12. کتاب العلم
مسلمان پر علم کی طلب و تحصیل فرض ہے
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ علم کی طلب و تحصیل ہر مسلمان پر فرض ہے۔ (یہ حدیث حضرت انس سے بیہقی نے شعب الایمان میں اور ابن عدی نے کامل میں روایت کی ہیں اور طبرانی نے معجم اوسط میں یہی حدیث حضرت عبداللہ ابن عباس سے اور معجم کبیر و معجم اوسط میں ابو مسعود اور ابو سعید خدری سے اور معجم صغیر میں حضرت حسین (رضی اللہ عنہم)سے بھی روایت کی ہے)۔ تشریح بسم اللہ الرحمن الرحیم دینی اصطلاح اور قرآن و حدیث کی زبان سے مراد وہی علم ہوتا ہے جو انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ اللہ تعالی کی طرف سے بندوں کی ہدایت کے لئے آتا ہے۔ اللہ کے کسی نبی و رسول پر ایمان لانے اور ان کو نبی و رسول مان لینے کے بعد سب سے پہلا فرض آدمی پر یہ عائد ہوتا ہے کہ وہ یہ معلوم کرنے اور جاننے کی کوشش کرے کہ میرے لئے یہ پیغمبر کیا تعلیم و ہدایت لے کر آئے ہیں مجھے کیا کرنا ہے اور کیا چھوڑنا ہے۔ سارے دین کی بنیاد اسی علم پر ہے اس لیے اس کا سیکھنا اور سکھانا ایمان کے بعد سب سے پہلا فریضہ ہے یہ سیکھنا سکھانا زبانی بات چیت اور مشاہدہ سے بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کے قریبی دور میں تھا صحابہ کرامؓ کا سارا علم وہی تھا جو ان کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سننے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال و اعمال کے مشاہدہ سے یا اسی طرح آپ صلی للہ علیہ وسلم کے فیض یافتہ دوسرے صحابہ کرامؓ سے حاصل ہوا تھا علی ہذا اکثر تابعین کا علم بھی وہی تھا جو صحابہ کرامؓ کی صحبت و سماع سے حاصل ہوا تھا اور یہ علم نوشت و خواند اور کتابوں کے ذریعے بھی حاصل ہو سکتا ہے جیسے کے بعد کے زمانوں میں اس کا عام ذریعہ کتابوں کا پڑھنا اور پڑھانا رہا اور اب بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات میں بقدر ضرورت علم دین حاصل کرنا ہر اس شخص کے لیے فرض و واجب بتلایا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا پیغمبر مان کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور اللہ کا دین اسلام قبول کرے اور اس علم کے حاصل کرنے میں محنت و مشقت کو آپ صلی للہ علیہ وسلم نے ایک طرح کا فی سبیل اللہ جہاد اور قرب الہی کا خاص الخاص وسیلہ اور اس کے بارے میں وہ غفلت و بے پروائی کو قابل تعزیر جرم قرار دیا ہے یہ علم انبیاء علیہ السلام اور خاص کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص میراث اور اس پوری کائنات کی سب سے زیادہ عزیز اور قیمتی دولت ہے اور جو خوش نصیب بندے اس کو حاصل کریں اور اس کا حق ادا کریں وہ وارثین انبیاء ہیں آسمان کے فرشتوں سے لے کر زمین کی چیونٹیوں اور دریا کی مچھلیوں تک تمام مخلوقات ان سے محبت رکھتی اور ان کے لیے دعائے خیر کرتی ہے یہ چیز اللہ تعالی نے ان کی فطرت میں رکھ دی ہے اور جو لوگ انبیاء علیہم السلام کی اس مقدس میراث کو غلط اغراض کے لیے استعمال کریں وہ بدترین مجرم اور خداوندی غضب و عذاب کے مستحق ہیں۔ نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا اس مختصر تمہید کے بعد علم اور تعلیم و تعلم کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مندرجہ ذیل حدیث سے پڑھئے: تشریح ..... مسلم وہی شخص ہے جس نے دین اسلام قبول کیا اور طے کیا کہ میں اسلامی تعلیم و ہدایت کے مطابق زندگی گزاروں گا یہ جب ہی ممکن ہے کہ وہ اسلام کے بارے میں ضروری معلومات حاصل کرلے اس لیے ہر مومن و مسلم پر فرض ہے کہ وہ بقدر ضرورت اسلام کا علم حاصل کرنے کی کوشش کرے اس حدیث کا یہی مدعی اور پیغام ہے اور جیسا کہ عرض کیا گیا یہ علم صرف گفت و شنید اور صحبت سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے اور دوسرے تعلیمی ذرائع سے بھی۔ بہرحال حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے ہر مسلمان پر "عالم " "فاضل " بننا فرض ہے بلکہ مقصد صرف یہ ہے کہ جس شخص کو اسلامی زندگی گزارنے کے لیے جتنے علم کی ضرورت ہے اس کا حاصل کرنا اس کے لیے ضروری ہے۔ بعض کتابوں میں یہی حدیث لفظ “کل مسلم ” کے بعد “مسلمۃ” کے اضافہ کے ساتھ نقل کی گئی ہے۔ لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ اس حدیث میں “مسلمۃ ” کا اضافہ ثابت اور صحیح نہیں البتہ “مسلم” کا لفظ معنوی حیثیت سے ہر مسلمان مرد عورت کو شامل ہے۔
دین نہ جاننے والوں کا فرض ہے کہ وہ جاننے والوں سے سیکھیں اور جاننے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کو سکھلائیں
مشہور صحابی عبدالرحمان بن ابزی الخزاعی رضی اللہ عنہ کے والد) ابزی الخزاعی سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مسجد میں منبر پر) خطاب فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے بعض گروہوں کی تعریف فرمائی (کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر ادا کرتے ہیں) اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مسلمانوں کے بعض دوسرے گروہوں کو تنبیہ اور سرزنش کرتے ہوئے) ارشاد فرمایا کہ کیا حال ہے ان لوگوں کا (اور کیا عذر ہے ان کے پاس) جو اپنے پڑوس والے (ان مسلمانوں کو جو دین سے واقف نہیں ہیں) دین نہیں سمجھاتے اور دین کی تعلیم نہیں دیتے اور وعظ و نصیحت نہیں کرتے اور ان میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فرض انجام نہیں دیتے (اسی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) اور کیا حال ہے ان لوگوں کا (اور کیا عذر ہے ان کے پاس جو دین اور اسکے احکام سے واقف نہیں ہیں اس کے باوجود) وہ اپنے پڑوس میں رہنے والے (ان مسلمانوں سے جو دین کی سمجھ بوجھ اور اس کا علم حاصل کر چکے ہیں) دین سیکھنے اور اس کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے کی اور ان کے وعظ و نصیحت سے مستفید ہونے کی کوشش نہیں کرتے۔ (اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کے ساتھ تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا) کہ وہ لوگ (جو دین کا علم رکھتے ہیں، علم نہ رکھنے والے) اپنے پڑوسیوں کو لازما دین سکھانے اور دین کی سمجھ بوجھ ان میں پیدا کرنے کی کوشش کریں اور ان کو وعظ نصیحت اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیا کریں۔ اور (جو لوگ دین اور اسکے احکام سے واقف نہیں ہوں ان کو)میری تاکید ہے کہ وہ (دین کی سمجھ بوجھ اور اس کا علم رکھنے والے) اپنے پڑوسیوں سے دین سیکھیں اور اس کی سمجھ بوجھ حاصل کریں، اور ان کے وعظ و نصیحت سے استفادہ کیا کریں ورنہ (یعنی ان دونوں فریقوں نے اس ہدایت پر عمل نہیں کیا تو) میں انکو اس دنیا ہی میں سزا دلواؤں گا۔ اس کے بعد (یعنی یہ تنبیہی خطبہ ارشاد فرمانے کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اتر آئے اور گھر کے اندر تشریف لے گئے۔ اس کے بعد لوگوں نے آپس میں کہا کہ کیا خیال ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد کون لوگ ہیں؟ (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطاب میں کن لوگوں کو تنبیہ اور سرزنش فرمائی ہے؟ کچھ لوگوں نے کہا کہ ہمارا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد اشعریین(یعنی ابوموسی اشعری کے قبیلہ کے لوگ) ہیں انہی کا یہ حال ہے کہ وہ فقہاء ہیں (دین کی سمجھ بوجھ اور اس کا علم رکھتے ہیں) اور ان کے جوار میں پانی کے چشموں کے پاس رہنے بسنے والے اور ایسے بدوی لوگ ہیں جو بالکل اجڈ (اور دین سے بالکل ناواقف) ہیں۔ یہ ساری بات اشعریین کے علم میں آئی تو وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ (معلوم ہوا ہے کہ) آپ صلی للہ علیہ وسلم نے بعض گروہوں کا ذکر تعریف کے ساتھ فرمایا اور ہم لوگوں کی مذمت فرمائی ہمارا کیا معاملہ (اور کیا قصور) ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ (میرا کہنا بس یہی ہے کہ دین کا علم و فہم رکھنے والے) لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ (دین نہ جاننے والے) اپنے پڑوسیوں کو دین سکھائیں ان میں دین کی سمجھ بوجھ پیدا کریں، ان کو وعظ و نصیحت اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کیا کریں۔ اور جو دین کو نہیں جانتے ان کا فرض ہے کہ وہ (جاننے والے) اپنے پڑوسیوں سے سیکھیں اور ان کے وعظ و نصیحت سے مستفید ہوا کریں اور دین کی سمجھ بوجھ ان سے حاصل کریں یا پھر انکو اس دنیا ہی میں سزا دلواوں گا۔ اشعریین نے عرض کیا کہ کیا دوسرے لوگوں کے جرم اور کوتاہی کی بھی سزا ہم کو بھگتنا ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں اپنی وہی بات دہرائی جو فرمائی تھی، اشعریوں نے پھر وہی عرض کیا جو پہلے عرض کیا تھا کہ کیا دوسروں کی غفلت و کوتاہی کی سزا بھی ہم پائینگے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہاں وہ بھی (یعنی دین کے جاننے والے اگر نہ جاننے والے اپنے پڑوسیوں کو دین سکھانے میں کوتاہی کریں گے تو وہ اس کی بھی سزا پائیں گے) اشعریوں نے عرض کیا کہ پھر ہم کو ایک سال کی مہلت دی جائے! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایک سال کی مہلت اس کام کے لیے دے دی کہ وہ اپنے پڑوسیوں کو دین سکھائیں، ان میں دین کی سمجھ بوجھ پیدا کریں اور وعظ و نصیحت سے ان کی اصلاح کی کوشش کریں، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ مائدہ کی یہ آیت تلاوت فرمائی۔ لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ ﴿٧٨﴾كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ (مسند ابن راهويه كتاب الوحدان للبخارى ، صحيح ابن السكن مسند ابن منذة معجم كبير للطبرانى) ترجمہ : لعنت ہوئی ہے بنی اسرائیل میں سے ان لوگوں پر جنہوں نے کفر کا ارتکاب کیا داودؑ اور عیسی بن مریم کی زبان سے یہ اس وجہ سے ہوا کہ انہوں نے نافرمانی کی راہ اختیار کی اور وہ حد سے تجاوز کرتے تھے، وہ ایک دوسرے کو ان برائیوں اور گناہوں سے نہیں روکتے تھے گورا تھا ان کا یہ فعل۔ تشریح حدیث کا مطلب سمجھنے کے لئے جتنی تشریح کی ضرورت تھی وہ ترجمہ کے ساتھ کردی گئی ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کی عمومی تعلیم و تربیت کا یہ نظام قائم فرمایا تھا کہ کسی آبادی یا علاقے کے جو لوگ دین کا علم اور اس کی سمجھ بوجھ رکھتے ہوں ان کی یہ ذمہ داری اور ڈیوٹی ہے کہ وہ اپنے قرب و جوار کے ان لوگوں کو جو دین سے ناواقف ہوں للہ فی اللہ دین سکھائیں اور وعظ و نصیحت کے ذریعہ ان کی دینی اصلاح وتربیت کی کوشش کرتے رہیں۔ اور اس تعلیمی خدمت کو اپنی زندگی کا کے پروگرام کا خاص جز بنائیں۔ اور دین کی واقفیت نہ رکھنے والے مسلمان اس کو اپنا فرض اور زندگی کی ضرورت سمجھیں کہ دین کے جاننے والوں سے رابطہ قائم کرکے دین سیکھیں اور ان کے وعظ و نصیحت سے استفادہ کیا کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں غفلت اور کوتاہی کو قابل تعزیر جرم قرار دیا تھا۔ دینی تعلیم و تربیت کا یہ ایسا عمومی نظام تھا کہ اس کے ذریعہ ہر شخص بغیر مکتب یا مدرسہ کے اور بغیر کتاب اور کاغذ قلم کے اور بغیر کچھ لکھے پڑھے بھی دین کا ضروری علم حاصل کرسکتا تھا۔ بلکہ اپنی محنت وصلاحیت کے مطابق اس میں کمال بھی حاصل کرسکتا تھا۔ صحابہ کرامؓ نے اور اسی طرح تابعین کی غالب اکثریت نے بھی علم دین اسی طرح حاصل کیا تھا ان کا علم یقینا ہمارے کتابی علم سے زیادہ گہرا اور قابل اعتماد تھا ان کے بعد امت میں جو کچھ علم دین رہا ہے اور آج ہی وہ سب انہی کا ترکہ ہے۔ افسوس ہے کہ بعد میں امت میں یہ نظام قائم نہیں رہا۔ اگر قائم رہتا تو امت کا کوئی طبقہ اور کوئی عنصر بلکہ کوئی فرد بھی دین سے ناواقف اور بےبہرہ نہ ہوتا۔ اس نظام تعلیم کی یہ خاص برکت تھی کہ زندگی علم کے سانچہ میں ڈھلتی چلی جاتی تھی۔ حدیث کے آخر میں ہے کہ اشعریین کے وفد نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ہم کو ایک سال کی مہلت دے دی جائے، ہم اس مدت میں ان شاء اللہ یہ تعلیمی مہم انجام دے لیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ بات منظور فرمالی، یہ گویا اس علاقہ کی پوری آبادی کے لیے ایک سالہ تعلیمی منصوبہ تھا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر آج بھی ہر ملک اور ہر علاقے کے لوگ مسلمان خواص و عوام اس طریق کار کو اپنا لیں اور منصوبہ بندی کے ساتھ اس مقصد کے لیے جدوجہد کریں تو امت کے تمام طبقوں میں ایمانی زندگی اور ضروری درجہ کی دینی واقفیت عام ہو سکتی ہے۔ سلسلہ کلام کے آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ مائدہ کی جودو آیتیں تلاوت فرمائیں ان میں بیان فرمایا گیا کہ بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں پر اللہ کے جلیل القدر پیغمبروں داودؑ اور عیسی علیہما السلام کی زبان سے لعنت ہوئی اور انکی ملعونیت کا اعلان ہوا ان کا ایک خاص جرم جو لعنت کا موجب ہوا یہ تھا کہ وہ باہم ایک دوسرے کو گناہوں اور برائیوں سے روکنے کی اور ان کی دینی واخلاقی اصلاح کی کوئی فکر اور کوشش نہیں کرتے تھے۔ معلوم ہوا کہ یہ جرم ایسا سنگین ہے کہ اس کی وجہ سے آدمی اللہ کی اور اس کے پیغمبروں کی لعنت کا مستحق ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں جو تنبیہ اور سرزنش فرمائی تھی یہ آیتیں اس کی قرآنی سند ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیات تلاوت فرما کر گویا بتلایا کہ جو کچھ میں نے خطبہ میں کہا ہے اور جس پر مجھے اصرار ہے یہ وہی ہے جس کی ہدایت اللہ تعالی نے اپنے کلام پاک کی ان آیتوں میں فرمائی ہے۔
علم دین اور اس کے سیکھنے سکھانے والوں کا مرتبہ
