11. کتاب المعاملات
حلال روزی حاصل کرنے کی فکروکوشش فرائض میں سے ہے
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حلال حاصل کرنے کی فکر و کوشش فرض کے بعد فریضہ ہے۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح بسم اللہ الرحمن الرحیم معاشی معاملات ...... انسانوں کی فطری ضرورت اس باب میں خداوندی ہدایت اور اس کے بنیادی اصول اللہ تعالی نے انسان کو مدنی الطبع بنایا ہے یعنی انسان کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں باہمی تعاون اور معاملاتی لین دین کے محتاج ہیں ہر فرد اور طبقہ کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے مثلا ایک مزدور جسکی زندگی کی ضرورت ہے بہت مختصر ہے جو صبح سے شام تک محنت مزدوری کرکے بس گزارہ کے پیسے حاصل کرتا ہے اسے بھی ضرورت ہے اس آدمی کی جس سے وہ اپنا اور بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے غلہ وغیرہ خرید سکے اورغلہ پیدا کرنے والے کاشتکار کو ضرورت ہے اس مزدور کی جس سے وہ اپنی کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے اسی طرح مزدور اور کاشتکار دونوں کو ضرورت ہے اس آدمی کی جو ان کے لباس کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کپڑا تیار کرے اور یہ اس سے بلا واسطہ یا بالواسطہ کپڑا خرید سکیں اور کپڑا تیار کرنے والے کو ضرورت ہے اس آدمی یا اس ایجنسی کی جس سے وہ سوت یا ریشم اور کپڑے کی صنعت کی دوسری ضروریات نقد یا قرض ادھار خرید سکے پھر ان میں سے کسی کو رہنے کے لئے مکان تعمیر کرنا ہو تو اس کو ضرورت ہوگی کسی سے اینٹ سیمنٹ وغیرہ تعمیری ضروریات خریدنے کی اور اس کے بنوانے کے لئے معماروں اور مزدوروں کی۔ پھر خدانخواستہ ان میں سے کوئی بیمار پڑ جائے تو ضرورت ہوگی حکیم ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی اور دواؤں کی دوکان سے دوا خریدنے کی۔ الغرض اشیاء کی خرید و فروخت اور تجارتی مبادلہ اور محنت و مزدوری اور صنعت و زراعت اور قرض وعاریت وغیرہ معاشی معاملات اس دنیا میں انسانی زندگی کے لوازم ہیں پھر ان معاملات میں کبھی کبھی تنازعات کا پیدا ہونا بھی ناگزیر ہے ان کے حل کے لئے ضرورت ہے عدل و انصاف کے کسی نظام کی اور کسی دستور و قانون کی۔ یہ جو کچھ عرض کیا گیا کوئی فلسفہ یا منطق کا مسئلہ نہیں ہے سب مشاہدہ اور ہم سب کا روزمرہ کا تجربہ ہے۔ اللہ تعالی نے انبیاء علیہم السلام کے ذریعے اور سب سے آخر میں خاتم الانبیاء سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے جس طرح انسانوں کو یہ ہدایت دی کہ وہ اپنے آغاز و انجام کے بارے میں اپنے پیدا کرنے والے مالک و معبود کی ذات و صفات اور توحید و آخرت وغیرہ کے بارے میں کیا عقیدہ اور یقین رکھیں اور کس طرح اس کی عبادت کریں اور کونسے اعمال ان کی روحانیت اور انسانی شرافت کے لیے مضر اور مہلک ہیں جن سے وہ بچیں اور پرہیز کریں اور اخلاق اور معاشرت کے بارے میں ان کا رویہ کیا رہے اسی طرح اس نے خریدوفروخت صنعت و تجارت اور محنت مزدوری وغیرہ ان معاشی معاملات کے بارے میں جو انسانی شرافت وعظمت سے مطابقت رکھتے ہیں اور جن میں انسانوں کی دنیوی و اخروی فلاح ہے۔ اس کا نتیجہ یہ بھی ہوا کہ اس خداوندی ہدایت اور اس شعبے سے متعلق شریعت محمدی کے احکام کی پابندی اور پیروی کرتے ہوئے ان کاموں کا کرنا اب دنیا نہیں بلکہ عین دین اور ایک معنی کر عبادت ہے اور اللہ کی طرف سے اس پر اسی طرح اجر و ثواب اور جنت کے درجات عالیہ کا وعدہ ہے جس طرح نماز روزہ اور ذکر و تلاوت وغیرہ اچھے اخلاق پر اور دین کی دعوت اور خدا کی راہ میں جان و مال کی قربانی پر۔ انسانی زندگی کے اس شعبہ یعنی معاملات کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے ذریعے جو ہدایتیں اور جو احکام امت کو ملے ہیں ان کی بنیاد جہاں تک ہم نے سمجھا ہے چار اصولوں پر ہے ایک خلق اللہ کی نفع رسانی۔ دوسرے عدل۔ تیسرے سچائی و دیانت داری۔ چوتھے سماحت۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر فریق دوسرے کے ساتھ رعایت اور خیرخواہی کا معاملہ کرے خاص کر کمزور اور ضرورتمند فریق کو حتی الوسع سہولت دی جائے۔ اس تمہید کے بعد ناظرین کرام معاشی معاملات سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات و تعلیمات ذیل میں پڑھیں۔ اللہ تعا لی لکھنے والے اپنے گنہگار بندے کو نیز پڑھنے والوں اور سننے والوں کو ان ہدایات و ارشادات کی پیروی کے اہتمام کی توفیق عطا فرمائے۔ سب سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چندوہ ارشادات درج کئے جاتے ہیں جن میں معاشی معاملات کی ہمت افزائی فرمائی گئی ہے اور ان پر اجر و ثواب کی بشارت سنائی گئی ہیں۔ تشریح ..... اکثر شارحین نے حدیث کا مطلب یہ بیان کیا ہے اور بظاہر یہی اللہ و رسول پر ایمان اور نماز و زکوۃ وغیرہ جو اسلام کے اولین اور بنیادی ارکان و فرائض ہیں درجہ اور مرتبہ میں ان کے بعد حلال روزی حاصل کرنے کی فکر اور کوشش بھی ایک اسلامی فریضہ ہے۔ بندہ اگر اس سے غفلت برتے اور کوتاہی کرے گا تو خطرہ ہے حرام روزی سے پیٹ بھرے اور آخرت میں اس کا انجام وہ ہوگا جو حرام سے پیٹ بھرنے والوں کا بتلایا گیا ہے۔ اللہ کی پناہ! پھر یہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے کسی فریضے کا ادا کرنا اس کی بندگی اور عبادت ہے اور بندہ اس پر اجر و ثواب کا مستحق ہے جو فریضہ کی ادائیگی پر اللہ تعالی کی طرف سے ملنا چاہیے۔ پس کسب حلال کی فکر و کوشش اور اس میں مشغول ہونا عین دین و عبادت اور موجب اجر و ثواب ہے۔ اس میں کسب حلال کے طالب ہر تاجر ہر مزدور ہر کاشتکار اور ہر دست کار کے لیے کتنی بڑی بشارت ہے لیکن یہ بہرحال پیش نظر رہے کہ اس حدیث میں صرف کمائی کرنے کو نہیں بلکہ کسب حلال کی تلاش و فکر کا فریضہ بتلایا گیا ہے اور اس ارشاد کا خاص مقصد اور مطمع نظر حرام سے بچانا ہے۔
بعض حالات میں روپیہ پیسہ کی ضرورت اور اہمیت
حضرت مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے لوگوں کے لیے ایک وقت آئے گا جب روپیہ پیسہ ہی کام آئے گا۔ (مسند احمد) تشریح اس حدیث کو حضرت مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہٗ سے روایت کرنے والے ایک تابعی ابوبکر بن ابی مریم ہیں انہوں نے واقعہ یہ بیان کیا ہے کہ حضرت مقدام کے یہاں دودھ دینے والے جانور تھے ان کی ایک باندی دودھ فروخت کرتی اور اسکی قیمت خود حضرت مقدام لے لیتے تھے اس پر بعض لوگوں نے ناپسندیدگی کے ساتھ تعجب کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ دودھ فروخت کراتے ہیں اور اس کی قیمت وصول کرتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ ہاں میں ایسا کرتا ہوں اور اپنے طرز عمل کے جواز کی سند میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا حوالہ دیا۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ اپنی چیز فروخت کرکے روپیہ پیسہ حاصل کرنا کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایسا وقت بھی آئے گا کہ روپیہ پیسہ بھی آدمی کے کام آئے گا۔ یعنی میں اسی خیال سے دودھ فروخت کرا کے روپیہ پیسہ حاصل کرتا ہوں مطلب یہ تھا کہ یہ اگر عظیمت نہیں تو رخصت ضرور ہے۔
سچائی اور دیانت داری کے ساتھ کاروبار کرنے والے انبیاء صدیقین اور شہداء کے ساتھ
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پوری سچائی اور ایمانداری کے ساتھ کاروبار کرنے والا تاجر نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا۔ (جامع ترمذی سنن دارمی سنن دارقطنی) اور ابن ماجہ نےیہی حدیث اپنی سند سے حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے ۔ تشریح “ الصدوق ” اور “ الامین ” دونوں مبالغے کے صیغے ہیں حدیث کا مطلب اور پیغام واضح ہے کہ جو تاجر اور سوداگر اپنے کاروبار میں سچائی اور امانت یعنی دیانتداری کی پورے اہتمام سے پابندی کریں گے قیامت اور آخرت میں وہ نبیوں صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہونگے۔ قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے ۔ “وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَـٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَـٰئِكَ رَفِيقًا ” (جو بندے اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کریں گے’ وہ (قیامت و آخرت میں) ان مقبولین و مقربین کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالی کا خاص انعام ہے یعنی انبیاء و صدیقین اور شہداء و صالحین (کے ساتھ) اور یہ سب بہت ہی اچھے رفیق ہیں) تجارت اور سوداگری بڑی آزمائش کی چیز ہے تاجر کے سامنے بار بار ایسی صورتیں آتی ہیں کہ اگر وہ خدا کے حکم کے مطابق سچائی اور دیانت داری کا لحاظ کرنے کے بجائے اس وقت وہ اپنی تجارتی مصلحت کے مطابق بازاری بات کرے تو ہزاروں لاکھوں کا نفع ہوتا ہے۔ پس جو تاجر اپنی تجارتی مصلحت اور نفع نقصان سے صرف نظر کر کے اللہ کے حکم کے مطابق ہر حال میں سچائی اور ایمانداری کی پابندی کرتا ہے وہ خدائی امتحان میں بڑا کامیاب ہے اور اس حدیث میں ایسے تاجروں کو بشارت سنائی گئی ہے کہ قیامت و آخرت میں وہ اللہ کے مقبول ترین بندوں یعنی نبیوں صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوں گے۔ اللہ تعالی کی طرف سے یہ ان کی سچائی و دیانت داری کا صلہ ہوگا۔ تنبیہ ...... اسی سلسلہ معارف الحدیث میں قرآن و حدیث کے نصوص کی بنیاد پر بار بار یہ وضاحت کی جا چکی ہے کہ ایسی تمام بشارتیں اس شرط کے ساتھ مشروط ہوتی ہیں کہ وہ آدمی ان خبیث اور مہلک باتوں سے پرہیز کرے جو بندے کو اللہ تعالی کی رحمت سے محروم کر دیتی ہیں۔
دستکاری صنعت و حرفت اور محنت مزدوری کی فضیلت
حضرت مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کسی نے کبھی کوئی کھانا اس سے بہتر نہیں کھایا کہ اپنے ہاتھوں کی محنت سے کما کے کھائے۔ اور اللہ کے پیغمبر داود علیہ السلام اپنے ہاتھوں سے کام کر کے کھاتے تھے۔ (صحیح بخاری) تشریح مطلب یہ ہے کہ تحصیل معاش کی صورتوں میں بہت اچھی صورت یہ ہے کہ آدمی اپنے ہاتھ سے کوئی ایسا کام کرے جس سے کھانے پینے وغیرہ کی ضروریات پوری ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اللہ کے پیغمبر داود علیہ السلام کی سنت بھی ہے قرآن مجید میں بھی ہے کہ وہ زرہیں بناتے تھے اور اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسی کو انھوں نے اپنا ذریعہ معاش بنایا تھا بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد نے دستکاری اور ذاتی محنت کو بہت بلند مقام عطا فرمادیا۔
دستکاری صنعت و حرفت اور محنت مزدوری کی فضیلت
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ حضرت کونسی کمائی زیادہ پاک اور اچھی ہے آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی کا اپنے ہاتھ سے کوئی کام کرنا اور ہر تجارت جو پاکبازی کے ساتھ ہو۔ (مسند احمد) تشریح مطلب یہ ہے کہ سب سے اچھی کمائی تو وہ ہے جو خود اپنے دست بازو اور اپنی محنت سے ہو اور اس تجارت کی کمائی بھی پاکیزہ ہے جو شریعت کے احکام کے مطابق اور دیانتداری کے ساتھ ہو کا “كُلُّ بَيْعٍ مَبْرُورٍ” یہی مطلب ہے۔
زراعت و باغبانی کا عظیم اجروثواب
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کوئی صاحب ایمان بندہ درخت کا پودا لگائے یا کاشت کرے پھر اس میں سے پرندے کھائیں یا آدمی یا کوئی جانور تو وہ اس کے حق میں صدقہ ہو گا۔(صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ باغات لگانے والوں اور کاشت کاری کرنے والوں کے لیے اس حدیث نبوی میں کتنی عظیم بشارت ہے کہ اگر کوئی آدمی یا چلتا پھرتا جانور یا اڑتا ہوا پرندہ اس کے درخت کا پھل یا کھیت کے دانے کھائے تو باغ والے اور کھیت والے بندہ کو فی سبیل اللہ صدقہ کا ثواب ہوگا۔ اس حدیث پاک میں باغبانی اور کاشتکاری کے لیے جن پر انسانوں کی بنیادی ضرورتوں کا دارومدار ہے کتنی بڑی ترغیب اور ہمت افزائی ہے۔
جائز مال ودولت بندہ مومن کے لیے اللہ کی نعمت ہے
حضرت عمرو ابن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ میرا ارادہ ہے کہ تم کو ایک لشکر کا امیر بنا کر بھیجوں پھر تم اللہ تعالی کے فضل سے صحیح سالم لوٹو (اور وہ مہم تمہارے ہاتھ پر فتح ہو) اور تم کو مال غنیمت حاصل ہو اور اللہ تعالی کی طرف سے تم کو مال و دولت کا اچھا عطیہ ملے۔ تو میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول میں نے اسلام مال و دولت کے لیے قبول نہیں کیا ہے بلکہ میں نے اسلام کی رغبت و محبت کی وجہ سے اس کو قبول کیا ہے اور اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت اور رفاقت مجھے نصیب ہو تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمرو! اللّہ کے صالح بندہ کے لئے جائز و پاکیزہ مال و دولت اچھی چیز (اور قابل قدر نعمت) ہے۔ (مسند احمد) تشریح حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مال و دولت اگر جائز طریقہ سے حاصل ہو تو اللہ تعالی کی قابل قدر نعمت اور اس کا خاص فضل ہے۔ اور زہد ورقاق کے عنوانات کے تحت متعدد وہ حدیثیں اسی سلسلہ معارف الحدیث جلد دوم میں ذکر کی جاچکی ہیں۔ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ فقر و مسکنت اور مال و دولت سے خالی ہاتھ رہنے کو افضلیت حاصل ہے۔ اور امت کے فقرا اغنیہ سے افضل ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ بالکل صحیح ہیں اگر فقر و مسکنت کے ساتھ صبر اور تسلیم و رضا اور تعفف نصیب ہو تو پھر بلاشبہ یہ فخر و مسکنت بہت بلند مقام ہے اور اس میں بڑی خیر ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لئے یہی پسند فرمایا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لئے اللہ تعالی سے دعائیں کرتے تھے (اس سلسلے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں پہلے اپنے موقع پر (جلد پنجم میں) ذکر کی جاچکی ہیں) اور اگر اللہ تعالیٰ کسی بندے کو جائز اور پاک ذرائع سے مال و دولت نصیب فرمائے اور شکرکی اور صحیح مصارف میں خرچ کرنے کی توفیق ملے تو وہ بھی اللہ تعالی کا خاص فضل اور بڑی قابل قدر نعمت ہے۔ انبیاء علیہم السلام میں سے حضرت داؤد و سلیمان اور حضرت ایوب و یوسف علیہم السلام اور ان کے علاوہ بھی متعدد حضرات کو اللہ تعالی نے اس فضل سے نوازا تھا اور اکابر صحابہ میں حضرت عثمان حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت زبیر بن عوام وغیرہم رضی اللہ عنہم کو بھی اس فضل خداوندی سے وافر حصہ عطا ہوا تھا بہرحال یہ بھی اللہ تعالیٰ کی بڑی قابل قدر اور لائق شکر نعمت ہے۔ (نِعْمَ الْمَالِ الصَّالِحُ لِلرَّجُلِ الصَّالِحِ)
مالی معاملات کی نزاکت و اہمیت
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن (جب حساب کتاب کے لیے بارگاہ خداوندی میں پیشی ہوگی تو) آدمی کے پاوں اپنی جگہ سے سرک نہ سکیں گے جب تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں پوچھ گچھ نہ کرلی جائے۔ ایک اس کی پوری زندگی کے بارے میں کن کاموں اور مشغلوں میں اس کو ختم کیا؟ اور دوسرے خصوصیت سے اسکی جوانی کے بارے میں کہ کن مشغلوں میں بوسیدہ اور پرانا کیا۔ اور تیسرے اور چوتھے مال و دولت کے بارے میں کہ کہاں سے اور کن طریقوں اور راستوں سے اس کو حاصل کیا تھا اور کن کاموں اور کن راہوں میں اسکو صرف کیا۔ اور پانچواں سوال یہ ہو گا کہ جو کچھ معلوم تھا اس پر کتنا عمل کیا۔(جامع ترمذی) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قیامت میں ہر آدمی کو اپنے پورے آمد و خرچ کا بھی حساب دینا ہوگا کہ کتنا کمایا حلال طریقے سے کمایا یا خدانخواستہ حرام طریقے سے؟ اور کمائی کو کی مدوں میں خرچ کیا جائز میں یا ناجائز میں؟ الغرض اس دنیا اور اس کی زندگی میں ہم جو کچھ کماتے اور خرچ کرتے ہیں آخرت میں اس کا پورا پورا حساب دینا ہوگا۔ وہ بندے بڑے خوش نصیب اور خوش قسمت ہیں جو قیامت کے دن کے اس حساب کو پیش نظر رکھتے ہوئے کمانے اور خرچ کرنے میں اور سارے مالی معاملات میں اللہ تعالی کی ہدایت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے احکام کی پابندی کرتے ہیں اور ان کا انجام بہت خطرناک ہے جو اس طرف سے بے فکر اور بے پروا ہیں۔
حرام مال کی نحوست اور بد انجامی
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی بندہ (کسی ناجائز طریقہ سے) حرام مال کمائے اور اس میں سے للہ صدقہ کرے تو اس کا صدقہ قبول ہو گا۔ اور اس میں سے خرچ کرے تو اس میں (منجانب اللہ) کی برکت ہو۔ اور جو شخص حرام مال (مرنے کے بعد) پیچھے چھوڑ کے جائے گا تو وہ اس کے لئے جہنم کا توشہ ہی ہوگا۔ یقینا اللہ تعالی بدی کو بدی سے نہیں مٹاتا بلکہ بدی کو نیکی سے مٹاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ گندگی گندگی کو نہیں دھو سکتی۔ (مسند احمد نیز شرح السنہ میں بھی اسی طرح ہے) تشریح حدیث کا حاصل اور مدعا یہ ہے کہ حرام مال سے کیا ہوا صدقہ قبول نہیں ہوتا اور حرام کمائی میں برکت نہیں ہوتی اور جب کوئی آدمی ناجائز و حرام طریقے سے کمایا ہوا مال مرنے کے بعد وارثوں کے لئے چھوڑ گیا تو وہ آخرت میں اس کے لیے وبال ہی کا باعث ہوگا اس کو حرام کمانے کا بھی گناہ ہوگا اور وارثوں کو حرام کھلانے کا بھی۔ (حالانکہ وارثوں کے لیے حلال مال چھوڑ جانا ایک طرح کا صدقہ ہے اور اس پر یقین اجروثواب ملنے والا ہے) آگے جو فرمایا گیا ہے “إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَا يَمْحُو السَّيِّئَ بِالسَّيِّئِ الخ” میں مال حرام کا صدقہ قبول نہ ہونے اور مرنے کے بعد باعث وبال ہونے کا سبب بیان فرمایا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ صدقہ اگر صحیح اور پاک مال سے ہو تو وہ گناہوں کا کفارہ اور مغفرت کا وسیلہ بن جاتا ہے لیکن اگر حرام اور ناپاک مال سے صدقہ کیا گیا تو نجس اور ناپاک ہے وہ گناہوں کی گندگی کو دھونے کی اور گناہوں کا کفارہ اور مغفرت کا وسیلہ بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا جس طرح گندے اور ناپاک پانی سے ناپاک کپڑا پاک صاف نہیں کیا جا سکتا ہے۔
حرام مال کی نحوست اور بد انجامی
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگو اللہ تعالی پاک ہے وہ صرف پاک ہی کو قبول کرتا ہے اور اس نے اس بارے میں جو حکم اپنے پیغمبروں کو دیا ہے وہی اپنے سب مومن بندوں کو دیا ہے پیغمبروں کے لئے اس کا ارشاد ہے کہ “اے پیغمبروں! تم کھاؤ پاک اور غذا اور عمل کرو صالح ” ۔ اور اہل ایمان کو مخاطب کرکے اس نے فرمایا ہے کہ “اے ایمان والو تم ہمارے رزق میں سے حلال اور طیب کھاؤ (اور حرام سے بچو) ”۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر فرمایا ایک ایسے آدمی کا جو طویل سفر کرکے (کسی مقدس مقام پر) ایسے حال میں جاتا ہے کہ اس کے بال پراگندہ ہیں اور جسم اور کپڑوں پر گردوغبار ہیں اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا اٹھا کے دعا کرتا ہے۔ اے میرے رب! اے میرے پروردگار! اور حالت یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام ہے اس کا پینا حرام ہے اس کا لباس حرام ہے اور حرام غذا سے اس کا نشونما ہوا ہے تو ایسے آدمی کی دعا کیسے قبول ہوگی۔ (صحیح مسلم) تشریح حدیث کا مطلب اور پیغام یہ ہے کہ اللہ تعالی مقدس اور پاک ہے اور وہ اسی صدقہ اور اسی نذرونیاز کو قبول کرتا ہے جو پاک مال سے ہو۔ آگے فرمایا گیا ہے کہ حرام سے بچنے اور صرف حلال استعمال کرنے کاحکم وہ امر الہی ہے جو تمام اہل ایمان کی طرح سب پیغمبروں کو بھی دیا گیا تھا۔ لہذا ہر مومن کو چاہیے کہ وہ اس حکم الہی کی عظمت و اہمیت کو محسوس کرے اور ہمیشہ اس پر عمل پیرا رہے اس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بیان فرمایا کہ حرام مال اتنا خبیث اور ایسا منحوص ہے کہ اگر کوئی آدمی سر سے پاؤں تک درویش اور قابل رحم فقیر بن کے کسی مقدس مقام پر جا کے دعا کرے لیکن اس کا کھانا پینا اور لباس حرام سے ہو تو اس کی دعا قبول نہ ہوگی۔
حرام مال کی نحوست اور بد انجامی
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان فرمایا کہ جس شخص نے دس درہم میں کوئی کپڑا خریدا اور ان میں ایک درہم بھی حرام کا تھا تو جب تک وہ کپڑا اس کے جسم پر رہے گا اس کی کوئی نماز اللہ تعالی کے ہاں قبول نہ ہوگی۔ (یہ بیان کرکے) حضرت ابن عمر نے اپنی دو انگلیاں اپنے دونوں کانوں میں دیں لیں اور بولے بہرے ہو جائیں میرے یہ دونوں کان اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے نہ سنا ہو۔ (یعنی میں نے جو کہا یہ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے کانوں سے سنا ہے)۔ (مسند احمد شعب الایمان للبیہقی)
حرام مال کی نحوست اور بد انجامی
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ گوشت اور وہ جسم جنت میں نہ جا سکے گا جس کی نشوونما حرام مال سے ہوئی ہو۔ اور ہر ایسا گوشت اور جسم جو حرام مال سے پلا اور بڑھا ہے جوزف اس کی زیادہ مستحق ہے۔ (مسند احمد سنن دارمی شعب الایمان للبیہقی) تشریح اللہ کی پناہ! اس حدیث میں بڑی سخت وعید ہے۔ الفاظ حدیث کا ظاہر مطلب یہی ہے کہ دنیا میں جو شخص حرام کمائی کی وجہ سے پلا بڑھا ہو گا وہ جنت کے داخلہ سے محروم رہے گا اور دوزخ ہی اس کا ٹھکانہ ہوگا۔ اَللَّهُمَّ احْفَظْنَا شارحین حدیث نے قرآن و حدیث کے دوسرے نصوص کی روشنی میں اس کا مطلب یہ بیان فرمایا ہے کہ ایسا آدمی حرام خوری کی سزا پائے بغیر جنت میں نہ جا سکے گا۔ ہاں اگر وہ مومن ہو گا تو حرام کا عذاب بھگتنے کے بعد جنت میں جا سکے گا اور اگر مرنے سے پہلے اس کو صادق توبہ و استغفار نصیب ہو گیا یا کسی مقبول بندہ نے اس کی مغفرت کی دعا کی اور قبول ہوگئی یا خود رحمت الہی نے مغفرت کا فیصلہ فرما دیا ہے تو عذاب کے بغیر بھی بخشا جا سکتا ہے۔ رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِيْنَ
حرام مال کی نحوست اور بد انجامی
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ آدمی کو اس کی پروا نہ ہوگی کہ وہ جو لے رہا ہے حلال ہے یا حرام جائز ہے یا ناجائز۔ (صحیح بخاری) تشریح حدیث کا مطلب بالکل ظاہر ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس زمانہ کی اس حدیث میں خبر دی ہے بلاشبہ وہ آچکا ہے آج امت میں ان لوگوں میں بھی جو دیندار سمجھے جاتے ہیں کتنے ہیں جو اپنے پاس آنے والے روپیہ پیسہ یا کھانے پہننے کی چیزوں کے بارے میں یہ سوچنا اور تحقیق کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ جائز ہے یا ناجائز۔ ہو سکتا ہے کہ آگے اس سے بھی زیادہ خراب زمانہ آنے والا ہو۔ (مسند رزین کی اسی حدیث کی روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ اس وقت ان لوگوں کی دعائیں قبول نہ ہوں گی) حلال و حرام اور جائز و ناجائز میں تمیز نہ کرنا روح ایمانی کی موت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سلسلہ کی تعلیمات و ہدایات نے صحابہ کرام کی زندگیوں اور ان کے دلوں پر کیا اثر ڈالا تھا اس کا اندازہ ان دو واقعات سے کیا جا سکتا ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ کا یہ واقعہ مروی ہے کہ ان کے ایک غلام نے کھانے کی کوئی چیز ان کی خدمت میں پیش کی آپ نےاس میں سے کچھ کھا لیا اس کے بعد اس غلام نے بتلایا کہ یہ چیز مجھے اس طرح حاصل ہوئی کہ اسلام کے دور سے پہلے زمانہ جاہلیت میں ایک آدمی کو میں نے اپنے کو کاہن ظاہر کرکے دھوکا دیا تھا اور اس کو کچھ بتلا دیا تھا۔ جیسے کہ کاہن لوگ بتلا دیا کرتے تھے تو آج وہ آدمی ملا اور اس نے مجھے اس کے حساب میں کھانے کی یہ چیز دی۔ حضرت ابوبکرؓ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے حلق میں انگلی ڈال کر قے کی اورجو کچھ پیٹ میں تھا سب نکال دیا۔ اسی طرح امام بیہقی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کا یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک دفعہ کسی شخص نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں دودھ پیش کیا آپؓ نے اس کو قبول فرما لیا اور پی لیا آپ نے اس آدمی سے پوچھا کہ دودھ تم کہاں سے لائے؟ اس نے بتلایا کہ فلاں گھاٹ کے پاس سے میں گزر رہا تھا وہاں زکوۃ کے جانور اونٹنیاں بکریاں وغیرہ تھیں لوگ ان کا دودھ دوہ رہے تھے انہوں نے مجھے بھی دیا میں نے لے لیا یہ وہی دودھ تھا۔ حضرت عمرؓ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو حضرت ابوبکرؓ کی طرح حلق میں انگلی ڈال کر آپ نے بھی قے کردی اور اس دودھ کو اس طرح نکال دیا۔ (مشکوۃ) ان دونوں واقعوں میں ان دونوں بزرگوں نے جو کھایا یا پیا تھا کیونکہ لاعلمی اور بے خبری میں کھایا پیا تھا اس لئے ہرگز گناہ نہ تھا لیکن حرام غذا کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ ان حضرات نے سنا تھا اس سے یہ اتنے خوفزدہ تھے کہ اس کو پیٹ سے نکال دینے کے بغیر چین نہ آیا۔ بےشک حقیقی تقوی ہی ہے۔
مقام تقوی مشتبہ سے بھی پرہیز ضروری
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو حلال ہے وہ واضح اور روشن ہے اور جو حرام ہے وہ بھی واضح اور روشن ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ چیزیں ہیں جو مشتبہ ہیں ان کو (یعنی ان کے شرعی حکم کو) بہت سے لوگ نہیں جانتے بس جو شخص شبہ والی چیزوں سے بھی (ازراہ احتیاط) پرہیز کرے وہ اپنے دین اور اپنی آبرو کو بچا لے گا اور بے داغ رہے گا۔ اور جو شخص شبہ والی چیزوں میں پڑے گا اور مبتلا ہوگا وہ (خدا نکردہ) حرام کے حدود میں جا گرے گا۔ اس چرواھے کی طرح جو اپنے جانور محفوظ سرکاری علاقے کے آس پاس بالکل قریب میں چراتا ہے تو اس کا قریبی خطرہ ہوتا ہے کہ وہ جانور اس محفوظ سرکاری علاقے میں داخل ہو کر چرنے لگیں (جو قابل سزا جرم ہے) اور معلوم ہونا چاہیے کہ ہر بادشاہ اور فرمانروا کا ایک حمی (محفوظ علاقہ) اس کے محارم یعنی محرمات ہیں (آدمی کو چاہیے کہ اس کے قریب بھی نہ جائے یعنی مشتبہ چیزوں سے بھی پرہیز کرے) اور خبردار! انسان کی جسم میں ایک مضغہ (گوشت کا ٹکڑا) ہے (جس کی شان یہ ہے) کہ اگر وہ ٹھیک ہو (یعنی اس میں نور ایمان خدا کی معرفت اور اس کا خوف ہو) تو سارا جسم ٹھیک رہتا ہے (یعنی اس کے اعمال و احوال صحیح و درست ہوتے ہیں) اور اگر اس کا حال خراب ہو تو سارے جسم کاحال بھی خراب ہوتا ہے (یعنی اس کے اعمال و احوال خراب ہو جاتے ہیں) آگاہ رہو گوشت کا وہ ٹکڑا قلب ہے۔(صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حدیث کے پورے ذخیرہ میں چند حدیثیں وہ ہیں جن کو امت کے علما اور فقہا نے بہت اہم اور اصولی سمجھا ہے انہی میں حضرت نعمان بن بشیرؓ کی روایت کی ہوئی یہ حدیث بھی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد میں سب سے پہلے تو یہ فرمایا ہے کہ شریعت میں جو چیزیں اور جو معاملات صراحت کے ساتھ حلال یا حرام قرار دیے گئے ہیں ان کا معاملہ تو صاف اور روشن ہے لیکن ان کے علاوہ بہت سی چیزیں اور بہت سے معاملات ایسے ہیں جن کا جائز یا ناجائز ہونا کسی صریح دلیل سے معلوم نہ ہوسکے گا بلکہ دونوں رایوں کی گنجائش ہوگی مثلا شریعت کے ایک اصول کی روشنی میں ان کو جائز اور کسی دوسرے اصول کی روشنی میں ناجائز قرار دیا جا سکے گا تو ایسی شبہ والی چیزوں اور ایسے معاملات کے بارے میں بندہ مومن کا طرز عمل یہ ہونا چاہیے کہ ازراہ احتیاط و تقوی ان سے بھی پرہیز کرے اسی میں دین اور آبرو کی حفاظت ہے۔ آگے آپ نے ارشاد فرمایا کہ ..... “جو شخص ایسی مشتبہ چیزوں سے پرہیز کا اہتمام نہ کرے گا تو وہ بےاحتیاطی کا عادی بن کر محرمات کا بھی مرتکب ہوجائے گا”۔ پھر اس بات کو مثال سے سمجھاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مثلا جو چرواہا اپنے جانوروں کو اس سرکاری محفوظ علاقہ کے قریب اور بالکل اس کی سرحد پر چلائے گا جس میں عوام کے لیے جانوروں کا چرانا جرم ہے تو بعید نہیں کہ اس کے جانور کسی وقت اس محفوظ علاقہ کی حدود میں داخل ہو کر کرنے لگیں پس جس طرح چرواہے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے جانوروں کو سرکاری علاقہ سے دور ہی رکھے اور اس کے قریب بھی نہ جانے دے اسی طرح بندہ مومن کو چاہیے کہ وہ مشتبہ چیزوں اور مشتبہ معاملات سے بھی پرہیز کرے اس طرح وہ محرمات اور معصیات سے ہمیشہ محفوظ رہے گا۔ یہی مقام تقویٰ ہے۔ آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نہایت اہم بات ارشاد فرمائی" فرمایا کہ انسانی وجود کے بگاڑ اور سدھار " سعادت اور شقاوت کا دارومدار اس کے قلب کے حال پر ہے جو انسان کے پورے جسمانی وجود پر اور تمام اعضاء پر حکمرانی کرتا ہے اگر وہ درست ہو گا اور اس میں خدا کی معرفت کا خوف اور ایمان کا نور ہوگا تو انسان کا پورا جسمانی وجود درست رہے گا اور اس کے اعمال و احوال صحیح اور صالح ہوں گے اور اگر قلب میں فساد و بگاڑ ہوگا اور اس پر حیوانی و شیطانی جذبات کا غلبہ ہو گا تو اس کا جسمانی وجود فاسد اور غلط کار ہوگا اور اس کے اعمال و احوال شیطانی وحیوانی ہونگے۔ اس حدیث میں قلب سے مراد انسان کا وہ باطنی حاسہ ہے جس کا رجحان خیر یا شر کی طرف ہوتا ہے۔ اس کو مضغہ (گوشت کا ٹکڑا) اس لیے کہا گیا ہے کہ انسان کے سینہ میں بائیں جانب صنوبری شکل کا جو ایک خاص اور عضو اور مضغہ لحم ہے جس کو قلب اور دل کہا جاتا ہے وہ اس باطنی حاسہ کا خاص محل اور گویا اس کا تخت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث پاک میں پہلے تو محرمات کے علاوہ مشتبہات سے بھی بچنے اور پرہیز کرنے کی تاکید فرمائی جو تقوی کی بنیادی شرط ہے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قلب کے بارے میں یہ آگاہی دی اور بتلا کر کہ انسان کی سعادت و شقاوت کا دارومدار قلب کے صلاح و فساد پر ہے اس کی حفاظت اور نگرانی کی طرف توجہ دلائی ۔ مبارک ہیں وہ بندے جو قلب اور باطن کی اس اہمیت کو سمجھتے ہیں اور قالب اور ظاہر سے زیادہ اپنے قلب اور باطن کی فکر رکھتے ہیں۔ حضرات صوفیائے کرام کا یہی امتیاز ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت کی اہمیت کو سب سے زیادہ انہوں نے سمجھا ہے۔ اللہ تعالی ان کی برکات سے ہمیں محروم نہ فرمائے۔ بعض شارحین نے اس حدیث پاک کے مضامین کی ترتیب سے یہ بھی سمجھا ہے کہ قلب کی صفائی اور طہارت کے لیے یہ ضروری ہے کہ آدمی کھانے پینے میں محرمات کے علاوہ مشتبہ چیزوں سے بھی پرہیز کرے۔
مقام تقوی مشتبہ سے بھی پرہیز ضروری
حضرت عطیہ سعدی رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی بندہ اس درجہ تک نہیں پہنچ سکتا کہ وہ متقیوں میں شمار ہو جب تک کہ اس کا رویہ یہ نہ ہو کہ گناہوں سے بچنے کے لئے وہ مباحات کو بھی ترک نہ کرے۔ (جامع ترمذی" سنن ابن ماجہ) تشریح بہت سی چیزیں اور بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں کہ وہ فی نفسہٖ جائز اور مباح ہوتے ہیں لیکن اس کا اندیشہ ہوتا ہے کہ آدمی ان میں مبتلا ہو کر گناہ تک پہنچ جائے اس لئے مقام تقوی کا تقاضہ یہ ہے کہ بندہ ان جائز و مباح چیزوں اور کاموں سے بھی پرہیز کرے۔ اس کے بغیر آدمی مقام تقوی تک نہیں پہنچ سکتا۔ معاملات اور دوسرے ابواب میں تقویٰ کا جو تقاضہ ہے وہ ان تین حدیثوں سے پوری طرح واضح ہو جاتا ہے۔ اللَّهُمَّ آتِ نُفُوسَنَا تَقْوَاهَا، وَزَكِّهَا أَنْتَ خَيْرُ مَنْ زَكَّاهَا وَلِيُّهَا وَمَوْلَاهَا.
