13. کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ

【1】

کتاب اللہ اور تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی پابندی اور بدعات سے اجتناب کی ہدایت و تاکید

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اثنائے خطبہ میں) ارشادفرمایاکہ امابعد .....سب سے بہتر بات اور سب سے اچھا کلام کتاب اللہ ہے اور سب سے بہتر طریقہ (اللہ کے رسول) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے اور بدترین امور وہ ہیں جو دین میں ایجاد کرلیے جائیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ (صحیح مسلم) تشریح اس دنیا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخصت ہو جانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی اللہ کی کتاب قرآن مجید اور آپ کی تعلیمات جن کا معروف عنوان سنت ہے اس دنیا میں ہدایت کا مرکز و سرچشمہ اور گویا آپ صلی اللہ وسلم کی مقدس شخصیت کے قائم مقام ہے اور امت کی صلاح و فلاح ان کی پیروی و پابندی سے وابستہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں امت کو مختلف عنوانات سے ہدایت و آگاہی دی ہے اور محدثات و بدعات سے اجتناب کی تاکید فرمائی ہے اگلی امتیں اسی لیے گمراہ ہوئی کہ محدثات و بدعات کو اپنا دین بنا لیا اسی سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند اہم ارشادات ذیل میں درج کیے جارہے ہیں۔ تشریح ..... حضرت جابر کی یہ حدیث صحیح مسلم میں خطبہ جمعہ کے باب میں متعدد سندوں سے روایت کی گئی ہے۔ روایت کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث کے راوی حضرت جابر رضی اللہ عنہٗ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے خطبہ جمعہ میں یہ ارشاد بار بار سنا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد جوامع الکلم میں سے ہے بہت مختصر الفاظ میں امت کو وہ ہدایت دے دی گئی ہے جو قیامت تک راہ راست پر قائم رکھنے اور ہر طرح کی گمراہی سے بچانے کے لئے کافی ہے۔ اعتقادات، اعمال، اخلاق اور جذبات وغیرہ کے بارے میں انسانوں کو جس مثبت یا منفی ہدایت (امربالمعروف یا نہی عن المنکر) کی ضرورت ہے یقینا کتاب اللہ اور سنت نبوی و طریق محمدی اسکے پورے کفیل ہیں اس کے بعد گمراہی کا ایک دروازہ جاتا ہے کہ اللہ و رسول نے جن باتوں کو دین قرار نہیں دیا ان کو دین کا رنگ دے کر دین میں شامل کیا جائے اور قرب و رضا الہی اور فلاح و اخروی کا وسیلہ سمجھ کر اپنا لیا جائے دین کے رہزن شیطان کا سب سے خطرناک جال یہی ہے ہیں اگلی امتوں کو اس نے زیادہ تر اسی راستہ سے گمراہ کیا ہے۔ مختلف امتوں کے مشرکوں میں بت پرستی عیسائیوں میں تثلیث اور حضرت مسیح کی ابنیت و ولدیت اور کفارہ کا عقیدہ اور احبار و رہبان کو “اربابا من دون الله” بنانے کی گمراہی یہ سب اسی راستے سے آئی تھی۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر منکشف کیا گیا تھا کہ اگلی امتوں میں جو گمراہیاں آئی تھی وہ سب آپ کی امت میں بھی آئینگی اور انہی راستوں سے آئینگی۔ جن سے پہلی امتوں میں آئی تھی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مواعظ و خطبات میں بار بار یہ آگاہی دیتے تھے کہ بس کتاب اللہ اور میری سنت کا اتباع کیا جائے اور اسی میں خیر و فلاح ہے۔ اور محدثات اور بدعات سے اپنی اور دین کی حفاظت کی جائے بدعت خواہ ظاہری نظر میں کیسی ہی حسین وجمیل معلوم ہو فی الحقیقت وہ صرف ضلالت اور ہلاکت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد جو بقول حضرت جابر رضی اللہ عنہٗ آپ جمعہ کے خطبوں میں بار بار فرماتے تھے اس کا یہی پیغام ہے اور اس میں یہی آگاہی دی گئی ہے۔

