷺ نے فرمایا لوگو ! ان بےزبان جانوروں کے معاملہ میں خدا سے ڈرو ! (ان کو اس طرح بھوکا نہ مارو) ان پر سوار ہو تو ایسی حالت میں جب یہ ٹھیک ہوں (یعنی ان کا پیٹ بھرا ہو) اور ان کو چھوڑو تو (اسی طرح کھلا پلا کر) اچھی حالت میں ۔ (سنن ابی داؤد)
جانوروں کے ساتھ بھی اچھے برتاؤ کی ہدایت
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی نظر ایک گدھے پر پڑی جس کے چہرے پر داغ دے کر نشان بنایا گیا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : وہ شخص خدا کی رحمت سے محروم ہے جس نے یہ (بےرحمی کا) کام کیا ہے ۔ (مسند احمد) تشریح اگرچہ رسول اللہ ﷺ نے (اور آپ ﷺ سے پہلے آنے والے نبیوں ، رسولوں نے بھی) اس کی اجازت دی ہے کہ جو جانور سواری یا باربرداری کے لئے یا کسی دوسرے کام کے لئے پیدا کئے گئے ہیں ان سے وہ کام لئے جائیں ۔ اسی طرح جن جانوروں کو حلال طیب قرار دیا گیا ہے ان کو اللہ کی نعمت سمجھتے ہوئے اس کے حکم کے مطابق غذا میں استعمال کیا جائے ، لیکن اسی کے ساتھ آپ ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ ان کے ساتھ ایذاء رسانی اور بےرحمی کا برتاؤ نہ کیا جائے ، اور ان کے معاملہ میں بھی خدا سے ڈرا جائے ۔ تشریح ..... دنیا کے بہت سے حصوں میں گھوڑون ، گدھوں جیسے جانوروں کی پہچان کے لئے ان کے جسم کے کسی حصہ پر گرم لوہے سے داغ دے کر نشان بنا دیا جاتا تھا ، اب بھی کہیں کہیںاس کا رواج ہے لیکن س مقصد کے لئے چہرے کو داغنا (جو جانور کے سارے جسم میں سب سے زیادہ نازک اور حساس عضو ہے) بڑی بےرحمی اور گنوار پنے کی بات ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے ایک گدھے کو دیکھا جس کا چہرہ داغا گیا تھا تو آپ ﷺ کو سخت دکھ ہوا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ : “ لَعَنَ اللَّهُ مَنْ فَعَلَ هَذَا” (یعنی اس پر خدا کی لعنت جس نے یہ کیا ہے) ظاہر ہے کہ یہ انتہائی درجہ کی ناراضی اور بےزاری کا کلمہ تھا ، جو ایک گدھے کے ساتھ بےرحمی کا معاملہ کرنے والے کے لئے آپ ﷺ کی زبان مبارک سے نکلا ۔ دنیا نے “انسداد بےرحمی” کو اب اپنی ذمہ داری سمجھا ہے ، لیکن اللہ کے رسول حضرت محمدﷺ نے اب سے چودہ سو برس پہلے اس کی طرف رہنمائی فرمائی تھی اور اس پر روز دیا تھا ۔
جانوروں کے ساتھ بھی اچھے برتاؤ کی ہدایت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : ایک بدچلن عورت کی اسی عمل پر بخشش ہو گئی کہ وہ ایک کتے کے پاس سے گزری جو ایک کنویں کے پاس اس حالت میں (چکر کاٹ رہا) تھا کہ اس کی زبان باہر نکلی ہوئی تھی اور وہ ہانپ رہا تھا کہ پیاس سے مر جائے ۔ اس عورت نے (ڈول رسی نہ ہونے کی وجہ سے) پاؤں سے اپنا چمڑے کا موزہ اتارا پھر اپنی اوڑھنی میںٰ (کسی طرح) اس کو باندھا اور اس پیاسے کتے کے لئے (کنویں سے)پانی نکالا (اور پلایا) تو اس پر اس کی مغفرت کا فیصلہ فرما دیا گیا ۔ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ : کیا جانور (کے کھلانے پلانے) میں بھی ثواب ہے ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : بےشک ہر زندہ جانور کے کھلانے پلانے میں ثواب ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح ظاہر ہے کہ اس بدچلن عورت کے اس واقعہ کا ذکر کرنے سے رسول اللہ ﷺ کا مقصد صرف واقعہ سنا دینا نہ تھا ، بلکہ یہ سبق دینا تھا کہ کتے جیسی مخلوق کے ساتھ بھی اگر ترحم کا برتاؤ کیا جائے تو وہ خدا وند قدوس کی رحمت و مغفرت کا باعث ہو گا اور بندہ اس کا اجر و ثواب پائے گا ۔ قریب قریب اسی مضمون کی ایک حدیث جس میں عورت کے بجائے اس راستہ چلتے مسافر کا اسی طرح کا ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے ۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم ہی کے حوالہ سے اسی سلسلہ معارف الحدیث میں اب سے بہت پہلے (کتاب الاخلاق میں رحم دلی کے زیر عنوان) درج ہو چکی ہے اور وہاں اس کی تشریح میں بہت تفصیل سے کلام کیا جا چکا ہے اور اس سوال کا جواب بھی دیا جا چکا ہے کہ صرف ایک کتے کو پانی پلا دینا کیونکر ایک گنہگار آدمی کی مغفرت کا سبب بن سکتا ہے ، اور اس میں کیا راز (1) ہے ۔ اس حدیث کی روح اور اس کا خاص پیغام یہی ہے کہ کتے جیسے جانوروں کے ساتھ بھی ہمارا برتاؤ ترحم کا ہونا چاہئے ۔
جانوروں کے ساتھ بھی اچھے برتاؤ کی ہدایت
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کوئی مسلم بندہ کسی درخت کا پودا لگائے یا کھیتی کرے ، پھر کوئی انسان یا کوئی پرندہ یا چوپایہ اس درخت یا کھیتی میں سے کھائے ، تو یہ اس بندے کی طرف سے صدقہ اور کارِ ثواب ہو گا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث کا بھی پیغام اور سبق یہی ہے کہ انسانوں کے علاوہ اللہ کے پیدا کئے ہوئے سب جانوروں ، پرندوں اور چوپایوں کو کھلانا پلانا بھی صدقہ اور کار ثواب ہے ۔ اس کے برعکس مندرجہ ذیل حدیث سے معلوم ہو گا کہ کسی جانور کو بلاوجہ ستانا اور اس کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کرنا سخت گناہ ہے ، جو آدمی کو عذاب خداوندی کا مستحق بنا دیتا ہے ۔
جانوروں کے ساتھ بھی اچھے برتاؤ کی ہدایت
حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے دونوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : ایک ظاہم عورت کو ایک بلی کو (نہایت ظالمانہ طریقہ سے) مار ڈالنے کے جرم میں عذاب دیا گیا ہے ۔ اس نے اس بلی کو بند کر لیا ، پھر نہ تو خود اسے کچھ کھانے دیا اور نہ اسے چھوڑا کہ وہ حشرات الارض سے اپنا پیٹ بھر لیتی (اس طرح اسے بھوکا تڑپا تڑپا کے ماڑ ڈالا ۔ اس کی سزا اور پاداش میں وہ عورت عذاب میں ڈالی گئی ہے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح یہ چند حدیثیں یہ جاننے کے لئے کافی ہیں کہ جانوروں کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی ہدایت اور تعلیم کیا ہے اور یہ اس کے بالکل منافی نہیں ہے کہ سانپ ، بچھو جیسے موذی جانوروں کو مار ڈالنے کا خود آپ ﷺ نے حکم دیا ہے ، اور حرم میں بھی ان کے مار دینے کی اجازت دی گئی ہے ۔ یہ بھی دراصل اللہ کی مخلوق اور اس کے بندوں کے ساتھ خیرخواہی کا تقاضا ہے ۔
آدابِ ملاقات: سلام کی فضیلت و اہمیت
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : لوگو ! خدا وند رحمن کی عبادت کرو اور بندگانِ خدا کو کھانا کھلاؤ اور سلام کو خوب پھیلاؤ ، تم جنت میں پہنچ جاؤ گے ، سلامتی کے ساتھ ۔ (جامع ترمذی) تشریح یہاں تک جو حدیثیں درج ہوئی ان سے انسانوں کے مختلف طبقات اور اللہ کی عام مخلوقات کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات و ہدایات معلوم ہوئیں ، آگے “آدابِ ملاقات” اور اس کے بعد “آدابِ مجلس” کےسلسلہ کی جو احادیث درج کی جا رہی ہیں ، وہ بھی دراصل زندگی کے ایک خاص دائرے میں آپس کے برتاؤ ہی سے متعلق ہدایات ہیں ۔ تحیہ اسلام ، سلام دنیا کی تمام متمدن قوموں اور گروہوں میں ملاقات کے وقت پیار و محبت یا جذبہ اکرام و خیر اندیشی کا اظہار کرنے اور مخاطب کو مانوس و مسرور کرنے کے لئے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج رہا ہے ، اور آج بھی ہے ۔ ہمارے ملک ہندوستان میں ہمارے برادرانِ وطن ہندو ، ملاقات کے سات “نمستے” کہتے ہیں ، کچھ پرانے قسم کے کم پڑھے لکھوں کو “رام رام” کہتے ہوئے بھی سنا ہے ۔ یورپ کے لوگوں میں صبح کی ملاقات کے وقت “گذ مارننگ” (اچھی صبح) اور شام کی ملاقات کے وقت “گذ ایوننگ” (اچھی شام) اور رات کی ملاقات میں “گذ نائٹ” (اچھی رات) وغیرہ کہنے کا رواج ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کے وقت عربوں میں بھی اسی طرح کے کلمات ملاقات کے وقت کہنے کا رواج تھا ۔ سنن ابی داؤد میں رسول اللہ ﷺ کے صحابی عمران بن حصینؓ کا یہ بیان مروی ہے کہ ہم لوگ اسلام سے پہلے ملاقات کے وقت آپس میں “أَنْعَمَ اللَّهُ بِكَ عَيْنًا” (خدا آنکھوں کی ٹھنڈک نصٰب کرے) اور “أَنْعِمْ صَبَاحًا” (تمہاری صبح خوشگوار ہو) کہا کرتے تھے ۔ جب ہم لوگ جاہلیت کے اندھیرے سے نکل کر اسلام کی روشنی میں آگئے تو ہمیں اس کی ممانعت کر دی گئی ، یعنی اس کے بجائے ہمیں “السَّلَامُ عَلَيْكُمْ” تعلیم دی گئی ۔ آج بھی غور کرے تو واقعہ یہ ہے کہ اس سے بہتر کوئی کلمہ محبت و تعلق اور اکرام و خیراندیشی کے اظہار کے لئے سوچا نہیں جا سکتا ۔ ذرا اس کی معنوی خصوصیات پر غور کیجئے ۔ یہ بہترین اور نہایت جامع دعائیہ کلمہ ہے ، اس کا مطلب ہے کہ اللہ تم کو ہر طرح کی سلامتی نصیب فرمائے ۔ یہ اپنے سے چھوٹوں کے لئے شفقت اور مرحمت اور پیار و محبت کا کلمہ بھی ہے اور بڑوں کے لئے اس میں اکرام اور تعظیم بھی ہے ، اور پھر “السَّلَامُ” اسماء الہیہ میں سے بھی ہے ۔ قرآن مجید میں یہ کلمہ انبیاء و رسل علیہم السلام کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور اکرام اور بشارت کے استعمال فرمایا گیا ہے ، اور اس میں عنایت اور پیار و محبت کا رس بھرا ہوا ہے ۔ ارشاد ہوا ہے : سَلَامٌ عَلَىٰ نُوحٍ فِي الْعَالَمِينَ ...... سَلَامٌ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ ...... سَلَامٌ عَلَىٰ مُوسَىٰ وَهَارُونَ ....... سَلَامٌ عَلَىٰ إِلْ يَاسِينَ ...... سَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ ...... سَلَامٌ عَلَىٰ عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَىٰ اور اہل ایمان کو حکم ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھی اسی طرح سلام عرض کریں : “ السَّلَامُ عَلَيْكَ اَيُّهَا النَّبِىُّ ” اور ایک جگہ رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا گیا ہے کہ : جب ہمارے وہ بندے آپ کے پاس آئیں ۔ جو ایمان لا چکے ہیں ، تو آپ ان سے کہیں کہ : “سَلَامٌ عَلَيْكُمْ ۖ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ” (السلام علیکم ! تمہارے پروردگار نے تمہارے لئے رحمت کا فیصلہ فرما دیا ہے) اور آخرت میں داخلہ جنت کے وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہلِ ایمان سے فرمایا جائے گا : “ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ” اور “سَلَامٌ عَلَيْكُم بِمَا صَبَرْتُمْ ۚ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ” الغرض ملاقات کے وقت کے لئے “السَّلَامُ عَلَيْكُمْ” سے بہتر کوئی کلمہ نہیں ہو سکتا ۔ اگر ملنے والے پہلے بے باہم متعارف اور شناسا ہیں اور ان میں محبت و اخوت یا قرابت کے قسم کا کوئی تعلق ہے تو اس کلمہ میں اس تعلق اور اس کی بناء پر محبت و مسرت اور اکرام و خیراندیشی کا پورا اظہار ہے اور اگر پہلے سے کوئی تعارف اور تعلق نہیں ہے ، تو یہ کلمہ ہی تعلق و اعتماد اور خیرسگالی کا وسیلہ بتنا ہے ، اور اس کے ذریعے ہر ایک دوسرے کو گویا اطمینان دلاتا ہے کہ میں تمہارا خیراندیش اور دعاگو ہوں ، اور میرے تمہارے درمیان ایک روحانی رشتہ اور تعلق ہے ۔ بہرحال ملاقات کے وقت “السَّلَامُ عَلَيْكُمْ” اور “وَعَلَيْكُمُ السَّلَامُ” کی تعلیم رسول اللہ ﷺ کی نہایت مبارک تعلیمات میں سے ہے ، اور یہ اسلام کا شعار ہے ، اور اسی لئے آپ ﷺ نے اس کی بڑی تاکید فرمائی اور بڑے فضائل بیان فرمائے یہں ۔ اس تمہید کے بعد اس سلسلہ کی احادیث پڑھئے ! تشریح ..... اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے تین نیک کاموں کی ہدایت فرمائی ہے ، اور ان کے کرنے والے کو جنت کی بشارت دی ہے ۔ ایک خداوند رحمن کی عبادت (یعنی بندے پر اللہ کا جو حق ہے اور جو دراصل مقصدِ تخلیق ہے کہ اس کی اور صرف اس کی عبادت کی جائے اور اس کو ادا کیا جائے) دوسرے اطعام طعام ، یعنی اللہ کے محتاج اور مسکین بندوں کو بطور صدقہ کے اور دوستوں عزیزوں اور اللہ کے نیک بندوں کو بطور ہدیہ اخلاق و محبت کے کھانا کھلایا جائے (جو دلوں کو جورنے اور محبت و الفت پیدا کرنے کا بہترین وسیلہ ہے ، اور بخل جیسی مہلک بیماری کا علاج بھی ہے) تیسرے “السَّلَامُ عَلَيْكُمْ” اور “وَعَلَيْكُمُ السَّلَامُ” کو جو اسلامی شعار ہے اور اللہ تعالیٰ کی تعلیم فرمایا ہوا دعائیہ کلمہ ہے ، اس کو خوب پھیلایا جائے اور اس کی ایسی کثرت اور ایسی رواج ہو کہ اسلامی دنیاکی فضاء اس کی لہروں سے معمور رہے ۔ ان تین نیک کاموں پر رسول اللہ ﷺ نے بشارت سنائی ہے : “ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ ” (تم پوری سلامتی کے ساتھ جنت میں پہنچ جاؤ گے) ۔
سلام کی فضیلت و اہمیت
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ :“حضرت اسلام میں (یعنی اسلامی اعمال میں) وہ کیا چیز (اور کون ساعمل)زیادہ اچھا ہے ؟”آپ ﷺ نے فرمایا:“(ایک)یہ کہ تم اللہ کے بندوں کو کھانا کھلاؤ اور (دوسرے) یہ کہ جس سے جان پہچان ہو اس کو بھی اور جس سے جان پہچان نہ ہو اس کو بھی سلام کرو” ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں رسول اللہ ﷺنے اطعام طعام اور سلام کو خیر اور بہتر قرار دیا ہے ۔ بعض دوسری حدیثوں میں (جو گزر بھی چکی ہیں) دوسرے بعض اعمالِ صالحہ کو مثلا ذکراللہ یا جہاد فی سبیل اللہ کو یا والدین کو خدمت و اطاعت کو “خیر اعمال” اور “افضل اعمال” قرار دیا گیا ہے لیکن جیسا کہ اسی سلسلہ میں بار بار واضح کیا جا چکا ہے کہ اس میں کوئی تضاد نہیں ہے ۔ آپ ﷺ کے جوابات کا یہ فرق دراصل پوچھنے والوں کی حالت و ضرورت اور موقع محل کے فرق کے لحاظ سے ہے ، اور اسلامی نظامِ حیات میں ان سب ہی اعمال کو مختلف جہتوں سے خاص اہمیت اور عظمت حاصل ہے ۔
سلام کی فضیلت و اہمیت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم جنت میں نہیں جا سکتے تاوقتیکہ پورے مومن نہ ہو جاؤ (اور تمہاری زندگی ایمان والی زندگی نہ ہو جائے) اور یہ نہیں ہو سکتا جب تک کہ تم میں باہم محبت نہ ہو جائے ، کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتا دوں جس کے کرنے سے تمہارے درمیان محبت و یگانگت پیدا ہو جائے ۔ (وہ یہ ہے کہ) سلام کو آپس میں خوب پھیلاؤ ۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں صراحۃً معلوم ہوا کہ ایمان جس پر داخہ جنت کی بشارت ور وعدہ ہے ، وہ صرف کلمہ پڑھ لینے کا اور عقیدہ کا نام نہیں ہے ، بلکہ وہ اتنی وسیع حقیقت ہے کہ اہل ایمان کی باہمی محبت و مودت بھی اس کی لازمی شرط ہے اور رسول اللہ ﷺ نے بڑے اہتمام کے ساتھ بتلایا ہے کہ ای دوسرے کو سلام کرنے اور اس کا جواب دینے سے یہ محبت و مودت دِلوں میں پیدا ہوتی ہے ۔ یہاں یہ بات قابلِ لحاظ ہے کہ کسی عمل کی خاص تاثیر جب ہی ظہور میں آتی ہے جب کہ اس عمل میں روح ہو ، نماز ، روزہ اور حج اور ذکراللہ جیسے اعمال کا حال بھی یہی ہے ۔ بالکل یہی معاملہ سلام اور مصافحہ کا بھی ہے کہ یہ اگر دل کے اخلاص اور ایمانی رشتہ کی بناء پر صحیح جذبہ سے ہوں تو پھر دلوں سے کدورت نکلنے اور محبت و مودت کا رس پیدا ہو جانے کا یہ بہترین وسیلہ ہیں ۔ لیکن آج ہمارا ہر عمل بےروح ہے ۔
سلام کا اجر و ثواب
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا “ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ ” آپ ﷺ نے اس کے سلام کا جواب دیا ، پھر وہ مجلس میں بیٹھ گیا ، تو آپ ﷺ نے فرمایا :“دس (یعنی اس بندے کے لئے اس کے سلام کی وجہ سے دس نیکیاں لکھی گئیں)”پھر ایک اور آدمی آیا اور اس نے کہا : “ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ ” آپ ﷺ نے اس کے سلام کا جواب دیا ، پھر وہ آدمی بیٹھ گیا تو تو آپ ﷺ نے فرمایا :“بیس (یعنی اس کے لئے بیس نیکیاں لکھی گئیں)”پھر ایک تیسرا آدمی آیا اور اس نے کہا : “ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ ” آپ ﷺ نے اس کے سلام کا جواب دیا اور وہ مجلس میں بیٹھ گیا ، تو آپ ﷺ نے فرمایا :“تیس (یعنی اس کے لئے تیس نیکیاں ثابت ہو گئیں)۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد) تشریح اللہ تعالیٰ کا یہ کریمانہ قانون ہے کہ اس نے ایک نیکی کا اجر اس آخری امت کے لئے دس نیکیوں کے برابر مقرر کیا ہے ۔ قرآن پاک میں بھی فرمایا گیا : “مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا” اسی بناء پر رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کے حق میں جس نے صرف ایک کلمہ “السَّلَامُ عَلَيْكُمْ” کہا تھا ، فرمایا کہ : اس کے لیے دس نیکیاں ثابت ہو گئیں ۔ اور جس شخص نے اس کے ساتھ دوسرے کلمہ “وَرَحْمَةُ اللَّهِ” کا بھی اضافہ کیا ، اس کے لئے آپ فرمایا کہ : بیس نیکیاں ثابت ہو گئیں ۔ اور تیسرے شخص کے لئے جس نے کلمہ “السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ” کے ساتھ “وَبَرَكَاتُهُ” کا اضافہ کیا ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ :اس کے لیے ۳۰نیکیاں ثابت ہو گئیں ۔ اسی حساب سے سلام کا جواب دینے والا بھی اجر و دثواب کا مستحق ہو گا ۔ اللہ تعالیٰ ان حقیقتوں کا یقینی نصیب فرمائے اور رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور رحمت حاصؒ کرنے کے جو راستے ہیں ان کی قدر اور استفادے کی توفیق دے ۔ امام مالکؒ نے ابی بن کعب کے صاحبزادے طفیل کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا ۔ ان کا طریقہ تھا کہ وہ ہمیں ساتھ لے کر بازار جاتے اور جس دکاندار اور جس کباڑئیے اور جس فقیر و مسکین کے پاس سے گزرتے اس کو بس سلام کرتے (اور کچھ خرید و فروخت کے بغیر واپس آ جاتے) ایک دن میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا ، تو معمول کے مطابق مجھے ساتھ لے کربازار جانے لگے میں نے عرض کیا کہ آپ بازار جا کے کیا کریں گے ؟ نہ تو آپ کسی دکان پر کھڑے ہوتے ہیں ، نہ کسی چیز کا سودا کرتے ہیں ، نہ بھاؤ ہی کی بات کرتے ہیں ، اور بازار کی مجلسوں میں بھی نہیں بیٹھتے (پھر آپ بازار کس لئے جائیں ؟) یہیں بیٹھئے ، باتیں ہوں اور ہم استفادہ کریں ! حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا کہ : ہم تو صرف اس غرض اور اس نیت سے بازار جاتے ہیں کہ جو سامنے پڑے اس کو سلام کریں اور ہر سلام پر کم از کم دس نیکیاں کما کر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور بندگانِ خدا کے جوابی سلاموں کی برکتیں حاصل کریں ۔)
سلام کا اجر و ثواب
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگوں میں اللہ کے قرب اور اس کی رحمت کا زیادہ مستحق وہ بندے ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد)
سلام کا اجر و ثواب
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ :سلام میں پہل کرنے والا تکبر سے بری ہے ۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح یعنی سلام میں پہل کرنا اس بات کی علامت ہے کہ اس بندے کے دل میں تکبر نہیں ہے ۔ اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ سلام میں پہل کرنا کبر کا علاج ہے جو بدترین رزیلہ ہے ، جس پر احادیث میں عذاب نار کی وعید ہے ۔ اَللَّهُمَّ احْفَظْنَا ۔ اس کے بعد چند وہ حدیثین پڑھئے جن میں خاص خاص موقعوں پر سلام کرنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے ۔
عندالملاقات ، سلام
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ (خاص) حق ہیں : اول یہ کہ جب ملاقات ہو تو سلام کرے ۔ دوسرے جب وہ مدعو کرے تو اس کی دعوت قبول کرے (بشرطیکہ کوئی شرعی محذور اور مانع نہ ہو) تیسرے جب وہ نصیحت (یا مخلصانہ مشورہ) کا طالب ہو تو اس سے دریغ نہ کرے ، چوتھے جب اس کو چھینک آئے اور وہ “الحمدللہ” کہے تو اس کو یہ کہے “یرحمک اللہ” (جو دعائیہ کلمہ ہے) پانچویں جب بیمار ہو تو اس کی عیادت کرے ۔ چھٹے وہ انتقال کر جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جائے ۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر سب سے پہلا حق یہ بتلایا ہے کہ ملاقات ہو تو سلام کرے ، یعنی “السلام علیکم” کہے (حضرت ابو ہریرہؓ ہی کی روایت سے قریب قریب اسی مضمون کی ایک حدیث “ اسلامی رشتہ کے چند حقوق” کے زیرِ عنوان) صحیح بخاری و صحیح مسلم کے حوالہ سے چند ہی ورق پہلے گزر چکی ہے ۔ وہاں ضروری تشریح بھی کی جا چکی ہے ، اس لئے یہاں اس سے زیادہ کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں ۔
عندالملاقات ، سلام
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جب تم میں سے کسی کی اپنے کسی مسلمان بھائی سے ملاقات ہو تو چاہئے کہ اس کو سلام کرے ، اگر اس کے بعد کوئی درخت یا کوئی دیوار یا کوئی پتھر ان دونوں کے درمیان حائل ہو جائے (اور تھوڑی دیر کے لئے ایک دوسرے سے غائب ہو جائیں) اور اس کے بعد پھر سامنا ہو ، تو پھر سلام کرے ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر ملاقات اور سلام کے بعد دو چار سیکنڈ کے لئے بھی ایک دوسرے سے علیحدہ ہو جائیں اور اس کے بعد پھر ملیں تو دوبارہ سلام کیا جائے اور دوسرا اس کا جواب دے ۔ اس حدیث سے سمجھا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیم اور شریعت اسلام میں سلام کی کتنی اہمیت ہے ۔
اپنے گھر یا کسی مجلس میں آؤ یا جاؤ تو سلام کرو
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیٹا ! جب تم اپنے گھر والوں کے پاس جاؤ تو سلام کرو ، یہ تمہارے لئے بھی باعث برکت ہو گا ، اور تمہارے گھر والوں کے لئے بھی ۔ (جامع ترمذی)
اپنے گھر یا کسی مجلس میں آؤ یا جاؤ تو سلام کرو
حضرت قتادہ (تابعی) سے (مرسلاً) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم کسی گھر میں جاؤ تو گھر والوں کو سلام کرو ، اور پھر جب گھر سے نکلو اور جانے لگو تو وداعی سلام کر کے نکلو ۔ (شعب الایمان للبیہقی)
اپنے گھر یا کسی مجلس میں آؤ یا جاؤ تو سلام کرو
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی کسی مجلس میں پہنچے تو چاہئے کہ اولاً اہلِ مجلس کو سلام کرے ، پھر بیٹھنا مناسب سمجھے تو بیٹھ جائے ، پھر جانے لگے تو پھر سلام کرے اور پہلا سلام بعد والے سلامسے اعلیٰ اور بالا نہیں ہے ۔ (یعنی بعد والے رخصتی سلام کا بھی وہی درجہ ہے جو پہلے سلام کا ، اس سے کچھ کم نہیں ۔) (جامع ترمذی)
سلام کے متعلق کچھ احکام اور ضابطے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ : چھوٹا بڑے کو سلام کیا کرے اور راستہ سے گزرنے والے چلنے والا بیٹھے ہوؤں کو سلام کیا کرے ، اور تھوڑے آدمی زیادہ آدمیوں کی جماعت کو سلام کریں ۔ (صحیح بخاری) (اور حضرت ابو ہریرہؓ کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ سوار آدمی کو چاہئے کہ وہ پیدل چلنے ولے کو سلام کرے) ۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ جب ایک چھوٹے اور بڑے کی ملاقات ہو تو چھوٹے کو چاہئے کہ وہ پیش قدمی کر کے بڑے کو سلام کرے ۔ اور اسی طرح جب کسی چلنے والے کا گزر کسی بیٹھے ہوئے آدمی پر ہو تو چلنے والے کو چاہئے کہ وہ سلام میں پیش قدمی کرے ، اور اگر دو جماعتوں کی ملاقات ہو تو جس جماعت میں نسبتاً آدمی کم ہوں وہ دوسری زیاد ہ آدمیوں والی جماعت کو سلام کرنے میں پیش قدمی کرے ، اور جو شخص کسی سواری پر جا رہا ہو وہ پیش قدمی کر کے پیدل چلنے والوں کو سلام کرے ۔ اس ہدایت کی یہ حکمت عملی ظاہر ہے کہ سوار کو بظاہر ایک دنیوی بلندی اور بڑائی حاصل ہے اس لئے اس کو حکم دیا گیا کہ وہ پیدل چلنے والوں کو سلام کر کے اپنی بڑائی کی نفی اور تواضع اور خاکساری کا اظہار کرے ۔
سلام کے متعلق کچھ احکام اور ضابطے
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی طرف نسبت کر کے بیان فرمایا کہ گزرنے والی جماعت میں سے اگر کوئی ایک سلام کر لے تو پوری جماعت کی طرف سے کافی ہے ، اور بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک جواب دے دے تو سب کی طرف سے کافی ہے ۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح رسول اللہ ﷺ نے سلام اور جوابِ سلام کے کچھ احکام اور ضابطے بھی تعلیم فرمائے ہیں ۔ ان کے لئے ذیل کی چند حدیثیں پڑھئے :
بعض حالتوں میں سلام نہ کیا جائے
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کو اس حالت میں سلام کیا جب آپ ﷺ پیشاب کے لیے بیٹھے تھے ۔ تو آپ ﷺ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا ۔ (جامع ترمذی) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایسی حالتوں میں سلام نہیں کرنا چاہئے ۔ اور اگر کوئی آدمی ناواقفی سے سلام کرے تو اس کا جواب نہ دینا چاہئے ۔
بعض حالتوں میں سلام نہ کیا جائے
حضرت مقداد بن الاسود رضی اللہ عنہ ایک طویل حدیث کے ضمن میں بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات کو اصحاب صفہ کے پاس تشریف لاتے تو آپ ﷺ اس طرح آہستہ اور احتیاط سے سلام کرتے کہ سونے والے نہ جاگتے اور جاگنے والے سن لیتے ۔ (جامع ترمذی) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سلام کرنے والے کو اس کا لحاظ رکھنا چاہئے کہ اس کے سلام سے کسی سونے والے کی آنکھ نہ کھل جائے ، یا اس طرح کی کوئی دوسری اذیت اللہ کے کسی بندے کو نہ پہنچ جائے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ آداب سیکھنے اوربرتنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
مصافحہ
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : سلام کا تکملہ مصافحہ ہے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد) تشریح ملاقات کے وقت محبت و مسرت اور جذبہ اکرام و احترام کے اظہار کا ایک ذریعہ سلام کےعلاوہ اور اس سے بالاتر مصافحہ بھی ہے جو عموما سلام کے ساتھ اور اس کے بعد ہوتا ہے ۔ اور اس سے سلام کے ان مقاصد کی گویا تکمیل ہوتی ہے ۔ بعض احادیث میں صراحۃً یہی بات فرمائی گئی ہے ۔ (قریب قریب یہی مضمون جامع ترمذی ہی میں ایک دوسری حدیث کے ضمن میں مشہور صحابی حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے) ۔
مصافحہ کا اجر و ثواب اور اس کی برکتیں
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب دو مسلمانوں کی ملاقات ہو اور وہ مصافحہ کریں اور اس کے ساتھ اللہ کی حمد اور اپنے لئے مغفرت طلب کریں تو ان کی مغفرت ہو ہی جائے گی ۔ (سنن ابی داؤد)
مصافحہ کا اجر و ثواب اور اس کی برکتیں
عطاء خراسانی سے (بطریق ارسال) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم باہم مصافحہ کرو اس سے کینہ کی صفائی ہوتی ہے اور آپس میں ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو اس سے تم میں باہم محبت پیدا ہو گی اور دلوں سے دشمنی دور ہو گی ۔ (موطا امام مالک) (یہ روایت امام مالک نے اسی طرح عطاء خراسانی سے مرسلا روایت کی ہے یعنی انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان کو یہ حدیث کس صحابی سے پہنچی ۔ ایسی حدیث کو مرسل کہا جاتا ہے اور اس طریقہ سے روایت کرنے کو ارسال) تشریح یہاں بھی اس بات کو یاد کر لیا جائے کہ ہر عمل کی تاثیر اور برکت اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ اس میں روح ہو اور جو دانہ بےجان ہو چکا اس سے پودا نہیں اگتا ۔
معانقہ و تقبیل اور قیام
ایوب بن بشیر قبیلہ بنو عنزہ کے ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں اس نے بیان کیا کہ میں نے حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے پوچھا : کیا رسول اللہ ﷺ ملاقات کے وقت آپ لوگوں سے مصافحہ بھی کیا کرتے تھے ؟ تو انہوں نے فرمایا : میں جب بھی حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ، اور آپ ﷺ سے ملا تو آپ نے ہمیشہ مجھ سے مصافحہ کیا ۔ اور ایک دفعہ آپ ﷺ نے مجھے گھر سے بلوایا میں اس وقت اپنے گھر پر نہیں تھا ، جب میں گھر آیا اور مجھے بتایا گیا (کہ حضور ﷺ نے مجھے بلوایا تھا) تو میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ، اس وقت آپ ﷺ اپنے سریر پر تھے (جو کھجور کی شاخوں سے ایک تخت یا چارپائی کی طرح بنا لیا جاتا ہے) آپ ﷺ (اس سے اٹھ کر) مجھ سے لپٹ گئے اور گلے لگایا ، اور آپ ﷺ کا یہ معانقہ بہت خوب اور بہت ہی خوبصورت تھا (یعنی بڑا لذت بخش اور بہت ہی مبارک تھا) ۔ تشریح محبت و تعلق کے اظہار کا آخری اور انتہائی ذریعہ معانقہ اور تقبیل (چومنا) ہے ، لیکن اس کی اجازت اسی صورت میں ہے جبکہ موقع محل کے لحاظ سے کسی شرعی مصلحت کے خلاف نہ ہو ، اور اس سے کسی برائی یا اس کے شک شبہ کے پیدا ہونے کا اندیشہ نہ ہو ۔ جامع ترمذی میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث مروی ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ : جب اپنے بھائی یا عزیز دوست سے ملاقات ہو تو ، کیا اس کی اجازت ہے کہ اس سے لپٹ جائیں ، اسے گلے لگائیں اور اس کو چومیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ :اس کی اجازت نہیں ہے ۔ اس شخص نے عرض کیا : تو کیا اس کی اجازت ہے کہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیں اور مصافحہ کریں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں اس کی اجازت ہے ۔ اس حدیث اس حدیث سے معانقہ اور تقبیل کی جو ممانعت مفہوم ہوتی ہے اس کے بارے میں شارحین حدیث کی رائے دوسری بہت سی حدیثوں کی روشنی میں یہی ہے کہ اس کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ سینہ سے لگانے اور چومنے میں کسی برائی یا اسکے شک و شبہ کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہو ۔ ورنہ خود رسول اللہ ﷺ سے معانقہ اور تقبیل کے بہت سے واقعات مروی اور ثابت ہیں ۔ ان میں سے بعض ذیل کی حدیثوں سے معلوم ہوں گے ۔
معانقہ و تقبیل اور قیام
امام شعبی تابعی سے مرسلاً روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جعفر بن ابی طالب کا استقبال کیا (جب وہ حبشہ سے واپس آئے ۔ تو آپ ﷺ ان کو لپٹ گئے (یعنی معانقہ فرمایا) اور دونوں آنکھوں کے بیچ میں (ان کی پیشانی کو) بوسہ دیا ۔ (سنن ابی داؤد ، شعب الایمان للبیہقی)
معانقہ و تقبیل اور قیام
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو شکل و صورت ، سیرت و عادت اور چال ڈھال میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ زیادہ مشابہ ہو ۔ صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے (یعنی ان سب چیزوں میں وہ سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺ سے مشابہ تھیں) جب وہ حضور ﷺ کے پاس آتیں تو آپ ﷺ (جوشِ محبت سے) کھڑے ہو کر ان کی طرف بڑھتے ۔ ان کا ہاتھ اپنے دستِ مبارک میں لے لیتے اور (پیار سے) اس کو چومتے ، اور اپنی جگہ پر ان کو بٹھاتے (اور یہی ان کا دستور تھا) جب آپ ﷺ ان کے یہاں تشریف لے جاتے تو وہ آپکے لئے کھڑی ہو جاتیں ۔ آپ ﷺ کا دستِ مبارک اپنے ہاتھ میں لے لیتیں ، اس کو چومتیں اور اپنی جگہ پر آپ ﷺ کو بٹھاتیں ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح یہ روایات اس کی واضح دلیل ہیں کہ محبت اور اکرام کے جذبہ سے معانقہ اور تقبیل (یعنی ہاتھ یا پیشانی وغیرہ چومنا) جائز ، اور خود رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہیں ، اس لئے حضرت انسؓ کی اس حدیث کو جس میں معانقہ اور تقبیل کی ممانعت کا ذکر ہے اسی پر محمول کیا جائے گا کہ وہ حکم ان مواقع کے لئے جب سینہ سے لگانے اور چومنے میں کسی برائی یا اس کے شک و شبہ کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہو ۔ حضرت عائشہ والی آخرت حدیث میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی آمد پر حضور ﷺ کے کھڑے ہو جانے اور حضور ﷺ کی تشریف آوری پر حضرت فاطمہؓ کے کھڑے ہونے کا ذکر ہے ۔ یہ بات اس کی دلیل ہے ہے کہ محبت اور اکرام و احترام کے جذبہ سے اپنے کسی عزیز ، محبوب یا محترم بزرگ کے لئے کھڑا ہو جانا بھی درست ہے ۔ لیکن بعض احادیث سے (جو آگے درج ہوں گی) یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کے تشریف لانے پر اگر صحابہ کرامؓ کبھی کھڑے ہو جاتے تو آپ ﷺ اس کو ناپسند فرماتے اور ناگواری کا اظہار فرماتے تھے ، غالباً اس کی وجہ آپ ﷺ کی مزاجی خاکساری اور تواضع پسندی تھی ۔ واللہ اعلم ۔
ملاقات یا گھر یا مجلس میں آنے کے لئے اجازت کی ضرورت
کلدہ بن حنبل سے روایت ہے کہ (ان کے اخیافی بھائی) صفوان بن امیہ نے ان کو دودھ اور ہرنی کا ایک بچہ اور کچھ کھیرے لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب رسول اللہ ﷺ وادی مکہ کے بالائی حصے میں تھے کلدہ کہتے ہیں کہ یہ چیزیں لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ گیا اور نہ میں نے سلام کیا اور نہ حاضری کی اجازت چاہی ، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم واپس جاؤ اور (قاعدہ کے مطابق) “السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ أَأَدْخُلُ” کہہ کر اجازت مانگو ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد) تشریح رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی ہدایت فرمائی ہے کہ جب کسی سے ملاقات کرنے کے لئے یا اس کے گھر یا اس کی مجلس میں کوئی جانا چاہے تو پہلے سلام کہے اور اجازت مانگے ، اس کے بغیر ہرگز اچانک داخل نہ ہو ، معلوم نہیں وہ اس وقت کس حال اور کس کام میں ہو ، ممکن ہے اس وقت اس کے لئے ملنا مناسب نہ ہو ۔ تشریح ..... یہ صفوان بن امیہ مشہور دشمنِ اسلام اور دشمنِ رسول ﷺ امیہ بن خلف کے لڑکے تھے ۔ یہ اللہ کی توفیق سے فتح مکہ کے بعد اسلام لے آئے ۔ اور یہ واقعہ جو اس روایت میں ذکر کیا گیا ہے غالباً فتح مکہ کے سفر ہی کا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کا قیام وادی مکہ کے اس بالائی حصہ میں تھا جس کو معلی کہتے ہیں ۔ صفوان بن امیہ نے اپنے اخیافی بھائی کلدہ بن حنبل کو ہدیہ کے طور پر یہ تین چیزیں لے کر حضور ﷺ کی خدمت میں بھیجا تھا ۔ کچھ دودھ تھا ، ایک ہرنی کا بچہ تھا اور کچھ کھیرے تھے ۔ یہ اس سے واقف نہیں تھے کہ جب کسی سے ملنے کے لئے جانا ہو تو سلام کر کے اور پہلے اجازت لے کر جانا چاہئے اسی لئے یونہی حضور ﷺ کے پاس پہنچ گئے ۔ آپ نے اس ادب کی تعلیم کے لئے ان سے فرمایا کہ : باہر واپس جاؤ اور کہو : “السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ أَأَدْخُلُ” (السلام علیکم ! کیا میں اندر آ سکتا ہوں) اور جب اجازت ملے تو آؤ ۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے سلام اور استیذان (یعنی اجازت چاہنے) کا طریقہ صرف زبانی بتا دینے کے بجائے اس سے عمل بھی کرا دیا ۔ ظاہر ہے جو سبق اس طرح دیا جائے اس کو آدمی کبھی نہیں بھول سکتا ۔
ملاقات یا گھر یا مجلس میں آنے کے لئے اجازت کی ضرورت
عطاء بن یسار تابعی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : کیا میں اپنی ماں کے پاس جانے کے لئے بھی پہلے اجازت طلب کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں ! مان کے پاس جانے کے لئے بھی اجازت لو ! اس شخص نے عرض کیا کہ : میں ماں کے ساتھ ہی گھر میں رہتا ہوں (مطلب یہ کہ میرا گھر کہیں الگ نہیں ہے ، ہم ماں بیٹے ایک ہی گھر میں ساتھ رہتے ہیں ۔ تو کیا ایسی صورت میں بھی میرے لئے ضروری ہے کہ اجازت لے کر گھر میں جاؤں ؟) آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ! اجازت لے کر ہی جاؤ ۔ اس شخص نے عرض کیا کہ : میں ہی اس کا خادم ہوں (اس کے سارے کام کاج میں ہی کرتا ہوں اس لیے بار بار جانا ہوتا ہے ، ایسی صورت میں تو ہر دفعہ اجازت لیجنا ضروری نہ ہو گا) آپ ﷺ نے فرمایا کہ : نہیں ، اجازت لے کر ہی جاؤ ، کیا تم یہ پسند کرو گے کہ اس کو برہنہ دیکھو ! اس شخص نے عرض کیا کہ : یہ تو ہرگز پسند نہیں کروں گا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تو پھر اجازت لے کر ہی جاؤ ۔ (موطا امام مالک) تشریح مطلب یہ ہے کہ اجازت اور اچانک اپنی ماں کے گھر میں جانے کی صورت میں اس کا امکان ہے کہ تم ایسی حالت میں گھر میں پہنچو کہ تمہاری ماں کسی ضرورت سے کپڑے اتارے ہوئے ہو ، اس لئے ماں کے پاس بھی اجازت لے کر ہی جانا چاہئے ۔
ملاقات یا گھر یا مجلس میں آنے کے لئے اجازت کی ضرورت
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جو شخص اجازت لینے سے پہلے سلام نہ کرے اس کو اجازت نہ دو ۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح مطلب یہ ہے کہ اجازت لینیے کا اسلامی طریقہ یہ ہے کہ پہلے السلام علیکم کہے ، اس کے بعد کہے کیا میں آ سکتا ہوں ، اگر کوئی آدمی بغیر سلام کے اجازت چاہے تو اس کو اجازت نہ دو ۔ بلکہ اس کو بتا دو کہ پہلے السلام علیکم کا دعائیہ کلمہ کہہ کے (جو اسلامی شعار بھی ہے) اسلامی اخوت اور للہی رشتہ کا اظہار کرے ، اس کے بعد اجازت طلب کرے ۔ جب وہ اس طریقہ پر اجازت طلب کرے تو اس کو اجازت دے دو ۔
ملاقات یا گھر یا مجلس میں آنے کے لئے اجازت کی ضرورت
ربعی بن خراش (تابعی) روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے حاضری کی اجازت چاہی اور عرض کیا “أَأَلِجُ” (کیا میں اندر آ سکتا ہوں ؟) رسول اللہ ﷺ نے اپنے خدم سے فرمایا کہ اس شخص کے پاس جاؤ اور اسے اجازت طلب کرنے کا طریقہ بتاؤ اس سے کہو کہ وہ یوں کہے “السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، أَأَدْخُلُ؟” اس شخص نے آپ ﷺ کی بات خود سن لی اور عرض کیا “السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، أَأَدْخُلُ؟” تو آپ ﷺ نے آنے کی اجازت دے دی اور وہ آپ ﷺ کے پاس حاضر ہو گیا ۔ (سنن ابی داؤد)
ملاقات یا گھر یا مجلس میں آنے کے لئے اجازت کی ضرورت
حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے فرزند قیس بن سعد (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (ایک دن) ہمارے گھر پہ تشریف لائے اور آپ ﷺ نے (قاعدے کے مطابق باہر سے) “السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ” تو میرے والد (سعد بن عبادہؓ) نے (بجائے اس کے کہ آپ ﷺ کے سلام کا آواز سے جواب دیتے اور اندر تشریف لے آنے کے لئے عرض کرتے) بہت خفی آواز سے (کہ حضور سُن نہ سکیں) صرف سلام کا جواب دیا ۔ تو میں نے کہا کہ آ پ حضور ﷺ سے اندر تشریف لانے کے لئے کیوں عرض نہیں کرتے ؟ میرے والد نے فرمایا کہ بولو مت ، ایسے ہی رہنے دو ، تا کہ آپ بار بار ہمارے لئے سلام فرمائیں (اور ہمیں اس کی برکتیں حاصل ہوں) تو رسول اللہ ﷺ نے دوبارہ ارشاد فرمایا “السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ” حضرت سعدؓ نے پھر اسی طرح چپکے سے سلام کا جواب دیا (جس کو حضور ﷺ نے نہیں سنا ۔ تو پھر (تیسری بار) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا “السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ” (اور جب اس کے بعد بھی حضرت سعدؓ کی طرف سے کوئی جواب آپ ﷺ نے نہیں سنا) تو آپ واپس لوٹنے لگے ۔ تو حضرت سعدؓ آپ ﷺ کے پیچھے آئے اور عرض کیا کہ : حضرت ! میں آپ کا سلام سنتا تھا اور (دانستہ) چپکے سے جواب دیتا تھا ، تا کہ آپ (ﷺ) بار بار ہمارے لئے سلام فرمائیں (اور ہمیں اس کی برکات حاصل ہوں) تو رسول اللہ ﷺ سعدؓ کے ساتھ ان ان کے گھر لوٹ آئے ۔ حضرت سعدؓ نے اپنے گھر والوں کو حکم دیا کہ حضور ﷺ کے غسل کا انتظام کیا جائے ۔ چنانچہ حضور ﷺ نے غسل فرمایا ۔ پھر حضرت سعدؓ نے حضور ﷺ کو ایک چادر دی (جو زعفران یا ورس سے رنگی ہوئی تھی) جسے آپ نے “اشمال” کے طریقے پر باندھ لیا ، پھر آپ ﷺ نے ہاتھ اٹھا کے اس طرح دعا فرمائی : اللَّهُمَّ اجْعَلْ صَلَوَاتِكَ وَرَحْمَتَكَ عَلَى آلِ سَعْد (اے میرے اللہ ! اپنی خاص نوازشیں اور رحمتیں نازل فرما سعد کے گھر والوں پر) اس کے بعد آپ ﷺ نے کچھ کھانا تناول فرمایا ۔ پھر جب آپ ﷺ نے واپسی کا ارادہ فرمایا تو میرے والد سعد بن عبادہ نے سواری کے لئے اپنا حمار پیش کیا ۔ جس کی کمر پر چادر کا گدا بنا کر رکھ دیا گیا تھا اور مجھ سے فرمایا کہ تم حضور ﷺ کے ساتھ جاؤ ، تو میں آپ ﷺ کے ساتھ ساتھ چلا ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ : تم بھی میرے ساتھ سوار ہو جاؤ ۔ میں نے معذرت کر دی اور سوار نہیں ہوا ، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ : یا تو میرے ساتھ تم بھی سوار ہو جاؤ یا پھر واپس چلے جاؤ (یعنی مجھے یہ گوارا نہیں کہ میں سوار ہو کر چلو اور تم ساتھ ساتھ پیدل چلو ، واقعہ کے راوی قیس بن سعد کہتے ہیں کہ جب حضور ﷺ نے یہ فرمایا تو میں واپس لوٹ آیا ۔ تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب کسی کے ہاں ملاقات کے لئے جائے تو پہلے “السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ” کہہ کے اندر آنے کی اجازت چاہے ۔ اور جب کوئی جواب نہ ملے تو دوسری دفعہ اور پھر جواب نہ ملے تو تیسری دفعہ “السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ” کہہ کے اجازت مانگے ، اور بالفرض اگر تیسری دفعہ بھی جواب نہ ملے تو پھر واپس ہو جائے ۔ حضرت سعد بن عبادہ نے حضور ﷺ کے بار بار سلام اور اس کی برکات حاصل کرنے کے لئے جو رویہ اختیار کیا (جس کی وجہ سے حضور ﷺ کو تین دفعہ سلام کرنا اور اس کے بعد واپسی کا ارادہ کر لینا پڑا) بظاہر ایک نامناسب بات تھی ، لیکن ان کی نیت اور جذبہ بہت مبارک تھا ، اور حضور ﷺ کی مزاج شناسی کی بناء پر انہیں یقین تھا کہ آپ ﷺ اس سے ناراض نہ ہوں گے ۔ اس لئے انہوں نے یہ جرأت کی ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ، اور حضور ﷺ نے کسی گرانی کا اظہار نہیں فرمایا ، بلکہ ان کے جذبہ اور نیت کی قدر فرمائی ، جیسا کہ آپ ﷺ کی دعا سے ظاہر ہے ۔ اس روایت میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ حضور ﷺ نے غسل فرمانے کے بعد ایک ایسی چادر لپیٹ لی جو زعفران یا ورس سے رنگی ہوئی تھی ۔ حالانکہ دوسری بعض حدیثوں میں اس کی سخت ممانعت وارد ہوئی ہے کہ کوئی مرد زعفران یا ورس سے رنگا ہوا کپڑا پہنے (ورس بھی زعفران ہی کی طرح ایک نبات ہے جو رنگ دار بھی ہوتی ہے اور خوشبودار بھی) اب یا تو یہ سمجھا جائے کہ یہ واقعہ جو زیر تشریح حدیث میں ذکر کیا گیا ہے اس ابتدائی زمانہ کا ہے جب کہ مردوں کے لئے زعفران وغیرہ سے رنگے ہوئے کپڑوں کی ممانعت کا حکم نہیں آیا تھا ، یا یہ کہا جائے کہ جو چادر حضور ﷺ نے استعمال فرمائی وہ کبھی پہلے رنگی گئی تھی لیکن بعد میں اچھی طرح دھو دی گئی تھی ، اور ایسی صورت میں اس کا استعمال مردوں کے لئے بھی جائز ہے ۔ واللہ اعلم ۔