مالی معاملات میں دوسروں کے ساتھ نرمی اور رعایت
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کی رحمت اس بندے پر ہیں جو بیچنے میں’ خریدنے میں اور اپنے حق کا تقاضہ کرنے میں نرم اور فراخ دل ہو ۔ (صحیح بخاری) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت و تعلیم میں ایمان اور اللہ کی عبادت کے بعد بندگان خدا اور عام مخلوق کے ساتھ حسن سلوک خاص کر کمزوروں اور حاجت مندوں کی خدمت اور اعانت پر بڑا زور دیا گیا ہے" اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و ہدایت کا یہ نہایت وسیع اور اہم باب ہے۔ اسی سلسلہ معارف الحدیث کی کتاب الاخلاق(1) اور کتاب المعاشرہ(2) میں ناظرین کرام مختلف عنوانات کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ پچاسوں ارشادات پڑھ چکے ہیں جن کا تعلق اسی وسیع باب کے مختلف شعبوں سے ہے۔ خرید و فروخت اور قرض وغیرہ لین دین کے معاملات میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو مختلف عنوانات سے اس کی ہدایت فرمائی اور ترغیب دی کے ہر فریق دوسرے کی رعایت اور خیر خواہی کرے’ جس پر کسی کا حق ہے وہ اس کو ادا کرنے کی کوشش کرے’ اور جس کا کسی دوسرے پر حق ہے وہ اس کے وصول کرنے میں فراخ دلی نرمی اور فیاضی سے کام لے’ اور سخت اور بے لچک رویہ اختیار نہ کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ جو بندے ایسا کریں گے وہ ارحم الراحمین کی خاص الخاص رحمت کے مستحق ہونگے۔ اس سلسلہ کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ارشادات ذیل میں پڑھئے:
مالی معاملات میں دوسروں کے ساتھ نرمی اور رعایت
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ تم سے پہلی کسی امت میں ایک آدمی تھا جب موت کا فرشتہ اس کی روح قبض کرنے آیا (اور قبض روح کے بعد وہ اس دنیا سے دوسرے عالم کی طرف منتقل ہو گیا) تو اس سے پوچھا گیا کہ تونے دنیا میں کوئی نیک عمل کیا تھا؟ (جو تیرے لیے وسیلہ نجات بن سکے) اس نے عرض کیا کہ میرے علم میں میرا کوئی (ایسا) عمل نہیں ہے۔ اس سے کہا گیا کہ (اپنی زندگی پر) نظر ڈال (اور غورکر!) اس نے پھر عرض کیا کہ میرے علم میں (میرا ایسا کوئی عمل اور) کوئی چیز نہیں سوا اس کے کہ میں لوگوں کے ساتھ کاروبار اور خرید و فروخت کا معاملہ کیا کرتا تھا تو میرا رویہ ان کے ساتھ درگزر اور احسان کا ہوتا تھا" میں پیسے والوں اور اصحاب دولت کو بھی مہلت دے دیتا تھا (کہ وہ بعد میں جب چاہیں عطا کر دیں) اور غریبوں مفلسوں کو معافی بھی کر دیتا تھا۔ تو اللہ تعالی نے اس شخص کے لئے جنت میں داخلہ کا حکم فرما دیا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) حضرت حذیفہ کی یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں اسی طرح روایت کی گئی۔ اور صحیح مسلم میں حضرت عقبہ بن عامر اور حضرت ابو مسعود انصاریؓ سے بھی یہ حدیث روایت کی گئی ہے اور اس کے آخر میں بجائے“فَأَدْخَلَهُ اللَّهُ الجَنَّةَ” کے یہ الفاظ ہیں “انا احق بذا منك تجاوزوا عن عبدى” (اللہ تعالی نے اس شخص سے فرمایا کہ احسان اور درگزر کا جو معاملہ تو میرے بندوں سے کرتا تھا(کہ غریبوں مفلسوں کو معاف بھی کر دیتا تھا)یہ(کریمانہ رویہ)میرے لیے زیادہ سزاوار ہے اور اس کا تجھ سے زیادہ حقدار ہو (کہ معافی اور درگذر کا معاملہ کروں) اور اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ میرے اس بندے سے درگزر کرو (یہ معاف کردیا گیا اور بخش دیا گیا)۔ تشریح اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے زمانہ کے کسی شخص کا جو واقعہ بیان فرمایا ہے ظاہر ہے کہ وہ آپ ﷺ کو وحی سے ہی معلوم ہوا ہو گا ، یہ شخص دنیا سے ایسے حال میں گیا کہ خود اس کی نظر میں اس کا کوئی عمل ایسا نہیں تھا جس کی بنیاد پر وہ نجات اور جنت کی امید کرسکتا سوا اس کے کہ وہ کاروباری معاملات اور لین دین میں اللہ کے بندوں کے ساتھ رعایت کیا کرتا اور ان کو سہولت دیا کرتا تھا۔ اگر کسی اور غریب شخص کے ساتھ کوئی چیز ادھار بیچی ہوتی یا قرض دیا ہوتا اور وہ ادا نہ کر سکتا تو اس کو معاف کر دیا کرتا تھا اور پیسے والوں سے بھی فورا ادائیگی پر اصرار نہیں کرتا تھا بلکہ ان کو مہلت دے دیتا تھا کے آئندہ ادا کردیں۔ اللہ تعالی نے اس کے اسی عمل کی بنیاد پر مغفرت فرما دی۔ اور اس کو جنت کا پروانہ عطا ہو گیا۔ تعلیم اور نصیحت کا یہ مؤثر ترین طریقہ ہے کہ اگلوں کے سبق آموز واقعات بیان کئے جائیں۔ قرآن کریم میں انبیاء علیہم السلام اور ان کی قوموں یا بعض اشخاص و افراد کے جو واقعات اور قصص بیان فرمائے گئے ہیں ان کا خاص مقصد و مدعا یہی ہے۔ حدیث میں اور اس سے آگے والی حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت اور تربیت کا یہی طریقہ اختیار فرمایا ہے۔
مالی معاملات میں دوسروں کے ساتھ نرمی اور رعایت
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک آدمی تھا جو لوگوں کو قرض ادھار دے دیا کرتا تھا (تو جب اپنے غلام کو تقاضے کے لئے اور قرض وصول کرنے کے لئے بھیجتا) تو غلام سے کہتا اور اس کو ہدایت کردیتا کہ جب تم قرضہ وصول کرنے کے لئے کسی غریب اور مفلس کے پاس جاؤ تو اس سے درگذر کیجئو شاید (اس کی وجہ سے) اللہ تعالی ہم سے درگزر فرمائے اور معاف فرماوے۔ یہ بیان فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ پھر جب مرنے کے بعد وہ بندہ اللہ تعالی کے حضور حاضر ہوا تو اللہ تعالی نے اس کو معاف فرما دیا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں جس شخص کا واقعہ بیان کیا گیا ہے ظاہر یہی ہے کہ وہ بھی اگلی امتوں میں سے کسی امت کا فرد تھا۔ واللہ اعلم۔
مالی معاملات میں دوسروں کے ساتھ نرمی اور رعایت
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جس بندہ نے کسی غریب تنگ دست کو مہلت دی یا (اپنا مطالبہ کل یا اس کا جز) معاف کر دیا تو اللہ تعالی قیامت کے دن کی تکلیفوں اور پریشانیوں سے اس بندہ کو نجات عطا فرمائے گا۔ (صحیح مسلم)
مالی معاملات میں دوسروں کے ساتھ نرمی اور رعایت
حضرت ابو الیسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ ارشاد فرماتے تھے کہ جو بندہ کسی غریب تنگدست کو (جس پر اس کا قرضہ وغیرہ ہو) مہلت دے دے یا (مطالبہ کل یاجز) معاف کردے تو اللہ تعالی (قیامت کے دن) اس کو اپنے سایہ رحمت میں لے لے گا ۔ (صحیح مسلم)
مالی معاملات میں دوسروں کے ساتھ نرمی اور رعایت
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس آدمی کا کسی دوسرے بھائی پر کوئی حق (قرضہ وغیرہ) واجب الادا ہو اور وہ اس مقروض کو ادا کرنے کے لیے دیر تک مہلت دے دی تو اس کو ہر دن کے عوض صدقہ کا ثواب ملے گا۔ (مسند احمد) تشریح ان سب حدیثوں کا مضمون اور پیغام بالکل واضح ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
قرض کی فضیلت اوراس سے متعلق ہدایات
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ ایک آدمی جنت میں داخل ہوا تو اس نے جنت کے دروازہ پر لکھا دیکھا کہ صدقہ کا اجر و ثواب دس گنا ہے اور قرض دینے کا اٹھارہ گنا۔ (معجم کبیر طبرانی) تشریح ظاہر ہے کہ حاجت مند اور ضرورت مند کو قرض دینا اس کی مدد ہے اور بعض حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا اجر و ثواب صدقہ سے بھی زیادہ ہے۔ اسی کے ساتھ قرض کے بارے میں سخت وعیدیں بھی ہیں۔ تشریح .....حدیث میں اس کا کوئی اشارہ نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کس آدمی کے بارے میں فرمایا کہ وہ جنت میں داخل ہوا تو اس نے اس کے دروازے پر مندرجہ بالا جملہ لکھا دیکھا ہوسکتا ہے کہ آپ نے یہ کسی مرد صالح کے خواب کا واقعہ بیان فرمایا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ خود آپ صلی اللہ وسلم کا مشاہدہ یا مکاشفہ ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انداز میں اس کو بیان فرمایا ہو اس دوسرے احتمال کی کسی قدر تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اس حدیث کو ابن ماجہ نے بھی روایت کیا ہے اور اس کے آخر میں یہ اضافہ ہے کہ: مَا بَالُ الْقَرْضِ أَفْضَلُ مِنَ الصَّدَقَةِ؟ قَالَ: لِأَنَّ السَّائِلَ يَسْأَلُ وَعِنْدَهُ، وَالْمُسْتَقْرِضُ لَا يَسْتَقْرِضُ إِلَّا مِنْ حَاجَةٍ (جمع الفوائد) میں نے جبرئیل سے پوچھا کہ قرض میں کیا خاص بات ہے کہ وہ صدقہ سے افضل ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ سائل (جس کو صدقہ دیا جاتا ہے) اس حالت میں بھی سوال کرتا اور صدقہ لے لیتا ہے جبکہ اس کے پاس کچھ ہوتا ہے اور قرض مانگنے والا قرض جب ہی مانگتا ہے جب وہ محتاج اور ضرورت مند ہوتا ہے ۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اللہ کا ایک غریب مگر شریف وعفیف بندہ انتہائی حاجت مند اور گویا اضطرار کی حالت میں ہوتا ہے لیکن نہ وہ کسی سے سوال کرنا چاہتا ہے اور نہ صدقہ خیرات لینے کے لئے اس کا دل آمادہ ہوتا ہے ہاں وہ اپنی ضرورت پوری کرنے اور بچوں کا فاقہ توڑنے کے لیے قرض چاہتا ہے ظاہر ہے کہ اس کو قرض دینا صدقہ سے افضل ہوگا۔ نیز خود راقم السطور کا تجربہ ہے کہ بہت سے لوگ کسی ضرورت مند کی زکات خیرات سے مدد کرنے کے لئے تو تیار ہو جاتے ہیں لیکن اس کو قرض دینے پر ان کا دل آمادہ نہیں ہوتا اس لئے اس حدیث میں خاصہ سبق ہے۔ حدیث کے اس آخری حصہ سے (جو ابن ماجہ کے حوال سے درج کیا گیا ہے) یہ بھی اشارہ ملا کے صدقہ کے مقابلہ میں وہی قرض افضل ہے جو کسی حاجت مند کو اس کی حاجت رفع کرنے کے لئے دیا جائے۔
قرض کا معاملہ بڑا سنگین اور اس کے بارے میں سخت وعیدیں
حضرت ابو موسی اشعری راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ان کبیرہ گناہوں کے بعد جن سے اللہ تعالی نے سختی سے منع فرمایا ہے (جیسے شرک اور زنا وغیرہ) سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ آدمی اس حال میں مرے کہ اس پر قرض ہو اور اس کی ادائیگی کا سامان چھوڑ نہ گیا ہو۔ (مسنداحمد سنن ابی داود) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف تو اصحاب وسعت کو ترغیب دی کہ وہ ضرورت مند بھائیوں کو قرض دیں اور اس کی ادائیگی کے لیے مقروض کو مہلت دی کہ جب سہولت ہو ادا کرے اور نادار مفلس ہو تو قرضہ کا کل یاجز معاف کر دیں اور اس کا بڑا اجر و ثواب بیان فرمایا اور دوسری طرف قرض لینے والوں کو آگاہی دی کہ وہ جلد سے جلد قرض کے ادا کرنے اور اس کے بوجھ سے سبکدوش ہونے کی فکر اور کوشش کریں اگر خدانخواستہ قرض ادا کیے بغیر اس دنیا سے چلے گئے تو آخرت میں اس کا انجام ان کے حق میں بہت برا ہوگا کبھی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سنگین ترین اور ناقابل معافی گناہ بتلایا اور کبھی ایسا بھی ہوا کہ کسی میت کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ اس پر کسی کا قرضہ ہے جس کو اس نے ادا نہیں کیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھنے سے انکار فرما دیا۔ ظاہر ہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے آخری درجہ کی تنبیہ تھی۔
قرض کا معاملہ بڑا سنگین اور اس کے بارے میں سخت وعیدیں
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن بندہ کی روح اس کے قرضہ کی وجہ سے بیچ میں معلق اور رکی رہتی ہے جب تک وہ قرضہ ادا نہ کر دیا جائے جو اس پر ہے۔ (مسند شافعی ، جامع ترمذی ، سنن ابی داود ، مسند دارمی) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی بندہ ایسی حالت میں دنیا سے گیا جسکو ایمان بھی نصیب ہے اور اعمال صالحہ بھی اس کے اعمال میں ہیں جو نجات اور جنت کا وسیلہ بنتے ہیں لیکن اس پر کسی کا قرضہ ہے جس کو وہ ادا کرکے نہیں گیا اور اس معاملہ میں اس نے غفلت اور کوتاہی کی تو جب تک اس کی طرف سے قرضہ ادا نہ ہو جائے وہ راحت و رحمت کی اس منزل اور مقام تک نہیں پہنچ سکے گا جو مومنین صالحین کے لیے موعود ہے۔
قرض کا معاملہ بڑا سنگین اور اس کے بارے میں سخت وعیدیں
حضرت عبداللہ ابن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا کہ شہید ہونے والے مرد مومن کے سارے گناہ (راہ خدا میں جان کی قربانی دینے کی وجہ سے) بخش دئیے جاتے ہیں بجز قرض کے۔ (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ اخلاص کے ساتھ راہ خدا میں شہید ہونا ایسا مقبول عمل ہے کہ وہ آدمی کے سارے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے اور اس کی برکت سے سارے گناہ معاف کردئیے جاتے اور بخش دیئے جاتے ہیں لیکن اس پر کسی بندہ کا قرضہ تھا تو اس کے حساب میں وہ گرفتار بلا رہے گا کیونکہ وہ حق العبد ہے اس سے نجات اور رہائی کی صورت یہی ہے کہ وہ قرضہ ادا کیا جائے۔ (یا جس کا قرضہ ہے وہ لوجہ اللہ معاف کر دے) آگے درج ہونے والی دو حدیثوں سے یہ بات اور زیادہ صراحت سے معلوم ہوگی کہ اس معاملہ میں اللہ کا قانون کس قدر بے لاگ اور سخت ہے۔
قرض کا معاملہ بڑا سنگین اور اس کے بارے میں سخت وعیدیں
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! مجھے بتلائے کہ اگر میں اللہ کے راستہ میں صبر اور ثابت قدمی کے ساتھ اور اللہ کی رضا اور ثواب آخرت کی طلب ہی میں جہاد کروں اور مجھے اس حالت میں شہید کردیا جائے کہ میں پیچھے نہ ہٹ رہا ہوں بلکہ پیش قدمی کر رہا ہوں تو کیا میری اس شہادت اور قربانی کی وجہ سے اللہ تعالی میرے سارے گناہ معاف کر دے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب فرمایا ہاں (اللہ تمھارے سارے گناہ معاف فرما دے گا) پھر جب وہ آدمی آپ سے یہ جواب پاکر) لوٹنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پھر پکارا اور فرمایا ہاں (تمہارے سب گناہ معاف ہو جائیں گے) سوائے قرضہ کہ یہ بات اللہ کے فرشتہ جبرئیل امین نے اسی طرح بتلائی ہے۔ (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ یہ بات کے شہید ہونے سے بندے کے سارے گناہ تو معاف ہوجاتے ہیں لیکن اگر کسی کے قرضہ کا بار لے کر گیا ہے تو اسکی وجہ سے گرفتار رہے گا۔ میں خدا کی وحی کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں جو جبرئیل امین نے مجھے پہنچائی ہے۔
قرض کا معاملہ بڑا سنگین اور اس کے بارے میں سخت وعیدیں
حضرت محمد بن عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ ایک دن مسجد کے باہر کے میدان میں جہاں جنازے لاکر رکھے جاتے ہیں بیٹھے ہوئے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان تشریف فرما تھے اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نگاہ مبارک آسمان کی طرف اٹھائی اور کچھ دیکھا۔ پھر نگاہ نیچی فرمالی اور (ایک خاص فکر مندانہ انداز میں) اپنا ہاتھ پیشانی مبارک پر رکھ کر بیٹھ گئے اور اسی حالت میں فرمایا ۔ “سبحان الله سبحان الله” (اللہ پاک ہے اس کا ہر حکم اور فیصلہ برحق) کس قدر سخت وعید اور سنگین فرمان نازل ہوا ہے حدیث کے راوی محمد ابن عبداللہ کہتے ہیں کہ اس دن اور اس رات ہم سب خاموش رہے (اور منتظر رہے کہ کیا ظہور میں آتا ہے مگر) خیریت ہی رہی تو اگلے دن صبح کو میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ حضرت وہ کیا سخت اور بھاری چیز تھی جو کل نازل ہوئی تھی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ نہایت سخت وعید اور بھاری فرمان قرضہ کے بارے میں نازل ہوا ہے (اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خداوندی فرمان اوروعید کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا) قسم اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے اگر کوئی آدمی راہ خدا میں یعنی جہاد میں شہید ہو اور وہ شہادت کے بعد پھر زندہ ہو جائے اور پھر جہاد میں شہید ہو اور اس کے بعد پھر زندہ ہو جائے اور پھر راہ خدا میں شہید ہو اور پھر زندہ ہو اور اس کے ذمہ قرض ہو تو جنت میں اس وقت تک نہ جا سکے گا جب تک اس کا قرض ادا نہ ہو جائے۔ تشریح بظاہر ان سب حدیثوں اور وعیدوں کا تعلق اس صورت سے ہے جبکہ قرضہ کے ادا نہ کرنے میں بدنیتی اور غفلت و لاپروائی کا دخل ہو اگر ادا کرنے کی نیت تھی اور فکرمند بھی تھا لیکن بیچارہ ادا کرنے پر قادر نہ ہوسکا اور اسی حال میں دنیا سے چلا گیا تو اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ عند اللہ معذور ہوگا جیسا کہ عنقریب ہی درج ہونے والی ایک حدیث سے معلوم ہوگا۔ واللہ اعلم۔ اس حدیث سے ضمنی طور پر یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کے دور میں جنازوں کی نماز مسجد سے باہر میدان میں ہوتی تھی حنفیہ کے نزدیک یہی بہتر ہے۔
قرض کا معاملہ بڑا سنگین اور اس کے بارے میں سخت وعیدیں
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ایک میت کا جنازہ لایا گیا اور عرض کیا گیا کہ حضرت اس کی نماز جنازہ پڑھا دیجئے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ہے کہ کیا اس آدمی پر کچھ قرض ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ کچھ قرض نہیں ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جنازے کی نماز پڑھادی۔ پھر ایک دوسرا جنازہ لایا گیا اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اس میت پر کسی کا قرضہ ہے؟ عرض کیا گیا کہ ہاں اس پر قرض ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا اس نے کچھ ترکہ چھوڑا ہے؟ (جس سے قرض ادا ہو جائے) لوگوں نے عرض کیا کہ اس نے تین دینار چھوڑے ہیں کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھا دی پھر تیسرا جنازہ لایا گیا تو آپ صلی اللہ وسلم نے اس کے بارے میں بھی دریافت فرمایا کہ کیا اس مرنے والے پر کچھ قرضہ ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ہاں اس پر تین دینار کا قرضہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ اس نے کچھ ترکہ چھوڑا ہے (جس سے قرض ادا ہو سکے) لوگوں نے عرض کیا کہ کچھ نہیں چھوڑا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاضرین صحابہ سے فرمایا کہ اپنے اس ساتھی کی نمازجنازہ تم لوگ پڑھ لو۔ تو ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ حضور! اس کی نماز پڑھادیں اور اس پر جو قرضہ ہے وہ میں نے اپنے ذمہ لے لیا (میں ادا کروں گا) تو اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جنازہ کی بھی نماز پڑھادی۔ (صحیح بخاری) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طرز عمل بظاہر زندوں کو تنبیہ کے لیے تھا کہ وہ قرضوں کے ادا کرنے میں غفلت اور کوتاہی نہ کریں اور ہر شخص کی یہ کوشش ہو کہ اگر اس پر کسی کا قرضہ ہے تو وہ اس سے سبکدوش ہونے کی فکر اور کوشش کریں اور دنیا سے اس حال میں جائے کہ اس کے ذمہ کسی کا کچھ مطالبہ نہ ہو۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث اسی بارے میں مروی ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طرزعمل (کے قرضدار میت کی نماز جنازہ سے خود معذرت فرما دیتے اور صحابہ کرامؓ سے فرما دیتے کہ تم لوگ پڑھ لو) ابتدائی دور میں تھا بعد میں جب اللہ تعالی کی طرف سے فتوحات کا دروازہ کھل گیا اور افلاس و ناداری کا دور ختم ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرما دیا کہ اگر کوئی مسلمان اس حال میں انتقال کر جائے کہ اس پر قرض ہو (اور ادائیگی کا سامان نہ چھوڑا ہو) تو وہ قرض میرے ذمہ ہے میں اس کو ادا کروں گا۔ اس کا مقصد بھی یہی تھا کہ کسی مسلمان کے ذمہ کسی دوسرے کا حق باقی نہ رہ جائے۔ بہرحال ان سب حدیثوں سے معلوم ہوا کہ قرض ادا نہ کرنا اور اس حال میں دنیا سے چلا جانا بڑا سنگین گناہ ہے اور اس کا انجام بہت ہی خطرناک ہے۔ اللہ تعالی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات سے سبق لینے کی ہم سب کو توفیق دے اور دنیا سے اس حال میں اٹھائے گئے کہ کسی بندہ کا قرض اور کوئی حق ہمارے ذمہ نہ ہو۔
قرض اداکرنے کی نیت ہو تو اللہ تعالیٰ ادا کرا ہی دے گا
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو آدمی لوگوں سے(قرض ادھار) مال لے اور اسکی نیت اور ارادہ ادا کرنے کا ہو تو اللہ تعالی اس سے ادا کردے گا (یعنی ادائیگی میں اس کی مدد فرمائے گا اور اگر زندگی میں وہ ادا نہ کر سکا تو آخرت میں اس کی طرف سے ادا فرما کر اس کو سبکدوش فرما دے گا) اور جو کوئی کسی سے (قرض ادھار) لے اور اس کا ارادہ ہی مار لینے کا ہو تو اللہ تعالی اس کو تلف اور تباہ ہی کرا دے گا (یعنی دنیا میں بھی وہ اس بدنیت آدمی کو لینا نہ ہو گا اور آخرت میں اس کے لیے وبال عظیم ہوگا)۔ (صحیح بخاری)
قرض اداکرنے کی نیت ہو تو اللہ تعالیٰ ادا کرا ہی دے گا
حضرت عمران بن حصینؓ ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنا آپ صلی اللہ فرماتے تھے کہ جو کوئی بندہ قرض لے اور اللہ کے علم میں ہو کہ اس کی نیت اور ارادہ ادا کرنے کا ہے تو اللہ تعالی اس کا وہ قرضہ دنیا ہی میں ادا کردے گا۔ (سنن نسائی) تشریح حضرت عمران بن حصین کی اس روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا بہت قرض لیا کرتی تھیں (غالبا مصارف خیر میں صرف کرنے کے لیے لیتی ہوں گی) تو ان کے خاص اعزہ اور متعلقین نے اس بارے میں ان سے بات کی (اور اس معاملہ میں احتیاط کا مشورہ دیا) تو آپؓ نے صاف فرما دیا کہ میں اس کو نہیں چھوڑوں گی اور ان کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی ارشاد سنایا مطلب یہ تھا کہ حضور صلی اللہ وسلم کے اس ارشاد کی بنا پر مجھے کامل یقین ہے کہ میں جو کچھ قرض لیتی رہوں گی اس کی پائی پائی اللہ تعالی دنیا ہی میں ادا کرا دے گا مجھے اس کی ضمانت اور کفالت پر پورا اعتماد اور بھروسا ہے۔ بے شک ایسے اصحاب یقین کے لیے یہ طرز عمل درست ہے۔
قرض اداکرنے کی نیت ہو تو اللہ تعالیٰ ادا کرا ہی دے گا
حضرت عبداللہ ابن جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی مقروض کے ساتھ ہیں جب تک کہ اس کا قرضہ ادا ہو بشرط یہ کہ یہ قرضہ کسی برے کام کے لیے نہ لیا گیا ہو۔ (سنن ابن ماجہ) تشریح مطلب یہ ہے کہ جو بندہ اپنی صحیح ضرورت و حاجت یا کسی نیک کام کے لیے قرض لے اور وہ اس کی ادائیگی کی نیت اور فکر رکھتا ہو تو قرضہ ادا ہونے تک اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت اور مدد اس کے ساتھ رہے گی ۔ سنن ابنِ ماجہ کی اس روایت میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ حدیث کے راوی عبداللہ بن جعفرؓ اس حدیث کی بناء پر ہمیشہ مقروض رہتے تھے ، فرماتے تھے کہ میں چاہتا ہوں کہ میرا کوئی دن اور کوئی رات ایسی نہ گزرے جس میں اللہ تعالیٰ کی “معیت” یعنی خاص عنایت مجھے نصیب نہ ہو ۔ ان کے حالات میں ذکر کیا گیا ہے کہ یہ بہت سخی تھے اس لئے بھی ہمیشہ مقروض رہتے تھے ۔
قرض لینے اور ادا کرنے کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا طرزِ عمل
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرا رسول اللہ ﷺ پر کچھ قرض تھا تو آپ ﷺ نے جب وہ ادا فرمایا تو (میری واجبی رقم سے) زیادہ عطا فرمایا ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح رسول اللہ ﷺ کو بھی قرض لینے کی ضرورت پڑتی تھی اور آپ ﷺ قرض لیتے تھے اسی سلسلہ معارف الحدیث میں یہ بھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ آپ ﷺ غیر مسلموں یہودیوں سے بھی قرض لیتے تھے اور اس میں جو عظیم دینی مصلحتیں اور حکمتیں تھیں وہ بھی وہاں بیان کی جا چکی ہیں ۔ یہاں اس سلسلہ میں صرف تین حدیثیں درج کی جاتی ہیں ۔ تشریح ..... قرض دار کا ادائیگی کے وقت اپنی طرف سے کچھ زیادہ ادا کرنا جائز بلکہ مستحب اور سنت ہے ۔ چونکہ یہ کسی شرط اور معاہدہ کی بناء پر نہیں ہوتا اس لئے یہ “ربوا” (سود) نہیں بلکہ تبرع اور احسان ہے ۔ یہ ان سنتوں میں سے ہے جس کو بتلانے اور رواج دینے کی ضرورت ہے ۔
قرض لینے اور ادا کرنے کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا طرزِ عمل
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے قرضہ کا تقاضا کیا اور سخت کلامی کی تو آپ ﷺ کے اصحابِ کرامؓ نے (جو اس وقت موجود تھے اس کے ساتھ سختی سے پیش آنے کا) ارادہ کیا تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا “اس کو چھوڑ دو کچھ نہ کہو کیاں کہ صاحبِ حق کو کہنے کا حق ہے اور اس کا قرض ادا کرنے کے واسطے ایک اونٹ خرید لاؤ اور اس کو دے دو” ۔ انہوں نے واپس آ کر کہا (اس شخص کا اونٹ جس حیثیت کا تھا اس طرح کا اونٹ نہیں مل رہا ہے) صرف ایسا اونٹ ملتا ہے جو اس کے اونٹ سے زیادہ عمر کا اور زیادہ بڑھیا ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا وہی خرید لاؤ اور اس کو وہی دے دو ، کیوں کہ وہ آدمی زیادہ اچھا ہے جو بہتر اور برتر ادا کرے ۔ (صحیح مسلم) تشریح رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بلکہ اس سے پہلے سے عرب میں یہ عام رواج تھا کہ ایک آدمی اپنی ضرورت کے لئے دوسرے آدمی سے اونٹ قرض لے لیتا اور یہ معاملہ روپیہ پیسے کے حساب سے نہ ہوتا بلکہ یہ طے ہو جاتا کہ اس عمر اور اس حیثیت کا دوسرا اونٹ اس کے بدلے مقررہ مدت تک دے دیا جائے گا ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اس رواج کے مطابق کسی وقت کسی شخص سے اونٹ قرض لیا تھا ۔ غالباً مقررہ وقت آ جانے پر وہ تقاضا کرنے آیا اور اس نے ادن و تمیز کے خلاف سخت رویہ اختیار کیا ، صحابہ کرامؓ میں سے جو حضرات اس وقت حاضر و موجود تھے انہوں نے اس کے ساتھ سختی سے پیش آنے کا ارادہ کیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : اس کو کچھ نہ کہو ، اس کا ہم پر حق ہے اور صاحبِ حق کو سخت سست کہنے کا حق ہے ۔ ہاں تم یہ کرو کہ جس عمر کا اور جس حیثیت کا اس شخص کا اونٹ تھا ویسا ہی خرید کر لاد دو اور اس کو ادا کر دو ۔ صحابہ کرامؓ نے ویسا اونٹ تلاش کیا ، لیکن کہیں نہیں ملا ، ہاں عمر اور حیثیت کے لحاظ سے اس سے بڑا اور بڑھیا اونٹ ملتا تھا ، انہوں نے واپس آ کر حضور سے یہی عرض کر دیا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ : جو بڑا اور بڑھیا مل رہا ہے وہی خرید لاؤ اور اس کو وہی دے دو ۔ ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ جو آدمی زیادہ بہتر اور برتر ادا کرتا ہے وہی زیادہ اچھا ہے ۔ اس حدیث میں امت کے لئے جو سبق ہے وہ کسی وضاحت اور تشریح کا محتاج نہیں ۔ کسی ذریعہ سے یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ یہ شخص جس کا اس حدیث میں ذکر ہے اور جس نے تقاضا کرنے میں ادب و تمیز کے خلاف رویہ اختیار کیا تھا ، کون تھا ، غالب گمان یہی ہے کہ کوئی غیر مسلم یہودی وغیرہ ہو گا ۔ اس سلسلہ معارف الحدیث میں اس حدیث کی تشریح میں جس میں ذکر کیا گیا ہے کہ جب حضور ﷺ کی وفات ہوئی اتو آپ ﷺ کی زرہ مبارک ۳۰ صاع جو کے عوض ایک یہودی کے یہاں رہن رکھی ہوئی تھی) تفصیل سے بیان کیا جا چکا ہے کہ حضور ﷺ یہودیوں وغیرہ غیر مسلموں سے بھی قرض لے لیتے تھے اور وہیں اس کی حکمتیں و مصلحتیں بھی بیان کی گئی ہیں ۔
قرض لینے اور ادا کرنے کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا طرزِ عمل
حضرت عبداللہ بن ابی ربیعہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے چالیس ہزار قرض لیا پھر آپ کے پاس سرمایہ آ گیا تو آپ نے مجھے عطا فرما دیا اور ساتھ ہی مجھے دعا دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاے اہل و عیال اور مال میں برکت دے ۔ قرض کا بدلہ یہ ہے کہ ادا کیا جائے اور (قرض دینے والے کی) تعریف اور شکریہ ادا کیا جائے ۔ (سنن نسائی) تشریح ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ قرض بھی لیتے تھے اور ادائیگی کے وقت “هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ” کے اصول پر حق واجب سے زیادہ اور بہتر ادا فرماتے تھے اور دعائے خیر سے بھی نوازتے تھے ۔ آخری حدیث میں چالیس ہزار قرض لینے کا ذکر ہے ۔ بطاہر اس سے مراد چالیس ہزار درہم ہیں ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض اوقات آپ بڑی بڑی رقمیں بھی قرض لیتے تھے لیکن ظاہر ہے کہ ایسے قرضے آپ ﷺ جہاد وغیرہ دینی مہمات ہی کے لئے لیتے ہوں گے ، ورنہ آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے اہل و عیال کی معیشت کا ھال تو یہ تھا کہ بقول حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کبھی دو دن متواتر پیٹ بھر کے جو کی روٹی بھی نہیں کھائی اور بسا اوقات فاقوں کی نوبت آتی تھی اور مہینوں گھر میں چولہا گرم نہیں ہوتا تھا صرف پانی اور کھجور پر گزارہ ہوتا تھا ۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
رِبا (سود)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : ساتھ مہلک اور تباہ کن گناہوں سے بچو ، صحابہ نے عرض یا یا رسول اللہ! وہ کون سے سات گناہ ہیں ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ کے ساتھ (اس کی عبادت یا صفات یا افعال میں کسی کو) شریک کرنا ، اور جادو کرنا ، اور ناحق کسی آدمی کو قتل کرنا اور سود کھانا ، اور یتیم کا مال کھانا اور (اپنی جان بچانے کے لئے) جہاد میں لشکر اسلام کا ساتھ چھوڑ کر بھاگ جانا اور اللہ کی پاک دامن بھولی بھالی بندیوں پر زنا کی تہمت لگانا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح دنیا کے دوسرے ملکوں اور قوموں کی طرح عربوں میں بھی سودی لین دین کا رواج تھا ، اور ہمارے یہاں کے دود خور مہاجنوں کی طرح وہاں بھی کچھ سرمایہ دار یہ کاروبار کرتے تھے جس کی عام مروج و معروف صورت یہی تھی کہ ضرورت مند لوگ ان سے قرض لیتے اور طے ہو جاتا کہ یہ رقم وہ فلاں وقت تک اتنے اضافے کے ساتھ ادا کر دیں گے ۔ پھر مقررہ وقت پر قرض لینے والا ادا نہ کر سکتا تو مزید مہلت لے لیتا اور اس مہلت کے حساب میں سود کی رقم میں اضافہ طے ہو جاتا ۔ اس طرح غریب قرض داروں کا بوجھ بڑھتا رہتا اور سود خور مہاجن ان کا خون چوستے رہتے ۔ ظاہر ہے کہ یہ چیز اسلام کی روح اور اس کے مزاج کے بالکل خلاف تھی ۔ اسلام کی تعلیم اور ہدایت تو اس کے بالکل برعکس یہ ہے کہ غریبوں کی مدد کی جائے ، کمزوروں کو سہارا دیا جائے اور ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کی جائے اور یہ سب اپنی کسی دنیوی مصلحت و منفعت کے لئے نہیں بلکہ صرف اللہ کی رضا اور آخرت کے ثواب کے لئے کیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب پاک قرآن مجید میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے ارشادات میں جس طرح ام الخبائث شراب سے لوگوں کو بچانے کے لئے تدریجی رویہ اختیار فرمایا اسی طرح سود کے ظالمانہ اور لعنتی کاروبار کے رواج کو ختم کرنے کے لئے بھی اسی حکمت عملی کو استعمال کیا گیا ۔ شروع میں طویل مدت تک صرف مثبت انداز میں اس بات پر زور دیا گیا کہ اپنی دولت فی سبیل اللہ خرچ کرو ، غریبوں کی مدد کرو ، کمزوروں کو سہارا دو ، ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کرو ۔ رحم ، سخاوت اور ایثار جیسے اخلاق کو اپناؤ ، بتلایا گیا کہ تم بھی فانی ہو ، تمہاری دولت بھی فنا ہو جانے والی ہے ۔ اس لئے اس دولت کے ذریعہ آخر کی ابدیفلاح اور جنت کماؤ ، قارون جیسے پرستارانِ دولت کے انجام سے سبق حاصل کرو ۔ اس تعلیم و ہدایت اور اس کے مطابق عمل نے معاشرہ کا مزاج ایسا بنا دیا ، اور فضا اس کے لئے ایسی سازگار ہو گئی کہ اس ظالمانہ اور انسانیت کش کاروبار (ربوا ۔ سود) کی قطعی حرمت کا قانون نافذ کر دیا جائے ۔ چنانچہ اواخر سورہ بقرہ کی ۲۷۵ سے ۲۸۰ تک کی وہ آیتیں نازل ہوئیں جن میں واضح طور پر ربوا (سود) کی حرمت کا اعلان کیا گیا ہے ۔ یعنی “الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا” سے لے کر “وَأَن تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ” تک ۔ ان آیتوں میں یہ بھی صراحت کر دی گئی اگر پچھلے لین دین کے سلسلے میں کسی کی کوئی سودی رقم کسی مقروض کے ذمے باقی ہے تو وہ بھی اب نہیں لی دی جائے گی ۔ انہی آیتوں میں یہ بھی اعلان فرما دیا گیا کہ سودہ کاروبار کی حرمت کے اس اعلان کے بعد بھی جو لگ باز نہ آئیں اور خداوندی قانون کی نافرمانی کریں ان کے خلاف اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ ہے (فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ) اللہ کی پناہ ! یہ وعید (یعنی اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ کی وعید) سودی کاروبار کے سوا زنا شراب ، خونِ ناحق وغیرہ کسی بھی بڑے سے بڑے گناہ کے بارے میں قرآن مجید میں وارد نہیں ہوئی ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی نگاہ میں یہ گناہ دوسرے سب گناہوں سے زیادہ شدید و غلیظ ہے ۔ آگے درج ہونے والی حدیثوں سے معلوم ہو گا کہ رسول اللہ ﷺ نے سود خوری کو انتہائی درجہ کے کبیرہ گناہوں میں شمار فرمایا ہے ۔ اور سود لینے والوں کے ساتھ اس کے دینے والوں یہاں تک کہ سودی دستاویز لکھنے والوں اور سودی معاملے کے گواہ بننے والوں کو بھی مستحق لعنت قرار دیا ہے ۔ اور بعض روایات میں سود کا گناہ زنا سے ستر گنا زیادہ بتلایا گیا ہے ۔ اس تمہید کے بعد اس باب کی مندرجہ ذیل حدیثیں پڑھئے : تشریح ..... اس حدیث میں جن گناہوں سے بچنے کی تاکید فرمائی گئی ہے یہ شدید ترین اور خبیث ترین کبیرہ گناہ ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے ان کو “موبقات” فرمایا ہے (یعنی آدمی کو اور اس کی ایمانی روح کو ہلاک و برباد کر دینے والے) ان میں آپ ﷺ نے شرک اور سحر اور قتلِ ناحق کے بعد اکل ربا (سود لینے اور کھانے) کا ذکر فرمایا اور اس کو روحِ ایمانی کے لئے قاتل اور مہلک بتلایا ہے ۔ جس طرح اطبا اور ڈاکٹر اپنے تحقیقی علم و فن اور تجربہ کی بناء پر اس دنیا میں زمین سے پیدا ہونے والی چیزوں ، دواؤں ، غذاؤں وغیرہ کے خواص بیان کرتے ہیں کہ فلاں چیز میں یہ خاصیت اور تاثیر ہے اور یہ آدمی کے فلاں مرض کے لئے مفید یا مضر ہے ، اسی طرح انبیاء علیہم السلام اللہ تعالیٰ کے بخشے ہوئے ہوئے علم کی بنیاد پر انسانوں کے عقائد و افکار اور اعمال و اخلاق کے خواص اور نتائج بتلاتے ہیں کہ فلاں ایمانی عقیدہ اور فلاں نیک عمل اور فلاں اچھی خصلت کا نتیجہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت میں جنت کی نعمتیں اور دنیا میں قلب و روح کا سکون ہے اور فلاں کافرانہ و مشرکانہ عقیدے اور فلاں ظلم و معصیت کا انجام اللہ کی لعنت اور دوزخ کا عذاب اور دنیا میں طرح طرح کی بےچینیاں اور پریشانیاں ہیں ۔ فرق اتنا ہے کہ اطباء اور ڈاکٹروں کی تحقیق اور غور و فکر میں غلطی کا امکان ہے اور کبھی کبھی غلطی کا تجربہ بھی ہو جاتا ہے ۔ لیکن انبیاء علیہم السلام کی بنیاد خالق کائنات اور علیم کل اللہ تعالیٰ کی وحی پر ہوتی ہے اس میں کسی بھول چوک یا غلطی کا احتمال اور کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں ۔ مگر عجب معاملہ ہے کہ حکیموں ڈاکٹروں کی تجویز کی ہوئی دواؤں کو سب بلا چون و چرا کے اعتماد پر استعمال کرتے ہیں ، پرہیز کے بارے میں وہ جو ہدایت دیں اس کی بھی پابندی ضروری سمجھی جاتی ہے ۔ اور اسی کو عقل کا تقاضا سمجھا جاتا ہے اور کسی مریض کا یہ حق تسلیم نہیں کیا جاتا کہ وہ کہے کہ میں دواجب استعمال کروں گا جب اس کی تاثیر کا فلسفہ مجھے سمجھا دیا جائے ۔ لیکن اللہ کی کتاب قرآن مجید اور اس کے رسولِ برحق خاتم الانبیاء ﷺ مثلاً سود کے بارے میں فرمائیں کہ وہ شدید و خبیث کبیرہ گناہ اور “موبقات” میں سے ہے ۔ خدا کی لعنت و غضب کا موجب اور روح ایمان کے لئے قاتل ہے اور سود خوروں کے لئے آخرت میں لرزہ خیز عذاب ہے تو بہت سے مدعیانِ عقل و ایمان کے لئے یہ کافی نہ ہوا اور وہ اس کا “فلسفہ” معلوم کرنا ضروری سمجھیں ۔ اللہ دلوں کو ایمان و یقین نصیب فرمائے ۔