【2】

بدعت کیا ہے؟

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کسی نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی ایسی بات ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے تو اس کی وہ بات رد ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا آخری جملہ ہے “وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ” (ہر بدعت گمراہی ہے) بعض اکابر علماء و شارحین حدیث نے بدعت کے اصل لغوی معنیٰ کو سامنے رکھتے ہوئے یہ سمجھا اور لکھا ہے کہ ہر وہ امر بدعت ہے جو عہد نبوی میں نہیں تھا اور قرآن و حدیث میں بھی اس کا ذکر نہیں ہے۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ ایسے بہت سے امور ہیں جو نہ تو عہدنبوی میں تھے اور نہ قرآن وحدیث میں ان کا ذکر ہے مگر دینی لحاظ سے وہ اشد ضروری اور ناگزیر ہیں اور امت کے علماء و فقہا میں سے کسی نے بھی ان کو بدعت اور ناجائز نہیں قرار دیا ہے۔ بلکہ دین کی ضروری خدمت اور موجب اجر و ثواب سمجھا ہے۔ مثلا قرآن مجید پر اعراب لگانا فصل و وصل اور وقف وغیرہ کی علامات کا لکھنا تاکہ عوام بھی قرآن پاک کی صحیح تلاوت کر سکیں اسی طرح حدیث اور فقہ کی تدوین اور کتابوں کی تالیف اور حسب ضرورت زبانوں میں دینی موضوعات پر تصانیف اور ان کی طباعت و اشاعت کا اہتمام اور دینی تعلیم کے لئے مکاتب و مدارس کا قیام وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب چیزیں ظاہر ہے کہ عہد نبوی میں نہیں تھیں اور قرآن و حدیث میں بھی ان کا کہیں ذکر نہیں ہیں تو بدعت کی مذکورہ بالا تشریح کے لحاظ سے یہ سب امور بدعت ہونے چاہیئیں۔ اسی طرح ساری نئی ایجادات اریل موٹر، ہوائی جہاز، تاربرقی اور ٹیلی فون وغیرہ کا استعمال بھی اس تشریح کے لحاظ سے بدعت اور ناجائز ہونا چاہیے حالانکہ یہ بات بداہۃً غلط ہے۔ اس مشکل کو حل کرنے کے لئے ان علماء و شارحین حدیث نے کہا ہے کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جو کتاب وسنت اور اصول شریعت کے خلاف ہو وہ بدعات سیئہ ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کے بارے میں فرمایا ہے “وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ” ...... مطلب یہ ہے کہ ہر “بدعت سیئہ” گمراہی ہے اور دوسری قسم بدعت کی وہ ہے جو کتاب و سنت اور اصول شریعت کے خلاف نہ ہو بلکہ مطابق ہو وہ “بدعت حسنہ” ہے اور بدعت حسنہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے کبھی واجب ہوتی ہے کبھی مستحب اور کبھی مباح ہو جائز۔ پس قرآن مجید پر اعراب اور فصل و وصل وغیرہ کی علامات لکھنا اور حدیث و فقہ کی تدوین اور حسب تقاضائے ضرورت مختلف زبانوں میں دینی موضوعات پر کتابوں کی تصنیف و اشاعت اور مدارس کا قیام وغیرہ یہ سب بدعت حسنہ کے قبیل سے ہیں اسی طرح نئی ایجادات کا استعمال بھی یہ بدعت حسنہ ہی کے قبیل سے ہے ناجائز نہیں ہے مباح اور جائز ہے۔ لیکن علمائے محققین بدعت کی مذکورہ بالا تشریح اور حسنہ اور سیئہ کی طرف ان کی تقسیم کے اس نظریہ سے متفق نہیں ہیں ان کا کہنا ہے کہ ایمان و کفر اور صلوۃ و زکاة وغیرہ کی طرح بدعت ایک خاص دینی اصطلاح ہے اور اس سے مراد ہر وہ عمل ہے جس کو دینی رنگ دے کر دین میں شامل کیا جائے اور اگر وہ کوئی عمل ہے تو اس کو دینی عمل کی حیثیت سے کیا جائے اور عبادات وغیرہ دینی امور کی طرح اس کو ثواب آخرت اور رضائے الہی کا وسیلہ سمجھائے اور شریعت میں اس کی کوئی دلیل نہ ہو نہ کتاب و سنت کی نص نہ قیاس اور اجتہاد وہ استحسان جو شریعت میں معتبر ہے۔ ظاہر ہے کہ بدعت کی اس تشریح کی بنا پر ان میں ایجادات کا استعمال اور وہ نئی باتیں جو عہدنبوی میں نہیں تھی اور جن کو امر دینی نہیں سمجھا جاتا بدعت کے دائرے ہی میں نہیں آتیں۔ جیسے کہ ریل موٹر ہوائی جہاز وغیرہ کے ذریعہ سفر اور اسی طرح کی دوسری جدید چیزوں کا استعمال اسی طرح جس زمانے میں دینی مقاصد کی تحصیل و تکمیل اور دینی احکام کی تعمیل کے لیے جن جدید وسائل کا استعمال کرنا ضروری ہو وہ بھی بدعت کی اس تشریح کی بنا پر اس کے دائرے میں نہیں آئیں گی جیسے قرآن مجید پر اعراب وغیرہ لگانا تاکہ عوام بھی صحیح تلاوت کرسکے اور کتب حدیث کی تالیف اور ان کی شرحیں لکھنا اور فقہ کی تدوین اور مختلف زبانوں میں حسب ضرورت دینی موضوعات پر کتابوں کی تصنیف و اشاعت کا اہتمام اور دینی مدارس اور کتب خانوں کا قیام وغیرہ یہ سب چیزیں بھی بدعت کیا اس تشریح کی بنا پر اس کے دائرے میں نہیں آئیں گی کیوں کہ اگرچہ یہ عہد نبوی میں نہیں تھیں لیکن جب اہم دینی مقاصد کی تحصیل و تکمیل اور دینی احکام کی تعمیل کے لیے یہ ضروری اور ناگزیر ہوگئیں تو یہ شرعا مطلوب اور مامور بہ ھی ہو گئیں۔ جس طرح وضو کرنا شریعت کا حکم ہے لیکن جب اس کے لیے پانی کا تلاش کرنا یا کنویں سے نکالنا ضروری ہو تو وہ بھی شرعا واجب ہوگا دین و شریعت کا مسلمہ اصول ہے کہ کسی فرض و واجب کے ادا کرنے کے لیے جو کچھ کرنا ضروری اور ناگزیر ہو وہ بھی واجب ہے لہذا اس طرح کے سارے امور جن کا اوپر ذکر کیا گیا بدعت کی اس تشریح کی بنا پر اس کے دائرے میں ہی نہیں آتے بلکہ یہ سب شرعی مطلوبات اور واجبات ہیں۔ بدعت یہی تشریح و تعریف صحیح ہیں اور اس بنا پر ہر بدعت ضلالت ہے جیسا کہ زیر تشریح حدیث میں فرمایا گیا ہے “وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ” (ہر بدعت گمراہی ہے) اس موضوع پر نویں صدی ہجری کے ممتاز عالم و محقق امام ابو اسحاق ابراہیم شاطبی نے اپنی کتاب “الاعتصام” میں بڑی فاضلانہ اور محققانہ بحث کی ہے اور بدعت کی پہلی والی تشریح اور حسنہ اور سیئہ کی طرف اس کی تقسیم کے نظریہ کو بڑے محکم دلائل سے رد کیا ہے اس ضخیم کتاب کا یہی موضوع ہے۔ ہمارے اس ملک کے عظیم ترین عارف و مصلح امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی نے بھی اپنے بہت سے مکتوبات میں اس مسئلہ پر کلام کیا ہے اور بڑی شدت کے ساتھ اس رائے کا اظہار فرمایا ہے کہ جن علماء نے بدعات کو دو خانوں (حسنہ اور سیئہ) میں تقسیم کیا ہے ان سے بڑی علمی غلطی ہوئی ہے بدعت حسنہ کوئی چیز نہیں ہے بدعت ہمیشہ سیئہ اور ضلالت ہی ہوتی ہے اگر کسی کو کسی بدعت میں نورانیت محسوس ہوتی ہے تو وہ اس کے احساس و ادراک کی غلطی ہے بدعت میں صرف ظلمت ہوتی ہے۔ صحیح مسلم کی شرح فتح الملہم میں حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی نے بھی اسی موضوع پر شرح وبسط سے کلام کیا ہیں اور وہ اہل علم کے لئے لائق مطالعہ اور قابل استفادہ ہے۔ تشریح ..... بدعات ومحدثات کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بنیادی حیثیت رکھتا ہے اس میں ان محدثات اور نو ایجاد باتوں کو (خواہ وہ اعمال کے قبیلہ سے ہو یا عقائد کے قبیل سے) قابل رد اور مردود قرار دیا گیا ہے جو دین میں ایجاد کی جائیں اور ان کو امر دینی یعنی رضائے الہی اور ثواب اخروی کا وسیلہ سمجھ کر اپنایا جائے اور فی الواقع ان کی یہ حیثیت نہ ہو نہ اللہ رسول کی طرف سے صراحۃ و اشاراة ان کا حکم دیا گیا ہو نہ شرعی اجتہاد و استحسان اور قواعد شریعت پر انکی بنیاد ہو۔ حدیث کے لفظ “فِىْ اَمْرِنَا هَذَا” اور “مَا لَيْسَ مِنْهُ” کا مفاد اور مطلب یہی ہے کہ پس دنیا کی ساری ایجادات اور وہ تمام نئی چیزیں جن کو امر دینی اور وسیلہ رضائے الہی و ثواب اخروی نہیں سمجھا جاتا اس کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے اور شرعی اصطلاح کے لحاظ سے ان کو بدعت نہیں کہا جائے گا۔ جیسے نئی نئی قسم کے کھانے نئے طرز کے لباس جدید طرز کے مکانات اور سفر کے نئے ترقی کے ذرائع کا استعمال کرنا اسی طرح شادی وغیرہ کی تقریبات کے سلسلہ کے وہ خرافاتی رسوم اور لہو و لعب اور تفریحات کے وہ پروگرام جن کو کوئی بھی امر دینی نہیں سمجھتا ان سے بھی اس حدیث کا کوئی تعلق نہیں ہاں جن رسوم کو امر دینی سمجھا جائے اور ان سے ثواب آخرت کی امید کی جائے وہ اس حدیث کا مصداق قابل رد اور بدعت ہیں موت اور غمی کے سلسلہ کی زیادہ رسوم اسی قبیل سے ہیں جیسے تیجہ دسواں بیسواں چالیسواں برسی ہر جمعرات کو مردوں کی فاتحہ بڑے پیرصاحب کی گیارہویں بارہویں بزرگوں کی قبروں پر چادر وغیرہ چڑھانا اور عرسوں کے میلے ٹھیلے ان سب کو امر دینی سمجھا جاتا ہے اور ثواب آخرت کی ان سے امید رکھی جاتی ہے اس لئے یہ سب حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث “من احدث فى امرنا هذا ما ليس منه فهو رد” کا مصداق اور مردود بدعات ومحدثات ہیں۔ پھر ان عملی بدعات سے زیادہ مہلک وہ بدعات ہیں جو عقائد کے قبیل سے ہیں جیسے رسول اللہ صلی اللہ وسلم اور اولیاء اللہ کو عالم الغیب اور حاضروناظر سمجھنا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ دور دراز سے پکارنے والوں کی پکار و فریاد کو سنتے ہیں اور ان کی مدد اور حاجت روائی کرتے ہیں یہ عقیدہ بدعت ہونے کے ساتھ شرک بھی ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی کا فیصلہ اور اس کی کتاب پاک کا اعلان ہے کہ اس جرم کے مجرم اللہ کی مغفرت و بخشش سے قطعی محروم ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ

【3】

بدعت کیا ہے؟

حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی پھر آپ ہم لوگوں کی طرف متوجہ ہوگئے اور ہماری طرف رخ فرما لیا اور ایسا موثر وعظ فرمایا کہ اس کے اثر سے آنکھیں بہہ پڑیں اور دل خوفزدہ ہوکر دھڑکنے لگے تو ہم نے ایک شخص نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو گویا ایسا وعظ ہے جیسے الوداع کہنے والے اور رخصت ہونے والے کا وعظ ہوتا ہے (پس اگر ایسی بات ہے) تو پھر آپ ہم کو (ضروری امور کی) وصیت فرمایئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تم کو وصیت کرتا ہوں اللہ سے ڈرتے رہنے اور اس کی نافرمانی سے بچتے رہنے کی اور اولوالامر (خلیفہ یا امیر) کا حکم سننے اور ماننے کی اگرچہ وہ کوئی حبشی غلام ہی ہو اس لیے کہ تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بڑے اختلافات دیکھے گا (تو ایسی حالت میں) تم اپنے اوپر لازم کر لینا میرے طریقے اور میرے خلفائے راشدین مہدیین کے طریقے کی پیروی و پابندی اور مضبوطی سے اس کو تھام لینا اور دانتوں سے پکڑ لینا اور (دین میں) نئی نکالی ہوئی باتوں سے اپنے کو الگ رکھنا اس لئے کہ دین میں نئی نکالی ہوئی ہر بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ (مسند احمد سنن ابوداؤد جامع ترمذی سنن ابن ماجہ) تشریح ظاہر ہے کہ یہ حدیث کسی وضاحت اور تشریح کی محتاج نہیں اس کے مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری دور حیات کا ہے آپ نے نماز کے بعد جو وعظ فرمایا اس کے غیر معمولی انداز سے اور اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ہدایات و آگاہیاں دیں ان سے صحابہ کرام نے اندازہ کیا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر منکشف ہوگیا ہے کہ اس دنیا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخصت ہونے کا وقت قریب ہے اس بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ آپ ہم کو بعد کے لئے وصیت فرمایئے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس درخواست کو منظور کرتے ہوئے وصیت فرمائی سب سے پہلے تقوی کی یعنی خدا سے ڈرتے رہنے اور اس کی نافرمانی سے بچتے رہنے کی اس کے بعد دوسرے نمبر پر وصیت فرمائی کے خلیفہ اور امیر کے حکم کی بہرحال اطاعت کی جائے اگرچہ وہ کسی کمتر طبقہ کا آدمی ہو۔ دین میں تقوے کی اہمیت تو ظاہر ہے اللہ کی رضا اور آخرت کی فلاح اسی پر موقوف ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ دنیا میں امت کا اجتماعی نظام صحیح اور مضبوط طور پر قائم رہنے کے لئے ضروری ہے کہ خلیفہ اور امیر کی اطاعت کی جائے اگر ایسا نہیں ہوگا تو انتشار و افتراق پیدا ہوگا اور انارکی پھیلے گی اور نوبت خانہ جنگی تک پہنچے گی (لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف موقعوں پر بار بار یہ وضاحت فرمائی ہے) اگر امیر و خلیفہ اور کوئی بالاتر شخصیت کسی ایسی بات کا حکم دیے جو اللہ و رسول کے کسی حکم کے خلاف ہو تو اس کی اطاعت نہیں کی جائے گی (لا طاعة لمخلوق فى معصية الخالق) تقوی اور اولوالامر کی اطاعت کی ہدایت و وصیت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے جو کوئی میرے بعد زندہ رہے گا وہ امت میں بڑے اختلافات دیکھے گا۔ ایسے حالات میں نجات کا راستہ یہی ہے کہ میرے طریقہ کو اور میرے خلفائے راشدین مہدیین کے طریقہ کو مظبوطی سے تھام لیا جائے اور بس اس کی پیروی کی جائے اور دین میں پیدا کی ہوئی نئی نئی باتوں اور بدعتوں سے بچا جاۓ کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے اور صرف گمراہی ہے۔ یہ حدیث شریف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مقدسہ میں ایسی حالت میں جب کہ کسی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں اختلاف و افتراق کا تصور بھی نہیں ہوسکتا تھا فرما دیا تھا کہ تم میں سے جو لوگ میرے بعد زندہ رہیں گے وہ بڑے بڑے اختلافات دیکھیں گے یہی ظہور میں آیا کہ آپ کے وہ اصحاب اورفقاء جو آپ کے بعد پچیس تیس سال بھی زندہ رہے انہوں نے امت کا یہ اختلاف آنکھوں سے دیکھ لیا۔ اور اس کے بعد اختلافات میں اضافہ ہی ہوتا رہا اور آج جبکہ چودھویں صدی ہجری ختم اور پندرویں صدی شروع ہو چلی ہے امت کے اختلافات کا جو حال ہے وہ ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں۔ اللہ تعالی حق و ہدایت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر قائم رہنے کی توفیق دے۔

【4】

کتاب اللہ اور تعلیمات نبوی کی پابندی

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کوئی (حقیقی) مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی خواہشات میری لائی ہوئی ہدایت وتعلیم کے تابع نہ ہو جائیں۔ (اس حدیث کو امام محی السنہ بغوی نے شرح السنہ میں روایت کیا ہے اور امام نووی نے اپنی کتاب اربعین میں لکھا ہے کہ یہ حدیث اسناد کی رو سے صحیح ہے۔ ہم نے اسکو کتاب الحجہ میں صحیح اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے) تشریح حدیث کا پیغام اور مدعا یہ ہے کہ حقیقی مومن وہی ہے جس کا دل و دماغ اور جس کی خواہشات و رجحانات آپ کی لائی ہوئی ہدایت و تعلیم (کتاب و سنت) کے تابع ہو جائیں یہ آپ پر ایمان لانے اور آپ کو خدا کا رسول مان لینے کا لازمی اور منطقی نتیجہ بھی ہے اگر کسی کا یہ حال نہیں ہے تو سمجھنا چاہیے کہ اس کو حقیقی ایمان ابھی نصیب نہیں ہوا ہے وہ اس کی فکر اور اپنے کو اس معیار پر لانے کی کوشش کرے۔

【5】

کتاب اللہ اور تعلیمات نبوی کی پابندی

حضرت امام مالک بن انس سے بطریق ارسال روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے دو چیزیں تمہارے میں چھوڑی ہیں تم جب تک ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رہو گے کبھی گمراہ نہ ہوگے (وہ ہیں) کتاب اللہ اور اس کے رسول کی سنت (موطا امام مالک) تشریح حدیث کا مدعا یہ ہے کہ میرے بعد میری لائی ہوئی کتاب اللہ اور میری سنت میری قائم مقام ہوں گی امت جب تک ان کو مظبوطی سے تھامے رہے گی گمراہیوں سے محفوظ اور راہ ہدایت پر مستقیم رہے گی۔ اس سلسلہ معارف الحدیث میں یہ بات بار بار ذکر کی جاچکی ہے کہ کبھی کبھی کوئی تابعی یا تبع تابعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث اس طرح روایت کرتے ہیں کہ اس واسطہ کا ذکر نہیں کرتے جن سے ان کو وہ حدیث پہنچی ہے اس طرح روایت کرنے کو محدثین کی اصطلاح میں ارسال کہا جاتا ہے اور ایسی حدیث کو مرسل۔ یہ حدیث امام مالک نے اپنی موطا میں اسی طرح روایت کی ہے وہ خود تبع تابعین میں سے ہیں انہوں نے کسی صحابی کو بھی نہیں پایا ہاں تابعین کو پایا ہے اور انہیں کے ذریعہ ان کی حدیثیں پہنچی ہیں۔ یہ حدیث انہوں نے درمیانی راویوں کا ذکر کیے بغیر براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے ایسا وہ جب ہی کرتے ہیں جب ان کے نزدیک حدیث روایت کے لحاظ سے صحیح اور قابل قبول ہوتی ہے لیکن حدیث کی بعض دوسری کتابوں میں یہی مضمون قریب قریب انہی الفاظ میں پوری سند کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا گیا ہے۔ کنزالعمال میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت سے سنن بیہقی کے حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا گیا ہے: يا أيها الناس إني تارك فيكم ما إن اعتصمتم به لن تضلوا ابدا كتاب الله وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ ترجمہ : اے لوگو! میں وہ (سامان ہدایت) چھوڑ کر جاؤں گا جس سے اگر تم وابستہ رہے تو ہر گز کبھی گمراہ نہ ہوگے اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت۔ نیز اسی کنزالعمال میں اسی مضمون کی حدیث قریب قریب انہی الفاظ میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت سے بھی مستدرک حاکم کے حوالہ سے نقل کی گئی ہے۔