ملاقات کو آنے والے کا حق ہے کہ اس کو پاس بٹھایا جائے
واثلہ بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے ، ایک شخص آپ ﷺ کے پاس آئے تو آپ ﷺ ان کے لئے اپنی جگہ سے کھسک گئے ۔ انہوں نے عرض کیا کہ حضرت (اپنی جگہ تشریف رکھیں) جگہ میں کافی گنجائش ہے (مطلب یہ تھا کہ میرے لئے اپنی جگہ سے ہٹنے کی حضرت زحمت نہ فرمائیں) حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : مسلم کا یہ حق ہے کہ جب کوئی بھائی اس کو (اپنے پاس آتا) دیکھے تو اس کے لئے اپنی جگہ سے کچھ ہٹے (اور اپنے قریب بٹھائے) ۔ تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی بڑے سے بڑے کے پاس بھی کوئی مسلم آئے تو اس کو بھی اس کے ساتھ اکرام کا یہی برتاؤ کرنا چاہئے ، اس میں رسول اللہ ﷺ سے قرب و جان نشینی کی نسبت رکھنے والے بزرگوں کے لئے خاص سبق ہے ۔
مجلس سے کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ نہ بیٹھنا چاہئے
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی آدمی ایسا نہ کرے (یعنی کسی کو اس کا حق نہیں ہے) کہ کسی دوسرے کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود اس جگہ بیٹھ جائے ، بلکہ لوگوں کو چاہئے کہ (آنے والوں کے لئے) کشادگی اور گنجائش پیدا کریں (اور ان کو جگہ دے دیں) (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں اس بات سے ممانعت فرمائی گئی ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود اس جگہ بیٹھ جائے لیکن اگر خود بیٹھنے والا ایثار کر کے کسی کے لئے اپنی جگہ خالی کر دے تو اپنی نیت کے مطابق وہ اجر کا مستحق ہو گا ۔
مجلس سے کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ نہ بیٹھنا چاہئے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جو شخص اپنی جگہ سے (کسی ضرورت سے) اٹھا اور پھر واپس آ گیا تو اس جگہ کا وہی شخص زیادہ حق دار ہے ۔ (صحیح مسلم)
مجلس میں دو آدمیوں کے بیچ میں ان کی اجازت کے بغیر بیٹھنا چاہئے
عمرو بن شعیب اپنے والد شعیب سے اور وہ اپنے دادا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : دو آدمیوں کے بیچ میں ان کی اجازت کے بغیر نہ بیٹھو ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح یہی حدیث حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے سنن ابی داؤد ہی میں اور اس کے علاوہ جامع ترمذی میں بھی ایک دوسرے طریقے سے ان الفاظ میں روایت کی گئی ہے : “لَا يَحِلُّ لِرَجُلٍ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنَ اثْنَيْنِ إِلَّا بِإِذْنِهِمَا” (کسی کے لئے یہ بات جائز نہیں کہ (قریب قریب بیٹھے ہوئے) دو آدمیوں کے درمیان ان کی اجازت کے بغیر بیٹھ کر انہیں ایک دوسرے سے الگ کر دے) سبحان اللہ العظیم ! رسول اللہ ﷺ کی ان تعلیمات و ہدایات میں لطیف انسانی جذبات اور نازک احساسات کا کتنا لحاظ فرمایا گیا ہے ۔
اپنی تعظیم کے لئے بندگانِ خدا کا کھڑا ہونا جسے اچھا لگے وہ جہنمی ہے
حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس آدمی کو اس بات سے خوشی ہو کہ لوگ اس کی تعظیم میں کھڑے رہیں ، اسے چاہئے کہ وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد) تشریح ظاہر ہے کہ اس وعید کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ کوئی آدمی خود یہ چاہے اور اسی سے خوش ہو کہ اللہ کے بندے اس کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوں اور یہ تکبر کی نشانی ہے ، اور تکبر والوں کی جگہ جہنم ہے ، جس کے حق میں فرمایا گیا ہے : “بِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ” (وہ دوزخ متکبرین کا برا ٹھکانہ ہے) لیکن اگر کوئی آدمی خود بالکل نہ چاہے مگر دوسرے لوگ اکرام اور عقیدت و محبت کے جذبہ میں اس کے لئے کھڑے ہو جائیں تو یہ بالکل دوسری بات ہے ۔ اگرچہ رسول اللہ ﷺ اپنے لئے اس کو بھی پسند نہیں فرماتے تھے ۔
رسول اللہ ﷺ اپنے لئے تعظیمی قیام کو ناپسند فرماتے تھے
حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ عصا کا سہارا لیتے ہوئے باہر تشریف لائے تو ہم کھڑے ہو گئے ، آپ ﷺ نے فرمایا : تم اس طرح مت کھڑے ہو جس طرح عجمی لوگ ایک دوسرے کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاے ہیں ۔ (سنن ابی داؤد)
رسول اللہ ﷺ اپنے لئے تعظیمی قیام کو ناپسند فرماتے تھے
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کے لئے کوئی شخصیت بھی رسول اللہ ﷺ سے زیادہ محبوب نہیں تھی اس کے باوجود ان کا طریقہ یہ تھا کہ وہ حضور ﷺ کو دیکھ کر کھڑے نہ ہوتے تھے ، کیوں کہ جانتے تھے کہ یہ آپ ﷺ کو ناپسند ہے ۔ (جامع ترمذی)
صاحب ِ مجلس کے اُٹھنے پر اہلِ مجلس کا کھڑا ہو جانا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے ساتھ مسجد میں تشریف فرما تھے اور ہم سے باتیں فرماتے تھے ، پھر جب آپ (گھر تشریف لے جانے کے لئے مجلس سے) اٹھتے تو ہم سب لوگ بھی کھڑے ہو جاتے ، اور اس وقت تک کھڑے رہتے جب کہ ہم دیکھ لیتے کہ ازواجِ مطہرات کے گھروں میں سے کسی گھر میں آپ ﷺ داخل ہو گئے ۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح صحابہ کرام کو اس طریقہ عمل سے رسول اللہ ﷺ کا منع نہ فرمانا اس کی دلیل ہے کہ اس کو آپ ﷺ نے گوارا فرمایا ، حالانکہ ابھی م علوم ہو چکا ہے کہ مجلس میں تشریف آوری کے وقت لوگوں کے کھڑے ہونے کو آپ ﷺ ناپسند فرماتے تھے ۔ اس عاجز کے نزدیک ان دونوں صورتوں میں فرق یہ ہے کہ مجلس میں تشریف آوری کے وقت اہلِ مجلس کا کھڑا ہونا صرف تعظیم ہی کے لئے ہوتا تھا جو آپ کے لئے گرانی کا باعث ہوتا تھا ، اور مجلس سے حضور ﷺ کے اُٹھ جانے کے وقت کھڑا ہونا مجلس کے برخواست ہو جانے کی وجہ سے بھی ہوتا تھا ، اس کے بعد خود اہلِ مجلس بھی اپنے اپنے ٹھکانوں پر جانے والے ہوتے تھے ، اس لئے کھڑے ہونے کو حضور ﷺ گوارا فرما لیتے تھے ۔ واللہ اعلم ۔
لیٹنے ، سونے اور بیٹھنے کے بارے میں حضور ﷺ کی ہدایات اور آپ ﷺ کا طریقہ: سپاٹ چھت پر سونے کی ممانعت
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو ایسی چھت پر پر سونے سے منع فرمایا ، جو (دیواروں یا منڈیروں سے) گھیری نہ گئی ہو ۔ (جامع ترمذی) تشریح رسول اللہ ﷺ نے لیٹنے ، سونے اور بیٹھنے کے بارے میں بھی امت کو ہدایات دی ہیں ، اور اپنے طرزِ عمل سے بھی رہنمائی فرمائی ہے ۔ ذیل میں اس سلسلہ کی چند احادیث پڑھئے اور آپ ﷺ کی تعلیم و ہدایت کی جامعیت کا اندازہ کیجئے ۔ تشریح .....ظاہر ہے کہ جو چھت دیواروں یا منڈیروں سے گھیری نہ گئی ہو اس پر سونے سے اس کا اندیشہ ہے کہ آدمی نیند کی غفلت میں چھت سے نیچے گر جائے ۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے ۔
لیٹنے ، سونے اور بیٹھنے کے بارے میں حضور ﷺ کی ہدایات اور آپ ﷺ کا طریقہ: سپاٹ چھت پر سونے کی ممانعت
علی بن شیبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جو شخص کسی گھر کی ایسی چھت پر سوئے جس پر پردہ اور رکاوٹ کی دیوار نہ ہو تو اس کی ذمہ داری ختم ہو گئی ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح یہ دراصل ممانعت کا ایک بلیغ انداز ہے ، اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کی حفاظت کے جو غیبی انتظامات ہیں ، جن کا اشارہ قرآن مجید میں بھی کیا گیا ہے (قُلْ مَن يَكْلَؤُكُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ الآية) تو اگر کوئی آدمی جان بوجھ کر ایسی چھت پر سوتا ہے جس کے گرد رکاوٹ کے لئے کوئی دیوار یا منڈیر نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ کے اس حفاظتی انتظام کا استحقاق کھو دیتا ہے اور ملائکہ محافظین کی کوئی ذمہ داری نہیں رہتی اور اگر خدانخواستہ وہ گر کے ہلاک ہو جاتا ہے یا اس کو سخت جسمانی صدمہ پہنچ جاتا ہے تو کسی دوسرے پر اس کی ذمہ داری نہیں وہ خود ہی ذمہ دار ہے ۔
کھڑی ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر لیٹنے کی ممانعت اور اس کی وجہ
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ آدمی چت لیٹنے کی حالت میں اپنی ایک ٹانگ اٹھا کے دوسری ٹانگ پر رکھے ۔ (صحیح مسلم) تشریح حضور ﷺ کے زمانہ میں عربوں میں عام طور سے تہبند باندھنے کا رواج تھا اور ظاہر ہے کہ اگر تہبند باند کے اس طرح چ ت لیٹا جائے کہ اپنا ایک زانو کھڑا کر کے دوسرا پاؤں اس کے اوپر رکھا جائے تو بسا اوقات ستر کھل جائے گا ۔ غالباً اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے اس طرح لیٹنے سے منع فرمایا ۔ لیکن اگر لباس ایسا ہو کہ اس طرح لیٹنے سے ستر کھل جانے کا اندیشہ نہ ہو تو ظاہر یہی ہے کہ اس کی ممانعت نہ ہو گی ۔ واللہ اعلم ۔
پیٹ کے بل اوندھے لیٹنے کی ممانعت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو پیٹ کے بل اوندھا لیٹا ہوا دیکھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ لیٹنے کا یہ طریقہ اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے ۔ (جامع ترمذی) تشریح ظاہر ہے کہ یہ لیٹنے کا غیر فطری اور غیر مہذب طریقہ ہے اسی لئے اس کوناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے ایک دوسری حدیث میں اس کو دوزخیوں کا طریقہ بھی فرمایا گیا ہے ۔
پیٹ کے بل اوندھے لیٹنے کی ممانعت
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس سے گزرے اور میں پیٹ کے بل لیٹا ہوا تھا تو آپ ﷺ نے اپنے قدم مبارک سے مجھے ہلایا اور فرمایا : اے جندب ! یہ دوزخیوں کے لیٹنے کا طریقہ ہے ۔ (سنن ابن ماجہ) تشریح کسی عمل یا کسی عادت کی قباحت یا شناخت اہل ایمان کے دلوں پر بٹھانے کے لئے یہ نہایت موثر طریقہ ہے کہ ان کو بتایا جائے کہ یہ دوزخیوں کا طریقہ یا ان کی عادت ہے ۔ جندت حضرت ابو ذرغفاری رضی اللہ عنہ کا اصل نام ہے ۔ حضور ﷺ نے اس تعلیم و ہدایت کے وقت ان کو اسی نام سے یاد فرمایا ۔
خود آنحضرتﷺ کس طرح لیٹتے تھے
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول اور دستور تھا کہ (سفر میں) جب آپ ﷺ رات میں پڑاؤ کرتے تو داہنی کروٹ پر آرام فرماتے اور جب صبح سے کچھ پہلے پڑاؤ کرتے تو اپنی کلائی کھڑی کر لیتے اور سر مبارک اپنی ہتھیلی پر رکھ کر کچھ آرام لے لیتے ۔ (شرح السنہ للبغوی) تشریح اہلِ عرب عام طور سے رات کے ٹھنڈے وقت میں سفر کرتے تھے ، پھر اگر سفر سویرے سرِ شام شروع کرتے تو کسی مناسب جگہ ایسے وقت آرام کے لئے اتر جاتے اور پڑاؤ کرتے کہ رات کا کافی حصہ باقی ہوتا تھا اور سونے کا کافی موقع مل جاتا تھا ۔ اور اگر سفر دیر رات سے شروع کرتے تو آرام کے لئے صبح سے کچھ پہلے اتر جاتے تھے ۔ حضرت ابو قتادہؓ کی اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ حضور ﷺ جب ایسے وقت اترتے اور پڑاؤ کرتے کہ رات کافی باقی ہوتی تو آپ ﷺ سونے کے لئے اطمینان سے داہنی کروٹ پر لیٹ جاتے جیسا کہ سونے میں آپ ﷺ کا ہمیشہ معمول تھا ۔ اور جب آپ ﷺ رات کے بالکل آخری حصہ میں اترتے کہ فجر کا وقت ہوتا تو آپ اپنی کہنی ٹیک کے اور کلائی کھڑی کر کے ہتھیلی پر سر مبارک رکھ کر لیٹ جاتے تھے ، اور اس طرح گویا نمازِ فجر کا انتظار فرماتے تھے ۔ اس قسم کی احادیث سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ صحابہ کرامؓ نے رسول اللہ ﷺ کے لیٹنے اور سونے تک کی ہستیوں کو بھی کتنے اہتمام سے محفوظ رکھ کر امت کو پہنچایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس فکر و کاوش کا ان کو بہتر سے بہتر صلہ پوری امت کی طرف سے عطا فرمائے اور ہم کو اتباع اور پیروی کی توفیق دے ۔
خود آنحضرتﷺ کس طرح لیٹتے تھے
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا جب آپ ﷺ رات کو بستر پر لیٹتے تو اپنا ہاتھ رخسار مبارک کے نیچے رکھ لیتے اور اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کرتے “اللَّهُمَّ بِاسْمِكَ أَمُوتُ وَأَحْيَا” (اے اللہ ! میں تیرے ہی نام کے ساتھ مرنا چاہتا ہوں ، اور تیرے ہی نام کے ساتھ جیسا چاہتا ہوں) اور پھر جب آپ ﷺ بیدار ہوتے تو اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کرتے “الحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَحْيَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُورُ” (ساری حمد و ستائش اس اللہ کے لئے جس نے ہمیں (ایک طرح کی) موت دینے کے بعد جِلا دیا ، اور مرنے کے بعد اسی کی طرف ہمارا اُٹھنا ہو گا) ۔ (صحیح بخاری) تشریح دوسری روایتوں میں یہ بھی مذکور ہے کہ آپ ﷺ داہنی کروٹ پر داہنا ہاتھ رخسار مبارک کے نیچے رکھ کر لیٹتے رھے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین فرماتے تھے ۔ علاوہ ازیں اس حدیث میں سونے کے لئے لیٹنے کے وقت اور پھر جاگتے وقت کی جس مختصر دعا کا ذکر ہے دوسری حدیثوں میں اس کے علاوہ بھی متعدد دعائیں ان دونوں موقعوں کے لئے روایت کی گئی ہیں ۔ یہ سب حدیثیں اس سلسلہ معارف الحدیث کی پانچویں جلد میں “زیر عنوان” سونے کے وقت کی دعائیں درج کی جا چکی ہیں ۔
سو کے اٹھ کر مسواک کا اہتمام
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ سونے کا ارادہ کرتے تو مسواک اپنے سرہانے رکھ لیتے ، پھر جب بیدار ہوتے تو سب سے پہلے مسواک کرتے ۔ (مسند احمد ، مستدرک حاکم)
سو کے اٹھ کر مسواک کا اہتمام
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات میں یا دن میں جب بھی سوتے تو اُٹھ کر مسواک ضرور کرتے ۔ (سنن ابی داؤد)
حضور ﷺ کس طرح بیٹھتے تھے اور کس طرح بیٹھنے کی ہدایت فرماتے تھے
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، بیان رماتے ہیں کہ : میں نے رسول اللہ ﷺ کو بیت اللہ کے صحن میں احتبا کے طور پر (یعنی گوٹ مارے)بیٹھا دیکھا ہے ۔ (صحیح بخاری) تشریح احتبا بیٹھنے کا ایک خاص طریقہ ہے ، اس کی صورت یہ ہے کہ دونوں سرینیں اور دونوں پاؤں کے تلوے زمین پر ہوں اور دونوں زانوں کھڑ ہوں اور ان کو دونوں ہاتھوں کے حلقہ میں لے لیا جائے ، یہ اہل تفکر اور اصحاب مسکنت کے بیٹھنے کا طریقہ ہے ، اس کو ہندی میں گوٹ مار کے بیٹھنا بھی کہتے ہیں ۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ اکثر اس طرح بیٹھتے تھے ۔
حضور ﷺ کس طرح بیٹھتے تھے اور کس طرح بیٹھنے کی ہدایت فرماتے تھے
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ کا یہ معمول تھا کہ فجر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ ﷺ اپنی اسی جگہ میں چہار زانو بیٹھے رہتے تھے ، یہاں تک کہ آفتاب اچھی طرح نکل ا ٓتا تھا ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ احتبا کی شکل ک علاوہ چہار زانو بھی بیٹھتے تھے ۔ اور حدیث کے راوی جابر بن سمرہ کے بیان کے مطابق فجر کی نماز کے بعد سے طلوع آفتاب کے بعد تک (گویا اشراق تک) حضور ﷺ مسجد شریف میں اپنی جگہ پر چہار زانو ہی بیٹھے رہتے تھے ۔
مجلس میں آنے والے کو چاہئے کہ مجلس کے کنارے ہی بیٹھ جائے
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگوں کا (یعنی صحابہ کا)یہ طریقہ اور دستور تھا کہ جب ہم میں سے کوئی حضور ﷺ کی مجلس میں آتا تو (حاضرین مجلس کے درمیان سے گزر کے آگے جانے کی کوشش نہیں کرتا تھا بلکہ) کنارے ہی بیٹھ جایا کرتا تھے ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح اصولِ حدیث میں یہ بات مسلم اور مقرر ہو چکی ہے کہ کسی صحابی کا یہ بیان کرنا کہ حضور ﷺ کے زمانہ میں آپ ﷺ کے صحابہؓ ایسا کیا کرتے تھے اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کا وہ عمل آپ ﷺ کی مرضی کے مطابق اور آپ ﷺ ہی کی تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھا ۔ اس بناء پر اس حدیث کا مطلب اور مدعا یہ ہو گا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں یہ ادب سکھایا تھا کہ جب مجلس قائم ہو اور کوئی آدمی بعد میں آئے تو وہ مجلس کے کنارے پر جہاں جگہ پائے وہاں بیٹھ جائے ۔ ہاں صاحبِ مجلس کو حق ہے کہ کسی خصوصیت یا کسی مصلحت کے پیش نظر اس کو آگے بلا لے ۔
حلقہ کے بیچ میں آ کر بیٹھ جانا سخت ممنوع ہے
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت محمد ﷺ کی زبان مبارک نے اس شخص کو قابل لعنت قرار دیا ہے جو بیچ حلقہ میں بیٹھ جائے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد) تشریح شارحین نے اس حدیث کی کئی توجیہیں کی ہیں : ایک یہ کہ اللہ کے بندے حلقہ بنائے بیٹھے ہیں ، ایک متکبر یا بےتمیز اور ادب سے ناآشنا آدمی لوگوں کے اوپر سے پھلانگ کے حلقہ کے بیچ میں آ کر بیٹھ جاتا ہے بلا شبہ یہ سخت مجرمانہ حرکت ہے ، اور ایسا آدمی لوگوں کی لعنت کا مستحق ہے ۔ دوسری توجیہ یہ کی گئی ہے کہ اللہ کے کچھ بندے حلقہ بنائے بیٹھے ہیں اور ہر ایک کا دوسرے سے مواجہہ یعنی آمنا سامنا ہے ، ایک آدمی آ کر اس طرھ حلقہ کے بیچ میں بیٹھ جاتا ہے کہ بعض لوگوں کا مواجہہ باقی نہیں رہتا ظاہر ہے کہ یہ بھی بہت بےہودہ حرکت ہے ۔ تیسری توجیہ یہ کی گئی ہے کہ اس سے وہ مسخرے مراد ہیں جو لوگوں کے بیچ میں ان کو ہنسانے کے لئے بیٹھ جاتے ہیں اور یہی ان کا مشغلہ ہوتا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
متفرق ہو کر بیٹھنے کی ممانعت
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور صحابہ متفرق الگ الگ (ٹکڑیاں بنائے) بیٹھتے تھے ، تو آپ ﷺ نے فرمایا : مجھے کیا ہو گیا ہےکہ میں تمہیں الگ الگ بیٹھے دیکھ رہا ہوں ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح کسی چیز پر اظہار ناراضی کا یہ ایک خاص انداز ہے کہ کہا جائے “میری آنکھیں یہ کیا دیکھ رہی ہیں” یعنی جو کچھ دیکھنے میں آ رہا ہے وہ نہیں ہونا چاہئے اور نظر نہ آنا چاہئے ۔ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو دیکھا کہ وہ الگ الگ ٹکڑیوں کی شکل میں بیٹھے ہوئے ہیں ۔ اس پر آپ ﷺ نے حیرت کا اظہار فرما کر تنبیہ فرمائی اور بتایا کہ بجائے اس طرح الگ الگ بیٹھنے کے سب مل کر قرینے سے بیٹھو ۔ بعض دوسری حدیثوں میں اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اس سے ظاہری تفرق اور تشتت کا اثر دلوں میں پڑتا ہے اور مل کر ساتھ بیٹھنے سے قلوب میں جوڑ اور توافق پیدا ہوتا ہے ۔
اس طرح نہ بیٹھا جائے کہ جسم کا کچھ حصہ دھوپ میں ہو اورکچھ سائے میں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی سایہ کی جگہ میں بیٹھا ہو پھر اس پر سے سایہ ہٹ جائے اور پھر اس کے جسم کا کچھ حصہ دھوپ میں اور کچھ سائے میں ہو جائے تو اس چاہئے کہ وہ اس جگہ سے اُٹھ جائے ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح ماہرین نے بتایا ہے کہ اس طرح بیٹھنا یا لیٹنا کہ جسم کا کچھ حصہ دھوپ میں اور کچھ سایہ میں ہو طبی لحاظ سے مضر ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ ممانعت غالبا اسی لئے فرمائی ہو گی ۔ واللہ اعلم ۔
مجلس میں گفتگو ، ہنسی و مزاح ، چھینک اور جمائی وغیرہ کے بارے میں ہدایات: بےضرورت بات کو لمبا نہ کیا جائے
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن جب کہ ایک شخص نے (ان کی موجودگی میں) کھڑے ہو کر (وعظ و تقریر کے طور پر) بات کی اور بہت لمبی بات کی ، تو آپ نے فرمایا کہ : اگر یہ شخص مختصر بات کرتا تو اس کے لئے زیادہ بہتر ہوتا ۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : میں یہ مناسب سمجھتا ہوں ۔ یا آپ ﷺ نے فرمایا کہ : مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم ہے “بات کرنے میں اختصار سے کوم لوں کیوں کہ بات میں اختصار ہی بہتر ہوتا ہے” ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح رسول اللہ ﷺنے امت کو اس بارے میں واضح ہدایات دی ہیں کہ بات چیت میں کن باتوں کا لحاظ رکھا جائے ، اور ظرافت و مزاح اور کسی بات پر ہنسنے یا چھینک اور جمائی آنے کے جیسے موقعوں پر کیا رویہ اختیار کیا جائے ۔ اس سلسلہ کی آپ ﷺ کی ہدایات و تعلیمات کی روح یہ ہے کہ بندہ اپنے فطری اور معاشرتی تقاضوں و وقار اور خوبصورتی کے ساتھ پورا کرے لیکن ہر حال میں اللہ کو اور اس کے ساتھ اپنی بندگی کی نسبت کو اور اس کے احکام اور اپنے عمل اور رویہ کے اُخروی انجام کو پیش نظر رکھے ۔ زبان کے استعمال اور بات چیت کے بارے میں آنحضرتﷺ کے ارشادات کا کافی حصہ اسی سلسلہ معارف الحدیث کی دوسری جلد (کتاب الاخلاق) میں درج ہو چکا ہے ۔ سچ اور جھوٹ ، شیریں کلامی اور بدزبانی ، چغل خوری و عیب جوئی یا وہ گوئی ، غیبت اور بہتان وغیرہ کے متعلق احادیث وہاں گزر چکی ہیں ، اس لئے گفتگو اور زبان کے استعمال کے سلسلہ میں چند باقی مضامین کی حدیثیں ہی یہاں درج کی جا رہی ہیں ۔ تشریح .....تجربہ شاہد ہے کہ بہت لمبی بات سے سننے والے اکتا جاتے ہیں اور دیکھا ہے کہ بعض اوقات کسی تقریر یا وعظ سے سامعین شروع میں بہت اچھا تاثر لیتے ہیں لیکن جب بات حد سے زیادہ لمنی ہو جاتی ہے تو لوگ اکتا جاتے ہیں ، اور وہ اثر بھی زائل ہو جاتا ہے ۔
منہ سے نکلنے والی کوئی بات وسیلہ فوز و فلاھ بھی ہو سکتی ہے اور موجب ہلاکت بھی
بلال بن الحارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : آدمی کی زبان سے کبھی خیر اور بھلائی کی کوئی ایسی بات نکل جاتی ہے جس کی پوری برکت اور قدر و قیمت وہ خود بھی نہیں جانتا ، مگر اللہ تعالیٰ اسی ایک بات کی وجہ سے اپنے حضور میں حاضری تک کے لئے اس بندہ کے واسطے اپنی رضا طے فرما دیتا ہے ۔ اور (اسی طرح) کبھی آدمی کی زبان سے شرج ، کی کوئی ایسی بات نکل جاتی ہے جس کی برائی اور خطرناکی کی حد وہ خود بھی نہیں جانتا مگر اللہ تعالیٰ اس بات کی وجہ سے اس آدمی پر آخرت کی پیشی تک کے لئے اپنی ناراضی اور اپنے غضب کا فیصلہ فرما دیتا ہے ۔ (شرح السنہ للبغوی) (اور ایسی ہی حدیث امام مالکؒ نے موطا میں اور امام ترمذیؒ نے اپنی جامع مین اور ابن ماجہ نے اپنی سنن میں روایت کی ہے) ۔ تشریح حدیث کا مقصد و مدعا یہ ہے کہ بندے کو چاہئے کہ اللہ اور آخرت کے انجام سے غافل و بےپروا ہو کر باتیں نہ کرے ، منہ سے نکلنے والی بات ایسی بھی ہو سکتی ہے جو بندے کو اللہ تعالیٰ کی خاص رضا و رحمت کا مستحق بنا دے ، اور (خدا پناہ میں رکھے) ایسی بھی ہو سکتی ہے جو اس کی رضا و رحمت الہی سے محروم کر کے جہنم میں پہنچا دے ۔ کسی کی تعریف کرنا دراصل اس کے حق میں ایک شہادت اور گواہی ہے جو بڑی ذمہ داری کی بات ہے اور اس سے اس کا بھی خطرہ ہے کہ اس آدمی میں اعجابِ نفس اور خود پسندی پیدا ہو جائے ، اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس بارے میں سخت احتیاط کی تاکید فرمائی ہے ۔ افسوس ہے کہ اس تعلیم و ہدایت سے فی زماننا ہمارے دینی حلقوں میں بھی بڑی بے پروائی برتی جا رہی ہے ۔ نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا
کسی کی تعریف کرنے میں بھی احتیاط سے کام لیا جائے
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایک صاحب نے ایک دوسرے صاحب کی تعریف کی (اور اس تعریف میں بےاحتیاطی کی) تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : تم نے اپنے اس بھائی کی (اس طرح تعریف کر کے) گردن کاٹ دی (یعنی ایسا کام کیا جس سے وہ ہلاک ہو جائے) یہ بات آپ ﷺ نے تین بار ارشاد فرمائی ۔ (س کے بعد فرمایا) تم میں سے (کسی بھائی کی) تعریف کرنا ضروری ہی سمجھے اور اس کو اس تعریف و مدح کا مستحق سمجھے تو یوں کہے کہ میں فلاں بھائی کے بارے میں ایسا گمان کرتا ہوں (اور میری اس کے بارے میں یہ رائے ہے) اور اس کا حساب کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے (جس کو حقیقت کا پورا علم ہے) اور ایسا نہ کرے کہ خدا پر کسی کی پاکیزگی کا حکم لگائے (یعنی کسی کے حق میں ایسی بات نہ کہے کہ وہ بلاشبہ اور یقینا عنداللہ پاک اور مقدس ہے ، کیوں کہ یہ خدا پر حکم لگانا ہے اور کسی بندہ کو اس کا حق نہیں ہے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
کسی کی تعریف کرنے میں بھی احتیاط سے کام لیا جائے
حضرت مقداد بن الاسود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم “مداحین” (بہت زیادہ تعریف کرنے والوں) کو دیکھو تو ان کے منہ پر خاک ڈال دو ۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں “مداحین” سے غالبا وہ لوگ مراد ہیں جو لوگوں کی خوشامد اور چاپلوسی کےلئے اور پیشہ وارانہ طور پر ان کی مبالغہ آمیز تعریفیں اور ان کی قصیدہ خوانی کیا کرتے ہیں ، اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ جب ایسے لوگوں سے سابقہ پڑے اور وہ تمہارے منہ پر تمہاری مبالغہ آمیز تعریفیں کریں تو ان کے منہ پر خاک ڈال دو ۔ اس کا مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اظہارِ ناراضگی کے طور پر ان کے منہ پر حقیقۃً خاک ڈال دو ۔ دوسرا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ انہیں کسی قسم کا انعام و اکرام کچھ نہ دو گویا “منہ پہ خاک ڈالنے” کا مطلب انہیں کچھ نہ دینا اور محروم و نامراد واپس کر دینا ہے اور بلاشبہ یہ بھی ایک محاورہ ہے ۔ تیسرا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ ان مداحین سے کہہ دو کہ تمہارے منہ میں خاک ! گویا یہ کہنا کہ منہ میں خاک ڈالنا ہے ۔ حدیث کے راوی حضرت مقداد بن الاسود سے مروی ہے کہ ایک دفعہ ایک آدمی نے ان کی موجودگی میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے ان کی تعرید کی تو انہوں نے اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے مٹی زمین سے اُٹھا کے اس شخص کے منہ پر پھینک ماری ۔ زمانہ مابعد کے بعض اکابر سے بھی اسی طرح کے واقعات مروی ہیں ۔ واضح رہے کہ اگر اچھی نیت اور کسی چینی مصلحت سے کسی بندہ خدا کی سچی تعریف اس کے سامنے یا اس کے پیچھے کی جائے اور اس کا خطرہ نہ ہو کہ وہ اعجاب نفس اور اپنے بارے میں کسی غلط قسم کی خوش فہمی میں مبتلا ہو جائے گا تو ایسی تعریف کی ممانعت نہیں ہے ۔ بلکہ ان شاء اللہ اچھی نیت کے مطابق وہ اس پر اجر و ثواب کا مستحق ہو گا ، خود رسول اللہ ﷺ نے بعض صحابہ کی اور بعض صحابہ کرام نے بعض دوسرے صحابیوں کی جو روح و تعریف کبھی کی ہے وہ اسی قبیل سے ہے ۔
شعر و سخن
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے شعر کے بارے میں ذکر آیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : شعر بھی کلام ہے ۔ اس میں جو اچھا ہے وہ اچھا ہے اور جو برا ہے وہ برا ہے ۔ (سنن دار قطنی) اور امام شافعی نے اسی حدیث کو حضرت عائشہ صدیقہؓ کے بھانجے حضرت عروہ سے مرسلا روایت کیا ہے ۔ تشریح واضح رہے کہ اگر اچھی نیت اور کسی چینی مصلحت سے کسی بندہ خدا کی سچی تعریف اس کے سامنے یا اس کے پیچھے کی جائے اور اس کا خطرہ نہ ہو کہ وہ اعجاب نفس اور اپنے بارے میں کسی غلط قسم کی خوش فہمی میں مبتلا ہو جائے گا تو ایسی تعریف کی ممانعت نہیں ہے ۔ بلکہ ان شاء اللہ اچھی نیت کے مطابق وہ اس پر اجر و ثواب کا مستحق ہو گا ، خود رسول اللہ ﷺ نے بعض صحابہ کی اور بعض صحابہ کرام نے بعض دوسرے صحابیوں کی جو روح و تعریف کبھی کی ہے وہ اسی قبیل سے ہے ۔ شعر و سخن اگرچہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں اور اس سے پہلے بھی شعر و شاعر ی عام تھی اور شاذ و نادر ہی ایسے لوگ تھے جو اس کا ذوق نہ رکھتے ہوں ، لیکن خود آنحضرتﷺ کو اس سے بالکل مناسبت نہ تھی ۔ بلکہ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ مشیت الٰہی نے خاص حکمت کے تحت آپ ﷺ کو اس سے بالکل محفوظ رکھا ۔ سورہ یٰسین شریف میں فرمایا گیا ہے : وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنبَغِي لَهُ (يسن 69:36) ہم نے اپنے نبی کو شعر و شاعری کا علم نہیں دیا اور وہ ان کے لئے مناسبت اور سزاوار نہیں تھا ۔ علاوہ ازیں جس قسم کی شعر و شاعری کا وہاں عام رواج تھا اور یہ شاعر جس سیرت و کردارکے ہوتے تھے قرآن مجید میں اس کی مذمت کی گئی ہے ۔ ارشاد فرمایا گیا ہے : وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَ ﴿٢٢٤﴾ أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَ ﴿٢٢٥﴾وَأَنَّهُمْ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ (الشعراء224:27-226) اور ان شاعروں کا حال یہ ہے کہ بےرا اور بدچلن لوگ ہی ان کی راہ چلتے ہیں ، کیا تم نے دیکھا کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے ہیں اور جو نہیں کرتے وہ کہتے ہیں ۔ بعض صحابہ نے شعر و شاعری کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ کیا وہ مطلقاً قابل مذمت ہے تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : ایسا نہیں ہے بلکہ اگر شعر کا مضمون اچھا ہے تو وہ اچھا ہے اور اگر برا ہے تو وہ برا ہے ۔ اور بعض موقعوں پر آپ ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ : بعض اشعار تو بڑے حکیمانہ ہوتے ہیں ۔اس سلسلہ کی چند حدیثیں ذیل میں پڑھئے :
شعر و سخن
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : بعض شعر (اپنے مضمون کے لحاظ سے) سراسر حکمت ہوتے ہیں ۔ (صحیح بخاری)
شعر و سخن
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے زیادہ سچی بات جو کسی شاعر نے کہی ہے وہ لبید بن ربیعہ شاعر کی یہ بات (یعنی یہ مصرع) ہے : “ أَلاَ كُلُّ شَيْءٍ مَا خَلاَ اللَّهَ بَاطِلٌ ” (آگاہی ہو کہ اللہ کے سوا ہر چیز فانی ہے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح یہ لبید زمانہ جاہلیت کا مشہور و مقبول شاعر تھا ، لیکن اس کی شاعری اس زمانہ میں بھی خداپرستانہ اور پاکیزہ تھی ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے مصرعہ “ أَلاَ كُلُّ شَيْءٍ مَا خَلاَ اللَّهَ بَاطِلٌ ” کو شعر کی دنیا کا سب سے سچا کلمہ اس لئے فرمایا کہ یہ قرآن مجید کے اس ارشاد کے بالکل ہم معنی ہے ۔ “كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ” اس کے ساتھ کا دوسرا مصرعہ یہ ہے “وَكُلُّ شَيْءٍ لَا مَحَالَةَ زَائِلُ” (یعنی یہاں کی ہر نعمت ایک دن ختم ہو جانے والی ہے) ، یہ شعر لبید کے جس قصیدہ کا ہے وہ انہوں نے اپنے دور جاہلیت ہی میں کہا تھا ، پھر اللہ تعالیٰ نے قبولِ اسلام کی توفیق عطا فرمائی ۔ روایات میں ہے کہ اسلام قبول کر لینے کے بعد شعر و شاعری کا مشغلہ بالکل چھوٹ گیا اور کہا کرتے تھے کہ “يَكْفِيْنِى الْقُرْآنُ” (بس اب قرآن میرے لئے کافی ہے) اللہ تعالیٰ نے بہت طویل عمر بھی عطا فرمائی ۔ حافظ ابن حجر کے بیان کے مطابق حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں ۱۵۶ سال کی عمر میں وفات پائی (1) رضى الله عنه وارضاه۔
شعر و سخن
عمرو بن شرید اپنے والد شرید بن سوید ثقفی سے روایت کرتے ہیں کہ میں ایک دن (سفر میں) رسول اللہ ﷺ کے پیچھے آپ ﷺ ہی کی سواری پر سوار تھا ، آپ ﷺ نے مجھ سے ارشاد فرمایا کیا تمہیں امیۃ بن الصلت کے کچھ شعر بھی یاد ہیں ؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا سناؤ ! تو میں نے ایک بیت آپ ﷺ کو سنایا ، آپ ﷺ نے فرمایا اور سناؤ ، میں نے ایک اور بیت سنایا ، آپ ﷺ نے پھر فرمایا اور سناؤ ، تو میں نے سو بیت سنائے (اور ایک روایت میں یہ اضافہ ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ امیہ اپنے اشعار میں اسلام سے بہت قریب ہو گیا تھا) ۔ (صحیح مسلم) تشریح امیہ بن الصلت ثقفی بھی جاہلی شاعر تھا لیکن اس کی شاعری خدا پرستانہ تھی ، اسی لئے رسول اللہ ﷺ کو جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا اس کے اشعار سے دلچسپی تھی اور آپ ﷺ نے اس کے بارے میں فرمایا : “لَقَدْ كَادَ يُسْلِمُ فِىْ شَعْرِهِ” (جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی شاعری میں اسلام سے بہت قریب ہو گیا تھا) اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے ایک دفعہ امیہ بن الصلت کے اشعار سن کر فرمایا : “آمَنَ شِعْرُهُ وَكَفَرَ قَلْبُهُ” (اس کی شاعری مسلمان ہو گئی اور اس کا قلب کافر رہا) امیہ نے رسول اللہ ﷺ کا زمانہ پایا اور دین کی دعوت بھی پہنچی مگر ایمان کی توفیق نہیں ہوئی ۔
ظرافت و مزاح
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ نے حضور ﷺ عرض کیا کہ رسول اللہ آپ ہم سے مزاح فرماتے ہیں ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں (مزاح میں بھی) حق ہی کہتا ہوں (یعنی اس میں کوئی بات غلط اور باطل نہیں ہوتی) ۔ (جامع ترمذی)
ظرافت و مزاح
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے سواری کے لئے اونٹ مانگا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ، ہاں میں تم کو سواری کے لئے ایک اونٹنی کا بچہ دوں گا ، اس شخص نے عرض کیا کہ میں اونٹنی کے بچے کا کیا کروں گا ؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ : اونٹ اونٹنیوں ہی کے تو بچے ہوتے ہیں ۔ (یعنی ہر اونٹ کسی اونٹنی کا بچہ ہی تو ہے جو اونٹ بھی دیا جائے گا وہ اونٹنی کا بچہ ہی ہو گا) ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد) تشریح ظرافت ومزاح بھی انسانی زندگی کا ایک خوش کن عنصر ہے اور جس طرح اس کا حد سے متجاوز ہونا نازیبا اور مضر ہے اسی طرح آدمی کا اس سے بالکل خالی ہونا بھی ایک نقص ہے ۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اگر کسی بلند پایہ اور مقدس شخصیت کی طرف سے چھوٹی اور معمولی حیثیت کے کسی آدمی کے ساتھ لطیف ظرافت مزاح کا برتاؤ ہو تو وہ اس کے لئے ایسی مسرت اور عزت افزائی کا باعث ہوتا ہے جو کسی دوسرے طریقہ سے حاصل نہیں کی جا سکتی ۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ بھی کبھی کبھی اپنے جاں نثاروں اور نیاز مندوں سے مزاح فرماتے تھے اور یہ ان کے ساتھ آپ ﷺ کی نہایت لذت بخش شفقت ہوتی تھی ، لیکن آپ ﷺ کا مزاح بھی نہایت لطیف اور حکیمانہ ہوتا تھا ۔
ظرافت و مزاح
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک بوڑھی عورت سے فرمایا کہ: کوئی بڑھیا جنت میں نہیں جائے گی ۔ اس (بےچاری) نے عرض کیا کہ ان میں (یعنی بوڑھیوں میں) کیا ایسی بات ہے جس کی وجہ سے وہ جنت میں نہیں جا سکیں گی ؟ وہ بوڑھی قرآن خواں تھی ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم قرآن میں یہ آیت نہیں پڑھتی ہو “ إِنَّا أَنشَأْنَاهُنَّ إِنشَاءً ﴿٣٥﴾فَجَعَلْنَاهُنَّ أَبْكَارًا ” (جس کا مطلب یہ ہے کہ جنت کی عورتوں کی ہم نئے سرے سے نشوونما کریں گے اور ان کو نوخیز دوشیزائیں بنا دیں گے) ۔ (مسند زریں) تشریح حضرت انس رضی اللہ عنہ کی یہ دونوں حدیثیں رسول اللہ ﷺ کے لطیف مزاح کی مثالیں ہیں ۔ بعض حدیثوں میں مزاح کی ممانعت بھی وارد ہوئی ہے لیکن ان حدیثوں میں اس کا قرینہ موجود ہے اور رسول اللہ ﷺ کا جو اسوہ حسنہ اس بارے میں مندرجہ بالا حدیثوں سے معلوم ہواہے وہ بھی اس کا قرینہ بلکہ اس کی واضح دلیل ہے کہ ممانعت اسی مزاح کی فرمائی گئی ہے جو دوسرے آدمی کے لئے ناگواری اور اذیت کا باعث ہو ۔
ظرافت و مزاح
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : کہ اپنے بھائی سے جھگڑا ٹنٹا نہ کرو ، اور اس سے مزاح (یعنی مذاق) نہ کرو اور اس سے ایسا وعدہ نہ کرو جس کی تم وعدہ خلافی کرو ۔ (جامع ترمذی) تشریح جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ۔ اس حدیث میں مزاح کی ممانعت جس سیاق و سباق میں کی گئی ہے اس سے یہ صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ یہ اسی مزاح کی ممانعت ہے جو ناگوار اور اذیت کا باعث ہو ۔
ضحک و تبسم (ہنسنا اور مسکرانا)
حضرت جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب سے مجھے اسلام نصیب ہوا کبھی ایسا نہیں ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے (خدمت میں) حاضری سے روکا ہو ، اور جب بھی آپ ﷺ نے مجھے دیکھا تو آپ ﷺ نے تبسم فرمایا (یعنی ہمیشہ مسکرا کر ملے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح ہنسی کے موقع پر ہنسایا مسکرانا بھی انسانی فطرت کا تقاضا ہے اور اس میں قطعا کوئی خیر نہیں ہے کہ آدمی کے لبوں پر کبھی مسکراہٹ بھی نہ آئے اور وہ ہمیشہ “عَبُوسًا قَمْطَرِيرًا” ہی بنا رہے ۔ رسول اللہ ﷺ کی عادتِ شریفہ اللہ کے بندوں اور اپنے مخلصوں سے ہمیشہ مسکرا کر ملنے کی تھی ، ظاہر ہے کہ حضور ﷺ کا یہ رویہ اور برتاؤ ان لوگوں کے لئے کیسی قلبی روحانی مسرت کا باعث ہوتا ہو گا اور اس کی وجہ سے ان کے اخلاص و محبت میں کتنی ترقی ہوتی ہو گی ۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل حدیثیں پڑھئے : تشریح ..... “ مَا حَجَبَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ” کا مطلب بظاہر یہی ہے کہ جب کبھی میں نے حاضر خدمت ہونا چاہا تو آپ ﷺ نے اجازت عطا فرمائی اور شرف ملاقات بخشا ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ ﷺ نے منع فرمایا ہو ۔
ضحک و تبسم (ہنسنا اور مسکرانا)
عبداللہ بن الحارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ مسکرانے والا کوئی دوسرا نہیں دیکھا ۔ (جامع ترمذی)
ضحک و تبسم (ہنسنا اور مسکرانا)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، فرماتی ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کو پوری طرح (کھل کھلاتے) ہنستا ہوا نہیں دیکھا کہ آپ ﷺ کے دہن مبارک کا اندرونی حصہ نظر پڑ جاتا ۔ (یعنی آپ اس طرح کھل کھلا کر اور قہقہہ لگا کر کبھی نہیں ہنستے تھے کہ آپ ﷺ کے دہن مبارک کا اندرونی حصہ نظر آ سکتا) بس تبسم فرماتے تھے ۔ (صحیح بخاری) تشریح بعض روایات میں آنحضرت ﷺ کے ہنسنے کو “ضحک” سے بھی تعبیر کیا گیا ہے یعنی اس سے مراد وہی ہنسنا ہے جو آپ ﷺ کی عادت شریفہ تھی ، یعنی مسکرانا ، البتہ کبھی کبھی جب ہنسی کا غلبہ ہوتا تو آپ ﷺ اس طرح بھی مسکراتے تھے کہ دہن مبارک کسی قدر کھل جاتا تھا ، چنانچہ بعض روایات میں ہے “ضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ” (آپ کو ایسی ہنسی آئی کہ اندر کی داڑھیں بھی ظاہر ہو گئیں) ۔
ضحک و تبسم (ہنسنا اور مسکرانا)
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ فجر کی نماز جس جگہ پڑھتے تھے ، آفتاب طلوع ہونے تک وہاں سے نہیں اٹھتے تھے ، پھر جب آفتاب طلوع ہو جاتا تو کھڑے ہو جاتے ۔ اور (اس اثناء میں) آپ ﷺ کے صحابہ زمانہ جاہلیت کی باتیں (بھی) کیا کرتے اور اس سلسلے میں خوب ہنستے اور رسول اللہ ﷺ بس مسکراتے رہتے ۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام کبھی کبھی مسجد نبوی میں اور رسول اللہ ﷺ کی مجلس مبارک میں بھی زمانہ جاہلیت کی ایسی لغویات و خرافات کا بھی تذکرہ کیا کرتے تھے جن پر خوب ہنسی آتی تھی ۔ اور جامع ترمذی کی اسی حدیث کی روایت میں یہ الفاظ مزید ہیں ۔ “وَيَتَنَاشَدُوْنَ الشِّعْرَ” (یعنی اس سلسلہ گفتگو میں اشعار بھی پڑھے اور سنائے جاتے تھے) اور رسول اللہ ﷺ یہ سب کچھ سنتے اور اس پر تبسم فرماتے تھے ۔ ناچیز راقم السطور عرض کرتا ہے کہ اگر آنحضرتﷺ اپنے اصحاب کرام کے ساتھ اس طرح کی بےتکلفی کا برتاؤ نہ کرتے تو ان حضرات پر آپ ﷺ کا ایسا رعب چھایا رہتا جو استفادہ میں رکاوٹ بنتا ۔ حضرت مشائخ صوفیہ کی اصطلاح میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ حضور اقدس ﷺ کا نزول تھا ، اس کے بغیر مقصد رسالت کی تکمیل نہیں ہو سکتی تھی ۔ صحابہ کرام کے باہم ہنسنے ہنسانے کے اس تذکرہ کے ساتھ جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن عمر اور ایک بزرگ تابعی بلال بن سعد کے دو بیان پڑھ لینا بھی ان شاء اللہ موجب بصیرت ہو گا ۔ یہ دونوں بیان مشکوٰۃ المصابیح میں “شرح السنہ” کے حوالے سے نقل کئے گئے ہیں ۔ قتادہ تابعی نے بیان فرمایا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ کیا رسول اللہ ﷺ کے اصحاب ہنسا بھی کرتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا : نَعَمْ وَالإِيمَانُ فِي قُلُوبِهِمْ أَعْظَمُ مِنَ الْجَبَلِ. ہاں ۔ بےشک ! وہ حضرات (ہنسنے کے موقع پر) ہنستے بھی تھے لیکن اس وقت بھی ان کے قلوب میں ایمان پہاڑوں سے عظیم تر ہوتا تھا ۔ (یعنی ان کا ہنسنا غافلین کا سا ہنسنا نہیں ہوتا تھا جو قلوب کو مردہ کر دیتا ہے) اور بلال بن سعد کا بیان ہے : أَدْرَكْتُهُمْ يَشْتَدُّونَ بَيْنَ الأَغْرَاضِ، وَيَضْحَكُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، فَإِذَا كَانَ اللَّيْلُ، كَانُوا رُهْبَانًا میں نے صحابہ کرام کو دیکھا ہے وہ مقررہ نشانیوں کے درمیان دوڑا بھی کرتے تھے (جس طرح بچے اور نوجوان کھیل اور مشق کے لئے دوڑ میں مقابلہ کیا کرتے ہیں) اور باہم ہنستے ہنساتے بھی تھے ، پھر جب رات ہو جاتی تو بس درویش ہو جاتے ۔
چھینکنے اور جمائی لینے کے برے میں رسول اللہ ﷺ کی ہدایات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو اسے چاہئے کہ “ الحَمْدُ لِلَّهِ ” کہے ۔ اور اس کا جو بھائی (یا آپ ﷺ نے فرمایاکہ : اس کا جو ساتھی اس کے پاس) ہو وہ کہے “ يَرْحَمُكَ اللَّهُ ” (تم پر اللہ کی رحمت) اور جب یہ بھائی “يَرْحَمُكَ اللَّهُ” (کا دعائیہ کلمہ) کہے تو چاہئے کہ چھینکنے والا (اس کے جواب میں یہ دعائیہ کلمہ) کہے “يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ” (اللہ تعالیٰ تمہیں ہدایت سے نوازے اور تمہارے حالات درست فرمادے) ۔ (صحیح بخاری) تشریح چھینکنا اور جمائی لینا بھی انسانی فطرت کے لوازم میں سے ہے ، ان کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی چند حدیثیں ذیل میں پڑھئے : تشریح .....چھینک آنے کے ذریعہ ایسی رطوبت اور ایسے ابخرات دماغ سے نکل جاتے ہیں وہ اگر نہ نکلیں تو کسی تکلیف یا بیماری کا باعث بن جائیں اس لئے صحت و اعتدال کی حالت میں چھینک کا آنا گویا اللہ تعالیٰ کا ایک فضل ہے ۔ اس لئے ہدایت فرمائی گئی کہ جس کو چھینک آئے وہ “ الحَمْدُ لِلَّهِ ” کہے اور جو کوئی اس کے پاس ہو وہ کہے “يَرْحَمُكَ اللَّهُ” (یعنی یہ چھینک تمہارے لئے خیر و برکت کا ذریعہ بنے) اور پھر چھینکنے والا اس دعا دینے والے بھائی کو کہے “ يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ ” ذرا غور کیا جائے رسول اللہ ﷺ کی اس تعلیم و ہدایت نے ایک چھینک کو اللہ کی کتنی یاد اور کتنی رحمتوں کا وسیلہ بنا دیا ۔