رِبا (سود)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جس رات مجھے معراج ہوئی میرا گزر ایک ایسے گروہ پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی طرح ہیں اور ان میںٰ سانپ بھرے ہوئے ہیں جو باہر سے نظر آتے ہیں ، میں نے جبرئیل سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ (جو ایسے عذاب میں مبتلا ہیں) انہوں نے بتلایا کہ یہ سود خور لوگ ہیں ۔ (مسند احمد ، سنن ابن ماجہ) تشریح بِ معراج میں رسول اللہ ﷺ کو عالم غیب کی بہت سی چیزوں کا مشاہدہ کرایا گیا ۔ اسی ضمن میں جنت اور دوزخ کے بعض مناظر بھی دکھائے گئے تا کہ خود آپ ﷺ کو “حق الیقین” کے بعد “عین الیقین” کا مقام بھی حاصل ہو جائے اور آپ ﷺ ذاتی مشاہدہ کی بناء جپر بھی لوگوں کو عذاب و ثواب سے آگاہ کر سکیں ، اس سلسلہ میں آپ ﷺ نے ایک منظر یہ بھی دیکھا جس کا اس حدیث میں ذکر ہے کہ کچھ لوگوں کے پیٹ اتنے بڑے ہیں جیسے کہ اچھا خاصا گھر اور ان میں سانپ بھرے ہوئے ہیں جو دیکھنے والوں کو باہر ہی سے نظر آتے ہیں اور آپ ﷺ کے دریافت کرنے پر حضرت جبرئیل نے بتلایا کہ یہ سود لینے والے اور کھانے والے لوگ ہیں جو اس لرزہ خیز عذاب میں مبتلا کئے گئے ہیں ۔ صحابہ کرامؓ نے حضور ﷺ کے اس مشاہدہ کو خود آپ ﷺ کی زبان مبارک سے سنا اور اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے بعد کے راویان حدیث کو ان کی محبت و عنایت کے طفیل میں حدیث کی مستند کتابوں کے ذریعہ یہ مشاہدہ ہم تک بھی پہنچ گیا ۔ اللہ تعالیٰ ایسا یقین نصیب فرمائے کہ دل کی آنکھوں سے یہ منظر ہم کو بھی نظر آئے ۔
رِبا (سود)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : سود خوری کے ستر حصے ہیں ان میں سے ادنیٰ اور معمولی ایسا ہے کہ جیسے اپنی ماں کے ساتھ منہ کالا کرنا ۔ (سنن ابن ماجہ ، شعب الایمان للبیہقی) تشریح اس سلسلہ معارف الحدیث میں بار بار ذکر کیا جا چکا ہے کہ عربی محاورہ اور قرآن و حدیث کی زبان میں “سبعون” کا لفظ خاص معین عدد (۷۰) کے علاوہ کثرت اور بہتات کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے بلکہ اکثر اسی معنی استعمال ہوتا ہے ۔ بہرحال اس حدیث کا مدعا اور پیغام یہ ہے کہ سود خوری اپنی ماں کے ساتھ زنا کرنے سے بھی بدرجہا زیادہ شدید اور خبیث گناہ ہے ۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے صرف یہی وہ گناہ ہے جس سے باز نہ آنے والوں کے خلاف قرآنِ پاک میں اللہ و رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ کیا گیا ہے ۔ (فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ)
رِبا (سود)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی سود لینے اور کھانے والے پر اور سود دینے اور کھلانے والے پر اور سودی دستاویز لکھنے والے پر اور اس کے گواہوں پر ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ (گناہ کی شرکت میں) یہ سب برابر ہیں ۔ (صحیح مسلم) تشریح قرآن مجید کی آیات اور رسول اللہ ﷺکے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے اور عقل سلیم کے نزدیک بھی یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ اصل خبیث اور موجب لعنت ظالمانہ گناہ سود لینا اور کھانا ہے ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے روایت کئے ہوئے اس ارشاد نبوی کا مقصد و مدعا یہ ہے کہ سودی کاروبار ایسا خبیث اور لعنتی کاروبار ہے کہ س میں کسی طرح کی شرکت بھی لعنت الٰہی کا موجب ہے اس بناء پر سود دینے والا ، سودی دستاویز کا کاتب اور اس کے گواہ بھی لعنت میں حصہ دار ہیں ۔ اس لئے جو خدا اور رسول کی لعنت اور ان کے غضب سے بچنا چاہے وہ اس کاروبار سے دور دور رہے ۔
رِبا (سود)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جب تم میں سے کوئی آدمی کسی کو قرض دے تو اگر وہ مقروض و مدیون آدمی قرض دینے والے کو کوئی چیز بطور ہدیہ دے یا سواری کے لئے اپنا جانور پیش کرے تو چاہئے کہ وہ اس کے ہدیہ کو قبول نہ کرے اور اس کے جانور کو سواری میں استعمال میں نہ کرے ۔ الا یہ کہ ان دونوں کے درمیان پہلے سے اس کا تعلق اور معاملہ ہوتا رہا ہو ۔ (سنن ابن ماجہ و شعب الایمان للبیہقی) تشریح حدیث کا مدعا اور پیغام یہ ہے کہ سود کا معاملہ اتنا سنگین اور خطرناک ہے کہ اس کے ادنیٰ شبہ سے بھی بچنا چاہئے ۔ جب کسی بندہ کو آدمی قرض دے تو اس کی پوری احتیاط کرے کہ اس قرض کی وجہ سے ذرہ برابر بھی نیوی فائدہ حاصل نہ ہو اس کے شبہ اور شائبہ سے بھی بچے ۔
رِبا (سود)
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپؓ نے فرمایا کہ : ربو ا والی آیت (یعنی سورہ بقرہ کی جس آیت میں ربوا کی حرمت کا قطعی اعلان فرمایا گیا ہے وہ رسول اللہ ﷺ کی حیات کے) آخری دور میں نازل ہونے والی آیتوں میں سے ہے ۔ حضور ﷺ اس دنیا سے اُٹھا لئے گئے اور آپ ﷺ نے ہمارے لئے اس کی پوری تفسیر و تشریح نہیں فرمائی ، لہذا ربوا کو بالکل چھوڑ دو اور اس کے شبہ اور شائبہ سے بھی پرہیز کرو ۔ (سنن ابن ماجہ ، مسند دارمی) تشریح “ربوا” عربی زبان کا ایک عام معروف لفظ تھا جو نزول قرآن سے پہلے بھی بولا جاتا تھا اور وہاں کا ہر شخص اس کا مطلب سمجھتا تھا اور وہ وہی تھا جو اوپر تمہیدی سطروں میں بیان کیا گیا ہے اس لئے جب حرمت ربوا والی آیت نازل ہوئی تو وہاں سب نے اس سے یہی سمجھا کہ سودی کاروبار (جس کا وہاں رواج تھا) حرام قرار دے دیا گیا ، اس میں نہ کسی کو کوئی شبہ ہوا اور نہ کسی شبہ کی گنجائش تھی ۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے اپنے بعض ارشادات میں جو (آگے درج ہو رہے ہیں) خرید و فروخت کی بعض ایسی صورتوں کے بھی “ربوا” کے حکم میں ہونے کا اعلان فرمایا جن میں کسی پہلو سے ربوا کا شائبہ تھا اور جن کو وہاں پہلے “ربوا” نہیں کہا اور سمجھا جاتا تھا مگر اس سلسلہ کی ساری جزئیات رسول اللہ ﷺ نے بیان نہیں فرمائیں بلکہ جیسا کہ حکمت شریعت کا تقاضا تھا اصولی ہدایت فرما دی اور یہ کام امت کے مجتہدین اور فقہا کے لئے رہ گیا کہ وہ آپ کی دی ہوئی اصولی ہدایات کی روشنی میں جزئیات کے بارے میں فیصلہ کریں (تمام ابواب شریعت کا یہی حال ہے) لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو امت کے فقہا و مجتہدین کی صف اول میں ہیں ربوا کے بارے میں سخت وعیدوں سے ڈرتے اور لرزتے ہوئے یہ خواہش رکھتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ اس باب (ربوا) کی وہ جزئیات بھی بیان فرما جاتے جو آپ ﷺ نے بیان فرمائیں اور جن کے بارے میں اب اجتہاد سے فیصلہ کرنا پڑے گا ۔ اپنے اس انتہائی خدا ترسانہ اور محتاط نقطہ نظر کی بناء پر انہوں نے اپنے اس ارشاد کے کے آخر میں فرمایا “ فَدَعُوا الرِّبَوا وَالرِّيْبَة ” یعنی اب اہل ایمان کے لئے راہِ عمل یہ ہے کہ وہ “ربوا” اور اس کے شبہ اور شائبہ سے بھی اپنے کو بچائیں لیکن اس کے برعکس ہمارے زمانہ کے بعض دانشور مدعیان اجتہاد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ “ربوا” کی حقیقت مشتبہ بلکہ نامعلوم ہے اور پھر اس کی بنیاد پر وہ سود کی بہت سی مروجہ صورتوں کا جواز نکالتے ہیں ۔ “ببیں تفاوت رہ از کجا ست تا ہکجا”
رِبا (سود)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : سود اگرچہ کتناہی زیادہ ہو جائے لیکن اس کا آخری انجام قلت اور کمی ہے ۔ (مسند احمد ، سنن ابن ماجہ ، شعب الایمان للبیہقی) تشریح اگرحدیث کے لفظ عاقبۃ سے اخروی انجاممراد لیا جائے تو ظاہر ہے کہ کسی صاحبِ ایمان کو اس میں شک شبہ نہیں ہو گا ، عالم آخرت میں پہنچ کر ہم سب دیکھ لیں گے کہ جن لوگوں نے سود کے ذریعہ اپنی دولت میں اضافہ کیا اور یہاں وہ لکھ پتی کروڑ پتی ہو گئے ، آخرت میں وہ بالکل مفلس کوڑی کوڑی کے محتاج ہوں گے اور ان کی وہ دولت ہی ان کے لئے وبال اور عذاب ہو گی ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اور رسول اللہ ﷺ نے اپنے ارشادات میں اطلاع دی ہے ۔ اور اگر حدیث کا مطلب یہ لیا جائے کہ سود کے ذریعہ دولت خواہ کتنی ہی بڑھ جائے لیکن آخر کار دنیا میں بھی اس پر زوال آئے گا تو طاہر نبیوں کو تو اس میں شک اور کلام ہو سکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے جن کو حقائق دیکھنے والی نگاہ دی ہے انہیں اس میں بھی کوئی شک شبہ نہ ہو گا ۔ بکثرت ایسے واقعات مشہور ہیں کہ ایک شخص سود کے ذریعہ اپنی دولت میں اضافہ کرتا رہا اور وہ اپنے وقت کا قارون بن گیا ، پھر کبھی اس شخص کی زندگی ہی میں اور کبھی اس کے بعد کوئی ایسا حادثہ رونما ہوا اور ایسی کوئی آفت آئی جس نے سارا حساب برابر کر دیا اور کبھی کبھی تو وہ لکھ پتی اور کروڑ پتی دیوالیہی اور محتاج ہو کر رہ گیا ۔ اور یہ بات سو فیصدی مشاہدہ اور تجربہ میں ہے کہ سود خور لوگ اس حقیقی راحت اور عزت و احترام سے یکسر محروم رہتے ہیں جو دولت کا اصل مقصد اور ثمرہ ہے ، اس لحاظ سے یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ کوئی سود خور سودی کاروبار کے ذریعہ خواہ کتنی ہی دولت پیدا کر لے وہ دولت کے حقیقی لطف و ثمرہ سے ہمیشہ محروم ہی رہتا ہے ، اس حساب سے وہ دولت مند ہونے کے باوجود مفلس اور تہی دست ہی ہے ۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے “يَمْحَقُ اللَّـهُ الرِّبَا ” (ربا اور سود سے کمائی ہوئی دولت کو اللہ تعالیٰ برکت سے محروم رکھتا ہے اور اس پر دیر سویر بربادی آتی ہے) حضرت ابن مسعودؓ کی اس حدیث میں اسی ارشادِ خداوندی کی ترجمانی کی گئی ہے ۔
رِبا (سود)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ ہر شخص سود کھانے والا ہو گا ، (کوئی بھی اس سے محفوظ نہ ہو گا اگر خود سود نہ بھی کھاتا ہو گا تو اس کے بخارات یا اس کا غبار ضرور اس کے اندر پہنچے گا) ۔ (مسند احمد ، سنن ابی داؤد ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ) تشریح اس ارشاد سے حضور ﷺ کا مقصد مستقبل کے بارے میں صرف ایک پیشن گوئی کرنا نہیں ہے بلکہ اصل مقصد امت کو خبردار کرنا ہے کہ ایک ایسا وقت آنے والا ہے جب سود کی وباء عام ہو جائے گی اور اس سے محفوظ رہنا بہت ہی دشوار ہو گا ۔ لہذا چاہیے کہ ہر صاحبِ ایمان اور صاحبِ تقویٰ اس بارے میں چوکنا رہے اور اپنے کو اس لعنت سے محفوظ رکھنے کی فکر اور کوشش کرتا رہے ۔ یقیناً ہمارا زمانہ بھی وہی زمانہ ہے ، اللہ کے جو بندے سود کو لعنت سمجھتے اور بتوفیق خداوندی اس سے پرہیز کرتے ہین وہ بھی اپنا غذائی سامان یا پہننے کا کپڑا جن دکانداروں سے خریدتے ہیں ان کے کاروبار کا رشتہ بلاواسطہ یا بالواسطہ کسی نہ کسی سودی سلسلہ سے ضرور ہے ، آج کل کسی کاروباری سلسلہ کا اس سے محفوظ رہنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا جنگل کے کسی درخت کا ہوا سے محفوظ رہنا ۔
رِبا (سود)
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : سونے کی بیع سونے کے بدلے اور چاندی کی چاندی کے بدلے اور گیہوں کی گیہوں کے بدلےاور جَو کی جَو کے بدلے اور کھجوروں کی کھجوروں کے بدلے اور نمک کی نمک کے بدلے یکساں اور برابر اور دست بدست ہونی چاہئے ، اور جب اجناس مختلف ہوں تو جس طرح چاہو فروخت کرو بشرطیکہ لین دین دست بدست ہو۔ (صحیح مسلم)
رِبا (سود)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : سونا سونے کے عوض اور چاندی چاندی کے عوضاور گیہوں گیہوں کے عوض اور جَو جَو کے عوض اور کھجوریں کھجوروں کے عوض دست بدست برابر سرابر بیچا خریدا جائے ۔ جس نے زیادہ دیا یا زیادہ طلب کیا تو اس نے سود کا معاملہ کیا (اور وہ سود کے گناہ کا مرتکب ہوا) اس میں لینے والا اور دینے والا دونوں برابر ہیں ۔ (صحیح مسلم) تشریح اس مضمون کی حدیثیں اس حدیث کے راوی حضرت ابو سعید خدری کے علاوہ حضرت عمر ، حضرت عبادہ بن صامت حضرت ابو بکرہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم وغیرہ اور بھی متعدد صحابہ کرام سے مروی ہیں ۔ ان کا مدعا اور مطلب یہ ہے کہ جن چھ چیزوں کا اس حدیث میں ذکر کیا ہے (یعنی سونا ، چاندی ، گیہوں ، جَو ، کھجور ، نمک) اگر ان میں سے کسی جنس کا اسی جنس سے تبادلہ کیا جائے (مثلاً گیہوں دے کر اس کے بدلے میں گیہوں لئے جائیں) تو یہ معاملہ جب جائز ہو گا جب برابر برابر اور دست بدست لیا جائے ۔ اگر کمی بیشی ہوئی یا لین دین دست بدست (ہاتھ کے ہاتھ) نہ ہوا بلکہ قرض ادھار کی بات ہوئی تو جائز نہ ہو گا بلکہ یہ ایک طرح کا سود کا معاملہ ہو جائے گا اور دونوں فریق سود کے مرتکب اور گنہگار ہوں گے ۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے “حجۃ اللہ البالغہ” میں ان حدیثوں کی تشریح کرتے ہوئے جو کچھ فرمایا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کے زمانہ میں اور اس سے پہلے زمانہ جاہلیت میں جس ربا (سود) کا رواج تھا اور جس کو “ربا” کہا جاتا تھا وہ قرض ادھار والا ہی سود تھا جس کی صورت (جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا) یہ تھی کہ جو سرمایہ دار مہاجن سودی کاروبار کرتے تھے ، ضرورت مند لوگ ان سے قرض لیتے تھے اور طے ہو جاتا تھا کہ اتنے اضافہ کے ساتھ فلاں وقت تک وہ یہ قرض ادا کر دیں گے ، پھر اگر مقررہ میعاد پر وہ ادا نہ کر سکتے تو اور مہلت لے لیتے اور اس مہلت کے حساب میں سود کی رقم میں اور اضافہ طے ہو جاتا (شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ) اسی سودی کاروبار کا رواج تھا اور اسی کو “ربا” کہا جاتا تھا ، قرآن مجید میں براہ راست اسی کو حرام قرار دیا گیا ہے ۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے خرید و فروخت کی بعض صورتوں کے بھی ربوا کے حکم میں داخل ہونے کا اعلان فرمایا اور ان سے بھی بچنے کی تاکید فرمائی ۔ ان حدیثوں مٰں اسی کا اعلان فرمایا گیا ہے ۔ اور مقصد و مدعا یہ ہے کہ جن چھ چیزوں کا مندرجہ بالا حدیث میں ذکر کیا گیا ہے ان میں کسی جنس کا بھی اگر اسی جنس سے تبادلہ کیا جائے تو کسی طرف کمی بیشی نہ ہو بلکہ برابر برابر ہو اور لین دین ہاتھ کے ہاتھ ہو اگر تبادلہ میں کمی بیشی ہوئی یا لین دین ہاتھ کے ہاتھ نہ ہوا تو یہ ربوا اور سود کی ایک قسم ہو گی اور دونوں فریق گنہگار ہوں گے ۔ حضرت شاہ صاحبؒ نے اپنے معمول کے مطابق اس حکم کی جو حکمت بیان فرمائی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تعیش اور “رفاہیت بالغہ” یعنی زیادہ بلند معیار اور رئیسانہ ٹھاٹ باٹ کی زندگی پسند نہیں فرماتا کیاں کہ جو شخص بہت اونچے معیار کی تعیش کی زندگی گزارے گا وہ لازمی طور پر طلب دنیا میں زیادہ منہمک ہو گا اور آخرت کی زندگی کو بہتر بنانے اور روح کے تزکیہ کی فکر سے وہ اسی حساب سے غافل ہو گا ، علاوہ ازیں معاشرہ میں زیادہ اونچ نیچ سے جو طرح طرح کے مفاسد پیدا ہوتے ہیں وہ بھی پیدا ہوں گے اور تعیش اور اعلیٰ معیار زندگی ہی کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ہر چیز بڑھیا سے بڑھیا اور اعلیٰ معیار کی استعمال کی جائے ، گیہوں اعلیٰ قسم ہی کا کھایا جائے ، کھجوریں اعلیٰ قسم ہی کی کھائی جائیں ، سونا اور چاندی اعلیٰ معیار ہی کی استعمال کی جائیں جس کی عملی صورت اکثر یہی ہوتی تھی کہ اگر اپنے پاس اعلیٰ درجہ کی چیز نہیں ہے بلکہ معمولی درجہ کی ہے تو وہ زیادہ مقدار میں دے کر ان کے بدلے میں اعلیٰ معیار کی تھوڑی مقدار میں لے لی جائے ، بہرحال کمی بیشی کے ساتھ ایک جنس کا اسی جنس سے تبادلہ عموماً تعیش اور اعلیٰ معیار زندگی کے تقاضے سے ہی کیا جاتا تھا تو اس کی ممانعت کے ذریعہ اس کے راستہ میں رکاوٹ ڈالی گئی اور ایک حد تک اس کا سد باب کیا گیا ۔ والله اعلم باسرار احكامه. حدیث میں صرف مذکورہ بالا چھ چیزوں کے بارے میں یہ حکم دیا گیا ہے لیکن امت کے فقہا مجتہدین کا اس پر قریبا اتفاق ہے کہ ان چھ چیزوں کے علاوہ بھی جو چیزیں اس نوعیت کی ہیں ان کا حکم بھی یہی ہے اگرچہ تفصیلات میں فقہا کی رایوں میں کچھ فرق و اختلاف ہے ۔
رِبا (سود)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ بلال رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بہت اچھی قسم کی (برنی) کھجوریں لائے ۔ حضور ﷺ نے پوچھا کہ یہ کہاں سے آئیں ؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہمارے پاس گھٹیا قسم کی کھجوریں تھیں میں نے وہ دو صاع دے کر یہ برنی ایک صاع خرید لیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا اوہو ! یہ تو عین ربا ہوا ، آئندہ ایسا کبھی نہ کرو ، جب تم (کھجوروں سے) کھجوریں خریدنی چاہو تو پہلے اپنی کھجوریں بیچ دے ۔ پھر ان کی قیمت سے دوسری کھجوریں خرید لو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ (جو یقینا اس سے ناواقف نہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ربوا کو حرام قرار دیا ہے) انہوں نے جس طرح کھجوریں خریدی تھیں اس کو انہوں نے ربوا نہیں سمجھا تھا وہ “ربوا” قراض والے سود ہی کو سمجھتے تھے ۔ جس کو عام طور سے ربوا کہا جاتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کو بتلایا کہ کمی بیشی کے ساتھ کھجوروں کا تبادلہ بھی ربوا کے حکم میں ہے ، بقول حضرت شاہ ولی اللہ قرض والا ربوا “حقیقی ربوا” ہے اور حضرت ابو سعیدؓ وغیرہ کی حدیثوں میں جس کو ربوا قرار دیا گیا ہے وہ “حکمی ربوا” ہے یعنی ربوا کے حکم میں ہے ۔
رِبا (سود)
عطا بن یسار تابعی سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضرت معاویہؓ نے سونے یا چاندی کا ایک پیالہ (یا جگ) اسی جنس کے اس سے زیادہ وزن کے عوض فروخت کیا ، تو حضرت ابو الدارداء نے ان سے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا ۔ آپ ﷺ اس طرح کی بیع فروح سے منع فرماتے تھے ۔ الا یہ کہ برابر برابر ہو ، تو حضرت معاویہؓ نے کہا میرے نزدیک ترو اس میں کوئی مضائقہ اور گناہ کی بات نہیں ہے ۔ حضرت ابو الدرداء نے (سخت رنجیدہ ہو کر) کہا کہ مجھے معاویہؓ کے بارے میں معذور سمجھا جائے ۔ میں ان کو رسول اللہ ﷺ کا حکم بتاتا ہوں اور وہ مجھے اپنی رائے بتاتے ہیں ۔ (اس کے بعد خود حضرت معاویہؓ سے کہا کہ) میں تمہارے ساتھ اس سرزمین میں نہیں رہوں گا ، جہاں تم ہو گے ۔ اس کے بعد حضرت ابو الدرداءؓ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس مدینہ آئے اور آپؓ سے اس واقعہ کا ذکر کیا ، تو حضرت عمرؓ نے حضرت معاویہؓ کو لکھا کہ اس طرح کی بیع فروخت نہ کرو ، سونا ، چاندی وغیرہ کا اسی جنس سے تبادلہ صرف اس صورت میں جائز ہے کہ دونوں طرف وزن یکساں اور برابر برابر ہو ۔ (موطا امام مالک ، سنن نسائی) تشریح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں حضرت معاویہؓ علاقہ شام کے حاکم (گورنر) تھے ، حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کا قیام بھی وہیں تھا اسی زمانہ میں حضرت معاویہؓ نے سونے یا چاندی سے بنا ہوا پانی کا ایک برتن (پیالہ یا جگ) بطور قیمت اسی جنس سے وزن میں کچھ زیادہ لے کر فروخت کیا اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا ، حضرت ابو الدرداءؓ نے ان سے ذکر کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسی بیع سے منع فرمایا ہے ، حکم یہ ہے کہ سونے یا چاندی کی کوئی چیز اگر اسی جنس کے عوض بیچی یا خریدی جائے تو وزن میں کمی بیشی نہ ہونی چاہئے وزن برابر برابر ہونا چاہئے ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا خیال غالبا یہ تھا کہ سونے یا چاندی سے بنی ہوئی چیز (زیور یا برتن) اگر فروخت کیا جائے تو بنوائی کی اجرت کا لحاظ کر کے کچھ زیادہ لینا ناجائز نہ ہو گا ، اس بناء پر انہوں نے کہا کہ “میرے نزدیک تو اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں ہے” ۔ لیکن حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کو حضرت معاویہؓ کی یہ بات سخت ناگوار ہوئی کیوں کہ انہوں نے حضور ﷺ سے جو کچھ سنا تھا وہ اس کی روشنی میں اس رائے یا اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں سمجھتے تھے ۔ بہرحال وہ ناراض ہو کر وہاں کی سکونت ترک کر کے مدینہ چلے آئے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے واقعہ بیان کیا ، آپؓ نے حضرت معاویہؓ کو لکھا کہ شرعی حکم وہی ہے جو ابو الدرداء نے بتلایا لہذا ایسی خرید و فروخت نہ کی جائے ۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ ربا (سود) کی اس دوسری قسم (ربائے حکمی) کے بارے میں بھی صحابہ کرامؓ میں کتنی شدت تھی اور اس بارے میں کسی کی اجتہادی غلطی بھی ان کے لئے قابلِ برداشت نہیں تھی ۔
خرید و فروخت کے متعلق احکامات: پھلوں کی فصل تیاری سے پہلے نہ بیچی ، خریدی جائے
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا پھلوں کی بیع سے اس وقت تک کہ ان میں پختگی آ جائے ۔ آپ ﷺ نے بیچنے والے کو بھی منع فرمایا اور خریدنے والے کو بھی ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) اور اسی حدیث کی صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے منع فرمایا کھجوروں کی فصل کی بیع سے جب تک ان پر سرخی نہ آ جائے اور کھیت کی بالوں کی بیع سے جب تک ان پر سفیدی نہ آ جائے اور تباہی کا خطرہ نہ رہے ۔ تشریح جس طرح ہمارے ملک اور ہمارے علاقوں میں آم کے باغوں کی فصل آم تیار ہونے سے پہلے ، بہت پہلے بھی فروخت کر دی جاتی ہے اسی طرح مدینہ منورہ وغیرہ عرب کے پیداواری علاقوں میں کھجور یا انگور کے باغات اور درختوں کے پھل تیاری سے پہلے فروخت کر دئیے جاتے تھے اور کھیتوں میں پیدا ہونے والا غلہ بھی تیاری سے پہلے فروخت کر دیا جاتا تھا ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی ممانعت فرمائی ۔ کیوں کہ اس میں خطرہ اور امکان ہے کہ فصل پر کوئی آفت آ جائے مثلاً تیز آندھیاں یا آسمان سے گرنے والے اولے غلہ کو یا پھلوں کو ضائع کر دیں یا ان میں کوئی خرابی اور بیماری پیدا ہو جائے تو بےچارے خریدنے والے کو بہت نقصان پہنچ جائے گا ، پھر اس کا بھی خطرہ ہے کہ قیمت کی ادائیگی کے بارے میں فریقین میں نزاع اور جھگڑا پیدا ہو ۔ بہرحال اس بیع فروخت میں یہ کھلے ہوئے مفاسد اور خطرات ہیں ۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس کی ممانعت فرمائی ۔ آگے درج ہونے والی حدیث میں اس کی مزید وضاحت ہے ۔
خرید و فروخت کے متعلق احکامات: پھلوں کی فصل تیاری سے پہلے نہ بیچی ، خریدی جائے
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پھلوں کی بیع سے منع فرمایا تھا تا آنکہ ان پر رونق آ جائے ، عرض کیا گیا کہ رونق آ جانے سے کیا مطلب ہے ؟ آپ ﷺ نے فریاما مطلب یہ ہے کہ سرخی آ جائے ۔ (اس کے بعد) آپ ﷺ نے فریاما کہ بتاؤ اگر اللہ تعالیٰ پھل عطا نہ فرمائے (یعنی بحکم خداوندی کسی آفت سے پھل تیار ہونے سے پہلے ضائع ہو جائیں) تو بیچنے والا کس چیز کے عوض میں (خریدنے والے) اپنے بھائی سے مال وصول کرے گا ۔ (صحیح بخاری و مسلم) تشریح علماء نے لکھا ہے کہ اگر پھل میں ایسا نقصان ہو گیا ہے کہ خریدار کو کچھ بھی نہیں بچا ، سب برباد ہو گیا تو باغ فروخت کرنے والے کو چاہئے کہ قیمت بالکل نہ لے اور لے چکا ہے تو واپس کر دے اور اگر نہیں بلکہ کچھ نقصان ہو گیا ہے تو اس کا لحاظ کر کے قیمت میں تخفیف اور کمی کر دے ۔ ان احکام کی روح یہ ہے کہ ہر ایک کی خیر خواہی اور مناسب حد تک ہر ایک کے مفاد کی حفاطت کی جائے ۔
چند سالوں کے لئے باغوں کی فصل کا ٹھیکہ نہ دیا جائے
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا (باغ کو) چند سالوں کے واسطے فروخت کرنے سے اور آپ ﷺ نے حکم دیا ناگہانی آفات (کے نقصان) کو وضع کر دینے کا ۔ (صحیح مسلم) تشریح باغ کی فصل کوئی سال کے لئے فروخت کرنے سے اسی لئے منع فرمایا گیا کہ معلوم نہیں کہ پھل آئے گا بھی یا نہیں ، اور باقی رہے گا یا خدانخواستہ کسی ناگہانی حادثہ کا شکار ہو جائے گا ۔ ایسی صورت میں بےچارے خریدار کو سخت نقصان پہنچے گا اور وہ قیمت ادا کرنا نہ چاہے گا جس سے نزاع اور جھگڑا پیدا ہو گا جو سو خرابیوں کی جڑ ہے ۔ دوسرا حکم اس حدیث میں یہ دیا گیا کہ اگر باغ کی فصل فروخت کی گئی اور پھلوں پر کوئی آفت آ گئی تو باغ کے مالک کو چاہئے کہ نقصان کا لحاظ کر کے قیمت میں کمی اور تخفیف کر دے ۔ ظاہر ہے کہ ان سب احکام کا مقصد اہلِ معاملہ کی خیر خواہی اور ان کو باہمی اختلاف و نزاع سے بچانا اور ایک دوسرے کی ہمدردی اور غم خواری اور ایثار و قربانی کا عادی بنانا ہے ۔
جو چیز فی الحال اپنے پاس نہ ہو اس کی بیع نہ کی جائے
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اس سے منع فرمایا کہ جو چیز میرے پاس موجود نہیں ہے میں اس کی بیع فروخت کا کسی سے معاملہ کروں ۔ (جامع ترمذی) تشریح کاروباری دنیا میں حضور ﷺ کے زمانہ میں بھی ہوتا تھا اور ہمارے زمانہ میں بھی ہوتا ہے کہ تاجر کے پاس ایک چیز موجود نہیں ہے لیکن اس کے طالب خریدار سے وہ اس کا سودا اس امید پر کر لیتا ہے کہ میں کہیں سے خرید کر اس کو دے دوں گا ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس طرح کی بیع سے بھی منع فرمایا ہے کیوں کہ اس کا امکان ہے کہ وہ چیز فراہم نہ ہو سکے یا فراہم ہو جائے مگر خریدار اس کو پسند نہ کرے ، اس صورت میں فریقین میں نزاع اور جھگڑا ہو سکتا ہے ۔ تشریح ..... یہ حکیم بن حزام ایک دولت مند تاجر تھے ، سنن نسائی اور سنن ابی داؤد کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے حضور ﷺ سے دریافت کیا تھا کہ بعض اوقات کسی چیز کا خریدار میرے پاس آتا ہے اور وہ چیز میرے پاس موجود نہیں ہوتی تو میں اس سے معاملہ کر لیتا ہوں اور بازار سے وہی چیز خرید کے اس کو دے دیتا ہوں ۔ تو آپ ﷺ نے فریاما کہ جو چیز تمہارے پاس موجود نہیں ہے اس کی بیع فروخت نہ کرو ۔
اگر غلہ وغیرہ خریدا جائے تو اُٹھا لینے سے پہلے اس کو فروخت نہ کیا جائے
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : جو شخص غلہ (وغیرہ) خریدے تو جب تک اس کو اپنے قبضہ میں نے لے لے اس وقت تک کسی دوسرے کے ہاتھ فروخت نہ کرے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حکم کا مقصد بھی یہی ہے کہ کوئی جھگڑا ٹنٹا پیدا نہ ہو ۔ اس حدیث میں اگرچہ صرف طعام (یعنی غلہ) کا ذکر ہے لیکن تمام اموال منقولہ کا یہی حکم ہے ۔
مضطر (سخت ضرورتمند) سے خرید و فروخت کی ممانعت
حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا “مضطر” کی خرید و فروخت سے ، اور ایسی چیز کی بیع سے جس کا ملنا یقینی نہ ہو اور پھلوں کی تیاری سے پہلے ا ن کی بیع فروخت سے ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح بعض اوقات آدمی فقر و فاقہ یا کسی حادثہ کی وجہ سے یا کسی ناگہانی پریشانی میں گِھر جانے کی وجہ سے اپنی کوئی چیز بیچنے کے لئے یا کھانا وغیرہ کوئی چیز خریدنے کے لئے سخت مجبور اور “مضطر” ہوتا ہے ۔ ایسے وقت بےدرد تاجر اس شخص کی مجبوری اور اضطراری حالت سے ناجائز فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔ مندرجہ ذیل حدیث میں اسی کو “بیع مضطر” کہا گیا ہے اور اس کی ممانعت فرمائی گئی ہے ۔ تشریح .....“مضطر کی بیع”کی تشریح اوپر کی جا چکی ہے ، اس کی ممانعت کا مقصد یہ ہے کہ ایسے مجبور و مضطر آدمی سے خرید و فروخت کا تاجرانہ معاملہ نہ کیا جائے بلکہ اس بھائی کی خدمت اور اعانت کی جائے ۔ دوسری چیز جس سے اس حدیث میں ممانعت فرمائی گئی ہے “ بیع غرر” ہے یعنی ایسی چیز کی بیع جو فروخت کرنے والے کے ہاتھ میں نہیں ہے اور اس کا ملنا یقینی نہیں ہے ، جیسے کہ کوئی جنگل کے ہرن کی یا کسی پرند کی یا دریا کی مچھلی کی اس امید پر بیع کرے کہ شکار کر کے فراہم کر دوں گا ۔ یہ “ بیع غرر” ہے اور اس کی ممانعت فرمائی گئی ہے ، کیوں کہ بیچی جانے والی چیز نہ بائع کے پاس موجود ہے اور نہ اس کا ملنا یقینی ہے اور مل بھی جائے تو نوعیت کے بارے میں نزع و اختلاف کا خطرہ ہے ۔ تیسری چیز جس کی اس حدیث میں ممانعت فرمائی گئی ہے تیار ہونے سے پہلے پھلوں کی فصل کی فروخت ہے ۔ اس کی تشریح اوپر کی جا چکی ہے ۔
فروختنی چیز کا عیب چھپانے کی سخت ممانعت اور وعید
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ غلہ کے ایک ڈھیر کے پاس سے گزرے (جو ایک دکاندار کا تھا) آپ ﷺ نے اپناہاتھ اس ڈھیر کے اندر داخل کر دیا تو آپ ﷺ ی انگلیوں نے گیلا پن محسوس کیا ، آپ ﷺ نے اس غلہ فروش دکاندار سے فرمایا کہ (تمہارے ڈھیر کے اندر) یہ تری و کیل کیسی ہے ؟ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ غلہ پر بارش کی بوندیں پڑ گئی تھیں (تو میں نے اوپر کا بھیگ جانے والا غلہ نیچے کر دیا) آپ ﷺ نے فریاما کہ اس بھیگے ہوئے غلہ کو تم نے ڈھیر کے اوپر کیوں نہیں رہنے دیا تا کہ خریدنے والے لوگ اس کو دیکھ سکتے ۔ (سن لو) جو آدمی دھوکے بازی کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ (صحیح مسلم) تشریح اور طبرانی نے معجم کبیر و معجم صغیر میں یہی واقعہ حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور اس کے آخر میں ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے ۔ “ وَالْمَكْرُ وَالْخِدَاعُ فِى النَّارِ” (یعنی اس طرح کی دغا بازی اور فریب کا انجام جہنم ہے) ۔ اَللَّهُمَّ احْفَظْنَا
فروختنی چیز کا عیب چھپانے کی سخت ممانعت اور وعید
حضرت واثلہ بن الاسقع سے روایت ہے کہ میں نے خود سنا رسول اللہ ﷺ ارشاد فرماتے تھے کہ جس شخص نے کوئی عیب والی چیز کسی کے ہاتھ فروخت کی ، اور خریدار کو وہ عیب بتلا نہیں دیا تو اس پر ہمیشہ کا عذاب رہے گا ...... یا آپ ﷺ نے یہ فریاما ........ کہ اللہ کے فرشتے ہمیشہ اس پر لعنت کرتے رہیں گے ۔ (سنن ابن ماجہ) تشریح بعض اوقات حدیث کے کسی راوی کو حضور ﷺ کے الفاظ کے بارے میں یہ شبہ ہو جاتا ہے تو از راہِ احتیاط وہ روایت کے وقت اس شبہ کو ظاہر کر دیتا ہے ۔ اس حدیث کی روایت میں بھی راوی کو شک ہو گیا ہے ۔ کہ حضور ﷺ نے “لَمْ يَزَلْ فِي مَقْتِ اللَّهِ” فرمایا تھا یا “لَمْ تَزَلِ الْمَلَائِكَةُ تَلْعَنُهُ” فرمایا تھا ۔ حدیث کے ترجمہ میں اس شک کو ظاہر کر دیا گیا ہے ۔
بیچنے والے یا خریدنے والے کی ناواقفی سے ناجائز فائدہ اُٹھانے اور ہر طرح کے دھوکے فریب کی ممانعت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غلہ وغیرہ لانے والے قافلہ سے مال خریدنے کے لئے آگے جا کے نہ ملو ، جس تاجر نے آگے جا کر راستہ ہی میں سودا کیا اور خرید لیا تو مال کا مالک جب بازار پہنچے تو اس کو اختیار ہو گا (کہ چاہے تو وہ معاملہ فسخ کر دے) ۔ (صحیح مسلم) تشریح رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایسا بھی ہوتا تھا کہ لوگ غلہ وغیرہ ضروریات کی چیزیں باہر سے لا کر شہروں کے بازاروں میں فروخت کرتے تھے اور یہ چھوٹے چھوٹے قافلوں کی شکل میں آتے تھے ، (ان تجارتی قافلوں کو “حلب” کہا جاتا تھا) چالاک تاجر ایسا کرتے تھے کہ بازار اور منڈی پہنچنے سے پہلے راستہ ہی میں ان کے پاس پہنچ کر مال کا سودا کر لیتے تھے اس میں اس کا بہت امکان ہوتا تھا کہ بازار کے بھاؤ سے ناواقف ہونے کی وجہ سے بارہ سے مال لانے والے اپنا مال ان تاجروں کے ہاتھ سستے داموں بیچ دیں اور اس سے ان کو نقصان پہنچے ۔ اور اس سے بڑی دوسری خرابی اس طریقہ میں یہ تھی کہ باہر سے آنے والا سارا غلہ اور دیگر سامان ان چالاک سرمایہ دار تاجروں کے ہاتھ میں چلا جاتا تھا پھر یہ اس کو عام صارفین کے ہاتھ من مانے داموں پر بیچتے اور زیادہ سے زیادہ نفع کماتے ۔ اگر مال بازار میں آ کر بکتا تو لانے والوں کو بھی مناسب قیمت ملتی اور عام ضرورت مند بھی مناسب داموں پر خرید سکتے ۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں ہدایت فرمائی کہ غلہ وغیرہ لانے والوں سے بازار پہنچنے سے پہلے راستے میں جا کر خریداری نہ کی جائے اور اگر اس طرح کسی نے کوئی سودا کیا تو مال لانے والا اگر بازار پہنچ کر محسوس کرے کہ بازار کے بھاؤ سے بےخبری کی وجہ سے اس کو دھوکا اور نقصان ہو گیا تو اس کو معاملہ فسخ کر دینے کا اختیار ہے ۔