【6】

کتاب اللہ کی طرح سنت بھی واجب الاتباع ہے

حضرت مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کے سن لو اور آگاہ رہو کے مجھے اللہ تعالی کی طرف سے (ہدایت کے لیے) قرآن بھی عطا ہوا ہے اور اس کے ساتھ اس کے مثل اور بھی۔ آگاہ رہو کہ عنقریب بعض پیٹ بھرے لوگ (پیدا) ہونگے جو اپنے شاندار درخت (یا مسہری) پر (آرام کرتے ہوئے) لوگوں سے کہیں گے کہ بس اس قرآن ہی کو لے لو اس میں جس چیز کو حلال بنایا گیا ہے اس کو حلال جانو اور جو حرام قرار دیا گیا ہے اس کو حرام سمجھو (یعنی حلال و حرام بس وہی ہے جس کو قرآن میں حلال یا حرام بتلایا گیا ہے اس کے سوا کچھ نہیں)...... (اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گمراہانہ نظریہ کی تردید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا) اور یہ واقعہ یہ ہے کہ جن چیزوں کو اللہ کے رسول نے حرام قرار دیا ہے وہ بھی انہی چیزوں کی طرح حرام ہیں جن کو اللہ تعالی نے قرآن میں حرام قرار دیا ہے۔ (سنن ابی داود، مسند دارمی، سنن ابن ماجہ) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر منکشف کیا گیا تھا کہ کسی زمانے میں کچھ کھاتے پیتے پیٹ بھرے بے فکرے فتنہ پرواز لوگ امت میں یہ گمراہی پھیلانے کی کوشش کریں گے کہ دینی حجت اور واجب الاتباع صرف کتاب اللہ ہے اس کے علاوہ کوئی چیز خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی کوئی تعلیم و ہدایت واجب الاتباع نہیں۔ آپ نے اس فتنہ کے بارے میں امت کو واضح آگاہی اور ہدایت دیں۔ تشریح ..... یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اللہ تعالی کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو وحی آتی تھی اس کی دو صورتیں تھیں ایک متعین الفاظ اور عبارت کی شکل میں اس کو وحی متلو کہا جاتا ہے (یعنی وہ وحی جس کی تلاوت کی جائے) یہ حیثیت قرآن پاک کی ہے۔ دوسری صورت وحی کی یہ ہوتی ہیں کہ آپکو مضمون کا القا اور الہام ہوتا تھا آپ اس کو اپنے الفاظ میں بیان فرماتے یا عمل کے ذریعہ تعلیم فرماتے تھے اس کو وحی غیر متلو کہا جاتا ہے (یعنی وہ وحی جس کی تلاوت نہیں کی جاتی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عام دینی ہدایات و ارشادات کی حیثیت یہی ہے الغرض ان کی بنیاد بھی وحی الہی پر ہے۔ اور وہ قرآن ہی کی طرح واجب الاتباع ہیں۔ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ چیز منکشف فرما دی تھی کہ آپ کی امت میں ایسے لوگ اٹھیں جو یہ کہہ کر لوگوں کو گمراہ اور اسلامی شریعت کو معطل کریں گے کہ دینی احکام بس وہی ہیں جو قرآن میں ہیں اور جو قرآن میں نہیں ہے۔ وہ دینی حکم ہی نہیں ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیر تشریح حدیث میں امت کو اس فتنہ سے باخبر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ مجھے ہدایت کے لئے اللہ تعالی کی طرف سے قرآن بھی عطا ہوا ہے اور اس کے ساتھ اس کے علاوہ بھی وحی غیر متلو کے ذریعہ احکام دیے گئے ہیں اور وہ قرآن ہی کی طرح واجب الاتباع ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ حدیث نبوی کے حجت دینی ہونے سے انکار کرتے ہیں وہ اسلامی شریعت کے پورے نظام سے آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں..... قرآن مجید کا معاملہ یہ ہے کہ اس میں صرف اصولی تعلیم اور احکام ہیں ان کے بارے میں وہ ضروری تفصیلات جن کے بغیر ان احکام پر عمل ہی نہیں ہو سکتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فعلی یا قولی احادیث ہی سے معلوم ہوتی ہیں مثلا قرآن پاک میں نماز کا حکم ہے لیکن نماز کس طرح پڑھی جائے؟ کن اوقات میں پڑھی جائے؟ اور کس وقت کی نماز میں کتنی رکعتیں پڑھی جائیں؟ یہ قرآن میں کہیں نہیں ہے یہ ساری تفصیلات احادیث ہی سے معلوم ہوتی ہیں اسی طرح مثلا قرآن مجید میں زکاة کا حکم ہے لیکن یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ زکوۃ کس حساب سے نکالی جائے اور ساری عمر میں ایک دفعہ نکالی جائے یا ہر سال ہر مہینے نکالی جائے یہی حال اکثروبیشتر قرآنی احکام کا ہے۔ الغرض حدیث کے حجت دینی ہونے کا انکار انجام کے لحاظ سے پورے نظام دینی کا انکار ہے۔ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں امت کو خاص طور پر آگاہی دی ہے۔ یہ حدیث اس حیثیت سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ بھی ہے کہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت میں پیدا ہونے والے اس فتنہ (انکار حدیث) کی اطلاع دی ھے جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بلکہ صحابہ و تابعین اور تبع تابعین کے زمانوں میں بھی تصور تک نہیں کیا جاسکتا تھا۔

【7】

کتاب اللہ کی طرح سنت بھی واجب الاتباع ہے

حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں تم میں سے کسی کو اس حال میں پاوں (یعنی اس کا یہ حال ہو) کہ وہ اپنے شاندار تخت پر تکیہ لگائے (متکبرانہ انداز میں) بیٹھا ہو اور اس کو میری کوئی بات پہنچے جس میں، میں نے کسی چیز کے کرنے یا نہ کرنے کا حکم دیا ہو تو وہ کہیں کہ ہم نہیں جانتے، ہم تو بس اسی حکم کو مانیں گے جو ہم کو قران میں ملے گا (مسنداحمد سنن ابی داود جامع ترمذی سنن ابن ماجہ دلائل النبوہ بیہقی) تشریح اس حدیث کا مدعا اور پیغام بھی وہی ہے جو حضرت مقدام بن معدی کرب کی مندرجہ بالا حدیث کا ہے اور دونوں حدیثوں کے الفاظ و انداز سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اس گمراہی (انکار حدیث) کے اصل علمبردار ایسے لوگ ہونگے جن کے پاس دنیا کے سازوسامان کی فراوانی ہوگی اور ان کے طور طریقے متکبرانہ ہونگے جو اس بات کی علامت ہوگی کہ عیش دنیا نے ان کو خدا سے غافل اور آخرت کی طرف سے بے فکر کر دیا ہے۔ اللہ تعالی ہر فتنے اور ہر گمراہی سے حفاظت فرمائے۔