چھینکنے اور جمائی لینے کے برے میں رسول اللہ ﷺ کی ہدایات
حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ فرماتے تھے کہ جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے اور وہ “الحَمْدُ لِلَّهِ” کہے تو تم کو چاہئے کہ اس کو “يَرْحَمُكَ اللَّهُ” کہہ کر دعا دو ، اور اگر وہ “الحَمْدُ لِلَّهِ” نہ کہے (اور خدا کو یاد نہ کرے) تو تم بھی “يَرْحَمُكَ اللَّهُ” نہ کہو ، (یعنی الحمدللہ نہ کہنے کی وجہ سے وہ تمہاری اس دعا رحمت کا حقدار نہیں رہا)
چھینکنے اور جمائی لینے کے برے میں رسول اللہ ﷺ کی ہدایات
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس (بیٹھے ہوئے) دو آدمیوں کو چھینک آئی تو آپ ﷺ نے ایک کو “يَرْحَمُكَ اللَّهُ” کہہ کر دعا دی اور دوسرے کو آپ ﷺ نے “يَرْحَمُكَ اللَّهُ” نہیں کہا تو اس دوسرے نے عرض کیا کہ حضرت آپ نے ان (بھائی) کو “يَرْحَمُكَ اللَّهُ” کہہ کے دعا دی اور مجھے یہ دعا نہیں دی ، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ : ان (بھائی) نے “الحَمْدُ لِلَّهِ” کہا تھا اور تم نے نہیں کہا (اس لئے خود تم نے “يَرْحَمُكَ اللَّهُ” کا حق کھو دیا) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
چھینکنے اور جمائی لینے کے برے میں رسول اللہ ﷺ کی ہدایات
حضرت سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے ایک شخص کو چھینک آئی تو آپ ﷺ نے “يَرْحَمُكَ اللهُ” کہہ کے ان کو دعا دی ، ان کو دوبارہ چھینک آئی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ : یہ زکام میں مبتلا ہیں ۔ (صحیح مسلم) (اور جامع ترمذی کی اسی حدیث کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے تیسری دفعہ چھینکنے پر یہ فرمایا تھا کہ ان کو زکام ہے) ۔ تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر نزلہ زکام کی وجہ سے کسی کو بار بار چھینک آئے تو اس صورت میں ہر دفعہ “ يَرْحَمُكَ اللهُ ” کہنا ضروری نہیں ۔ آگے درج ہونے والی حدیث میں اس بارے میں واضح ہدایت آ رہی ہے ۔
چھینکنے اور جمائی لینے کے برے میں رسول اللہ ﷺ کی ہدایات
عبید بن رفاعہ نے رسول اللہ ﷺسے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ : چھینکنے والے کو تین دفعہ تو “يَرْحَمُكَ اللهُ” کہو اور اس سے زیادہ چھینکیں آئیں تو اختیار ہے چاہے “يَرْحَمُكَ اللهُ” کہو ، چاہے نہ کہو ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی)
چھینکنے اور جمائی لینے کے برے میں رسول اللہ ﷺ کی ہدایات
حضرت نافع سے روایت ہے کہ ایک شخص کو جو حضرت عبداللہ بن عمر کے برابر میں بیٹھے تھے چھینک آئی تو انہوں نے کہا “الحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلاَمُ عَلَى رَسُولِ اللهِ” تو حضرت ابن عمر نے فرمایا کہ میں بھی کہتا ہوں “الحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلاَمُ عَلَى رَسُولِ اللهِ” (یعنی یہ کلمہ بجائے خود مبارک ہے اور میں بھی کہتا ہوں) لیکن (چھینکنے کے وقت) اس طرح نہیں کہا جاتا ، ہم کو رسول اللہ ﷺ نے تعلیم دی ہے کہ “الحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ” کہا کریں ۔ (جامع ترمذی) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چھینک آنے پر رسول اللہ ﷺ نے جس طرح “الحَمْدُ لِلَّهِ” تعلیم فرمایا ہے ، اسی طرح “الحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ” کی بھی تعلیم دی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر کے اس ارشاد سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ رسول اللہ ﷺ نے خاص موقعوں کے لئے ذکر یا دعا کے جو مخصوص کلمے تعلیم فرمائے ہیں اس میں اپنی طرف سے کوئی اضافہ نہ کرنا چاہئے اگرچہ معنوی حیثیت سے وہ اجافہ صحیح ہی کیوں نہ ہو ۔
چھینکنے اور جمائی لینے کے برے میں رسول اللہ ﷺ کی ہدایات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جب چھینک آتی تھی تو آپ ﷺ اپنے ہاتھ یا کپڑے سے چہرہ مبارک کو ڈھک لیتے تھے ، اور اس کی آواز کو دبا لیتے تھے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چھینک آنے کے وقت کے آداب میں یہ بھی ہے کہ اس وقت منہ پر ہاتھ یا کپڑا رکھ لیا جائے اور چھینک کی آواز کو بھی حتی الوسع دبا لیا جائے ۔
چھینکنے اور جمائی لینے کے برے میں رسول اللہ ﷺ کی ہدایات
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو چاہئے کہ وہ اپنا ہاتھ رکھ کے منہ بند کر لے ، کیوں کہ شیطان داخل ہو جاتا ہے ۔ (صحیح مسلم) تشریح واقعہ یہ ہے کہ جمائی لینے میں آدمی کا منہ بہت بدنما انداز میں کھل جاتا ہے اور ہاہا کی مکروہ آواز منہ سے نکلتی ہے اور چہرہ کی قدرتی شکل بدل کر ایک بدنما ہیئت ہو جاتی ہے ۔ ان چیزوں کے انسداد کے لئے رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں ہدایت فرمائی ہے کہ جب جمائی آئے تو ہاتھ سے منہ کو بند کر لینا چاہئے ۔ اس طرح کرنے سے منہ کھلے کا بھی نہیں اور وہ مکروہ آواز بھی پیدا نہیں ہو گی اور چہرہ کی ہیئت بھی زیادہ نہیں بگڑے گی ۔ حدیث کے آخر میں شیطان کے داخل ہونے کو جو ذکر فرمایا گیا ہے شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ اس سے اس کا حقیقی داخلہ بھی مراد ہو سکتا ہے (جس کی حقیقت ہم نہیں جاتے) اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ایسی حالت میں شیطان کو وسوسہ اندازی کا زیادہ موقع ملتا ہے ۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے اس کی شرح یہ کی ہے کہ جب جمائی لیتے وقت آدمی کا منہ پوری طرح کھل جاتا ہے تو شیطان کسی مکھی مچھر جیسی چیز کو اڑا کر اس کے منہ میں داخل کر دیتا ہے ۔ (1) واللہ اعلم ۔
کھانے پینے کے احکام و آداب
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اہل جاہلیت (یعنی اسلام سے پہلے عرب) کچھ چیزوں کو (طبعی خواہش اور رغبت کی بناء پر) کھاتے تھے اور کچھ چیزوں کو (طبعی نفرت اور گھن کی بنیاد پر) نہیں کھاتے تھے ، (اسی طرح ان کی زندگی چل رہی تھی) پھر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو نبی بنا کر مبعوث فرمایا اور اپنی مقدس کتاب نازل فرمائی اور جو چیزیں عنداللہ حلال تھیں ان کو حلال ہونا بیان فرمایا اور جو حرام تھیں ان کو حرام ہونا بیان فرمایا (پس جس چیز کو اللہ و رسول اللہ نے حلال بتلایا ہے وہ حلال ہے اور جس کو حرام بتایا ہے وہ حرام ہے) اور جس کے بارے میں سکوت فرمایا گیا ہے (یعنی اس کا حلال یا حرام ہونا بیان نہیں فرمایا گیا) وہ معاف ہے (یعنی اس کے استعمال پر مواخذہ نہیں) اس کے بعد حضرت عبداللہ بن عباس نے بطورِ سند یہ آیت تلاوت فرمائی : قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً ........... الآية (سنن ابی داؤد) تشریح کھانے پینے سے متعلق رسول اللہ ﷺکی تعلیمات جو ہدایات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ ایک وہ جن میں ماکولات و مشروبات یعنی کھانے پینے کی چیزوں کی حلت یا حرمت بیان فرمائی گئی ہے ۔ دوسرے وہ جن میں خورد ونوش کے وہ آداب سکھائے گئے ہیں جن کا تعلق تہذیب و سلیقہ اور وقار سے ہے ، یا ان میں طبی مصلحت ملحوظ ہے ، یا وہ اللہ کے ذکر و شکر کے قبیل سے ہیں ، اور ان کے ذریعہ کھانے پینے کے عمل کو جو بظاہر خالص مادی عمل ہے اور نفس کے تقاضے سے ہوتا ہے نورانی اور تقرب الی اللہ کا ذریعہ بنا دیا جاتا ہے ۔ ماکولات و مشروبات کی حلت و حرمت کے بارے میں بنیادی بات وہ ہے جس کو قرآن مجید نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے “يُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ” (1) (یہ نبی اُمی ﷺ اچھی اور پاکیزہ چیزوں (الطَّيِّبَاتِ) کو اللہ کے بندوں کے لئے حلال بتلاتے ہیں اور خراب اور گندی چیزوں (الْخَبَائِثَ) کو حرام قرار دیتے ہیں) ۔ قرآن و حدیث میں کھانے پینے کی چیزوں کی حلت و حرمت کے جو احکام ہیں وہ دراصل اسی آیت کے اجمال کی تفصیل ہیں ۔ جن چیزوں کو آپ ﷺ نے اللہ کے حکم سے حرام قرار دیا ہے ان میں فی الحقیقت کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت اور گندگی ضرور ہے ، اسی طرح جن چیزوں کو آپ ﷺ نے حلال قرار دیا ہے وہ بالعموم انسانی فطرت کے لئے مرغوب اور پاکیزہ ہیں ، اور غذا کی حیثیت سے نفع بخش ہیں ۔ قرآن مجید میں پینے والی چیزوں میں سے صراحت کے ساتھ شراب کو حرام قرار دیا گیا ہےی ۔ حدیثوں میں اس کے بارے میں مزید تفصیلی اور تاکیدی احکام ہیں ، جیسا کہ اس سلسلہ کی آگے درج ہونے والی حدیثوں سے معلوم ہو گا ۔ اور غذائی اشیاء میں سے ان چیزوں کی حرمت کا قرآن پاک میں واضح اعلان فرمایا گیا ہے ۔ میتہ یعنی وہ جانور جو اپنی موت مر چکا ہو ، خون یعنی وہ لہو جو رگوں سے نکلا ہو ، خنزیر جو ایک ملعون اور خبیث جانور ہے ، اور وہ جانور جو غیر اللہ کی نذر کیا گیا ہو (وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّـهِ بِهِ) یہ سب وہ چیزیں تھیں جن کو عرب کے کچھ طبقات کھاتے تھے ، حالانکہ پہلی آسمانی شریعتوں میں بھی ان کو حرام قرار دیا گیا تھا ، اسی لئے قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ اور بار بار ان کی حرمت کا اعلان کیا گیا ۔ میتہ یعنی مرے ہوئے جانور کے حرام ہونے کی وجہ ظاہر ہے کہ انسان کی فطرت سلیمہ اس کو کھانے کے قابل نہیں سمجھتی بلکہ اس سے گھن کرتی ہے ۔ اور طبی حیثیت سے بھی وہ مضر ہے کیوں کہ جیسا کہ علماء طب نے کہا ہے حرارتِ غریزیہ کے گھٹ جانے اور خون کے اندر ہی جذب ہو جانے سے اس میں سمیت کا اثر آ جاتا ہے ۔ خون یعنی لہو کا بھی یہی حال ہے کہ فطرت سلیمہ اس کو کھانے کی چیز نہیں سمجھتی اور شریعت میں اس کو قطعا ناپاک اور نجس العین قرار دیا گیا ہے ۔ اور خنزیر وہ ملعون مخلوق ہے کہ جب اللہ کے غضب و جلال نے بعض سخت مجرم اور بدکردار قوموں کو مسخ کرنے کا فیصلہ فرمایا تو ان کو خنزیروں اور بندروں کی شکل میں مسخ کیا گیا (وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ) اس لئے معلوم ہوا کہ یہ دونوں جانور انتہائی خبیث و ملعون ہیں اور خدا کی لعنت و غضب کا مظہر ہیں ، اس لئے ان کو قطعی حرام قرار دیا گیا ۔ التبہ چونکہ بندر کو غالبا دنیا کی کوئی قوم نہیں کھاتی اور اس طرح گویا اس کی حرمت پر انسانوں کے تمام طبقات اوراقوام و ملل کا اتفاق ہے اس لئے قرآن مجید میں اس کی حرمت پر خاص زور نہیں دیا گیا ، بخلاف خنزیر کے بہت سی قوموں نے خاص کر حضرت مسیح علیہ السلام کی امت نے اس کو اپنی مرغوب غذا بنا لیا ہے اس لئے قرآن پاک میں اس کی حرمت کا بار بار اور شدت و تاکید سے اعلان فرمایا گیا ۔ اور احادیث صحیحہ میں وارد ہے کہ جب آخری زمانہ میں حضرت مسیح علیہ السلام کا نزول ہو گا تو وہ صلیب شکنی کے ساتھ دنیا کو خنزیر کے وجود سے پاک کرنے کا بھی حکم دیں گے (وبقتل خنزير) اور اس وقت اس بات کا پورا ظہور ہو گا کہ ان کے نام لیوا عیسائیوں نے خنزیر کو اپنی مرغوب غذا بنا کر ان کی تعلیم اور تمام انبیاء علیہم السلام کی شریعت کی کیسی مخالفت کی ہے ۔ اور وہ جانور جس کو غیر اللہ کی نذر کر دیا گیا ہو جس کو قرآن مجید میں “ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّـهِ بِهِ” کے عنوان سے ذکر فرمایا گیا ہے ۔ اس کی حرمت کی وجہ یہ ہے کہ اس میں نذر کرنے والے کی مشرکانہ نیت اور اس کے اعتقادی شرک کی نجاست و خباثت سرایت کر جاتی ہے اس لئے وہ جانور بھی حرام ہو جاتا ہے ۔ الغرض یہ چار چیزیں وہ ہیں جن کی حرمت کا اعلان اہتمام اور صراحت کے ساتھ خود قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے ۔ ان کے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے جن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے وہ گویا اسی حکم الہی کا تکملہ ہے ۔ اس تمہید کے بعد اب وہ احادیث پڑھئے جن میں رسول اللہ ﷺ نے کھانے پینے کی چیزوں کی علت و حرمت کے بارے میں ہدایات فرمائی ہیں : تشریح .....مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت اور قرآن پاک کے نزول کے بعد کسی چیز کے حلال یا حرام ہونے کا معیار وحی الٰہی اور خدا اور رسول کا حکم ہے ، کسی کی پسند و ناپسند اور رغبت و نفرت کو اس میں کوئی دخل نہیں ہے ۔
کھانے پینے کے احکام و آداب
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا : ہر کچلی والے درندے اور ہر چنگل گیر (یعنی شکاری پنچہ والے پرندے کے کھانے سے) ۔ (صحیح مسلم) تشریح وہ سب درندے جو منہ سے اور دانتوں سے شکار کرتے ہیں جیسے شیر ، چیتا ، بھیڑیا ، اسی طرح کتا اور بلی ان سب کے وہ نکیلا دانت ہوتا ہے س کو عربی میں “ناب” اور اردو میں کچلی اور کیلا کہتے ہیں ، وہی ان درندوں کا خاص جارحہ اور ہتھیار ہے ۔ اسی طرح جو پرندے شکار کرتے ہیں جیسے باز ، چیل اور شاہین ان کا جارحہ وہ پنجہ ہوتا ہے جس سے جھپٹا مار کر بےچارے شکار کو یہ اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں ۔ حدیث کا مطلب اور حاصل یہ ہے کہ درندوں کی قسم کے سب چوپائے جن کے منہ میں کچلی ہوتی ہے اور جو شکار کرتے ہیں اور اسی طرح شکاری پرندے جو ذی مخلب یعنی پنجہ سے جھپٹا مار کر شکار کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے ان سب کے کھانے سے منع فرمایا ، یعنی حکم دیا کہ ان کو نہ کھایا جائے ۔ یہ بھی محرمات اور خبائث میں شامل ہیں ۔
کھانے پینے کے احکام و آداب
حضرت ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پالتو گدھوں کو حرام قرار دیا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح بعض دوسری حدیثوں میں گدھوں کے ساتھ خچروں کا بھی ذکر ہے ، رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں ہی جانوروں کی حرمت کا اعلان فرمایا ہے ، اور یہ بھی محرمات میں سے ہیں ۔
کھانے پینے کے احکام و آداب
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح خیبر کے دن منع فرمایا پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے اور اجازت دی گھوڑوں کے گوشت کے بارے میں ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث کی بناء پر اکثر ائمہ گھوڑے کے گوشت کی حلت کے قائل ہیں ، امام ابو حنیفہ سے کراہت کا قول نقل کیا گیا ہے ۔ غالبا اس کی بنیاد یہ ہے کہ سنن ابی داؤد اور سنن نسائی میں حضرت خالد بن ولیدؓ کی روایت سے یہ حدیث نقل کی گئی ہے کہ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَهَى عَنْ أَكْلِ لُحُومِ الْخَيْلِ، وَالْبِغَالِ، وَالْحَمِيرِ» رسول اللہ ﷺ نے گھوڑوں اور خچروں اور گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے ۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گدھے اور خچر کے ساتھ گھوڑے کے گوشت کی بھی ممانعت فرمائی ہے ۔ اگرچہ اس حدیث کی سند میں ضعف ہے لیکن امام ابو حنیفہؒ کا عام دستور یہ ہے کہ جب کسی چیز کی حلت و حرمت دلائل کی بناء پر مشتبہ ہو جائے تو وہ از راہِ احتیاط ممانعت کو ترجیح دیتے ہیں غالبا اسی لئے انہوں نے گھوڑے کے گوشت کو مکروہ قرار دیا ہے ۔ اس کے علاوہ بھی ان کے کچھ دلائل ہیں لیکن فقہ حنفی کی بعض کتابوں میں یہ بھی نقل کیا گیا ہے کہ آخر میں امام ابو حنیفہ نے اس مسئلہ میں دوسرے ائمہ کے قول کی طرف رجوع فرما لیا تھا اور جواز کے قائل ہو گئے تھے ۔ جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی مندرجہ بالا حدیث سے معلوم ہوتا ہے جو صحیحین کی حدیث ہے ۔ واللہ اعلم ۔
کھانے پینے کے احکام و آداب
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بلی کے کھانے سے منع فرمایا ہے اور اس کی قیمت کے کھانے سے بھی ممانعت فرمائی ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بلی بھی محرمات میں سے ہے اور ہونا بھی یہی چاہئے کیوں کہ وہ بھی ایک درندہ ہے ۔ نیز اسی حدیث میں بلی کی قیمت کانے سے بھی منع فرمایا گیا ہے علماء اور شارحین کے نزدیک اس کی ممانعت کا مطلب کراہت ہے ۔
کھانے پینے کے احکام و آداب
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جلالہ (نجاست خور جانور) کے کھانے اور اس کا دودھ پینے سے منع فرمایا ۔ (جامع ترمذی) تشریح کبھی کبھی بعض جانور اونٹ ، گائے ، بکری وغیرہ کا مزاج ایسا بگڑ جاتا ہے کہ وہ نجاست اور غلاظت ہی کھاتے ہیں یہاں تک کہ ان کے گوشت اور دودھ میں اس کی بدبو محسوس ہونے لگتی ہے ۔ ایسے ہی جانور کو جلالہ کہا جاتا ہے ، اس حدیث میں اس کا گوشت کھانے اور دودھ پینے سے منع فرمایا گیا ہے ۔ اگر کسی مرغی کا یہ حال ہو تو اس کا حکم بھی یہی ہے ۔ ہاں اگر اس جانور کو اتنی مدت تک باندھ کے اور پابند کر کے نجاست کھانے سے باز رکھا جائے کہ اس کے گوشت اور دودھ میں کوئی اثر باقی نہ رہے تو پھر اس کا گوشت کھانا یا دودھ پینا جائز ہو گا ۔ اب وہ گوشت اور دودھ “جلالہ” کا نہیں رہا ۔
کھانے پینے کے احکام و آداب
حضرت ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب (مکہ سے ہجرت فرما کے) مدینہ تشریف لائے تو یہاں (نہایت سنگدلانہ ایک طریقہ یہ رائج تھا کہ) کچھ لوگ کھانے کے لئے اپنے زندہ اونٹ کا کوہان کاٹ لیتے (جو بہت مرغوب قسم کا گوشت ہوتا ہے) اور اسی طرح ذہنوں کی چکی کاٹ لیتے (اور پھر اس اونٹ اور دنبہ کا علاج کر لیتے) تو رسول اللہ ﷺ نے اس بارے میں فرمایا کہ کسی زندہ جانور میں سے جو گوشت کاٹا جائے گا وہ مردار ہے ، اس کا کھانا جائز نہیں ۔(جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد)
کھانے پینے کے احکام و آداب
حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا :“شریطہ شیطان” کے کھانے سے حدیث کے روای ابن عیسیٰ نے (لفظ “شریطہ شیطان” کی تشریح میں) یہ اضافہ کیا ہے کہ اس سے مراد وہ ذبح کیا ہوا جانور ہے جس کے اوپر سے صرف کھال کاٹ دی جائے اور گلے کی رگیں (جن سے خون جاری ہوتا ہے) نہ کاٹی جائیں اور یوں ہی چھوڑ دیا جائے یہاں تک کہ مر جائے ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ یہ سنگدلانہ فعل بھی ناجائز و حرام ہے ، کیوں کہ اس سے جانور کو جو اللہ کی مخلوق ہے ، بےضرورت اور بہت دیر تک سخت تکلیف و اذیت ہوتی ہے ، اور اس طرح ذبح کیا ہوا جانور بھی مردار کے حکم میں ہے اور اس کا کھانا حرام ہے ۔ اس طرح ذبح کئے ہوئے جانور کو “شریطہ شیطان” کہا گیا ہے جس کے معنی ہیں شیطان کا گھائل کیا ہوا ، گویا جانور کو ذبح کرنے کا یہ طریقہ شیطان کا سکھایا ہوا ہے ۔
کھانے پینے کے احکام و آداب
عبدالرحمن بن شبل سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گوہ کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ گوہ حلال جانوروں میں سے نہیں ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اس کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے ۔ ائمہ مجتہدین میں سے امام ابو حنیفہ کا قول یہی ہے ، لیکن آگے درج ہونے والی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا گوشت کھانا ناجائز نہیں ہے ، اس بناء پر دوسرے اکثر ائمہ نے اس کو جائز اور حلال کہا ہے ۔
کھانے پینے کے احکام و آداب
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خالد بن ولید نے ان سے بیان کیا کہ میں ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا (راوی نے بتایا کہ حضرت میمونہ خالد بن الولید اور عبداللہ بن عباس کی بھی حقیقی خالہ تھیں ، آگے حضرت خالد کا بیان ہے کہ) میں نے دیکھا کہ ان کے (یعنی ہماری خالہ میمونہ کے) پاس ایک بھنی ہوئی گوہ ہے ، وہ انہوں نے کھانے کے لئے رسول اللہ ﷺ کی طرف بڑھا دی ، تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے ہاتھ کھینچ لیا ، (جس سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ اس کو کھانا نہیں چاہتے) تو خالد بن الولید نے (جو کھانے میں شریک تھے) پوچھا کہ یا رسول اللہ! کیا یہ حرام ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں (یعنی حرام تو نہیں ہے) لیکن یہ ہمارے علاقہ میں (یعنی مکہ کی سرزمین میں) ہوتی نہیں تھی اس لئے میری طبیعت اس کو قبول نہیں کرتی ، خالد نے بیان کیا کہ (رسول اللہ ﷺ کا یہ جواب سن کر) میں نے اس کو اپنی طرف سرکا لیا اور کھاتا رہا ، اور رسول اللہ ﷺ دیکھتے رہے (یعنی آپ ﷺ نے مجھے کھاتا دیکھا اور منع نہیں فرمایا) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح جو حضرات ائمہ گوہ کی حلت کے قائل ہیں ان کی سب سے بڑی دلیل یہی حدیث ہے ، اس کے علاوہ بھی بعض حدیثیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ گوہ کا کھانا حلال ہے ، امام ابو حنیفہؒ کا خیال یہ ہے کہ یہ حدیثیں غالباً اس زمانہ کی ہیں جب کہ اس کی حرمت کا حکم نہیں آیا تھا ، اور جب تک کسی چیز کی حرمت کا حکم نہ آئے وہ مباح ہے ، بہرحال امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ممانعت کی حدیث کو جو اوپر درج ہو چکی ہے ، زمانہ کے لحاظ سے موخر اور ناسخ سمجھتے ہیں ۔ علاوہ ازیں ابھی کچھ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ امام صاحب کا عام دستور اور رویہ یہ ہے کہ جب کسی چیز کی حلت اور حرمت کے بارے میں اشتباہ پیدا ہو جائے تو وہ ازراہِ احتیاط حرمت کے قول کو ترجیح دیتے ہیں ۔
کھانے پینے کے احکام و آداب
حضرت میمونہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ گھی میں چوہا گر گیا اور مر گیا ، تو رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں دریافت کیا گیا ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ : اس مرے ہوئے چوہے کو اور اس کے ارد گرد کے گھی کو نکا ل کر پھینک دو ، اور پھر باقی گھی کو کھا لو ۔ (صحیح بخاری) تشریح جیسا کہ آگے درج ہونے والی حدیث سے معلوم ہو گا کہ یہ حکم اس صورت میں ہے جبکہ گھی منجمد ہو ، یعنی اگر منجمد نہ ہو بلکہ رقیق اور سیال ہو تو پھر وہ ساری گھی کھانے کے لائق نہیں رہے گا ۔
کھانے پینے کے احکام و آداب
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب چوہا گھی میں گر جائے (اور مر جائے) تو اگر گھی جما ہوا ہو تو اس چوہے کو اور ارد گرد کے گھی کو نکال کر پھینک دو اور اگر گھی پتلا ہو تو پھر اس کے پاس نہ جاؤ (یعنی اس کا کھانا جائز نہیں ہے نہ کھاؤ) ۔ (مسند احمد ، سنن ابی داؤد) (اور یہی حدیث دارمی نے حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت کی ہے)
کھانے پینے کے احکام و آداب
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک سفر میں) ایک گورخران کی نظر پڑا (وہ اچھے ماہر شکاری تھے) انہوں نے اس کو زخمی کر کے شکار کر لیا (پھر جب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس کے بارے میں دریافت کیا کہ وہ حلال ہے یا نہیں ؟) آپ ﷺ نے فرمایا کہ : اس کے گوشت میں سے کچھ بچا ہوا تمہارے پاس ہے ؟ ابو قتادہؓ نے عرض کیا کہ ہاں اس کا ایک پاؤں ہے (اور وہ پیش کر دیا) آپ ﷺ نے اس کو قبول فرما لیا اور تناول فرمایا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس سے معلوم ہوا کہ گورخر حلال ہے اور شکار کیا ہوا جانور حلال طیب ہے ۔
کھانے پینے کے احکام و آداب
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ ہم نے مر الظہران کے جنگل میں ایک خرگوش دوڑا کر پکڑ لیا اور اس کی دونوں رانیں اور کولہا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں (بطور تحفہ کے) بھیجا تو آپ ﷺ نے اس کو قبول فرما لیا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح رگوش جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے حلال ہے ، اور ائمہ کا اس پر اتفاق ہے ۔
کھانے پینے کے احکام و آداب
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو مرغ کا گوشت کھاتے ہوئے دیکھا ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
کھانے پینے کے احکام و آداب
(رسول اللہ ﷺ کے خادم اور آزاد کردہ غلام) حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حباریٰ پرند کا گوشت کھایا ہے ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح لغت کی کتابوں میں “حباری” کے ترجمے مختلف کئے گئے ہیں ، بعض نے سرخاب کیا ہے اور بعض نے تغدری ، بہرحال “حباری” پرندہ ہے اور معلوم ہے کہ وہ سب پرندے حلال ہیں جو ذی مخلب نہیں ہیں ، یعنی جو جھپٹا مار کر پنجے سے شکار نہیں کرتے اور جو فطرت کے لحاظ سے موذی اور خبیث نہیں ہیں ۔
کھانے پینے کے احکام و آداب
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حلال قرار دی گئی ہیں ہمارے لئے دو مردہ چیزیں اور خون کی دو قسمیں ۔ دو مردہ چیزیں ہیں مچھلی اور ٹڈی اور خون کی دو قسمیں ہیں کلیجی اور تلی (کہ یہ دونوں منجمد خون ہیں) ۔ (مسند احمد ، سنن ابن ماجہ ،دار قطنی) تشریح مطلب یہ ہے کہ سارے حلال جانوروں کے لئے شرعی قانون اور ضابطہ یہ ہے کہ وہ شرعی طریقہ سے ذبح کئے جائیں تو حلال ہیں اور اگر بغیر ذبح کئے مر جائیں تو مردار اور حرام ہیں لیکن دو چیزیں اس سے مستثنیٰ ہیں ایک مچھلی اور دوسرے ٹڈی ۔ یہ دونوں مری ہوئی بھی حلال ہیں ۔ اسی طرح کلیجی اور تلی اگرچہ یہ دونوں دراصل منجمد خون ہیں اور خون حرام ہے ۔ لیکن جب وہ جم کر کلیجی اور تلی کی شکل اختیار کر لے تو اس کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے ۔
کھانے پینے کے احکام و آداب
حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کی معیت میں ساتھ غزوے کئے ہیں ، (یعنی ساتھ غزووں میں ہمیں آپ کی معیت اور رفاقت نصیب ہوئی ہے) ہم ان غزووں میں آپ کے ساتھ رہ کر ٹڈیاں بھی کھاتے تھے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح سنن ابی داؤد میں سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے ٹڈیوں کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : “ اَكْثَرُ جُنُوْدُ اللهِ لَا آكُلُهُ وَلَا اُحَرِّمُهُ ” (اللہ کی بہت سی مخلوق یعنی بہت سے جانور ایسے ہیں کہ میں ان کو خود تو نہیں کھاتا لیکن ان کو حرام نہیں بتلاتا) مطلب یہ کہ وہ حلال ہیں ، لوگ ان کو کھا سکتے ہیں ۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ خود ٹڈی نہیں کھاتے تھے ۔ اس کی روشنی میں شارحین نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفی کی مندرجہ بالا حدیث کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ صحابہ کرامؓ حضور ﷺ کے ساتھ غزوات میں ٹڈیاں بھی کھاتے تھے اور آپ ﷺ منع نہیں فرماتے تھے ۔ اس کا مطلب کا ایک قرینہ یہ بھی ہے کہ حضرت ابن ابی اوفیٰ والی اس حدیث کی صحیح مسلم اور جامع ترمذی وغیرہ کی روایات میں “معه” کا لفظ نہیں ہے ، بلکہ آخری الفاظ یہ ہیں “كنا ناكل الجراد” واللہ اعلم ۔
کھانے پینے کے احکام و آداب
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں “جیش الخبط” کے جہاد میں شریک تھا اور ابو عبیدہ اس لشکر کے امیر بنائے گئے تھے (غذا کا کچھ سامان نہ ہونے کی وجہ سے اس سفر جہاد میں) ہم سخت بھوک میں گرفتار ہو گئے ۔ تو سمندر نے ایک مچھلی پھینکی یہ مر چکی تھی ہم نے ایسی (یعنی اتنی بڑی)مچھلی کبھی نہیں دیکھی تھی ، اس کا نام عنبر بتلایا جاتا تھا ، ہم سب نے (یعنی پورے لشکر نے) س کو آدھے مہینہ تک کھایا ، پھر ابو عبیدہ نے اس کی ہڈیوں میں سے ایک ہڈی (غالبا پسلی) اٹھا کے کھڑی کی تو اونٹ کا سوار اس کے نیچے سے نکل گیا ، پھر جب ہم سفر سے مدینہ واپس آئے آئے تو ہم نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا (اور پوچھا کہ ہمارا اس کو کھانا درست تھا یا نہیں) تو آپ ﷺ نے فرمایا کھاؤ ، اللہ تعالیٰ کا عطیہ (اور تحفہ) جو اللہ نے تمہارے واسطے نکالا تھا ، اور اگر اس میں سے کچھ تمہارے ساتھ ہو تو ہمیں بھی کھلاؤ (جابر کہتے ہیں کہ) ہم نے اس میں سے رسول اللہ ﷺ کے لئے بھی بھیجا تو آپ ﷺ نے اس کو تناول فرمایا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں جس واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے وہ ۶ھ کی ایک جہادی مہم کا واقعہ ہے ، رسول اللہ ﷺ نے قریبا تین سو مجاہدین کا ایک لشکر روانہ فرمایا تھا ، اس کا امیر حضرت ابو عبیدہ کو بنایا گیا تھا پورے لشکر کے کھانے کے لئے رسول اللہ ﷺ نے صرف ایک بورا کھجوریں حضرت ابو عبیدہ کو دی تھیں ، اس وقت اتنا ہی بندوبست ہو سکا تھا ، ابو داؤد وغیرہ کی اس واقعہ کی روایت میں ہے کہ ابو عبیدہ روزانہ ہر لشکری کو اس بورے میں سے صرف ایک کھجور دیتے تھے ،اور یہ اللہ کے سپاہی اسی پر گزارہ کرتے تھے ، خود اس لشکر کے بعض حضرات نے بیان کیا ہے کہ ہم اس ایک کھجور کو منہ میں دیر تک رکھ کر اس طرح چوستے تھے جس طرح ننھے بچے چوستے ہیں اور اوپر سے پانی پی لیتے تھے ، بس یہی دن بھر کے لئے کافی ہو جاتا تھا ۔ پھر وہ کھجوریں ختم ہو گئیں تو درختوں سے پتے جھاڑے اور انہیں پانی سے تر کر کے کھانے لگے اس سے ہمارے منہ زخمی ہو گئے اور سوج گئے ، اس لشکر کو “جیش الخبط” کے نام سے اسی لئے یاد کیا جاتا ہے ۔ خبط کے معنی درخت سے پتے جھاڑنے کے ہیں ۔ ابو داؤد وغیرہ کی روایت میں حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ اسی حال میں ہم سمندر کے کنارے سے قریب چل رہے تھے کہ ہمیں ایک ٹیلہ یا ایک پہاڑی سی نظر پڑی ، قریب پہنچے تو دیکھا کہ وہ سمندر کا پھینکا ہوا ایک مچھلی نماز جانور ہے اور مرا ہوا ہے ، حضرت ابو عبیدہ کو اس کے حلال ہونے کے بارے میں شک ہوا ، بعد میں انہوں نے سوچا کہ ہم اللہ کے کام کے لئے نکلے ہیں اور اس کے رسول کے بھیجے ہوئے ہیں اور کھانے کے لئے ہمارے پاس کچھ نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ ہماری غذا کا ساما فراہم کیا ہے ، پھر اس بارے میں انہیں شرح صدر ہو گیا تو انہوں نے لشکر کو اس کے کھانے کی اجازت دے دی ۔ اور صحیحین کی اس روایت کے بیان کے مطابق پورے لشکر نے اس کو آدھے مہینے تک کھایا ۔ اور دوسری بعض روایات میں ہے کہ اس کو ایک مہینہ تک کھایا گیا ۔ اس عاجز کے نزدیک ان دونوں باتوں میں مطابقت اس طرح ہے کہ لشکر کا قیام آدھے مہینہ کے قریب اسی علاقہ میں رہا اور ان دنوں میں وہی مچھلی خوب فراوانی سے کھائی جاتی رہی ، اس کے بعد واپسی ہوئی اور قریبا آدھے مہینہ میں مدینہ پہنچے ، ان دنوں میں بھی اسی سے کچھ کام چلتا رہا ، تو جن روایات میں آدھے مہینہ تک کھائے جانے کا ذکر ہے ان میں صرف سفر واپسی ہے پہلے دنوں کا ذکر کیا گیا ہے ، جب کہ پورا لشکر فراوانی سے اس کو کھاتا رہا ، اور جن روایات میں ایک مہینہ تک کھانے کا ذکر کیا گیا ان میں واپسی کا زمانہ بھی شامل کر لیا گیا ہے ، کیوں کہ ان دنوں میں بھی اس کو بطور غذا کے کچھ نہ کچھ استعمال کیا جاتا رہا ۔ واللہ اعلم ۔ حدیث کے آخر میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مدینہ کی واپسی پر رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا گیا اور غالبا ابو عبیدہ کے شک و شبہ کا ذکر آیا ، تو آپ ﷺ نے فرما کر کہ “كُلُوا رِزْقًا أَخْرَجَهُ اللَّهُ” اطمینان دلایا کہ وہ تو اللہ تعالیٰ کا خاص عطیہ اور تحفہ تھا جو اس نے تمہارے ہی واسطے سمندر سے نکلوایا تھا ، ایسی چیز کو تو بڑی قدر اور شکر کے ساتھ کھانا چاہئے ۔ آخر میں آپ ﷺ نے ان لوگوں کا دل خوش کرنے کے لئے اور اس عطیہ ربانی کی قدردانی کے اظہار کے لیے یہ بھی فرمایا : “وَأَطْعِمُونَا إِنْ كَانَ مَعَكُمْ” (یعنی اگر اس میں سے کچھ ساتھ لائے ہو تو ہم کو بھی کھلاؤ) چنانچہ آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا اور آپ ﷺ نے تناول فرمایا ۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ سمندر کی اتنی بڑی مچھلی ، جو ظاہر ہے کہ ایک عجیب و غریب مخلوق معلوم ہوتی ہو گی حلال طیب ہے ۔ حدیث میں ہے کہ اس مچھلی کو عنبر کہا جاتا ہے ، بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ عنبر جو بعض خاص علاقوں میں سمندر کے کنارے ملتا ہے اس مچھلی سے نکلتا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
کھانے پینے کے احکام و آداب
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ ہمارے وہاں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ ان کا شرک کا زمانہ قریب ہی کا ہے (یعنی قریبی زمانہ کے نومسلم ہیں اور ابھی ان کی اسلامی تعلیم و تربیت نہیں ہو سکی ہے) وہ ہمارے پاس گوشت لاتے ہیں ، ہم نہیں جانتے کہ ذبح کرتے وقت وہ اللہ کا نام لیتے ہیں یا نہیں (تو اس صورت میں وہ گوشت کھائیں یا نہیں ؟) آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اللہ کا نام لو اور کھا لو ۔ (صحیح بخاری) تشریح حدیث کا مطلب یہ ہے کہ خواہ مخواہ وہم میں نہیں پڑنا چاہئے ، جب وہ لوگ مسلمان ہو چکے ہیں تو سمجھنا چاہئے کہ اللہ کا نام لے کر ہی ذبح کرتے ہوں گے اس لئے تم اللہ کا نام لے کر کھا لیا کرو ، یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اگر انہوں نے اللہ کا نام لئے بغیر ہی کافرانہ طریقہ پر ذبح کر لیا ہے تو تمہارے بسم اللہ پڑھنے سے اب وہ حلال ہو جائے گا ، قرآن پاک میں صراحت کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا ہے : وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّـهِ عَلَيْهِ (الانعام 121) اور جس جانور پر خدا کا نام نہ لیا گیا ہو اس کو مت کھاؤ ، اس کا کھانا سخت گناہ ہے ۔
کھانے پینے کے احکام و آداب
قبیصہ بن ہلب اپنے والد ہلب طائی سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے نصاری کا کھانا کھانے کے بارے میں سوال کیا (کہ جائز ہے یا ناجائز ؟) تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ :اس کے کھانے کے بارے میں تمہارے دل میں کوئی خلجان نہیں ہونا چاہئے ۔ تم اس (تنگ نظری اور بیجا شدت پسندی میں) طریقہ نصرانیت سے مشابہ ہو گئے ۔ (جامع ترمذی) تشریح یہ ہلب طائی پہلے خود نصرانی المذہب تھے ، بعد میں اللہ تعالیٰ نے ایمان و اسلام نصیب فرمایا تو ان کو نصاریٰ یعنی عیسائیوں کے ہاں کھانے اور ان کا ذبیحہ کھانے کے بار ے میں تردد تھا ۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ : اس بارے میں تمہارے دل میں کئی تردد اور خلجان نہیں ہونا چاہئے یعنی ہماری شریعت میں ان کا کھانا اور ذبیحہ جائز ہے ۔ قرآن پاک میں ان الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے ۔ “وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ” (1) ۔ (یعنی اہل کتاب کا کھانا تمہارے واسطے حلال ہے) آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ : کھانے پینے میں یہ تنگ نظری اور شدت پسندی عیسائی راہبوں کا شیوہ ہے ۔ اگر تم وہی طریقہ اپناتے ہو تو گویا ان کی ہم رنگی اختیار کرتے ہو ۔ ہماری شریعت میں یہ تنگی نہیں بلکہ وسعت ہے ۔ وَالْحَمْدُ لِلَّـهِ۔
مشروبات کے احکام: شراب کی حرمت کا حکم
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ شراب کی ممانعت (تدریجاً) تین دفعہ میں کی گئی ہے (جس کی تفصیل یہ ہے) کہ رسول اللہ ﷺ ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو اس زمانہ میں اہل مدینہ شراب پیا کرتے تھے اور جوئے سے حاصل کیا ہوا مال کھایا کرتے تھے ، تو ان دونوں چیزوں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا (کہ یہ جائز ہیں یا ناجائز ؟) دریافت کرنے کی وجہ غالباً یہ ہو گی کہ خود ان میں سے صالح طبیعت رکھنے والوں نے محسوس کیا ہو گا کہ اسلام کی عام تعلیمات اور اس کے پاکیزہ مزاج سے یہ دونوں چیزیں میل نہیں کھاتیں ۔ واللہ اعلم ۔ (ان کے اس سوال کے جواب میں سورہ بقرہ کی یہ آیت نازل ہوئی) ۔ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۖ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا اے پیغمبر ! یہ لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں سوال کرتے ہیں ، آپ انہیں بتا دیجئے کہ ان دونوں چیزوں میں گناہ ہے بہت اور فائدے بھی ہیں لوگوں کے لئے اور ان کا گناہ ان کے فائدے سے بڑا ہے ۔ تو کچھ لوگوں نے کہا کہ (اس آیت میں) شراب اور جوئے کو قطعیت کے ساتھ حرام قرار نہیں دیا گیا ہے ، تو وہ لوگ (گنجائش سمجھتے ہوئے) اس کے بعد بھی پیتے رہے ، یہاں تک کہ ایک دن یہ واقعہ پیش آیا کہ مہاجرین میں سے ایک صاحب اپے کچھ ساتھیوں کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے (اور امامت کر رہے تھے اور نشہ میں تھے) انہوں نے قرأت میں کچھ گڑ بڑ کر دی (اور کچھ کا کچھ پڑھ گئے) تو شراب کی ممانعت کے سلسلہ میں یہ دوسری آیت نازل ہوئی جو پہلی آیت کے مقابلہ میں زیادہ سخت تھی ۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ اے ایمان والو ! ایسی حالت میں نماز کے پاس بھی نہ جاؤ جب کہ تم نشہ میں ہو تا وقتیکہ (تمہیں ایسا ہوش نہ ہو) کہ تمہیں معلوم ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو ۔ مگر کچھ لوگ (اس کے بعد بھی گنجائش سمجھتے ہوئے) پیتے رہے (ہاں جیسا کہ بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے اس کا اہتمام کرنے لگے کہ نماز کے قریب نہیں پیتے تھے) تو سورہ مائدہ کی یہ آیتیں نازل ہوئیں جو پہلی دونوں آیتوں کے مقابلہ میں زیادہ سخت اور صاف صریح تھیں ۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿٩٠﴾إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّـهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ ۖ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ اے ایمان والو! بلاشبہ یہ شراب اور جوا اور بت پانسے (جو ایک خاص قسم کے جوئے میں استعمال ہوتے تھے ، یہ سب چیزیں) گندی اور ناپاک ہیں اور شیطانی اعمال میں سے ہیں لہذا ان سے کلی پرہیز کرو ، پھر تم امید کر سکتے ہو کہ فلاح یاب ہو جاؤ ، شیطان تو بس یہ چاہتا ہے کہ تمہیں شراب اور جوئے میں پھانس کر تمہارے درمیان بغض و عداوت پید کر دے (اور تم کو آپس میں لڑا دے) اور اللہ کی یاد اور نماز جیسی نعمت سے (جو بارگاہ خداوندی کی حضوری ہے) تم کو روک دے تو کیا تم (شراب اور جوئے وغیرہ سے) باز آؤ گے ؟ جب یہ آیتیں نازل ہوئیں تو ان لوگوں نے کہا “نهينا ربنا” (اے ہمارے پروردگار ! ہم باز آئے اور اب ہم نے اس کو بالکل چھوڑ دیا) پھر ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہمارے ان لوگوں کا کیا انجام ہو گا جو راہِ خدا میں شہید ہو چکے ہیں یا اپنے بستروں پر (بیمارپڑ کر) انتقال کر چکے ہیں اور وہ شراب پیا کرتے اور جوئے سے حاصل کیا ہوا مال کھایا کرتے تھے ۔ اور اب اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو ناپاک اور شیطانی عمل قرار دیا ہے (تو ہمارے جو بھائی ان دونوں میں ملوث تھے اور اسی حال میں انتقال کر گئے یا راہِ خدا میں شہید ہو گئے ، تو آخرت میں ان کے ساتھ کیا معاملہ ہو گا ؟) تو اس کے جواب میں بعد والی یہ آیت نازل ہوئی ۔ لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوا وَّآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ الْآيَةِ ان صاحب ایمان اور نیکوکار بندوں پر کوئی گناہ (اور مواخذہ) نہیں ہے ان کے کھانے پینے پر ، جب کہ ان کا حال یہ ہو کہ وہ خدا سے ڈر کر پرہیزگاری کی زندگی گزارتے ہوں اور دل سے مانتے ہوں اور اعمال صالحہ کرتے ہوں ۔ الخ (مسند احمد)ھ تشریح جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے ، کھانے پینے کی چیزوں میں حلت و حرمت کے بارہ میں شریعت کا بنیادی اصول وہی ہے جسے قرآن پاک میں ان الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے ۔ “وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ” اس بناء پر مشروبات میں بھی جو طیبات ہیں یعنی پاکیزہ اور مرغوب و خوشگوار اور نفع بخش چیزیں مثلا حلال چوپایوں کا دودھ ، پھلوں کا رس ، اچھے سے اچھے شربت ، نفیس عرقیات وغیرہ یہ سب حلال قرار دئیے گئے ہیں ۔ اور ان کے برعکس جو مشروبات “خبیث” اور انسانیت کے لئے مضر ہیں وہ حرام قرار دئیے گئے ہیں ۔ پھر جس طرح کھانے کی بعض ان چیزوں کی حرمت کا اعلان اہتمام اور خصوصیت سے قرآن پاک میں بھی کیا گیا ہے جو اگلی شریعتوں میں بھی حرام قرار دی گئی تھیں مگر ان کو بعض طبقے کھاتے تھے جیسے کہ مردار جانور اور خنزیر وغیرہ ، اسی طرح مشروبات میں خمر یعنی شراب کی حرمت کا اعلان بھی خاص اہتمام سے قرآن پاک میں بھی کیا گیا اور رسول اللہ ﷺ نے بھی اس کے بارے میں غیر معمولی اہتمام فرمایا اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے اس سلسلہ میں نہایت سخت رویہ آپ نے اختیار فرمایا ۔ جیسا کہ آگے درج ہونے والی احادیث سے معلوم ہو گا ۔ شراب کی حرمت کا حکم شراب کے حرام قرار دئیے جانے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کے استعمال سے آدمی کم از کم کچھ دیر کے لئے اس جوہر عقل و تفکر سے محروم ہو کر جو اس کے پروردگار کا خاص الخاص عطیہ اور معرفت الہی کا وسیلہ ہے ، ان حیوانوں کی صف میں آ جاتا ہے جن کو ان کے پیدا کرنے والے نے عقل و تمیز کی نعمت اور اپنی کاص معرفت کی صلاحیت عطا نہیں فرمائی ہے ۔ اور یہ انسان کا اپنے اوپر بڑے سے بڑا ظلم اور اپنے پروردگار کی انتہائی ناشکری ہے ۔ اس کے علاوہ نشہ کی حالت میں بسا اوقات اس سے انتہائی نامناسب اور شرمناک حرکتیں سرزد ہوتی ہیں اور وہ شیطان کا کھلونا بن جاتا ہے ، علاوہ ازیں شراب نوشی کے نتیجہ میں بعض اوقات بڑے دور رس اور تباہ کن فسادات پرپا ہو جاتے ہیں ۔ اسی لئے تمام آسمانی شریعتوں میں اس کو حرام قرار دیا گیا ہے اور ہر دور کے خدا پرست مصلحوں اور روحانیت پسندوں نے اس سے پرہیز کیا ہے اور اس کے خلاف جدو جہد کی ہے ۔ آگے جو احادیث شراب کے بارے میں درج ہوں گی ان کا یہ پس منظر ناظرین کے ذہن میں رہنا چاہئے کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے وقت اور غالبا اس کے بہت پہلے سے عربوں میں خاص کر اہل مدینہ میں شراب کا بےحد رواج تھا ، گھر گھر شراب بنتی تھی اور پی جاتی تھی اس سے وہ نشاط و سرور بھی حاصل کیا جاتا تھا جس کے لئے عموما پینے والے اس کو پیتے ہیں ، اس کے علاوہ اس ماحول میں شراب نوشی کو ایک اخلاقی عظمت و فضیلت کا مقام بھی حاصل تھا وہاں کا عام رواج یہ تھا کہ دولت مند لوگ شراب پی کر نشہ کی حالت میں خوب داد و دہش کرتے اور مال لٹاتے تھے جس سے غریبوں کا بھلا ہوتا تھا اور اسی وجہ سے شراب نہ پینا یا کم پینا بخل و کنجوسی کی علامت سمجھا جاتا تھا ۔ یہی حال جوئے کو بھی تھا وہاں جوئے کے کچھ خاص طریقے رائج تھے اور حوصلہ مند اور دریا دل لوگ ہی وہ جوا کھیلتے تھے اور جو کچھ جیتتے تھے وہ غربا اور حاجت مندوں میں لٹا دیتے تھے ۔ اس لئے جوا بھی امیروں کا ایک معزز کھیل تھا جس سے غریبوں کا بھلا ہوتا تھا ۔ زمانہ جاہلیت کی روایات اور شاعری میں اس کا پورا سراغ ملتا ہے ۔ شراب اور جوئے میں نافعیت کا غالباً یہی وہ خاص پہلو تھا جس کی طرف اشارہ سورہ بقرہ کی اس آیت میں بھی کیا گیا ہے جو شراب اور جوئے کے بارے میں سب سے پہلے نازل ہوئی تھی ۔ بہرحال شراب کا چونکہ وہاں عام رواج تھا اور گویا وہ ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی اور اس کے وہ بری طرح عادی تھے اور ان کی نگاہ میں اس کو ایک عظمت بھی حاصل تھی اس لئے اس کی ممانعت کے بارے میں ابتداء تو نرم تدریجی رویہ اختیار کیا گیا لیکن جب قوم میں اس کی صلاحیت پیدا ہو گئی کہ قطعی حرمت کا اعلان ہو جانے پر وہ اس کو یکلخت چھوڑ دے تو پھر اتنا سخت رویہ اختیار کیا گیا کہ جس قسم کے برتنوں میں شراب پینے کا رواج تھا ، سرے سے ان برتنوں ہی کے استعمال کرنے کی ممانعت کر دی گئی ۔ اسی طرح کے بعض اور بھی انتہائی سخت احکام جاری کئے گئے جن کا مقصد صرف یہ تھا کہ اہل ایمان کے دلوں میں اس ام الخبائث سے سخت نفرت پیدا ہو جائے ، چنانچہ جب یہ بات پیدا ہو گئی تو وہ سخت احکام واپس لے لئے گئے ۔ اس تمہید کے بعد شراب کی حرمت سے متعلق آگے درج ہونے والی حدیثیں پڑھئے : تشریح ..... حدیث کی تشریح ترجمہ کے ضمن میں جابجا کر دی گئی ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ کی اس حدیث سے یہ بات معلوم ہو گئی کہ شراب کی حرمت کے بارے میں ابتداء تدریجی رویہ اختیار کیا گیا اور آخر میں سورہ مائدہ کی آیت میں اس کے بارے میں “رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ” فرما کر اس کی قطعی حرمت کا اعلان فرما دیا گیا ۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت ۸ھ میں نازل ہوئی ۔