بیچنے والے یا خریدنے والے کی ناواقفی سے ناجائز فائدہ اُٹھانے اور ہر طرح کے دھوکے فریب کی ممانعت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : غلہ وغیرہ لانے والے قافلہ والوں سے مال خریدنے کے لئے آگے جا کے نہ ملو ، اور تم میں سے کوئی اپنے دوسرے بھائی کے بیع کے معاملہ میں اپنے معاملہ بیع سے مداخلت نہ کرے اور (کسی سودے کے نمائشی خریدار بن کر اس کی قیمت بڑھانے کا کام نہ کرو ، اور شہری تاجر بدویون کا مال اپنے پاس رکھ کر بیچنے کا کام نہ کریں ۔ اور (بیچنے کے لئے) اونٹنی یا بکری کے تھنوں میں دودھ جمع نہ کرو ۔ اگر کسی نے ایسی اونٹنی یا بکری خریدی تو اس کا دودھ دوہنے کے بعد اس کو اختیار ہے اگر پسند ہو تو اپنے پاس رکھے اور اگر ناپسند ہو تو واپس کر دے اور (جانور کے مالک کو) ایک صاع (قریباً ۴ سیر) کھجوریں بھی دے دے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں تجارت اور خرید و فروخت سے متعلق چند ہدایتیں دی گئی ہیں پہلی ہدایت تو وہی ہے جو اس سے اوپر والی حدیث میں دی گئی تھی ، کہ غلہ وغیرہ ضروریات باہر سے لانے والے تجارتی قافلوں سے بازار اور منڈی میں ان کے پہنچنے سے پہلے ہی راستہ میں جا کر ان سے مال نہ خریدا جائے بلکہ جب وہ بازار اور منڈی میں مال لے آئیں تو ان سے خرید و فروخت کا معاملہ کیا جائے ۔ اس ہدایت کی حکمت اور مصلحت بھی لکھی جا چکی ہے ۔ دوسری ہدایت کے الفاظ یہ ہیں “ وَلاَ يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ” اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی خریدار ایک دکاندار سے کوئی چیز خرید رہا ہے تو دوسرے دکاندار کو نہ چاہئے کہ وہ معاملہ میں مداخلت کرے اور خریدار سے کہے کہ یہی چیز تم مجھ سے خرید لو ، ظاہر ہے کہ اس سے دکانداروں میں باہم عداوت اور ایک دوسرے کی بدخواہی پیدا ہو گی جو شر و فساد کی جڑ ہے ۔ تیسری ہدایت کے الفاظ ہیں “وَلاَ تَنَاجَشُوا” بازار کی دنیا میں یہ بھی ہوتا ہے کہ کوئی شخص کسی دکاندار سے کوئی چیز خریدنے کی بات چیت کر رہا ہے تو کوئی صاحب اسی چیز کے صرف نمائشی خریدار بن کے کھڑے ہو گئے اور زیادہ قیمت لگا دی تا کہ جو اصلی اور واقعی خریدار ہے وہ زیادہ قیمت دینے پر آمادہ ہو جائے ، ظاہر ہے کہ بےچارے خریدار کے ساتھ یہ ایک طرح کا فریب ہے “لاَ تَنَاجَشُوا” میں اسی کی ممانعت فرمائی گئی ہے ۔ چوتھی ہدایت کے الفاظ ہیں “لاَ يَبِعْ حَاضِرٌ لِبَادٍ” اس کا مطلب یہ ہے کہ شہر کے تاجروں کو چاہئے کہ دیہات کے لوگ جو سامان غلہ وغیرہ فروخت کرنے کے لئے لائیں تو ان کا وہ مال اپنے پاس اس غرض سے نہ رکھیں کہ جب دام زیادہ اُٹھیں گے اس وقت فروخت کریں گے ، بلکہ دیہات کے لوگ جب مال لائیں تو اس کو فروخت ہو جانا چاہئے ۔ اس صورت میں ان اشیاء کی قلت نہیں ہو گی ، عوام کے لئے قیمتیں نہیں چڑھیں گی اور گرانی نہیں بڑھے گی ۔ اور دیہات سے مال لانے والوں کو جب کہ دن کے دن اور ہاتھ کے ہاتھ اپنے مال کی قیمت مل جائے گی تو جلد ہی وہ بازار میں دوسرا مال لا سکیں گے اس طرح ان کی تجارت بڑھ جائے گی اور نفع بھی بڑھے گا ۔ پانچویں اور آخری ہدایت ہے “لاَ تُصَرُّوا الْاِبِلَ وَالغَنَمَ الخ” اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ایسا نہ کرے کہ جب اس کو اپنا دودھ دینے والا جانور (اونٹنی ، بکری وغیرہ بیچنا ہو تو ایک دو وقت پہلے سے اس کا دودھ دوہنا چھوڑ دے تا کہ خریدار اس کے بھرے ہوئے تھن دیکھ کر سمجھے کہ جانور بہت دودھ دینے والا ہے ، اور زیادہ قیمت میں خریچ لے ۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک طرح کا دھوکا فریب ہے ۔ آگے اس کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اگر کسی نے ایسا جانور خریدا تو اس کو اختیار ہے کہ اپنے گھر پر دوہنے کے بعد اگر جانور کو ناپسند کرے تو واپس کر دے اور پسن کرے تو اپنے پاس رکھ لے ۔ اور واپس کرنے کی صورت میں ایک صاع (قریبا ً ۴ سیر) کھجوریں بھی جانور کے مالک کو پیش کر دے ۔ صحیح مسلم کی اس حدیث کی روایت میں الفاظ ہیں “فَهُوَ بِالْخِيَارِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ” جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا جانور خریدنے والے کو تین دن تک واپسی کا اختیار رہے گا ۔ (اس کے بعد واپسی کا ھق نہ ہو گا) ۔ نیز “مسلم” کی اس روایت میں “ صَاعًا مِنْ تَمَرٍ” کے بجائے “صَاعًا مِنْ طَعَامٍ لَا سَمْرًا” کے الفاظ ہیں ان کی بناء پر ایک صاع کھجوروں کی جگہ گیہوں کے علاوہ ایک صاع کوئی غلہ (جَو وغیرہ) دینا بھی صحیح ہو گا ۔ جانور کی واپسی کی صورت میں اس کے مالک کو ایک صاع کھجور وغیرہ پیش کرنے کی ہدایت کی حکمت و مصلحت شاید یہ ہو کہ خریدنے والے نے ایک دن یا دو دن یا تین دن (جب تک جانور کو اپنے پاس رکھا) اس کا دودھ دوہا اور استعمال کیا ، ساتھ ہی اس کے کھلانے پلانے پر خرچ بھی کیا ، اس طرح حساب گویا برابر ہو گیا ۔ پھر بھی جو کسر رہی ہو اور واپسی سے جانور کے مالک کی جو دل شکنی ہوئی ہو اس کی مکافات اور واپسی کے معاملہ کی ناخوشگواری ختم کرنے یا کم کرنے کے لئے یہ ہدایت دی گئی ہو ۔ واللہ اعلم ۔
نیلام کے طریقہ پر خرید و فروخت
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (بچھانے کا) ایک ٹاٹ اور ایک پیالہ اس طرح فروخت کیا کہ آپ نے (مجلس کے حاضرین کومخاطب کر کے) فرمایا کہ یہ ٹاٹ اور پیالہ کون خریدنا چاہتا ہے (وہ بولی بولے) ایک شخص نے عرض کیا کہ میں یہ دونوں چیزیں ایک درہم میں لے سکتا ہوں ..... آپ ﷺ نے فریاما کون ایک درہم سے زیادہ دینے کو تیار ہے ؟ تو ایک دوسرے صاحب نے آپ کو دو درہم پیش کر دئیے تو آپ نے وہ دونوں چیزیں اُنکے ہاتھ بیچ دیں ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نیلام کے طریقہ پر خرید و فروخت جائز ہے اور خود آنحضرتﷺ نے ایسا کیا ہے ۔ نیلام کے جس واقعہ کا حضرت انس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں ذکر ہے وہ پوری تفصیل کے ساتھ سننن ابی داؤد اور سنن ابن ماجہ کی روایت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے ..... کہ ایک نہایت مفلس اور مفلوک الحال انصاری صحابی نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی حاجت مندی کا حال بیان کیا اور آپ ﷺ سے امداد و اعانت کی درخواست کی ۔ آپ ﷺ نے (یہ دیکھ کر کہ وہ محنت کر کے کمانے کے قابل ہیں) ان سے پوچھا کہ تمہارے گھر میں کچھ سامان ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ کچھ بھی نہیں ہے ، بس ایک ٹاٹ ہے جس کا کچھ حصہ ہم (بطور فرش کے) بچھا لیتے ہیں اور کچھ حصہ اوڑھ لیتے ہیں اور اس کے علاوہ بس ایک پیالہ ہے جو پانی پینے کے کام آتا ہے ۔ آپ ﷺ نے فریاما کہ یہ دونوں چیزیں لے آؤ ، وہ لے آئے ، آپ ﷺ نے حاضرین کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ دونوں چیزیں بکتی ہیں ، آپ لوگوں میں سے کون ان کا خریدار ہے ۔ ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت میں ایک درہم میں دونوں چیزیں لے سکتا ہوں ؟ آپ ﷺ نے فریاما “ من يزيد ” (یعنی جو کوئی اس سے زیادہ قیمت میں خریدنے والا ہو ، وہ بولے !) ابو داؤد کی روایت میں ہے کہ یہ بات آپ ﷺ نے ۲ ، ۳ دفعہ فرمائی تو ایک صاحب نے دو درہم نکال کر حضور ﷺ کو پیش کر دئیے تو آپ ﷺ نے دونوں چیزیں ان کو دے دیں ۔ اور جو دو درہم انہوں نے دئیے تھے وہ آپ ﷺ نے ان انصاری صحابی کو دئیے اور فرمایا کہ ان میں سے ایک درہم کا تو کھانے پینے کا کچھ سامان خرید کے اپنے گھر والوں کو دے دو اور دوسرے درہم سے ایک کلہاڑی خرید کے میرے پاس لے آؤ ، انہوں نے ایسا ہی کیا اور کلہاڑی خرید کے حضور ﷺ کی خدمت میں لے آئے ، آپ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے اس میں لکڑی کا دستہ لگایا اور ان سے کہا کہ یہ کلہاڑی لے کے جنگل نکل جاؤ ، لکڑیاں لاؤ اور بیچو ! حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے ان کو یہ بھی تاکید فرمائی کہ اب ۱۵ دن تک ہرگز میرے پاس نہ آؤ (یعنی زیادہ وقت محنت اور کمائی ہی میں صرف کرو) انہوں نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ اس محنت اور کمائی کے نتیجہ میں ان کے پاس دس درہم جمع ہو گئے اس سے انہوں نے گھر والوں کے لئے غذائی سامان اور کچھ کپڑا وغیرہ خریدا اس کے بعد حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ یہ محنت کر کے گزارا کرنا تمہارے لئے اس سے بہتر ہے کہ سائل بن کر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاؤ اور قیامت میں تمہارے چہرے پر اس کا داغ اور نشان ہو ۔ اس حدیث میں امت کے لئے کتنی عظیم رہنمائی ہے ، کاش ہم اس سے سبق لیتے ۔
زیادہ نفع کمانے کے لئے ذخیرہ اندوزی کی ممانعت
حضرت معمر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو تاجر احتکار کرے (یعنی غلہ وغیرہ ضروریات زندگی کا ذخیرہ عوام کی ضرورت کے باوجود مہنگائی کے لئے محفوظ رکھے) وہ خطاکار گنہگار ہے ۔ (صحیح مسلم) تشریح جس طرح ہمارے زمانہ میں بہت سے تاجر غلہ وغیرہ ضروریات زندگی کی ذخیرہ اندوزی کر کے مصنوعی قلت پیدا کر دیتے ہیں جس کے نتیجہ میں مہنگائی اور گرانی بڑھ جاتی ہے اور عام صارفین پر بوجھ پڑتا ہے اور ان کے لئے گزارہ دشوار ہو جاتا ہے ، اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بھی کچھ تاجر ایسا کرتے تھے (اور غالباً اس کو کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے) لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس کو سختی سے منع فرمایا اور گناہ قرار دیا ۔ عربی زبان میں اس کو “احتکار” کہا جاتا ہے ۔
زیادہ نفع کمانے کے لئے ذخیرہ اندوزی کی ممانعت
حضرت عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ : جالب (یعنی غلہوغیرہ باہر سے لا کر بازار میں بیچنے والا تاجر) مرزوق ہے (یعنی اللہ تعالیٰ اس کے رزق کا کفیل ہے) اور محتکر (یعنی مہنگائی کے لئے ذخیرہ اندوزی کرنے والا) ملعون ہے (یعنی اللہ کی طرف سے پھٹکارا ہوا اور اس ی رحمت و برکت سے محروم ہے) ۔ (سنن ابن ماجہ ، مسند دارمی) تشریح رسول اللہ ﷺ کی تعلیم اور آپ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کا رُخ یہ ہے کہ معاشی نظام ایسا ہو جس میں عوام خاص کر غربا یعنی کم آمدنی والوں کو زندگی گزارنا دشوار نہ ہو ، تجارت پیشہ اور دولت مند طبقہ زیادہ نفع اندوزی اور اپنی دولت میں اضافہ کے بجائے عوام کی سہولت کو پیش نظر رکھے اور اس مقصد کے لئے کم نفع پر قناعت کر کے اللہ کی رضا و رحمت اور آخرت کا اجر حاصل کرے ۔ اگر ایمان و یقین نصیب ہو تو بلاشبہ یہ تجارت بڑی نفع بخش ہے ۔
“تَسْعِيْر” یعنی قیمتوں پر کنٹرول کا مسئلہ
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایک دفعہ) مہنگائی بڑھ گئی ، تو لوگوں نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ حضرت (ﷺ) آپ نرخ مقرر فرما دیں (اور تاجروں کو اس کا پابند کر دیں) تو آپ ﷺ نے فریاما : کہ نرخ کم و بیش کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے ، وہی تنگی یا فراخی کرنے والا ہے ، وہی سب کا روزی رساں ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملوں کہ کوئی مجھ سے جان و مال کے ظلم اور حق تلفی کا مطالبہ کرنے والا نہ ہو ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ ، مسند دارمی) تشریح کبھی حالات کا تقاضا ہوتا ہے کہ غذا جیسی ضروری اشیاء کی قیمتوں پر حکومت کی طرف سے یا کسی بااختیار ادارہ کی طرف سے کنٹرول کیا جائے اور تاجروں کو من مانے طریقہ پر زیادہ نفع خوری کی اجازت نہ دی جائے ، تاکہ عوام خاص کر غربا کو زیادہ تکلیف نہ پہنچے ۔ اسی کو عربی زبان میں تسعیر کہا جاتا ہے ۔ یہاں اسی سے متعلق رسول اللہ ﷺ کا ایک ارشاد درج کیا جا رہا ہے ۔ تشریح .....اس حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے بعض صحابہ کی طرف سے مہنگائی کی شکایت اور تسعیر (یعنی قیمتوں پر کنٹرول) کی درخواست کرنے کے باوجود اپنے لئے اس کو مناسب نہیں سمجھا اور اندیشہ ظاہر فرمایا کہ اس طرح کے حکم سے کسی پر زیادتی اور کسی کی حق تلفی نہ ہو جائے ۔ یہاں یہ بات قابل لحاظ ہے کہ غلہ وغیرہ کی گرانی اور مہنگائی کبھی قحط اور پیداوار کی کمی جیسے قدرتی اسباب کی وجہ سے ہوتی ہے اور کبھی تاجر اور کاروباری لوگ زیادہ نفع کمانے کے لئے مصنوعی قلت کی صورت پیدا کر کے قیمتیں بڑھا دیتے ہیں ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں حضور ﷺ کا جو جواب ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کی گرانی قدرتی اسباب کی پیدا کی ہوئی تھی ، تاجروں کی نفع اندوزی کا اس میں دخل نہیں تھا اس لئے آپ ﷺ نے کنٹرول نافذ کرنا مناسب نہیں سمجھا اور آپ ﷺ کو خطرہ ہوا کہ تاجروں پر زیادتی نہ ہو جائے ۔ اس سے یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر حاکم وقوت یقین کے ساتھ محسوس کرے کہ تاجروں کی طرف سے عام صارفوں پر زیادتی ہو رہی ہے اور افہام تفہیم اور نصیحت سے تاجر اپنے رویہ کی اصلاح نہیں کرتے تو وہ قیمتیں مقرر کر کے کنٹرول نافذ کر سکتا ہے ۔ بقول حضرت شاہ ولی اللہؒ تاجروں کو ظالمانہ نفع اندوزی کی چھوٹ دینا تو فساد فى الارض اور اللہ کی مخلوق پر تباہی لانا ہے ۔ (1) ....... لیکن بہرحال حضرت انس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کا مقتضی یہی ہے کہ حتی الوسع اس سے بچا جائے اور یہ قدم اسی وقت اٹھایا جائے جب تاجروں کی طرف سے نفع اندوزی کے جذبہ کے تحت عوام کے ساتھ کھلی زیادتی ہو رہی ہو اور تسعیر کی کارروائی ناگزیر ہو جائے ۔ امام مالک نے مؤطا میں حضرت سعید بن المسیب تابعی کی روایت سے نقل کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ کے بازار میں حاطب بن ابی بلتعہ صحابی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ خشک انگور (یعنی منقی) ایسے نرخ پر فروخت کر رہے ہیں جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک نامناسب حد تک گراں ہے ، تو آپ نے ان سے فرمایا : إِمَّا أَنْ تَزِيدَ فِي السِّعْرِ، وَإِمَّا أَنْ تَرْفَعَ مِنْ سُوقِنَا (2) یا تو تم بھاؤ بڑھاؤ (یعنی قیمت مناسب حد تک کم کرو) یا پھر اپنا مال ہمارے بازار سے اُٹھا لو ۔ شریعت کے عام قواعد اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس اثر ہی کی روشنی میں علماء محققین نے یہ رائے قائم کی ہے کہ اگر حالات کا تقاضا ہو تو عوام کو تاجروں کے استحصال سے بچانے کے لئے حکومت کی طرف سے ضروری اشیاء کی قیمتیں مقرر کر دینی چاہئیں اور کنٹرول نافذ کر دینا چاہئے ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بھی اپنے بعض رسائل میں یہی رائے ظاہر کی ہے ۔
خرید و فروخت کا معاملہ فسخ کرنے کا اختیار
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : معاملہ بیع کے دونوں فریقوں کو (فسخ کرنے کا) اختیار ہے جب تک کہ وہ جدا نہ ہوں ، سوائے خیار شرط والی بیع کے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح خرید و فروخت کے معاملہ میں اگر دونوں فریق (بیچنے والا اور خریدنے والا) یا دونوں میں سے کوئی ایک یہ شرط کر لے کہ ایک دن یا دو تین دن تک مجھے اختیار ہو گا کہ میں چاہوں تو اس معاملہ کو فسخ کر دوں تو شرعاً جائز ہے ۔ اور شرط کرنے والے فریق کو فسخ کر دینے کا اختیار ہو گا ۔ فقہ کی اور شریعت کی اصطلاح میں اس کو “خیار شرط” کہا جاتا ہے ، اس کا ھدیث میں صراحۃً ذکر ہے اور اس پر فقہا کا اتفاق ہے ۔ امام شافعیؒ اور بعض دوسرے ائمہ کے نزدیک اس طرح کی شرط اور قرارداد کے بغیر بھی فریقین کو معاملہ فسخ کرنے کا اس وقت تک اختیار رہتا ہے جب تک وہ دونوں اسی جگہ رہیں جہاں سودا طے ہوا ہے ۔ لیکن اگر کوئی ایک بھی اس جگہ سے ہٹ جائے اور علیحدہ ہو جائے تو یہ اختیار ختم ہو جائے گا ۔ اس کو فقہ کی زبان میں “خیار مجلس” کہا جاتا ہے ، امام ابو حنیفہؒ اور بعض دوسرے ائمہ اس “خیار مجلس” کے قائل نہیں ہیں ۔ اس بارے میں ان کا مسلک یہ ہے کہ خرید و فروخت کی بات جب فریقین کی طرف سے بالکل طے ہو گئی اور سودا پکا ہو گیا اور لین دین بھی ہو گیا تو اگر پہلے سے کسی فریق نے بھی فسخ کے اختیار کی شرط نہیں لگائی ہے تو اب کوئی فریق بھی یک طرفہ طور پر معاملہ فسخ نہیں کر سکتا ، ہاں باہمی رجامندی سے معاملہ فسخ کیا جا سکتا ہے جس کو شریعت کی اور فقہ کی زبان میں “اقالہ” کہا جاتا ہے ۔ تشریح ..... مطلب یہ ہے کہ اگر کسی فریق کی طرف سے بھی فسخ کرنے کے اختیار کی شرط نہیں لگائی گئی ہے تو معاملہ فسخ کرنے کا اختیار صرف اس وقت تک ہے جب تک دونوں فریق جدا نہ ہوں ۔ امام شافعیؒ اور ان کے ہم خیال ائمہ نے اس حدیث کے لفظ “مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا” سے خیار مجلس سمجھا ہے ۔ اور امام ابو حنیفہؒ وغیرہ کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک بات بالکل ختم اور طے نہ ہو جائے اس وقت تک ہر فریق کو اختیار ہے کہ وہ اپنی پیش کش واپس لے لے ، اس کے بعد کسی کو فسخ کرنے کا اختیار نہ رہے گا ۔ وہ “تفرق” سے مکانی علیحدگی نہیں بلکہ معاملاتی اور قولی علیحدگی و جدائی مراد لیتے ہیں ، جیسا کہ قرآن مجید میں یہی لفظ اس معنی میں آیت “ وَإِن يَتَفَرَّقَا يُغْنِ اللَّـهُ كُلًّا مِّن سَعَتِهِ” میں طلاق کے سلسلہ میں استعمال کیا گیا ہے ۔
خرید و فروخت کا معاملہ فسخ کرنے کا اختیار
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خرید اور فروخت کرنے والے دونوں فریقوں کو اس وقت تک اختیار ہے جب تک باہم جدا نہ ہوں (اس کے بعد اختیار نہیں) سوائے اس صورت کے کہ (شرط لگا کے) اختیار کر لیا گیا ہو ۔ دونوں میں سے کسی کے ئے جائز نہیں ہے کہ اقالہ اور واپسی کے خطرہ کی وجہ سے دوسرے سے جدا ہو ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن نسائی) تشریح اس حدیث کا مدعا بھی وہی ہے جو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی مندرجہ بالا حدیث کا ہے کہ معاملہ بیع کے دونوں فریقوں (بائع و مشتری) کو اس وقت تک معاملہ فسخ کرنے کا اختیار ہے جب تک وہ متفرق اور جدا نہ ہوں ۔ جدا ہونے کے بعد صرف اسی صورت میں فسخ کا اختیار ہو گا جب شرط کے طور پر یہ طے کر لیا گیا ہو ۔ اس کے آگے اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی یہ ہدایت بھی ہے کہ فریقین میں سے کوئی بھی اس خطرہ کی وجہ سے الگ اور جدا نہ ہو کہ وہ اپنی بات واپس لے کر معاملہ فسخ نہ کر دے ”۔
خیار عیب ، یعنی عیب کی وجہ سے معاملہ فسخ کرنے کا اختیار
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کسی دوسرے سے ایک غلام خریدا ، اور وہ (کچھ دن) جتنے اللہ نے چاہا اس کے پاس رہا ، پھر اسے معلوم ہوا کہ غلام میں ایک عیب ہے ، تو وہ شخص اس معاملہ کو لے کر حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچا اور آپ ﷺ سے فیصلہ چاہا ، تو آپ ﷺ نے (اس عیب کی بنیاد پر) غلام واپس کر دینے کا فیصلہ فرما دیا ۔ مدعا علیہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ اس بھائی نے (اتنے دن تک) میرے غلام سے کام لیا ہے اور فائدہ اٹھایا ہے (لہٰذا مجھے اس کا معاوضہ بھی ملنا چاہئے) آپ ﷺ نے ارشاد فریاما “الْخَرَاجُ بِالضَّمَانِ” (یعنی نفع کا مستحق وہی ہے جو نقصان کا ضامن ہے) ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ) تشریح خرید و فروخت کا معاملہ فسخ کرنے کی اختیار کی دو صورتوں کا ذکر مندرجہ بالا حدیثوں میں آ چکا ہے ایک “خیارِ شرط” دوسرے “خیار مجلس” ایک تیسری شکل یہ ہے کہ خریدی ہوئی چیز میں کوئی عیب معلوم ہو جائے جو پہلے معلوم نہیں تھا ، اس صورت میں بھی خریدار کو معاملہ فسخ کرنے کا اختیار ہو گا ، اس کی ایک مثال وہ ہے جو حضرت عائشہؓ کی مندرجہ ذیل حدیث میں ذکر کی گئی ہے ۔ تشریح ..... حدیث کے آخر میں آپ ﷺ کا ارشاد “الْخَرَاجُ بِالضَّمَانِ” شریعت کے ان اصولی قواعد میں سے ہے جن سے فقہاء نے سینکڑوں مسئلوں کا حکم نکالا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ منفعت کا مستحق وہی ہوتا ہے جو نقصان کا ذمہ دار ہوتا ہے ۔ اگر بالفرض غلام خریدنے والے کے پاس یہ مر جاتا یا کسی حادثہ سے اس کا کوئی عضو ٹوٹ پھوٹ جاتا تو یہ نقصان خریدنے والے ہی کا ہوتا ۔ اس لئے ان دونوں میں جو فائدہ خریدنے والے نے غلام سے اٹھایا وہ اس کا حق تھا لہذا اس کے معاوضے کا کوئی سوال نہیں ۔ یہاں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ بھی قابلِ ذکر ہے جس کو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے موطا میں نقل کیا ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اپنا ایک غلام آٹھ سو درہم میں کسی شخص کے ہاتھ بیچا اور یہ وضاحت کر دی کہ اس غلام میں کوئی عیب نہیں ہے ۔ بعد میں غلام خریدنے والے نے کہا کہ اس کو فلاں بیماری ہے جس کے بارے میں آپ نے بتلایا نہیں تھا (حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے غالبا کہا کہ یہ بیماری اس کو میرے ہاں نہیں تھی) بہرحال یہ مقدمہ خلیفہ وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی عدالت میں پیش ہوا ۔ آپؓ نے معاملہ سن کے (اور یہ دیکھ کے کہ خریدار اس بات کے گواہ پیش نہیں کر سکتا کہ غلام کو یہ بیماری پہلے سے تھی) قانونِ شریعت کے مطابق حضرت ابنِ عمرؓ سے کہا کہ آپ قسم کے ساتھ یہ بیان دے دیں کہ غلام کو یہ مرض آپ کے ہاں نہیں تھا ۔ حضرت ابنِ عمرؓ نے قسم کے ساتھ یہ بیان دینے سے معذرت کر دی اور اپنا غلام واپس لے لیا ۔ پھر اللہ نے کیا کہ بیماری کا اثر ختم ہو کے غلام بالکل صحیح تندرست ہو گیا اور اس کے بعد وہی غلام حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہ نے پندرہ سو درہم میں فروکت کیا ۔ ائمہ فقہاء کا اس مسئلہ پر اتفاق ہے کہ اگر خریدی ہوئی چیز میں کوئی عیب نکل آئے (جس کی وجہ سے اس کی قیمت اور حیثیت کم ہو جائے) تو یہ ثابت ہو جانے پر کہ یہ عیب خرید و فروخت کے معاملے سے پہلے کا ہے ، خریدار کو معاملہ فسخ کر دینے اور خریدی ہوئی چیز واپس کر کے اپنی ادا کی ہوئی قیمت واپس لینے کا اختیار ہے ۔ اسی کو “خیار عیب” کہا جاتا ہے ۔
اِقالہ یعنی بیع کا معاملہ مکمل ہو جانے کے بعد فسخ اور واپسی
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جو بندہ اپنے کسی مسلمان بھائی کے ساتھ اقالہ کا معاملہ کرے (یعنی اس کی بیچی یا خریدی ہوئی چیز کی واپسی پر راضی ہو جائے) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی غلطیاں (یعنی اس کے گناہ) بخش دے گا ۔ (سنن ابو داؤد ، سنن ابن ماجہ) تشریح کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دو شخصوں کے درمیان کسی چیز کی بیع کا معاملہ ہوا اور فریقین کی طرف سے بات بالکل ختم ہو گئی لین دین بھی ہو گیا ، اس کے بعد کسی ایک نے اپنی مصلحت سے معاملہ فسخ کرنا چاہا ، مثلاً خریدار نے جو چیز خریدی تھی اس کو واپس کرنا چاہا یا بیچنے والے نے اپنی چیز واپس لینی چاہی تو اگرچہ قانونِ شریعت کی رو سے دوسرا فریق مجبور نہیں ہے کہ وہ اس کے لئے راضی ہو لیکن رسول اللہ ﷺ نے اخلاقی انداز میں اس کی اپیل کی ہے اور اس کو بہت بڑی نیکی قرار دیا ہے ۔ شریعت کی زبان میں اسی کو “اقالہ” کہا جاتا ہے ۔ تشریح ..... کسی چیز کو خرید کر یا بیچ کر آدمی واپس کرنا یا واپس لینا جب ہی چاہتا ہےجب محسوس کرتا ہے کہ مجھ سے غلطی ہو گئی ، میں اس معاملہ میں نقصان اور خسارہ میں رہا اور دوسرا فریق نفع میں رہا ۔ اس صورت میں دوسرے فریق کا معاملہ فسخ کر کے واپسی پر راضی ہو جانا بلاشبہ ایثار ہو گا ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس ارشاد میں اس ایثار ہی کی ترغیب دی ہے اور ایسا کرنے والے کو بشارت سنائی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے بدلے قیامت میں اس کے قٓصوروں اور گناہوں سے دَرگزر فرمائے گا ۔ بلاشبہ بڑا نفع بخش ہے یہ سودا ۔
سودا گروں کو قسمیں کھانے کی ممانعت
حضرت ابو قتادہپ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : بیع و فروخت میں زیادہ قسمیں کھانے سے بہت بچو کیونکہ اس سے (اگر بالفعل) دکانداری خوب چل جاتی ہے لیکن بعد میں یہ برکت کھو دیتی ہے ۔ (صحیح مسلم) تشریح بعض سودا گر اور دکاندار اپنا سودا بیچنے کے لئے بہت قسمیں کھاتے ہیں اور قسموں کے ذریعے گاہک کو خریداری پر آمادہ کرنا چاہتے ہیں ، یہ اللہ تعالیٰ کے نام پاک کا بہت بےجا استعمال ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ارشادات میں اس سے منع فرمایا اور اس کو بےبرکتی کا موجب بتلایا ہے ۔ تشریح ..... اس حدیث میں سودا گروں ، دکانداروں کو زیادہ قسمیں کھانے کی بری عادت سے بچنے کی تاکید فرمائی گئی ہے اور اس کو بےبرکتی کا موجب بتلایا گیا ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ سودا بیچنے کے لئے کثرت سے قسم کھانا اگرچہ وہ قسم جھوٹی نہ ہو سچی ہو ، اللہ تعالیٰ کے باعظمت نام کا بہت نامناسب استعمال ہے ۔ اور جھوٹی قسم کھانا تو ایک دفعہ بھی گناہِ عظیم ہے ۔ صحیح مسلم ہی کی ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ جو سودا گر جھوٹی قسم کھا کر اپنا کاروبار چلاتا ہے وہ ان مجرمین میں شامل ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ “لَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّـهُ وَلَا يَنظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ” (یعنی قیامت میں ان کو اللہ تعالیٰ اپنی ہم کلامی کی لذت و عزت سے اور نگاہِ رحمت و نظر عنایت سے محروم رکھے گا اور فسقق و فجور کی نجاست سے ان کو پاک نہیں کیا جائے گا ، ان کا حصہ بس خدا کا درد ناک عذاب ہو گا ۔
دکانداری میں قسمیں کھانے اور دوسری نامناسب باتوں کا کفارہ
قیس بن غزرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :“اے معشر تجار” (اے سودا گرو !) بیع مین لغو اور بےفائدہ باتیں بھی ہو جاتی ہیں اور قسم بھی کھائی جاتی ہے تو (اس کے علاج اور کفارہ کے طور پر) اس کے ساتھ صدقہ ملا دیا کرو ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ) تشریح یہ واقعہ ہے کہ اپنا سودا بیچنا اور گاہک کو خریداری پر آمادہ کرنے کے لئے بہت سے دکاندار قسمیں بھی کھاتے ہیں اور اس کے علاوہ اور بھی ایسی باتیں کرتے ہین جو اللہ کے نزدیک لغو و لایعنی اور ناپسندیدہ ہوتی ہیں اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس ارشاد میں ہدایت فرمائی کہ اس کے کفارہ کے طور پر تاجر لوگ صدقہ (یعنی فی سبیل اللہ غربا اور مساکین وغیرہ کی خدمت و اعانت) کو اپنے کاروبا ر میں شامل کر لیں ، یہ ان شاء اللہ حُبِ مال کی اس بیماری کا علاج بھی ہو گا جو کاروباری لوگوں سے ناپسندیدہ باتیں اور غلط کام کراتی ہے ۔
اگر تجارت نیکی سچائی اور تقوے کے ساتھ نہیں تو حشر بہت خراب
حضرت رفاعہ بن رافع انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : تاجر لوگ سوائے ان کے جنہوں نے (اپنی تجارت میں) تقویٰ اور نیکی اور سچائی کا رویہ اختیار کیا ۔ قیامت میں فاجر اور بدکار اٹھائے جائیں گے ۔ تشریح اس حدیث میں ان لوگوں کے لئے بڑی سخت وعید اور آگاہی ہے خوفِ خدا ، احکام شریعت اور سچائی و نیکوکاری سے آزاد ہو کر تجارت اور سوداس گری کرتے ہیں اور جھوٹ سچ ، جس طرح بھی ہو سکے بس اپنی دولت میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ قیامت کے دن ان کا حشر “فاجروں” یعنی بدکار مجرموں کی حیثیت سے ہو گا اور اسی حیثیت سے بارگاہِ خداوندی میں ان کی پیشی ہو گی ۔ اللہ کی پناہ ؟ اس کے برخلاف جو تجارت پیشہ بندے اپنی تجارت اور کاروبار میں آخرت کے انجام کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے سچائی اور دیانت داری کی پابندی کے ساتھ تجارت اور کاروبار کریں ان کو رسول اللہ ﷺ نے خوش خبری سنائی ہے کہ : “وہ قیامت میں انبیاء علیہم السلام ، صدیقین اور شہداء کرام کے ساتھ ہوں گے” ۔ یہ حدیث جامع ترمذی اور سنن دارمی وغیرہ کے حوالہ سے (اسی سلسلہ معارف الحدیث میں) کچھ ہی پہلے درج ہو چکی ہے اور وہاں اس کی تشریح بھی کی جا چکی ہے ۔
مکان وغیرہ جائیداد کی فروخت کے بارے میں ایک مشفقانہ ہدایت
حضرت سعید بن حریث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے کہ تم میں سے جو کوئی اپنا گھر یا جائداد بیچے تو سزاوار ہے کہ اس کے اس عمل میں برکت و فائدہ نہ ہو ۔ البتہ اگر وہ اس کی قیمت کو اسی طرھ کی کسی جائداد میں لگا دے تو پھر ٹھیک ہے ۔ (سنن ابن ماجہ ، مسند دارمی) تشریح مکان باغ یا کاشت کی زمین جیسی غیر منقولہ چیزوں کی یہ خصوصیت ہے کہ نہ ان کو کوئی چرا سکتا ہے نہ ان پر اس طرح کے دوسرے حادثے آ سکتے ہیں جو اموالِ منقولہ پر آتے ہیں دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ بغیر کسی خاص ضرورت اور مصلحت کے ان چیزوں کو فروخت نہ کیا جائے اور اگر فروخت کیا جائے تو بہتر یہ ہو گا کہ اس قیمت سے کوئی غیر منقولہ جائیداد ہی خریدی جائے ۔ رسول اللہ ﷺ کو امت کے حال پر شفقت تھی اس کی بناء پر آپ ﷺ نے اس طرھ کے مشورے بھی دئیے ہیں ۔ مندرجہ ذیل حدیث اسی قبیل سے ہے ۔ تشریح ..... جیسا کہ اوپر تمہید میں عرض کیا گیا کہ حضور ﷺ کے اس ارشاد کی حیثیت ایک مشفقانہ ہدایت اور مشورہ کی ہے ۔ یہ شرعی مسئلہ نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم امتیوں کو حضور ﷺ کے اس طرح کے مشفقانہ مشوروں ، بلکہ اشاروں پر بھی چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
کاروبار میں شرکت کا جواز اور دیانت داری کی تاکید
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : اللہ عز وجل ارشاد فرماتا ہے کہ جو دو آدمی شرکت میں کاروبار کریں تو تیسرا میں ان کے ساتھ ہوتا ہوں (یعنی میری رحمت اور برکت ان کے ساتھ ہوتی ہے) جب تک ان میں سے کوئی اپنے ساجھے دار کے حق میں خیانت اور بددیانتی نہ کر لے ۔ پھر جب کسی شریک کی طرف سے خیانت اور بددیانتی کا صدور ہوتا ہے تو میں ان سے الگ ہو جاتا ہوں (اور وہ میری معیت کی برکت سے محروم ہو جاتے ہیں) ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح لماء و مصنفین کی اصطلاح کے مطابق یہ “حدیث قدسی” ہے کیوں کہ اس میں رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کا ارشاد نقل فرمایا ہے ۔ اس سے ضمناً یہ بھی معلوم ہو گیا کہ تجارت اور کاروبار میں شرکت جائز ہے ۔ بلکہ باعثِ برکت بھی ہے ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تجارت اور کاروبار کی شرکت ہی کے باب میں زہرہ بن معبد تابعی کی روایت سے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ میرے دادا عبداللہ بن ہشام کو ان کے بچپن ہی میں ، ان کی والدہ (زینب بنت حمید) حضور ﷺ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئیں اور درخواست کی کہ حضرت میرے اس بچے کو بیعت فرما لیں ، آپ ﷺ نے فریاما کہ “هو صغير” یعنی یہ ابھی بہت کم عمر ہے ، اور آپ نے ان کے سر پر اپنا دَست مبارک پھیرا اور ان کے لئے دعا فرمائی (آگے زہرہ بن معبد بیان کرتے ہیں کہ) پھر میرے یہ دادا عبداللہ بن ہشام جب تجارت اور کاروبار کرنے لگے تو میں ان کے ساتھ بازار اور منڈی جایا کرتا تھا تو بسا اوقات ایسا ہوتا کہ وہ تجارت کے لئے غلہ کی خریداری کرتے تو حضرت عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر (دونوں بزرگ صحابی) ان کو ملتے اور ان سے کہتے کہ ہم کو بھی شریک کر لو اور حصہ دار بنا لو کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے تمہارے لئے برکت کی دعا فرمائی تھی (تو اس دعا کی برکت سے ان شاء اللہ خوب نفع ہو گا) تو میرے داد عبداللہ بن ہشام سودے میں ان دونوں صاحبوں کو بھی شریک کر لیتے تھے ، تو بسا اوقات اتنا نفع ہوتا کہ پورا ایک اونٹ بھر غلہ نفع سے بچ جاتا جس کو وہ اپنے گھر بھیج دیتے ۔ (صحیح بخاری کتاب الشرکۃ)
تجارت اور کاروبار میں کسی کو وکیل بنانا بھی جائز ہے
عروہ بن ابی الجعد بارقی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو اس مقصد سے ایک دینار دیا کہ وہ آپ کے لئے ایک بکری خرید لائیں وہ گئے اور انہوں نے اس ایک دینار کی دو بکریاں خرید لیں ۔ پھر ان میں سے ایک ، ایک ، دینار کی بیچ دی اور واپس آ کر حضور ﷺ کی خدمت میں ایک بکری بھی پیش کر دی اور ایک دینار بھی (اور واقعہ بتلا دیا) تو آپ ﷺ نے ان کے واسطے (خاص طور سے) خرید و فروخت میں یعنی تجارت میں برکت کی دعا فرمائی ۔ راوی کہتے ہیں کہ اس دعا کی برکت سے ان کا حال یہ تھا کہ اگر مٹی بھی خرید لیتے تو اس میں بھی ان کو نفع ہو جاتا ۔ (صحیح بخاری) تشریح عروہ بن ابی الجعد بارقی نے بکریوں کی یہ خرید و فروخت رسول اللہ ﷺ کی طرف سے آپ کے وکیل کی حیثیت سے کی تھی اس سے معلوم ہوا کہ ایسا کرنا جائز ہے ۔ اور چونکہ پہلے خریدی ہوئی دو بکریوں میں سے ایک حضور ﷺ سے اجازت لئے بغیر فروخت کر دی اور حضور ﷺ نے ان کے اس فعل کو غلط اور خلافِ شریعت قرار نہیں دیا بلکہ شاباشی اور دعا دی تو اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ وکیل اپنے موکل کی چیز اس کی اجازت کے بغیر بھی فروخت کر سکتا ہے اور موکل اگر اس کو قبول کر لے تو وہ بیع جائز اور نافذ ہو گی ۔