【8】

امت کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل ہی اسوہ حسنہ ہے

حضرت انس رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ (صحابہ کرامؓ میں سے) تین آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے پاس آئے اور آپ کی عبادت کے بارے میں دریافت کرنے لگے (یعنی انہوں نے دریافت کیا کہ نماز روزہ وغیرہ عبادات کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول کیا ہے؟) جب ان کو وہ بتلایا گیا تو (محسوس ہوا کہ) گویا انہوں نے اس کو بہت کم سمجھا اور آپس میں کہا کہ ہم کو رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم سے کیا نسبت! ان کے تو اگلے پچھلے سارے قصور اللہ تعالی نے معاف فرما دیے ہیں (اور قرآن میں اس کی خبر بھی دے دی گئی ہے لہٰذا آپ کو زیادہ عبادت ریاضت کی ضرورت ہی نہیں، ہاں ہم گناہگاروں کو ضرورت ہے کہ جہاں تک بن پڑے زیادہ سے زیادہ عبادت کریں) چنانچہ ایک نے کہا کہ اب میں تو ہمیشہ پوری رات نماز پڑھا کروں گا دوسرے صاحب نے کہا میں طے کرتا ہوں کہ ہمیشہ بلا ناغہ دن کو روزہ رکھا کرو گا تیسرے صاحب نے کہا میں عہد کرتا ہوں کہ ہمیشہ عورتوں سے بے تعلق اور دور رہوں گا، نکاح شادی کبھی نہیں کروں گا۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ خبر پہنچی) تو آپ ان تینوں صاحبوں کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ تم ہی لوگوں نے یہ بات کہی ہے (اور اپنے بارے میں ایسے ایسے فیصلے کیے ہیں) سن لو! خدا کی قسم میں تم سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا اور اس کی نافرمانی اور ناراضی کی باتوں سے تم سب سے زیادہ پرہیز کرنے والا ہوں لیکن (اس کے باوجود) میرا حال یہ ہے کہ میں (ہمیشہ روزے نہیں رکھتا بلکہ) روزے سے بھی رہتا ہوں اور بلا روزے کے بھی رہتا ہوں اور (ساری رات نماز نہیں پڑھتا بلکہ) نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں (اور میں نے تجرد کی زندگی اختیار نہیں کی ہے) میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں اور ان کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارتا ہوں (یہ میرا طریقہ ہے) اب جو کوئی میرے اس طریقہ سے ہٹ کر چلے وہ میرا نہیں ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح جن تین صحابیوں کا اس حدیث میں ذکر ہے بظاہر ان کو یہ غلط فہمی تھی کہ اللہ تعالی کی رضا اور آخرت میں مغفرت و جنت حاصل کرنے کا راستہ یہ ہے کہ آدمی دنیا اور اس کی لذتوں سے بالکل کنارہ کشی اختیار کرلے اور بس اللہ کی عبادت میں لگا رہے اپنی اسی غلط فہمی کی بناء پر وہ سمجھتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی حال ہوگا۔ لیکن جب ان کو ازواج مطہرات سے عبادت (نماز روزہ وغیرہ) کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول معلوم ہوا تو انہوں نے اپنے خیال کے لحاظ سے اس کو بہت کم سمجھا لیکن ازراہ عقیدت و ادب اس کی توجیہ یہ کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تو اللہ تعالی کی طرف سے مغفرت اور جنت میں درجات عالیہ کا پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہے۔ اس لئے آپ کو عبادت میں زیادہ مشغول رہنے کی ضرورت ہی نہیں۔ ہمارا معاملہ دوسرا ہے ہم کو اس کی ضرورت ہے اور اس بنا پر انہوں نے اپنے لیے وہ فیصلے کیے جن کا حدیث میں ذکر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مثال پیش کرکے ان کی غلط فہمی کی اصلاح اور تنبیہ فرمائی۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے تم سب سے زیادہ خدا کا خوف اور آخرت کی فکر ہے اس کے باوجود میرا حال یہ ہے کہ میں راتوں کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں دنوں میں روزے سے بھی رہتا ہوں اور بلا روزے کے بھی رہتا ہوں میری بیویاں ہیں ان کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارتا ہو زندگی کا یہی وہ طریقہ ہے جو میں بحیثیت نبی اور رسول کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے لے کر آیا ہوں اب جو کوئی اس طریقہ سے ہٹ کر چلے اور اس سے منہ موڑے وہ میرا نہیں ہے۔ صرف عبادت اور ذکر و تسبیح میں مشغول رہنا فرشتوں کا حال ہے اللہ تعالی نے ان کو ایسا ہی پیدا کیا ہے کہ ان کے ساتھ نفس کا کوئی تقاضا نہیں ہے ان کے لیے ذکر و عبادت قریب قریب ایسے ہی ہے جیسے ہمارے لئے سانس کی آمد و رفت۔ لیکن ہم بنی آدم کھانےپینےکی جیسی بہت سی ضرورتیں اور نفس کے بہت سے تقاضے لے کر پیدا کیے گئے ہیں اور انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ ہم کو تعلیم دی گئی ہے کہ ہم اللہ تعالی کی عبادت بھی کریں اور اس کی مقرر کی ہوئی حدود و احکام کی پابندی کرتے ہوئے اپنی دنیوی ضرورتیں اور نفسانی تقاضے پورے کریں اور باہمی حقوق کو صحیح طور پر ادا کریں۔ یہ بڑا سخت امتحان ہے۔ انبیاء علیہ سلام کا طریقہ یہی ہے اور اسی میں کمال ہے اسی لیے وہ فرشتوں سے افضل ہیں اور ان میں بہترین نمونہ خاتم النبیین سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہے۔ حدیث کا مقصد یہ نہیں ہے کہ کثرت عبادت کوئی غلط چیز ہے بلکہ اس کا مدعا اور پیغام یہ ہے کہ وہ ذہنیت اور وہ نقطہ نظر غلط اور طریقہ محمدی کے خلاف ہے جس بنیاد پر ان تین صاحبوں نے اپنے بارے میں وہ فیصلے کئے تھے۔ غالبا انہوں نے یہ بھی نہیں سمجھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راتوں میں آرام فرمانا اور ہمیشہ روزہ نہ رکھنا اور ازدواجی زندگی اختیار کرنا اور اس طرح کے دوسرے مشاغل میں مشغول ہونا اپنے طرز عمل سے امت کی تعلیم کے لئے تھا اور یہ کار نبوت کا جز تھا اور یقینا آپ کے حق میں یہ نفلی عبادات سے افضل تھا۔ اس کے باوجود آپ کبھی کبھی اتنی عبادت فرماتے کہ پائے مبارک پر ورم آجاتا اور جب آپ سے عرض کیا جاتا کہ آپ کو اس قدر عبادت کی کیا ضرورت ہے؟ تو آپ فرماتے “اَفَلَا اَكُوْنُ عَبْدًا شَكُوْرًا” اسی طرح کبھی کبھی آپ مسلسل کئی کئی دن بلا افطار اور بلا سحری کے روزے رکھتے جس کو صوم وصال کہا جاتا ہے الغرض حضرت انس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث یا اسی مضمون کی دوسری حدیثوں سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہوگا کہ عبادت کی کثرت کوئی ناپسندیدہ چیز ہے۔ ہاں رہبانیت اور رہبانیت والی ذہنیت بلاشبہ ناپسندیدہ اور طریق محمدی اور تعلیم محمدی کے خلاف ہے۔

【9】

اس دور میں نجات کا واحد راستہ اتباع محمدی ہے

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن) حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ تورات کا ایک نسخہ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ یہ تورات کا ایک نسخہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکوت اختیار فرمایا (زبان مبارک سے کچھ ارشاد نہیں فرمایا) حضرت عمرؓ نے اس کو پڑھنا (اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سنانا) شروع کردیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ متغیر ہونے لگا (حضرت عمر رضی اللہ عنہ پڑھتے رہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کے تغیر سے بے خبر رہے) حضرت ابوبکرؓ نے (جو مجلس میں حاضر تھے حضرت عمرؓ کو ڈانٹا اور) فرمایا “ثكلتك الثواكل” حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی کیفیت تم نہیں دیکھ رہے ہو! تو حضرت عمرؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی طرف نظر کی اور فورا بولے اللہ کی پناہ! اللہ کے غصہ سے اور اس کے رسول کے غصہ سے ہم (دل و جان سے) راضی ہیں اللہ کو اپنا رب مان کر اور اسلام کو اپنا دین بنا کر اور حضرت محمد کو نبی و رسول مان کر تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس خداوند عالم کی قسم جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے اگر (اللہ کے پیغمبر) موسی (اس دنیا میں) تمہارے سامنے آجائیں اور تم مجھے چھوڑ کر انکی پیروی اختیار کر لو تو راہ حق اور صحیح راستہ سے بھٹک جاؤ گے اور گمراہ ہو جاؤ گے اور (سنو) اگر (اللہ کے نبی) موسی زندہ ہوتے اور میری نبوت کا زمانہ پاتے تو وہ بھی میری پیروی کرتے (اور میری لائی ہوئی شریعت پر چلتے)۔ (مسند دارمی) تشریح “نسخة من التوراة” کا مطلب ہے تورات کے عربی ترجمہ کا کوئی جز اور کچھ اوراق۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمرؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناگواری اور چہرہ مبارک پر اس کے اثر کی طرف متوجہ کرتے ہوئے جو جملہ فرمایا “ثكلتك الثواكل”اس کا لفظی ترجمہ ہے رونے والیاں تجھ کو روئیں۔ جب اظہار ناراضی کے موقع پر یہ جملہ بولا جاتا ہے تو اس کا مطلب صرف ناراضی کا اظہار ہوتا ہے لفظی معنیٰ مراد نہیں ہوتے ہر زبان میں ایسے محاورے ہوتے ہیں ہماری اردو زبان میں مائیں اپنے بچوں کو ڈانٹتے ہوئے کہتی ہیں (جس کے لفظی معنیٰ ہیں مرا ہوا) مقصد صرف ناراضی اور غصہ کا اظہار ہوتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فعل پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضی و ناگواری کی خاص وجہ یہ تھی کہ اس سے یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ “خاتم الکتب” قرآن مجید اور “خاتم الانبیاء” حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت و تعلیم کے بعد بھی تورات یا کسی قدیمی صحیفہ سے روشنی اور رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت رہتی ہے حالانکہ قرآن اور تعلیم محمدی نے معرفت الہی اور ہدایت کے باب میں ہر دوسری چیز سے مستغنی کردیا ہے اگلی کتابوں اور انبیاء سابقین کے صحیفوں میں جو ایسے حقائق اور مضامین واحکام تھے جن کی بنی آدم کو ہمیشہ ضرورت رہے گی وہ سب قرآن مجید میں محفوظ کر دیے گئے ہیں۔ “مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ” جو قرآن پاک کی صفت ہے اسکا مطلب یہی ہے۔ نیز تورات اور دوسرے اگلے صحیفوں کا دور ختم ہو چکا ہے۔ نزول قرآن اور بعثت محمدی کے بعد نجات اور رضائے الہی کا حصول، انہی کے اتباع پر موقوف ہے، اسی حقیقت کو واضح کرنے کے لئے آپ نے قسم کھا کر فرمایا اگر بالفرض آج صاحب تورات موسی علیہ سلام زندہ ہوکر اس دنیا میں تمہارے سامنے آجائیں اور تم مجھے اور میری لائی ہوئی ہدایت و تعلیم کو چھوڑ کے ان کی پیروی اختیار کر لو تو راہ یاب نہیں ہوگے بلکہ گمراہ اور راہ حق سے دور ہو جاؤ گے۔ اس حقیقت پر اور زیادہ روشنی ڈالتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اگر آج حضرت موسی علیہ السلام زندہ ہوتے اور میری نبوت و رسالت کا یہ دور پاتے تو وہ خود بھی اسی ہدایت الہی اور اسی شریعت کا اتباع کرتے جو میرے ذریعہ اللہ تعالی کی طرف سے آئی ہے اور اس طرح میری اقتداء اور میری پیروی کرتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ چوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخص الخواص اصحاب میں سے تھے اس لیے ان کا یہ ذرا سی لغزش بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ناگواری کا باعث ہوئی؂ جن کے رتبے ہیں سوا ان کو سوا مشکل ہے