مشروبات کے احکام: شراب کی حرمت کا حکم
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (میرے مربی اور سرپرست) ابو طلحہ انصاری کے گھر میں مجلس قائم تھی اور شراب کا دور چل رہا تھا اور میں پلانے والا تھا تو رسول اللہ ﷺ پر شراب کی حرمت کا حکم نازل ہو گیا (یعنی سورہ مائدہ کی وہ آیت نازل ہو گئی جس میں شراب کو “رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ” بتلا کر اس کوقطعی حرام قرار دیا گیا ہے) تو آپ ﷺ نے اسی وقت ایک منادی کو حکم دیا کہ وہ اس کا اعلان مدینہ میں کر دے ، چنانچہ اس نے (معمول کے مطابق پکار کے) اعلان کیا تو ابو طلحہ نے مجھ سے کہا کہ انس باہر جا کر دیکھو کہ یہ کیسی پکار ہے اور کیا اعلان ہو رہا ہے کہ “شراب حرام ہو گئی” تو ابو طلحہ نے مجھے حکم دیا کہ جاؤ اور ساری شراب کو باہر لے جا کر بہا دو ، چنانچہ (میںٰ نے ایسا ہی کیا اور دوسرے گھروں سے بھی شراب بہائی گئی جس کی وجہ سے) شراب مدینہ کی گلیوں سے بہنے لگی ۔ انس کہتے ہیں کہ اس دن وہ شراب وہ تھی جو “فصیح” بولی جاتی ہے ۔ پھر بعض لوگوں کی زبان پر یہ بات آئی کہ بہت سے بندگانِ خدا ایسی حالت میں شہید ہوئے ہیں کہ شراب ان کے پیٹ میں تھی (تو ان کا کیا انجام ہو گا ؟) تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی “لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا” جس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ شراب کی قطعی حرمت کے اس حکم کے آنے سے پہلے اس دنیا سے جا چکے اور ان کی زندگی ایمان اور عملِ صالح اور تقویٰ والی تھی تو اس پچھلے دور کے کھانے پینے کے بارے میں ان سے کوئی مؤاخذہ نہ ہو گا) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح ایک خاص قسم کی شراب بنائی جاتی تھی ۔ کچی پکی کھجوروں کے باریک ٹکڑے کر کے ان کو اس میں ڈال دیا جاتا تھا ، ایک مقررہ مدت گزرنے پر اس میں سرور اور نشہ پیدا ہو جاتا تھا ، اس زمانہ میں یہ اوسط درجہ کی ایک شراب تھی جو بہت آسانی سے بن جاتی تھی ۔
مشروبات کے احکام: شراب کی حرمت کا حکم
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمارے یہاں کچھ شراب تھی جو ایک یتیم بچہ کی ملکیت تھی تو جب سورہ مائدہ (یعنی س کی وہ آیت جس میں شراب کی قطعی حرمت کا حکم بیان ہوا ہے) نازل ہوئی تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس شراب کے بارے میں پوچھا کہ اب اس کا کیا کیا جائے ؟ اور میں نے یہ عرض کر دیا کہ وہ ایک یتیم بچہ کی ملکیت ہے ، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ : اس کو پھینک دیا جائے اور بہا دیا جائے ۔ (جامع ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے اس کی بھی اجازت نہیں دی کہ اس کو کسی غیر مسلم کے ہاتھ بیچ دیا جائے یا کسی طرح بھی اس سے کوئی فائدہ اٹھا لیا جائے ۔ اور حضرت انسؓ کی ایک روایت میں ہے کہ شراب کی قطعی حرمت نازل ہونے سے کچھ ہی پہلے ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ نے بعض یتیموں کے لئے جو ان کی سرپرستی میں تھے ان ہی کے حساب میں شراب خریدی تھی ، انہوں نے بھی رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ اب اس کا کیا کیا جائے ؟ تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا : “اهرق الخمر واكسر الدباء” یعنی شراب کو بہا دو ، پھینک دو اور جن مٹکوں میں وہ ہے ان کو بھی توڑ دو ۔
شراب کی حرمت اور شرابی کے بارے میں وعیدیں
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : ہر نشہ آور چیز (یعنی ہر وہ مشروب جس کو پی کر نشہ آ جائے) خمر (شراب) کا مصداق ہے اور حرام ہے اور جو کوئی دنیا میں شراب پیئے اور اس حال میں مرے کہ برابر شراب پیتا ہو اور اس نے اس سے توبہ نہ کی ہو تو وہ آخرت میں جنت کی شراب طہور سے محروم رہے گا ۔ (صحیح مسلم)
شراب کی حرمت اور شرابی کے بارے میں وعیدیں
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص یمن سے آیا اور رسول اللہ ﷺ سے ایک خاص قسم کی شراب کے بارے میں سوال کیا جو اس علاقہ میں پی جاتی تھی جس کو “مزر” کہا جاتا تھا اور وہ چینا سے بنتی تھی آپ ﷺ نے اس آدمی سے پوچھا کہ کیا وہ نشہ پیدا کرتی ہے ؟ اس نے کہا کہ ہاں اس سے نشہ ہوتا ہے ، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ : (اصولی بات یہ ہے کہ) ہر نشہ آور چیز حرام ہے (مزید آپ ﷺ نے فرمایا کہ سنو) نشہ پینے والے کے لئے اللہ کا یہ عہد ہے جس کو پورا کرنا اس نے اپنے اوپر لازم کر لیا ہے کہ وہ آخرت میں اس کو “طِينَةِ الْخَبَالِ” ضرور پلائے گا ۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ “طِينَةِ الْخَبَالِ” کیا چیز ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ : دوزخیوں کے جسم سے نکلنے والا پسینہ ، یا فرمایا کہ دوزخیوں کے جسم سے نکلنے والا لہو پیپ ۔ (صحیح مسلم) تشریح یعنی راوی کو شک ہے کہ “طِينَةِ الْخَبَالِ” کی وضاغت کے لئے رسول اللہ ﷺ نے “عَرَقُ أَهْلِ النَّارِ” فرمایا تھا یا “عُصَارَةُ أَهْلِ النَّارِ” پہلے کا ترجمہ “دوزخیوں کا پسینہ” اور دوسرے کا ترجمہ “دوزخیوں کے جسم سے بہنے والا لہو اور پیپ” بہرحال شراب کی حرمت کے بعد اس کا پینا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس حدیث کے مطابق اللہ تعالیٰ نے یہ طے فرما لیا ہے کہ جو شخص اس دنیا میں شراب سے دلچسپی رکھے گا اور بلا توبہ کے اس دنیا سے چلا جائے گا ، اللہ تعالیٰ اس کو شراب نوشی کی پاداش میں “طِينَةِ الْخَبَالِ” ضرور پلائے گا ۔ اَللَّهُمَّ احْفَظْنَا
شراب کی حرمت اور شرابی کے بارے میں وعیدیں
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام عالم کے لئے رحمت اور سب کے لئے وسیلہ ہدایت بنا کر بھیجا ہے اور میرے پروردگار عز وجل نے مجھے حکم دیا ہے معاز و مزامیر (یعی ہر طرح کے باجوں) کے مٹا دینے کا اور بت پرستی اور صلیب پرستی کو مٹا دینے کا اور تمام رسوم جاہلیت کو ختم کر دینے کا ، اور میرے رب عزو جل نے یہ قسم کھائی ہے کہ میری عزت و جلال کی قسم میرے بندوں میں سے جو بندہ شراب کا ایک گھونٹ بھی پیئے گا تو میں آخرت میں اس کو اتنا ہی لہو و پیپ ضرور پلاؤں گا ۔ اور جو بندہ میرے خوف سے شراب کو چھوڑ دے گا اور اس سے باز رہے گا تو میں آخرت کے قدسی حوضوں کی شراب، طہور اپنے اس بندہ کو ضرور نوش کراؤں گا ۔(مسند احمد) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ یہ چند اصلاحی کام رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے خاص مقاصد میں سے ہیں ۔ بت پرستی اور صلیب پرستی کا قلع قمع کرنا ، زمانہ جاہلیت کی جاہلی رسوم کو ختم کرنا ، اور معازف و مزامیر یعنی ہر قسم کے باجوں کے رواج کو مٹانا ...... معازف ان باجوں کو کہا جاتا ہے جو ہاتھ سے بجائے جاتے ہیں جیسے ڈھولک ، طبلہ ، ستار ، سارنگی وغیرہ اور مزامیر وہ باجے ہیں جو منہ سے بجائے جاتے ہیں جیسے شہنائی اور بانسری وغیرہ ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ یہ سب باجے دراصل لہو لعب اور فسق و فجور کے آلات ہیں اور دنیا سے ان کے رواج کو مٹانا رسول اللہ ﷺ کے ان خاص کاموں میں سے ہے جن کے لئے آپ ﷺ مبعوث ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہیں ۔ لیکن کس قدر دکھ کی بات ہے اور شیطان کی کتنی بڑی کامیابی ہے کہ بزرگانِ دین کے مزارات پر عرسوں کے نام سے جو میلے ہوتے ہیں ان میں دوسری خرافات کے علاوہ معازف و مزامیر کا بھی وہ زور ہوتا ہے کہ فسق و فجور کے کسی تماشے میں بھی اس سے زیادہ نہ ہوتا ہو گا ۔ کاش یہ لوگ سمجھ سکتے کہ خود ان کے بزرگانِ دین کی روحوں کو ان خرافات اور ان باجوں گانوں سے کتنی تکلیف ہوتی ہے اور وہ رسول اللہ ﷺ کے مقابلہ میں شیطان کے مشن کو کامیاب بنا کر روحِ نبویﷺ کو کتنا صدمہ پہنچا رہے ہیں ۔ حدیث کے آخری حصہ میں شراب اور ان شراب پینے والوں کے بارے میں اور خدا کے خوف سے شراب سے بچنے والوں کے بارے میں جو کچھ فرمایا گیا ہے وہ کسی وضاحت اور تشریح کا محتاج نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ ہم کو بھی اپنے بندوں میں شامل فرمائے جو اس کے حکم سے اور اس کی پکڑ اور عذاب کے خوف سے شراب سے پرہیز کرتے ہیں اور جنت کے قدسی حوضوں کی شراب طہور سے ہمیں سیراب فرمائے ۔
نشہ آور شراب کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : جس شراب کی زیادہ مقدار نشہ پیدا کرے اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ) “قریب قریب اسی مضمون کی ایک حدیث مسند احمد اور سنن ابی داؤد وغیرہ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے” ۔
شراب بطور دوا کے بھی استعمال نہ کی جائے
حضرت وائل بن حجر حضرمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ طارق بن سوید رضی اللہ عنہ نے شراب کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا تو آپ ﷺ نے ان کو شراب پینے سے منع فرمایا ، انہوں نے عرض کیا کہ میں تو اس کو دوا کے لیے استعمال کرتا ہوں ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ :وہ دوا نہیں ہے بلکہ وہ تو بیماری ہے ۔ (صحیح مسلم) تشریح بعض قرائن کی بناء پر کچھ ائمہ اور علماء کی رائے یہ ہے کہ یہ حدیث اس دور کی ہے جب کہ شراب کی قطعی حرمت کا حکم نازل ہوا تھا اور رسول اللہ ﷺ نے ایک خاص مصلحت اور مقصد کے لئے (جو آگے والی بعض حدیثوں سے معلوم ہو جائے گا) شراب کے بارے میں انتہائی سخت رویہ ہنگامی طور پر اختیار کیا تھا اور اس سلسلہ میں بعض ان چیزوں کو بھی منع فرما دیا تھا جن کی بعد میں آپ ﷺ نے اجازت دے دی ۔ اس بناء پر ان حضرات نے اس کی گنجائش سمجھی ہے کہ اگر کسی ایسے مریض کے بارے میں جس کی زندگی خطرہ میں ہو ، معتمد اور حاذق طبیب کی رائے ہو کہ اس کے علاج میں شراب ناگزیر ہے تو صرف بقدر ضرورت استعمال کی جا سکتی ہے ۔ واللہ اعلم ۔
شراب نوشی پر اصرار کرنے والی قوم کے خلاف اعلانِ جنگ
حضرت دیلم حمیری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہم لوگ سرد علاقہ میں رہتے ہیں اور وہاں بڑی سخت محنت کرتے ہیں ، اور ہم گیہوں سے ایک شراب بنا کر استعمال کرتے ہیں اور اس سے قوت و طاقت حاصل کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہم اپنے سخت محنت طلب کام بھی کر لیتے ہیں اور اپنے ملک کی سردی کا مقابلہ بھی کر لیتے ہیۃں ۔ رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا ، کیا اس سے نشہ ہوتا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں وہ نشہ پیدا کرتی ہے ، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ : پھر اس سے بچو ، بالکل استعمال نہ کرو ۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت وہاں کے لوگ اس کو چھوڑنے والے نہیں ہیں ، (یعنی مجھے اس کی امید نہیں ہے کہ وہ کہنے سننے سے اس کا استعمال چھوڑ دیں) آپ ﷺ نے فرمایا کہ : اگر نہ چھوڑیں تو ان سے جنگ کرو ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح اس حدیث سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ اگر کسی علاقہ کے مسلمان اپنے مقامی حالات کے لحاظ سے اپنے واسطے شراب کے استعمال کو ناگزیر اور ضروری سمجھیں تب بھی ان کو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اگر کسی علاقہ یا بستی والے شراب کے استعمال پر اجتماعی طور پر اصرار کریں اور باز نہ آئیں تو اسلامی حکومت ان کے خلاف طاقت استعمال کرے ۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلام کی نگاہ میں شراب نوشی کتنا سنگین جرم ہے ۔
شرابیوں کے واسطے سخت ترین وعید
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : ہمیشہ شراب پینے والا اگر اسی حال میں مرے گا تو خدا کے سامنے اس کی پیشی مشرک اور بت پرست کی طرح ہو گی ۔ (مسند احمد)
شرابیوں کے واسطے سخت ترین وعید
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شراب کے سلسلے میں (اس سے تعلق رکھنے والے) دس آدمیوں پر لعنت کی ۔ ایک (انگور وغیرہ) شراب نچوڑنے والے پر (اگرچہ کسی دوسرے کے لیے نچوڑے) اور خود اپنے واسطے نچوڑنے والے پر ، اور اس کے پینے والے پر اور ساقی یعنی پلانے والے پر اور اس پر جو شراب کو لے کر جائے اور اس پر جس کے لئے وہ لے جائی جائے اور اس کے بیچنے والے اور خریدنے والے پر اور اس پر جو کسی چوسرے کو ہدیہ اور تحفہ میں شراب دے اور اس پر جو اس کو فروخت کر کے اس کی قیمت کھائے ۔ (جامع ترمذی) تشریح لعنت کا مطلب ہے خدا کی رحمت اور اس کی نگاہِ کرم سے محرومی کی بد دعا ، اس بناء پر حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ جو شخص شراب سے کچھ بھی تعلق رکھے ، خواہ اس کا بنانے والا یا بنوانے والا ہو ، یا پینے والا یا پلانے والا ہو ، یا خریدنے والا یا بیچنے والا ہو ۔ کسی کو ہبہ کرنے والا یا اس کو کسی کے پاس پہنچانے والا ہو ، ان سب کے لئے رسول اللہ ﷺ نے بددعا کی کہ وہ خدا کی رحمت اور اس کی نگاہِ کرم سے محروم ہیں ۔ “قریب قریب اسی مضمون کی حدیث مسند احمد اور سنن ابی داؤد وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہسے بھی مروی ہے” ۔ رسول اللہ ﷺ کے اس قسم کے ارشادات نے صحابہ کرامؓ کو شراب کے بارے میں کتنا شدت پسند بنا دیا تھا اس کا اندازہ اس ایک واقعہ سے کیا جا سکتا ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے انگور کے باغات تھے ، ایک دفعہ ان میں بہت پھل آیا تو باغوں کے اس محافظ نے جو ان کی دیکھ بھال اور حفاظت کے لئے ان کی طرف سے مقرر تھا (اور ان کا معتمد ملازم تھا) ان کو خط لکھا کہ اس فصل میں انگور کی پیداوار بہت ہے اور مجھے ان کے ضائع اور برباد ہو جانے کا اندیشہ ہے ۔ تو آپ کی رائے ہو تو میں انگوروں سے شیرہ حاصل کر کے محفوظ کر لوں ؟ حضرت نے اس کے جواب میں خط لکھا ۔ إِذَا جَاءَكَ كِتَابِي، فَاعْتَزِلْ ضَيْعَتِي، فَوَاللَّهِ لَا أَئْتَمِنُكَ عَلَى شَيْءٍ بَعْدَهُ أَبَدًا» (1) (جب تمہیں میرا یہ خط ملے تو میری زمین اور باغات سے الگ اور بےتعلق ہو جاؤ ۔ خدا کی قسم ! میں اس کے بعد کسی چیز کے بارے میں بھی تم پر اعتماد نہیں کر سکتا) ۔ بہرحال حضرت سعد نے اس محافظ اور باغبان کو صرف اس بناء پر الگ اور ملازمت سے برطرف کر دیا کہ اس نے انگور سے شیرہ حاصل کر کے اس کو محفوظ کرنے کے بارے میں سوچا تھا جس سے شراب بنائی جا سکتی ہے ۔
ہر نشہ آور چیز حرام ہے
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (دعوت و تبلیغ اور دوسرے دینی مقاصد کے لئے) مجھے اور معاذ بن جبل کو یمن کی طرف بھیجا اور ہم لوگوں کو ہدایت فرمائی کہ لوگوں کو دین حق کی دعوت دینا اور ان کو (خوش انجامی کی) بشارریں سنانا اور ان سے ایسی باتیں نہ کرنا جن سے وہ دور بھاگیں اور ان کو وحشت ہو ، نیز لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنا ، ان کو مشکلات میں نہ ڈالنا ! ابو موسیٰ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ ہمیں دو شرابوں کے بارے میں شریعت کا حکم بتا دیجئے جو ہم یمن میں بنایا کرتے تھے (یعنی وہاں ان کے پینے کا عام رواج تھا) ایک وہ جسے بتع کہا جاتا ہے وہ شہد سے بنائی جاتی ہے (مقررہ حساب سے) شہد میں پانی ملا کر چھوڑ دیا جاتا ہے اور یہاں تک کہ اس میں جوش پیدا ہو جائے اور دوسری وہ شراب ہے جسے مزر کہا جاتا ہے اور وہ چینا اور جو سے بنائی جاتی ہے ۔ اسے بھی پانی میں چھوڑ دیا جاتا ہے یہاں تک کہ اس میں جوش پیدا ہو جائے (الغرض دو شرابوں کے بارے میں ابو موسیٰ اشعری نے شرعی حکم دریافت کیا) ابو موسیٰ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو “جوامع الکلم اور خواتم الکلم” کی نعمت عطا فرمائی تھی ، یعنی آپ ﷺ کو اس کی خاص صلاحیت بخشی تھی کہ (بہت مختصر الفاظ میں) انتہائی جامع ، مانع اور فیصلہ کن بات فرما دیتے تھے (چنانچہ آپ ﷺ نے میرے سوال کے جواب میں) ارشاد فرمایا “أَنْهَى عَنْ كُلِّ مُسْكِرٍ أَسْكَرَ عَنِ الصَّلاَةِ” (میں ہر اس چیز کی ممانعت کرتا ہوں جو نشہ آور ہو اور نماز سے آدمی کو غافل کر دے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث سے بطور قاعدہ کلیہ کے معلوم ہو گیا کہ جس چیز کے کھانے پینے سے نشہ پیدا ہو اور نماز جیسی چیز سے غفلت ہو جائے ، وہ شریعت اسلام میں ممنوع اور ناجائز ہے ۔ اس سے بھنگ وغیرہ ان تمام نباتات کا حکم بھی معلوم ہو گیا جو نشہ پیدا کرتی ہیں ، اور نشہ ہی کے لئے استعمال کی جاتی ہیں ۔
امت کی شراب نوشی کے بارے میں ایک پیشین گوئی
حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے خود سنا ، آپ ﷺ ارشاد فرماتے تھے کہ میری امت میں سے کچھ لوگ شراب پیئیں گے اور (از راہِ فریب) اس کا کوئی دوسرا نام رکھیں گے ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ) تشریح شراب کی حرمت کے بارے میں شریعت اسلام کا جو بے لاگ فیصلہ ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اس سے متعلق جو سخت ترین رویہ اختیار فرمایا ہے وہ مندرجہ بالا احادیث سے معلوم ہو چکا ہے ، لیکن آپ ﷺ پر یہ منکشف کیا گیا تھا کہ شریعت کے واضح احکام اور آپ ﷺ کے اس سخت رویہ کے باوجود آپ ﷺ کی امت کے کچھ غلط کار لوگ شراب پیئیں گے اور اپنے بچاؤ کے لئے بطور حیلہ کے اس شراب کا کوئی اور نام رکھیں گے اور نام کی تبدیلی سے دوسروں کو یا خود کو فریب دینا چاہیں گے ۔ حالانکہ صرف نام بدل دینے سے حقیقت نہیں بدلتی اور شریعت کا حکم بھی نہیں بدلتا ۔ اس لئے خدا کے نزدیک وہ شراب نوشی کے مجرم ہوں گے اور نام بدلنے کا فریب ان کا دوسرا جرم ہو گا ۔
شراب کے سلسلہ میں کچھ سخت ہنگامی احکام
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا کہ : دبا یا حنتم یا مقفت یا نقیر میں نبیذ بنائی جائے اور حکم دیا کہ اب چمڑے کے مشکیزوں میں نبیذ بنائی جائے ۔ (صحیح مسلم) تشریح یہ بات پہلے ذکر کی جا چکی ہے کہ جب سورہ مائدہ کے نزول کے بعد شراب کی قطعی حرمت کا اعلان کیا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سلسلہ میں بعض ایسے سخت ہنگامی احکام بھی جاری فرمائے جن کا مقصد صرف یہ تھا کہ اہلِ ایمان کے دلوں میں اس ام الخبائث سے سخت نفرت پیدا ہو جائے اور پرائی عادت کبھی اس کی طرف میلان اور رغبت پیدا نہ کر سکے ۔ ذیل میں اس سلسلہ کی حدیثیں پڑھی جائیں ۔ تشریح ..... کھجور یا منقیٰ یا انگور یا اس طرح کی کوئی چیز پانی میں ڈال دی جائے اور اتنی دیر پڑی رہے کہ اس کا ذائقہ اور شیرینی پانی میں آ جائے اور نشہ کی کیفیت پیدا نہ ہو تو اس کو نبیذ کہتے ہیں ۔ عربوں میں اس کا بھی رواج تھا اور جیسا کہ آگے آنے والی بعض حدیثوں سے معلوم ہو گا کہ خود رسول اللہ ﷺ بھی اس کو نوش فرماتے تھے ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں چار قسم کے جن برتنوں میں نبیذ بنانے سے رسول اللہ ﷺ نے ممانعت فرمائی ہے ، یہ عام طور سے شراب بنانے میں استعمال ہوتے تھے ۔ دبا ، کدو کی تونبی ہوتی تھی ، حنتم اور مزفت یہ خاص طرح کی ٹھلیاں ہوتیں تھیں اور نقیر کھجور کی لکڑی سے بنا ہوا ایک برتن ہوتا تھا ۔ بہرحال یہ چاروں قسم کے برتن عام طور سے شراب میں استعمال ہوتے تھے ، جب شراب کی قطعی حرمت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے ان برتنوں میں نبیذ بنانے سے بھی منع فرما دیا ۔ غالبا اس ممانعت کا مقصد یہ تھا کہ یہ برتن شراب کو یاد دلا کر دل میں اس کی طلب اور خواہش پیدا نہ کریں ۔ پھر جب شراب کی نفرت پوری طرح دلوں میں جاگزیں ہو گئی اور اس کا اندیشہ باقی نہ رہا کہ یہ برتن شراب کو یاد دلا کر اس کی طلب اور خواہش پیدا کریں تو رسول اللہ ﷺ نے ان برتنوں کے استعمال کی اجازت دے دی جیسا کہ آگے درج ہونے والی حدیث میں صراحۃً مذکور ہے ۔
شراب کے سلسلہ میں کچھ سخت ہنگامی احکام
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : میں نے تم کو کچھ برتنوں کے استعمال سے منع کر دیا تھا (اب میں اس کی اجازت دیتا ہوں) کیوں کہ صرف برتن کی وجہ سے کوئی چیز حلال یا حرام نہیں ہو جاتی ۔۔۔ (ہاں یہ ملحوظ رہے کہ) ہر نشہ آور چیز حرام ہے (لہذا اس سے بچو) ۔۔۔ اور یہی حدیث اس طرح بھی روایت کی گئی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ “میں نے تم کو منع کیا تھا کہ چمڑے کے برتنوں (مشکیزوں) کے سوا کوئی اور برتن استعمال نہ کرو (اب اجازت دیتا ہوں کہ) ہر قسم کے برتن میں پی سکتے ہو ، لیکن کوئی نشہ پیدا کرنے والی چیز ہرگز نہ پی جائے” ۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہو گئی کہ رسول اللہ ﷺ نے شراب کی قطعی حرمت نازل ہو جانے کے بعد اس کے بارے میں کچھ زیادہ سخت احکام مذکورہ بالا مصلحت سے وقتی اور عارضی طور پر بھی دئیے تھے جو بعد میں واپس لے لئے گئے ۔
شراب کے سلسلہ میں کچھ سخت ہنگامی احکام
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا : (نبیذ بنانے کے لئے) کچی خشک کھجوروں اور آدھ پکی کھجوروں کے ملانے سے ، اور اسی طرح خشک انگور اور پکی کھجورں کے ملانے سے اور کچی کھجوروں اور پکی تازہ کھجوروں کے ملانے سے اور ارشاد فرمایا کہ ان سب چیزوں کی علیحدہ علیحدہ نبیذ بنایا کریں ۔ (صحیح مسلم) تشریح شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ اس حدیث میں جن مختلف چیزوں کو باہم ملا کر نبیذ بنانے سے منع فرمایا گیا ہے ان کو ملا کر پانی میں ڈالنے سے نشہ کی کیفیت جلدی پیدا ہو جانے کا امکان ہوتا ہے ۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے بطور احتیاط کے یہ ممانعت فرمائی تھی اور حکم دیا تھا کہ ان چیزوں کی نبیذ علیحدہ علیحدہ ہی بنائی جائے ۔ اور غالباً یہ حکم بھی آپ ﷺ نے اسی زمانہ میں دیا تھا جب کہ شراب کی قطعی حرمت کا حکم نازل ہوا تھا اور آپ ﷺ امت کی تربیت کتے لئے اس بارے میں ایسے سخت احکام بھی دے رہے تھے جن کا مقصد یہ تھا کہ اہل ایمان شراب اور نشہ کے ادنیٰ شبہ سے بھی نفرت کرنے لگیں ۔ لیکن جب یہ مقصد حاصل ہو گیا تو پھر وہ سخت احکام واپس لے لئے گئے جو اس مقصد کے لئے ہنگامی طور پر دئیے گئے تھے ۔ آگے درج ہونے والی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے معلوم ہو گا کہ خود رسول اللہ کے لیے خشک انگور اور کھجوریں پانی میں ساتھ ڈال کر نبیذ تیار کی جاتی تھی اور آپ ﷺ نوش فرماتے تھے ۔
نبیذ حلال طیب ہے اور خود رسول اللہ ﷺ استعمال فرماتے تھے
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے لئے خشک انگوروں سے نبیذ بنائی جاتی تھی اور اس میں کھجوریں بھی ڈال دی جاتی تھیں ، یا کھجوروں سے نبیذ بنائی جاتی تھی اور اس میں خشک انگور بھی ڈال دئیے جاتے تھے ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انگور اور کھجور وغیرہ مخلوط اجناس کی نبیذ بھی جائز ہے ہاں اس کی شدید احتیاط ضروری ہے کہ اس میں نشہ کی کیفیت پیدا نہ ہو جائے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ایک دوسری روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے واسطے نبیذ بنانے کے لئے ہم پانی میں کھجوریں وغیرہ شام کو ڈال دیتے تھے جس کو آپ صبح کو نوش فرما لیتے تھے اور پھر ہم شام کے واسطے اسی طرح صبح کو ڈال دیتے تھے اور اس کو آپ ﷺ شام کے وقت نوش فرما لیتے تھے ۔
نبیذ حلال طیب ہے اور خود رسول اللہ ﷺ استعمال فرماتے تھے
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے (اپنے ایک پیالہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) کہاکہ میں نے اپنے اس پیالہ سے رسول اللہ ﷺ کو پینے والی سب چیزیں پلائی ہیں ، شہد بھی ، نبیذ بھی ، پانی بھی ، اور دودھ بھی ۔ (صحیح مسلم) تشریح ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نبیذ استعمال کرتے تھے اور آپ ﷺ کے واسطے اس کا اہتمام کیا جاتا تھا ۔
حضور ﷺ کو ٹھنڈا میٹھا مرغوب تھا
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کو پینے میں ٹھنڈا میٹھا محبوب و مرغوب تھا ۔ (جامع ترمذی)
حضور ﷺ کے لئے میٹھے پانی کا اہتمام
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے لئے “بیوت سقیا” سے میٹھا پانی لایا جاتا تھا ۔ امام ابو داؤد کے استاذ قتیبہ جو اس حدیث کے ایک راوی ہیں ، ان کا بیان ہے کہ یہ مقام (بیوت سقیا) جہاں سے حضور ﷺ کے لیے یہ میٹھا پانی لایا جاتا تھا ، مدینہ سے دو دن کی مسافت پر تھا ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ مشروبات میں ٹھنڈے میٹھے کی رغبت یا اسی طرح کھانے پینے کی کسی اچھی چیز کی رغبت جو فطرتِ سلیمہ کا تقاضا ہے مقام زہد کے منافی نہیں ہے اور للہی تعلق و محبت کی بناء پر اس کا اہتمام کرنا سعادت ہے ۔
کھانے پینے کے آداب: کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونا
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے تورات میں پڑھا کہ کھانے کے بعد ہاتھ منہ دھونا باعث برکت ہے ۔ میں نے یہ بات رسول اللہ ﷺ سے ذکر کی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ : کھانے سے پہلے اور اس کے بعد ہاتھ اور منہ کا دھونا باعث برکت ہے ۔ (جامع ترمذی ، ابو داؤد) تشریح جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے امت کے لئے اشیاء خورد و نوش کے بارے میں حلت و حرمت کے احکام بھی بیان فرمائے اور کھانے پینے کے آداب بھی بتلائے جن کا تعلق تہذیب و سلیقہ اور وقار سے ہے ، یا ان میں طبی مصلحت ملحوظ ہے یا وہ اللہ کے ذکر و شکر کے قبیل سے ہیں اور ان کے ذریعہ کھانے پینے کے عمل کو جو بظاہر خاصی مادی عمل ہے اور نفس حیوانی کے تقاضے سے ہوتا ہے ، روحانی اور نورانی اور تقرب الی اللہ کا ذریعہ بنا دیا جاتا ہے ۔ اس سلسلہ کی گزشتہ تین قسطوں میں جو احادیث درج ہوئیں ان کا تعلق اشیاء خوردنی و نوشیدنی کی حلت و حرمت سے تھا ، آگے وہ حدیثیں درج کی جا رہی ہیں جن میں آنحضرتﷺ نے کھانے پینے کے آداب کی تلقین فرمائی ہے ۔ ان حدیثوں میں ایسے ارشادات موجود ہیں جن سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ان میں کھانے پینے کے جن آداب کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے ان کا درجہ استحباب اور استحسان کا ہے ، اس لئے اگر اس پر رعمل نہ ہوا تو کوئی گناہ کی بات نہ ہو گی ۔ واللہ اعلم ۔ تشریح ..... قرآن پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ جو تعلیم و ہدایت اگلے انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ آتی رہی اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کے ذریعہ اس کی تکمیل فرمائی ہے (الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ الخ) اس کی روشنی میں حدیث کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تورات میں آدابِ طعام کے سلسلے میں صرف کھانے کے بعد ہاتھ دھونے کو باعث برکت بتلایا گیا تھا اور اس کی ترغیب دی گئی تھی ، رسول اللہ ﷺ کے ذریعے کھانے سے پہلے بھی ہاتھ اور منہ دھو لینے (یعنی کلی کر لینے) کی ترغیب دی گئی اور آپ ﷺ نے بتلایا کہ یہ بھی باعث برکت ہے ۔ برکت بڑا وسیع المعنیٰ لفظ ہے ۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں اس حدیث اور کھانے میں برکت کے سلسلہ کی بعض دوسری احادیث کا حوالہ دے کر جو کچھ فرمایا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ کسی کھانے میں برکت ہونے کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ غذا کا جو اصل مقصد ہے وہ اچھی طرح حاصل ہو ، کھانا رغبت اور لذت کے ساتھ کھایا جائے ، طبیعت کو سیری نصیب ہو ، جی خوش ہو اور دلجمعی حاصل ہو اور تھوڑی سے مقدار کافی ہو اور اس سے صالح خون پیدا ہو کر جزو بدن بنے اور اس کا نفع دیرپا ہو ، پھر اس سے نفس کی طغیانی اور غفلت نہ پیدا ہو بلکہ شکر اور ا طاعت کی توفیق ملے ۔ دراصل یہ اس حقیقت کے آثار ہیں جس کو حدیث میں برکت کہا گیا ہے ، اور کنز العمال میں معجم اوسط طبرانی کے حوالے سے حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ “کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد ہاتھ منہ دھونا دافع فقر ہے اور انبیاء علیہم السلام کا طریقہ ہے” ۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی بالکل ظاہر ہے کہ صفائی اور اصولِ صحت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہاتھ اور منہ جو کھانے کے آلے ہیں ، کھانے سے پہلے بھی ان کو دھو کر اچھی طرح ان کی صفائی کر لی جائے ۔ اور پھر کھانے سے فارغ ہونے کے بعد بھی دھو کر صاف کر لیا جائے ۔ (1) حضرت سلمان فارسی کی اس حدیث میں بلکہ اس سلسلہ کی اکثر دوسری حدیثوں میں بھی ہاتھ اور منہ دھونے کے لئے “وضو” کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے اس سے وہ وضو مراد نہیں جو نماز کے لئے کیا جاتا ہے ، بلکہ بس ہاتھ منہ دھونا ہی مراد ہے ، دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ نماز کا وضو تو وہ ہے جو معلوم و معروف ہے اور کھانے کا وضو بس یہ ہے کہ ہاتھ اور منہ جو کھانے میں استعمال ہوتے ہیں ان کو دھو لیا جائے اور ان کی صفائی کر لی جائے ، بعض حدیثوں میں اس کی تصریح بھی ہے ۔
کھانے پینے کے آداب: کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جو کوئی رات کو اس حال میں سو جائے کہ اس کے ہاتھ میں کھانے کی چکنائی کا اثر اور اس کی بو ہو اور اس کی وجہ سے اسے کوئی گزند پہنچ جائے (مثلاً کوئی کیڑا کاٹ لے) تو وہ بس اپنے ہی کو ملامت کرے (اور اپنی ہی غلطی اور غفلت کا نتیجہ سمجھے) ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ) تشریح اس حدیث کا مدعا اور تقاضا یہی ہے کہ کھانے کے بعد خاص کر جب ہاتھ میں چکنائی وغیرہ کا اثر ہو تو ہاتھون کو اس طرح دھو لیا جائے کہ اس کا اثر باقی نہ رہے ۔ اور چونکہ یہ صرف استحبابی حکم ہے اس لئے خود رسول اللہ ﷺنے کبھی کبھی اس کے خلاف بھی عمل فرمایا جیسا کہ اگلی حدیث سے معلوم ہو گا ۔
کھانے کے بعد صرف ہاتھ پونچھ لینا
حضرت عبداللہ بن الحارث بن جزء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تھے ، کسی شخص نے آپ کی خدمت میں روٹی اور گوشت لا کر پیش کیا ، آپ ﷺ نے مسجد ہی میں تناول فرمایا اور ہم نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ کھایا ، پھر آپ ﷺ اور آپ کے ساتھ ہم بھی نماز کے لئے کھڑے ہو گئے اور (اس وقت) اس سے زیادہ ہم نے کچھ نہیں کیا کہ اپنے ہاتھ بس سنگریزوں سے پونچھ ڈالے (جو مسجد میں بچھے ہوئے تھے) ۔ (سنن ابن ماجہ) تشریح اس حدیث کے راوی حضرت عبداللہ بن الحارث کا مقصد اس واقعہ کے بیان کرنے سے بظاہر یہی ہے کہ کبھی کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اور آپ ﷺ کے ساتھ آپ کے اصحابِ کرام نے کھانا کھایا اور اس کے بعد ہاتھ نہیں دھوئے جیسا کہ شارحین حدیث نے لکھا ہے ۔ یہ بات قرین قیاس ہے کہ آپ ﷺ نے یہی بات ظاہر کرنے کے لئے (کہ کھانے کے بعد منہ ہاتھ دھونا کوئی فرض و واجب نہیں ہے اور اس کے بغیر نماز بھی پڑھی جا سکتی ہے) یہ عمل کیا ہو ۔ رسول اللہ ﷺ امت کو رخصت اور جواز کے حدود بتلانے کے لئے بسا اوقات اولی اور افضل کو ترک کر دیتے تھے اور معلم اور ہادی ہونے کی حیثیت سے ایسا کرنا آپ کے لئے ضروری تھا ۔ اس کے علاوہ یہ امر بھی قابل لحاظ ہے کہ یہ ظاہر واقعہ اس طرح پیش آیا کہ نماز کے لئے کھڑے ہونے کا وقت قریب تھا ، صحابہ کرام بھی نما زکے لئے مسجد میں آ چکے تھے ، اس وقت کوئی صاحب آپ کی خدمت میں کچھ کھانا روٹی اور گوشست لے آئے ممکن ہے بلکہ اغلب یہی ہے کہ حاضرین مسجد میں کچھ وہ بھی ہوں جو بھوک میں مبتلا ہوں اور ان کو کھانے کی اشتہا ہو ، ایسی صورت میں آپ ﷺ نے مناسب یہی سمجھا کہ کھانا نماز سے پہلے ہی کھا لیا جائے آپو نے صحابہ کرام کو بھی شریک فرما لیا ، ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں سب نے پیٹ بھر کر تو کھایا نہ ہو گا تبرک کے طور پر کم و بیش کچھ حصہ لے لیا ہو گا ۔ اس لئے ہاتھوں پر کھانے کا کچھ زیادہ اثر بھی نہ آیا ہو گا ۔ پھر یہ بھی ملحوظ رہے کہ مسجد شریف میں پانی کا کوئی انتظام نہیں تھا ، اگر اس وقت ہاتھ دھونا ضروری سمجھا جاتا تو لوگوں کو اپنے گھروں پر جانا پڑتا ۔ راقم السطور کا خیال ہے کہ ہاتھ نہ دھونے میں ان تمام باتوں کا کچھ نہ کچھ دخل ہو گا ۔ واللہ اعلم ۔ حدیث میں سنگریزوں اور کنکریوں سے ہاتھ صاف کرنے کا ذکر جس طرح کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ نے بھی اس وقت ایسا ہی کیا ، اس سے یہ بھی رہنمائی ملی کہ کھانا کھا کر تولیہ یا کاغذ یا کسی بھی ایسی چیز سے ہاتھ صاف کئے جا سکتے ہیں جس سے ہاتھوں کی صفائی ہو جائے اور ایسا کرنا بھی سنت کے دائرہ ہی میں ہو گا ۔
کھانے سے پہلے اللہ کو یاد کیا جائے اور اس کا نام لیا جائے
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی کھانا کھانے کا ارادہ کرے تو چاہئے کہ اللہ کا نام ہے (یعنی پہلے بسم اللہ پڑھے) اور اگر شروع میں بسم اللہ پڑھنا بھول جائے تو بعد میں کہہ لے : “بِسْمِ اللَّهِ أَوَّلَهُ وَآخِرَهُ” ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی) تشریح ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نام پاک لینا باعث برکت ہے ، اور جیسا کہ دوسری احادیث میں صراحۃً وارد ہوا ہے اس نام پاک کی یہ بھی ایک خاص تاثیر ہے کہ پھر شیاطین پاس نہیں آتے ، اس لئے وہ کھانا جس پر اللہ کا نام لیا جائے شیاطین کی شرکت اور ان کے شر سے محفوظ رہے گا ۔ اس کے علاوہ اس تعلیم و ہدایت کا یہ بھی ایک مقصد ہے کہ بندہ کے سامنے جب کھانا آئے تو اس حقیقیت کو یاد کر لے کہ یہ کھانا اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کا عطیہ ہے اور اسی کے کرم سے میں اس لائق ہوں کہ اس کو کھا سکوں اور اس سے لذت و فائدہ حاصل کر سکوں ۔ اس طرح کھانے کا عمل جو بظاہر ایک خالص مادی عمل ہے اور حیوانی تقاضے سے ہوتا ہے اس کی نسبت اللہ تعالیٰ سے جڑ جاتی ہے اور وہ ایک ربانی اور نورانی عمل بن جاتا ہے ۔ اور چونکہ کبھی ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ کھانا شروع کرتے وقت بندہ اللہ کا نام لینا اور بسم اللہ کہنا بھول جاتا ہے تو اس کے لئے رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں ارشاد فرمایا کہ ایسی صورت میں جب یاد آ جائے اسی وقت بندہ کہہ لے “بِسْمِ اللَّهِ أَوَّلَهُ وَآخِرَهُ” (میں اللہ کے نام سے برکت حاصل کرتا ہوں ، شروع میں بھی اور آخر میں بھی) ۔
کھانے سے پہلے اللہ کو یاد کیا جائے اور اس کا نام لیا جائے
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : شیطان اپنے لئے کھانے کو جائز کر لیتا ہے (یعنی اس کے لئے کھانے میں شرکت اور حصہ داری کا امکان اور جواز پیدا ہو جاتا ہے) جب کہ اس کھانے پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو ۔ (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ اللہ کا نام شیطان کے لئے تازیانہ بلکہ گرز ہے جب کسی کھانے پر اللہ کا نام لیا جائے گا اور بسم اللہ پڑھ کے کھانا شروع کیا جائے گا تو شیطان اس میں شریک نہ ہو سکے گا لیکن جب کسی کھانے پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اور کھانا یونہی شروع کر دیا جائے تو پھر شیطان کے لئے کوئی رکاوٹ نہ ہو گی ، اگرچہ کھانے والے کی آنکھ نہ دیکھ سکے گی مگر شیطان اس کے ساتھ کھانے میں شریک ہو گا ۔ حیح مسلم ہی کی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جب کوئی آدمی اپنے گھر میں جہاں وہ رات کو رہتا اور سوتا ہے اللہ کا نام لے کر داخل ہوتا ہے اور پھر کھانے کے وقت بھی اللہ کا نام لیتا ہے تو شیطان اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے کہ یہاں سے چل دو یہاں ہمارے تمہارے لئے نہ رہنے کا ٹھکانا ہے نہ کھانے کا سامان ہے ۔ اور اس کے برعکس جب کوئی آدمی اپنے گھر میں آ کر اللہ کا نام نہیں لیتا اور کھانے کے وقت بھی اللہ کو یاد نہیں کرتا تو شیطان اپنے رفیقوں سے کہتا ہے کہ آ جاؤ یہاں تمہارے لئے آرام سے شب باشی کی جگہ بھی ہے اور راشن کھانا بھی ۔ الغرض اللہ کا نام پاک شیطانوں کے لئے ایسی ضرب کاری ہے جس کا وہ کوئی مقابلہ نہیں کر سکتے بالکل اسی طرح جس طرح اندھیرا آفتاب کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ یہاں اس ایمانی حقیقت کو ذہن میں تازہ کر لینا چاہئے کہ ملائکہ اور شیاطین کا وجود اور ان کے افعال و صفات ان امور غیب میں سے ہیں جن کا علم ہم بندے اپنے طور پر اپنے حواس آنکھ کان وغیرہ کے ذریعہ حاصل نہیں کر سکتے ۔ خود خدا کی ذات و صفات کا حال بھی یہی ہے مومن کا مقام یہ ہے کہ ان تمام غیبی حقائق کے بارے میں بس اللہ کے صادق و مصدوق پیغمبر کے بیان پر اعتماد کرے ۔
کھانا داہنے ہاتھ اور اپنے سامنے سے کھایا جائے
حضرت عمر بن ابی سلمہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں (بچپن میں) رسول اللہ ﷺ کی آغوش شفقت میں پرورش پا رہا تھا تو (کھانے کے وقت)میرا ہاتھ پلیٹ میں ہر طرف چلتا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے نصیحت فرمائی کہ (کھانے سے پہلے) بسم اللہ پڑھا کرو اور اپنے داہنے ہاتھ سے اور اپنے سامنے ہی سے کھایا کرو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح ابو سلمہ رضی اللہ عنہرسول اللہ ﷺ کے پھوپی زاد بھائی اور سابقین اولین میں سے تھے ، ام سلمہ رضی اللہ عنہا ان کی بیوی تھیں اور بڑی مخلص مومنہ تھیں ، حدیث کے راوی عمر بن ابی سلمہ انہی کے بیٹے تھے ۔ ۳ھ یا ۴ھ میں ابو سلمہ رضی اللہ عنہ وفات پائی تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی بیوہ ام سلمہ سے ان کی دلداری کے لئے نکاح کر لیا ، ان کے یہ بیٹے عمر بن ابی سلمہؓ جو اس وقت کم عمر بچے تھے آپ ﷺ کی آغوش تربیت میں آ گئے ، وہ بیان کرتے ہیںٰ کہ بچپنے میں اس مانہ میں جب رسول اللہ ﷺ مجھے اپنے ساتھ ایک ہی پلیٹ میں کھانا کھلاتے تو میرا ہاتھ پلیٹ میں ہر طرف چلتا ، تو حضور ﷺ نے مجھے بتلایا اور سکھایا کہ بسم اللہ پڑھ کے کھانا کھایا کرو ، اور داہنے ہاتھ سے کھاؤ اور اپنی طرف سے اور اپنے سامنے سے کھایا کرو ۔ (دوسری بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر سامنے مختلف الانواع کھانے یا مختلف قسم کے پھل ہوں تو ہر طرف ہاتھ بڑھانے کی اجازت ہے) ۔
کھانا داہنے ہاتھ اور اپنے سامنے سے کھایا جائے
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی کچھ کھائے تو داہنے ہاتھ سے کھائے اور جب کچھ پئیے تو داہنے ہاتھ سے پئیے ۔ (صحیح مسلم) تشریح انسان اپنے ہاتھوں کو پاک و ناپاک ہر قسم کے کاموں اور چیزوں میں استعمال کرتا ہے ، اس لئے اس کی فطری طہارت پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ نجاست و گندگی کی صفائی جیسے کاموں کے لئے ایک ہاتھ کو مخصوص کر دیا جائے اور دوسرے کاموں میں دوسرا ہاتھ استعمال ہو ۔ اس فطری تقاضے کے مطابق دفع نجاست وغیرہ کے لئے بایاں ہاتھ مخصوص کر دیا گیا ہے اور باقی کھانے پینے وغیرہ دوسرے سارے اچھے اور پاکیزہ کاموں کے بارے میں حکم ہے کہ وہ داہنے ہاتھ سے انجام دئیے جائیں ۔ اور خلقی اور فطری لحاظ سے بائیں ہاتھ کے مقابلے میں داہنے ہاتھ کی فضیلت اور برتری ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے ۔ لہذا یہ حکم اور یہ تقسیم بالکل فطرت کے بھی مطابق ہے ۔ اس بناء پر بائیں ہاتھ سے کھانا بالکل ایسی الٹی بات ہے کہ کوئی آدمی بجائے پاؤں کے سر کے بل چلے ، اسی لئے آگے درج ہونے والی حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ بائیں ہاتھ سے کھانا شیطان کا طریقہ اور اس کا عمل ہے کیوں کہ شیطان کی فطرت یہی ہے کہ ہر کام الٹا کرے ۔
کھانا داہنے ہاتھ اور اپنے سامنے سے کھایا جائے