تجارت اور کاروبار میں کسی کو وکیل بنانا بھی جائز ہے
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو ایک دینار دے کر اس کام کے لئے بھیجا کہ وہ آپ کے لئے قربانی کا جانور خرید لائیں ۔ تو انہوں نے اس دینار سے ایک مینڈھا (یا دنبہ) خرید لیا اور پھر وہیں اس کو (کسی خریدار کے ہاتھ) دو دینار میں فروخت کر دیا ، پھر لوٹے اور ان میں سے ایک دینار میں قربانی کا جانور خرید لیا اور آ کر حضور ﷺ کی خدمت میں قربانی کے جانور کے ساتھ وہ دینار بھی پیش کر دیا جو دوسرا جانور (یعنی پہلا خریدا ہوا مینڈھا یا دنبہ) فروخت کر کے بچا لیا تھا ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے وہ دینار صدقہ کر دیا اور حکیم بن حزام کے لئے تجارت اور کاروبار میں برکت کی دعا فرمائی ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد) تشریح حکیم بن حزام کی اس حدیث کا مضمون بھی قریب قریب وہی ہے جو اس سے پہلے والی حضرت عروہ بارقیؓ کی حدیث کا ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہ دونوں الگ الگ واقعے ہیں اور دونوں ہی سے وہ مسئلہ معلوم ہو جاتا ہے جو اس سے پہلے والی حدیث کی تشریح میں ذکر کیا گیا ۔
اجارہ (یعنی مزدوری اور کرایہ داری)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ نے جتنے بھی پیغمبر بھیجے سب نے بکریاں چرائی ہیں ، صحابہؓ نے عرض کیا اور حضرت آپ نے ؟ فرمایا کہ ہاں میں نے بھی بکریاں چرائی ہیں ، میں چند قیراط پر اہلِ مکہ کی بکریاں چرایا کرتا تھا ۔ (صحیح بخاری) تشریح کسی کو اجرت اور مزدوری دے کر اپنا کام کرانا ، یا استعمال کے لئے کسی کو اپنی چیز دے کر اس کا کرایہ لینا ۔ شریعت اور فقہ کی زبان میں اس کو “اجارہ” کہا جاتا ہے اور یہ ان معاملات میں سے ہے جن ر انسانی تمدن کی بنیاد قائم ہے ۔ اس موضوع سے متعلق چند حدیثیں ذیل میں درج کی جا رہی ہیں ۔ تشریح ..... حضور ﷺ نے اس حدیث میں چند قیراط مزدوری پر مکہ والوں کی بکریاں چرانے کا اپنا جو واقعہ بیان فرمایا ہے یہ غالباً ابتدائی عمر کا ہے جب آپ ﷺ اپنے چچا خواجہ ابو طالب کے ساتھ رہتے تھے تو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے مزدوری پر مکہ والوں کی بکریاں چراتے تھے جس کے عوض آپ ﷺ کو چند قیراط مل جاتے تھے ۔ یہی اس زمانہ میں آپ ﷺ کا ذریعہ معاش تھا ۔ ایک قیراط ، درہم کا قریباً بارہواں حصہ ہوتا تھا ۔ بکریاں چرانا بڑا صبر آزما کام ہے اور اگر آدمی میں صلاحیت ہو تو اس سے اس کی بڑی تربیت ہوتی ہے ۔ غرور اور تکبر جیسے رزائل کا علاج ہوتا ہے ، صبر کی اور غصہ پینے کی عادت پڑتی ہے اور شفقت و ترحم کی مشق ہوتی ہے ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کے سب پیغمبروں نے یہ کورس پورا کیا ہے ۔ ضمنی طور پر یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اس طرح کی مزدوری نہ صرف جائز بلکہ سنتِ انبیاء ہے ۔
اجارہ (یعنی مزدوری اور کرایہ داری)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کر دیا کرو ۔ (سنن ابن ماجہ) تشریح مطلب یہ ہے کہ اجر اور مزدور جب تمہارا کام پورا کر دے تو اس کی مزدوری فوراً ادا کر دی جائے تاخیر بالکل نہ کی جائے ۔
لگان یا بٹائی پر زمین دینا
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (فتحِ خبیر کے بعد) خیبر کی زمین وہاں کے یہودیوں کے سپرد کر دی اور اس شرط پر کہ وہ محنت کریں اور کاشت کریں اور پیداوار کا نصف حصہ ان کا ہو ۔ (صحیح بخاری) تشریح اجارہ ہی کی ایک صورت یہ ہے کہ اپنی زمین کسی کو دی جائے کہ وہ اس سے کاشت کرے اور طے شدہ کرایہ نقد کی شکل میں ادا کرے جس کو زرِ لگان کہا جاتا ہے یا بجائے نقد لگان کے بٹائی طے ہو جائے کہ پیداوار کا اتنا حصہ زمین کے مالک کو دیا جائے ۔ مندرجہ ذیل حدیثوں کا تعلق ان دونوں صورتوں سے ہے ۔ تشریح ..... یہ حدیث الفاظ کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ صحیح مسلم میں بھی ہے اس میں صراحت کے ساتھ اس کا بھی ذکر ہے کہ کاشت والی زمینوں کے علاوہ خیبر کے نخلستان بھی رسول اللہ ﷺ نے اس شرط پر وہاں کے یہودیوں کے سپر کر دئیے تھے کہ ان کی پیداوار کا نصف ان کو ملے گا ۔ یہ گویا بٹائی والا معاملہ تھا ۔
لگان یا بٹائی پر زمین دینا
عمرو بن دینار تابعی نے فرمایا کہ میں نے جناب طاؤس (تابعی) سے ایک بار کہا کہ آپ بٹائی (یا لگان) پر زمین اُٹھانا چھوڑ دیتے تو اچھا ہوتا ، کیوں کہ لوگوں کا خیال ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا تھا ، تو انہوں نے فرمایا کہ میرا طریقہ یہ ہے کہ میں کاشت کاروں کو کاشت کے لئے زمین بھی دیتا ہوں اور اس کے علاوہ بھی ان کی مدد کرتا ہوں ۔ اور امت کے بڑے عالم یعنی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے مجھ کو بتلایا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے زمین کو بٹائی یا لگان پر اٹھانے سے منع نہیں فرمایا تھا ۔ البتہ یہ فرمایا تھا کہ اپنی زمین اپنے دوسرے بھائی کو کاشت کے لئے (بغیر کسی معاوضہ کے) دے دینا اس سے بہتر ہے کہ اس پر کوئی مقررہ لگان وصول کرے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح عمرو بن دینار کی اس روایت سے معلوم ہوا کہ صحابہ و تابعین کے زمانہ میں کچھ حضرات کا خیال تھا کہ اپنی مملوکہ زمین کی بٹائی یا لگان پر اٹھانا درست نہیں ۔ لیکن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے مشہور شاگرد اور فیض یافتہ طاؤس نے حضرت ابنِ عباسؓ سے یہ وضاحت نقل کی کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کو ناجائز قرار نہیں دیا تھا بلکہ اخلاقی طور پر فرمایا تھا کہ اپنے کسی بھائی کو مقررہ لگان یا بٹائی پر زمین دینے سے بہتر یہ ہے کہ للہ بغیر کسی معاضہ کے اس کو کاشت کے لئے زمین دے دی جائے ۔ طاؤس حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کی اس وضاحت اور فتوے کی روشنی میں اپنی زمینیں بٹائی یا لگان پر اُٹھاتے تھے اور ان کاشتکاروں کی کاشت کے اخراجات وغیرہ میں مزید امداد و اعانت بھی کرتے تھے ۔
دم کرنے اور جھاڑنے پر معاوضہ لینا
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت ایک بستی پر گزری تو بستی کا ایک آدمی ملا اور اس نے کہا کہ کیا تم لوگوں میں کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا ہے ؟ ہماری بستی میں ایک آدمی کو سانپ نے کاٹ لیا ہے یا کہا کہ بچھو نے کاٹ لیا ہے ۔ (غالباً یہ راوی کا شک ہے) تو جماعت صحابہ میں سے ایک آدمی اُٹھ کر چل دیا اور بستی میں جا کر کچھ بکریاں بطور معاوضہ مقرر کر کے اس کاٹے ہوئے آدمی پر سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تو وہ بالکل اچھا ہو گیا تو صاحب ٹھہرائی ہوئی بکریاں ساتھ لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس آ گئے ۔ تو ان حضرات نے اس کو برا سمجھا اور ان سے کہا کہ تم نے اللہ کی کتاب پڑھنے کا معاوضہ لے لیا ۔ یہاں تک کہ یہ سب حضرات مدینہ آ گئے ۔ لوگوں نے مسئلہ حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کیا اور عرض کیا کہ ہمارے فلاں ساتھی نے کتاب اللہ (سورہ فاتحہ) پڑھ کر معاوضہ لے لیا ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کتاب اللہ اس کی زیادہ مستحق ہے کہ اس پر معاوضہ لیا جائے”۔ (صحیح بخاری) اور اس حدیث کی صحیح بخاری ہی کی ایک روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ تم نے ٹھیک کیا ، ان بکریوں کو آپس میں تقسیم کر لو اور میرا بھی حصہ لگاؤ ۔ تشریح اپنے عمل اور اپنی محنت کا معاوضہ لینا اجارہ ہے اور اس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ کسی مریض وغیرہ پر قرآن شریف یا کوئی دعا پڑھ کر دم کیا جائے یا تعویذ لکھا جائے اور اس کا معاوضہ لیا جائے ۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایسے واقعات پیش آئے ہیں اور صحابہ کرامؓ نے دم کرنے کا معاوضہ لیا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اس کو جائز اور طیب قرار دیا ہے ۔ تشریح .....صحیح بخاری میں یہ واقعہ اس سے زیادہ تفصیل کے ساتھ بھی مروی ہے ۔ اور اسی طرح کا ایک دوسرا واقعہ مسند احمد اور سنن ابی داؤد میں بھی روایت کیا گیا ہے جس میں مذکور ہے کہ اسی طرح کے ایک سفر میں ایک دیوانے اور پاگل پر لوگوں نے دم کرایا ، ایک صحابی نے سورہ فاتحہ پڑھ کر صبح شام تین دن دم کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ بالکل اچھا ہو گیا ۔ انہوں نے بھی معاوضہ وصول کیا ۔ لیکن ان صحابی کو خود تردد ہو گیا کہ میرا معاوضہ لینا جائز ہے یا ناجائز ۔ چنانچہ واپسی پر حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا تو آپ نے اس کو صحیح اور جائز قرار دیا ۔ انہی حدیثوں کی روشنی میں علماء و فقہا کا اس پر قریباً اتفاق ہے کہ اس طرح دم کرنے یا تعویز لکھنے پر معاوضہ لینا جائز ہے جس طرح طبیبوں اور ڈاکٹروں کے لئے علاج کی فیس لینا جائز ہے ۔ ہاں اگر بغیر معاوضہ فی سبیل اللہ بندگانِ خدا کی خدمت کی جائے تو وہ بلند درجہ کی بات ہے اور انبیاء علیہم السلام سے نیابت کی نسبت رکھنے والوں کا طریقہ یہی ہے ۔
عاریت (منگنی)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (کسی شبہ کی بناء پر) مدینہ میں گھبراہٹ پیدا ہو گئی (غالباً دشمن کے لشکر کی آمد کا شبہ ہو گیا تھا جس کی وجہ سے مدینہ طیبہ کے عوام میں گھبراہٹ اور خطرہ کے احساس کی کیفیت پیدا ہو گئی) تو رسول اللہ ﷺ نے ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ سے ان کا گھوڑا عاریتاً مانگا جس کو “مندوب” کہا جاتا تھا (جس کے معنی ہیں سست رفتار اور مٹھا) اور آپ ﷺ اس پر سوار ہو کر (اس جانت تشریف لے گئے جدھر سے خطرہ کا شبہ تھا) جب آپ واپس تشریف لائے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہم نے کچھ نہیں دیکھا (یعنی کوئی خطرہ والی بات نظر نہیں آئی لہذا لوگوں کو مطمئن ہو جانا چاہئے ، اس کے ساتھ آپ ﷺ نے ابو طلحہ کے اس گھوڑے کے بارے میں فرمایا کہ) ہم نے اس کو بحر رواں پایا ۔ (صحیح بخاری) تشریح تمدنی زندگی میں اس کی بھی ضرورت پڑتی ہے کہ وقتی ضرورت کے لئے کسی سے کوئی چیز (بغیر اُجرت اور معاوضہ) کے استعمال کے لئے مانگ لی جائے اور ضرورت پوری ہو جانے پر واپس کر دی جائے ، اسی کو “عاریت” کہا جاتا ہے ، یہ ایک طرح کی اعانت اور امداد ہے اور بلاشبہ کسی ضرورت مند کو عاریت پر اپنی چیز دینے والا اجر و ثواب کا مستحق ہے ۔ خود رسول اللہ ﷺ نے بھی ضرورت کے موقعوں پر بعض چیزیں بطورِ عاریت کے لے کر استعمال فرمائی ہیں اور اس کے بارے میں ہدایات بھی دی ہیں جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیثوں سے معلوم ہو گا ۔ تشریح .....اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ضرورت کے اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا گھوڑا عاریتاً لے کر اس پر سواری کی ۔ نیز اس واقعہ سے رسول اللہ ﷺ کی شجاعت اور احساس ذمہ داری کی صفت بھی سامنے آئی کہ خطرہ کے موقع پر تحقیق و تجسس کے لئے تن تنہا تشریف لے گئے اور واپسو آ کر لوگوں کو مطمئن کر دیا تا کہ وہ بےخوف ہو کر اپنے کاموں میں لگیں ۔ ضمنی طور پر اس حدیثسے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت ابو طلحہؓ کا وہ گھوڑا جو اتنا سست رفتار اور مزاج کا مَٹھا تھا کہ اس کا نام ہی لوگوں نے “مندوب”(مٹھا)رکھ دیا تھا ، رسول اللہ ﷺ کی سواری میں آ کر ایسا تیز روا اور سبک رفتار ہو گیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہم نے تو اس کو “ بحر رواں” پایا (بہترین تیز رفتار گھوڑے کو “بحر” کہا جاتا تھا)
عاریت (منگنی)
حضرت امیہ بن صفوان اپنے والد صفوان بن امیہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ حنین کے موقع پر ان کی زرہیں ان سے مانگیں (یعنی آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اپنی زرہیں جنگ میں استعمال کے لئے ہم کو دے دو) تو صفوان نے (جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) کہا کہ کیا (میری زرہیں) غصب کے طور پر لینا چاہتے ہو ؟ (یعنی چونکہ تم فاتح ہو اور قوت و اقتدار تمہارے ہاتھ میں ہے اس لئے زبردستی لے لینا چاہتے ہو ؟) آپ ﷺ نے فرمایا نہیں بلکہ عاریت کے طور پر (لینا چاہتا ہوں) جس کی واپسی کی ذمہ داری ہے ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح یہ صفوان بن امیہ قریش مکہ کے سردار اور رسول اللہ ﷺ کے سخت دشمنوں میں تھے ، ۸ھ میں جب مکہ فتح ہو گیا اور وہاں رسول اللہ ﷺ کا اور اسلام کا اقتدار قائم ہو گیا تو یہ صفوان اس دن مکہ مکرمہ سے فرار ہو گئے ۔ ان سے تعلق رکھنے والے بعض صحابہ نے ان کے لئے رسول اللہ ﷺ سے اَمان کی درخواست کی ، آپ ﷺ نے قبول فرما لی ، وہ ان کی تلاش میں نکلے اور یہ مل گئے تو وہ ان کو واپس لے آئے لیکن یہ اپنے کفر پر قائم رہے ۔ پھر جب رسول اللہ ﷺنے فتح مکہ سے فارغ ہو کر حنین کا قصد کیا تو مکہ تو مکہ کے ایسے بہت سے لوگ بھی آپ کی اجازت سے اس سفر میں آپ ﷺ کے ساتھ ہو گئے جنہوں نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا ، ان میں یہ صفوان بن امیہ بھی تھے ۔ اسی موقع پر رسول اللہ ﷺ نے ان سے آہنی زرہیں عاریتاً مانگی تھیں ، تو ان کو یہ شبہ ہوا شاید اب میری یہ زرہیں غصب اور ضبط کر لی جائیں گی اور مجھے واپس نہیں ملیں گی ، انہوں نے صفائی سے اپنے شبہ کا اظہار بھی کر دیا ، آپ نے ان کو اطمینان دلایا کہ “یہ زرہیں تم سے صرف عاریت کے طور پر مانگی جا رہی ہیں ان کی واپسی کی ذمہ داری ہے” ۔ تو انہوں نے وہ زرہیں آپ کے حوالہ کر دیں ۔ اسی غزوہ حنین کے سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہ کر اور آپ کے طور طریقوں اور خاص کر اپنے جیسے قدیمی اور خون کے پیاسے دشمن کے ساتھ آپ کا غیر معمولی حسنِ سلوک دیکھ کر آپ ﷺ کے نبی صادق ہونے کا ان کو یقین ہو گیا اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا ۔ بہرحال یہ صحابی ہیں اور ان سے اس واقعہ کے نقل کرنے والے ان کے بیٹے امیہ بن صفوان بھی صحابی ہیں ۔ رضى الله عنهما وعن سائر الصحابة اجمعين۔
عاریت (منگنی)
حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ نے سے سنا آپ ﷺ ارشاد فرما رہے تھے کہ عاریت (والی چیز لازماً) واپس کی جائے ۔ اور منحہ (یعنی جو چیز فائدہ اٹھانے کے لئے دی گئی ہو وہ عرف کے مطابق فائدہ اُٹھا کر مالک کو) لوٹائی جائے گی ۔ اور قرض (حسب قرار داد) ادا کرنا ہو گا ۔ اور کفالت کرنے والا ادائیگی کا ذمہ دار ہو گا ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد) تشریح اس حدیث میں شریعت کے چار حکم بیان کئے گئے ہیں ۔ ایک یہ کہ اگر اپنی ضرورت اور استعمال کے لئے کسی کی کوئی چیز عاریت کے طور پر لی جائے تو اس کا واپس کرنا لازم ہے ، اس میں تساہل نہیں کرنا چاہیے ۔ دوسرا حکم یہ بیان فرمایا گیا کہ “منحہ” کا لوٹانا ضروری ہے ۔ عرب میں رواج تھا کہ فیاض اور فراخ حوصلہ لوگ جن کو اللہ تعالیٰ کی توفیق دیتا اپنی ملکیت کی کوئی چیز صرف فائدہ اٹھانے اور استعمال کرنے کے لئے دوسرے کسی بھائی کو دے دیتے ۔ مثلاً اپنا اونٹ سواری کے لئے یا اونٹنی یا بکری دودھ پینے کے لئے دے دیتے تھے کہ اس کو اپنے پاس رکھو اور کھلاؤ پلاؤ اور اس سے فائدہ اٹھاؤ ، یا پھلوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے اپنا باغ یا کاشت کے لئے اپنی زمین بغیر کسی معاوضہ کے دے دیتے ۔ اس کو “منحہ”کہا جاتا تھا۔ تو اس کے بارے میں حکم دیا گیا کہ جس شخص کو “منحہ” کے طور پر کوئی چیز دی گئی وہ اس کو اپنی مِلک نہ بنا لے بلکہ عرف کے مطابق اس سے فائدہ اٹھا کے اصل مالک کو واپس کر دے ۔ بلاشبہ بڑا مبارک تھا یہ رواج اور کچھ دن پہلے تک ہمارے علاقوں میں بھی یہ رواج تھا ۔ لیکن اب اس طرح کی ساری خوبیاں اور نیکیاں اٹھتی اور مٹتی جا رہی ہیں ، خود غرضی اور نفسا نفسی کا دور دورہ ہے ۔ فالى الله المشتكى تیسرا حکم اس حدیث میں یہ بیان فرمایا گیا کہ جس کسی نے اللہ کے کسی بندہ سے قرض لیا ہو وہ اس کے ادا کرنے کا اہتمام کرے ۔ (قرض کی ادائیگی کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے سخت تاکیدی ارشادات اور شدید وعیدیں ، اسی سلسلہ معارف الحدیث میں قرض کے زیر عنوان پہلے ذخر کی جا چکی ہیں) ۔ چوتھا حکم یہ بیان فرمایا گیا کہ کسی شخص کے ذمہ اگر کسی دوسرے کا قرض یا کسی قسم کا مالی حق ہو اور کوئی اس کا کفیل اور ضامن بن جائے تو وہ ادائیگی کا ذمہ دار ہے ، یعنی اگر بالفرض اصل مدیون ادا نہ کرے تو اس کفیل اور ضامن کو ادا کرنا پڑے گا ۔
غصب (کسی دوسرے کی چیز ناحق لے لینا)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : جس شخص نے کسی دوسرے کی کچھ بھی زمین ناحق لے لی تو قیامت کے دن وہ اس زمین کی وجہ سے (اور اس کی سزا میں) زمین کے ساتوں طبق تک دھنسایا جائے گا ۔ (صحیح بخاری) تشریح اگر کسی کی کوئی چیز قیمت دے کر لی جائے تو شریعت اور عرف میں اس کو بیع و شراء (خرید و فروخت) کہا جاتا ہے اور اگر اجرت اور کرایہ معاوضہ دے کر کسی کی چیز استعمال کی جائے تو شریعت اور عرف میں وہ “اجارہ” ہے اور اگر بغیر کسی معاوضہ اور کرایہ کے کسی کی چیز وقتی طور پر استعمال کے لئے لی جائے اور استعمال کے بعد واپس کر دی جائے تو وہ “عاریت” ہے ۔ یہ سب صورتیں جائز اور صحیح ہیں اور ان کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی ہدایات و ارشادات گزشتہ صفحات میں ناظرین کی نظر سے گزر چکے ہیں ۔ کسی دوسرے کی چیز لے لینے کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ اسی کی مرضی کے بغیر زبردستی اور ظالمانہ طور پر اس کی مملوکہ چیز لے لی جائے ۔ شریعت کی زبان میں اس کا “غصب” کہا اتا ہے اور یہ حرام اور سخت ترین گناہ ہے اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے مندرجہ ذیل چند ارشادات ناظرین کرام پڑھ لیں ۔ تشریح ..... یہ مضمون رسول اللہ ﷺ سے ایک دو لفظوں کے فرق کے ساتھ متعدد صحابہ کرامؓ سے مروی ہے ۔ حضور ﷺ کےک اس ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی دوسرے کی زمین کا چھوٹے سے چھوٹا ٹکڑا بھی ناحق غصب کیا (ایک روایت میں ہے کہ اگر صرف بالشت بھر بھی غصب کیا) تو قیامت کے دن اس گناہ کی سزا میں وہ زمین میں دھنسایا جائے گا اور آخری حد تک گویا تحت الثریٰ تک دھنسایا جائے گا ...... اللہ کی پناہ ! صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ایک بڑا عبرت آموز واقعہ زمین کے غضب ہی کے بارے میں روایت کیا گیا ہے ۔جس کا تعلق اس حدیث ہی سے ہے اور وہ یہ کہ ایک عورت نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کے خلاف (جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں) مدینہ کے اس وقت کے حاکم مروان کی عدالت میں دعویٰ کیا کہ انہوں نے میری فلاں زمین دبا لی ہے ۔حضرت سعید رضی اللہ عنہ کو اس جھوٹے الزام سے بڑا صدمہ پہنچا انہوں نے مروان سے کہا کہ میں اس عورت کی زمین دباؤں گا اور غصب کروں کروں گا ؟ میں نے تو رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں یہ سخت وعید سنی ہے ....... (یہ بات حضرت سعیدؓ نے دل کے کچھ ایسے تاثر کے ساتھ اور ایسے انداز سے کہی کہ خود مروان بہت متاثر ہوا) اور اس نے کہا کہ اب میں آپ سے کوئی دلیل اور ثبوت نہیں مانگتا ۔ اس کے بعد حضرت سعید رضی اللہ عنہ نے (دُکھے دل سے) بددعا کی کہ اے اللہ اگر تو جانتا ہے کہ اس عورت نے مجھ پر یہ جھوٹا الزام لگایا ہے تو اس کو آنکھوں کی روشنی سے محروم کر دے اور اس کی زمین ہی کو قبر بنا دے ۔ (واقعہ کے راوی حضرت عروہ کہتے ہیں کہ) پھر ایسا ہی ہوا ۔ میں نے خود اس عورت کو دیکھا ، وہ آخر عمر میں نابینا ہو گئی اور خود کہا کرتی تھی کہ سعید بن زید کی بددعا سے میرا یہ حال ہوا ہے ، اور پھر ایسا ہوا کہ وہ ایک دن اپنی زمین ہی میں چلی جا رہی تھی کہ ایک گڑھے میں گر پڑی اور بس وہ گڑھا ہی اس کی قبر بن گیا ۔(صحیح بخاری و صحیح مسلم) اللہ تعالیٰ اس واقعہ سے سبق لینے کی توفیق دے ۔
غصب (کسی دوسرے کی چیز ناحق لے لینا)
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی کی کوئی چیز چھین لی اور لوٹ لی وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ (جامع ترمذی) تشریح اگر دل میں ایمان کا ذرہ ہو تو یہ وعید انتہائی سخت وعید ہے کہ کسی کی چیز کا چھیننے والا اور غصب کرنے والا رسول اللہ ﷺ کی جماعت اور آپ ﷺ کے لوگوں میں سے نہیں ہے جس کو آپ ﷺ نے اپنے سے الگ اور دور کر دیا وہ بڑا محروم اور بدبخت ہے ۔
غصب (کسی دوسرے کی چیز ناحق لے لینا)
سائب بن یزید اپنے والد سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی اپنے دوسرے بھائی کی لکڑی اور چھڑی بھی نہ لے نہ ہنسی مذاق میں اور نہ لینے کے ارادہ سے ۔ پس اگر لے لیوے تو اس کو واپس لوٹائے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ کسی بھائی کی لکڑی اور چھڑی کی طرح کی حقیر اور معمولی چیز بھی بغیر اس کی مرضی اور اجازت کے نہ لی جائے ، ہنسی مذاق میں بھی نہ لی جائی اور اگر غفلت یا غلطی سے لی گئی ہو تو واپس ضرور لوٹائی جائے ۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ ایسی معمولی چیز کا واپس کرنا کیا ضروری ہے ۔ اللہ تعالیٰ حضور ﷺ کی ان ہدایات کی اہمیت محسوس کرنے کی توفیق دے ۔
غصب (کسی دوسرے کی چیز ناحق لے لینا)
ابو حرہ رقاشی اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خبردار کسی پر ظلم و زیادتی نہ کرو ! خبردار کسی آدمی کی ملکیت کی کوئی چیز اس کی دلی رضامندی کے بغیر لینا حلال اور جائز نہیں ہے ۔ (شعب الایمان للبیہقی ، مجتبی للدار قطنی)
غصب (کسی دوسرے کی چیز ناحق لے لینا)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اور آپ ﷺ کے چند اصحاب و رفقاء کا گزر ایک خاتون کی طرف سے ہوا اور اس نے آپ ﷺ سے کھانا تناول فرمانے کی درخواست کی ۔ آپ ﷺ نے قبول فرما لیا) ۔ تو اس نے ایک بکری ذبح کی اور کھانا تیا رکیا (اور آپ ﷺ کے اور آپ ﷺ کے رفقاء کے سامنے حاضر کر دیا) آپ ﷺ نے اس میں سے ایک لقمہ لیا مگر اس کو آپ ﷺ حلق سے نہیں اتار سکے ، تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ (واقعہ یہ معلوم ہوتا ہے) یہ بکری اصل مالک کی اجازت کے بغیر ذبح کر لی گئی ہے ۔ اس خاتون نے عرض کیا کہ ہم لوگ (اپنے پڑوسی) معاذ کے گھر والوں سے کوئی تکلف نہیں کرتے ہم ان کی چیز لے لیتے ہیں اور اسی طرح وہ ہماری چیز لے لیتے ہیں ۔ (مسند احمد) تشریح جیسا کہ دعوت کرنے والی خاتون کے جواب سے معلوم ہوا واقعہ یہی تھا کہ وہ بکری جو ذبح کی گئی تھی پڑوس کے ایک گھرانے آل معاذ کی تھی اور باہمی اعتماد و تعلق اور رواج و چلن کی وجہ سے ان سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی اور بکری ذبح کر کے اور کھانا تیار کر کے حضور ﷺ اور آپ ﷺ کے رفقاء کے سامنے پیش کر دیا گیا ، لیکن آپ ﷺ نے جب پہلا ہی لقمہ اس میں سے لیا تو آپ ﷺ کی طبیعت مبارک نے اس کو قبول نہیں کیا اور وہ حلق سے اتر ہی نہیں سکا اور آپ ﷺ پر یہ منکشف کر دیا گیا کہ یہ بکری اصل مالک کی اجازت کے بغیر ذبح کر لی گئی ۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے کھانے پینے کی چیزوں کے بارے میں عام انسانوں کو ایک ذوق اور احساس دیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کڑوی کسیلی چیزوں کا کھانا اور حلق سے اتارنا مشکل ہوتا ہے اسی طرح وہ اپنے بعض خاص بندوں کو جن کو وہ ناجائز غذاؤں سے حفاظت فرمانا چاہتا ہے ایسا ذوق عطا فرمادیتا ہے کہ ناجائز غذا نہ ان سے کھائی جا سکتی ہےاور نہ حلق سے اتاری جا سکتی ہے ۔ مذکورہ بالا واقعہ میں رسول اللہ ﷺ کا لقمہ منہ میں لے لینے کے باوجود نہ کھا سکنا اللہ تعالیٰ کی اسی خاص الخاص عنایت کا ظہور تھا ۔ امت کے بعض اولیاء اللہ سے بھی اسی طرح کے واقعات منقول ہیں ۔ ذالك فضل الله يوتيه من يشاء. اس واقعہ میں یہ بات خاص طور سے قابلِ غور ہے کہ بکری نہ چرائی گئی تھی ، نہ غصب کی گئی تھی ، بلکہ باہمی اعتماد و تعلق اور رواج و چلن کی وجہ سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی تھی اور ذبح کر لی گئی تھی ، اس کے باوجود اس میں ایسی خباثت اور خرابی پیدا ہو گئی کہ حضور ﷺ اس کو نہیں کھا سکے اور حلق سے نہیں اُتار سکے ۔ اس میں سبق ہے کہ دوسروں کی چیز بغیر اجازت لے لینے اور استعمال کرنے کے بارے میں کس قدر احتیاط کرنی چاہئے ۔
ہدیہ تحفہ دینا لینا: ہدیہ دِلوں کی کدورت دور کر کے محبت پیدا کرتا ہے
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا :“آپس میں ہدیے تحفے بھیجا کرو ، ہدیے تحفے دِلوں کے کینے ختم کر دیتے ہیں” ۔ (جامع ترمذی)
ہدیہ تحفہ دینا لینا: ہدیہ دِلوں کی کدورت دور کر کے محبت پیدا کرتا ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ : آپس میں ہدیے تحفے دیا کرو ، ہدیہ سینوں کی کدورت و رنجش دور کر دیتا ہے اور ایک پڑوسن دوسری پڑوسن کے ہدیہ کے لئے بکری کے گھر کے ایک ٹکڑے کو بھی حقیر اور کمتر نہ سمجھے ۔ (جامع ترمذی) تشریح تمدنی زندگی میں لین دین کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ اپنی کوئی چیز ہدیہ اور تحفہ کے طور پر کسی کو پیش کر دی جائے ۔ رسول اللہ ﷺنے اپنے ارشادات میں اس کی بڑی ترغیب دی ہے ۔ اس کی یہ حکمت بھی بتلائی ہے کہ اس سے دِلوں میں محبت و اُلفت اور تعلقات میں خوشگواری پیدا ہوتی ہے جو اس دنیا مٰں بڑی نعمت اور بہت سی آفتوں سے حفاظت اور عافیت و سکون حاصل ہونے کا وسیلہ ہے ۔ ہدیہ وہ عطیہ ہے جو دوسرے کا دل خوش کرنے اور اس کے ساتھ اپنا تعلق خاطر ظاہر کرنے کے لئے دیا جائے اور اس کے ذریعے رجائے الہی مطلوب ہو ۔ یہ عطیہ اور تحفہ اگر اپنے کسی چھوٹے کو دیا جائے تو اس کے ساتھ اپنی شفقت کا اظہار ہے ، اگر کسی دوست کو دیا جائے تو یہ ازدیادِ محبت کا وسیلہ ہے ، اگر کسی ایسے شخص کو دیا جائے جس کی حالت کمزور ہے تو یہ اس کی خدمت کے ذریعہ اس کی تطییب خاطر کا ذریعہ ہے اور اگر اپنے کسی بزرگ اور محترم کو پیش کیا جائے تو ان کا اکرام ہے اور “نذرانہ” ہے ۔ اگر کسی کو ضرورت مند سمجھ کر اللہ کے واسطے اور ثواب کی نیت سے دیا جائے تو یہ ہدیہ نہ ہو گا صدقہ ہو گا ۔ ہدیہ جب ہی ہو گا جب کہ اس کے ذریعہ اپنی محبت اور اپنے تعلق خاطر کا اظہار مقصود ہو اور اس کے ذریعہ رضائے الہی مطلوب ہو ۔ ہدیہ اگر اخلاص کے ساتھ دیا جائے تو اس کا ثواب صدقہ سے کم نہیں بلکہ بعض اوقات زیادہ ہو گا ۔ ہدیہ اور صدقہ کے اس فرق کا نتیجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہدیہ شکریہ اور دعا کے ساتھ قبول فرماتے اور اس کو خود بھی استعمال فرماتے تھے ۔ اور صدقہ کو بھی اگرچہ شکریہ کے ساتھ قبول فرماتے اور اس پر دعائیں بھی دیتے لیکن خود استعمال نہیں فرماتے تھے ، دوسروں ہی کو مرحمت فرما دیتے تھے ۔ افسوس ہے کہ امت میں باہم مخلصانہ ہدیوں کی لین دین کا رواج بہت ہی کم ہو گیا ہے ۔ بعض خاص حلقوں میں بس اپنے بزرگوں ، عالموں ، مرشدوں کو ہدیہ پیش کرنے کا تو کچھ رواج ہے لیکن اپنے عزیزوں ، قریبوں ، پڑوسیوں وغیرہ کے ہاں ہدیہ بھیجنے کا رواج بہت ہی کم ہے حالانکہ قلوب میں محبت و الفت اور تعلقات میں خوشگواری اور زندگی میں چین و سکون پیدا کرنے اور اسی کے ساتھ رضائے الٰہی حاصل کرنے کے لئے یہ رسول اللہ ﷺ کا بتلایا ہوا “نسخہ کیمیا” تھا ۔ اس تمہید کے بعد ہدیہ سے متعلق رسول اللہ ﷺ کے مندرجہ ذیل چند ارشادات پڑھئے ! تشریح ..... ہدیے تحفے دینے سے باہمی رنجشون اور کدورتوں کا دور ہونا ، دِلوں میں جوڑ تعلقات میں خوشگواری پیدا ہونا بدیہی بات ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس زریں ہدایت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ حضرت ابو ہریرہؓ کی حدیث میں جو یہ اضافہ ہے کہ ایک پڑوسن دوسری پڑوسن کے لئے بکری کے گھر کے ٹکڑے کے ہدیہ کو بھی حقیر نہ سمجھے ۔ اس سے حضور ﷺ کا مقصد بظاہر یہ ہے کہ ہدیہ دینے کے لئے ضروری نہیں کہ بہت بڑھیا ہی چیز ہو ، اگر اس کی پابندی اور اس کا اہتمام کیا جائے گا تو ہدیہ دینے کی نوبت بہت کم آئے گی ۔ اس لئے بالفرض اگر گھر میں بکری کے پائے پکے ہیں تو پڑوسن کو بھیجنے کے لئے اس کے ایک ٹکڑے کو بھی حقیر نہ سمجھا جائے وہی بھیج دیا جائے ۔ (واضح رہے کہ یہ ہدایت اس حالت میں ہے جب اطمینان ہو کہ پڑوسن خوشی کے ساتھ قبول کرے گی اور اس کو اپنی توہین و تذلیل نہ سمجھے گی ، رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ماحول ایسا ہی تھا) ۔
ہدیہ کا بدلہ دینے کے بارے میں آپ ﷺ کا معمول اور آپ ﷺ کی ہدایت
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہابیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول و دستور تھا کہ آپ ﷺ ہدیہ تحفہ قبول فرماتے تھے اور اس کے جواب میں خود بھی عطا فرماتے تھے ۔ (صحیح بخاری) تشریح مطلب یہ ہے کہ حضور ﷺ کو جب کوئی محب و مخلص ہدیہ پیش کرتا تو آپ ﷺ خوشی سے قبول فرماتے تھے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد “هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ” کے مطابق اس ہدیہ دینے والے کو خود بھی ہدیے اور تحفے سے نوازتے تھے (خواہ اسی وقت عنایت فرماتے یا دوسرے وقت) آگے درج ہونے والی بعض حدیثوں سے معلوم ہو گا کہ آپ ﷺ نے امت کو بھی اس طرز عمل کی ہدایت فرمائی اور بلاشبہ مکارم اخلاق کا تقاضا یہی ہے لیکن افسوس ہے کہ امت میں بلکہ خواص امت میں بھی اس کریمانہ سنت کا اہتمام بہت کم نظر آتا ہے ۔
ہدیہ کا بدلہ دینے کے بارے میں آپ ﷺ کا معمول اور آپ ﷺ کی ہدایت
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جس شخص کو ہدیہ تحفہ دیا جائے تو اگر اس کے پاس بدلہ میں دینے کے لئے کچھ موجود ہو تو وہ اس کو دے دے اور جس کے پاس بدلہ میں تحفہ دینے کے لئے کچھ نہ ہو تو وہ (بطور شکریہ کے) اس کی تعریف کرے اور اس کے حق میں کلمہ خیر کہے ، جس نے ایسا کیا اس نے شکریہ کا حق ادا کر دیا اور جس نے ایسا نہیں کیا اور احسان کے معاملہ کو چھپایا تو اس نے ناشکری کی ۔ اور جو کوئی اپنے کو آراستہ دکھائے اس صفت سے جو اس کو عطا نہیں ہوئی تو وہ اس آدمی کی طرح ہے جو دھوکے فریب کے دو کپڑے پہنے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد) تشریح اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ہدایت فرمائی ہے کہ جس کو کسی محب کی طرف سے ہدیہ تحفہ دیا جائے تو اگر ہدیہ پانے والا اس حال میں ہو کہ اس کے جواب اور صلہ میں ہدیہ تحفہ دے سکے تو ایسا ہی کرے اور اگر اس کی مقدرت نہ ہو تو اس کے حق میں کلمہ خیر کہے اور اس کے اس احسان کا دوسروں کے سامنے بھی تذکرہ کرے ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کو بھی شکر سمجھا جائے گا ۔ (اور آگے درج ہونے والی ایک حدیث سے معلوم ہو گا کہ “جزاک اللہ” کہنے سے بھی یہ حق ادا ہو جاتا ہے) اور جو شخص ہدیہ تحفہ پانے کے بعد اس کا اخفا کرے ، زبان سے ذکر تک نہ کرتے “جزاک اللہ” جیسا کلمہ بھی نہ کہے تو وہ کفرانِ نعمت اور ناشکری کا مرتکب ہو گا ۔ حدیث کے آخری جملے “ومن تخلى الخ” کا مطلب بظاہر یہ ہے کہ جو شخص اپنی زبان یا طرز عمل یا خاص قسم کے لباس وغیرہ کے ذریعے اپنے اندر وہ کمال (مثلا عالمیت یا مشخیت) ظاہر کرے جو اس م یں نہیں ہے تو تو وہ اس دھوکہ باز اور فریبی بہروپئیے کی طرح ہے جو لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے باعزت اور باوقار لوگوں کا لباس پہنے ۔ بعض شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ عرب میں کوئی شخص تھا جو نہایت گھٹیا اور ذلیل درجہ کا آدمی تھا لیکن وہ باعزت اور باوقار لوگوں کے سے نفیس اور شاندار کپڑے پہنتا تھا تا کہ اس کو معززین میں سمجھا جائے اور اس کی گواہی پر اعتبار کیا جائے ، حالانکہ وہ جھوٹی گواہیاں دیتا تھا ۔ اسی کو “لابس ثوبى زور” کہا گیا ہے ۔ ہدیہ تحفہ سے متعلق مذکورہ بالا ہدایت کے ساتھ اس آخری جملہ کے فرمانے سے حضور ﷺ کا مقصد غالباً یہ ہے کہ کہ کوئی شخص جس میں وہ کمالات اور وہ اوصاف نہ ہوں جن کی وجہ سے لوگ ہدیہ وغیرہ پیش کرنا سعادت سمجھتے ہیں ۔ ایسا شخص اگر لوگوں کے ہدیے تحفے حاصل کرنے کے لئے اپنی باتوں اور اپنے لباس اور اپنے طرز زندگی سے وہ کمالات اور اوصاف اپنے لئے ظاہر کر دے تو یہ فریب اور بہروپیا پن ہو گا اور یہ آدمی اس روایتی “ لابس ثوبى زور” کی طرح مکار اور دھوکے باز ہو گا ۔ واللہ اعلم ۔
محسنوں کا شکریہ اور ان کے لئے دعائے خیر
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : جس نے احسان کرنے والے بندہ کا شکریہ ادا نہیں کیا اس نے اللہ کا بھی شکریہ ادا نہیں کیا ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی) تشریح بظاہر حدیث کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ جس بندے کے ہاتھ سے کوئی ہدیہ تحفہ ، کوئی نعمت ملے یا وہ کسی طرح کا بھی احسان کرے تو اس کا شکریہ ادا کیا جائے اور اس کے لئے کلمہ خیر کہا جائے ، تو جس نے ایسا نہیں کیا اس نے خدا کی بھی ناشکری اور نافرمانی کی ۔ بعض شارحین نے اس حدیث کا یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ جو احسان کرنے والے بندوں کا شکر گزار نہ ہو گا وہ ناشکری کی اس عادت کی وجہ سے اللہ کا بھی شکر گزار نہ ہو گا ۔