【10】

اس دور میں نجات کا واحد راستہ اتباع محمدی ہے

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ اہل کتاب مسلمانوں کے سامنے عبرانی زبان میں تورات پڑھتے اور عربی میں اس کی تفسیر و تشریح کرتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی کے اہل کتاب کی (ان باتوں کو جو وہ تورات کے حوالہ سے تم کو سناتے اور بتلاتے ہیں) نہ تصدیق کرو نہ تکذیب بس (اللہ تعالی کی ہدایت کے مطابق قرآن پاک کے الفاظ میں) یہ کہہ دیا کرو کہ: آمَنَّا بِاللَّـهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ وَعِيسَىٰ وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (سورة البقره آيت 126) ترجمہ : ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس کی اس کتاب پر جو ہماری طرف (اور ہماری ہدایت کے لئے) نازل کی گئی ہے، اور ان سب ھدایت نامو پر ایمان لائے جو نازل کئے گئے تھے (انبیاء سابقین) ابراہیم، اسمعٰیل، اسحاق اور اسباط پر اور جو نازل کیے گئے تھے موسی وعیسی پر اور (ان کے علاوہ) اور نبیوں کو جو ہدایت عطا ہوئی ان کے پروردگار کی طرف سے، ہم (نبی و رسول ہونے کی حیثیت سے) ان میں کوئی تفریق نہیں کرتے (ہم سب کو مانتے ہیں) اور ہم بس اللہ ہی کے فرماں بردار ہیں۔ تشریح واقعہ یہ ہے کہ تورات میں اور اسی طرح انجیل میں طرح طرح کی تحریفات ہوئی تھیں، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت فرمائی کہ ان کی سب باتوں کی نہ تصدیق کرو نہ تکذیب یہ عقیدہ رکھو اور دوسروں کے سامنے بھی اپنا یہ مؤقف واضح کر دو کہ اللہ کے سب نبیوں پر اور اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہونے والے سب ہدایت ناموں پر ہمارا ایمان ہے ہم ان سب کو برحق مانتے ہیں اس لحاظ سے اللہ کے نبیوں میں ہم کوئی تفریق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے بندے ہیں اسی کے حکموں پر چلتے ہیں اور اس دور کے لئے اس کا حکم یہ ہے کہ اس کی آخری کتاب قرآن اور اس کے لانے والے آخری نبی و رسول کی تعلیم و ہدایت کی پیروی کی جائے۔ اللہ تعالی کا حکم بھی یہی ہے اور عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ایمان اللہ کے سب نبیوں پر اور اس کی نازل کی ہوئی سب کتابوں پر لایا جائے سب کا احترام اور سب کی عظمت کا احترام کیا جائے لیکن پیروی اپنے زمانے کے نبی و رسول کی اور اس کی لائی ہوئی شریعت کی کی جائے۔

【11】

اس دور میں نجات کا واحد راستہ اتباع محمدی ہے

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ میری امت میں وہ سب برائیاں آئینگی جو بنی اسرائیل میں آئی تھیں بالکل برابر برابر، یہاں تک کہ اگر بنی اسرائیل میں کوئی ایسا بدبخت ہوا ہوگا جس نے اعلانیہ اپنی ماں کے ساتھ منہ کالا کیا ہوگا تو میری امت میں بھی کوئی ایسا بدبخت ہوگا جو ایسا کرے اور بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہوئے اور میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوگی اور یہ سب جہنمی ہونگے سوائے ایک فرقہ کے (وہی جنتی ہوگا) صحابہؓ نے عرض کیا کہ حضرت وہ کونسا فرقہ ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اس راستے پر ہو گا جس پر میں ہوں اور میرے اصحاب ہیں۔ (جامع ترمذی) (قریبا اسی مضمون کی ایک حدیث مسند احمد اور سنن ابی داود میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کی گئی ہے) تشریح اس حدیث میں جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ صرف ایک پیشن گوئی نہیں ہے بلکہ امت کے لئے بہت بڑی آگاہی ہے مقصد یہ ہے کہ ہر امتی اس کی فکر اور اس کا دھیان رکھے کہ وہ انہیں عقائد و نظریات اور اسی مسلک پر قائم رہے جس پر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی للہ علیہ وسلم کے اصحاب کرام تھے نجات اور جنت کی ضمانت انہی کے لئے ہے۔ اس طبقہ نے اپنے لئے اہل السنة والجماعة کا عنوان اختیار کیا ہے (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور جماعت صحابہ کے طریقہ سے وابستگی رکھنے والے) دوسرے بہتر 72 فرقے جن کے بارے میں اس حدیث میں فرمایا گیا ہے “كُلُّهُمْ فِي النَّارِ”ان سب کی تعیین کے ساتھ نشاندہی نہیں کی جا سکتی بہرحال یہ وہ ہیں جن کا دینی طرز فکر اور اعتقادی مسلک “مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي”سے اصولی طور پر مختلف ہے مثال کے طور پر کہا جا سکتا ہے جیسے زیدیہ معتزلہ جہمیہ اور ہمارے زمانے کے منکرین حدیث اور وہ مبتدعین جن کے عقیدے کا فساد کفر تک نہیں پہنچا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ جن لوگوں نے ایسے عقائد اختیار کرلیا جن کی وجہ سے وہ دائرہ اسلام ہی سے خارج ہوگئے۔ جیسے قدیم زمانے میں مسیلمہ کذاب وغیرہ مدعیان نبوت کو نبی ماننے والے، یہاں مارے زمانے کے قادیانی، سو ایسے لوگ امت کے دائرہ ہی سے نکل گئے اس لیے یہ ان بہتر فرقوں میں شامل نہیں ہیں یہ بہتر فرقے وہ ہیں جو امت کے دائرہ میں ہیں مگر انہوں نے “مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي” کے راستہ سے ہٹ کر اعتقادی مسلک اور دینی طرز فکر اختیار کرلیا لیکن ضروریات دین میں سے کسی چیز کا انکار اور کوئی ایسا عقیدہ اختیار نہیں کیا جس کی وجہ سے اسلام اور امت کے دائرہ ہی سے خارج ہوگئے ہوں ان کے بارے میں جو فرمایا گیا “كُلُّهُمْ فِي النَّارِ” (یہ سب جہنم میں جائیں گے) اس کا مطلب یہ ہے کہ عقیدے کے فساد اور گمراہی کی وجہ سے یہ عذاب جہنم کے مستحق ہونگے اسی طرح “مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي” کے مسلک سے وابستگی رکھنے والے تہترویں فرقے کے جنتی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اعتقادی استقامت کی وجہ سے نجات اور جنت کا مستحق ہوگا۔ بہرحال حدیث میں جس تفرق (فرقوں میں تقسیم ہونے کا) ذکر فرمایا گیا ہے انکا اعمال کی نیکی بدی اور اچھائی برائی سے تعلق ہے فرقہ بندی کا تعلق عقائد و انکار سے ہوتا ہے اعمال صالحہ اور اعمال سیئہ کی وجہ سے ثواب یا عذاب کا مستحق ہونا بھی برحق ہے اس حدیث کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

【12】

امت میں عمومی فساد و بگاڑ کے وقت سنت اور طریق محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستگی

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص میری امت کے فساد و بگاڑ کے وقت میری سنت اور میرے طریقہ سے وابستہ اور اس کو مضبوطی سے پکڑے رہے اس کے لئے شہید کا اجر و ثواب ہے۔ (معجم اوسط لطبرانی) تشریح حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی مندرجہ بالا حدیث سے بھی معلوم ہوا اور اس کے علاوہ دوسری متعدد حدیثوں سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر منکشف کیا گیا تھا کہ اگلی امتوں کی طرح آپ کی امت میں بھی فساد بگاڑ آئے گا اور ایسے دور بھی آئیں گے جب امت میں بے راہ روی اور نفس و شیطان کی پیروی بہت عام ہو جائے گی اور اس کی غالب اکثریت آپ کی ہدایت و تعلیم اور آپکے طریقہ کی پابند نہیں رہے گی۔ ظاہر ہے کہ ایسے فاسد ماحول اور ایسی ناموافق فضا میں آپ کی ہدایت اور سنت و شریعت پر قائم رہ کر زندگی گزارنا بڑی عزیمت کا کام ہے اور ایسے بندوں کو بڑی مشکلات کا سامنا اور بڑی قربانیاں دینی ہوں گی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ کی اس حدیث میں ان اصحاب عزیمت کو خوشخبری سنائی گئی ہے کہ آخرت میں اللہ تعالی کی طرف سے ان کو فی سبیل اللہ شہید ہونے والوں کا درجہ اور اجر و ثواب عطا ہو گا۔ یہاں یہ بات خاص طور پر قابل لحاظ ہے کہ ہماری زبان میں سنت کا لفظ ایک مخصوص اور محدود معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے مگر حدیث میں سنت سے مراد آپ کا طریقہ اور آپ کی ہدایت ہے جس میں عقائد اور فرائض و واجبات بھی بھی شامل ہیں۔ فائدہ : “مشکوۃ المصابیح” میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے حدیث ان الفاظ میں نقل کی گئی ہے۔ “مَنْ تَمَسَّكَ بِسُنَّتِي عِنْدَ فَسَادِ أُمَّتِي فَلَهُ أَجْرُ مِأَة شَهِيدٍ” اور اس کی تخریج کے لئے حدیث کی کسی کتاب کا حوالہ بھی نہیں دیا گیا بظاہر زیادہ قابل اعتماد معجم اوسط طبرانی کی وہی روایت ہے جو یہاں جمع الفوائد سے نقل کی گئی ہے اور جس میں “فَلَهُ أَجْرُ شَهِيدٍ” فرمایا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔

【13】

احیاء سنت اور امت کی دینی اصلاح کی جدو جہد

حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے میری کوئی سنت زندہ کی جو میرے بعد مردہ ہو گئی تھی تو اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ ہوگا۔ (جامع ترمذی) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی ہدایت اور کسی سنت پر جب تک عمل ہورہا ہے اور وہ رواج میں ہے تو وہ زندہ ہے اور جب اس پر عمل متروک ہو جائے اور رواج نہ رہے تو گویا اس کی زندگی ختم کر دی گئی۔ اب آپ کا جو وفادار امتی آپ کی اس سنت اور ہدایت کو پھر سے عمل میں لانے اور رواج دینے کی جدوجہد کرے اس کے لئے اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس نے مجھ سے محبت کی اور محبت کا حق ادا کیا اور اب وہ آخرت اور جنت میں میرے ساتھ اور میرا رفیق ہوگا۔

【14】

احیاء سنت اور امت کی دینی اصلاح کی جدو جہد

حضرت بلال بن الحارث المزنی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے میری کوئی سنت زند کی جو میرے بات ختم کر دی گئی تھی (متروک ہو گئی تھی) تو اس شخص کو اجر و ثواب ملے گا ان تمام بندگان خدا کے اجروثواب کے برابر جو اس پر عمل کریں گے بغیر اس کے کہ ان عمل کرنے والوں کے اجروثواب میں سے کچھ کمی کی جائے۔ (جامع ترمذی) تشریح اس حدیث کے مضمون کو اس مثال سے اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ فرض کیجئے کسی علاقے کے مسلمانوں میں زکوۃ ادا کرنے کا یا مثلا باپ کے ترکہ میں بیٹیوں کو حصہ لینے کا رواج نہیں رہا پھر کسی بندہ خدا کی محنت اور جدوجہد سے اس گمراہی اور بددینی کی اصلاح ہوئی اور لوگ زکوة ادا کرنے لگے اور بیٹیوں کو شرعی حصہ دیا جانے لگا تو اس کے بعد علاقہ کے جتنے لوگ بھی زکوة ادا کریں گے اور بہنوں کو انکا شرعی حق دینگے ان کو اللہ تعالی کی طرف سے اس عمل کا جتنا اجر و ثواب ملے گا اس سب کے مجموعہ کے برابر اس بندے کو عطا ہو گا جس نے ان دینی احکام و اعمال کو پھر سے زندہ کرنے اور رواج دینے کی جدوجہد کی تھی اور یہ اجر عظیم اللہ تعالی ہی کی طرف سے خصوصی انعام کے طور پر عطا ہوگا ایسا نہیں کہ عمل کرنے والوں کے اجر سے کاٹ کر اور کچھ کم کرکے دیا جائے۔ اسکی ہمارے ہی زمانے کی ایک واقعاتی مثال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی دینی تعلیم و تربیت کے لیے یہ نظام قائم فرمایا تھا کہ ہر مسلمان جوان ہو یا بوڑھا امیر ہو یا غریب پڑھا لکھا ہو یا بے پڑھا لکھا دین کی ضروری واقفیت حاصل کریں اور دین پر چلے اور اپنے خیالات اور استطاعت کے مطابق دوسروں میں بھی اس کے لئے محنت اور کوشش کرے۔ لیکن کچھ تاریخی اسباب کی وجہ سے مرور زمان کے ساتھ یہ نظام کمزور پڑتا رہا اور صدیوں سے یہ حال ہوگیا کہ علماء مخلصین اور خواص اہل دین کے بہت ہی محدود حلقہ میں دین کی فکر باقی رہے گئی ہے۔ پھر ہمارے زمانے میں اللہ کے ایک مخلص بندے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک وفادار امتی نے دین کی فکر و محنت کہ اس عمومی اور عوامی نظام کو پھر سے چالو کرنے اور رواج میں لانے کے لیے جدوجہد کی اور اپنی زندگی اسی کے لیے وقف کردی جس کا یہ نتیجہ آنکھوں کے سامنے ہیں کہ اس وقت (جبکہ چودھویں صدی ہجری ختم ہوکر پندرہویں صدی شروع ہوئی ہے) دنیا کے مختلف ملکوں میں مسلمانوں کے مختلف طبقات کے وہ لاکھوں افراد جن کا دین سے نہ علمی تعلق تھا نہ عملی اور انکے دل آخرت کی فکر سے بالکل خالی تھے۔ اب وہ آخرت ہی کو سامنے رکھ کر خود اپنی زندگی کو بھی اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے مطابق بنانے اور دوسروں میں بھی اس کی فکر پیدا کرنے کے لیے محنت و کوشش کر رہے ہیں اس راہ میں قربانیاں دے رہے ہیں اور تکلیفیں اٹھا رہے ہیں۔ بلاشبہ احیاء سنت کی عظیم مثال ہے اللہ تعالی اس کو قبول فرمائے اور اس کے ذریعہ امت میں اور پھر پورے عالم انسانی میں ہدایت کو عام فرمائے۔ “وَمَا ذَٰلِكَ عَلَى اللَّـهِ بِعَزِيزٍ”