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی نہ بائیں ہاتھ سے کھائے اور نہ اس سے پئیے ۔ کیوں کہ (یہ شیطانی طریقہ ہے) وہ بائیں ہاتھ سے کھاتا پیتا ہے ۔ (صحیح مسلم)
جوتا اُتار کے کھانے میں زیادہ راحت ہے
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کھانا سامنے رکھ دی اجائے تو اپنے جوتے اُتار دیا کرو اس سے تمہارے پاؤں کو زیادہ راحت ملے گی ۔ (مسند دارمی) تشریح اس حدیث میں کھانے کے وقت جوتا اتار دینے کا حکم دیتے ہوئے اس کی جو حکمت اور مصلحت بیان فرمائی ہے (کہ اس سے پاؤں کو زیادہ آرام ملے گا) اس سے یہ بات ظاہر ہے کہ یہ حکم شفقت کی بناء پر دیا گیا ہے ، ایسا نہیں ہے کہ جوتا پہنے کھانا کوئی گناہ کی بات ہو ۔
کھانا زیادہ گرم نہ کھایا جائے
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کا یہ طریقہ تھا کہ جب ثرید پکا کر ان کے پاس لائی جاتی تو وہ ان کے حکم سے اس وقت تک ڈھکی رہتی کہ اس کی گرمی کا جوش اور تیزی ختم ہو جاتی (اس کے بعد وہ کھائی جاتی) اور (اپنے اس طرزِ عمل کی سند میں) وہ فرمایا کرتی تھیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ اس طرح (کچھ ٹھنڈا کر کے) کھانا زیادہ برکت کا باعث ہوتا ہے ۔ (مسند دارمی) تشریح ثرید ایک معروف و مرغوب کھانا ہے ، جس کا عہد نبویﷺ میں زیادہ رواج تھا ، ایک خاص طریقے سے گوشت کے ساتھ روٹی کے ٹکڑے پکا کر تیار کیا جاتا تھا ۔ اس روایت میں اگرچہ خاص ثرید کا ذکر ہے (کیوں کہ وہاں وہی زیادہ پکتا تھا) لیکن ظاہر ہے کہ حدیثِ پاک میں جو تعلیم دی گئی ہے وہ ہر پکے ہوئے کھانے اے متعلق ہے کہ زیادہ گرم نہ کھایا جائے ۔ اس کو موجب برکت بتلایا گیا ہے ۔ جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے کہ برکت کے مفہوم میں یہ بھی شامل ہے کہ غذا کا جو مقصد ہے وہ اس طرح کھانے سے بہتر طریقہ پر حاصل ہوتا ہے ۔ اصولِ طب کا تقاضا بھی یہی ہے کہ کھانا زیادہ گرم نہ کھایا جائے ۔ کنز العمال میں مختلف کتب حدیث کے حوالے سے متعدد صحابہ کرام کی روایت سے مختلف الفاظ میں رسول اللہ ﷺ کی یہ ہدایت روایت کی گئی ہے کہ کھانا ٹھنڈا کر کے کھایا جائے ۔ اس میں برکت ہے ۔ (کنز العمال ص ۳ ، ۸ ، ج ۸)
ساتھ کھانے میں برکت ہے
حضرت وحشی بن حرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کے بعض صحابہ نے عرض کیا کہ ہمارا حال یہ ہے کہ کھانا کھاتے ہیں اور آسودگی حاصل نہیں ہوتی ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ : شاید تم لوگ الگ الگ کھاتے ہو ؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہاں ، الگ الگ کھاتے ہیں ! آپ ﷺ نے فرمایا کہ : تم کھانے پر ایک ساتھ بیٹھا کرو ! اور اللہ کا نام لے کر یعنی بسم اللہ کر کے (اجتماعی طور پر) کھایا کرو ، تمہارے واسطے اس کھانے میں برکت ہو گی (اور طبیعت کو سیری حاصل ہو جایا کرے گی) ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح اجتماعی طور پر کھانے کی یہ برکت جس کا اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے اس کا ہر ایک تجربہ کر سکتا ہے بشرطیکہ کھانے والوں میں ایثار کی صفت ہو ، جو ہر سچے مسلمان میں ہونی چاہئے یعنی ہر ایک یہ چاہے کہ میرے دوسرے ساتھی اچھا کھا لیں اور اچھی طرح کھا لیں ، اگر کھانے والوں میں یہ بات نہ ہو تو پھر اس برکت کا کوئی استحقاق نہیں ہے ، بلکہ اس صورت میں اندیشہ ہے کہ اکثر و بیشتر تجربہ اس کے برعکس ہو ۔ آگے درج ہونے والی حدیث کو بھی اسی روشنی میں سمجھنا چاہئے ۔
ساتھ کھانے میں برکت ہے
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ فرماتے تھے ایک کا کھانا دو کے لئے کافی ہو جاتا ہے ، اور دو کا کھانا چار کے لئے اور اسی طرح چار کا کھانا آٹھ کے لئے کافی ہو جاتا ہے ۔ (صحیح مسلم) کتبِ حدیث میں اس مضمون کی حدیثیں اور بھی بعض متعدد صحابہ کرام سے مروی ہیں ۔ تشریح کنز العمال میں معجم کبیر طبرانی کے حوالے سے اسی مضمون کی حدیث قریب قریب انہی الفاظ میں حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے اس کے آخر میں یہ اضافہ بھی ہے “فَاجْتَمعُوْا عَلَيْهِ وَلَا تَفَرَّقُوْا” (لہذا تم کو چاہئے کہ الگ الگ نہ کھایا کرو ، بلکہ جُڑ کے ساتھ کھایا کرو) ۔ اس اضافہ سے معلوم ہوا کہ جن حدیثوں میں یہ فرمایا گیا ہے کہ “ایک کا کھانا دو کے لئے اور دو کا چار کے لئے اور چار کا آٹھ کے لئے کافی ہو جاتا ہے ۔” ان کا مقصد و مدعا بھی یہی ہے کہ لوگ اجتماعی طور پر ایک ساتھ کھایا کریں اور اس کی برکت سے فائدہ اٹھائیں لیکن شرط وہی ہے جو اوپر مذکور ہوئی ۔ کھانا برتن کے اطراف اور کناروں سے کھایا جائے ، بیچ میں ہاتھ میں نہ ڈالا جائے
ساتھ کھانے میں برکت ہے
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ثرید سے بھری ہوئی ایک لگن آئی ، آپ ﷺ نے (لوگوں کو اس میں شریک فرما لیا اور فرمایا کہ اس کے اطراف سے کھاؤ اور بیچ میں ہاتھ نہ ڈالو ، کیوں کہ برکت بیچ میں نازل ہوتی ہے ۔ (جامع ترمذی) اور سنن ابی داؤد کی روایت میں ثرید آنے کا مذکورہ بالا ذکر کئے بغیر رسول اللہ ﷺ کا صرف یہ ارشاد روایت کیا گیا ہے : «إِذَا أَكَلَ أَحَدُكُمْ طَعَامًا فَلَا يَأْكُلْ مِنْ أَعْلَى الصَّحْفَةِ، وَلَكِنْ لِيَأْكُلْ مِنْ أَسْفَلِهَا، فَإِنَّ الْبَرَكَةَ تَنْزِلُ مِنْ أَعْلَاهَا» جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو اسے چاہئے کہ طباق کے بالائی حصہ سے (یعنی بیچ سے) نہ کھائے بلکہ نیچے والے حصے سے (یعنی کنارہ سے) کھائے کیوں کہ برکت بالائی حصہ سے اترتی ہے ۔ تشریح ابھی اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ برکت دراصل ایک امر الٰہی ہے ، رسول اللہ ﷺ کو اس کا ادراک ہوتا تھا اور آپ ﷺ محسوس فرماتے تھے کہ برکت براہِ راست کھانے کے وسط میں نازل ہوتی ہے ، اور پھر اس کے اثرات اطراف و جوانب کی طرف آتے ہیں ۔ اس لئے آپ ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ کھانے والے برتن کے کناروں سے کھاتے رہیں بیچ میں ہاتھ نہ ڈالیں ۔ کھانے وغیرہ میں برکتیں نازل ہونے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا قانون وہی ہے جو پہلے تھا لیکن یقین اور استحقاق شرط ہے ۔
جو کھانا انگلیوں میں یا برتن میں لگا رہ جائے اس کی بھی قدر کی جائے
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ کھانے کے بعد انگلیوں کو چاٹ لیا جائے اور برتن کو بھی صاف کر لیا جائے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ : تم کو معلوم نہیں کہ کھانے کے کس ذرہ اور جز میں برکت کا خاص اثر ہے ۔ (صحیح مسلم) تشریح رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ کھانا عطیہ خداوندی ہے اس کے ایک ایک ذرہ کی قدر کی جائے اور کچھ معلوم نہیں کہ کس جز میں اللہ تعالیٰ نے خاص برکت اور خصوصی نافعیت رکھی ہے ، اس لئے کھانے کے جو اجزاء انگلیوں پر لگے رہ جائیں ان کو چاٹ کر صاف کر لیا جائے ۔ اسی طرح جو کچھ برتن میں لگا رہ جائے اس کو بھی اللہ کا رزق سمجھ کر صاف کر لیا جائے ۔ اس میں اللہ کے رزق کی قدردانی بھی ہے اور ربِ کریم کے سامنے اپنے عمل سے اپنی محتاجی کا اظہار بھی ۔ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کیا تھا ۔ رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ پروردگار ! تو جو کچھ مجھے عطا فرمائے میں اس کا محتاج ہوں ۔
جو کھانا انگلیوں میں یا برتن میں لگا رہ جائے اس کی بھی قدر کی جائے
حضرت نبیشہ ہذلی رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺسے روایت کرتے ہیں کہ : آپ ﷺ نے فرمایا : جو کوئی قصعہ (طباق یا لگن) میں کھائے اور اس کو بالکل صاف کر دے (کہ اس میں کچھ لگا نہ جائے) تو وہ قصعہ اس آدمی کے حق میں مغفرت کی دعا کرتا ہے ۔ (مسند احمد، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ ، مسند دارمی)
گرا ہوا لقمہ بھی اُٹھا کر کھا لیا جائے
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ : “تمہارے ہر کام کے وقت ، یہاں تک کہ کھانے کے وقت بھی ، شیطان تم میں سے ہر ایک کے ساتھ رہتا ہے ، (لہذا جب کھانا کھاتے وقت)” کسی کے ہاتھ سے لقمہ گر جائے تو اسے چاہئے کہ اس کو صاف کر کے کھالے اور شیطان کے لئے چھوڑ نہ دے ۔ پھر جب کھانے سے فارغ ہو تو اپنی انگلیوں کو بھی چاٹ لے کیوں کہ وہ نہیں جانتا کہ کھانے کے کس جز میں خاص برکت ہے ۔ (صحیح مسلم) تشریح حدیث کے آخری حصہ میں تو کھانے کے بعد انگلیوں کو چاٹ کر صاف کر لینے کی ہدایت فرمائی گئی ہے جس کے بارے میں ابھی اوپر عرض کیا جا چکا ہے ۔ اور ابتدائی حصہ میں فرمایا گیا ہے کہ اگر کھاتے وقت کسی کے ہاتھ سے لقمہ گر جائے تو اس کو مستغنی اور متکبر لوگوں کی طرح نہ چھوڑ دے ، بلکہ ضرورت مند اور قدردان بندہ کی طرح اس کو اُٹھا لے ، اور اگر نیچے گر جانے کی وجہ سے اس پر کچھ لگ گیا ہو تو صاف کر کے اس لقمہ کو کھا لے ۔ اس میں مزید یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ کھانے کے وقت بھی شیطان ساتھ ہوتا ہے اگر گرا ہوا لقمہ چھوڑ دیا جائے گا تو وہ شیطان کے حصہ میں آئے گا ۔ جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے فرشتے اور شیاطین اللہ کی وہ مخلوق ہیں جو یقیناً اکثر اوقات میں ہمارے ساتھ رہتے ہیں لیکن ہم ان کو دیکھ نہیں سکتے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے بارے میں جو کچھ بتلایا ہے اللہ تعالیٰ کے بخشے ہوئے علم سے بتلایا ہے اور وہ بالکل حق ہے اور آپ ﷺ کو کبھی کبھی ان کا اس طرح مشاہدہ بھی ہوتا تھا ، جس طرح ہم اس دنیا کی مادی چیزوں کو دیکھتے ہیں (جیسا کہ بہت سے احادیث سے معلوم ہوتا ہے) اس لئے ایسی حدیثوں کو جن میں مثلاً کھانے کے وقت شیاطین کے ساتھ ہونے اور کھانے پر اللہ کا نام نہ لیا جائے تو اس میں شیاطین کے شریک ہو جانے یا گرے ہوئے لقمہ کا شیطان کا حصہ ہو جانے کا ذکر ہے تو ان حدیثوں کو مجاز پر محمول کرنے کی بالکل ضرورت نہیں ۔ حضرت شاہ ولی اللہ نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے “حجۃ اللہ البالغہ” میں یہ واقعہ بیان فرمایا ہے ۔ کہ ایک دن ہمارے ایک دوست (شاگرد یا مرید) ہمارے ہاں آئے ، ان کے لئے کھانا لایا گیا ، وہ کھا رہے تھے کہ ان کے ہاتھ سے ایک ٹکڑا گر گیا اور لڑھک کر زمین میں چلا گیا ، انہوں نے اس کو اٹھا لینے کی کوشش کی اور اس کا پیچھا کیا مگر وہ ان سے اور دور ہوتا چلا گیا ، یہاں تک کہ جو لوگ وہاں موجود تھے (اور اس تماشے کو دیکھ رہے تھے) انہیں اس پر تعجب ہوا ، اور وہ صاحب جو کھانا کھا رہے تھے انہوں نے جدوجہد کر کے (آخر کار) اس کو پکڑ لیا اور نوالہ بنا لیا ۔ چند روز کے بعد کسی آدمی پر ایک جنی شیطان مسلط ہو گیا اور اس آدمی کی زبان سے باتیں کیں اور (ہمارے اس مہمان دوست کا نام لے کر) یہ بھی کہا کہ فلاں آدمی کھانا کھا رہا تھا ، میں اس کے پاس پہنچا ، مجھے اس کا کھانا بہت اچھا معلوم ہوا مگر اس نے مجھے نہیں کھلایا ۔ تو میں نے اس کے ہاتھ سے اُچک لیا (اور گرا دیا) لیکن اس نے مجھ سے پھر چھین لیا ۔ اسی سلسلہ میں دوسرا واقعہ اپنے گھر ہی کا شاہ صاحبؒ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ ، ایک دفعہ ہمارے گھر کے کچھ لوگ گاجریں کھا رہے تھے ۔ ایک گاجر ان میں سے گر گئی ، ایک آدمی اس پر جھپٹا اور اس نے جلدی سے اُٹھا کر اس کو کھا لیا ، تھوڑی ہی دیر بعد اس کے پیٹ اور سینہ میں سخت درد اُٹھا ، پھر اس پر شیطان یعنی جن کا اثر ہو گیا تو اس نے اس آدمی کی زبان میں بتایا کہ اس آدمی نے میری گاجر اُٹھا کر کھا لی تھی ۔ یہ واقعات بیان فرمانے کے بعد شاہ صاحبؒ نے لکھا ہے کہ : اس طرح کے واقعات ہم نے بکثرت سنے بھی ہیں اور ان سے ہمیں معلوم ہو گیا کہ یہ احادیث (جن میں کھانے پینے کے سلسلہ میں شیاطین کی شرکت اور ان کے افعال و تصرفات کا ذکر آیا ہے) مجاز کے قبیلہ سے نہیں ہیں ، بلکہ جو کچھ بتلایا گیا ہے وہی حقیقت ہے ۔ واللہ اعلم ۔
اگر کھانے میں مکھی گر جائے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جب کسی کے کھانے پینے کے برتن میں مکھی گر جائے تو اس کو غوطہ دے کر نکال دو ، کیونکہ اس کے دو بازوؤں میں سے ایک میں بیماری (پیدا کرنے والا مادہ) ہوتا ہے اور دوسرے میں (اس بیماری کے اثر کو (دفع کر کے) شفا دینے والا مادہ ہوتا ہے ، اور وہ اپنے اس بازو سے جس میں بیماری والا مادہ ہوتا ہے بچاؤ کرتی ہے ، (یعنی جب کسی چیز میں گرتی ہے تو اس کے بل گرتی ہے اور دوسرے بازو کا بچانا چاہتی ہے) تو کھانے والے کو چاہئے کہ مکھی کو غوطہ دے کر نکال دے ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح یہ ان حدیثودں میں سے ہے جو اس زمانے میں بہت سے لوگوں کے لئے ایمان کی آزمائش کا سبب بن جاتی ہیں ، حالانکہ اگر فطرت کے اسرار و حکمت کے اصولوں اور تجربوں کی روشنی میں غور کیا جائے تو اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو خلاف قیاس یا مستبعد ہو ، بلکہ جو کچھ فرمایا گیا ہے وہ دراصل حکمت ہی کی بات ہے ۔ یہ ایک معلوم و مسلم حقیقت ہے کہ بہت سے دوسرے حشرات الارض کی طرح مکھی میں بھی ایسا مادہ ہوتا ہے جس سے بیماری پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہر جانور کی فطرت اور طبیعت میں یہ بات رکھی ہے کہ اس کے اندر جو خراب اور زہریلے مادے پیدا ہوتے ہیں طبیعت مدّبرہ ان کو خارجی اعضاء کی طرف پھینک دیتی ہے ۔ اس لئے بالکل قرین قیاس ہے کہ مکھی کے اندر کے اس طرح کے فاسد مادہ کو اس کی طبیعت اس کے بازو کی طرف پھینک دیتی ہو ، کیوں کہ وہی اس کا خارجی عضو ہے اور دونوں بازوؤں میں سے بھی خاص اس بازو کی طرف پھینکتی ہو جو نسبتاً کمزور اور کم کام دینے والا ہو ، (جس طرح ہمارے داہنے ہاتھ کے مقابلہ میں بایاں ہاتھ) اور ہر جانور کی یہ بھی فطرت ہے کہ جب اس کو کوئی خطرہ پیش آئے تو وہ زیادہ کام آنے والے اعلیٰ و اشرف عضو کو اس سے بچانے کی کوشش کرے ، اس لئے یہ بھی قرین قیاس ہے کہ مکھی جب گرے تو اس بازو کو بچانے کی کوشش کرے جو خراب مادہ سے محفوظ اور نسبتاً اشرف ہو ۔ اور جن لوگوں نے اللہ کی مخلوق کے احوال اور ان کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کے عجائبات پر غور کیا ہے ۔ انہوں نے اکثر یہ دیکھا ہے کہ جہاں بیماری کا سامان ہے وہیں اس کے علاج کا بھی سامان ہے ۔ اس لئے یہ بھی بالکل قرین قیاس ہے کہ مکھی کے اگر ایک بازو میں کوئی مضر اور زہریلا مادہ تو دوسرے بازو میںٰ اس کا تریاق اور شفاء کا مادہ ہو ۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ کی یہ تعلیم بالکل اصولِ حکمت کے مطابق ہے ۔ بلکہ دراصل آپ ﷺ کی اس ہدایت کا تعلق دوسری بہت ہدایات کی طرح تحفظِ صحت کے باب سے ہے ، اس بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ جو کچھ اس حدیث میں فرمایا گیا ہے وہ کوئی فرض یا واجب نہیں ہے جس پر عمل نہ کرنا معصیت کی بات ہو ، بلکہ ایک طرح کی طبی رہنمائی ہے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔ (ان سطور میں حدیث کی تشریح کے سلسلہ میں جو کچھ عرض کیا گیا ہے وہ بھی بنیادی طور پر “حجۃ اللہ البالغہ” ہی سے ماخوذ ہے) ۔
کھانے کے معاملہ میں حضور ﷺ کی شانِ بندگی
حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : میں ٹیک لگا کر یا کسی چیز کے سہارے بیٹھ کر کھانا نہیں کھاتا ۔ (صحیح بخاری) تشریح ٹیک لگا کر بلاضرورت کسی چیز کا سہارا لے کر کھانے کے لئے بیٹھنا متکبرانہ طریقہ ہے ، حدیث پاک کا مطلب یہی ہے کہ میں متکبرین کی طرح تکیہ وغیرہ لگا کر کھانا نہیں کھاتا اور اس کو پسند نہیں کرتا ، میں اللہ کا بندہ ہوں اور کھانا بھی اسی طرح کھاتا ہوں جس طرح ایک بندہ کو کھانا چاہئے ۔ کنزالعمال میں مسند ابو یعلیٰ اور ابن سعد کے حوالے سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث ان الفاظ میں نقل کی گئی ہے ۔ آكُلُ كَمَا يَأْكُلُ الْعَبْدُ، وَأَجْلِسُ كَمَا يَجْلِسُ الْعَبْدُ میں ایک غلام اور بندہ کی طرح کھاتا ہوں اور غلام اور بندہ کی طرح بیٹھتا ہوں ۔ قریب قریب یہی مضمون دیگر صحابہ کرام کی روایات کا بھی ہے ۔ ان سب احادیث و روایات کا حاصل اور مدعا یہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کھانے کے لئے ایک عاجز بندہ کی طرح بیٹھتے تھے ، متکبرین کی طرح نہیں بیٹھتے تھے ، اور یہی آپ ﷺ کی تعلیم تھی ۔ اور جو بندہ کھانے کے وقت اس حقیقت سے غافل نہ ہو گا کہ کھانا اللہ تعالیٰ کی نعمت اور (اس کا عطیہ ہے اور وہ ربِ کریم حاضر و ناظر ہے اور میں اس کے سامنے اس کی نگاہ میں ہوں ، وہ کبھی متکبروں کی طرح نہیں بیٹھے گا اور متکبروں کی طرح نہیں کھائے گا) ۔
کھانے کے معاملہ میں حضور ﷺ کی شانِ بندگی
حضرت قتادہ نے رسول اللہ ﷺ کے خادم حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی خوان پر کھانا نہیں کھایا اور نہ چھوٹی طشتری یا پیالی میں کھایا اور نہ کبھی آپ کے لئے چپاتی پکائی گئی ۔ قتادہ سے پوچھا گیا تو پھر (رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے اصحاب کرامؓ) کس چیز پر کھانا کھایا کرتے تھے ، تو انہوں نے کہا کہ دسترخوان پر ۔ (صحیح بخاری) تشریح خُوان (جس کا ترجمہ خوان کیا گیا ہے) ایک چوکی یا نیچی قسم کی میز ہوتی تھی جو کھانے ہی میں استعمال ہوتی تھی ، بڑے لوگ (مترفین) اسی پر کھانا کھاتے تھے اور نیچے فرش پر دسترخوان بچھا کر کھانے کو بڑائی اور امارت کی شان کے خلاف سمجھا جاتا تھا ۔ اسی طرح امیر لوگوں کے دسترخوان پر سکرجہ یعنی چھوٹی چھوٹی طشتریاں اور پیالیاں ہوتی تھیں ۔ خود صحابہ کرامؓ کے آخری دور میں یہ چیزیں خود مسلمان گھرانوں میں بہت عام ہو گئی تھیں ۔ حضرت انسؓ کی اس حدیث کا مطلب و مدعا بھی بس یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے کھانے میں نہایت سادگی اور بندگی کی شان ہوتی تھی ، نہ آپ ﷺ نے کبھی خوان پر کھانا کھایا ، نہ چھوٹی طشتریوں اور پیالیوں میں کھایا ، نہ کبھی خاص طور سے آپ ﷺ کے لئیے گھر میں چپزتیاں بنائی گئیں ۔ اس سلسلہ معارف الحدیث کی دوسری جلد “کتاب الرقاق” میں وہ حدیثیں گزر چکی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی معیشت کس قدر سادہ اور غریبانہ بلکہ فقیرانہ تھی ۔
سونے چاندی کے برتنوں میں کھانے پینے کی ممانعت
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے اور چاندی کے برتن میں کھانے سے منع فرمایا ہے ۔ (سنن نسائی) تشریح سونے چاندی کے برتنوں میں کھانا پینا دراصل اپنی دولت مندی اور سرمایہ داری کی بےجا نمائش اور ایک طرح کا استکبار ہے ، اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے اس کی ممانعت فرمائی ہے ۔ اور صحیحین کی ایک حدیث میں یہاں تک ہے کہ جو شخص سونے یا چاندی کے برتنوں میں کھاتا پیتا ہے تو گویا وہ جہنم کی آگ اپنے پیٹ میں داخل کر رہا ہے ۔ اَللَّهُمَّ احْفَظْنَا
آنحضرتﷺ کسی کھانے کو برا نہیں بتاتے تھے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی کسی کھانے میں عیب نہیں نکالا (یعنی یہ نہیں فرمایا کہ اس میں یہ خرابی یا یہ عیب اور نقص ہے) اگر مرغوب ہوا تو تناول فرما لیا اور نامرغوب ہوا تو نہ کھایا چھوڑ دیا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
آپ ﷺ کو کھانے میں کیا چیزیں مرغوب تھیں
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک درزی نے رسول اللہ ﷺ کھانے پر مدعو کیا جو اس نے تیار کیا تھا تو میں بھی آپ ﷺ کے ساتھ چلا گیا (غالبا خادم کی حیثیت سے ان کو بھی مدعو کیا گیا ہو گا) تو اس نے جو کی روٹی اور شوربا حاضر کیا جس میں لوکی کےقتلے تھے اور سکھائے ہوئے گوشت کی بوٹیاں تھیں ، میں نے دیکھا کہ آنحضرتﷺ لوگی کی قتلے پیالے کی اطراف سے چن چن کر تناول فرماتے ہیں ، تو اس دن سے لوکی مجھے بھی مرغوب اور محبوب ہو گئی ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
آپ ﷺ کو کھانے میں کیا چیزیں مرغوب تھیں
حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کچی تر کھجوریں کھیرے کے ساتھ تناول فرماتے ہوئے دیکھا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
آپ ﷺ کو کھانے میں کیا چیزیں مرغوب تھیں
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ خربوزہ اور کچی تر کھجوریں ایک ساتھ کھاتے تھے اور فرماتے تھے کہ ان کھجوروں کی گرمی کا توڑ اس خربوزہ کی ٹھنڈک سے ہو جاتا ہے اور خربوزہ کی ٹھنڈک کا توڑ کھجوروں کی گرمی سے ہو جاتا ہے ۔ (سنن ابی داؤد)
آپ ﷺ کو کھانے میں کیا چیزیں مرغوب تھیں
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو روٹی (اور گوشت کے شوربے) سے بنی ہوئی ثرید اور میدہ والی ثرید (یعنی روٹی ، کھجور اور گھی کا ملیدہ یہ دونوں چیزیں زیادہ مرغوب تھیں) ۔ (سنن ابی داؤد)
آپ ﷺ کو کھانے میں کیا چیزیں مرغوب تھیں
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ میٹھی چیز اور شہد پسند فرماتے تھے ۔ (صحیح بخاری) تشریح “حلوا” عربی میں ہر میٹھی چیز اور میٹھے کھانے کو کہتے ہیں حدیث کا مطلب یہ ہے کہ رسول ﷺ کر ہر میٹھی چیز اور خاص کر شہد مرغوب تھا ۔
کھانے کے بعد اللہ کی حمد اور اس کا شکر
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کے اس عمل سے بڑا خوش ہوتا ہے کہ وہ کچھ کھائے اور اس پر اللہ کی حمد اور اس کا شکر کرے یا کچھ پئیے اور اس پر اس کی حمد اور شکر ادا کرے ۔ (صحیح مسلم)
کھانے کے بعد اللہ کی حمد اور اس کا شکر
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کھانے سے فارغ ہوتے تو اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا شکر ادا کرتے ہوئے کہتے الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنَا، وَسَقَانَا، وَجَعَلَنَا مُسْلِمِينَ ساری حمد و ستائش اس اللہ پاک کے لئے جس نے ہمیں کھلایا ، پلایا اور مسلمان بنایا ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی) تشریح جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کھانے سے پہلے بسم اللہ اور آخر میں اللہ کی حمد اور اس کا شکر کھانے کے عمل کو جو بظاہر خالص مادی عمل اور ایک بشری تقاضا ہے ، نورانی اور روحانی بنا دیتا ہے ، اور اس پر خدا پرستی اور عبادت کا رنگ چڑھ جاتا ہے ۔ اسی سلسلہ معارف الحدیث کی جلد پنجم میں کھانے سے فراغت کے بعد کی وہ متعدد دعائیں درج کی جا چکی ہیں جو کتب حدیث میں رسول اللہ ﷺ سے مروی ہیں ۔ اس لئے یہاں صرف ایک ہی دعا پر اکتفا کیا جاتا ہے ۔
پینے کے آداب
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لاَ تَشْرَبُوا وَاحِدًا كَشُرْبِ البَعِيرِ، وَلَكِنْ اشْرَبُوا مَثْنَى وَثُلاَثَ، وَسَمُّوا إِذَا أَنْتُمْ شَرِبْتُمْ، وَاحْمَدُوا إِذَا أَنْتُمْ رَفَعْتُمْ. (رواه الترمذى) تشریح حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم اونٹ کی طرح ایک سانس میں نہ پیا کرو بلکہ دو دو یا تین تین سانس میں پیا کرو ، اور جب تم پینے لگو تو بسم اللہ پڑھ کے پیئو اور جب پی چکو اور برتن منہ سے ہٹاؤ تو اللہ کی حمد اور اس کا شکر کرو ۔ (جامع ترمذی)
پینے کے آداب
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ پینے میں تین دفعہ سانس لیتے تھے ۔ (صحیح بخاری) (اور صحیح مسلم کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ آپ ﷺ فرماتے تھے کہ اس طرح درمیان میں سانس لے لے کر پینے سے زیادہ سیرابی حاصل ہوتی ہے اور یہ زیادہ صحت بخش اور معدہ کے لئے زیادہ خوشگوار ہے) ۔ تشریح اس حدیث میں سانس توڑ توڑ کے پینے کی جو حکمت بیان فرمائی گئی ہے وہ اس بات کا قرینہ ہے کہ یہ حکم طبی مصلحت کی بناء پ۴ دیا گیا ہے ، ایسا نہیں ہے کہ ایک سانس میں پینا کوئی گناہ ہو ، ہاں وہ ناپسندیدہ اور نامناسب ہے ۔ واللہ اعلم ۔
پینے کے برتن میں نہ سانس لیا جائے نہ پھونکا جائے
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پینے کے برتن میں سانس لینے یا پھونک مارنے سے منع فرمایا ہے ۔ (سنن ابی داؤد و ابن ماجہ) تشریح بعض لوگ برتن سے پا نی پیتے پیتے اسی میں سانس لیتے ہیں ، اس حدیث میں اس سے بھی منع فرمایا گیا ہے ، اور اس کی بھی ممانعت کی گئی ہے کہ برتن میں پھونک ماری جائے ، ظاہر ہے کہ یہ دونوں باتیں ناپسندیدہ اور تہذیب و سلیقہ کے خلاف ہیں اور صحت کے لئے بھی مضر ہیں ۔
کھڑے کھڑے پینے کی ممانعت
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کھڑے کھڑے پینے سے منع فرمایا ۔ (صحیح بخاری) تشریح بعض اور حدیثوں میں بھی کھڑے ہونے کی حالت میں پینے کی ممانعت وارد ہوئی ہے ، لیکن حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور حضرت عبداللہ بن عمروؓ اور بعض دوسرے صحابہ کرام نے بیان کیا ہے کہ ہم نے حضور ﷺ کو کھڑے ہونے کی حالت میں بھی پانی پیتے دیکھا ہے ۔ اس سلسلہ کی مختلف احادیث و روایات کو سامنے رکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کھڑے ہونے کی حالت میں پینا پسندیدہ نہیں ہے اور رسول اللہ ﷺ کا عام معمول بیٹھ کر ہی پینے کا تھا ، لیکن کبھی کبھی آپ ﷺ نے کھڑے ہونے کی حالت میں بھی پیا ہے تو یا تو اس وقت اس کا کوئی خاص سبب ہو گا یا آپ ﷺ نے بیانِ جواز کے لئے کیا ہو گا ۔ کچھ ہی پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ رسول اللہ ﷺ بعض اوقات یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ جائز یہ بھی ہے اور اس کی بھی گنجائش ہے ، افضل و ادنیٰ کے خلاف بھی عمل کر لیتے تھے اور چونکہ تعلیم کی نیت سے کرتے تھے اس لئے آپ ﷺ کے حق میں اس وقت یہی اولیٰ و افضل ہوتا تھا ۔ واللہ اعلم ۔
لباس کے احکام و آداب: لباس نعمت خداوندی اور اس کا مقصد
بو مطر تابعی سے روایت ہے کہ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے تین درہم میں کپڑا خریدا اور جب اسے پہنا تو کہا : «الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي رَزَقَنِي مِنَ الرِّيَاشِ مَا أَتَجَمَّلُ بِهِ فِي النَّاسِ، وَأُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي» حمد و شکر ہے اس اللہ کے لئے جس نے مجھے یہ لباس زینت عطا فرمایا جس سے میں لوگوں میں آرائش حاصل کرتا ہوں اور اپنی ستر پوشی کرتا ہوں ۔ پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا آپ ﷺ (کپڑا پہن کر) اسی طرح ان ہی الفاظ میں اللہ کی حمد و شکر کرتے تھے ۔ (مسند احمد) تشریح رسول اللہ ﷺ نے جس طرح اٹھنے بیٹھنے ، سونے جاگنے اور کھانے پینے وغیرہ زندگی کے سارے معمولات کے بارے میں احکام و آداب کی تعلیم دی اور بتلایا کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے ، یہ صحیح ہے اور یہ غلط ، یہ مناسب ہے اور یہ نامناسب ، اسی طرح لباس اور کپڑے کے استعمال کے بارے میں بھی آپ ﷺ نے واضح ہدایات دیں ۔ اس باب میں آپ کی تعلیمات و ہدایات کی اساس و بنیاد سورہ اعراف کی یہ آیت ہے ۔ (يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا ۖ وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ الاعراف ، ع : ۳) اے فرزندانِ آدم ہم نے تم کو پہننے کے کپڑے عطا کئے جن سے تمہاری ستر پوشی ہو اور تحمل و آسائش کا سامان اور تقوے والا لباس تو سراسر خیر اور بھلائی ہے ۔ اس آیت میں لباس کے دو خاص فائدے ذکر کئے گئے ہیں ۔ ایک ستر پوشی یعنی انسانی جسم کے ان حصوں کو چھپانا جن پر غیروں کی نظر نہیں پڑنی چاہئے اور دوسرے زینت و آرائش یعنی یہ کہ دیکھنے میں آدمی بھلا اور آخر آراستہ معلوم ہو اور جانوروں کی طرح ننگ دھڑنگ نہ پھرے ۔ آخر میں فرمایا گیا ہے : “وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ” یعنی اللہ کے نزدیک اور فی الحقیقت وہ لباس اچھا ہے اور سراسر خیر ہے جو خدا ترسی اور پرہیزگاری کے اصول سے مطابقت رکھتا ہو ، اس میں اللہ کی ہدایت اور اس کے احکام کی خلاف ورزی نہ کی گئی ہو ، بلکہ اس کی نازل کی ہوئی شریعت کے مطابق ہو ۔ ایسا ہر لباس بلاشبہ سراسر خیر و نعمت اور شکر کے ساتھ اس کا استعمال قربِ الٰہی کا وسیلہ ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کے اس سلسلہ کے ارشادات اور ذاتی معمولات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس باب کی آپ ﷺ کی تعلیم و ہدایت کا بنیادی نقطہ یہی ہے کہ لباس ایسا ہو جس سے ستر پوشی کا مقصد حاصل ہو اور دیکھنے میں آدمی باجمال اور باوقار معلوم ہو ۔ نہ تو ایسا ناقص ہو کہ ستر پوشی کا مقصد ہی پورا نہ ہو اور نہ ہی ایسا گندہ اور بےتکا ہو کہ بجائے زیب و زینت کے آدمی کی صورت بگاڑ دے ، اور دیکھنے والوں کے دلوں میں تنفر و توحش پیدا ہو ۔ اس طرح یہ کہ اارائش و تحمل کے لئے افراط اور بےجا اسراف بھی نہ ہو ۔ علیٰ ہذا شان و شوکت کی نمائش اور برتری کا اظہار و تفاخر بھی مقصود نہ ہو ۔ جو مقام عبدیت کے بالکل ہی خلاف ہے ۔ اسی طرح یہ کہ مرد ریشمی کپڑا استعمال نہ کریں ، یہ سونے چاندی کے زیورات کی طرح عورتوں کے لئے مخصوص ہے ،اور یہ کہ مرد خاص عورتوں والا لباس پہن کر نسوانی صورت نہ بنائیں اور عورتیں مردوں والے مخصوص کپڑے پہن کر اپنی نسوانی فطرت پر ظلم نہ کریں ۔ اس سلسلہ میں آپ ﷺ نے یہ بھی ہدایت فرمائی کہ جن بندوں پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہو انہیں چاہئے کہ اس طرح رہیں اور ایسا لباس پہنیں جس سے محسوس ہو کہ ان پر ان کے رب کا فضل ہے ، یہ شکر کا ایک شعبہ ہے لیکن بےجا تکلف و اسراف سے پرہیز کریں ، اسی کے ساتھ اس کا بھی لحاظ رہے کہ غریب و نادار بندوں کی دل شکنی اور ان کے مقابلہ میں تفوق و بالا تری کی نمائش نہ ہو ۔ نیز یہ کہ ہر لباس کو اللہ تعالیٰ کا خاص عطیہ سمجھیں اور اس کے شکر کے ساتھ استعمال کریں ۔ بلاشبہ ان احکام و ہدایات کی تعمیل کے ساتھ ہر لاس کا استعمال ایک طرح کی عبادت اور اللہ تعالیٰ کے قرب کا وسیلہ ہو گا ۔ اس تمہید کے بعد اس سلسلہ کی چند حدیثیں ذیل میں پڑھئے : تشریح ..... جامع ترمذی میں قریب قریب اسی مضمون کی حدیث حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے ، ان دونوں حدیثوں سے اور ان کے علاوہ بھی متعدد احادیث سے معلوم ہوا کہ لباس اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے ، اس کا شکر ادا کرنا چاہئے اور اس کا اصل مقصد ستر پوشی اور تجمل و آرائش ہے ۔
بےپردہ اور بےڈھنگے لباس کی ممانعت
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا : اس سے کہ آدمی بائیں ہاتھ سے کھائے ، یا صرف ایک پاؤں کی جوتی پہن کر چلے ، اور اس سے بھی منع فرمایا کہ آدمی صرف ایک چادر اپنے اوپر لپیٹ کر ہر طرف سے بند ہو جائے یا ایک کپڑے میں گوٹ مار کر بیٹھے اس طرح کہ اس کا ستر کھلا ہو ۔ (صحیح مسلم) تشریح عربوں میں کپڑے کے استعمال کے بعض طریقے رائج تھے اور ان کے لئے ان کی زبان میں بعض مخصوص الفاظ تھے ، مثلاً ایک طریقہ یہ تھا کہ سارے جسم پر ایک چادر اس طرح لپیٹ لی کہ ہر طرف سے بند ہو گئے اور اس طرح بندھ گئے کہ ہاتھ بھی باہر نہیں نکل سکتا ، اس کو “اشتمال صماء” کہا جاتا تھا ، اس حدیث مین اس سے ممانعت فرمائی گئی ہے کیوں کہ یہ ایک بےڈھنگا طریقہ ہے اور آدمی اس مین ہر طرف سے بندھ جاتا ہے اور مثلاً ایک طریقہ یہ تھا کہ آدمی سرینیں زمین پر رکھ کے اور گھٹنے کھڑے کر کے بیٹھ جاتا اور بس ایک کپڑا اپنی کمر اور پنڈلیوں پر لپیٹ لیتا ، اس میں ستر پوشی بھی نہ ہوتی (کیوں کہ اسفل کھلا رہ جاتا) اس کو “احتباء” کہتے تھے ، اس سے بھی اس حدیث میں ممانعت فرمائی گئی ہے ، کیوں کہ یہ وقار کے خلاف اور بےڈھنگے پن کی علامت ہے ، ہاں اگر کسی عذر کی وجہ سے ہو تو ظاہر ہے وہ معذور ہو گا ۔
عورتوں کے لئے زیادہ باریک لباس کی ممانعت
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ (میری بہن) اسماء بنت ابی بکر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور وہ باریک کپڑے پہنے ہوئے تھیں تو آپ ﷺ نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا اور کہا کہ اسے اسماء عورت جب بلوغ کو پہنچ جائے تو درست نہیں کہ اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر آئے سوائے چہرے اور ہاتھوں کے ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورتوں کو ایسا باریک کپڑا پہننا جائز نہیں جس سے جسم نظر آئے ۔ ہاں چہرہ اور ہاتھوں کا کھلا رہنا جائز ہے ، یعنی باقی جسم کی طرح ان کو کپڑے سے چھپانا ضروری نہیں ۔ یہاں ملحوظ رہے کہ اس حدیث میں عورت کے لئے ستر کا حکم بیان فرمایا گیا ہے ۔ حجاب (پردہ) کا حکم اس سے الگ ہے ، اور وہ یہ ہے کہ بےضرورت باہر نہ گھومیں ، اور اگر ضرورت اور کام سے باہر نکلیں تو پردہ میں نکلیں ۔ ستر اور حجاب شریعت کے دو حکم ہیں اور ان کے حدود الگ الگ ہیں ، بعض حضرات کو ان میں اشتباہ ہو جاتا ہے ۔ غالب گمان یہ ہے کہ حضرت اسماءؓ کے حضور ﷺ کے سامنے آنے کے جس واقعہ کا اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے وہ حجاب (پردہ) کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا ہے ۔ کیوں کہ اس حکم کے نازل ہونے کے بعد حضرت اسماءؓ اس طرح آپو کے سامنے نہیں آ سکتی تھیں ۔ واللہ اعلم ۔ امام مالکؒ نے موطا میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ واقعہ بھی نقل کیا ہے کہ ان کی بھتیجی حفصہ بنت عبدالرحمٰن بن ابی بکر ان کے پاس آئیں اور وہ زیادہ باریک اوڑھنی (خمار) اوڑھے ہوئے تھیں ، تو حضرت صدیقہ نے اس کو اتار کے پھاڑ دیا اور موٹے کپڑے کی خمار اوڑھا دی ۔ ظاہر ہے حضرت صدیقہؓ کا یہ فعل رسول اللہ ﷺ ہی کی تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھا ۔
عورتوں کے لئے باریک کپڑا بھی جائز ہے بشرطیکہ
حضرت دحیہ بن خلیفہ کلبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ قبطی چادریں آئیں تو آپ ﷺ نے ان میں سے ایک مجھے عنایت فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ اس کے دو ٹکڑے کر لینا ایک ٹکڑے کا تو اپنے لئے کرتہ بنا لینا اور دوسرا ٹکڑا اپنی بیوی کو دے دینا وہ اس کو خمار (اوڑھنی) کے طور پر استعمال کر لے گی ۔ پھر جب دحیہ اٹھ کر جانے لگے تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اپنی بیوی سے کہہ دینا کہ وہ اس کے نیچے ایک اور کپڑا لگا لے تا کہ دکھائی نہ دیں اس کے بال اور جسم وغیرہ ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح قباطی سفید رنگ کی باریک بڑھیا قسم کی چادریں ہوتی تھیں جو عہد نبویﷺ میں مصر سے آتی تھیں ، ایک دفعہ کہین سے وہ چادریں حضور ﷺ کے پاس آئیں تو آپ ﷺ نے ان میں سے ایک حضرت دحیہ کلبی کو بھی عنایت فرمائی اور فرمایا کہ اس کے دو ٹکڑے کر کے ایک سے تو اپنا پیراہن (کرتہ) بنا لینا اور دوسرا ٹکڑا اپنی بیوی کو دے دینا وہ خمار کے طور پر استعمال کر لے گی ، اور چونکہ وہ باریک تھا اس لئے آپ ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ بیوی سے کہہ دینا کہ اس کے نیچے ایک اور کپڑا لگا لے تاکہ جسم اور بال وغیرہ نظر نہ آئیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں کو باریک کپڑے پہننےکی اجازت ہے ، بشرطیکہ اس کے نیچے دوسرا کپڑا ہو جس کے بعد جسم اور سر کے بال وغیرہ نظر نہ آئیں ۔
لباس میں تفاخر اور نمائش کی ممانعت
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جو آدمی دنیا میں نمائش اور شہرت کے کپڑے پہنے گا اس کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ذلت و رسوائی کے کپڑے پہنائے گا ۔ (مسند احمد ، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ) تشریح حدیث میں “ثوب شہرت” سے مراد وہ لباس ہے جو اپنی شوکت کی نمائش کے لئے اور لوگوں کی نظر میںٰ بڑا بننے کے لئے پہنا جائے ۔ ظاہر ہے کہ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو لوگوں کی نظروں میں علامہ یا بڑا مقدس بزرگ بننے کے لئے اس طرح کا خاص لباس تقدس پہنیں یا اپنی فقیری و درویشی کی نمائش کے لئے ایسے کپڑے پہنیں جن سے لگ ان کو پہنچا ہوا فقیر و درویش سمجھیں ۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ اس کا تعلق آدمی کے دل اور اس کی نیت سے ہے ، ایک ہی کپڑا اگر نمود و نمائش کے لئے اور اپنی بڑائی کے مظاہرہ کے لئے پہنا جائے تو گناہ اور اس حدیث کا مصداق ہو گا اور وہی کپڑا اگر اس نیت کے بغیر پہنا جائے تو جائز اور بعض صورتوں میں موجب اجر و ثواب ہو گا ۔ اور چونکہ ہم بندوں کو کسی کی نیت اور دل کا حال معلوم نہیں اس لئے ہمارے لئے جائز نہ ہو گا کہ کسی کے لباس کو نمود و نمائش اور ریاکاری کا لباس قرار دے کر اس پر اعتراض کریں ہاں اپنے دل ، اپنی نیت اور اپنے لباس کا محاسبہ کرتے رہیں ۔ یہی اس حدیث کا پیغام ہے ۔
متکبرانہ لباس کی ممانعت اور سخت وعید
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جو کوئی اپنا کپڑا استکبار اور فخر کے طور پر زیادہ نیچا کرے گا ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نظر بھی نہ اُٹھائے گا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح عہدِ نبویﷺ میں عرب متکبرین کا یہ فیشن تھا کہ کپڑوں کے استعمال میں بہت اسراف سے کام لیتے تھے اور اس کو بڑائی کی نشانی سمجھا جاتا تھا ۔ ازار یعنی تہہ بند اس طرح باندھتے کہ چلنے میں نیچے کا کنارہ زمین پر گھسٹتا ، اسی طرح قمیص اور عمامہ اور دوسرے کپڑوں میں بھی اسی قسم کے اسراف کے ذریعہ اپنی بڑائی اور چودھراہٹ کی نمائش کرتے ، گویا اپنے دل کے استکبار اور احساس بالا تری کے اظہار اور تفاخر کا یہ ایک ذریعہ تھا ۔ اور اس وجی سے متکبرین کا یہ خاص فیشن بن گیا تھا ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی سخت ممانعت فرمائی اور نہایت سنگین وعیدیں اس کے بارے میں سنائیں ۔
متکبرانہ لباس کی ممانعت اور سخت وعید
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، فرماتے تھے کہ مومن بندہ کے لئے ازار یعنی تہبند باندھنے کا طریقہ (یعنی بہتر اور اولیٰ صورت) یہ ہے کہ نصف ساق تک (یعنی پنڈلی کے درمیانی حصہ تک ہو) اور نصف ساق اور ٹخنوں کے درمیان تک ہو تو یہ بھی گناہ نہیں ہے یعنی جائز ہے اور جو اس سے نیچے ہو تو وہ جہنم میں ہے (یعنی اس کا نتیجہ جہنم ہے) (روای کہتے ہیںٰ کہ) یہ بات آپ ﷺ نے تین دفعہ ارشاد فرمائی (اس کے بعد فرمایا) اللہ اس آدمی کی طرف نگاہ اُٹھا کے بھی نہ دیکھے گا جو از راہِ فخر و تکبر اپنی ازار گھسیٹ کر چلے گا ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ) تشریح ان حدیثوں میں فخر و غرور والا لباس استعمال کرنے والوں کو یہ سخت وعید سنائی گئی ہے کہ وہ قیامت کے اس دن میں جب کہ ہر بندہ اپنے ربِ کریم کی نگاہِ رحم و کرم کا محتاج اور آرزو مند ہو گا وہ اس کی نگاہِ رحمت سے محروم رہیں گے ، اللہ تعالیٰ اس دن ان کو بالکل ہی نظر انداز کر دے گا انکی طرف نظر اُٹھا کر بھی نہ دیکھے گا ۔ کیا ٹھکانہ ہے اس محرومی اور بدبختی کا ۔ اَللَّهُمَّ احْفَظْنَا حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مومن کے لئے اولیٰ اور بہتر یہ ہے کہ تہبند (اور اسی طرح پاجامہ) نصف ساق تک ہو ، اور ٹخنوں کے اوپر تک ہو تو یہ بھی جائز ہے ۔ لیکن اس سے نیچے جائز نہیں ، بلکہ سخت گناہ ہے اور اس پر جہنم کی وعید ہے ۔ لیکن یہ وعید اسی صورت میں ہے جب کہ اس کا محرک اور باعث استکبار اور فخر و غرور کا جذبہ ہو ، آگے درج ہونے والی حدیث میں یہ بات بہت صراحت کے ساتھ مذکور ہے ۔
متکبرانہ لباس کی ممانعت اور سخت وعید
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جو کوئی فخر و تکبر کے طور پر اپنا کپڑا زیادہ نیچا کرے گا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی طرف نظر بھی نہیں کرے گا (حضرت عبداللہ بن عمر راوی کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کا یہ ارشاد سن کر) حضرت ابو بکر نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میرا تہہ بند اگر میں اس کا خیال نہ رکھوں تو نیچے لٹک جاتا ہے ، حضور ﷺ نے فرمایا تم ان لوگوں مٰں سے نہیں ہو جو فخر و غرور کے جذبہ سے ایسا کرتے ہیں ۔ (صحیح بخاری) تشریح اس حدیث سے صراھت کے ساتھ معلوم ہو گیا کہ اگر کسی کا تہبند یا پاجامہ بےخیالی کی وجہ سے ٹخنوں سے نیچے ہو جائے تو یہ گناہ کی بات نہیں ہے ۔ علماء نے لکھا ہے کہ اگر ٹخنوں سے نیچا تہبند یا پاجامہ تفاخر و استکبار کے جذبہ سے ہو تو حرام ہے اور اسی پر جہنم کی وعید ہے اور اگر صرف عادت اور فیشن کی بناء پر ہے تو مکروہ ہے اور نادانستہ بےخیالی اور بےتوجہی کی وجہ سے ایسا ہو جاتا ہو تو اس پر کوئی مواخذہ اور عتاب نہیں ، معاف ہے ۔
مردوں کے لئے ریشم اور سونے کی ممانعت اور عورتوں کو اجازت
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : سونا اور ریشمی کپڑے کا استعمال میری اُمت کی عورتوں کے لئے حلال اور جائز ہے اور مَردوں کے لئے حرام ہے ۔ (جامع ترمذی) تشریح دوسری حدیث سے یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ مردوں کے لیے وہ کپڑا حرام و ناجائز ہے جو خالص ریشم سے بنایا گیا ہو یا اس میں ریشم غالب ہو ، اگر ایسا نہ ہو تو جائز ہے ۔ اسی طرح ایسا کپڑا بھی مردوں کے لئے جائز ہے جو ریشمی نہ ہو ، لیکن اس پر نقش و نگار ریشم سے بنائے گئے ہوں یا دو چار انگل کا ریشمی حاشیہ ہو ۔
مردوں کے لئے شوخ سرخ رنگ کی ممانعت
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ تشریف فرما تھے ایک آدمی گزرا اور وہ دونوں کپڑے سرخ رنگ کے پہنے ہوئے تھا ، اس نے حضور ﷺ کو سلام کیا تو آپ ﷺ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد) تشریح شارحین نے لکھا ہے کہ ان صاحب کے کپڑے شوخ سرخ رنگ کے تھے جو کہ مردوں کے لئے زیبا نہیں اور سلام کا جواب نہ دینا اس پر حضور ﷺ کا عتاب تھا ، اسی حدیث کی بناء پر مردوں کے لئے شوخ وسرخ رنگ کے لباس کو بعض علماء نے حرام کہا ہے اور بعض نے مکروہ ۔ بہرحال حضور ﷺ کی طرف سے سلام کا جواب نہ دیا جانا آپ ﷺ کی سخت ناراضی و ناگواری کی کھلی دلیل ہے ۔ نعوذ بالله من غضب الله وغضب رسوله.