محسنوں کا شکریہ اور ان کے لئے دعائے خیر
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس آدمی پر کسی نے کوئی احسان کیا اور اس نے اس محسن کے لئے یہ کہہ کے دعا کی کہ “جزاک اللہ خیرا” (اللہ تعالیٰ تم کو اس کا بہتر بدلہ اور صلہ عطا فرمائے) تو اس نے (اس دعائیہ کلمہ ہی کے ذریعہ) اس کی پوری تعریف بھی کر دی ۔ (جامع ترمذی) تشریح “جزاک اللہ خیرا” بظاہر صرف دعائیہ کلمہ ہے لیکن اللہ کا بندہ کسی احسان کرنے والے کے لئے ان الفاظ میں دعا کرتا ہے تو گویا وہ اس کا اظہار و اعتراف کرتا ہے کہ میں اس کا بدلہ دینے سے عاجز ہوں بس میرا کریم پروردگار ہی تم کو اس کا اچھا بدلہ دے سکتا ہے میں اس سے عرض و استدعا کرتا ہوں کہ تمہارے اس احسان کا وہ اپنی شانِ عالی کے مطابق بہتر بدلہ عطا فرمائے ۔ اس طرح اس دعائیہ کلمہ میں اس احسان کرنے والے کی تعریف اور اس کے احسان کی قدر شناسی بھی مضمر ہے ۔
محسنوں کا شکریہ اور ان کے لئے دعائے خیر
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے (اور مہاجرین نے انصار کی میزبانی اور ان کے ایثار کا تجربہ کیا) ت ایک دن مہاجرین نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ ہم نے کہیں ایسے لوگ نہیں دیکھے جیسے یہ لوگ ہیں جن کے ہاں آگے ہم اُترتے ہیں (یعنی انصارِ مدینہ) زیادہ ہو تو اس کو (فراخ حوصلگی اور دریا دِلی سے ہماری میزبانی پر)خوب خرچ کرنے والے اور (کسی کے پاس)تھوڑا ہو تو اس سے بھی ہماری غم خواری اور مدد کرنے والے ، انہوں نے محنت مشقت کی ساری ذمہ داری ہماری طرف سے بھی اپنے ذمہ لے لی ہے اور منفعت میں ہم کو شریک کر لیا ہے (ان کے اس غیر معمولی ایثار سے)ہم کو اندیشہ ہے کہ سارا اجر و ثواب انہی کے حصہ میں آ جائے (اور آخرت میں ہم خالی ہاتھ رہ جائیں) آپ ﷺ نے فرمایا نہیں ، ایسا نہیں ہو گا جب تک اس احسان کے عوض تم ان کے حق میں دعا کرتے رہو گے اور ان کے لئے کلمہ خیر کہتے رہو گے ۔ (جامع ترمذی) تشریح جب رسول اللہ ﷺ مکہ معظمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ پاک تشریف لے گئے اور آپ کے ساتھ مہاجرین کی بھی اچھی خاصی جماعت تھی جو آپ ﷺ سے پہلے یا آپ ﷺ کے بعد اپنے اپنے گھر چھوڑ کے مدینہ طیبہ آئے تو جیسا کہ معلوم ہے ابتدائی ایام میں ان سب کو مدینہ طیبہ کے انصار نے للہ فی اللہ اپنا مہمان بنا لیا ۔ کھیتی باڑی اور دوسرے کاموں میں خود محنت کرتے اور جو کچھ حاصل ہوتا اس میں مہاجرین کو شریک کر لیتے ۔ ان انصار میں اچھے دولت مند بھی تھے اور نادار غربا بھی لیکن اپنی اپنی حیثیت کے مطابق مہاجرین کی خدمت میں سب حصہ لیتے ، جو دولت مند تھے وہ پوری دریا دلی سے مہاجرین پر اپنی دولت بےدریغ خرچ کرتے اور غربا تھے وہ بھی اپنا پیٹ کاٹ کے ان کی خدمت اور مہمان داری کرتے تھے ۔ اس صورت حاس سے مہاجرین کے دلوں میں یہ خیال آیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ انصار کے اس غیر معمولی ایثار و احسان کی وجہ سے ہماری ہجرت اور عبادات وغیرہ کا ثواب بھی ہمارے انہی محسن میزبانوں کے حصہ میں آ جائے اور ہم خسارہ میں رہیں ۔ انہوں نے حضور ﷺ کی خدمت میں اپنا یہ خدشہ عرض کیا تو آپ ﷺ نے اطمینان دلایا کہ ایسا نہ ہو گا ، شرط یہ ہے کہ تم ان کے اس احسان کے عوض ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں اور دل و زبان سے ان کے احسان کا اعتراف اور شکر گزاری کرتے رہو ۔ اللہ تعالیٰ تمہارے اتنے ہی عمل کو ان کے احسان کے بدلے اور شکریے کے طور پر قبول فرما لے گا اور تمہاری طرف سے ان کے اس احسان و ایثار کا پورا بدلہ اپنے خزانہ کرم سے عطا فرمائے گا ۔
وہ چیزیں جن کا ہدیہ قبول ہی کرنا چاہیے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جس کسی کو ہدیہ کے طور پر خوشبودار پھول پیش کیا جائے تو اس کو چاہیھ کہ وہ اس کو بھی قبول ہی کرے رَد نہ کرے کیوں کہ وہ بہت ہلکی اور کم قیمت چیز ہے اور اس کی خوشبو باعثِ فرحت ہے ۔ (صحیح مسلم) تشریح پھول جیسی کم قیمت چیز قبول کرنے سے اگر انکار کیا جائے تو اس کا بھی اندیشہ ہے کہ بےچارے پیش کرنے والے کو خیال ہو کہ میری چیز کم قیمت ہونے کی وجہ سے قبول نہیں کی گئی اور اس سے اس کی دل شکنی ہو ۔ اور ترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ “جس کو خوشبودار پھول کا ہدیہ دیا جائے وہ واپسی نہ کرے کیوں کہ خوشبودار پھول جنت کا تحفہ ہے اور صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت سے خود حضور ﷺ کا یہ معمول بھی منقول ہے کہ آپ ﷺ خوشبو کا ہدیہ واپس نہیں فرماتے تھے ۔
وہ چیزیں جن کا ہدیہ قبول ہی کرنا چاہیے
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : تین چیزیں (بالخصوص) ایسی ہیں جن کو رد نہیں کرنا چاہئے ، قبول ہی کر لینا چاہئے تکیہ اور تیل اور دودھ ۔ (جامع ترمذی) تشریح ان تینوں چیزوں کی خصوصیت یہی ہے کہ دینے والے پر ان کا زیادہ بار نہیں پڑتا اور جس کو دی جائیں وہ ان کو استعمال کر کے ان سے فائدہ اٹھاتا ہے جس سے دینے والے کا جی خوش ہوتا ہے ۔ اور بھی جو چیزیں اس حیثیت کی ہوں ان کو بھی انہی پر قیاس کر لینا چاہئے ۔
ہدیہ دے کر واپس لینا بڑی مکروہ بات
حضرت عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا : کسی آدمی کے لئے یہ جائز اور درست نہیں ہے کہ وہ کسی کو کوئی چیز عطیہ کے طور پر دے دے پھر اس کو واپس لے ۔ ہاں اگر باپ اپنی اولاد کو کچھ دے تو وہ اس سے مستثنیٰ ہے (یعنی اس کے لئے واپسی کی گنجائش ہے ۔ کیوں کہ اولاد پر باپ کا ہر طرح کا حق ہے ۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے ہدیہ اور عطیہ کی واپسی کی قباحت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا) جو شخص ہدیہ اور عطیہ دے کر واپس لے اس کی مثال اس کتے کی سی ہے کہ اس نے ایک چیز کھائی یہاں تک کہ جب خوب پیٹ بھر گیا تو اس کو قے کر کے نکال دیا ، پھر اپنی اسی قے ہی کو کھانے لگا ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی ، ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ) تشریح ہدیہ دے کر واپس لینے کے لئے اس سے زیادہ صحیح اور موثر کوئی مثال نہیں ہو سکتی ۔
کن لوگوں کا ہدیہ لینا منع ہے
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : امام وقت (یعنی حاکم اور فرمانروا) کے ہدیے “غلول” (یعنی ایک طرح کی خیانت اور رشوت اور ناجائز استحصال کے قبیل سے) ہیں ۔ (معجم اوسط للطبرانی)
کن لوگوں کا ہدیہ لینا منع ہے
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : جس نے کسی شخص کے لئے (کسی معاملہ میں) سفارش کی تو اگر اس شخص نے اس سفارش کرنے والے کو کوئی ہدیہ پیش کیا اور اس نے وہ ہدیہ قبول کر لیا تو وہ سود کی ایک بڑی خراب قسم کے گناہ کا مرتکب ہوا ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح حضرت جابر اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہما کی ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ ہدیہ وہی قابلِ قبول ہے جو اخلاص کے ساتھ ہو اور غلط قسم کے اغراض کا شبہ اور شائبہ بھی نہ ہو ۔ اللہ تعالیٰ ہم مسلمانوں کو توفیق دے کہ رسول اللہ ﷺ کی لین دین کے سلسلہ کی ان تمام ہدایات کی روح کو سمجھیں اور ان کی پابندی اور پیروی کو اپنی زندگی کا اصول بنائیں ۔
وقف فی سبیل اللہ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے بیان فرمایا کہ میرے والد ماجد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خیبر میں ایک قطعہ زمین ملی تو وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ مجھے خیبر میں ایک قطعہ زمین ملی ہے (وہ نہایت نفیس اور قیمتی ہے) اس سے بہتر کوئی مالیت میں نے نہیں پائی ، آپ ﷺ س بارے میں مجھے کیا حکم دیتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اگر تم چاہو تو ایسا کرو کہ اصل زمین کو محفوظ (یعنی وقف) کر دو اور (س کی پیداوار اور آمدنی کو) صدقہ قرار دے دو ۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے اس کو (اسی طرح وقف کر دیا اور) فی سبیل اللہ صدقہ قرار دے دیا اور طے فرما دیا کہ یہ زمین نہ کبھی بیچی جائے ، نہ ہبہ کی جائے نہ اس میں وراثت جاری ہو ، اور اس کی آمدنی اللہ کے واسطے خرچ ہو فقیروں ، مسکینوں اور اہلِ قرابت پر اور غلاموں کو آزاد کرانے کی مد میں اور جہاد کے سلسلہ میں اور مسافروں اور مہمانوں کی خدمت میں ۔ اور جو شخص اس کا متولی اور منتظم ہو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ مناسب حد تک اس میں سے خود کھائے اور کھلائے بشرطیکہ اس کے ذریعہ مال جوڑنے اور مالدار بننے والا نہ ہو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح ہدیہ اور صدقہ و خیرات جیسے باعثِ ثواب مالی معاملات و تصرفات میں سے ایک وقف بھی ہے ۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ حجۃ اللہ البالغہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ عرب کے لوگ رسول اللہ ﷺ سے پہلے وقف کے تصور اور طریقہ سے واقف نہیں تھے ، آپ ﷺ ہی نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت و رہنمائی سے اس کی تعلیم و ترغیب دی ۔ وقف کی حقیقت یہ ہے کہ جائیداد جیسی باقی رہنے والی اپنی کوئی مالیت ، جس کا نفع جاری رہنے والا ہو اپنی طرف سے مصارف خیر کے لئے محفوظ کر دی جائے ۔ اس کی پیداوار یا آمدنی وقف کرنے والے کی منشاء کے مطابق ایک یا ایک سے زیادہ مصارف خیر میں صرف ہوتی رہے ، اور خود وقف کرنے والا اپنے مالکانہ حق تصرف سے ہمیشہ کے لئے دَست بردار ہو جائے اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل حدیثیں پڑھی جائیں ۔ تشریح ..... یہ حدیث وقف کے باب میں اصل اور بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ۷ھ میں خیبر جنگ کے نتیجہ میں فتح ہوا تھا ، وہاں کی زمین عام طور سے بڑی زرخیز تھی ، فتح کے بعد اس کی زمینوں کا قریبا نصف حصہ رسول اللہ ﷺ نے مجاہدین میں تقسیم کر دیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حصہ میں جو قطعہ زمین آیا انہوں نے محسوس کیا کہ میری ساری مالیت میں وہ نہایت قیمتی اور گرانقدر چیز ہے ۔ اور قرآن پاک میں ارشاد فرمایا گیا ہے ۔ “لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ” (تم نیکی اور مقبولیت کا مقام اس وقت تک حاصل نہیں سکو گے جب تک کہ اپنی محبوب و مرغوب چیزیں راہِ خدا میں صرف نہ کر دو گے) اس بناء حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں یہ آیا کہ خیبر کی یہ جائیداد جو میرے حصہ میں آئی ہے اور س سے بہتر قیمتی کوئی چیز میرے پاس نہیں ہے میں اس کو فی سبیل اللہ خرچ کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا اور سعادت حاصل کر لوں ۔ لیکن خود فیصلہ نہیں کر سکے کہ اس کے فی سبیل اللہ خرچ کرنے کی میرے لئے سب سے بہتر صورت کیا ہے ۔ انہوں نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کے بارے میں رہنمائی چاہی ۔ تو آپ ﷺ نے ان کو وقف کرنے کا مشورہ دیا تا کہ وہ صدقہ جاریہ رہے ۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے اس کو وقف کر دیا اور اس کے مصارف بھی متعین فرما دئیے ۔ یہ مصارف قریب قریب وہی ہیں جو قرآن پاک میں زکوٰۃ کے بیان مٰں فرمائے گئے ہیں ۔ (سورہ توبہ ، آیت ۶۰) آخر میں وقف کے متولی اور اس کا انتظام و اہتمام کرنے والے کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ وہ اپنی دولت میں اضافہ کرنے کے لئے تو اس میں سے کچھ نہ لے لیکن کھانے پینے اور اپنے اہل و عیال اور مہمانوں وغیرہ کو کھلانے کے لئے اس میں سے بحد مناسب لے سکتا ہے ، یہ اس کے لئے جائز ہے ۔ (شریعت کے دوسرے ابواب کی طرح وقف کے مسائل بھی کتب فقہ میں دیکھے جائیں)
وقف فی سبیل اللہ
حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں میں عرض کیا کہ حضرت ! میری والدہ کا انتقال ہو گیا ہے ، (میں ان کے لئے کچھ صدقہ کرنا چاہتا ہوں) تو کون سا صدقہ زیادہ بہتر اور زیادہ ثواب کا ذریعہ ہو گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا پانی (یعنی کہیں کنواں بنوا دینا اور اس کو وقفِ عام کر دینا جس سے اللہ کے بندے اپنی پینے وغیرہ کی ضرورتوں کے لئے پانی حاصل کرتے رہیں) چنا نچہ انہوں نے ایک کنواں کھدوا اور بنوا دیا اور کہا کہ یہ میری والدہ ام سعد کے لئے ہے (کہ اس کا ثواب ان کو پہنچتا رہے) ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن نسائی) تشریح اس واقعہ کی بعض روایات میں یہ تفصیل ذکر کی گئی ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ کی والدہ کا جب انتقال ہوا تو وہ سفر تو وہ سفر میں تھے ، سفر سے واپسی پر وہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میری دعدم موجودگی میں میری والدہ کا انتقال ہو گیا ، میرا خیال ہے کہ اگر میں موجود ہوتا تو وہ اپنی آخرت کے لئے صدقہ وغیرہ کی وصیت کریں ۔ اب میں ان کے ایصال ثواب کے لئے صدقہ کرنا چاہتا ہوں تو کس طرح کا صدقہ بہتر اور ان کے حق میں زیادہ ثواب کا باعث ہو گا ؟ آپ ﷺ نے ان کو کنواں بنوا دینے کا مشورہ دیا ، چنانچہ انہوں نے ایسی جگہ پر جہاں اس کی ضرورت تھی ، کنواں بنوایا اور اپنی والدہ کے نام پر یعنی ان کے ایصال ثواب کے لئے اس کو وقف کر دیا ۔ بعض روایات میں باغ وقف کرنے کا بھی ذکر ہے ، ہو سکتا ہے کہ سی باغ میں کنواں بنوایا ہو ۔ حضور ﷺ کے زمانہ میں اور آپ ﷺ کی ہدایت پر وقف کی یہ دوسری مثال ہے ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ کسی مرنے والے کو ثواب پہنچانے کی نیت سے کوئی نیک کام کرنا صحیح ہے اور ایصالِ ثواب کا نظریہ برحق ہے اور اصولی درجہ میں اس پر ائمہ اہل سنت کا اتفاق ہے ۔
وقف فی سبیل اللہ
ثمامہ بن حزن قشیری (تابعی) نے بیان کیا کہ میں اس وقت حضرت رضی اللہ عنہ کے گھر کے قریب موجود تھا(جب بایوں کے لشکر نے ان کے گھر کا محاصرہ کر لیا تھا) تو انہوں نے مکان کے اوپر سے ان کو دیکھا اور مجمع سے مخاطب ہو کر کہا ، میں تم کو اللہ اور اسلام کا واسطہ دیتا ہوں اور تم سے پوچھتا ہوں کہ کیا یہ بات تمہارے علم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو “بیر رومہ” کے علاوہ میٹھے پانی کا کوئی کنواں نہیں تھا (اور وہ کسی شخص کی ملکیت) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی ہے اللہ کا بندہ جو بیر رومہ کو خرید کے عام مسلمانوں کے لئے وقف کر دے کہ اس کی طرح عام مسلمانوں کو اس سے پانی لینے کا حق ہو اور اللہ تعالیٰ جنت میں اس کو اس سے بہتر دے ، تو میں نے اپنی ذاتی رقم سے اس کو خرید لیا (اور وقف عام کر دیا) اور آج تم مجھے اس کا پانی بھی نہیں پینے دیتے اور مجبور کرتے ہو کہ سمندر کا ساکھاری پانی پیئوں ۔ لوگوں نے جواب دیا کہ ہاں خداوندا ! (ہم کو اس کا علم ہے) اس کے بعد حضرت عثمانؓ نے کہا کہ میں تم کو اللہ کا اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تمہیں اس بات کا علم ہے کہ مسجد نبوی نمازیوں کے لئے بہت تنگ ہو گئی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے ایک دن فرمایا کہ اللہ کا کوئی بندہ ہے جو فلاں گھرانے کی زمین کا قطعہ (جو مسجد کے قریب ہے) خرید کے مسجد میں شامل کر دے ، تو اس کے عوض اللہ تعالیٰ جنت میں اس سے بہتر اس کو عطا فرمائے ، تو میں نے اپنی ذاتی رقم سے اس کو خرید لیا تھا (اور مسجد میں شامل کر دیا تھا) اور آج تم لوگ مجھے اس میں دو رکعت نماز بھی نہیں پڑھنے دیتے ہو ۔ تو انہوں نے اس کے جواب میں کہا کہ خداوندا ! یہ بھی ہمارے علم میں ہے ، اس کے بعد حضرت عثمانؓ نے کہا کہ کیا تم لوگوں کو اس کا علم ہے کہ (رسول اللہ ﷺ کی ترغیب و ایماء پر) تبوک کے لشکر کا ساز و سامان میں نے اپنی ذاتی رقم سے کیا تھا ؟ انہوں نے کہا کہ خداوندا یہ بھی ہمارے علم میں ہے ۔ اس کے بعد حضرت عثمانؓ نے کہا کہ میں خدا کا اور اسلام کا واسطہ دے کر تم سے پوچھتا ہوں کہ کیا یہ واقعہ تمہارے علم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن مکہ کے پہاڑ ثبیر پر تھے اور آپ ﷺ کے ساتھ ابوبکر اور عمر تھے اور میں بھی تھا تو پہاڑ ملنے لگا یہاں تک کہ کچھ پتھر اس کے نیچے گر گئے تو آپ ﷺ نے اس پر اپنے قدم شریف سے ضرب لگائی اور فرمایا ثبیر ساکن ہو جا ! تیرے اوپر ایک نبی ہے ایک صدیق ہے اور دو شہید ہیں ۔ (حضرت عثمانؓ کی اس بات کے جواب میں بھی) لوگوں نے کہا کہ خداوند ا! ہاں ہم کو اس کا بھی علم ہے ۔ اس وقت حضرت عثمانؓ نے کہا “اللہ اکبر ! ربِ کعبہ کی قسم یہ لوگ بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ میں شہید ہوں” ۔ یہ بات حضرت عثمانؓ نے تین دفعہ فرمائی ۔ (جامع ترمذی ، سنن نسائی) تشریح اس حدیث میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دو وقفوں کا ذکر ہے جو رسول اللہ ﷺ کی ترغیب اور اپیل پر آپؓ نے کئے ۔ پہلے بیر رومہ کا وقف جو غالباً اسلام میں سب سے پہلا وقف ہو گا کیوں کہ وہ اس وقت عمل میں آیا جب رسول اللہ ﷺ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے ، اس سے پہلے مکہ معظمہ میں کسی وقف کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ۔ دوسرا وقف اس زمین کا جو انہوں نے خرید کر مسجد نبوی میں شامل کی ۔ یہ حدیث جیسا کہ ظاہر ہے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب کے باب کی ہے اور اکثر کتب حدیث میں اسی باب کے تحت درج کی گئی ہے لیکن چونکہ اس میں حضرت عثمانؓ کے دو وقفوں کا ذکر ہے جو رسول اللہ ﷺ کی ترغیب پر کئے گئے تھے اس لئے یہاں اس کا درج کرنا مناسب سمجھا گیا ۔ اس حدیث میں عبرت کا بڑا سامان ہے ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ان فضائل و مناقب اور ان کارناموں سے اور ن بشارتوں سے جو رسول اللہ ﷺ نے ان کے حق میں دی تھیں ۔ ان کے زمانہ کے لوگ عام طور سے واقف تھے ۔ اور یہ باتیں ایسی مشہور و مسلم تھیں کہ کسی کو انکار کی مجال نہیں تھی لیکن جن لوگوں پر شیطان سوار تھا اور جن کے لئے شقاوت مقدر ہو چکی تھی انہوں نے اس سب کے باوجود حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو نہایت ظالمانہ طریقہ سے شہید کیا ۔ اور پھر امت پر اس کااجتماعی عذاب یہ آیا کہ باہم قتل و قتال کا ایک لامتناہی سلسلہ چل پڑا ۔
وصیت
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : کسی ایسے مسلمان بندے کے لئے جس کے پاس کوئی ایسی چیز (جائیداد یا سرمایہ یا امانت اور قرض وغیرہ) ہو جس کے بارے میں وصیت کرنی چاہئے تو درست نہیں کہ وہ دو راتیں کزار دے ، مگر اس حال میں کہ اس کا وصیت نامہ لکھا ہوا ، اس کے پاس ہو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح مالی معاملات و تصرفات کے ابواب میں سے ایک “وصیت” کا باب بھی ہے ۔ وصیت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص جس کے پاس جائیداد یا کسی شکل میں سرمایہ ہو ، وہ یہ طے کر دے کہ میری فلاں جائیداد یا سرمایا کا اتنا حصہ میرے انتقال کے بعد فلاں مصرف خیر میں صرف کیا جائے یا فلاں شخص کو دے دیا جائے ۔ شریعت میں اس طرح کی وصیت کو قانونی حیثیت حاصل ہے ، اور اس کے خاص شرائط اور احکام ہیں جن میں سے بعض ذیل میں درج ہونے والی حدیثوں سے بھی معلوم ہوں گے اور مزید تفصیلی احکام کتب فقہ میں دیکھے جا سکتے ہیں ۔ اپنے متروکہ مال کے بارے میں اس طرح کی وصیت اگر لوجہ اللہ اور ثواب آخرت کی نیت سے کی گئی ہے تو ایک طرح کا صدقہ ہے اور شریعت میں اس کی ترغیب دی گئی ہے ۔ اور اگر کسی کے پاس کسی کی کوئی چیا امانت کے طور پر رکھی ہے ، یا اس پر کسی شخص کا قرض ہے یا کسی طرح کا حق ہے تو اس کی واپسی اور ادائیگی کی وصیت کرنا واجب ہے اور جو بھی وصیت ہو اس کو لکھ کر محفوظ کر دینا چاہئے ۔ اس باب کی چند حدیثیں ذیل میں مطالعہ کی جائیں ۔ تشریح ..... مطلب یہ ہے کہ وصیت کرنے اور وصیت نامہ لکھنے یا لکھانے کے اس کا انتظار نہیں کرنا چاہئے کہ جب موت قریب نظر آئے گی اس وقت وصیت کر دیں گے ۔ بلکہ ہر مرد مومن کو چاہئے کہ وہ ہر وقت موت کو قریب سمجھے اور اپنا وصیت نامہ تیار رکھے ، دو دن بھی ایسے گزرنے نہیں چاہیئں کہ وصیت نامہ موجود نہ ہو ۔ مطلب یہ ہے کہ اس معاملہ میں سستی اور تاخیر نہ کی جائے ۔ معلوم نہیں کہ موت کا فرشتہ کس وقت آ جائے ۔ حضرت ابنِ عمرؓ سے اس حدیث کی روایت کرنے والے ان کے خادم نافع کا بیان ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کرنے کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ سے یہ ارشاد سننے کے بعد ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا کہ میرا وصیت نامہ میرے پاس نہ ہو ۔ افسوس ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی اس ہدایت پر عمل کا رواج امت میں اب بہت ہی کم ہے ۔ بس خواص بلکہ اخص الخواص کو اس کی توفیق ہوتی ہے ، حالانکہ اس میں دنیوی لحاظ سے بھی بہت بڑی خیر ہے ، وصیت نامہ کے ذریعہ عزیزوں ، قریبوں اور وارثوں کے درمیان بعد میں اٹھنے والے بہت سے نزاعات اور جھگڑوں کا بھی انسداد ہو سکتا ہے ۔
وصیت
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے وصیت کی حالت میں انتقال کیا (یعنی اس حالت میں جس کا انتقال ہوا کہ اپنی مالیت اور معاملات وغیرہ کے بارے میں جو وصیت اس کو کرنی چاہئے تھی وہ اس نے کی اور صحیح اور لوجہ اللہ کی) تو اس کا انتقال ٹھیک راستہ پر اور شریعت پر چلتے ہوئے ہوا اور اس کی موت تقویٰ اور شہادت والی موت ہوئی اور اس کی مغفرت ہو گئی ۔ (سنن ابن ماجہ) تشریح اس حدیث میں وصیت کرنے کی جو فضیلت بیان کی گئی ہے وہ کسی تشریح کی محتاج نہیں ۔
وصیت
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے بیان کرتے ہیں کہ میں مکہ مکرمہ (سخت مریض ہوا) تو رسول اللہ ﷺ میری عیادت کے لیے تشریف لائے اور میں اس بات کو بہت برا سمجھتا تھا کہ میری موت مکہ کی اس سرزمین میں ہو جس سے میں ہجرت کر چکا ہوں (اور جس کو اللہ کے لئے ہمیشہ کے واسطے چھوڑ چکا ہوں) تو رسول اللہ ﷺ نے (دعا کے طور پر مجھے تسلی دینے کے لئے) ارشاد فرمایا کہ اللہ رحمت فرمائے عفراء کے بیٹے (سعد) پر (حضرت سعد کی والدہ کا نام یا لقب عفراء تھا) میں نے آپ ﷺ سے (بطور استفسار کے عرض کیا کہ (حضرت کی کیا رائے ہے) میں اپنی ساری دولت کو (فی سبیل اللہ اور مصارف خیر) صرف کرنے کی وصیت کر دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نیہں (ایسا نہ کرو) میں نے عرض کیا کہ پھر آدھی دولت کے بارے میں یہ وصیت کر دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں (اتنا بھی نہیں) میں نے عرض کیا کہ تو پھر تہائی کے لئے وصیت کر دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں تہائی کی وصیت کر دو ، اور تہائی بھی بہت ہے ۔ (اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ) تمہارے لئے یہ بات کہ تم اپنے وارثوں کو خوش حال چھوڑ کے جاؤ ، اس سے بہتر ہے کہ تم ان کو مفلسی اور تنگ دستی کی حالت میں چھوڑ کے جاؤ کہ وہ (اپنی ضروریات کے لئے) دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں ۔ اور تم جو کچھ بھی (لوجہ اللہ اور ثواب کی نیت سے) خرچ کرو گے (اگرچہ وہ خرچ اپنے عزیزوں ، قریبوں اور وارثوں پر ہو) تو وہ تمہاری طرف سے “صدقہ” ہو گا حتیٰ کہ جو لقمہ تم اپنے ہاتھ سے اٹھا کے اپنی بیوی کے منہ میں دو گے (وہ بھی عن اللہ تمہارا صدقہ ہو گا) آخر میں آپ ﷺ نے فرمایا اور اللہ تعالیٰ سے اس کی امید ہے کہ وہ تم کو اس مرض سے صحت و شفاء دے کر) مستقبل میں تم کو بلند مرتبہ پر پہنچائے پھر تم سے بہت سے بندگانِ خاد کو نفع پہنچے گا اور بہت لوگوں کو نقصان (اس حدیث کو حضڑت سعد سے روایت کرنے والے(ان کے صاحبزادے عامر بن سعد) کہتے ہیں کہ جس زمانہ کا یہ واقعہ ہے) اس زمانے میں حضرت سعد کے صرف ایک بیٹی تھیں (اس کے علاوہ کوئی اولاد نہیں تھی) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں ۔ حجۃ الوداع کے سفر میں یہ بھی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ، مکہ معظمہ میں یہ سخت بیمار پڑے ، اسی حدیث کی بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں “اشفيت على الموت” یعنی میں گویا موت کے کنارہ پہنچ گیا تھا اور چونکہ وہ مہاجرین میں سے تھے اس لئے یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ جس مکہ کو وہ اللہ کے لئے چھوڑ چکے ہیں اور ہجرت کر چکے ہیں وہاں ان کا انتقال ہو اور اس کی سرزمین میں دفن ہوں ۔ رسول اللہ ﷺ جب ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے اور ان کی یہ فکر اور پریشانی آپ ﷺ کے علم میں آئی تو آپ ﷺ نے “يرحم الله ابن عفراء” کہہ کر ان کے لئے دعا کی اور تسلی دی ، پھر حضرت سعد نے (جو دولت مند صحابہ میں سے تھے) آپ ﷺ سے اپنے مال و دولت کے بارے میں وصیت ہے متعلق دریافت کیا (اس حدیث کی بعض روایات میں ہے کہ انہوں نے صراحت کے ساتھ حضور ﷺ سے عرض کیا کہ اللہ کی دی ہوئی میرے پاس بہت دولت ہے اور میری صرف ایک بیٹی ہے) میں اپنی آخرت بہتر بنانے کے لئے سوچتا ہوں کہ اپنی ساری دولت کے لئے وصیت کر جاؤں کہ وہ فی سبیل اللہ مصارفِ خیر میں صرف کی جائے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی اجازت نہیں دی ، پھر آدھی دولت کے لئے ایسی وصیت کرنے کی بھی اجازت نہیں دی ، صرف تہائی کی اجازت دی اور فرمایا کہ تہائی بھی بہت ہے۔ ” اس کے بعد آپ ﷺ نے ان کو یہ بھی بتلایا کہ عنداللہ اور تمہاری آخرت کے لئے یہی بہتر ہے کہ تم تہائی سے زیادہ کی وصیت نہ کرو ۔ عزیزوں ، قریبوں پر خرچ کرنا اور وارثوں کے لئے چھوڑنا بھی عنداللہ صدقہ ہے ۔ (بشرطیکہ رضائے الہی اور ثواب کی نیت ہو ، اس حدیث کی بعض روایات میں اس شرط کی صراحت ہے) اسی سلسلہ میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ حتی کہ اس نیت کے ساتھ اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ دینے میں بھی تمہارے لئے ثواب ہے حالانکہ اس میں حظِ نفس بھی ہے ۔ سب سے آخر میں آپنے فرمایا کہ “عسى الله ان يرفعك الخ” یہ حضرت سعد کے حق میں ایسی پیشن گوئی تھی جس کا اس وقت کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا ۔ آپ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کو ابھی تم سے بہت کام لینا ہے ، تم ان شاء اللہ اس مرض سے صحت یاب ہو کر اُٹھ جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ تم کو ایسے بلند مرتبہ پر پہنچائے گا کہ تمہارے ہاتھوں قوموں کی تقدیر بنیں گی اور بگڑیں گی۔ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں ۱۰ھ میں ایسی حالت میں ارشاد فرمائی تھی کہ حضرت سعدؓ اپنے کو موت کے کنارے پر سمجھ رہے تھے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشن گوئی اس طرف پوری ہوئی حضرت سعدؓ اس کے بعد قریبا آدھی صدی تک اس دنیا میں رہے اور اللہ نے ان کو یہ بلند مرتبہ بخشا کہ حکومت فارس کے قریبا سارے زیر اقتدار علاقے انہی کی قیادت میں فتح ہوکر اسلامی قلمرو میں شامل ہوئے اور اللہ کے لاکھوں بندوں کو اسلام کی دولت نصیب ہوئی پھر وہ عراق کے حاکم بھی رہے اور ۵۵ء میں اور ایک روایت کے مطابق ۵۸ء میں ان کی وفات ہوئی ۔ حضرت سعد کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشن گوئی اور اسکا اس طرح ظہور میں آنا بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ہے۔ اس حدیث میں “وصیت” کے بارے میں یہ اصولی حق معلوم ہوا کہ جس شخص کے وارث ہوں اس کو فی سبیل اللہ اور مصارف خیر کے لیے بھی اپنے تہائی مال سے زیادہ کی وصیت کرنی جائز نہیں اس پر امت کے ائمہ و علماء کا تقریبا اتفاق ہے۔ ہاں اپنی زندگی میں فی سبیل اللہ اور مصارف خیر میں جو کچھ خرچ کرنا چاہے کر سکتا ہے تہائی کی یہ قید موت کے بعد سے متعلق وصیت ہی کے بارے میں ہے۔ جیسا کے اوپر ذکر کیا گیا یہ واقعہ حجۃ الوداع کے سفر کا ہے جو ۱۰ھ کے اواخر میں ہو تھا صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی متعدد روایات میں اس کی صراحت ہے لیکن ترمذی کی ایک روایت میں اس کو فتح مکہ والے سفر کا واقعہ بتلایا گیا ہے جو ۸ھ میں ہوا تھا۔ محدثین کا اس پر تقریبا اتفاق ہے کہ ترمذی کی روایت میں ایک رائے راوی کو سہو ہوا ہے جس کو محدثین کی اصطلاح میں “وہم” کہا جاتا ہے۔
وصیت
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حجۃ الوداع کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دیتے ہوئے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں فرمایا کہ اللہ تعالی نے (اپنی کتاب پاک میں وارثوں میں سے) ہر صاحب حق کو اس کا حصہ عطا فرما دیا ہے۔ لہذا اب کسی وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں۔ (سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ طیبہ ہجرت فرمانے کے بعد جب معاشرت وغیرہ سے متعلق احکام کا نزول شروع ہوا تو ابتدا سورت بقرہ کی آیت ۱۸۰ (كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ الآية) کے ذریعے یہ حکم دیا گیا تھا کہ جس شخص کے پاس کچھ مال و دولت ہو اس کو چاہیے کہ مرنے سے پہلے اپنے ماں باپ اور دوسرے قریبی عزیزوں کے لئے وہ مناسب طریقہ پر وصیت کر جائے اسکے کچھ مدت بعد اللہ تعالی کی طرف سے وراثت کا مفصل قانون سورہ نساء میں نازل فرما دیا گیا اس طرح وصیت کا پہلا حکم کم ازکم شرعی وارثوں کے حق میں منسوخ ہوگیا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے خطبے میں جہاں اور بہت سے ضروری احکام کا اعلان فرمایا وہاں یہ اعلان بھی فرمایا کہ اللہ تعالی نے وراثت کا قانون نازل فرما کر سب وارثوں کا حق مقرر فرما دیا ہے لہذا اب کسی وارث کے لیے وصیت نہ کی جائے۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہٗ نے اس حدیث میں اسی کا ذکر فرمایا اور مشکاۃ المصابیح میں حضرت ابو امامہؓ کی مندرجہ بالا حدیث سنن ابی داؤد اور ابن ماجہ کے حوالہ سے نقل کرنے کے بعد آخر میں یہ اضافہ ہے۔ وَفِىْ رِوَايَةِ الدَّارَ قُطْنِىْ قَالَ لاَ تَجُوزُ الْوَصِيَّةُ لِوَارِثٍ إِلاَّ أَنْ يَشَاءَ الْوَرَثَةُ اور دارقطنی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ فرمایا کیا اب کسی وارث کے لیے وصیت جائز (اور نافذ) نہیں الا یہ کہ دوسرے وارث چاہیں اور راضی ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے شرعی وارث اس پر راضی ہو جائیں گے کہ مورث کسی وارث کے حق میں (اس کے شرعی حصے کے علاوہ مزید کی) وصیت کر دے اور ان کو اس پر اعتراض نہ ہو تو یہ وصیت جائز اور نافذ ہو جائے گی (بشرطیکہ یہ دوسرے وارث عاقل بالغ ہوں)
وصیت
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ (کبھی ایسا ہوتا ہے) کوئی مرد یا کوئی عورت 60 سال تک اللہ تعالی کی فرمانبرداری والی زندگی گزارتے رہتے ہیں پھر جب ان کی موت کا وقت آتا ہے تو وصیت میں (حقداروں کو) نقصان پہنچا دیتے ہیں (تو اس ظلم اور حقدار بندوں کی اس حق تلفی کی وجہ سے) ان کے لیے دوزخ واجب ہو جاتی ہے۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ) تشریح مطلب یہ ہے کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کے شرعی وارث موجود ہیں جو اللہ کے مقرر کیے ہوئے قانون کے مطابق اس کے مرنے کے بعد اس کے ترکہ کے حقدار ہوں گے تو یہ آدمی کسی ناراضی وغیرہ کی وجہ سے ان کو محروم کرنے کے لئے کسی غیر آدمی کے حق میں یا کسی خاص مصرف کیلئے وصیت کر دیتا ہے یا کوئی اور ایسی تدبیر کرتا ہے جس سے وہ وارث محروم ہوجائیں تو یہ (اس حدیث کے مطابق) اتنا بڑا گناہ اور ایسا ظلم ہے کہ اس کی وجہ سے ساٹھ سالہ اطاعت و فرماں برداری برباد ہو جاتی ہے اور آدمی عذاب دوزخ کا مستحق ہو جاتا ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی مندرجہ بالا حدیث سے معلوم ہوچکا ہے کہ ہر شخص کو اپنی ایک تہائی دولت کے بارے میں وصیت کرنے کی اجازت ہے لیکن نیک نیتی کی شرط ہے۔ وارثوں اور حقداروں کو نقصان پہنچانے کا ارادہ بہرحال گناہ اور ظلم ہے۔
نظام عدالت: عادل اور غیر عادل حاکم و قاضی