【15】

احیاء سنت اور امت کی دینی اصلاح کی جدو جہد

حضرت عمرو بن عوف رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دین (اسلام) جب شروع ہوا تو وہ غریب (یعنی لوگوں کے لئے اجنبی اور کسمپرسی کی حالت میں) تھا، بس شادمانی ہو غرباء کیلئے اور (غرباء سے مراد) وہ لوگ ہیں جو اس فساد اور بگاڑ کی اصلاح کی کوشش کریں گے جو میرے بعد میری سنت (اور میرے طریقوں) میں لوگ پیدا کریں گے۔ (جامع ترمذی) تشریح ہماری اردو زبان میں تو غریب نادار اور مفلس آدمی کو کہا جانے لگا ہے لیکن اس لفظ کے اصل معنیٰ ایسے پردیسی کے ہیں جس کا کوئی شناسا اور پرسان حال نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ جب اسلام کی دعوت کا آغاز ہوا تھا اور اللہ تعالی کے حکم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ کے سامنے اسلام پیش کیا تھا تو اس کی تعلیم، اس کے عقائد، اس کے اعمال اور اس کے نظام زندگی لوگوں کے لیے بالکل نامانوس اور اجنبی تھے اور وہ اس وقت ایسے غریب الوطن پردیسی کی طرح تھا جس کا کوئی جاننے پہچاننے والا اور کوئی اسکی بات پوچھنے والا نہ ہو۔ پھر رفتہ رفتہ یہ صورتحال بدلتی رہی لوگ اس سے مانوس ہوتے رہے اور اس کو اپناتے رہے یہاں تک کہ ایک وقت آیا کہ پہلے مدینہ منورہ کے لوگوں نے اجتماعی طور پر اس کو سینے سے لگایا اس کے بعد جلدی ہی قریبا پورے جزیرۃالعرب نے اس کو اپنا لیا پھر دنیا کے دوسرے ملکوں نے بھی اس کو خوش آمدید کہا اور اس کو عام مقبولیت حاصل ہوئی لیکن جیسا کہ اوپر بھی عرض کیا گیا اللہ تعالی کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر منکشف کیا گیا تھا کہ جس طرح اگلی امتوں میں بگاڑ آیا آپ کی امت میں بھی آئے گا اور اس کی غالب اکثریت گمراہانہ رسوم اور غلط طور طریقوں کو اپنالے گی، اور اصل اسلام جس کی دعوت و تعلیم آپ نے دی تھی بہت ہی کم لوگوں میں رہ جائے گی اور اپنے ابتدائی دور کی طرح پھر وہ غریب الوطن پردیسی کی طرح ہو جائے گا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں امت کو اس انقلاب حال کی اطلاع اور آگاہی دی ہے اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا ہے کہ امت کے اس عمومی فساد کے وقت اصل اسلام پر قائم رہنے والے جو وفادار امتی اس فساد و بگاڑ کی اصلاح کی کوشش اور بگڑی ہوئی امّت کو اصل اسلام کی طرف لانے کی جدوجہد کرینگے ان کو شاباش اور مبارکباد۔ اس حدیث شریف میں دین کے ایسے وفادار خادموں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غرباء کا خطاب دیا ہے۔ بلاشبہ ہمارے اس زمانے میں مسلمان کہلانے والی امت کا جو حال ہے اس پر یہ حدیث پوری طرح منطبق ہے امت کی غالب اکثریت دین کی بنیادی تعلیمات سے بے خبر قبر پرستی جیسے صریح شرک میں مبتلا اور نماز و زکوۃ جیسے بنیادی ارکان کی بھی تارک ہے دن رات کے معاملات خرید و فروخت وغیرہ میں حلال و حرام کی کوئی پروا نہیں ہے جھوٹے مقدمات اور جھوٹی گواہی جیسے موجب لعنت گناہوں سے صرف اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی وجہ سے پرہیز کرنے والے بہت ہی کم رہ گئے ہیں علماء اور درویشوں کی بڑی تعداد میں نفس پرستی اور حب جاہ و مال کی پیدا کی ہوئی وہ ساری خرابیاں دیکھی جا سکتی ہیں جو یہود و نصاریٰ کے احبار و رہبان میں پیدا ہو گئی تھیں اور جن کی وجہ سے ان پر خدا کی لعنت ہو ئی ایسے فساد عام کے وقت میں جو باتوفیق بندے اصل اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت و سنت سے وابستہ رہیں اور امت کی اصلاح کی فکر و کوشش میں حصہ لیں وہ لشکر محمدی کے وفادار سپاہی ہیں، انہی کو اس حدیث میں غرباء کہا گیا ہے) اور زبان نبوت سے ان کو شاباشی اور مبارکباد دی گئی ہے اللہ تعالی اس عاجز راقم سطور کو اور اس کے پڑھنے والوں کو بھی توفیق دے کہ وہ اپنے کو اس زمرے میں شامل کرنے کی کوشش کریں۔ الَلَّهُمَّ اجْعَلْنَا مِنْهُمْ وَاحْشُرْنَا فِىْ زُمْرَتِهِمْ

【16】

دنیوی معاملات میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی رائے کی حیثیت

حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ہجرت کر کے) مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ اہل مدینہ کھجور کے درختوں بر تابیر کا عمل کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ آپ لوگ یہ کیا کرتے ہیں؟ (اور کس واسطے کرتے ہیں؟) انہوں نے عرض کیا کہ یہ ہم پہلے سے کرتے آئے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شاید کہ تم اسکو نہ کرو تو بہتر ہو تو انہوں نے اس کو ترک کر دیا تو پیداوار کم ہوئی تو لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں (اپنی فطرت کے لحاظ سے) بس ایک بشر ہوں، جب میں تم کو دین کی لائن کی کسی بات کا حکم کرو تو اس کو لازم پکڑو (اور اس پر عمل کرو) اور جب میں اپنی ذاتی رائے سے کسی بات کے لئے تم سے کہوں تو میں بس ایک بشر ہوں۔ (مسلم) تشریح اللہ کے پیغمبر جو بھی حکم نبی و رسول ہونے کی حیثیت سے دی وہ واجب الاطاعت ہیں خواہ اس کا تعلق حقوق اللہ سے ہو یا حقوق العباد سے، عبادات سے ہو یا معاملات سے، اخلاق سے ہو یا معاشرت سے، یا زندگی کہ کسی بھی شعبہ سے..... لیکن کبھی کبھی اللہ کی پیغمبر کسی خالص دنیوی معاملہ میں اپنی ذاتی رائے سے بھی مشورہ دیتے ہیں تو اس کے بارے میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرما دیا ہے کہ وہ امت کے لئے واجب اطاعت نہیں ہیں بلکہ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ صحیح ہو اور اس میں غلطی بھی ہو سکتی ہے مندرجہ ذیل حدیث کا مدعا یہی ہے۔ تشریح ..... مدینہ طیبہ کھجور کی پیداوار کا خاص علاقہ تھا (اور اب بھی ایسا ہی ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت فرما کر وہاں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ وہاں کے لوگ کھجور کے درختوں میں ایک درخت کو نر اور دوسرے کو مادہ قرار دے کر ان کے شگوفوں میں ایک خاص طریقہ سے پیوند کاری کرتے ہیں جس کو تابیر کہا جاتا تھا چونکہ مکہ معظمہ اور اس کے اطراف میں کھجور پیدا نہیں ہوتی اس لیے یہ تابیر کا عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک نئی بات تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں نے اس سے دریافت فرمایا کہ یہ اب لوگ کیا کرتے ہیں اور کس لئے کرتے ہیں؟ وہ اس کی کوئی خاص حکمت اور نافعیت نہیں بتلا سکے صرف یہ کہا کہ پہلے سے ہی یہ ہوتا رہا ہے یعنی ہم نے اپنے باپ دادا کو کرتے دیکھا تھا اس لئے ہم بھی کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دور جاہلیت کی دوسری بہت سی لغو باتوں کی طرح کا ایک فضول اور بے فائدہ کام سمجھا اور ارشاد فرمایا کہ شاید اسکو نہ کروں تو بہتر ہو۔ ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سن کر اس عمل تابیر کو روک دیا۔ لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ اس فصل میں کھجور کی پیداوار گھٹ گئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ “اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ الخ” یعنی میں اپنی ذات سے ایک بشر ہوں میری ہر بات دینی ہدایت اور وحی کی بنیاد نہیں ہوتی بلکہ ایک بشر کی حیثیت سے بھی بات کرتا ہوں تو جب میں نبی و رسول کی حیثیت سے دین کی لائن کی کسی بات کا حکم دوں تو واجب التعمیل ہے اور جب میں کسی دنیاوی معاملہ میں اپنی ذاتی رائے سے کچھ کہوں تو اس کی حیثیت ایک بشر کی رائے کی ہے اس میں غلطی بھی ہو سکتی ہے اور عمل تابیر کے بارے میں جو بات میں نے کہی تھی وہ میرا ذاتی خیال اور میری ذاتی رائے تھی۔ واقعہ یہ ہے کہ بہت سی چیزوں میں اللہ تعالی نے عجیب و غریب خاصیت رکھ دی ہیں جن کا پورا علم بھی بس اسی کو ہے تابیر کے عمل میں اللہ تعالی نے یہ خاصیت رکھی ہے کہ اسکی وجہ سے پیداوار زیادہ ہوتی ہے لیکن اس کے بارے میں اللہ تعالی کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ نہیں بتلایا گیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی ضرورت بھی نہیں تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم باغبانی کے رموز بتلانے کے لئے نہیں آئے تھے بلکہ عالم انسانی کی ہدایت اور اس کو رضائے الہی اور جنت کا راستہ دکھلانے کے لئے مبعوث ہوئے تھے اور اس کے لیے جس علم کی ضرورت تھی وہ آپ کو بھرپور عطا فرمایا گیا تھا۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ یہ خیال اور عقیدہ غلط ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کی ہر بات اور ہر چیز کا علم تھا جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عالی سے ناآشنا ہیں۔ اس حدیث پر “کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ” ختم ہوئی۔