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے تھے کہ جو بندہ (دین کا) علم حاصل کرنے کے لئے کسی راستہ پر چلے گا اللہ تعالیٰ اس کے عوض اس کو جنت کے راستوں میں سے ایک راستے پر چلائے گا اور (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ)اللہ کے فرشتے طالبان علم کے لئے اظہار رضا (اور اکرام و احترام) کے طور پر اپنے بازو جھکا دیتے ہیں اور (فرمایا کہ) علم دین کے حامل کے لئے آسمان و زمین کی ساری مخلوقات اللہ تعالی سے مغفرت کی استدعا کرتی ہیں یہاں تک کہ دریا کے پانی کے اندر رہنے والی مچھلیاں بھی اور (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) عبادت گزاروں کے مقابلہ میں حاملین علم کو ایسی برتری حاصل ہے جیسی کے چودھویں رات کے چاند کو آسمان کے باقی ستاروں پر اور (یہ بھی فرمایا کہ) علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء علیہم السلام نے دیناروں اور درہموں کا ترکہ نہیں چھوڑا ہے، بلکہ انہوں نے اپنے ترکے اور ورثے میں صرف علم چھوڑا ہے تو جس نے اس کو حاصل کر لیا اس نے بہت بڑی کامیابی اور خوش بختی حاصل کرلی۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ ، مسند دارمی) تشریح فی الواقع انبیاءعلیہم السلام کی میراث ان کا لایا ہوا وہ علم ہی ہے جو بندوں کی ہدایت کے لیے وہ اللہ تعالی کی طرف سے لائے، اور جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا وہ اس کائنات کی سب سے قیمتی دولت ہے، طبرانی نے معجم اوسط میں یہ واقعہ روایت کیا ہے کہ ایک دن حضرت ابوہریرہؓ بازار کی طرف سے گزرے، لوگ اپنے کاروبار میں مشغول تھے، آپ نے ان سے فرمایا کہ تم لوگوں کو کیا ہو گیا ہے تم یہاں ہوں اور مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث تقسیم ہو رہی ہے، لوگ مسجد کی طرف دوڑی اور واپس آکر کہا کہ وہاں تو کچھ بھی نہیں بٹ رہا۔ کچھ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں، کچھ قرآن کی تلاوت کر رہے ہیں کچھ لوگ حلال و حرام کی یعنی شرعی احکام و مسائل کی باتیں کر رہے ہیں، حضرت ابو ہریرہؓ نے فرمایا یہی تو رسول اللہ صلی اللہ وسلم کی میراث اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ترکہ ہے۔ (جمع الفوائد ج 1 صفحہ 37) ۔
علم دین اور اس کے سیکھنے سکھانے والوں کا مرتبہ
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو بندہ علم کی طلب و تحصیل میں (گھر سے یا وطن سے) نکلا وہ اس وقت تک اللہ کے راستے میں ہیں جب تک واپس آئے۔ (جامع ترمذی مختارہ للضیاء المقدسی) ۔
علم دین اور اس کے سیکھنے سکھانے والوں کا مرتبہ
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی رحمت نازل فرماتا ہے اور اس کے فرشتے اور آسمان و زمین میں رہنے والی ساری مخلوقات یہاں تک کہ چونٹیاں اپنے سوراخوں میں اور (پانی میں رہنے والی) مچھلیاں بھی اس بندے کے لئے دعائے خیر کرتے ہیں جو لوگوں کو بھلائی اور دین کی تعلیم دیتا ہے۔ (جامع ترمذی)
علم دین اور اس کے سیکھنے سکھانے والوں کا مرتبہ
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر دو مجلسوں پر ہوا جو آپ کی مسجد میں قائم تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دونوں مجلسیں خیر کی اور نیکی کی مبارک مجلسیں ہیں (ایک مجلس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ) یہ لوگ اللہ سے دعا اور مناجات میں مشغول ہیں، اللہ چاہے تو عطا فرما دے اور چاہے تو نہ عطا فرمائے (وہ مالک مختار ہے) اور (دوسری مجلس کے بارے میں فرمایا کہ) یہ لوگ علم دین حاصل کرنے میں اور نہ جاننے والوں کو سکھانے میں لگے ہوئے ہیں لہذا ان کا درجہ بالاتر ہے اور میں تو معلم ہی بنا کر بھیجا گیا ہوں پھر آپ انہیں میں بیٹھ گئے۔ (مسند دارمی)
علم دین اور اس کے سیکھنے سکھانے والوں کا مرتبہ
حضرت حسن بصری نے بطریق ارسال روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس بندے کو اس حالت میں موت آجائے کہ وہ اس نیت سے علم دین کی طلب وتحصیل میں لگا ہوں کہ اس کے ذریعہ اسلام کو زندہ کرے تو جنت میں اس کے اور پیغمبروں کے درمیان بس ایک درجہ کا فرق ہو گا (مسند دارمی)