مردوں کو زنانہ اور عورتوں کو مردانہ لباس و ہیئت کی ممانعت
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اختیار کریں (یعنی ان کی ہی شکل و ہیئت ، ان کا سا لباس اور ان کا انداز اپنائیں) اور ان عورتوں پر بھی جو مردوں کی مشابہت اختیار کریں ۔ (یعنی ان کی سی شکل و ہیئت بنائیں ، ان کا سا لباس اور طرز و انداز اختیار کریں) ۔ (صحیح بخاری) تشریح اس حدیث میں خصوصیت سے لباس کا کوئی ذکر نہیں ہے بلکہ مطلق تشبہ پر لعنت فرمائی گئی ہے لیکن تشبہ کی بہت نمایاں صورت یہی ہے کہ مرد زنانہ لباس پہن کر اور عورتیں مردانہ لباس اپنا کر اپنی فطرت کے تقاضوں سے بغاوت کریں ۔ آگے درج ہونے والی حدیث میں خصوصیت کے ساتھ لباس کے بارے میں یہی فرمایا گیا ہے ۔
مردوں کو زنانہ اور عورتوں کو مردانہ لباس و ہیئت کی ممانعت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان مردوں پر لعنت فرمائی جو زنانہ لباس پہنیں اور ان عورتوں پر لعنت فرمائی جو مردانہ لباس پہنیں ۔ (سنن ابی داؤد)
مردوں کے لئے سفید رنگ کے کپڑے زیادہ پسندیدہ
حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : سفید کپڑے پہنا کرو ، وہ زیادہ پاک صاف اور نفیس ہوتے ہیں اور سفید کپڑوں ہی میں اپنے مردوں کو کفنایا کرو ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ)
مردوں کے لئے سفید رنگ کے کپڑے زیادہ پسندیدہ
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : سب سے اچھا رنگ جس میں تم اپنی قبروں اور مسجدوں میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرو خالص سفید رنگ ہے ۔ (سنن ابن ماجہ) تشریح یعنی بہتر یہ ہے کہ مرنے کے بعد قبروں میں اللہ کے حضور میں حاضری ہو تو سفید کفن میں ہو ، اور مساجد میں جو اس دنیا میں اللہ کے دربار ہیں) حاضری ہو تو سفید کپڑوں میں ہو ۔ لیکن دوسری بہت سی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خود آنحضرتﷺ بسا اوقات مختلف رنگ کے کپڑے بھی پہنتے تھے ۔ چنانچہ آپ ﷺ سے سبز یا ہلکے نیلے رنگ کے کپڑے پہننا بھی ثابت ہے ، اسی طرح زرد رنگ کے بھی ، نیز سرخ دھاری دار چادر اوڑھنا اور سیاہ رنگ کا عمامہ زیب سر فرمانا بھی ثابت ہے ۔ اس لئے مندرجہ بالا دونوں حدیثوں میں سفید رنگ کے کپڑوں کے استعمال کی جو ترغیب دی گئی ہے اس کا درجہ بس ترغیب ہی کا ہے اور اس کا تعلق صرف مردوں سے ہے ، عورتوں کے لئے رنگین لباس ہی زیادہ پسند فرمایا گیا ہے ، ازواج مطہرات کے طرزِ عمل سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے ۔
اللہ نصیب فرمائے تو پھٹے حال رہنا ٹھیک نہیں
ابو الاحوص تابعی اپنے والد (مالک بن فضلہ) سے روایت کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ور میں بہت معمولی اور گھٹیا قسم کے کپڑے پہنے ہوئے تھا تو آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کیا تمہارے پاس کچھ مال و دولت ہے َ؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں (اللہ کا فضل ہے) آپ نے پوچھا کہ کس نوع کا مال ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ مجھے اللہ نے ہر قسم کا مال دے رکھا ہے ، اونٹ بھی ہیں ، گائے بیل بھی ہیں بھیڑ بکریاں بھی ہیں ، گھوڑے بھی ہیں ، غلام باندیاں بھی ہیں ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب اللہ نے تم کو مال و دولت سے نوازا ہے تو پھر اللہ کے انعام و احسان اور اس کے فضل و کرم کا اثر تمہارے اوپر نظر آنا چاہئے ۔ (مسند احمد ، سنن نسائی)
اللہ نصیب فرمائے تو پھٹے حال رہنا ٹھیک نہیں
عمرو بن شعیب اپنے والد شعیب سے اور وہ اپنے دادا حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ کو یہ بات محبوب اور پسند ہے کہ کسی بندے پر اس کی طرف سے جو انعام ہو تو اس پر اس کا اثر نظر آئے ۔ (جامع ترمذی) تشریح جس طرح بعض لوگ اپنی بڑائی کے اظہار کے لئے یا فیشن کے طور پر بہت بڑھیا لباس پہنتے اور اس مد میں بےجا اسراف کرتے ہیں اسی طرح بعض کنجوس کنجوسی کی وجہ سے یا صرف طبیعت کے گنوار پن کی وجہ سے صاحبِ استطاعت ہونے کے باوجود بالکل پھٹے حال رہتے ہیں ۔ ان دونوں حدیثوں میں ایسے ہی لوگوں کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ جب کسی بندے پر اللہ کا فضل ہو تو اس کو اس طرح رہنا چاہئے کہ دیکھنے والوں کو بھی نظر آئے کہ اس پر اس کے رب کا فضل ہے ، یہ شکر کے تقاضوں میں سے ہے ۔
خوب کھاؤ ، پہنو ، بشرطیکہ استکبار اور اسراف نہ ہو
عمرو بن شعیب اپنے والد شعیب سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اپنے دادا حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص سے سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اجازت ہے خوب کھاؤ ، پیئو ، دوسروں پر صدقپ کرو ، اور کپڑے بنا کر پہنو ، بشرطیکہ اسراف اور نیت میں فخر و استکبار نہ ہو ۔ (مسند احمد ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ) تشریح کھانے اور لباس وغیرہ کے بارے میں اس حدیث میں جو کچھ فرمایا گیا ہے وہ ایک واضح قانون ہے یعنی یہ کہ آدمی حلال غذاؤں میں سے اپنے حسب مرضی جو کچھ کھائے اور جو پیئے اور جو من بھاتا حلال لباس پہنے جائز ہے ، بشرطیکہ اسراف کی حد تک نہ پہنچے اور دل میں تفاخر اور استکبار نہ ہو ۔ امام بخاریؒ نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا یہ قول بھی صحیح بخاری میں نقل کیا ہے کہ : “كُلْ مَا شِئْتَ، وَالبَسْ مَا شِئْتَ، مَا أَخْطَأَتْكَ اثْنَتَانِ: سَرَفٌ، أَوْ مَخِيلَةٌ” جو جی چاہے اور جو جی چاہے پہنو ، (جائز ہے) جب تک کہ دو باتیں نہ ہوں ایک اسراف اور دوسرے استکبار و تفاخر ۔ اس باب میں یہی بنیادی اصول اور معیار ہے ۔
اُول جلول ، پراگندہ حال اور میلے کچیلے رہنے کی ممانعت
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن) رسول اللہ ﷺ ملاقات کے لئے ہمارے ہاں تشریف لائے تو آپ ﷺ کی نظر ایک پراگندہ حال آدمی پر پڑی جس کے سر کے بال بالکل منتشر تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ : کیا یہ آدمی ایسی کوئی چیز نہیں پا سکتا تھا جس سے اپنے سر کے بال ٹھیک کر لیتا ۔ (اور اسی مجلس میں) آپ ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا جو بہت میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے تھا تو ارشاد فرمایا : کیا اس کو کوئی چیز نہیں مل سکتی تھی جس سے یہ اپنے کپڑے دھو کر صاف کر لیتا ؟ (مسند احمد ، سنن نسائی)
ڈاڑھی اور سر کے بالوں کی خبرگیری اور درستی کی ہدایت
عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ (ایک دن) رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے ، ایک آدمی مسجد میں آیا ، اس کے سر اور داڑھی کے بال بالکل بکھرے ہوئے (اور بےتکے) تھے ۔ حضور ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اس کو اشارہ فرمایا ، جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنے سر اور داڑھی کے بالوں کو ٹھیک کرائے ، چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور پھر لوٹ کر آ گیا ، تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا یہ (یعنی تمہارا سر اور ڈاڑھی کے بالوں کو درست کر کے آنا) اس سے بہتر نہیں ہے کہ تم میں سے کوئی سر کے بال بکھیرے ہوئے ایسی (وحشیانہ) صورت میں آئے کہ گویا وہ شیطان ہے ۔ (موطا امام مالک) تشریح ان حدیثوں سے ان اہل تقشف کے خیال کی واضح تغلیظ ہو جاتی ہے جو سمجھتے ہیں کہ خدا کے طالبوں اور آخرت کی فکر رکھنے والوں کو اپنی صورت و ہیئت اور لباس کے حسن و قبح سے بےپروا ہو کر میلا کچیلا ، پراگندہ حال اور پراگندہ بال رہنا چاہئے اور صفائی ستھرائی ، صورت و لباس کو سنوارنے کی فکر اور اس میں جمال پسندی ان کے نزدیک گویا دنیا داری کی بات ہے ۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ بلاشبہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیم و ہدایت اور آپ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کے مزاج سے ناواقف ہیں ۔ ہاں صورت و لباس وغیرہ کے بناؤ سنوار کا حد سے زیادہ اہتمام اور اس کے لئے فضول و بےجا تکلفات بھی ناپسند اور مزاجِ شریعت کے خلاف ہیں ، جیسا کہ آگے آنے والی بعض حدیثوں سے معلوم ہو گا ۔ واقعہ یہ ہے کہ زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح اس شعبہ سے متعلق بھی رسول اللہ ﷺ کی ہدایات کا حاصل یہی ہے کہ افراط و تفریط سے بچتے ہوئے اعتدال کی راہ اپنائی جائے ۔ اوپر جو حدیثیں مذکور ہوئی جن میں اچھا اور صاف ستھرا لباس استعمال کرنے اور شکل و صورت کی اصلاح اور سر اور داڑھی کے بالوں وغیرہ کو درست رکھنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے ، جیسا کہ ان مضامین سے ظاہر ہے ، ان سب سے مخاطب وہی لوگ تھے جو اس معاملے میں تفریط میں مبتلا تھے اور جنہوں نے اپنے حلیے بگاڑ رکھے تھے ۔ آج بھی جن کا یہ حال ہو ان کو رسول اللہ ﷺ کے ان ارشاادات سے ہدایت حاصل کرنا چاہئے کہ اس کے برعکس جو لوگ اس بارے میں افراط میں مبتلا ہوں اور لباس اور ظاہری شکل و صورت کے بناؤ سنگار کو حد سے زیادہ اہمیت دیں ، اور اسی کر برتری اور کمتری کا معیار سمجھنے لگیں ان کو آگے درج ہونے والی احادیث سے ہدایت اور روشنی حاصل کرنی چاہئے ۔ ان حدیثوں کے مخاطب دراصل ایسے ہی لوگ ہیں ۔
سادگی اور خستہ حالی بھی ایک ایمانی رنگ ہے
حضرت ابو امامہ ایاس بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم سنتے نہیں ، کیا تم سنتے نہیں (یعنی سنو اور غور سے سنو اور یاد رکھو) کہ سادگی اور خستہ حالی بھی ایمان کا ایک شعبہ ہے ، یہ آپ نے مکرر ارشاد فرمایا ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ ظاہری سادگی و خستہ حالی ، اور زینت و آرائش کی طرف سے بےفکری یا کم توجہی ، اندرونی ایمانی کیفیت سے بھی پیدا ہو جاتی ہے اور یہ ایمان ہی کا ایک شعبہ اور ایک رنگ ہے ۔
لباس میں خاکساری اور تواضع پر انعام و اکرام
معاذ بن انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو بندہ بڑھیا لباس کی استطاعت کے باوجود از راہِ تواضع و انکساری اس کو استعمال نہ کرے (اور سادہ معمولی لباس ہی پہنے) تو اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن ساری مخلوقات کے سامنے بلا کر اختیار دے گا کہ وہ ایمان کے جوڑوں میں سے جو جوڑا بھی پسند کرے اس کو زیب تن کرے ۔ (جامع ترمذی)
رسول اللہ ﷺ کا لباس
ابو بردہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ہم کو نکال کر دکھائی ایک دبیز دہری چادر اور ایک موٹے کپڑے کا تہبندے اور ہمیں بتایا کہ انہی دونوں کپڑوں میں حضور ﷺ کا وصال ہوا تھا (یعنی آخری وقت میں حضور ﷺ کے جسم اطہر پر یہی دو کپڑے تھے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح یہ بشارت ان بندوں کے لئے ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اتنی دولت دی ہے کہ وہ بہت بڑھیا اور بیش قیمت لباس بھی استعمال کر سکتے ہیں لیکن وہ اس مبارک جذبے کے تحت بڑھیا لباس نہیں پہنتے کہ اس کی وجہ سے دوسرے بندوں پر میرا تفوق اور میری بڑائی ظاہر ہو گی اور شاید کسی غریب و نادار بندے کا دل ٹوٹے ۔ بلاشبہ بہت ہی مبارک اور پاکیزہ ہے یہ جذبہ ۔ اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ جو بندے اس جذبے کے تحت ایسا کریں گے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اہلِ محشر کے سامنے انہیں اس انعام و اکرام سے نوازے گا کہ اہلِ ایمان جنتیوں کے لئے جو اعلیٰ سے اعلیٰ جوڑے وہاں موجود ہوں گے فرمایا جائے گا کہ ان میں سے جو جوڑا چاہو لے لو اور استعمال کرو ۔ ایک اشکال اور اس کا جواب اگر کسی کے ذہم میں یہ خلجان پیدا ہو کہ ابھی اوپر ابوالاحوص اور عمرو بن شعیب کی دو حدیثیں گزر چکی ہیں جن میں مال و دولت اور استطاعت کی صورت میں اچھا لباس پہننے کی ہدایت فرمائی گئی ہے ۔ اور یہاں اس حدیث میں قدرت و استطاعت کے باوجود اچھا لباس نہ پہننے پر ایسے عظیم انعام و اکرام کی بشارت سنائی گئی ہے ، اور اس سے اوپر والی ابو امامہ کی حدیث میں بہت ہی اہتمام اور زور کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ : “ان البذاذة من الايمان ، ان البذاذة من الايمان” جس کا حاصل یہی ہے کہ اچھے لباس کا اہتمام نہ کرنا اور معمولی کپڑوں میں خستہ حالوں کی طرح رہنا ایمان کا ایک شعبہ ہے ۔ دراصل ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں ، ان کا محل الگ الگ ہے ۔ ابوالاحوص اور عمرو بن شعیب والی حدیثوں میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اس کے مخاطب وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی مالی وسعت کے باوجود محض کنجوسی سے یا طبیعت کے لااُبالی پن کی وجہ سے پھٹے حال رہیں جیسے کہ انہیں کپڑے نصیب ہی نہیں ، ایسے لوگوں کے لئے فرمایا گیا ہے کہ جب کسی بندے پر اللہ کا فضل ہو تو اس کے رہن سہن اور اس کے لباس میں اس کا اثر محسوس ہونا چاہئے ۔ اور ابو امامہ اور معاذ بن انس کی ان حدیثوں میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اس کے مخاطب دراصل وہ لوگ ہیں جو لباس کی بہتری کو زیادہ اہمیت دیتے ، اور اس کے بارے میں بہت زیادہ اہتمام اور تکلف سے کام لیتے ہیں ، گویا ا ٓدمی کی قدر و قیمت کا وہی معیار اور پیمانہ ہے ۔ اصلاح و تربیت کا طریقہ یہی ہےکہ جو لوگ افراط اور غلو کے مریض ہوں ان سے ان کے حال کے مطابق اور جو تفریط کی بیماری میں مبتلا ہوں ان سے ان کے حسبِ حال اصلاح کی بات کی جائے ۔ اگر کوئی آدمی محل اور مخاطبین کے فرق کو ملحوظ نہیں رکھے گا تو بسا اوقات اس کو مصلحین کی ہدایتوں اور نصیحتوں میں تضاد محسوس ہو گا ۔ رسول اللہ ﷺ کا لباس رسول اللہ ﷺ لباس کے بارے میں ان حدود و احکام کی پابندی کے ساتھ جو مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہو چکے ہیں اسی طرح کے کپڑے پہنتے تھے جس طرح اور جس وضع کے کپڑوں کا اس زمانے میں آپ کے علاقے اور آپ کی قوم میں رواج تھا ۔ آپ ﷺ تہبند باندھتے تھے ، چادر اوڑھتے تھے ، کرتا پہنتے تھے ، عمامہ اور ٹوپی بھی زیب سر فرماتے تھے ، اور یہ کپڑے اکثر و بیشتر معمولی سوتی قسم کے ہوتے تھے کبھی کبھی دوسرے ملکوں اور دوسرے علاقوں کے بنے ہوئے ایسے بڑھیا کپڑے بھی پہن لیتے تھے جن پر ریشمی حاشیہ یا نقش و نگار بنے ہوتے تھے ۔ اسی طرح کبھی کبھی بہت خوش نما یمنی چادریں بھی زیب تن فرماتے تھے جو اس زمانے کے خوش پوشوں کا لباس تھا ۔ اس بناء پ۴ کہا جا سکتا ہے کہ زبانی ارشادات و ہدایات کے علاوہ آپ ﷺ نے امت کو اپنے طرز عمل سے بھی یہی تعلیم دی کہ کھانے پینے کی طرح لباس کے بارے میں بھی وسعت ہے ۔ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود کی پابندی کے ساتھ ہر طرح کا معمولی یا قیمتی لباس پہنا جا سکتا ہے اور یہ کہ ہر علاقے اور ہر زمانے سے لوگوں کو اجازت ہے کہ وہ شرعی حدود و احکام کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنا علاقائی و قومی پسندیدہ لباس استعمال کر سکتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ امت کے ان اصحاب صلاح و تقویٰ نے بھی جن کی زندگی میں اتباع سنت کا حد درجہ اہتمام تھا یہ ضروری نہی سمجھا کہ بس وہی لباس استعمال کریں جو رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے ۔ دراصل لباس ایسی چیز ہے کہ تمند کے ارتقاء کے ساتھ اس میں تبدیلی ہوتی رہی ہے اور ہوتی رہے گی ، اسی طرح علاقوں کی جغرافیائی خصوصیات اور بعض دوسری چیزیں بھی لباس کی وضع قطع اور نوعیت پر اثر انداز ہوتی ہیں اس لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ ساری دنیا کے لوگوں کا لباس یکساں ہو ، یا کسی قوم یا کسی علاقے کا لباس ہمیشہ ایک ہی رہے ۔ اس لئے شریعت نے کسی خاص قسم اور خاص وضع کے لباس کا پابند نہیں کیا ہے ، ہاں ایسے اصولی احکام دئیے گئے ہیں جن کی ہر زمانے میں اور ہر جگہ بہ سہولت پابندی کی جا سکتی ہے ۔ ان تمہیدی سطروں کے بعد حضور ﷺ کے لباس سے متعلق چند احادیث ذیل میں پڑھئے :
رسول اللہ ﷺ کا لباس
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو کپڑوں میں کرتا زیادہ پسند تھا ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد) تشریح کُرتے کو حضور ﷺ غالباً اس لئے زیادہ پسند فرماتے تھے کہ وہ جبے اور چادر کی بہ نسبت ہلکا ہوتا ہے اور لباس کا مقصد اس سے اچھی طرح پورا ہو جاتا ہے ۔ بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کے کرتے کی آستینیں ہاتھ کے پہنچوں تک ہوتی تھیں ، اور نیچے کی جانب ٹخنوں سے اوپر تک ہوتا تھا ۔
رسول اللہ ﷺ کا لباس
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو کپڑوں میں حبرہ (چادر) کا پہننا بہت پسند تھا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حبرہ یمن کی بنی ہوئی ایک خاص سوتی چادر ہوتی تھی جس میں سرخ یا سبز دھاریاں ہوتی تھیں یہ اوسط درجے کی اچھی چادروں میں سمجھی جاتی تھی ۔ حضرت انسؓ کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ چادروں میں سے حبرہ قسم کی چادر کا استعمال زیادہ پسند فرماتے تھے ۔
رسول اللہ ﷺ کا لباس
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک (دفعہ) رومی جبہ پہنا جس کی آستینیں تنگ تھی ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کی اکثر دوسری روایتوں میں اس کو کی اس حدیث کی اکثر دوسری روایتوں میں اس کو “شامی جبہ” کہا گیا ہے ۔ قرین قیاس یہ ہے کہ شام اس زمانے میں چونکہ رومی حکومت کے زیر اقتدار تھا اس لئے وہاں کی چیزوں کو رومی بھی کہہ دیا جاتا تھا اور شامی بھی ! بہرحال اس حدیث سے معلوم ہو گیا کہ دوسری قوموں کے بنائے ہوئے اور دوسرے ملکوں سےا ٓئے ہوئے کپڑے استعمال کئے جا سکتے ہیں ، اور خود حضور ﷺ نے استعمال فرمائے ہیں ۔
رسول اللہ ﷺ کا لباس
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے طیلسان کا بنا ہوا ایک کسروانی جبہ نکال کر دکھایا اس کا گریبان ریشمی دیباج سے بنوایا گیا تھا اور دونوں چاکوں کے کناروں پر بھی دیباج لگا ہوا تھا (یعنی گریبان اور جبہ کے آگے پیچھے چاکوں پر دیباج کا حاشیہ تھا) اور حضرت اسماءؓ نے بتایا کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا جبہ مبارک ہے ۔ یہ (میری بہن) عائشہ صدیقہ (ام المومنینؓ) کے پاس تھا جب ان کا انتقال ہو گیا تو میں نے لے لیا (یعنی میراث کے حساب سے مجھے مل گیا) حضور ﷺ اس کو زیب تن فرمایا کرتے تھے اور اب ہم اس کو مریضوں کے لئے دھوتے ہیں اور اس کے ذریعے شفا حاصل کرتے ہیں ۔ (صحیح بخاری) تشریح اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے جس طرح رومی جبہ استعمال فرمایا (جس کا ذکر اوپر والیحدیث میں گزر چکا ہے) اسی طرح آپ ﷺ نے کسروانی جبہ بھی استعمال فرمایا (جس کی نسبت کسی وجہ سے شاہِ فارس کسریٰ کی طرف کی جاتی تھی) اور یہ کہ اس کے گریبان اور چاکوں پر دیباج کا حاشیہ بھی تھا ، جس کا اس زمانہ میں رواج تھا ۔ یہاں یہ بات قابلِ لحاظ ہے کہ دوسری بعض احادیث میں تشریح ہے کہ ریشم کا حاشیہ دو چار انگل کا تو مردوں کے لئے جائز ہے ، اس سے زیادہ جائز نہیں ہے ۔ اس لئے یقین ہے کہ اس کسروانی جبہ کا حاشیہ اس حد کے اندر ہی ہو گا ۔ دوسری خاص بات اس حدیث سے یہ معلوم ہوئی کہ صحابہ کرامؓ ہی کے دور میں رسول اللہ ﷺ کے استعمالی کپڑوں سے یہ برکت بھی حاصل کی جاتی تھی کہ ان کا غسالہ (دھوون کا پانی) شفایابی کی امید پر مریضوں کا پلایا جاتا یا ان پر چھڑکا جاتا تھا ۔
رسول اللہ ﷺ کا لباس
حضرت عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر (خطبہ دیتے ہوئے) دیکھا ، اس وقت آپ ﷺ سیاہ رنگ کا عمامہ زیب سر فرمائے ہوئے تھے اور اس کا کنارہ (شملہ) اپﷺ نے پشت پر دونوں مونڈھوں کے درمیان لٹکا رکھا تھا ۔ (صحیح مسلم)
رسول اللہ ﷺ کا لباس
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سفید ٹوپی (بھی) زیبِ سر فرماتے تھے ۔ (معجم کبیر طبرانی)
رسول اللہ ﷺ کا لباس
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب خوارج کا ظہور ہوا ، تو میں حضرت علی کے پاس آیا ، انہوں نے مجھے سے فرمایا کہ : تم ان لوگوں کے (یعنی گروہِ خوارج کے) پاس جاؤ (اور ان کو سمجھانے اور ان پر حجت قائم کرنے کی کوشش کرو) ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ میں نے حسین و نفیس قسم کا ایک یمنی جوڑا پہنا ۔ واقعہ کے راوی ابو زمیل کہتے ہیں کہ ابنِ عباس خود بہت حسین و جمیل تھے اور آواز بھی زوردار تھی ۔ آگے ابنِ عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں خوارج کی جماعت کے پاس پہنچا تو انہوں نے مرحبا کہہ کے میرا استقبال کیا اور ساتھ ہی (طنز و اعتراض کے طور پر) کہا کہ یہ بڑھیا جوڑا (جو آپ پہنے ہوئے ہیں) کیا ہے ؟ (مطلب یہ تھا کہ بڑھیا قسم کا حسین جمیل لباس اسوہ نبوی ﷺ اور مقام تقویٰ کے خلاف ہے) (حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں) میں نے کہا کہ تم میرے اس اچھے لباس پر کیا اعتراض کرتے ہو ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو حسین سے حسین جوڑا پہنے دیکھا ہے ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے اس بیان سے بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی کبھی اچھا نفیس لباس بھی استعمال فرمایا ہے ۔ اس لئے ان خوارج کا یہ سمجھنا کہ اچھا اور عمدہ لباس پہننا طریقہ نبوی ﷺ یا مقامِ تقویٰ کے خلاف ہے ان کی جہالت تھی ۔ ہاں اگر پہننے والے کا مقصد تفاخر و استکبار اور اپنی بڑائی کی نمائش ہو تو جیسا کہ احادیث سے معلوم ہو چکا ہے سخت درجے کی معصیت اور موجبِ غضب خداوندی ہے ۔ لیکن اگر اظہارِ نعمت کی نیت سے یا کسی دوسری دینی مصلحت سے پہنا ئجائے تو نہ صرف جائز بلکہ باعث اجر ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کا پہننا اظہارِ نعمت کے لئے بھی تھا اور لانے والوں کی تطیب خاطر کے لئے بھی ، اور بیان جواز کے لئے بھی ۔
لباس میں داہنی طرف سے ابتداء حضور ﷺ کا معمول تھا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کرتا پہنتے تو داہنی جانب سے شروع فرماتے ۔ (جامع ترمذی) تشریح اس حدیث میں کرتے کا ذکر بطورِ مثال سمجھنا چاہئے ۔ حضرت ابو ہریرہ ہی سے یہ حدیث بھی مروی ہے کہ حضور ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ : “جب کپڑا پہنا جائے ، یا وضو کیا جائے تو داہنے اعضاء سے شروع کیا جائے” ۔ بائیں اعضاء کے مقابلے میں داہنے اعضاء کو جو فضیلت حاصل ہے اور اس کی جو لِمْ ہے اس کا ذکر “آدابِ طعام” کے ذیل میں کیا جا چکا ہے ۔ اسی فضیلت کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ لباس میں داہنی طرف سے ابتداء فرماتے تھے ، یعنی جو کپڑا پہنتے ، داہنی جانب سے پہننا شروع فرماتے ۔
کپڑا پہننے کے وقت کی حضور ﷺ کی دعا
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نیا کپڑا پہنتے عمامہ یا کرتا یا چادر تو اس کا نام لے کر اللہ تعالیٰ کے حضور میں کہتے کہ : اے اللہ ! تیرا شکر اور تیری حمد جیسا کہ تو نے مجھے پہننے کو دیا یہ (عمامہ یا کرتا یا چادر) خداوندا ! مین تجھ سے مانگتا ہوں اس کا خیر اور جو اس کا وجود ہے اس کا خیر (یعنی یہ کپڑا میرے لئے باعث خیر ہو اور اس کا جو اچھا مقصد ہے وہ مجھے نصیب ہو مثلاً اس کو پہن کر تیری عبادت کروں اور تیرا شکر ادا کروں) اور میں مانگتا ہوں اس کے شر سے اور اس کے مقصد یعنی استعمال کے شر سے تیری پناہ (یعنی اس کپڑے میں اور اس کے استعمال میں جو شر ہو سکتا ہے اس سے میری حفاظت فرما) ۔ (جامع ترمذی) تشریح کپڑا پہننے کے وقت کی رسول اللہ ﷺ کی ایک اور مختصر دعا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی روایت سے “آداب لباس” کے بالکل شروع میں بھی درج کی جا چکی ہے ۔ اور اسی سلسلہ معارف الحدیث (جلد پنجم) میں سنن ابی داؤد کے حوالہ سے یہ حدیث درج ہو چکی ہے کہ جو شخص کپڑا پہنتے وقت اللہ تعالیٰ کے شکر و حمد کا یہ کلمہ دل و زبان سے کہے : “الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي كَسَانِي هَذَا وَرَزَقَنِيهِ مِنْ غَيْرِ حَوْلٍ مِنِّي وَلَا قُوَّةٍ” (1) تو اس کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف کر دئیے جائین گے ۔ اللہ تعالیٰ عمل کی اور ہر نعمت پر شکر کی توفیق عطا فرمائے ۔
جوتا پہننے کے بارے میں ہدایات
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ جہاد کے ایک سفر پر روانہ ہو رہے تھے ، میں نے آپ ﷺ کو سنا آپ ہدایت دے رہے تھے کہ : لوگو ! جوتیاں زیادہ لے لو ، کیوں کہ آدمی جب تک پاؤں میں جوتا پہنے رہتا ہے تو وہ سوار کی طرح رہتا ہے ۔ (صحیح مسلم) تشریح یہ واقعہ اور تجربہ ہے کہ جو آدمی جوتا پہن کے چلتا ہے وہ بہ نسبت اس شخص کے جو بغیر جوتا پہنے چلے ، تیز بھی چلتا ہے اور کم تھکتا ہے ۔ اس کا پاؤں محفوظ بھی رہتا ہے ۔ یہی مطلب ہے اس کا کہ “وہ سوار کی طرح رہتا ہے” اور ہمارے اس زمانے مین تو فوجیوں کے لئے ان کا خاص جوتا ، ان کی وردی کا جز ہے ۔
جوتا پہننے کے بارے میں ہدایات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی جوتا پہنے تو پہلے داہنے پاؤں میں پہنے ، اور جب نکالنے لگے تو پہلے بائیں پاؤں سے نکالے (الغرض) داہنا پاؤں جوتا پہننے میں مقدم اور نکالنے میں مؤخر ہو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح ظاہر ہے کہ جوتا پہننے میں پاؤں کا اکرام و اعزاز ہے اور داہنے اعضاء کو بائیں اعضاء کے مقابلہ مین جو فضیلت اور ترجیح حاصل ہے (جس کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے) اس کا حق اور تقاضا ہے کہ جوتا داہنے پاؤں میں پہنا پہلے جائے اور نکالا بعد میں جائے ۔
انگشتری اور مہر کے بارے میں حضور ﷺ کا طرز عمل
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارادہ فرمایا کہ : شاہِ فارس کسریٰ اور شاہِ روم قیصر اور شاہِ حبشہ نجاشی کو خطوط لکھائیں (اور ان کو اسلام کی دعوت دیں) تو آپ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ یہ حکمران لوگ مہر کے بغیر خطوط کو تسلیم نہیں کرتے ، تو حضور ﷺ نے مہر بنوائی جو چاندی کی انگوٹھی تھی ، اس میں نقش تھا : مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ .................................................... (صحیح مسلم) (اور اسی حدیث کی صحیح بخاری کی روایت میں یہ تفصیل بھی ہے کہ مُہر میں تین سطریں تھیں ، ایک سطر میں “محمد” اور دوسری سطر میں “رسول” اور تیسری سطر میں “اللہ”) تشریح صحیح روایات سے یہ بات معلوم ہو چکی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ۶ھ کے آخر میں سفر حدیبیہ سے واپسی کے بعد اس وقت کی دنیا کے بہت سے مشہور بادشاہوں اور حکمرانوں کو دعوتی خطوط لکھائے تھے ۔ اسی وقت یہ واقعہ پیش آیا کہ جب آپ ﷺ نے ان خطوط کے لکھانے کا ارادہ ظاہر فرمایا تو بعض صحابہ کرام نے جو ان حکومتوں کے طور طریقوں سے کچھ باخبر تھے عرض کیا کہ ان خطوط پر حضور ﷺ کی مہر ہونا ضروری ہے ، یہ حکمران لوگ مہر کے بغیر کسی خط کو کوئی اہمیت نہیں دیتے (گویا ایسے خطوط ان کے پاس ردی کی ٹوکری کی نذر ہو جاتے ہیں) حضور ﷺ نے یہ مشورہ قبول فرما لیا اور چاندی کی ایک انگوٹھی بنوا لی جس کے نگینہ میں “محمد رسول اللہ” کندہ تھا ۔ صحیح بخاری کی روایت سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ یہ تینوں لفظ تین سطروں میں نیچے اوپر لکھے گئے تھے ۔ اس طرح (محمد رسول اللہ) یہی آپ ﷺ کی مہر آپ ﷺ کی انگوٹھی تھی ۔ روایات میں بائیں ہاتھ کی سب سے چھوٹی انگلی میں پہننے کا بھی ذکر آتا ہے اور داہنے ہاتھ میں بھی ، گویا کبھی آپ ﷺ داہنے ہاتھ میں پہن لیتے تھے اور کبھی بائیں ہاتھ میں ۔
انگشتری اور مہر کے بارے میں حضور ﷺ کا طرز عمل
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی تو آپ ﷺ نے اس کے ہاتھ سے نکال کر پھینک دی ۔ اور ارشاد فرمایا کہ : تم میں سے کسی کسی کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی خواہش سے دوزخ کا انگارہ لے کر اپنے ہاتھ میں پہن لیتا ہے (یعنی مرد کے لئے سونے کی انگوٹھی گویا دوزخ کی آگ ہے جو اس نے شوق سے ہاتھ میں لے رکھی ہے) ۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ وہاں تشریف لے گئے تو کسی نے ان صاحب سے کہا (جن کے ہاتھ سے سونے کی انگوٹھی نکال کر حضور ﷺ نے پھینک دی تھی) کہ اپنی انگوٹھی اُٹھا لو اور (کسی طرح) اپنے کام میں لے آؤ (مثلاً فروخت کر دو ، یا گھر کی خواتین میں سے کسی کو دے دو) ان صاحب نے کہا خدا کی قسم ! جب رسول اللہ ﷺ نے اس کو پھینک دیا تو اب کبھی میں اس کو نہیں اٹھاؤں گا ۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سونے کے دوسرے زیورات کی طرح اس کی انگوٹھی کا استعمال بھی مردوں کے لئے حرام و ناجائز ہے ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر مناسب اور مفید سمجھا جائے تو اپنے خاص لوگون کے ساتھ اصلاح کا یہ طریقہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے کہ ان کے پاس جو چیز شریعت کے خلاف ہو اس کو چھین کر پھینک دیا جائے یا توڑ پھوڑ دیا جائے ۔ ان صحابی نے لوگوں کے کہنے کے باوجود اپنی سونے کی انگوٹھی نہیں اٹھائی اور وہ جواب دیا جو حدیث میں مذکور ہوا ۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ صحابہ کرام کا ایمانی مقام کیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ اس کا کوئی حصہ ہم کو بھی نصیب فرمائے ۔
ڈاڑھی مونچھ کے بالوں اور ظاہری ہیئت سے متعلق ہدایات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : یہ پانچ چیزیں انسان کی فطرتِ سلیمہ کے تقاضے اور دینِ فطرت کے خاص احکام ہیں ۔ ختنہ ، زیر ناف بالوں کی صفائی ، مونچھیں تراشنا ، ناخن لینا اور بغل کے بال لینا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح رسول اللہ ﷺ نے اپنے ارشادات اور طرزِ عمل سے زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح ظاہری ہیئت اور شکل و صورت کے بارے میں بھی امت کی رہنمائی فرمائی ہے ۔ اس سلسلہ کی چند حدیثیں ذیل میں پڑھئے ! بعض دوسری حدیثوں میں ان چیزوں کو انبیاء و مرسلین کی سنت اور ان کا طریقہ بتایا گیا ہے ۔ اور چونکہ یہ انسانی فطرت کے تقاضے ہیں اس لئے ہونا بھی یہی چاہئے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کا یہی طریقہ اور یہی ان کی تعلیم ہو ۔ ان سب میں جو چیز مشترک ہے وہ طہارت و صفائی اور پاکیزگی ہے جو بلاشبہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے ۔
ڈاڑھی مونچھ کے بالوں اور ظاہری ہیئت سے متعلق ہدایات
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مونچھیں ترشوانے اور ناخن لینے اور بغل اور زیرِ ناف کی صفائی کے سلسلہ میں ہمارے واسطے حد مقرر کر دی گئی ہے کہ ۴۰ روز سے زیادہ نہ چھوڑیں ۔ (صحیح مسلم) تشریح کنز العمال میں بیہقی کی شعب الایمان کے حوالے سے حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت سے یہ حدیث نقل کی گئی ہے کہ : “رسول اللہ ﷺ ہر جمعہ کو نکلنے سے پہلے اپنے ناخن تراشتے اور لبیں لیتے تھے” ۔ (1) اس لئے مسنون یہی ہےکہ ہر ہفتہ یہ جسمانی اصلاح و صفائی کا کام کیا جائے ، اور آخری حد ۴۰ دن تک کی ہے ، جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا ۔ اگر اس سے زیادہ تغافل برتا تو ایک درجہ کی نافرمانی ہو گی ، اور علماء نے لکھا ہے کہ اس کی وجہ سے نماز بھی مکروہ ہو گی ۔
ڈاڑھی مونچھ کے بالوں اور ظاہری ہیئت سے متعلق ہدایات
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : مونچھوں کو خوب باریک کرو اور ڈاڑھیاں چھوڑو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح دوسری بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگلے انبیاء و مرسلین کا طریقہ بھی یہی تھا کہ وہ ڈاڑھیاں رکھتے اور مونچھیں باریک کراتے تھے ۔ جیسا کہ ظاہر ہے ، ڈاڑھی رجولیت کی علامت اور وقارکی نشانی ہے ۔ خود مغربی اقوام میں بھی جہاں ڈاڑھی نہ رکھنے کا عام رواج ہے) ڈاڑھی کو قابل احترام اور عظمت کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔ کاش ! ہم مسلمان محسوس کریں کہ ڈاڑھی رکھنا ہمارے ہادی برحق ﷺ اور سارے نبیوں ، رسولوں کی سنت اور ان کے طریقہ سے وابستگی کی علامت ہے ، اور ڈاڑھی نہ رکھنا ان کے منکروں کا طریقہ ہے ۔ اس حدیث میں صرف ڈاڑھی چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے اس کا کوئی ذکر نہیں کہ ڈاڑھی کس حد تک چھوڑی جائے ، بلکہ اس کے الفاظ سے شبہ ہو سکتا ہے کہ کسی صورت میں بھی اس کو قینچی نہ لگائی جائے اور کم نہ کرایا جائے ۔ لیکن آگے متصلاً امام ترمذی کی روایت حضڑت عبداللہ بن عمرو بن العاص کی جو حدیث درج کی جا رہی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود آنحضرتﷺ اپنی ریش مبارک (برابر اور ہموار کرنے کے لئے) اس کے عرض میں سے بھی اور طول میں سے بھی کچھ ترشوا دیتے تھے ۔ اور مندرجہ بالا حدیث : “انْهَكُوا الشَّوَارِبَ، وَأَعْفُوا اللِّحَى” کے راوی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی روایت میں ہے کہ ان کی ڈاڑھی کے جو بال ایک مشت سے زیادہ ہوتے وہ ان کو ترشوا دیتے تھے ۔ بعض دوسرے صحابہ کا طرزِ عمل بھی یہی روایت کیا گیا ہے ۔ ان سب روایات کی روشنی میں زیرِ تشریح حدیث : “انْهَكُوا الشَّوَارِبَ، وَأَعْفُوا اللِّحَى” کا مطلب اور مدعا یہ ہو گا کہ ڈاڑھی رکھی جائے ، نہ منڈائی جائے نہ زیادہ کم کرائی جائے ۔ ہمارے فقہا نے ایک مشت سے کم کرانے کو نادرست کہا ہے ۔ ایک مشت کی مقدار کی یہ تحدید کسی حدیث میں نہیں ہے ۔ غالباً اس کی بنیاد یہی ہے کہ صحابہ کرامؓ سے ایک مشت تک رکھنا تو ثابت ہے ، اس سے کم کرانا ثابت نہیں ۔ واللہ اعلم ۔
ڈاڑھی مونچھ کے بالوں اور ظاہری ہیئت سے متعلق ہدایات
عمرو بن شیعب اپنے والد شعیب سے اور وہ اپنے دادا حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنی ریش مبارک کے عرض سے بھی اور طول سے بھی کچھ ترشواتے تھے ۔ (جامع ترمذی)
ڈاڑھی مونچھ کے بالوں اور ظاہری ہیئت سے متعلق ہدایات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جس شخص کے بال ہوں اس کو چاہئے کہ وہ ان بالوں کا اکرام کرے ۔ (سنن ابو داؤد) تشریح بالوں کا اکرام یہ ہے کہ ان کو دھویا جائے ، حسب ضرورت تیل لگایا جائے ، ان میں کنگھی بھی کی جائے ۔ خود رسول اللہ ﷺ کا طرزِ عمل بھی یہی تھا ، آپ ﷺ ہمیشہ سر پر بال رکھتے تھے جو کبھی کانوں تک اور کبھی کانوں کے نیچے تک رہتے تھے ۔ آپ ﷺ ان کو اہتمام سے دھوتے بھی تھے ، ان میں تیل بھی لگاتے تھے ، کنگھی بھی فرماتے تھے ۔ علماء نے لکھا ہے کہ حج اور عمرہ کے سوا کبھی سر کے بالوں کا منڈوانا آپ ﷺ سے ثابت نہیں ۔
ڈاڑھی مونچھ کے بالوں اور ظاہری ہیئت سے متعلق ہدایات
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے خادم) نافع ، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ منع فرماتے تھے قزع سے ۔ نافع سے پوچھا گیا کہ قزع کا کیا مطلب ہے ؟ انہوں نے کہا کہ قزع یہ ہے کہ بچے کے سر کے کچھ حصہ کے بال مونڈ دئیے جائیں اور کچھ حصہ کے چھوڑ دئیے جائیں ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک بچہ کو دیکھا جس کے سر کے کچھ بال مونڈ دئیے گئے اور کچھ چھوڑ دئیے گئے تھے تو آپ ﷺ نے لوگوں کو اس سے منع فرمایا اور ہدایت فرمائی کہ یا تو پورا سر مونڈا جائے یا پورے سر پر بال چھوڑ دئیے جائیں ۔ اس حکم کی وجہ ظاہر ہے ، سر کے کچھ حصے کے بال مونڈ دینا اور کچھ چھوڑ دینا انتہائی بےڈھنگے پن کی بات ہے اور اس سے بچے کی شکل بگڑ جاتی ہے ۔ بہرحال رسول اللہ ﷺ نے اس سے ممانعت فرمائی ہے ۔ اس حکم پر اس سے ملتی جلتی دوسری صورتوں کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے ۔
عورتوں کو مہندی لگانے کا حکم
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہند بنت عتبہ نے حضور ﷺ سعے عرض کیا کہ : “مجھے بیعت کر لیجئے ؟” آپ ﷺ نے فرمایا کہ : “میں تم کو اس وقت تک بیعت نہیں کروں گا جب تک کہ تم (مہندی لگا کر)” اپنے ہاتھوں کی صورت نہ بدلو گی (تمہارے ہاتھ اس وقت) کسی درندے کے سے ہاتھ معلوم ہوتے ہیں”۔ (سنن ابی داؤد) تشریح یہ ہند بنت عتبہ ابو سفیان کی بیوی تھیں ۔ فتح مکہ کے دن اسلام لائیں ، اور اسی دن قریش کی دوسری بہت سی عورتوں کے ساتھ پہلی بیعت کی ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث میں ہندہ کی طرف سے جس بیعت کی درخواست کا ذکر ہے بظاہر یہ انہوں نے بعد میں کسی وقت کی ہئے ، اور اسی موقع پر حضور ﷺ نے ان کو ہاتھوں میں مہندی لگانے کی یہ ہدایت فرمائی ۔ دوسری بعض روایات میں اور بھی بعض عورتوں کا ذکر ہے جن کو آپ ﷺ نے مہندی استعمال کرنے کی اسی طرح تاکید فرمائی ۔ رسول اللہ ﷺ کی اس ہدایت و تعلیم سے اسلامی شریعت کا یہ نقطہ نظر معلوم ہو گیا کہ عورتوں کو جائز حد تک زینت اور سنگھار کے اسباب استعمال کرنے چاہئیں ، ظاہر ہے یہ چیز ان کے اور ان کے شوہروں کے درمیان محبت اور قلبی تعلق میں اضافہ کا باعث ہو گی ۔
ستر اور پردے کے بارے میں ہدایات: ضروری ستر
حضرت جرہد بن خویلد سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تمہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ ران (بھی) ستر میں شامل ہے ۔ (یعنی اس کا کھولنا جائز نہیں) ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد) تشریح انسان کی معاشی زندگی میں ستر اور پردے کے مسئلہ کی بھی خاص اہمیت ہے اور یہ ان خصائص میں سے جن میں انسان دوسرے حیوانات سے ممتاز ہے ۔ خالقِ کائنات نے دوسرے حیوانات میں حیا اور شرم کا وہ مادہ نہیں رکھا جو انسان کی فطرت میں رکھا گیا ہے اس لئے حیوانات اپنے جسم کے کسی حصے کو اور اپنے کسی فعل کو چھپانے کی وہ کوشش نہیں کرتے جو انسان کرتا ہے ، اور جس کے لئے وہ اپنی فطرت سے مجبور ہے ۔ بہرحال ستر اور پردہ اصولی درجہ میں انسانی فطرت کا تقاضا ہے اسی لئے تمام اقوام و ملل اپنے عقائد و نظریات اور رسوم و عادات کے بہت سے اختلاف کے باوجود بنیادی طور پر اس پر متفق ہیں کہ آدمی کو دوسرے حیوانات کی طرح ننگ دھڑنگ نہیں رہنا چاہئے ۔ اسی طرح یہ بات بھی تمام انسانی گروہوں سے مسلمات بلکہ معمولات میں سے ہے کہ اس بارے میں عورت کا درجہ مرد سے بھی بلند ہے ، گویا جس طرح ستر اور پردے کے باب میں انسانوں کو عام حیوانات کے مقابلے میں امتیاز و تفوق حاصل ہے اسی طرح اس معاملہ میں عورت کو مرد کے مقابلہ میں فوقیت اور برتری حاصل ہے ، کیوں کہ اس کی جسمانی ساخت ایسی ہے کہ اس میں جنسی کشش جو بہت سے فتنوں کا ذریعہ بن سکتی ہے مردوں سے کہیں زیادہ ہے ، اسی لئے ان کے پیدا کرنے والے نے ان میں حیاء کا جذبہ بھی مردوں سے زیادہ رکھا ہے ۔ بہرحال اولادِ آدم کے لئے ستر اور پردہ بنیادی طور پر ان کی فطرت کا تقاضا اور پوری انسانی دنیا کے مسلمات میں سے ہے ۔ پھر جس طرح انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں ہدایت کی تکمیل اللہ کے آخری نبی سیدنا حضرت محمدﷺ کے ذریعہ ہوئی اسی طرح اس شعبہ میں بھی جو ہدایات آپ ﷺ نے دیں وہ بلاشبہ اس شعبہ کی تکمیلی ہدایات ہیں ۔ اس باب میں اصولی و بنیادی احکام تو آپ ﷺ کی لائی ہوئی کتابِ ہدایت قرآن مجید ہی میں دئیے گئے ہیں ۔ سورہ اعراف کے شروع ہی میں جہاں حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق اور انسانی دنیا کے آغاز کا ذکر ہے فرمایا گیا ہے کہ : “نسلِ آدمؑ کو ستر چھپانے کی ہدایت اسی ابتدائی دور میں دے دی گئی تھی اور آگاہ کر دیا گیا تھا کہ اس بارے میں تم شیطان کے اغوا کا شکار نہ ہو جانا وہ تمہیں انسانیت کی بلند کے بلند سطح سے گرا کر جانوروں کی طرح ننگا اور بےپردہ کرنے کی کوشش کرے گا” ۔ پھر سورہ نور اور سورہ احزاب میں خاص کر عورتوں کے پردے کے بارے میں احکام دئیے گئے ۔ مثلاً یہ کہ ان کی اصل جگہ اپنا گھر ہے ، لہذا بے ضرورت سیر سپاٹے یا اپنی نمائش کے بارے میں احکام دئیے گئے ۔ مثلاً یہ کہ ان کی اصل جگہ اپنا گھر ہے ، لہذا بےضرورت سیرسپاٹے یا اپنی نمائش کے لئے گھروں سے باہر نہ گھومیں ۔ اور اگر ضرورت سے نکلیں (جس کی اجازت ہے) تو پورے پردے والا لباس پہن اوڑھ کر نکلیں ۔ اور گھروں میں شوہروں کے علاوہ گھر کے دوسرے لوگوں یا آنے جانے والے عزیزوں ، قریبوں کے سامنے لباس اور پردے کے بارے میں ان مقررہ حدود کی پابندی کریں ۔ اور مردوں کو چاہئے کہ اپنے اہلِ قرابت یا دیگر اہلِ تعلق کے گھروں میں اچانک یا بلااطلاع اور اجازت کے نہ جائیں ۔ نیز مرد عورتوں کو اور عورتیں مردوں کو دیکھنے ، تاکنے کی کوشش نہ کریں ، بلکہ سامنا ہو جائے تو نگاہین نیچی کر لیں ۔ اللہ تعالیٰ نے جن کو عقلِ سلیم دی ہے اور ان کی فطرت مسخ نہیں ہوئی ہے ، وہ اگر غور کریں تو ان شاء اللہ انہیں اس میں شبہ نہ ہو گا کہ یہ احکام انسان کے جذبہ حیا کے فطری تقاضوں کی تکمیل بھی کرتے ہیں اور ان سے ان شیطانی اور شہوانی فتنوں کا دروازہ بھی بند ہو اجتا ہے جو زندگی کو گندہ اور اخلاق کو برباد کرتے ہیں ، اور کبھی کبھی بڑے شرمناک اور گھناؤنے نتائج کا باعث بن جاتے ہین ۔ اس تمہید کے بعد اور اس کی روشنی میں اس باب سے متعلق رسول اللہ ﷺ کے مندرجہ ذیل ارشادات پڑھئے : تشریح ..... انسانی جسم کے جو حصے عرف میں شرم گاہ کہلاتے ہیں ان کے بارے میں تو ہر آدمی حتیٰ کہ خدا کے اور کسی دین و مذہب کے نہ ماننے والے بھی سمجھتے ہیں کہ ان کا ستر یعنی چھپانا ضروری ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ انسانی جسم میں صرف شرم گاہ اور اس کے قریبی حصے ہی نہیں بلکہ ران تک ستر میں شامل ہے جس کا چھپانا ضروری ہے ۔ یہ گویا ستر کے بارے میں تکمیلی تعلیم اور ہدایت ہے ۔ اس حدیث میں فخذ (ران) کو عورۃ فرمایا گیا ہے ۔ عورۃ کے لفظی معنی ہیں ، چھپانے کی چیز ، جس کا کھلنا شرم وع حیاء کے خلاف ہو ۔