حضرت عبد اللہ ابن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (اہل حکومت اور ارباب اقتدار میں سے) عدل و انصاف کرنے والے بندے اللہ تعالی کے ہاں (یعنی آخرت میں) نور کے منبروں پر ہونگے اللہ تعالی کے داہنی جانب۔ اور اس کے دونوں ہاتھ داہنے ہی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہونگے جو اپنے فیصلوں میں اور اپنے اہل و عیال اور متعلقین کے معاملات میں اور اپنے اختیارات کے استعمال کے بارے میں عدل و انصاف سے کام لیتے ہیں۔(صحیح مسلم) تشریح لوگوں کے درمیان پیدا ہونے والے مختلف قسم کے نزاعات و خصومات کا فیصلہ کرنے اور حق داروں کو ان کا حق دلوانے میں تعزیر و سزا کے مستحق چوروں ڈاکوؤں جیسے مجرموں کو سزا دینے کے لئے پر محکمہ قضا یعنی نظام عدالت کا قیام بھی انسانی معاشرے کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی معاملات کے دوسرے ابواب کی طرح اس باب میں بھی اپنے طرز عمل اور ارشادات سے پوری رہنمائی فرمائی ہے۔ہجرت سے پہلے مکہ معظمہ کی زندگی میں تو اس کا سوال ہی نہیں تھا۔ لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب ہجرت کرکے مدینہ منورہ آ بسے اور یہاں اجتماعیت کی ایک شکل پیدا ہوگی تو اس وقت نظام عدالت بھی اپنی ابتدائی سادہ شکل میں قائم ہوگیا۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبی و رسول ہونے کے ساتھ قاضی اور حاکم عدالت بھی تھے۔ نزاعی معاملات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا فیصلہ فرماتے حدود جاری کرتے یعنی سزا کے مستوجب مجرمین کو قانون خداوندی کے مطابق سزائیں دلواتے۔ قرآن مجید میں براہ راست آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا گیا ہے۔ وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ (المائده آيت : 49) (اے پیغمبر!) آپ لوگوں (کے نزاعات و معاملات) کا فیصلہ اللہ کی نازل کی ہوئی ہدایت اور اس کے قانون کے مطابق کیا کریں۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا گیا: إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّـهُ (النساء آيت : 105) ہم نے نازل کی آپ کی طرف کتاب حق (کی ہدایت) کے ساتھ تاکہ آپ لوگوں کے باہمی معاملات کا فیصلہ کریں اللہ کی رہنمائی کے مطابق۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نزاعات و خصومات کے فیصلے خود فرماتے تھے نیز بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی مدینہ طیبہ میں قاضی کی حیثیت سے مقدمات کے فیصلے فرماتے تھے اور جب یمن کا علاقہ بھی اسلامی اقتدار کے دائرہ میں آگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہما کو بھی وہاں قاضی بنا کر بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو جو کسی علاقہ میں عدل و انصاف کے ذمہ دار (قاضی) بنائے جائیں سخت تاکید فرمائی کہ وہ اس ذمہ داری کو اپنے مکان اور اپنی فہم و فکر کی آخری حد تک عدل و انصاف اور خدا ترسی کے ساتھ انجام دینے کی پوری کوشش کریں اور ایسا کرنے والوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کی مدد اور رہنمائی کی اورآخرت میں عظیم انعامات اور بلند درجہ کی بشارت سنائیں اور یہ بھی فرمایا کہ اگر بالفرض ایسے لوگوں سے نادانستہ اجتہادی غلطی بھی ہو جائے گی تو اس پر مواخذہ نہیں ہو گا بلکہ اپنی نیک نیتی اور حق سمجھنے کی محنت و کوشش کا ان کو اجر و ثواب ملے گا۔ اور اس کے بالمقابل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانبداری اور بے انصافی کرنے والے حاکموں کو اللہ تعالی کے قہر و غضب سے ڈرایا اور سخت وعید سنائیں۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت بھی فرمائی کہ حاکم اور قاضی ایسے بندگان خدا کو بنایا جائے جو اس منصب اور عہدہ کے خواہشمند نہ ہوں اور جو لوگ اس کے طالب اور خواہشمند ہوں ان کو ہرگز یہ منصب اور عہدہ نہ دیا جائے۔ قضاء اور عدالت کے طریقہ کار کے بارے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رہنمائی فرمائی اور اس کے لئے کچھ بنیادی اصول بھی تعلیم فرمائے۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل حدیث میں پڑھی جائیں۔ اس حدیث میں ان اہل حکومت اور ارباب اختیار کو جو اپنے فیصلوں میں اور اپنے اختیارات کے استعمال اور سارے معاملات میں عدل و انصاف کا اہتمام اور اس کی پابندی کریں یہ عظیم بشارت سنائی گئی ہے کہ آخرت میں اللہ تعالی کی طرف سے ان کا یہ اعزاز و اکرام ہو گا کہ وہ اس کے داہنی جانب نور کے منبروں پر بِٹھائے جائیں گے۔ اس دنیا کے شاہی درباروں میں کسی کی کرسی کا تخت شاہی کے داہنی جانب ہونا اس کے خاص الخاص اعزاز و اکرام کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس بنا پر اس حدیث کا مقصد و مدعا یہ ہوگا کہ جو بندے برسر حکومت اور صاحب اختیار ہونے کے ساتھ عدل وانصاف کے تقاضوں کی پوری پابندی کریں تو آخرت میں اللہ تعالی کے دربار میں ان کے ساتھ ایسا ہی خاص الخاص اعزاز و اکرام ہوگا ان کی نورانی نشست گاہیں (ممبر کہیے یا کرسیاں) اللہ تعالی کی داہنی جانب ہونگی۔ حدیث کے لفظ “عن يمين الرحمن” (خداوند رحمن کے داہنی جانب) سے شبہ ہوسکتا تھا کہ جس طرح ہم لوگوں کے داہنے ہاتھ کے ساتھ دوسرا بایاں ہاتھ ہوتا ہے (جو داہنے ہاتھ کے مقابلے میں کمزور اور کم تر ہوتا ہے) اسی طرح خداوند رحمن کا بھی دوسرا بایاں ہاتھ ہوگا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وضاحت سے یہ تو معلوم ہو گیا کہ اس حدیث میں یا اس طرح کی دوسری احادیث یا قرآنی آیات میں اللہ تعالی کے لیے جو “یمین” یا “ید” (ہاتھ کیا داہنے ہاتھ) کے الفاظ میں کہیں استعمال ہوئے ہیں ان سے ہمارے جیسے ہاتھ مراد نہیں ہیں۔ قرآن پاک میں بھی فرمایا گیا ہے“ليس كمثله شيئ” (کوئی چیز بھی اللہ کی مثل یا مثال نہیں ہے) رہی یہ بات کہ پھر “ید” جیسے الفاظ سے کیا مراد ہے؟ تو اس کے بارے میں ائمہ سلف کے اس مسئلہ میں زیادہ سلامتی اور احتیاط ہے کہ ہم اس کا اعتراف اور اقرار کریں کہ اللہ تعالی کی ذات و صفات کی نوعیت اور حقیقت کی دریافت سے ہم عاجز ہیں۔ حدیث کے آخری الفاظ ہیں “الذين يعدلون فى حكمهم واهليهم وما ولوا” یعنی یہ بشارت ان عادل و منصف بندوں کے لئے ہے جو اپنے عدالتی اور حکومتی فیصلوں میں انصاف کریں اور اپنے اہل و عیال اور اہل تعلق کے ساتھ بھی ان کا رویہ عادلانہ اور منصفانہ ہو اور اگر وہ کسی کے ولی اور سرپرست ہوں یا کسی جائیداد یا ادارے کے متولی اور ذمہ دار ہوں تو اس کے معاملات میں بھی عدل وانصاف کے تقاضوں کی پابندی کریں۔ اس سے معلوم ہوا کہ عدل و انصاف کا حکم اور اس پر بشارت کا تعلق صرف ارباب حکومت اور حاکمان عدالت ہی سے نہیں ہیں بلکہ اپنے اپنے دائرہ عمل میں ہر شخص اس کا مکلف ہے۔
نظام عدالت: عادل اور غیر عادل حاکم و قاضی
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کرنے والے حاکم قیامت کے دن اللہ کو دوسرے سب لوگوں سے زیادہ محبوب اور پیارے ہونگے اور ان کو اللہ تعالی کا سب سے زیادہ قرب حاصل ہوگا۔ اور (اس کے برعکس) وہ ارباب حکومت قیامت کے دن اللہ کو سب سے زیادہ مبغوض اور سخت ترین عذاب میں مبتلا ہوں گے اور بے انصافی کے ساتھ حکومت کریں گے۔ (جامع ترمذی)
نظام عدالت: عادل اور غیر عادل حاکم و قاضی
حضرت عبداللہ ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قاضی (یعنی حاکم عدالت) کے ساتھ اللہ تعالی ہوتا ہے (یعنی اس کی مدد اور توفیق اس کی رفیق رہتی ہے) جب تک وہ عدل و انصاف کا پابند رہے پھر جب وہ (عدل و انصاف کی پابندی چھوڑ کے) بے انصافی کا رویہ اختیار کر لیتا ہے تو اللہ اس سے الگ اور بے تعلق ہو جاتا ہے (یعنی اس کی مدد اور رہنمائی اس کو حاصل نہیں رہتی) اور پھر شیطان اسکا ہمدم اور رفیق ہو جاتا ہے۔ (جامع ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ حاکم اور قاضی کی نیت اور کوشش جب تک یہ رہے کہ میں حق و انصاف ہی کے مطابق فیصلہ کرو اور مجھ سے بے انصافی سرزد نہ ہو تو اللہ تعالی کی طرف سے اس کی مدد اور رہنمائی ہوتی رہتی ہے۔ لیکن جب خود اس کی نیت خراب ہوجائے اور ظلم و بےانصافی کا راستہ اختیار کر لے تو اللہ تعالی اس کو اپنی مدد اور رہنمائی سے محروم فرما دیتا ہے۔ اور پھر شیطان ہی اس کا رفیق اور رہنما بن جاتا ہے اور وہ اس کو جہنم کی طرف لے جانے والے راستہ پر چلاتا ہے۔
قاضی اور حاکم سے اگر اجتہادی غلطی ہو جائے
حضرت عبداللہ ابن عمرو بن العاص اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے دونوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب حاکم (کسی معاملہ میں) فیصلہ کرنا چاہیے اور (حق کے مطابق اور صحیح فیصلہ کرنے کے لئے) غور و فکر اور کوشش کرے اور صحیح فیصلہ کردے تو اس کو دہرا اجر ملے گا (ایک صحیح فیصلہ کرنے کی نیت اور کوشش و محنت کا اور دوسرا صحیح فیصلہ کرنے کا) اور اگر اس نے حقیقت کو جاننے سمجھنے اور صحیح فیصلہ کرنے کی کوشش کی اور اس کے باوجود فیصلہ غلط کر دیا تو بھی اس کو ایک اجر و ثواب ملے گا (یعنی حق کے مطابق فیصلہ کرنے کی نیت اور محنت کا)۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حدیث کے مطلب کی بقدر ضرورت تشریح ترجمہ کے ساتھ کردی گئی ہے۔ اس حدیث سے ایک بڑی اہم اصولی بات یہ معلوم ہوئی کہ اگر حاکم اور مجتہد کسی معاملہ اور مسئلہ میں حق و صواب کو جاننے سمجھنے کی امکان بھر کوشش کرے تو اگر وہ صحیح نتیجہ پر نہ پہنچ سکے تب بھی وہ عند اللہ اجر و ثواب کا مستحق ہوگا کیوں کے اس کی نیت حق و صواب کو سمجھنے کی تھی اور اس کے لیے اس نے غور و فکر اور محنت و کوشش بھی کی۔ اور وہ اسی کامکلف تھا۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس کا تعلق انہی لوگوں سے ہے جو اس کے اہل ہوں۔ نااہلوں کو اجتہاد کی اجازت تو کوئی بھی نہیں دے سکتا۔ جس شخص نے قدیم یا جدید طب کا فن ہی حاصل نہیں کیا وہ اگر مطب کھول کر بیٹھ جائے اور بیماروں کا علاج کرنے لگے تو مجرم اور جیل خانہ کا مستحق ہوگا۔ ہماری زبان کی صحیح مثل ہے “نیم حکیم خطرہ جان اور نیم ملا خطرہ” ایمان آگے درج ہونے والی حدیث میں صراحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ جو شخص ضروری درجہ کے علم اور اہلیت کے بغیر فیصلہ کرے وہ دوزخ کا مستحق ہے۔
جنتی و دوزخی قاضی حاکم
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قاضی (حاکمان عدالت) تین قسم کے ہیں۔ ان میں سے ایک جنت کا مستحق اور دو دوزخ کے مستحق ہیں۔ جنت کا مستحق وہ حاکم عدالت ہے جس نے حق کو سمجھا اور اس کے مطابق فیصلہ کیا۔ اور جس حاکم نے حق کو سمجھنے کے باوجود ناحق فیصلہ کیا وہ دوزخ کا مستحق ہے۔ اور اسی طرح وہ حاکم بھی دوزخ کا مستحق ہے جو بے علم اور ناواقف ہونے کے باوجود فیصلے کرنے کی جرات کرتا ہے۔ (سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ)
رشوت لینے اور دینے والے مستحق لعنت
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ سلم نے لعنت فرمائی رشوت دینے اور رشوت لینے والے پر۔ (سنن ابی داود وسنن ابن ماجہ ۔۔۔۔۔ اور امام ترمذی نے اس کو حضرت عبداللہ بن عمروؓ کے علاوہ حضرت ابو ہریرہؓ سے بھی روایت کیا ہے) تشریح حاکمانِ عدالت کو حق و انصاف کے خلاف فیصلہ پر آمادہ کرنے والے اسباب میں ایک بڑا سبب رشوت کی طمع ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت لینے اور دینے کو موجب لعنت گناہ بتلایا ہے۔ تشریح .....کسی مجرم کے لئے اللہ یا اس کے رسول کی طرف سے لعنت اس سے انتہائی ناراضی و بیزاری کا اعلان اور نہایت سنگین سزا ہے۔ اللہ کی طرف سے کسی پر لعنت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ خداوند رحمن و رحیم نے اس مجرم کو اپنی وسیع رحمت سے محروم کر دینے کا فیصلہ فرما دیا ہے۔ اور اللہ کے رسول یا فرشتوں کی طرف سے لعنت کا مطلب اس شخص سے بیزاری اور اس کے قابل لعنت ہونے کا اعلان اور اس کی رحمت سے محروم کر دیئے جانے کی بددعا ہوتی ہے۔ اس بنا پر حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت لینے والوں اور رشوت دینے والوں سے اپنی انتہائی ناراضی وبیزای کا اظہار فرمایا اور ان کے لئے بد دعا فرمائی کہ اللہ ان کو اپنی رحمت سے محروم کردے۔ اللہ کی پناہ! رحمت اللعالمین شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم جس بد نصیب سے بیزاری کا اعلان فرمایا اور اس کے لیے رحمت خداوندی سے محروم کیے جانے کی بد دعا فرمائیں اس بدبخت کا کہاں ٹھکانا! اس حدیث کی بعض روایتوں میں ایک لفظ “والرائش” کا اضافہ بھی ہے جس کا مطلب یہ ہوگا کہ رشوت لینے اور دینے والے کیا علاوہ اس درمیانی آدمی (دلال) پر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی جو رشوت کے لین دین کا ذریعہ اور واسطہ بنے۔
حاکم اور قاضی بننا بڑی آزمائش اور بہت خطرناک
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص قاضی (حاکم عدالت) بنایا گیا تا کہ لوگوں کے مقدمات نزاعات کا فیصلہ کرے وہ بغیر ذبح کیا گیا۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ) تشریح ظاہر ہے قاضی اور حاکم بن جانے کے بعد اس کے بہت امکانات پیدا ہو جاتے ہیں کہ آدمی کی نیت اور اس کے اخلاق میں فساد آجائے اور وہ ایسے کام کرنے لگے جن سے اس کا دین و ایمان برباد اور آخرت خراب ہو جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے اس سے بہت ڈرایا ہے اور حتی الوسع اس سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے۔ اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت بھی فرمائی کہ حکومتی عہدے اور عدالتی مناصب ان لوگوں کے کو نہ دیے جائیں جو ان کے طالب اور خواہشمند ہوں بلکہ ایسے لوگوں کو یہ ذمہ داری سپرد کی جائے جو اس کے طالب نہ ہو۔ جس آدمی کو چھری سے ذبح کیا جائے وہ دو چار منٹ میں ختم ہو جائے گا لیکن اگر کسی کو چھری کے بغیر ذبح کرنے کی کوشش کی جائے تو ظاہر ہے اس جلدی کام تمام نہ ہوسکے گا اور اس کی تکلیف طویل المیعاد ہوگی۔ حدیث کا مدعا اور مقصد یہ ہے کہ قاضی اور حاکم عدالت بننا اپنے کو بڑی آزمائش اور مصیبت میں مبتلا کرنا ہے۔ اور اس منصب اور ذمہ داری کے قبول کرنے والے کو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ سر پہ کانٹوں کا تاج رکھ رہا ہے۔
حاکم اور قاضی بننا بڑی آزمائش اور بہت خطرناک
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آئندہ ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ تم لوگ حکومت اور اس کے عہدوں کی حرص کرو گے اور وہ قیامت کے دن ندامت و پشیمانی کا باعث ہوگی۔ بڑی اچھی لگتی ہے حکومت کی آغوش میں لے کر دودھ پلانے والی۔ اور بہت بری لگتی ہے دودھ چھڑانے والی۔ (صحیح بخاری) تشریح اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منکشف فرمایا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں حکومت اور اس کے عہدے حاصل کرنے کا شوق اور اس کی حرص پیدا ہوگی۔ ایسے لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگاہی دی کہ یہ حکومت قیامت میں سخت ندامت اور پشیمانی کا باعث ہوگی جب ان کو اللہ تعالی کے حضور میں حکومت کا حساب دینا ہوگا۔ آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حکومت جب کسی کو ملتی ہے تو بڑی اچھی لگتی ہے جیسے بچہ کو دودھ پلانے والی دایہ اچھی لگتی ہے اور جب وہ ہاتھ سے جاتی ہے (یا موت کے وقت یا زندگی ہی میں اس سے محروم یا دستبردار رہنا پڑے) تو بہت بری لگتی ہیں جیسے کہ دودھ چھڑانے والی دایہ بچہ کو بہت بری لگتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حکومت کے شوقین اور طالبوں کو اس کے اخروی انجام سے غافل نہ ہونا چاہیے قیامت میں ان کو اپنے زیر حکومت لاکھوں کروڑوں بندگان خدا کے حقوق کے بارے میں جوابدہی کرنی ہوگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قسم کے ارشادات کا یہ اثر پڑا تھا کہ بہت سے صحابہ کرامؓ حکومتی اور عدالتی عہدوں سے دور رہنا چاہتے تھے۔ امام ترمذی نے نقل کیا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ نے اپنے زمانہ خلافت میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو قاضی بنانا چاہا لیکن وہ کسی طرح راضی نہ ہوئے۔
حکومت کے طالب اللہ کی مدد و رہنمائی سے محروم
حضرت عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ تم اپنے لیے حکومت کا عہدہ طلب مت کرو اگر تمہارے طلب کرنے پر تم کو حکومت کی ذمہ داری سپرد کی گئی تو تم اس کے حوالے کر دیئے جاؤ گے۔ (اللہ انکی طرف سے تمہاری کوئی مدد اور رہنمائی نہیں ہوگی) اور تمہاری طلب کے بغیر تم کو کوئی حکومتی ذمہ داری سپرد کی گئی تو اللہ کی طرف سے اس میں تمھاری مدد ہوگی۔(صحیح بخاری و صحیح مسلم)
حکومت کے طالب اللہ کی مدد و رہنمائی سے محروم
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو کوئی منصب قضا کا طالب ہوگا اور درخواست کر کے اس کو حاصل کرے گا تو اس کو اس کے نفس اور اس کی ذات کے حوالے کردیا جائے گا۔ (کہ وہ خود ہی اس کی ذمہ داریوں سے نمٹے جو بہت مشکل اور بڑا خطرناک کام ہے) اور جس شخص کو مجبور کرکے قاضی اور حاکم عدالت بنایا جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی رہنمائی کیلیے خاص فرشتہ نازل فرمائے گا جو اس کو ٹھیک ٹھیک چلائے گا۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ) تشریح دونوں حدیثوں کا مدعا اور مطلب یہی ہے کہ حکومتی عہدہ یا عدالتی منصب اپنے نفس کی خواہش سے نہیں لینا چاہیے جوکوئی اس طرح حاصل کرے گا اس کی ذمہ داریوں کے ادا کرنے میں اللہ تعالی کی طرف سے اس کی کوئی مدد نہ ہوگی اور جس کو بغیر اس کی ذاتی خواہش کہ یہ ذمہ داری سپرد کی جائے وہ متوکلا علی اللہ اس کو قبول کر لے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ایسے بندوں کی مدد اور رہنمائی فرمائی جائے گی۔
قاضیوں کے لیے رہنما اصول اور ہدایات
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو قاضی بنا کر یمن کے لئے روانہ فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ جب تمہارے سامنے کوئی مقدمہ اور قضیہ پیش ہوگا تو تم اس کا فیصلہ کس طرح کرو گے؟ تو انہوں نے عرض کیا کہ میں اللہ کی کتاب (قرآن مجید کی ہدایت) کے مطابق فیصلہ کروں گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کتاب اللہ میں تمہیں (اس کے بارے میں کوئی حکم اور ہدایت) نہ ملے؟ (تو کیا کرو گے) انہوں نے عرض کیا کہ پھر میں اللہ کے رسول کی سنت سے فیصلہ کروں گا آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا اور اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنت میں تمہیں (اس بارے میں) حکم اور ہدایت نہ ملے (تو کیا کرو گے؟) انہوں نے عرض کیا تو پھر میں اپنی رائے اور قیاس سے کام لوں گا اور اجتہاد کروں گا اور اور صحیح نتیجہ تک پہنچنے کی کوشش میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھوں گا۔ یہ جواب سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سینہ ٹھونکتےہوئے شاباشی دی اور فرمایا حمد و شکر اس اللہ کے لئے جس نے اپنے رسول کے فرستادہ کو اس بات کی توفیق دی جو اس کے رسول کو پسند ہے۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داود ، مسند دارمی) تشریح مقدمات اور نزاعات کا فیصلہ کرنے والے کا قاضیوں اور حاکموں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو رہنما اصول مقرر فرمایا اور جو ہدایات دیں ان کے لئے مندرجہ ذیل حدیث پڑھی جائیں۔ تشریح .....حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ممتاز صحابہ کرام میں سے ہیں جن کو اپنے طالب علمانہ مزاج اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طویل صحبت اور خصوصی تعلیم و تربیت کے نتیجہ میں کتاب و سنت کے علم اور تفقہ فی الدین میں امتیازی مقام حاصل تھا۔ اسی سلسلہ معارف الحدیث میں پہلے بھی متعدد حدیثوں میں اس کا ذکر آچکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ کے آخری دور میں ان کو یمن کا قاضی اور حاکم بنا کر بھیجا تھا ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم کی تعلیم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کار کے مسلسل مطالعہ سے ان کو یہ اصول معلوم ہو چکا تھا کہ جب کوئی فیصلہ طلب معاملہ پیش آئے تو اس کے بارے میں ہدایت حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے کتاب اللہ کی طرف رجوع کیا جائے اگر وہاں سے ہدایت نہ مل سکے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کار سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے وہاں بھی نہ ملے تو کتاب و سنت کی روشنی میں اجتہاد و قیاس کیا جائے۔ تو جب آنحضرت نے ان کو یمن کا قاضی مقرر فرمایا تو امتحان کے طورپر ان سے دریافت کیا کہ تمہارے سامنے جو معاملات اور مقدمات آئیں گے تم ان کا فیصلہ کس طرح کرو گے؟ انہوں نے اس کا وہ جواب دیا جو حدیث میں مذکور ہوا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے ان کو شاباش دی ان کا سینہ ٹھوکا اور اللہ تعالی کا شکر ادا کیا کہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی اور منشاء کے مطابق جواب دیا جس سے معلوم ہوا کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور صحبت سے اچھا استفادہ کیا ہے۔ اس حدیث کی اس لحاظ سے غیر معمولی اہمیت ہے کہ دین و شریعت میں اجتہاد و قیاس کی یہ سب سے زیادہ واضح بنیاد ہے اور امت کے ہر دور کے فقہاء و مجتہدین نے اسی حدیث کو بنیاد بنا کر اجتہاد و قیاس سے کام لیا ہے اور ان ہزاروں مسائل و معاملات کا فیصلہ کیا ہے جن کے بارے میں واضح ہدایت اور حکم کتاب وسنت میں نہیں ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حضرات محدثین کے مقررہ معیار کے لحاظ سے اس حدیث کی سند کوئی نہیں ہے بلکہ اس میں ضعف ہے (جس کی تفصیل شروح حدیث میں دیکھی جاسکتی ہے) لیکن اس کے باوجود امت کے ائمہ و فقہاء نے اس کو قبول کیا ہے اور اس کی بنیاد پر قیاس و اجتہاد کا سلسلہ چلا ہے شیخ ابن القیم وغیرہ محققین نے لکھا ہے کہ ائمہ فقہاء کے اس کو قبول کر لینے کے بعد اس کی صحت کے لیے کسی دوسری دلیل کی ضرورت نہیں۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ کسی معاملہ اور مسئلہ میں قیاس و اجتہاد کی گنجائش جب ہی ہے جبکہ اس کے بارے میں کتاب وسنت میں کوئی حکم و ہدایت نہ مل سکے۔
قاضیوں کے لیے رہنما اصول اور ہدایات
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ مقدمہ کے دونوں فریق حاکم کے سامنے بیٹھے۔ (مسند احمد ، سنن ابی داؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ حاکم کو چاہیے کہ مقدمہ کے دونوں فریقوں (مدعی اور مدعا علیہ) کے ساتھ اس کا برتاؤ مساویانہ ہو کسی فریق کی کسی خصوصیت یا تعلق کی وجہ سے اس کے ساتھ ترجیحی سلوک نہ ہو قاضی کے سامنے دونوں کی نشست یکساں ہو۔
قاضیوں کے لیے رہنما اصول اور ہدایات
حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا جب تمہارے پاس دو آدمی (کوئی نزاعی معاملہ اور مقدمہ لے کر) فیصلہ کرانے آئیں تو تم پہلے ہی فرید گی بات سن کر فیصلہ نہ دے دو جب تک کے دوسرے کا بیان نہ سن لو ایسا کرو گے تو تم سمجھ لو گے اور جان لو گے کہ تم کس طرح اور کیسا فیصلہ کرو حضرت علی فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں برابر قاضی رہا ہوں۔ (جامع ترمذی) تشریح حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث سنن ابی داؤد اور ابن ماجہ میں بھی ہے اس کا مضمون یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی مرتضیٰ کو قاضی بنا کر یمن بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو انہوں نے عرض کیا کہ حضرت میری عمر بہت کم ہے اور میں مقدمات اور نزاعات کا فیصلہ کرنا نہیں جانتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اطمینان دلایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری مدد اور راہنمائی فرمائے گا اور تم سے صحیح فیصلہ کرائے گا اور ساتھ ہی یہ اصولی ہدایت فرمائی کہ جب کوئی قضیہ تمہارے سامنے آئے تو جب تک تم دونوں فریقوں کا بیان نہ سن لو اس وقت تک کوئی رائے قائم نہ کرو اور نہ فیصلہ دو۔ جب دونوں کی بات سننے کے بعد معاملہ پر غور کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رہنمائی ہو گی اور صحیح فیصلہ کی توفیق ملے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں حضرت علی مرتضیٰؓ کے بارے میں جو فرمایا تھا اس کا ظہور اس طرح ہوا کہ مقدمات و نزاعات کے فیصلہ کے باب میں طبقہ صحابہؓ میں آپؓ کو خصوصی امتیاز حاصل تھا اور آپؓ کا فیصلہ آخری فیصلہ سمجھا جاتا تھا۔
قاضیوں کے لیے رہنما اصول اور ہدایات
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے تھے کہ کوئی قاضی اور حاکم (کسی معاملہ کا فیصلہ) ایسی حالت میں ہرگز نہ کرے کہ وہ غصہ کی حالت میں ہو۔(صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح غصہ کی حالت میں آدمی کا ذہنی توازن صحیح نہیں ہوتا اس لیے رسول اللہ نے تاکید فرمائی کہ ایسی حالت میں کوئی حاکم عدالت کسی مقدمہ اور قضیہ کا فیصلہ نہ کرے ایسے وقت غور فکر کر کے رائے قائم کرے اور فیصلہ کرے جب دماغ ٹھنڈا اور اعتدال و سکون کی حالت میں ہو۔ (اور اگر حاکم کو غصہ مقدمہ کہ کسی فریق پر ہو تو اس کا بھی خطرہ ہے کہ فیصلہ میں ناانصافی ہو جائے)۔
دعوے کے لیے دلیل اور ثبوت ضروری
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا اگر محض دعوے پر لوگوں کے حق میں فیصلہ کر دیا جایا کرے تو لوگ دوسروں کے خلاف (بے باکی سے) خون یا مال کے (جھوٹے سچے) دعوے کرنے لگیں گے۔ لیکن (محض کسی کے دعوے پر اس کے حق میں فیصلہ نہیں کیا جائے گا بلکہ ثبوت طلب کیا جائے گا اور ثبوت و شہادت نہ ہونے کی صورت میں) مدعا علیہ سے حلفیہ انکاری بیان لیا جائے گا۔(صحیح مسلم) تشریح اگر کوئی شخص حاکم اور قاضی کی عدالت میں کسی دوسرے آدمی کے خلاف کوئی دعویٰ یا شکایت کرے تو خواہ دعویٰ کرنے والا کیسا ہی ثقہ صالح اور کتنا ہی بلند مرتبہ کیوں نہ ہو محض اس کے دعوے کی بنیاد پر قاضی اس کے حق میں فیصلہ نہیں کر سکے گا اسلامی قانون میں ہر دعوے کے لئے ضابطہ کے مطابق ثبوت اور شہادت ضروری ہے اگر مدعی شہادت اور ثبوت پیش نہ کر سکے تو مدعا علیہ کہا جائے گا کہ اگر اسکو دعویٰ تسلیم نہیں ہے تو وہ حلف کے ساتھ کہے کہ یہ دعویٰ غلط ہے۔ اگر مدعا علیہ اس طرح کے حلف سے انکار کرے تو دعویٰ صحیح سمجھ کے ڈگری کردیا جائے گا اور اگر وہ حلف کے ساتھ مدعی کے دعوے کو غلط قرار دے تو دعویٰ خارج کر دیا جائے گا اور مدعی علیہ کے حق میں فیصلہ دے دیا جائے گا۔ یہ عدالتی قانون اور ضابطہ ہے جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی اور جو خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ کار بھی تھا۔ تشریح .....صحیح مسلم کی اس روایت کے الفاظ میں مدعی سے ثبوت و شہادت طلب کرنے کا ذکر نہیں ہے صرف مدعا علیہ سے حلفیہ انکاری بیان لینے کا ذکر ہے لیکن صحیح مسلم کے شارح امام نووی نے اپنی شرح مسلم میں لکھا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی اس حدیث کو امام بیہقی نے بھی حسن یا صحیح سند سے روایت کیا ہے اور اس میں پہلے مدعی سے ثبوت و شہادت طلب کرنے کا ذکر ہے اس کے آخری الفاظ یہ ہیں۔ “الْبَيِّنَةِ عَلَى الْمُدَّعِي، وَالْيَمِينِ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ” امام نووی کا یہ کلام صحیح مسلم کی اس حدیث کے ساتھ ہی مشکاۃالمصابیح میں بھی نقل کیا گیا ہے اسی لئے حدیث کے ترجمہ میں ہم نے قوسین میں اس کا اضافہ کردیا ہے۔ متعدد دوسرے صحابہ کرامؓ سے بھی اس مضمون کی حدیثیں مروی ہیں۔
دعوے کے لیے دلیل اور ثبوت ضروری
اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ ایک زمین میری اور ایک یہودی کی مشترکہ ملکیت تھی اس نے میری ملکر سے انکار کردیا اور تنہا اس کا مالک بن بیٹھا میں اس یہودی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا (اور اپنا مقدمہ آپ کے سامنے پیش کیا) آپ نے مجھ سے فرمایا کہ تمہارے پاس اپنے دعوے کی کوئی دلیل (یعنی گواہ شاہد ہے؟) میں نے عرض کیا کوئی گواہ شاہد تو نہیں ہے آپ نے یہودی سے فرمایا کہ (اگر تمہیں اس سے انکار ہے تو) تم قسم کھاؤ (کہ زمین میں مدعی کا کوئی حصہ نہیں ہے تنہا میری ہے) اشعث کہتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ حضرت یہ یہودی (جھوٹی) قسم کھا لے گا اور میرا مال یعنی میری جائیداد ہڑپ کر لے گا ...... تو اللہ کی طرف سے یہ آیت نازل ہوئی “إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ ...... وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ” (جو لوگ اللہ کے عہد و پیمان کو توڑ کر) اور اپنی (جھوٹی) قسموں کے ذریعہ “ثمن قلیل” یعنی دنیا کا تھوڑا سا نفع حاصل کرتے ہیں آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہ ہوگا اور اللہ تعالیٰ ان سے کوئی بات نہ فرمائے گا اور وہ اس کی نگاہ کرم سے بھی محروم رہیں گے اور وہ ان کو پاک صاف بھی نہ کرے گا اور ان کو نہایت دردناک عذاب ہوگا۔(سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی قضیہ میں مدعی مسلم اور مدعا علیہ غیر مسلم ہو تب بھی اس قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی اور مدعی کے پاس ثبوت شہادت نہ ہونے کی صورت میں اگر غیر مسلم مدعاعلیہ کے ساتھ انکاری بیان دے گا تو اس کو قبول کر لیا جائے گا۔ اور اگر فی الواقع اس نے بددیانتی کی ہے اور جھوٹا حلفیہ بیان دیا ہے تو آخرت میں وہ اس کی سخت ترین سزا پائے گا۔
دعوے کے لیے دلیل اور ثبوت ضروری
علقمہ بن وائل نے اپنے والد وائل کی روایت سے بیان کیا کہ ایک شخص حضرموت کے رہنے والے اور ایک قبیلہ کندہ (اپنا مقدمہ لے کر) کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے حضرمی نے (جو مدعی تھا) عرض کیا کہ یارسول اللہ اس کندی نے میری ایک زمین پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ کندی نے (جو مدعا علیہ تھا) جواب میں کہا کہ وہ زمین فی الواقع میری ہی ملکیت ہے اور میرے قبضہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدعی حضرمی سے فرمایا کہ کیا تمھارے پاس دعوے کی دلیل (گواہ شاہد) ہیں؟ اس نے عرض کیا کہ گواہ شاہد تو نہیں ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تو تم کو صرف یہ حق ہے کہ اپنے مدعا علیہ کندی سے قسم لے لو۔ حضرمی نے عرض کیا کہ حضرت یہ آدمی تو فاجر (بدکار و بد چلن اور بددیانت) ہے اس کو اس کی کچھ پروا نہیں کہ کس بات کی قسم کھا رہا ہے اور کسی بھی (بری) بات سے اس کو پرہیز نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (کچھ بھی ہو جب تمہارے پاس دعوے کے گواہ شاہد نہیں ہیں تو) تم کو بس یہی حق ہے کہ اس آدمی سے قسم لے لو! تو جب وہ کندی حلف اٹھانے کے لیے دوسری طرف کوچلا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس کو آگاہی دیتے ہوئے) ارشاد فرمایا کہ اگر اس نے حضرمی کا مال ظالمانہ اور ناجائز طور پر ہڑپ کرنے کے لئے جھوٹی قسم کھائی تو اللہ کے حضور میں یہ اس حال میں پیش ہوگا کہ اللہ تعالی کا غضب و ناراضی کی وجہ سے) اس کی طرف سے روخ پھیر لیں گے۔(صحیح مسلم) تشریح بلاشبہ آخرت میں کسی بندے کی یہ انتہائی بد بختی اور بدنصیبی ہوگی کہ اللہ تعالی غضب و ناراضی کی وجہ سے اس کی طرف سے رخ پھیر لیں یہ اس کے مردود بارگاہ اور ناقابل معافی ہونے کی علامت ہوگی۔ اس سے پہلے اشعث بن قیس کی حدیث میں ایسے لوگوں کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے جو آیت تلاوت فرمائی تھی۔ (أُولَـٰئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّـهُ ....... وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ) وائل کی اس حدیث میں وَهُوَ عَنْهُ مُعْرِضٌ اسی کی اجمالی تعبیر ہے اور آیت کا مضمون گویا اس کی تفصیل ہے۔ صحیح مسلم کی اس حدیث میں ایک جملہ یہ تھا “فَانْطَلَقَ لِيَحْلِفَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَدْبَرَ الخ” جس کا ترجمہ کیا گیا ہے کہ جب وہ کندی حلف اٹھانے کے لیے دوسری طرف چلا رسول اللہ وسلم نے فرمایا غالبا اس کندی سے کہا گیا ہوگا کہ مسجد چل کر نماز کے بعد سب کے سامنے قسم کھاؤ یا یہ کہ منبر کے پاس کھڑے ہوکر قسم کھاؤ۔ تو جب وہ قسم کھانے کے لیے ادھر کو چلا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو آگاہی دی کہ جو کوئی جھوٹی قسم کھا کر پرایا مال ناجائز طور پر حاصل کرے گا آخرت میں اس کا یہ انجام ہوگا۔ صحیح مسلم کی اس حدیث میں اس کا کوئی ذکر نہیں کہ پھر اس شخص نے قسم کھائ یا قسم کھانے سے باز آگیا۔ لیکن سنن ابی داود میں حضرمی اور کندی کے اسی مقدمہ سے متعلق اشعث بن قیس کی ایک حدیث ہے اس کے آخر میں یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے آخرت کے برے انجام کی وعید سنائ تو کندی قسم کھانے سے رک گیا اور اس نے اقرار کر لیا کہ وہ زمین مدعی حضرمی ہی کی ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کے مطابق فیصلہ فرما دیا۔
جھوٹے دعوے اور جھوٹی قسم والوں کا ٹھکانہ جہنم
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جو کوئی ایسی چیز پر دعوے کرے جو فی الحقیقت اس کی نہیں ہے تو وہ ہم میں سے (یعنی ہمارا آدمی اور ہمارا ساتھی) نہیں ہے اور اس کو چاہئے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے۔(صحیح مسلم) تشریح جیسا کہ معلوم ہے تمام انبیاء علیہم السلام کی عموما اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصا اصل حیثیت نبی و رسول اور بشیر و نذیر کی ہے۔(1) ...... وہ اللہ کے حکم سے اس کے بندوں کو ایمان اور اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ کی دعوت و ترغیب دیتے اور ان پر خداوندی فضل و انعام اور رحمت و جنت کی بشارت سناتے ہیں۔ اور کفر و شرک اور بداعمالیوں و بد اخلاقیوں اور جرائم سے بندگان خدا کو روکتے ان کو برے انجام سے آگاہی دیتے اور خدا کے غضب و عذاب سے ڈراتے ہیں یہی ان کی دعوت و ہدایت کی بنیاد اور یہی ان کا سب سے کارگر ہتھیار اور یہی ان کی اصل طاقت ہوتی ہے۔ عدالت میں جھوٹا دعویٰ کرنا اور اسی طرح ناجائز طور پر کسی کی چیز حاصل کرنے یا اس کو نقصان پہنچانے کے لئے جھوٹی قسم کھانا بدترین اور شدید ترین گناہوں میں سے ہے۔ ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ذیل میں پڑھے جائیں۔ تشریح .....اپنے کو مسلمان کہنے اور مسلمانوں میں شمار کرنے والے شخص کے لیے اس سے زیادہ سخت شدید وعید کیا ہوسکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بارے میں فرما دیں کہ وہ ہم میں سے نہیں ہے ہماری جماعت سے خارج ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ اللہ کی پناہ!