علم دین اور اس کے سیکھنے سکھانے والوں کا مرتبہ
حضرت حسن بصری نے بطریق سال روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایسے دو آدمیوں کے بارے میں دریافت کیا جن میں سے ایک کا معمول یہ تھا کہ وہ فرض نماز پڑھتا پھر بیٹھ کر لوگوں کو اچھی نیکی کی باتیں بتلاتا اور دین کی تعلیم دیتا اور دوسرے صاحب کا حال یہ تھا کہ وہ دن کو برابر روزہ رکھتے اور رات کو کھڑے ہو کر نوافل پڑھتے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا) کہ ان دونوں میں کون افضل اور اعلیٰ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ عالم جو فرض نماز ادا کرتا ہے پھر لوگوں کو دین اور نیکی کی باتیں سکھانے کے لیے بیٹھ جاتا ہے اس کو اس صائم النہار اور قائم اللیل عابد کے مقابلہ میں اس طرح فضیلت حاصل ہے جس طرح کی تم میں سے کسی ادنیٰ آدمی پر مجھے فضیلت حاصل ہے۔ (مسند دارمی) تشریح مندرجہ بالا حدیثوں میں “علم”، “طالبین علم”، “علماء” اور “معلمین” کی جو غیر معمولی عظمتیں اور فضیلتیں بیان کی گئی ہیں ان کی لم اور ان کا راز یہی ہے کہ علم اللہ تعالی کا نازل فرمایا ہوا نور ہدایت ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ آیا ہے اور دنیا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اٹھا لئے جانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا الہی علم (جو قرآن و حدیث میں ہے) امت کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبرانہ ہستی کے قائم مقام ہے اور جو اس کے بعد حامل اور امین علما و معلمین ہیں وہ زندہ انسانوں کی شکل میں حضور صلی اللہ و علیہ وسلم کے قائم مقام ہے وہ نبی تو نہیں ہیں لیکن وارث انبیاء ہونے کی حیثیت سے کارنبوت سنبھالے ہوئے ہیں اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا کام انجام دے رہے ہیں گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست و باز اور اعلی کار ہیں۔ اسی خصوصیت نے انکو اس مقام و مرتبہ پر پہنچا دیا ہے اور ان غیر معمولی انعامات الہیہ کا مستحق بنا دیا ہے جن کا مندرجہ بالا حدیثوں کے ذریعہ اعلان فرمایا گیا ہے لیکن جیسا کہ آگے درج ہونے والی متعدد حدیثوں سے معلوم ہوگا اس کی شرط یہ ہے کہ علم دین کی یہ طلب و تحصیل اور تعلیم و تدریس خالصا لوجہ اللہ اجر آخرت کے لئے ہو اگر خدانخواستہ یہ دنیوی اغراض کے لیے ہو تو بدترین معصیت ہے اور ایک صحیح حدیث کی صراحت کے مطابق ان لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ اَللَّهُمَّ احْفَظْنَا ایک ضروری وضاحت اس سلسلہ میں یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے ہمارے اس زمانے میں دینی مدارس اور دارالعلوموں کی شکل میں علم دین کی تحصیل و تعلیم کا جو نظام قائم ہے اس کی وجہ سے جب ہمارے دینی حلقوں میں طالب علم کا لفظ بولا جاتا ہے تو ذہن ان دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں ہی کی طرف جاتا ہے اسی طرح عالم دین یا معلم دین کا لفظ سن کر ذہنی اصطلاحی و عرفی علماء اور دینی مدارس میں تعلیم دینے والے اساتذہ ہی کی طرف منتقل ہوتا ہے اور پھر اس کا قدرتی نتیجہ یہ ہے کہ مندرجہ بالا حدیثوں میں اور اسی طرح اس باب کی دوسری حدیثوں میں علم دین کی طلب و تعلیم یا طالبان علم دین اور معلمین دین کے جو فضائل و مناقب بیان ہوئے ہیں اور ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے والے جن غیر معمولی انعامات کی بشارت دی گئی ہیں ان سب کا مقصد ان مدارس ہی کے تعلیمی سلسلہ کو اور ان کے طلبا اور معلمین ہی کو سمجھ لیا جاتا ہے۔ حالانکہ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے عہد نبوی میں اور اسکے بعد صحابہ کرامؓ بلکہ تابعین کے دور میں بھی اس طرح کا کوئی تعلیمی اور تدریسی سلسلہ نہیں تھا نہ مدارس اور دارالعلوم تھے نہ کتابیں پڑھنے اور پڑھانے والے طلبہ اور اساتذہ کا کوئی طبقہ تھا بلکہ سرے سے کتابوں ہی کا وجود نہیں تھا بس صحبت و سماع ہی تعلیم و تعلم کا ذریعہ تھا صحابہ کرامؓ نے (ان کے درجہ اول کے علماء و فقہاء مثلا خلفاۓراشدین، معاذ بن جبل، عبداللہ بن مسعود، ابی بن کعب، زید بن ثابت وغیرہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے بھی) جو کچھ حاصل کیا صرف صحبت و سماع ہی کے ذریعہ حاصل کیا تھا اور بلاشبہ وہ حضرات ان حدیثوں اور بشارتوں کے اولین مصداق تھے۔ راقم سطور عرض کرتا ہے کہ آج بھی جو بندگان خدا کسی غیر رسمی طریقے سے مثلا صحبت و سماع ہی کے ذریعہ اخلاص کے ساتھ دین سیکھنے اور سکھانے کا اہتمام کریں وہ بھی یقینا ان حدیثوں کے مصداق ہیں اور بلاشبہ ان کے لیے بھی یہ سب بشارتیں ہیں۔ بلکہ ان کو اصطلاحی و عرفی طلباء اور معلمین پر ایک فضیلت و فوقیت حاصل ہے اور وہ یہ کہ ہمارے موجودہ مدارس اور دارالعلوموں میں پڑھنے اور پڑھانے والے طلبہ اور اساتذہ کے سامنے اس طلب و تعلیم کے کچھ دنیا بھی منافع بھی ہو سکتے ہیں (اور بس اللہ ہی جانتا ہے کہ اس لحاظ سے ہماری برادری کا کیا حال ہے) لیکن جو بے چارے اصلاح و ارشاد کی مجالس میں یا کسی بھی دینی حلقہ میں اپنی دینی اصلاح اور دین سیکھنے کی نیت سے شریک ہوتے ہیں یا دین سیکھنے سکھانے والے کسی جماعت کے ساتھ اس مقصد سے کچھ وقت گزارتے ہیں، ظاہر ہے کہ وہ اس سے کسی دنیوی منفعت کی توقع نہیں کر سکتے اس لئے ان کی غیر رسمی طالبعلمی یا معلمی بالکل بےغل و غش صرف اللہ ہی کے لئے اور آخرت ہی کے واسطے ہوتی ہے اللہ کے ہاں اسی عمل کی قدر و قیمت ہوتی ہے کیوں خالصا لوجہ اللہ ہو۔ اس عاجز نے اس زمانے میں بھی اللہ کے ایسے بندے دیکھے ہیں ان میں متعدد ایسے بھی پائے جن سے ہم جیسے لوگ (جن کو دنیا عالم فاضل سمجھتی ہے) حقیقت دین کا سبق لے سکتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔ یہ وضاحت یہاں اس لئے ضروری سمجھی کہ ہمارے اس زمانے میں “عالم”، “معلم” اور طالب علم کے مصداق کے بارے میں مذکورہ بالا غلط فہمی بہت عام ہیں اگرچہ غیر شعوری طور پر ہے۔
دنیوی اغراض کے لیے علم دین حاصل کرنے والوں کا ٹھکانہ دوزخ وہ جنت کی خوشبو تک سے محروم
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ علم جس سے اللہ کی رضا چاہی جاتی ہے (یعنی دین اور کتاب وسنت کا علم) اگر اس کو کوئی شخص دنیا کی دولت کمانے کیلئے حاصل کرے تو وہ قیامت میں جنت کی خوشبو سے محروم رہے گا۔ (مسند احمد، سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ)
دنیوی اغراض کے لیے علم دین حاصل کرنے والوں کا ٹھکانہ دوزخ وہ جنت کی خوشبو تک سے محروم