ستر اور پردے کے بارے میں ہدایات: ضروری ستر
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو ہدایت فرمائی کہ : اے علی ! اپنی ران نہ کھولو ، اور کسی زندہ یا مردہ آدمی کی ران کی طرف نظر نہ کرو ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ)
ستر اور پردے کے بارے میں ہدایات: ضروری ستر
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : مرد دوسرے مرد کے ستر کی طرف اور عورت دوسری عورت کے ستر کی طرف نظر نہ کرے ۔ (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ جسم کے وہ مخصوص حصے جن کو چھپانا ضروری قرار دیا گیا ہے (یعنی ناف کے نیچے سے رانوں تک) ان کی طرف نظر کرنا ہم جنسوں کے لئے بھی جائز نہیں ۔ اور بلاشبہ حیا اور شرم کا تقاضا یہی ہے ، ہاں ضرورت کے مواقع مستثنیٰ ہوں گے ۔
تنہائی میں بھی ستر کا چھپانا ضروری
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگو (تنہائی کی حالت میں بھی) برہنگی سے پرہیز کرو (یعنی بےضرورت تنہائی میں بھی ستر نہ کھولو) کیوں کہ تمہارے ساتھ فرشتے برابر رہتے ہیں ، کسی وقت بھی جدا نہیں ہوتے ، سوائے قضائے حاجت اور میاں بیوی کی صحبت کے وقت کے، لہذا ان سے شرم کرو اور ان کا احترام کرو ۔ (جامع ترمذی) تشریح رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی ہدایت فرمائی کہ اگر آدمی کسی وقت اور کسی جگہ بالکل تنہا ہو کوئی دوسرا شخص دیکھنے والا نہ ہو تب بھی بلاضرورت برہنہ نہ ہو اور ستر کی حفاظت کرے ، اللہ سے اورا اس کے فرشتوں سے شرم کرے ۔ تشریح ..... اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کراماً کاتبین وغیرہ جو فرشتے انسانوں کے ساتھ رہتے ہیں ، وہ ان اوقات میں الگ ہو جاتے ہیں جو آدمی اپنی فطری ضرورت سے بےپردہ ہوتا ہے ۔
تنہائی میں بھی ستر کا چھپانا ضروری
بہز بن حکیم نے اپنے والد حکیم سے اور انہوں نے بہز کے دادا (یعنی اپنے والد) معاویہ بن حیدہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : اپنی شرم گاہ محفوظ رکھو (کسی کے سامنے نہ کھولو) سوائے اپنی بیوی اور (شرعی) باندی کے (معاویہ بن حیدہ کہتے ہیں کہ) میں نے عرض کیا کہ : حضرت ! کیا فرماتے ہیں اس حالت کے ابرے میں جب آدمی بالکل تنہائی میں ہو ؟ (کوئی دوسرا آدمی دیکھنے والا نہ ہو) آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ اس کا زیادہ سزاوار ہے اور اس کا زیادہ حق ہے کہ اس سے شرم کی جائے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ)
عورتوں کو پردہ ضروری ، باہر نکلنا موجب فتنہ
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : عورت گویا ستر ہے (یعنی جس طرح ستر کو چھپا رہنا چاہیے ، اسی طرح عورت کو گر میں پردے میں رہنا چاہئے) جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیاطین اس کو تاکتے اور اپنی نظروں کا نشانہ بناتے ہیں ۔ (جامع ترمذی) تشریح عربی زبان میں “عورت” اس چیز یا اس حصہ جسم کو کہتے ہیں جس کا چھپانا اور پردے میں رکھنا ضروری اور کھولنا معیوب سمجھا جائے ۔ اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ “الْمَرْأَةُ عَوْرَةٌ” یعنی صنف خواتین کی نوعیت یہی ہے ، ان کو پردے میں رہنا چاہئے ۔ آگے فرمایا گیا ہے کہ : جب کوئی خاتون باہر نکلتی ہے تو شیطان تاک جھانک کرتے ہیں ۔ حضور ﷺ کے اس ارشاد کا مدعا اور مقصد یہ ہے کہ عورتوں کو حتی الوسع باہر نکلنا ہی نہ چاہئے تا کہ شیطانوں اور ان کے چیلے چانٹوں کو شیطنت اور شرارت کا موقع ہی نہ ملے ، اور اگر ضرورت سے نکلنا ہو تو اس طرح باپردہ نکلیں کہ زینت و آرائش کا اظہار نہ ہو ۔ قرآن مجید کی آیت “وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ” میں بھی یہی ہدایت فرمائی گئی ہے ۔ البتہ ضرورت سے باہر نکلنے کے بارے میں صحیح بخاری کی ایک حدیث میں حضور ﷺ کا صریح ارشاد ہے : “إِنَّهُ قَدْ أُذِنَ لَكُنَّ أَنْ تَخْرُجْنَ لِحَاجَتِكُنَّ” یعنی بہ ضرورت باہر نکلنے کی اجازت ہے ۔
نظر بازی موجبِ لعنت
حضرت حسن بصری سے روایت ہے کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : خدا کی لعنت ہے دیکھنے والے پر اور اس پر جس کو دیکھا جائے ۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح مطلب یہ ہے کہ جو کوئی کسی نامحرم عورت کو یا کسی کے ستر کو (جس کا دیکھنا حرام ہے) دیکھے ، تو اس پر خدا کی طرف سے لعنت ہے ، یعنی رحمت سے محرومی کا فیصلہ ہے اور اسی طرح وہ بھی رحمت خداوندی سے محروم ہے جس نے قصداً دیکھنے والے کو دیکھنے کا موقع دیا اور دکھایا ۔
کسی اجنبی عورت پر اچانک نگاہ پڑ جانے کا حکم
حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اچانک نظر پڑ جانے کے بارے میں دریافت کیا (یعنی یہ کہ اگر اچانک کسی نامحرم عورت پر یا کسی کے ستر پر نظر پڑ جائے تو مجھے کیا کرنا چاہئے؟) تو آپ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں اُدھر سے نگاہ پھیر لوں ۔ (صحیح مسلم)
کسی اجنبی عورت پر اچانک نگاہ پڑ جانے کا حکم
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی سے ایک دفعہ فرمایا : اے علی ! (اگر کسی نامحرم پر تمہاری نظر پڑ جائے) تو دوبارہ نظر نہ کرو ، تمہارے لئے پہلی نظر (جو بلاارادہ اور اچانک پڑ گئی وہ) تو جائز ہے (یعنی اس پر مواخذہ اور گناہ نہ ہو گا) اور دوسری جائز نہیں ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد)
کسی اجنبی عورت پر اچانک نگاہ پڑ جانے کا حکم
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : جس مردِ مومن کی کسی عورت کے حسن و جمال پر پہلی دفعہ نظر پڑ جائے پھر وہ اپنی نگاہ نیچی کر لے اور (اس کی طرف نہ دیکھے) تو اللہ تعالیٰ اس کو ایسی عبادت نصیب فرمائے گا جس کی وہ لذت و حلاوت محسوس کرے گا ۔ (مسند احمد) تشریح یعنی ایک ناجائز نفسانی لذت کی قربانی کے صلہ میں اللہ تعالیٰ آخرت کے بےحساب اجر و ثواب سے پہلے اپنے اس مومن بندے کو حلاوتِ عبادت کی نہایت اعلیٰ روحانی لذت اسی دنیا میں عطا فرمائے گا ۔
غیر عورت پر نظر پڑ جانے سے دل میں گندہ جذبہ پیدا ہو تو
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : ایسا ہوتا ہے کہ کوئی عورت شیطان کی طرح آتی یا جاتی ہے (یعنی اس کا ڈھنگ اور اس کی چال آدمی کے لئے شیطانی فتنہ کا سامان بن سکتی ہے) تو اگر کسی کو ایسا واقعہ پیش آئے کہ کوئی ایسی عورت اچھی لگے اور اس کے ساتھ دلچسپی اور دل میں اس کی خواہش پیدا ہو جائے توا ٓدمی کو چاہئے کہ اپنی بیوی کے پاس جائے اور اپنی نفسانی خواہش پوری کرے ، اس سے اس کی اس گندی خواہش نفس کا علاج ہو جائے گا ۔ (صحیح مسلم) تشریح انسان کی یہ فطرت ہے کہ کوئی کھانے پینے کی مرغوب چیز دیکھے یا خوشبو ہی آ جائے تو اس کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے ۔ گرمی اور تپش کی حالت میں ٹھنڈی ، سایہ دار اور خوش منظر جگہ دیکھ کر وہاں ٹھہرنے اور آرام کرنے کو جی چاہنے لگتا ہے ۔ اسی طرح یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی غیر عورت پر اچانک نگاہ پڑ جانے سے بسا اوقات شہوانی تقاجا پیدا ہو جاتا ہے جو اغواء شیطانی سے بہت برے نتائج تک بھی پہنچا سکتا ہے ، اور کم از کم آدمی ایک قسم کی بےچینی میں تو مبتلا ہو ہی جاتا ہے ۔ نفس و روح کے معالج اعظم رسول اللہ ﷺ نے اس کا بھی علاج بتلایا ہے ۔
نامحرم عورتوں سے تنہائی میں ملنے کی ممانعت
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا کہ کوئی (نامحرم) آدمی کسی عورت سے تنہائی میں ملے اور وہاں تیسرا شیطان موجود نہ ہو ۔ (جامع ترمذی) تشریح معاشرے کو فواحش اور گندے اعمال و اخلاق سے محفوظ رکھنے کے لئے رسول اللہ ﷺ نے جو ہدایات فرمائی ہیں ان مین سے یہ بھی ہے کہ کوئی شخص کسی نامحرم عورت سے تنہائی میں نہ ملے ، ایسی صورت میں اس شیطان کو اپنا کھیل کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے جو ہر وقت ساتھ رہتا ہے ۔ تشریح ..... مطلب یہ ہے کہ جب کوئی نامحرم شخص تنہائی میں کسی عورت سے ملے گا تو شیطان ان کو معصیت میں مبتلا کرنے کی ضرور کوشش کرے گا ۔ اس لعین دشمن ایمان کو اس کا موقع ہی نہ دیا جائے ۔
نامحرم عورتوں سے تنہائی میں ملنے کی ممانعت
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : تم (نامحرم) عورتوں کے پاس جانے سے بچو (اور اس معاملہ میں بہت احتیاط کرو) ایک شخص نے دریافت کیا کہ : شوہر کے قریبی رشتہ داروں (دیور وغیرہ) کے بارے میں حضور ﷺ کا کیا ارشاد ہے ؟ (کیا ان کے لئے بھی یہی حکم ہے ؟) آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : وہ تو بالکل موت اور ہلاکت ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح شوہر کے قریبی رشتہ داروں میں اس کے باپ اور اس کی اولاد تو بیوی کے لئے محرم ہیں ، ان کے علاوہ سارے رشتہ دار حتیٰ کے حقیقی بھائی بھی نامحرم ہیں ، ان کا بھی آزادانہ طور پر گھر میں آنا اور خلوت و جلوت میں بےتکلف اور بےپردہ ملنا اور باتیں کرنا رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کے مطابق انتہائی خطرناک اور عفت و دیانت کے لئے گویا زہر قاتل ہے ۔
نامحرم عورتوں سے تنہائی میں ملنے کی ممانعت
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : (خاصکر) ان خواتین کے گھروں میں نہ جایا کرو جن کے شوہر کہیں باہر (سفر وغیرہ) میں گئے ہوئے ہوں ، کیوں کہ شیطان (یعنی اس کے اثرات و وساوس) سب میں اس طرح (غیر مرئی طور پر) جاری ساری رہتے ہیں جس طرح رگوں میں خون رواں دواں رہتا ہے ۔ ہم نے عرض کیا : اور کیا آپ میں بھی ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اور مجھ میں بھی ، لیکن اللہ تعالیٰ نے میری (اس معاملہ میں) خاص مدد فرمائی ہے اس لئے میں محفوظ رہتا ہوں ۔ (جامع ترمذی) تشریح شادی شدہ عورتیں جن کے شوہر کہیں سفر وغیرہ میں گئے ہوئے ہوں ان سے نامحرم مردوں کے ملنے میں ظاہر ہے فتنہ کا خطرہ زیادہ ہے ، اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس بارے میں یہ خاص ہدایت فرمائی اور یہ بھی فرمایا کہ شیطان ہر ایک کے ساتھ لگا ہوا ہے ، اور اس کے وساوس و اثرات آدمی میں اس طرح دوڑ جاتے ہیں جس طرح رگوں میں خون دوڑتا ہے ۔ اس موقع پر کسی نے حضور ﷺ سے سوال کیا کہ : حضرت ! اس بارے میں (یعنی شیطانی وساوس و تصرفات کے بارے میں) حضور ﷺ کا کیا حال ہے ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : شیطان تو میرے ساتھ بھی ہے ، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں میری خاص مدد فرمائی ہے جس کی وجہ سے میں اس کے وساوس اور اثرات سے محفوظ رہتا ہوں ، مجھ پر اس کا داؤ نہیں چلتا اور وہ مجھے کسی غلطی یا فتنہ میں مبتلا نہیں کر سکتا ۔ یہ دراصل عفتِ عصمت کا لازمی تقاجا ہے ۔ یہاں یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ حضور ﷺ نے شیطانی اثرات و وساوس سے محفوظ رہنے کو اپنا ذاتی کمال نہیں بتلایا ، بلکہ اللہ تعالیٰ کی خاص مدد اور اعانت کا نتیجہ قرار دیا ۔ یہ عبدیت کا خاص الخاص مقام ہے ۔ اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى عَبْدِكَ وَنَبِيِّكَ سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَصَحْبِهِ وَاَتْبَاعِهِ
نکاح و ازدواج اور اس کے متعلقات: مرد عورت کے جوڑ و ملاپ اور اس سے پیدا ہونے والی اولاد کے بارے میں زمانہ جاہلیت کے طریقے اور ضابطے
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے (انہوں نے بیان فرمایا) کہ زمانہ جاہلیت میں نکاح (یعنی مرد و عورت کے جوڑ ملاپ اور اس سے پیدا ہونے والی اولاد سے متعلق) چار طریقے رائج تھے ۔ ان میں سے ایک طریقہ تو وہ تھا جو (اصولی طور پر) آج بھی رواج میں ہے کہ ایک آدمی کی طرف سے دوسرے آدمی کو اس کی بیٹی یا اس کی زیر ولایت لڑکی کے لئے نکاح کا پیام دیا جاتا ہے ۔ پھر وہ مناسب مہر مقرر کر کے اس لڑکی کا نکاح اس آدمی سے کر دیتا ہے ۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ کسی آدمی کی بیوی جب حیض سے پاک ہوتی (اس وقت عورت میں حاملہ ہونے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے) تو وہ (کسی بڑے شان والے آدمی کے بارے میں) خود اپنی بیوی سے کہہ دیتا کہ تو اس آدمی کو بلا کر اس سے نیوگ کر لے (یعنی اس سے تعلق قائم کر لے ، اور اس کی صحبت سے حمل حاص ہونے کی کوشش کر) اور پھر وہ شوہر اپنی بیوی سے خود اس وقت تک الگ رہتا جب تک کہ اس دوسرے آدمی سے حمل قرار پاتا ، پھر جب اس کے حمل کے آثار ظاہر ہو جاتے تو اس کے بعد یہ شوہر حسبِ خواہش اپنی بیوی سے صحبت کرتا ، اور یہ سب کچھ اس غرض سے کرتا تا کہ لڑکا نجیب (بڑی شان والا) پیدا ہو ، اور اس طریقہ کو “نکاح استبضاع” کہا جاتا تھا ۔ (1) اور ایک اور (تیسرا) طریقہ یہ تھا کہ چند آدمیوں کی ٹولی (روایت میں “رھط” کا لفظ ہے جو دس سے کم کے لئے بولا جاتا ہے) ایک عورت کے پاس پہنچتی اور ان میں سے ہر ایک اس سے صحبت کرتا (اور یہ سب باہمی رضامندی سے ہوتا) پھر اگر وہ عورت حاملہ ہو جاتی اور بچہ ہو جاتا تو چند روز کے بعد وہ ان سب آدمیوں کو بلواتی (اور دستور کے مطابق) کسی کے لئے بھی اس کی گنجائش نہ ہوتی کہ وہ نہ آئے ۔ اس لئے سب ہی پہنچ جاتے تو وہ کہتی کہ جو کچھ ہوا تھا وہ تمہیں معلوم ہے اور (اس کے نتیجہ میں) میرے یہ بچہ پیدا ہوا اور پھر وہ ان مٰں سے جس کو چاہتی نامزد کر کے کہتی اے فلانے یہ تیرا لڑکا ہے ۔ پھر وہ لڑکا اسی کا مان لیا جاتا تھا اور وہ آدمی انکار نہیں کر سکتا تھا ۔ (یہ تیسرا طریقہ تھا) اور چوتھا طریقہ یہ تھا کہ ایک عورت سے بہت سے لوگوں کا جنسی تعلق ہوتا ۔ کسی کے لئے کوئی روک ٹوک نہ ہوتی ، یہ پیشہ ور لونڈیاں ہوتی تھیں ، ان کے گھروں کے دروازے پر بطور علامت کے ایک نشان نصب ہوتا تھا جو کوئی بھی چاہتا ان کے پاس پہنچ جاتا ، تو جب ان میں سے کسی کو حمل رہ جاتا اور پھر بچہ پیدا ہوتا تو اس سے تعلق رکھنے والے یہ سب لوگ جمع ہو جاتے اور قیافہ شناسی کے ماہرین بلائے جاتے ، پھر وہ (اپنی قیافہ شناسی سے) اس بچہ کو جس کے نطفہ سے سمجھتے اسی کا لڑکا قرار دے دیتے اور بس وہ اس سے چپک جاتا ۔ اور اسی کا بیٹا کہا جاتا ، وہ اس سے انکار نہیں کر سکتا تھا ۔ (ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے زمانہ جاہلیت کے یہ سب طریقے بیان کرنے کے بعد فرمایا) پھر جب حضرت محمدﷺ اللہ کی طرف سے دینِ حق کے ساتھ مبعوث ہوئے تو آپ ﷺ نے جاہلیت کے ان سب (شرمناک اور حیاسوز) مروج طریقوں کو یکسر مٹا دیا ۔ اور نکاح و شادی کا بس وہی (پاکیزہ) طریقہ رہ گیا جو اب جاری ہے ۔ (صحیح بخاری) تشریح بسم اللہ الرحمن الرحیم نکاح و ازدواج اور اس کے متعلقات نکاح اور شادی کا طریقہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے زمانہ جاہلیت میں عربوں میں مرد و عورت کے باہمی تعلق اور اولاد سے متعلق کئی طریقے اور ضابطے رائج تھے ، ان میں سے بعض نہایت گندے اور شرمناک تھے ، ایک طریقہ اصولی طور پر صحیح اور شریفانہ تھا ، رسول اللہ ﷺ نے اس کی اصلاح فرما کر بس اسی کو باقی رکھا اور دوسرے سارے طریقے یکسر ختم فرما دئیے اور ان کو سنگین گناہ اور جرم قرار دیا ۔ آپ ﷺ نے اپنے طرزِ عمل اور ارشادات سے نکاح و شادی کا جو عمومی طریقہ مقرر فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ مرد کی طرف سے عورت کے اولیاء اور سرپرستوں کو پیام دیا جائے اور رشتہ کی طلب و استدعا کی جائے ، وہ اگر رشتہ کو مناسب اور قرینِ مصلحت سمجھیں تو عورت کے عاقلہ بالغہ اور صاحب رائے ہونے کی صورت میں اس کی مرضی معلوم کر کے اور کم سن ہونے کی صورت میں اپنی مخلصانہ اور خیرخواہانہ صوابدید کے مطابق رشتہ منظور کر لیں اور نکاح کر دیں ۔ اور ظاہر ہے کہ یہی طریقہ فطرت و حکمت کے عین مطابق ہے ۔ نکاح و شادی کی اصل ذمہ داریاں چونکہ منکوحہ عورت پر عائد ہوں گی اور وہی ساری عمر کے لئے ان کی پابند ہو گی اس لئے اس کی رائے اور رضامندی لینا بھی ضروری قرار دیا گیا ہے ، اور اس کے نفس کا اصل مختار خود اسی کو قرار دیا گیا ہے ۔ ولی اور سرپرست کو حق نہیں ہے کہ اس کی مرضی کے خلاف کسی سے اس کا نکاح کر دے ۔ اسی کے ساتھ عورت کے شرف نسوانیت کی رعایت سے ہدایت فرمائی گئی کہ معاملہ اولیاء اور سرپرستوں ہی کے ذریعہ طے ہو اور وہی عقد و نکاح کرنے والے ہوں ۔ یہ بات عورت کے مقامِ شرف کے خلاف ہے کہ کسی کی بیعی بننے کا معاملہ وہ خود براہِ راست طے کرے اور خود سامنے آ کر اپنے کو کسی کے نکاح میں دے ۔ علاوہ ازیں چونکہ کسی لڑکی کے نکاح کے کچھ اثرات اس کے خاندان پر بھی پڑتے ہیں اس وجہ سے بھی اولیاء (خاندانی بزرگوں) کو کسی درجہ میں دخیل قرار دیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ ویہ بھی حقیقت ہے کہ اگر سارا معاملہ عورت ہی کے ہاتھ میں دے دیا جائے اور اولیاء بےتعلق رہیں تو اس کا بہت زیادہ امکان ہے کہ بےچاری عورت دھوکا کھا جائے اور کسی کے دامِ فریب میں آ کر خود اپنے حق میں غلط فیصلہ کر لے ، ان سب وجوہ کی بناء پر ضروری قرار دیا گیا ہے کہ (خاص استثنائی صورتوں کے علاوہ) نکاح و شادی اولیاء ہی کے ذریعہ ہو ۔ نکاح و شادی کے سلسلہ میں ایک رہنمائی یہ بھی فرمائی گئی ہے کہ جس عورت سے نکاح کرنے کا ارادہ ہو اگر دیکھی بھالی بالکل نہ ہو تو اگر وہ سکے تو پیام دینے سے پہلے ایک نظر دیکھ لیا جائے تا کہ بعد میں کوئی خدشہ پیدا نہ ہو ۔ یہ مقصد ایک درجہ میں قابلِ اعتماد عورتوں کے دیکھنے سے بھی پورا ہو سکتا ہے ۔ ایک ہدایت یہ بھی فرمائی گئی کہ اگر کسی عورت سے نکاح کے لئے کسی دوسرے مرد کی طرف سے پیام دیا جا چکا ہے تو جب تک اس کے لئے انکار نہ ہو جائے اور بات ٹوٹ نہ جائے اس کے لئے پیام نہ دیا جائے ۔ اس کی حکمت ظاہر ہے ۔ نکاح کے لئے یہ بھی ضروری قرار دیا گیا ہے کہ وہ خفیہ نہ ہو ، کچھ لوگں کی موجودگی میں اعلانیہ ہو جو اس کے شاہد اور گواہ ہوں ، بلکہ بہتر بتایا گیا ہے کہ مسجد میں ہو ، اسی طرح نکاح کے موقعہ پر خطبہ بھی مسنون ہے ۔ مرد کی طرف سے عورت کے لئے مہر کا نذرانہ بھی ضروری قرار دیا گیا ان سب امور اور نکاح کے دوسرے متعلقات سے متعلق احادیث ذیل میں پڑھئے ! تشریح ..... حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اس روایت سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے عرب کیسی گندگیوں اور تاریکیوں میں تھے ، اور پھر آپ ﷺ کی ہدایت اور تعلیم و تربیت نے ان کو آسمانِ ہدایت کا چاند اور سورج بنا دیا ۔ اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَنَبِيِّكَ رَسُوْلِ الرَّحْمَةِ مُخْرِجِ النَّاسِ مِنَ الظُّلُمَاتِ اِلَى النُّوْرِ بِاِذْنِكَ وَبَارِكْ وَسَلِّمْ
جس عورت سے نکاح کرنے کا ارادہ ہو اس کو ایک نظر دیکھ لینا گناہ نہیں ، بلکہ بہتر ہے
حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ کسی آدمی کے دل میں کسی عورت کے لئے نکاح کا پیام دینے کا خیال ڈالے تو اس کے واسطے گناہ نہیں ہے کہ ایک نظر اس کو دیکھ لے ۔ (مسند احمد ، سنن ابن ماجہ)
جس عورت سے نکاح کرنے کا ارادہ ہو اس کو ایک نظر دیکھ لینا گناہ نہیں ، بلکہ بہتر ہے
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک خاتون کے لئے نکاح کا پیام دیا (یا پیام دینے کا ارادہ کیا) تو رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ : تم نے اس کو دیکھا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے دیکھا تو نہیں ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا : ، ایک نظر دیکھ لو ، یہ اس مقصد کے لئے زیادہ مفید ہو گا کہ تم دونوں میں الفت و محبت اور خوشگواری رہے ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن نسائی ، ابن ماجہ) تشریح رسول اللہ ﷺ کے ان ارشادات کا مقصد یہی ہے کہ نکاح و شادی کا مسئلہ بہت اہم ہے ساری عمر کے لئے فیصلہ اور معاہدہ ہے ، یہ مناسب نہیں کہ یہ معاملہ ناواقفی و بےخبری کے ساتھ اندھیرے میں ہو ، بلکہ واقفیت اور بصیرت کے ساتھ ہونا چاہئے ۔ قابلِ اعتماد لوگوں اور خاص کر عورتوں کے ذریعہ بھی صحیح معلومات حاصل ہو سکتے ہیں ، جو بھی ذریعہ اختیار کیا جائے اس کا بہرحال لحاظ رکھا جائے کہ عورت کو یا اس کے گھر والوں کو گرانی اور ناگواری نہ ہو ، بلکہ اچھا ہے کہ ان کو خبر بھی نہ ہو ، سنن ابی داؤد میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا یہ بیان مروی ہے کہ میں نے ایک عورت کے لئے نکاح کا پیام دینے کا ارادہ کیا تو رسول اللہ ﷺ کی اس ہدایت کے مطابق میں چھپ چھپ کر اس کو دیکھنے کی کوشش کرتا تھا ۔ یہاں تک کہ اس میں کامیاب ہو گیا پھر میں نے اس سے نکاح کر لیا ۔
پیام پر دوسرا پیام نہ دیا جائے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : کوئی شخص ایسا نہ کرے کہ اپنے دوسرے بھائی کے پیامِ نکاح کے مقابلہ میں اپنا پیام دے ، تا آنکہ وہ نکاح کر لے یا چھوڑ دے اور بات ختم ہو جائے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی عورت سے نکاح کے لئے اپنا پیام دے دیا ہے تو جب تک ادھر کا معاملہ ختم نہ ہو جائے کسی دوسرے آدمی کے لئے درست نہیں کہ وہ اپنا پیام وہیں کے لئے دے ، ظاہر ہے کہ یہ بات پہلے پیام دینے والے آدمی کے لئے ایذاء اور ناگواری کا باعث ہو گی اور ایسی باتوں سے فتنہ پیدا ہو سکتے ہیں ۔
نکاح کے معاملے میں عورت کی مرضی اور ولی کا مقام
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : شوہر دیدہ عورت کا اپنے نفس کے بارے میں اپنے ولی سے زیادہ حق اور اختیار ہے اور باکرہ (کنواری) کے باپ کو بھی چاہئے کہ اس کے نکاح کے بارے میں اس کی اجازت حاصل کرے اور اس کی خاموشی بھی اجازت ہے ۔ (صحیح مسلم)
نکاح کے معاملے میں عورت کی مرضی اور ولی کا مقام
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : شوہر دیدہ عورت کا اس وقت تک نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے دریافت نہ کر لیا جائے اور باکرہ (کنواری) لڑکی کا نکاح بھی اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے ۔ صحابہؓ نے عرض کیا اس کی اجازت کا طریق کیا ہو گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ : (دریافت کرنے پر) اس کا خاموش ہو جانا (اس کی اجازت سمجھا جائے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح ایّم کے اصل معنی ہیں بےشوہر والی عورت ، لیکن اس حدیث میں اس سے مراد ایسی عورت ہے جو شادی اور شوہر کے ساتھ رہنے کے بعد بےشوہر ہو گئی ہو ، خواہ شوہر کا انتقال ہو گیا ہو یا اس نے طلاق دے دی ہو ۔ (اسی کو حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی اوپر والی حدیث میں “ثیّب” کہا گیا ہے) ایسی عورت کے بارے میں ان دونوں حدیثوں میں ہدایت فرمائی گئی ہے کہ اس کی رائے اور مرضی معلوم کئے بغیر اس کا نکاح نہ کیا جائے ، یعنی یہ ضروری ہے کہ وہ زبان سے یا واضح اشارہ سے اپنی رضامندی ظاہر کرے ، اس حدیث کے لفظ “حتى تستامر” کا یہی مطلب ہے ۔ اور اس کے مقابلہ میں “بکر سے مراد وہ کنواری لڑکی ہے جو عاقل بالغ تو ہو لیکن شوہر دیدہ نہ ہو ۔ اس کے بارے میں ہدایت فرمائی گئی ہے کہ اس کا نکاح بھی اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے ، لیکن ایسی لڑکیوں کو حیا و شرم کی وجہ سے چونکہ زبان یا اشارہ سے اجازت دینا مشکل ہوتا ہے ۔ اس لئے دریافت کرنے اور اجازت مانگنے پر ان کی خاموشی کو بھی اجازت قرار دے دیا گیا ہے ۔ ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ کسی عاقل بالغ عورت کا نکاح خواہ وہ شوہر دیدہ ہو یا کنواری ہو ، اس کی مرضی اور اجازت کے بغیر اس کا ولی نہیں کر سکتا ، ہاں اگر کوئی لڑکی صغیر السن ہے ، ابھی نکاح شادی کے بارے میں سوچنے سمجھنے کے لائق نہیں ہے اور کئی بہت اچھا رشتہ سامنے ہے اور خود لڑکی کی مصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا نکاح کر دیا جائے تو ولی (جو خیرخواہی کا ذمہ دار ہے) اپنی خیرخواہانہ صوابدید کے مطابق نکاح کر سکتا ہے ۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) کا نکاح حضور ﷺ سے صرف اپنی صوابدید کے مطابق اس وقت کر دیا تھا جب کہ ان کی عمر ۶۔۷ سال کی تھی ۔
نکاح کے معاملے میں عورت کی مرضی اور ولی کا مقام
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : ولی کے بدونِ نکاح نہیں ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ ، مسند دارمی) تشریح حدیث کا مقصد و مدعا بظاہر یہ ہے کہ نکاح ولی ہی کے ذریعہ ہونا چاہئے ۔ عورت کے لئے یہ ٹھیک نہیں ہے کہ وہ خود اپنا نکاح کرے ۔ یہ اس کے شرف اور مقامِ حیا کے بھی خلاف ہے اور اس سے خرابیاں پیدا ہونے کا زیادہ اندیشہ ہے ۔ ہاں جیسا کہ مندرجہ بالا حدیثوں سے معلوم ہو چکا اپنے بارے میں اصل اختیار عورت ہی کا ہے ۔ ولی اس کی مرضی اور رائے کے خلاف اس کا نکاح نہیں کر سکتا ۔
ضروری ہے کہ نکاح چوری چھپے نہ ہو اعلانیہ ہو
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نکاح بالاعلان کیا کرو اور مسجدوں میں کیا کرو اور دف بجوایا کرو ۔ (جامع ترمذی) تشریح رسول اللہ ﷺ کی اس ہدایت کا مقصد بظاہر یہی ہے کہ نکاح چوری چھپے نہ ہو اوس میں بڑے مفاسد کا خطرہ ہے لہذا بالاعلان کیا جائے ۔ اور اس کے لئے آسان اور بہتر یہ ہے کہ مسجد میں کیا جائے ، مسجد کی برکت بھی حاصل ہو گی اور لوگوں کو جمع کرنے جوڑنے کی زحمت بھی نہ ہو گی ، گواہوں شاہدوں کی شرط بھی آپ سے آپ پوری ہو جائے گی ۔ حضور ﷺ کے زمانے میں نکاح و شادی کی تقریب کے موقع پر دف بجانے کا رواج تھا اور بلاشبہ اس تقریب کا تقاضا ہے کہ بالکل خشک نہ ہو ، کچھ تفریح کا بھی سامان ہو اس لئے آپ ﷺ نے دَف بجانے کی اجازت بلکہ ایک گونہ ترغیب دی ۔
نکاح کے لئے شہادت ضروری
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جو عورتیں اپنا نکاح شاہد گواہ کے بغیر (چوری چھپے) کر لیں وہ حرام کار ہیں ۔ (جامع ترمذی) تشریح اس حدیث کو امام ترمذی نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مرفوعاً بھی روایت کیا ہے جس طرح کہ یہاں نقل کیا گیا ہے ، اور موقوفاً بھی روایت کیا ہے ، یعنی یہ کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد نہیں بلکہ خود حضرت ابنِ عباس کا قول اور فتویٰ ہے ۔ اور سند کے لحاظ سے اسی کو ترجیح دی ہے ۔ لیکن اگر یہ حضرت ابنِ عباسؓ کا قول بھی ہو تو ظاہر ہے کہ وہ حضور ﷺ سے سنے بغیر ایسی بات اپنی طرف سے نہیں کہہ سکتے ۔ اس لئے فقہا اور محدثین کے مسلمہ اصول پر یہ مرفوع ہی کے حکم میں ہے ۔ اسی وجہ سے اُمت کے قریب قریب تمام ائمہ مجتہدین اس پر متفق ہیں کہ شہادت نکاح کے شرائط میں سے ہے جس کے بغیر نکاح منعقد ہی نہیں ہو گا ۔
خطبہ نکاح
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو (نکاح وغیرہ) ہر اہم ضرورت (اور مواقع) کے لئے یہ خطبہ تعلیم فرمایا ۔ “الْحَمْدُ لِلَّهِ نَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ تا فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا” (ساری حمد و ستائش اللہ ہی کے لئے سزاوار ہے ، ہم (اپنی سب ضرورتوں اور تمام مقاصد میں) اسی سے مدد کے طالب اور خواستگار ہیں ، اور اسی سے (اپنے قصوروں اور گناہوں کی) معافی اور مغفرت کی استدعا کرتے ہیں ۔ اور اپنے نفس کی شرارتوں سے اسی اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ۔ اللہ جس کو ہدایت دے اس کو کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جس کے لئے اللہ ہدایت سے محرومی کا فیصلہ فرما دے اس کو کوئی ہدایت یاب نہیں کر سکتا ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت اور پرستش کے لائز نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد (ﷺ) اس کے بندے اور رسول برحق ہیں ۔اے ایمان والوں ! اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم باہم سوال کرتے ہو اور قرابتوں کی حق تلفی سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ اور نہ مرنا مگر اس حالت میں کہ تم اس کے فرمانبردار ہو ۔ اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرتے رہو اور ہمیشہ سیدھی بات بولو ، وہ تمہارے اعمال درست فرما دے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا ، اور جو بندہ حکموں پر چلے اللہ اور اس کے رسول کے تو اس نے بڑی کامیابی حاصل کر لی ۔ (سنن ابی داؤد ، مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ) تشریح حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا روایت کردہ یہ خطبہ جیسا کہ روایت میں تصریح ہے صرف نکاح کے موقع کے ہی لئے نہیں ہے ، بلکہ عمومی قسم کا ہے ، اس کا مضمون بہت ہی جامع ہے اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ایک ایک لفظ الہامی ہے ، اس کی بعض روایات میں ایک دو لفظوں کا اضافہ بھی ہے ۔ یہاں جو الفاظ نقل کئے گئے ہیں وہ سنن ابی داؤد کی روایت کے ہیں ، ابن ماجہ کی روایت میں شروع میں “الْحَمْدُ لِلَّهِ” کے بعد “نَحْمَدُهُ” کا اضافہ ہے ۔ اسی طرح “وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا” کے بعد “وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا” کا بھی اضافہ ہے ۔ آخر میں قرآن پاک کی تین آیتیں ہیں ۔ ایک سورہ نساء کی پہلی آیت کا آخری حصہ ہے ۔ (1) “وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا” اس کے بعد دوسری آیت سورہ آل عمران کی آیت ۱۰۲ ہے “يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ” الاية . اس کے بعد تیسری آیت سورہ احزاب کی آیت ۷۰ ہے ۔ “يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا” الاية کسی بھی اہم موقع پر ایک بندہ کو اللہ کے حضور میں اپنی بندگی اور نیاز مندی و وفاداری کے اظہار کے لئے بارگاہِ خداوندی میں جو کچھ عرض کرنا چاہئے وہ سب اس خطبہ کے ابتدائی حصہ میں آ گیا ہے ، اور آخر میں جو تین آیتیں ہیں وہ بندہ کی ہدایت کے لئے بالکل کافی ہیں ۔ یہ خطبہ عقد نکاح سے پہلے پڑھا جاتا ہے بلکہ اسی مقدس خطبہ سے نکاح کی کارروائی کا آغاز ہوتا ہے ۔ افسوس یہ خطبہ پڑھنا بھی اب ایک رسم بن کر رہ گیا ہے ، ورنہ اس میں وہ سب کچھ موجود ہے جس کی نصیحت اور یاد دہانی کی نکاح کے فریقین کو اور سب ہی کو ضرورت ہوتی ہے ۔ اگر اللہ تعالیٰ اس خطبہ ہی پر عمل نصیب فرما دے تو دنیا اور آخرت میں اعلیٰ سے اعلیٰ کامیابی کے لئے کافی ہے ۔
مہر کی اہمیت اور اس کا لزوم
میمون کردی اپنے والد سے روایت ہے کہ وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : جس شخص نے کسی عورت سے کم یا زیادہ مہر پر نکاح کیا اور اس کے دل میں اس حق مہر کی ادائیگی کا ارادہ ہی نہیں ہے تو قیامت میں اللہ کے حضور میں زناکار کی حیثیت سے پیش ہو گا ۔ (معجم اوسط ومعجم صغیب للطبرانی) تشریح ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے جو نکاح کے سلسلہ میں سب سے پہلے صحیح بخاری کے حوالہ سے نقل کی گئی ہے معلوم ہو چکا کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے زمانہ جاہلیت میں نکاح کا جو شریفانہ طریقہ عربوں میں رائج تھا اس میں بھی مہر مقرر کیا جاتا تھا یعنی نکاح کرنے والے مرد کے لئے ضروری ہوتا تھا کہ وہ بیوی کو ایک معین رقم ادا کرنا اپنے ذمہ لے ۔ اسلام میں اس طریقہ کو برقرار رکھا گیا ۔ یہ مہر اس بات کی علامت ہے کہ کسی عورت سے نکاح کرنے والا مرد اس کا طالب اور خواستگار ہے اور وہ اپنی حیثیت اور استطاعت کے مطابق اس کو مہر کا نذرانہ پیش کرتا ہے یا اس کی ادائیگی اپنے ذمہ لیتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے مہر کی کوئی خاص مقدار معین نہیں فرمائی کیوں کہ نکاح کرنے والوں کے حالات اور ان کی وسعت و استطاعت مختلف ہو سکتی ہے ۔ البتہ خود آنحضرتﷺ نے اپنی صاحبزادیوں کا مہر پانچ سو درہم (یا اس کے قریب) مقرر فرمایا اور آپ ﷺ کی اکثر ازواجِ مطہرات کا مہر بھی یہی تھا ۔ لیکن حضور ﷺ کے زمانہ میں اور آپ ﷺ کے سامنے اس سے بہت کم اور بہت زیادہ بھی مہر باندھے جاتے تھے ۔ حضور ﷺ کی صاحبزادیوں اور ازواجِ مطہرات والے مہر کی پابندی ضروری نہیں سمجھی جاتی تھی ۔ مہر کے بارے میں قرآن وو حدیث کی ہدایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ محض فرضی اور رسمی بات اور زبانی جمع خرچ کے قسم کی چیز نہیں ہے بلکہ شوہر کے ذمہ اس کی ادائیگی لازم ہے ، الا یہ کہ بیوی خود ہی وصول کرنا نہ چاہے ۔ قرآن پاک میں صراحۃً ارشاد ہے ۔ “وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً” یعنی اپنی بیویوں کے مہر خوش دلی سے ان کو ادا کرو ۔ (النساء ع : ۱) ..... اور رسول اللہ ﷺ نے اس بارے میں جو تاکید و تشدید فرمائی ہے وہ آگے درج ہونے والی بعض حدیثوں سے معلوم ہو گی ۔ تشریح ..... مطلب یہ ہے کہ جو شخص اداء مہر کے بارے میں شروع ہی سے بدنیت ہے ، اس نے مہر کا اقرار تو کر لیا ہے لیکن دن میں یہ ہے کہ یہ بس زبانی بات ہے ، دینا لانا کچھ نہیں ہے تو اس کے نکاح میں اتنا بڑانقص اور وہ اس درجہ کا گنہگار ہے کہ قیامت میں وہ زنا کا مجرم قرار دیا جائے گا ۔ قریب قریب اسی مضمون کی اس کے علاوہ بھی متعدد حدیثیں مختلف کتب حدیث کے حوالہ سے کنز العمال میں نقل کی گئی ہیں ۔ ان حدیثوں میں ایسے لوگوں کے لئے بڑی سخت وعید اور آگاہی ہے جو مہر کو صرف زبانی اور رسمی بات سمجھتے ہوئے اتنی بڑی رقم کے مہر مقرر کر لیتے ہیں جن کی ادائیگی کا کوئی امکان ہی نہیں ہوتا ۔
مہر کی اہمیت اور اس کا لزوم
ابو سلمہ سے روایت ہے کہ میں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ خود رسول اللہ ﷺ کا مہر کتنا تھا ؟ تو انہوں نے بتلایا کہ آپ ﷺ نے اپنی بیویوں کے لئے جو مہر مقرر فرمایا تھا وہ ساڑھے بارہ اوقیہ تھا ۔ (صحیح مسلم) تشریح ایک اوقیہ چالیس رہم کے برابر ہوتا تھا اس حساب سے ساڑھے بارہ اوقیہ کے پورے پانچ سو درہم ہوتے تھے ۔ یہ حساب اور تشریح خود حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ لحاظ ہے کہ اس زمانے میں پانچ سو درہم کی رقم اچھی خاصی ہووتی تھی اس سے کم و بیش چالیس پچاس بکریاں خریدی جا سکتی تھیں ۔
مہر کی اہمیت اور اس کا لزوم
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ وہ عبیداللہ بن جحش کے نکاح میں تھیں (اور اپنے شوہر کے ساتھ انہوں نے مکہ سے ملک حبشہ کو ہجرت کی تھی ، وہیں حبشہ میں) ان کے شوہر عبیداللہ بن جحش کا انتقال ہو گیا تو حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے ان کا نکاح رسول اللہ ﷺ سے کر دیا اور حضور ﷺ کی طرف سے چار ہزار درہم مہر باندھ کے خود ہی ان کو ادا کر دیا اور شرحبیل بن حسنہ صحابی کے ساتھ ان کو حضور ﷺ کے پاس بھیج دیا ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن نسائی) تشریح یہ ام ؓحبیبہؓ ابو سفیانؓ کی بیٹی تھیں جو فتح مکہ تک کفارِ مکہ کے لیڈر اور حضور ﷺ کے سخت ترین دشمن رہے ، پھر ہجرت کے آٹھویں سال فتح مکہ کے موقع پر ان کو قبولِ اسلام کی توفیق ہوئی لیکن ان کی بیٹی بہت پہلے دعوت اسلام کے ابتدائی دور ہی میں اسلام قبول کر چکی تھیں ان کے شوہر عبیداللہ بن جحش نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا ، پھر جب مکہ میں اسلام قبول کرنے والوں کو حد سے زیادہ ستایا گیا تو حضور ﷺ کی اجازت اور ایماء سے بہت سے دوسرے مسلمانوں کے ساتھ ام حبیبہؓ اور ان کے شوہر نے بھی ہجرت کی ۔ پھر اللہ کی شان کچھ مدت کے بعد شوہر عبیداللہ بن جحش نے اسلام چھوڑ کر نصرانی مذہب اختیار کر لیا جو عام اہلِ حبشہ کا مذہب تھا اور شراب وغیرہ کثرت سے پینے لگے ، پھر اسی حالت میں ان کا انتقال ہو گیا لیکن ام حبیبہؓ استقامت کے ساتھ برابر اسلام پر قائم رہیں ۔ رسول اللہ ﷺ کو جب عبیداللہ بن جحش کے انتقال کی اطلاع ہوئی تو آپ ﷺ نے ام حبیبہؓ کی قدردانی و دلداری اور دوسرے اہم مصالح کے پیش نظر ان کو اپنے نکاح میں لے لینے کا ارادہ کیا اور شاہ حبشہ نجاشی کے پاس قاصد بھیجا کہ ام حبیبہؓ کو میری طرف سے نکاح کا پیام دیا جائے ۔ نجاشی نے ابرھہ نامی اپنی باندی کے ذریعہ ام حبیبہؓ کو پیام دیا ۔ انہوں نے بہت ہی مسرت اور ممنونیت کے ساتھ اس کو منظور کر لیا ، اور مہاجر مسلمانوں میں سے اپنے ایک قریبی عزیز خالد بن سعید بن العاصی کو اپنا وکیل بنا دیا اور جیسا کہ ابو داؤد اور نسائی کی اس زیرِ تشریح روایت میں ہے نجاشی نے حبشہ ہی میں ان کا نکاح رسول اللہ ﷺ سے کر دیا اور خود ہی آپ ﷺ کی طرف سے مہر بھی نقد ادا کر دیا ۔ ابو داأد کی اس روایت میں مہر کی مقدار چار ہزار درہم بتائی گئی ہے لیکن مستدرک حاکم وغیرہ کی روایت میں چار ہزار دینار ذکر کی گئی ہے ، اور اصحابِ نقل و روایت نے اسی کو ترجیح دی ہے ۔ بہرحال ازواجِ مطہرات میںٰ سے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا مہر دوسری امہات المؤمنین کی بہ نسبت بہت زیادہ تھا ، لیکن یہ حضور ﷺ نے نہیں بلکہ نجاشی نے مقرر کیا تھا جو ایک بادشاہ تھا اور یہی اس کی شان اور حیثیت کے لائق تھا ، اور جیسا کہ حدیث میں ہے اس نے خود ہی ادا بھی کیا ، روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ ہجرت کے چھٹے یا ساتویں سال کا ہے ۔ نجاشی ، حبشہ کے بادشاہوں کا لقب تھا ، اس نجاشی کا اصل ن ام اصحمہ تھا وہ مہاجرین کے ذریعہ اسلام اور رسول اللہ ﷺ کی دعوت و تعلیم سے واقف ہوا تھا ۔ اور اس نے اسلام قبول کر لیا تھا ۔ ۶ھ یا ۹ھ میں اس کا انتقال ہوا ، رسول اللہ ﷺ کو وحی سے اس کی اطلاع ہوئی ، آپ ﷺ نے صحابہ کرام کو اس کی اطلاع دی اور مدینہ طیبہ میں اس کی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی ۔ رضى الله تعالى عنه وارضاه
نکاح کے بعد مبارک باد اور دعا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی ایسے آدمی کو جس نے شادی کی ہوتی مبارک باد دیتے تو یوں فرماتے ، اللہ تم کو مبارک کرے تم دونوں پر برکت نازل فرمائے اور خیر اور بھلائی میں تم دونوں کو ہمیشہ متفق اور مجتمع رکھے ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ) تشریح دنیا کی مختلف قوموں اور گروہوں میں شادی اور نکاح کے موقع پر مبارک بادی کے مختلف طریقے رائج ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے اس موقع کے لئے اپنی تعلیم اور عمل سے یہ طریقہ مقرر فرمایا کہ دونوں کے لئے اللہ سے برکت کی دعا کی جائے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تم کو بھرپور خیر اور بھلائی نصیب فرمائے اور اپنے کرم کے بادل برسائے ۔
نکاح کے بعد مبارک باد اور دعا
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ : جب کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرے یا خدمت کرنے والا غلام یا باندی خریدے تو یہ دعا کرے ۔ اے اللہ ! اس میں جو خیر اور بھلائی ہے اور تو نے اس کی فطرت میں جو خیر اور بھلائی رکھی ہے میں تجھ سے اس کا سائل ہوں وہ مجھے نصیب فرما ۔ اور اس کے شر سے اور اس کی فطرت کے شر سے میں تیری پناہ مانگتا ہوں تو اس سے میری حفاظت فرما ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح شادی اور نکاح انسان کی نفسانی شہوت کی تسکین کا ذریعہ ہے ، لیکن رسول اللہ ﷺ نے یہ دعائیں تعلیم فرما کر اس کو بھی قرب الٰہی کا وسیلہ اور ایک نورانی عمل بنا دیا ۔ (یہ دونوں دعائیں اسی سلسلہ معارف الحدیث کی “کتاب الدعوات” میں بھی گزر چکی ہیں)
شادی جتنی ہلکی پھلکی اور آسان ہو اتنی ہی بابرکت ہے
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : وہ نکاح بہت بابرکت ہے جس کا بار کم سے کم پڑے ۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح ظاہر ہے کہ اس حدیث کا مقصد صرف ایک حقیقت بیان کر دینا نہیں ہے ، بلکہ اس میں امت کو ہدایت اور رہنمائی دی گئی ہے کہ شادیاں ہلکی پھلکی اور کم خرچ ہوا کریں ، اور بشارت سنائی گئی ہے کہ اگر ہم ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہماری شادیوں اور اس کے نتیجوں میں بڑی برکتیں ہوں گی ۔ آج ہم جن پریشانیوں میں مبتلا ہیں اور خاص کر خانگی زندگی میں جو الجھنیں ہیں ان کا بہت بڑا سبب یہی ہے کہ نکاح و شادی کے بارے میں حضور ﷺ کی ان ہدایات سے انحراف کر کے ہم آسمانی برکات اور خداوندی عنایات سے محروم ہو گئے ہیں ۔
فاطمی جہیز
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی صاحبزادی فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کو جہیز کے طور پر یہ چیزیں دی تھیں ، ایک پلودار چادر ، ایک مشکیزہ ، ایک تکیہ جس میں اذخر گھاس بھری ہوئی تھی ۔ (سنن نسائی) تشریح ہمارے ملک کے اکثر اہلِ علم اس حدیث کا مطلب یہی سمجھتے اور بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ چیزیں (چادر ، مشکیزہ ، تکیہ) اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے موقع پر “جہیز” کے طور پر دی تھیں ۔ لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ اس زمانہ میں عرب میں نکاح شادی کے موقع پر لڑکی کو “جہیز” کے طور پر کچھ سامان دینے کا رواج بلکہ تصور بھی نہیں تھا اور “جہیز” کا لفظ بھی استعمال نہیں ہوتا تھا ۔ اس زمانہ کی شادیوں کے سلسلے میں کہیں اس کا ذکر نہیں آتا ۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ حضور ﷺ کی دوسری صاحبزادیوں کے نکاح کے سلسلہ میں بھی کہیں کسی قسم کے “جہیز” کا ذکر نہیں آیا ، حدیث کے لفظ “جهز” کے معنی اصطلاحی جہیز دینے کے نہیں بلکہ ضرورت کا انتظام اور بندوبسگ کرنے کے ہیں ۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لئے حضور ﷺ نے ان چیزوں کا انتظام حضرت علیؓ کے سرپرست ہونے کی حیثیت سے انہی کی طرف سے اور انہی کے پیسوں سے کیا تھا کیوں کہ یہ ضروری چیزیں ان کے گھر میں نہیں تھیں ۔ روایات سے اس کی پوری تفصیل معلوم ہو جاتی ہے ۔ بہرحال یہ اصطلاحی جہیز نہیں تھا ۔