جھوٹے دعوے اور جھوٹی قسم والوں کا ٹھکانہ جہنم
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کسی نے جھوٹی قسم کھا کر کسی مسلمان کا کوئی حق مارا (اور عدالتی فیصلے سے اسکی کوئی چیز حاصل کرلی) تو اللہ نے اس شخص کے لئے دوزخ واجب کردی ہے اور جنت حرام۔ ایک شخص نے سوال کیا یارسول اللہ اگرچہ وہ چیز بالکل معمولی اور تھوڑی سی ہو (تب بھی یہی سزا ہوگی؟)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگرچہ)(جنگلی درخت) پیلو کی ایک ٹہنی ہی ہو۔(صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر کسی نے عدالت میں جھوٹی قسم کھا کے کسی دوسرے بندے کی بالکل معمولی اور بے قیمت چیز بھی حاصل کی تو اس نے بھی اتنا بڑا گناہ کیا جس کی سزا میں اس کو دوزخ کا عذاب ضرور بھگتنا ہوگا اور مومنین صالحین والی جنت سے محروم رہے گا۔ حدیث میں “مَنِ اقْتَطَعَ حَقَّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ” فرمایا گیا یہ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مدینہ منورہ کا معاشرہ اسلامی معاشرہ ہی تھا اور آپ صلی اللہ وسلم کے سامنے عموما مسلمانوں ہی کے باہمی مقدمات آتے تھے ورنہ کسی غیر مسلم کی چیز بھی جھوٹی قسم کھا کر حاصل کرنا اسی طرح حرام ہے جس طرح مسلمان کی چیز حاصل کرنا۔ اس کی واضح دلیل قرآن پاک کی وہ آیت ہے جس کا حوالہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک حدیث میں جو پہلے سے درج ہو چکی ہیں) جھوٹی قسم کے عذاب ہی کے سلسلہ میں دیا ہے۔ یعنی “إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّـهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَـٰئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّـهُ وَلَا يَنظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ” (آل عمران 77)
خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ سے بھی دوسرے کی چیز حلال نہیں ہو سکتی
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایک بشر ہوں اور تم لوگ میرے پاس اپنے نزاعات اور مقدمات لاتے ہو اور ہو سکتا ہے کہ تم میں سے ایک زیادہ اچھا بولنے والا اور بہتر انداز میں تقریر کرکے اپنی دلیل پیش کرنے والا ہو دوسرے سے" اور پھر میں اس کی بات سن کر اسی کے مطابق اس کے حق میں فیصلہ دے دوں تو اس طرح میں جس کے لیے اس کے بھائی کی چیز کا فیصلہ کر دوں تو وہ اس کو ہرگز نہ لے (اس کے جھوٹے دعوے یا جھوٹی قسم کے نتیجہ میں) اس کو جو دیتا ہوں وہ (انجام کے لحاظ سے) اس کے واسطے دوزخ کا ایک حصہ ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک چالاک مقدمہ باز آدمی دوسرے کی چیز پر جھوٹا دعویٰ کرتا ہے اور اسکا ایسا ثبوت پیش کرتا ہے کہ قاضی اس کو بر حق سمجھ کر اس کے حق میں فیصلہ دے دیتا ہے۔ اور اسی طرح کبھی کوئی جھوٹا مدعا علی اپنی چرب زبانی سے اور جھوٹی قسم کھا کر اپنی سچائی کا قاضی کو یقین دلا دیتا ہے اور وہ اس کے حق میں فیصلہ کر دیتا ہے توقاضی شریعت کے اس فیصلے سے وہ چیز اس جھوٹے مدعی یا مدعا علیہ کے لیے حلال و جائز نہیں ہو جاتی حرام ہی رہتی ہے اور جھوٹا مقدمہ لڑانے اور جھوٹی قسم کھانے سے وہ جہنمی بن جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں بھی ایک بشر ہوں اور کسی مقدمہ باز کی چرب زبانی سے متاثر ہوکر مجھ سے بھی ایسا فیصلہ ہوسکتا ہے تو میرے فیصلہ سے بھی وہ چیز اس کے لئے حلال نہ ہوگی حرام ہی رہے گی۔ حدیث یہ ہے: تشریح .....مطلب یہ ہے کہ ایک انسان اور بندہ ہو عالم الغیب نہیں ہوں" ہوسکتا ہے کہ کسی مدعی یا مدعا علیہ کی تقریر و استدلال سے متاثر ہوکر اس کے حق میں فیصلہ دے دوں اور فی الواقع وہ اس کا حق نہ ہو تو میرے فیصلہ سے بھی دوسرے فریق کی چیز اس کے لئے حلال اور جائز نہ ہوگی بلکہ وہ اس کے حق میں دوزخ ہو گی۔
جھوٹی قسم شدید ترین گناہ کبیرہ
حضرت عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑے (اور سب سے خبیث) گناہ یہ ہیں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا۔ اور ماں باپ کی نافرمانی۔ اور (حاکم کے سامنے) جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھانا۔ اور عدالت میں جو قسم کھانے والا قسم کھائے اور اس میں مچھر کے پر کے برابر گڑبڑ کرے (یعنی ذرہ برابر بھی جھوٹ یاخیانت شامل کرے) تو (اللہ تعالی کی طرف سے) اس کے دل میں قیامت تک کے لئے ایک داغ بنا دیا جاتا ہے۔ (یعنی اس کا وبال قیامت میں ظاہر ہوگا)۔ (جامع ترمذی)
جھوٹی قسم شدید ترین گناہ کبیرہ
خریم بن فاتک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک دن) صبح کی نماز پڑھی جب آپ فارغ ہوئے تو (اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ جھوٹی گواہی شرک کے برابر کر دی گئی۔ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ ارشاد فرمائی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے(قرآن پاک کی) یہ آیت پڑھی: “فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ حُنَفَاءَ لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ” (اے لوگو! بت پرستی کی گندگی سے بچو اور جھوٹی گواہی سے بچو یکسوئی کے ساتھ بس اللہ ہی کے ہو کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کرنے والے نہ ہو) (سنن ابی داود) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو آیت اس خطاب میں تلاوت فرمائی اس میں شرک و بت پرستی کے ساتھ “قول زور” سے بچنے اور پرہیز کرنے کی تاکید فرمائی گئی ہے اور دونوں کے لیے امر کا ایک ہی صیغہ اور ایک ہی کلمہ “اجتنبوا” استعمال فرمایا گیا ہے اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھا اور مخاطبین کو سمجھایا کہ شہادت زور (جھوٹی شہادت) ایسا ہی گندہ اور خبیث گناہ ہے جیسا کہ شرک و بت پرستی اور ایمان والوں کو اس سے ایسا ہی پرہیز کرنا چاہیے جتنا کے شرک و بت پرستی سے۔
کن لوگوں کی گواہی معتبر نہیں
عمرو بن شعیب نے اپنے والد شعیب سے نقل کیا اور انہوں نے اپنے دادا (حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا کی خیانت کرنے والے کسی مرد اور (اسی طرح) خیانت کرنے والی کسی عورت کی شہادت درست نہیں (یعنی قابل قبول نہیں) اور کسی زانی اور زانیہ کی شہادت بھی قابل قبول نہیں) اور کسی دشمنی رکھنے والے کی شہادت بھی اس بھائی کے خلاف جس سے اسکی دشمنی ہو قابل قبول نہیں اور جو شخص (اپنی روزی اور ضروریات زندگی کے لئے) کسی گھرانے سے وابستہ ہوکر پڑ گیا ہو اس گھر والوں کے حق میں اس کی شہادت کو رسول اللہ صلی اللہ ھو علیہ وسلم نے ناقابل قبول قرار دیا۔ (سنن ابی داود) تشریح اس حدیث میں پہلے خیانت اور زنا کا ارتکاب کرنے والے مردوں اور عورتوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ ان کی شہادت قابل قبول نہیں۔ ان دونوں گناہوں کو بطور مثال کے سمجھنا چاہیے اصول اور قانون یہ ہو گا کہ جو شخص ایسے کبائر اور فواحش کا مرتکب ہو دوسرے لفظوں میں فاسق وفاجر ہو اس کی شہادت قبول نہ ہوگی کیونکہ ایسے گناہوں کا ارتکاب اس کی دلیل ہے کہ اس کے دل میں خدا کا خوف نہیں ہے اس لیے اس کی سچائی پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ کسی دشمنی رکھنے والے کی مخالفانہ گواہی کے قابل قبول نہ ہونے کی وجہ ظاہر ہے۔ اسی طرح جو آدمی کسی گھرانے سے وابستہ ہو اسکا رہناسہنا کھانا پینا انہی کے ساتھ ہو وہ گویا اسی گھرانے کا ایک فرد ہے اس لئے اس گھرانے کے حق میں اس کی شہادت بھی قبول نہیں کی جائے گی اس سے معلوم ہو گیا کہ گھر والوں کی بدرجہ اولی قابل رد ہوگی۔
نظام حکومت......... خلافت وامارت: عوام کو امیر کی اطاعت اور امیر کو تقوی اور عدل کی ہدایت
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ اور جس نے امیر کی فرماں برداری کی اس نے میری فرمانبرداری کی اور جس نے اس کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ اورامام (یعنی اسلامی حکومت کا سربراہ) سپر اور ڈھال ہیں قتال کیا جاتا ہے اس کے پیچھے سے اور اس کے ذریعہ بچاو کیا جاتا ہے پس اگر وہ خدا ترسی اور پرہیزگاری کا حکم کرے اور عدل و انصاف کا رویہ اختیار کرے تو اس کے لیے اس کا بڑا اجر و ثواب ہے اور اگر وہ اس کے خلاف بات کرے تو اس پر اس کا وبال و عذاب پڑے گا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح جیساکہ معلوم ہے اسلام انسانی زندگی کے سارے ہی شعبوں پر حاوی ہے وہ عقائد و ایمانیات عبادات اخلاق آداب معاشرت اور معاملات کی طرح نظام حکومت کے بارے میں بھی اپنے پیروؤں کی رہنمائی کرتا اور احکام و ہدایات دیتا ہے بلکہ سلطنت و حکومت کا شعبہ اس کا اہم ترین شعبہ ہے کیونکہ دوسرے بہت سے شعبوں کا وجود اس سے وابستہ اور اسی پر موقوف ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے طرز عمل اور ارشادات اس شعبہ کے بارے میں بھی امت کی پوری رہنمائی فرمائی ہے۔ ہجرت کے بعد جب مدینہ طیبہ میں مسلمانوں کی اجتماعیت کی ایک شکل پیدا ہوگئی تو غیر رسمی طور پر ایک چھوٹی سی حکومت بھی قائم ہوگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نبی و رسول ہونے کے ساتھ اس حکومت کے سربراہ اور فرمانروا بھی تھے ہجرت کے بعد قریبا دس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں رہے اس مدت میں اس حکومت کا دائرہ اقتدار برابر وسیع ہوتا رہا اور تیزی سے وسیع ہوا یہاں تک کہ حیات مبارک کے آخری دور میں پورا عرب بلکہ یمن اور بحرین کے علاقے بھی اس حکومت کے زیر اقتدار آگئے۔ ان دس سالوں میں اس دور کے معیار کے مطابق وہ سب ہی کام اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے ہاتھوں سے کرائے جو حکومت کے سربراہوں ہی کے کرنے کے ہوتے ہیں" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلاء کلمۃ اللہ اور اللہ کے بندوں پر اللہ ہی کی حکمرانی قائم کرنے کے لئے اس کے راستے میں روکاوٹ ڈالنے والے دشمن طاقتوں سے جہاد بھی کیا اس سلسلے میں فوجی مہمیں اور فوجی دستے بھی بھیجے۔ صلح کے معاہدے بھی کئے جزیہ اور خراج اور زکوۃ کی وصولی کا نظام بھی قائم فرمایا۔ زیر اقتدار آ جانے والے علاقوں میں قاضی" والی اور عامل بھی مقرر کیے اور ان سب کاموں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات میں اسلامی حکومتوں اور ان کے سربراہوں کے لیے اصولی درجہ میں پوری رہنمائی موجود ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ خواص و اصحاب ورفقاء میں سے جو چار حضرات کے یکے بعد دیگرے اس حکومتی نظام کو چلانے میں آپ صلی اللہ وسلم کے جانشین ہوئے۔ (حضرت ابوبکر صدیق حضرت عمر فاروق حضرت عثمان ذی النورین حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہم) انہوں نے اپنے زمانے کے تقاضوں کا لحاظ رکھتے ہوئے امکان بھر اس کی کوشش کی کہ حکومت سے متعلق سارے معاملات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طور طریقوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کی پوری پابندی اور پیروی کی جائے ان کا یہی وہ امتیاز ہے جس کی وجہ سے ان کو “خلفائے راشدین” کہا جاتا ہے “خلافت راشدہ” وہی حکومت ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کی حتی الامکان پوری پابندی و پیروی کی جائے۔ اس تمہید کے بعد نظام حکومت و امارات سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ارشادات ذیل میں پڑھے جائیں۔ انہیں سے یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ اسلامی حکومت اور اس کے سربراہ کی کیا خاص ذمہ داریاں ہیں اور عام مسلمانوں کا رویہ ان کے ساتھ کیسا رہناچاہئے۔ تشریح .....قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے “مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ” (جس نے اللہ کے رسول کی فرماں برداری کی اس نے اللہ کی فرماں برداری کی) کیوں کہ اللہ کے رسول جو احکام دیتے ہیں وہ اللہ تعالی ہی کی طرف سے ہوتے ہیں اور خود اللہ تعالی کی طرف سے اس کی فرمابرداری کا حکم ہے اس لئے ان کے احکام کی تعمیل اللہ تعالی کے احکام اور ان کی نافرمانی اللہ تعالی کی نافرمانی ہے۔ پھر چونکہ اللہ ہی کے حکم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت یہ ہے کے امیر کی اطاعت کی جائے اور اس کا حکم مانا جائے (بشرطیکہ شریعت کے خلاف نہ ہو) تو امیر کی اطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہوگی اور اس کی نافرمانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی ہوگی) ملحوظ رہے کہ عربی میں خاص کر قرآن وحدیث کی زبان میں امیر کے معنیٰ حکمران کے ہیں۔ بظاہر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا خاص مقصد ومدعا امیر (حاکم وقت) کی اطاعت فی المعروف کی اہمیت جتلانا ہے کہ اس کی فرماں برداری اور نافرمانی اللہ کے رسول کی اور بالواسطہ خود اللہ تعالی کی فرماں برداری اور نافرمانی ہے۔ آگے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ امیر بمنزلہ سپر اور ڈھال کے ہے سپر اور ڈھال کے ذریعہ اپنی حفاظت اور دشمن کے حملہ سے بچاؤ کیا جاتا ہے اسی طرح امام وقت (اسلامی حکومت کا سربراہ) مسلمانوں کا اور دین کا محافظ اور پاسبان ہے یہ حفاظت اور دفاع اس کی خاص ذمہ داری ہے۔ اس سلسلہ میں جہاد و قتال کی نوبت آئے گی۔ اس لیے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس کی وفاداری اور اطاعت کریں اس کے حکم کو مانیں اس کے بغیر وہ دفاع اور حفاظت کا فریضہ انجام نہیں دے سکتا۔ اگر میں ان امراء (اصحاب حکومت) کو نصیحت فرمائی گئی ہے کہ وہ تقوی اور عدل و انصاف کو لازم پکڑیں یعنی ہمیشہ یہ بات ان کے پیش نظر رہے کہ خدا ہر وقت اور ہر حال میں ہم کو دیکھ رہا ہے اور قیامت میں اس کے حضور میں پیشی ہوگی اور امیر و حاکم کی حیثیت سے جو کچھ ہم نے یہاں کیا ہوگا اس کا بڑا سخت محاسبہ ہوگا اس سے کبھی غافل نہ ہوں اور عدل و انصاف پر قائم رہنے کی پوری کوشش کریں۔ اگر ایسا کریں گے تو آخرت میں بڑا اجر پائینگے اور اگر اس کے خلاف چلیں گے تو اسکا شدید عذاب و وبال بھگتنا پڑے گا۔
عوام کو امیر کی اطاعت اور امیر کو تقوی اور عدل کی ہدایت
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا کہ اے معاویہ! اگر تم کو حاکم مقرر کیا جائے تو خوف خدا اور عدل و انصاف کو اپنا شعار بنانا۔ معاویہؓ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے مجھے برابر یہ خیال رہا کہ غالبا میں حکومت کی لائن کے کام میں مبتلا کیا جاؤں گا یہاں تک کہ منجانب اللہ اس میں مبتلا کیا گیا۔ (مسند احمد) تشریح پہلی حدیث کی طرح اصحاب حکومت کو اس حدیث کا پیغام بھی یہی ہے کہ وہ خدا ترسی اور عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کریں۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر غالبا یہ منکشف ہوگیا تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ معاویہؓ صاحب آمر اور حاکم ہونگے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں وہ شام کے گورنر رہے۔ اس کے بعد حضرت حسنؓ سے صلح کے بعد ایک وقت آیا کہ وہ پوری اسلامی مملکت کے امیر و سربراہ تسلیم کر لیے گئے ۔
عوام کو امیر کی اطاعت اور امیر کو تقوی اور عدل کی ہدایت
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ کے بندوں میں سب سے افضل اللہ کے نزدیک نرم خو رحم دل اور عادل و منصف حکومت ہوگے اور بدترین درجہ میں سخت دل اور ظالم و غیر منصف سربراہ حکومت ہوں گے۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خلیفہ اور امیر کو خدا ترس اور عادل و منصف ہونے کے ساتھ نرم خو اور رحم دل بھی ہونا چاہیے جیسے کہ حکومت کے معاملہ میں خود رسول اللہ صلی وسلم کا رویہ تھا۔
امیر کو عوام کی خیرخواہی کی تاکید
حضرت معقل بن یسار سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے ثنا فرماتے تھے کہ جس بندہ کو اللہ کسی رعیت کا راعی (یعنی حاکم و نگران) بنائے اور وہ اس کی خیر خواہی پوری پوری نہ کرے تو وہ حاکم جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکے گا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امیر اور حکمران کا فرض ہے کہ جو لوگ اس کے زیر حکومت ہیں ان کی خیرخواہی اور خیراندیشی میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھے اگر عوام کی خیر خواہی میں کوتاہی کرے گا تو جنت سے بلکہ اس کی خوشبو سے بھی محروم رہے گا۔ اس حدیث میں اس کے علاوہ بعض حدیثوں میں بھی امیر یعنی صاحب حکومت کو “راعی” اور اس کے زیر حکومت عوام کو “رعیت” کہا گیا ہے۔ اصل عربی زبان میں راعی کے معنی چرواہے اور نگہبان کے ہیں اور “رعیت” وہ ہے جس کو وہ چرائے اور جس کی حفاظت و نگہبانی اس کے ذمہ ہو۔ صرف یہ دو لفظ یہ بتلانے کے لئے کافی ہیں کہ اسلام میں حکومت وامارت کا کیا تصور ہے اور حکمرانوں کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔ فرض شناس چرواہے ان جانوروں کو جن چرانا اور جن کی نگہبانی ان کے ذمہ ہوتی ہے سرسبز چراگاہوں میں لے جاتے ہیں درندوں اور چوروں رہزنوں سے ان کی حفاظت کرتے ہیں اور شام کو گھر واپس لاتے ہیں اس طرح ان کو کھلانا پلانا اور ان کی دیکھ بھال ہی اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ ان حدیثوں نے بتلایا کہ اسلام میں یہی حیثیت خلیفہ اور حکمران کی ہے وہ عوام کا محافظ اور رکھوالہ ہے اور ان کی ضروریات کی فکر اس کی ذمہ داری ہے اور اگر وہ اس سلسلہ میں بے پرواہی برتے گا تو اللہ کے نزدیک مجرم ہوگا۔
اہل حاجت کے لیے امیر کا دروازہ کھلا رہنا چاہیے
حضرت عمرو بن مرہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت معاویہؓ سے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے فرماتے ہیں کہ جو حکمران ضرورت مندوں اور کمزور بندوں کے لیے اپنا دروازہ بند کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی حاجت اسکی ضرورت اور اس کی مسکینی کے وقت آسمان کے دروازے بند کر لے گا (یعنی اس کی ضرورت مند ی کے وقت اللہ تعالی کی طرف سے اس کی مدد نہیں ہوگی)۔ تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد خلفاۓراشدین کا بھی طریقہ یہ تھا کہ اصحاب حاجت بلا روک ٹوک پہنچ کر مل سکتے تھے اور اپنے مسئلے پیش کر سکتے تھے ان کے لیے دروازہ بند نہیں رہتا تھا لیکن جب خوارج کی طرف سے خفیہ حملوں کا سلسلہ شروع ہوا اور حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ انکے ہاتھوں شہید ہوئے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ ہوا تو انہوں نے لوگوں کی آمدورفت پر پابندی لگا دی ، اسی موقع پر حدیث کے راوی حضرت عمرو بن مرہؓ نے ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سنایا: اسی روایت میں آگے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سننے کے بعد حضرت معاویہؓ نے دروازہ پر ایک خاص آدمی مقرر کردیا جو لوگوں کی حاجات وضروریات معلوم کرکے حضرت معاویہؓ تک پہنچاتا تھا۔
امیر کا حکم اگر خلاف شریعت نہیں ہے تو بہرحال اس کی اطاعت کی جائے لیکن معصیت میں کسی کی اطاعت نہیں
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کے اصحاب امر کے احکام سنا اور ماننا ہر مرد مومن کے لئے ضروری ہے ان امور میں بھی جو پسند ہو اور ان امور میں بھی جو ناپسندیدہ ہوں جب تک کہ کسی گناہ کا حکم نہ دیا جائے لیکن جب کوئی صاحب امر کسی خلاف شریعت بات کا حکم دے تو پھر سمع و اطاعت (سننے اور ماننے) کا حکم نہیں۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ھے کہ اگر کسی ایسی بات کا حکم دے جو آپکی طبیعت یا آپ کی ذاتی رائے کے خلاف ہو لیکن شریعت کے خلاف نہ ہو تو اپنی طبیعت کے رجحان اور رائے کو نظرانداز کرکے اس کی اطاعت کرنی ضروری ہے اگر ایسا نہ کیا گیا تو ظاہر ہے کہ قدم قدم پر اختلاف و انتشار ہو گا۔ ہاں اگر شریعت کے خلاف امیر کوئی حکم دے تو اسکی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ اللہ کا اور اس کی شریعت کا حکم مقدم اور سب سے بالا ہے۔
ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا افضل الجہاد ہے
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا افضل الجہاد ہے۔ (جامع ترمذی،سنن ابی داؤد،سنن ابن ماجہ) تشریح کافر دشمنوں سے قتال کرنے میں اگرچہ شکست اور اپنی موت کا خطرہ بھی ہوتا ہے لیکن فتح اور کامیابی کی امید بھی ہوتی ہے۔ مگر ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنے میں اپنی جان کا یا کم سے کم سزا کا خطرہ ہی ہوتا ہے غالبا اسی وجہ سے اس کو افضل الجہاد فرمایا گیا ہے۔
عورت کو سربراہ حکومت بنانا صحیح نہیں
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ وسلم کو خبر پہنچی کے اہل فارس نے کسری شاہ فارس کی بیٹی کو اپنا بادشاہ فرمانروا بنا لیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ قوم فلاح یاب نہیں ہوگی جس نے ایک عورت ذات کو اپنا حکمران اور فرمانروا بنایا ہے۔ (صحیح بخاری) تشریح مرد اور عورت کی خلقت اور فطرت میں جو کھلا ہوا فرق ہے وہ اس کی روشن دلیل ہے کہ عورت کی تخلیق و ملک و قوم پر حکمرانی جیسے کاموں کیلئے نہیں ہوئی اگر کہیں کہیں اس کے خلاف عمل میں آتا ہے تو وہ یقینا فطرت کے خلاف ہے اور ان خلاف فطرت کاموں میں سے ہے جو دنیا میں ہوتے رہے ہیں اور ہورہے ہیں۔
خلیفہ اپنا جانشین نامزد بھی کرسکتا ہے اور اہل حل و عقد کے انتخاب پر بھی چھوڑ سکتا ہے
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض وفات میں مجھ سے فرمایا کہ (اے عائشہ!) اپنے والد ابو بکر اور اپنے بھائی (عبد الرحمن بن ابی بکر) کو میرے پاس بلوا دو تاکہ میں (خلافت کے بارے میں) تحریر لکھوا دوں مجھے اندیشہ ہے کہ (خلافت کی) تمنا رکھنے والا کوئی آدمی اس کی تمنا کرے اور کوئی کہنے والا کہے کہ میں ہوں اس کا مستحق اور وہ نہیں ہوگا مستحق" اور اللہ تعالی کو اور مومنین کو ابوبکر کے سوا کوئی منظور نہ ہوگا۔ (صحیح مسلم) تشریح دور حاضر کے مغربی نظام جمہوریت سے مرعوبیت کے نتیجہ میں جو کچھ لوگوں نے کہنا شروع کیا ہے کہ “اسلامی نظام” میں استخلاف (یعنی سربراہ حکومت کی طرف سے اپنے جانشین کی نامزدگی) کی گنجائش نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ نظریہ صرف مرعوبیت کی پیداوار ہے۔ استخلاف اور نامزدگی کے صحیح یا غیر صحیح ہونے کا انحصار حالات اور اشخاص پر ہے اگر خلیفہ وقت (موجودہ سربراہ حکومت) کسی شخص کے بارے میں پوری دیانتداری کے ساتھ سو فیصدی مطمئن ہے کہ اس منصب کی ذمہ داریاں ادا کرنے کی اس میں زیادہ صلاحیت ہے اور عوام بھی اس کی سربراہی کو بخوشی قبول کرلیں گے تو اس صورت میں خلافت کےلئے اس کی نامزدگی نہ صرف جائز بلکہ بہتر ہوگی۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ نے اپنے بعد کے لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ایسی ہی صورت حال میں خلیفہ نامزد کیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے اپنے مرض وفات میں صدیق اکبر کی نامزدگی کا ارادہ فرمایا تھا لیکن پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر انکشاف و یقین ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ وسلم کے خلیفہ اور جانشین صدیق اکبر ہی ہوں گے یہی اللہ تعالی کی مشیت ہے اور یہی مسلمانوں کا فیصلہ ہوگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو باضابطہ نامزد نہیں کیا۔ اگرچہ اپنے مرض وفات میں اپنی جگہ انہیں کو امام نماز بنا کر اس طرف کھلا اشارہ فرمادیا۔ الغرض اگر خلیفہ برحق دین اور امت کے حق میں کسی اہل کی نامزدگی کو بہتر سمجھے تو اس کو اس کا حق ہے اور اس طرح وہ نامزد شخص خلیفہ برحق ہوگا۔ اور اگر خود نامزد کرنے کے بجائے ارباب حل و عقد کی ایک مجلس کو انتخاب کا اختیار دینا مناسب سمجھے اور ایسا کرے تو یہ بھی صحیح ہوگا جس طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا۔ اور اگر کسی وقت انتخاب کے دائرہ کو امت کے عام اہل دین و فہم کی حد تک وسیع کرنا مناسب سمجھا جائے تو ایسا کرنا بھی درست ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین کے طرز عمل سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اصل قابل لحاظ چیز مقصد ہے استخلاف اور انتخاب امیر کا کوئی خاص طریقہ اور ضابطہ متعین نہیں ہے اور وہ دینی مقاصد اور شرعی حدود و احکام کا لحاظ رکھتے ہوئے حالات کے مطابق تجویز کیا جاسکتا ہے۔ تشریح .....اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے اپنے مرض وفات میں یہ ارادہ فرمایا تھا کہ اپنے بعد خلیفہ کی حیثیت سے ابوبکر صدیق کو نامزد فرمادیں اور “خلافت نامہ” تحریر کرادیں اور اس کی تکمیل کے لئے حضرت ابوبکرؓ اور انکے صاحبزادے عبد الرحمن بن ابی بکر کو بلوانا بھی چاہا تھا لیکن پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ انکشاف و یقین ہوگیا کہ مشیت الہی میں یہی طے ہو چکا ہے اور میرے بعد اہل ایمان ابو بکر کے سوا کسی کو خلیفہ منتخب نہیں کریں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت نہیں سمجھی اور یہی مناسب سمجھا کہ میری نامزدگی کے بغیر ہی اہل ایمان کے انتخاب سے وہ خلیفہ ہوں۔ چناچہ ایسا ہوا۔ بہرحال اس حدیث سے یہ معلوم ہو گیا کہ استخلاف اور نامزدگی بھی ایک طریقہ ہے جس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوچا تھا اور اس کا اظہار فرما دیا تھا۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ نے جب اپنے بعد کے لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کو خلیفہ نامزد کیا تو غالبا ان کے سامنے دلیل کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی ارادہ تھا۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد کے لیے خلیفہ نامزد کرنے کے بجائے مسئلہ کو ایک مجلس شوریٰ کے سپرد کیا تو انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے روشنی حاصل کی۔ الغرض اسی ایک حدیث سے معلوم ہوا کہ استخلاف و نامزدگی بھی درست ہے اور انتخاب بھی۔
خلافت علی منھاج النبوة صرف تیس سال
حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا کہ خلافت النبوہ (یعنی نبوی اصول و طریق کار کی پابندی کے ساتھ نظام حکومت کی سربراہی) صرف تیس سال تک رہے گی اس کے بعد اللہ جس کو چاہے گا بادشاہت دے گا۔ (سنن ابی داود) تشریح اللہ تعالی کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بات منکشف کر دی گئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت علی منہاج النبوہ یعنی حد تک آپ صلی اللہ وسلم کے اصول اور طور طریقوں کے ساتھ نظام حکومت صرف تیس سال تک چلے گا۔ اس کے بعد بادشاہی اور حکمرانی کا دور آ جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ٹھیک تیسویں سال حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہٗ کی شہادت ہوئی۔ آپؓ کے بعد آپؓ کے بڑے صاحبزادے حضرت حسن رضی اللہ عنہٗ آپؓ کے جانشین اور خلیفہ ہوئے لیکن انہوں نے چند ہی مہینے بعد مسلمانوں کی خانہ جنگی ختم کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشن گوئی کے مطابق حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کر لی اور ان کے حق میں خلافت سے دستبردار ہو گئے۔ حضرت حسنؓ کی خلافت کے یہ چند مہینے شامل کر لیے جائیں تو پورے تیس سال ہو جاتے ہیں۔ خلافت علی منہاج نبوت اور خلافت راشدہ جس کو اس حدیث میں خلافت النبوہ کہا گیا ہےبس اس تیس سالوں تک رہی۔ اس کے بعد طور طریقوں میں تبدیلی کا عمل شروع ہو گیا اور شدہ شدہ خلافت علی منھاج النبوہ کی جگہ بادشاہت کا رنگ آ گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری پیشنگوئیوں کی طرح یہ حدیث بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دلیل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جو کچھ ہونے والا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اطلاع دی اور وہی وقوع میں آیا۔ ظاہر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم اللہ تعالی کی وحی کے ہی ذریعہ ہوا تھا۔
بادشاہوں اور حکمرانوں کو نصیحت کا صحیح طریقہ
حضرت عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی صاحب حکومت کو کسی بات کی نصیحت کرنا چاہے تو اس کو چاہئے کہ اعلانیہ (اور دوسروں کے سامنے) نصیحت نہ کرے بلکہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر تنہائی میں اپنی بات اس کے سامنے رکھے۔ پھر اگر وہ اس کو قبول کر لے اور مان لے تو فبہا (یعنی مقصد حاصل ہوگیا) اور اگر اس نے نصیحت قبول نہ کی تو اس نصیحت کرنے والے نے اپنا فرض ادا کر دیا۔ (مسند احمد) تشریح بےشک حکمت نصیحت کا تقاضہ یہی ہے کہ خاص کر اہل حکومت اور اصحاب وجاہت کو نصیحت ان سے تنہائی میں ملاقات کرکے کی جائے یہ طرز عمل مخاطب کے دل میں یقین پیدا کرتا ہے کہ نصیحت کرنے والا مخلص اور میرا خیرخواہ ہے اور اگر اچھی بات کے قبول کرنے کی صلاحیت سے اس کا دل بالکل خالی اور محروم نہیں ہیں تو قبول کرنے کی پوری امید ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف اعلانیہ اور دوسروں کے سامنے نصیحت میں وہ اپنی توہین محسوس کر سکتا ہے اور اسکا رد عمل بہت برا بھی ہو سکتا ہے۔ رازدارانہ خط و کتاب کے ذریعہ نصیحت کرنا بھی تنہائی کی ملاقات ہی کے حکم میں ہے۔
حکمرانوں کا ظلم و تشدد ہماری بد اعمالیوں کا نتیجہ اور خدا کا عذاب ہوتا ہے لہذا ارباب حکومت کو کوسنے کے بجائے خدا کی طرف رجوع ہو اور اس سے دعا کرو!
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ میں ہی ہوں میرے سواکوئی معبود مالک نہیں میں حکمرانوں کا مالک اور بادشاہوں کا بادشاہ ہوں بادشاہان عالم کے دل میرے ہاتھ میں ہیں (اور میرا قانون ہے کہ) جب میرے بندے میری اطاعت و فرماں برداری کرتے ہیں تو میں ان کے حکمرانوں کے دلوں کو رحمت و شفقت کے ساتھ ان بندوں پر متوجہ کر دیتا ہوں اور جب بندے میری نافرمانی کا راستہ اختیار کرلیتے ہیں تو میں ان کے حکمرانوں کے قلوب کو خفگی اور عذاب کے ساتھ ان بندوں کی طرف موڑ دیتا ہوں پھر وہ ان کو سخت تکلیفیں پہنچاتے ہیں پس تم اپنے کو حکمرانوں کے لئے بد دعا میں مشغول نہ کرو بلکہ اپنے کو میری یاد میں اور میری بارگاہ میں الحاح و زاری میں" تاکہ تمھارے لیے کافی ہو جاؤں حکمرانوں کے عذاب سے نجات دینے کے لیے۔ (حلیہ الاولیاء لابی نعیم) تشریح اس دنیا میں جو اچھے برے حالات آتے ہیں تو ان کے کچھ تو ظاہری اسباب ہوتے ہیں جن کو دنیا کی عام سمجھ رکھنے والے سمجھ لیتے ہیں اور کچھ غیبی اور باطنی اسباب ہوتے ہیں۔ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود خداوند تعالیٰ کی طرف سے بیان فرمایا ہے کہ بندوں پر دنیا میں جو اچھے برے حالات ان کے حکمرانوں کی طرف سے آتے ہیں وہ دراصل ان کے اعمال کے نتائج ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے میں بادشاہوں کا بادشاہ اور سب حاکموں کا حاکم ہوں۔ سب حکمرانوں کے قلوب میرے قبضہ میں ہیں اور میرا یہ قانون و دستور ہے کہ جب بندوں کی عام زندگی اطاعت و فرماں برداری کی ہوتی ہے تو میں ان کے حاکموں کے قلوب میں ان کے لئے رحمت و شفقت ڈال دیتا ہوں تو ان کا برتاؤ رحمت و شفقت کا ہوتا ہے اور اگر ان کی زندگی نافرمانی و بدکرداری کی ہوتی ہے اور معصیت کا غلبہ ہوتا ہے تو میں ان کے حکاموں کے قلوب میں ان کے لئے غصہ اور تکلیفیں دینے کا جذبہ ڈال دیتا ہوں پھر وہ ان کو طرح طرح کی تکلیفیں دیتے ہیں اور ستاتے ہیں تو دراصل یہ میرا عذاب ہوتا ہے تمہارے حکام صرف اعلی کار ہوتے ہیں آخر میں فرمایا گیا کہ جب حاکموں سے تم کو تکلیفیں پہنچیں تو ان کے لئے بد دعائیں نہ کرو ان کو نہ کوسو اس سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ مجھے یاد کرو معصیتوں کی زندگی سے توبہ کرکے میری فرمابرداری والی زندگی اختیار کرو آہ و زاری کے ساتھ میری طرف رجوع ہو اس طرح تم حاکموں کے مظالم سے نجات پا سکو گے۔ جب نادر شاہ نے دلی کو تاراج کیا اور دلی والوں پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹے تو اس وقت کہ عارف حضرت مرزا مظہر جان جاناں نے فرمایا تھا: “شامت اعمال ما صورت نادر گرفت”