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کسی نے علم دین کی رضا کے لئے نہیں بلکہ غیر اللہ کے لئے (یعنی اپنی دنیوی اور نفسانی اغراض کے لیے) حاصل کیا وہ جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لے۔ (جامع ترمذی) تشریح اللہ تعالی نے دین کا علم انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ اور آخر میں سیدنا حضرت محمد خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنی آخری مقدس کتاب قرآن مجید کے ذریعہ اس لیے نازل فرمایا کہ اس کی روشنی اور رہنمائی میں اسکے بندے اللہ کی رضا کے راستہ پر چلتے ہوئے اس کے دار رحمت جنت تک پہنچ جائیں اب جو بدنصیب آدمی اس مقدس علم کو اللہ تعالی کی رضا و رحمت کے بجائے اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل اور دنیوی دولت کمانے کا وسیلہ بناتا ہے اور اسی کے واسطے اس کی تحصیل کرتا ہے وہ اللہ تعالی کے نازل فرمائے ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہوئے اس مقدس علم پراور ظلم عظیم کرتا ہے یہ شدید ترین معصیت ہے اور ان حدیثوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اطلاع دی ہے کہ اس کی سزا جنت کی خوشبو تک سے محرومی اور جہنم کا عذاب الیم ہے۔ اَللَّهُمَّ احْفَظْنَا
بے عمل عالم اور معلم کی مثال اور آخرت میں اس کا حال
حضرت جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس عالم کی مثال جو دوسرے لوگوں کو تو نیکی کی تعلیم دیتا ہے اور اپنے کو بھولے رہتا ہے اس چراغ کی سی ہے جو آدمیوں کو تو روشنی فراہم کرتا ہے لیکن اپنی ہستی کو بس جلاتا رہتا ہے۔ (معجم کبیر طبرانی مختار للضیاء المقدسی)
بے عمل عالم اور معلم کی مثال اور آخرت میں اس کا حال
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب اس عالم کو ہوگا جس کو اس کے علم دین نے نفع نہیں پہنچایا (یعنی اس نے اپنی عملی زندگی کو علم کے تابع نہیں بنایا) (مسند ابو داود، طیالسی، سنن سعید بن منصور، کامل ابن عدی، شعب الایمان للبیہقی) تشریح بعض گناہ ایسے ہیں جن کو بلا تفریق مومن و کافر سب ہی انسان شدید و سنگین جرم اور سخت سزا کا مستوجب سمجھتے ہیں جیسے ڈاکہ زنی، خون ناحق، زنا بالجبر، چوری، رشوت ستانی، یتیموں اور بیواؤں اور کمزوروں پر ظلم و زیادتی اور ان کی حق تلفی جیسے ظالمانہ گناہ، لیکن بہت سے گناہ ایسے ہیں جن کو عام انسانی نگاہ اس طرح شدید سنگین نہیں سمجھتی لیکن اللہ کے نزدیک اور فی الحقیقت وہ ان کبائر و فواحش کی طرح یا ان سے بھی زیادہ شدید و سنگین ہیں شرک و کفر بھی ایسے ہی گناہ ہیں اور علم دین (جو نبوت کی میراث ہے) اسکا بجائے دینی مقاصد کے دنیوی اغراض کے لیے سیکھنا اور دنیا کمانے کا وسیلہ بنانا علی ھٰذا اپنی عملی زندگی کو اس کے تابع نہ بنانا بلکہ اس کے خلاف زندگی گزارنا یہ بھی اس قبیل سے ہیں۔ پہلی قسم کی معصیتوں میں مخلوق کا مخلوق پر ظلم ہوتا ہے اس لیے اس کو خدا ناآشنا کافر بھی محسوس کرتا اور ظلم و پاپ سمجھتا ہے۔ لیکن دوسری قسم کے گناہوں میں اللہ و رسول اور ان کی ہدایت و شریعت اور اس کے مقدس علم کی حق تلفی اور ان پر ایک طرح کا ظلم ہوتا ہے اس کی سنگینی اور شدت کو وہی بندے محسوس کر سکتے ہیں۔ جن کے قلوب اللہ و رسول اور دین و شریعت اور ان کے علم کی عظمت سے آشنا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ علم دین کو بجائے رضائے الہی اور اجر اخروی کے دنیوی اغراض کے لیے سیکھنا اور اس کو دنیا کمانے کا ذریعہ بنانا اسی طرح خود اس کے خلاف زندگی گزارنا شرک و کفر اور نفاق کے قبیل کے گناہ ہیں اس لیے ان کی سزا وہ ہے جو مندرجہ بالا حدیثوں میں بیان فرمائی گئی ہے۔ (یعنی جنت کی خوشبو تک سے محروم رہنا اور دوزخ کا عذاب) اللہ تعالی حاملین علم دین کو توفیق عطا فرمائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ ارشادات و تنبیہات ہمیشہ ان کے سامنے رہیں۔