شادی کے بعد ولیمہ
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عبدالرحمٰن بن عوف پر (یعنی ان کے کپڑوں پر یا جسم پر) زردی کا کچھ اثر دیکھا تو ان سے پوچھا یہ کیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے ایک عورت سے شادی کی ہے کھجور کی گھٹلی کے وزن کے برابر سونے پر (یعنی اس کا مہر اتنا مقرر کیا ہے) آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تمہیں مبارک کرے ! ولیمہ کی دعوت کرو اگرچہ پوری ایک بکری کر ڈالو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اپنی حسبِ خواہش کسی عورت سے نکاح ہو جانا بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت اور دِلی خوشی اور مسرت کی بات ہے اور اس کا حق ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر اور اپنی دلی مسرت و شادمانی کا اظہار ہو ، ولیمہ اس کی عملی شکل ہے ۔ اس میں یہ حکمت بھی ہے کہ اس کے ذریعہ شادی کرنے والے مرد اور اس کے گھرانے کی طرف سے خوبصورتی کے ساتھ اس کا اعلان و اظہار ہو جاتا ہے کہ شادی کے اس رشتہ سے ہم کو اطمینان اور خوشی ہے اور ہم اس کو اللہ تعالیٰ کی قابلِ شکر نعمت سمجھتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ چیز منکوحہ عورت اور اس کے گھر والوں کے لئے بڑی خوشی اور اطمینان کا باعث ہو گی اور اس سے باہمی تعلق و مودت میں اضافہ ہو گا ۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ارشادات اور عمل دونوں سے اس کی رہنمائی فرمائی ۔ تشریح ..... حضور ﷺ کے ارشاد “أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ” کا مطلب بظاہر یہی ہے کہ دل کھول کے ولیمہ کرو ، چاہو تو اس ولیمہ کے لئے ایک بکری مستقل ذبح کر ڈالو ۔ رسول اللہ ﷺ اپنے اصحاب اور رفقاء کی تطییب خاطر کے لئے کبھی ایسی بےتکلفی اور خوش طبعی کی باتیں بھی فرمایا کرتے تھے ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف سے آپ ﷺ کا یہ ارشاد بھی اسی قبیل سے تھا ۔ ایک بات اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیم و تربیت نے صحابہ کرامؓ کو ایسا بنا دیا تھا کہ وہ اپنی شادی نکاح کی تقریبات میں بھی حضوڑ کو شرکت کی زحمت نہیں دیتے تھے ، بلکہ اطلاع کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتے تھے ۔ عبدالرحمٰن بن عوف جو خواص اصحاب اور عشرہ مبشرہ میں سے ہیں انہوں نے خود اپنی شادی کی اور حضور ﷺ کو خبر بھی نہیں ہوئی ۔ حدیث میں عبدالرحمٰن بن عوف پر زردی کے اثر کا جو ذکر ہے ، اس کی حقیقت یہ سمجھنی چاہئے کہ نئی دلہنیں زعفران وغیرہ سے رنگے ہوئے کپڑے پہنتی تھیں ، اس کا اثر مرد کے کپڑوں یا جسم پر بھی آ جاتا تھا ، رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح کا اثر عبدالرحمن بن عوف پر محسوس کیا تھا ۔ واللہ اعلم ۔
شادی کے بعد ولیمہ
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی کسی بیوی کے نکاح پر ایسا ولیمہ نہیں کیا جیسا کہ زینب بنت جحش کے نکاح کے موقع پر کیا ۔ پوری ایک بکری پر ولیمہ کیا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اور سب بیویوں کے نکاح پر آپ ﷺ نے جو ولیمہ کی دعوت کی وہ اس سے مختصر اور ہلکے پیمانہ پر کی تھی ۔ چنانچہ صحیح بخاری میں صفیہ بنت شیبہ کی روایت سے یہ حدیث مروی ہے کہ آپ ﷺ نے بعض بیویوں کے نکاح پر جو ولیمہ کی دعوت کی تو صرف دو سیر جَو کام میں آئے اور اسی صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کا یہ بیان مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب حضرت صفیہؓ کو اپنے نکاح میں لیا اور لوگوں کو ولیمہ کی دعوت دی تو دسترخوان پر گوشت روٹی کچھ نہیں تھا ، کچھ کھجوریں تھیں اور کچھ پنیر اور مکھن تھا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ولیمہ کے لئے باقاعدہ کھانے کی دعوت بھی ضروری نہیں ، کھانے پینے کی جو بھی مناسب اور مرغوب چیز میسر ہو رکھ دی جائے ۔ لیکن بدقسمتی کی انتہا ہے کہ ہم مسلمانوں نے جہیز کی طرح ولیمہ کو بھی ایک مصیبت بنا لیا ۔
ولیمہ کی دعوت قبول کرنی چاہئے
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کسی کو سلیمہ کی دعوت دی جائے تو اس کو چاہئے کہ دعوت قبول کرے اور آئے ۔ (صحیح بخاری و مسلم) تشریح ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب یہ حکم دیا تھا اس وقت ولیمے صحیح قسم کے ہی ہوتے تھے اور ایسے ولیمے جب بھی اور جہاں بھی ہوں ان کے لئے یہی حکم ہے ۔ ایسی مخلصانہ دعوتیں بابرکت ہیں لیکن جن ولیموں میں کھلا اسراف اور نمائش اور تفاخر ہو یا دوسری قسم کی منکرات ہوں ان کے لئے ہرگز یہ حکم نہیں ہے ۔ بلکہ ایسے لوگوں کے ہاں کھانے سے حضور ﷺ نے منع فرمایا ہے ۔
کیسے لوگوں کا کھانا نہ کھایا جائے
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابہم مقابلہ کرنے والوں کا کھانا کھانے سے منع فرمایا ہے ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ جو لوگ ایک دوسرے کے مقابلے میں اپنی شان اونچی دکھانے کے لئے شاندار دعوتیں کریں ان کے کھانے میں شرکت کرنے سے حضور ﷺ نے منع فرمایا ہے ۔
کیسے لوگوں کا کھانا نہ کھایا جائے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : اس ولیمہ کا کھانا برا کھانا ہے جس میں صرف امیروں کو بلایا جائے اور حاجتمندوں غریبوں کو چھوڑ دیا جائے ۔ اور جس نے دعوت کو (بلاوجہ شرعی) قبول نہ کیا تو اس نے اللہا ور اس کے رسول کے حکم کے خلاف کیا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حدیث کے پہلے جز کا مقصد و مدعا یہ ہے کہ جب کوئی ولیمہ کرے تو غریبوں حاجت مندوں کو نظر انداز نہ کرے ان کو ضرور دعوت دے جس ولیمہ میں ان کو نہ بلایا جائے صرف امیروں اور بڑے لوگوں کو مدعو کیا جائے اس کا کھانا اس لائق نہیں ہے کہ کھایا جائے ۔ ظاہر ہے کہ ولیمہ کے علاوہ دوسری قسم کی دعوتوں کا حکم بھی یہی ہے حدیث کے دوسرے جز کا مقصد و مدعا یہ ہے کہ اگر کوئی شرعی مانع یا مجبوری نہ ہو تو مسلمان بھائی کی دعوت کو قبول کرنا چاہئے ۔ اس سے دلوں میں جوڑ پیدا ہوتا ہے اور قبول نہ کرنے سے دلوں میں دوری اور بدگمانیاں پیدا ہو سکتی ہیں ۔ اس لئے بلاوجہ دعوت کا قبول نہ کرنا اللہ و رسول کی مرضی اور حکم کے خلاف ہے ۔
مباشرت سے متعلق ہدایات اور احکام: دعا
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی بیوی کے پاس جاتے وقت اللہ کے حضور میں یہ عرض کرے : “بِاسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ، وَ جَنِّبِ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا” (بسم اللہ ! اے اللہ تو شیطان کے شر سے ہم کو بچا اور ہم کو جو اولاد دے اس کو بھی بچا) تو اگر اس مباشرت کے نتیجہ میں ان کے لئے بچہ مقدر ہو گا تو شیطان کبھی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا اور وہ ہمیشہ شرِ شیطان سے محفوظ رہے گا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح یہ حدیث معارف الحدیث “کتاب الدعوات” میں بھی ذکر کی جا چکی ہے اور وہاں تشریح میں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی “اشعۃ اللمعات” کے حوالہ سے ان کا یہ عارفانہ نکتہ بھی نقل کیا جا چکا ہے کہ اس حدیث سے مفہوم ہوتا ہے کہ اگر مباشرت کے وقت اللہ تعالیٰ سے اس طرح کی دعا نہ کی اور خدا سے غافل رہ کر جانوروں کی طرح شہوتِ نفس کا تقاضا پورا کر لیا تو ایسی مباشرت سے جو اولاد پیدا ہو گی وہ شیطان کے شر سے محفوظ نہیں رہے گی ۔ اس کے آگے شیخ نے فرمایا ہے کہ “اس زمانہ میں پیدا ہونے والی نسل کے احوال ، اخلاق ، عادات جو عام طور سے خراب و برباد ہیں اس کی خاص بنیاد یہی ہے” ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حضور ﷺ کی ان ہدایات کی روشنی میں اور ان سے استفادہ کی توفیق عطا فرمائے ۔
مباشرت ایک راز ہے اس کا افشا بدترین گناہ
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : قیامت کے دن اللہ کے ہاں وہ آدمی بدترین درجہ میں ہو گا جو بیوی سے ہم بستری کے بعد اس کا راز فاش کرے ۔ (صحیح مسلم)
خلافِ وضع فطری عمل پر خدا کی لعنت ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص بیوی کے ساتھ خلاف وضع فطرت عمل کرے وہ ملعون ہے ۔ (مسند احمد ، سنن ابی داؤد)
خلافِ وضع فطری عمل پر خدا کی لعنت ہے
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جو شخص کسی مرد یا عورت کے ساتھ خلاف وضع فطرت حرکت کرے اللہ تعالیٰ اس کی طرف نظر بھی نہ فرمائے گا ۔ (جامع ترمذی) تشریح بےچارے حیوانات بھی جو عقل و تمیز سے محروم ہیں وہ بھی شہوت کا تقاضا خلاف فطرت طریقے سے پورا نہیں کرتے ، پس جو انسان ایسا کرتے ہیں وہ حیوانوں سے بھی بدتر اور “ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ” کے مصداق ہیں ۔ یہ بات قیامت اور آخرت ہی میں معلوم ہو گی کہ اللہ کی نظر کرم سے محروم ہو جانا کتنی بڑی بدبکتی ہے ۔
عزل
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ (رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں) جبکہ نزولِ قرآن کا سلسلہ جاری تھا ، ہم لوگ (یعنی بعض اصحاب) عزل کرتے تھے (اور اس کی ممانعت میں کوئی آیت نازل نہیں ہوئی تھی) اور صحیح مسلم کی روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ حضور ﷺ کو اس کی اطلاع بھی ہوئی مگر آپ ﷺ نے منع نہیں فرمایا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح کبھی ایسا بھی ہو.تا ہے کہ آدمی کسی خاص وجہ سے (مثلاً بیوی کی صحت یا پہلے بچہ کی صحت کے تحفظ کے خیال سے) یہ نہیں چاہتا کہ اس وقت اس کی بیوی کو حمل قرار پائے ، وہ اس غرض سے ایسا کرتا ہے کہ انزال کا وقت قریب آنے پر اپنے کو بیوی سے الگ کر لیتا ہے تا کہ مادہ منویہ باہر خارج ہو جائے ، اسی کو عزل کہتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بھی بعض لوگ ایسا کرتے تھے ، اس کے بارے میں حضور ﷺ سے پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے جواب دیا جس کا ذکر آگے حدیث میں آ رہا ہے اور بظاہر جس کا مفاد یہ ہے کہ یہ ممنوع اور ناجائز تو نہیں ہے لیکن اچھا بھی نہیں ہے ۔ امت کے اکثر فقہا نے اس باب کی حدیثوں سے یہی سمجھا ہے اور ان کے نزدیک مسئلہ یہی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے خاص حالات اور مصالح کی وجہ سے عزل کرے تو گنجائش ہے گناہ نہیں ہے ۔ لیکن فی زماننا مغربی اقوام و ممالک کی تقلید و پیروی میں بعض ملکوں میں ملکی اور قومی پیمانے پر تحدید نسل کی مہمیں جس طرح چلائی جا رہی ہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ انسانی نسل بڑھنے نہ پائے ، اگر بڑھتی رہی تو روٹی نہ ملے گی ، اس کی اسلام میں قطعاً گنجائش نہی ہے ، یہ وہی گمراہانہ نقطہ نظر ہے جس کی بناء پر زمانہ جاہلیت کے بعض عرب اپنے نومولود بچوں کو ختم کر دیتے تھے ۔ قرآن پاک میں انہی سے فرمایا گیا ہے ۔ لَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُم مِّنْ إِمْلَاقٍ ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ اپنے بچوں کو مفلسی اور ناداری کی وجہ سے ختم نہ کرو ، ہم تمہیں بھی روزی دیتے ہیں اور ان کو بھی دیں گے ۔ اس تمہید کے بعد عزل سے متعلق مندرجہ ذیل حدیثیں پڑھئے :
عزل
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے عزل کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ : ایسا نہیں ہے کہ پورے مادہ منویہ ہی سے بچہ ہو ۔ (یعنی غیر ارادی طور پر خارج ہونے والے ایک قطرہ سے بھی اللہ کا حکم ہو تو حمل قرار پا سکتا ہے) اور جب کسی چیز کی تخلیق کے لئے اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہو جائے تو پھر کوئی چیز اس کو روک نہیں سکتی ۔ (صحیح مسلم) تشریح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ عزل کیا جائے گا تو بچہ نہیں ہوگا اگر اللہ کی مشیت ہوگی تو بچہ بہرحال پیدا ہوگا یہ مضمون آگے درج ہونے والی حدیث سے اور زیادہ واضح ہو جائے گا ۔
عزل
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میری ایک باندی ہے اور وہی ہمارے گھر کا کام کاج کرتی ہے اور میں اس سے صحبت بھی کرتا ہوں اور میں نہیں چاہتا کہ اس کے حمل قرار پائے (غالباً مطلب یہ تھا کہ کیا میں عزل کر سکتا ہوں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر چاہو تو عزل کرو لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اس باندی کے لئے جو مقدر ہوچکا ہے وہ ضرور ہوگا کچھ دنوں کے بعد وہی آدمی آیا اور عرض کیا کہ اس باندی کے تو حمل قرار پا گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تو تم کو بتایا تھا کہ جو اس کے لیے مقدر ہوچکا ہے وہ ہو کے رہے گا ۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں اور اس سے پہلے والی حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو ارشاد نقل کیا گیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ تعالی کی طرف سے کسی چیز کے وجود کا فیصلہ ہو چکا ہے تو اس کو روکنے کی کوئی تدبیر کارگر نہ ہوگی اللہ تعالیٰ کا فیصلہ نافذ ہو کے رہے گا مثلا ایک آدمی اس مقصد سے کہ بیوی کے حمل قرار نہ پائے عزل کرتا ہے تو اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت کسی وقت بچہ پیدا ہونے کی ہوگی تو ایسا ہوگا کہ وہ بروقت عزل نہ کر سکے گا اور مادہ منویہ اندر ہی خارج ہوجائے گا یا وہ عزل کرے گا لیکن مادہ کا کوئی جز پہلے ہی خارج ہوجائے گا اور اس کو شعور بھی نہ ہوگا الغرض انسانی تدبیر فیل ہو گی اور ارادہ الٰہیہ پورا ہو کے رہے گا۔ واللہ اعلم۔
چار بیویوں تک کی اجازت
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہلانا بن سلمہ ثقفی نے اسلام قبول کیا اور اس وقت ان کی دس بیویاں تھیں ان سب نے بھی ان کے ساتھ اسلام قبول کرلیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ہدایت فرمائی کہ چار بیویاں تو رکوع اور باقیوں کو جدا کر دو ۔ (مسند احمد) تشریح جو لوگ انسانوں کی فطرت اور ان کے مختلف طبقات کے حالات سے واقف ہیں وہ یقین کے ساتھ جانتے ہونگے کہ بہت سے آدمی اپنی طبیعت اور مزاج کے لحاظ سے اور بہت سے اپنے یا اپنی بیوی کے مخصوص حالات کی وجہ سے ایسے ہوتے ہیں کہ اگر ان کی ایک سے زیادہ بیوی رکھنے کی اجازت نہ ہو تو اس کا بڑا خطرہ ہوگا کہ وہ حرام میں مبتلا ہو جائیں اسی لیے آسمانی شریعتوں میں جن میں زنا اشد حرام قرار دیا گیا ہے عام طور سے اس کی اجازت رہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت میں خاص کر شادی شدہ آدمی کے لیے زنا اتنا شدید گناہ ہے کہ اس کی سزا سنگساری ہے’ ایسی شریعت میں اگر کسی حال میں بھی تعداد ازواج کی اجازت نہ ہو تو انسان پر قانون کی یہ بہت زیادتی ہوگی جن مغربی ملکوں اور قوموں کے قانون میں تعداد ازواج کی بالکل گنجائش نہیں ہے ان میں زنا کو قانونی جواز حاصل ہے اور عمل بھی وہاں زنا کی جتنی کثرت ہے وہ کوئی پوشیدہ راز نہیں ہے اسلامی شریعت نے زنا کو ختم کرنے کے لئے ایک طرف تو اس کے لیے سخت سے سخت سزا مقرر کی اور دوسری طرف مناسب شرائط کے ساتھ چار بیویاں تک کی اجازت دی ان کے علاوہ بھی بہت سے وجوہ اسباب ہیں جن کا یہی تقاضہ ہے لیکن ان کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت دنیا کی بہت سی دوسری قوموں کی طرح عربوں میں بھی بیویوں کی تعداد کا کوئی تہدیدی نہ تھا بعض لوگ دس دس اور اس سے بھی زیادہ بیویاں رکھتے تھے اسلامی شریعت میں انسانوں کی مختلف حالتوں کا لحاظ رکھتے ہوئے اس کی آخری حد چار مقرر فرما دی گئی ۔
بیویوں کے ساتھ برتاؤ میں عدل و مساوات
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کسی آدمی کی دو یا زیادہ بیویاں ہوں اور وہ ان کے ساتھ عدل و مساوات کا برتاؤ نہ کرے تو قیامت کے دن وہ اس حالت میں آئے گا کہ اسکا ایک دھڑ گرا ہوا ہوگا ۔ (جامع ترمذی سنن ابی داؤد سنن نسائی سنن ابن ماجہ مسند دارمی) تشریح اگر کسی شخص کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو اس کے لیے بطور فریضہ کے لازم کیا گیا ہے کہ وہ سب کے ساتھ یکساں برتاؤ کرے کسی کے ساتھ ادنیٰ بے انصافی نہ ہو قرآن مجید میں سورہ نساء کی جس آیت میں چار تک کی اجازت دی گئی ہے اس میں صراحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے “وَإِنْ لَّمْ تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً” یعنی اگر تم ایک سے زیادہ بیویوں سے نکاح کرنے کی صورت میں عدل پر قائم نہ رہ سکو اور ہر ایک کے ساتھ یکساں برتاؤ نہ کر سکو تو بس ایک ہی بیوی پر قناعت کرو ایک سے زیادہ نکاح مت کرو ۔ بیویوں کے ساتھ عدل نہ کرنے والے شہروں کو آخرت میں جو خاص رسوا کن عذاب ہوگا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا بھی ذکر فرمایا تاکہ لوگ اس معاملے میں ڈرتے رہیں ہاں دل کے ملان پر انسان کا اختیار نہیں لیکن معاملہ اور برتاؤ میں فرق نہ ہونا چاہیے ۔ تشریح ..... دنیا کے گناہوں اور آخرت کی سزاؤں میں جومناسب اورمشابہت ہوگی یہ بھی اس کی ایک مثال ہیں وہ معاملہ اور برتاؤ میں ایک بیوی کی طرف جھکتا تھا قیامت ہوگا کہ اسکا ایک دھڑ گرا ہوا ہوگا اور سب اس کو اس حال میں دیکھیں گے اللہ کی پناہ کیسا منظر ہوگا اور کیسی رسوائی ہوگی۔
بیویوں کے ساتھ برتاؤ میں عدل و مساوات
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سب بیویوں کے ہاں باری باری رہتے تھے اور پورے عادل کا برتاؤ فرماتے تھے اور اس کے ساتھ اللہ سے عرض کرتے تھے کہ اے میرے اللہ یہ میری تقسیم ہے ان معاملات میں اور اس عملی برتاؤ میں جو میرے اختیار میں ہیں پس میری سرزنش اور محاسبہ نہ فرما دل کے اس معاملے میں جو تیرے ہیں میرے اختیار میں نہیں۔ (جامع ترمذی سنن ابی داؤد سنن نسائی سنن ابن ماجہ مسند الدارمی) تشریح مطلب یہ ہے کہ جہاں تک رہن سہن اور عملی برتاؤ کا تعلق ہے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ مثالی اور کامل عدل فرماتے تھے جو معاملہ اور برتاؤ کیسی ایک کے ساتھ تھا وہ سب کے ساتھ تھا لیکن قلبی محبت اور دل کا میلان ایسی چیز ہے جس پر کسی بشر کا قابل نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی قابو نہیں تھا اس کا حال یکساں نہیں تھا اس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے حضور میں اس طرح معذرت فرماتے تھے کہ اے اللہ یہ چیز میرے اختیار میں نہیں ہے آپ کے اختیار میں ہے اس پر مواخذہ اور محاسبہ نہ ہو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال عبدیت تھا ورنہ قرآن مجید میں فرما دیا گیا ہے ..... “لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا”
طلاق اور عدت: طلاق سخت نا پسندیدہ فعل
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے حلال اور جائز چیزوں میں اللہ تعالی کو سب سے زیادہ مبغوض طلاق ہے۔ (سنن ابی داود) تشریح جیسا کہ معلوم ہوچکا ہے نکاح اور شادی کا مقصد یہ ہے کہ مردوعورت یہ رشتہ قائم کرکے اور باہم وابستہ ہوکر عفت و پاکبازی کے ساتھ مسرت و شادمانی کی زندگی گزار سکیں اور جس طرح وہ خود کسی کی اولاد ہیں اسی طرح ان سے بھی اولاد کا سلسلہ چلے اور وہ اولاد ان کے لیے دل اور آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان اور آخرت میں حصول جنت کا وسیلہ بنے اور ان مقاصد کے لیے ضروری ہے کہ دونوں میں محبت اور خوشگواری کا تعلق رہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوہروں اور بیویوں کو باہم برتاؤ کے بارے میں جو ہدایات دی ہیں ان کا محور اور مرکزی نقطہ یہی ہے اس کے باوجود کبھی ایسے حالات ہوجاتے ہیں کہ شوہر اور بیوی کے درمیان سخت تلخی اور ناگواری پیدا ہوجاتی ہے اور ساتھ رہنا بجائے راحت و مسرت کے مصیبت بن جاتا ہے ایسے وقت کے لئے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تعلیم و ترغیب یہی ہے کہہ ۃروصو دونوں ناگواریوں کو جھیلیں نباہنے اور تعلقات کو خوشگوار بنانے کی کوشش کریں لیکن آخری چارہ کار کے طور پر طلاق کی بھی اجازت دی گئی ہے اگر کسی حالت میں بھی طلاق اور علیحدگی کی اجازت نہ ہو تو پھر یہ تعلق اور رشتہ دونوں کے لیے عذاب بن سکتا ہے پھر طلاق کے سلسلے میں تفصیلی ہدایات بھی دی گئی ہیں ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلی اصولی ہدایت یہ دی گئی ہے کہ طلاق اور اس کے ذریعے شوہر و بیوی کے تعلقات کا ٹوٹنا اللہ تعالیٰ کو بےحد ناپسند ہے لہذا جہاں تک ممکن ہو اس سے بچ نہیں چاہیے نا مرد خون یہ اقدام کرے نو عورت اس کا مطالبہ کرے بس انتہائی مجبوری کی صورت ہی میں ایسا کیا جائے جس طرح کیسی وضو میں بڑا فساد پیدا ہوجانے کی صورت میں آپریشن گوارا کیا جاتا ہے۔ پھر اس طلاق اور علیحدگی کا طریقہ بھی بتلایا گیا ہے کہ شوہر طہر کی حالت میں یعنی جن دنوں میں عورت کی ناپاکی کی خالص حالت نہ ہو صرف ایک رجعی طلاق دے تاکہ زمانہ عدت میں رجعت یعنی رجوع کر لینے کی گنجائش رہے پھر اگر شوہر کو رجوع کرنے کا فیصلہ نہ کر سکے تو عدت کی مدت گزر جانے دے اس سے رجعت کی گنجائش تو نہ رہے گی لیکن دونوں کی رضامندی سے دوبارہ نکاح کا رشتہ قائم ہو سکے گا۔ بیک وقت تین طلاق دینے کو تو ناجائز اور سخت گناہ قرار دیا گیا ہے جیسا کہ آگے درج ہونے والی بعض احادیث سے معلوم ہوگا لیکن متفرق اوقات میں تین طلاقیں دینے کو بھی سخت ناپسند کیا گیا ہے اور اس کی یہ سزا اس دنیا ہی میں مقرر کی گئی ہے کہ اگر وہ شوہر اپنی اس مطلقہ بیوی سے پھر نکاح کرنا چاہے تو نہیں کر سکے گا جب تک کہ وہ کسی دوسرے مرد کے نکاح میں آکر اس کی زیر صحبت نہ رہی ہو پھر یا تو اس کے انتقال کرجانے سے بیوہ ہو گئی ہو یا اس نے بھی طلاق دے دی ہو۔ الغرض صرف اسی صورت میں عدت گزر جانے کے بعد ان دونوں کا دوبارہ نکاح ہو سکے گا یہ سخت پابندی دراصل شوہر کو تین طلاق دینے ہی کی سزا ہے اس تمہید کے بعد اس سلسلے کی چند احادیث ذیل میں پڑھئے :
طلاق اور عدت: طلاق سخت نا پسندیدہ فعل
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے معاذ اللہ تعالی نے روئے زمین پر کوئی چیز ایسی پیدا نہیں کی جو غلاموں اور باندیوں کو آزاد کرنے سے زیادہ اللہ تعالی کو محبوب اور پسندیدہ ہوں اور روئے زمین پر کوئی چیز ایسی پیدا نہیں کی جو طلاق دینے سے زیادہ اللہ تعالی کو مبغوض اور ناپسندیدہ ہو۔ (سنن دارقطنی)
طلاق اور عدت: طلاق سخت نا پسندیدہ فعل
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کی جو عورت اپنے شوہر سے کسی سخت تکلیف کے بغیر طلاق کا مطالبہ کرے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔ (مسنداحمد جامع ترمذی سنن ابی داؤد سنن ابن ماجہ مسند دارمی) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی عورت کو کسی مرد کے ساتھ رہنے میں کوئی واقعی زیادہ تکلیف ہو اور وہ طلاق طلب کرے تو اس کے لیے یہ وعید نہیں ہے ہاں اگر بغیر کسی بڑی تکلیف اور مجبوری کی طلاق چاہے گی تو یہ اس کے لئے سخت محرومی اور گناہ کی بات ہوگی۔
طلاق اور عدت: طلاق سخت نا پسندیدہ فعل
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا عورتوں کو طلاق نہیں دینی چاہیے الا یہ کہ ان کا چال چلن مشتبہ ہو اللہ تعالی ان مردوں اور عورتوں کو پسند نہیں کرتا جو ذائقہ چکھنے کے شوقین اور خوگر ہوں۔ (مسند بزار معجم کبیر و معجم اوسط للطبرانی) تشریح حدیث کے آخری جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مرد اللہ کی محبت اور پسندیدگی سے محروم ہیں جو بیوی کو اس لیے طلاق دیں کہ اس کی جگہ دوسری بیوی لاکر نیا ذائقہ چکھیں اسی طرح وہ عورتیں بھی محروم ہیں جو اس غرض سے شوہروں سے طلاق لیں کہ کسی دوسرے مرد کی بیوی بن کر نیا مزہ چکھے۔
طلاق کا وقت اور طریقہ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خود انھوں نے اپنی بیوی کو ایسی حالت میں کہ اسکی ناپاکی کے ایام جاری تھے طلاق دے دی تو ان کے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بہت سخت برہمی اور ناراضی کا اظہار فرمایا اور حکم دیا کہ عبداللہ ابن عمر کو چاہیے کہ وہ اس طلاق سے رجعت کر لے اور بیوی کو اپنے پاس اپنے نکاح میں رکھے یہاں تک کہ ناپاکی کے ایام ختم ہوکر طہر یعنی پاکی کے ایام آ جائیں اور پھر اس طہر کی مدت ختم ہو کر دوبارہ ناپاکی کے ایام آ جائیں اور اس کے بعد وہ پھر طہر کی حالت میں آجائے تو اس حالت میں اگر وہ طلاق ہی دینا مناسب سمجھے تو اس طہر میں اس سے صحبت کئے بغیر اس کو طلاق دے دے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہی وہ عدت ہے جس کے بارے میں قرآن مجید میں حکم دیا گیا ہے۔ “فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ ” (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کو حالت حیض میں طلاق دینا ناجائز اور سخت گناہ کی بات ہے اور اگر غلطی سے کوئی ایسا کرے تو اس کو رجعت کر لینی چاہیے پھر اگر طلاق ہی دینے کی رائے قائم ہو تو اس طہر میں طلاق دینی چاہیے جس میں صحبت کی نوبت نہ آئی ہو اس کی حکمت ظاہر ہے کہ ناپاکی کی حالت میں عورت قابل رغبت نہیں ہوتی طہر کی حالت میں اس کا کافی امکان ہے کہ شوہر کے دل میں رغبت پیدا ہو جائے اور طلاق دینے کا خیال ہی ختم ہوجائے اور اللہ و رسول کی زیادہ خوشی اسی میں ہے۔ اس واقعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ جو تالاب انہوں نے حیض کی حالت میں دی گئی تھی وہ اس سے رجعت کر لیں اور ایک طہر گزر جانے دیں اور اگر طلاق دینی ہی ہو تو پھر دوسرے طہر میں دیں اس کا مقصد بھی بظاہر یہی تھا کہ درمیان کے طہر کی پوری مدت میں جب دونوں ساتھ رہیں گے تو اس کا امکان ہے کہ تعلقات میں پھر خوشگواری آجائے اور طلاق کی نوبت ہی نہ آئے لیکن اگر ایسا نہ ہو اور طلاق دینے ہی کا فیصلہ ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی کہ دوسرے طہر میں قبل از صحبت طلاق دی جائے قبل از صحبت کی پابندی لگانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ جب ناپاکی کے ایام ختم ہوتے ہیں تو فطری طور پر صحبت کی رغبت ہوتی ہے اس طرح یہ پابندی بھی طلاق دینے میں رکاوٹ کا سبب بن سکتی ہے۔ اس واقعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو رجعت کرنے کا حکم دیا اس سے معلوم ہوا کہ عورت کو حیض کے ایام طلاق دینا اگرچہ ناجائز اور سخت گناہ کی بات ہے لیکن یہ طلاق واقع ہو جاتی ہے اگر طلاق نہ ہوئی ہوتی تو رجعت کی ضرورت ہی نہ ہوتی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رجعت کا حکم دینے کے بجائے یہ فرماتے کہ طلاق واقع ہی نہیں ہوئی۔
بیک وقت تین طلاقیں دینا سخت گناہ
محمود ابن لبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک شخص کے متعلق اطلاع ملی کہ اس نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دے دی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت غصے کی حالت میں کھڑے ہو گئے اور ارشاد فرمایا کہ ابھی جبکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں کیا کتاب اللہ سے کھیلا جائے گا یعنی ایک ساتھ تین طلاق دینا اس کتاب اللہ کے ساتھ گستاخانہ کھیل اور مذاق ہے جس میں طلاق کا تریکا اور قانون پوری وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے تو کیا میری موجودگی میں اور میری زندگی ہی میں کتاب اللہ اور اسکی تعلیم سے مذاق کیا جائے گا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت غصے کی حالت میں یہ بات ارشاد فرمائی تو ایک صحابی کھڑے ہوگئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں اس آدمی کو قتل ہی نہ کردوں جس نے یہ حرکت کی ہے۔ (سنن نسائی) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بیک وقت تین طلاق دینا سخت گناہ اور قرآن مجید کے بتلائے ہوئے طریق طلاق سے انحراف اور اسکے ساتھ ایک طرح کا کھیل اور مذاق ہے لیکن جس طرح حالت حیض میں دی ہوئی طلاق سخت گناہ اور معصیت ہونے کے باوجود پڑ جاتی ہیں اور اس کی وجہ سے عورت “مطلقہ” ہوجاتی ہے اسی طرح ایک دفعہ کی دی ہوئی تین طلاقیں بھی جمہور ائمہ کے نزدیک پڑ جاتی ہیں۔ بیک وقت تین طلاقیں دینے کو کتاب اللہ کے ساتھ کھیل اور مذاق غالبا اسی بنا پر فرمایا گیا کہ قرآن مجید کی آیت “الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ الى قوله فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ” سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ایک سے زیادہ طلاقیں دینے ہو تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ ایک دفعہ میں نہیں بلکہ مختلف دفعات میں درمیان میں مناسب کے ساتھ دی جائیں جس کی شرح اور تفصیل حدیث سے یہ معلوم ہوئیں ایک طہر میں ایک طلاق دی جائے۔ حدیث میں اس کا ذکر نہیں ہے کہ جن صحابی نے اس غلط گار آدمی کو قتل کر دینے کے بارے میں حضور صلی اللہ وسلم سے عرض کیا تھا ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا جواب دیا بظاہر یہ ہے کہ آپ صلی اللہ وسلم نے خاموشی اختیار فرمائی اور خاموشی ہی سے یہ بتلا دیا کہ اگرچہ اس آدمی نے سخت گمراہانہ کام کیا ہے لیکن یہ ایسا گناہ نہیں ہے جس کی سزا قتل ہوگا۔ واللہ اعلم۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہمارے زمانہ میں خاص کر ہمارے ملک میں طلاق کے جو واقعہ سامنے آتے ہیں ان میں قریبا 90 فیصد وہ ہوتے ہیں جن میں جاھل شوہر ایک ساتھ تین طلاق دیتے ہیں اور وہ بالکل نہیں جانتے کہ یہ سخت گناہ بھی ہے اور اسکے بعد دوبارہ نکاح کا مسئلہ بھی سخت مشکل ہو جاتا ہے۔
تین طلاق دینے کا نتیجہ اور شرعی حکم
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رفاعہ قرضی کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے بتایا کہ میں رفاعہ قرضی کے نکاح میں تھیں اس نے مجھے طلاق دے دی اور طلاق کا پورا کورس ختم کردیا یعنی اس نے مجھے تین طلاقیں دے دیں تو اس کے بعد میں نے عبدالرحمن بن زبیر سے نکاح کرلیا لیکن وہ بالکل ازکار رفتہ ہیں یعنی نکاح سے جو خاص مقصد ہوتا ہے وہ اس کے قابل نہیں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ تم کیا یہ چاہتی ہے کہ پھر رفاعہ کے نکاح میں چلی جائے اس نے کہا ہاں یہی چاہتی ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک کہ تم دونوں میں باہم صحبت کا عمل نہ ہو جائے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح شریعت کا یہ حکم قرآن مجید میں بھی بیان فرمایا گیا ہے سورہ بقرہ میں ارشاد ہے : “فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ” (مطلب یہ ہے کہ اگر شوہر نے بیوی کو دو طلاق دینے کے بعد تیسری طلاق بھی دے دی تو وہ عورت اس شوہر کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہو گی جب تک کسی دوسرے شوہر کے نکاح میں نہ رہی ہو) اس کے بعد وہ دوسرا شوہر اگر انتقال کر جائے یا طلاق دے دے تو عدت پوری کرنے کے بعد پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح ہو سکے گا۔ پھر اس حدیث سے اور اس کے علاوہ بھی متعدد حدیثوں سے اس آیت کی تفسیر تشریح یہ معلوم ہوئی کہ دوسرے شوہر کے ساتھ صرف عقد نکاح ہو جانا کافی نہیں بلکہ وہ عمل بھی ضروری ہے جو نکاح سے خاص طور پر مقصود ہوتا ہے جمہور ائمہ امت کا مسلک اس مسئلہ میں یہی ہے واقعہ یہ ہے کہ اگر دوسرے شوہر کے ساتھ زنا شوئی کی پابندی نہ ہو تو نکاح ثانی کی شرط بالکل لغو اور بے معنی ہوکر رہ جائے گی۔
ہنسی مذاق کی طلاق بھی طلاق ہے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین چیزیں ایسی ہیں جن میں دل کے ارادہ اور سنجیدگی کے ساتھ بات کرنا بھی حقیقت ہے اور ہنسی مذاق کے طور پر کہنا بھی حقیقت ہی کے حکم میں ہے نکاح طلاق رجعت۔ (جامع ترمذی سنن ابی داود) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر کسی نے ہنسی مذاق میں نکاح کیا یا اسی طرح ہنسی مذاق میں بیوی کو طلاق دی یا مطلقہ بیوی سے ہنسی مذاق میں رجعت کی تو شریعت میں یہ سب چیزیں واقع اور معتبر ہوں گی یہاں یعنی نکاح منعقد ہو جائے گا طلاق پڑ جائے گی اور رجعت ہو جائے گی اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تینوں چیزیں اسلامی شریعت میں اتنی نازک اور غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں کہ ان کے بارے میں ہنسی مذاق کی گنجائش ہی نہیں رکھی گئی ہے ان کے بارے میں جو کچھ آدمی کی زبان سے نکلے گا اس کو حقیقت اور سنجیدہ بات ہی سمجھا جائے گا دوسرے لفظوں میں یہ سمجھنا چاہیے کہ اسلامی شریعت میں یہ میدان ہی ہنسی مذاق کا نہیں ہے ۔
مغلوب العقل کی طلاق
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر طلاق درست و نافذ ہے سوائے اس آدمی کی طلاق کے جس کی عقل و فہم مغلوب ہو گئی ہوں۔ (جامع ترمذی) تشریح کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی مرض یا صدمے کی وجہ سے آدمی کی عقل دانش غیرمتوازن اور مغلوب ہوجاتی ہے اور وہ ایسی باتیں کرنے لگتا ہے جو عقل و فہم کی سلامتی کی حالت میں نہ کرتا اور اسے اپنی باتوں کا پورا شعور بھی نہیں ہوتا ایسے آدمی کو “معتوہ” اور “مغلوب العقل” کہا جائے گا ۔ پس اگر ایسا شخص اس حالت میں بیوی کو طلاق دے تو وہ واقع نہ ہوگی جس طرح دیوانے اور پاگل کی طلاق واقع نہیں مانی جاتی ۔ ایک دوسری حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ تین آدمی شریعت میں “مرفوع القلم” ہیں یعنی ان کے کسی قول و فعل کا اعتبار نہیں کیا جائے گا اور اس پر شریعی حکم مرتب نہیں ہو گا۔ایک وہ جو نیند کی حالت میں ہوں دوسرے نابالغ بچہ اور تیسرے مغلوب العقل آدمی ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی آدمی سونے کی حالت میں بڑبڑائے اور اس میں بیوی کو طلاق دے دی تو یہ طلاق واقع نہ ہوگی اسی طرح چھوٹے بچے کی اور مغلوب العقل کی طلاق بھی واقع نہ ہوگی ۔
زبردستی کی طلاق
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ زبردستی کی طلاق اور زبردستی کے “عتاق” کا اعتبار نہیں ۔ (سنن ابی داؤد ،سنن ابن ماجہ) تشریح یعنی اگر کسی آدمی کو مجبور اور بالکل بے بس کر کے اس سے بیوی کو طلاق دلوائی گئی یا اس کے غلام کو آزاد کرایا گیا یعنی اس کی زبان سے زبردستی طلاق یا عتاق کی بات کہلوائی گئی تو شریعت میں اس کا اعتبار نہ ہوگا اکثر ائمہ مجتہدین کا مسئلہ یہی ہے کہ جو طلاق زبردستی لی جائے (جس کو اصطلاح میں “طلاق مکرہ” کہتے ہیں اس کا کچھ اعتبار نہیں۔ لیکن امام ابوحنیفہؒ ہنسی مذاق کی طرح زبردستی والی طلاق کو بھی نافذ مانتے ہیں اور مصنفین احناف اس حدیث کی تاویل و توجیہ دوسری طرح کرتے ہیں ملحوظ رہے کہ اس مسئلہ میں امام ابوحنیفہؒ منفرد نہیں ہیں ۔ سلف میں سعید ابن المسیبؒ ، ابراہیم نخعیؒ اور سفیان ثوریؒ کا مذہب بھی شروح حدیث میں یہی نقل کیا گیا ہے ۔
عدت
حضرت اسماء بنت یزید بن السکن انصاریہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ان کو طلاق ہو گئی تھی اور اس وقت تک مطلقہ عورت کے لئے عدت کا کوئی حکم نہیں آیا تھا تو اللہ تعالی نے قرآن مجید کی وہ آیات نازل فرمائیں جن میں طلاق والی عدت کا بیان ہے تو یہ اسماء بنت یزید وہ پہلی طلاق یافتہ خاتون ہیں جن کے بارے میں طلاق کی عدت کا حکم نازل ہوا۔ (سنن ابی داود) تشریح اسلامی شریعت میں طلاق یافتہ عورت کے لیے عدت کا قانون بھی مقرر کیا گیا ہے۔ یعنی حکم ہے کہ جس بیوی کو اسکا شوہر طلاق دے دے وہ ایک مقررہ مدت تک عدت گزارے جس کی مختصر تفصیل جو خود قرآن مجید میں بیان فرما دی گئی ہے یہ ہے کہ اگر اس عورت کو حیض کے ایام ہوتے ہوں تو ان کے پورے تین دور گزر جائیں اور اگر عمر کی کمی یا زیادتی کی وجہ سے ایام نہ ہوتے اور حمل بھی نہ ہو تو تین مہینے اور اگر حمل کی حالت ہو تو پھر عدت کی مدت وضع حمل تک ہےکم ہو یا زیادہ۔ عدت کے اس قانون میں بہت سی حکمتیں اور مصلحتیں ہیں۔ ایک اہم مصلحت یہ ہے کہ اس کے ذریعہ رشتہ نکاح کی عظمت اور تقدس کا اظہار ہوتا ہے اگر عدت کا قانون نہ ہو اور عورت کو اجازت ہو کہ شوہر کی طرف سے طلاق کے بعد وہ اپنے حسب خواہش فورا نکاح کرلے تو یقینا یہ بات نکاح کی عظمت شان کے خلاف ہوگی اور نکاح بچوں کا ایک کھیل سے ہوجائے گا ایک دوسری مسئلہ خاص کر طلاق رجعی کی صورت میں یہ بھی ہے کہ عدت کی اس مدت میں مرد کے لیے امکان ہوگا کہ وہ معاملہ پر اچھی طرح غور کرکے رجعت کر لے اور پھر دونوں میاں بیوی بن کے زندگی گزارنے لگیں ۔ یہی بات اللہ و رسول کو زیادہ پسند ہے اسی لئے طلاق رجعی کی عدت میں عورت کے لیے بہتر ہے کہ وہ اپنے کو بنانے سنوارنے کا ایک ایسا اہتمام کرے اور اپنا رویہ ایسا رکھے کہ شوہر کی طبیعت پھر اس کی طرف مائل ہو جائے اور وہ رجعت کرلے اور طلاق بائنہ کی صورت میں اگرچہ رجعت کا امکان تو نہیں رہتا لیکن زمانہ عدت میں عورت کو دوسرا نکاح نہ کر سکنے کی وجہ سے اس کی زیادہ گنجائش رہتی ہیں کہ دونوں باہم راضی ہوکر دوبارہ نکاح کے ذریعے اپنا ٹوٹا ہوا رشتہ پھر سے جوڑ لیں ۔ ایک تیسری مصلحت یہ بھی ہے کہ عدت کے اس قانون کی وجہ سے عورت سے آئندہ پیدا ہونے والے بچہ کے نسب میں کسی شک شبہ کی گنجائش نہیں رہتی ۔ بہرحال قانون عدت کی یہ چند کھلی ہوئی حکمتیں اور مصلحتیں ہیں ۔ غالبا اسی وجہ سے اکثر متمدن قوموں کے قوانین میں میاں بیوی کی علیحدگی کی صورت میں کسی نہ کسی شکل میں عدت کا ضابطہ ہے ۔لیکن بعض قوموں کے قانون میں یہ عدت بہت طویل رکھی گئی ہے جو بیچاری عورت کے لیے تکلیف مالایطاق ہے ۔شریعت اسلام نے جو مدت مقرر کی ہے وہ یقینا معتدل اور متوسط ہے ۔آگے درج ہونے والی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عدت کا قانون اس وقت نازل ہوا تھا جب ایک صحابیہ اسماء بنت یزید بن السکن انصاریہ کو ان کے شوہر نے طلاق دے دی تھی ۔ تشریح ..... اس حدیث میں عدت سے متعلق جس آیت کے نازل ہونے کا ذکر کیا گیا ہے وہ بظاہر سورہ بقرہ کی یہ آیت ہے “وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ الآية” اس آیت میں ان مطلقہ عورتوں کی عدت کا حکم بیان کیا گیا ہے جن کو ایام ہوتے ہیں ۔ اور جن کو صغر سنی یا کبر سنی کی وجہ سے ایام نہ ہوتے ہوں یا ان کو حمل ہو تو ان کی عدت سورہ طلاق کی آیات میں بیان فرمائی گئی ہے ۔
عدت وفات اور سوگ
ام المومنین حضرت ام حبیبہ اور حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی ایمان والی عورت کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی مرنے والے عزیز قریب کی موت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے سوائے شوہر کے اس کے انتقال پر چار مہینے دس دن سوگ کا حکم ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح شریعت اسلام میں جس طرح مطلقہ عورت کے لیے عدت کا حکم ہے اسی طرح اس بیوہ عورت کے لیے بھی عدت کا حکم ہے جس کا شوہر انتقال کر گیا ہو اس عدت کا حکم بھی قرآن مجید میں صراحۃبیان فرمایا گیا ہے ارشاد ہے : “وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا” (تم میں سے جن لوگوں کا انتقال ہوجائے اور وہ بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ بیویاں اپنے کو روکے رکھی گئی چار میں نے دس دن) یہ اردت ان بیوہ عورتوں کے لیے ہے جو حاملہ نہ ہو اور جو حمل کی حالت میں ہوں انکی عدت دوسری آیت میں وضع حمل تک کی مدت قرار دی گئی ہے حاکم ہو یا زیادہ۔ اوراس عدت وفات میں سوگ کا بھی حکم ہے یعنی بیوہ ہو جانے والی عورت کے لئے لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ عزت کی پوری مدت میں سوگ منائے جو چیزیں زینت اور سنگھار کے لیے استعمال ہوتی ہیں وہ اس مدت میں بالکل استعمال نہ کرے الغرض اس پوری مدت میں اس طرح رہے گے اس کی شکل صورت ولباس وہئیت سے اس کی بیوگی اور غمزدگی ظاہر ہو اور دوسروں کو بھی اس کی ظاہری حالت سے محسوس ہو کہ شوہر کے انتقال کا اس کو ویسا ہی رنج و صدمہ ہے جیسا کہ ایک شریف و پاکدامن بیوی کو ہونا چاہیے ۔ لیکن یہ حکم صرف مدت عدت کے لیے ہے عدت کے ایام ختم ہو جانے کے بعد اس کو ختم ہو جانا چاہیے۔ شریعت میں اس کی اجازت نہیں ہے کہ کوئی عورت بیوہ ہوجانے کے بعد ہمیشہ کے لیے سوگ کا طریقہ اختیار کرلے۔ شوہر کے علاوہ کسی دوسرے اپنے عزیز قریب مثلا بھائی باپ وغیرہ کے انتقال پر اگر کوئی عورت اپنا دلی صدمہ اور تاثر سوگ کی شکل میں ظاہر کرے تو صرف تین دن تک کی اجازت ہے اس سے زیادہ منع ہے۔
عدت وفات اور سوگ
ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس عورت کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہو وہ کسم کے رنگے ہوئے اور اس طرح سرخ گیروے رنگے ہوئے کپڑے نہ پہنے نہ زیورات پہنے نہ خضاب مہندی وغیرہ کا استعمال کرے نہ سرمہ لگائے۔ (سنن ابی داؤد سنن نسائی) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو خواتین زیب و زینت کے لیے کپڑے رنگ کی تھیں وہ زیادہ تر یہی دو چیزیں استعمال کرتی تھیں کُسم خاص قسم کا لال گیرو’ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا خاص طور سے ذکر فرمایا ورنہ ان دو چیزوں کی کوئی خصوصیت نہیں ہے مطلب یہ ہے کہ ایسے رنگین اور شوخ کپڑے استعمال نہ کئے جائیں جو زیب وزینت کے لیے استعمال ہوتے ہیں اسی طرح زیورات اور سرمہ مہندی جیسی چیزیں بھی استعمال نہ کی جائیں جو زینت اور سنگھار کے لیے استعمال کی جاتی ہیں زمانہ عدت میں سوگ کے ان احکام کا مقصد یہی ہے کہ شوہر کے انتقال کا بیوی کو جو رنج و صدمہ ہو اس کا اثر دل اور باطن کی طرح ظاہر یعنی جسم اور لباس میں بھی ہوں یہ جوہر نسوانیت کا فطری تقاضا ہے اور اسی میں نسوانیت کا شرف ہے۔